Professional Documents
Culture Documents
Course: ملاسا خیرات: Allama Iqbal Open University Islamabad
Course: ملاسا خیرات: Allama Iqbal Open University Islamabad
ASSIGNMENT NO:2
جواب
حضرت ابوبکر صدیق کو منصب خالفت پر متمکن ہوتے ہی طرح طرح کی صعوبات مشکالت اور
خطرات کا سامنا کرنا پڑا ،ایک طرف جھوٹے مدعیان نبوت اٹھ کھڑے ہوئے تھے ،دوسری طرف مرتدین
اسالم کی جماعت نے علم بغاوت بلند کردیا تھا منکرین ٰ
زکوۃ کا بھی فتنہ اٹھ کھڑا تھا۔
عراق کی صورتحال:
ایرانی سلطنت انقالب حکومت وطوائف الملوکی کے باعث اپنی اگلی عظمت وشان کھوچکی تھی۔
’یزدگرد‘ شہنشاہ ایران نابالغ تھا ،م ٓاخذبیان کرتے ہیں کہ عراق کے عربی قبائل جو ایرانی حکومت کا ظلم
وستم سہ چکے تھے ایسے موقعوں سے فائدہ اٹھانے کے متمنی تھے چنانچہ موقع پاکر نہایت زوروشور
کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے اور قبیلہ وائل کے دو سر دار ’’مثنی شیبانی‘‘ و ’’سوید عملی‘‘ نے ’واہلہ‘
کے نواح میں غارت گری شروع کردی۔ مثنی اسالم الچکے تھے انھوں نے دیکھا کہ وہ تنہا اس حکومت
سے نبرد ٓازما نہیں ہوسکتے۔ وہ خلیفہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اورباقاعدہ فوج کشی کی اجازت حاصل
کی اور اپنے قبیلہ کو لے کر ایران سرحد میں داخل ہوئے۔اس وقت تک حضرت خالد بن ولید مدعیان نبوت
ومرتدین کی بیخ کنی سے فارغ ہوچکے تھے۔ لہٰذا حضرت ابوبکر نے ان کو ایک دستہ کے ساتھ ’’مثنی‘‘
کی کمک کے لیے روانہ فرمایا۔
حضرت خالد بن ولید نے جنگ کی صورت میں بدل دی اور بانقیا ،کسکر وغیرہ فتح کرتے ہوئے شاہا ِن
عجم کے حدود میں داخل ہوگئے۔ یہاں شاہ جاپان سے مقابلہ ہوا اوراس کو شکست سے دوچار ہونا پڑا
پھر حیرہ کے بادشاہ نعمان سے جنگ ٓازما ہوئے۔ نعمان ہزیمت اٹھاکر مدائن بھاگ گیا ،یہاں سے خورلق
پہنچے اہل خورلق نے خراج پر مصالحت کرلی غرض اس طرح حیرہ کا پورا عالقہ فتح ہوگیا۔ ؎۱
فتح شام:
حضرت ابوبکر نے ۱۳ھ میں صحابہ کرام سے مشورہ کے بعد شام پر لشکر کشی کی اور ہر عالقہ کے
لیے الگ الگ فوج مقرر کی ۔ اس کی تفصیل اس طرح ہے۔ حضرت ابوعبیدہ حمص پر ،یزید بن ابی
سفیان دمشق پر ،شرجیل بن حسنہ اردن پر اور عمرو بن العاص فلسطین پر مامور ہوئے۔ مجاہدین کی
مجموعی تعداد ۲۷۰۰۰تھی ،ان سرداروں کو سرحد سے نکلنے کے بعد قدم قدم پر رومی جتھے ملے
جن کو قیصر نے پہلے سے الگ الگ سردار کے مقابلہ میں متعین کردیا تھا ،یہ دیکھ کر افسران اسالم
نے اپنی کل فوجوں کو ایک جگہ جمع کرلیا اور خلیفہ کو غنیم کی غیر معمولی کثرت کی اطالع دے کر
مزید کمک کے لیے لکھا کیوں کہ اس وقت دارالخالفت میں کوئی فوج موجود نہ تھی اس لیے حضرت
ابوبکر کو نہایت تردد ہوا۔ ٓاپ نےخالد بن ولید کو لکھا کہ عراق کی باگ ڈور مثنی کو دے کر شام کی
طرف روانہ ہوجائیں یہ فرمان پا کر حضرت خالد ،ایک فوجی دستہ کے ساتھ شام کی طرف روانہ
ہوگئے۔ ؎۲
حضرت خالد بن ولید کو راستے میں بہت سے چھوٹے چھوٹے معرکوں سے گزرنا پڑا۔ حیرہ کے عالقہ
ٰ
کسری کی فوج سدراہ ہوئی ،عقبہ بن ابی بالل الثمری اس فوج سے روانہ ہوکر عین التمر پہنچے تو وہاں
کاسپہ ساالر تھا۔ حضرت خالد نے عقبہ کو قتل کرکے اس کی فوج کو شکست دیٓ ،اگے بڑھے توہذیل بن
عمران کی سیادت میں بنی تغلب کی ایک جماعت نے مقابلہ کیا ،ہذیل مارا گیا اور اس کی جماعت کے
بہت سے لوگ اسیر ہوئے اور مدینہ روانہ کیے گئے۔ پھر یہاں سے انباء پہنچے اور انبار سے صحرا
طے کرکے قدمرمیں خیمہ زن ہوئے اہل قدمرنے پہلے قلعہ بندہوکر مقابلہ کیا ،پھر مجبور ہوکر مصالحت
کرلی ،قدمر سے گزر کر حوران ٓائے ،یہاں سخت جنگ پیش ٓائی۔ اسے فتح کرکے شام کی اسالمی مہم
میں شامل ہوگئے اور متحدہ قوت سے بصری نحل اور اجنادین کے عالقوں کو فتح کرلیا اجنادین کی
جنگ نہایت شدید تھی ۔ لیکن فتح مسلمانوں کو نصیب ہوئی۔ اس طرح جمادی االولی ۱۲۳ھ سے اجنا
دین اسالم کے تحت ٓاگیا۔؎۳
متفرق فتوحات:
اجنادین سے بڑھ کر اسالمی فوجوں نے دمشق کا محاصرہ کیا ،لیکن اس کے مفتوح ہونے سے پہلے ہی
خلیفہ ا ول ابوبکر نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ حضرت عثمان بن ابی العاص نے مکران اور اس کے
قرب وجوار کے عالقوں کو فتح کرکے ،اسالمی حکومت میں شامل کیا ،حضرت عالء بن حضری زارہ
پر مامور ہوئے۔ انھوں نے زارہ اور اس کے اطراف کو فتح کرکے مال غنیمت مدینہ روانہ فرمایا حضرت
ابوبکر نے اس میں سے مدینہ منورہ کے ہر خاص وعام ،مرد ،عورت و ٓازاد وغالم کو ایک ایک دینار
تقسیم فرمایا۔؎۴
حضرت ابوبکر صدیق کی زندگی اہم سیاسی ،سماجی وفالحی کارناموں سے لبریز ہے۔ انھوں
نے الزوال خدمات انجام دیں جو تاریخی اوراق سے محو نہیں ہوسکتیں۔ خالفت کی ابتدا ٓاپ سے ہوئی۔
اہم امور مینکبار صحابہ سے مشورہ کرتے تھے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جب شام پر لشکر کشی کاخیال
ٓایا تو پہلے اس کو صحابہ کے سامنے برائے مشورہ پیش کیا۔ حضرت علی نے اپنی صائب رائے سے
نوازا۔ ؎۵اسی طرح منکرین ٰ
زکوۃ کے مقابلہ میں جہاد ،حضرت عمرکی جانشینی اور دوسرے اہم
معامالت میں صحابہ کی رائے معلوم کی ،ابن سعد کے مطابق جب کوئی اہم معاملہ درپیش ہو تا تو ممتاز
مہاجرین وانصار جمع کیے جاتے اور ان سے رائے لی جاتی۔
’’جب کوئی امر پیش ٓاتا تھا تو حضرت ابوبکر صدیق اہل الرائے فقہاء صحابہ سے مشورہ لیتے تھے اور
