Professional Documents
Culture Documents
فرقہ واریت کی موجودگی میں وحدت امت کامسئلہ
فرقہ واریت کی موجودگی میں وحدت امت کامسئلہ
آج مغربی معاشرے میں اسقاط حمل سے لے کر کلوننگ تک ،سٹم سیل ریسرچ ( )Stem cell researchسے لے کر ہم جنس
پرستی تک ،عراق جنگ سے لے کر ٹیکس اصالحات ،اور pro-choice, pro-lifeبحث سے لے کر اوباما کئیرتک بے شمار
مسائل میں مختلف آراء پائی جاتی رہی ہیں لیکن یہ ان کے انتشار کا باعث نہیں ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جمہوری نظام میں
ایک مسئلے پر موجود مختلف آراء( )difference of opinionمیں سے ایک رائے کو نافذ کرنے کا ایک اپنا طریقہ کار ہے جو
ت رائے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ پس اس طریقہ کار کے مطابق وہ اپنےاسالم سے مختلف ہے۔ یہ طریقہ عوامی نمائندوں کی اکثری ِ
تمام اختالف کو ریاستی معامالت میں حل کر لیتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام لوگ ایک ہی رائے اختیار کر لیتے ہیں
بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ریاست میں ایک رائے نافذ کر دی جاتی ہے۔ اور بقیہ رائے کے حامل لوگ اپنی رائے کے
نفاذ کیلئے سیاسی طریقے سے اپنی آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ تاآکہ اس رائے کے حق میں رائے عامہ ہموار ہو جاتی ہے پس وہ
رائے اکثریتی رائے کی بنیاد پر نافذ ہو جاتا ہے۔
اسالم میں اختالف رائے میں ایک رائے نافذ کرنے کا طریقہ کارجمہوریت سے مختلف ہے۔ اسالم کااس سلسلے میں طریقہ کار یہ
ہے کہ شریعت سے اخذ کردہ قوی دالئل کی بنیاد پر کئے جانے والے اجتہادات میں سے اولوالمریعنی خلیفہ جس اجتہاد کو تبھی
( )Adoptکر لے اس پر عمل پیرا ہوناواجب ہوتا ہے۔ مثالی طور پر( )Ideally speakingخلیفہ عبادات ،ذاتی معامالت اور
عقائد کی فروعی تفصیالت میں کوئی مخصوص اجتہاد نافذ نہیں کرتا اور لوگوں کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی مجتہد کی
تقلید کریں۔ وہ محض ان مسائل میں ایک اجتہاد کو نافذ کرتا ہے ،جن کا تعلق اجتماعی معامالت اور نظام سے ہے مثالً جہاد کب
اور کس کے خالف کیا جائے ،خراج ،اقتصادی نظام ،تعلیمی پالیسی وغیرہ۔
تعالی قرآن میں فرماتے ہیں’’ :اے ایمان والو! ہللا اوررسول( ﷺ )کی ٰ اس اسالمی اپروچ کے دالئل کافی جانے پہچانے ہیں۔ اﷲ
اطاعت کرو اور اپنے میں سے اولواالمر (حکمرانوں) کی بھی۔‘‘ (النساء )۵۹:پس خلیفہ اسالمی دالئل پر مبنی رائے میں سے جس
رائے کو اختیار کرنے کے بعد الگو کریگا اس پر تمام مکاتب فکر محض اس لئے عمل کریں گے کیونکہ اس منتخب کردہ خلیفہ
کی اطاعت مندرجہ باال آیت اور دیگر احادیث کی وجہ سے فرض ہے۔ اس دوران عوام اور دیگر مجتہدین اپنی اپنی رائے پر قائم
رہ سکتے ہیں ،اس کی تعلیم و ترویج کر سکتے ہیں اور خلیفہ کو اپنی رائے اپنانے کے لئے مشورہ بھی دے سکتے ہیں۔ لیکن ان
اجتماعی مسائل میں پوری امت کو خلیفہ کے اپنائے گئے اجتہاد ہی پر عمل کرنا ہوگا کیونکہ یہ اﷲ کا حکم ہے۔ اسی طرح
معاشرے اور ریاست کا نظم و نسق بغیر انتشار کے چالیا جاسکتا ہے۔ مشہور فقہی قاعدہ ہے( :امر االمام یرفع الخالف ) "امام
