Professional Documents
Culture Documents
بازیگر قسط 23 PDF
بازیگر قسط 23 PDF
جیسے لن کو
چوس لے ۔۔ میں
اسکے اوپر
آہستگی سے لیٹا
اسکے شانے کو
پیچھے سے چاٹنا
شروع کیا۔۔یہ بالی
کی مہارت کا
امتحان تھا ۔۔میں
شانہ چاٹتا سمیعہ
کو سسکاتا گرم
کرتا اس مقام تک
النا چاہتا تھا جہاں
وہ مست ہو جاے۔۔
میرے ہاتھ اسکی
رانوں سے بوبز
تک پھسلتا
جیسے صابن کی
ٹکیہ جسم پر
پھرےمیرے ہاتھ
اسکے چکنے جسم
پر پھسلتے اسے
ابھار رہے تھے
جیس مکھن کی
ٹکیامیں نرمی سے
تیز کٹر اترے بلکل
ویسے بہہت نزاکت
سے میں اینل جیل
سے چکنی سمیعہ
کی مستانی گانڈ
میں لن دھنسا رہا
تھا۔۔ میرے ہونٹ
اور ہاتھ اسے اتنا
بہکا رہے تھے اتنا
دہکا رہے تھے کہ
گانڈ کی درد اس
مدہوشی میں دب
سی گئی۔۔اسکی
گانڈ کی تنگی اور
گرمی لن جیسے
پگھل سا رہا
تھا۔۔آاااوچ آااااوں
سسسس کرتی ہلکا
سا سسکتی اور
میں پوری مہارت
سے آخر پورا
اتارنے میں کامیاب
ہوگیا
جیسے ہی میرا
جسم اسکی بیک
سے لگا ۔۔آاااا
یسسسس ہو گیا
پورا سمیعہ نے
کمال ضبط سے
پوچھا۔۔ جی میری
لیڈی ہو گیا ۔اس
نے ہلکا سا چہرہ
پیچھے موڑا اور
بولی تمہاری چاہت
نے مجبور کر دیا
ورنہ یقین کرو یہ
بات میں عمری کی
بھی نہیں مانی۔۔آئے
ہاے میں نے الڈ
سے اسکا رخسار
چوما۔۔ ہلکا سا اوپر
ہوا پھر نیچے۔۔
آااااں سسسس کرتی
سمیعہ اور دس
منٹ کا احتیاطی
اوپر نیچے ہونے
کے بعدسمیعہ کی
گانڈ تو رواں نا
ہوئی تنگ ہی رہی
لیکن اسکی طبیعت
رواں ہو گئی۔۔ اب
جب میں آہستگی
سے اوپر لیجاتا تو
وہ ہلکا سا
کسمساتی اور
مزے سے سسکی
لیکر کہتی افففف
جاااانی
آہستہ آہستہ گانڈ
نے لن کو قبول کر
لیا۔۔ میں نے ہاتھ
اسکے نیچے
لیجاتے ہوئے نرم
پھدی پر رکھا اور
پنجہ پھیال کر بڑی
انگلی کو پھدی پر
بجانا شروع کر
دیا۔۔میری انکی
جیسے پیانو بجانے
لگی لن گانڈ کو
اور انگی پھدی کو
بجاتی اور سمیعہ
کی رنگ برنگی
مستانی سسکیاں
کبھی آں آآآں کبھی
سسسس آ سسسس
کبھی آہہہ آہہہ
اوووہ ۔۔میری
انگلی دانےکے
اوپر اوپر بجتی
دھنستی اور پوری
ہتھیلی پھدی کو
بھنچتی ۔۔ انگلیاندر
دھنستی۔۔ سمعیہ
دوہرے مزے میں
تھی ۔۔میں تھوڑا سا
اوپر ہوا اور کمر
میں ہاتھ سے اسے
اوپرکیا اور تھوڑا
رفتار بڑھائی اینل
جیل نے گانڈ کو
کنواری پھدی کی
طرح کر دیا تھا۔۔
سمیعہ نے اپنے
بازو بیڈ پر پھیالے
اور
میں قدرے رفتار
سے لن چالنے لگا
سمیعہ کا جسم
جھول رہا تھا لن
پیچھے سےاور
انگلی آگے سے
۔۔افففف افففف کرتی
سمیعہ مزے میں