مہاجرین وانصار میں چند ممتاز لوگوں یعنی عمر ،عثمان ،علی ،عبدالرحمن بن عوف ،معاذ بن جبل ،ابی
بن کعب اور زید کو بالتے تھے۔ یہ سب حضرات ابوبکر کے عہد خالفت میں فتوے بھی دیتے تھے‘‘۔
حکومت کے لیے اہم امر ملک کاانتظام وانصرام ہوتاہے۔ حضرت ابوبکر کے عہد خالفت میں بیرونی
فتوحات کی ابتداء ہوئی اس لیے حکومت کادائرہ عرب تک محدود تھا۔ ٓاپ نے عرب کو متعدد صوبوں،
ضلعوں میں منقسم کردیا تھا۔ مدینہ ،مکہ ،طائف ،صنعاء ،نجران ،حضرموت اور دومۃ الجندل الگ الگ
صوبے تھے۔ ؎۷ہر صوبہ میں ایک عامل ہوتا تھا جو اپنے فرائض انجام دیتا تھا ،دارالخالفہ میں الگ
الگ عہدہ دار مقرر کیے جاتے تھے۔ حضرت ابوعبیدہ شام کی سپہ ساالری سے قبل افسرمال تھے ۔
حضرت عمر قضاء کے عہدہ پر فائز تھے حضرت عثمان اورحضرت زید بن ثابت دربار خالفت میں
کاتب (منشی) کے عہدہ پر متمکن رہے۔ ؎۸
صاحب طبری کا بیان ہے کہ عاملوں اور عہدہ داروں کے انتخاب میں حضرت ابوبکر نے ہمیشہ ان لوگوں
کو ترجیح دی جو عہد رسالت میں عامل یا عہدہ دار رہ چکے تھے اور ان سے انہی مقامات میں کام لیا
جہاں وہ پہلے خدمت انجام دے چکے تھے۔ عہد رسالت میں مکہ میں عتاب بن اسید ،طائف میں عثمان
بن ابی العاص ،صنعاء میں مہاجربن امیہ ،حضرموت پرزیاد بن لبید اور بحرین میں عالء بن الحضرمی
مامور تھے۔ خلیفہ وقت نے مذکورہ مقامات پران ہی لوگوں کو برقرار رکھا یہ ٓاپ کی سیاسی بصیرت،
اور انتظامی صالحیت کا شاہکارہے۔ ؎۹جب ٓاپ کسی کو کوئی ذمہ داری سپرد فرماتے تواس کے فرائض
کی یادہانی کراتے تھے جب عمرو بن العاص اور ولید بن عقبہ کو قبیلہ قضاعہ پر محصل صدقہ بناکر
روانہ فرمایا تو حسب ذیل نصیحت فرمائی:
’’خلوت وجلوت مینخوف خدا رکھو ،جو خدا سے ڈرتا ہے وہ اس کے لیے ایسی سبیل اور اس کے رزق
کاایسا ذریعہ پیدا کردیتا ہے جو کسی کے گمان میں نہیں ٓاسکتا جو خدا سے ڈرتا ہے وہ اس کے گناہ معاف
ٰ
تقوی ہے۔ تم خدا کردیتاہے۔ اور اس کا اجر دوباالکردیتا ہے۔ بے شک بندگان خدا کی خیرخواہی بہترین
کی ایک ایسی راہ میں ہو جس میں افراط وتفریط اور ایسی چیزوں سے غفلت کی گنجائش نہیں ہے جس
میں مذہب کا استحکام اور خالفت کی حفاظت مضمر ہے اس لیے سستی اور تغافل کو راہ نہ دینا‘‘۔
مذکورہ م ٓاخذ کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ٓاپ نے ملکی نظم ونسق کا کام فہم وفراست سے انجام
دیا۔ خوف خدا اوررعایا کے حقوق کا خیال رکھناضروری ہے تبھی فالحی ریاست کی بنیاد ڈالی جاسکتی
ہے۔
حکام کی نگرانی
حکومت کی کامیابی کاراز حکام کی نگرانی اور احتساب میں مضمر ہے۔ ٓائین و دستور کتنا ہی مرتب
ومنظم ہو۔ جب تک نگرانی نہ ہو نظم درست نہیں رہتا۔ حضرت ابوبکر انتہائی نرم خو تھے مگر انتظام
حکومت میں کسی مداہنت کو روانہ رکھتے تھے اگر حکام سے کوئی غیر مناسب امر سرزد ہوجاتا تو
سختی کے ساتھ احتساب کرتے۔ جنگ یمامہ میں مجاعہ حنفی مسیلمہ کا سپہ ساالر تھا۔ اس نے حضرت
خالد بن ولید کو دھوکہ دے کر مسیلمہ کی تمام قوم کو مسلمانوں سے بچالیا۔ حضرت خالد بن ولید نے اس
غداری پر اسے سزادینے کے بجائے اس کی لڑکی سے شادی کرلی ،چونکہ اس جنگ میں بہت سے
صحابہ شہید ہوئے تھے۔ لہٰذا ابوبکر حضرت خالد بن ولید پرسخت برہم ہوئے اور لکھا:
’’تمہارے خیمہ کی طناب کے پاس مسلمانوں کاخون بہہ رہا ہے اور تم عورتوں کے ساتھ عیش وعشرت
میں مصروف ہو‘‘۔
ایک دوسرا واقعہ حضرت خالد بن ولید ہی سے متعلق ہے ۔ مالک بن نویرہ منکر ٰ
زکوۃ تھا اس کی تنبیہ
کے لیے حضرت خالد بن ولید مامور تھے۔ انھوں نے زبانی ہدایت دینے سے قبل ہی ُاسے قتل کرڈاال۔
مالک کا بھائی شاعر تھا۔ اس نے پُر درد مرثیہ لکھا اور ظاہر کیا کہ وہ تائب ہونے کے لیے تیار تھا۔
مگر خالد نے ُاسے قتل کردیا ،اس کی خبر حضرت ابوبکر کو ہوئی تو انھوں نے خالد بن ولید کو تنبیہ
کی۔ ؎۱۲
سرحدی نظام:
جب کوئی فوج کسی مہم پر روانہ ہوتی تو اس کو مختلف دستونمیں تقسیم کرکے الگ الگ افسر مقرر
فرما تے ۔ چنانچہ شام کی جانب جب فوج روانہ ہوئی اس میں اس طریقہ پر عمل کیا گیا ،قبائل کے افسر
اور جھنڈ ے الگ ہوتے ۔ امیر االمراء کمانڈر انچیف کا نیا عہدہ بھی خلیفہ اول کی ایجاد ہے اور سب
سے پہلے خالد بن ولید اس عہدہ پر فائز ہوئے تھے۔ ؎۱۳جب کسی دستہ کو روانہ فرماتے تو اس کی
تربیت کرتے تھے۔ نیز فوج کی روانگی کے وقت خود دور تک پیدل جاتے اور ان کو نصیحت فرماتے
تھے چنانچہ ایک مرتبہ ٓاپ نے فوجی دستہ کو نصیحتیں فرمائیں:
’’تم ایک ایسی قوم کو پا ٔوگے جنھوں نے اپنے ٓاپ کو خدا کی عبادت کے لیے وقف کردیا ہے ،ان کوچھوڑ
دینا ،میں تم کو دس باتوں کی نصیحت کرتا ہوں کسی عورت ،بچے اور بوڑھے کوقتل نہ کرنا ،پھل دار
درخت کو نہ کاٹنا ،کسی ٓاباد جگہ کو ویران نہ کرنا ،بکری اور اونٹ کھانے کے سوا ذبج نہ کرنا ،نخلستان
نہ جانا ،مال غنیمت میں غبن نہ کرنا اور بزدل نہ ہونا‘‘۔
ٓاپ فوجی چھا ٔونیوں کابذات خود معائنہ کرتے تھے اور کوئی خرابی نظر ٓاتی تو اصالح فرماتے تھے۔
چنانچہ ایک مرتبہ مقام جرف میں فوجیں جمع تھیں۔ حضرت ابوبکر صدیق وہاں تشریف لے گئے بنی
فزارہ کے پڑا ٔو میں پہنچے تو سب تعظیم میں کھڑے ہوگئے انھوں نے ہر ایک کو مرحبا کہا ان لوگوں
نے عرض کیا ،یا خلیفہ ہم لوگ گھوڑوں پر خوب چڑھتے تھے اس لیے گھوڑے بھی ساتھ الئے ہیں ٓاپ
جھنڈ ہمارے ساتھ کردیجیے ،فرمایا خدا تمہاری ہمت وارادہ میں برکت دے ،لیکن بڑا جھنڈ تم کو نہیں مل
