Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 13

‫اسالمکشاس ٹ ڈیز ۔‪6475‬‬

‫م ق‪01-‬‬
‫ن‬
‫ام ‪ :‬دمحم طارق‬
‫ٹ ش ن‬
‫‪BLI00089‬رجس ری ن مب ر‪21:‬‬
‫کورس کوڈ‪ :‬اسالمک س ٹ ڈیز ‪6475‬‬
‫ن‬
‫معلم کا ام‪:‬دمحم خ ان‬
‫خ‬
‫سمسٹ ر‪ :‬زاں ‪2022‬‬
‫یل ول‪:‬بی ای ڈ ڈھائ سالہ‬

‫ن‬ ‫ن‬ ‫ئن‬


‫اسا م ٹ مب ر ‪1‬‬
‫ن‬
‫سوال۔‪1‬۔ دی ن اسالم کی اہ می ت پر وٹ لکھی ں۔‬
‫تعالی ہے‪ :‬ہم نے‬
‫ٰ‬ ‫دی ِن اسالم کی عظمت و اہمیت‪،‬کاملیت اور ابدیت کے حوالے سے ارشا ِد باری‬
‫تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا‪،‬اور تم پر اپنی نعمت پوری* کردی‪ ،‬اور تمہارے لئے اسالم‬
‫بطور دین پسند کیا۔(سورۃ المائدہ)ایک مقام پر یوں فرمایاگیا‪:‬جو چیز تمہیں رسولﷺ دیں‪ ،‬اسے‬
‫ِ*‬ ‫کو‬
‫لے لو اورجس چیز سے منع کریں‪ ،‬اس سے باز ٓاجأو‘‘۔‬

‫ٓاپﷺ کا ارشا ِد گرامی ہے‪:‬جس نے ہمارے اس معاملے (دین) میں کوئی نئی چیز گھڑی تو وہ‬
‫مردود ہوگی۔(بخاری ومسلم)جامع* ترمذی میں ہے‪:‬تم پر الزم ہے کہ میری اور میرے ہدایت یافتہ‬
‫ؓ‬
‫خلفائےراشدین کی سنت پر عمل کرو۔‬

‫پروردگار عالم کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا‪،‬اور* یہ بھی اس کا بے پایاں اور‬
‫عظیم احسان اور انعام ہے کہ اس نے ہمیں ایمان اور اسالم کی دولت سے ماال مال فرمایا* اور خداون ِد‬
‫اعلی احسان اور انعام یہ ہے کہ ہمیں افضل االنبیاء‪ ،‬امام المرسلین‪ ،‬خاتم النّبیین‬
‫ٰ‬ ‫قدوس کا سب سے‬
‫حضرت محمد رسول* ہللا ﷺکا امتی بنایا‪،‬دین کی تکمیل خاتم االنبیاءﷺ پر ہوئی۔جو دین حضرت ٓادم‬
‫علیہ السالم‪،‬حضرت نوح علیہ السالم‪ ،‬حضرت ابراہیم علیہ السالم‪،‬حضرت* اسماعیل علیہ السالم‪،‬‬
‫موسی علیہ السالم‪،‬حضرت ہارون علیہ السالم ‪ ،‬حضرت دأود علیہ السالم‪،‬حضرت سلیمان‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت‬
‫عیسی علیہ السالم تک تمام انبیاء‬
‫ٰ‬ ‫علیہ السالم الئے تھے ۔ جو حضرت ٓادم علیہ السالم سے حضرت‬
‫ت گرامی* پر ہوئی۔ٓانحضرت‬ ‫کا متفقہ دین تھا‪ ،‬اس دین کی تکمیل حضرت محمد رسول ہللاﷺ کی ذا ِ‬
‫ﷺنے اس دین کو مسلسل ‪ 23‬برس طرح طرح کی تکلیفیں سہہ کر‪ ،‬ایذائیں برداشت کرکے‪ ،‬مصائب‬
‫مخلوق خدا تک پہنچایا۔ حجۃ الوداع کے موقع پر‬ ‫ِ‬ ‫و مظالم کے پہاڑ اٹھاکر‪ ،‬لوگوں کے طعنے سن کر‬
‫اعالن ہوا۔’’ٓاج میں نے تمہارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی‪،‬اسالم* کو تمہارے‬
‫بطور دین پسند کیا ہے‘‘۔اس ٓایت کریمہ سے واضح ہوگیا کہ اسالم دین کامل اور جامع دین ہے۔‬ ‫ِ‬ ‫لئے‬
‫دی ِن اسالم نے زندگی* گزارنے کے جتنے گوشے ممکن ہوسکتے تھے‪ ،‬ان سب کے لئے کچھ اصول‪،‬‬
‫کردیا۔قرٓان‬
‫ِ‬ ‫کچھ قوانین‪،‬اور* کچھ ضابطے بیان کرکے انسان کو دوسرے طور طریقوں سے بے نیاز‬
‫مقدس نازل کرکے اعالن فرمایا* کہ قرٓان میں اصو ِل دین کو کھول کر بیان کیاگیا ہےاور نبی اکرمﷺ‬
‫کو مبعوث فرماکے اعالن کیاکہ تمہارے لئے ہللا کے رسولﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔‬
‫اسالمکشاس ٹ ڈیز ۔‪6475‬‬
‫م ق‪01-‬‬
‫رسول ہللاﷺ کی حیات طیبہ کا مطالعہ فرمائیے‪،‬احادیث و سیرت کی کتابوں میںٓا پ ﷺ کی سیرت‬
‫طیبہ کا ایک ایک لحظہ محفوظ ہے۔اُمت کا ہر ٓادمی جو کام بھی کرنا چاہے ٓانحضرت ﷺ کی ذا ِ‬
‫ت‬
‫گرامی میں اس کے لیے کامل نمونہ موجود* ہے۔شادی ہو یا غمی‪ ،‬صحت ہو یا بیماری‪ ،‬سفر ہویا‬
‫حضر‪ ،‬جنگ ہو یاصلح‪ ،‬سسر ہو یاداماد‪ ،‬والدین ہوں یا اوالد‪ ،‬سربرا ِہ مملکت ہو یا مزدور‪ ،‬مسجد ہو‬
‫یا بازار‪ ،‬عبادت ہو یاتجارت‪ ،‬نماز ہو‪ ،‬روزہ ہو‪ ،‬اذان ہو‪ ،‬تکبیر ہو‪ ،‬جنازہ ہو‪ ،‬حج ہو‪ ،‬قربانی* ہو‪،‬‬
‫عمرہ ہو‪ ،‬غرض یہ کہ زندگی* کے نشیب و فراز میں اور زندگی کے ہر ہر موڑ پر ٓانحضرت ﷺکی‬
‫حتی کہ اس شفیق و مہربان پیغمبر ﷺ نے قضائے‬ ‫ت اقدس ایک مسلمان کے لیے کامل نمونہ ہے۔ ٰ‬ ‫ذا ِ‬
‫حاجت اور تھوکنے تک کے طریقے اور ٓاداب تک امت کو سکھادئیے۔ فرمایا* کعبہ کی طرف منہ‬
‫کرکے نہ تھوکنا۔ کعبہ کی طرف منہ کرکے اور پیٹھ کرکے قضائے حاجت نہ کرنا۔ راستے میں بیٹھ‬
‫کر پیشاب نہ کرنا‪ ،‬جس طرف سے ہوا ٓارہی ہو اس طرف منہ کرکے پیشاب نہ کرنا۔جس شفیق‬
‫پیغمبر ﷺ نے تھوکنے تک کے‪ ،‬بال کٹوانے اور ناخن ترشوانے تک کے ۔ہاں جس مشفق پیغمبر‬
‫ﷺ نے جملہ امور کے ٓاداب اور طریقے امت کو سکھائے‪ ،‬کیا اس پیغمبر ﷺ نے دین و دنیا کے‬
‫دوسرے معامالت میں راہنمائی نہ کی ہوگی؟ کیا اس پیغمبر ﷺ نے عبادت و تجارت‪ ،‬شادی و غمی‪،‬‬
‫اذان و تکبیر‪ ،‬نماز و روزہ کے ٓاداب اور مسائل نہیں سکھائے ہوں گے؟ الزما ً سکھائے ہوں گے‪،‬‬
‫اور زندگی گزارنے کے طور طریقے‪ ،‬عبادت و تجارت کے ٓاداب ضرور بتائے ہوں گے۔لہٰذاجو کام‬
‫کرام سے ثابت نہیں‪،‬وہ خالف شرع اور بدعت ہوگا۔‬ ‫ؓ‬
‫راشدین اور صحابٔہ ؓ‬ ‫ٓانحضرتﷺ‪ ،‬خلفائے‬

‫ہمارے رسول* ﷺرسول کامل ہیں کہ ان پر دین کی تکمیل ہوئی۔ہمارے پیغمبر ﷺ کی زندگی* اور‬
‫سیرت کا ایک ایک لحظہ محفوظ اور قابل عمل ہے۔ ان کی اتباع اور پیروی* کا نام ہی دین ہے۔ سنت‬
‫رسول سے اعراض بے دینی ہے۔ تو پھر یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ زندگی* گزارنے کا‬
‫ہرہرگوشہ اورہر* ہر شعبہ اسوئہ رسولﷺ اور سنت پیغمبر ﷺ کے مطابق* ہوگا‪ ،‬تو وہی دین ہوگا۔‬

‫اگر کوئی* شخص عبادت و نیکی اور ثواب کا کوئی ایساخود* ساختہ کام کرے گا ‪،‬جس کا وجود‬
‫ٓانحضرت ﷺ کے مبارک دَور میں نہیں تھا اور خلفائے راشدین ؓکا سنہرا دور بھی اس کام سے خالی‬
‫ب رسول بھی وہ کام نہیں کرتے تھے‪ٓ ،‬اج کوئی شخص اس کام کو نیکی اور‬ ‫نظر ٓاتا ہے اور اصحا ِ‬
‫دین سمجھتا ہے تو وہ سراسر* فریب ‪ ،‬دھوکے اور غلط فہمی میں مبتال ہے۔ وہ کام ثواب اور دین‬
‫نہیں ہوگا ‪،‬بلکہ خالف شرع اور ایک خود ساختہ عمل ہوگا۔‬

‫حضرت حذیفہ بن یمان ؓ فرماتے ہیں‪ :‬عبادت کا جو کام اصحاب رسول* ﷺنے نہیں کیا‪ ،‬وہ کام تم بھی‬
‫نہ کرو کیونکہ* پہلے لوگوں نے پچھلوں کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی‪ ،‬جسے یہ پچھلے‬
‫تعالی سے ڈرو۔ اے مسلمانو! اور پہلے لوگوں کے طریقے اختیار کرو۔ (االعتصام‬
‫ٰ‬ ‫پوراکریں۔ پس ہللا‬
‫عالمہ شاطبی)‬

