Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 4

‫علم الکالم اور اس کے جدید مباحث‬

‫علم العقائد اور علم الکالم کے حو الے سے اس وقت جو مواد ہمارے ہاں درس نظامی کے نصاب میں پڑھایا جاتا ےہ‪ ،‬وہ اس‬
‫بحث ومباحثہ کی ایک ارتقائی صورت ےہ جس کا صحابہ کر ؓام کے ہاں عمومی دور میں کوئی وجود نہیں تھا اور اس کا آغاز‬
‫اس وقت ہوا جب اسالم کا دائر ہ مختلف جہات میں پھیلےن کے ساتھ ساتھ ایرانی‪ ،‬یونانی‪ ،‬قبطی اور ہندی فلسفوں سے‬
‫مسلمانوں کا تعارف شروع ہوا اور ان فلسفوں کے حو الے سے پیدا ہو نے و الے شکوک وسواالت نے مسلمان علما کو معقوالت‬
‫کی طرف متوجہ کیا۔‬

‫ابتدائی دور میں عقیدہ صرف اس بات کا نام تھا کہ قرآن کریم نے ایک بات کہہ دی ےہ یا جناب نبی اکرم صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم نے ایک بات ارشاد فرما دی ےہ‪ ،‬بس اس ی کو بے چون وچرا مان لیےن کا نام عقیدہ ےہ۔ ان عقائد کے حو الے سے صحابہ‬
‫کر ؓام کو اس سے زیادہ کس ی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی تھی کہ قرآن کریم نے یا جناب نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے وہ بات‬
‫فرما دی ےہ اور نہ ہ ی انھیں اس بات سے کوئی غرض ہوتی تھی کہ وہ بات ہماری عقل وفہم کے دائرے میں آتی ےہ یا نہیں یا‬
‫ہمارے محسوسات ومشاہدات اس کو قبول کر تے ہیں یا نہیں اور وہ ان باتوں سے بے نیاز ہو کر قرآن وحدیث کی تصریحات‬
‫پر ایمان رکھےت تھے بلکہ معقوالت کے حو الے سے عقائد پر بحث ومباحثہ کو بھی پسند نہیں کیا کر تے تھے۔ البتہ بیرونی‬
‫فلسفوں کے در آنے سے جب عقلی سواالت کھڑے ہو ئے اور علماے اسالم کو ان سواالت کے جواب میں اسالمی عقائد کی‬
‫وضاحت کی ضرورت پیش آئی تو صحابہ کر ؓام کے آخری دور میں اس قسم کے مباحثوں کا آغاز ہوا اور تابعین واتباع تابعین کے‬
‫دور میں ہمیں یہ مباحث اپےن عروج پر نظر آتے ہیں۔‬