سکتا کیوں کہ وہ بنو عبس کے حصہ میں ٓاچکا ہے۔ اس پر ایک فزاری نے کھڑے ہوکر کہا ،ہم لوگ
عبس سے اچھے ہیں حضرت ابوبکر نے خاموش کردیا اس طرح فوجی چھا ٔونیوں میں جاکر قبائل کی
باہمی رقابت کا ازالہ کرتے اور اسالمی رواداری کا پیغام دیتے تھے۔ ؎۱۵فوج کے لیے جنگی سامان
کاانتظام بھی کرتے تھے۔ مختلف ذرائع سے جو ٓامدنی ہوتی تھی اس کا ایک حصہ جنگی سامان کی
خریداری میں صرف فرماتے ؎۱۶ ،اونٹ گھوڑوں کی پرورش کے لیے مقام بقیع ایک مخصوص
چراگاہ تیار کرائی تھی جس میں ہزاروں جانور پرورش پاتے تھے۔ مقام ربذہ میں بھی ایک چراگاہ تھی
جس میں صدقہ اور ٰ
زکوۃ کے جانور چرتے تھے۔ ؎۱۷یہ خالفت صدیقی کافوجی نظام تھا جہاں اخالقی،
ایمانی تربیت کا اہتمام تھا اور حقوق انسانی کی حفاظت کی جاتی تھی۔
مالی انتظام
عہد صدیقی میں پہلے سال ٓاپ نے ایک فرد کو دس دس درہم عطا کیے دوسرے سال جب ٓامدنی زیادہ
ہوئی تو بیس بیس درہم مرحمت فرمائے ایک شخص نے اس مساوات پر اعتراض کیا تو فرمایا کہ فضل
وبرتری اور چیز ہے اس کو رزق کی کمی بیشی سے کیا تعلق ہے۔ ؎۱۸لیکن اس میں کبھی کسی بڑی
رقم کے جمع ہونے کا موقع نہ ٓایا۔ اس لیے بیت المال کی حفاظت کا نظم نہیں کیاگیا۔ ایک مرتبہ کسی نے
کہا کہ یا خلیفہ ٓاپ بیت المال کی حفاظت کے لیے کوئی محافظ کیوں نہیں مقرر فرماتے؟ فرمایا اس کی
حفاظت کے لیے ایک قفل کافی ہے۔ ؎۱۹
حدود وتعزیرات
اگر گنجائش ہوتی تو حضرت ابوبکر مجرموں کے ساتھ ہمدردانہ برتا ٔو کرتے تھے چنانچہ اشعث بن قیس
جو مدعی نبوت تھا گرفتار ہوکر ٓایا اور توبہ کرکے جان بخشی کی درخواست کی تو ٓاپ نے نہ صرف
اس کو رہا کردیا بلکہ اپنی ہمشیرہ ام فردہ سے اس کا نکاح کردیا۔ ؎۲۰خلیفہ وقت کا پہال فرض قوم
وملت کی اخالقی نگرانی اور رعایا کے حقوق کا تحفظ ہے ۔ ٓاپ نے حضرت عبدہللا بن مسعود کو پہرہ
دار مقرر فرمایا اور بعض جرائم کی سزائیں متعین کردیں۔ مث ً
ال حد خمر کے تعلق سے حضرت ابوبکر
صدیق نے اپنے دور حکمرانی میں چالیس درے متعین فرمائے۔ ؎۲۱
ایک دفعہ مہاجربن امیہ نے جو یمامہ کے امیر تھے دوگانے والی عورتوں کو رسول کی ہجو کرنے اور
مسلمانوں کوبُرا کہنے کی سزا دی ا ور پاداش میں ہاتھ کاٹ دئیے اور دانت اکھڑوا ڈالے حضرت
ابوبکر کو معلوم ہوا تو انھوں نے اس سزا پر برہمی ظاہر فرمائی اور لکھا کہ انبیاء کا سب وشتم بڑا جرم
ہے اور اگر تم سزا میں عجلت نہ کرتے تو میں ُان کے قتل کاحکم دیتا گالی دینے سے وہ مرتد ہوگئی
الب ّتہ اگر ذمیہ تھی تو اس کے لیے معمولی تنبیہ اور تادیب کافی تھی ۔ یہ تمہاری پہلی خطا نہ ہوتی تو
تمھیں اس کاخمیازہ اٹھانا پڑتا دیکھو مثلہ سے ہمیشہ دور رہو یہ نہایت نفرت انگیز گناہ ہے ۔ ؎۲۲اس
سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٓاپ نے حدود وتعزیرات کا نفاذ کرتے ہوئے حقوق انسانی کا خیال رکھا خاص طور
پر غیر مسلم رعایا کے سلسلے میں زور دیا کہ ان کے حقوق پامال نہ ہوں۔
مذہبی خدمات:
ٓاپ کے زمانہ شورش اور بغاتیں وجود میں ٓائیں مگر ان کو ٓاپ نے اپنی دانش مندی سے فرو کردیا ٓاپ
ٰ
دعوی کے زمانہ میں بعض جھوٹے مدعیان نبوت پیدا ہوچکے تھے مسیلمہ کذاب نے تو ۱۰ھ میں نبوت کا
کیاتھا اور ٓانحضرت کو لکھا تھاکہ میں ٓاپ کے ساتھ نبوت میں شریک ہوں۔ ٓ ؎۲۳اپ کی حیات طیبہ کے
بعد دیگر مدعیان نبوت نے سر اٹھایا۔ طلحہ بن خویلد نے نبوت کااعالن کیا اس کی حمایت پر بنو غطفان
تھے ،اور عیینہ بن حصن فزاری ان کاسردار تھا۔ اسی طرح اسود عنسی نے یمن میں اور مسلمہ بن حبیب
ٰ
کادعوی نے یمامہ میننبی ہونے کے دعوے کیے۔ ایک عورت سجاع بنت حارثہ تمیمیہ نے بھی نبوت
کیانیز اشعث بن قیس اس کا داعی خاص تھا۔ سجاع نے اپنی نبوت مضبوط کرنے کے لیے مسیلمہ کذاب
سے شادی کرلی تھی۔ ان اسباب کی بنیاد پر ضروری تھا کہ اس مسموم فضاکو فوری طور پرروکا جائے
چنانچہ حضرت خالد بن ولید ۱۱ھ میں حضرت ثابت بن قیس انصاری کے ساتھ مہاجرین وانصار کی
ایک جمعیت لے کر مدعیان نبوت کی سرکوبی کے لیے روانہ ہوئے۔ ؎۲۴
رسو ِل اکرمﷺ کے بعد بہت سے سرداران عرب مرتد ہوگئے تھے۔ ایک اپنے حلقہ کابادشاہ بن بیٹھاتھا۔
نعمان بن منذر نے بحرین ،لقیط بن مالک نے عمان میں علم بغاوت بلند کیا۔ اس فتنہ کا انسداد بھی ضروری
تھا۔ چنانچہ مدعیان نبوت سے فراغت کے بعد اس فتنہ کا سرکچال گیا۔ مذکورہ گروہوں کے عالوہ ایک
اور گروہ پیدا ہوگیا تھا۔ یہ منکرین زکوۃ تھے۔ یہ گروہ اپنے ٓاپ کو مسلمان کہتا تھا اور صرف زکوۃ ادا
کرنے سے منکر تھا اس لیے اس کے خالف تلوار اٹھانے میں خود صحابہ میں اختالف رائے ہوگیا تھا۔
مگر حضرت ابوبکر صدیق ؓنے صاف کہا کہ قسم خدا کی اگر ایک بکری کا بچہ بھی جورسول
کےزمانے میں دیا جاتا تھا کوئی دینے سے انکار کرے گا تو میں اس سے جہاد کروں گا۔ اس تنبیہ کا
اثر یہ ہوا کہ تمام منکرین زکوۃ بارگاہ خالفت میں حاضر ہوئے۔ ؎۲۵
مدعیان نبوت اورمرتدین اسالم کی سرکوبی میں بہت سے حفاظ کرام شہید ہوئے۔ خصوص ًا یمامہ کی خوں
ریز جنگ میں چنانچہ حضرت عمر کو اندیشہ ہوگیا کہ اگر صحابہ کی شہادت کا یہی سلسلہ قائم رہا تو
قر ٓان مجید کی حفاظت کس طرح ہوسکے گی۔ اس لیے انھوں نے خلیفہ اول سے ایک جلد میں قر ٓان کی
جمع وترتیب کی تحریک کی۔ حضرت ابوبکرصدیق کو پہلے عذرہوا کہ جس کام کورسول نے نہیں کیا
ہے میں اس کو کس طرح کروں حضرت عمر نے کہا یہ کام اچھا ہے چنانچہ حضرت عمر کے اصرار