‫عبادت و نیکی اور دین کا ہر کام کرتے ہوئے پرکھنا* ہوگا۔ اور دیکھنا ہوگا کہ ٓانحضرتﷺ اور‬
‫کرام کے‬
‫اصحاب پیغمبرﷺ کا اس بارے میں کیا عمل تھا۔اگر اس کا ثبوت ٓانحضرتﷺ اور صحابہ ؓ‬
‫دور سے مل جائے تو وہ کام سنت ‪ ،‬ثواب‪ ،‬نیکی اور دین ہوگا‪،‬ہللا کی رضامندی* کا موجب اور‬
‫ٓانحضرتﷺ کی خوشنودی کا سبب ہوگا۔ اگر اس کام کا ثبوت اور نام ونشان ٓانحضرتﷺ کی سیرت‬
‫و سنت میں بھی نہ ہو‪ ،‬اصحاب رسولﷺ کے اعمال سے بھی نہ ہو‪ ،‬تو پھر وہ کام بظاہر کتنا ہی‬
‫خوش نما کیوں نہ ہو۔ بظاہر* نیکی معلوم ہو وہ سنت اور دین نہیں ہوگا‪ ،‬بلکہ خود ساختہ* عمل اور‬
‫گمراہی ہوگا‪ ،‬وہ کام غضب خداوندی* کا موجب اور رسول انورﷺ کی ناراضی* کا سبب ہوگا۔‬

‫وہ کام اور وہ عمل دین اور نیکی ہوگا جوقرٓان وسنت اور ٓانحضور ﷺ کی سیرت اور ٓاپ ﷺ کے‬
‫روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ جو شخص بھی دین اور نیکی کا‬
‫ِ‬ ‫عمل سے ثابت ہو۔یہ بات‬
‫اسالمکشاس ٹ ڈیز ۔‪6475‬‬
‫م ق‪01-‬‬
‫ب رسول‬ ‫کوئی کام کرنا چاہتا ہے‪ ،‬اُسے دیکھنا اور پرکھنا ہوگا کہ ٓایا حضور اکرم ﷺاوراصحا ِ*‬
‫ﷺنے یہ کام کیا تھا؟ یا اس کام کے کرنے کاحکم دیا تھا؟ اگر ٓانحضرت ﷺ کی مبارک زندگی اور‬
‫ب رسولﷺ کی زندگیوں میں وہ کام ہوا‪ ،‬اور وہ شریعت اور قرٓان وسنت سے ثابت بھی ہو‬ ‫اصحا ِ‬
‫اور انہوںنے وہ کام کیا‪ ،‬یاکرنے کا حکم دیا تو پھر وہ کام دین بھی ہوگا‪ ،‬ثواب بھی ہوگا اور باعث‬
‫رحمت بھی ہوگا۔ل ٰہذا یہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ اسالم دین کامل اور ابدی ضابطٔہ حیات ہے‪،‬اس میں‬
‫ہردور* اور ہر عہد کے مسائل کا حل موجود ہے‪،‬خاتم االنبیاء‪ ،‬سیدالمرسلین‪ ،‬حضوراکرمﷺ جو‬
‫شریعت اوردین لے کر ٓائے درحقیقت اس کی اتباع میں ہی انسانیت کی فالح اور نجات کا راز مضمر‬
‫ہے۔‬

‫ن ن‬ ‫ض ت ئ‬ ‫ف‬
‫سوال۔‪2‬۔الہ کا م ہوم وا ح کرے وے اسماء ا س ٰی پر وٹ ھی ں۔‬
‫ک‬ ‫ل‬ ‫ل‬
‫ح‬ ‫ہ‬

‫ٰالہ کی تعریف کے حوالے سے ایک تحریر کا کچھ حصّہ پیش کررہا* ہوں‪ ،‬اِسے پڑھ کر ارشاد‬

‫فرمادیجئے کہ آیا یہ بات دُرست ہے یا اِس میں کوئی شرعی غلطی ہے؟ معبود اُسے کہتے ہیں جو‬

‫کسی کا محتاج نہ ہو۔ اُسے کسی کی احتیاج نہ ہو‪ ،‬سب سے بے نیاز و غنی و بے پراہ ہو۔ جس‬

‫کیلئے بھی غنائے ذاتی کو تسلیم کیا گیا گویا اُسے معبود مان لیاگیا۔ اب ایسا کسی کو مان کر پھر اُس‬

‫کیلئے عاجزی اختیار کرتے ہوئے کیا جانے واالہر* فعل عبادت ہے۔ اِس عجز کے ساتھ خواہ ندا کی‬

‫جائے ‪ ،‬قیام کیا جائے یا سجدہ ‪،‬طواف کیا جائے یا قربانی* ‪ ،‬اُس کے کسی بھی حکم پر عمل پیرا‬

‫ہواجائے ہر بات عبادت کہالئے گی۔ یہی الاِ ٰلہ االہللا کا مفہوم ہے کہ ہللا کے سوا ایسا کوئی نہیں جو‬

‫سب سے بے نیاز ہو‪ ،‬اِسی بے نیازی کی وجہ سے وہی ٰالہ ہونے کا مستحق* ہے اُس کے سوا کوئی‬

‫ٰالہ نہیں ایک اُسی کی ذات ہے جو سب سے بے نیاز ہے‪ ،‬اُسے کسی کی حاجت نہیں ‪ ،‬نہ اپنا وجود‬

‫قائم رکھنے میں نہ کسی کو وجود* بخشنے میں۔ سب کی مشکلیں حل کرنے واالوہی واح ِد حقیقی ہے۔‬

‫اُس سے بے نیاز ہوکر کوئی نبی ہو یا ولی‪ ،‬پیر ہو یا امام مدد کرنا تو درکنار اپنا وجود بھی قائم نہیں‬

‫رکھ سکتے۔‬
‫حسنی کو یاد کرنے کی فضیلت‬
‫ٰ‬ ‫تعالی کے اَسمائے‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬

‫اَ ْلقُ ْرآن‬

‫سيُ ْجز َْونَ َما َکانُ ْوا يَ ْع َملُ ْونَ‬ ‫س ٰنی فَا ْدع ُْوهُ بِ َها َو َذ ُروا الَّ ِذيْنَ يُ ْل ِحد ُْونَ فِ ْي اَ ْ‬
‫س َمآِئ ِ*ه‪ ‬ط‪َ  ‬‬ ‫س َمآ ُء ا ْل ُح ْ‬
‫‪َ .1‬و ِهلل ااْل َ ْ‬
‫‪o‬‬
‫(االعراف‪)180 /7 ،‬‬
‫اسالمکشاس ٹ ڈیز ۔‪6475‬‬
‫م ق‪01-‬‬
‫اور ہللا ہی کے لیے اچھے اچھے نام ہیں‪ ،‬سو اسے ان ناموں سے پکارا کرو اور ایسے لوگوں کو‬
‫چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں حق سے اِنحراف* کرتے ہیں‪ ،‬عنقریب انہیں ان (اَعما ِل بد) کی سزا‬
‫دی جائے گی جن کا وہ ارتکاب کرتے ہیں۔‬
‫س ٰنی‪.‬‬ ‫‪ .2‬قُ ِل ا ْدعُوا هللاَ اَ ِو ا ْدعُوا ال َّر ْحمٰ نَ ‪ ‬ط‪ ‬اَ ًّدا َّما تَ ْدع ُْوا فَلَهُ ااْل َ ْ‬
‫س َما ُء ا ْل ُح ْ‬
‫(اإلسراء‪)110 /17 ،‬‬
‫فرما دیجیے کہ ہللا کو پکارو یا رحمان کو پکارو‪ ،‬جس نام سے بھی پکارتے ہو (سب) اچھے نام‬
‫اسی کے ہیں۔‬
‫س ٰنی‪o‬‬ ‫‪ .3‬هللَا ُ اَل اِ ٰلهَ اِالَّ ه َُو‪ ‬ط‪ ‬لَهُ ااْل َ ْ‬
‫س َمآ ُء ا ْل ُح ْ‬
‫(طه‪)8 /20 ،‬‬ ‫ٰ‬
‫اسم ذات) ہے جس کے سوا کوئی* معبود نہیں (گویا تم اسی کا اثبات کرو اور باقی سب‬ ‫ہللا (اسی کا ِ‬
‫جھوٹے معبودوں کی نفی کر دو) اس کے لیے (اور بھی) بہت خوبصورت* نام ہیں (جو اس کی حسین‬
‫و جمیل صفات کا پتہ دیتے ہیں)‬
‫ي اَل اِ ٰلهَ اِاَّل‬
‫ش َها َد ِة‪ ‬ج‪ُ  ‬ه َو ال َّر ْحمٰ نُ ال َّر ِح ْي ُم‪ o‬ه َُو هللاُ الَّ ِذ ْ‬ ‫ب َوال َّ‬ ‫ي اَل اِ ٰلهَ اِاَّل ُه َوج‪ٰ  ‬علِ ُم ا ْل َغ ْي ِ‬ ‫‪ُ .4‬ه َو هللاُ الَّ ِذ ْ‬
‫س ْب ٰحنَ هللاِ َع َّما‬ ‫س ٰل ُم ا ْل ُمْؤ ِمنُ ا ْل ُم َه ْي ِمنُ ا ْل َع ِز ْي ُز ا ْل َجبَّا ُر ا ْل ُمتَ َکبِّ ُر‪ُ    ‬‬
‫ط‬
‫س ال َّ‬ ‫ک ا ْلقُد ُّْو ُ‬‫ُه َو‪ ‬ج‪ ‬اَ ْل َملِ ُ‬
‫سمٰ ٰو ِ‬
‫ت‬ ‫سبِّ ُح لَهُ َما فِی ال َّ‬ ‫س ٰنی‪ ‬ط‪ ‬يُ َ‬ ‫س َما ُء ا ْل ُح ْ‬ ‫ص ِّو ُر لَهُ ااْل َ ْ‬ ‫ق ا ْلبَا ِرء ا ْل ُم َ‬ ‫ش ِر ُک ْونَ ‪ُ o‬ه َو هللاُ ا ْل َخالِ ُ‬ ‫يُ ْ‬
‫ک ْي ُم‪o‬‬ ‫ْ‬ ‫ُ‬ ‫ْ‬
‫ض‪َ    ‬وه َُو ال َع ِز ْيز ال َح ِ‬ ‫ج‬
‫َوا ْر ِ‬ ‫َ‬ ‫اْل‬
‫(الحشر‪)24-22 /59 ،‬‬
‫وہی ہللا ہے جس کے سوا کوئی* معبود نہیں‪ ،‬پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے واال ہے‪ ،‬وہی بے حد رحمت‬
‫فرمانے واال نہایت مہربان ہے۔ وہی ہللا ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں‪( ،‬حقیقی) بادشاہ ہے‪ ،‬ہر‬
‫عیب سے پاک ہے‪ ،‬ہر نقص سے سالم (اور سالمتی* دینے واال) ہے‪ ،‬امن و امان دینے واال (اور‬
‫معجزات کے ذریعے رسولوں کی تصدیق فرمانے واال) ہے‪ ،‬محافظ* و نگہبان ہے‪ ،‬غلبہ و ع ّزت واال‬
‫ہے‪ ،‬زبردست* عظمت واال ہے‪ ،‬سلطنت و کبریائی* واال ہے‪ ،‬ہللا ہر اُس چیز سے پاک ہے جسے وہ‬
‫اُس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ وہی ہللا ہے جو پیدا فرمانے واال ہے‪ ،‬عدم سے وجود* میں النے واال‬
‫(یعنی ایجاد فرمانے واال) ہے‪ ،‬صورت عطا فرمانے واال ہے۔ (الغرض) سب اچھے نام اسی کے‬
‫ہیں‪ ،‬اس کے لیے وہ (سب) چیزیں تسبیح کرتی ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں‪ ،‬اور وہ بڑی‬
‫عزت واال ہے بڑی حکمت واال ہے۔‬
‫سبِّ ْحهُ لَ ْياًل طَ ِو ْياًل ‪o‬‬ ‫ص ْياًل ‪َ o‬و ِمنَ الَّ ْي ِل فَا ْ‬
‫س ُج ْد لَهُ َو َ‬ ‫ک بُ ْک َرةً َّواَ ِ‬ ‫‪َ .5‬و ْاذ ُک ِر ا ْ‬
‫س َم َربِّ َ‬
‫(الدهر‪)26-25 /76 ،‬‬
‫اور صبح و شام اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کریں۔ اور رات کی کچھ گھڑیاں اس کے حضور سجدہ‬
‫ریزی کیا کریں اور رات کے (بقیہ) طویل حصہ میں اس کی تسبیح کیا کریں۔‬
‫ص ٰلّی‪o‬‬ ‫‪ .6‬قَ ْد اَ ْفلَ َح َمنْ تَزَک ٰ ّی‪َ o‬و َذ َک َر ا ْ‬
‫س َم َربِّ ِه فَ َ‬
‫(االعلی‪)15-14 /87 ،‬‬ ‫ٰ‬
‫بے شک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیا۔ اور وہ اپنے رب‬
‫کے نام کا ذکر کرتا رہا اور (کثرت و پابندی سے) نماز پڑھتا رہا۔‬
‫ب فَا َ ْينَ َما تُ َولُّ ْوا فَثَ َّم َو ْجهُ هللاِ‪ ‬ط‪ ‬اِنَّ هللاَ َو ِ‬
‫اس ٌع َعلِ ْي ٌم‪o‬‬ ‫ق َوا ْل َم ْغ ِر ُ‬ ‫‪َ .7‬و ِهللِ ا ْل َم ْ‬
‫ش ِر ُ‬
‫(البقرة‪)115 /2 ،‬‬
‫اسالمکشاس ٹ ڈیز ۔‪6475‬‬
‫م ق‪01-‬‬
‫اور مشرق و مغرب (سب) ہللا ہی کا ہے‪ ،‬پس تم جدھر بھی رخ کرو ادھر ہی ہللا کی توجہ ہے (یعنی‬
‫ہر سمت ہی ہللا کی ذات جلوہ گر ہے)‪ ،‬بے شک ہللا بڑی وسعت واال سب کچھ جاننے واال ہے۔‬
‫ک ْونُ ‪o‬‬ ‫ض‪ ‬ط‪َ  ‬واِ َذا قَ ٰ‬
‫ضی اَ ْم ًرا فَاِنَّ َما يَقُ ْو ُل لَهُ ُکنْ فَيَ ُ‬ ‫ت َوااْل َ ْر ِ‬
‫سمٰ ٰو ِ‬
‫‪ .8‬بَ ِد ْي ُع ال َّ‬
‫(البقرة‪)117 /2 ،‬‬
‫وہی آسمانوں اور زمین کو وجود میں النے واال ہے‪ ،‬اور جب کسی چیز (کے ایجاد) کا فیصلہ فرما‬
‫لیتا ہے تو پھر اس کو صرف* یہی فرماتا ہے کہ ’تو ہو جا‘ پس وہ ہو جاتی ہے۔‬
‫س لَ َر ُء ْوفٌ َّر ِح ْي ٌم‪o‬‬
‫‪ .9‬اِنَّ هللاَ بِالنَّا ِ‬
‫(البقرة‪)143 /2 ،‬‬
‫بے شک ہللا لوگوں پر بڑی شفقت فرمانے* واال مہربان ہے۔‬
‫ب َعلَ ْي ِه ْم‪ ‬ج‪َ  ‬واَنَا التَّ َّو ُ‬
‫اب ال َّر ِح ْي ُم‪o‬‬ ‫ک اَت ُْو ُ‬ ‫صلَ ُح ْوا* َوبَيَنُ ْوا فَا ُ ٰ‬
‫ولـِئ َ‬ ‫‪ .10‬اِالَّ الَّ ِذيْنَ تَابُ ْوا َواَ ْ‬
‫(البقرة‪)160 /2 ،‬‬
‫مگر جو لوگ توبہ کر لیں اور (اپنی) اصالح کر لیں اور (حق کو) ظاہر کر دیں تو میں (بھی) انہیں‬
‫معاف فرما دوں گا‪ ،‬اور میں بڑا ہی توبہ قبول کرنے واال مہربان ہوں۔‬

