Professional Documents
Culture Documents
C/o M Abdullah Khalid (J.Accountnat), Anti-Terrorism Court-I, Rawalpindi
C/o M Abdullah Khalid (J.Accountnat), Anti-Terrorism Court-I, Rawalpindi
C/o M Abdullah Khalid (J.Accountnat), Anti-Terrorism Court-I, Rawalpindi
معاشیات کی تعریف:۔
مختلف زمانوں میں ماہرین معاشیات نے اس علم کی مختلف تعریفیں بیان کی ہیں ۔ جنہیں تین طرح سے پیش کیا
جاسکتا ہے ۔
اول:۔ کالسیکی ماہرین معاشیات کی تعریفیں جن میں معاشیات کو دولت کا علم قرار دیا گیا ہے ان ماہرین کا ریکارڈ و
تھامس ماتھس اور جان ایس مل ۔
دوم:۔نوکالسیکی ماہرین معاشیا ت کی تعریفیں ،جن میں معاشیات کو مادی فالح و بہبود ،کا علم کہا گیا ہے ۔ ان کی
نمائندگی پروفیسر الفرڈ مارشل کی تعریف سے ہوتی ہے ۔
سوم:۔جدید ماہر معاشیات پروفیسر رابنز کی بیان کردہ تعریف جس میں یہ بتایا گیاہے کہ معاشی مسئلہ خواہشات کی
کثرت اور ذرائع کی قلت سے پیدا ہوتا ہے ۔ یہاں ہم ان پر الگ الگ بحث کرتے ہیں ۔
ایڈم سمتھ کی بیان کر دہ تعریف
اگرچہ معاشی مسائل اس وقت سے موجود ہیں ،جب سے انسان نے دنیا میں قدم رکھا اور مختلف زمانوں میں اہل نظر
ان پر غور فکر کرتے ہیں لیکن معاشی حقائق و نظریات کو جمع کر کے انہیں سب سے پہلے باقاعدہ ایک کتاب کی
صورت میں پیش کر نے کا کام ،سکاٹ لینڈ کے پروفیسر آدم سمتھ نے انجام دیا ۔ انہوں نے آج سے تقریبا سو ا دو
سوسال قبل 1776ء میں ایک کتاب لکھی جس کا نام تھا ،اقوام کی دولت کی نوعیت اور وجوہات اور وجوہات پر
تحقیقاتی مقالہ ’’ جس کے باعث انہیں معاشیات کا بانی اور باپ کہا جاتا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ معاشیات دولت حاصل
کرنے اور خرچ کر نے کے اصولوں کا علم ہے انہوں نے اس کتاب کو مندرجہ ذیل چار حصوں میں تقسیم کیا ۔
صرف دولت) (Consumptionپیدائش دولت) ( Productionتبادلہ دولت) (exchangeاور تقسیم دولت صرف
دولت کے ضمن میں انہوں نے یہ واضح کیا کہ کسی قوم کی دولت یعنی استعمال میں آنے والی اشیاء و خدمات
)(Goods and servicesکن اصولوں کے تحت خرچ ہوتی ہیں پیدائش دولت کے سلسلہ میں یہ بتایا کہ انسانی
ضرورت کی چیزیں عموما ً کن اصولوں کے تحت پیدا ہوتی ہیں ،تبادلہ دولت کے بارے میں یہ بیان کیا کہ لوگ اپنی
اپنی پیدا کر دہ اشیا ء و خدمات کا آپس میں تبادلہ کن اصولوں کے تحت کرتے ہیں اور تقسیم دولت کے سلسلہ میں یہ
واضح کیا کہ مختلف عاملین پیدا ئش یعنی زمین سرمایہ اور مزدور وغیرہ باہم مل کر جو اشیا ء پید ا کر تے ہیں وہ ان
میں کن اصولوں کے تحت تقسیم ہوتی ہیں معاشیات کو دولت کا علم قرار دیتے ہوئے آدم سمتھ اور ان کے اہم نو ا
مفکرین مثالً ریکارڈو نے اس بات پر زور دیا کہ انسان کی کوششیں ،زیادہ تر اس وجہ سے عمل میں آتی ہیں کہ وہ
دولت کمانا چاہتا ہے ۔ اور یہی خواہش اس کی روز مرہ زندگی میں غالب نظر آتی ہے ۔ آدم سمتھ نے یہ تخیل بھی
پیش کیا کہ تمام لوگ انفرادی سطح پر اپنے ذاتی مفاد کی خاطر جو کوشش کرتے ہیں وہ بالواسطہ پورے معاشرہ کے
کئے مفید ثابت ہوتی ہے ۔ اور یوں ایک غیر مرئی ہاتھ کے باعث معاشی نظام خود بخو د باقاعدگی سے چلتا رہتا ہے ۔
تنقید:۔
اگرچہ کالسیکی ماہرین معاشیات ’’ دولت ‘‘ سے مراد ایسی چیزیں لیتے تھے جو انسان اپنی ضرورتوں کے لئے
استعمال کرتاہے مثال ً خوراک پوشاک اور رہائش کی چیزیں ،مگر بعض لوگوں کی دولت کے لفظ سے کچھ غلط
فہمی پیدا ہوگئی ۔ چنانچہ انیسویں صدی کے مصلحین یعنی معاشرہ کی اصالح کے خواہش مندلوگوں نے معاشیات کے
بارے مین یہ رائے قائم کر لی کہ یہ خود غرضی اور دولت پر ستی سکھانے واال علم ہے اس لئے اس کا مطالعہ نہیں
کرنا چاہئے ۔ لیکن اگر ہم اس نظریہ پر غور کر یں تو معلوم ہوگا کہ معاشیات کے بارے میں یہ تصور کہ اس میں
دولت پیدا کرنے اور دولت خرچ کرنے کے متعلق مطالعہ کیا جاتا ہے قابل اعتراض نہیں ،کیونکہ دولت کو انسان
ایک مقصد کے طور پر حاصل نہیں کر تا بلکہ بلند تر مقصد کے لئے کماتا ہے اور وہ مقصد ہے:
انسانی فالح و بہبود :۔
انسا ن کی خوش حالی کا دارو مدار اس بات پر ہے کہ اسے اپنی خواہشات پوری کر نے کے لئے زیادہ سے زیادہ
اور اچھی سے اچھی چیز یں ملیں اور یہ تمام چیز یں دولت سے حاصل ہوتی ہیں لہٰ ذا دولت بذات کود بری شے نہیں ،
بلکہ اس کا استعمال برایا بھال ہوسکتا ہے ۔ چنانچہ دو لت کے بارے میں غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے معاشیات
کی از سر نو تعریف بیان کر نے کی ضرورت محسوس ہوئی ،جس کا ذکر ہم آگے کر تے ہیں ۔
سوال نمبر4۔ مسئلہ ملکیت زمین میں اسالم کا نقطہ نظر کیا ہے نیز زمین کی اقسام اور ان کے احکام پر روشنی
ڈالیں؟
اسالم دولت کی شخصی اور انفرادی ملکیت کے حق کو تسلیم کرتا ہے۔اسالم میں اس صریح اور واضح حق کے تسلیم
کئے جانے میں کوئی شبہ نہیں بلکہ انسانی زندگی کے بنیادی حقوق اور اصول کے ساتھ معاشی نظام کی بنیاد ہے۔ اس
طرح ضرورت کی جائیداد اور زمین سے بڑھ کر مال میں تجارت،اجارہ ،رہن،ہبہ وصیت اور وراثت کے ذرائع تصرف
زرمبادلہ کے ساتھ تجارتی وسعت اور کائنات ارض میں شخصی انفرادی ملکیت کے اصول کو اور اس طرح بین االقوامی ِ
تس لیم کرتے ہوئے بین االقوامی انسانی حقوق کی ضمانت میں اپنا کردارادا کرتا ہے بلکہ مال کی حفاظت میں مارے جانے
