قیمتی میٹھا پانی ضائع کرنے کا ذمہ دار کون؟

You might also like

Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 4

‫‪Ad‬‬

‫‪LIVE‬‬

‫قیمتی میٹھا پانی ضائع کرنے کا ذمہ دار کون؟‬


‫محمود شام
‪June 26, 2022‬‬
‫‪ ‬‬

‫ٓاج اتوار ہے۔ بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں سے دو پہر کے کھانے پر ملنے۔ ان کے سواالت سننے‬
‫کا دن۔ ٓاج میں بہت دکھی ہوں۔ جوالئی اگست کے مہینے ٓارہے ہیں۔ جب ہم جی بھر کے بہت ہی قیمتی‬
‫میٹھا پانی ضائع کرتے ہیں۔ ر یاست‪ ،‬حکومت‪ ،‬اسٹیبلشمنٹ‪،‬سیاستدان اور اپوز یشن‪ ،‬سب اس میں برابر کے‬
‫شر یک ہیں۔‪ ‬‬

‫ہم اس وقت جو پانی استعمال کررہے ہیں اور ضائع کررہے ہیں یہ ہمارے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں‬
‫ٰی‬ ‫ہّٰلل‬ ‫ّص‬ ‫ّص‬
‫نواسیوں کے ح ے کا ہے۔ ہمارے ح ے کا پانی تو ہمارے باپ دادا استعمال اور ضائع کرچکے۔ ا تعال‬
‫کتنا کر یم ہے۔ ٓاسمانوں سے زمینوں کی پیاس بجھانے کے لیے انتہائی قیمتی میٹھا پانی نازل فرماتا ہے۔ یہ‬
‫تو ان بستیوں میں رہنے والے انسانوں کی ذمہ داری ہے کہ اس پانی کے ایک ایک قطرے کومحفوظ کرنے کا‬
‫انتظام کر یں۔ کیا ہم میں سے کوئی یہ نہیں سوچتا۔‪ ‬‬

‫کسی کو تشو یش نہیں ہے کہ اپنی جان سے ز یادہ عز یز ہمارے پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں کل پانی کی‬
‫قلت کا شکار ہوں گے تو وہ ہمیں کن الفاظ میں یاد کر یں گے۔ ہم ان کے لیے گھر ۔بنگلے بناکر تو رکھ رہے‬
‫ہیں۔ لیکن انتہائی ضروری پانی کی حفاظت نہیں کررہے ۔اگر ہمارے بیٹوں بیٹیوں میں سیاسی شعور کے‬
‫ساتھ ساتھ ٓابی شعور بھی ٓاجائے تو وہ ہماری نسلوں کے منہ سے پانی کے گالس بھی چھین لیں۔‬

‫قبل از مون سون بارشیں ہورہی ہیں‪،‬پھر مون سون شروع ہوجائے گا۔ ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ الکھوں لیٹر‬
‫میٹھا پانی سڑکوں گلیوں نالوں کی نذر ہورہا ہے۔ اسی پانی کی ایک ایک بوتل ہم کتنی مہنگی خر یدتے ہیں۔‬
‫کیا ہمیں تشو یش نہیں ہوتی کہ کروڑوں رو پے بہہ رہے ہیں۔ کسی کام ٓانے کی بجائے دیوار یں گرارہے ہیں۔‬
‫ٰی‬ ‫ہّٰلل‬
‫چھتیں برباد ہورہی ہیں۔ کرنٹ لگنے سے ا تعال کا نائب دم توڑ رہا ہے۔‬