‫ن‬ ‫خ ئ‬ ‫خت ن‬
‫سوال۔‪3‬۔ م ب وت اور اس کے صا ل پر وٹ لکھی ں۔‬

‫مسلمانوں کے عقیدہ کے مطابق‪ ‬ختم نبوت‪ ‬سے مراد‬


‫یہ ہے کہ حضور‪ ‬نبی اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم*‬
‫‪ ‬ہللا ٰ‬
‫تعال ٰی کے آخری نبی اور آخری رسول ہیں۔‬
‫ہللا رب العزت نے آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کو اس جہاں میں بھیج کر بعثت انبیا کا سلسلہ ختم‬
‫فرما* دیا ہے۔ اب آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا۔ حضور* نبی اکرم‬
‫صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت کا ذکر‪ ‬قرآن‪ ‬حکیم کی ‪ 100‬سے بھی زیادہ آیات میں نہایت ہی‬
‫جامع انداز میں صراحت کے ساتھ کیا گیا ہے‬
‫‪:‬ارشا ِد خداوندی* ہے‬
‫االحزاب‪َّ o (،‬ما َكانَ ُم َح َّم ٌد َأبَا َأ َح ٍد ِّمن ر َ‬
‫ِّجالِ ُك ْ*م َولَ ِكن َّرسُو َل هَّللا ِ َوخَاتَ َم النَّبِيِّينَ َو َكانَ هَّللا ُ بِ ُكلِّ َش ْي ٍء َعلِي ًما‬
‫)‪40 : 33‬‬
‫ترجمہ‪ :‬محمد (صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم) تمہارے َمردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ ہللا‬
‫کے رسول ہیں اور سب انبیا کے آخر میں (سلسلِۂ نبوت ختم کرنے والے) ہیں اور ہللا ہر چیز کا‬
‫خوب علم رکھنے واال ہے۔‬
‫تعال ٰی نے حضور نبی اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کو‪ ‬خاتم النبیین‪ ‬کہہ کر یہ‬ ‫ت کریمہ میں ہللا ٰ‬
‫اس آی ِ‬
‫اعالن فرما دیا کہ آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم ہی آخری نبی ہیں اور اب قیامت تک کسی کو نہ‬
‫منصب‪ ‬نبوت‪ ‬پر فائز* کیا جائے گا اور نہ ہی منصب‪ ‬رسالت‪ ‬پر۔‬
‫قرآن حکیم میں سو سے زیادہ آیات ایسی ہیں جو اشارۃً یا کنایۃً عقيدہ ختم نبوت کی تائید و تصدیق*‬
‫کرتی ہیں۔ خود نبی اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے اپنی متعدد اور متواتر* احادیث میں‪ ‬خاتم‬
‫النبیین‪ ‬کا یہی معنی متعین فرمایا* ہے۔ لہٰ ذا اب‪ ‬قیامت‪ ‬تک کسی قوم‪ ،‬ملک یا زمانہ کے لیے آپ صلی‬
‫اسالمکشاس ٹ ڈیز ۔‪6475‬‬
‫م ق‪01-‬‬
‫ہللا علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی اور نبی یا رسول کی کوئی ضرورت باقی* نہیں اور مشیت ٰالہی نے‬
‫نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا ہے۔‬
‫آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم سلسلۂ نبوت اور رسالت کی آخری کڑی ہیں۔ آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم‬
‫ختم نبوت کا واضح الفاظ میں اعالن فرمایا۔*‬ ‫نے اپنی زبا ِن حق ترجمان سے اپنی ِ‬
‫‪:‬انس بن مالک‪ ‬سے مرفوعا ً روایت ہے کہ حضور* صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم* نے ارشاد* فرمایا‬
‫اِ َّن ال ِّر َسالَةَ َوال ُّنبُ َّوةَ قَ ْد ا ْنقَط َع ْ‬
‫ت فَاَل َرسُوْ َل بَ ْع ِديْ َواَل نَبِ َي۔ (ترمذي‪ ،‬الجامع الصحيح‪ ،‬کتاب الرويا‪: 4 ،‬‬
‫‪ ،163‬باب‪ : ‬ذهبت النبوة‪ ،‬رقم‪)2272 : ‬‬
‫ترجمہ‪ : ‬اب نبوت اور رسالت کا انقطاع عمل میں آ چکا ہے لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول* آئے گا‬
‫اور نہ کوئی نبی۔‬
‫اس حدیث پاک سے ثابت ہو گیا کہ آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ آپ‬
‫دعوی کرے وہ جھوٹا* ملعون اور‪ ‬ابلیس‪ ‬کے‬ ‫ٰ‬ ‫صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم* کے بعد جو کوئی بھی نبوت کا‬
‫ناپاک عزائم کا ترجمان ہو گا۔ آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے نبوت کے جھوٹے دعویداروں کی نہ‬
‫صرف نشان دہی کر دی بلکہ ان کی تعداد بھی بیان فرما* دی تھی۔ حضرت‪ ‬ثوبان‪ ‬رضی* ہللا عنہ سے‬
‫‪:‬روایت ہے کہ حضور* نبی اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‬
‫أنّہ َسيَ ُکوْ نُ فِ ْي ُأ َّمتِ ْي ثَاَل ثُوْ نَ َک َّذابُوْ نَ ‪ُ ،‬کلُّهُ ْم يَ ْز ُع ُم َأنّہ نَبِ ٌّی َو َأنَا خَاتَ ُم النَّبِيِ ْينَ اَل نَبِ َي بَ ْع ِديْ ۔ (ترمذي‪ ،‬السنن‪،‬‬
‫کتاب الفتن‪ ،‬باب‪ : ‬ماجاء ال تقوم الساعة حتی يخرج کذابون‪ ،499 : 4 ،‬رقم*‪)2219 : ‬‬
‫ترجمہ‪ :‬میری امت میں تیس (‪ )30‬اشخاص کذاب ہوں گے ان میں سے ہر ایک کذاب کو گمان ہوگا‬
‫کہ وہ نبی ہے حاالنکہ میں خاتم النبیین ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔‬
‫ٰ‬
‫دعوی کرے‬ ‫اگر کوئی* شخص حضور نبی اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت یا رسالت کا‬
‫(خواہ کسی معنی میں ہو) وہ‪ ‬کافر*‪ ،‬کاذب‪ ،‬مرتد‪ ‬اور خارج از اسالم ہے۔ نیز جو شخص اس‬
‫کے‪ ‬کفر‪ ‬و‪ ‬ارتداد‪ ‬میں شک کرے یا اسے‪ ‬مومن‪ ،‬مجتہد‪ ‬یا‪ ‬مجدد‪ ‬وغیرہ مانے وہ بھی کافر* و مرتد اور‬
‫جہنمی ہے۔‬
‫مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ جناب نبی کریم صلی ہللا علیہ و آلہ وسلم* روئے زمین کی ہر قوم اور ہر‬
‫انسانی طبقے کی طرف* رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں اور آپ کی الئی ہوئی کتاب قرآن مجید تمام‬
‫آسمانی کتب کے احکام منسوخ کرنے والی اور آئندہ کے لیے تمام معامالت کے احکام و قوانین میں‬
‫جامع و مانع ہے۔ قرآن کریم تکمیل دین کااعالن کرتا ہے۔ گویا انسانیت اپنی معراج کو پہنچ چکی ہے‬
‫اور‪ ‬قرآن‪ ‬کریم انتہائی عروج پر پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ اس کے بعد کسی دوسری* کتاب کی ضرورت‬
‫ہے‪ ،‬نہ کسی نئے نبی کی حاجت۔ چنانچہ امت محمدیہ کا یہ بنیادی عقیدہ ہے کہ آپ کے بعد اب کوئی‬
‫نبی نہیں آئے گا۔ انسانیت کے سفر حیات میں وہ منزل آ پہنچی ہے کہ جب اس کا ذہن بالغ ہو گیا ہے‬
‫اور اسے وہ مکمل ترین ضابطۂ حیات دے دیا گیا‪ ،‬جس کے بعد اب اسے نہ کسی قانون کی احتیاج‬
‫باقی رہی نہ کسی نئے پیغامبر* کی تالش۔‬
‫قرآن‪ ‬و‪ ‬سنت‪ ‬کی روشنی* میں ختم نبوت کا انکار محال ہے۔ اور یہ ایسا متفق علیہ عقیدہ ہے کہ خود‬
‫عہد رسالت میں‪ ‬مسیلمہ کذاب‪ ‬نے جب نبوت کا دعوی کیا اور حضور کی نبوت کی تصدیق بھی کی‬
‫تواس کے جھوٹا ہونے میں ذرا بھی تامل نہ کیا گیا۔ اور‪ ‬صدیق اکبر‪ ‬کے عہد خالفت میں‪ ‬صحابہ‬
‫کرام‪ ‬نے جنگ کر کے اسے کیفر کردار* تک پہنچایا۔ اس کے بعد بھی جب اور جہاں کسی نے نبوت‬
‫کا دعوی کیا‪ ،‬امت مسلمہ نے متفقہ طور پر اسے جھوٹا قرار دیا اوراس کا قلع قمع کرنے میں ہر‬
‫ممکن کوشش کی۔‪1973 ‬ء‪ ‬کے‪ ‬آئین‪ ‬میں‪ ‬پاکستان‪ ‬میں حضور* صلی ہللا علیہ و آلہ وسلم* کو آخری نبی‬
‫نہ ماننے والے کو غیر مسلم قرار* دیا گیا۔‬
‫اسالمکشاس ٹ ڈیز ۔‪6475‬‬
‫م ق‪01-‬‬
‫قرآن میں ختم نبوت‬
‫قرآن مقدس۔‬
‫قرآنی آیات کے مطابق* محمد صل ہلل علیہ والہ وسلم پر‪ ‬نبوت‪ ‬ختم ہے‪ ،‬آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔‬
‫‪:‬اس ضمن میں کئی آیات قرآن میں مذکور* ہیں‬