پر اُس کو شہادت کا مرتبہ دیتا ہے۔ اُس کے مال کی چوری کرنے والے مرد اور عورت کو حدو ِد اسالمی میں ہاتھ کاٹنے
کی سزا دیتا ہے اسالم کے نظام حیات میں غصب کردہ مال ملعون ہے اور اس مال کو واپس مالک تک پہنچانے کی ذمہ
داری ریاست کے فرائض میں قرار دیتا ہے۔ جان مال عزت آبروکی حفاظت اور امن کے ساتھ معاشرہ میں رہنے کا حق
اور ضمانت اسالم ہی میں ہے۔ انفرادی ملکیت کا حق اور اُس کے تحفظ و حفاظت کیلئے قانون سازی کے ذرائع عدالتی
انصاب بھی فراہم کرتا ہے۔اسالم ہر فرد کو حرص اور اللچ و طمع سے منع کرتا ہے۔یہ اخالقی حکم ہے تاہم شرعی
طورپر حالل ذرائع سے تجارت یا محنت مزدوری سے مال کو جمع کرنا اور جائیداد یا بیلنس کو قائم کرناجائز قرار دیتا
ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اسالم کے اس اجتماعی معاشی نظام سے ملک میں خوشحالی کا باب بھی کھلتا ہے۔
غریبوں مسکینوں اور بیواﺅں کو وظائف دئیے جاتے ہیں اور معاشرہ کے محروم لوگوں کیلئے امیر کے مال میں حق دینا
قانون اسالمی کی روشنی میں امیر
ِ زکوۃ و صدقات اور خیرات کے ذرائع اُن تک پہنچانے کا احساس اسالم دیتا ہے بلکہ
کے مال میں غریب و مستحقین تک زکوۃ پہنچانا قانونا ً شرعا ً اور اخالقا ً حکم میں آتا ہے۔ کسی تاجر یا محنت کش کا مال
کو جمع کرنا اور حالل ذرائع سے اُس کو محفوظ کرتے ہوئے جائیداد یا صنعت کی شکل میں قائم کرنا کوئی معیوب عمل
گردش دولت کا نظام قائم ہوتا ہے۔ سودی بنکوں میں پیسے رکھ کر کمانا حرام ِ نہیں ہے بلکہ اس عمل سے معاشرے میں
ہے جبکہ مال کو تجارت میں لگا کر یا صنعتوں کو قائم کرکے یا زرعی اراضی خرید کر پیداواری اجناس کیلئے مزارعین
اور مزدوروں کو روزگار دینا عبادت قرار دیاگیا ہے۔ان خزانوں سے زکوۃ کی رقم اور دیگر ٹیکسوں کے ذرائع مالیاتی
نظام میں حکومت و عوام کیلئے نظام کار چالنے میں معاونت ملتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ذاتی ملکیت کے حق کو
نظام معیشت میں
ِ حدود و قیود عائد کئے بغیر سرمایہ دار کو سانپ بنادیا گیا ہے جو خزانے پر بیٹھا ہے جبکہ اسالمی
سرمایہ دار کو ذاتی ملکیت کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے حدود و قیود عائد کئے ہیں جس میں شرعی احکامات سے اُس
کے مال میں سے زکوۃ عشر،صدقہ الفطر ،قربانی اور اتفاق فی سبیل ہللا کیلئے صدقات و خیرات کا حکم دیا گیا ہے اور
اسالمی ریاست میں مختلف ٹیکسوں کے نفاذ سے معاشرہ کو متوازن بنایا گیا ہے جس سے بیت المال کا قیام عمل میں ال
کر محروم و مستحقین تک اُن کا حق پہنچانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔اس طرح اسالم سرمایہ دار کی ملکیت کے حق کو
