Professional Documents
Culture Documents
مجلہ خیابان
مجلہ خیابان
▼ Select Language
ABSTRACT
THE Literatures of the world talks about human societies, cultures and
religions, generally. They discuss problems of the individuals and their psyche
particularly. Rashid is one of the great poets of Urdu poetry and especially in
free verse. In his poetry the collision of east and west could be observed clearly.
In this research paper the researcher has discussed about this mental clash
which is natural due to the new flow of thoughts from west to east in the
twentieth century ,The east resists against it or accept these thoughts is the key
. point of discussion in this research paper
ترقی پسند نظم اور جدید نظم میں سیاسی وسماجی افکار کے بیان کی نوعیت مختلف ہے ترقی پسند شاعر
اجتماعی نقطہ نظر کے ماتحت براہ راست انداز میں سیاسی و سماجی افکار کی تشکیل کرتے ہیں جب کہ
جدید نظم نگار شاعر انسان کا آفاقی تصور ذہن میں رکھتے ہوئے سیاسی وسماجی حاالت کے اثرات فرد پر
مرتب کرتے ہوئے فرد کی نفسیات اور اس کے احساس شکست کی روشنی میں سیاسی وسماجی افکار پیش
کرتے ہیں۔ اس طرح استعمار مخالف رجحانات میں بھی ان کا تصور ترقی پسندوں سے مختلف ہے انہوں نے
استعماری ظلم وجبر اور ان کے نافذ کردہ نظام کی بنیادی صورتوں کو فرد کے حوالے سے پیش کیا ہے۔
ن ۔ م راشد کی شاعری کا اگر چہ سیاسیات وسماجیات سے گہرا تعلق ہے لیکن انہوں نے ان افکار کا اظہار فرد
کے حوالے سے کیا ہے اور تقسیم کے قبل کے ہندوستان پر استعماری ظلم وجبر اور ان کے نافذ کردہ نظام کی
منفی صورتوں کو فرد کی نفسیات اور اس کے احساس شکست کے حوالے سے پیش کیا ہے اور اسی تناظر
میں مشرق ومغرب کے مابین ہونے والی کشمکش اور مشرق ومغرب کے مخصوص تصورات کو اجاگر کیا ہے
ان کا تصور مشرق ومغرب سیکولر حوالوں سے تشکیل پاتا ہے اور مذہب سے ہٹ کر وہ ان اکائیوں کی تفہیم
کرتے ہیں اس لیے ان کا نقطہ نظر اقبال سے مختلف ہے کسی مخصوص جماعت یا نظریے سے منسلک نہ رہنے
اور انسان اور اس کے احساسات آزادی فکر کے ساتھ پیش کرنے کے باعث ان کا رویہ ترقی پسندوں سے ہم
آہنگ ہونے کے باوجود ان سے الگ ہوجاتا ہے۔
ن ۔ م راشد کی شاعری کا آغاز فرد کے رومانی احساس سے ہوا۔ ان کا ابتدائی فرد بے اطمینانی اور بے سکونی
کا شکار ہے اور بے چینی کے ازالے کے لیے وہ پناہ گاہ کی تال ش میں ہے وہ خیالوں کی بستی ،مناظر فطرت
اور حسین وادیوں میں گم ہونے کے خواب دیکھتا ہے اس ابتدائی فرد کے احساسات رومانی فکر سے جڑے
ہوئے ہیں اس کے مسائل ابتدائی نظموں میں ذاتی دکھائی دیتے ہیں مگر یہ فرد اپنی ذات کی بے اطمینانی