‫‪ ]1[  ‬‬ ‫َّما َكانَ ُم َح َّم ٌد َأبَا َأ َح ٍد ِّمن رِّ َجالِ ُك ْ*م َولَ ِكن َّرس َ‬
‫ُول هَّللا ِ َوخَاتَ َم النَّبِيِّينَ َو َكانَ هَّللا ُ بِ ُك ِّل َش ْي ٍء َعلِي ًما‪ ‬‬
‫[‪]2‬‬
‫شیخ‪ ‬فخر الدين الرازی‪ ‬کہتے ہیں ختم نبوت کے باب میں؛ ان کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔‬

‫اور‪ ‬محمد بن حسن طوسی*‪ ‬اپنی تفسیر‪ ‬تفسیر التبیان‪ ‬میں کہتے ہیں‪1. :‬‬


‫[‪]3‬‬
‫آپ آخری نبی ہیں‪ ،‬اب قیامت تک کوئی نبی نہیں۔‬
‫کچھ آیات ایسی ہیں جن سے خاتمیت پر استدالل کیا جا سکتا ہے‪ ،‬لیکن وہ مندرجہ باال آیات کی طرح‬
‫‪:‬صرف ختم نبوت کے بیان پر مبنی نہیں ہیں‪ ،‬جیسے ا‬

‫‪‬‬ ‫محمد صل ہلل علیہ والہ وسلم کا یہ پیغام آخری پیغام ہے اب کوئی* مزید کوئی پیغام نہیں‬
‫آئے گا۔‬
‫َير هَّللا ِ بِ ِه َوال ُمن َخنِقَةُ َوال َموقو َذةُ َوال ُمت ََر ِّديَةُ َوالنَّ َ‬
‫طيحةُ‪ ‬‬ ‫ُأ‬ ‫حُرِّ َمت َعلَي ُك ُم ال َميتَةُ َوال َّد ُم َولَح ُم ِ‬
‫نزير َوما ِه َّل لِغ ِ‬‫الخ ِ‬
‫َّ‬
‫س الذينَ‬ ‫ق ۗ اليَو َم يَِئ َ‬ ‫ٰ‬
‫زالم ۚ ذلِ ُكم فِس ٌ‬
‫ِ‬ ‫َأل‬‫َقسموا* بِا‬
‫ب َو ن تَست ِ‬ ‫َأ‬ ‫ص ِ‬ ‫َوما َأ َك َل ال َّسبُ ُع ِإاّل ما َذ َّكيتُم َوما ُذبِ َح َعلَى النُّ ُ‬
‫ضيت لَ ُك ُم اِإل سال َم‬
‫ُ‬ ‫لت لَ ُكم دينَ ُكم* َوَأت َم ُ‬
‫مت َعلَي ُكم نِع َمتي َو َر‬ ‫َكفَروا ِمن دينِ ُكم فَال تَخ َشوهُم* َواخ َشو ِن ۚ اليَو َم َأك َم ُ‬
‫[‪]4‬‬
‫ف ِإِل ٍثم ۙ فَِإ َّن هَّللا َ غَفو ٌر َرحي ٌم‪   ‬‬ ‫َير ُمتَجانِ ٍ‬‫ص ٍة غ َ‬‫دينًا ۚ فَ َم ِن اضطُ َّر في َمخ َم َ‬

‫‪‬‬ ‫قرآن کا بیان ہے کہ‪ ‬قرآن‪ ‬قیامت‪ ‬تک کے لیے‪ ‬ہللا‪ ‬کی حجت اور ب رہان ہے‪ ،‬جس کا‬
‫مطلب یہ ہے کہ محمد صل ہلل علیہ والہ وسلم کی نبوت قیامت تک کے لوگوں کے لیے‬
‫ہے‪ ،‬مخصوص دود تک کے لیے نہیں کہ مزید کوئی نیا نبی آئے اور نئے احکام الئے۔‬
‫‪:‬قرآن میں ہے‬
‫ي هَ َذا ْالقُرْ آنُ ُألن ِذ َر ُكم بِ ِه َو َمن بَلَ َغ َأِئنَّ ُك ْم‪ ‬‬
‫قُلْ َأيُّ َش ْي ٍء َأ ْكبَ ُر َشهَادةً قُ ِل هّللا ِ َش ِهي ٌد بِ ْينِي َوبَ ْينَ ُك ْ*م َوُأو ِح َي ِإلَ َّ‬
‫[‪]5‬‬
‫لَتَ ْشهَ ُدونَ َأ َّن َم َع هّللا ِ آلِهَةً ُأ ْخ َرى قُل اَل َأ ْشهَ ُد قُلْ ِإنَّ َما ه َُو ِإلَهٌ َوا ِح ٌد َوِإنَّنِي بَ ِري ٌء ِم َّما تُ ْش ِر ُكونَ ‪   ‬‬

‫‪‬‬ ‫ایسی آیات بھی ہیں جن میں قرآن کو قیامت تک کے لیے (رود و بدل) سے محفوظ۔ ہے‬
‫اور اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں‪ ،‬ہللا نے اس کی حفاظت کا ذمہ خود لیا ہے‪،‬‬
‫جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اب کسی نئے نبی اور نئے احکامات کی حاجت نہیں۔‬
‫ْأ‬
‫َزي ٌز‪   ‬اَل يَ تِي ِه ْالبَا ِط ُل ِمن بَي ِْن يَ َد ْي ِه َواَل ِم ْن َخ ْلفِ ِه ت ِ‬
‫َنزي ٌل‪ ‬‬ ‫ِإ َّن الَّ ِذينَ َكفَرُوا بِال ِّذ ْك ِر لَ َّما َجاءهُ ْم َوِإنَّهُ لَ ِكتَابٌ ع ِ‬
‫‪ِّ  ‬م ْن َح ِك ٍيم َح ِمي ٍد‬

‫‪ ]6[  ‬‬ ‫ِإنَّا نَحْ نُ نَ َّز ْلنَا ال ِّذ ْك َر َوِإنَّا لَهُ لَ َحافِظُونَ ‪ ‬‬

