These are some extra question that will help you out in exams. The benifit is that these are not only question it also has answer of these questions as well
الله کا وجود اور ثبوت پر چار چیزیں دلیل اور ثبوت کے طور پر پیش کی جاتی ہیں اور ان چار دلیلوں کی روشنی میں ہی دنیا اور بزم کون و مکان کے خالق حقیقی کا ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے
These are some extra question that will help you out in exams. The benifit is that these are not only question it also has answer of these questions as well
These are some extra question that will help you out in exams. The benifit is that these are not only question it also has answer of these questions as well
These are some extra question that will help you out in exams. The benifit is that these are not only question it also has answer of these questions as well
جوابات تحریر کریں۔ سوال نمبر :1خشیت الہی کا معنی و مفہوم بیا ن کریں۔ جواب:خیشیت کے معنی خوف کے ہیں خیشیت الہی سے مراد ہللا تعالی کا خوف ہے۔خیشیت الہی دل کی ایک خاص کیفیت کا نام ہے۔ہللا تعالی کا ایسا خوف جس میں محبت اور احترام کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔ہللا تعالی کا ایسا خوف جو ہللا تعالی کے قرب ،بخشش اور رحمتوں کے حصول کا باعث بنے نہ کہ وہ خوف جو ہللا تعالی سے دور کردے۔ سوال نمبر :2خیشیت الہی اور فکر آخرت سے متعلق کے بارے مین قران مجید کی کسی آیت کا ترجمہ لکھیں۔ جواب :ترجمہ " اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اس کے لیے دو باغ ہوں گے"۔ سوال نمبر:3خیشیت الہی اور فکر آخرت سے متعلق حضرت ابو بکر کا طرز عمل کیا ہوتا تھا۔ جواب:حضرت ابو بکر خیشیت الہی کے تحت اکثر فرمایا کرتے تھے کہ قیامت کے دن اگر یہ صدا بلند ہوئی کہ سوا ایک شخص کے سب جنت میں جائیں گے تو مجھے خوف ہے کہ وہ میں ہی نہ ہوں۔
سوال نمبر:4خیشیت الہی میں مسلمانوں میں کس
طرح سے ہللا کی راہ میں خرچ کرنے کا جزبہ پیدا ہوتا ہے؟ جواب:خیشیت الہی پر ایمان پختہ کرنے سے انسان کے دل میں اپنا مال ہللا تعالی کی راہ میں خرچ کرنے کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔انسان کو یہ بتایا گیا ہے ہللا تعالی کی راہ میں خرچ کیا ہوا مال ضائع نہیں ہوتا بلکہ یہ تو ہللا تعالی کے ہاں جمع ہوتا رہتا ہے اور اخروی زندگی کے لئے خزانہ بنتا رہتا ہے۔
سوال نمبر :3درج ذیل سواالت کے تفصیلی
جواب تحریر کریں۔ سوال نمبر :1خیشیت الہی اور فکر آخرت سے کیا مراد ہے؟ نیز اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں لکھیں۔ جواب :عموما کوئی بھی انسان گناہوں سے پاک نہیں ہوتا ۔ جانے انجانے مین انسان سے گناہ سرزد ہو جاتے ہیں۔ کامل مومن وہی ہوتا ہے جو کوئی بھول یا گناہ سرزد ہونے کے بعد ہللا تعالی کے خوف سےڈر جاتا ہے اور اپنی غلطی پر معافی طلب کرتا ہے۔انسان کو جب یہ احساس ہوتا ہے کہ اس غلطی کی ہللا تعالی آخرت میں مجھے سزا دے گا ،تو وہ ہللا تعالی کا خوف دل میں بٹھا لیتا ہے۔ اسی کا نام خیشیت الہی اور فکر آخرت ہے۔ قرآن کی روشنی میں اہمیت ترجمہ :مومن تو بس وہی ہیں کہ جب ہللا کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں اور جب ان پر ہللا کی آیات کی تالوت کی جاتی ہیں تو یہ(آیات)ان کے ایمان کو بڑھا دیتی ہیں اور وہ اپنے رب پر ہی بھروسا کرتے ہیں ۔ ترجمہ " :اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اس کے لیے دو باغ ہوں گے"۔ حدیث کی روشنی میں اہمیت حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ حضور اکرمﷺ کا فرمان مبارک ہے : "جس شخص نے ہللا تعالی کا ذکر کیا اور پھر خیشیت الہی کی بنا پراس کی آنکھوں سے اس قدر اشک رواں ہوئے کہ وہ زمین تک پہنچ گئے تو اسے روز قیامت عذاب نہیں دیا جائے گا۔" حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ہللا تعالی فرماتا ہے کے مجھے میری عزت کی قسم ہے مین اپنے بندے میں دو خوف اور دو امن اکٹھے نہیں کروں گا اگر اس نے دنیا میں مجھ سے خوف رکھا تو میں اسے قیامت کے دن امن دوں گا اور اگر دنیا میں مجھ سے بے خوف رہا تو میں اسے قیامت کے دن خوف دوں گا۔
