Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 18

‫خیابان کو دوسری زبانوں میں مشینی ترجمہ کر کے پڑھنے کے لیے کلک کریں۔‬

‫▼ ​ ‪Select Language‬‬
‫‪ ‬‬

‫ن۔ م۔ راشد کے فرد پر مشرق اور مغرب کی کشمکش کے اثرات‬


‫ڈاکٹرسہیل احمد‬

‫‪ABSTRACT‬‬
‫‪THE Literatures of the world talks about human societies, cultures and‬‬
‫‪religions, generally. They discuss problems of the individuals and their psyche‬‬
‫‪particularly. Rashid is one of the great poets of Urdu poetry and especially in‬‬
‫‪free verse. In his poetry the collision of east and west could be observed clearly.‬‬
‫‪In this research paper the researcher has discussed about this mental clash‬‬
‫‪which is natural due to the new flow of thoughts from west to east in the‬‬
‫‪twentieth century ,The east resists against it or accept these thoughts is the key‬‬
‫‪. point of discussion in this research paper‬‬
‫ترقی پسند نظم اور جدید نظم میں سیاسی وسماجی افکار کے بیان کی نوعیت مختلف ہے ترقی پسند شاعر‬
‫اجتماعی نقطہ نظر کے ماتحت براہ راست انداز میں سیاسی و سماجی افکار کی تشکیل کرتے ہیں جب کہ‬
‫جدید نظم نگار شاعر انسان کا آفاقی تصور ذہن میں رکھتے ہوئے سیاسی وسماجی حاالت کے اثرات فرد پر‬
‫مرتب کرتے ہوئے فرد کی نفسیات اور اس کے احساس شکست کی روشنی میں سیاسی وسماجی افکار پیش‬
‫کرتے ہیں۔ اس طرح استعمار مخالف رجحانات میں بھی ان کا تصور ترقی پسندوں سے مختلف ہے انہوں نے‬
‫استعماری ظلم وجبر اور ان کے نافذ کردہ نظام کی بنیادی صورتوں کو فرد کے حوالے سے پیش کیا ہے۔‬
‫ن ۔ م راشد کی شاعری کا اگر چہ سیاسیات وسماجیات سے گہرا تعلق ہے لیکن انہوں نے ان افکار کا اظہار فرد‬
‫کے حوالے سے کیا ہے اور تقسیم کے قبل کے ہندوستان پر استعماری ظلم وجبر اور ان کے نافذ کردہ نظام کی‬
‫منفی صورتوں کو فرد کی نفسیات اور اس کے احساس شکست کے حوالے سے پیش کیا ہے اور اسی تناظر‬
‫میں مشرق ومغرب کے مابین ہونے والی کشمکش اور مشرق ومغرب کے مخصوص تصورات کو اجاگر کیا ہے‬
‫ان کا تصور مشرق ومغرب سیکولر حوالوں سے تشکیل پاتا ہے اور مذہب سے ہٹ کر وہ ان اکائیوں کی تفہیم‬
‫کرتے ہیں اس لیے ان کا نقطہ نظر اقبال سے مختلف ہے کسی مخصوص جماعت یا نظریے سے منسلک نہ رہنے‬
‫اور انسان اور اس کے احساسات آزادی فکر کے ساتھ پیش کرنے کے باعث ان کا رویہ ترقی پسندوں سے ہم‬
‫آہنگ ہونے کے باوجود ان سے الگ ہوجاتا ہے۔‬
‫ن ۔ م راشد کی شاعری کا آغاز فرد کے رومانی احساس سے ہوا۔ ان کا ابتدائی فرد بے اطمینانی اور بے سکونی‬
‫کا شکار ہے اور بے چینی کے ازالے کے لیے وہ پناہ گاہ کی تال ش میں ہے وہ خیالوں کی بستی ‪ ،‬مناظر فطرت‬
‫اور حسین وادیوں میں گم ہونے کے خواب دیکھتا ہے اس ابتدائی فرد کے احساسات رومانی فکر سے جڑے‬
‫ہوئے ہیں اس کے مسائل ابتدائی نظموں میں ذاتی دکھائی دیتے ہیں مگر یہ فرد اپنی ذات کی بے اطمینانی‬
‫سے ہوتاہوا سماج کی طرف بڑھتا ہے اور اس کے ذاتی دکھ سماج کے دکھوں سے مل جاتے ہیں اور اسے اپنی‬
‫قوم کی فکر الحق ہوتی ہے جو مشرق میں زبوں حالی ‪ ،‬زوال پسندی اور ذلت کا شکار ہے یہ قوم شدید‬
‫بحران میں گھری ہوئی اس حالت تک پہنچ گئی ہے جہاں جینے اور مرنے کے درمیان فاصلہ باقی نہیں رہا۔‬
‫راشد کے فرد کی ذات سے اجتماع کی طرف مراجعت ان کے سیاسی و سماجی شعور کو واضح کرتی ہے اور‬
‫ان کے کالم میں قوم کے سیاسی سماجی زوال ‪ ،‬غربت و افالس ‪ ،‬ذلت و بے بسی کے خالف ایک ردعمل پیدا‬
‫ہوتا ہے جو سامراج دشمن رجحانات کی تشکیل کرتا ہے کیونکہ راشد ان حاالت کا ذمہ دار انگریز سامراج کو‬
‫سمجھتا ہے جس نے پورے مشرق پر اپنا تسلط قائم کرکے انھیں ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا ہے۔‬
‫راشد کے اسی سیاسی اور سماجی شعور کی وجہ سے انھیں بعض ناقدین نے ترقی پسند شعراء میں شامل‬
‫کر رکھا ہے۔ ڈاکٹر آفتاب احمد نے راشد کو کئی مقامات پر ترقی پسند شاعرکا خطاب دیا ہے اور لکھا ہے ۔‬
‫گردو پیش کی دنیا کے معاشرتی اور سیاسی مسائل سے انہماک ان کی نمایاں خصوصیت ہے جس میں وہ‬
‫کسی ترقی پسند شاعر سے پیچھے نہیں۔ (‪ )۱‬ڈاکٹر آفتاب احمد کا خیال ہے کہ ترقی پسند تحریک سے راشد‬
‫کو اختالف ضرور تھا کیونکہ وہ مصنفین کی کسی تحریک ‪ ،‬کسی خاص سیاسی نظریے کی پیروی کو‬
‫مناسب نہیں سمجھتے تھے ۔ ان کے خیال میں شاعر کے لیے ضروری ہے کہ وہ صرف اپنے ویژن کو پیش نظر‬
‫رکھے ۔ گو ترقی پسند تحریک کے بنیادی تصور ادیب کی سماجی ذمہ داری سے انھیں اختالف نہیں تھا(‪)۲‬‬
‫ڈاکٹر آفتاب احمد کی یہ بات درست ہے کہ راشد ترقی پسند تحریک کی مخصوص نظریے سے وابستگی کی‬
‫بنیاد پر اختالف رکھتے تھے لیکن ادیب کی سماجی ذمہ داری سے انہوں نے کبھی انکار نہیں کیا۔ اس کی‬
‫گواہی ان کی شاعری بھی دیتی ہے ۔ ڈاکٹر عزیز ابن الحسن نے راشد کے حوالے سے یہ سوال اٹھایا ہے کہ‬
‫راشد ایک ترقی پسند شاعر تھے یا جدیدیت پسند ۔ انہوں نے راشد کی شاعری میں دونوں تحریکوں کے‬
‫نقوش تالش کیے ہیں۔ سیاسی و سماجی مزاج کے حوالے سے انھیں ترقی پسند شاعر قرار دیا ہے اور فنی‬
‫شعور کے لحاظ سے جدیدیوں میں شمار کیا ہے لیکن ان کی شاعری کی بنیادمیں جماعتی نظریہ سے‬
‫علیحدگی اور اپنی انفرادیت قائم رکھنے کے رجحان کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے (‪ )۳‬مظفر علی سید نے‬
‫وارث علوی کی اس رائے سے اتفاق کیا ہے کہ اشراکیوں سے برابر اختالف کے باوجود راشد کا نئے جہان کا‬
‫تصور اتنا ہی مادی اور سیکولر ہے جتنا اشتراکیوں کا( ‪  )۴‬فن کے بارے میں راشد کا تصور بھی ترقی‬
‫پسندوں سے ملتا جلتا تھا وہ ہئیتوں کی تبدیلی کو بڑا کارنامہ نہیں سمجھتے ۔ ان کے نزدیک خیاالت میں‬
‫اجتہاد فن میں اجتہاد سے زیادہ ضروری چیز ہے وہ مواد اور خیاالت کی اہمیت کے قائل تھے ۔ اور فن کو‬
‫فکر کے بیان کرنے کا محض ایک وسیلہ سمجھتے تھے۔ مقصدیت کا یہ تصور ترقی پسندوں کے نقطہ نظر کے‬
‫قریب ہے ادیب کی سماجی ذمہ داری کا ِا حساس ان کی شاعری میں آخری مرحلے تک قائم رہا اسی ِا حساس‬
‫کی وجہ سے وہ خاکسارتحریک میں شامل ہوئے ۔ اور اس تحریک کو مسلمانوں کے لیے نجات کا ایک سبب‬
‫سمجھتے تھے ۔ ‪۱۹۳۸‬ء میں آغا عبدالحمید کے لکھے گئے ایک خط کے متن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس تحریک‬
‫کو مسلمانوں کے لیے نجات کا ایک سبب سمجھتے تھے۔ مگر اس تحریک کے امرانہ طرز عمل کو دیکھ کر اس‬
‫سے علیحدہ ہو گئے(‪)۵‬‬
‫راشد کے شعری نظریے میں سماجی ذمہ داری کا احساس شروع سے موجود تھا جس نے ان کی شاعری میں‬
‫سیاسی و سماجی موضوعات سے رغبت پیدا کی ۔ دراصل راشد کی شاعری کے تخلیقی عروج کا زمانہ دنیا‬
‫میں استعماری قوتوں کے درمیان کشمکش کا زمانہ تھا ۔ ہندوستان میں سیاسی سطح پرشکست و ریخت کا‬
‫سلسلہ آخری انتہاؤں تک پہنچ چکا تھا ۔ سامراج ایشیاء اور افریقہ کے پس ماندہ ممالک کے وسائل پرقابض‬
‫تھا اور اس کی لوٹ کھسوٹ کی پالیسی نے ان ملکوں کی معیشت کو تباہ کر رکھا تھا۔ ہندوستان میں ان کے‬
‫جبر و تسلط کا نظام اپنے آخری مرحلے میں داخل ہو چکا تھا۔ اور ملک میں استعمار مخالف تحریکیں‬