سے ہوتاہوا سماج کی طرف بڑھتا ہے اور اس کے ذاتی دکھ سماج کے دکھوں سے مل جاتے ہیں اور اسے اپنی
قوم کی فکر الحق ہوتی ہے جو مشرق میں زبوں حالی ،زوال پسندی اور ذلت کا شکار ہے یہ قوم شدید
بحران میں گھری ہوئی اس حالت تک پہنچ گئی ہے جہاں جینے اور مرنے کے درمیان فاصلہ باقی نہیں رہا۔
راشد کے فرد کی ذات سے اجتماع کی طرف مراجعت ان کے سیاسی و سماجی شعور کو واضح کرتی ہے اور
ان کے کالم میں قوم کے سیاسی سماجی زوال ،غربت و افالس ،ذلت و بے بسی کے خالف ایک ردعمل پیدا
ہوتا ہے جو سامراج دشمن رجحانات کی تشکیل کرتا ہے کیونکہ راشد ان حاالت کا ذمہ دار انگریز سامراج کو
سمجھتا ہے جس نے پورے مشرق پر اپنا تسلط قائم کرکے انھیں ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے۔
راشد کے اسی سیاسی اور سماجی شعور کی وجہ سے انھیں بعض ناقدین نے ترقی پسند شعراء میں شامل
کر رکھا ہے۔ ڈاکٹر آفتاب احمد نے راشد کو کئی مقامات پر ترقی پسند شاعرکا خطاب دیا ہے اور لکھا ہے ۔
گردو پیش کی دنیا کے معاشرتی اور سیاسی مسائل سے انہماک ان کی نمایاں خصوصیت ہے جس میں وہ
کسی ترقی پسند شاعر سے پیچھے نہیں۔ ( )۱ڈاکٹر آفتاب احمد کا خیال ہے کہ ترقی پسند تحریک سے راشد
کو اختالف ضرور تھا کیونکہ وہ مصنفین کی کسی تحریک ،کسی خاص سیاسی نظریے کی پیروی کو
مناسب نہیں سمجھتے تھے ۔ ان کے خیال میں شاعر کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف اپنے ویژن کو پیش نظر
رکھے ۔ گو ترقی پسند تحریک کے بنیادی تصور ادیب کی سماجی ذمہ داری سے انھیں اختالف نہیں تھا()۲
ڈاکٹر آفتاب احمد کی یہ بات درست ہے کہ راشد ترقی پسند تحریک کی مخصوص نظریے سے وابستگی کی
بنیاد پر اختالف رکھتے تھے لیکن ادیب کی سماجی ذمہ داری سے انہوں نے کبھی انکار نہیں کیا۔ اس کی
گواہی ان کی شاعری بھی دیتی ہے ۔ ڈاکٹر عزیز ابن الحسن نے راشد کے حوالے سے یہ سوال اٹھایا ہے کہ
راشد ایک ترقی پسند شاعر تھے یا جدیدیت پسند ۔ انہوں نے راشد کی شاعری میں دونوں تحریکوں کے
نقوش تالش کیے ہیں۔ سیاسی و سماجی مزاج کے حوالے سے انھیں ترقی پسند شاعر قرار دیا ہے اور فنی
شعور کے لحاظ سے جدیدیوں میں شمار کیا ہے لیکن ان کی شاعری کی بنیادمیں جماعتی نظریہ سے
علیحدگی اور اپنی انفرادیت قائم رکھنے کے رجحان کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے ( )۳مظفر علی سید نے
وارث علوی کی اس رائے سے اتفاق کیا ہے کہ اشراکیوں سے برابر اختالف کے باوجود راشد کا نئے جہان کا
تصور اتنا ہی مادی اور سیکولر ہے جتنا اشتراکیوں کا( )۴فن کے بارے میں راشد کا تصور بھی ترقی
پسندوں سے ملتا جلتا تھا وہ ہئیتوں کی تبدیلی کو بڑا کارنامہ نہیں سمجھتے ۔ ان کے نزدیک خیاالت میں
اجتہاد فن میں اجتہاد سے زیادہ ضروری چیز ہے وہ مواد اور خیاالت کی اہمیت کے قائل تھے ۔ اور فن کو