سوال نمبر :2خیشیت الہی اور فکر آخرت پر نبی
کریمﷺ اور صحابہ اکرام رضوان ہللا علیہم اجمعین کا کیا طرز عمل تھا؟تفصیل سے لکھیں۔ جواب:حضوراکرمﷺ کی حیات مبارکہ میں خیشیت الہی اور فکر آخرت کے بے شمار واقعات ملتے ہیں۔آپﷺ سے بڑھ کرکیا کوئی پاکیزہ ،معصوم اور محبوب ہستی ہو گی۔آپﷺوہ ہستی ہیں جن کے لئے ہللا تعالی نے پوری کائنات تخلیق فرما دی۔آپ ﷺ کا دل خیشیت الہی سے لبریز تھا۔حضور ﷺ کے زمانے میں سورج گرہن لگا ۔ آپ مسجد میں آئے اور نماز میں طویل رکوع ،قیام اور سجدہ کیا۔ صحابہ اکرام نے اس سے پہلے کبھی آپﷺ کو اسطرح نماز پڑھتے نہیں دیکھا تھا پھر آپﷺ نے فرمایا " یہ ہللا کی نشانیاں ہیں جنہیں ہللا بھیجتا ہے یہ کسی کی موت و حیات کی وجہ سے نہیں ہیں لیکن ہللا تعالی اپنے بندوں کو ڈرانے کے لئے ان نشانیوں کو بھیجتا ہے جب تم اس قسم کی کوئی چیز دیکھو تو ہللا تعالی کے ذکر ۔اس سے دعا اور استغفار کی پناہ میں آو۔" صحابہ کرام رضوان ہللا کا طرز عمل: کریم کی سنت پر عمل کرتے ہوئےصحابہ کرام ؐ رسول ت الَہی کا بہترین نمونہ تھے بھی خشی ِ حضرت ابو بکر صدیق رضی ہللا خشیت الَہی کے تحت اکثر فرمایا کرتے تھے کہ قیامت کے دن اگر یہ صدا بلند ہوئی کہ سوائے ایک شخص کے سب جنت میں جائیں گےتو مجھے خوف ہے کہ وہ میں ہی نہ ہوں۔ حضرت عمر فاروق رضی ہللا عنہ ایک دن سورتہ التکویر کی تالوت فرما رہے تھے جب وہ اس آیت حف نُ ِشرت"یعنی "اور جب نامہ اعمال ص ُپرپہنچے"واذال ُ کھولے جائیں گے" تو خوف سے بے ہوش ہو گئےاور جب ہوش میں آئے تو اس قدر روئے کہ ہچکی بندھ گئی۔ حضرت عثمان غنی رضی ہللا عنہ کو خشیت ٰالہی نے اس قدر عاجز بنا دیا تھا کہ آپ جب کسی قبر کے قریب سے گزرتے تو اتنا روتے کہ داڑھی مبارک بھیگ جاتی۔ حضرت علی رضی ہللا عنہ کا نماز کے اوقات میں چہرہ مبارک کا رنگ بدل سا جاتااور جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا۔ جب کوئی پوچھتا تو فرماتےہللا کے سامنے حاضر ہونے لگا ہوں پتہ نہیں کہ ہللا قبول بھیفرماتا ہے کہ نہیں۔ سوال نمبر :3خیشیت الہی اور فکر آخرت کی بدولت انسان کی سیرت پر کون کون سے اثرات مرتب ہوتے ہیں،بیان کریں۔ جواب :خیشیت الہی اور فکر آخرت کی بدولت انسان کی سیرت پر کون کون سے اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ جواب :خیشیت الہی اور فکر آخرت انسان کی زندگی پر بے شمار اثرات مرتب کر تےہیں۔ ٭خیشیت الہی اور فکر آخرت سے شرسار انسان اپنا ہر قدم سوچ کر اٹھاتا ہے وہ بخوبی جانتا ہے کہ ہللا اس کے ہر عمل سے واقف ہے۔ ٭وہ اس بات سے بھی واقف ہے کہ بروز قیامت اس کو ہر عمل کی جزاور سزا ملے گی۔اس لئے وہ آپﷺ کی اتباع اور پیروی میں زندگی گزارتا ہے۔ ٭جب انسان یہ جان لیتا ہے کہ ہللا تعالی ہمارے ہر عمل سے واقف ہے اور ہمیں اس کا حساب دینا ہو گا ،تو وہ یقینی طور پر نیک اعمال کی طرف راغب ہو جاتا ہے۔اور برے اعمال سے نفرت کرنے لگتا ہے۔ ٭اس عقیدے پر ایمان پختہ کرنے سے انسان مصائب پر صبرو تحمل کرنا سیکھ جاتا ہے۔ کیونکہ وہ جا نتا ہے کہ الہ تعالی کے ہاں صبر کا اجر ملے گا۔ ٭ اس عقیدے پر ایمان پختہ کرنے سے انسان کے دل میں اپنا مال ہللا کی راہ میں خرچ کرنے کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔انسان کو یہ بتایا گیا ہے کہ ہللا تعالی کی راہ میں خرچ کیا ہوا مال ضائع نہیں ہوتا بلکہ یہ تو ہللا تعالی کے ہاں جمع ہوتا رہتا ہے اور اخروی زندگی کے لئے خزانہ بنتا رہتا ہے۔
الله کا وجود اور ثبوت پر چار چیزیں دلیل اور ثبوت کے طور پر پیش کی جاتی ہیں اور ان چار دلیلوں کی روشنی میں ہی دنیا اور بزم کون و مکان کے خالق حقیقی کا ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے