Professional Documents
Culture Documents
ابن مسکویہ اور نظریہ ارتقاء
ابن مسکویہ اور نظریہ ارتقاء
رے سے تعلق رکھنے واال عظیم محقق تاریخ وفات 1032عیسوی ہے جناب ابن مسکویہ نے نظریہ ارتقاء پر بہت اچھی طرح
روشنی ڈالی تھی جو ڈروان کے نظریہ ارتقاء سے ملتا ہے۔
ابن مسکویہ لکھتا ہے کہ :موجودات عالم میں زندگی کا اثر سب سے پہلے نباتات کی شکل میں ظاہر ہوا کیونکہ ان میں حرکت
پائی جاتی ہے اور وہ غذا کے محتاج ہوتے ہیں اور ان ہی دو خصوصیات کی وجہ سے وہ جمادات سے ممتاز ہوجاتے ہیں۔
پہال درجہ :یہ ابتدائی درجہ تو ان نباتات کا ہے جو بغیر تخم کے پیدا ہوجاتے ہیں اور ہر قسم کی زمین سے اگتے ہیں۔وہ تخم کے
ذریعے اپنی نوع کو مخفوظ نہیں رکھتے اس لئے ان میں اور جمادات میں بہت کم فرق ہے۔
اس بلکل ابتدائی درجے کے بعدزندگی کے اثر میں ترقی ہوتی ہے اور اس قسم کے نباتات پیدا ہوتے ہیں جن میں شاخ و برگ
پائے جاتے ہیں اور وہ تخم کے ذریعے اپنی نوع کو مخفوظ رکھتے ہیں۔
دوسرادرجہ :ایسے درخت پیدا ہوتے ہیں جن میں تنا پتہ اور پھل پائے جاتے ہیں اور اسی پھل سے وہ اپنی نوع کو مخفوظ رکھتے
ہیں
ان درختوں میں درجہ بدرجہ اور ترقی ہوتی ہے وہ لگائے بھی جاسکتے ہیں اور قدرت ان کی نشونما کرتی ہے۔
تیسرا درجہ :نباتات کی ارتقاء کا انتہائی درجہ وہ ہے جس میں ایسے قسم کے درخت پیدا ہوتے ہیں جو بہت بڑے حساس اور
مخصوص ماحول میں اگتے ہیں۔
ابن مسکویہ نے نباتات میں زندگی ثابت کی اور اور کہا کہ یہ زندگی ترقی پزیر ہے نباتات کو ارتقاء کی اخری منزل حیواناتی
زندگی کا ابتدائی درجہ ہے۔
حیوانات کی ابتدائی منزل تک پنہچ کر قوت حس لمس پیدا ہو جاتی ہے۔ یعنی حرکت اور حس لمس یہ دو قوتیں حیوانات میں پیدا ہو
جاتی ہیں۔ ابتدائی ترین حیوانی زندگی میں دوسرے حواس سے حیوان محروم تھے۔ اور ان میں حرکت اور حس لمس ابتدائی شکل
میں موجود تھی جیسے گھونگھے اور سیپ جو سمندر کے کنارے پائے جاتے ہیں اور چھونے اور حرکت کی حس بہت کم ہوتی
ہے۔
اس کے بعد ابن مسکویہ اور اگے بڑھتا ہے اور حیوانی زندگی کی ابتدائی کڑیاں بیان کرتا ہے۔
حرکت اور حس لمس کو قوتیں بلکل معمولی حالت میں پائی جاتی ہیں۔ 1:
حرکت اور حس لمس کی قوت زیادہ پائی جاتی ہے جیسے کیڑے مکوڑے۔ 2:
وہ جاندار جن میں چار خواص پائی جاتی ہیں مثال چھچھوندر 3:
اور پھر ترقی ہوتی ہے اور ان میں قوت باصرہ پیدا ہوتی ہے جیسے شہد کی مکھیاں۔ 4:
ان ارتقائی کڑیوں کو بیان کرتے ہوئے ابن مسکویہ نے یہ ثابت کیا کہ کس طرح درجہ بدرجہ حیوانات ارتقاء پا گئے۔ اس سے یہ
بات ظاہر ہوتی ہے کہ ابن مسکویہ کا مشاہدہ انتہائی اچھے درجے کا تھا۔
اس کے بعد وہ مزید تشریح کرتا ہے حیوانات کا ابتدائی درجہ اس کی مختلف منزلیں۔
وہ ٰح یوانات جو ذکی الحس اور تیز فہم ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ اور قوت بھی رکھتے ہیں یعنی ان میں کچھ قوتیں حکم قبول 3:
کرنے کی اور نہ کرنے کی بھی پیدا ہو جاتیں ہیں۔ مثال گھوڑا باز وغیرہ۔
نسبتا ذکی الحس اور تیز فہم ہونے کے ساتھ ساتھ ابتدائی درجہ میں ان میں نقل کرنے کے کچھ مادہ ہوتا ہے جیسے طوطا اور 1:
مینا وغیرہ ۔
ذکی الحس تیز فہم اور جماعت بندی پر مائل اجتماعی طور پر رہتے ہیں۔ مثال بندر اور بن مانس وغیرہ۔2:
حیوانات کے اس اعلی ترین درجے کی اخری منزل سے انسانیت کا ابتدائی درجہ شروع ہوتا ہے۔
اس درجے میں حیوا ن اور انسان کے مزاج بہت ملتے جلتے ہیں اور بہت کم فرق پایا جاتا ہے مثال جنگلی قبائل ،آدی باسی ،اور
دوردراز کے حبشی لوگ۔
ابن مسکویہ نے اپنے وقت کا خوبصورت ترین نظریہ پیش کیا تھا ابن مسکویہ سے بھی پہلے فارابی نے انسانی ارتقاء کا نظریہ
پیش کر دیا تھا پر ابن مسکویہ نے اس کی بڑے اچھے انداز میں تشریح کی۔
اناالحق