Professional Documents
Culture Documents
قیمتی میٹھا پانی ضائع کرنے کا ذمہ دار کون؟
قیمتی میٹھا پانی ضائع کرنے کا ذمہ دار کون؟
قیمتی میٹھا پانی ضائع کرنے کا ذمہ دار کون؟
LIVE
ٓاج اتوار ہے۔ بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں سے دو پہر کے کھانے پر ملنے۔ ان کے سواالت سننے
کا دن۔ ٓاج میں بہت دکھی ہوں۔ جوالئی اگست کے مہینے ٓارہے ہیں۔ جب ہم جی بھر کے بہت ہی قیمتی
میٹھا پانی ضائع کرتے ہیں۔ ر یاست ،حکومت ،اسٹیبلشمنٹ،سیاستدان اور اپوز یشن ،سب اس میں برابر کے
شر یک ہیں۔
ہم اس وقت جو پانی استعمال کررہے ہیں اور ضائع کررہے ہیں یہ ہمارے بیٹوں بیٹیوں پوتوں پوتیوں نواسوں
ٰی ہّٰلل ّص ّص
نواسیوں کے ح ے کا ہے۔ ہمارے ح ے کا پانی تو ہمارے باپ دادا استعمال اور ضائع کرچکے۔ ا تعال
کتنا کر یم ہے۔ ٓاسمانوں سے زمینوں کی پیاس بجھانے کے لیے انتہائی قیمتی میٹھا پانی نازل فرماتا ہے۔ یہ
تو ان بستیوں میں رہنے والے انسانوں کی ذمہ داری ہے کہ اس پانی کے ایک ایک قطرے کومحفوظ کرنے کا
انتظام کر یں۔ کیا ہم میں سے کوئی یہ نہیں سوچتا۔
کسی کو تشو یش نہیں ہے کہ اپنی جان سے ز یادہ عز یز ہمارے پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں کل پانی کی
قلت کا شکار ہوں گے تو وہ ہمیں کن الفاظ میں یاد کر یں گے۔ ہم ان کے لیے گھر ۔بنگلے بناکر تو رکھ رہے
ہیں۔ لیکن انتہائی ضروری پانی کی حفاظت نہیں کررہے ۔اگر ہمارے بیٹوں بیٹیوں میں سیاسی شعور کے
ساتھ ساتھ ٓابی شعور بھی ٓاجائے تو وہ ہماری نسلوں کے منہ سے پانی کے گالس بھی چھین لیں۔
قبل از مون سون بارشیں ہورہی ہیں،پھر مون سون شروع ہوجائے گا۔ ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ الکھوں لیٹر
میٹھا پانی سڑکوں گلیوں نالوں کی نذر ہورہا ہے۔ اسی پانی کی ایک ایک بوتل ہم کتنی مہنگی خر یدتے ہیں۔
کیا ہمیں تشو یش نہیں ہوتی کہ کروڑوں رو پے بہہ رہے ہیں۔ کسی کام ٓانے کی بجائے دیوار یں گرارہے ہیں۔
ٰی ہّٰلل
چھتیں برباد ہورہی ہیں۔ کرنٹ لگنے سے ا تعال کا نائب دم توڑ رہا ہے۔
یوں تو ہم سب بڑے دانشور ہیں۔ ملک کیلئے ٓاخری امید ہیں۔ صدر مملکت کو اس بڑے نقصان پر تشو یش
ہے۔ نہ وز یر اعظم کو نہ ہی سابق وزرائے اعظم کو۔ نہ موجود ہ وز یر موسمیات کو نہ سابق وز یر موسمیات کو ۔
کالم نو یسوں کو کوئی فکر ہے نہ ہی اینکر پرسنوں کو۔ پی ٹی ٓائی کا کوئی ٹو یٹ ٓارہا ہے نہ ہی پی ڈی ایم کا۔
پانی جیسی قیمتی متاع کی قدر جنوبی افر یقہ کے کیپ ٹاؤن کے شہر یوں سے پوچھئے جہاں پانی کا راشن
مقرر کردیا گیا ہے۔ سابق وز یر اور درد مند پاکستانی نثار میمن جانتے ہیں کہ پہلے ہر پاکستانی کوکتنے لیٹر
پانی میسر تھا اور اب کیا شرح ہے۔ وہ اس پر باقاعدہ تحقیق کررہے ہیں۔
ُد
بلوچستان جہاں پانی کی قلت پر بہت کھ ظاہر کیا جاتا ہے۔ خشک اور بنجرزمینوں کی پکار سنائی دیتی
ہے۔ وہاں بھی حالیہ بارشوں کے میٹھے پانی سے تباہی مچ گئی ۔ وہاں تو کھلے عالقے ہیں۔ بڑے ذخیرٔہ
ُر
ہائےٓاب بنانے مشکل نہیں ۔ ڈیم نہیں بڑے تاالب ہی بنادیے جائیں ۔ بہتے پانی کا خ ان تاالبوں کی طرف
موڑ دیا جائے۔
بڑے ڈیم تو ہماری سیاست ،قوم پرستی اور غفلت کی نذر ہوگئے۔ ہمارےازلی دشمن بھارت نے اپنی بقا
کیلئے ان در یاؤں پر چھوٹے بڑے ڈیم بنالیے۔ یہ بھارتی قوم پرستی ہے۔ ہم ہر سنگین مسئلے کا ذمہ
دارحکومت اور فوج کو ٹھہرا کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ لیکن جتنے بڑے ڈیم ہیں وہ فوجی ٓامروں کے زمانے میں
َد
ہی تعمیر ہوئے ہیں۔ منگال ڈیم ،تربیال ڈیم ایوب خان کے ور میں۔ پھر جنرل مشرف کے عہد میں بلوچستان
میں چھوٹے ڈیم بنے۔ ابھی فوج کے سلیکٹڈ عمران خان نے بھاشا ڈیم پر کام شروع کروایا۔
ُر
کاال باغ ڈیم بناتے وقت ہم کئی عشروں سے سندھ کی رائے عامہ کا احترام کرکے ک جاتے ہیں۔ جنرل ضیا
بناسکے نہ جنرل مشرف۔ لیکن فوجی ٓامر کو اسالمی سربراہ کانفرنس کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو
پھانسی دیتے وقت سندھ کی رائے عامہ کا احترام کیوں نہیں تھا۔ محسوس یہ ہوتا ہے کہ کاال باغ ڈیم کی
تعمیر میں رکاوٹ کچھ اورعناصر ہیں۔
ماضی تو گزر گیا۔ ہمیں مستقبل کی فکر کرنا چاہئے۔ میٹھا پانی ہی زندگی ہے۔ پانی انسانوں کے زندہ رہنے
کیلئے بھی چاہئے۔ بجلی بنانے کے لیے بھی درکار ہے۔ مال مو یشی کیلئے بھی پانی ناگز یر ہے۔ صنعتیں
چالنے کیلئے بھی میٹھا پانی ضروری ہے۔ بڑے ڈیم نہیں بناسکتے۔ ان میں وقت بھی لگتا ہے۔ سرمایہ
بھی۔ چھوٹے چھوٹے ڈیم تو بنانا شروع کر یں۔ میڈیا کو بھی سوچنا چاہئے مالکان ہوں ،اینکر پرسن ،خبر یں
پڑھنے والے ،ان کو بھی پانی چاہئے۔ ان کی ٓائندہ نسلوں کو بھی۔ اس کیلئے ٓابی شعور کیوں پیدا نہیں کیا
جاتا۔
ہر پاکستانی کیلئے ٓابی شعور وقت کی للکار ہے۔ ہم نے سال گزشتہ بھی ان کالموں میں عرض کیا تھا۔ جب
50الکھ گھروں کی تعمیر زوروں پر تھی۔ ہماری تعمیراتی کمپنیاں نئے گھروں ،پالزوں ،بلندیوں کی تعمیر
کے اشتہارات دے رہی تھیں۔ اب بھی ٓارہے ہیں۔ ٓاسٹر یلیا ،کینیڈا ،امر یکہ ،چین اور ہمارے ہمسائے
بھارت میں بھی گھروں۔ بلڈنگوں ،اسکولوں کی عمارتوں میں بارش کا پانی ذخیرہ کرنے کیلئے بڑے ٹینک
الزمی کردیے گئے ہیں۔ عمارتوں کے نقشے اس کے بغیر منظور نہیں کیے جاتے۔
ہمارے ہاں بھی سرکاری اسکول ،سرکاری کالجوں ،سرکاری یونیورسٹیاں بڑے بڑے رقبوں میں بن رہی ہیں۔
بنی ہوئی ہیں۔ وہاں ٓاسانی سے بڑا رقبہ بارش کا پانی محفوظ کرنے کیلئے مختص کیا جاسکتا ہے۔ اب جو
ُر
الکھوں لیٹر پانی بآالخر گندے پانی کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور کسی کام کا نہیں رہتا۔ اس کا خ ان
ذخیروں کی طرف کیا جائے۔ ٓاسٹر یلیا وغیرہ میں بارش کے پانی کیلئے گھروں میں الگ ٹینک بنائے جاتے
ہیں۔پانی سڑک یا گلی میں جاکر ضائع ہونے کی بجائے پرنالوں اور پائپوں سے مخصوص ٹینک میں چال جاتا
ہے۔ یہ پانی گھر کے سبزہ زاروں ،گاڑ یاں ،فرش دھونے میں استعمال ہو سکتا ہے۔ اس طرح میونسپلٹی کا
فراہم کردہ پانی ہمارے پینے ،کھانا پکانے ،غسل کیلئے بچ سکتا ہے۔
بارشوں میں گھروں کی تباہی۔ پلوں کی بربادی۔ انسانوں کی ہالکتیں کیا ہمارے ذہنوں پر دستک نہیں
ٰی ہّٰلل
دیتیں کہ ہمیں ا تعال کی اس نعمت کو اپنے استعمال کیلئے محفوظ کرنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔
جنگلوں میں بھی تاالب بنائے جاسکتے ہیں۔ قدرت کی طرف سے تو یہ باران رحمت ہوتی ہے۔ مگر ہمارے
بلدیاتی اداروں،صوبائی محکموں اور وفاقی وزارتوں کی غیر ذمہ داری اسے زحمت بنادیتی ہے۔ رحمت سے
لطف اندوز ہونے کی بجائے ہم اپنے گھر اور جانیں بچانے میں وقتی طور پر مصروف ہوجاتے ہیں۔ جب موسم
گزر جاتا ہے تو پھر ہم جمہور یت ٓامر یت ،حقیقی ٓازادی ،امر یکی غالمی کی بحث میں الجھ جاتے ہیں۔
SKMCH&RC take
care of Qurbani
Open