Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 34

ALLAMA IQBAL OPEN UNIVERSITY ISLAMABAD

Course: ‫تاریخ اسالم‬

ASSIGNMENT NO:2

CORSE CODE: 1903


NAME: Najma Mubarak
ROLL NO: ca476438
REG.NO: 17PNL02069
LEVEL: BS islamic study
SEMESTER: Spring 2022
‫‪-‬سوال ‪1‬‬

‫عہد صدیقی کی فتوحات بیان کریں۔‬

‫جواب‬

‫عہد صدیقی کی فتوحات‬


‫فتنہ ارتداد فرو ہو جانے کے بعد امام ابوبکر صدیق َرضی ہللا ُ تعالیٰ عنہ ُ نے عراق اور شام کو فتح کرنے‬
‫کے لیے لشکر روانہ کیا۔ ان کے عہد خالفت میں عراق کا بیشتر حصہ اور شام کا بڑا عالقہ فتح ہو چکا‬
‫تھا‬
‫عہد صدیقی کا ملکی نظام اور فتوحات‬

‫حضرت ابوبکر صدیق کو منصب خالفت پر متمکن ہوتے ہی طرح طرح کی صعوبات مشکالت اور‬
‫خطرات کا سامنا کرنا پڑا‪ ،‬ایک طرف جھوٹے مدعیان نبوت اٹھ کھڑے ہوئے تھے‪ ،‬دوسری طرف مرتدین‬
‫اسالم کی جماعت نے علم بغاوت بلند کردیا تھا منکرین ٰ‬
‫زکوۃ کا بھی فتنہ اٹھ کھڑا تھا۔‬

‫عراق کی صورتحال‪:‬‬

‫ایرانی سلطنت انقالب حکومت وطوائف الملوکی کے باعث اپنی اگلی عظمت وشان کھوچکی تھی۔‬
‫’یزدگرد‘ شہنشاہ ایران نابالغ تھا‪ ،‬م ٓاخذبیان کرتے ہیں کہ عراق کے عربی قبائل جو ایرانی حکومت کا ظلم‬
‫وستم سہ چکے تھے ایسے موقعوں سے فائدہ اٹھانے کے متمنی تھے چنانچہ موقع پاکر نہایت زوروشور‬
‫کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے اور قبیلہ وائل کے دو سر دار ’’مثنی شیبانی‘‘ و ’’سوید عملی‘‘ نے ’واہلہ‘‬
‫کے نواح میں غارت گری شروع کردی۔ مثنی اسالم الچکے تھے انھوں نے دیکھا کہ وہ تنہا اس حکومت‬
‫سے نبرد ٓازما نہیں ہوسکتے۔ وہ خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اورباقاعدہ فوج کشی کی اجازت حاصل‬
‫کی اور اپنے قبیلہ کو لے کر ایران سرحد میں داخل ہوئے۔اس وقت تک حضرت خالد بن ولید مدعیان نبوت‬
‫ومرتدین کی بیخ کنی سے فارغ ہوچکے تھے۔ لہٰذا حضرت ابوبکر نے ان کو ایک دستہ کے ساتھ ’’مثنی‘‘‬
‫کی کمک کے لیے روانہ فرمایا۔‬

‫حضرت خالد بن ولید نے جنگ کی صورت میں بدل دی اور بانقیا‪ ،‬کسکر وغیرہ فتح کرتے ہوئے شاہا ِن‬
‫عجم کے حدود میں داخل ہوگئے۔ یہاں شاہ جاپان سے مقابلہ ہوا اوراس کو شکست سے دوچار ہونا پڑا‬
‫پھر حیرہ کے بادشاہ نعمان سے جنگ ٓازما ہوئے۔ نعمان ہزیمت اٹھاکر مدائن بھاگ گیا‪ ،‬یہاں سے خورلق‬
‫پہنچے اہل خورلق نے خراج پر مصالحت کرلی غرض اس طرح حیرہ کا پورا عالقہ فتح ہوگیا۔ ‪؎۱‬‬

‫فتح شام‪:‬‬

‫حضرت ابوبکر نے ‪۱۳‬ھ میں صحابہ کرام سے مشورہ کے بعد شام پر لشکر کشی کی اور ہر عالقہ کے‬
‫لیے الگ الگ فوج مقرر کی ۔ اس کی تفصیل اس طرح ہے۔ حضرت ابوعبیدہ حمص پر‪ ،‬یزید بن ابی‬
‫سفیان دمشق پر‪ ،‬شرجیل بن حسنہ اردن پر اور عمرو بن العاص فلسطین پر مامور ہوئے۔ مجاہدین کی‬
‫مجموعی تعداد ‪ ۲۷۰۰۰‬تھی‪ ،‬ان سرداروں کو سرحد سے نکلنے کے بعد قدم قدم پر رومی جتھے ملے‬
‫جن کو قیصر نے پہلے سے الگ الگ سردار کے مقابلہ میں متعین کردیا تھا‪ ،‬یہ دیکھ کر افسران اسالم‬
‫نے اپنی کل فوجوں کو ایک جگہ جمع کرلیا اور خلیفہ کو غنیم کی غیر معمولی کثرت کی اطالع دے کر‬
‫مزید کمک کے لیے لکھا کیوں کہ اس وقت دارالخالفت میں کوئی فوج موجود نہ تھی اس لیے حضرت‬
‫ابوبکر کو نہایت تردد ہوا۔ ٓاپ نےخالد بن ولید کو لکھا کہ عراق کی باگ ڈور مثنی کو دے کر شام کی‬
‫طرف روانہ ہوجائیں یہ فرمان پا کر حضرت خالد‪ ،‬ایک فوجی دستہ کے ساتھ شام کی طرف روانہ‬
‫ہوگئے۔ ‪؎۲‬‬

‫حضرت خالد بن ولید کو راستے میں بہت سے چھوٹے چھوٹے معرکوں سے گزرنا پڑا۔ حیرہ کے عالقہ‬
‫ٰ‬
‫کسری کی فوج سدراہ ہوئی‪ ،‬عقبہ بن ابی بالل الثمری اس فوج‬ ‫سے روانہ ہوکر عین التمر پہنچے تو وہاں‬
‫کاسپہ ساالر تھا۔ حضرت خالد نے عقبہ کو قتل کرکے اس کی فوج کو شکست دی‪ٓ ،‬اگے بڑھے توہذیل بن‬
‫عمران کی سیادت میں بنی تغلب کی ایک جماعت نے مقابلہ کیا‪ ،‬ہذیل مارا گیا اور اس کی جماعت کے‬
‫بہت سے لوگ اسیر ہوئے اور مدینہ روانہ کیے گئے۔ پھر یہاں سے انباء پہنچے اور انبار سے صحرا‬
‫طے کرکے قدمرمیں خیمہ زن ہوئے اہل قدمرنے پہلے قلعہ بندہوکر مقابلہ کیا‪ ،‬پھر مجبور ہوکر مصالحت‬
‫کرلی‪ ،‬قدمر سے گزر کر حوران ٓائے‪ ،‬یہاں سخت جنگ پیش ٓائی۔ اسے فتح کرکے شام کی اسالمی مہم‬
‫میں شامل ہوگئے اور متحدہ قوت سے بصری نحل اور اجنادین کے عالقوں کو فتح کرلیا اجنادین کی‬
‫جنگ نہایت شدید تھی ۔ لیکن فتح مسلمانوں کو نصیب ہوئی۔ اس طرح جمادی االولی ‪۱۲۳‬ھ سے اجنا‬
‫دین اسالم کے تحت ٓاگیا۔‪؎۳‬‬

‫متفرق فتوحات‪:‬‬
‫اجنادین سے بڑھ کر اسالمی فوجوں نے دمشق کا محاصرہ کیا‪ ،‬لیکن اس کے مفتوح ہونے سے پہلے ہی‬
‫خلیفہ ا ول ابوبکر نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ حضرت عثمان بن ابی العاص نے مکران اور اس کے‬
‫قرب وجوار کے عالقوں کو فتح کرکے‪ ،‬اسالمی حکومت میں شامل کیا‪ ،‬حضرت عالء بن حضری زارہ‬
‫پر مامور ہوئے۔ انھوں نے زارہ اور اس کے اطراف کو فتح کرکے مال غنیمت مدینہ روانہ فرمایا حضرت‬
‫ابوبکر نے اس میں سے مدینہ منورہ کے ہر خاص وعام ‪ ،‬مرد ‪ ،‬عورت و ٓازاد وغالم کو ایک ایک دینار‬
‫تقسیم فرمایا۔‪؎۴‬‬

‫ملکی انتظام کے اہم پہلو‬

‫حضرت ابوبکر صدیق کی زندگی اہم سیاسی‪ ،‬سماجی وفالحی کارناموں سے لبریز ہے۔ انھوں‬
‫نے الزوال خدمات انجام دیں جو تاریخی اوراق سے محو نہیں ہوسکتیں۔ خالفت کی ابتدا ٓاپ سے ہوئی۔‬
‫اہم امور مینکبار صحابہ سے مشورہ کرتے تھے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جب شام پر لشکر کشی کاخیال‬
‫ٓایا تو پہلے اس کو صحابہ کے سامنے برائے مشورہ پیش کیا۔ حضرت علی نے اپنی صائب رائے سے‬
‫نوازا۔ ‪ ؎۵‬اسی طرح منکرین ٰ‬
‫زکوۃ کے مقابلہ میں جہاد ‪ ،‬حضرت عمرکی جانشینی اور دوسرے اہم‬
‫معامالت میں صحابہ کی رائے معلوم کی ‪ ،‬ابن سعد کے مطابق جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہو تا تو ممتاز‬
‫مہاجرین وانصار جمع کیے جاتے اور ان سے رائے لی جاتی۔‬

‫’’جب کوئی امر پیش ٓاتا تھا تو حضرت ابوبکر صدیق اہل الرائے فقہاء صحابہ سے مشورہ لیتے تھے اور‬
‫مہاجرین وانصار میں چند ممتاز لوگوں یعنی عمر‪ ،‬عثمان‪ ،‬علی‪ ،‬عبدالرحمن بن عوف‪ ،‬معاذ بن جبل‪ ،‬ابی‬
‫بن کعب اور زید کو بالتے تھے۔ یہ سب حضرات ابوبکر کے عہد خالفت میں فتوے بھی دیتے تھے‘‘۔‬

‫حکومت کے لیے اہم امر ملک کاانتظام وانصرام ہوتاہے۔ حضرت ابوبکر کے عہد خالفت میں بیرونی‬
‫فتوحات کی ابتداء ہوئی اس لیے حکومت کادائرہ عرب تک محدود تھا۔ ٓاپ نے عرب کو متعدد صوبوں‪،‬‬
‫ضلعوں میں منقسم کردیا تھا۔ مدینہ‪ ،‬مکہ‪ ،‬طائف‪ ،‬صنعاء‪ ،‬نجران‪ ،‬حضرموت اور دومۃ الجندل الگ الگ‬
‫صوبے تھے۔ ‪ ؎۷‬ہر صوبہ میں ایک عامل ہوتا تھا جو اپنے فرائض انجام دیتا تھا‪ ،‬دارالخالفہ میں الگ‬
‫الگ عہدہ دار مقرر کیے جاتے تھے۔ حضرت ابوعبیدہ شام کی سپہ ساالری سے قبل افسرمال تھے ۔‬
‫حضرت عمر قضاء کے عہدہ پر فائز تھے حضرت عثمان اورحضرت زید بن ثابت دربار خالفت میں‬
‫کاتب (منشی) کے عہدہ پر متمکن رہے۔ ‪؎۸‬‬
‫صاحب طبری کا بیان ہے کہ عاملوں اور عہدہ داروں کے انتخاب میں حضرت ابوبکر نے ہمیشہ ان لوگوں‬
‫کو ترجیح دی جو عہد رسالت میں عامل یا عہدہ دار رہ چکے تھے اور ان سے انہی مقامات میں کام لیا‬
‫جہاں وہ پہلے خدمت انجام دے چکے تھے۔ عہد رسالت میں مکہ میں عتاب بن اسید‪ ،‬طائف میں عثمان‬
‫بن ابی العاص‪ ،‬صنعاء میں مہاجربن امیہ‪ ،‬حضرموت پرزیاد بن لبید اور بحرین میں عالء بن الحضرمی‬
‫مامور تھے۔ خلیفہ وقت نے مذکورہ مقامات پران ہی لوگوں کو برقرار رکھا یہ ٓاپ کی سیاسی بصیرت‪،‬‬
‫اور انتظامی صالحیت کا شاہکارہے۔ ‪ ؎۹‬جب ٓاپ کسی کو کوئی ذمہ داری سپرد فرماتے تواس کے فرائض‬
‫کی یادہانی کراتے تھے جب عمرو بن العاص اور ولید بن عقبہ کو قبیلہ قضاعہ پر محصل صدقہ بناکر‬
‫روانہ فرمایا تو حسب ذیل نصیحت فرمائی‪:‬‬

‫’’خلوت وجلوت مینخوف خدا رکھو‪ ،‬جو خدا سے ڈرتا ہے وہ اس کے لیے ایسی سبیل اور اس کے رزق‬
‫کاایسا ذریعہ پیدا کردیتا ہے جو کسی کے گمان میں نہیں ٓاسکتا جو خدا سے ڈرتا ہے وہ اس کے گناہ معاف‬
‫ٰ‬
‫تقوی ہے۔ تم خدا‬ ‫کردیتاہے۔ اور اس کا اجر دوباالکردیتا ہے۔ بے شک بندگان خدا کی خیرخواہی بہترین‬
‫کی ایک ایسی راہ میں ہو جس میں افراط وتفریط اور ایسی چیزوں سے غفلت کی گنجائش نہیں ہے جس‬
‫میں مذہب کا استحکام اور خالفت کی حفاظت مضمر ہے اس لیے سستی اور تغافل کو راہ نہ دینا‘‘۔‬

‫مذکورہ م ٓاخذ کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ٓاپ نے ملکی نظم ونسق کا کام فہم وفراست سے انجام‬
‫دیا۔ خوف خدا اوررعایا کے حقوق کا خیال رکھناضروری ہے تبھی فالحی ریاست کی بنیاد ڈالی جاسکتی‬
‫ہے۔‬

‫حکام کی نگرانی‬

‫حکومت کی کامیابی کاراز حکام کی نگرانی اور احتساب میں مضمر ہے۔ ٓائین و دستور کتنا ہی مرتب‬
‫ومنظم ہو۔ جب تک نگرانی نہ ہو نظم درست نہیں رہتا۔ حضرت ابوبکر انتہائی نرم خو تھے مگر انتظام‬
‫حکومت میں کسی مداہنت کو روانہ رکھتے تھے اگر حکام سے کوئی غیر مناسب امر سرزد ہوجاتا تو‬
‫سختی کے ساتھ احتساب کرتے۔ جنگ یمامہ میں مجاعہ حنفی مسیلمہ کا سپہ ساالر تھا۔ اس نے حضرت‬
‫خالد بن ولید کو دھوکہ دے کر مسیلمہ کی تمام قوم کو مسلمانوں سے بچالیا۔ حضرت خالد بن ولید نے اس‬
‫غداری پر اسے سزادینے کے بجائے اس کی لڑکی سے شادی کرلی‪ ،‬چونکہ اس جنگ میں بہت سے‬
‫صحابہ شہید ہوئے تھے۔ لہٰذا ابوبکر حضرت خالد بن ولید پرسخت برہم ہوئے اور لکھا‪:‬‬
‫’’تمہارے خیمہ کی طناب کے پاس مسلمانوں کاخون بہہ رہا ہے اور تم عورتوں کے ساتھ عیش وعشرت‬
‫میں مصروف ہو‘‘۔‬

‫ایک دوسرا واقعہ حضرت خالد بن ولید ہی سے متعلق ہے ۔ مالک بن نویرہ منکر ٰ‬
‫زکوۃ تھا اس کی تنبیہ‬
‫کے لیے حضرت خالد بن ولید مامور تھے۔ انھوں نے زبانی ہدایت دینے سے قبل ہی ُاسے قتل کرڈاال۔‬
‫مالک کا بھائی شاعر تھا۔ اس نے پُر درد مرثیہ لکھا اور ظاہر کیا کہ وہ تائب ہونے کے لیے تیار تھا۔‬
‫مگر خالد نے ُاسے قتل کردیا‪ ،‬اس کی خبر حضرت ابوبکر کو ہوئی تو انھوں نے خالد بن ولید کو تنبیہ‬
‫کی۔ ‪؎۱۲‬‬

‫سرحدی نظام‪:‬‬

‫جب کوئی فوج کسی مہم پر روانہ ہوتی تو اس کو مختلف دستونمیں تقسیم کرکے الگ الگ افسر مقرر‬
‫فرما تے ۔ چنانچہ شام کی جانب جب فوج روانہ ہوئی اس میں اس طریقہ پر عمل کیا گیا‪ ،‬قبائل کے افسر‬
‫اور جھنڈ ے الگ ہوتے ۔ امیر االمراء کمانڈر انچیف کا نیا عہدہ بھی خلیفہ اول کی ایجاد ہے اور سب‬
‫سے پہلے خالد بن ولید اس عہدہ پر فائز ہوئے تھے۔ ‪ ؎۱۳‬جب کسی دستہ کو روانہ فرماتے تو اس کی‬
‫تربیت کرتے تھے۔ نیز فوج کی روانگی کے وقت خود دور تک پیدل جاتے اور ان کو نصیحت فرماتے‬
‫تھے چنانچہ ایک مرتبہ ٓاپ نے فوجی دستہ کو نصیحتیں فرمائیں‪:‬‬

‫’’تم ایک ایسی قوم کو پا ٔوگے جنھوں نے اپنے ٓاپ کو خدا کی عبادت کے لیے وقف کردیا ہے‪ ،‬ان کوچھوڑ‬
‫دینا‪ ،‬میں تم کو دس باتوں کی نصیحت کرتا ہوں کسی عورت‪ ،‬بچے اور بوڑھے کوقتل نہ کرنا‪ ،‬پھل دار‬
‫درخت کو نہ کاٹنا‪ ،‬کسی ٓاباد جگہ کو ویران نہ کرنا‪ ،‬بکری اور اونٹ کھانے کے سوا ذبج نہ کرنا‪ ،‬نخلستان‬
‫نہ جانا‪ ،‬مال غنیمت میں غبن نہ کرنا اور بزدل نہ ہونا‘‘۔‬

‫ٓاپ فوجی چھا ٔونیوں کابذات خود معائنہ کرتے تھے اور کوئی خرابی نظر ٓاتی تو اصالح فرماتے تھے۔‬
‫چنانچہ ایک مرتبہ مقام جرف میں فوجیں جمع تھیں۔ حضرت ابوبکر صدیق وہاں تشریف لے گئے بنی‬
‫فزارہ کے پڑا ٔو میں پہنچے تو سب تعظیم میں کھڑے ہوگئے انھوں نے ہر ایک کو مرحبا کہا ان لوگوں‬
‫نے عرض کیا‪ ،‬یا خلیفہ ہم لوگ گھوڑوں پر خوب چڑھتے تھے اس لیے گھوڑے بھی ساتھ الئے ہیں ٓاپ‬
‫جھنڈ ہمارے ساتھ کردیجیے ‪ ،‬فرمایا خدا تمہاری ہمت وارادہ میں برکت دے‪ ،‬لیکن بڑا جھنڈ تم کو نہیں مل‬
‫سکتا کیوں کہ وہ بنو عبس کے حصہ میں ٓاچکا ہے۔ اس پر ایک فزاری نے کھڑے ہوکر کہا‪ ،‬ہم لوگ‬
‫عبس سے اچھے ہیں حضرت ابوبکر نے خاموش کردیا اس طرح فوجی چھا ٔونیوں میں جاکر قبائل کی‬
‫باہمی رقابت کا ازالہ کرتے اور اسالمی رواداری کا پیغام دیتے تھے۔ ‪ ؎۱۵‬فوج کے لیے جنگی سامان‬
‫کاانتظام بھی کرتے تھے۔ مختلف ذرائع سے جو ٓامدنی ہوتی تھی اس کا ایک حصہ جنگی سامان کی‬
‫خریداری میں صرف فرماتے ‪ ؎۱۶ ،‬اونٹ گھوڑوں کی پرورش کے لیے مقام بقیع ایک مخصوص‬
‫چراگاہ تیار کرائی تھی جس میں ہزاروں جانور پرورش پاتے تھے۔ مقام ربذہ میں بھی ایک چراگاہ تھی‬
‫جس میں صدقہ اور ٰ‬
‫زکوۃ کے جانور چرتے تھے۔ ‪ ؎۱۷‬یہ خالفت صدیقی کافوجی نظام تھا جہاں اخالقی‪،‬‬
‫ایمانی تربیت کا اہتمام تھا اور حقوق انسانی کی حفاظت کی جاتی تھی۔‬

‫مالی انتظام‬

‫عہد صدیقی میں پہلے سال ٓاپ نے ایک فرد کو دس دس درہم عطا کیے دوسرے سال جب ٓامدنی زیادہ‬
‫ہوئی تو بیس بیس درہم مرحمت فرمائے ایک شخص نے اس مساوات پر اعتراض کیا تو فرمایا کہ فضل‬
‫وبرتری اور چیز ہے اس کو رزق کی کمی بیشی سے کیا تعلق ہے۔ ‪ ؎۱۸‬لیکن اس میں کبھی کسی بڑی‬
‫رقم کے جمع ہونے کا موقع نہ ٓایا۔ اس لیے بیت المال کی حفاظت کا نظم نہیں کیاگیا۔ ایک مرتبہ کسی نے‬
‫کہا کہ یا خلیفہ ٓاپ بیت المال کی حفاظت کے لیے کوئی محافظ کیوں نہیں مقرر فرماتے؟ فرمایا اس کی‬
‫حفاظت کے لیے ایک قفل کافی ہے۔ ‪؎۱۹‬‬

‫حدود وتعزیرات‬

‫اگر گنجائش ہوتی تو حضرت ابوبکر مجرموں کے ساتھ ہمدردانہ برتا ٔو کرتے تھے چنانچہ اشعث بن قیس‬
‫جو مدعی نبوت تھا گرفتار ہوکر ٓایا اور توبہ کرکے جان بخشی کی درخواست کی تو ٓاپ نے نہ صرف‬
‫اس کو رہا کردیا بلکہ اپنی ہمشیرہ ام فردہ سے اس کا نکاح کردیا۔ ‪ ؎۲۰‬خلیفہ وقت کا پہال فرض قوم‬
‫وملت کی اخالقی نگرانی اور رعایا کے حقوق کا تحفظ ہے ۔ ٓاپ نے حضرت عبدہللا بن مسعود کو پہرہ‬
‫دار مقرر فرمایا اور بعض جرائم کی سزائیں متعین کردیں۔ مث ً‬
‫ال حد خمر کے تعلق سے حضرت ابوبکر‬
‫صدیق نے اپنے دور حکمرانی میں چالیس درے متعین فرمائے۔ ‪؎۲۱‬‬

‫ایک دفعہ مہاجربن امیہ نے جو یمامہ کے امیر تھے دوگانے والی عورتوں کو رسول کی ہجو کرنے اور‬
‫مسلمانوں کوبُرا کہنے کی سزا دی ا ور پاداش میں ہاتھ کاٹ دئیے اور دانت اکھڑوا ڈالے حضرت‬
‫ابوبکر کو معلوم ہوا تو انھوں نے اس سزا پر برہمی ظاہر فرمائی اور لکھا کہ انبیاء کا سب وشتم بڑا جرم‬
‫ہے اور اگر تم سزا میں عجلت نہ کرتے تو میں ُان کے قتل کاحکم دیتا گالی دینے سے وہ مرتد ہوگئی‬
‫الب ّتہ اگر ذمیہ تھی تو اس کے لیے معمولی تنبیہ اور تادیب کافی تھی ۔ یہ تمہاری پہلی خطا نہ ہوتی تو‬
‫تمھیں اس کاخمیازہ اٹھانا پڑتا دیکھو مثلہ سے ہمیشہ دور رہو یہ نہایت نفرت انگیز گناہ ہے ۔ ‪ ؎۲۲‬اس‬
‫سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٓاپ نے حدود وتعزیرات کا نفاذ کرتے ہوئے حقوق انسانی کا خیال رکھا خاص طور‬
‫پر غیر مسلم رعایا کے سلسلے میں زور دیا کہ ان کے حقوق پامال نہ ہوں۔‬

‫مذہبی خدمات‪:‬‬

‫ٓاپ کے زمانہ شورش اور بغاتیں وجود میں ٓائیں مگر ان کو ٓاپ نے اپنی دانش مندی سے فرو کردیا ٓاپ‬
‫ٰ‬
‫دعوی‬ ‫کے زمانہ میں بعض جھوٹے مدعیان نبوت پیدا ہوچکے تھے مسیلمہ کذاب نے تو ‪۱۰‬ھ میں نبوت کا‬
‫کیاتھا اور ٓانحضرت کو لکھا تھاکہ میں ٓاپ کے ساتھ نبوت میں شریک ہوں۔ ‪ٓ ؎۲۳‬اپ کی حیات طیبہ کے‬
‫بعد دیگر مدعیان نبوت نے سر اٹھایا۔ طلحہ بن خویلد نے نبوت کااعالن کیا اس کی حمایت پر بنو غطفان‬
‫تھے‪ ،‬اور عیینہ بن حصن فزاری ان کاسردار تھا۔ اسی طرح اسود عنسی نے یمن میں اور مسلمہ بن حبیب‬
‫ٰ‬
‫کادعوی‬ ‫نے یمامہ میننبی ہونے کے دعوے کیے۔ ایک عورت سجاع بنت حارثہ تمیمیہ نے بھی نبوت‬
‫کیانیز اشعث بن قیس اس کا داعی خاص تھا۔ سجاع نے اپنی نبوت مضبوط کرنے کے لیے مسیلمہ کذاب‬
‫سے شادی کرلی تھی۔ ان اسباب کی بنیاد پر ضروری تھا کہ اس مسموم فضاکو فوری طور پرروکا جائے‬
‫چنانچہ حضرت خالد بن ولید ‪۱۱‬ھ میں حضرت ثابت بن قیس انصاری کے ساتھ مہاجرین وانصار کی‬
‫ایک جمعیت لے کر مدعیان نبوت کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوئے۔ ‪؎۲۴‬‬

‫رسو ِل اکرمﷺ کے بعد بہت سے سرداران عرب مرتد ہوگئے تھے۔ ایک اپنے حلقہ کابادشاہ بن بیٹھاتھا۔‬
‫نعمان بن منذر نے بحرین‪ ،‬لقیط بن مالک نے عمان میں علم بغاوت بلند کیا۔ اس فتنہ کا انسداد بھی ضروری‬
‫تھا۔ چنانچہ مدعیان نبوت سے فراغت کے بعد اس فتنہ کا سرکچال گیا۔ مذکورہ گروہوں کے عالوہ ایک‬
‫اور گروہ پیدا ہوگیا تھا۔ یہ منکرین زکوۃ تھے۔ یہ گروہ اپنے ٓاپ کو مسلمان کہتا تھا اور صرف زکوۃ ادا‬
‫کرنے سے منکر تھا اس لیے اس کے خالف تلوار اٹھانے میں خود صحابہ میں اختالف رائے ہوگیا تھا۔‬
‫مگر حضرت ابوبکر صدیق ؓنے صاف کہا کہ قسم خدا کی اگر ایک بکری کا بچہ بھی جورسول‬
‫کےزمانے میں دیا جاتا تھا کوئی دینے سے انکار کرے گا تو میں اس سے جہاد کروں گا۔ اس تنبیہ کا‬
‫اثر یہ ہوا کہ تمام منکرین زکوۃ بارگاہ خالفت میں حاضر ہوئے۔ ‪؎۲۵‬‬

‫مدعیان نبوت اورمرتدین اسالم کی سرکوبی میں بہت سے حفاظ کرام شہید ہوئے۔ خصوص ًا یمامہ کی خوں‬
‫ریز جنگ میں چنانچہ حضرت عمر کو اندیشہ ہوگیا کہ اگر صحابہ کی شہادت کا یہی سلسلہ قائم رہا تو‬
‫قر ٓان مجید کی حفاظت کس طرح ہوسکے گی۔ اس لیے انھوں نے خلیفہ اول سے ایک جلد میں قر ٓان کی‬
‫جمع وترتیب کی تحریک کی۔ حضرت ابوبکرصدیق کو پہلے عذرہوا کہ جس کام کورسول نے نہیں کیا‬
‫ہے میں اس کو کس طرح کروں حضرت عمر نے کہا یہ کام اچھا ہے چنانچہ حضرت عمر کے اصرار‬
‫سے حضرت ابوبکر کے ذہن میں بھی بات ٓاگئی انھوں نے حضرت زید بن ثابت کو جو عہد نبوت میں‬
‫کاتب وحی تھے قر ٓان کے جمع کرنے کا حکم دیا پہلے ان کو بھی اس کام میں عذر ہوا‪ ،‬لیکن اس کی‬
‫مصلحت سمجھ میں ٓاگئی۔ اورنہایت کوشش کے ساتھ تمام متفرق اجزاء کو جمع کرکے ایک ِجلد کی‬
‫صورت میں مدون کیا۔ ‪؎۲۶‬‬

‫حضرت ابوبکر صدیق نے تقریب ًا پانچ سو حدیثیں جمع فرمائی تھیں لیکن وفات کے کچھ دنوں پہلے اس‬
‫خیال سے ان کو ضائع کردیا کہ شاید اس میں کوئی روایت خالف واقعہ ہو تو یہ بار میرے سر رہ جائے‬
‫گا لیکن عالمہ ذہبی نے اس خیال کی تغلیط کی ہے۔ البتہ انھوں نے احادیث کے متعلق نہایت احتیاط سے‬
‫کام لیا۔‬

‫حضرت ابوبکر نے مسائل کی تحقیق وتنقید اور عوام کی ٓاسانی کے خیال سے افتاء کا ایک محکمہ قائم‬
‫کیا۔ حضرت عمر‪ ،‬حضرت عثمان‪ ،‬حضرت علی‪ ،‬حضرف عبدالرحمن بن عوف‪ ،‬حضرت معاذ بن جبل‪،‬‬
‫حضرت ابی بن کعب‪ ،‬حضرت زید بن ثابت جیسے اہم فقیہہ ومجتہد اس خدمت پر مامور تھے۔ ‪؎۲۸‬‬
‫حضرت ابوبکر نے اسالم کی دعوت و تبلیغ پر توجہ کی اور عرب کا بیش تر عالقہ حلقہ اسالم مینداخل‬
‫کرلیا ۔‬

‫حوالے وحواشی‬

‫یعقوبی‪ ،‬ج‪ ،۲:‬ص‪۴۷ :‬‬ ‫‪؎۱‬‬

‫ماخذ کے مطابق اس وقت کے حاالت یہ تھے کہ جزیرہ نمائے عرب کی سرحد دنیا کے دو عظیم‬
‫سلطنتوں سے ٹکراتی تھی۔ ایک طرف شام پر رومی اثر تھا‪ ،‬تو عراق پر کیانی خاندان کاتسلط‬
‫تھا‪ ،‬ان دونوں ہمسایہ سلطنتوں نے ہمیشہ کوشش کی کہ عرب کے ٓازاد جنگجو باشندوں پر اپنی‬
‫حکمرانی کا سکہ جمائیں‪ ،‬خصوص ًا ایرانی سلطنت نے اس مقصد کے لیے بارہا اہم قربانیاں پیش‬
‫کی۔ بڑی بڑی فوجیں اس مہم کو سر کرنے کے لیے بھیجیں اور بعض اوقات اس نے عرب کے‬
‫ایک وسیع خطہ پر تسلط بھی کرلیا۔ چنانچہ شاپور بن اردشیر جو سلطنت ساسانیہ کادوسرا فرمان‬
‫روا تھا اس کے عہد حجاز ویمن دونوں باجگداز ہوگئے تھے اسی طرح ساپور ذی االکناف یمن‬
‫وحجاز کو فتح کرتا ہوا مدینہ منورہ تک پہنچ گیاتھا۔ یہ عربوں کا حد درجہ دشمن تھا جو روسائے‬
‫عرب گرفتار ہوکر جاتے تھے وہ ان کے شانے اکھاڑ ڈالتاتھا اسی وجہ سے یہ دو االکتاف (شانوں‬
‫والے) کے لقب سے مشہور ہوا (تاریخ الطوال ‪)۴۹‬‬

‫فتح‬ ‫تذکرہ‬ ‫ج‪،۳‬‬ ‫الملوک‪،‬‬ ‫الرسول‬ ‫تاریخ‬ ‫‪؎۲‬‬


‫یعقوبی‪ ،‬ج‪،۲:‬ص‪۱۵۱‬‬ ‫‪؎۳‬‬ ‫الشام‬

‫ایض ًا‬ ‫‪؎۴‬‬

‫ابن سعد‬ ‫‪؎۵‬‬

‫ج‪،۲:‬‬ ‫ایض ًا‪،‬‬ ‫‪؎۶‬‬


‫‪؎۷‬‬ ‫ص‪۱۰۹:‬‬
‫ایض ًا‪،‬‬

‫الرسول‬ ‫تاریخ‬ ‫‪؎۸‬‬


‫والملوک‬
‫ایض ًا‪،‬‬ ‫‪؎۹‬‬

‫ایض ًا‪،‬‬ ‫‪؎۱۰‬‬


‫‪؎۱۱‬‬ ‫ج‪،۳‬ص‪۴۲۷‬‬
‫مسند احمد‬

‫یعقوبی‪،‬‬ ‫‪؎۱۲‬‬
‫‪۱۳‬‬ ‫ج‪۱۴۸ ،۲:‬‬
‫ایض ًا‪ ،‬ص‪۱۴۹ :‬‬ ‫؎‬

‫البلدان‪،‬‬ ‫فتوح‬ ‫‪؎۱۴‬‬


‫‪؎۱۵‬‬ ‫ص‪۱۱۵‬‬
‫العمال‪،‬‬ ‫کنزل‬ ‫‪؎۱۶‬‬
‫کتاب‬ ‫‪؎۱۷‬‬ ‫ج‪،۳:‬ص‪۱۳۲:‬‬
‫الخراج‪ ،‬ص‪۱۲:‬‬

‫العمال‪،‬‬ ‫کنزل‬ ‫‪؎۱۸‬‬


‫طبقات ابن سعد‪ ،‬ج‪،۳:‬ص‪۱۵۱ :‬‬ ‫‪؎۱۹‬‬ ‫ج‪،۳:‬ص‪۱۳۲:‬‬

‫ایض ًا‪،‬‬ ‫‪؎۲۰‬‬


‫الترغیب والترہیب‪ ،‬ج‪،۳:‬ص‪۱۱۶ :‬‬ ‫‪؎۲۱‬‬

‫حنبل‪،‬‬ ‫ابن‬ ‫مسند‬ ‫‪؎۲۲‬‬


‫تاریخ الخلفاء‪ ،‬ص‪۹۶:‬‬ ‫‪؎۲۳‬‬ ‫ج‪،۱:‬ص‪۴:‬‬

‫‪؎۲۴‬حضور نے اسے جواب دیا تھا‪:‬‬

‫محمد کی طرف سے مسیلمہ کذاب کو اما بعد دنیا خدا کی ہے وہ‬


‫اپنے بندوں میں سے جس کو چاہے گا اس کا وارث بنائے گا اور انجام پرہیزگاروں کے لیے ہے۔ ابن‬
‫ہشام‪ ،‬السیرۃ النبویۃ‪ ،‬ج‪،۱‬ص‪۶۰۱‬‬

‫‪؎۲۵‬ایض ًا‪ ،‬اور حضرت خالد بن ولید نے سب سے پہلے طلیحہ کی جمایت پر حملہ کرکے اس کے متبعین‬
‫کو قتل کیا اور عیینہ بن حصن کو گرفتار تیس قیدیوں کے ساتھ مدینہ روانہ کیا اور عیینہ بن حصن نے‬
‫مدینہ پہنچ کر اسالم قبول کرلیا لیکن طلیحہ شام کی طرف بھاگ گیا اور وہاں سے خودخواہی کے طور‬
‫پر دو شعر لکھ کر بھیجے اور تجدید اسالم کرکے اسالم میں داخل ہوگیا۔ (تاریخ یعقوبی‪ ،‬ج‪،۳:‬ص‪)۱۲۵ :‬‬

‫اس طرح مسیلمہ کذاب کی بیخ کنی کے لیے حضرت شرحبیل بن‬
‫حسنہ روانہ کیے گئے‪ ،‬لیکن قبل اس کے کہ وہ حملہ کی ابتدا کریں حضرت خالد بن ولید کو ان کی اعانت‬
‫کے لیے روانہ کیا گیا‪ ،‬چنانچہ انھوں نے مجاعہ کو شکست دی اس کے بعد خود مسیلمہ سے مقابلہ ہوا‬
‫مسیلمہ نے اپنے متبعین کو ساتھ لے کر نہایت شدید جنگ کی اور مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس‬
‫میں شہید ہوئی جس میں بہت سارے حفاظ قر ٓان تھے۔ البتہ ٓاخری فتح مسلمانوں کے ہاتھ رہی اور مسیلمہ‬
‫کذاب حضرت وحشی کے ہاتھ سے مارا گیا‪ ،‬مسیلمہ کی بیوی سجاح خود مدعی نبوت تھی بھاگ کر بصرہ‬
‫پہنچی اور کچھ دنوں کے بعد مرگئی ‪ ،‬ایض ًا‪)۱۴۷ ،‬‬
‫اسود عنسیٰ جو نبوت کا دعویدار تھا حضرت ابوبکر کے زمانہ میں‬
‫اس کی قوت زیادہ بڑھ گئی تھی اس کو قیس بن مکشوح اور فیروز دیلمی نے نشہ کی حالت میں واصل‬
‫جہنم کیا۔ طبری‪ ،‬ج‪ ،۲‬تذکرہ‬

‫طبری‪ ،‬ج‪ ،۲‬ص‪۳۰۶:‬‬ ‫‪؎۲۶‬‬

‫صحیح البخاری‪ ،‬کتاب ابواب فضائل القر ٓان۔ یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری‬ ‫‪؎۲۷‬‬
‫ہے کہ قر ٓان شریف کی ٓایتیں نازل ہونے پر کاتب ُان کو‪ ،‬ہڈی‪ ،‬چمڑے‪ ،‬پتھر یا کسی قسم کے کاغذ پر لکھ‬
‫لیتے تھے۔ اور محمد کی ہدایت کے مطابق ترتیب دیتے تھے اور ٓانحضرت الگ الگ لکھواتے جاتے‬
‫غرض اس طرح ٓاپ کے زمانہ میں سورتیں مدون ومرتب ہوچکی تھیں اور ان کے نام بھی قرار پاچکے‬
‫تھے۔ حدیثوں میں ذکر ٓاتا ہے کہ محمد نے نماز میں فالنفالں سورتیں پڑھیں۔ یا فالں سورت سے فالں‬
‫تک تالوت فرمائی‪ ،‬ماخذ میں ہے کہ ٓاپ نے سورہ بقرہ‪ٓ ،‬ال عمراں اور نساء پڑھی‪ ،‬سورہ فاتحہ اور سورہ‬
‫اخالص کے ذکر سے توشاید حدیث کی کوئی کتاب خالی نہ ہوگی۔‬

‫حضرت ابوبکر ؓکے زمانہ میں حضرت زید نے قر ٓان شریف‬


‫کے متفرق اجزاء کو جمع کرکے ایک ِجلد کی صورت میں جمع کردیا تھا۔‬

‫‪-‬سوال ‪2‬‬

‫عہد فاروقی کے نظام سلطنت پر روشنی ڈالیں ۔‬

‫جواب‬

‫حضرت عمر فاروق ِ اعظم رضی ہللا عنہ تاریخ اسالم کی ایسی شخصیت ہیں جن کا دور ِ خالفت قیامت‬
‫تک کے ٓانے والے حکمرانوں کے لیے مشع ِل راہ ہے۔ ٓاپ نے اپنی سیاسی بصیرت سے اسالمی سلطنت‬
‫کو وسعت دے کر تقریب ًا ‪ ۲۳‬الکھ مربع میل تک پھیالیا۔ ٓاپ رضی ہللا عنہ نے دس سالہ عہ ِد خالفت میں‬
‫بڑی بڑی سلطنتوں کو اپنے زیر ِ نگیں کیا۔ تاریخ کے نامور فاتح سکندر ِ اعظم‪ ،‬چنگیز خان اور تیمور‬
‫لنگ کے ناموں سے کون واقف نہیں۔ انہوں نے بھی بڑی بڑی فتوحات کیں‪ ،‬کئی ممالک کو زیر ِ نگیں‬
‫کیا۔ مگر جب وہ فتوحات سے فارغ ہوتے تو جگہ جگہ انسانی الشیں‪ ،‬کھوپڑیوں کے پہاڑ‪ ،‬خون کی‬
‫ندیاں‪ ،‬ہر جگہ ویرانی نظر ٓاتی۔ وہ جہاں سے گزرتے اسے ویران کردیتے۔ مگر حضرت عمر فاروق‬
‫رضی ہللا عنہ کے عہ ِد خالفت میں خون کا ایک قطرہ بھی نہیں گرپایا۔ ایران و روم جیسی سپر پاور‬
‫سلطنتیں جس انداز اور احتیاط سے فتح ہوئیں کہ بڑے بڑے تاریخ دان ظلم و ستم کی ایک مثال بھی پیش‬
‫نہ کرسکے۔ فتوحات سے بڑھ کر ٓاپ نے نظام حکومت کو منظم کیا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ٓاپ کے‬
‫دور میں حکومت اور سلطنت کا باقاعدہ نظام شروع ہوا۔ ٓاپ نے نظام حکومت کو چالنے کے لیے متعدد‬
‫محکمے اور انتظامی شعبہ جات قائم کیے اور ان سب سے نگران مقرر فرمائے۔ ٓاپ نگران مقرر کرنے‬
‫‪:‬کے بعد ان کا احتساب بھی کیاکرتے تھے۔ ٓاپ کے عہد خالفت کا انتظامی ڈھانچہ مندرجہ ذیل ہیں‬

‫‪:‬نظام عدل‬

‫ٓاپ نے عدل و انصاف کا ایسانظام قائم کیا کہ تاریخ اتنی وسیع و عریض سلطنت میں ظلم و زیادتی کی‬
‫ایک مثال بھی پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ٓاپ کے دور کا نمایاں وصف عد ل وانصاف ہے۔ ٓاپ کے دور ِ‬
‫حکومت میں انصاف سے کبھی بھی سر ِ مو انحراف نہیں ہوا۔ یہ انصاف صرف مسلمانوں تک محدود‬
‫نہیں تھابلکہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی انصاف روا رکھاجاتا تھا۔ یعنی نظام عدل میں مسلم او رغیر‬
‫مسلم کا کوئی فرق نہیں تھا۔ ٓاپ کے ایوا ِن عدل میں اعلیٰ و ادنی‪ ،‬امیر و غریب‪ٓ ،‬اقا وغالم‪ ،‬خویش و‬
‫بیگانہ سب برابر تھے۔ جو بھی ظالم ثابت ہوتا‪ ،‬اسے سزا دی جاتی۔ اسی نظام سے متاثر ہوکر غیر مسلم‬
‫حلقہ بگوش اسالم ہوتے۔‬

‫‪:‬نظام قضاء‬

‫حضرت عمر فاروق رضی ہللا عنہ قضاۃ کے معاملے میں بڑی احتیاط سے کام لیتے تھے۔ ٓاپ اس‬
‫ٰ‬
‫تقوی‪ ،‬ذہانت اور قوت فیصلہ مسلم‬ ‫منصب کے لیے انہی بزرگوں کا انتخاب فرماتے تھے جن کا علم‬
‫تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ٓاپ کے عہد میں نظام انصاف بے مثال تھا۔ ٓاپ نے انسداد رشوت کے لیے‬
‫قاضیوں کی بیش بہا تنخواہیں مقرر کیں۔ یہ قاعدہ مقرر کیا کہ دولت مند اور معزز شخص کے عالوہ‬
‫معمولی ٓادمی قاضی نہیں ہوسکتا اور اس کی وجہ یہ ظاہر کی کہ دولت مند رشوت کی طرف ر ٖاغب نہ‬
‫ہوگا اور معزز شخص فیصلہ کرنے میں کسی کے رعب سے متاثر نہیں ہوگا۔ (تاریخ اسالم‪ ،‬ص ‪)۱۷۲‬‬
‫حضرت عمر فاروق رضی ہللا عنہ کا یہ طرز ِ عمل رہتی دنیا تک کے لیے عظیم مشع ِل راہ ہے کہ‬
‫قاضی (جج) کو کسی کے بھی زیر ِ اثر نہیں ہونا چاہیے اور تمام تر شہادتوں کو پیش ِ نظر رکھتے ہوئے‬
‫بغیر کسی شخص کے دبا ٔو میں ٓاکر فیصلہ کرنا چا ہیے۔‬

‫‪:‬نظام احتساب‬

‫ٓاپ نے احتساب کا سخت نظام قائم کیا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ اپنے گھر والوں کا بھی سخت احتساب فرمایا‬
‫کرتے تھے۔ کتب تاریخ میں ایسے کئی واقعات ہیں جن میں ٓاپ نے اپنے بیٹے‪ ،‬بیٹی اور زوجہ کا‬
‫احتساب کیا اور انہیں تنبیہ کی۔ ٓاپ بطور ِ احتیاط بعض اوقات ایسے کاموں سے بھی اپنے گھروالوں کو‬
‫منع کرتے تھے جو فی نفسہ جائز اور مباح ہوتے تھے۔‬

‫‪:‬پولیس کا محکمہ‬

‫ٓاپ نے پولیس کا باقاعدہ اور مستقل محکمہ قائم کیا تاکہ امن وامان کے قیام کو یقنی بنایا جاسکے اور‬
‫شہریوں کے جان و مال کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ لوگوں کے مختلف معامالت پر نظر رکھنے کے‬
‫لیے ٓاپ نے مختلف پولیس افسروں کومقرر کررکھاتھا۔ اس محکمہ کا کام امن و امان کے قیام کے ساتھ‬
‫ساتھ معموالتِ زندگی میں غیر قانونی اور غیر اسالمی افعال سے روکنا بھی تھا۔‬
‫‪:‬جیل خانے‬

‫ٓاپ نے جیل خانے قائم کیے جن میں مختلف جرائم پیشہ لوگوں کو قید کیا جاتا تھا۔ ٓاپ نے سب سے‬
‫پہلے مکہ میں چار ہزار درہم کے عوض صفوان بن امیہ کا گھر خرید کر اسے جیل خانہ بنایا۔ اس کے‬
‫عالوہ دیگر اضالع میں بھی جیل خانے بنائے۔‬

‫‪:‬محکمہ ٔ ٓابپاشی‬

‫ٓاپ نے زراعت کی سیرابی اور رعایا کی ضرورت کے لیے متعدد نہریں کھدوائیں۔ ٓاپ نے ٓابپاشی کا‬
‫وسیع محکمہ قائم کیا۔ مقریزی کے بیان کے مطابق خاص مصر میں ایک الکھ بیس ہزار مزدور حکومت‬
‫کی جانب سے اس کام میں لگے رہتے تھے۔ (تاریخ اسال م‪ ،‬ص ‪)۱۷۵‬‬

‫‪:‬بیت المال کا قیام‬

‫ٓاپ نے بیت المال کے نظام کو وسعت دی۔ تمام صوبوں اور مرکزی مقامات میں بیت المال قائم کیے اور‬
‫ان کے لیے وسیع عمارتیں بنوائیں اور دیانتدار افسران کا تقرر کیا۔ حضرت عبدہللا بن ارقم رضی ہللا‬
‫عنہ پہلے وزیر ِ خزا نہ مقرر کیے گئے۔‬
‫‪:‬نظام تعلیم‬

‫ٓاپ نے تمام مفتوحہ عالقوں میں قر ٓان پاک کی درس و تدریس کا معاملہ شروع کروایا۔ اس کے لیے ٓاپ‬
‫نے قر ٓان سکھانے والے معلمین کو مقرر فرمایا جو لوگوں کو قر ٓان کی تعلیم دیتے تھے۔ ٓاپ کے عہد‬
‫میں قر ٓان کی تعلیم الزمی تھی۔ ٓاپ نے حضرت ابوسفیان رضی ہللا عنہ کو چند ٓادمیوں کے ساتھ روانہ‬
‫فرمایا کہ وہ قبائل مینجاکر ہر شخص کا امتحان لیں اور جسے قر ٓان کا کوئی حصہ یاد نہ ہو‪ ،‬اسے‬
‫سزادیں۔ ٓاپ نے اس کا نصاب بھی مقرر فرمایا‪ ،‬ایک روایت کے مطابق سورۃ البقرۃ‪ ،‬سورۃ النساء‪،‬‬
‫سورۃ المائدۃ‪ ،‬سورۃ الحج کو یاد کرنا ضروری قرار دیا۔ (تاریخ اسالم‪ ،‬ص ‪)۱۷۹‬‬

‫الغرض دور ِ فاروقی تاریخ ِ اسالم کا ایک عظیم اور مثالی دور گزرا ہے جس میں اسالمی ریاست کے‬
‫انتظام و انصرام کے درست تصور کی عملی تصویر پیش کی گئی۔ اتنی بڑی سلطنت کے حاکم ہونے‬
‫کے باجود سادگی‪ ،‬عاجزی اور انکساری ٓاپ کا خاصہ تھی۔ ٓاپ کے پیش ِ نظر خدمت خلق کا جذبہ تھا۔‬
‫ٓاپ نے رعایا کی خبر گیری کو الزم رکھا اور ٓاپ نے عوام کے لیے اپنا دروازہ کھال رکھنے کی پالیسی‬
‫اپنا رکھی تھی‪ ،‬نیز اپنے گورنروں اور دیگر اہلکارو ں کو ہدایت دے رکھی تھی کہ عوام پر اپنے‬
‫دروازے ہمیشہ کھلے رکھیں او ر مظلوموں کی داد رسی کریں۔یہی وجہ ہے کہ عدل و انصاف اور‬
‫رعایاکی خبر گیری میں ٓاج بھی دور ِ فاروقی کوبطور ِ مثال پیش کیاجاتا ہے۔‬

‫سوال ‪ -3‬خالفت عثمان غنی کے عہد کی فتوحات بیان کر میں ۔‬

‫جواب‬

‫ان کے عہد خالفت میں جمع قرآن مکمل ہوا‪ ،‬مسجد حرام اور مسجد نبوی کی توسیع ہوئی اور قفقاز‪،‬‬
‫خراسان‪ ،‬کرمان‪ ،‬سیستان‪ ،‬افریقیہ اور قبرص فتح ہو کر سلطنت اسالمی میں شامل ہوئے۔ نیز انھوں نے‬
‫اسالمی ممالک کے ساحلوں کو بازنطینیوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اولین مسلم بحری‬
‫فوج بھی بنائی‬
‫عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف قریشی اموی ہیں۔ ان کا نسب اور‬
‫رسول ہللا ﷺ کا نسب عبد مناف میں مل جاتا ہے۔ ان کی کنیت ابو عبد ہللا تھی اور بعض لوگوں نے ابو‬
‫عمرو بیان کی ہے اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ پہلے ان کی کنیت ابو عمرو تھی ‪ ،‬پھر ان کی کنیت ابو‬
‫ٰ‬
‫اروی بنت کریز بن‬ ‫عبد ہللا ہو گئی جن کی والدہ رقیہ بنت رسول ہللا ﷺ تھیں۔ عثمان بن عفان کی والدہ‬
‫ٰ‬
‫اروی کی والدہ بیضاء‬ ‫ربیعہ بن حبیب بن عبد شمس جو عبد ہللا بن عامر کی پھوپھی زاد بہن تھیں اور‬
‫بنت عبد المطلب تھیں جو رسول کریم ﷺ کی پھوپھی تھیں۔ ذو النورین آپ کا لقب تھا۔ ( اسد الغابہ از‬
‫الشیخ م ٔورخ عز الدین بن االثیر ابی الحسن علی بن محمد الجزری)‬
‫‪ :-‬عثمان غنی رضی ہللا عنہ کی والدت سے متعلق عالمہ الشیخ سیّد الشبلنجی المدعو بم ٔومن لکھتے ہیں‬
‫ُولد عثمان بالطائف بالستۃ السادسۃ من عام الفیل۔”(کتاب نور االبصار فی مناقب آل بیت النبی المختار )"‬
‫” یعنی ‪" :‬عثمان غنی طائف میں عام الفیل کے چھٹے سال پیدا ہوئے۔‬
‫بنو امیہ کا خاندان زمانہ جاہلیت سے ہی معزز چال آتا تھا۔ جمیع قریش میں بنی ہاشم کے سوا کوئی ان کا‬
‫ہمسر نہیں تھا۔ آپ کا خاندان امیہ بن عبد شمس کے نام سے منسوب ہو کر اموی کہالتا تھا۔‬
‫قبو ِل اسالم‬
‫عثمان غنی رضی ہللا عنہ نے بچپن میں ہی پڑھنا لکھنا سیکھ لیا تھا جب جوان ہوئے تو تجارت شروع‬
‫فرما دی اور دیانت و راستی اور معاملہ فہمی کی بنا پر جلد شہرت حاصل ہو گئی اور مال و دولت کی‬
‫فراوانی کے باعث آپ غنی کے نام سے مشہور ہوئے۔ عثمان غنی کے سیدنا ابوبکرسے گہرے دوستانہ‬
‫تعلقات تھے ۔ جب سیدنا ابوبکر اسالم الئے تو انہوں نے اپنے دوست و احباب میں اسالم کا تذکرہ کیا ‪،‬‬
‫چنانچہ جن نیک دل و مخلص لوگوں نے اسالم قبول کیا ان میں سیدنا عثمان غنی بھی تھے۔ اس بارے‬
‫‪ :-‬میں عالمہ شیخ سید الشبلنجی مذکور لکھتے ہیں‬
‫وکان اسالمہ علیٰ ید ابی بکر۔”(نور االبصار)"‬
‫”یعنی ‪" :‬انہوں نے سیدنا ابوبکر کے ہاتھوں اسالم قبول کیا۔‬
‫سیدنا عثمان غنی کی سیرت و کردار امت مسلمہ کے لیے ایک مثالی اور عظیم تاریخی باب ہے۔ جنہوں‬
‫نے اپنے گہرے دوست سیدنا ابوبکر کے ذریعے نبی کریم ﷺ کے ہاتھ پر بیعت اسالم کی ۔ یہ آپ کی‬
‫دیانت داری اور نیک نیتی کا واضح ثبوت ہے کہ آپ نے اپنے خاندانی دبا ٔو کے قطع نظر اسالم کی‬
‫حقانیت قبول کرلی۔ آپ کے اموی خاندان کے بڑے بڑے سردار عقبہ بن معیط اور ابو سفیان وغیرہ کی‬
‫مخالفت کے باوجود دین اسالم پر استقامت اختیار رکھی اور ایمان و علم و حلم اور اخالق و کردار کے‬
‫لحاظ سے انتہائی عظیم ثابت ہوئے ۔ آپ کا شمار سابقین اولین ‪ ،‬عشرہ مبشرہ اور خلفاء راشدین میں ہوتا‬
‫ہے۔‬
‫دور ِ خالفت‬
‫سیدنا عمر فاروق کی شہادت کے بعد مخالفین اسالم نے یہ خیال پیدا کیاکہ ممکن ہے کہ اب اسالمی‬
‫خالفت و حکومت برقرار نہ رہ سکے۔ اس حوالے سے شہادت فاروق اعظم کے فور ًا بعد بعض مفتوحہ‬
‫عالقے‪ ،‬خاص طور پر ایران کے اکثر عالقوں میں بد نظمی اور بغاوتیں شروع ہونے لگیں۔ لیکن امیر‬
‫المومنین سیدنا عثمان غنی نے اپنی حکمت و دانائی سے ان پر قابو پا لیا۔ آپ سیدنا عمر فاروق کی‬
‫شہادت کے بعد مشاورت اور متفقہ رائے سے خلیفۃ المسلمین منتخب ہوئے تھے۔ عظیم م ٔورخ ابو عبد ہللا‬
‫محمد بن سعد بن منیع الزہری لکھتے ہیں سب سے پہلے جس نے سیدنا عثمان غنی سے بیعت کی وہ‬
‫عبد الرحمٰ ن ہیں پھر علی بن ابی طالب دوسری روایت عبد ہللا بن سنان االسدی سے مروی ہے کہ جب‬
‫عثمان غنی خلیفہ بنائے گئے تو عبد ہللا بن مسعود نے کہا کہ ہم نے سب سے برتر صاحب نصیب سے‬
‫کوتاہی نہیں کی۔ (طبقات ابن سعد) یہ بھی روایت ہے کہ سیدنا علی المرتضینے امیر المومنین سیدنا‬
‫عثمان غنیکی سب سے پہلے بیعت کی اس کے بعد پے در پے لوگ آئے اور بیعت کرنے لگے۔(حوالہ‬
‫مذکور)‬
‫خالفتِ عثمانی کے آغاز میں عاملین‬
‫موالنا ابو القاسم رفیق دالوری لکھتے ہیں خالفت عثمانی کے آغاز میں امیر المومنین کے عامل یہ تھے۔‬
‫مقام عمل‬
‫نام عامل‬
‫مکہ معظمہ‬
‫نافع بن عبد الحارث الخزاعی‬
‫طائف‬
‫سفیان بن عبد ہللا ثقفی‬
‫صنعاء‬
‫یعلیٰ بن امیہ‬
‫جند‬
‫عبد ہللا بن ربیعہ‬
‫کوفہ‬
‫مغیرہ بن شیبہ‬
‫بصرہ‬
‫ابو موسیٰ اشعری‬
‫مصر‬
‫عمرو بن العاص‬
‫حمص‬
‫عمیر بن سعد‬
‫شام‬
‫معاویہ بن ابی سفیان‬
‫بحرین و توابع‬
‫عثمان بن ابی العاص ثقفی‬
‫قضائے کوفہ‬
‫شریح‬
‫قضائے بصرہ‬
‫کعب بن سور‬
‫)سیرت ذو النورین بحوالہ ابن اثیر(‬
‫سیدنا عمر فاروق اپنے دور ِ خالفت میں ملکی نظم و نسق اور طریقہ خالفت و حکومت کا ایک مستحکم‬
‫و مربوط اور مضبوط دستور العمل بنا چکے تھے جس کے باعث امیر المومنین سیدنا عثمان غنی کے‬
‫لیے معاملہ سہل و آسان اور ساف نظر آ رہا تھا۔ انہوں نے خلیفہ اول ابوبکر صدیقکی اعتدال پسندی اور‬
‫خلیفہ ثانی سیدنا عمر فاروق کے تدبر و تفکر اور حکمت عملی کو اپنا شعار بنایا۔ تقریب ًا ایک سال تک‬
‫سابقہ نظام میں کوئی تبدیلی مناسب نہیں سمجھی۔ تاہم خلیفہ ثانی کی وصیت کو مد نظر رکھتے ہوئے‬
‫مغیرہ بن شیبہ کو ہٹا کر ان کی جگہ سیدنا سعد بن ابی وقاص کو کوفہ کا والی مقرر کیا۔ عالمہ شیخ‬
‫– ‪:‬جالل الدین عبد الرحمٰ ن بن ابی بکر السیوطی لکھتے ہیں‬
‫وفي ھذہ السنة من خالفته فتحت الري‪ ،‬وكانت فتحت وانتقضت‪ ،‬وفیھا أصاب الناس رعاف كثیر‪ ،‬فقیل "‬
‫لھا‪ :‬سنة الرعاف‪ ،‬وأصاب عثمان رعاف حتى تخلف عن الحج وأوصى‪ ،‬وفیھا فتح من الروم حصون كثیرۃ‪،‬‬
‫وفیھا ولى عثمان الكوفة سعد بن أبي وقاص وعزل المغیرۃ۔”( تاریخ الخلفاء )‬
‫یعنی ‪ :‬جس سال سیدنا عثمان غنی خلیفہ منتخب ہوئے تو اسی سال ملک َرے فتح ہوا اور اسی سال‬
‫لوگوں میں نکسیر کا مرض پھیل گیا یہاں تک کہ سیدنا عثمان غنی بھی اس مرض میں مبتال ہوگئے اور‬
‫حج کرنے کا ارادہ تھا لیکن اس کے باعث ارادہ ترک کر دیا۔ اور مرض کی صورت حال کو مد نظر‬
‫رکھتے ہوئے آپ نے وصیتیں بھی شروع فرما دیں اور اسی مرض کی وجہ سے اس سال کا نام بھی‬
‫سنۃ الرعاف یعنی نکسیر کا سال رکھا گیا۔ اس سال ملک روم کے اکثر حصے فتح ہو چکے تھے اور‬
‫سیدنا عثمان غنی نے اسی سال مغیرہ کو کوفہ سے معزول کر کے سیدنا سعد بن ابی وقاص کو ان کی‬
‫جگہ حاکم و گورنر مقرر کر دیا۔‬
‫فتوحاتِ عثمانی‬
‫جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ امیر المومنین سیدنا عمر فاروق کی شہادت کے بعد مخالفین اسالم نے‬
‫یہ سمجھنا شروع کردیا تھا کہ اب مسلمان کمزور ہو چکے ہیں۔ کیونکہ سیدنا فاروق ِ اعظم ایک حیرت‬
‫انگیز مدبر و مفکر اور معاملہ فہم تھے۔ مزید یہ کہ ان کے دور میں جمیع مسلمان رشتہ وحدت میں‬
‫منسلک تھے۔ انہوں نے وحدت عقیدہ‪ ،‬وحدت جنس و قوم اور وحدت زبان و بیان کے ذریعے تمام اہل‬
‫اسالم کو مستحکم و مربوط اور متحد بنا دیا تھا۔ اور فاروق اعظم نے خالفت و حکومت کے وہ آئین و‬
‫قانون وضع کیے جو بعد میں ایک مثالی حکومت کی اساس قرار پائے۔ اس لحاظ سے سیدنا عمر فاروق‬
‫کو اسالم کے سیاسی نظام کا بانی قرار دیا جا سکتا ہے۔‬
‫جب سیدنا عثمان غنی خلیفۃ المسلمین منتخب ہوئے تو شر پسند عناصر نے آپ کے خالف سازشیں اور‬
‫بغاوتیں شروع کر دیں خصوص ًا ایران کے اکثر عالقوں میں شدید مخالفت شروع ہوئی‪ ،‬اور خلیفہ ثالث‬
‫کے بارے میں لوگوں کی عقول و اذہان میں یہ خیال پیدا کیا گیا کہ خالفتِ عثمانی فتنہ و فساد کا دور‬
‫ثابت ہوگا۔ جو مخالفین کا ایک بڑا مغالطہ تھا۔ خلفا ِء اربعہ میں سب سے زیادہ طویل دور ِ خالفت سیدنا‬
‫عثمان غنی کا دور ِ مسعود ہے۔ امیر المومنین سیدنا عثمان غنی کا دور ِ خالفت عرصہ تقریب ًا بارہ سال رہا‬
‫ان کے دور ِ خالفت میں کئی فتوحات ہوئیں اور مجاہدی ِن اسالم اپنی جرأت و ہمت اور جذبے سے آگے‬
‫بڑھتے گئے اور فتوحات کا دائرہ بھی وسیع سے وسیع تر ہوتا چال گیا۔‬
‫امیر المومنین سیدنا عثمان غنی اگرچہ حلیم الطبع تھے لیکن ملکی معامالت میں سختی و احتساب اور‬
‫سنجیدگی کو اپنا شعار بنایا۔ اطراف ملک کے حاالت لوگوں سے دریافت کرتے اور ان کے حاالت غور‬
‫و فکر سے سماعت فرماتے ‪ ،‬تمام ملک میں اعال ِن عام تھا کہ جس شخص کو کسی عامل و گورنر سے‬
‫کوئی شکایت ہو تو وہ حج کے موقعہ پر آ کر بیان کرے۔‬
‫فتح َرے‬
‫پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ خالفت عثمانی کے سا ِل اول میں ملک َرے فتح ہوا اور اسی کو امام سیوطی‬
‫نے اپنی کتاب تاریخ الخلفاء میں بیان کیا ہے۔‬
‫ڈاکٹر غالم جیالنی برق "معجم البلدان” کی تلخیص میں لکھتے ہیں‪َ :‬رے ‪ :‬طہران کے جنوب مشرق‬
‫میں ایک اہم شہر ہے ‪ ،‬جو امام فخر الدین رازی‪ ،‬ابوبکر الرازی اور دیگر متعدد حکماء و علماء کا مولد‬
‫تھا۔ بعض نے لکھا ہے کہ یہ عالقہ دریائے جیحون کے ساحل پر بخارا کے سامنے واقع ہے۔ و ہللا اعلم‬
‫بالصواب‬
‫عالمہ بالذری نے فتح َرے سے متعلق کچھ طویل لکھا ہے جس کا خالصہ اور مفہوم اس طرح ہے کہ‬
‫امیر المومنین سیدنا عمر فاروق نے سیدنا عمار بن یاسر کو لکھا جو اس وقت کوفہ کے عامل تھے ۔‬
‫یأمرہ أن یبعث عروۃ بن زید الخیل الطائي إلى ال ّر ّ‬
‫ي ودستبى في ثمانیة آالف‪ ،‬ففعل وسار عروۃ لذلك‬
‫فجمعت له الدیلم وأمدوا أھل ال ّر ّ‬
‫ي ۔۔۔۔یعنی عروہ بن زید طائی کو آٹھ ہزار سپاہ کے ساتھ َرے کے عالقے‬
‫بھیجا جائے۔ جب عروہ بمع لشکر وہاں پہنچے تو َیلم ان کے مقابلہ کے لیے جمع ہوئے اور اہ ِل َرے نے‬
‫ان کی مدد کی۔ لیکن رب العزت نے اہ ِل اسالم کو کامیاب کیا۔ اور اس معرکہ سے دَیلم اور اہل َرے کی‬
‫قوت بالکل نیست و نابود ہو گئی۔ عالمہ بالذری لکھتے ہیں کہ فرحان بن زیبندی نامی سردار کا ایک‬
‫مضبوط قلعہ تھا وہ بھی اسالمی لشکر سے ٹکرایا لیکن شکست کھاکر صلح کرلی کہ وہ جزیہ اور خراج‬
‫ادا کرے گا۔ اور اس سردار ابن زیبندی نے اہل َرے و قوسس کی طرف سے پانچ الکھ درہم کی رقم اس‬
‫غرض سے پیش کی کہ ان میں سے نہ کسی کوقتل کیا جائے اور نہ گرفتار کیا جائے۔ اور نہ ہی ان کا‬
‫کوئی آتش کدہ منہدم کیا جائے۔ سیدنا عمرو نے اس کی درخواست بھی قبول کرلی۔ اس کے بعد سیدنا‬
‫عمرنے عمارکو معزول کر کے مغیرہ بن شیبہ کو کوفہ کا والی تعینات کر دیا تو مغیرہنے اپنی طرف‬
‫سے کثیر بن شہاب حارثی کو َرے کا گورنر مقرر کر کے بھیجا۔‬

‫سوال ‪4‬۔‬

‫حضرت علی المرتضیٰ کے عہد خالفت کے اہم واقعات بیان کر میں ۔‬

‫جواب‬

‫علی بن ابی طالب ‪ 656‬سے ‪661‬عیسوی کے درمیان میں خلیفہ تھے‪ ،‬جو مسلمانوں کی تاریخ سب سے‬
‫مشکل دور تھا۔ جو پہلی مسلمان خانہ جنگی کے ساتھ ہی مال تھا۔ اس نے راشدین سلطنت پر حکومت کی‬
‫جو مشرق میں وسطی ایشیاء سے لے کر مغرب میں شمالی افریقہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ وہ ایک منصف‬
‫اور عادل جکمران‪ ،‬دونوں ہی کے نام سے مشہور ہوئے‬

‫حضرت عمر فاروق ِ اعظم رضی ہللا عنہ تاریخ اسالم کی ایسی شخصیت ہیں جن کا دور ِ خالفت قیامت‬
‫تک کے ٓانے والے حکمرانوں کے لیے مشع ِل راہ ہے۔ ٓاپ نے اپنی سیاسی بصیرت سے اسالمی سلطنت‬
‫کو وسعت دے کر تقریب ًا ‪ ۲۳‬الکھ مربع میل تک پھیالیا۔ ٓاپ رضی ہللا عنہ نے دس سالہ عہ ِد خالفت میں‬
‫بڑی بڑی سلطنتوں کو اپنے زیر ِ نگیں کیا۔ تاریخ کے نامور فاتح سکندر ِ اعظم‪ ،‬چنگیز خان اور تیمور‬
‫لنگ کے ناموں سے کون واقف نہیں۔ انہوں نے بھی بڑی بڑی فتوحات کیں‪ ،‬کئی ممالک کو زیر ِ نگیں‬
‫کیا۔ مگر جب وہ فتوحات سے فارغ ہوتے تو جگہ جگہ انسانی الشیں‪ ،‬کھوپڑیوں کے پہاڑ‪ ،‬خون کی‬
‫ندیاں‪ ،‬ہر جگہ ویرانی نظر ٓاتی۔ وہ جہاں سے گزرتے اسے ویران کردیتے۔ مگر حضرت عمر فاروق‬
‫رضی ہللا عنہ کے عہ ِد خالفت میں خون کا ایک قطرہ بھی نہیں گرپایا۔ ایران و روم جیسی سپر پاور‬
‫سلطنتیں جس انداز اور احتیاط سے فتح ہوئیں کہ بڑے بڑے تاریخ دان ظلم و ستم کی ایک مثال بھی پیش‬
‫نہ کرسکے۔ فتوحات سے بڑھ کر ٓاپ نے نظام حکومت کو منظم کیا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ٓاپ کے‬
‫دور میں حکومت اور سلطنت کا باقاعدہ نظام شروع ہوا۔ ٓاپ نے نظام حکومت کو چالنے کے لیے متعدد‬
‫محکمے اور انتظامی شعبہ جات قائم کیے اور ان سب سے نگران مقرر فرمائے۔ ٓاپ نگران مقرر کرنے‬
‫‪:‬کے بعد ان کا احتساب بھی کیاکرتے تھے۔ ٓاپ کے عہد خالفت کا انتظامی ڈھانچہ مندرجہ ذیل ہیں‬

‫‪:‬نظام عدل‬

‫ٓاپ نے عدل و انصاف کا ایسانظام قائم کیا کہ تاریخ اتنی وسیع و عریض سلطنت میں ظلم و زیادتی کی‬
‫ایک مثال بھی پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ٓاپ کے دور کا نمایاں وصف عد ل وانصاف ہے۔ ٓاپ کے دور ِ‬
‫حکومت میں انصاف سے کبھی بھی سر ِ مو انحراف نہیں ہوا۔ یہ انصاف صرف مسلمانوں تک محدود‬
‫نہیں تھابلکہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی انصاف روا رکھاجاتا تھا۔ یعنی نظام عدل میں مسلم او رغیر‬
‫مسلم کا کوئی فرق نہیں تھا۔ ٓاپ کے ایوا ِن عدل میں اعلیٰ و ادنی‪ ،‬امیر و غریب‪ٓ ،‬اقا وغالم‪ ،‬خویش و‬
‫بیگانہ سب برابر تھے۔ جو بھی ظالم ثابت ہوتا‪ ،‬اسے سزا دی جاتی۔ اسی نظام سے متاثر ہوکر غیر مسلم‬
‫حلقہ بگوش اسالم ہوتے۔‬

‫‪:‬نظام قضاء‬

‫حضرت عمر فاروق رضی ہللا عنہ قضاۃ کے معاملے میں بڑی احتیاط سے کام لیتے تھے۔ ٓاپ اس‬
‫منصب کے لیے انہی بزرگوں کا انتخاب فرماتے تھے جن کا علم تق ٰ‬
‫وی‪ ،‬ذہانت اور قوت فیصلہ مسلم‬
‫تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ٓاپ کے عہد میں نظام انصاف بے مثال تھا۔ ٓاپ نے انسداد رشوت کے لیے‬
‫قاضیوں کی بیش بہا تنخواہیں مقرر کیں۔ یہ قاعدہ مقرر کیا کہ دولت مند اور معزز شخص کے عالوہ‬
‫معمولی ٓادمی قاضی نہیں ہوسکتا اور اس کی وجہ یہ ظاہر کی کہ دولت مند رشوت کی طرف ر ٖاغب نہ‬
‫ہوگا اور معزز شخص فیصلہ کرنے میں کسی کے رعب سے متاثر نہیں ہوگا۔ (تاریخ اسالم‪ ،‬ص ‪)۱۷۲‬‬
‫حضرت عمر فاروق رضی ہللا عنہ کا یہ طرز ِ عمل رہتی دنیا تک کے لیے عظیم مشع ِل راہ ہے کہ‬
‫قاضی (جج) کو کسی کے بھی زیر ِ اثر نہیں ہونا چاہیے اور تمام تر شہادتوں کو پیش ِ نظر رکھتے ہوئے‬
‫بغیر کسی شخص کے دبا ٔو میں ٓاکر فیصلہ کرنا چا ہیے۔‬

‫‪:‬نظام احتساب‬

‫ٓاپ نے احتساب کا سخت نظام قائم کیا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ اپنے گھر والوں کا بھی سخت احتساب فرمایا‬
‫کرتے تھے۔ کتب تاریخ میں ایسے کئی واقعات ہیں جن میں ٓاپ نے اپنے بیٹے‪ ،‬بیٹی اور زوجہ کا‬
‫احتساب کیا اور انہیں تنبیہ کی۔ ٓاپ بطور ِ احتیاط بعض اوقات ایسے کاموں سے بھی اپنے گھروالوں کو‬
‫منع کرتے تھے جو فی نفسہ جائز اور مباح ہوتے تھے۔‬
‫‪:‬پولیس کا محکمہ‬

‫ٓاپ نے پولیس کا باقاعدہ اور مستقل محکمہ قائم کیا تاکہ امن وامان کے قیام کو یقنی بنایا جاسکے اور‬
‫شہریوں کے جان و مال کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ لوگوں کے مختلف معامالت پر نظر رکھنے کے‬
‫لیے ٓاپ نے مختلف پولیس افسروں کومقرر کررکھاتھا۔ اس محکمہ کا کام امن و امان کے قیام کے ساتھ‬
‫ساتھ معموالتِ زندگی میں غیر قانونی اور غیر اسالمی افعال سے روکنا بھی تھا۔‬

‫‪:‬جیل خانے‬

‫ٓاپ نے جیل خانے قائم کیے جن میں مختلف جرائم پیشہ لوگوں کو قید کیا جاتا تھا۔ ٓاپ نے سب سے‬
‫پہلے مکہ میں چار ہزار درہم کے عوض صفوان بن امیہ کا گھر خرید کر اسے جیل خانہ بنایا۔ اس کے‬
‫عالوہ دیگر اضالع میں بھی جیل خانے بنائے۔‬

‫‪:‬محکمہ ٔ ٓابپاشی‬

‫ٓاپ نے زراعت کی سیرابی اور رعایا کی ضرورت کے لیے متعدد نہریں کھدوائیں۔ ٓاپ نے ٓابپاشی کا‬
‫وسیع محکمہ قائم کیا۔ مقریزی کے بیان کے مطابق خاص مصر میں ایک الکھ بیس ہزار مزدور حکومت‬
‫کی جانب سے اس کام میں لگے رہتے تھے۔ (تاریخ اسال م‪ ،‬ص ‪)۱۷۵‬‬
‫‪:‬بیت المال کا قیام‬

‫ٓاپ نے بیت المال کے نظام کو وسعت دی۔ تمام صوبوں اور مرکزی مقامات میں بیت المال قائم کیے اور‬
‫ان کے لیے وسیع عمارتیں بنوائیں اور دیانتدار افسران کا تقرر کیا۔ حضرت عبدہللا بن ارقم رضی ہللا‬
‫عنہ پہلے وزیر ِ خزا نہ مقرر کیے گئے۔‬

‫‪:‬نظام تعلیم‬

‫ٓاپ نے تمام مفتوحہ عالقوں میں قر ٓان پاک کی درس و تدریس کا معاملہ شروع کروایا۔ اس کے لیے ٓاپ‬
‫نے قر ٓان سکھانے والے معلمین کو مقرر فرمایا جو لوگوں کو قر ٓان کی تعلیم دیتے تھے۔ ٓاپ کے عہد‬
‫میں قر ٓان کی تعلیم الزمی تھی۔ ٓاپ نے حضرت ابوسفیان رضی ہللا عنہ کو چند ٓادمیوں کے ساتھ روانہ‬
‫فرمایا کہ وہ قبائل مینجاکر ہر شخص کا امتحان لیں اور جسے قر ٓان کا کوئی حصہ یاد نہ ہو‪ ،‬اسے‬
‫سزادیں۔ ٓاپ نے اس کا نصاب بھی مقرر فرمایا‪ ،‬ایک روایت کے مطابق سورۃ البقرۃ‪ ،‬سورۃ النساء‪،‬‬
‫سورۃ المائدۃ‪ ،‬سورۃ الحج کو یاد کرنا ضروری قرار دیا۔ (تاریخ اسالم‪ ،‬ص ‪)۱۷۹‬‬

‫الغرض دور ِ فاروقی تاریخ ِ اسالم کا ایک عظیم اور مثالی دور گزرا ہے جس میں اسالمی ریاست کے‬
‫انتظام و انصرام کے درست تصور کی عملی تصویر پیش کی گئی۔ اتنی بڑی سلطنت کے حاکم ہونے‬
‫کے باجود سادگی‪ ،‬عاجزی اور انکساری ٓاپ کا خاصہ تھی۔ ٓاپ کے پیش ِ نظر خدمت خلق کا جذبہ تھا۔‬
‫ٓاپ نے رعایا کی خبر گیری کو الزم رکھا اور ٓاپ نے عوام کے لیے اپنا دروازہ کھال رکھنے کی پالیسی‬
‫اپنا رکھی تھی‪ ،‬نیز اپنے گورنروں اور دیگر اہلکارو ں کو ہدایت دے رکھی تھی کہ عوام پر اپنے‬
‫دروازے ہمیشہ کھلے رکھیں او ر مظلوموں کی داد رسی کریں۔یہی وجہ ہے کہ عدل و انصاف اور‬
‫رعایاکی خبر گیری میں ٓاج بھی دور ِ فاروقی کوبطور ِ مثال پیش کیاجاتا ہے۔‬
‫سوال ‪ -5‬درج ذیل پرنوٹ ہیں ۔‬

‫خلفاء راشدین کے دور حکومت کی نمایاں خصوصیات )‪(1‬‬

‫خلفائے راشدین‬

‫محمد صلی ہللا علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد ابوبکر صدیق‪ ،‬عمر فاروق‪ ،‬عثمان‪ ،‬علی اور حسن‬
‫کا عہد خالفت خالفت راشدہ کہالتا ہے۔ اس عہد کی مجموعی مدت تیس سال ہے جس میں ابوبکر صدیق‬
‫اولین اور علی آخری خلیفہ ہیں۔ اس عہد کی نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ یہ قرآن و سنت کی بنیاد‬
‫پر قائم نظام حکومت تھا۔‬

‫خالفت راشدہ کا دور اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس زمانے میں اسالمی تعلیمات پر عمل کیا گیا اور‬
‫حکومت کے اصول اسالم کے مطابق رہے۔ یہ زمانہ اسالمی فتوحات کا بھی ہے۔ اور اسالم میں جنگ‬
‫جمل اور جنگ صفین جیسے واقعات بھی پیش آئے۔ جزیرہ نما عرب کے عالوہ ایران‪ ،‬عراق‪ ،‬مصر‪،‬‬
‫فلسطین اور شام بھی اسالم کے زیر نگیں آ گئے۔‬

‫تاریخ‬

‫یہ مضامین خالفت پر مبنی ہیں‬

‫خالفت‬

‫‪Map of expansion of Caliphate.svg‬‬

‫◄اہم خالفتیں‬

‫◄مدمقابل خالفتیں‬

‫◄متعلقہ موضوعات‬
‫باب اسالم‬

‫دبت‬

‫محمد صلی ہللا علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد چار خلفاء کو مجموعی طور ہر خلفائے راشدین کہا‬
‫جاتا ہے۔‬

‫ابو بکر بن ابو قحافہ – (‪ 634-632‬عیسوی)‬

‫عمر بن خطاب – (‪ 644-634‬عیسوی)‬

‫عثمان بن عفان – (‪ 656-644‬عیسوی)‬

‫علی بن ابی طالب ‪ 661-656( -‬عیسوی)‬

‫حسن ابن علی ‪ 661-661( -‬عیسوی)‬

‫ابو بکر بن ابو قحافہ‬

‫آفتاب رسالت صلی ہللا علیہ و آلہ وسلم کے درخشندہ ستاروں میں سب سے روشن نام یار غار رسالت‪،‬‬
‫پاسدار خالفت‪ ،‬تاجدار امامت‪ ،‬افضل بشر بعد االنبیاء ابوبکر صدیق کا ہے جن کو امت مسلمہ کا سب‬
‫سے افضل امتی کہا گیا ہے۔ بالغ مردوں میں آپ سب سے پہلے حلقہ بگوش اسالم ہوئے۔ آپ کی صاحب‬
‫زادی عائشہ صدیقہ کو رسول ہللا صلی ہللا علیہ و آلہ وسلمکی سب سے محبوب زوجہ ہونے کا شرف‬
‫حاصل ہوا۔ آپ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ تھے۔‬

‫عمر بن خطاب‬
‫عمر فاروق‪ ،‬خلیفۂ ا ّول ابوبکرصدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ تھے۔ ان كے دور میں‬
‫اسالمی مملکت ‪ 22‬الکھ مربع میل کے رقبے پر پھیل گئی۔‬

‫عثمان بن عفان‬

‫عثمان اسالم کے تیسرے خلیفہ راشد تھے۔ آپ نے ‪644‬ء سے ‪656‬ء تک خالفت کی ذمہ داریاں سر‬
‫انجام دیں۔‬

‫علی بن ابی طالب‬

‫علی پیغمبر اسالم صلی ہللا علیہ و آلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں بچپن میں پیغمبر کے گھر آئے اور‬
‫وہیں پرورش پائی۔ پیغمبر کی زیر نگرانی آپ کی تربیت ہوئی۔ آپ اسالم کے چوتھے خلیفہ راشد تھے۔‬

‫حضرت عمر فاروق کی سیرت واخالق )‪(2‬‬

‫حضرت عمر ؓ؁ ‪7‬نبوی میں اسالم الئے تھے اور؁ ‪ 13‬نبوی میں ہجرت ہوئی‪ ،‬اس طرح گویا‬
‫انہوں نے اسالم النے کے بعد تقریب ًا ‪ 7،6‬برس تک قریش کے مظالم برداشت کیے‪ ،‬جب مسلمانوں کو‬
‫مدینہ کی جانب ہجرت کی اجازت ملی تو عمربھی اس سفر کے لیے آمادہ ہوئے اور بارگاہ نبوت سے‬
‫اجازت لے کر چند آدمیوں کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے‬