گانڈ کو پیچھے
کرتی ہاااے بااالی
ذرا درد نہیں ہو
رہا اففف ہاااے۔۔
گانڈ کو افتتاح
ہوچکا تھا
آااا آاااا یسسسس
اففففف سمیعہ کی
نشیلی سسکیاں
تھیں اور گانڈ میں
ڈنڈا دوری کا
سین۔آااہ بسسس اب
رکو نا سمیعہ نے
مستی سے کہا اور
میں نے آہستگی
سے تنا ہوا لن باہر
نکاال۔۔ہااائے
ہاااائے شہزادے
مزہ آگیا اب آگے
آو پیچھے مرچی
لگ رہی مجھے۔۔
وہ الٹے لیٹی لیٹی
سیدھی ہوئی اور
اپنے بازو بڑھائے
میں جھکا اور
اسکے بازو میری
گردن کے گرد ہار
ہوئے ۔۔میری گود
میں اپنی ٹانگوں
کو میری کمر کے
گرد اور بازووں
کو گردن کے گرد
میرے ہاتھ
اسکےبےمثل
چوتڑوں کے نیچے
تھےاور میں اسے
نیچے سے اوپر کو
اچھال رہا تھا۔۔
سمیعہ کے بوبز
میرے سینےسے
رگڑ کھاتے اور
ہونٹ میرے
چہرےشانے پہ
رقص کرتے وہ
نشے کی انتہاپر
تھی اسکا نشہ
بڑھتا جا رہا تھا
جیسے مہندی کو
رگڑا جائے تو وہ
اور خوشبو
چھوڑتی ہے
خوشبو پھیلتی گئی
رنگ محبت چڑھتا
گیا رات گزرتی
گئی۔۔ اس جزیرے
پر ایک ایک سیکنڈ
محبتوں سے بھرا
تھا سیکنڈ گزرتے
گئے واپسی قریب
تھی آخری شام ہم
دونوں ایک کمبل
اوڑھے ساتھ لیٹے
سرگوشیاں کر
رہے تھے سمیعہ
ہلکی سی اداس
لگی مجھے اسکا
ہاتھ میرے سینے
پرگردش کرتا جاتا
تھا۔ باااالی یہ دن
میری زندگی کا
حاصل ہیں ۔۔ واپس
جا کر جانے کیا
حاالت ہوں لیکن
مہینے میں کم از
کم دو دن ہم الزمی
ساتھ ہونگے
پہلےتم میں کشش
تھی جو مجھے
گھیرے تھی اور
اب سمیعہ
نےشرارت سے لن
کوپکڑ کر ہالیا اور
کہا اب تو اس کی
تروٹک ہوگی ۔۔
پھر خود ہی نشیلی
ہنسی ہنس کر بولی
دیکھو اس سانڈ نے
پھر سے میری
پھدی کو ویسا ہی
کھول دیا جیسے
پہلے تھی اور ہم
دونوں ہنس پڑے
ہنی مون ختم ہو
چکا تھا۔۔۔ کمال
اطمینان اور سکون
بےتحاشا لگاو کے
جذبات کے ساتھ
سمیعہ ہلکی سی
اداس بھی تھی۔۔ہم
اس جزیرہ سے
واپس مالے پرل
کانٹینٹل موجود
ائیرپورٹ کیب کا
انتظار کر رہے
تھے جب میری
نظریں مین
دروازے پر پڑیں۔۔
تھری پیس سوٹ
میں لمبے بالوں
کی چٹیا بنائے ایک
گورا دروازے
سےنکل کر ٹیکسی
میں بیٹھ رہا
تھا۔۔میری نظریں
اس پر جمی تھیں
اور دل جیسے
مٹھی میں۔۔ سمیعہ
نے مجھے
چونکتے دیکھ کر
میری نظروں کا
تعاقب کیا تب تک
وہ شخص ٹیکسی
میں سوار ہو رہا
تھا۔۔کیا بات ہے
بالی کون تھا یہ۔۔
یہہ ایڈک تھا بلکل
وہی تھا۔۔ میرے
بھائی کا قاتل میری
آواز جیسے کنویں
سے آ رہی
تھی۔اپنی ہی آواز
عجیب اور انجان
سی۔۔آپ نے دیکھا
اسے جانتی ہیں
آپ۔۔ نہیں تو میں
جب دیکھا وہ کیب
میں بیٹھ رہا تھا
بس کمر پر نظر
پڑی۔۔ سمیعہ میرا
ہاتھ سہالتی مجھے
ریلیکس کر رہی
تھی۔۔ ھےفکر رہو
بالی بس چند ماہ
اور پھر ہم ادھر کا
کام دیگر لوگ
دیکھیں گے اورتم
میرے ساتھ
کراچی۔ میں تو
کراچی آفس ہوتی
ہوں نا۔ اور جہاں
میں وہاں میرا بالی
۔۔پھر ملکر تالش
کریں گے اور
عبرت بنائیں گے
تمہارا دشمن میرا
دشمن ہے بالی اور
تم جانتے ہو سمیعہ
دوستی دشمنی نباہنا
جانتی ہے۔۔ سمیعہ
کی توجہ اور
دالسے کا اثر تھا
کہ میں جلد ہی اس
کیفیت سے نکل
آیا۔۔کچھ دیر بعد
ہماری کیب آ چکی
تھی ۔۔ہم ائیر پورٹ
کے لیے روانہ
ہوئے۔۔ سمیعہ کو
مالدیپ سے عمان
جانا تھا اور مجھے
الہور۔بورڈنگ کے
بعد ہم ویٹنگ الونج
میں تھے ۔۔ سمیعہ
مجھے نیکسٹ سب
پالن سمجھا رہی
تھی۔۔ہاوسنگ
سوسائٹی کا کام
زیبا نے دیکھنا تھا
عبید صاحب اسکی
معاونت کرتے۔۔
لیکن سمعیہ جی
زیبا کے ساتھ جو
میرا تعلق بن چکا
کیا وہ آسانی سے
مجھے جانے دے
گی۔۔ اوہو بالی جب
اسے ضرورت
ہوئی مل جانا کبھی
کبھی اب پلو سے
تو نہیں بندھ سکتے
نا۔۔پلو بس میرا ہی
پکڑے رکھنا ہے
ایسی درجنوں زیبا
ملیں گی تمہیں
موج کرنا وہ
مجھے شرارتی
نگاہوں سے دیکھ
کر بولیں ۔۔ انکی
فالئٹ اناونسمنٹ
شروع ہو چکی
تھی وہ میرے ہلکا
ساتھ لگ کر میرے
ماتھے پہ بوسہ دیا
اور بولیں جلد ملیں
گے بالی ۔۔اپنا خیال
رکھنا میری جان۔۔۔
سمیعہ
کےجانےکےبعد
میں کچھ سوچ کر
ٹیلی فون بوتھ تک
گیا اور ارسالن کا
نمبر مالیا۔۔۔ارے
جگر کہاں گم ہو تم
ادھر قیامت مچی
ہوئی۔۔ ارسالن
میری آواز سنتے
ہی تیزی سے بوال۔۔
بسسس یار ذرا
آوٹ آف کنٹری تھا
بولو کیا ہوا۔۔۔
پوچھو کیا نہیں
ہوا۔۔ امان ہللا ہارٹ
فیل ہونے سے ہفتہ
دس دن پہلے اگلے
جہان پہنچ چکا اور
اسکے مرتے ہی
سمجھو اسکے
کھاتے کھل گئے۔۔
واٹ امان ہللا مر
گیا میں چونکا
اورکیا مطلب
کھاتے کھل گئے
میں الجھ کر بوال۔۔
ارے بھیا بتاتا ہوں
بتاتا ہوں تمہاری
واپسی کب ہے۔۔
ائیر پورٹ پہ ہوں
سمجھو دو تین
گھنٹوں تک
پاکستان ہوں گا۔۔۔
الہور ہی آ رہا
ہوں۔۔۔ گڈ ہوگیا تو
میں تمہیں ریسیو
کرتا ہوں ائیر
پورٹ پر مجھے
فالئٹ نمبر بتانا
ذرا۔۔ رکو میں نے
بورڈنگ کارڈ سے
فالئٹ نمبر اسے
بتایا۔۔ بسسس بوس
میں ریسیو کرتا
تمہیں یہاں حاالت
عجیب ہیں اور تم
امان ہللا کی بیوہ
کے بزنس
پارٹنر۔۔تمہیں
مشکل آ سکتی
۔۔بس تم
میرےآنےسے
پہلے ائیر پورٹ
کی حدود سے نا
نکلنا۔۔ارسالن کی
آواز مجھے کسی
خطرے کا االرم
دے رہی تھی
صبح قریب تھی
جب میں الہور ائیر