‫مضبوط ہو رہی تھیں۔ ہندوستان کی طرح دیگر مشرقی ممالک استعمار کے جبر و تسلط کا شکار تھے۔ راشد‬
‫نے ہندوستان کے آئینے میں مشرقی ممالک پرہونے والے جبر و ستم کو دیکھا اور مشرق و مغرب کی آویزش‬
‫کا مطالعہ ایک دانشور کی نظر سے کیا یہی وہ زمانہ تھا جب ان کے پہلے شعری مجموعہ ’’ماوراء‘‘ کی‬
‫اشاعت ہوئی۔ اور اس میں انہوں نے اپنے سیاسی و سماجی شعور کی بالیدگی کو پیش کیا اور مشرق‬
‫پرمغرب کے مظالم کا تجزیہ کرتے ہوئے مشرق کو ایک سیاسی وحدت کی صورت میں منقش کیا ۔ مشرق کا‬
‫ایک تصور دیا۔ جو پس ماندگی ‪ ،‬بے بسی ‪ ،‬بے چارگی اور ذلت کا شکار ہے۔ اور اس کی خامیاں اس کی آزادی‬
‫کے سلب ہونے کی وجہ بنیں۔‬
‫ڈاکٹر آفتاب احمد کے مطابق راشد مشرق کے زوال کا سبب مشرق کی روایات کو قرار دیتے ہیں۔ اس میں‬
‫بڑی وجہ ماضی سے اہل مشرق کی وابستگی ہے جس نے مشرق کے فرد کو اپنے زمانے کے تقاضوں سے منسلک‬
‫ہونے نہیں دیا۔ ماضی کا احساس راشد کے شعور کا ایک حصہ ہے۔ راشد کے خیال میں یاِد ماضی کی‬
‫تصویریں مشرق کی زبوں حالی اور پس ماندگی کے ِا حساس کا پرتو ہیں۔ مشرق کی زبوں حالی اور پس‬
‫ماندگی کا ایک سبب وہ مغرب کی ستم گری کو سمجھتے ہیں لیکن دوسرے اسباب میں مشرق کے قدیم‬
‫فلسفہ حیات اس کے تصوف ‪ ،‬اس کی درویشی اوہام پرستی اور قدامت پستی کا ذکر کرتے ہیں (‪ )۶‬ڈاکٹر‬
‫عقیل احمد صدیقی کے مطابق راشد کے نزدیک مشرق کی اصل خرابی کی جڑ وہ عقیدہ ہے جس کی رو سے‬
‫انسان کے سارے اعمال و افعال خدا کی مرضی سے طے ہوتے ہیں (‪ )۷‬ن ۔ م راشد نے مغرب کی مخالفت میں‬
‫مشرق کا ایک مخصوص تصور پیش کیا ۔ اور مشرق کے تحفظ کی ذمہ داری قبول کی ۔ تاکہ مشرق کو ایک‬
‫نئی بصیریت عطا کر کے مغرب کے ظلم سے نجات کا سبب تالش کیا جاسکے ۔ اور مشرق کی بیماریوں کا‬
‫عالج کرکے اسے زندگی کے نئے تقاضوں سے آراستہ کیا جاسکے۔ راشد کا تصوِر مشرق اقبال اور اس سے ملتی‬
‫جلتی فکر رکھنے والے شعراء سے مختلف ہے اقبال کی مغرب سے لڑائی صرف سیاسی نہیں تھی بلکہ تہذیبی‬
‫اور مذہبی بھی تھی۔ راشد کی مغرب سے لڑائی صرف سیاسی اور اقتصادی ہے وہ تہذیبی سطح پر جس‬
‫نظام کی حمایت کرتے ہیں وہ بڑی حد تک مغرب کا تشکیل کردہ نظام ہے اور مشرق کو اس نظام کا پروردہ‬
‫بنا کر اسے طاقت و توانائی دینا چاہتے ہیں تاکہ مغرب کے ظلم کا ازالہ کیا جاسکے ۔ انہوں نے اپنی نظم ’’‬
‫اجنبی عورت ‘‘ میں مشرق کی انفرادیت جو مذہب اور تہذیب کی بنیاد پر قائم تھی اسے ختم ہوتے دکھایا‬
‫ہے اورپوری دنیا کو ایک جدید تہذیب میں سمٹتے‪  ‬ہوئے دکھایا ہے ۔ اجنبی عورت میں لکھتے ہیں۔‬
‫ارِض مشرق ‪ ،‬ایک مبہم خوف سے لرزاں ہوں میں‬
‫آج ہم کو جن تمناؤں کی حرمت کے سبب‬
‫دشمنوں کا سامنا مغرب کے میدانوں میں ہے‬
‫ُا ن کا مشرق میں نشاں تک بھی نہیں‪)۸(  ‬‬
‫لیکن فتح محمد ملک کا خیال ہے کہ راشد کا مشرق کے خدا سے انکار اور اسے پردہ نسیاں سے وابستہ کرنے‬
‫کا رجحان دراصل مالئے حزیں پر طنز ہے یہ طرِز فکر اسالم سے برگشتگی کا نہیں وابستگی کا ثبوت ہے ۔ یہ‬
‫روایت اقبال کے یہاں بھی موجود ہے(‪)۹‬‬
‫ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے بھی اپنی کتاب ’’ ال=راشد کے ایک مضمون ’’راشد کے تہذیبی الشعور ‘‘ (‪ )۱۰‬میں‬
‫بھی راشد کے ذہن کی ایک کشمکش کا ذکر کیا ہے جو قدیم اور جدید زندگی کے درمیان موجود تھی۔ کیونکہ‬
‫بظاہر انہوں نے مشرق کی قدیم روایات سے انکار کیا لیکن کردار ‪ ،‬استعارے اور عالمتیں اس تہذیب کی قدیم‬
‫روایات سے اخذ کیں۔‬
‫ان تمام باتوں کے احترام کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ راشد اپنے اردگرد پھیلی ہوئی نئی زندگی اور اس کے‬
‫مسائل کا ادراک رکھتے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ مشرق کے افراد کی نجات اس میں ہے کہ وہ پرانی روایات‬
‫سے زیادہ نئی زندگی کی بصیرت کو سمجھنے کی کوشش کریں اور نئے شعور کی روشنی میں اپنی منزل کا‬
‫تعین کریں۔ اس طرح وہ اپنے آپ کو مضبوط بھی کر سکتے ہیں اور جس تناسب سے وہ خود کو مستحکم‬
‫کریں گے اسی تناسب سے مغربی جبر سے نجات حاصل کر پائیں گے ۔ کیونکہ وہ اقبال کے نظریہ طاقت کے‬
‫حامی تھے اور ان کا بھی یہی خیال تھا کہ ’’ ہے جرِم ضعیفی کی سزا مرِگ مفاجات‘‘ انہوں نے اپنی بہترین‬
‫نظموں ’’ شاعر درماندہ‘‘ اور ’’دریچے کے قریب ‘‘ میں مشرق کی جن خامیوں کی طرف اشارہ کیا ہے وہی ان‬
‫کے خیال میں مغرب کے ظلم و جبر کی بنیاد ہیں۔ ان کاخیال ہے کہ اگر مغرب کے ان مظالم سے نجات حاصل‬
‫کرنی ہے تو ان خامیوں پرقابو پانا ضرور ی ہے۔ امجد طفیل کے خیال میں راشد نے نظم ’’ شاعر درماندہ ‘‘‬
‫میں جس بنیادی مسئلہ کی طرف اشارہ کیا ہے وہ مشرق و مغرب کی آویزش سے متعلق ہے اور اس صورت‬
‫حال کا تجزیہ کیا ہے جو استعماری رویوں کے باعث شاعر کے باطن میں بحران پیدا کرتی ہے۔ یہ احتجاج ان‬
‫کے خیال میں خدا کے خالف نہیں بلکہ زوال اور شکستگی کے خالف ہے (‪ )۱۱‬راشد مشرق کی غالمی کے‬
‫خالف شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔ اس غالمی کے اسباب میں مشرق کی بعض خامیوں کا ذکر کرتے ہیں‬
‫جس نے ترقی کو تنزل میں بدل دیا۔ جس کی بڑی ذمہ داری مالئے حزیں پر عائد کی گئی ہے جو راشد کے‬
‫کالم میں ایک بڑی عالمت ہے اور تین سو سال کی ذلت کا نشان ہے۔ راشد کے نزدیک اسی نام نہاد مذہبی و‬
‫تہذیبی نظام کی کمزوری نے مشرق کو اس حال تک پہنچایا ہے ۔ راشد نے مشرق کی جس روح کو اس کی‬
‫خامیوں کے باعث قریب المرگ دکھایا ہے کرشن چندر نے اس کے بارے میں لکھا ہے ‪:‬‬
‫’’اس کے خیال میں ارِض مشرق کی روح اگر مر نہیں چکی تو قریبِ مرگ ضرور ہے۔‪  ‬مشرقی نظام فرسودہ‬
‫ہو چکا ہے ۔ اس کا مذہب اس کا تمدن اب آخری ہچکیاں لے رہا ہے ۔۔۔۔‪  ‬راشد سمجھتا ہے کہ اب اس بیمار کے‬
‫اچھا ہونے کی کوئی امید نہیں۔ اب اسے مر ہی جانا چاہیے۔ راشد کو مشرق کی موت ناگزیر نظرآتی ہے لیکن‬
‫اسے اس کا سسک سسک کر مرنا بہت ناگوار ہے ۔۔۔ اجتماعی طور پر دریچے کے قریب ارِض مشرق کی موت‬
‫کی خواہش کا بہترین اظہار ہے ۔‘‘(‪)۱۲‬‬
‫لیکن راشد اس موت کو نئی زندگی کا پیش خیمہ سمجھتا ہے اور پرانے نظام کے خاتمے سے نئے نظام کی‬
‫امید رکھتا ہے ۔ وہ ٹمٹماتی ہوئی خودی کی قندیل سے نئی توقعات وابستہ کرتا ہے۔ یہ توقعات ارِض شرق‬
‫کی بیداری کی ہیں جن کے نقوش راشد نے ’’ایران میں اجنبی‘‘ کی نظموں میں پیش کیے ہیں۔ شاعر درماندہ‬
‫اور ’’دریچے کے قریب ‘‘ میں مشرق کی مفلوک الحالی اور اس پر مغرب کے ظلم کے خالف نفرت کا اظہار‬
‫کرتے ہوئے ارض مشرق کی بیداری کی توقعات وابستہ کی ہیں۔‬
‫زندگی تیرے لیے بستر و سنجاب و سمور‬
‫اور میرے لیے افرنگ کی دریوزہ گری‬
‫عاقبت کوشٔی آبا کے طفیل‬
‫میں ہوں درماندہ و بے چارہ ادیب‬
‫خستۂ فکِر معاش‬
‫پارۂ نانِ جویں کے لیے محتاج ہیں ہم‬
‫میں ‪ ،‬مرے دوست ‪ ،‬مرے سینکڑوں ارباِب وطن‬
‫یعنی افرنگ کے گلزاروں کے پھول‬
‫اے مری شمٔع شبستانِ وفا‬
‫بھول جا میرے لیے‬
‫زندگی خواب کی آسودہ فراموشی ہے‬
‫تجھے معلوم ہے مشرق کا خداکوئی نہیں‬
‫اور اگر ہے ‪ ،‬تو سرا پردۂ نسیان میں ہے‬
‫تو مسرت ہے ‪ ،‬مری تو مری بیداری ہے‬
‫مجھے آغوش میں لے‬
‫دو‪  ‬انا مل کے جہاں سوز بنیں‬
‫اور جس عہد کی ہے تجھ کو دعاؤں میں تالش‬
‫آ پ ہی آپ ہویدا ہو جائے ‪(                    ‬شاعِر درماندہ ) (‪)۱۳‬‬

‫‪                                           ‬اسی مینار کو دیکھ‬


‫صبح کے نور سے شاداب سہی‬
‫اسی مینار کے سائے تلے کچھ یاد بھی ہے‬
‫اپنے بیکار خدا کی مانند‬
‫اونگھتا ہے کسی تاریک نہاں خانے میں‬
‫ایک افالس کا مارا ہوا مالئے حزیں‬
‫ایک عفریت ۔۔۔ اداس‬
‫تین سو سال کی ذلت کا نشاں‬
‫ایسی ذلت کہ نہیں جس کا مداوا کوئی‬
‫دیکھ بازار میں لوگوں کا ہجوم‬
‫اس میں ہر شخص کے سینے کے کسی گوشے میں‬
‫ایک دلہن سی بنی بیٹھی ہے‬
‫ٹمٹماتی ہوئی ننھی سی خودی کی قندیل‬
‫لیکن اتنی بھی توانائی نہیں‬
‫بڑھ کے ان میں سے کوئی شعلۂ جوالہ بنے ‪(        ‬دریچے کے قریب ) (‪)۱۴‬‬
‫راشد ان نظموں میں افرنگ کے استعماری نظام اور اس کے نتائج کا تجزیہ کرتے ہیں ۔ جس نے مشرق کے‬
‫افراد کے ذہنوں کو جامد کردیا ہے۔ غالمی کے احساس نے توانائی کو زائل کر دیا ہے۔ مجبوری اور محرومی کا‬
‫یہ احساس جو غالمی اور مشرق کی کمزوری کا نتیجہ ہے کسی مثبت نتیجے کی امید نہیں رکھتے بہتری کی‬
‫خواہش ان کی دعاؤں میں موجود ہے ۔ آرزو ایک ٹمٹماتی ہوئی قندیل کی صورت میں بھی ابھر رہی ہے۔‬
‫جس نے اگلی نظموں میں شعلہ جوالہ کی شکل اختیار کی ہے۔‬
‫راشد کی نظم میں مشرق اور مغرب سے متعلق یہ تصورات ان کے تشکیل کردہ فرد کی زبانی پہنچتے ہیں یہ‬
‫فرد ابتدائی نظموں میں ہی بے چین‪ ،‬افسردہ اور محرومی سے دوچار دکھائی دیتا ہے جس کی وجوہات‬
‫انفرادی ہیں۔ لیکن اس انفرادی بے چینی میں معاشرے کے سیاسی طور پر ناہموار ڈھانچے سے پیداہونے والی‬
‫بے چینی مل جاتی ہے اور اس کے انفرادی ِا حساِس محرومی کو اجتماعی دور کی لے ملتی ہے جس سے‬
‫انفرادی اور اجتماعی دکھوں کی لہریں یکجائی اختیار کرلیتی ہیں اور دکھ دو آتشہ ہو جاتا ہے۔ اجتماعی‬
‫دکھوں میں سب سے بڑھ کر ہندوستان میں موجود استعماری نظام ‪ ،‬غالمی اور اس نظام میں شامل ظلم و‬
‫جبر موجود ہے جس کی وجہ سے اس فر د کا ذہن تیزی سے سامراج دشمنی کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ یہ تمام‬
‫بحرانات فرد کی محرومی اور بے چینی میں اضافہ کرتے ہیں جس سے اس کے تناؤ میں شد ت آگئی ہے۔تناؤ‬
‫کی وجوہات میں انفرادی سے زیادہ اجتماعی صور ت داخل ہو جاتی ہے اور یہ فرد استعماری نظام کے خالف‬
‫مزاحمت اختیار کرلیتا ہے اور اپنی بے بسی کا نوحہ رقم کرتا ہے۔ مشرق کی خامیوں پر افسوس کا اظہار‬
‫کرتے ہوئے مغرب کے استعماری نظام کے ظلم و جبر کا بھی تجزیہ کرتا ہے۔ مغرب کے استعماری نظام میں طلم‬
‫و جبر اور رنگ و نسل کے امتیاز کی صورتوں کو راشد نے ’’ اجنبی عورت ‘‘ میں ایک انگریز عورت کے توسط‬
‫سے اجاگر کیا ہے۔ ’’دیواِر ظلم‘‘ ‪ ،‬اور ’’دیواِر رنگ ‘‘ دونوں کو مشرق اور مغرب کے درمیان حائل رکاوٹوں کی‬
‫شکل میں پیش کیا گیاہے۔ ’’دیواِر رنگ ‘‘ اور ’’دیواِر ظلم ‘‘ کی عالمات کے بارے میں ڈاکٹر تبسم کاشمیری‬
‫لکھتے ہیں‪:‬‬
‫’’اجنبی عورت ‘‘ میں ’’دیواِر ظلم ‘‘ اور ’’دیواِر رنگ ‘‘ مشرق و مغرب کے تہذیبی ‪ ،‬سماجی اور سیاسی فرق‬
‫کے تصورات کی عالمتیں ہیں۔ اہل مغرب نے اپنی برتری کے لیے اقوام کو غالم بنایا ۔ ’’دیواِر ظلم ‘‘ اس تصور‬
‫کی عالمت ہے ’’دیواِر رنگ ‘‘ اس نسلی فرق کا اظہار کرتی ہے جو یورپ کے سامراجی ذہن کا حصہ ہے ۔‘‘(‪)۱۵‬‬
‫جبکہ ڈاکٹر فخر الحق نوری کا خیال ہے ‪:‬‬
‫’’انہوں نے ہندوستان کے باشندوں اور ان بدیسی حکمرانوں میں پائی جانے والی رنگ و نسل کی تفریق کو‬
‫مشرق و مغرب کی آویزش کے طور پر بہت جلد محسوس کر لیا تھا ۔ ماوراء کی نظم ’’ اجنبی عورت‘‘ میں‬
‫’’دیواِر رنگ‘‘ اور ’’دیواِر ظلم ‘‘ کے حوالے سے انہوں نے اسی کشاکش اور تفریق کا تذکرہ کیا تھا ۔‘‘(‪)۱۶‬‬
‫میراجی نے اس نظم کے حوالے سے لکھا ہے ‪:‬‬
‫’’اجنبی عورت کے خوابوں کا رومان‪ ،‬جو نظم کے شروع میں ایک انفرادی چیز تھا ۔ نظم کے آخر میں پہنچ کر‬
‫اجتماعی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔ آغاز میں شاید صرف اسی کی ذات ایک آرام کی جگہ تالش کرنا چاہتی‬
‫تھی لیکن انجام تک پہنچ کر اس کے خوابوں کارومان ایک نئی چیز بن جاتا ہے ایک توقع ‪ ،‬جو مغرب کے رہنے‬
‫والوں کو مشرق سے تھی اور اب بھی ہے لیکن اس کے پورا ہونے میں اب مشرق کی طرف سے ایک جھجک‬
‫دکھائی دے رہی ہے۔ مشرق اور مغرب کے درمیان ایک دیوار ظلم حائل ہے ایک دیواِر رنگ حائل ہے ۔‘‘(‪)۱۷‬‬
‫راشد نے اس نظم میں مشرق اور مغرب کے درمیان اتحاد کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے ان کے درمیان حائل‬
‫رکاوٹوں کا ذکر کیا ہے جس میں خاص طور پر دیوار رنگ اور دیواِر ظلم کا تذکرہ کیا گیاہے اور ان عالمات‬
‫کے ذریعے انگریزوں کے نسلی امتیاز اور ظلم و جبرکو بیان کیاگیا ہے۔ اور ان کے ہاتھوں مشرق کی تباہی کا‬
‫نوحہ لکھا گیا ہے۔ جس میں خیابان ‪ ،‬چمن اور اللہ زار کو اجنبی کے دسِت غارت گر سے نوحہ خواں دکھایا‬
‫گیا ہے‪:‬‬
‫ایشیاء کے ُد ور افتادہ شبستانوں میں بھی‬
‫میرے خوابوں کا کوئی روماں نہیں‬
‫کاش ِا ک دیوار ظلم‬
‫میرے ان کے درمیاں حائل نہ ہو‬
‫یہ عماراِت قدیم‬
‫یہ خیاباں ‪ ،‬یہ چمن یہ اللہ زار‬
‫چاندنی میں نوحہ جواں‬
‫اجنبی کے دسِت غارت گر سے ہیں‬
‫کاش اک’’دیوار رنگ‘‘‬
‫میرے ان کے درمیان حائل نہ ہو‪)۱۸(             ‬‬
‫راشد کے فرد کے ذہنی تناؤ کا اس دور میں بڑا سبب مغرب اور مشرق کے درمیان تصادم ہے جس نے ایک ایسا‬
‫استعماری نظام قائم کیاہے جو اہِل مشرق کی ذلت اور بے بسی کا سبب بنا ہے ۔ لٰہ ذا یہ فرد غالمی ‪ ،‬شکست‬
‫اور بے بسی کے حصاروں میں گھرا ہے۔‪  ‬اس کے مسائل انفرادی بھی ہیں اور اجتماعی بھی ۔ یہ ان مسائل کو‬
‫دیکھ سکتا ہے ان کے خالف احتجاج بھی کر سکتا ہے ۔ لیکن ان کا کوئی‪  ‬حل نہیں دریافت کر سکتا ۔ اس لیے‬
‫اس کے سامنے تین راہیں کھلی ہیں۔ فرار ‪ ،‬انتقام اور خود کشی اور یہ کیفیات ماوراء کی نظموں ’’رقص‘‘ ‪’’ ،‬‬
‫شرابی ‘‘ ‪’’ ،‬انتقام ‘‘ اور ’’خود کشی ‘‘ میں ظاہر ہوتی ہیں اس میں انتشار کی وجوہات میں انگریز استعمار‬
‫کی غالمی ‪ ،‬جبراور ظلم کا واضح طورپر ذکر کیاگیا ہے۔ یہ فرد کبھی رقاصہ کی بانہوں میں فرار حاصل کرتا‬
‫ہے کیونکہ اس میں زندگی کا سامنا کرنے کی جرات نہیں کبھی شراب کے نشے میں شرابور ہوتا ہے۔ نشے کے‬
‫عالم میں بھی غالمی کا احساس اس کے ذہن میں کانٹا بن کر کھٹکتا رہتا ہے۔ غالمی اور استعمار کے جبر کی‬
‫خلش نشہ کی حالت میں بھی اسے الحق رہتی ہے ۔‬
‫آج پھر جی بھر کے پی آیا ہوں میں‬
‫دیکھتے ہی تیری آنکھیں شعلہ ساماں ہو گئیں‬
‫شکر کر اے جاں کہ میں‬
‫ہوں دِر افرنگ کا ادنٰی غالم‬
‫صدر اعظم یعنی دریوزہ گراعظم نہیں‬
‫غم سے مر جاتی نہ تو‬
‫آج پی آتا جو میں‬
‫جاِم رنگیں کی بجائے‬
‫بے کسوں اور ناتوانوں کا لہو‪(                    ‬شرابی) (‪)۱۹‬‬
‫یہ فرد کبھی انتقام لیتا ہے ’’انتقام ‘‘ میں اس کی شکست خوردگی بیماری کی حد تک پہنچ جاتی ہے۔ اجنبی‬
‫عورت کے جسم سے انتقام لینے کی یہ روش جو اس نظم میں بیان کی گئی ہے وہ بے بسی اور شکست‬
‫خوردگی کی آخری منزل ہے اور ایک مجبور اور بے بس انسان کی ذہنیت کو بیان کرتی ہے ۔ جس کے پاس‬
‫اپنی تسکین کی کوئی تعمیری راہ باقی نہیں رہ گئی اور اس کی شکست خوردگی اسے انتقام کی اس منزل‬
‫پر لے آتی ہے جہاں آکر بے بسی کی تمام راہیں ختم ہو جاتی ہیں۔ ڈاکٹر وزیر آغا نے غیر ملکی غلبے کے ساتھ‬
‫تخلیق ہونے والی شاعری میں راشد کی شاعری کو نئے انداز کی شاعری قرار دیا ہے۔ جو اکبر اور اقبال کی‬
‫طرح صرف غیر ملکی تسلط کی مذمت نہیں کرتی بلکہ ایک باغی سپاہی کی طرح اپنی قوم پر ہونے والے‬
‫ظلم کا انتقام بھی لیتی ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا کے خیال میں ان کے انتقام کا طریق عجیب ہے اسے راشد کے فرد‬
‫کی بے اطمینانی کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے (‪ )۲۰‬راشد نے نظم ’’ انتقام ‘‘ کے ابتدائی حصے میں‬