(خلیفہ) کا حکم اختالف کو ختم کرتا ہے‘‘ اور(أالمر االمام نافذ ظاہراً و باطنا ً ) "امام کا حکم ظاہراً اور باطنا ً نافذ کیا جاتا ہے‘‘۔ اسی
صحابہ کی اکثریتی رائے کو مسترد کرتے ہوئے اپنی رائے کو نافذ کیا اور ؓ بکر نے اپنی خالفت کے دوران اصول کے تحت ابو ؓ
عمر نےمرتدین زکاۃ ،جھوٹی نبوت کے دعوے داروں اور رومیوں کے خالف ایک ساتھ لشکر کشی فرمائی۔ اسی طرح حضرت ؓ
صحابہ کا اجتہاد ان
ؓ عراق کے مفتوحہ عالقوں پر خراج نافذ کرنے کے اپنے اجتہاد کو نافذ فرمایا اگرچہ حضرت باللؓ اور اکابر
بکر خلیفہ تھے تو انہوں نے طالق ،وراثت اور اموال کی تقسیم میں اپنے اجتہادات کو نفاذ کیاجبکہ سے مختلف تھا۔ نیز جب ابو ؓ
عمر کے اس طریقہ بکر اور ؓ عمر نے اپنے دور خالفت میں انہی مسائل پر مختلف اجتہادات کو الگو فرمایا۔ حضرت ابو ؓ حضرت ؓ
عمر کی خالفت کے بکر اور ؓ صحابہ کا اجماع ہے جو ہمارے لئے شرعی دلیل ہے۔ اجتہادی اختالف حضرت ابو ؓ ؓ کار پر تمام
دوران بھی رہا لیکن اس نے امت میں تفرقہ یا انتشار پیدا نہیں کیا کیونکہ امت کو اپنے اجتہادی اختالفات حل ( )resolveکرنے
کا طریقہ آتا تھا۔
خالفت کے انہدام کے بعد اٹھنے والے مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ یہ بنا کہ اب مذہبی اختالف کو کیسے حل کیا جائے۔ یاد رہے
کہ خالفت مسلمانوں کو سیاسی طور پر ایک کرنے کیلئے ہوتی ہے .خالفت کا یہ مقصد نہیں کہ تمام مسلمان ایک مسلک بن جائیں
یعنی ہمارا اجتماعی الئحہ عمل ایک ہو ،بےشک ہماری سوچ مختلف ہی کیوں نہ ہو .خالفت میں مختلف افراد اور گروہ مختلف
سوچ ہمیشہ سے رکھتے رہے ہیں کیونکہ انفرادی طور پر فکر میں تنوع ( )diversityاور تضاد فطری ہے .لیکن چونکہ ریاست
کے درجے پر عمل کی وحدانیت الزم ہے اسلئے اسالم نے یہ حق خلیفہ کو تفویض کیا ہے کہ وہ مختلف آراء میں مضبوط ترین
کو اختیار کرے اور ریاست میں نافذ کرے .اس کا مطلب یہ ہے کہ خالفت ان امور میں جہاں مختلف آراء موجود ہیں ،ایک منتظم
اور تصفیہ کار کا رول ادا کرتی اور خلیفہ بطور مسلمانوں کے قائد کی ایک رائے اپنا کر نافذ کرتی ہے ۔
خالفت کے انہدام کے بعد ایک ادارہ جسے مسلمانوں کا اختالف رائے حل کرنے میں شرعی اختیار اور مسلمانوں کا اعتماد حاصل
تھا ،اچانک ایک سیکولر ڈھانچے سے تبدیل ہو گیا .اور چونکہ مسلمان مذہب کے معامالت میں ایک سیکولر ریاست پر کبھی
اعتبار نہیں کر سکتے ،اسلئے انھوں نے نجی ( )privateمذہبی اداروں کا رخ کیا تاکہ مذہبی معامالت اس کے ذریعے منظم
کریں .یقینا ً ایسے نجی اداروں کا ایک ہونا ناممکن تھا اور ہے ،اسلئے ہر ایسے نجی مذہبی اداروں کے پیچھے افراد کے جھمگٹے
مضبوطی سے جمع ہو گئے .ان نجی مذہبی اداروں کو ایک شدید خدشہ الحق تھا .اور وہ یہ کہ ایک مرکزی نگران ادارے( یعنی
خالفت ) کی غیر موجودگی میں کوئی بھی نااہل نئی بےبنیاد تشریحات کرکے امت کو گمراہ کر سکتا ہے ،اسلئے ان مذہبی
گروہوں نے اپنے تئیں لوگوں کو ایسے کسی فتنے سے بچانے کیلئے انھیں صرف اپنی تشریحات پر سختی سے عمل پیرا ہونا اور
باقی سب سے دور اور انتہائی محتاط رہنے پر اکسایا .یوں یہ نجی مذہبی ادارے جڑیں ( )institutionalizedپکڑتے گئے.