تسلیم کرتے ہوئے اُس کو اصل حقیقت سے آشنا کراتا ہے کہ یہ مال اور اُس کی جان اپنی نہیں بلکہ اس کا اصل مالک و
اعلی بلکہ اقتدار وحدہ ال شریک ذاتٰ تعالی کی ذات ہے جس کا اقتدار ازلی اور ابدی ہے وہی مقتدر
ٰ خالق رب العالمین ہللا
ُ
ہے۔ ہللا وحدہ ال شریک ذات باری عزوجل نے انسان کو اپنا نائب بنا کر عبوری دور کیلئے دنیا میں ان کو انفرادی ملکیت
کا حق دیکر خود مختار بنایا ہے۔ تاہم ہللا کی ذات کے عالوہ کوئی بھی شخص اپنی جان اور مال و ملک و عزت کا حقیقی
مالک نہیں بلکہ اُسے تمام حق ملکیت دی گئی ہے جس میں اس پر اُس مال کی زکوۃ اور اپنی جان پر عبادات کا حکم دیکر
تعالی کے ہاں موتٰ زندگی کی عمارت کو قائم کیا ہے۔ وہ زندگی جب تک ہے وہ مال اس کا ہے جب وہ اپنی جان واپس ہللا
کے ذریعے پہنچا دیتا ہے تو پھر اُس کا مال اُس کی مرضی پر نہیں بلکہ رب ذوالجالل کے حکم سے ورثا میں تقسیم
کردیاجاتا ہے۔اس تقسیم کا حکم اُس نے کیا ہے جو اُس کے مال کا حقیقی مالک ہے۔
ہمارے عالقے کی زمینیں بعض نہری ہیں اور بعض پر ٹیوب ویل یا رہٹ لگایا گیا ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ بسا
اوقات ایسا ہوتا ہے کہ فصل زیادہ عرصہ بارش سے سیراب ہوتی ہے اور ٹیوب ویل وغیرہ سے سیراب کرنے کی
ضرورت کم پیش آتی ہے ،اور بعض دفعہ ٹیوب ویل وغیرہ کا پانی زیادہ لگایا جاتا ہے اور بارش یا تو کم ہوتی ہے یا
بالکل نہیں ہوتی تو ان مختلف صورتوں میں عشر کس حساب سے نکاال جاۓ گا؟ ہرصورت میں نصف عشر ہی دیا
جاۓ گا یا اس میں کوئی تفصیل ہے ؟
نیز جو زمینیں نہر سے سیراب ہوتی ہیں اور حکومت اس کا مالیہ لیتی ہے ان میں عشر واجب ہے یا نہیں؟
نصف عشر سے متعلق ذیل میں کچھ ضابطے لکھے جاتے ہیں جن سے آپ کے تمام سواالت کے
ِ ب عشر اور
وجو ِ
:جوابات واضح ہو جائیں گے
اگر کوئی زمین بارانی ہے ،یعنی وہ بارش سے سیراب کی جاتی ہے تو اس زمین پر عشر (پیداوار کا دسواں حصہ)
واجب ہوگا۔
اگر کوئی زمین دریا یا نہر سے سیراب کی جاتی ہے تو اس میں عشر (پیداوار کا دسواں حصہ) واجب ہوگا۔
اگر کوئی زمین بارانی بھی ہے اور کنویں یا نہر یا تاالب وغیرہ سے بھی سیراب کی جاتی ہے تو سیراب کرنے
نصف عشر کے واجب ہونے میں اسی کا اعتبار ہو گا ،یعنی اگر بارش سے
ِ میں جس کا تناسب زیادہ ہو گا عشر یا
نصف عشر واجب
ِ زیادہ عرصہ سیراب ہوئی تو عشر واجب ہو گا اور اگر ٹیوب ویل وغیرہ سے زیادہ سیراب ہوئی تو
ہو گا۔
جس زمین کی آب پاشی پر کچھ محنت لگتی ہو یا کچھ خرچ کرنا پڑتا ہے ،جیسے چاہی زمینوں میں یا نہری زمینوں
میں جن کے پانی کی قیمت حکومت کو ادا کرنی پڑتی ہے تو ان میں بھی پیداوار کا بیسواں حصہ ادا کرنا واجب ہوگا۔