سے حضرت ابوبکر کے ذہن میں بھی بات ٓاگئی انھوں نے حضرت زید بن ثابت کو جو عہد نبوت میں
کاتب وحی تھے قر ٓان کے جمع کرنے کا حکم دیا پہلے ان کو بھی اس کام میں عذر ہوا ،لیکن اس کی
مصلحت سمجھ میں ٓاگئی۔ اورنہایت کوشش کے ساتھ تمام متفرق اجزاء کو جمع کرکے ایک ِجلد کی
صورت میں مدون کیا۔ ؎۲۶
حضرت ابوبکر صدیق نے تقریب ًا پانچ سو حدیثیں جمع فرمائی تھیں لیکن وفات کے کچھ دنوں پہلے اس
خیال سے ان کو ضائع کردیا کہ شاید اس میں کوئی روایت خالف واقعہ ہو تو یہ بار میرے سر رہ جائے
گا لیکن عالمہ ذہبی نے اس خیال کی تغلیط کی ہے۔ البتہ انھوں نے احادیث کے متعلق نہایت احتیاط سے
کام لیا۔
حضرت ابوبکر نے مسائل کی تحقیق وتنقید اور عوام کی ٓاسانی کے خیال سے افتاء کا ایک محکمہ قائم
کیا۔ حضرت عمر ،حضرت عثمان ،حضرت علی ،حضرف عبدالرحمن بن عوف ،حضرت معاذ بن جبل،
حضرت ابی بن کعب ،حضرت زید بن ثابت جیسے اہم فقیہہ ومجتہد اس خدمت پر مامور تھے۔ ؎۲۸
حضرت ابوبکر نے اسالم کی دعوت و تبلیغ پر توجہ کی اور عرب کا بیش تر عالقہ حلقہ اسالم مینداخل
کرلیا ۔
حوالے وحواشی
ماخذ کے مطابق اس وقت کے حاالت یہ تھے کہ جزیرہ نمائے عرب کی سرحد دنیا کے دو عظیم
سلطنتوں سے ٹکراتی تھی۔ ایک طرف شام پر رومی اثر تھا ،تو عراق پر کیانی خاندان کاتسلط
تھا ،ان دونوں ہمسایہ سلطنتوں نے ہمیشہ کوشش کی کہ عرب کے ٓازاد جنگجو باشندوں پر اپنی
حکمرانی کا سکہ جمائیں ،خصوص ًا ایرانی سلطنت نے اس مقصد کے لیے بارہا اہم قربانیاں پیش
کی۔ بڑی بڑی فوجیں اس مہم کو سر کرنے کے لیے بھیجیں اور بعض اوقات اس نے عرب کے
ایک وسیع خطہ پر تسلط بھی کرلیا۔ چنانچہ شاپور بن اردشیر جو سلطنت ساسانیہ کادوسرا فرمان
روا تھا اس کے عہد حجاز ویمن دونوں باجگداز ہوگئے تھے اسی طرح ساپور ذی االکناف یمن
وحجاز کو فتح کرتا ہوا مدینہ منورہ تک پہنچ گیاتھا۔ یہ عربوں کا حد درجہ دشمن تھا جو روسائے
عرب گرفتار ہوکر جاتے تھے وہ ان کے شانے اکھاڑ ڈالتاتھا اسی وجہ سے یہ دو االکتاف (شانوں
والے) کے لقب سے مشہور ہوا (تاریخ الطوال )۴۹
یعقوبی، ؎۱۲
۱۳ ج۱۴۸ ،۲:
ایض ًا ،ص۱۴۹ : ؎
؎۲۵ایض ًا ،اور حضرت خالد بن ولید نے سب سے پہلے طلیحہ کی جمایت پر حملہ کرکے اس کے متبعین
کو قتل کیا اور عیینہ بن حصن کو گرفتار تیس قیدیوں کے ساتھ مدینہ روانہ کیا اور عیینہ بن حصن نے
مدینہ پہنچ کر اسالم قبول کرلیا لیکن طلیحہ شام کی طرف بھاگ گیا اور وہاں سے خودخواہی کے طور
پر دو شعر لکھ کر بھیجے اور تجدید اسالم کرکے اسالم میں داخل ہوگیا۔ (تاریخ یعقوبی ،ج،۳:ص)۱۲۵ :
اس طرح مسیلمہ کذاب کی بیخ کنی کے لیے حضرت شرحبیل بن
حسنہ روانہ کیے گئے ،لیکن قبل اس کے کہ وہ حملہ کی ابتدا کریں حضرت خالد بن ولید کو ان کی اعانت
کے لیے روانہ کیا گیا ،چنانچہ انھوں نے مجاعہ کو شکست دی اس کے بعد خود مسیلمہ سے مقابلہ ہوا
مسیلمہ نے اپنے متبعین کو ساتھ لے کر نہایت شدید جنگ کی اور مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس
میں شہید ہوئی جس میں بہت سارے حفاظ قر ٓان تھے۔ البتہ ٓاخری فتح مسلمانوں کے ہاتھ رہی اور مسیلمہ
کذاب حضرت وحشی کے ہاتھ سے مارا گیا ،مسیلمہ کی بیوی سجاح خود مدعی نبوت تھی بھاگ کر بصرہ
پہنچی اور کچھ دنوں کے بعد مرگئی ،ایض ًا)۱۴۷ ،
اسود عنسیٰ جو نبوت کا دعویدار تھا حضرت ابوبکر کے زمانہ میں
اس کی قوت زیادہ بڑھ گئی تھی اس کو قیس بن مکشوح اور فیروز دیلمی نے نشہ کی حالت میں واصل
جہنم کیا۔ طبری ،ج ،۲تذکرہ
صحیح البخاری ،کتاب ابواب فضائل القر ٓان۔ یہاں یہ وضاحت کرنا ضروری ؎۲۷
ہے کہ قر ٓان شریف کی ٓایتیں نازل ہونے پر کاتب ُان کو ،ہڈی ،چمڑے ،پتھر یا کسی قسم کے کاغذ پر لکھ
لیتے تھے۔ اور محمد کی ہدایت کے مطابق ترتیب دیتے تھے اور ٓانحضرت الگ الگ لکھواتے جاتے
غرض اس طرح ٓاپ کے زمانہ میں سورتیں مدون ومرتب ہوچکی تھیں اور ان کے نام بھی قرار پاچکے
تھے۔ حدیثوں میں ذکر ٓاتا ہے کہ محمد نے نماز میں فالنفالں سورتیں پڑھیں۔ یا فالں سورت سے فالں
تک تالوت فرمائی ،ماخذ میں ہے کہ ٓاپ نے سورہ بقرہٓ ،ال عمراں اور نساء پڑھی ،سورہ فاتحہ اور سورہ
اخالص کے ذکر سے توشاید حدیث کی کوئی کتاب خالی نہ ہوگی۔
-سوال 2
جواب
حضرت عمر فاروق ِ اعظم رضی ہللا عنہ تاریخ اسالم کی ایسی شخصیت ہیں جن کا دور ِ خالفت قیامت
تک کے ٓانے والے حکمرانوں کے لیے مشع ِل راہ ہے۔ ٓاپ نے اپنی سیاسی بصیرت سے اسالمی سلطنت
کو وسعت دے کر تقریب ًا ۲۳الکھ مربع میل تک پھیالیا۔ ٓاپ رضی ہللا عنہ نے دس سالہ عہ ِد خالفت میں
بڑی بڑی سلطنتوں کو اپنے زیر ِ نگیں کیا۔ تاریخ کے نامور فاتح سکندر ِ اعظم ،چنگیز خان اور تیمور
لنگ کے ناموں سے کون واقف نہیں۔ انہوں نے بھی بڑی بڑی فتوحات کیں ،کئی ممالک کو زیر ِ نگیں
کیا۔ مگر جب وہ فتوحات سے فارغ ہوتے تو جگہ جگہ انسانی الشیں ،کھوپڑیوں کے پہاڑ ،خون کی
ندیاں ،ہر جگہ ویرانی نظر ٓاتی۔ وہ جہاں سے گزرتے اسے ویران کردیتے۔ مگر حضرت عمر فاروق
رضی ہللا عنہ کے عہ ِد خالفت میں خون کا ایک قطرہ بھی نہیں گرپایا۔ ایران و روم جیسی سپر پاور
سلطنتیں جس انداز اور احتیاط سے فتح ہوئیں کہ بڑے بڑے تاریخ دان ظلم و ستم کی ایک مثال بھی پیش
نہ کرسکے۔ فتوحات سے بڑھ کر ٓاپ نے نظام حکومت کو منظم کیا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ٓاپ کے
دور میں حکومت اور سلطنت کا باقاعدہ نظام شروع ہوا۔ ٓاپ نے نظام حکومت کو چالنے کے لیے متعدد