فکر کے بیان کرنے کا محض ایک وسیلہ سمجھتے تھے۔ مقصدیت کا یہ تصور ترقی پسندوں کے نقطہ نظر کے
قریب ہے ادیب کی سماجی ذمہ داری کا ِا حساس ان کی شاعری میں آخری مرحلے تک قائم رہا اسی ِا حساس
کی وجہ سے وہ خاکسارتحریک میں شامل ہوئے ۔ اور اس تحریک کو مسلمانوں کے لیے نجات کا ایک سبب
سمجھتے تھے ۔ ۱۹۳۸ء میں آغا عبدالحمید کے لکھے گئے ایک خط کے متن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس تحریک
کو مسلمانوں کے لیے نجات کا ایک سبب سمجھتے تھے۔ مگر اس تحریک کے امرانہ طرز عمل کو دیکھ کر اس
سے علیحدہ ہو گئے()۵
راشد کے شعری نظریے میں سماجی ذمہ داری کا احساس شروع سے موجود تھا جس نے ان کی شاعری میں
سیاسی و سماجی موضوعات سے رغبت پیدا کی ۔ دراصل راشد کی شاعری کے تخلیقی عروج کا زمانہ دنیا
میں استعماری قوتوں کے درمیان کشمکش کا زمانہ تھا ۔ ہندوستان میں سیاسی سطح پرشکست و ریخت کا
سلسلہ آخری انتہاؤں تک پہنچ چکا تھا ۔ سامراج ایشیاء اور افریقہ کے پس ماندہ ممالک کے وسائل پرقابض
تھا اور اس کی لوٹ کھسوٹ کی پالیسی نے ان ملکوں کی معیشت کو تباہ کر رکھا تھا۔ ہندوستان میں ان کے
جبر و تسلط کا نظام اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو چکا تھا۔ اور ملک میں استعمار مخالف تحریکیں
مضبوط ہو رہی تھیں۔ ہندوستان کی طرح دیگر مشرقی ممالک استعمار کے جبر و تسلط کا شکار تھے۔ راشد
نے ہندوستان کے آئینے میں مشرقی ممالک پرہونے والے جبر و ستم کو دیکھا اور مشرق و مغرب کی آویزش
کا مطالعہ ایک دانشور کی نظر سے کیا یہی وہ زمانہ تھا جب ان کے پہلے شعری مجموعہ ’’ماوراء‘‘ کی
اشاعت ہوئی۔ اور اس میں انہوں نے اپنے سیاسی و سماجی شعور کی بالیدگی کو پیش کیا اور مشرق
پرمغرب کے مظالم کا تجزیہ کرتے ہوئے مشرق کو ایک سیاسی وحدت کی صورت میں منقش کیا ۔ مشرق کا
ایک تصور دیا۔ جو پس ماندگی ،بے بسی ،بے چارگی اور ذلت کا شکار ہے۔ اور اس کی خامیاں اس کی آزادی
کے سلب ہونے کی وجہ بنیں۔
ڈاکٹر آفتاب احمد کے مطابق راشد مشرق کے زوال کا سبب مشرق کی روایات کو قرار دیتے ہیں۔ اس میں
بڑی وجہ ماضی سے اہل مشرق کی وابستگی ہے جس نے مشرق کے فرد کو اپنے زمانے کے تقاضوں سے منسلک
ہونے نہیں دیا۔ ماضی کا احساس راشد کے شعور کا ایک حصہ ہے۔ راشد کے خیال میں یاِد ماضی کی
تصویریں مشرق کی زبوں حالی اور پس ماندگی کے ِا حساس کا پرتو ہیں۔ مشرق کی زبوں حالی اور پس
ماندگی کا ایک سبب وہ مغرب کی ستم گری کو سمجھتے ہیں لیکن دوسرے اسباب میں مشرق کے قدیم
فلسفہ حیات اس کے تصوف ،اس کی درویشی اوہام پرستی اور قدامت پستی کا ذکر کرتے ہیں ( )۶ڈاکٹر
عقیل احمد صدیقی کے مطابق راشد کے نزدیک مشرق کی اصل خرابی کی جڑ وہ عقیدہ ہے جس کی رو سے
انسان کے سارے اعمال و افعال خدا کی مرضی سے طے ہوتے ہیں ( )۷ن ۔ م راشد نے مغرب کی مخالفت میں