پورٹ اترا۔۔ باہر
ارسالن میرا منتظر
تھا اسکے ساتھ دو
پروفیشنل گارڈ
تھےجن کے
ہاتھوں میں اسلحہ
تھا ان دنوں
ائیرپورٹ کے باہر
اسلحہ الیا جا سکتا
تھا۔۔راستے میں
ارسالن سے میں
نے پوچھنے کی
کوشش کی تو اس
نے مجھےاشارے
سے منع کر
دیا۔گھر پہنچ کر
اندر کمرے میں
سکون جب تک نا
بیٹھا۔۔۔ شکر ہے تم
نے مجھے فون کر
لیا ارسالن نے
کہا۔۔ آخر ہوا کیا
بتاو تو سہی امان
مرا ہے تو کیا
ہوگیا لوگ مرتے
رہتے۔۔ ارے بھیا
ہوا یہ کہ امان
صاحب نے ساتھ
کی برادری سے
ایگریمنٹ کیا ہوا
تھا کہ انکی زندگی
کے بعد دو مربع
نہری زمین انہیں
مل جاے گی قیمت
وہ پہلے وصول کر
چکے تھے ۔اب
زمین ہے زیبا کی
جسےخبر ہی
نہیں۔۔ امان کے
سوئم کے بعد
انہوں نےقبضہ لیا
۔۔ ادھر سے تکرار
ہوئی زیبا تھی
عدت میں ۔۔۔ اوپر
سےتم بھی
غائب۔۔ان کنجروں
کو پوری خبر تھی
تمہارے اوراسکے
ہاوسنگ پروجیکٹ
کی۔۔۔انہوں نے الٹا
یہ افواہ پھیالئی کہ
زیبا اور بالل
صرف بزنس
پارٹنر نہیں بلکہ ان
میں یارانہ بھی تھا
اور زیبا یہ سارا
ڈرامہ اسکے
کہنےپر کر رہی
ہے۔۔ میرے تو
ہوش اڑگئے یہ کیا
مصیبت ہے میرا
کیا لینا دینا زیبا
سے میں نے
ارسالن کو جلدی
سےصفائی دی۔۔
ارے استاد سب کو
پتہ ہے ایسا کچھ
نہیں۔۔ انہوں نے یہ
آفواہ دو وجہ سے
اڑائی نمبر ایک
زیبا پریشر میں
آجاے۔۔ دوسرا تم
ادھر واپس نا
لوٹو۔۔۔واپس تو میں
الزمی جاوں گا
میں نے ہٹیلےانداز
میں کہا۔۔اور زیبا
کا ساتھ بھی الزمی
دونگا۔۔۔جانتا ہوں
میں ارسالن نے
بوال وہ تمہیں
شہری لونڈا سمجھ
رہے ہیں جو تم ہو
نہیں۔۔ باقی میری
سیکیورٹی ایجنسی
رجسٹرڈ ہوچکی
ہے ۔۔ بندوں کا بھی
مسلہ نہیں۔۔۔ تمہیں
ویر کہا ہے بالی
اور ویروں پہ
قربان سب کچھ۔۔
میں نے ارسالن
کے کاندھے پر
ہاتھ رکھا اور کہا
مجھے یقین ہے تم
پر ۔۔چلو تم ریسٹ
کرو صبح دیکھتے
ہیں۔۔ وہ مجھے
چھوڑ باہر نکل
گیا۔۔ لیکن نیند کس
کافر کو آنی تھی
ابھی سمیعہ کا
خمار اترا نا تھا کہ
یہ مصیبت آن پڑی
۔۔۔کافی دیرکروٹین
بدلنےپر نیند نا آئی
تو میں کمرے سے
نکل کر چھت پر آ
گیا۔۔ ہلکا ہلکا
سویرا پھوٹ رہا
تھا۔۔ہلکی ٹھنڈی
ہوا۔۔میں منڈیر سے
کہنیاں ٹکا کر
سوچنے لگا کہ
کیسے اس معاملے
سے نکال جاے
خصوصا میرے
اور زیبا کے
یارانے کا معاملہ
لوگ نا مانیں لیکن
میں تو جانتا تھا
ہمارا یارانہ کتنی
چسسس واالتھا۔پھر
مالدیپ میں ہوئی
ایڈک کی جھلک
سے جانے کیا کیا
یاد آ گیا
جاری ہیں
بازگشت &بازیگر
قسط نمبر تیئس
حصہ دوم
رائٹر قلمی مزدور