محکمے اور انتظامی شعبہ جات قائم کیے اور ان سب سے نگران مقرر فرمائے۔ ٓاپ نگران مقرر کرنے
:کے بعد ان کا احتساب بھی کیاکرتے تھے۔ ٓاپ کے عہد خالفت کا انتظامی ڈھانچہ مندرجہ ذیل ہیں
:نظام عدل
ٓاپ نے عدل و انصاف کا ایسانظام قائم کیا کہ تاریخ اتنی وسیع و عریض سلطنت میں ظلم و زیادتی کی
ایک مثال بھی پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ٓاپ کے دور کا نمایاں وصف عد ل وانصاف ہے۔ ٓاپ کے دور ِ
حکومت میں انصاف سے کبھی بھی سر ِ مو انحراف نہیں ہوا۔ یہ انصاف صرف مسلمانوں تک محدود
نہیں تھابلکہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی انصاف روا رکھاجاتا تھا۔ یعنی نظام عدل میں مسلم او رغیر
مسلم کا کوئی فرق نہیں تھا۔ ٓاپ کے ایوا ِن عدل میں اعلیٰ و ادنی ،امیر و غریبٓ ،اقا وغالم ،خویش و
بیگانہ سب برابر تھے۔ جو بھی ظالم ثابت ہوتا ،اسے سزا دی جاتی۔ اسی نظام سے متاثر ہوکر غیر مسلم
حلقہ بگوش اسالم ہوتے۔
:نظام قضاء
حضرت عمر فاروق رضی ہللا عنہ قضاۃ کے معاملے میں بڑی احتیاط سے کام لیتے تھے۔ ٓاپ اس
ٰ
تقوی ،ذہانت اور قوت فیصلہ مسلم منصب کے لیے انہی بزرگوں کا انتخاب فرماتے تھے جن کا علم
تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ٓاپ کے عہد میں نظام انصاف بے مثال تھا۔ ٓاپ نے انسداد رشوت کے لیے
قاضیوں کی بیش بہا تنخواہیں مقرر کیں۔ یہ قاعدہ مقرر کیا کہ دولت مند اور معزز شخص کے عالوہ
معمولی ٓادمی قاضی نہیں ہوسکتا اور اس کی وجہ یہ ظاہر کی کہ دولت مند رشوت کی طرف ر ٖاغب نہ
ہوگا اور معزز شخص فیصلہ کرنے میں کسی کے رعب سے متاثر نہیں ہوگا۔ (تاریخ اسالم ،ص )۱۷۲
حضرت عمر فاروق رضی ہللا عنہ کا یہ طرز ِ عمل رہتی دنیا تک کے لیے عظیم مشع ِل راہ ہے کہ
قاضی (جج) کو کسی کے بھی زیر ِ اثر نہیں ہونا چاہیے اور تمام تر شہادتوں کو پیش ِ نظر رکھتے ہوئے
بغیر کسی شخص کے دبا ٔو میں ٓاکر فیصلہ کرنا چا ہیے۔
:نظام احتساب
ٓاپ نے احتساب کا سخت نظام قائم کیا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ اپنے گھر والوں کا بھی سخت احتساب فرمایا
کرتے تھے۔ کتب تاریخ میں ایسے کئی واقعات ہیں جن میں ٓاپ نے اپنے بیٹے ،بیٹی اور زوجہ کا
احتساب کیا اور انہیں تنبیہ کی۔ ٓاپ بطور ِ احتیاط بعض اوقات ایسے کاموں سے بھی اپنے گھروالوں کو
منع کرتے تھے جو فی نفسہ جائز اور مباح ہوتے تھے۔
:پولیس کا محکمہ
ٓاپ نے پولیس کا باقاعدہ اور مستقل محکمہ قائم کیا تاکہ امن وامان کے قیام کو یقنی بنایا جاسکے اور
شہریوں کے جان و مال کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ لوگوں کے مختلف معامالت پر نظر رکھنے کے
لیے ٓاپ نے مختلف پولیس افسروں کومقرر کررکھاتھا۔ اس محکمہ کا کام امن و امان کے قیام کے ساتھ
ساتھ معموالتِ زندگی میں غیر قانونی اور غیر اسالمی افعال سے روکنا بھی تھا۔
:جیل خانے
ٓاپ نے جیل خانے قائم کیے جن میں مختلف جرائم پیشہ لوگوں کو قید کیا جاتا تھا۔ ٓاپ نے سب سے
پہلے مکہ میں چار ہزار درہم کے عوض صفوان بن امیہ کا گھر خرید کر اسے جیل خانہ بنایا۔ اس کے
عالوہ دیگر اضالع میں بھی جیل خانے بنائے۔
:محکمہ ٔ ٓابپاشی
ٓاپ نے زراعت کی سیرابی اور رعایا کی ضرورت کے لیے متعدد نہریں کھدوائیں۔ ٓاپ نے ٓابپاشی کا
وسیع محکمہ قائم کیا۔ مقریزی کے بیان کے مطابق خاص مصر میں ایک الکھ بیس ہزار مزدور حکومت
کی جانب سے اس کام میں لگے رہتے تھے۔ (تاریخ اسال م ،ص )۱۷۵
ٓاپ نے بیت المال کے نظام کو وسعت دی۔ تمام صوبوں اور مرکزی مقامات میں بیت المال قائم کیے اور
ان کے لیے وسیع عمارتیں بنوائیں اور دیانتدار افسران کا تقرر کیا۔ حضرت عبدہللا بن ارقم رضی ہللا
عنہ پہلے وزیر ِ خزا نہ مقرر کیے گئے۔
:نظام تعلیم
ٓاپ نے تمام مفتوحہ عالقوں میں قر ٓان پاک کی درس و تدریس کا معاملہ شروع کروایا۔ اس کے لیے ٓاپ
نے قر ٓان سکھانے والے معلمین کو مقرر فرمایا جو لوگوں کو قر ٓان کی تعلیم دیتے تھے۔ ٓاپ کے عہد
میں قر ٓان کی تعلیم الزمی تھی۔ ٓاپ نے حضرت ابوسفیان رضی ہللا عنہ کو چند ٓادمیوں کے ساتھ روانہ
فرمایا کہ وہ قبائل مینجاکر ہر شخص کا امتحان لیں اور جسے قر ٓان کا کوئی حصہ یاد نہ ہو ،اسے
سزادیں۔ ٓاپ نے اس کا نصاب بھی مقرر فرمایا ،ایک روایت کے مطابق سورۃ البقرۃ ،سورۃ النساء،
سورۃ المائدۃ ،سورۃ الحج کو یاد کرنا ضروری قرار دیا۔ (تاریخ اسالم ،ص )۱۷۹
الغرض دور ِ فاروقی تاریخ ِ اسالم کا ایک عظیم اور مثالی دور گزرا ہے جس میں اسالمی ریاست کے
انتظام و انصرام کے درست تصور کی عملی تصویر پیش کی گئی۔ اتنی بڑی سلطنت کے حاکم ہونے
کے باجود سادگی ،عاجزی اور انکساری ٓاپ کا خاصہ تھی۔ ٓاپ کے پیش ِ نظر خدمت خلق کا جذبہ تھا۔
ٓاپ نے رعایا کی خبر گیری کو الزم رکھا اور ٓاپ نے عوام کے لیے اپنا دروازہ کھال رکھنے کی پالیسی
اپنا رکھی تھی ،نیز اپنے گورنروں اور دیگر اہلکارو ں کو ہدایت دے رکھی تھی کہ عوام پر اپنے
دروازے ہمیشہ کھلے رکھیں او ر مظلوموں کی داد رسی کریں۔یہی وجہ ہے کہ عدل و انصاف اور
رعایاکی خبر گیری میں ٓاج بھی دور ِ فاروقی کوبطور ِ مثال پیش کیاجاتا ہے۔
جواب
ان کے عہد خالفت میں جمع قرآن مکمل ہوا ،مسجد حرام اور مسجد نبوی کی توسیع ہوئی اور قفقاز،
خراسان ،کرمان ،سیستان ،افریقیہ اور قبرص فتح ہو کر سلطنت اسالمی میں شامل ہوئے۔ نیز انھوں نے