‫تاریخ ِ عالم نے ہزاروں جرنیل پیدا کیے‪ ،‬لیکن دنیا جہاں کے فاتحین سیدنا عمر فاروق رضی ہللا عنہ کے‬
‫سامنے طف ِل مکتب لگتے ہیں اور دنیا کے اہ ِل انصاف سیدنا عمر فاروق رضی ہللا عنہ کی عدل پروری‬
‫کو دیکھ کر جی کھول کر ُان کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔‬
‫امیر ِ شریعت سید عطا ہللا شاہ بخاری ؒ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ‪’’ :‬عمر( رضی ہللا‬
‫عنہ ) مرا ِد رسول( صلی ہللا علیہ وسلم )ہے۔ ‘‘ یعنی دیگر صحابہ کرام رضی ہللا عنہم ُمری ِد رسول(‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم ) ہیں اور عمر فاروق اعظم رضی ہللا عنہ مرا ِد رسول( صلی ہللا علیہ وسلم ) ہیں۔‬
‫ایک عالم نے کیا خوب کہا کہ‪’’ :‬عمر پیغمبر اسالم صلی ہللا علیہ وسلم کے لیے عطائے خداوندی‬
‫تھے۔‘‘ ان کے عالوہ اور بھی بہت سے علمائے اسالم ‪،‬حکمائے اسالم اور مستشرقین نے اپنے اپنے‬
‫لفظوں میں بارگاہِ فاروقی میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے ہیں۔‬
‫سیدنا عمر فاروق رضی ہللا عنہ کاشمار مکہ مکرمہ کے چند پڑھے لکھوں میں ہوتاتھا‪ ،‬لیکن وہ بھی‬
‫اسی عرب معاشرے کا حصہ تھے‪ ،‬جہاں پیغمبر اسالم صلی ہللا علیہ وسلم کو قبل از نبوت صادق وامین‬
‫کہا جاتا تھا اور بعد از اعال ِن نبوت نعوذ باہلل! ساحر ‪،‬شاعر‪،‬کاہن ‪،‬اور نجانے کیا کیا کہا گیا۔‬
‫اہ ِل مکہ کے جبر وستم بہت بڑھ چکے تھے ‪،‬صحابہ کرام رضی ہللا عنہم سرِعام تبلیغ تو درکنار‘ عبادت‬
‫بھی نہیں کرسکتے تھے‪ ،‬چھپ کر دین اسالم کی تبلیغ وعبادت کی جاتی تھی۔ صحابہ کرام رضی ہللا‬
‫عنہم کی تعداد اس وقت ُانتالیس تھی۔ ایک رات بیت ہللا کے سامنے عبادت کرتے ہوئے پیغمبر ِ اسالم‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنے پرور ِدگار سے عجیب دعا کی‪ ،‬مانگی بھی تو عجب شئے مانگی۔ کسی کے‬
‫وہم وگمان میں نہیں تھا کہ دعا میں یہ بھی مانگا جاتا ہے‪ ،‬اسالم کی بڑھوتری کی دعا کی جاتی‪ ،‬اہ ِل‬
‫مکہ کے ایمان النے کی دعا کی جاتی‪ ،‬دنیائے عالم میں اسالم کی اشاعت کی دعا کی جاتی یا اہل مکہ‬
‫کے ظلم وستم کی بندش کے لیے ہاتھ ُاٹھائے جاتے‪ ،‬لیکن میرے عظیم پیغمبر صلی ہللا علیہ وسلم نے‬
‫دعا کی کہ‪’’ :‬اے ہللا! عمر وابن ہشام اور عمر بن خطاب میں سے کسی کو اسالم کی عزت کا ذریعہ بنا‬
‫‘‘۔‬
‫نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں دو لوگوں کو نامزد کیا اور فیصلہ خدائے عالم الغیوب‬
‫پر چھوڑ دیا کہ ہللا ! ان دونوں میں سے جو تجھے پسند ہو وہ دے دے۔ ہللا تبارک وتعالیٰ نے پیغمبر ِ‬
‫ف قبولیت سے نوازا اور اسباب کی دنیا میں سیدنا عمر فاروق‬ ‫اسالم صلی ہللا علیہ وسلم کی دعاکو شر ِ‬
‫رضی ہللا عنہ کے اسالم النے کا سبب یہ بنا کہ ایک روز تیغ ِ برہنہ لیے جارہے تھے‪ ،‬راستہ میں بنو‬
‫زہرہ سے تعلق رکھنے واال ایک شخص مال‪ ،‬جس نے پوچھا کہ عمر! خیریت! کہاں کا ارادہ ہے؟ کہنے‬
‫لگے‪ :‬محمد کو قتل کرنے جارہاہوں ‪،‬اس نے نئے دین کااعالن کرکے مکہ والوں میں تفریق کردی ہے‪،‬‬
‫کیوں نہ اس قصہ کو ہی ختم کردوں۔ بنو زہرہ سے تعلق رکھنے والے شخص نے کہا کہ‪ :‬عمر! اگر تم‬
‫نے ایسا کیا تو کیا ’’بنو ہاشم وبنو زہرہ ‘‘تم سے انتقام نہیں لیں گے؟ کہنے لگے‪ :‬لگتا ہے کہ تم بھی اس‬
‫نئے دین میں شامل ہوچکے ہو ‪،‬انہوننے کہا کہ پھر پہلے اپنے گھر کی خبر تو لو‪ ،‬تمہاری بہن وبہنوئی‬
‫مسلمان ہوچکے ہیں ۔‬
‫جالل میں نکلنے واال عمر سیدھا بہن کے گھر پہنچتا ہے‪ ،‬یہاں سیدنا خباب بن االرت رضی ہللا عنہ ان‬
‫کے بہنوئی وبہن کو سورۂ ط ٰہ پڑھا رہے تھے‪ ،‬باہر سے ٓاواز سنی اور دروازہ پر دستک دی‪ ،‬اندر سے‬
‫پوچھاگیا کون؟ عمر! نام سنتے ہی سیدنا خباب چھپ گئے‪ ،‬عمر نے ٓاتے ہی پوچھا‪ :‬تم لوگ کیا پڑھ‬
‫رہے تھے؟ انہوں نے بات ٹالتے ہوئے کہا کہ‪ :‬ہم ٓاپس میں باتیں کررہے تھے‪ ،‬کہنے لگے‪ :‬میں نے سنا‬
‫ہے تم نئے دین میں شامل ہوگئے ہو؟ بہنوئی نے کہا کہ‪ :‬عمر! وہ دین تیرے دین سے بہتر ہے‪ ،‬تو جس‬
‫دین پر ہے یہ گمراہ راستہ ہے‪ ،‬بس سننا تھا کہ بہنوئی کو دے مارا زمین پر‪ ،‬بہن چھڑانے ٓائی تواتنی‬
‫زور سے اس کے چہرے پر طمانچہ رسید کیا کہ ان کے چہرے سے خون نکل ٓایا‪ ،‬بہن کے چہرے پہ‬
‫خون دیکھ کر غصہ ٹھنڈا ہوا اور بہنوئی کو چھوڑ کر الگ ہو بیٹھے اور کہنے لگے کہ‪ :‬اچھا! الئو‪،‬‬
‫دکھائو‪ ،‬تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟ بہن نے کہا کہ‪ :‬تم ابھی اس کالم کے ٓاداب سے ناواقف ہو‪ ،‬اس کال ِم‬
‫مقدس کے ٓاداب ہیں‪ ،‬پہلے تم وضو کرو‪ ،‬پھر دکھائوں گی‪ ،‬انہوننے وضو کیا اور سورۂ ط ٰہ پڑھنی‬
‫شروع کی‪ ،‬یہ پڑھتے جارہے تھے اور کال ِم ٰالہی کی تاثیر قلب کو متاثر کیے جارہے تھی۔ خباب بن‬
‫ارت رضی ہللا عنہ یہ منظر دیکھ کر باہر نکل ٓائے اور کہنے لگے‪ :‬عمر! کل رات نبی کریم صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم نے بارگاہِ خداوندی میں دعا کی تھی کہ‪ٰ :‬‬
‫’’ال ّلھ ّم ٔا ّ‬
‫عز اإلسالم بأحد الرجلین إ ّما ابن ھشام وإ ّما‬
‫عمر بن الخطاب‘‘ اور ایک دوسری روایت میں الفاظ کچھ اس طرح سے ہیں کہ‪ٰ :‬‬
‫’’ال ّلھم ٔاید اإلسالم بأبي‬
‫الحکم بن ھشام وبعمر بن الخطاب۔‘‘ اے ہللا ! عمر وبن ہشام یا عمر بن خطاب میں سے کسی کو اسالم‬
‫کی عزت کا ذریعہ بنا‪ ،‬یا ان میں سے کسی ایک کے ذریعے اسالم کی تائید فرما۔‘‘ اے عمر! میرے دل‬
‫نے گواہی دی تھی کہ یہ دعا ئے پیغمبر صلی ہللا علیہ وسلم عمر بن خطاب کے حق میں پوری ہوگی۔‬
‫اسی طرح کی ایک روایت سیدنا سعید بن مسیب رحمہ ہللا سے مروی ہے‪ ،‬وہ فرماتے ہیں کہ‪’’ :‬کان‬
‫رسول ٰ ّہللا صلی ہللا علیہ وسلم إذا رٔای عمر بن الخطاب ٔاو ٔابا جھل بن ھشام قال‪ٰ :‬ال ّلھم اشدد دینک بأحبّہما‬
‫إلیک‘‘ یعنی جب کبھی رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم عمر بن خطاب یا ابوجہل کو دیکھتے تو رب‬
‫العزت کے حضور دستِ دعا دراز کرتے ہوئے فرماتے‪ :‬اے ہللا! ان دونوں میں سے جو تیرے نزدیک‬
‫زیادہ پسندیدہ ہے‪ ،‬اس سے اپنے دین کو قوت عطا فرما۔ (طبقات ابن سعد)‬
‫سیدنا خباب بن ارت رضی ہللا عنہ سے سیدناعمر رضی ہللا عنہ کہنے لگے کہ‪ :‬اچھا! تو مجھے بتائو‬
‫محمد صلی ہللا علیہ وسلم کہاں ہیں؟ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں‪ ،‬انہوں نے بتایا کہ‪ :‬صفاپہاڑی پر واقع‬
‫ارقم رضی ہللا عنہ کے مکان میں قیام پذیر ہیں۔ سیدنا عمر رضی ہللا عنہ چل پڑے‪َ ،‬درّے پر مقیم‬
‫صحابہ کرام رضی ہللا عنہم نے جب دیکھا کہ عمر ٓارہا ہے اور ہاتھ میں ننگی تلوار ہے‪ ،‬تو گھبرائے‬
‫ہوئے ٓانحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کو بتایا‪ ،‬وہیں اسدہللا ورسولہ سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی ہللا‬
‫عنہ بھی تھے‪ ،‬وہ فرمانے لگے‪ٓ :‬انے دو‪ ،‬اگر ارادہ نیک ہے تو خیر ہے اور اگر ارادہ صحیح نہیں تو‬
‫میں اس کی تلوار سے اس کاکام تما م کردوں گا۔‬
‫جب سیدنا عمر رضی ہللا عنہ وہاں پہنچے تو پیغمبر اسالم صلی ہللا علیہ وسلم پر نزو ِل وحی جاری تھا‪،‬‬
‫چند لمحوں بعد ٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم نے عمر سے فرمایا‪ ’’:‬اے عمر! تم کس چیز کا انتظا رکررہے‬
‫ہو؟ کیا ابھی وقت نہیں ٓایا کہ تم اسالم قبول کرو؟!۔‘‘ بس یہ سننا تھا کہ فور ًاکلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے‬
‫دائرہ اسالم میں داخل ہوگئے۔ اصحابِ رسول( صلی ہللا علیہ وسلم ) نے حضرت عمر رضی ہللا عنہ کے‬
‫اسالم النے کی خوشی میں اس زور سے نعرۂ تکبیر بلند کیا کہ صح ِن کعبہ میں بیٹھے ہوئے کفار‬
‫ی مکہ گونج ُاٹھی۔ پھر نبی رئوف ورحیم صلی‬ ‫ومشرکین نے بھی سنا اور اس نعرے کی ٓاواز سے واد ِ‬
‫ہللا علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی ہللا عنہ کے سینۂ مبارک پر دستِ اقدس رکھا اور دعا فرمائی‪َ :‬ا ٰل ّلھُ َّم‬
‫ص ْدر ِ ٖہ ِم ْن ِغ ٍّل َو َٔایِّ ْد َل ٗہ إ ِ ْی َما ًنا۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’یا ہللا ۔!اس کے سینے میں جو کچھ میل کچیل ہو وہ دور‬ ‫ْ‬
‫اخرُجْ َماف ِ ْي َ‬
‫کردے اور اس کے بدلے ایمان سے اس کا سینہ بھردے ۔‘‘ (مستدرک للحاکم) قبو ِل اسالم کے وقت‬
‫بعض م ٔورخین کے نزدیک ٓاپ کی عمر تیس سال تھی اور بعض کہتے ہیں کہ عمر چھبیس سال‬
‫طنطناوی نے عجیب جملہ کہا ہے کہ‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫تھی۔مصر کے ایک بہت بڑے عالم مفسر ِ قر ٓان جناب عالمہ‬
‫‘‘’’حقیقت یہ ہے کہ عمر اسی گھڑی پیدا ہوئے اور یہیں سے ان کی تاریخی زندگی کا ٓاغاز ہوا ۔‬
‫مفسر ِ قر ٓان سیدنا عبدہللا بن عباس رضی ہللا عنہما فرماتے ہیں ‪’’ :‬قال رسول ٰ ّہللا صلی ہللا علیہ وسلم ‪ :‬لما‬
‫ٔاسلم ٔاتاني جبرائیل‪ ،‬فقال‪ :‬استبشر ٔاھل السماء بإسالم عمر ‘‘ یعنی حضور سرورِکائنات صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم نے فرمایا کہ‪’’ :‬جبرئیل ؑ میرے پاس ٓائے اور کہا کہ‪ٓ :‬اسمان والے عمر کے قبو ِل اسالم پر‬
‫خوشیاں منا رہے ہیں۔‘‘ (مستدرک للحاکم و طبقات ابن سعد)‬
‫چند ہی لمحوں بعدسیدنا عمر رضی ہللا عنہ نے فرمایا کہ‪ :‬اے ہللا کے نبی! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ ٓاپ‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم نے اثبات میں جواب دیا‪ ،‬تو فرمانے لگے کہ‪ :‬پھر چھپ کر عبادت کیوں کریں؟‬
‫چلیے خانہ کعبہ میں چل کر عبادت کرتے ہیں‪ ،‬میں قربان جائوں اپنے ٓاقا وموال صلی ہللا علیہ وسلم پر‬
‫کہ انہوں نے ایسے ہی عمر کو نہینمانگا تھا‪ ،‬بلکہ دوررس نگاہِ نبوت دیکھ رہی تھی کہ اسالم کو عزت‬
‫وشوکت عمر کے ٓانے سے ہی نصیب ہوگی۔‬
‫حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی ہللا عنہم کو دو صفوں میں تقسیم کیا‪ :‬ایک صف‬
‫کے ٓاگے اسد ہللا ورسولہ سیدنا حمزہ رضی ہللا عنہ چل رہے تھے اور دوسری صف کے ٓاگے مرا ِد‬
‫رسول‪ ،‬پیغمبر ِ اسالم صلی ہللا علیہ وسلم کے لیے عطائے خداوندی یعنی سیدنا عمر فاروق رضی ہللا‬
‫عنہ چل رہے تھے۔ مسلمان جب خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو کفار ِ مکہ نے دیکھا‪ ،‬نظر پڑی حمزہ پر‬
‫اور عمر پر تو بڑے غمگین ہوئے‪ ،‬لیکن کس میں جرٔات تھی کہ کوئی بولتا؟! اس دن سے مسلمانوں‬
‫کے لیے تبلیغ ِ دین میں ٓاسانی پیدا ہوئی اور یہی وہ دن تھا جب ہللا کے نبی پاک صلی ہللا علیہ وسلم نے‬
‫علی لسان عمر وقلبہ وھو الفاروق فرّق ٰ ّہللا ب ٖہ بین الحق والباطل۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’ ‪:‬فرمایا تھا کہ‬
‫إن ٰ ّہللا جعل الحق ٰ‬
‫’’ہللا تعالیٰ نے سچ کو عمر کے قلب ولسان پر جاری کردیا اور وہ فاروق ہے ‪ ،‬ہللا تعالیٰ نے اس کے‬
‫ذریعہ حق وباطل میں فرق کردیا ہے ۔‘‘ (طبقات ابن سعد)‬
‫ّٰ‬
‫وہللا ما استطعنا ٔان نص ّلي عندالکعبۃ ظاھرین ٰ‬
‫حتی ’’ ‪ :‬جناب سیدنا عبدہللا رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ‬
‫۔۔۔۔ ’’ہللا کی قسم ! ہم کعبہ کے پاس کھلے بندوں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے‪ ،‬یہاں تک کہ ‘‘ٔاسلم عمر‬
‫حضرت عمر رضی ہللا عنہ اسالم الئے۔‘‘ (مستدرک للحاکم)‬
‫اسی طرح حضرت صہیب بن سنان رضی ہللا عنہ فرماتے ہینکہ‪:‬جب عمر رضی ہللا عنہ نے اسالم قبول‬
‫کیا تو اسالم کو غلبہ نصیب ہوا‪ ،‬اور ہم کھلے بندوں اسالم کی دعوت دینے لگے اور ہم حلقہ بنا کر بیت‬
‫ہللا میں بیٹھتے تھے‪ ،‬ہم بیت ہللا کا طواف کرنے لگے اور اب ہم پر اگر کوئی زیادتی کرتا تو ہم اس سے‬
‫بدلہ لیتے تھے ۔‬
‫کچھ اسی قسم کے تأثرات فقیہ االمت سیدنا عبد ہللا بن مسعود رضی ہللا عنہ کے بھی ہیں‪ ،‬وہ فرماتے ہیں‬
‫کہ‪’’ :‬عمر کا اسالم قبول کرنا ہماری کھلی فتح تھی‪ ،‬اور عمر کا ہجرت کرنا ہمارے لیے ہللا تعالیٰ کی‬
‫نصرتِ خاص تھی ‪ ،‬اور ٓاپ کی خالفت تو ہمارے لیے سراپا رحمت تھی‪ ،‬میں نے وہ دن بھی دیکھے‬
‫ہیں جب ہم بیت ہللا کے قریب بھی نماز ادا نہیں کرسکتے تھے‪ ،‬لیکن جب عمر رضی ہللا عنہ اسالم‬
‫الئے تو ٓاپ نے کفار سے مقابلہ کیا‪ ،‬یہاں تک کہ وہ ہمیں نماز پڑھنے دینے لگے۔ (طبقات ابن سعد)‬
‫سیدنا حضرت عمر رضی ہللا عنہ کی شا ِن رفیعہ میں چند فرامی ِن رسالت م ٓاب صلی ہللا علیہ وسلم پیش‬
‫کرتا ہوں ۔‬
‫‪:‬نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ‪۱:-‬‬
‫اے ابن خطاب !اس ذات پاک کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے‪ ،‬جس راستے پہ ٓاپ ’’‬
‫کو چلتا ہواشیطان پالیتا ہے وہ اس راستہ سے ہٹ جاتا ہے‪ ،‬وہ راستہ چھوڑ کر دوسراراستہ اختیار کرتا‬
‫ہے ۔‘‘ (صحیح بخاری)‬
‫صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ‪’’:‬حضور پاک رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں‪ :‬میں نے حالتِ خواب ‪۲:-‬‬
‫میں دودھ پیا‪ ،‬یہاں تک کہ میں اس سے سیر ہوگیا اور اس کی سیرابی کے ٓاثار میرے ناخنوں میں نمایاں‬
‫ہونے لگے‪ ،‬پھر میں نے وہ دودھ عمر کو دے دیا‪ ،‬اصحابِ رسول نے پوچھا‪ :‬یارسول ہللا! اس خواب‬
‫کی تعبیر کیا ہے؟ تو ٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا‪’’ :‬علم‘‘۔‬
‫‪ :‬اسی طرح امام بخاری ؒنے ایک اور روایت بھی اپنی صحیح میندرج کی ہے کہ‪۳:-‬‬
‫سیدنا ابوسعید خدری رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ‪ :‬میں نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کویہ ’’‬
‫فرماتے ہوئے سنا ہے کہ‪ :‬میں نیند میں تھا‪ ،‬میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ میرے سامنے پیش کیے‬
‫جارہے ہیں اور انہوننے قمیصیں پہنی ہوئی ہیں‪ ،‬کسی کی قمیص سینے تک اور کسی کی اس سے‬
‫نیچے تک ‪،‬اور پھر عمر کو پیش کیا گیا‪ ،‬انہوں نے ایسی لمبی وکھلی قمیص پہنی ہوئی تھی کہ وہ زمین‬
‫پر گھسٹتی جارہی تھی ‪،‬اصحابِ رسول ( صلی ہللا علیہ وسلم ) نے عرض کیا کہ‪ :‬یارسول ہللا! اس‬
‫خواب کی تعبیر کیا ہے؟ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ‪’’:‬دین ‘‘۔‬
‫اسی طرح بڑی ہی مشہور ومعروف حدیث نبوی ہے کہ ‪:‬نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا‪۴:- :‬‬
‫’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا۔‘‘یعنی اگر سلسلۂ نبوت جاری رہتا تو سیدنا حضرت عمر‬
‫رضی ہللا عنہ بھی منصبِ نبوت سے سرفراز کیے جاتے ۔‬
‫ایک حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ ‪’’:‬رسول مکرم ومعظم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ‪ :‬تم سے ‪۵:-‬‬
‫پہلے جو ُامم گزری ہیں ان میں ُمحدَث ہوا کرتے تھے اور میری امت میں اگر کوئی ُمحدَث ہے تو وہ‬
‫‘‘عمر ہے۔‬
‫کی تشریح مینصاحب فتح الباری عالمہ ابن حجر عسقالنی رحمہ ‘‘ ُمحدَث’’اسی حدیث مبارکہ میں لفظ‬
‫‪ :‬ہللا یوں تحریر فرماتے ہیں کہ‬
‫ال ُمحْ دَث ال ُم ْلھَم وھو من ٔالقي في روعہ شيء من قبل المالء اال ٰ‬
‫ٔعلی ومن یجری الصواب علیٰ لسان ٖہ بغیر ’’‬
‫‘‘قصد۔‬
‫یعنی ’’محدث وہ ہے جس کی طرف ہللا کی طرف سے الہام کیاجائے‪ ،‬مالء اعلیٰ سے اس کے دل میں‬
‫القاء کیا جائے اور بغیر کسی ارادہ وقصد کے جس کی زبان پر حق جاری کردیا جائے۔‘‘ یعنی اس کی‬
‫زبان سے حق بات ہی نکلے ۔‬
‫ایک بار سیدنا عمر رضی ہللا عنہ شفیع اعظم نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ‪۶:-‬‬
‫یا ٔاخي ’’ ‪ :‬ہوئے اور عمرہ کی اجازت طلب کی تو نبی مکرم ومعظم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا‬
‫۔۔۔ ’’اے میرے بھائی ! اپنی نیک دعائوں میں ہمیں بھی شریک ‘‘ٔاشرکنا في صالح دعاء ک وال تنسنا‬
‫‘‘کرنا اور بھول نہ جانا۔‬
‫سلسلۂ احادیث سے ٓاخری حدیث پیش کرتا ہوں کہ یہ سلسلہ بہت دراز ہے اور دام ِن صفحات میں ‪۷:-‬‬
‫جگہ کم ‪،‬بخاری شریف میں سیدنا انس بن مالک رضی ہللا عنہ سے مروی حدیث ہے کہ ‪ ’’:‬ایک دفعہ‬
‫حضور پرنور صلی ہللا علیہ وسلم ُاحد کے پہاڑ پر تشریف لے گئے‪ ،‬ہمراہ ابوبکر ‪،‬عمر اور عثمان‬
‫بھی تھے‪ُ ،‬احد کاپہاڑ لرزنے لگا توحضور انور صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنا قدم مبارک ُاحد پر مارتے‬
‫ہوئے فرمایا‪’’ :‬اے ُاحد! ٹھہر جا‪ ،‬تجھ پر اس وقت نبی‪ ،‬صدیق اور شہید کے عالوہ اور کوئی نہیں۔‘‘اس‬
‫ٰال ّلھم ارزقني شھادۃ في سبیلک وموتا في ’’ ‪:‬کے بعد سیدنا عمر رضی ہللا عنہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ‬
‫۔۔۔ ’’اے ہللا! مجھے اپنی راہ میں شہادت کی موت دینا اور موت ٓائے تو تیرے حبیب( ‘‘بلد حبیبک‬
‫‘‘صلی ہللا علیہ وسلم ) کے شہر میں ٓائے ۔‬
‫ٓاخری ایا ِم حیات میں ٓاپ نے خواب دیکھا کہ ایک سرخ مرغ نے ٓاپ کے شکم مبارک میں تین چونچیں‬
‫ماریں‪ٓ ،‬اپ نے یہ خواب لوگوں سے بیان کیا اور فرمایا کہ میری موت کا وقت قریب ہے۔ اس کے بعد یہ‬
‫ہوا کہ ایک روز اپنے معمول کے مطابق بہت سویرے نماز کے لیے مسجد میں تشریف لے گئے‪ ،‬اس‬
‫وقت ایک درّہ ٓاپ کے ہاتھ میں ہوتا تھا اور سونے والے کو اپنے درّہ سے جگاتے تھے‪ ،‬مسجد میں پہنچ‬
‫کر نمازیوں کی صفیں درست کرنے کا حکم دیتے‪ ،‬اس کے بعد نماز شروع فرماتے اور نماز میں بڑی‬
‫بڑی سورتیں پڑھتے۔ اس روز بھی ٓاپ نے ایساہی کیا‪ ،‬نماز ویسے ہی ٓاپ نے شروع کی تھی‪ ،‬صرف‬
‫تکبیر تحریمہ کہنے پائے تھے کہ ایک مجوسی کافر ابو ل ٔول ٔو (فیروز) جو حضرت مغیرہ رضی ہللا عنہ‬
‫کا غالم تھا‪ ،‬ایک زہر ٓالود خنجر لیے ہوئے مسجد کی محراب میں چھپا ہوا بیٹھا تھا‪ ،‬اس نے ٓاپ کے‬
‫شکم مبارک میں تین زخم کاری اس خنجر سے لگائے‪ٓ ،‬اپ بے ہوش ہوکر گر گئے اور حضرت‬
‫عبدالرحمن بن عوف رضی ہللا عنہ نے ٓاگے بڑھ کر بجائے ٓاپ کی امامت کے مختصر نماز پڑھ کر‬
‫سالم پھیرا‪ ،‬ابول ٔول ٔو نے چاہا کہ کسی طرح مسجد سے باہر نکل کر بھاگ جائے‪ ،‬مگر نمازیوں کی صفیں‬
‫مثل دیوار کے حائل تھیں‪ ،‬اس سے نکل جانا ٓاسان نہ تھا‪ ،‬اس نے اور صحابیوں کو بھی زخمی کرنا‬
‫شروع کردیا‪ ،‬تیرہ صحابی زخمی ‪،‬جن میں سے سات جاں بر نہ ہوسکے‪ ،‬اتنے میں نماز ختم ہوگئی اور‬
‫ابول ٔول ٔو پکڑ لیا گیا‪ ،‬جب اس نے دیکھا کہ میں گرفتار ہوگیا تو اسی خنجر سے اس نے اپنے ٓاپ کو ہالک‬
‫لکھنوی)‬
‫ؒ‬ ‫کردیا ۔ (خلفائے راشدین ‪،‬از‬
‫با ٓالخر ٓاپ کی دعائے شہادت کو حق تعالیٰ نے قبول فرمایا اور دیار ِ حبیب صلی ہللا علیہ وسلم میں بلکہ‬
‫ُمصالئے رسول ( صلی ہللا علیہ وسلم ) پر ٓاپ کو ‪ ۲۷‬ذو الحجہ بروز چہار شنبہ (بدھ) زخمی کیا گیا‬
‫اور یکم محرم بروز یک شنبہ (اتوار) ٓاپ رضی ہللا عنہ نے شہادت پائی۔ شہادت کے وقت ٓاپ کی عمر‬
‫مبارک تریسٹھ برس تھی ‪،‬حضرت صہیب رضی ہللا عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور خاص روضۂ نبوی‬
‫میں حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ کے پہلو میں ٓاپ کی قبر بنائی گئی۔ رضي ٰ ّہللا ٰ‬
‫تعالی عنہ‬
‫ؤارضاہ‬

You might also like