سوال نمبر5۔ تعین اجرت کے متعلق قرآن مجید اور احادیث کی تعلیمات بیان کیجئے؟
ب ہدایت ہے ،جس کے فضائل اور اہمیت بیان کرنے کے لیے دفتر کے دفتر درکار ہیں۔ اس موقع پر قرآن مجید کتا ِ
ہمیں اس عظیم الشان کتاب کے فضائل بیان کرنا مقصود نہیں بلکہ اس کی جو ناقدری ایک خاص الئن سے عام ہوتی
وتعالی کاارشاد ہے:وال تشتروا ٰبایتی ثمنا ً قلیالً۔(مفہوم) اورٰ جا رہی ہے اس پر توجہ مبذول کرانا مقصود ہے۔ہللا سبحانہ
نہ لو میری آیتوں پر مول تھوڑا۔(البقرہ )41:اس سے بعض کج فہموں نے یہ نتیجہ نکال لیا کہ مذکورہ آیت میں تھوڑی
قیمت لینے کو منع کیا گیا ہے لیکن اگر زیادہ یا منہ مانگی قیمت ملے تو حق یعنی قرآن مجید کا سودا کیا جا سکتا ہے۔
خیال رہے اس آیت سے مراد یہ ہے کہ حق کے مقابلے میں دنیا کے تمام خزانے،نہایت قلیل اور بہت تھوڑے ہیں ،ان
کی کوئی حیثیت ہی نہیں ،اس لیے ہمیں حق پر ترجیح نہیں دینی چاہیے۔ اس مسئلے سے متعلق متعدد احادیث بھی وارد
ت از خروارے: ہوئی ہیں۔ مش ِ
حضرت عمران بن حصین رضی ہللا عنہ سے روایت ہے ،میں نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کو ارشاد فرتے
تعالی سے ہی سوال کرنا چاہیے ،عنقریب ایسے ٰ ہوئے سنا’’:جو شخص قرآن مجید پڑھے ،اسے قرآن کے ذریعے ہللا
لوگ آئیں گے جو قرآن پڑھیں گے اور س کے ذریعے لوگوں سے سوال کریں گے‘‘۔(ترمذی’)2917:مسند احمد‘ میں
ایک روایت ہے ،رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’:قرآن پڑھو اور اس میں غلو نہ کرو اور اس سے
اعراض نہ کرو ،اسے کھانے کمانے کاذریعہ نہ بناؤ اور نہ ہی اس سے بہت سے دنیوی فوائد حاصل کرو‘‘۔(مسند
بریدہ سے روایت ہے ،رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد ؓ )’مشکوۃ‘ میں حضرت
ٰ احمدابن حنبل444/5 :
فرمایا’’:جو شخص قرآن مجید اس لیے پڑھے کہ اس کے ذریعے لوگوں سے کھائے ،وہ قیامت کے دن اس حالت میں
مشکوۃ المصابیح)2217 : ٰ آئے گا کہ اس کے چہرے پر صرف ہڈی ہوگی ،گوشت نہیں ہوگا‘‘۔(
مشکوۃ عالمہ ٰ شارح
ِ یہ چند احادیث کا ذکر ہوا ،اب ان کی تشریح کرنے والے علماے کرام میں سے ایک مشہور عالم
دہلوی کا کالم مالحظہ ہو ،فرماتے ہیں’’:ان احادیث میں ان لوگوں کے لیے سخت تنبیہ اور وعید ہے جو ؒ نواب قطب
قرآن کریم کو بھیک مانگنے کا ذریعہ بناتے ہیں۔ یوں تو یہ بات بطور خود انسانی شرف کے خالف ہے کہ کوئی
ت سوال دراز کرے اور اسے حاجت روا شخص اپنے خدا کو چھوڑ کر اپنے ہی جیسے ایک انسان کے سامنے دس ِ
قرآن کریم
ِ قرآن کریم کو ذریعہ بنایا جائے۔ اس لیے فرمایا جا رہا ہے کہ ِ قرار دے ،چہ جاے کہ اس قبیح فعل کے لیے
ت سوال دراز کرو ،اپنے اخروی اور دنیوی امور میں جو چاہے اس تعالی کے آگے دس ِ