‫ماحول کی جو تصویر کشی کی ہے اس کے بارے میں ڈاکٹر آفتاب احمد نے لکھا ہے ‪:‬‬
‫’’بظاہر تو یہ بند ایک فرنگی شبستاں کا نقشہ ہے لیکن دراصل اس میں انتقام لینے والے کی نفسیاتی تصویر‬
‫کشی بھی موجود ہے۔ اس کو اگر کچھ یاد آرہا ہے تو فقط شبستان کا فرنگی ماحول ۔ کیونکہ دراصل یہی‬
‫اس کے انتقام کا ہدف ہے۔ اسے اجنبی عورت کے برہنہ جسم کی کوئی تفصیل یاد نہیں۔‘‘(‪)۲۱‬‬
‫یہ انتقام راشد کے فرد کی ذہنی حالت کو بیان کرتا ہے جو غالمی میں رہنے کے باعث پیدا ہوئی ہے اور جس‬
‫پر انگریزوں کی ظالمانہ کا روائیوں کے اثرات ثبت ہیں اسے کسی جنسی خلفشار کا نتیجہ قرار نہیں دیا‬
‫جاسکتا ۔ امجد طفیل نے اس نظم کے حوالے سے مختلف تنقیدی رویوں کا ذکر کیا ہے جن میں بعض ناقدین‬
‫نے اسے جنس سے وابستہ کرکے شاعر کو نفسیاتی سطح پر بیمار قرار دیا ہے اور اسے شدید نوعیت کی جنس‬
‫پرستی سے تعبیرکیا ہے اور بعض نے اسے مغربی دشمنی کا شاخسانہ سمجھا ہے ۔ امجد طفیل نے اس سلسلے‬
‫میں ڈاکٹر ریاض احمد کی تنقید کو متوازن قرار دیا ہے جس میں اس انتقام کو مفتوح کے فاتح پر نفسیاتی‬
‫غلبہ کی ایک صورت قرار دیا گیا ہے(‪ )۲۲‬راشد کا یہ انتقا م جنسی بیماری کا سبب نہیں بلکہ غالم قوم کے‬
‫ایک فرد کا نفسیاتی ردعمل ہے جو شدید قسم کی محکومیت کے باعث پیدا ہوا ہے ۔ اس کا اظہار خود نظم‬
‫کے متن سے ہوتا ہے ‪:‬‬
‫اس کا چہرہ اس کے خدوخال یاد آتے نہیں‬
‫اک شبستاں یاد ہے‬
‫ِا ک برہنہ جسم آتشداں کے پاس‬
‫فرش پر قالین ‪ ،‬قالینوں پہ سیج‬
‫دھات اور پتھر کے بت‬
‫گوشۂ دیوار میں ہنستے ہوئے‬
‫اور آتشداں میں انگاروں کا شور‬
‫ان بتوں کی بے حسی پر خشمگیں‬
‫ُا جلی ُا جلی‪ ،‬اونچی دیواروں پہ عکس‬
‫ُا ن فرنگی حاکموں کی یادگار‬
‫جس کی تلواروں نے رکھا تھا یہاں‬
‫سنِگ بنیاِد فرنگ‬
‫اس کا چہرہ اس کے خدوخال یاد آتے نہیں‬
‫اک برہنہ جسم اب تک یاد ہے‬
‫اجنبی عورت کا جسم‬
‫میرے ہونٹوں نے لیا تھا رات بھر‬
‫جس سے ارباِب وطن کی بے بسی کا انتقام ‪)۲۳(        ‬‬
‫راشد کا یہ فرد‪  ‬فرار‪  ‬اور انتقام کے مرحلوں سے گزرتا ہوا اپنی آخری منزل میں داخل ہوتا ہے۔ یہ آخری منزل‬
‫’’خود کشی ‘‘ پر تمام ہوتی ہے۔ تیرگیاں چاروں طرف پھیلی دکھائی دیتی ہیں۔ زندگی کی تلخیاں اس کے‬
‫سامنے بے نقاب ہو چکی ہیں جس میں انفرادی اور اجتماعی دونوں حوالے موجود ہیں۔ اس نظم میں خود‬
‫کشی کی اجتماعی وجوہات ہیں جن کا معاشرے سے گہرا تعلق ہے اس میں استعماری نظام ‪ ،‬غالمی کے‬
‫احساس ‪ ،‬غالمی کے نتائج اور غالمانہ نظام کی جبریہ صورت حال جیسے امور کو فراموش نہیں کیا جاسکتا‬
‫۔ میراجی نے اس نظم کی ساری لفظیات اور تالزمات کو کلرک کے کردار تک محدود کرکے اس کی معنویت کو‬
‫محدود تر کر دیا ہے۔ اس نظم کو ماوراء کی پچھلی نظموں اور اس کے اجتماعی تصورات سے منسلک کرکے‬
‫پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس نظم میں جس فرد کے خدوخال واضح کیے گئے ہیں وہ انتقام ‪،‬‬
‫شرابی ‪ ،‬رقص جیسی نظموں کے کردار سے مختلف نہیں اس کے بھی وہی مسائل ہیں جو ان نظموں میں‬
‫تشکیل دئیے گئے فرد کے تھے خود کشی میں فرد کا اضطراب قدیم اور جدید اقدار کے درمیان کشمکش کو‬
‫ظاہر کرتا ہے۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری کے مطابق اس نظم میں ’’دیوار‘‘ پرانی تہذیبی قدروں اور نئے عہد سے‬
‫پیدا ہونے والے المیہ تصورات کی عالمت ہے (‪ )۲۴‬نئے عہد کے المیہ تصورات میں نوآبادیاتی عہد میں پیدا‬
‫ہونے والے وہ المیے مرکزی اہمیت رکھتے ہیں جنہوں نے استعماری نظام کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔‬
‫ماوراء میں راشد کے استعمار مخالف رجحانات اس کے تشکیل کردہ فرد کی زبانی ہم تک پہنچتے ہیں ۔ جو‬
‫انفرادی اور اجتماعی سطح پر خاص قسم کے بحرانات سے دوچار ہے اس کی انفرادی محرومیوں میں اس‬
‫کی اپنی شکست و ریخت اور جذبات کی نیم پختگی بھی شامل ہے لیکن اس کی تشکیل میں اجتماعی‬
‫ماحول کا بھی ہاتھ ہے جس نے اجتماعی مسائل کو جنم دیا ہے اور ان اجتماعی مسائل میں سب سے بڑا‬
‫مسئلہ مشرق کی نااہلی اور اس پر مغربی استعمار کے تسلط ‪،‬ظلم اور جبر کا ہے جس نے اس فرد کو بے‬
‫سکوں کر دیا ہے ۔ وہ استعماری نظام سے نجات کی خواہش رکھتا ہے ۔ لیکن اس سے نجات کے لیے کوئی‬
‫عملی راستہ اختیار کرنے کی صالحیت اس میں موجود نہیں۔نتیجہ فراری رجحان کے تحت نفسیاتی طور پر‬
‫تسکین کی راہیں تالش کرتا ہے جو فرار ‪ ،‬انتقام اور خود کشی کی صورت میں سامنے آٹی ہیں۔ ماوراء میں‬
‫مغربی استعمار کے خالف مزاحمت کی لے خاصی بلند ہے۔ لیکن اس کی نوعیت عملی کم اور تصوراتی زیادہ‬
‫ہے۔ مغربی استعمار کے خالف عملی اور منطقی سطح کی مزاحمت جو ایک نیا راستہ دریافت کرتی ہے اور‬
‫مشرق کے سامنے مغرب کے خالف مزاحمت کا ایک نیا رخ سامنے التی ہے وہ ’’ایران میں اجنبی ‘‘ میں سامنے‬
‫آتا ہے۔‬
‫راشد نے اپنی ابتدائی دو کتابوں ’’ ماوراء ‘‘ اور ’’ایران میں اجنبی‘ ‘ میں مغربی استعمار ‪ ،‬ان کے توسیع‬
‫پسندانہ عزائم‪  ‬اور ظلم و جبر پر کھل کر لکھا ہے اور ماوراء سے ایران میں اجنبی تک فرد کے ذہن کی توسیع‬
‫کو ارتقائی مراحل سے گزار کر پیش کیا ہے لیکن ان ارتقائی مراحل میں ہر مقام پر ان کے خیاالت میں بے‬
‫باکی اور جرات مندی کے عناصر ملتے ہیں ۔ اسی بنا پر ڈاکٹر وزیر آغا نے ان کی شاعری کو ’’بغاوت کی ایک‬
‫مثال‘‘ قرار دیا ہے اور مغربی استعمار کے خالف راشد کے ردعمل کو جرات مندانہ قدم تحریر کیا ہے اور‬
‫انھیں ایک بڑے قوم پرست شاعر کا خطاب دیا ہے جس کے عمل کا دائرہ ماوراء سے ایران میں اجنبی تک‬
‫وسیع تر ہوتا گیا ۔ اور ایران میں اجنبی میں انہوں نے ماوراء کی نسبت پورے ایشیاء پر مغربی تسلط کی‬
‫مخالفت کی ۔(‪)۲۵‬‬
‫’’ایران میں اجنبی ‘‘ میں راشد کے انسان میں کئی قسم کی تبدیلیاں پید اہوئیں ۔ ایک تو راشد نے ماوراء کی‬
‫نسبت استعمار کے خالف مزاحمت کے سلسلے میں اپنا دائرہ وسیع تر کیا اور ماوراء میں مغربی استعمار کے‬
‫تسلط کا زاویہ ہندوستان تک محدود تھا۔ ایران میں اجنبی میں یہ وسیع تر ہوتا ہوا پورے ایشیاء تک پھیل‬
‫گیا اور پورے ایشیاء پر انہوں نے استعمار کے تسلط کی مخالفت کی ۔ دوسری تبدیلی یہ پیدا ہوئی کہ ماوراء‬
‫کا انسان ذہنی خلفشار کا شکار تھا۔ وہ استعمار کے تسلط کی مخالفت کرتا تھا۔ مگر اس مخالفت کا کھل کر‬
‫اظہار کرکے اس کا مناسب حل تالش کرنے کی صالحیت اس میں موجود نہیں تھی۔ ایران میں اجنبی میں‬
‫تذبذب اور کشمکش کی کیفیت ختم ہوتی اور استعمار کے طلم سے نجات کا راستہ اس نے قوت عمل میں‬
‫تالش کیا جس کی ابتداء زنجیر نظم سے ہوتی ہے ’’ایران میں اجنبی ‘‘‪  ‬کی ان نظموں کی تخلیق کا زمانہ‬
‫بیسویں صدی کی چوتھی دہائی کا زمانہ ہے اور اس دور کا آغاز بقول مظفر علی سید ‪  ۲۵‬اگست ‪۱۹۴۱‬ء کو‬
‫اس وقت ہوا جب امریکہ ‪ ،‬روس اور برطانیہ کی افواج ایران کے شمال اور جنوب اور مشرق و مغرب کی‬
‫طرف سے بیک وقت داخل ہوئیں ۔ تاکہ ایران پر حملہ آور ہو کر جرمن فوج کو آگے بڑھنے سے روکا جائے اور‬
‫ایک مشرقی محاذ کھول کر اسے گھیرے میں لیا جاسکے ۔ ایران کا قصور اس سلسلے میں بقول راشد صرف‬
‫اتنا نہیں تھا کہ وہ راستے میں پڑتا ہے ۔ وہ ایک کمزور مسلمان ملک تھا جس کا حکمران اتحادیوں سے تعاون‬
‫کے بجائے اپنی غیر جانبدارانہ حیثیت برقرار رکھنے اور طرفین جنگ کے ساتھ برابری کی سطح قائم رکھنے‬
‫پرمصر تھا۔(‪)۲۶‬‬
‫اس دور میں جو دوسری جنگ عظیم کا اہم ترین دور ہے ایران کو غیر جانبدارانہ نہیں رہنے دیا گیا ۔‬
‫اتحادیوں نے اپنی افواج یہاں داخل کیں اور ایران مغربی تسلط کا شکار ہوا ۔ اسے ظلم و جبر اور غالمی کا‬
‫شکار بنایاگیا۔ جسے راشد نے وضاحت کے ساتھ بیان کیا مگر راشد کا المیہ یہ تھا کہ مغربی استعمار کے ظلم‬
‫و ستم کے خالف آواز اٹھانے واال فنکار خود اس نظام کا حصہ تھا اور اتحادیوں کا نمائندہ بن کر ایران میں‬