دو مزید چیزوں نے مسئلہ مزید گھمبیر بنا دیا .اول یہ کہ سیکولر ریاستی ڈھانچے نے مذہبی علم کو کھوکھال کر دیا ،کیونکہ وہ
چیزیں جو مذہبی علم کو گہرائی بخشتی ہیں جیسے کہ عربی زبان ،قرآن و حدیث کا علم ،اصول ،فقہ ،اور اسالمی اخالق کو جان
بوجھ کر قومی نصاب سے ہٹا دیا گیا .دوسرا اس سے جڑا مسئلہ یہ تھا کہ ریاست اسالم نافذ نہیں کر رہی تھی اسلئے اسالمی علم
محض غیر عملی فلسفے اور تاریخی کہانیاں بن کر رہ گئے کیونکہ اس کا عملی و ریاستی سطح پر کوئی پالیسی یا قانون کے طور
پر کوئی استعمال نہ تھا .جس کے باعث اجتماعی طور پر اسالم کی فہم و سمجھ میں بطور دین و نظام بہت بڑا زوال آیا اور آندھی
تقلید کی بنیاد پر مذہبی گروہ بن گئے جس سے فرقہ واریت اور مسلک پرستی مسلمان دنیا میں گہری سے گہری تر ہوتی گئی.
یہ بات قابل ذکر ہے کہ تمام اہم فرقے جو آج موجود ہیں ،سب کے سب ان اوقات میں ظاہر ہوئے جب یا تو خالفت ختم ہوئی ،یا تب
جب کچھ عالقوں میں استعمار خالفت کا کنٹرول ختم کرنے میں کامیاب ہوا .واحد استثناء اس معاملے میں شیعہ سنی اختالف ہے
جس کی جڑیں ابتدائی دور میں سیاسی اختالفات سے شروع ہوئی .تاہم ایک وسیع تناظر میں اسالمی آئیڈیالوجی پر اتفاق کا اثر یہ
تھا کہ خالفت اختالف کی تنظیم کرنے میں کامیاب تھی .تاہم اہل تشیع آخرکار ایک صفوی ریاست میں الگ ضرور ہوئے تاہم وہ
بھی اپنی ریاست میں اسالمی قانون سے نہیں ہٹے.
آندھی تقلید کا یہ رجحان اور بعض گروہوں کا انتہاپسندانہ طرزعمل دراصل براہ راست خالفت کی عدم موجودگی کا نتیجہ ہے اور
صرف خالفت کا دوبارہ قیام ہی اس مذہبی اختالف رائے کی درست تنظیم کر کے اسے اسالم کی درست تعلیمات کے مطابق واپس
ڈھالے گی .مسلم دنیا میں ایک صدی کی سیکولر حکمرانی اس امر کی غماز ہے کہ سیکولرزم صرف اس مسئلے کو گھمبیر کر
سکتی ہے ،حل نہیں .مسلم معاشروں میں سیکولرزم اس مسئلے کا حل نہیں ،جیسا کہ بعض لوگ تجویز کرتے ہیں ،بلکہ یہ خود
اس مسئلے کی وجہ ہے.