مشرق کا ایک مخصوص تصور پیش کیا ۔ اور مشرق کے تحفظ کی ذمہ داری قبول کی ۔ تاکہ مشرق کو ایک
نئی بصیریت عطا کر کے مغرب کے ظلم سے نجات کا سبب تالش کیا جاسکے ۔ اور مشرق کی بیماریوں کا
عالج کرکے اسے زندگی کے نئے تقاضوں سے آراستہ کیا جاسکے۔ راشد کا تصوِر مشرق اقبال اور اس سے ملتی
جلتی فکر رکھنے والے شعراء سے مختلف ہے اقبال کی مغرب سے لڑائی صرف سیاسی نہیں تھی بلکہ تہذیبی
اور مذہبی بھی تھی۔ راشد کی مغرب سے لڑائی صرف سیاسی اور اقتصادی ہے وہ تہذیبی سطح پر جس
نظام کی حمایت کرتے ہیں وہ بڑی حد تک مغرب کا تشکیل کردہ نظام ہے اور مشرق کو اس نظام کا پروردہ
بنا کر اسے طاقت و توانائی دینا چاہتے ہیں تاکہ مغرب کے ظلم کا ازالہ کیا جاسکے ۔ انہوں نے اپنی نظم ’’
اجنبی عورت ‘‘ میں مشرق کی انفرادیت جو مذہب اور تہذیب کی بنیاد پر قائم تھی اسے ختم ہوتے دکھایا
ہے اورپوری دنیا کو ایک جدید تہذیب میں سمٹتے ہوئے دکھایا ہے ۔ اجنبی عورت میں لکھتے ہیں۔
ارِض مشرق ،ایک مبہم خوف سے لرزاں ہوں میں
آج ہم کو جن تمناؤں کی حرمت کے سبب
دشمنوں کا سامنا مغرب کے میدانوں میں ہے
ُا ن کا مشرق میں نشاں تک بھی نہیں)۸(
لیکن فتح محمد ملک کا خیال ہے کہ راشد کا مشرق کے خدا سے انکار اور اسے پردہ نسیاں سے وابستہ کرنے
کا رجحان دراصل مالئے حزیں پر طنز ہے یہ طرِز فکر اسالم سے برگشتگی کا نہیں وابستگی کا ثبوت ہے ۔ یہ
روایت اقبال کے یہاں بھی موجود ہے()۹
ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے بھی اپنی کتاب ’’ ال=راشد کے ایک مضمون ’’راشد کے تہذیبی الشعور ‘‘ ( )۱۰میں
بھی راشد کے ذہن کی ایک کشمکش کا ذکر کیا ہے جو قدیم اور جدید زندگی کے درمیان موجود تھی۔ کیونکہ
بظاہر انہوں نے مشرق کی قدیم روایات سے انکار کیا لیکن کردار ،استعارے اور عالمتیں اس تہذیب کی قدیم
روایات سے اخذ کیں۔
ان تمام باتوں کے احترام کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ راشد اپنے اردگرد پھیلی ہوئی نئی زندگی اور اس کے
مسائل کا ادراک رکھتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ مشرق کے افراد کی نجات اس میں ہے کہ وہ پرانی روایات
سے زیادہ نئی زندگی کی بصیرت کو سمجھنے کی کوشش کریں اور نئے شعور کی روشنی میں اپنی منزل کا
تعین کریں۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو مضبوط بھی کر سکتے ہیں اور جس تناسب سے وہ خود کو مستحکم
کریں گے اسی تناسب سے مغربی جبر سے نجات حاصل کر پائیں گے ۔ کیونکہ وہ اقبال کے نظریہ طاقت کے
حامی تھے اور ان کا بھی یہی خیال تھا کہ ’’ ہے جرِم ضعیفی کی سزا مرِگ مفاجات‘‘ انہوں نے اپنی بہترین
نظموں ’’ شاعر درماندہ‘‘ اور ’’دریچے کے قریب ‘‘ میں مشرق کی جن خامیوں کی طرف اشارہ کیا ہے وہی ان