ٰ پڑھ کر صرف ہللا سبحانہ و
سے مانگو ،لوگوں کے آگے ہاتھ نہ پھیالؤ ،کیوں کہ وہ خود اسی ذات کے محتاج ہیں ،وہ تمھاری کیا حاجت پوری
کریں گے۔(مظاہر حق جدید)72/3:
ممکن ہے مذکورہ باال تفصیل سے معلمین و مدرسین کی تنخواہ پر بھی کسی کو شبہ ہونے لگے ،تو اس کے ازالے
معلمین قرآن کے لیے وظائف اور تنخواہیں ِ دور خالفت میں کے لیے عرض ہے کہ خلفاے راشدین نے اپنے اپنے ِ
مقرر فرما کر اس مسئلے کو بے غبار کر دیا ہے۔(دیکھیے کتاب الخراج البی یوسف )۷۸۱ :اور خلفاے راشدین کا یہ
فعل ہمارے لیے حجت ہے ،اس لیے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کا ارشا ِد گرامی ہے:تم میری سنت کو الزم پکڑو
اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفاے راشدین کی سنت کو الزم پکڑو ،اسے ڈاڑھوں سے مضبوط پکڑے رہو اور دین میں
نئی باتیں ایجاد کرنے سے بچو کیوں کہ دین میں پیدا کی گئی ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی
ہے۔(ابوداؤد)4607:اسی لیے ائمہ ثالثہ امام احمد بن حنبل ،امام مالک ،امام شافعی رحمہم ہللا اور متاخرین فقہاے
احناف کے نزدیک یہ اجرت بالشبہ جائز ہے۔ (شرح مسلم للنووی)224/2:
ہے’’:تعلیم قرآن وغیرہ پر اجرت لینے کو جن متاخرین نے جائز قرار دیا ِ اردو کی مشہور تفسیر ’معارف القرآن‘ میں
ہے اس کی علت ایک ایسی دینی ضرورت ہے جس میں خلل آنے سے پورے دین کا نظام مختل ہو جاتا ہے ،اس لیے
ختم
اس کو ایسی ہی ضرورت کے مواقع میں محدود رکھنا ضروری ہے۔ اس لیے ُمردوں کو ایصا ِل ثواب کے لیے ِ
قرآن کرانا یا کوئی دوسرا وظیفہ پڑھوانا اجرت کے ساتھ ،حرام ہے کیوں کہ اس پر کسی دینی ضرورت کا مدار نہیں
اور اجرت لے کے پڑھنا حرام ہوا تو اس طرح پڑھنے اور پڑھانے والے دونوں گنہگار ہوئے ،اور جب پڑھنے والے
کو کوئی ثواب نہ مال تو میت کو کیا پہنچے گا؟ایصا ِل ثواب کے لیے قبر پر قرآن پڑھوانا ،اجرت دے کر ختم کرانا
اسالف امت سے کہیں منقول نہیں ،اس لیے بدعت ہے۔(معارف القرآن)208/1 : ِ ؒ
تابعین اور صحابہ و
ؓ
عدم جواز پر اتفاق ہے۔ دارالعلوم دیوبند نے ختم قرآن پر بھی برصغیر کے جمہور علماء کا ِ اسی طرح تراویح میں ِ
فتوی ’معاوضہ علی التراویح کی شرعی حیثیت‘ کے نام سے اپنی ویب سائٹ پر ٰ اہتمام سے اس مسئلے پر مستقل
آویزاں کر رکھا ہے ،جسے www.afif.inپر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔نیز اس مسئلے میں علماے دیوبند اکیلے نہیں
ب فکر ب فکر کا مسئلہ نہیں رہ جاتا۔ بریلوی مکت ِ بلکہ بریلوی علماء بھی اس پر متفق ہیں،اس طرح یہ کسی خاص مکت ِ
حافظ قرآن کو ِ کے مشہور عالم موالنا مفتی امجد علی قادری صاحب لکھتے ہیں کہ آج کل اکثر رواج ہو گیا ہے کہ