‫معقوالت کے حو الے سے جب عقائد کے مختلف پہلووں پر بحث ومباحثہ شروع ہوا تو ایک دور تک اس کے مسائل کی نوعیت‬
‫تعالی کی ذات اور اس کی صفات کا باہمی تعلق کیا ےہ؟ قرآن کریم‬ ‫تعالی کی رویت ممکن ےہ یا نہیں؟ ہللا ٰ‬
‫اس طرح تھی کہ ہللا ٰ‬
‫تعالی کی صفت ےہ یااس کی مخلوق ےہ؟ کبیرہ گناہ کے ارتکاب سے کوئی مسلمان ایمان کے دائرے سے نکل جاتا ےہ یا نہیں؟‬ ‫ہللا ٰ‬
‫جناب نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہو جانے پر ان کی نیابت امامت کے حو الے سے ہوگی یا خالفت‬
‫کے عنوان سے ہوگی؟ وغیر ذلک۔ اس دور میں اس علم یا فن کو ’’فقہ‘‘ کا حصہ تصور کیا جاتا تھا اور فقہ صرف احکام‬
‫وقوانین تک محدود نہیں ہوتی تھی‪ ،‬بلکہ ایمانیات یعنی عقائدا ور وجدانیات یعنی تصوف وسلوک بھی فقہ ہ ی کے شعےب شمار‬
‫ؒ‬
‫ابوحنیفہ کا رسالہ ’’الفقہ االکبر‘‘ کہالتا ےہ جبکہ اس کے ساتھ ساتھ عقائد کے‬ ‫ہو تے تھے‪ ،‬چنانچہ عقائد پر حضرت امام‬
‫اس عقلی مباحےث کو علم التوحید والصفات‪ ،‬علم النظر واالستدالل اور علم اصول الدین بھی کہا جاتا تھا۔ چونکہ ان‬
‫مسائل پر عام طور پر بحث ومباحثہ ہوتا تھا اور اس مباحثہ میں معتزلہ پیش پیش ہو تے تھے‪ ،‬اس لےی شہرستانی کے بقول‬
‫سب سے پہلے معتزلہ نے اسے ’’علم الکالم‘‘ کا نام دیا‪ ،‬مگر اہل سنت کے اکابر علما نے اسے پسند نہیں کیا‪ ،‬چنانچہ اصول فقہ کی‬
‫تعالی عمرو بن عبید ’’متداول کتاب‬ ‫ؒ‬
‫حنیفہ نے فرمایا کہ ہللا ٰ‬ ‫التوضیح والتلویح‘‘ کے محش ی نے نقل کیا ےہ کہ حضرت امام ابو‬
‫ؒ‬
‫کو تباہ کرے کہ اس نے کالم کا دروازہ کھوال ےہ‪ ،‬امام ابو یوسف نے فتو ٰی دیا کہ متکلم کے پیچھے نماز جائز نہیں ےہ‪ ،‬امام‬
‫شافعی نے اسے شرک کے بعد بدترین برائی سے تعبیر کیا۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ بحث‬ ‫ؒ‬ ‫ؒ‬
‫حنبل نے اس کی مذمت کی اور امام‬ ‫احمد بن‬
‫ومباحثہ آگے بڑھتا گیا اور ان علماے اسالم نے بھی جو اس بحث وکالم کو پسند نہیں کر تے تھے‪ ،‬اسالمی عقائد کی عقلی‬
‫وضاحت اور اثبات کی ضرورت کو سامےن رکھےت ہو ئے اسے اپےن علمی معموالت میں شامل کر لیا‪ ،‬چنانچہ علم الکالم کے نام سے‬
‫ایک پورا نصاب اب ہمارے دینی مدارس میں پڑھایا جاتا ےہ۔‬

‫قرآن وحدیث کے بیان کردہ عقائد پر عقلی بحث ومباحثہ اور ان کی عقلی توجیہات وتعبیرات کے نتیجے میں اس دور میں جو‬
‫فر قے وجود میں آئے‪ ،‬ان میں معتزلہ‪ ،‬جبریہ‪ ،‬قدریہ‪ ،‬مرجۂ‪ ،‬خوارج‪ ،‬اہل تشیع اور اہل سنت وغیرہ کے نام معروف ہیں۔ ان میں‬
‫سے اہل سنت اور اہل تشیع اب تک اپےن پورے تعارف کے ساتھ موجود چلے آ رےہ ہیں جبکہ باقی فرقوں کا اپےن نام اور تعارف کے‬
‫ساتھ وجود نظر نہیں آتا‪ ،‬البتہ ان کا ذہن اور سوچ کا انداز مختلف حوالوں سے اب بھی اس سابقہ تعارف اور تشخص کے‬
‫بغیر امت میں پایا جاتا ےہ۔ ان میں سے اہل السنۃ والجماعۃ خود کو امت کااجتماعی دھارا قرار دیےت ہیں جن کی بنیاد دو‬
‫اصولوں پر ےہ‪ :‬ایک یہ کہ جناب نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے دینیات بالخصوص عقائد کی کیا صورت ارشاد فرمائی ےہ‬
‫اور دوسری یہ کہ صحابہ کر ؓام نے اجتماعی طور پر اسے کیسے سمجھا ےہ؟ اہل سنت کے نزدیک یہی وہ دو معیار ہیں جن کی‬
‫بنیاد پر عقیدہ سمیت دین کی کس ی بھی بات کو صحیح طور پر سمجھا جا سکتا ےہ اور اس ی وجہ سے وہ اہل السنۃ‬
‫والجماعۃ کہالتے ہیں۔‬

