Professional Documents
Culture Documents
Fadak
Fadak
Fadak
نبی کريم صلی ہللا عليہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی ہللا عنہا نے ابوبکر صديق رضی ہللا عنہ کے پاس کسی کو بهيجا اور
ان سے اپنی ميراث کا مطالبہ کيا نبی کريم صلی ہللا عليہ وسلم کے اس مال سے جو آپ کو ہللا تعالی نے مدينہ اور فدک ميں عنايت
فرمايا تها اور خيبر کا جو پانچواں حصہ ره گيا تها۔ ابوبکر رضی ہللا عنہ نے يہ جواب ديا کہ نبی کريم صلی ہللا عليہ وسلم نے
خود ہی ارشاد فرمايا تها کہ ہم پيغمبروں کا کوئی وارث نہيں ہوتا ‘ ہم جو کچه چهوڑ جائيں وه سب صدقہ ہوتا ہے ‘ البتہ آل محمد
صلی ہللا عليہ وسلم اسی مال سے کهاتی رہے گی اور ميں ،ہللا کی قسم! جو صدقہ نبی کريم صلی ہللا عليہ وسلم چهوڑ گئے ہيں اس
ميں کسی قسم کا تغير نہيں کروں گا۔ جس حال ميں وه آپ صلی ہللا عليہ وسلم کے عہد ميں تها اب بهی اسی طرح رہے گا اور اس
ميں ( اس کی تقسيم وغيره ) ميں ميں بهی وہی طرز عمل اختيار کروں گا جو آپ صلی ہللا عليہ وسلم کا اپنی زندگی ميں تها۔
غرض ابوبکر رضی ہللا عنہ نے فاطمہ رضی ہللا عنہا کو کچه بهی دينا منظور نہ کيا۔ اس پر فاطمہ رضی ہللا عنہا ابوبکر رضی
ہللا عنہ کی طرف سے خفا ہو گئيں اور ان سے ترک مَلقات کر ليا اور اس کے بعد وفات تک ان سے کوئی گفتگو نہيں کی۔ فاطمہ
رضی ہللا عنہا آپ صلی ہللا عليہ وسلم کے بعد چه مہينے تک زنده رہيں۔ جب ان کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر علی رضی ہللا
عنہ نے انہيں رات ميں دفن کر ديا اور ابوبکر رضی ہللا عنہ کو اس کی خبر نہيں دی اور خود ان کی نماز جنازه پڑه لی۔ فاطمہ
رضی ہللا عنہا جب تک زنده رہيں علی رضی ہللا عنہ پر لوگ بہت توجہ رکهتے رہے ليکن ان کی وفات کے بعد انہوں نے ديکها
کہ اب لوگوں کے منہ ان کی طرف سے پهرے ہوئے ہيں۔ اس وقت انہوں نے ابوبکر رضی ہللا عنہ سے صلح کر لينا اور ان سے
بيعت کر لينا چاہا۔ اس سے پہلے چه ماه تک انہوں نے ابوبکر رضی ہللا عنہ سے بيعت نہيں کی تهی پهر انہوں نے ابوبکر رضی
ہللا عنہ کو بَل بهيجا اور کہَل بهيجا کہ آپ صرف تنہا آئيں اور کسی کو اپنے ساته نہ َلئيں ان کو يہ منظور نہ تها کہ عمر رضی
ہللا عنہ ان کے ساته آئيں۔ عمر رضی ہللا عنہ نے ابوبکر رضی ہللا عنہ سے کہا کہ ہللا کی قسم! آپ تنہا ان کے پاس نہ جائيں۔
ابوبکر رضی ہللا عنہ نے کہا کيوں وه ميرے ساته کيا کريں گے ميں تو ہللا کی قسم! ضرور ان کی پاس جاؤں گا۔ آخر آپ علی
رضی ہللا عنہ کے يہاں گئے۔ علی رضی ہللا عنہ نے ہللا کو گواه کيا ‘ اس کے بعد فرمايا ہميں آپ کے فضل و کمال اور جو کچه
ہللا تعالی نے آپ کو بخشا ہے ‘ سب کا ہميں اقرار ہے جو خير و امتياز آپ کو ہللا تعالی نے ديا تها ہم نے اس ميں کوئی ريس بهی
نہيں کی ليکن آپ نے ہمارے ساته زيادتی کی ہم رسول ہللا صلی ہللا عليہ وسلم کے ساته اپنی قرابت کی وجہ سے اپنا حق
سمجهتے تهے ابوبکر رضی ہللا عنہ پر ان باتوں سے گريہ طاری ہو گئی اور جب بات کرنے کے قابل ہوئے تو فرمايا اس ذات
کی قسم! جس کے ہاته ميں ميری جان ہے رسول ہللا صلی ہللا عليہ وسلم کی قرابت کے ساته صلہ رحمی مجهے اپنی قرابت سے
صلہ رحمی سے زياده عزيز ہے۔ ليکن ميرے اور لوگوں کے درميان ان اموال کے سلسلے ميں جو اختَلف ہوا ہے تو ميں اس ميں
حق اور خير سے نہيں ہٹا ہوں اور اس سلسلہ ميں جو راستہ ميں نے نبی کريم صلی ہللا عليہ وسلم کا ديکها خود ميں نے بهی اسی
کو اختيار کيا۔ علی رضی ہللا عنہ نے اس کے بعد ابوبکر رضی ہللا عنہ سے کہا کہ دوپہر کے بعد ميں آپ سے بيعت کروں گا۔
چنانچہ ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر ابوبکر رضی ہللا عنہ منبر پر آئے اور خطبہ کے بعد علی رضی ہللا عنہ کے معاملے کا
اور ان کے اب تک بيعت نہ کرنے کا ذکر کيا اور وه عذر بهی بيان کيا جو علی رضی ہللا عنہ نے پيش کيا تها پهر علی رضی ہللا
عنہ نے استغفار اور شہادت کے بعد ابوبکر رضی ہللا عنہ کا حق اور ان کی بزرگی بيان کی اور فرمايا کہ جو کچه انہوں نے کيا
ہے اس کا باعث ابوبکر رضی ہللا عنہ سے حسد نہيں تها اور نہ ان کے فضل و کمال کا انکار مقصود تها جو ہللا تعالی نے انہيں
عنايت فرمايا يہ بات ضرور تهی کہ ہم اس معاملہ خَلفت ميں اپنا حق سمجهتے تهے ہمارے ساته يہی زيادتی ہوئی تهی جس
سے ہميں رنج پہنچا۔ مسلمان اس واقعہ پر بہت خوش ہوئے اور کہا کہ آپ نے درست فرمايا۔ جب علی رضی ہللا عنہ نے اس
معاملہ ميں يہ مناسب راستہ اختيار کر ليا تو مسلمان ان سے خوش ہو گئے اور علی رضی ہللا عنہ سے اور زياده محبت کرنے
لگے جب ديکها کہ انہوں نے اچهی بات اختيار کر لی ہے۔