Professional Documents
Culture Documents
6475-1 Assignment No 1 AIOU Autumn 2022
6475-1 Assignment No 1 AIOU Autumn 2022
م ق01-
ن
ام :دمحم طارق
ٹ ش ن
BLI00089رجس ری ن مب ر21:
کورس کوڈ :اسالمک س ٹ ڈیز 6475
ن
معلم کا ام:دمحم خ ان
خ
سمسٹ ر :زاں 2022
یل ول:بی ای ڈ ڈھائ سالہ
ٓاپﷺ کا ارشا ِد گرامی ہے:جس نے ہمارے اس معاملے (دین) میں کوئی نئی چیز گھڑی تو وہ
مردود ہوگی۔(بخاری ومسلم)جامع* ترمذی میں ہے:تم پر الزم ہے کہ میری اور میرے ہدایت یافتہ
ؓ
خلفائےراشدین کی سنت پر عمل کرو۔
پروردگار عالم کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا،اور* یہ بھی اس کا بے پایاں اور
عظیم احسان اور انعام ہے کہ اس نے ہمیں ایمان اور اسالم کی دولت سے ماال مال فرمایا* اور خداون ِد
اعلی احسان اور انعام یہ ہے کہ ہمیں افضل االنبیاء ،امام المرسلین ،خاتم النّبیین
ٰ قدوس کا سب سے
حضرت محمد رسول* ہللا ﷺکا امتی بنایا،دین کی تکمیل خاتم االنبیاءﷺ پر ہوئی۔جو دین حضرت ٓادم
علیہ السالم،حضرت نوح علیہ السالم ،حضرت ابراہیم علیہ السالم،حضرت* اسماعیل علیہ السالم،
موسی علیہ السالم،حضرت ہارون علیہ السالم ،حضرت دأود علیہ السالم،حضرت سلیمان ٰ حضرت
عیسی علیہ السالم تک تمام انبیاء
ٰ علیہ السالم الئے تھے ۔ جو حضرت ٓادم علیہ السالم سے حضرت
ت گرامی* پر ہوئی۔ٓانحضرت کا متفقہ دین تھا ،اس دین کی تکمیل حضرت محمد رسول ہللاﷺ کی ذا ِ
ﷺنے اس دین کو مسلسل 23برس طرح طرح کی تکلیفیں سہہ کر ،ایذائیں برداشت کرکے ،مصائب
مخلوق خدا تک پہنچایا۔ حجۃ الوداع کے موقع پر ِ و مظالم کے پہاڑ اٹھاکر ،لوگوں کے طعنے سن کر
اعالن ہوا۔’’ٓاج میں نے تمہارا دین مکمل کردیا اور اپنی نعمت تم پر پوری کردی،اسالم* کو تمہارے
بطور دین پسند کیا ہے‘‘۔اس ٓایت کریمہ سے واضح ہوگیا کہ اسالم دین کامل اور جامع دین ہے۔ ِ لئے
دی ِن اسالم نے زندگی* گزارنے کے جتنے گوشے ممکن ہوسکتے تھے ،ان سب کے لئے کچھ اصول،
کردیا۔قرٓان
ِ کچھ قوانین،اور* کچھ ضابطے بیان کرکے انسان کو دوسرے طور طریقوں سے بے نیاز
مقدس نازل کرکے اعالن فرمایا* کہ قرٓان میں اصو ِل دین کو کھول کر بیان کیاگیا ہےاور نبی اکرمﷺ
کو مبعوث فرماکے اعالن کیاکہ تمہارے لئے ہللا کے رسولﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے۔
اسالمکشاس ٹ ڈیز ۔6475
م ق01-
رسول ہللاﷺ کی حیات طیبہ کا مطالعہ فرمائیے،احادیث و سیرت کی کتابوں میںٓا پ ﷺ کی سیرت
طیبہ کا ایک ایک لحظہ محفوظ ہے۔اُمت کا ہر ٓادمی جو کام بھی کرنا چاہے ٓانحضرت ﷺ کی ذا ِ
ت
گرامی میں اس کے لیے کامل نمونہ موجود* ہے۔شادی ہو یا غمی ،صحت ہو یا بیماری ،سفر ہویا
حضر ،جنگ ہو یاصلح ،سسر ہو یاداماد ،والدین ہوں یا اوالد ،سربرا ِہ مملکت ہو یا مزدور ،مسجد ہو
یا بازار ،عبادت ہو یاتجارت ،نماز ہو ،روزہ ہو ،اذان ہو ،تکبیر ہو ،جنازہ ہو ،حج ہو ،قربانی* ہو،
عمرہ ہو ،غرض یہ کہ زندگی* کے نشیب و فراز میں اور زندگی کے ہر ہر موڑ پر ٓانحضرت ﷺکی
حتی کہ اس شفیق و مہربان پیغمبر ﷺ نے قضائے ت اقدس ایک مسلمان کے لیے کامل نمونہ ہے۔ ٰ ذا ِ
حاجت اور تھوکنے تک کے طریقے اور ٓاداب تک امت کو سکھادئیے۔ فرمایا* کعبہ کی طرف منہ
کرکے نہ تھوکنا۔ کعبہ کی طرف منہ کرکے اور پیٹھ کرکے قضائے حاجت نہ کرنا۔ راستے میں بیٹھ
کر پیشاب نہ کرنا ،جس طرف سے ہوا ٓارہی ہو اس طرف منہ کرکے پیشاب نہ کرنا۔جس شفیق
پیغمبر ﷺ نے تھوکنے تک کے ،بال کٹوانے اور ناخن ترشوانے تک کے ۔ہاں جس مشفق پیغمبر
ﷺ نے جملہ امور کے ٓاداب اور طریقے امت کو سکھائے ،کیا اس پیغمبر ﷺ نے دین و دنیا کے
دوسرے معامالت میں راہنمائی نہ کی ہوگی؟ کیا اس پیغمبر ﷺ نے عبادت و تجارت ،شادی و غمی،
اذان و تکبیر ،نماز و روزہ کے ٓاداب اور مسائل نہیں سکھائے ہوں گے؟ الزما ً سکھائے ہوں گے،
اور زندگی گزارنے کے طور طریقے ،عبادت و تجارت کے ٓاداب ضرور بتائے ہوں گے۔لہٰذاجو کام
کرام سے ثابت نہیں،وہ خالف شرع اور بدعت ہوگا۔ ؓ
راشدین اور صحابٔہ ؓ ٓانحضرتﷺ ،خلفائے
ہمارے رسول* ﷺرسول کامل ہیں کہ ان پر دین کی تکمیل ہوئی۔ہمارے پیغمبر ﷺ کی زندگی* اور
سیرت کا ایک ایک لحظہ محفوظ اور قابل عمل ہے۔ ان کی اتباع اور پیروی* کا نام ہی دین ہے۔ سنت
رسول سے اعراض بے دینی ہے۔ تو پھر یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ زندگی* گزارنے کا