اسالمی ممالک کے ساحلوں کو بازنطینیوں کے حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اولین مسلم بحری
فوج بھی بنائی
عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف قریشی اموی ہیں۔ ان کا نسب اور
رسول ہللا ﷺ کا نسب عبد مناف میں مل جاتا ہے۔ ان کی کنیت ابو عبد ہللا تھی اور بعض لوگوں نے ابو
عمرو بیان کی ہے اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ پہلے ان کی کنیت ابو عمرو تھی ،پھر ان کی کنیت ابو
ٰ
اروی بنت کریز بن عبد ہللا ہو گئی جن کی والدہ رقیہ بنت رسول ہللا ﷺ تھیں۔ عثمان بن عفان کی والدہ
ٰ
اروی کی والدہ بیضاء ربیعہ بن حبیب بن عبد شمس جو عبد ہللا بن عامر کی پھوپھی زاد بہن تھیں اور
بنت عبد المطلب تھیں جو رسول کریم ﷺ کی پھوپھی تھیں۔ ذو النورین آپ کا لقب تھا۔ ( اسد الغابہ از
الشیخ م ٔورخ عز الدین بن االثیر ابی الحسن علی بن محمد الجزری)
:-عثمان غنی رضی ہللا عنہ کی والدت سے متعلق عالمہ الشیخ سیّد الشبلنجی المدعو بم ٔومن لکھتے ہیں
ُولد عثمان بالطائف بالستۃ السادسۃ من عام الفیل۔”(کتاب نور االبصار فی مناقب آل بیت النبی المختار )"
” یعنی " :عثمان غنی طائف میں عام الفیل کے چھٹے سال پیدا ہوئے۔
بنو امیہ کا خاندان زمانہ جاہلیت سے ہی معزز چال آتا تھا۔ جمیع قریش میں بنی ہاشم کے سوا کوئی ان کا
ہمسر نہیں تھا۔ آپ کا خاندان امیہ بن عبد شمس کے نام سے منسوب ہو کر اموی کہالتا تھا۔
قبو ِل اسالم
عثمان غنی رضی ہللا عنہ نے بچپن میں ہی پڑھنا لکھنا سیکھ لیا تھا جب جوان ہوئے تو تجارت شروع
فرما دی اور دیانت و راستی اور معاملہ فہمی کی بنا پر جلد شہرت حاصل ہو گئی اور مال و دولت کی
فراوانی کے باعث آپ غنی کے نام سے مشہور ہوئے۔ عثمان غنی کے سیدنا ابوبکرسے گہرے دوستانہ
تعلقات تھے ۔ جب سیدنا ابوبکر اسالم الئے تو انہوں نے اپنے دوست و احباب میں اسالم کا تذکرہ کیا ،
چنانچہ جن نیک دل و مخلص لوگوں نے اسالم قبول کیا ان میں سیدنا عثمان غنی بھی تھے۔ اس بارے
:-میں عالمہ شیخ سید الشبلنجی مذکور لکھتے ہیں
وکان اسالمہ علیٰ ید ابی بکر۔”(نور االبصار)"
”یعنی " :انہوں نے سیدنا ابوبکر کے ہاتھوں اسالم قبول کیا۔
سیدنا عثمان غنی کی سیرت و کردار امت مسلمہ کے لیے ایک مثالی اور عظیم تاریخی باب ہے۔ جنہوں
نے اپنے گہرے دوست سیدنا ابوبکر کے ذریعے نبی کریم ﷺ کے ہاتھ پر بیعت اسالم کی ۔ یہ آپ کی
دیانت داری اور نیک نیتی کا واضح ثبوت ہے کہ آپ نے اپنے خاندانی دبا ٔو کے قطع نظر اسالم کی
حقانیت قبول کرلی۔ آپ کے اموی خاندان کے بڑے بڑے سردار عقبہ بن معیط اور ابو سفیان وغیرہ کی
مخالفت کے باوجود دین اسالم پر استقامت اختیار رکھی اور ایمان و علم و حلم اور اخالق و کردار کے
لحاظ سے انتہائی عظیم ثابت ہوئے ۔ آپ کا شمار سابقین اولین ،عشرہ مبشرہ اور خلفاء راشدین میں ہوتا
ہے۔
دور ِ خالفت
سیدنا عمر فاروق کی شہادت کے بعد مخالفین اسالم نے یہ خیال پیدا کیاکہ ممکن ہے کہ اب اسالمی
خالفت و حکومت برقرار نہ رہ سکے۔ اس حوالے سے شہادت فاروق اعظم کے فور ًا بعد بعض مفتوحہ
عالقے ،خاص طور پر ایران کے اکثر عالقوں میں بد نظمی اور بغاوتیں شروع ہونے لگیں۔ لیکن امیر
المومنین سیدنا عثمان غنی نے اپنی حکمت و دانائی سے ان پر قابو پا لیا۔ آپ سیدنا عمر فاروق کی
شہادت کے بعد مشاورت اور متفقہ رائے سے خلیفۃ المسلمین منتخب ہوئے تھے۔ عظیم م ٔورخ ابو عبد ہللا
محمد بن سعد بن منیع الزہری لکھتے ہیں سب سے پہلے جس نے سیدنا عثمان غنی سے بیعت کی وہ
عبد الرحمٰ ن ہیں پھر علی بن ابی طالب دوسری روایت عبد ہللا بن سنان االسدی سے مروی ہے کہ جب
عثمان غنی خلیفہ بنائے گئے تو عبد ہللا بن مسعود نے کہا کہ ہم نے سب سے برتر صاحب نصیب سے
کوتاہی نہیں کی۔ (طبقات ابن سعد) یہ بھی روایت ہے کہ سیدنا علی المرتضینے امیر المومنین سیدنا
عثمان غنیکی سب سے پہلے بیعت کی اس کے بعد پے در پے لوگ آئے اور بیعت کرنے لگے۔(حوالہ
مذکور)
خالفتِ عثمانی کے آغاز میں عاملین
موالنا ابو القاسم رفیق دالوری لکھتے ہیں خالفت عثمانی کے آغاز میں امیر المومنین کے عامل یہ تھے۔
مقام عمل
نام عامل
مکہ معظمہ
نافع بن عبد الحارث الخزاعی
طائف
سفیان بن عبد ہللا ثقفی
صنعاء
یعلیٰ بن امیہ
جند
عبد ہللا بن ربیعہ
کوفہ
مغیرہ بن شیبہ
بصرہ
ابو موسیٰ اشعری
مصر
عمرو بن العاص
حمص
عمیر بن سعد
شام
معاویہ بن ابی سفیان
بحرین و توابع
عثمان بن ابی العاص ثقفی
قضائے کوفہ
شریح
قضائے بصرہ
کعب بن سور
)سیرت ذو النورین بحوالہ ابن اثیر(
سیدنا عمر فاروق اپنے دور ِ خالفت میں ملکی نظم و نسق اور طریقہ خالفت و حکومت کا ایک مستحکم
و مربوط اور مضبوط دستور العمل بنا چکے تھے جس کے باعث امیر المومنین سیدنا عثمان غنی کے
لیے معاملہ سہل و آسان اور ساف نظر آ رہا تھا۔ انہوں نے خلیفہ اول ابوبکر صدیقکی اعتدال پسندی اور
خلیفہ ثانی سیدنا عمر فاروق کے تدبر و تفکر اور حکمت عملی کو اپنا شعار بنایا۔ تقریب ًا ایک سال تک
سابقہ نظام میں کوئی تبدیلی مناسب نہیں سمجھی۔ تاہم خلیفہ ثانی کی وصیت کو مد نظر رکھتے ہوئے
مغیرہ بن شیبہ کو ہٹا کر ان کی جگہ سیدنا سعد بن ابی وقاص کو کوفہ کا والی مقرر کیا۔ عالمہ شیخ
– :جالل الدین عبد الرحمٰ ن بن ابی بکر السیوطی لکھتے ہیں
وفي ھذہ السنة من خالفته فتحت الري ،وكانت فتحت وانتقضت ،وفیھا أصاب الناس رعاف كثیر ،فقیل "