‫‪‬‬ ‫اس کے عالوہ‪ ،‬اسالم کا پیغام تمام انسانیت کے حوالے سے ایک عالمگیر پیغام ہے۔ یہ‬
‫آیات بتاتی ہیں کہ اسالم ایک مکمل مذہب ہے جو ہر دور کے لوگوں اور ان کی تمام‬
‫ضروریات* کو پورا* کرتا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کسی دوسرے پیغام کی کوئی‬
‫ضرورت نہیں ہے۔ محمد صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم* نے دین کی تکمیل کر دیا۔‬
‫اسالمکشاس ٹ ڈیز ۔‪6475‬‬
‫م ق‪01-‬‬
‫ض ت ئ خ‬ ‫ف‬ ‫ق خ‬
‫سوال۔‪4‬۔ع ی دہ آ رت کا م ہوم وا ح کرے ہ وے آ رت کی م ن ازل ذکر کری ں۔‬
‫عقیدہ آخرت ت‬ ‫شخ‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫اسالمی عقن ت‬
‫ے‪،‬‬ ‫ے اعم نال ُکا خحساب ندی ا ہ‬ ‫الی کی ب ارگاہ می ں ن پا‬ ‫ٰن‬ ‫ع‬ ‫ہللا‬ ‫کر‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫دہ‬ ‫ز‬ ‫عد‬ ‫ب‬ ‫کے‬ ‫موت‬ ‫کو‬ ‫ص‬ ‫ر‬ ‫ہ‬ ‫ق‬ ‫طا‬ ‫م‬‫ن‬
‫ے م ں وہ ج ہ م ب ن‬ ‫کے‬ ‫دے‬ ‫ی‬
‫ے‬ ‫صورت می ں سزا و ج زا) سے ہ مک ار ہ و گا۔ اس ز دگی کا ام ‪ ‬ا روی ز دگی‪ ‬ہ‬ ‫نی ا ج نت (کی خ‬ ‫کے یج ی‬ ‫جس ن‬
‫ت‬ ‫خ‬ ‫ہ ق‬ ‫ے۔‬ ‫ن ہ‬ ‫‪ ‬‬ ‫رت‬ ‫اآل‬ ‫ِ‬
‫ی بت‬ ‫مان‬ ‫ا‬ ‫‪ ‬‬ ‫ام‬ ‫کا‬ ‫ے‬ ‫ال‬ ‫مان‬ ‫خاور استز پ ی‬
‫ا‬ ‫ر‬ ‫دگی‬
‫ں مام رسولوں اور‬ ‫م‬ ‫ارے‬ ‫کے‬ ‫رت‬ ‫آ‬ ‫ے۔‬ ‫دہ‬ ‫ف‬ ‫ع‬ ‫م‬ ‫ا‬ ‫اور‬ ‫ادی‬ ‫یسرا‬ ‫کا‬ ‫الم‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫عد‬ ‫کے‬ ‫رسالت‬ ‫ت‬
‫ے اور‬ ‫گاہ‬ ‫ان‬ ‫ح‬
‫ی ت‬
‫ا‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫ا‬
‫نب‬
‫د‬ ‫ہ‬ ‫”‬ ‫کہ‪:‬‬ ‫ے‬ ‫ہ‬
‫یم ہ‬
‫ہوم‬ ‫سادہ‬ ‫کا‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫ں۔‬
‫ی‬ ‫ب‬
‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫سے‬
‫ب‬
‫ئ‬
‫ہ‬ ‫رتکیوح یعد ومات ہ ش‬ ‫اء‬
‫آن‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ی ی ی‬ ‫ی ہت‬ ‫چ‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ن‬‫لی‬ ‫ا بی‬
‫طرح ہللا ے ہ می ں ی ہاں‬ ‫جف ئ‬ ‫س‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫نہ‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫ال‬ ‫م‬ ‫اع‬ ‫ے‬ ‫ھ‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫ال‬ ‫مان‬ ‫ق ی‬ ‫ا‬ ‫کون‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫ل یھ ج ہ‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫کے‬ ‫ش‬ ‫آزما‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ہللا‬ ‫ہاں‬
‫ی ف‬
‫پ ی دا ن رماینا اسی طرح وہ ہ می ں ہ نماری موت نکے ب عد ت ی امت کے دن دوب ارہ زن دگی ع طا رماے گا اور ہ می ں ہللا کے‬
‫ے وہ‬ ‫اوراعمال صالحہ یک‬ ‫ن‬ ‫ے اعمال کی ج واب دہ ی کرنا ہ نو فگی۔ن ج وا ب ی اء نکی علی مات پر ای مان الی ااور ان تکی اطاعت کی‬ ‫ے اپ‬ ‫سام‬
‫ے گی اور ف وج‬ ‫اکام۔ ج و کام ی اب نہ وا اسے عخم وں ب ھری اب دی ت نل‬
‫م‬ ‫ج‬ ‫ب ت‬ ‫وہ‬ ‫کی‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫رما‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫ئ‬‫س‬ ‫ج‬ ‫اور‬ ‫گا‬ ‫و‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫اب‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫کا‬ ‫ٹ‬ ‫اں‬ ‫نوہ‬
‫ے اور د ی ا اس س ر‬ ‫ھر‬ ‫گ‬ ‫کا‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫رت‬ ‫آ‬ ‫ن‬‫ھر‬ ‫گ‬ ‫کا‬ ‫ت‬
‫دگی‬ ‫ز‬ ‫ل‬ ‫ے گا۔“ ‪ ‬اص‬ ‫ھ‬ ‫سزا‬ ‫ن‬ ‫اک‬ ‫درد‬ ‫اور‬ ‫گا‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ج‬ ‫وہ‬ ‫ہرا‬ ‫ھ‬ ‫اکام‬
‫ہ‬ ‫گک ت‬ ‫ی ج‬ ‫ت‬
‫ے سے دوسرے‬ ‫ے کا ہی ں ب لکہ ای ک مرحل‬ ‫گزرگاہ نسے زی ادہ ح یقث ی تق ہی ں ر ھ ی۔ اور موت خ ا م‬ ‫می ں ای کمات قم حا ی ن‬
‫ن‬ ‫خ‬ ‫غف‬ ‫ے۔ ب ول ا ب ال‪:‬‬ ‫ے می ں ن ل ہ وے کا ام ہ س‬ ‫مرحل‬
‫زن دگی‬ ‫ا ت ت ِام‬ ‫ال‬ ‫ہ ی نں‬ ‫ے‬ ‫ش جم ھ‬ ‫کو‬ ‫موت‬
‫ز دگی‬ ‫دوام‬
‫ِ‬ ‫صح‬ ‫ِب‬ ‫ز دگی‪،‬‬ ‫ِام‬ ‫یہ‬ ‫ے‬ ‫ہ‬
‫ض‬ ‫ق‬
‫َّ ث َ ن اَل ع َ‬ ‫ْ ق اَل َ َ ف َ‬ ‫ے‪:‬‬
‫ْ َّ پ ْ َّہ ج ْ‬ ‫ث‬
‫ھا‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫ر‬ ‫طور‬ ‫ث‬
‫‪ ‬‬ ‫ح‬ ‫وا‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫رآن‬ ‫ق‬
‫اس يَ ْ َمُون‬‫ل‬ ‫َ‬ ‫ُ‬ ‫ُ‬ ‫ُ‬ ‫ل‬
‫ت‬ ‫ُِل ا لهُ يُثحْيِيكم ُم يُتمِيت ُكم ُم يَ ْمَعُكم ِإلَى يَو ِم الْ ِيَامَ ِةت ريب ِي ِه ولَ ِك ن َأك َر ال َّ ِ‬
‫ج‬ ‫ق‬ ‫ن ب خش‬ ‫(سورۃ الج ا ی ہ‪)26:‬‬
‫ے۔ پ ھر وہ ی م کو اس ی امت کے دن مع‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫موت‬ ‫ن‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫ہ‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫و‬ ‫ھر‬ ‫پ‬ ‫ے‪،‬‬ ‫ن‬ ‫ش ہ‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ئ‬
‫دگی‬ ‫ز‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫ہ‬‫ن‬ ‫م‬ ‫ان سے کہو ہللا ہ ی‬
‫نت‬ ‫م ث‬
‫کن ف ن‬ ‫ے ہیئ ں ہ ی ں۔‬ ‫ے می ں کو ی ک ہی ں ‪،‬ق گر اک ر ئلوگ ج ا‬ ‫کے آ خ‬ ‫قکرے گا جس ق‬
‫ے واال رد ا کار کی‬ ‫ر‬ ‫گوش‬ ‫وش‬ ‫ہ‬ ‫المت‬ ‫س‬ ‫کہ‬ ‫ں‬ ‫ے‬ ‫ے‬ ‫د‬ ‫ل‬ ‫دال‬ ‫لی‬ ‫ع‬ ‫زوردار‬ ‫ے‬‫س‬ ‫ا‬ ‫کے‬ ‫رت‬ ‫آ‬ ‫وع‬ ‫رآن حکی نم می ں و‬
‫ھق‬
‫ہ‬ ‫ت ی گ ہی‬ ‫ی‬ ‫ِ‬
‫ح‬
‫ے۔ی ہاں م رآن کی م کے‬ ‫ہ‬ ‫ئ‬ ‫ہ‬ ‫س‬
‫ے دی ت ا ہ‬
‫ق‬
‫ے چ اہ ت اہ‬ ‫ے کہ ہ دای ت و ہللا ی جس‬ ‫ج راءت قہی ں خکر کت ا اں یعہق اور ب ات ہت‬
‫َ ْ‬ ‫ُ‬ ‫ق‬ ‫خ‬ ‫ُ‬ ‫ن‬ ‫گے‪:‬‬ ‫ْ‬ ‫ں‬
‫اَل‬ ‫َ‬ ‫ی‬‫ر‬ ‫ک‬ ‫ذکرہ‬ ‫ل کا‬ ‫کے ْ لیَ دالخ َ ُ‬ ‫ب َ ی قان ُکردہ ون وعُ آ َرت ُّ‬
‫ك ش َ ئ ْيًا ﴿‪﴾67‬‬ ‫ويَ ُول الِْإ س َِان َأئ ِذا مَا مِت لَسَوف ُأ ْرج حيًَا ﴿‪َ ﴾66‬أو يَذ ُك ُر الِْإ سَان َأن َّا َ َل ْ ن َاهُ مِن َ ب ْل ولَم يَ ُ‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫‪)67‬‬ ‫ن(سورۃ مری م‪ – 66:‬ق‬
‫ن‬
‫ے‬‫ے کہا وا عی ج ب می ں مر چتکوں گا و پ ھر ز دہ کر کے کال الی ا ج اؤں گا؟ ک ی ا ا سان کو ی اد ہی ں آ ا کہ ہ م پہل‬ ‫ا سان کہت ا ہ‬
‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ب‬ ‫ج‬ ‫ض‬
‫ب خش‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ے ہ ی ں ب کہ وہ چک ھ ھی ہ ھا؟ ت‬ ‫اس کو پ ی دا کر چ ک‬
‫اور ہللا ے ہ فمی ں پ ی دا رما دی ا‪ ،‬وج ود ا اور ہ ماری‬ ‫ےن‬ ‫ے ج ب ہ مارا ثکو ی وج ود ن ہ ت ھا‪ ،‬ہ م چک ھ ب ھی ن ہ ھ‬ ‫ہ‬ ‫ح‬ ‫ب ات نب الکل وا‬
‫ے اسی طرح دوب ارہ ب ھی پ ی دا‬ ‫اب پ ی دا نرمای ا ہ‬ ‫طرح ہ می ں ہللا ے‬ ‫ے و جس ن‬ ‫ودگی اس بعات کا ب وت ہ ت‬ ‫خ‬ ‫ئ ی ا می ں موج ت‬ ‫فاس د‬
‫ب‬