سوچتے سوچتے
اچانک مجھے
محسوس ہوا کوئی
مجھے دیکھ رہا
ہے میں نے غیر
محسوس انداز میں
ادھر ادھر دیکھا۔۔
چھت کے ساتھ مال
ہوا گھر۔۔۔گھر کے
اوپر دوکمرے اور
ایک کمرے کے
جالی والے
دروازے کے
پیچھے کوئی تھا
جو مجھے دیکھ
رہا تھا۔۔ میں منڈیر
سے ہٹا اور پیچھے
کو مڑا۔۔ میرے
اندر تجسس کا مادہ
زیادہ تھا اور یہی
تجسس مجھے بہت
کچھ سکھا جاتا
تھا۔۔دس منٹ بعد
میں اچانک پھر
منڈیر سے نمودار
ہوا۔۔پھیلتی روشنی
میں چھت کے اوپر
لگی ٹونٹی سے
پائپ لگاتا ایک
نسوانی وجود
میرے سامنے تھا۔۔
وہ اپنے منہ دھیان
کمرے سے سامان
نکال کر صحن
میں دھر رہی تھی
شائد محترمہ صبح
صبح ہی صفائی
کے موڈ میں
تھیں۔۔۔ وہ کمرے
سے سامان نکال
کر رکھتی جاتی ۔۔
براون شلوار
قمیض اور اک
بازو میں چوڑیاں
جنکے بجنے کی
آواز یہاں تک آ
رہی تھی۔۔ میرے
ایسے دیکھنے سے
اسے بھی احساس
ہوا وہ چونکی
ہماری نظریں
ملیں۔۔ اوہ جلدی
سے نظریں بدل کر
واپس کمرے میں
جا گھسی میں
مسکراتا ہوا واپس
پلٹا اور آکر
کمرےمیں لیٹ
گیا۔۔۔دوپہر کے آس
پاس آنکھ کھلی
۔۔کھانے کے دوران
میری اور ارسالن
کی ڈسکشن ہوتی
رہی۔۔بھلے زمانوں
میں مجھے سمیعہ
نے زیبا کا نمبر دیا
تھا اور بتایا تھا کہ
ٹیلی فون اسکے
کمرے میں ہوتا
ہے اگر وہ عدت
میں تھی تو بھی
کمرے میں ہوگی
کیا پتہ فون اٹھا
لے۔۔ میں نے بٹوے
سے فون نمبر والی
سمال ڈائری نکالی
اور اٹھ کر فون
گھمایا۔۔ لیکن
بدقسمتی سے
دونوں بار کسی
انجانی نسوانی آواز
نے فون اٹھایا۔۔
آواز سے وہ تیس
بتیس کی لگتی
تھی۔۔میں نے بنا
بات کیے فون رکھ
دیا۔۔ارسالن کا
مشورہ تھا پہلے
کسی طریقہ زیبا
تک پیغام پہنچایا
جاوے لیکن کیسے
۔۔۔ارسالن کہنےلگا
تم ایک دو دن
میری بات مانو تو
یہیں رکو میں
پورے ماحول کا
جائزہ لے
لوں۔۔یاردو دن زیبا
مشکل میں ہے۔۔
بھئی ذرا سانس لو۔۔
اول تو اس معاملے
کو پندرہ دن
ہونےوالے ہیں
۔۔ایک دن سے فرق
نہیں پڑے گا قبضہ
ہو چکا ہے معاہدہ
انکے پاس ہے اور
زیبا کوئی گلیوں
میں نہیں رل رہی
اپنی حویلی میں
سکون سے ہے تم
ذرا سانس لو۔۔ اس
نے مجھے سارا
مدعا سمجھایا اور
بوال چل تمہیں
ایجنسی دکھاتا ساتھ
کس بندے کو بھی
لگاتے اس کام پر
ہم دونوں باہرنکلے
۔۔جب ہم باہر نکلے
ارسالن گاڑی
نکالنے لگا اور
میں باہر ادھر ادھر
تاکنے۔۔ اچانک
ساتھ واال گیٹ کھال
اور صبح والی
لڑکی برآمد ہوئی
اسکے ساتھ ایک
بوڑھی خاتون تھیں
۔۔ لڑکی کا لباس
لشش پشش کر رہا
تھا بوڑھی عورت
کا ہاتھ تھامے وہ
پاس سے گزریں۔۔
میں نے لڑکی کا
بغور جائزہ لیا کیا
ہی آفت لڑکی تھی
اسپیشلی اسکے
دہکتے ہونٹ آفت
تھے نچال ہونٹ
ہلکا سا باہر نکال
ہوا جیسےپکار
رہاہو چوس لو
نا۔۔لڑکی نے بھی
میری طرف
دیکھا۔۔ میری
استانی رخشی نے
کہا تھا بالی تمہاری
کششش شریف سے
شریف عورت کو
بھی دیکھنے پر
مجبور کر دیتی
اور اگر تم دو چار
بار نظر بھر کر
دیکھ لو تو سمجھو
گیلی ہی ہو جاتی
وہ۔۔۔ ارسالن گاڑی
نکال چکا تھا میں
اسکے ساتھ بیٹھا۔۔
یہ پٹاخہ کون
ہےمیں پوچھے بنا
نا رہ سکا۔۔یہ ہادیہ
ہے پرانے
ہمسائےہیں
ہمارے۔۔ اسکا میاں
میرا دوست ہے
آسٹریلیا ہوتاہے یہ
اور اسکی ساس ہی
رہتی ہیں گھر میں
لیکن یہ جا کدھر
رہی اس نے گاڑی
انکے پاس جا
روکی اور سالم
اماں کرتا حال
پوچھنے لگا۔۔
خاتون نے بڑی
شفقت سےارسالن
کےسر پر ہاتھ
پھیرا اور
بتانےلگیں بس بیٹا
یہ اسپتال تک جانا
تھا طبیعت ذرا
خراب ۔۔ اوہوتو
اماں مجھے بتاتیں
بلکہ چلیں آئیں
بیٹھیں خاتون جلدی
سے گاڑی میں
بیٹھیں اور بولیں آ
ہادیہ چھیتی نال بہہ
جا۔۔۔ہادیہ نے اک
نظر مجھے دیکھا
اور عین میری
پچھلی سیٹ بیٹھ
گئی۔۔یہ کون
ہےارسالن پتر
اماں نے میرا
پوچھا۔۔ یہ کزن ہے
میرا بالل نام ہے
اسکا کراچی سے
آیا ہے ۔اچھااچھا
فیر تو پتر ہوا اپنا
اماں کے پیار
بھرے ہاتھ کا نشانہ
اس بار میرا شانہ
نکال۔۔کھڑکی سے
باہر دیکھتے میری
نظر سائیڈ مرر پر
پڑی ۔۔وہی زیبا
واال سین ہوا
نظریں ملیں ۔ میں
نے جان بوجھ کر
ہلکی سی آنکھ
ماری۔۔ اسکی
آنکھوں میں جیسے
حیرت شرم اور
غصہ آیا اس نے
چہرہ گھما لیا۔۔میں
دیکھتا رہا کچھ دیر
بعد اس نے پھر
دیکھا اور نظریں
ملتے ہیں میں نے
ہلکی سمائل دی
لکن ادھر سنجیدگی
ہی رہی۔آنکھ
مچولی چلتی رہی
اور جب تک
اسپتال آیا آخر اس
نے جوابی سمائل
دے ہی دی۔۔ اسبار
عجیب سین تھا میں
ازخودچڑھائی
کرنے لگا تھا۔۔بلکل
عام گلی محلے کے
جوان لڑکے کی
طرح۔۔۔۔انہیں اتار
کر ارسالن نے کہا
کہ وہ وہیں رکیں
کچھ دیر بعد واپسی
پر انہیں ساتھ لے
لیں گے۔۔ انہیں
اتارنے کے بعد
میں بوال سوری
یار میں پٹاخہ بوال
مجھے علم نا تھا
تمہارے دوست کی
بیوی۔۔ ابے بدھو
پٹاخے کو پٹاخہ
نہیں بولیں گے تو
کیا بولیں گے ۔۔اور
قسمت دیکھ اسکا
میاں آسٹریلیا وہ
بھی شادی کے
پچیس دن بعد۔۔
اسکا لکی ویزہ
نکل آیا۔۔ خیر یہاں
تھا تو کیا کر لیا تھا
میرا لنگوٹیا ہے وہ
اس پٹاخے کو
پھوڑنے واال بھڑکا
تو دیتا تھا لیکن
جھلس کرٹھاں
پہلے ہوجاتا تھا ۔۔
ساال مٹھل تھا۔۔
کوئی چوتھے
دن تو اس سے
سیل کھلی ارسالن
کھلے انداز میں
بوال۔۔تم ٹرائی نہیں
ماری بھابھی کو
ٹھاں کرنے کی
میں نے اسی ٹون
میں جواب دیا۔۔
نہیں یار اسکی اک
وجہ ہے اسکے
بندے کے ساتھ مل
کر کھایا ہے
ویسے تم چاہو تو
مار لو ٹرائی
۔۔ارسالن نے کھلی
آفر کی ویسے
مشکل ہےلیکن
اتنی بھی نہیں
تمہارے لیےتو
بلکل بھی نہیں
تمہاری پرسناَلٹی
بہت گروم ہو گئی
ہے سر
جی۔۔۔ارسالن کے
آفس پہنچ کر اس
نے کچھ فون کیے
اور پھر ایک بندے
کے آنے پر اسے
زیبا کے گاوں جا
کر کسی طریقہ
اندر کا ماحول
چیک کرنا
تھا۔واپسی پر اماں
لوگوں کو بٹھایا
۔۔پھیلتی شام کے
سائےاورشیشہ نامہ
۔۔ بیٹھتے ساتھ ہی
میں نے فورا
سمائل کا کنیکشن
جوڑا دو چار
سمائلز کے بعد
میں نے پھر آنکھ
ماری۔۔ اسکے
چہرے پرہلکاغصہ
اور ہلکی ہنسی سی
آئی میں نے سوری
سا کہا کچھ
دیرسنجیدگی کے
بعد سمائل آئی ۔۔یہ
سلسلہ چلتا چلتا اس
مقام تک آیا کہ
گھر پہنچتے تک
میری آنکھ سے
ادھر ایک اللی آئی
۔۔ بالی نے ہادیہ پٹا
لی تھی۔۔گاڑی
رکتے ہی میں اترا
اور انتہائی
سعادتمندی سے
اماں کو باہر نکلنے
میں مدد دی ۔۔ آو
بیٹا آو چائے
پلواتیں ہوں تمہیں
اماں کی دعوت نے
گویا میرے دل میں
لڈو ڈالے
چائے بناتے
رکھتے باتیں
کرتے ہادیہ میری
نظروں کے حصار
میں رہی اور یہ
بالی کی نظریں
تھیں اسکے ہاتھوں
پہ ہلکی مہندی کا
رنگ۔ہم اٹھنے
لگے تو باہرنکلتے
میں نےاسے ٹاٹا
کیا
اگال پورا دن میں
جیسے نگاہیں
بچھائے ہادیہ کا
انتظارکر رہاتھا وہ
چھت پر آئی تو
میں وہیں موجود
تھا ۔۔وہ مجھے
دیکھ کر گڑبڑا سی
گئی۔کیسی ہیں میں
نے حال پوچھا۔۔
ٹھیک ہوں تم
سناو۔۔ وقت بس
ایک دن تھا کل
زیبا کے گاوں جانا
تھا۔۔اور اسی دن
اور اسی رات میں
سب کرنا تھا جانے
کیوں مجھے
لگااسے ٹھاں
کرنےکے لیے ہی
مجھے طال مال
تھا۔شام تک بالی
کے جلووں اور
جملوں نے ہادیہ
سے دوستانہ کروا
ہی لیا تھا۔۔اماں کی
طبیعت پوچھنے
کے بہانے جو میں
انکے گھر گھسا تو
شام کو اس شرط
کے ساتھ اٹھا کہ
وہ میری دوستی
والی باتیں رات کو
سنیں گی جب اماں
سو گئی۔۔۔ ادھر
شائد پٹاخے کے
اندر اتنی بھڑک ہو
چکی تھی کہ
پھٹنے کو بے تاب
تھی رات
کےکھانے سے
پہلے تھوڑا طال
اس پر ڈنر اور
ایک سریال ڈرنک
کرنےکےبعد میں
ارسالن کو
اوپرکابتاکر چھت
پہ تھا۔۔کچھ
ساڑھےدس کا وقت
ہوگا جب چھت پر
ہادیہ کا سایہ
نمودارہوا۔ وہ چلتے
چلتے میرے پاس
آئی اور منڈیر کے
پاس آ کر بولی ہاں
جی بتاو کیا کرنی
دوستی کی باتیں۔۔