لھا :سنة الرعاف ،وأصاب عثمان رعاف حتى تخلف عن الحج وأوصى ،وفیھا فتح من الروم حصون كثیرۃ،
وفیھا ولى عثمان الكوفة سعد بن أبي وقاص وعزل المغیرۃ۔”( تاریخ الخلفاء )
یعنی :جس سال سیدنا عثمان غنی خلیفہ منتخب ہوئے تو اسی سال ملک َرے فتح ہوا اور اسی سال
لوگوں میں نکسیر کا مرض پھیل گیا یہاں تک کہ سیدنا عثمان غنی بھی اس مرض میں مبتال ہوگئے اور
حج کرنے کا ارادہ تھا لیکن اس کے باعث ارادہ ترک کر دیا۔ اور مرض کی صورت حال کو مد نظر
رکھتے ہوئے آپ نے وصیتیں بھی شروع فرما دیں اور اسی مرض کی وجہ سے اس سال کا نام بھی
سنۃ الرعاف یعنی نکسیر کا سال رکھا گیا۔ اس سال ملک روم کے اکثر حصے فتح ہو چکے تھے اور
سیدنا عثمان غنی نے اسی سال مغیرہ کو کوفہ سے معزول کر کے سیدنا سعد بن ابی وقاص کو ان کی
جگہ حاکم و گورنر مقرر کر دیا۔
فتوحاتِ عثمانی
جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ امیر المومنین سیدنا عمر فاروق کی شہادت کے بعد مخالفین اسالم نے
یہ سمجھنا شروع کردیا تھا کہ اب مسلمان کمزور ہو چکے ہیں۔ کیونکہ سیدنا فاروق ِ اعظم ایک حیرت
انگیز مدبر و مفکر اور معاملہ فہم تھے۔ مزید یہ کہ ان کے دور میں جمیع مسلمان رشتہ وحدت میں
منسلک تھے۔ انہوں نے وحدت عقیدہ ،وحدت جنس و قوم اور وحدت زبان و بیان کے ذریعے تمام اہل
اسالم کو مستحکم و مربوط اور متحد بنا دیا تھا۔ اور فاروق اعظم نے خالفت و حکومت کے وہ آئین و
قانون وضع کیے جو بعد میں ایک مثالی حکومت کی اساس قرار پائے۔ اس لحاظ سے سیدنا عمر فاروق
کو اسالم کے سیاسی نظام کا بانی قرار دیا جا سکتا ہے۔
جب سیدنا عثمان غنی خلیفۃ المسلمین منتخب ہوئے تو شر پسند عناصر نے آپ کے خالف سازشیں اور
بغاوتیں شروع کر دیں خصوص ًا ایران کے اکثر عالقوں میں شدید مخالفت شروع ہوئی ،اور خلیفہ ثالث
کے بارے میں لوگوں کی عقول و اذہان میں یہ خیال پیدا کیا گیا کہ خالفتِ عثمانی فتنہ و فساد کا دور
ثابت ہوگا۔ جو مخالفین کا ایک بڑا مغالطہ تھا۔ خلفا ِء اربعہ میں سب سے زیادہ طویل دور ِ خالفت سیدنا
عثمان غنی کا دور ِ مسعود ہے۔ امیر المومنین سیدنا عثمان غنی کا دور ِ خالفت عرصہ تقریب ًا بارہ سال رہا
ان کے دور ِ خالفت میں کئی فتوحات ہوئیں اور مجاہدی ِن اسالم اپنی جرأت و ہمت اور جذبے سے آگے
بڑھتے گئے اور فتوحات کا دائرہ بھی وسیع سے وسیع تر ہوتا چال گیا۔
امیر المومنین سیدنا عثمان غنی اگرچہ حلیم الطبع تھے لیکن ملکی معامالت میں سختی و احتساب اور
سنجیدگی کو اپنا شعار بنایا۔ اطراف ملک کے حاالت لوگوں سے دریافت کرتے اور ان کے حاالت غور
و فکر سے سماعت فرماتے ،تمام ملک میں اعال ِن عام تھا کہ جس شخص کو کسی عامل و گورنر سے
کوئی شکایت ہو تو وہ حج کے موقعہ پر آ کر بیان کرے۔
فتح َرے
پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ خالفت عثمانی کے سا ِل اول میں ملک َرے فتح ہوا اور اسی کو امام سیوطی
نے اپنی کتاب تاریخ الخلفاء میں بیان کیا ہے۔
ڈاکٹر غالم جیالنی برق "معجم البلدان” کی تلخیص میں لکھتے ہیںَ :رے :طہران کے جنوب مشرق
میں ایک اہم شہر ہے ،جو امام فخر الدین رازی ،ابوبکر الرازی اور دیگر متعدد حکماء و علماء کا مولد
تھا۔ بعض نے لکھا ہے کہ یہ عالقہ دریائے جیحون کے ساحل پر بخارا کے سامنے واقع ہے۔ و ہللا اعلم
بالصواب
عالمہ بالذری نے فتح َرے سے متعلق کچھ طویل لکھا ہے جس کا خالصہ اور مفہوم اس طرح ہے کہ
امیر المومنین سیدنا عمر فاروق نے سیدنا عمار بن یاسر کو لکھا جو اس وقت کوفہ کے عامل تھے ۔
یأمرہ أن یبعث عروۃ بن زید الخیل الطائي إلى ال ّر ّ
ي ودستبى في ثمانیة آالف ،ففعل وسار عروۃ لذلك
فجمعت له الدیلم وأمدوا أھل ال ّر ّ
ي ۔۔۔۔یعنی عروہ بن زید طائی کو آٹھ ہزار سپاہ کے ساتھ َرے کے عالقے
بھیجا جائے۔ جب عروہ بمع لشکر وہاں پہنچے تو َیلم ان کے مقابلہ کے لیے جمع ہوئے اور اہ ِل َرے نے
ان کی مدد کی۔ لیکن رب العزت نے اہ ِل اسالم کو کامیاب کیا۔ اور اس معرکہ سے دَیلم اور اہل َرے کی
قوت بالکل نیست و نابود ہو گئی۔ عالمہ بالذری لکھتے ہیں کہ فرحان بن زیبندی نامی سردار کا ایک
مضبوط قلعہ تھا وہ بھی اسالمی لشکر سے ٹکرایا لیکن شکست کھاکر صلح کرلی کہ وہ جزیہ اور خراج
ادا کرے گا۔ اور اس سردار ابن زیبندی نے اہل َرے و قوسس کی طرف سے پانچ الکھ درہم کی رقم اس
غرض سے پیش کی کہ ان میں سے نہ کسی کوقتل کیا جائے اور نہ گرفتار کیا جائے۔ اور نہ ہی ان کا
کوئی آتش کدہ منہدم کیا جائے۔ سیدنا عمرو نے اس کی درخواست بھی قبول کرلی۔ اس کے بعد سیدنا
عمرنے عمارکو معزول کر کے مغیرہ بن شیبہ کو کوفہ کا والی تعینات کر دیا تو مغیرہنے اپنی طرف
سے کثیر بن شہاب حارثی کو َرے کا گورنر مقرر کر کے بھیجا۔
سوال 4۔
جواب
علی بن ابی طالب 656سے 661عیسوی کے درمیان میں خلیفہ تھے ،جو مسلمانوں کی تاریخ سب سے
مشکل دور تھا۔ جو پہلی مسلمان خانہ جنگی کے ساتھ ہی مال تھا۔ اس نے راشدین سلطنت پر حکومت کی
جو مشرق میں وسطی ایشیاء سے لے کر مغرب میں شمالی افریقہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ وہ ایک منصف
اور عادل جکمران ،دونوں ہی کے نام سے مشہور ہوئے
حضرت عمر فاروق ِ اعظم رضی ہللا عنہ تاریخ اسالم کی ایسی شخصیت ہیں جن کا دور ِ خالفت قیامت
تک کے ٓانے والے حکمرانوں کے لیے مشع ِل راہ ہے۔ ٓاپ نے اپنی سیاسی بصیرت سے اسالمی سلطنت
کو وسعت دے کر تقریب ًا ۲۳الکھ مربع میل تک پھیالیا۔ ٓاپ رضی ہللا عنہ نے دس سالہ عہ ِد خالفت میں