‫سان کے ب ارےقمی ں تھی ی ہ کہہ‬ ‫ا‬ ‫سی‬ ‫ک‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ا‪،‬‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫سے‬ ‫سی‬ ‫ک‬ ‫و‬ ‫کی‬ ‫اس‬ ‫ے‬ ‫م‬ ‫لی‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫الق‬ ‫و‬ ‫ہللا‬ ‫گا۔‬ ‫ے‬
‫ٹ‬ ‫ک‬ ‫ک‬
‫ے و دوب ارہ نی ہ کر ینس‬
‫ت‬ ‫ب‬ ‫ہکام ا ک مرت‬ ‫ن‬ ‫رمات‬
‫ت اس عمال کر‬ ‫گا؟ ی ہ کت پم یو ر ج و ہ م ئاس و ت‬ ‫ے‬ ‫ک‬
‫لے اسے دو ارہ ہ ں ب ن‬ ‫نب یہ‬ ‫ا‬ ‫ل‬ ‫کر‬‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫ب‬
‫ج ت ی‬ ‫ے‬ ‫اس‬ ‫کہ‬ ‫ں‬ ‫سک ی‬
‫ہ‬ ‫ے‬
‫ے‬ ‫سی‬ ‫ی‬ ‫ے وک‬ ‫ہ‬ ‫ک‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫کو‬ ‫اگر‬ ‫اور‬ ‫ے؟‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫کے‬ ‫اس‬ ‫کہ‬ ‫ں‬ ‫س‬ ‫ہ‬
‫ب‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ض چت‬ ‫ب‬ ‫ے ی کی ی ن ک ی‬
‫ہ‬ ‫ے‬ ‫کہہ‬ ‫ہ‬ ‫م‬ ‫ا‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫رہ‬
‫ے جس حال می ں ج تہاں اور ج ب چ اہ ا‬ ‫ن‬ ‫ہللا‬ ‫ے۔‬ ‫ہہ‬ ‫کہاں‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫مر‬ ‫ماری‬ ‫ہ‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫ب ی ہ‬ ‫ہ‬ ‫ات‬ ‫کی‬ ‫ے‬ ‫چ‬ ‫سو‬ ‫ے؟‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬
‫ات‬ ‫ہ ب‬
‫ودہ‬
‫ے ہ ینں؟ ک ی ا موت‬ ‫ے چک ھ کر سک‬ ‫ے کے یل‬ ‫ے۔ ک ی ا م اسے روک‬ ‫موت دی ت اہ ٹ‬ ‫س‬
‫ے ن‬ ‫ے؟ ج ب چ اہ ت ا ہ‬ ‫پ ی داکرفدی ا‪ ،‬ک یمم ا م اسے روک ک‬
‫ے گا دوب ارہ ز دہ کر کے ا ھا کھڑا کر دے گا۔ ک ی ا ہ م اسے ایسا کرے سے روک‬ ‫ے؟اور ج ب رب چ اہ‬ ‫سےش رار کن ہ‬
‫ئ‬ ‫ل‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫سئکی ں خگے؟‬
‫ہاں‬‫ے کہ ج ت‬ ‫ےق کن ناگر کو ي ی ہ کغہ‬ ‫ی‬ ‫سی ب ات ہ‬ ‫کو ی نص اگر ہی ں سے کڑی لے کر دروازہ‪ ،‬می ز ی ا کرسی ب ا تدے و سادہ‬ ‫ل‬ ‫ک‬
‫ے اگر ہ م نور کری ں و‬ ‫ے؟ ی نی ن ج ا ی‬ ‫فع ہ‬ ‫زہ‬ ‫ج‬ ‫م‬ ‫ن‬‫ب‬ ‫دے گا و کیسا جعی‬ ‫ں وہ اں وہ ای ک لکڑی کا دروازہ کھڑا کر ن‬ ‫نچک ھ ب ھی ہی ئ‬
‫ن‬
‫سے ک ی ا م لوق ب اندی اور‬ ‫خ‬ ‫ک بو د‬ ‫ے کی ای ئ‬ ‫ا سان کی پ ی دا شن ای ک ب ہت ب ڑے نمعج زے سے کم نہی ں۔ بسنحان ہللا۔ ط‬ ‫ن‬
‫ے ج و اپ ی سل‬ ‫اس کے ان در اپ ی سلخکے بق ا کا ظ ام رکھ دی ا۔ ک ی ا ا سان ے ب ھی کب ھی ای سی کو ی چ ینز ب ن ائ ي بہخ‬ ‫ق‬
‫ے گا کیسی‬ ‫ے۔ اور اس ماہ ر الق کے ب ارے می ں ی ہ کہ ن ا کہ وہ ہ می ں موت کے ب عد دوب ارہ ز دگی ن ہ ش سک‬ ‫بر ق راررکھ‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫غ‬ ‫ے۔‬ ‫حما ت ہ‬
‫ہ‬
‫ذرات کہاں نپڑے ہ ی نں؟ زمی نشمی ں نی تاں؟ و وہ‬ ‫ے کہ آے والی خلوں کے موں کے ن ن‬ ‫س‬ ‫ج‬ ‫س‬ ‫ت‬ ‫آپ ذرا اس ب ات پر ور یکج ی‬
‫اور‬
‫رات‪ ،‬ب ا ات ئ‬ ‫دوں‪ ،‬ح‬ ‫ن‬ ‫ے؟ انسا وں‪ ،‬ج ا وروں‪ ،‬پتر‬ ‫ے ب یل ق کا کام کر رہ ا ہف‬ ‫ذرات کو مع کر نکے ہ ر لمح‬ ‫ے ج و ان خ ق‬ ‫نکوننہ‬
‫ے‬ ‫ارب ی ا ھرب گزر گف‬ ‫ک‬ ‫ے؟ تو ج قو چ دف ن‬ ‫کون‬ ‫واال‬ ‫ے‬ ‫رما‬ ‫دا‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ے‬‫ح‬ ‫ل‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫چ‬ ‫ارب‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ک‬ ‫کے‬ ‫ات‬ ‫لو‬ ‫م‬
‫کے ر ی ی ا ت ہ ا سان سے ی ہ نرما‬
‫ہ‬
‫ے گا؟ توہ و آجت‬
‫ت‬
‫ں خمع ن ہ کر سک‬
‫پ‬
‫یج ی‬ ‫م‬
‫م‬ ‫ت‬
‫یق‬
‫و‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫کو‬ ‫ذرات‬
‫ت‬
‫ت‬ ‫کے‬ ‫ٹ‬
‫موں‬ ‫ن‬ ‫س‬ ‫ےان کےفج‬
‫کن‬ ‫کن‬
‫ہللا‬
‫جا‬
‫کی ا‬
‫ںش ن‬ ‫ی‬ ‫کمی ٹ‬ ‫ج ن‬
‫ے اس عمال کرے ہ و می ں ان ئکو ب ش نھیخویسا ہ فی نب ا‬ ‫کے ن یل ت‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫یت ٹ‬ ‫م‬ ‫دور‬ ‫کے‬ ‫ر‬ ‫و‬
‫مکم ش نپ یخ‬ ‫آج‬ ‫م‬ ‫کو‬ ‫س‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫گر‬ ‫ن‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫رہ ہ‬ ‫ا‬
‫س کی دی و ی ا ت ( گر‬ ‫ہ‬ ‫ے خکہ ج ن‬ ‫ل‬
‫ی‬
‫گا۔ ا ا وسوچ ج ی‬ ‫ھاؤں خ‬ ‫ت کے قسا ھ ا ئ‬ ‫دوں گا اورہٹ ر اشی ک کو اس کی ت ل ا ن‬ ‫نٹ‬
‫س‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ئ‬ ‫س‬ ‫ئ‬ ‫ہ‬ ‫ی‬
‫ے۔ ک ی ا اس کے‬ ‫ے ب ر یک و کر رہ کت ا ہ‬ ‫پر غ س ی ارجس ر ن) کون م آج ٹا ی ش عمال کرے کے اب نل وے وہ ود م سے ب‬
‫ن‬ ‫گا؟‬‫ن‬ ‫ںہ و‬ ‫مارا کو ی َریکارڈ ہی ن‬ ‫کا ُذات منی ں ُہ ماری جکو َی رجس ر ن اور ہ ق‬
‫ي ب َ َا َهُ﴿‪﴾4‬‬ ‫َأيَ ْحسَب الِْإ سَان َألَّن َ ْمَع عِظ َامَهُ﴿‪ ﴾3‬ب َلَى َا ِد ِرين عَلَى َأن ُّ َس ِّو َ‬
‫اسالمکشاس ٹ ڈیز ۔‪6475‬‬
‫م ق‪01-‬‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ج ن‬ ‫(سورۃ القیامہ‪)4 – 3:‬‬ ‫ن‬
‫ے کہ ہ م اس کی ہ ڈیوں کو مع ہی ں کر سکی ں گے ؟ یک وں ہی ں؟ ہ م و اس کی ا گ یل وں کی پور پور‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫ھ‬ ‫س‬
‫تک ی ا ا ٹ ی نجم ن ہق‬
‫ہ‬ ‫سان‬
‫ے پر ادر ہ ی ں۔‬ ‫ک ھ ی ک ب ا دی‬
‫‪ ‬انسانی زندگی پر عقیدہ آخرت کے اثرات‬
‫عقیدہ آخرت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اس بات کا پختہ یقین رکھے کہ ایک دن الزماًایس**ا آئے گ**اجس‬
‫میں تمام انسانوں کے اعمال کی جانچ پڑتال ہو گی ۔ دنیا ک**ا موج**ودہ نظ**ام اب**دی نہیں ہے ‪،‬بلکہ ای**ک‬
‫وقت مقررہ پر اس کا خاتمہ ناگزیر ہے۔فرمایا* گیا‪:‬‬
‫َأفَ َح ِس ْبتُ ْم َأنَّ َما خَ لَ ْقنَا ُک ْم َعبَثا ً َوَأنَّ ُک ْم ِإلَ ْینَا اَل تُرْ َجعُون۔(المومنون‪)115 :‬‬
‫’’کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں فضول* ہی پی**دا کی**ا ہے اور تمہیں ہم**اری ط**رف کبھی‬
‫پلٹنا ہی نہیں ہے؟‘‘‬
‫*الی دوس**را ع**الم پی**دا‬ ‫چناں چہ انسان اس حقیقت کو تسلیم کرے کہ اس دنیا کے خاتمے کے بعد ہللا تع* ٰ‬
‫کرے گا اور ان کا محاسبہ کرے گا اور اس بات کا یقین رکھے کہ ہللا تعالی کے حس**اب و کت**اب کے‬
‫بعد جو نیک قرار* پائیں گے وہ جنت میں جائیں گے اور جو برے اعمال کے ساتھ حاضر* ہوں گے وہ‬
‫دوزخ میں جائیں گے ۔اور یہی انسان کی کامیابی و ناکامی کا پیمانہ ہے ۔‬
‫آخرت کا مفہوم‪:‬‬
‫ت آخ**رت کے‬ ‫ت آخ**رت بھی کہ**تے ہیں۔حی**ا ِ‬ ‫آخرت سے مراد موت کے بعد کی زندگی* ہے جسے حی**ا ِ‬
‫بارے میں عموماًتین طرح کے عقیدے پائے جاتے ہیں‪:‬‬
‫دہریوں کے مطابق‪:‬‬
‫مرنے کے بعد انسان فنا ہو جائے گا اس کے بع**د نہ ہی ک**وئی دوس**ری زن**دگی* ہے اور نہ ہی ج**زا و‬
‫سزا۔‬
‫قرآن مجید نے ان کے اس عقیدہ کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے ۔‬
‫ُ‬ ‫ْ‬
‫ک ِم ْن ِعل ٍم ِإ ْن ہُ ْم ِإاَّل یَظنُّونَ ۔‬
‫*وت َونَحْ یَ*ا َو َم*ا یُ ْہلِ ُکنَ*ا ِإاَّل ال* َّد ْہ ُر َو َم*ا لَہُم بِ* َذلِ َ‬ ‫َوقَالُوا َما ِہ َی ِإاَّل َحیَاتُنَا ال* ُّد ْنیَا نَ ُم ُ‬
‫(الجاثیہ‪)24 :‬‬
‫’’یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زن**دگی ہے‪،‬یہیں ہم**ارا جین**ا اور مرن**ا ہے اور‬
‫گردش ایام کے سوا کوئی چیز نہیں جو ہمیں ہالک ک**رتی ہ**و۔درحقیقت اس مع**املے میں ان کے پ**اس‬ ‫ِ‬
‫کوئی علم نہیں ہے۔یہ محض گمان کی بنا پر یہ باتیں کرتے ہیں۔‘‘‬
‫تعالی نے فرمایا‪:‬‬ ‫ٰ‬ ‫ایک اور جگہ ہللا‬
‫َ‬ ‫نُ‬ ‫َ‬ ‫ُأْل‬
‫ِإ َّن ہَُؤاَل ء لَیَقُولُونَ ۔ِإن ِہ َی ِإ َموْ تتنَا ا ولی َو َما نَحْ بِ ُمنش ِر ْینَ ۔(الدخان‪34 :‬۔‪)35‬‬
‫ُ‬ ‫َ‬ ‫اَّل‬ ‫ْ‬
‫’’یہ لوگ ت**و یہی کہ**تے ہیں کہ (آخ**ری چ**یز)یہی ہم**اری* پہلی ب**ار (دنی**ا س**ے ) م**ر جان**ا ہے اور ہم‬
‫دوبارہ اٹھائے نہیں جائیں گے ‘‘۔‬
‫اہ ِل تناسخ کے نزدیک‪:‬‬
‫انسان اچھے یا برے اعمال کا بدلہ پانے کے لیے دنیا میں بار بار جنم لیتا رہے گ**ا۔اچھے اعم**ال کے‬
‫اعلی حیثیت کا مال**ک بن ک**ر جنم لے گ**ا اور اگ**ر اعم**ال ب**رے ہیں ت**و‬ ‫ٰ‬ ‫نتیجے میں عمدہ اوصاف اور‬
‫حیوانات و نباتات اور کیڑے مکوڑے کی شکل میں دنیا میں آئے گا ۔‬
‫تب*دیلی جس*م کے ہیں۔افس*وس* کہ ن*وع انس*انی کی‬ ‫ِ‬ ‫مع*نی فن*ا نہیں‪ ،‬بلکہ‬ ‫ٰ‬ ‫گویا ان کے نزدیک موت کے‬
‫کثیر تعداد آج اسی طرح کے باطل عقیدہ میں گرفتار ہے اور بے راہ روی اور ضاللت و گمراہی کی‬
‫زندگی بسر کر رہی ہے۔جس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ آخرت کی زندگی* کا عدم یقین زندگی‬
‫کو بے لگام کردیتا ہے اور آخرت کی باز پرس کا احساس آزادانہ زندگی* بسر ک**رنے کی آزادی س**لب‬
‫کر لیتا ہے۔ایسے ہی لوگوں کے لیے قرآن نے کہاہے‪:‬‬
‫ضاَل ِل ْالبَ ِعیْد۔(السبا‪)8 :‬‬ ‫ب َوال َّ‬ ‫بَ ِل الَّ ِذ ْینَ اَل یُْؤ ِمنُونَ بِاآْل ِخ َر ِۃ فِ ْی ْال َع َذا ِ‬
‫’’(حقیقت یہ ہے کہ )آخرت پر یقین نہ رکھنے والے ہی عذاب میں اور دور کی گمراہی میں ہیں‘‘۔‬
‫انبیاء کے نزدیک ‪:‬‬
‫اسالمکشاس ٹ ڈیز ۔‪6475‬‬
‫م ق‪01-‬‬
‫جس کے ماننے والے اہ ِل ایمان ہیں۔یہی وہ عقیدہ ہے جس کی درستگی ایمان کی تکمیل ک**رتی ہے۔یہ‬
‫عقیدہ اپنے ماننے والوں پر حشر و نشر اور جزا و س**زا کے یقین و تص**دیق ک**و الزم کرت**ا ہے‪ ،‬جس‬
‫کے سلسلے میں قرآن کہتا ہے‪:‬‬
‫ار۔(ابراہیم‪)48 *:‬‬ ‫ْ‬
‫اح ِد القَہَّ ِ‬ ‫ْ‬ ‫ہّلل‬
‫وا ِ ال َو ِ‬ ‫ْ‬ ‫ُ‬ ‫ُ‬
‫ض َوال َّس َما َو *‬
‫ات َوبَ َرز *‬ ‫یَوْ َم تُبَ َّد ُل اَألرْ ضُ َغ ْی َر اَألرْ ِ‬
‫’’ڈراؤ انہیں اس دن سے جب کہ زمین و آسمان بدل کر کچھ سے کچھ ک**ر دیے ج**ائیں گے اور س**ب‬
‫کے سب ہللا واحد و قھار کے سامنے بے نقاب حاضر ہو جائیں گے۔‘‘‬
‫میدان حشر میں پیشی‪:‬‬
‫اس وقت تمام لوگوں کی پیشی ہللا رب العزت کے سامنے ہو گی اور حال یہ ہو گا کہ اگر کوئی* انسان‬
‫چاہے گ*ا کہ وہ ہللا کے س**امنے حاض**ر نہ ہ**و اور زمین و آس**مان کے کس*ی گوش**ے س**ے کہیں نک**ل‬
‫*الی کے س**امنے ال کھڑاکی**ا‬ ‫بھاگے تو ایسا کوئی* راستہ نہیں پائے گا اور اسے چ**اہے نہ چ**اہے ہللا تع* ٰ‬
‫جائے گا ۔ رسول ہللاﷺ فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ما منکم من أحداال سیکلمہ ہللا یوم القیامۃ لیس بین ہللا و بینہ ترجمان ۔‬
‫*الی اور بن**دے کے‬ ‫تعالی قی**امت کے دن اس ط**رح کالم فرم**ائے گ**اکہ ہللا تع* ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫’’تم میں ہر فرد سے ہللا‬
‫درمیان کوئی ترجمان نہ ہوگا۔‘‘‬
‫یہ لمحہ ہمیں غور وفکر* کی دعوت دیتا ہے کہ دنیا میں تو انسان اپنے حقوق کی وصولیابی* کے ل**یے‬
‫یا پھر دوسروں کے حقوق پر نا حق دست درازی کے لیے اپ**نے حم**ایتیوں ک**ا س**ہارا لیت**ا ہے ‪،‬ا پ**نی‬
‫پارٹی کے افراد اور ان کی قوت و استحکام* پر نظر رکھتا ہے ‪ ،‬ضرورت پڑنے پر اپ**نے سفارش**یوں‬
‫کو ال کھڑا کرتا ہے اور کبھی اپنے مضبوط* جتھے کے ساتھ طاقت کا مظاہرہ کرتا ہے‪ ،‬لیکن آخ**رت‬
‫*الی کے س**امنے‬ ‫میں یہ س**ب کہ**اں؟بن**دہ ن**اچیز بے بس و مجب**ور تن تنہ**ا حش**ر کے می**دان میں ہللا تع* ٰ‬
‫حاضر ہو گا۔اس**ی ل**یے ق**رآن ک**ریم نے انس**انیت ک**و آ خ**رت کے اس م**رحلے س**ے آگ**اہ ک**ر دی**ا ہے‬
‫اورفرمایا‪:‬‬
‫َأ‬ ‫ُ‬ ‫ْ‬ ‫ُ‬
‫َولَقَ ْد ِجتُ ُمونَا* ف َرادَی َک َما خَ لقنَاک ْم َّو َل َم َّر ٍۃ۔(االنعام‪) 94:‬‬
‫َ‬
‫’’تم یقیناًہمارے پاس تنہا ہی آؤ گے جس طرح ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا۔‘‘‬
‫مطلب یہ کہ عقیدۂ آ خ*رت انس*ان ک*و اس تص*ور کے س*اتھ زن*دگی گ*زارنے کی تعلیم دیت*ا ہے کہ ہللا‬
‫*الی کے‬‫*الی کے ع**دل و انص**اف میں دنی**اکی یہ س**اری چ**یزیں ک**ام آنے والی نہیں ہیں‪،‬بلکہ ہللا تع* ٰ‬ ‫تع* ٰ‬
‫حضور ہر انسان کو بالکل یک و تنہا حاضر ہو کر حساب و کتاب چکانا ہوگا۔ یہ رشتہ داری**اں اور آل‬
‫و اوالد جن کی محبت انسان کو اکثر یاد خدا سے بھی غافل کر دیتی ہے اور کبھی نعوذ ب**اہلل راہ ح**ق‬
‫سے موڑ کر باطل کی راہ پر ڈال دیتی ہیں‪ ،‬آخرت میں کچھ کام نہیں آئیں گی ۔اسی کو قرآن کہتا ہے‪:‬‬
‫لَن تَنفَ َع ُک ْم َأرْ َحا ُم ُک ْم َواَل َأوْ اَل ُد ُک ْم یَوْ َم ْالقِیَا َم ِۃ۔(الممتحنہ‪) 3*:‬‬
‫’’قیامت کے دن نہ تمھاری رشتہ داریاں کسی کام آئیں گی نہ تمھاری* اوالد۔‘‘‬
‫بلکہ اس وقت ہر انسان کو صرف اپنا خیال ہوگا۔چناں چہ اس دن مج**رم چ**اہے گ**اکہ اپ**نی اوالد‪،‬اپ**نی‬
‫بیوی‪،‬اپنے بھائی‪،‬اپنی حمایت کرنے والے خاندان اور دنیا بھر کے لوگوں کو بھی اگ**ر ف**دیہ میں دے‬
‫کر عذاب سے چھو ٹ سکتا ہو تو انہیں بھینٹ چڑھا دے اور خود چھوٹ جائے۔‘‘ (المعارج‪11:‬؍‪)14‬‬
‫حتی کہ آل و اوالد جن کے لیے والدین ہر‬ ‫تعالی کی عدالت میں عزیز ترین رشتہ دار ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫معلوم ہوا کہ ہللا‬
‫تعالی کے اوامر و نواہی‬ ‫ٰ‬ ‫طرح کی قربانی* دیتے ہیں‪ ،‬جن کی آسائشوں و لذتوں کی تکمیل کے لیے ہللا‬
‫سے بھی غافل ہ**و ج**اتے ہیں وہ بھی آگے ب**ڑھ ک**ر یہ کہ**نے والے نہیں ہ**وں گے کہ انہ**وں نے فالں‬
‫فالں گناہ کے کام ہمارے لیے کیے تھے اس لیے اس کی سزا ہمیں ہی دیدی ج**ائے ‪ ،‬بلکہ وہ ت**و یہی‬
‫چاہیں گے کہ اپنے گناہوں کی سزا کسی پر ڈالنے میں کامیاب ہو جائیں اور خ**ود ک**و نج**ات دال لیں ۔‬
‫تعالی کے یہاں ہر انسان کے لیے وہی کچھ ہو گا جو اس نے کمایا ہو گا‪ ،‬فرمایاگیا ‪:‬‬ ‫ٰ‬ ‫لیکن ہللا‬
‫َ‬ ‫َأْل‬ ‫ْ‬ ‫ُ‬ ‫َأ‬ ‫اَّل‬
‫ْس لِِإْل ن َسا ِن ِإ َما َس َعی۔ َو َّن َس ْعیَہُ َسوْ فَ ی َُری۔ث َّم یُجْ َزاہُ ال َج َزاء ا وْ فی۔(النجم‪39*:‬۔‪)41‬‬ ‫َوَأن لَّی َ‬
‫’’ اور یہ کہ ہر انسان کے لیے ص**رف* وہی ہے جس کی کوش**ش خ**ود اس نے کی‪،‬اور یہ کہ اس کی‬
‫کوشش عنقریب دیکھی جائے گی‪،‬پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔‘‘‬
‫اسالمکشاس ٹ ڈیز ۔‪6475‬‬
‫م ق‪01-‬‬
‫ف شت‬
‫سوال۔‪5‬۔ ر وں پر ای مان کی وض احت کری ں۔‬