بتاتا ہوں اماں سو
گئی۔۔ ہاں وہ تو
سیرپ پی کر ٹن
سوئی پڑیں۔۔ اچھا
رکو میں ادھر آتا۔۔
ارےنہیں رکو میں
اسکے روکنےتک
اس کے چھت پر
تھا۔۔ پاگل کوئی
دیکھ لے گا وہ
گھبرا کر بولیں
کوئی نہیں دیکھتا
یار اب دوستی ک
بات تو پاس آکر
کرتے نا ۔۔کھال
چھت ہے بالی اس
نے جھجھک کر
کہا۔۔ تو آو اندر
چلتے اور اسے
سمجھ
آنےسےپہلے
کمرے میں لے
آیا۔۔۔تم مرواو گے
اس نے گھبرا کر
دروازہ بند کر کے
خود کو جیسے
پھنسا ڈاال۔۔جلدی
بتاو وہ گھبرائی
ہوئی تھی۔۔ اچھا
سالم تو لیں میں
نے ہاتھ بڑھایا۔۔
ہادیہ نے ہاتھ پکڑا
جسے ہی اسکا ہاتھ
میرے ہاتھ آیا میں
نےاسےکھینچا اور
کہا دوستی کی
جھپی تو ماریں
پہلے ۔۔ وہ میرے
ساتھ لگی اور میں
نےبازو کس لیے ۔۔
آاااہ بالی چھوڑو
مجھے ہادیہ
کسمسائی میں
نےاسکے
رخسارکو چوما
اور کہا دوستی کی
بات ایسی ہی
ہوتی۔۔ نہیں کرنی
مجھے ایسی
دوستی وہ خود کو
چھڑوا کر بولیں۔۔
ٹھیک ہے جائیں
آپ بلکہ میں جاتا
ہوں۔۔ یہ کیا بات
ہے وہ غصے سے
بولی
بسسس میری
دوستی ایسی ہی
ہوتی میں نے آنکھ
مار کر کہا سوچ
لیں دوستوں کے
ساتھ کبھی کبھی
عیاشی کر لینی
چاہیے سوچ لیں
میں نے اٹھتے
ہوئےکہا پاس
سےگزرا دروازہ
کھول کر نکلنے
لگا تھا کہ اس نے
کہا رکو دروازہ بند
کر دو۔۔ میرے لن
نے اٹھ کر کہا آیا
میں۔۔دروازہ بند کر
کے اندر آیا سامنے
ایک بیڈ پڑاتھا اس
پر اسے لیتا آ گرا۔۔
اسکی چوڑیاں
بجیں وہ کانپی میں
نےجسم رگڑا اور
ہونٹوں کو چوم کر
کہا اس دنیا کی
آدھی آفت تو یہ
نچال ہونٹ ہے
میرے ہونٹوں
نےنچلےہونٹ
کوہلکا چھوا ہونٹ
ہلکا کھال۔۔ وہ
مشرقی عورت تھی
اسکی یہی سپردگی
تھی اب باقی میرا
کام تھا میں اسکے
نچلے ہونٹ
کوچوسا گہرا چوسا
جسم نےرگڑا
کھایا۔۔ سخت لن
نے پھدی کو دبا
کراپنا احساس دالیا
اسکا جسم کانپ سا
گیا
یہ تیزی کا ریال تھا
میری بہک تھی
اوراسکی بھڑک۔۔
میرا جسم اس پر
مچل رہاتھا اور
ہونٹ ہونٹوں سے
شانےتک ادھر
ادھر۔۔ہونٹ پھرتے
کلیویج تک
شانےتک ۔۔ گردن
کے پاس باریک تل
میں نے ان تلوں
پرگول گول زبان
گھمائی اور لن
پھدی پر دبایا۔۔۔
اسکی سسکیاں
تھیں کہ قیامت میں
نے سپیڈ والی ڈیٹ
ماری اور ہاتھ
سیدھےاسکے
ٹراوزر پررکھے
اور سمجھ آنے
سے پہلےٹراوزر
اتار دیا۔اور ہاتھ
اسکی بیک سے
پھیرتا سیدھا پھدی
پر
الیا۔۔میرےجذباتی
حملوں نےاسے
مدہوش کر دیا تھا
وہ جیسے بکھری
پڑی تھی میں نے
ہادیہ کی پھدی کو
ہاتھ سے رگڑا۔
مممممم آاااااااہ ہادیہ
کی سسکی تھی کہ
االمان
جاری ہے