‫موجود تھا۔ مظفر علی سید نے راشد کے قیام ایران (‪۴۶‬۔‪۱۹۴۴‬ء) کے تجربات و مشاہدات پر مبنی نظموں کی‬
‫تخلیق کے بارے میں راشد کے جس بیان کا حوالہ دیا ہے۔ اس سے راشد کی احساس محرومی ظاہر ہوتی ہے‬
‫جو ایک طرف بر عظیم کا باشندہ ہونے اور دوسری طرف استعماری فوج کے فرد ہونے کی وجہ سے پیدا ہوا‬
‫ہے (‪ )۲۷‬وارث علوی کے مطابق راشد کی شاعری کشمکش اور الجھنوں کی شاعری ہے۔ کیونکہ ان کی سامرج‬
‫مخالف شاعری میں سامراج کے ساتھ ذات سے جنگ بھی شامل ہے۔ اس لیے کہ جب آزادی کی جنگ جاری‬
‫تھی تووہ برطانوی فوج کا مالزم تھا وہ جنگ آزادی کا سپاہی بننے کے بجائے سامراج کا سپاہی بن گیا(‪ )۲۸‬‬
‫وارث علوی نے ’’ایران میں اجنبی ‘‘‪  ‬کی نظموں میں اس کشمکش کے اثرات نمایاں کیے ہیں۔ راشد نے اس‬
‫کشمکش میں رہتے ہوئے سامراج کی مخالفت کئی سطحوں پر کی ہے۔ پہلی سطح کا تعلق ایران کی‬
‫سیاسیات سے ہے جس پر راشد نے اعتراضات اٹھائے ہیں۔ اور اس پر سامراجی اثرات مرتب ہوتے دکھائے ہیں۔‬
‫ڈاکٹر ثمینہ شکیل نے راشد کی نظم ’’ کیمیا گر ‘‘ کو پہلوی خاندان کی شاہ خرچیوں ‪ ،‬مظالم اور جور و ستم‬
‫کی تصویر کشی قراردیا ہے (‪ )۲۹‬مگر اس کے ساتھ ساتھ نظم میں مغربی استعمار کی توسیع پسندی اور‬
‫استعماری عمل کی طرف اشارہ بھی کیا گیا ہے۔‪  ‬راشدنے اپنی نظم ’’ وزیر چنیں‘‘ میں ایران کی سیاست میں‬
‫بدعنوانی ‪ ،‬نااہلی اور ناعاقبت اندیشی جیسی برائیوں کا ذکر کیاہے۔ سیاست پر بیرونی اثرات بھی دکھائے‬
‫ہیں۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری کے مطابق ’’وزیر چنیں‘‘ میں وزیر کا کردار درباری نظام اور اس سیاست کی‬
‫عالمت ہے جس نے نو آبادیاتی طاقتوں کو قدم جمانے اور لوٹ کھسوٹ سے مقامی وسائل پر قابض ہونے کی‬
‫دعوت دی (‪ )۳۰‬راشد ایرانی سیاست پر استعماری پالیسیوں کے اثرات دکھاتے ہیں بعض نظموں میں کسی‬
‫کردار کا خاکہ کھینچتے ہوئے انہوں نے مغربی استعمار کے ظلم کو بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ انگریزوں نے‬
‫محکوم ملکوں کی آبادی پرکون سے ظلم روا رکھے ۔ ’’ماِر سیاہ ‘‘ میں یاسمیں کا کردار تخلیق کرکے استعمار‬
‫کی وحشت ‪ ،‬بربریت اور جنسی استحصال کی کہانی مرتب کی ۔ وہ مقام دیکھیں جہاں یاسمیں اجنبی سے‬
‫کہتی ہے ‪:‬‬
‫آج کے بعد تم یاسمن کو نہیں پاسکو گے‬
‫کہ ماِر سیہ بن کے اک اجنبی نے اسے ڈس لیا ہے (‪)۳۱‬‬
‫راشد نے بعض نظموں میں ایرانی سیاسیات کا ذکر کرتے ہوئے ضمنًا استعمار کے کردار کو واضح کیا ہے اور‬
‫بعض نظموں میں سرسری انداز میں ان کے ظلم کو بیان کیا ہے ایسی نظموں کی نوعیت تاثراتی ہے۔‬
‫’’ایران میں اجنبی ‘‘ کی نظموں کی دوسری سطح وہ ہے جہاں راشد نے کھل کر مغربی سامراج کے ظلم ان‬
‫کی اقتصادی پالیسیوں اور ان کے توسیع پسندانہ عزائم کی مخالفت کی ہے اور ایران کے افراد کوجنھیں‬
‫راشد نے ایشیاء کا نمائندہ قرار دیا ہے ۔ بیدار ہونے کی دعوت دی ہے۔ ایشیاء کے تحفظ کی ذمہ داری سونپی‬
‫ہے اور ایشیاء کے اتحاد کا تصور پیش کیا ہے ۔‬
‫راشد نے کئی نظموں میں مغربی سامراج کی توسیع پسندانہ پالیسیوں ‪ ،‬ان کے ظلم و جبر اور اقتصادی لوٹ‬
‫کھسوٹ کا نقشہ کھینچا ہے ۔ اور اس میں کسی جماعت سے وفاداری کا اظہار کرنے کے بجائے غیر جانبداری‬
‫سے مسئلہ کا تجزیہ کیا ہے ۔ ڈاکٹر فخر الحق نوری کے مطابق راشد نے برطانوی استعمار کے ساتھ ساتھ‬
‫دوسری اتحادی قوتوں ( روس اور امریکہ ) کی ہوس زرگری و ملک گیری کو بھی موضوع بنایا ہے۔ ایران میں‬
‫ان تینوں قوتوں کے غلبہ کا ذکر ’’کیمیا گر‘‘ میں کیا۔’’دستِ ستمگر‘‘ میں فرنگیوں کے ساتھ ساتھ روسیوں‬
‫کے خصوصًا ایرانی عورتوں پر کیے گئے مظالم کی نشاندہی کی(‪)۳۲‬‬
‫راشد نے دوسری جنگ عظیم کے دوران ہونے والے مظالم کی کہانی تحریر کرتے ہوئے روسیوں کو ترقی‬
‫پسندوں کی طرح معاف نہیں کیا اور ان کے بارے میں بہت اچھا نہیں لکھا ۔ دیگر استعماری قوتوں کے ساتھ‬
‫روسی استعمار کا ذکر نظم’’تیل کے مسافر‘‘ میں بھی کیا ہے۔ راشد نے ’’تیل کے مسافر‘‘ دوسری جنگ عظیم‬
‫کے دوران اس وقت لکھی جب ایران پر برطانوی ‪ ،‬امریکی اور روسی فوجوں کا تسلط تھا ۔ اس نظم میں‬
‫بقول فتح محمد ملک راشد نے استعمار کے سامراجی عزائم اور ایشیاء پر ان کے تسلط کی مذمت کی اور ان‬
‫کے خالف اتحاد کی ضرورت پر زور دیا (‪ )۳۳‬ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے اپنے مضمون راشد کی شاعری کے‬
‫داستانی عناصر میں ’’ایران میں اجنبی ‘‘ کی نظم ’’تیل کے مسافر‘‘ کا خصوصی طور پر ذکر کیا ہے یہ نظم‬
‫ان کے خیال میں سامراجی تاجروں کی داستان ہے ۔ جو مشرِق وسطی کے تیل کے ذخیروں کی سرزمین پر‬
‫ڈیرہ ڈال رہے ہیں۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے اس نظم کو راشد کی اچھی نظموں میں شمار کیا ہے جو بین‬
‫االقوامی سامراجیت پر راشد کی گہری نظر اور بصیرت کا ثبوت فراہم کرتی ہے (‪ )۳۴‬راشد نے ایران کو‬
‫مغربی تسلط کے خطرہ سے آگاہ کیا۔ راشد نے یہاں کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ سے متعلق خطرات سے بھی‬
‫ایران کو متنبہ کیا انہوں نے تیل کے مسافروں کے روپ میں چھپے ہوئے لٹیروں سے ایران کو خبردار کیا ۔ جو‬
‫راشد کے یہاں بڑی بلیغ عالمت ہے۔ استعمار کی اقتصادی لوٹ کھسوٹ کے رویے کو بیان کرکے ایران کی‬
‫موجودہ صورت حال کا موازنہ راشد نے اپنے ملک کی سیاسی صورت حال سے کرکے انھیں انہی خطرات سے‬
‫باخبر کیا ہے جس سے ہندوستان گزر رہاتھا۔ دونوں ملکوں کی صورت حال کو یکساں دکھا کر ایشیائی اتحاد‬
‫کا تصور پیش کیا ہے‪:‬‬
‫بخارا سمرقند کو بھول جاؤ‬
‫اب اپنے درخشندہ شہروں کی‬
‫طہران و مشہد کے سقف و در وبام کی فکر کر لو‬
‫ان اونچے درخشندہ شہروں کی‬
‫کوتہ فصیلوں کو مضبو ط کر لو‬
‫ہر اک برج و بار و پر اپنے نگہبان چڑھا دو‬
‫کہ باہر فصیلوں کے نیچے‬
‫کئی دن سے رہزن ہیں خیمہ فگن‬
‫تیل کے بوڑھے سوداگروں کے لبادے پہن کر‬
‫وہ کل رات یا آج کی رات کی تیرگی میں‬
‫چلے آئیں گے بن کے مہماں‬
‫تمہارے گھروں میں‬
‫وہ دعوت کی شب جام و مینا لنڈھائیں گے‬
‫ناچیں گے گائیں گے‬
‫مگر پو پٹھے گی‬
‫تو پلکوں سے کھوددو گے خود اپنے مردوں کی قبریں‬
‫بساِط ضیافت کی خاکستر سوختہ کے کنارے‬
‫بہاؤ گے آنسو ‪)۳۵(           ‬‬
‫راشد نے ایران پر مغربی تسلط کی مخالفت کی اور ایران پر غارت گر نوآبادیاتی تسلط کے اثرات دکھاتے ہوئے‬
‫ایران کی سرزمین کو ویران ہوتے دکھایا ہے جو دراصل فرنگی استعمار کی لوٹ کھسوٹ ظلم و استبداد کی‬
‫طرف اشارہ کرتا ہے ۔ ایران کی ویرانی اور فرنگی استعمار کی لوٹ کھسوٹ کا منظر سبا ویران میں پیش کیا‬
‫گیا ہے۔ عقیل احمد صدیقی نے اس نظم پربحث کرتے ہوئے سلیمان جسے اس نظم میں بری حالت میں پیش‬
‫کیاگیا ہے ایشیائی حکمرانوں کی موجودہ حالت کی عالمت قرار دیا ہے (‪)۳۶‬‬
‫ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے سبا ویراں کو بھرپور عالمتی نظم قرار دیا ہے ان کے خیال میں سلیمان اور سبا‬
‫ویراں ایسی تاریخی عالمتیں ہیں جن سے عظمت اور شوکت کا تصور وابستہ ہے مگر انھیں زوال اور بے‬
‫بسی کے عالم میں دکھایا گیا ہے اس بے بسی کی وجہ وہ زوال ہے جو نوآبادیاتی نظام کی وجہ سے اس سر‬
‫زمین پر طاری ہوچکا ہے ۔ اور جس کے اثرات ابھی تک اس زمین پر ہیں۔ اس نظم میں غیر ملکی استعماریت‬
‫کے خالف جو ردعمل دکھایا گیا ہے اس حوالے سے ڈاکٹر تبسم کاشمیری لکھتے ہیں‪:‬‬
‫’’اس کا پس منظر جنگ عظیم دوم کے بعد کا ایران ہے جو سیاسی و ملکی انحطاط کے سبب غیر ملکی‬
‫استعماریت کا شکار ہوگیا ہے لٰہ ذا ’’غارت گر‘‘ نو آبادیاتی طاقتوں کی عالمت ہے جنہوں نے ایران کو لوٹ کر‬
‫برباد کر دیاتھا ۔‘‘(‪)۳۷‬‬
‫راشدنے اس نظم میں تاریخی ادوار کی عظیم ترین شخصیت کا انتخاب کرکے انہیں بدترین حالت میں‬
‫دکھایا ہے ۔ اور اس بدحالی کی وجہ غارت گری نو آبادیاتی نظام کے اثرات اور اہِل مشرق کے منفی رویوں کو‬
‫قرار دیا ہے اور غارت گر نوآباد کاروں کا ذکر کرکے محکومیت کے خالف ردعمل کا اظہار کیا ہے جسے اس‬
‫نظم میں واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے ‪:‬‬
‫سلیماں سر بزانو اور سبا ویراں‬
‫سبا ویراں ‪ ،‬سبا آسیب کا مسکن‬
‫سبا آالم کا انبارِ بے پایاں‬
‫سبا ویراں کہ اب تک اس زمیں پر ہیں‬
‫کسی عیار کے غارتگروں کے نقش پا باقی‬
‫سبا باقی نہ ماہروئے سبا باقی‪)۳۸(   ‬‬
‫راشد مغرب کی استعماری قوتوں کی مخالفت کرتے ہوئے ایشیاء پر ان کے تسلط کی مذمت کرتے ہیں ۔ اور‬
‫ایشیاء کے افراد کو محکومی کے خالف بیداری کا درس دیتے ہیں۔ محکومیت کے خالف ردعمل ان کی نظم ’’‬
‫زنجیر‘‘ میں اپنی پوری معنویت کے ساتھ ابھر ا ہے ۔ اور غالمی کی زنجیر میں لرزش پیدا ہوتے دکھائی گئی‬
‫ہے ۔ جو غالمی کے خالف ابھرنے والی بیداری کی عالمت ہے۔ میرا جی نے زنجیر نظم کی تشریح و توضیح‬
‫کرتے ہوئے اس میں غالمی کے خالف ردعمل کا ذکر کیا ہے(‪)۳۹‬‬
‫ڈاکٹر تبسم کاشمیری نے ’’زنجیر ‘‘ کو نئی آگاہی کی عالمت قرار دیا ہے جو جنوبی ایشیاء کے افق پر نمودار‬
‫ہو چکی ہے( ‪  )۴۰‬ڈاکٹر آفتاب احمد کے خیال میں زنجیر میں ظلم پروردہ غالموں کے لیے پیغام انقالب کی‬
‫صورت میں ظاہر ہوتا ہے ‪:‬‬
‫’’یاسیت اور تلخی کی اس لہر کے ساتھ ساتھ راشد کے ہاں ایک اور لہر بھی ابھرتی‪  ‬ڈوبتی نظر آتی ہے ۔۔۔‬
‫’’زنجیر‘‘ سے اس کی ابتداء ہوتی ہے ۔۔۔ یہ ایک موہوم امید کی لہر ہے جو کسی نظریہ سے وابستہ نہیں بلکہ‬
‫محض اس خیال سے وابستہ ہے کہ انسانوں کی انا کبھی نہ کبھی ضرور بیدار ہوگی۔‘‘(‪)۴۱‬‬
‫ن۔ م راشد نے ’’زنجیر‘‘ میں ایشیائی اقوام کی بیداری کا خواب دیکھا ہے ۔ بیداری کا احساس زنجیر میں‬
‫پیدا ہونے والی لرزش سے نمایاں ہوا۔ جس سے راشد نے یہ امیدیں وابستہ کی ہیں کہ ایک دن انسان کی انا‬
‫ضرور بیدار ہوگی۔ اور وہ مسلسل غالمی سے نجات حاصل کرے گا۔‬
‫گوشۂ زنجیر میں‬
‫ِا ک نئی جنبش ہویدا ہوچلی‬
‫ہر جگہ پھرسینۂ نخچیر میں‬
‫اک نیا ارماں ‪ ،‬نئی امید پیدا ہو چلی‬
‫حجلۂ سمیں سے تو بھی پیلۂ ریشم نکل‬
‫شکر ہے دنبالۂ زنجیر میں‬
‫اک نئی جنبش ‪ ،‬نئی لرزش ہویدا ہو چلی‬
‫کوہساروں ‪ ،‬ریگ زاروں سے صدا آنے لگی‪)۴۲(  ‬‬
‫مغربی استعمار کی غالمی سے پیدا ہونے والے مسائل سے نکلنے کا واحد راستہ مغرب کی غالمی سے آزادی‬
‫حاصل کرنے کی واحد راہ راشد کے نزدیک اقوام ایشیاء کا اتحاد ہے ۔ راشد نے ’’ایران میں اجنبی ‘‘ کی‬
‫نظموں میں استعماری عزائم ‪ ،‬ان کی توسیع پسندی ‪ ،‬اقتصادی لوٹ مار اور ظلم و جبر کا ذکر کیا ہے اور بتایا‬
‫ہے کہ غالمی کی اس چکی میں پورا ایشیاء پس رہا ہے اور اس سے نجات کا واحد راستہ ایشیائی اتحاد میں‬
‫مضمر ہے اس لیے راشد نے ایران میں اجنبی کی نظموں میں اہِل مشرق کی کمزوریوں اور اہِل مغرب کے ظلم‬
‫و جبر پر مبنی پالیسی کا ذکر کرتے ہوئے اہل ایشیاء کو بیدار ہونے اور باہم متحد ہونے کی دعوت دی ہے ۔‬
‫’’ایران میں اجنبی ‘‘میں راشد نے ایشیاء کو ایک وحدت کی شکل میں دیکھا ہے ۔ وحدت کا یہ تصور مغرب‬
‫کے ظلم و ستم کے باعث پیدا ہوا ہے۔ یہ استعمار کی غالمی کا ردعمل ہے جس نے ایشیاء کو وحدت کا خواب‬
‫دکھایا ہے۔ ’’ایران میں اجنبی‘‘ کی کئی نظموں میں مغربی اقوام کے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے اتحاد کی‬
‫ضرورت کو محسوس کیا گیاہے۔ راشد نے اپنی طویل نظم’’ایران میں اجنبی ‘‘ کے حوالے سے گفتگو کرتے‬
‫ہوئے لکھا تھا کہ جنگ کے زمانے میں ایران کو دیکھ کر یہ ِا حساس شدید تر ہوگیا تھا کہ کیسے ہم ایشیائی‬
‫تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے ایک ہی زنجیر میں بندھے ہوئے ہیں اور وہ زنجیر فرنگی کی ’’رہزنی‘‘ نے‬
‫پیدا کر دی ہے (‪ )۴۳‬راشد نے مشرقی اتحاد کی بنیاد افرنگی ظلم و استبداد پر رکھی ہے اور اس کا اظہار‬
‫’’ایران میں اجنبی ‘‘ کے قطعہ ’’من و سلوٰی ‘‘میں کیا ہے ۔‬
‫بس ایک زنجیر‬
‫ایک ہی آہنی کمنِد عظیم‬
‫پھیلی ہوئی ہے‬
‫مشرق کے ِا ک کنارے سے دوسرے تک‬
‫مرے وطن سے ترے وطن تک‬
‫بس ایک ہی عنکبوت کا جال ہے کہ جس میں‬
‫ہم ایشیائی اسیر ہو کر تڑپ رہے ہیں (‪)۴۴‬‬
‫ڈاکٹر آفتاب احمد کے مطابق ایران میں اجنبی میں مشرق اور مغرب کی آویزش کا احساس شدید تر ہوگیا‬
‫تھا اور اس احساس کو راشد نے تیرہ قطعوں کی اس ناتمام نظم میں جس سے اس مجموعہ نے نام پایا ہے‬
‫بیان کیا ہے (‪ )۴۵‬امجد طفیل نے بھی تیرہ قطعات کی نظم کو عالمی استعمار کے خالف ایک بلند فکری لے‬
‫سے تعبیر کیا ہے ۔(‪)۴۶‬‬
‫راشد نے ایران میں اجنبی میں پورے ایشیاء پر مغرب کے تسلط کو واضح کیا ۔اور اس کے ردعمل میں ایشیاء‬
‫کی وحدت کا تصور پیش کیا اور ارِض مشرق کو بیداری کی دعوت دی ۔ انہوں نے استعمار کے ظلم اور‬
‫توسیع پسندی کے خالف نظم ’’ زنجیر‘‘ میں ایک حرکت پیدا ہوتے دکھائی جو غالمی کی زنجیر توڑنے کا‬
‫احساس پیدا کرتی ہے اور رات کے سکوت کو توڑنے ‪ ،‬سالسل کو ریزہ ریزہ کرنے اور ظلمات کو چیرنے پر‬
‫آمادہ کرتی ہے۔ راشد کا خیال ہے کہ مغربی استعمار کے ظلم کی زنجیر ایشیائی اتحاد سے کمزور پڑ سکتی ہے‬
‫’’نارسائی ‘‘ میں مغربی اقوام کے مظالم سے نجات کی راہ ایشیائی اتحاد کے خواب میں پنہاں دکھائی گئی‬
‫ہے۔ ’’تیل کے مسافر‘‘ میں بھی استعماری مظالم کی نشاندہی کرتے ہوئے ایشیائی اتحاد کی ضرورت پر زور‬
‫دیا گیاہے۔ اس نظم میں بقول صاحبزادہ احمد ندیم شاعر نے استعماری خطرات اور فریب کاریوں سے آگاہ کیا‬
‫ہے(‪ )۴۷‬مغربی استعمار کے مظالم کے خالف مزاحمت اور اس کے ردعمل میں ایشیائی وحدت کی خواہش جن‬
‫نظموں میں ظاہر ہوتی ہے اس میں اہم ترین نظم’’تماشہ گہہ اللہ و زار ‘‘ ہے جو ’’ایران میں اجنبی ‘‘ کے‬
‫عنوان کے تحت لکھے گئے قطعات کا آخری قطعہ ہے جس پر ایک موضوع کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اس نظم میں‬
‫شاعر کا ِا حساِس غم اپنی انتہائی سطح پر پہنچ چکا ہے۔ وہ بظاہر تہران کے اللہ زار میں بیٹھے ہوئے تھیٹر‬
‫دیکھ رہے ہیں لیکن درحقیقت ان کا دل عرب و عجم کے غموں کا شمار کررہا ہے۔ فتح محمد ملک کے مطابق‬
‫’’تماشہ گہ اللہ زار ‘‘ ایران کے ماضی کی شان و شوکت کے لٹ جانے اور قدیم تہذیب کے زوال کی نوحہ‬
‫خوانی پر غور و فکر سے شروع ہو کر نئے آدمی کے خواب پر ختم ہو جاتی ہے(‪)۴۸‬‬
‫راشد ایشیاء کے افراد کی نجات ماضی کے خوابوں میں تالش نہیں کرتے بلکہ آدم نو کے خوابوں کو مرکز‬
‫نگاہ سمجھتے ہیں جس سے نیا ایشیاء تعمیر ہو سکے ۔ راشد عرب و عجم کے غموں کا شمار کرتے ہوئے اس کا‬
‫حل ایشیاء کی وحدت اور بیداری میں تالش کرتے ہیں اہل مشرق کو ان کی خامیوں کا احساس دال کر‬
‫بیداری کی روح پھونکتے ہیں اور آدم ِ نو کے خواب تخلیق کرتے ہیں جو نئے ایشیاء کی تعمیر میں ممدو‬
‫معاون ثابت ہو سکیں ۔ اس نئے آدم کا خواب ’’تماشہ گہہ اللہ و زار ‘‘ کے آخر میں نمایاں ہوتا ہے ۔‬
‫’’ایران میں اجنبی ‘‘ کی نظموں میں ایک طرف ایشیاء کی بدحالی کانقشہ مرتب کیاگیا ہے اور اس کی‬
‫وجوہات میں اہِل مشرق کی خامیوں اور مغربی اقوام کی چیرہ دستیوں کا ذکر کیاگیاہے اور ان مسائل کا‬
‫حل ایشیاء کی وحدت اور ایشیائی اقوا م کے اتحاد میں مضمر دکھایا گیاہے ۔ جو یورپی یونین کی طرز کا‬
‫ایک اتحادی تصور ہے جس میں راشد مشرقی اقوام کی نجات تالش کرتے ہیں۔ راشد نے مشرقی اقوام کے‬
‫مسائل کا جو ادراک کیا ہے اور ان کا جو حل تجویز کیا ہے وہ بڑا منطقی اور ٹھوس عقلی بنیادوں پر قائم ہے‬
‫۔ جس کی وضاحت ان کی نظموں سے ہوتی ہے ۔‬
‫میں کرتارہا ہند و ایران کی باتیں‬
‫اور اب عہد حاضر ضحاک سے‬
‫رستگاری کا رستہ یہی ہے‬
‫کہ ہم ایک ہو جائیں ‪ ،‬ہم ایشیائی‬
‫وہ زنجیر ‪ ،‬جس کے سرے سے بندھے تھے کبھی ہم‬
‫وہ اب سست پڑنے لگی ہے‬
‫تو آؤ کہ ہے وقت کا یہ تقاضا‬
‫کہ ہم ایک ہو جائیں ‪ ،‬ہم ایشیائی‪(  ‬نارسائی) (‪)۴۹‬‬

‫‪                     ‬مرے ہاتھ میں ہاتھ دو‬


‫مرے ہاتھ میں ہاتھ دو‬
‫کہ دیکھی ہیں میں نے‬
‫ہمالہ و الوند کی چوٹیوں پر انا کی شعاعیں‬
‫انہیں سے وہ خورشید پھوٹے گا آخر‬
‫بخارا سمرقند بھی سالہا سال سے‬
‫جس کی حسرت کے دریوزہ گر ہیں‪(   ‬تیل کے مسافر)(‪)۵۰‬‬

‫‪                                ‬تماشہ گہہ اللہ زار‬


‫’’تیاتر‘‘ پہ میری نگاہیں جمی تھیں‬
‫مرے کان ’’موزیک‘‘ کے زیر و بم پر لگے تھے‬
‫مگر میرا دل پھر بھی کرتا رہا تھا‬
‫عرب اور عجم کے شمار‬
‫تماشہ گہہ اللہ زار‬
‫مگر اب ہمارے نئے خواب کا بوس ماضی نہیں ہیں‬
‫ہمارے نئے خواب ہیں آدم نو کے خواب‬
‫جہاِن تگ و دو کے خواب‬
‫نئی بستیاں اور نئے شہر یار‬
‫تماشہ گہ اللہ زار‪)۵۱(       ‬‬
‫ن۔ م راشد کی شاعری میں مشرق اور مغرب کے درمیان کشمکش کی یہ صورت‪ ،‬مشرق ومغرب کے مخصوص‬
‫تصورات ایک نتیجے تک پہنچتے ہیں جو ایشیاء کے اتحاد اور اہل مشرق کی بیداری کا نتیجہ ہے جو راشد کے‬
‫خیال میں غالمی اور استعماری ظلم وستم سے مشرق کو نجات بھی دالسکتا ہے اور ان کا ایک الگ تشخص‬
‫بھی قائم کرسکتا ہے یہی عمل آگے جاکر دنیا میں ایک آفاقی انسان کی بنیاد رکھے گا (جسے راشد نے ال=‬
‫انسان اور گماں کا ممکن کی نظموں میں پیش کیا ہے ) اور دنیا میں امن ومساوات کی روایات کو تشکیل دے‬
‫گا۔ راشد کے مشرق اور مغرب کے حوالے سے پیش کیے گئے ان تصورات کی موجودہ حاالت میں اہمیت بڑھ‬
‫گئی ہے جب ایشائی اقوام کو ایسے ہی کسی حل کی تالش ہے جو راشد نے پیش کیا ہے اس سے راشد کی‬
‫شاعری کی اہمیت‪ ،‬ہمہ گیری اور آفاقیت عیا ں ہوتی ہے۔‬