‫‪ ‬یوں تو ہم سب بڑے دانشور ہیں۔ ملک کیلئے ٓاخری امید ہیں۔ صدر مملکت کو اس بڑے نقصان پر تشو یش‬
‫ہے۔ نہ وز یر اعظم کو نہ ہی سابق وزرائے اعظم کو۔ نہ موجود ہ وز یر موسمیات کو نہ سابق وز یر موسمیات کو ۔‬
‫کالم نو یسوں کو کوئی فکر ہے نہ ہی اینکر پرسنوں کو۔ پی ٹی ٓائی کا کوئی ٹو یٹ ٓارہا ہے نہ ہی پی ڈی ایم کا۔‬
‫پانی جیسی قیمتی متاع کی قدر جنوبی افر یقہ کے کیپ ٹاؤن کے شہر یوں سے پوچھئے جہاں پانی کا راشن‬
‫مقرر کردیا گیا ہے۔ سابق وز یر اور درد مند پاکستانی نثار میمن جانتے ہیں کہ پہلے ہر پاکستانی کوکتنے لیٹر‬
‫پانی میسر تھا اور اب کیا شرح ہے۔ وہ اس پر باقاعدہ تحقیق کررہے ہیں۔‬
‫ُد‬
‫بلوچستان جہاں پانی کی قلت پر بہت کھ ظاہر کیا جاتا ہے۔ خشک اور بنجرزمینوں کی پکار سنائی دیتی‬
‫ہے۔ وہاں بھی حالیہ بارشوں کے میٹھے پانی سے تباہی مچ گئی ۔ وہاں تو کھلے عالقے ہیں۔ بڑے ذخیرٔہ‬
‫ُر‬
‫ہائےٓاب بنانے مشکل نہیں ۔ ڈیم نہیں بڑے تاالب ہی بنادیے جائیں ۔ بہتے پانی کا خ ان تاالبوں کی طرف‬
‫موڑ دیا جائے۔‬

‫ہم روتے تھے در یاؤں میں جب پانی نہیں تھا‬

‫ہم روتے ہیں در یاؤں میں جب پانی بہت ہے‬

‫بڑے ڈیم تو ہماری سیاست‪ ،‬قوم پرستی اور غفلت کی نذر ہوگئے۔ ہمارےازلی دشمن بھارت نے اپنی بقا‬
‫کیلئے ان در یاؤں پر چھوٹے بڑے ڈیم بنالیے۔ یہ بھارتی قوم پرستی ہے۔ ہم ہر سنگین مسئلے کا ذمہ‬
‫دارحکومت اور فوج کو ٹھہرا کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ لیکن جتنے بڑے ڈیم ہیں وہ فوجی ٓامروں کے زمانے میں‬
‫َد‬
‫ہی تعمیر ہوئے ہیں۔ منگال ڈیم‪ ،‬تربیال ڈیم ایوب خان کے ور میں۔ پھر جنرل مشرف کے عہد میں بلوچستان‬
‫میں چھوٹے ڈیم بنے۔ ابھی فوج کے سلیکٹڈ عمران خان نے بھاشا ڈیم پر کام شروع کروایا۔‪ ‬‬
‫ُر‬
‫کاال باغ ڈیم بناتے وقت ہم کئی عشروں سے سندھ کی رائے عامہ کا احترام کرکے ک جاتے ہیں۔ جنرل ضیا‬
‫بناسکے نہ جنرل مشرف۔ لیکن فوجی ٓامر کو اسالمی سربراہ کانفرنس کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو‬
‫پھانسی دیتے وقت سندھ کی رائے عامہ کا احترام کیوں نہیں تھا۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ کاال باغ ڈیم کی‬
‫تعمیر میں رکاوٹ کچھ اورعناصر ہیں۔‬

‫ماضی تو گزر گیا۔ ہمیں مستقبل کی فکر کرنا چاہئے۔ میٹھا پانی ہی زندگی ہے۔ پانی انسانوں کے زندہ رہنے‬
‫کیلئے بھی چاہئے۔ بجلی بنانے کے لیے بھی درکار ہے۔ مال مو یشی کیلئے بھی پانی ناگز یر ہے۔ صنعتیں‬
‫چالنے کیلئے بھی میٹھا پانی ضروری ہے۔ بڑے ڈیم نہیں بناسکتے۔ ان میں وقت بھی لگتا ہے۔ سرمایہ‬
‫بھی۔ چھوٹے چھوٹے ڈیم تو بنانا شروع کر یں۔ میڈیا کو بھی سوچنا چاہئے مالکان ہوں‪ ،‬اینکر پرسن‪ ،‬خبر یں‬
‫پڑھنے والے‪ ،‬ان کو بھی پانی چاہئے۔ ان کی ٓائندہ نسلوں کو بھی۔ اس کیلئے ٓابی شعور کیوں پیدا نہیں کیا‬
‫جاتا۔‬

‫ہر پاکستانی کیلئے ٓابی شعور وقت کی للکار ہے۔ ہم نے سال گزشتہ بھی ان کالموں میں عرض کیا تھا۔ جب‬
‫‪ 50‬الکھ گھروں کی تعمیر زوروں پر تھی۔ ہماری تعمیراتی کمپنیاں نئے گھروں‪ ،‬پالزوں‪ ،‬بلندیوں کی تعمیر‬
‫کے اشتہارات دے رہی تھیں۔ اب بھی ٓارہے ہیں۔ ٓاسٹر یلیا‪ ،‬کینیڈا‪ ،‬امر یکہ‪ ،‬چین اور ہمارے ہمسائے‬
‫بھارت میں بھی گھروں۔ بلڈنگوں‪ ،‬اسکولوں کی عمارتوں میں بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کیلئے بڑے ٹینک‬
‫الزمی کردیے گئے ہیں۔ عمارتوں کے نقشے اس کے بغیر منظور نہیں کیے جاتے۔‪ ‬‬
‫ہمارے ہاں بھی سرکاری اسکول‪ ،‬سرکاری کالجوں‪ ،‬سرکاری یونیورسٹیاں بڑے بڑے رقبوں میں بن رہی ہیں۔‬
‫بنی ہوئی ہیں۔ وہاں ٓاسانی سے بڑا رقبہ بارش کا پانی محفوظ کرنے کیلئے مختص کیا جاسکتا ہے۔ اب جو‬
‫ُر‬
‫الکھوں لیٹر پانی بآالخر گندے پانی کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور کسی کام کا نہیں رہتا۔ اس کا خ ان‬
‫ذخیروں کی طرف کیا جائے۔ ٓاسٹر یلیا وغیرہ میں بارش کے پانی کیلئے گھروں میں الگ ٹینک بنائے جاتے‬
‫ہیں۔پانی سڑک یا گلی میں جاکر ضائع ہونے کی بجائے پرنالوں اور پائپوں سے مخصوص ٹینک میں چال جاتا‬
‫ہے۔ یہ پانی گھر کے سبزہ زاروں‪ ،‬گاڑ یاں ‪،‬فرش دھونے میں استعمال ہو سکتا ہے۔ اس طرح میونسپلٹی کا‬
‫فراہم کردہ پانی ہمارے پینے‪ ،‬کھانا پکانے‪ ،‬غسل کیلئے بچ سکتا ہے۔‬

‫بارشوں میں گھروں کی تباہی۔ پلوں کی بربادی۔ انسانوں کی ہالکتیں کیا ہمارے ذہنوں پر دستک نہیں‬
‫ٰی‬ ‫ہّٰلل‬
‫دیتیں کہ ہمیں ا تعال کی اس نعمت کو اپنے استعمال کیلئے محفوظ کرنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔‬
‫جنگلوں میں بھی تاالب بنائے جاسکتے ہیں۔ قدرت کی طرف سے تو یہ باران رحمت ہوتی ہے۔ مگر ہمارے‬
‫بلدیاتی اداروں‪،‬صوبائی محکموں اور وفاقی وزارتوں کی غیر ذمہ داری اسے زحمت بنادیتی ہے۔ رحمت سے‬
‫لطف اندوز ہونے کی بجائے ہم اپنے گھر اور جانیں بچانے میں وقتی طور پر مصروف ہوجاتے ہیں۔ جب موسم‬
‫گزر جاتا ہے تو پھر ہم جمہور یت ٓامر یت‪ ،‬حقیقی ٓازادی‪ ،‬امر یکی غالمی کی بحث میں الجھ جاتے ہیں۔‬

‫ٓاتی نسلیں بھی کسی روز یہی پوچھیں گی‬

‫کیوں نہ محفوظ ہوا قیمتی پانی ہم سے‬


‬ ‫

‫‪SKMCH&RC take‬‬
‫‪care of Qurbani‬‬

‫‪Open‬‬

‫بالگ کی مز ید خبر یں‬

‫باجوہ ڈاکٹرائن اور ’’فیٹف‘‘ کا فیصلہ‬


‫احسن اقبال کی نصیحت اور قومی المیہ‬

‫اقتدار کا کھیل اور غر یب عوام!‬

‫کیا تھا‪ ،‬کرکے دکھائیں گے!‬

‫اتحادی حکومت کو کیوں الیا گیا؟‬

‫پاکستان میں سیاسی افراتفری‬

You might also like