اجرت دے کر تراویح پرھواتے ہیں ،یہ ناجائز ہے،دینے واال اور لینے وال دونوں گنہگار ہیں۔اجرت صرف یہی نہیں
کہ پیش ترمقرر کر لیں کہ یہ لیں گے یہ دیں گے بلکہ اگر معلوم ہے کہ یہاں کچھ ملتا ہے اگر چہ اس سے طے نہ ہو
ا ،یہ بھی نا جائز ہے کیوں کہ المعروف کا المشروط [معروف مشروط کے حکم میں ہے]۔ ہاں اگر کہہ دیں کہ کچھ
بہار شریعت:
نہیں دوں گا یا نہیں لوں گا پھر پڑھے اور حافظ صاحب کی خدمت کریں تو اس میں حرج نہیں ہے۔( ِ
) 35/4نیز اہ ِل حدیث علماء کا بھی یہی موقف ہے ،جیسا کہ مزید شدت کے ساتھ موالنا عبد ہللا امرتسری صاحب رقم
طراز ہیں کہ ’’اجرت پر قرآن مجیدتراویح میں سننا یا اجرت پر قرآن مجید سنانا ،بالکل جائز نہیں بلکہ ایسے شخص
ہوتی۔‘‘(فتاوی اہ ِل حدیث -)643/1:اس قدر واضح تصریحات کے باوجود بعض لوگ یہ ٰ کے پیچھے تراویح ہی نہیں
حیلہ کیا کرتے ہیں کہ تراویح میں قرآن سنانے والے کو کسی فرض نماز کا امام بنا دیا جائے تو اس کی اجرت دینا
درست ہو جاتا ہے ،جب کہ موالنا اشرف علی تھانوی صاحب نے اس طرح کے ایک سوال کے جواب میں دو ٹوک
ختم
فتوی اس وقت ہے جب امامت ہی مقصود ہو ،حاالں کہ یہاں مقصود ِ ٰ الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’یہ جواز کا
ختم قرآن]ہے اور یہ محض حیلہ دیانات میں ہے،جو کہ معاملہ بین العبد وبین ہللا ہے ،حیل تراویح [یعنی تراویح میں ِ
نفس تراویح میں امامت پر اجرت کے الفتاوی)485/1:یعنی ِ
ٰ مفی ِد جواز واقعی کو نہیں ہوتے ،لہٰ ذا یہ ناجائز ہوگا۔ (امداد
ختم قرآن پر بھی حلت آجاے گی ،ایسا نہیں ہے بلکہ ختم قرآن پر اجرت بہ ہرحال حرام ہی رہے گی۔دوسرے مقام سبب ِ
پر موصوف رقم طراز ہیں کہ ’’بعض حفاظ کی عادت ہے کہ اجرت لے کر قرآن مجید سناتے ہیں ،جب کہ طاعت پر
اجرت لینا حرام ہے،اسی طرح دینا بھی حرام ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے پہلے سے نہیں ٹھہرایا ،لیکن نیت تو
دونوں کی یہی ہے اور نیت بھی خطرہ و خیال میں نہیں ،بلکہ مرتبۂ عزم میں۔ اگر کسی طور سے معلوم ہو جائے کہ
یہاں کچھ وصول نہ ہوگا تو ہر گز ہرگز وہاں پڑھیں نہیں الخ۔‘‘(دیکھیے اصالح الرسوم )148-145:جو لوگ یہ کہتے
ہیں کہ تراویح میں اگر پہلے سے اجرت متعین نہ کی جائے تو پھر دینے میں کوئی حرج نہیں ،موالنا خلیل احمد
صاحب سہارنپوری وغیرہ نے بھی وضاحت کی ہے کہ ’’اجرت دے کر قرآن سننا شرعا ً جائز نہیں ،لینے واال دینے
تعین اجرت سنایا جائے اور ختم قرآن کے بعد بطور تبرع دیا جائے تو اصح قول ِ واال دونوں گنہگار ہیں اور اگر بغیر
مفتی اول مفتی عزیز
ِ فتاوی مطاہر علوم )48/1:نیز دارالعلوم دیوبند کے
ٰ کی بنا پر یہ صورت بھی نا جائز ہے ‘‘۔ (
الرحمن صاحب عثمانی فر ماتے ہیں کہ’’ اجرت پر قرآن شریف پڑھنا درست نہیں ہے اور اس میں ثواب نہیں ہے اور
بہ حکم’ المعروف کا لمشروط‘ جن کی نیت لینے دینے کی ہے وہ بھی اجرت کے حکم میں ہے اور نا جائز ہے۔اس
قیام
حالت میں صرف تراویح پڑھنا ،اور اجرت کا قرآن شریف نہ سننا بہتر ہے اور صرف تراویح ادا کر لینے سے ِ
(فتاوی دارا لعلوم )246/4:اور دارالعلوم دیوبند ہی کے سابق مفتی ،مفتی ٰ رمضان کی فضیلت حاصل ہو جاے گی۔
محمود حسن گنگوہی صاحب لکھتے فرماتے ہیں ’’ تراویح میں قرآن سنانے پر اجرت لینا اور دینا جائز نہیں ،دینے
والے اور لینے والے دونوں گنہگار ہوں گے اور ثواب سے محروم رہیں گے ،اگر بال اجرت سنانے واال نہ ملے تو
وی محمودیہ)171/7:پاکستان کے مشہور عالم، ’الم تر کیف‘ [یعنی جو سورتیں یاد ہوں ان]سے تراویح پڑھیں۔( فتا ٰ
مفتی رشی د احمد لدھیانوی صاحب نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ’’خدمت کے نام سے نقد یا کپڑے وغیرہ دینا بھی
معاوضہ ہی ہے اور اجرت طے کر نے کی بہ نسبت زیادہ قبیح ہے ،اس لیے کہ اس میں دو گنا ہ ہیں؛ایک قرآن
ت اجرت کا گناہ [کہ ایسا کرنے والے اسے اجرت ماننے کو بھی تیار نہیں سنانے پر اجرت کا گناہ اور دوسرا جہال ِ
دور حاضر کے مشہور عالم موالنا خالد سیف ہللا رحمانی کا یہ کہنا بالکل درست الفتاوی ِ )514/3:
ٰ ہوتے]۔(احسن
معلوم ہوتا ہے کہ ’’ہمارے زمانے میں ایک عام رواج سا ہوگیا ہے کہ حفاظ صاحبان اپنے قرآن کی قیمت لگاتے
ختم تراویح پر دی جاتی طور اجرت ’نذرانہ‘ کے نام سے ِ ِ پھرتے ہیں ،باضابطہ ایک رقم طے کرتے ہیں جو ان کو بہ
ہے،بسا اوقات اس کے لیے طویل اسفار کرتے ہیں اور اپنے وطن ،شہر ،قریہ پر ایسی جگہ کو ترجیح دیتے ہیں جہاں
ختم قرآن ’شرعی ضرورت ‘نہیں ہے،یہ محض ایک طرز عمل ہے۔تراویح میں ِ ِ زیادہ پیسہ ملیں ،یہ انتہائی نامناسب
ایسی سنت ہے کہ تراویح کی ادائیگی کے لیے یہی کافی ہے کہ’الم ترکیف‘سے ’سورۃ الناس‘تک پڑھ کر نماز کی
تکمیل کر لی جائے۔(جیسا کہ)اگر لوگوں میں تعب وتھکن اور قرآن کی طرف سے بے توجہی ہو تو فقہاء نے اسی کو
بہتر قرار دیا ہے کہ تھوڑا ہی قرآن پڑھا جائے،تکمیل نہ کی جائے۔اب ظاہر ہے کہ ایک ایسی بات کے لیے قرآن
فروشی کی کیوں کر اجازت دی جا سکتی ہے،اس لیے راقم الحروف کی رائے یہی ہے کہ ایسا کرنا ہرگزدرست
نہیں۔یہ بات شریعت کی روح سے ہم آہنگ نہیں معلوم ہوتی کہ ایک سنت کے لیے ،جس کا ترک کردینا بھی فقہاء کی
تصریحات کے مطابق،حاالت کے اعتبار سے قبیح نہیں،ایک نادرست عمل کوروا رکھا جائے اور اس کے لیے حیلے
کی راہ دریافت کی جائے‘‘۔