‫فرشتوں پر ایمان النے کا مفہوم‬


‫فرشتوں کے وجود* پر دل سے یقین رکھنا اور یہ کہ وہ‪ ،‬بر خالف انسانوں اور جنوں کے‪ ،‬عالم غیبی‬

‫سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ معزز پرہیزگار بندے ہیں‪ ،‬ہللا کی عبودیت بجا التے ہیں‪ ،‬جیسا کہ اس‬

‫کا حق بنتا ہے‪ ،‬ہللا کے احکام کو نافذ کرتے ہیں اورکبھی نافرمانی نہیں کرتے۔‬

‫تعالی نے فرمایا‪:‬۔(( بلکہ وہ سب اس کے باعزت بندے ہیں۔ کسی بات میں ہللا پر پیش‬
‫ٰ‬ ‫جیسا کہ ہللا‬

‫دستی نہیں کرتے بلکہ اس کے فرمان پر عمل پیرا ہیں)۔ (اال نبیاء ‪)27-26 :‬‬

‫تعالی نے فرمایا* ‪:‬۔((رسول ایمان‬


‫ٰ‬ ‫ان پر ایمان النا ایمان کے چھ (‪ )6‬ارکان میں سے ایک ہے‪ ،‬ہللا‬

‫تعالی کی جانب سے اتری اور مومن بھی ایمان الئے‪ ،‬یہ سب‬
‫ٰ‬ ‫الئے اس چیز پر جواس کی طرف* ہللا‬

‫تعالی پر اور اس کے فرشتوں* پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر))۔‬


‫ٰ‬ ‫ایمان الئے ہللا‬

‫‪( ‬البقرۃ ‪)285:‬‬

‫آپ ﷺ نے ایمان کے بارے میں فرمایا‪ ((:‬تم ہللا پرایمان الؤ‪ ،‬اور اس کے فرشتوں اور اس کی‬

‫کتابوں اور اس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر‪ ،‬اور ایمان الؤ تقدیر کے اچھے اور برے‬

‫پر))۔ (مسلم ‪)8 :‬‬

‫نبی ﷺ نے بتایا کہ آسمان اس میں موجود* چیزوں کی وجہ سے بھاری ہو گیا ہے‪ ،‬اس میں ایک‬

‫بالشت کی جگہ نہیں ہے مگر کوئی فرشتہ اس میں کھڑا ہے‪ ،‬یا رکوع میں‪ ،‬یا سجدہ میں ہے۔‬

‫فرشتوں پر ایمان النا کن باتوں پر مشتمل ہے؟‬

‫تعالی کی مخلوق ہیں‪ ،‬ان‪ ‬‬


‫ٰ‬ ‫ان کے وجود پر ایمان رکھنا‪ :‬ہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ وہ ہللا‬
‫کا وجود حقیقت پر مبنی ہے‪ ،‬انھیں نور سے پیدا فرمایا اور ان کی فطرت میں ڈال دیا کہ‬
‫وہ اس کی عبادت اور اطاعت کریں۔‬

‫جن کے ناموں کا ہمیں علم ہے جیسے جبریل علیہ السالم‪ ،‬ان پر ایمان رکھنا اور جن‬
‫‪ ‬کے ناموں کا ہمیں علم نہیں ہے ان پر مجمل طور پر ایمان رکھنا۔‬
‫اسالمکشاس ٹ ڈیز ۔‪6475‬‬
‫م ق‪01-‬‬
‫‪ :‬ان کی صفات میں سے جن صفات کا ہمیں علم ہے ان پر ایمان رکھنا‬
‫‪‬‬ ‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫وہ عالم غیبی سے تعلق رکھتے ہیں‪،‬ہللا کی عبادت کرنے والی مخلوق ہیں‪ ،‬ہللا‬
‫کے بندے ہیں‪ ،‬وہ ربوبیت‪ ،‬والوھیت کی کسی چیز کے مالک نہیں‪ ،‬وہ تو ہللا کی‬
‫اطاعت کے مکمل طور پر تابع ہیں جیسا کہ ہللا سبحانہ نے فرمایا‪:‬۔((انہیں جو حکم ہللا‬
‫تعالی دیتا ہے اس کی نافرمانی* نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا التے ہیں))۔‬
‫ٰ‬
‫(التحریم* ‪)6:‬‬
‫‪‬‬ ‫انھیں نور سے پیدا کیا گیا‪،‬آپ ﷺ نے فرمایا ‪((:‬فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا))‬
‫(مسلم ‪)2996 :‬‬
‫‪‬‬ ‫تعالی نے یہ بات بتائى کہ فرشتوں* کے لیے بازو بنائے‪ ،‬یہ اپنی‬ ‫ٰ‬ ‫ان کے پر ہیں‪ ،‬ہللا‬
‫تعداد کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ہللا سبحا نہ نے فرمایا ‪:‬۔‬
‫((اس ہللا کے لیے تمام تعریفیں الئق وزیبا ہیں جو (ابتدا ًء) آسمانوں اورزمین کا پیدا‬
‫کرنے واال اور دو دو تین تین چار چار پروں والے فرشتوں کو اپنا پیغمبر(قاصد)‬
‫تعالی یقینا ً ہر چیز پر قادر*‬
‫ٰ‬ ‫بنانے واال ہے‪ ،‬مخلوق* میں جو چاہے زیادتی* کرتا ہے‪ ،‬ہللا‬
‫ہے))۔ (فاطر‪)1 :‬‬

‫تعالی کی طرف سے جو کام انھیں سونپے گئے ہیں جن کو ہم جانتے ہیں اس پر‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫‪ :‬ایمان رکھنا‬
‫‪‬‬ ‫تعالی کے پیغام پہنچانے کا کام جن کے ذمہ ہے وہ جبریل علیہ‬
‫ٰ‬ ‫پیغمبروں تک ہللا‬
‫السالم ہیں۔‬
‫‪‬‬ ‫جان نکالنے کا کام جن کے ذمہ ہے وہ موت کا فرشتہ* اور ان کے مدد گار فرشتے‬
‫ہیں۔‬
‫‪‬‬ ‫بند وں کے اعمال چاہے وہ خیر ہوں یا شر ہوں ان کو لکھنے اور محفوظ کر نے کا‬
‫کام ‪-‬کراما ً کاتبین‪( -‬لکھنے والے پاک باز فرشتے) کے ذمہ ہے۔‬

‫‪:‬فرشتوں پر ایمان النے کے فائدے‬


‫بندہ مومن کی زندگی میں فرشتوں* پر ایمان النے کے بڑے ہی عظیم فوائد* ہیں جن میں سے ہم چند کا‬

‫‪:‬تذکرہ کررہے ہیں‬

‫ہللا کی عظمت وقوت* اور کمال قدرت کا اندازہ ہوتا ہے کیو نکہ مخلوق کی عظمت ‪1.‬‬
‫سے خالق کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں مؤ من کے نز دیک ہللا‬
‫تعالی نے‬
‫ٰ‬ ‫کی قدر اوراس کی عظمت میں اضافہ ہوتا ہے‪،‬اس حیثیت سے کہ ہللا‬
‫بازوؤں والے فرشتوں کو نور* سےپیدا فرمایا* ہے۔‬

‫تعالی کی فرمانبرداری میں استقامت آتی ہے کیونکہ کوئیبھی* آدمی جب یہ ایمان ‪2.‬‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫رکھتا ہے کہ فرشتے اس کے سارے اعمال کو لکھتے ہیں تو یہ بات اس آدمی کے‬
‫تعالی کے ڈر کا سبب بنتی ہے چنانچہ وہ کھلے اور چھپے اس کی نافرمانی‬‫ٰ‬ ‫اندر ہللا‬
‫سے بچتا ہے۔‬
‫اسالمکشاس ٹ ڈیز ۔‪6475‬‬
‫م ق‪01-‬‬
‫بندہ مومن ہللا کی فر مانبرداری* میں صبر سے کام لیتا ہے اور اسے انسیت واطمینان ‪3.‬‬
‫کا احساس ہوتا ہے جب وہ یہ یقین رکھتا ہے کہ اس بڑی کائنات میں اس کے ساتھ‬
‫ہزاروں فرشتے ہیں جو ہللا تعالی کی فرمانبرداری* احسن واکمل طریقے سے انجام‬
‫دیتے ہیں۔‬

‫تعالی کی عنایت کی بدولت اس کا شکر بجا النا‪ ،‬جب کہ فرشتوں* میں ‪4.‬‬
‫ٰ‬ ‫انسانوں پر ہللا‬
‫بعض کو انسانوں کی حفاظت کا کام سونپا* ہے۔‬

You might also like