‫حضرت شاہ ولی ہللا محدث دہلو ؒی نے ’’حجۃ ہللا البالغہ‘‘ کے مقدمہ میں اہل سنت کا تعارف کراتے ہو ئے لکھا ےہ کہ اہل سنت‬
‫وہ ہیں جو قرآن کریم اور جناب نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کے ارشادات پر اس ی صورت میں ایمان رکھےت ہیں جیسا کہ‬
‫انھوں نے فرمایا ےہ اور وہ ان ارشادات کی عقلی توجیہ کو ضروری نہیں سمجھےت او رنہ ہ ی عقلی توجیہ وتعبیر کو قرآن‬
‫وسنت کے کس ی فرمان پر یقین کا معیار تصور کر تے ہیں‪ ،‬البتہ جہاں کس ی عقیدہ کی وضاحت یا کس ی عقلی سوال کے جواب‬
‫کے لےی ضرورت محسوس کر تے ہیں‪ ،‬وہاں وضاحت کی حد تک اس عقلی بحث ومباحثہ کو ناجائز بھی نہیں سمجھےت اور‬
‫ضرورت کے مطابق اس مباحثہ میں شریک ہو تے ہیں۔ حضرت شاہ صاحب نے یہ بھی فرمایا ےہ کہ قرآن وسنت کی تصریحات‬
‫کو ان کی ظاہری صورت میں تسلیم کر نے و الے تمام لوگ اہل سنت ہیں‪ ،‬البتہ ظاہری صورت پر فی الجملہ ایمان رکھےن کے‬
‫بعد اس کی تعبیر وتوضیح میں اختالفات خود اہل سنت کے اندر بھی موجود ہیں اور ایسے کس ی اختالف سے کوئی شخص اہل‬
‫سنت کے دائرے سے خارج نہیں ہوتا۔ اہل سنت کے دائرے میں عقائد کی ایس ی تعبیرات‪ ،‬تشریحات‪ ،‬توجیہات اور توضیحات کے‬
‫حو الے سے جو مختلف مکاتب فکر موجود چلے آ رےہ ہیں‪ ،‬ان میں اشاعرہ‪ ،‬ماتریدیہ اور ظواہر کے گروہ متعارف ہیں جو امام‬
‫ابو الحسن اشعری‪ ،‬امام ابو منصور ماتریدی اور اما م ابن حزم ظاہری کے بیان کردہ اصولوں کی روشنی میں عقائد کی‬
‫تعبیر وتشریح کر تے ہیں اور بہت سے امور میں ان کے درمیان اختالفات بھی پائے جاتے ہیں۔‬

‫یہ تو مختصر تعارف ےہ اس علم الکالم کا جو ہمارے دینی نصاب کا باقاعدہ حصہ ےہ اور اب تک انھی خطوط پر استوار‬
‫ےہ جن پر صدیوں قبل اس کی تشکیل ہوئی تھی۔ اب ہم ان تبدیلیوں اور ان کے حو الے سے پیدا ہو نے والی ضروریات کی طرف‬
‫آتے ہیں جو گزشتہ تین صدیوں کے دوران بتدریج رونما ہوئی ہیں اور ہمارے خیال میں ہم اپےن تنزل اور غالمی کے اس دور میں‬
‫’’تحفظات‘‘ کے دائرے میں محصور ہو جانے کی وجہ سے ان کی طرف توجہ نہیں دے سکے جس کا نتیجہ یہ ےہ کہ ہمارا ’’علم‬
‫العقائد والکالم‘‘ ان تبدیلیوں اور ضروریات کو اپےن ساتھ ایڈجسٹ نہیں کر سکا اور ہم آج کے عالمی تناظر میں ایمانیات‬
‫ً‬ ‫ً‬
‫وعقائد کے ضروری تقاضوں کے ساتھ اس کو ہم آہنگ نہیں پاتے جس کی طرف مختلف اصحاب فکر ودانش ہمیں وقتا فوقتا‬
‫توجہ دالتے رہےت ہیں‪ ،‬لیکن ہم ابھی تک اس کا پوری طرح احساس وادراک نہیں کر پا رےہ۔‬
‫ہمارے ’’علم العقائد والکالم‘‘ کے بیشتر مباحث یونانی فلسفہ اور اس کے ساتھ ساتھ ایرانی‪ ،‬ہندی اور قبطی فلسفہ کے‬
‫ساتھ ہمارے علمی تعارف کی پیداوار ہیں اور ہمارے ہاں اسے ’’معقوالت‘‘ کے عنوان سے تعبیر کیا جاتا ےہ جبکہ خود اس‬
‫ً‬
‫فلسفہ کی اپنی ہیئت تبدیل ہو چکی ےہ اور ارتقائی مراحل نے اس کی شکل وصورت تک بدل کر رکھ دی ےہ۔ مثال ماض ی‬
‫میں سائنس کو معقوالت کا حصہ تصور کیا جا تا تھا اور وہ فلسفہ کا حصہ سمجھی جاتی تھی‪ ،‬چنانچہ ہمارے ہاں‬
‫فلکیات اور طبعیات کو معقوالت ہ ی کے ایک حصے کے طور پر پڑھایا جاتا تھا‪ ،‬جبکہ سائنس ایک عرصہ سے فلسفہ‬
‫ومعقوالت سے الگ ہو کر ایک مستقل علم کی شکل اختیار کر چکی ےہ اور اب وہ معقوالت اور فلسفہ کا حصہ نہیں ےہ‬
‫بلکہ مشاہدات ومحسوسات کے دائرے میں شامل ہو چکی ےہ‪ ،‬لیکن ہم درس نظامی کے نصاب کے باب میں اس تبدیلی کا ابھی‬
‫تک ادراک نہیں کر سکے جس کا نتیجہ یہ ےہ کہ فلسفہ اور سائنس کی علیحدگی کے باعث عقائد اوران کی تعبیرات کے ضمن‬
‫ً‬
‫میں جو نئے سواالت پیدا ہو ئے ہیں‪ ،‬ہم ان کا جواب دیےن کی سرے سے ضرورت ہ ی محسوس نہیں کر رےہ۔ مثال فلکیات‬
‫وطبیعیات جب تک فلسفہ ومعقوالت کا حصہ تصور ہو تے تھے‪ ،‬ان کی کس ی بات سے قرآن وسنت کے کس ی ارشاد کے تعارض‬
‫وتضاد کی صورت میں ہم آسانی سے یہ کہہ دیا کر تے تھے کہ ہماری عقل کا دائرہ محدود ےہ‪ ،‬مگرمعقوالت کا دائرہ اور اس‬
‫کے امکانات بہت وسیع ہیں‪ ،‬اس لےی کوئی بات اگر ہماری معروض ی اور محدود عقل کے دائرے میں نہیں آتی تو اس کا مطلب یہ‬
‫نہیں ےہ کہ وہ معقوالت کے وسیع دائرے اور اس کے مستقبل کے امکانات سے بھی متصادم ےہ اور ہمارا یہ جواب نہ صرف یہ‬
‫ً‬
‫کہ اطمینان کی صورت بھی پیدا کر دیتا تھا بلکہ بہت س ی صورتوں میں عمال بھی ایسا ہو جاتا تھا‪ ،‬لیکن اس ی بات کے عقل‬
‫وفلسفہ کے دائرے سے نکل کر مشاہدات ومحسوسات کے زمرہ میں شامل ہو جانے کے بعد یہ جواب کافی نہیں ےہ اور ہمیں ایسے‬
‫سواالت کے جوابات کے لےی کوئی اور اسلوب اختیار کرنا ہوگا اور میری طالب علمانہ رائے میں آج کے دور میں ہمارے علم عقائد‬
‫کے لےی یہ وقت کا سب سے بڑا چیلنج ےہ۔‬

‫اس ی طرح یہ بات بھی قابل توجہ ےہ کہ فلسفہ اور سائنس کے پہلو بہ پہلو ایک اور علم بھی بہت سے سواالت لےی ہمارے‬
‫سامےن کھڑا ےہ اور وہ عمرانیات اور سوشیالوجی کا علم ےہ جس نے اس قدر ترقی کی ےہ کہ جدید تہذیب اور گلوبل‬
‫سوالئزیشن میں اس نے وحی اور آسمانی تعلیمات کی جگہ حاصل کر رکھی ےہ اور انسانی سوسائٹی کے بیشتر مسائل اب اس ی‬
‫کے حو الے سے طے ہو تے ہیں‪ ،‬مگر ہمارے ہاں اس سے بے اعتنائی کا یہ عالم ےہ کہ ابن خلدو ؒن اور شاہ ولی ؒ‬
‫ہللا کے بعد اس درجہ‬
‫کا کوئی اور عالم نظر نہیں آتا جس نے عمرانیات کو باقاعدہ موضوع بنا کر اس پر بحث کی ہو اور ہمارے دینی حلقوں کو‬
‫اس علم سے متعارف کرانے کی کوشش کی ہو جس کا نتیجہ یہ ےہ کہ ہماری نئی نسل کے ذہنوں میں عمرانیات اور سوسائٹی‬
‫کے ارتقا کے حو الے سے سواالت اور شکوک کا ایک جنگل آباد ےہ مگر ہمارے دینی حلقوں کے پاس ان سواالت کا نہ کوئی جواب‬
‫ےہ اور نہ ہ ی ان میں سے بیشتر کو سرے سے ان سواالت کا ادراک ہ ی حاصل ےہ۔‬

‫اس لےی میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ عالمی افق پر گزشتہ تین صدیوں کے درمیان رونما ہو نے والی علمی تبدیلیوں اور‬
‫خاص طور پر فلسفہ‪ ،‬سائنس اور عمرانیات کی انسانی ذہنوں پر حکمرانی سے پیدا شدہ صورت حال میں ہمیں ’’علم‬
‫العقائد والکالم‘‘ کے نصاب کا ازسرنو جائزہ لینا ہوگا۔ اس کا مطلب عقائد میں تبدیلی نہیں ےہ بلکہ ان کی تعبیرات‬
‫وتشریحات کے اسالیب اور ترجیحات کی ازسرنو تشکیل ےہ جو وقت کی اہم ترین ضرورت ےہ۔ ماض ی میں یونانی اور دیگر‬
‫فلسفوں کی آمد پر ہم نے اپےن عقائد پر پوری دل جمعی کے ساتھ قائم رہےت ہو ئے ان کی علمی وعقلی توجیہات وتعبیرات کا ایک‬
‫نظام تشکیل دیا تھا جس کے ذریعے ہم نے اپےن عقائد وایمانیات کے خالف فلسفہ ومعقوالت کی یلغار کا رخ موڑ دیا تھا۔ آج بھی‬
‫اس ی کام کے احیا کی ضرورت ےہ اور عقائد وایمانیات کے باب میں جدید فلسفہ‪ ،‬سائنس اور عمرانیات کے پیدا کردہ مسائل‬
‫اور اشکاالت کس ی اشعری‪ ،‬ماتریدی‪ ،‬ابن حزم‪ ،‬غزالی‪ ،‬ابن رشد‪ ،‬ابن تیمیہ اور شاہ ولی ہللا کی تالش میں ہیں جو ظاہر ےہ‬
‫کہ انھی مدارس کی کوکھ سے جنم لیں گے۔ اس لےی دینی مدارس کو اس پہلو سے اپےن ’’بانجھ پن‘‘ کے اسبا ب کا کھلے دل ودماغ کے‬
‫ساتھ جائزہ لینا چاہےی اور اس کے عالج کا اہتمام کرنا چاہےی کہ ان کے ذمہ آج کے دور کا سب سے بڑا قرض یہی ےہ۔‬

‫اس کے ساتھ ہ ی بطور نمونہ عقائد وایمانیات سے تعلق رکھےن و الے چند سواالت کا ذکر کرنا چاہوں گا جو آج کے علمی تناظر‬
‫میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ذہنوں میں ڈیرہ جمائے ہو ئے ہیں اور ان کے قابل اطمینان جوابات فراہم کرنا ہماری اس ی طرح‬
‫کی ذمہ داری ےہ جس طرح ابو الحسن اشعری اور ابو منصور ماتریدی نے اپےن دور کے علمی چیلنج کا منطق واستدالل کے‬
‫‪:‬ساتھ سامنا کیا تھا‬

‫‪‬‬ ‫انسان کو جب نفع ونقصان کے ادراک کے لےی عقل دی گئی ےہ تو پھر مذہب کی ضرورت کیا باقی رہ جاتی ےہ؟‬
‫وحی کی ماہیت کیا ےہ اور کیا یہ انسانی عقل ووجدان سے ہٹ کر کوئی الگ چیز ےہ؟ ‪‬‬
‫وحی اور عقل کا باہمی تعلق کیا ےہ؟ ‪‬‬
‫‪‬‬ ‫انسانی سوسائٹی جب مسلسل ارتقا کی طرف بڑھ رہ ی ےہ تو نبوت کا دروازہ درمیان میں کیوں بند ہو گیا ےہ؟‬
‫سائنس اور مذہب کا باہمی جوڑ کیا ےہ؟ ‪‬‬
‫‪‬‬ ‫مذاہب کی مشترکہ صداقتوں پر یکساں ایمان رکھےن اور ان کے مشترکہ مصالح پر مشتمل احکام پر عمل کر نے‬
‫میں کیا حرج ےہ اور کس ی ایک مذہب کی پابندی کیوں ضروری ےہ؟‬
‫‪‬‬ ‫سوسائٹی کے ارتقا اور تجربات کی بنیاد پر تشکیل پانے و الے افکار ونظریات اور تہذیب کو مسترد کر نے کا کیا جواز‬
‫ےہ؟‬
‫‪‬‬ ‫قرآ ن وسنت کے معاشرتی احکام اس دو رکی عرب ثقافت یا رواجات کے پس منظر میں تھے یا اس سے مختلف‬
‫ثقافتوں کے ماحول میں بھی واجب العمل ہیں؟‬
‫احکام وقوانین میں مصالح ومنافع اور اہداف ومقاصد معتبر ہیں یا ظاہری ڈھانچہ بھی ضروری ےہ؟ ‪‬‬
‫اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خدا کا وجود بھی ےہ یا نہیں؟ وغیر ذلک۔ ‪‬‬

‫یہ مسائل نئے نہیں ہیں‪ ،‬بلکہ ہر دور میں کس ی نہ کس ی عنوان سے زیر بحث رےہ ہیں‪ ،‬لیکن آج کے عالمی تناظر میں یہ زیادہ‬
‫ابھر کر سامےن آئے ہیں اور ایک مسلمان کو اسالمی اعتقادات وایمانیات کے معیار پر باقی رکھےن کے لےی ان سواالت اور ان جیسے‬
‫دیگر بہت سے سواالت کے ایسے جوابات ضروری ہیں جو آج کے علمی تناظر اور ہمہ نوع معلومات کے افق میں قابل اطمینان‬
‫ہوں۔‬

You might also like