ہرہرگوشہ اورہر* ہر شعبہ اسوئہ رسولﷺ اور سنت پیغمبر ﷺ کے مطابق* ہوگا ،تو وہی دین ہوگا۔
اگر کوئی* شخص عبادت و نیکی اور ثواب کا کوئی ایساخود* ساختہ کام کرے گا ،جس کا وجود
ٓانحضرت ﷺ کے مبارک دَور میں نہیں تھا اور خلفائے راشدین ؓکا سنہرا دور بھی اس کام سے خالی
ب رسول بھی وہ کام نہیں کرتے تھےٓ ،اج کوئی شخص اس کام کو نیکی اور نظر ٓاتا ہے اور اصحا ِ
دین سمجھتا ہے تو وہ سراسر* فریب ،دھوکے اور غلط فہمی میں مبتال ہے۔ وہ کام ثواب اور دین
نہیں ہوگا ،بلکہ خالف شرع اور ایک خود ساختہ عمل ہوگا۔
حضرت حذیفہ بن یمان ؓ فرماتے ہیں :عبادت کا جو کام اصحاب رسول* ﷺنے نہیں کیا ،وہ کام تم بھی
نہ کرو کیونکہ* پہلے لوگوں نے پچھلوں کے لئے کوئی کسر نہیں چھوڑی ،جسے یہ پچھلے
تعالی سے ڈرو۔ اے مسلمانو! اور پہلے لوگوں کے طریقے اختیار کرو۔ (االعتصام
ٰ پوراکریں۔ پس ہللا
عالمہ شاطبی)
عبادت و نیکی اور دین کا ہر کام کرتے ہوئے پرکھنا* ہوگا۔ اور دیکھنا ہوگا کہ ٓانحضرتﷺ اور
کرام کے
اصحاب پیغمبرﷺ کا اس بارے میں کیا عمل تھا۔اگر اس کا ثبوت ٓانحضرتﷺ اور صحابہ ؓ
دور سے مل جائے تو وہ کام سنت ،ثواب ،نیکی اور دین ہوگا،ہللا کی رضامندی* کا موجب اور
ٓانحضرتﷺ کی خوشنودی کا سبب ہوگا۔ اگر اس کام کا ثبوت اور نام ونشان ٓانحضرتﷺ کی سیرت
و سنت میں بھی نہ ہو ،اصحاب رسولﷺ کے اعمال سے بھی نہ ہو ،تو پھر وہ کام بظاہر کتنا ہی
خوش نما کیوں نہ ہو۔ بظاہر* نیکی معلوم ہو وہ سنت اور دین نہیں ہوگا ،بلکہ خود ساختہ* عمل اور
گمراہی ہوگا ،وہ کام غضب خداوندی* کا موجب اور رسول انورﷺ کی ناراضی* کا سبب ہوگا۔
وہ کام اور وہ عمل دین اور نیکی ہوگا جوقرٓان وسنت اور ٓانحضور ﷺ کی سیرت اور ٓاپ ﷺ کے
روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ جو شخص بھی دین اور نیکی کا
ِ عمل سے ثابت ہو۔یہ بات
اسالمکشاس ٹ ڈیز ۔6475
م ق01-
ب رسول کوئی کام کرنا چاہتا ہے ،اُسے دیکھنا اور پرکھنا ہوگا کہ ٓایا حضور اکرم ﷺاوراصحا ِ*
ﷺنے یہ کام کیا تھا؟ یا اس کام کے کرنے کاحکم دیا تھا؟ اگر ٓانحضرت ﷺ کی مبارک زندگی اور
ب رسولﷺ کی زندگیوں میں وہ کام ہوا ،اور وہ شریعت اور قرٓان وسنت سے ثابت بھی ہو اصحا ِ
اور انہوںنے وہ کام کیا ،یاکرنے کا حکم دیا تو پھر وہ کام دین بھی ہوگا ،ثواب بھی ہوگا اور باعث
رحمت بھی ہوگا۔ل ٰہذا یہ پیش نظر رہنا چاہیے کہ اسالم دین کامل اور ابدی ضابطٔہ حیات ہے،اس میں
ہردور* اور ہر عہد کے مسائل کا حل موجود ہے،خاتم االنبیاء ،سیدالمرسلین ،حضوراکرمﷺ جو
شریعت اوردین لے کر ٓائے درحقیقت اس کی اتباع میں ہی انسانیت کی فالح اور نجات کا راز مضمر
ہے۔
ن ن ض ت ئ ف
سوال۔2۔الہ کا م ہوم وا ح کرے وے اسماء ا س ٰی پر وٹ ھی ں۔
ک ل ل
ح ہ
ٰالہ کی تعریف کے حوالے سے ایک تحریر کا کچھ حصّہ پیش کررہا* ہوں ،اِسے پڑھ کر ارشاد
فرمادیجئے کہ آیا یہ بات دُرست ہے یا اِس میں کوئی شرعی غلطی ہے؟ معبود اُسے کہتے ہیں جو
کسی کا محتاج نہ ہو۔ اُسے کسی کی احتیاج نہ ہو ،سب سے بے نیاز و غنی و بے پراہ ہو۔ جس
کیلئے بھی غنائے ذاتی کو تسلیم کیا گیا گویا اُسے معبود مان لیاگیا۔ اب ایسا کسی کو مان کر پھر اُس
کیلئے عاجزی اختیار کرتے ہوئے کیا جانے واالہر* فعل عبادت ہے۔ اِس عجز کے ساتھ خواہ ندا کی
جائے ،قیام کیا جائے یا سجدہ ،طواف کیا جائے یا قربانی* ،اُس کے کسی بھی حکم پر عمل پیرا
ہواجائے ہر بات عبادت کہالئے گی۔ یہی الاِ ٰلہ االہللا کا مفہوم ہے کہ ہللا کے سوا ایسا کوئی نہیں جو
سب سے بے نیاز ہو ،اِسی بے نیازی کی وجہ سے وہی ٰالہ ہونے کا مستحق* ہے اُس کے سوا کوئی
ٰالہ نہیں ایک اُسی کی ذات ہے جو سب سے بے نیاز ہے ،اُسے کسی کی حاجت نہیں ،نہ اپنا وجود
قائم رکھنے میں نہ کسی کو وجود* بخشنے میں۔ سب کی مشکلیں حل کرنے واالوہی واح ِد حقیقی ہے۔
اُس سے بے نیاز ہوکر کوئی نبی ہو یا ولی ،پیر ہو یا امام مدد کرنا تو درکنار اپنا وجود بھی قائم نہیں
رکھ سکتے۔
حسنی کو یاد کرنے کی فضیلت
ٰ تعالی کے اَسمائے
ٰ ہللا
سيُ ْجز َْونَ َما َکانُ ْوا يَ ْع َملُ ْونَ س ٰنی فَا ْدع ُْوهُ بِ َها َو َذ ُروا الَّ ِذيْنَ يُ ْل ِحد ُْونَ فِ ْي اَ ْ
س َمآِئ ِ*ه طَ س َمآ ُء ا ْل ُح ْ
َ .1و ِهلل ااْل َ ْ
o
(االعراف)180 /7 ،
اسالمکشاس ٹ ڈیز ۔6475
م ق01-
اور ہللا ہی کے لیے اچھے اچھے نام ہیں ،سو اسے ان ناموں سے پکارا کرو اور ایسے لوگوں کو
چھوڑ دو جو اس کے ناموں میں حق سے اِنحراف* کرتے ہیں ،عنقریب انہیں ان (اَعما ِل بد) کی سزا
دی جائے گی جن کا وہ ارتکاب کرتے ہیں۔
س ٰنی. .2قُ ِل ا ْدعُوا هللاَ اَ ِو ا ْدعُوا ال َّر ْحمٰ نَ ط اَ ًّدا َّما تَ ْدع ُْوا فَلَهُ ااْل َ ْ
س َما ُء ا ْل ُح ْ
(اإلسراء)110 /17 ،
فرما دیجیے کہ ہللا کو پکارو یا رحمان کو پکارو ،جس نام سے بھی پکارتے ہو (سب) اچھے نام
اسی کے ہیں۔
س ٰنیo .3هللَا ُ اَل اِ ٰلهَ اِالَّ ه َُو ط لَهُ ااْل َ ْ
س َمآ ُء ا ْل ُح ْ
(طه)8 /20 ، ٰ
اسم ذات) ہے جس کے سوا کوئی* معبود نہیں (گویا تم اسی کا اثبات کرو اور باقی سب ہللا (اسی کا ِ
جھوٹے معبودوں کی نفی کر دو) اس کے لیے (اور بھی) بہت خوبصورت* نام ہیں (جو اس کی حسین
و جمیل صفات کا پتہ دیتے ہیں)
ي اَل اِ ٰلهَ اِاَّل
ش َها َد ِة جُ ه َو ال َّر ْحمٰ نُ ال َّر ِح ْي ُم oه َُو هللاُ الَّ ِذ ْ ب َوال َّ ي اَل اِ ٰلهَ اِاَّل ُه َوجٰ علِ ُم ا ْل َغ ْي ِ ُ .4ه َو هللاُ الَّ ِذ ْ
س ْب ٰحنَ هللاِ َع َّما س ٰل ُم ا ْل ُمْؤ ِمنُ ا ْل ُم َه ْي ِمنُ ا ْل َع ِز ْي ُز ا ْل َجبَّا ُر ا ْل ُمتَ َکبِّ ُرُ
ط
س ال َّ ک ا ْلقُد ُّْو ُُه َو ج اَ ْل َملِ ُ
سمٰ ٰو ِ
ت سبِّ ُح لَهُ َما فِی ال َّ س ٰنی ط يُ َ س َما ُء ا ْل ُح ْ ص ِّو ُر لَهُ ااْل َ ْ ق ا ْلبَا ِرء ا ْل ُم َ ش ِر ُک ْونَ ُ oه َو هللاُ ا ْل َخالِ ُ يُ ْ
ک ْي ُمo ْ ُ ْ
ضَ وه َُو ال َع ِز ْيز ال َح ِ ج
َوا ْر ِ َ اْل
(الحشر)24-22 /59 ،
وہی ہللا ہے جس کے سوا کوئی* معبود نہیں ،پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے واال ہے ،وہی بے حد رحمت
فرمانے واال نہایت مہربان ہے۔ وہی ہللا ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں( ،حقیقی) بادشاہ ہے ،ہر
عیب سے پاک ہے ،ہر نقص سے سالم (اور سالمتی* دینے واال) ہے ،امن و امان دینے واال (اور
معجزات کے ذریعے رسولوں کی تصدیق فرمانے واال) ہے ،محافظ* و نگہبان ہے ،غلبہ و ع ّزت واال
ہے ،زبردست* عظمت واال ہے ،سلطنت و کبریائی* واال ہے ،ہللا ہر اُس چیز سے پاک ہے جسے وہ
اُس کا شریک ٹھہراتے ہیں۔ وہی ہللا ہے جو پیدا فرمانے واال ہے ،عدم سے وجود* میں النے واال
(یعنی ایجاد فرمانے واال) ہے ،صورت عطا فرمانے واال ہے۔ (الغرض) سب اچھے نام اسی کے
ہیں ،اس کے لیے وہ (سب) چیزیں تسبیح کرتی ہیں جو آسمانوں اور زمین میں ہیں ،اور وہ بڑی
عزت واال ہے بڑی حکمت واال ہے۔
سبِّ ْحهُ لَ ْياًل طَ ِو ْياًل o ص ْياًل َ oو ِمنَ الَّ ْي ِل فَا ْ
س ُج ْد لَهُ َو َ ک بُ ْک َرةً َّواَ ِ َ .5و ْاذ ُک ِر ا ْ
س َم َربِّ َ
(الدهر)26-25 /76 ،
اور صبح و شام اپنے رب کے نام کا ذکر کیا کریں۔ اور رات کی کچھ گھڑیاں اس کے حضور سجدہ
ریزی کیا کریں اور رات کے (بقیہ) طویل حصہ میں اس کی تسبیح کیا کریں۔
ص ٰلّیo .6قَ ْد اَ ْفلَ َح َمنْ تَزَک ٰ ّیَ oو َذ َک َر ا ْ
س َم َربِّ ِه فَ َ
(االعلی)15-14 /87 ، ٰ
بے شک وہی بامراد ہوا جو (نفس کی آفتوں اور گناہ کی آلودگیوں سے) پاک ہوگیا۔ اور وہ اپنے رب
کے نام کا ذکر کرتا رہا اور (کثرت و پابندی سے) نماز پڑھتا رہا۔
ب فَا َ ْينَ َما تُ َولُّ ْوا فَثَ َّم َو ْجهُ هللاِ ط اِنَّ هللاَ َو ِ
اس ٌع َعلِ ْي ٌمo ق َوا ْل َم ْغ ِر ُ َ .7و ِهللِ ا ْل َم ْ
ش ِر ُ
(البقرة)115 /2 ،
اسالمکشاس ٹ ڈیز ۔6475
م ق01-
اور مشرق و مغرب (سب) ہللا ہی کا ہے ،پس تم جدھر بھی رخ کرو ادھر ہی ہللا کی توجہ ہے (یعنی
ہر سمت ہی ہللا کی ذات جلوہ گر ہے) ،بے شک ہللا بڑی وسعت واال سب کچھ جاننے واال ہے۔
ک ْونُ o ض طَ واِ َذا قَ ٰ
ضی اَ ْم ًرا فَاِنَّ َما يَقُ ْو ُل لَهُ ُکنْ فَيَ ُ ت َوااْل َ ْر ِ
سمٰ ٰو ِ
.8بَ ِد ْي ُع ال َّ
(البقرة)117 /2 ،
وہی آسمانوں اور زمین کو وجود میں النے واال ہے ،اور جب کسی چیز (کے ایجاد) کا فیصلہ فرما
لیتا ہے تو پھر اس کو صرف* یہی فرماتا ہے کہ ’تو ہو جا‘ پس وہ ہو جاتی ہے۔
س لَ َر ُء ْوفٌ َّر ِح ْي ٌمo
.9اِنَّ هللاَ بِالنَّا ِ
(البقرة)143 /2 ،
بے شک ہللا لوگوں پر بڑی شفقت فرمانے* واال مہربان ہے۔
ب َعلَ ْي ِه ْم جَ واَنَا التَّ َّو ُ
اب ال َّر ِح ْي ُمo ک اَت ُْو ُ صلَ ُح ْوا* َوبَيَنُ ْوا فَا ُ ٰ
ولـِئ َ .10اِالَّ الَّ ِذيْنَ تَابُ ْوا َواَ ْ
(البقرة)160 /2 ،
مگر جو لوگ توبہ کر لیں اور (اپنی) اصالح کر لیں اور (حق کو) ظاہر کر دیں تو میں (بھی) انہیں
معاف فرما دوں گا ،اور میں بڑا ہی توبہ قبول کرنے واال مہربان ہوں۔
ن خ ئ خت ن
سوال۔3۔ م ب وت اور اس کے صا ل پر وٹ لکھی ں۔
]1[ َّما َكانَ ُم َح َّم ٌد َأبَا َأ َح ٍد ِّمن رِّ َجالِ ُك ْ*م َولَ ِكن َّرس َ
ُول هَّللا ِ َوخَاتَ َم النَّبِيِّينَ َو َكانَ هَّللا ُ بِ ُك ِّل َش ْي ٍء َعلِي ًما
[]2
شیخ فخر الدين الرازی کہتے ہیں ختم نبوت کے باب میں؛ ان کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آئے گا۔
محمد صل ہلل علیہ والہ وسلم کا یہ پیغام آخری پیغام ہے اب کوئی* مزید کوئی پیغام نہیں
آئے گا۔
َير هَّللا ِ بِ ِه َوال ُمن َخنِقَةُ َوال َموقو َذةُ َوال ُمت ََر ِّديَةُ َوالنَّ َ
طيحةُ ُأ حُرِّ َمت َعلَي ُك ُم ال َميتَةُ َوال َّد ُم َولَح ُم ِ
نزير َوما ِه َّل لِغ ِالخ ِ
َّ
س الذينَ ق ۗ اليَو َم يَِئ َ ٰ
زالم ۚ ذلِ ُكم فِس ٌ
ِ َألَقسموا* بِا
ب َو ن تَست ِ َأ ص ِ َوما َأ َك َل ال َّسبُ ُع ِإاّل ما َذ َّكيتُم َوما ُذبِ َح َعلَى النُّ ُ
ضيت لَ ُك ُم اِإل سال َم
ُ لت لَ ُكم دينَ ُكم* َوَأت َم ُ
مت َعلَي ُكم نِع َمتي َو َر َكفَروا ِمن دينِ ُكم فَال تَخ َشوهُم* َواخ َشو ِن ۚ اليَو َم َأك َم ُ
[]4
ف ِإِل ٍثم ۙ فَِإ َّن هَّللا َ غَفو ٌر َرحي ٌم َير ُمتَجانِ ٍص ٍة غ َدينًا ۚ فَ َم ِن اضطُ َّر في َمخ َم َ
قرآن کا بیان ہے کہ قرآن قیامت تک کے لیے ہللا کی حجت اور ب رہان ہے ،جس کا
مطلب یہ ہے کہ محمد صل ہلل علیہ والہ وسلم کی نبوت قیامت تک کے لوگوں کے لیے
ہے ،مخصوص دود تک کے لیے نہیں کہ مزید کوئی نیا نبی آئے اور نئے احکام الئے۔
:قرآن میں ہے
ي هَ َذا ْالقُرْ آنُ ُألن ِذ َر ُكم بِ ِه َو َمن بَلَ َغ َأِئنَّ ُك ْم
قُلْ َأيُّ َش ْي ٍء َأ ْكبَ ُر َشهَادةً قُ ِل هّللا ِ َش ِهي ٌد بِ ْينِي َوبَ ْينَ ُك ْ*م َوُأو ِح َي ِإلَ َّ
[]5
لَتَ ْشهَ ُدونَ َأ َّن َم َع هّللا ِ آلِهَةً ُأ ْخ َرى قُل اَل َأ ْشهَ ُد قُلْ ِإنَّ َما ه َُو ِإلَهٌ َوا ِح ٌد َوِإنَّنِي بَ ِري ٌء ِم َّما تُ ْش ِر ُكونَ
ایسی آیات بھی ہیں جن میں قرآن کو قیامت تک کے لیے (رود و بدل) سے محفوظ۔ ہے
اور اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ،ہللا نے اس کی حفاظت کا ذمہ خود لیا ہے،
جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اب کسی نئے نبی اور نئے احکامات کی حاجت نہیں۔
ْأ
َزي ٌز اَل يَ تِي ِه ْالبَا ِط ُل ِمن بَي ِْن يَ َد ْي ِه َواَل ِم ْن َخ ْلفِ ِه ت ِ
َنزي ٌل ِإ َّن الَّ ِذينَ َكفَرُوا بِال ِّذ ْك ِر لَ َّما َجاءهُ ْم َوِإنَّهُ لَ ِكتَابٌ ع ِ
ِّ م ْن َح ِك ٍيم َح ِمي ٍد
]6[ ِإنَّا نَحْ نُ نَ َّز ْلنَا ال ِّذ ْك َر َوِإنَّا لَهُ لَ َحافِظُونَ
اس کے عالوہ ،اسالم کا پیغام تمام انسانیت کے حوالے سے ایک عالمگیر پیغام ہے۔ یہ
آیات بتاتی ہیں کہ اسالم ایک مکمل مذہب ہے جو ہر دور کے لوگوں اور ان کی تمام
ضروریات* کو پورا* کرتا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کسی دوسرے پیغام کی کوئی
ضرورت نہیں ہے۔ محمد صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم* نے دین کی تکمیل کر دیا۔
اسالمکشاس ٹ ڈیز ۔6475
م ق01-
ض ت ئ خ ف ق خ
سوال۔4۔ع ی دہ آ رت کا م ہوم وا ح کرے ہ وے آ رت کی م ن ازل ذکر کری ں۔
عقیدہ آخرت ت شخ
ن ن ن اسالمی عقن ت
ے، ے اعم نال ُکا خحساب ندی ا ہ الی کی ب ارگاہ می ں ن پا ٰن ع ہللا کر و ہ دہ ز عد ب کے موت کو ص ر ہ ق طا من
ے م ں وہ ج ہ م ب ن کے دے ی
ے صورت می ں سزا و ج زا) سے ہ مک ار ہ و گا۔ اس ز دگی کا ام ا روی ز دگی ہ نی ا ج نت (کی خ کے یج ی جس ن
ت خ ہ ق ے۔ ن ہ رت اآل ِ
ی بت مان ا ام کا ے ال مان خاور استز پ ی
ا ر دگی
ں مام رسولوں اور م ارے کے رت آ ے۔ دہ ف ع م ا اور ادی یسرا کا الم س ا عد کے رسالت ت
ے اور گاہ ان ح
ی ت
ا ک ا ا
نب
د ہ ” کہ: ے ہ
یم ہ
ہوم سادہ کا ن ج ں۔
ی ب
ی ہ ر ی ہ ک ا سے
ب
ئ
ہ رتکیوح یعد ومات ہ ش اء
آن
ہ ن م ی ی ی ی ہت چ ی ہ ب ی ی م نلی ا بی
طرح ہللا ے ہ می ں ی ہاں جف ئ س اور ے نہ ا کر ال م اع ے ھ ا کر ال مان ق ی ا کون کہ ے ل یھ ج ہ ا ے ی کے ش آزما ں یم ہ ے ہللا ہاں
ی ف
پ ی دا ن رماینا اسی طرح وہ ہ می ں ہ نماری موت نکے ب عد ت ی امت کے دن دوب ارہ زن دگی ع طا رماے گا اور ہ می ں ہللا کے
ے وہ اوراعمال صالحہ یک ن ے اعمال کی ج واب دہ ی کرنا ہ نو فگی۔ن ج وا ب ی اء نکی علی مات پر ای مان الی ااور ان تکی اطاعت کی ے اپ سام
ے گی اور ف وج اکام۔ ج و کام ی اب نہ وا اسے عخم وں ب ھری اب دی ت نل
م ج ب ت وہ کی ی ن رما ا ے ئس ج اور گا و ن ہ اب ی م کا ٹ اں نوہ
ے اور د ی ا اس س ر ھر گ کا ی ہ رت آ نھر گ کا ت
دگی ز ل ے گا۔“ اص ھ سزا ن اک درد اور گا ے ا ں م م ن ہ ج وہ ہرا ھ اکام
ہ گک ت ی ج ت
ے سے دوسرے ے کا ہی ں ب لکہ ای ک مرحل گزرگاہ نسے زی ادہ ح یقث ی تق ہی ں ر ھ ی۔ اور موت خ ا م می ں ای کمات قم حا ی ن
ن خ غف ے۔ ب ول ا ب ال: ے می ں ن ل ہ وے کا ام ہ س مرحل
زن دگی ا ت ت ِام ال ہ ی نں ے ش جم ھ کو موت
ز دگی دوام
ِ صح ِب ز دگی، ِام یہ ے ہ
ض ق
َّ ث َ ن اَل ع َ ْ ق اَل َ َ ف َ ے:
ْ َّ پ ْ َّہ ج ْ ث
ھا ک ل ر طور ث
ح وا ں یم رآن ق
اس يَ ْ َمُونل َ ُ ُ ُ ل
ت ُِل ا لهُ يُثحْيِيكم ُم يُتمِيت ُكم ُم يَ ْمَعُكم ِإلَى يَو ِم الْ ِيَامَ ِةت ريب ِي ِه ولَ ِك ن َأك َر ال َّ ِ
ج ق ن ب خش (سورۃ الج ا ی ہ)26:
ے۔ پ ھر وہ ی م کو اس ی امت کے دن مع ہ ا ت ی د موت ن ں یہ م ی ہ و ھر پ ے، ن ش ہ ا ت ئ
دگی ز ں یہن م ان سے کہو ہللا ہ ی
نت م ث
کن ف ن ے ہیئ ں ہ ی ں۔ ے می ں کو ی ک ہی ں ،ق گر اک ر ئلوگ ج ا کے آ خ قکرے گا جس ق
ے واال رد ا کار کی ر گوش وش ہ المت س کہ ں ے ے د ل دال لی ع زوردار ےس ا کے رت آ وع رآن حکی نم می ں و
ھق
ہ ت ی گ ہی ی ِ
ح
ے۔ی ہاں م رآن کی م کے ہ ئ ہ س
ے دی ت ا ہ
ق
ے چ اہ ت اہ ے کہ ہ دای ت و ہللا ی جس ج راءت قہی ں خکر کت ا اں یعہق اور ب ات ہت
َ ْ ُ ق خ ُ ن گے: ْ ں
اَل َ یر ک ذکرہ ل کا کے ْ لیَ دالخ َ ُ ب َ ی قان ُکردہ ون وعُ آ َرت ُّ
ك ش َ ئ ْيًا ﴿﴾67 ويَ ُول الِْإ س َِان َأئ ِذا مَا مِت لَسَوف ُأ ْرج حيًَا ﴿َ ﴾66أو يَذ ُك ُر الِْإ سَان َأن َّا َ َل ْ ن َاهُ مِن َ ب ْل ولَم يَ ُ
ت ن ن ن ت )67 ن(سورۃ مری م – 66:ق
ن
ےے کہا وا عی ج ب می ں مر چتکوں گا و پ ھر ز دہ کر کے کال الی ا ج اؤں گا؟ ک ی ا ا سان کو ی اد ہی ں آ ا کہ ہ م پہل ا سان کہت ا ہ
ن ئ ب ج ض
ب خش ف ن ت ے ہ ی ں ب کہ وہ چک ھ ھی ہ ھا؟ ت اس کو پ ی دا کر چ ک
اور ہللا ے ہ فمی ں پ ی دا رما دی ا ،وج ود ا اور ہ ماری ےن ے ج ب ہ مارا ثکو ی وج ود ن ہ ت ھا ،ہ م چک ھ ب ھی ن ہ ھ ہ ح ب ات نب الکل وا
ے اسی طرح دوب ارہ ب ھی پ ی دا اب پ ی دا نرمای ا ہ طرح ہ می ں ہللا ے ے و جس ن ودگی اس بعات کا ب وت ہ ت خ ئ ی ا می ں موج ت فاس د
ب
سان کے ب ارےقمی ں تھی ی ہ کہہ ا سی ک م ہ ا ا، ی ہ ت س سے سی ک و کی اس ے م لی ل ا الق و ہللا گا۔ ے
ٹ ک ک
ے و دوب ارہ نی ہ کر ینس
ت ب ہکام ا ک مرت ن رمات
ت اس عمال کر گا؟ ی ہ کت پم یو ر ج و ہ م ئاس و ت ے ک
لے اسے دو ارہ ہ ں ب ن نب یہ ا ل کرن ہ ی ک ا ب
ج ت ی ے اس کہ ں سک ی
ہ ے
ے سی ی ے وک ہ ک ہ ی کو اگر اور ے؟ س ا ا و ے ا کے اس کہ ں س ہ
ب ی ک ن ی ب ض چت ب ے ی کی ی ن ک ی
ہ ے کہہ ہ م ا ں ہ رہ
ے جس حال می ں ج تہاں اور ج ب چ اہ ا ن ہللا ے۔ ہہ کہاں ی ل ی مر ماری ہ کہ ے ب ی ہ ہ ات کی ے چ سو ے؟ ہ ہ
ات ہ ب
ودہ
ے ہ ینں؟ ک ی ا موت ے چک ھ کر سک ے کے یل ے۔ ک ی ا م اسے روک موت دی ت اہ ٹ س
ے ن ے؟ ج ب چ اہ ت ا ہ پ ی داکرفدی ا ،ک یمم ا م اسے روک ک
ے گا دوب ارہ ز دہ کر کے ا ھا کھڑا کر دے گا۔ ک ی ا ہ م اسے ایسا کرے سے روک ے؟اور ج ب رب چ اہ سےش رار کن ہ
ئ ل ت ن سئکی ں خگے؟
ہاںے کہ ج ت ےق کن ناگر کو ي ی ہ کغہ ی سی ب ات ہ کو ی نص اگر ہی ں سے کڑی لے کر دروازہ ،می ز ی ا کرسی ب ا تدے و سادہ ل ک
ے اگر ہ م نور کری ں و ے؟ ی نی ن ج ا ی فع ہ زہ ج م نب دے گا و کیسا جعی ں وہ اں وہ ای ک لکڑی کا دروازہ کھڑا کر ن نچک ھ ب ھی ہی ئ
ن
سے ک ی ا م لوق ب اندی اور خ ک بو د ے کی ای ئ ا سان کی پ ی دا شن ای ک ب ہت ب ڑے نمعج زے سے کم نہی ں۔ بسنحان ہللا۔ ط ن
ے ج و اپ ی سل اس کے ان در اپ ی سلخکے بق ا کا ظ ام رکھ دی ا۔ ک ی ا ا سان ے ب ھی کب ھی ای سی کو ی چ ینز ب ن ائ ي بہخ ق
ے گا کیسی ے۔ اور اس ماہ ر الق کے ب ارے می ں ی ہ کہ ن ا کہ وہ ہ می ں موت کے ب عد دوب ارہ ز دگی ن ہ ش سک بر ق راررکھ
ت ن ن ن غ ے۔ حما ت ہ
ہ
ذرات کہاں نپڑے ہ ی نں؟ زمی نشمی ں نی تاں؟ و وہ ے کہ آے والی خلوں کے موں کے ن ن س ج س ت آپ ذرا اس ب ات پر ور یکج ی
اور
رات ،ب ا ات ئ دوں ،ح ن ے؟ انسا وں ،ج ا وروں ،پتر ے ب یل ق کا کام کر رہ ا ہف ذرات کو مع کر نکے ہ ر لمح ے ج و ان خ ق نکوننہ
ے ارب ی ا ھرب گزر گف ک ے؟ تو ج قو چ دف ن کون واال ے رما دا ں م ےح ل ک ا ے چ ارب ی ہ ے ک کے ات لو م
کے ر ی ی ا ت ہ ا سان سے ی ہ نرما
ہ
ے گا؟ توہ و آجت
ت
ں خمع ن ہ کر سک
پ
یج ی م
م ت
یق
و ی ہ ک ا کو ذرات
ت
ت کے ٹ
موں ن س ےان کےفج
کن کن
ہللا
جا
کی ا
ںش ن ی کمی ٹ ج ن
ے اس عمال کرے ہ و می ں ان ئکو ب ش نھیخویسا ہ فی نب ا کے ن یل ت
ت ت ا یت ٹ م دور کے ر و
مکم ش نپ یخ آج م کو س ر پ گر ن کہ ے رہ ہ ا
س کی دی و ی ا ت ( گر ہ ے خکہ ج ن ل
ی
گا۔ ا ا وسوچ ج ی ھاؤں خ ت کے قسا ھ ا ئ دوں گا اورہٹ ر اشی ک کو اس کی ت ل ا ن نٹ
س ہ ہ ئ س ئ ہ ی
ے۔ ک ی ا اس کے ے ب ر یک و کر رہ کت ا ہ پر غ س ی ارجس ر ن) کون م آج ٹا ی ش عمال کرے کے اب نل وے وہ ود م سے ب
ن گا؟ن ںہ و مارا کو ی َریکارڈ ہی ن کا ُذات منی ں ُہ ماری جکو َی رجس ر ن اور ہ ق
ي ب َ َا َهُ﴿﴾4 َأيَ ْحسَب الِْإ سَان َألَّن َ ْمَع عِظ َامَهُ﴿ ﴾3ب َلَى َا ِد ِرين عَلَى َأن ُّ َس ِّو َ
اسالمکشاس ٹ ڈیز ۔6475
م ق01-
ن ت ن ج ن (سورۃ القیامہ)4 – 3: ن
ے کہ ہ م اس کی ہ ڈیوں کو مع ہی ں کر سکی ں گے ؟ یک وں ہی ں؟ ہ م و اس کی ا گ یل وں کی پور پور ا ہ ر ھ س
تک ی ا ا ٹ ی نجم ن ہق
ہ سان
ے پر ادر ہ ی ں۔ ک ھ ی ک ب ا دی
انسانی زندگی پر عقیدہ آخرت کے اثرات
عقیدہ آخرت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اس بات کا پختہ یقین رکھے کہ ایک دن الزماًایس**ا آئے گ**اجس
میں تمام انسانوں کے اعمال کی جانچ پڑتال ہو گی ۔ دنیا ک**ا موج**ودہ نظ**ام اب**دی نہیں ہے ،بلکہ ای**ک
وقت مقررہ پر اس کا خاتمہ ناگزیر ہے۔فرمایا* گیا:
َأفَ َح ِس ْبتُ ْم َأنَّ َما خَ لَ ْقنَا ُک ْم َعبَثا ً َوَأنَّ ُک ْم ِإلَ ْینَا اَل تُرْ َجعُون۔(المومنون)115 :
’’کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ ہم نے تمہیں فضول* ہی پی**دا کی**ا ہے اور تمہیں ہم**اری ط**رف کبھی
پلٹنا ہی نہیں ہے؟‘‘
*الی دوس**را ع**الم پی**دا چناں چہ انسان اس حقیقت کو تسلیم کرے کہ اس دنیا کے خاتمے کے بعد ہللا تع* ٰ
کرے گا اور ان کا محاسبہ کرے گا اور اس بات کا یقین رکھے کہ ہللا تعالی کے حس**اب و کت**اب کے
بعد جو نیک قرار* پائیں گے وہ جنت میں جائیں گے اور جو برے اعمال کے ساتھ حاضر* ہوں گے وہ
دوزخ میں جائیں گے ۔اور یہی انسان کی کامیابی و ناکامی کا پیمانہ ہے ۔
آخرت کا مفہوم:
ت آخ**رت کے ت آخ**رت بھی کہ**تے ہیں۔حی**ا ِ آخرت سے مراد موت کے بعد کی زندگی* ہے جسے حی**ا ِ
بارے میں عموماًتین طرح کے عقیدے پائے جاتے ہیں:
دہریوں کے مطابق:
مرنے کے بعد انسان فنا ہو جائے گا اس کے بع**د نہ ہی ک**وئی دوس**ری زن**دگی* ہے اور نہ ہی ج**زا و
سزا۔
قرآن مجید نے ان کے اس عقیدہ کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے ۔
ُ ْ
ک ِم ْن ِعل ٍم ِإ ْن ہُ ْم ِإاَّل یَظنُّونَ ۔
*وت َونَحْ یَ*ا َو َم*ا یُ ْہلِ ُکنَ*ا ِإاَّل ال* َّد ْہ ُر َو َم*ا لَہُم بِ* َذلِ َ َوقَالُوا َما ِہ َی ِإاَّل َحیَاتُنَا ال* ُّد ْنیَا نَ ُم ُ
(الجاثیہ)24 :
’’یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی بس یہی ہماری دنیا کی زن**دگی ہے،یہیں ہم**ارا جین**ا اور مرن**ا ہے اور
گردش ایام کے سوا کوئی چیز نہیں جو ہمیں ہالک ک**رتی ہ**و۔درحقیقت اس مع**املے میں ان کے پ**اس ِ
کوئی علم نہیں ہے۔یہ محض گمان کی بنا پر یہ باتیں کرتے ہیں۔‘‘
تعالی نے فرمایا: ٰ ایک اور جگہ ہللا
َ نُ َ ُأْل
ِإ َّن ہَُؤاَل ء لَیَقُولُونَ ۔ِإن ِہ َی ِإ َموْ تتنَا ا ولی َو َما نَحْ بِ ُمنش ِر ْینَ ۔(الدخان34 :۔)35
ُ َ اَّل ْ
’’یہ لوگ ت**و یہی کہ**تے ہیں کہ (آخ**ری چ**یز)یہی ہم**اری* پہلی ب**ار (دنی**ا س**ے ) م**ر جان**ا ہے اور ہم
دوبارہ اٹھائے نہیں جائیں گے ‘‘۔
اہ ِل تناسخ کے نزدیک:
انسان اچھے یا برے اعمال کا بدلہ پانے کے لیے دنیا میں بار بار جنم لیتا رہے گ**ا۔اچھے اعم**ال کے
اعلی حیثیت کا مال**ک بن ک**ر جنم لے گ**ا اور اگ**ر اعم**ال ب**رے ہیں ت**و ٰ نتیجے میں عمدہ اوصاف اور
حیوانات و نباتات اور کیڑے مکوڑے کی شکل میں دنیا میں آئے گا ۔
تب*دیلی جس*م کے ہیں۔افس*وس* کہ ن*وع انس*انی کی ِ مع*نی فن*ا نہیں ،بلکہ ٰ گویا ان کے نزدیک موت کے
کثیر تعداد آج اسی طرح کے باطل عقیدہ میں گرفتار ہے اور بے راہ روی اور ضاللت و گمراہی کی
زندگی بسر کر رہی ہے۔جس کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ آخرت کی زندگی* کا عدم یقین زندگی
کو بے لگام کردیتا ہے اور آخرت کی باز پرس کا احساس آزادانہ زندگی* بسر ک**رنے کی آزادی س**لب
کر لیتا ہے۔ایسے ہی لوگوں کے لیے قرآن نے کہاہے:
ضاَل ِل ْالبَ ِعیْد۔(السبا)8 : ب َوال َّ بَ ِل الَّ ِذ ْینَ اَل یُْؤ ِمنُونَ بِاآْل ِخ َر ِۃ فِ ْی ْال َع َذا ِ
’’(حقیقت یہ ہے کہ )آخرت پر یقین نہ رکھنے والے ہی عذاب میں اور دور کی گمراہی میں ہیں‘‘۔
انبیاء کے نزدیک :
اسالمکشاس ٹ ڈیز ۔6475
م ق01-
جس کے ماننے والے اہ ِل ایمان ہیں۔یہی وہ عقیدہ ہے جس کی درستگی ایمان کی تکمیل ک**رتی ہے۔یہ
عقیدہ اپنے ماننے والوں پر حشر و نشر اور جزا و س**زا کے یقین و تص**دیق ک**و الزم کرت**ا ہے ،جس
کے سلسلے میں قرآن کہتا ہے:
ار۔(ابراہیم)48 *: ْ
اح ِد القَہَّ ِ ْ ہّلل
وا ِ ال َو ِ ْ ُ ُ
ض َوال َّس َما َو *
ات َوبَ َرز * یَوْ َم تُبَ َّد ُل اَألرْ ضُ َغ ْی َر اَألرْ ِ
’’ڈراؤ انہیں اس دن سے جب کہ زمین و آسمان بدل کر کچھ سے کچھ ک**ر دیے ج**ائیں گے اور س**ب
کے سب ہللا واحد و قھار کے سامنے بے نقاب حاضر ہو جائیں گے۔‘‘
میدان حشر میں پیشی:
اس وقت تمام لوگوں کی پیشی ہللا رب العزت کے سامنے ہو گی اور حال یہ ہو گا کہ اگر کوئی* انسان
چاہے گ*ا کہ وہ ہللا کے س**امنے حاض**ر نہ ہ**و اور زمین و آس**مان کے کس*ی گوش**ے س**ے کہیں نک**ل
*الی کے س**امنے ال کھڑاکی**ا بھاگے تو ایسا کوئی* راستہ نہیں پائے گا اور اسے چ**اہے نہ چ**اہے ہللا تع* ٰ
جائے گا ۔ رسول ہللاﷺ فرماتے ہیں:
ما منکم من أحداال سیکلمہ ہللا یوم القیامۃ لیس بین ہللا و بینہ ترجمان ۔
*الی اور بن**دے کے تعالی قی**امت کے دن اس ط**رح کالم فرم**ائے گ**اکہ ہللا تع* ٰ ٰ ’’تم میں ہر فرد سے ہللا
درمیان کوئی ترجمان نہ ہوگا۔‘‘
یہ لمحہ ہمیں غور وفکر* کی دعوت دیتا ہے کہ دنیا میں تو انسان اپنے حقوق کی وصولیابی* کے ل**یے
یا پھر دوسروں کے حقوق پر نا حق دست درازی کے لیے اپ**نے حم**ایتیوں ک**ا س**ہارا لیت**ا ہے ،ا پ**نی
پارٹی کے افراد اور ان کی قوت و استحکام* پر نظر رکھتا ہے ،ضرورت پڑنے پر اپ**نے سفارش**یوں
کو ال کھڑا کرتا ہے اور کبھی اپنے مضبوط* جتھے کے ساتھ طاقت کا مظاہرہ کرتا ہے ،لیکن آخ**رت
*الی کے س**امنے میں یہ س**ب کہ**اں؟بن**دہ ن**اچیز بے بس و مجب**ور تن تنہ**ا حش**ر کے می**دان میں ہللا تع* ٰ
حاضر ہو گا۔اس**ی ل**یے ق**رآن ک**ریم نے انس**انیت ک**و آ خ**رت کے اس م**رحلے س**ے آگ**اہ ک**ر دی**ا ہے
اورفرمایا:
َأ ُ ْ ُ
َولَقَ ْد ِجتُ ُمونَا* ف َرادَی َک َما خَ لقنَاک ْم َّو َل َم َّر ٍۃ۔(االنعام) 94:
َ
’’تم یقیناًہمارے پاس تنہا ہی آؤ گے جس طرح ہم نے تم کو پہلی بار پیدا کیا تھا۔‘‘
مطلب یہ کہ عقیدۂ آ خ*رت انس*ان ک*و اس تص*ور کے س*اتھ زن*دگی گ*زارنے کی تعلیم دیت*ا ہے کہ ہللا
*الی کے*الی کے ع**دل و انص**اف میں دنی**اکی یہ س**اری چ**یزیں ک**ام آنے والی نہیں ہیں،بلکہ ہللا تع* ٰ تع* ٰ
حضور ہر انسان کو بالکل یک و تنہا حاضر ہو کر حساب و کتاب چکانا ہوگا۔ یہ رشتہ داری**اں اور آل
و اوالد جن کی محبت انسان کو اکثر یاد خدا سے بھی غافل کر دیتی ہے اور کبھی نعوذ ب**اہلل راہ ح**ق
سے موڑ کر باطل کی راہ پر ڈال دیتی ہیں ،آخرت میں کچھ کام نہیں آئیں گی ۔اسی کو قرآن کہتا ہے:
لَن تَنفَ َع ُک ْم َأرْ َحا ُم ُک ْم َواَل َأوْ اَل ُد ُک ْم یَوْ َم ْالقِیَا َم ِۃ۔(الممتحنہ) 3*:
’’قیامت کے دن نہ تمھاری رشتہ داریاں کسی کام آئیں گی نہ تمھاری* اوالد۔‘‘
بلکہ اس وقت ہر انسان کو صرف اپنا خیال ہوگا۔چناں چہ اس دن مج**رم چ**اہے گ**اکہ اپ**نی اوالد،اپ**نی
بیوی،اپنے بھائی،اپنی حمایت کرنے والے خاندان اور دنیا بھر کے لوگوں کو بھی اگ**ر ف**دیہ میں دے
کر عذاب سے چھو ٹ سکتا ہو تو انہیں بھینٹ چڑھا دے اور خود چھوٹ جائے۔‘‘ (المعارج11:؍)14
حتی کہ آل و اوالد جن کے لیے والدین ہر تعالی کی عدالت میں عزیز ترین رشتہ دار ٰ ٰ معلوم ہوا کہ ہللا
تعالی کے اوامر و نواہی ٰ طرح کی قربانی* دیتے ہیں ،جن کی آسائشوں و لذتوں کی تکمیل کے لیے ہللا
سے بھی غافل ہ**و ج**اتے ہیں وہ بھی آگے ب**ڑھ ک**ر یہ کہ**نے والے نہیں ہ**وں گے کہ انہ**وں نے فالں
فالں گناہ کے کام ہمارے لیے کیے تھے اس لیے اس کی سزا ہمیں ہی دیدی ج**ائے ،بلکہ وہ ت**و یہی
چاہیں گے کہ اپنے گناہوں کی سزا کسی پر ڈالنے میں کامیاب ہو جائیں اور خ**ود ک**و نج**ات دال لیں ۔
تعالی کے یہاں ہر انسان کے لیے وہی کچھ ہو گا جو اس نے کمایا ہو گا ،فرمایاگیا : ٰ لیکن ہللا
َ َأْل ْ ُ َأ اَّل
ْس لِِإْل ن َسا ِن ِإ َما َس َعی۔ َو َّن َس ْعیَہُ َسوْ فَ ی َُری۔ث َّم یُجْ َزاہُ ال َج َزاء ا وْ فی۔(النجم39*:۔)41 َوَأن لَّی َ
’’ اور یہ کہ ہر انسان کے لیے ص**رف* وہی ہے جس کی کوش**ش خ**ود اس نے کی،اور یہ کہ اس کی
کوشش عنقریب دیکھی جائے گی،پھر اسے پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔‘‘
اسالمکشاس ٹ ڈیز ۔6475
م ق01-
ف شت
سوال۔5۔ ر وں پر ای مان کی وض احت کری ں۔
سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ معزز پرہیزگار بندے ہیں ،ہللا کی عبودیت بجا التے ہیں ،جیسا کہ اس
کا حق بنتا ہے ،ہللا کے احکام کو نافذ کرتے ہیں اورکبھی نافرمانی نہیں کرتے۔
تعالی نے فرمایا:۔(( بلکہ وہ سب اس کے باعزت بندے ہیں۔ کسی بات میں ہللا پر پیش
ٰ جیسا کہ ہللا
دستی نہیں کرتے بلکہ اس کے فرمان پر عمل پیرا ہیں)۔ (اال نبیاء )27-26 :
تعالی کی جانب سے اتری اور مومن بھی ایمان الئے ،یہ سب
ٰ الئے اس چیز پر جواس کی طرف* ہللا
( البقرۃ )285:
آپ ﷺ نے ایمان کے بارے میں فرمایا ((:تم ہللا پرایمان الؤ ،اور اس کے فرشتوں اور اس کی
کتابوں اور اس کے رسولوں پر اور آخرت کے دن پر ،اور ایمان الؤ تقدیر کے اچھے اور برے
نبی ﷺ نے بتایا کہ آسمان اس میں موجود* چیزوں کی وجہ سے بھاری ہو گیا ہے ،اس میں ایک
بالشت کی جگہ نہیں ہے مگر کوئی فرشتہ اس میں کھڑا ہے ،یا رکوع میں ،یا سجدہ میں ہے۔
جن کے ناموں کا ہمیں علم ہے جیسے جبریل علیہ السالم ،ان پر ایمان رکھنا اور جن
کے ناموں کا ہمیں علم نہیں ہے ان پر مجمل طور پر ایمان رکھنا۔
اسالمکشاس ٹ ڈیز ۔6475
م ق01-
:ان کی صفات میں سے جن صفات کا ہمیں علم ہے ان پر ایمان رکھنا
تعالی
ٰ وہ عالم غیبی سے تعلق رکھتے ہیں،ہللا کی عبادت کرنے والی مخلوق ہیں ،ہللا
کے بندے ہیں ،وہ ربوبیت ،والوھیت کی کسی چیز کے مالک نہیں ،وہ تو ہللا کی
اطاعت کے مکمل طور پر تابع ہیں جیسا کہ ہللا سبحانہ نے فرمایا:۔((انہیں جو حکم ہللا
تعالی دیتا ہے اس کی نافرمانی* نہیں کرتے بلکہ جو حکم دیا جائے بجا التے ہیں))۔
ٰ
(التحریم* )6:
انھیں نور سے پیدا کیا گیا،آپ ﷺ نے فرمایا ((:فرشتوں کو نور سے پیدا کیا گیا))
(مسلم )2996 :
تعالی نے یہ بات بتائى کہ فرشتوں* کے لیے بازو بنائے ،یہ اپنی ٰ ان کے پر ہیں ،ہللا
تعداد کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں ہللا سبحا نہ نے فرمایا :۔
((اس ہللا کے لیے تمام تعریفیں الئق وزیبا ہیں جو (ابتدا ًء) آسمانوں اورزمین کا پیدا
کرنے واال اور دو دو تین تین چار چار پروں والے فرشتوں کو اپنا پیغمبر(قاصد)
تعالی یقینا ً ہر چیز پر قادر*
ٰ بنانے واال ہے ،مخلوق* میں جو چاہے زیادتی* کرتا ہے ،ہللا
ہے))۔ (فاطر)1 :
تعالی کی طرف سے جو کام انھیں سونپے گئے ہیں جن کو ہم جانتے ہیں اس پر
ٰ ہللا
:ایمان رکھنا
تعالی کے پیغام پہنچانے کا کام جن کے ذمہ ہے وہ جبریل علیہ
ٰ پیغمبروں تک ہللا
السالم ہیں۔
جان نکالنے کا کام جن کے ذمہ ہے وہ موت کا فرشتہ* اور ان کے مدد گار فرشتے
ہیں۔
بند وں کے اعمال چاہے وہ خیر ہوں یا شر ہوں ان کو لکھنے اور محفوظ کر نے کا
کام -کراما ً کاتبین( -لکھنے والے پاک باز فرشتے) کے ذمہ ہے۔
ہللا کی عظمت وقوت* اور کمال قدرت کا اندازہ ہوتا ہے کیو نکہ مخلوق کی عظمت 1.
سے خالق کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں مؤ من کے نز دیک ہللا
تعالی نے
ٰ کی قدر اوراس کی عظمت میں اضافہ ہوتا ہے،اس حیثیت سے کہ ہللا
بازوؤں والے فرشتوں کو نور* سےپیدا فرمایا* ہے۔
تعالی کی فرمانبرداری میں استقامت آتی ہے کیونکہ کوئیبھی* آدمی جب یہ ایمان 2.
ٰ ہللا
رکھتا ہے کہ فرشتے اس کے سارے اعمال کو لکھتے ہیں تو یہ بات اس آدمی کے
تعالی کے ڈر کا سبب بنتی ہے چنانچہ وہ کھلے اور چھپے اس کی نافرمانیٰ اندر ہللا
سے بچتا ہے۔
اسالمکشاس ٹ ڈیز ۔6475
م ق01-
بندہ مومن ہللا کی فر مانبرداری* میں صبر سے کام لیتا ہے اور اسے انسیت واطمینان 3.
کا احساس ہوتا ہے جب وہ یہ یقین رکھتا ہے کہ اس بڑی کائنات میں اس کے ساتھ
ہزاروں فرشتے ہیں جو ہللا تعالی کی فرمانبرداری* احسن واکمل طریقے سے انجام
دیتے ہیں۔
تعالی کی عنایت کی بدولت اس کا شکر بجا النا ،جب کہ فرشتوں* میں 4.
ٰ انسانوں پر ہللا
بعض کو انسانوں کی حفاظت کا کام سونپا* ہے۔