کے خیال میں مغرب کے ظلم و جبر کی بنیاد ہیں۔ ان کاخیال ہے کہ اگر مغرب کے ان مظالم سے نجات حاصل
کرنی ہے تو ان خامیوں پرقابو پانا ضرور ی ہے۔ امجد طفیل کے خیال میں راشد نے نظم ’’ شاعر درماندہ ‘‘
میں جس بنیادی مسئلہ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ مشرق و مغرب کی آویزش سے متعلق ہے اور اس صورت
حال کا تجزیہ کیا ہے جو استعماری رویوں کے باعث شاعر کے باطن میں بحران پیدا کرتی ہے۔ یہ احتجاج ان
کے خیال میں خدا کے خالف نہیں بلکہ زوال اور شکستگی کے خالف ہے ( )۱۱راشد مشرق کی غالمی کے
خالف شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ اس غالمی کے اسباب میں مشرق کی بعض خامیوں کا ذکر کرتے ہیں
جس نے ترقی کو تنزل میں بدل دیا۔ جس کی بڑی ذمہ داری مالئے حزیں پر عائد کی گئی ہے جو راشد کے
کالم میں ایک بڑی عالمت ہے اور تین سو سال کی ذلت کا نشان ہے۔ راشد کے نزدیک اسی نام نہاد مذہبی و
تہذیبی نظام کی کمزوری نے مشرق کو اس حال تک پہنچایا ہے ۔ راشد نے مشرق کی جس روح کو اس کی
خامیوں کے باعث قریب المرگ دکھایا ہے کرشن چندر نے اس کے بارے میں لکھا ہے :
’’اس کے خیال میں ارِض مشرق کی روح اگر مر نہیں چکی تو قریبِ مرگ ضرور ہے۔ مشرقی نظام فرسودہ
ہو چکا ہے ۔ اس کا مذہب اس کا تمدن اب آخری ہچکیاں لے رہا ہے ۔۔۔۔ راشد سمجھتا ہے کہ اب اس بیمار کے
اچھا ہونے کی کوئی امید نہیں۔ اب اسے مر ہی جانا چاہیے۔ راشد کو مشرق کی موت ناگزیر نظرآتی ہے لیکن
اسے اس کا سسک سسک کر مرنا بہت ناگوار ہے ۔۔۔ اجتماعی طور پر دریچے کے قریب ارِض مشرق کی موت
کی خواہش کا بہترین اظہار ہے ۔‘‘()۱۲
لیکن راشد اس موت کو نئی زندگی کا پیش خیمہ سمجھتا ہے اور پرانے نظام کے خاتمے سے نئے نظام کی
امید رکھتا ہے ۔ وہ ٹمٹماتی ہوئی خودی کی قندیل سے نئی توقعات وابستہ کرتا ہے۔ یہ توقعات ارِض شرق
کی بیداری کی ہیں جن کے نقوش راشد نے ’’ایران میں اجنبی‘‘ کی نظموں میں پیش کیے ہیں۔ شاعر درماندہ
اور ’’دریچے کے قریب ‘‘ میں مشرق کی مفلوک الحالی اور اس پر مغرب کے ظلم کے خالف نفرت کا اظہار
کرتے ہوئے ارض مشرق کی بیداری کی توقعات وابستہ کی ہیں۔
زندگی تیرے لیے بستر و سنجاب و سمور
اور میرے لیے افرنگ کی دریوزہ گری
عاقبت کوشٔی آبا کے طفیل
میں ہوں درماندہ و بے چارہ ادیب
خستۂ فکِر معاش
پارۂ نانِ جویں کے لیے محتاج ہیں ہم
میں ،مرے دوست ،مرے سینکڑوں ارباِب وطن
یعنی افرنگ کے گلزاروں کے پھول
اے مری شمٔع شبستانِ وفا
بھول جا میرے لیے
زندگی خواب کی آسودہ فراموشی ہے
تجھے معلوم ہے مشرق کا خداکوئی نہیں
اور اگر ہے ،تو سرا پردۂ نسیان میں ہے
تو مسرت ہے ،مری تو مری بیداری ہے
مجھے آغوش میں لے
دو انا مل کے جہاں سوز بنیں
اور جس عہد کی ہے تجھ کو دعاؤں میں تالش
آ پ ہی آپ ہویدا ہو جائے ( شاعِر درماندہ ) ()۱۳
پرنٹ کیجئِے اوپر جائیں |