‫ڈاکٹرسہیل احمد۔ اسسٹنٹ پروفیسر‪ ،‬شعبہ اردو‪ ،‬جامعہ پشاور‬


‫حوالہ جات‬
‫‪۱‬۔‪        ‬ڈاکٹر آفتاب احمد ‪ ،‬ن ۔ م راشد شاعر اور شخص‪ ،‬مکتبہ دانیال کراچی۔ س ن ‪           ‬ص‪۶۱ :‬‬
‫‪۲‬۔ ‪        ‬ایضًا‪                                       ‬ص‪۸۳ :‬‬
‫‪۳‬۔‪       ‬ڈاکٹر عزیز ابن الحسن ‪ ،‬راشد کے دیباچے ‪ ،‬چند اشارات ‪ ،‬مشمولہ ‪ ،‬کس دھنک سے ‪ ،‬مرے رنگ آئے‬
‫مرتبہ‪ :‬ڈاکٹر تحسین فراقی‪ ،‬ڈاکٹر ضیاالحسن‪ ،‬شعبہ اردو اورینٹل کالج الہور۔ ‪  ۲۰۱۰‬ص‪۲۷۷ :‬‬
‫‪۴‬۔‪       ‬مظفر علی سید ‪،‬راشد اور ایران ‪ ،‬مشمولہ کس دھنک سے‪ ،‬مرے رنگ آئے‪           ‬ص‪۳۷ :‬۔‪۱۳۶‬‬
‫‪۵‬۔‪       ‬ڈاکٹر ضیاء الحسن ‪ ،‬راشد کا سفِر حیات مشمولہ کس دھنک سے‪  ‬ص‪۱۹ :‬۔‪۱۸‬‬
‫‪۶‬۔ ‪        ‬ڈاکٹر آفتاب احمد ‪ ،‬ن ۔ م راشد شاعر اور شخص ص‪۶۷ :‬۔‪۶۶‬‬
‫‪۷‬۔‪       ‬ڈاکٹر عقیل احمد صدیقی ‪ ،‬جدید اردو نظم نظریہ و عمل‪ ،‬ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ۔ ‪  ۱۹۹۰‬ص‪:‬‬
‫‪۲۰۱‬‬
‫‪۸‬۔ ‪       ‬ن ۔ م راشد ‪ ،‬مارواء ‪ ،‬مکتبہ اردو الہور۔ بار سوم‪ ۱۹۸۸  ‬ص‪۱۱۸ :‬‬
‫‪۹‬۔‪        ‬فتح محمد ملک ‪ ،‬ن۔م راشد ‪ ،‬سیاست اور شاعری ‪ ،‬دوست پبلی کیشنز ‪ ،‬اسالم آباد۔ ‪ ۲۰۱۰‬ص‪۲۵ :‬‬
‫‪۱۰‬۔‪       ‬ڈاکٹر تبسم کاشمیری ‪ ،‬ال =راشد ‪ ،‬نگارشات الہور۔ ‪       ۱۹۹۴‬ص‪۲۴ :‬۔‪۹‬‬
‫‪۱۱‬۔‪       ‬امجد طفیل‪ ،‬ن ۔م۔‪  ‬راشد کی شاعری‪  ‬اور استعماری صورتحال مشمولہ کس دھنک سے‪       ،‬ص ‪۱۰۷:‬‬
‫‪۱۲‬۔ ‪       ‬کرشن چندر ‪ ،‬تعارف ‪ ،‬ماوراء ‪         ‬ص‪۱۲،۱۰ :‬‬
‫‪۱۳‬۔‪      ‬ماوراء‪                           ‬ص‪۰۴ :‬۔‪۱۰۳‬‬
‫‪۱۴‬۔‪      ‬ایضًا ‪                            ‬ص‪۷ :‬۔‪۱۰۶‬‬
‫‪۱۵‬۔‪      ‬ڈاکٹر تبسم کاشمیری ‪ ،‬ال=راشد ‪      ‬ص‪۱۱۳ :‬‬
‫‪۱۶‬۔‪       ‬ڈاکٹر فخر الحق نوری ‪ ،‬راشد کی شاعری کے سیاسی ابعاد مشمولہ معیار‪ ،‬شمارہ ‪ ،۵‬تحقیقی و تنقیدی‬
‫مجلہ ‪ ، ۵ ،‬بین االقوامی اسالمی یونیورسٹی‪ ،‬اسالم آباد۔ جنوری تا جون ‪  ۲۰۱۱‬ص‪۳۰۴ :‬‬
‫‪۱۷‬۔‪      ‬میراجی ‪ ،‬اجنبی عورت ‪ ،‬تجزیہ مشمولہ ‪ ،‬شبیہ ‪ ،‬جلد ‪  ،۱۹‬شمارہ ‪۱‬۔‪ ،۴‬خوشاب‪ ،‬جنوری تا دسمبر ‪ ۲۰۱۰‬‬
‫ص‪۲۳ :‬‬
‫‪۱۸‬۔‪      ‬ماورا‪                            ‬ص‪۱۱۸ :‬۔‪۱۱۷‬‬
‫‪۱۹‬۔‪       ‬ایضًا‪                            ‬ص‪۱۱۴ :‬۔‪۱۱۳‬‬
‫‪۲۰‬۔‪      ‬ڈاکٹر وزیر آغا ‪ ،‬نظم جدید کی کروٹیں ‪ ،‬ادبی دنیا الہور۔‪  ‬س ن‪  ‬ص‪۷۰ :‬‬
‫‪۲۱‬۔ ‪       ‬ڈاکٹر آفتاب احمد ‪ ،‬ن ۔ م راشد ‪ ،‬شاعر اور شخص ‪    ‬ص‪۴۵ :‬‬
‫‪۲۲‬۔ ‪      ‬امجد طفیل ‪ ،‬ن ۔م راشد کی شاعری اور استعماری صورت حال مشمولہ کس دھنک سے ‪       ‬ص‪۰۸ :‬۔‬
‫‪۱۰۷‬‬
‫‪۲۳‬۔ ‪      ‬ماورا ‪                            ‬ص‪۱۶ :‬۔‪۱۱۵‬‬
‫‪۲۴‬۔‪      ‬ڈاکٹر تبسم کاشمیری ‪ ،‬ال=راشد ‪      ‬ص‪۱۱۴ :‬‬
‫‪۲۵‬۔‪      ‬ڈاکٹر وزیر آغا ‪ ،‬نظم جدید کی کروٹیں ‪  ‬ص‪۷۲ :‬‬
‫‪۲۶‬۔‪      ‬مظفر علی سید ‪،‬راشد اور ایران ‪ ،‬مشمولہ کس دھنک سے مرے رنگ آئے‪  ،‬ص‪۱۳۳ :‬‬
‫‪۲۷‬۔‪      ‬ایضًا‪                            ‬ص‪۱۳۱ :‬‬
‫‪۲۸‬۔‪      ‬وارث علوی ‪ ،‬ن ۔ م راشد کی شاعری ‪ ،‬مشمولہ کس دھنک سے مرے رنگ آئے‪ ،‬ص‪۱۵۹ :‬‬
‫‪۲۹‬۔‪      ‬ڈاکٹر ثمینہ شکیل ‪ ،‬ن ۔ م راشد اور نیمایوشیج جدید شاعری کے مشترکہ موضوعات کا تقابلی مطالعہ‬
‫‪ ،‬مشمولہ کس دھنک سے مرے رنگ آئے۔‪              ‬ص ‪۲۵۷:‬‬
‫‪۳۰‬۔‪      ‬ڈاکٹر تبسم کاشمیری ‪ ،‬راشد کی شاعری کے داستانی عناصر ‪ ،‬مشمولہ معیار ‪ ،۷‬جنوری تا جون ‪ ۲۰۱۲‬‬
‫ص‪۰۹ :‬۔‪۳۰۸‬‬
‫‪۳۱‬۔‪      ‬ن ۔ م راشد ‪ ،‬ایران میں اجنبی ‪ ،‬گوشہ ادب الہور۔ ‪  ۱۹۵۷‬ص‪۶۷ :‬‬
‫‪۳۲‬۔‪      ‬ڈاکٹر محمد فخر الحق نوری ‪ ،‬راشد کی شاعری کے سیاسی ابعاد ‪ ،‬مشمولہ معیار‪           ۵  ‬ص‪۰۹ :‬۔‬
‫‪۳۰۸‬‬
‫‪۳۳‬۔‪      ‬فتح محمد ملک ‪ ،‬ن ۔ م راشد ‪ ،‬سیاست اور شاعری ‪               ‬ص‪۶۰ :‬۔‪۵۹‬‬
‫‪۳۴‬۔‪      ‬ڈاکٹر تبسم کاشمیری ‪ ،‬راشد کی شاعری کے داستانی عناصر مشمولہ ‪ ،‬معیار ص‪۸۶ :‬۔‪۴۸۵‬‬
‫‪۳۵‬۔‪      ‬ایران میں اجنبی ‪       ‬ص‪۸۶ :‬۔‪۸۵‬‬
‫‪۳۶‬۔‪      ‬ڈاکٹر عقیل احمد صدیقی ‪ ،‬جدید اردو نظم نظریہ و عمل ‪                     ‬ص‪۹۶ :‬۔‪۹۵‬‬
‫‪۳۷‬۔‪     ‬ڈاکٹر تبسم کاشمیری ‪ ،‬ال=راشد ‪                            ‬ص‪۹۶ :‬۔‪۹۵‬‬
‫‪۳۸‬۔‪      ‬ایران میں اجنبی ‪                                       ‬ص‪۳۱ :‬۔‪۱۳۰‬‬
‫‪۳۹‬۔‪      ‬میراجی ‪ ،‬زنجیر ‪  ،‬تجزیہ ‪ ،‬مشمولہ شبیہ ‪                         ‬ص‪۳۵ :‬۔‪۳۴‬‬
‫‪۴۰‬۔‪      ‬ڈاکٹر تبسم کاشمیری ‪،‬ال=راشد‪                            ‬ص‪۹۴ :‬‬
‫‪۴۱‬۔‪      ‬ڈاکٹر آفتاب احمد‪ ،‬ن۔ م۔ راشد ‪ ،‬شاعر اور شخص ‪             ‬ص‪۶۲ :‬‬
‫‪۴۲‬۔‪      ‬ایران میں اجنبی ‪                                       ‬ص‪۰۴ :‬۔‪۱۰۳‬‬
‫‪۴۳‬۔‪      ‬ن۔ م راشد ‪ ،‬ایک مصاحبہ ‪ ،‬مشمولہ‪  ‬ال=انسان ‪ ،‬المثال پبلشرز الہور۔ ‪  ۱۹۶۹‬ص‪۱۶ :‬‬
‫‪۴۴‬۔‪      ‬ایضًا‪       ‬ایران میں اجنبی ‪                             ‬ص‪۴۰ :‬۔‪۳۹‬‬
‫‪۴۵‬۔‪      ‬ڈاکٹر آفتاب احمد ‪ ،‬ن ۔ م راشد شاعراور شخص ‪                ‬ص‪۶۶ :‬۔‪۶۵‬‬
‫‪۴۶‬۔‪      ‬امجد طفیل ‪ ،‬ن ۔ م راشد کی شاعری اور استعماری صورت حال مشمولہ کس دھنک سے مرے رنگ آئے‬
‫‪ ،‬ص‪۱۱۰ :‬‬
‫‪۴۷‬۔‪     ‬صاحبزادہ احمد ندیم ‪ ،‬تیل کے مسافر ‪ ،‬تجزیہ شبیہ ‪               ‬ص‪۱۴۷ :‬‬
‫‪۴۸‬۔‪      ‬فتح محمد ملک ‪ ،‬ن ۔ م راشد سیاست اور شاعری ‪                ‬ص‪۵۸ :‬‬
‫‪۴۹‬۔‪      ‬ایران میں اجنبی ‪                                       ‬ص‪۵۱ :‬۔‪۵۰‬‬
‫‪۵۰‬۔‪      ‬ایضًا‪                                       ‬ص‪۸۸ :‬۔‪۸۷‬‬
‫‪        ۵۱‬ایضًا‪                                       ‬ص‪۱۰۰ :‬۔‪۹۹،۹۷‬‬
‫‪ ‬‬

‫‪ ‬‬
‫پرنٹ کیجئِے‬ ‫اوپر جائیں‪  |  ‬‬

You might also like