خالفت تمام مسلمانوں کی ایک ریاست کا نام ہے۔ اور یہ کسی مخصوص گروہ کی خالفت نہیں۔ خالفت کو کسی مخصوص مسلک
کو نافذ نہیں کرنا چاہئے ۔ بلکہ قوی دالئل کی بنیاد پر کئے جانے والے اجتہادات میں سے درست اجتہاد نافذ کیاجانا چاہئے ۔ خواہ
وہ کسی عصر حاضر کے مجتہد کی رائے ہو یا اسالم کے مشہور زمانہ تاریخی مجتہدین کی رائے ہو ،جن کا آج ایک زمانہ مقلد
ہے۔
عملیت پسندی کے طور پر یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ یہ اگر بالفرض کوئی گروہ یا کچھ گروہ ریاستی پالیسی سے کچھ معامالت میں
اختالف کرتے ہو ،اور اپنے اختالف میں وہ انتہائی شدید رویہ اپنانے پر بھی تیار ہو ،تو اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ ریاست
عدم استحکام کا شکار ہو جائے گی۔ آخرکار آج اکثریت گروہوں کے نزدیک یہ نظام "غیر شرعی" ہو ،تو اس سے نظام منہدم نہیں
ہو گیا تو ایک ایسے نظام کو کیسے خطرہ ہو سکتا ہے جو اسالم کے ہزاروں احکامات کو نافذ کر رہی ہے ،حدود ،جہاد ،لوگوں
کی ضروریات کو پورا کرنا ،کفار سے االئنس کاٹنا ،غیر شرعی ٹیکسوں کا خاتمہ ،اور سب سے بڑھ کر مسلمانوں کی حفاظت۔
اوال :اسالم کے قطعی احکامات میں مجموعی طور پر کوئی زیادہ فرق نہیں۔ خصوصا ً وہ امور جن کا تعلق ریاست سے ہے ان
معامالت میں امت میں جذباتی اختالفات نہیں .جیسے خراج ،عشر ،زکواۃ ،حرمت سود ،ریاست کا ایک ہونا ،خلیفہ کی اطاعت،
خلیفہ کا امت کے امور کا ذمہ دار ہونا ،بنیادی ضروریات کی گارنٹی ،کفار کے ساتھ فوجی تعاون کا ممانعت IMF ،اور ورلڈ
بینک جیسے استعماری اداروں سے قرضہ لینے کی ممانعت ،اقوام متحدہ جیسے طاغوت کی رکنیت کا حرام ہونا ،غیر شرعی
ٹیکس لینے کی ممانعت ،زمینوں سے متعلق معرکۃاآلرا اصالحات ،حدود کا نفاذ ،اقام الصلوۃ ،پردہ ،سائنس و ٹیکنالوجی اور
اسالمی ثقافت کی ترویج وغیرہ وغیرہ۔ جہاں تک عبادات اور بعض مسائل کی فروعات اور تفصیالت میں اختالف کا تعلق ہے تو
اس اختالف کا امت کی وحدت کے امور سے کوئی تعلق نہیں ،نہ ہی ریاست کے امور پر اس کاکوئی اثر پڑتا ہے پس اس اختالف
کے باقی رہنے میں کوئی قباحت نہیں ،اگرچہ مثبت انداز میں ان معامالت پر بحث و مباحثے کا کلچر پروان چڑھا کر ریاست
خالفت ایک ایسے برداشت پر مبنی( )tolerantمعاشرے کو پروان چڑھا سکتی ہے.
دوم :موجودہ فرقہ وارانہ اختالفات میں شدت یقینا ً حکمرانوں اور استعماری طاقتوں کے مفاد میں ہے اور اس کو بڑھانے میں ان
کی کوششوں سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا .جیسا کہ آج مڈل ایسٹ میں بالکل واضح ہے.
اجتہاد سے متعلقہ بنیادی سمجھ ہی تفرقہ بازی اور دیگر مکاتب اسالم سے بغض کو زائل کرتی ہے کیونکہ دیگر مکاتب فکر بھی
دالئل کی بنیاد پر ایک شرعی مسئلے پر کاربند ہوتے ہیں۔ چنانچہ مختلف مکاتب فکر میں ایک دوسرے کے لئے احترام پیدا ہوتا
اور معاشرے میں ہم آہنگی کی فضاء جنم لیتی ہے۔ یقینا! جب آپ حق کی تعلیم عام کر دیتے ہیں تو فرقے مکاتب فکر بن جاتے ہیں
تاہم ایسا ہونا ایک ریاست کے بغیر ممکن نہیں۔
محمد عمران