بڑی بڑی سلطنتوں کو اپنے زیر ِ نگیں کیا۔ تاریخ کے نامور فاتح سکندر ِ اعظم ،چنگیز خان اور تیمور
لنگ کے ناموں سے کون واقف نہیں۔ انہوں نے بھی بڑی بڑی فتوحات کیں ،کئی ممالک کو زیر ِ نگیں
کیا۔ مگر جب وہ فتوحات سے فارغ ہوتے تو جگہ جگہ انسانی الشیں ،کھوپڑیوں کے پہاڑ ،خون کی
ندیاں ،ہر جگہ ویرانی نظر ٓاتی۔ وہ جہاں سے گزرتے اسے ویران کردیتے۔ مگر حضرت عمر فاروق
رضی ہللا عنہ کے عہ ِد خالفت میں خون کا ایک قطرہ بھی نہیں گرپایا۔ ایران و روم جیسی سپر پاور
سلطنتیں جس انداز اور احتیاط سے فتح ہوئیں کہ بڑے بڑے تاریخ دان ظلم و ستم کی ایک مثال بھی پیش
نہ کرسکے۔ فتوحات سے بڑھ کر ٓاپ نے نظام حکومت کو منظم کیا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ٓاپ کے
دور میں حکومت اور سلطنت کا باقاعدہ نظام شروع ہوا۔ ٓاپ نے نظام حکومت کو چالنے کے لیے متعدد
محکمے اور انتظامی شعبہ جات قائم کیے اور ان سب سے نگران مقرر فرمائے۔ ٓاپ نگران مقرر کرنے
:کے بعد ان کا احتساب بھی کیاکرتے تھے۔ ٓاپ کے عہد خالفت کا انتظامی ڈھانچہ مندرجہ ذیل ہیں
:نظام عدل
ٓاپ نے عدل و انصاف کا ایسانظام قائم کیا کہ تاریخ اتنی وسیع و عریض سلطنت میں ظلم و زیادتی کی
ایک مثال بھی پیش کرنے سے قاصر ہے۔ ٓاپ کے دور کا نمایاں وصف عد ل وانصاف ہے۔ ٓاپ کے دور ِ
حکومت میں انصاف سے کبھی بھی سر ِ مو انحراف نہیں ہوا۔ یہ انصاف صرف مسلمانوں تک محدود
نہیں تھابلکہ غیر مسلموں کے ساتھ بھی انصاف روا رکھاجاتا تھا۔ یعنی نظام عدل میں مسلم او رغیر
مسلم کا کوئی فرق نہیں تھا۔ ٓاپ کے ایوا ِن عدل میں اعلیٰ و ادنی ،امیر و غریبٓ ،اقا وغالم ،خویش و
بیگانہ سب برابر تھے۔ جو بھی ظالم ثابت ہوتا ،اسے سزا دی جاتی۔ اسی نظام سے متاثر ہوکر غیر مسلم
حلقہ بگوش اسالم ہوتے۔
:نظام قضاء
حضرت عمر فاروق رضی ہللا عنہ قضاۃ کے معاملے میں بڑی احتیاط سے کام لیتے تھے۔ ٓاپ اس
منصب کے لیے انہی بزرگوں کا انتخاب فرماتے تھے جن کا علم تق ٰ
وی ،ذہانت اور قوت فیصلہ مسلم
تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ٓاپ کے عہد میں نظام انصاف بے مثال تھا۔ ٓاپ نے انسداد رشوت کے لیے
قاضیوں کی بیش بہا تنخواہیں مقرر کیں۔ یہ قاعدہ مقرر کیا کہ دولت مند اور معزز شخص کے عالوہ
معمولی ٓادمی قاضی نہیں ہوسکتا اور اس کی وجہ یہ ظاہر کی کہ دولت مند رشوت کی طرف ر ٖاغب نہ
ہوگا اور معزز شخص فیصلہ کرنے میں کسی کے رعب سے متاثر نہیں ہوگا۔ (تاریخ اسالم ،ص )۱۷۲
حضرت عمر فاروق رضی ہللا عنہ کا یہ طرز ِ عمل رہتی دنیا تک کے لیے عظیم مشع ِل راہ ہے کہ
قاضی (جج) کو کسی کے بھی زیر ِ اثر نہیں ہونا چاہیے اور تمام تر شہادتوں کو پیش ِ نظر رکھتے ہوئے
بغیر کسی شخص کے دبا ٔو میں ٓاکر فیصلہ کرنا چا ہیے۔
:نظام احتساب
ٓاپ نے احتساب کا سخت نظام قائم کیا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ اپنے گھر والوں کا بھی سخت احتساب فرمایا
کرتے تھے۔ کتب تاریخ میں ایسے کئی واقعات ہیں جن میں ٓاپ نے اپنے بیٹے ،بیٹی اور زوجہ کا
احتساب کیا اور انہیں تنبیہ کی۔ ٓاپ بطور ِ احتیاط بعض اوقات ایسے کاموں سے بھی اپنے گھروالوں کو
منع کرتے تھے جو فی نفسہ جائز اور مباح ہوتے تھے۔
:پولیس کا محکمہ
ٓاپ نے پولیس کا باقاعدہ اور مستقل محکمہ قائم کیا تاکہ امن وامان کے قیام کو یقنی بنایا جاسکے اور
شہریوں کے جان و مال کو تحفظ فراہم کیا جاسکے۔ لوگوں کے مختلف معامالت پر نظر رکھنے کے
لیے ٓاپ نے مختلف پولیس افسروں کومقرر کررکھاتھا۔ اس محکمہ کا کام امن و امان کے قیام کے ساتھ
ساتھ معموالتِ زندگی میں غیر قانونی اور غیر اسالمی افعال سے روکنا بھی تھا۔
:جیل خانے
ٓاپ نے جیل خانے قائم کیے جن میں مختلف جرائم پیشہ لوگوں کو قید کیا جاتا تھا۔ ٓاپ نے سب سے
پہلے مکہ میں چار ہزار درہم کے عوض صفوان بن امیہ کا گھر خرید کر اسے جیل خانہ بنایا۔ اس کے
عالوہ دیگر اضالع میں بھی جیل خانے بنائے۔
:محکمہ ٔ ٓابپاشی
ٓاپ نے زراعت کی سیرابی اور رعایا کی ضرورت کے لیے متعدد نہریں کھدوائیں۔ ٓاپ نے ٓابپاشی کا
وسیع محکمہ قائم کیا۔ مقریزی کے بیان کے مطابق خاص مصر میں ایک الکھ بیس ہزار مزدور حکومت
کی جانب سے اس کام میں لگے رہتے تھے۔ (تاریخ اسال م ،ص )۱۷۵
:بیت المال کا قیام
ٓاپ نے بیت المال کے نظام کو وسعت دی۔ تمام صوبوں اور مرکزی مقامات میں بیت المال قائم کیے اور
ان کے لیے وسیع عمارتیں بنوائیں اور دیانتدار افسران کا تقرر کیا۔ حضرت عبدہللا بن ارقم رضی ہللا
عنہ پہلے وزیر ِ خزا نہ مقرر کیے گئے۔
:نظام تعلیم
ٓاپ نے تمام مفتوحہ عالقوں میں قر ٓان پاک کی درس و تدریس کا معاملہ شروع کروایا۔ اس کے لیے ٓاپ
نے قر ٓان سکھانے والے معلمین کو مقرر فرمایا جو لوگوں کو قر ٓان کی تعلیم دیتے تھے۔ ٓاپ کے عہد
میں قر ٓان کی تعلیم الزمی تھی۔ ٓاپ نے حضرت ابوسفیان رضی ہللا عنہ کو چند ٓادمیوں کے ساتھ روانہ
فرمایا کہ وہ قبائل مینجاکر ہر شخص کا امتحان لیں اور جسے قر ٓان کا کوئی حصہ یاد نہ ہو ،اسے
سزادیں۔ ٓاپ نے اس کا نصاب بھی مقرر فرمایا ،ایک روایت کے مطابق سورۃ البقرۃ ،سورۃ النساء،
سورۃ المائدۃ ،سورۃ الحج کو یاد کرنا ضروری قرار دیا۔ (تاریخ اسالم ،ص )۱۷۹
الغرض دور ِ فاروقی تاریخ ِ اسالم کا ایک عظیم اور مثالی دور گزرا ہے جس میں اسالمی ریاست کے
انتظام و انصرام کے درست تصور کی عملی تصویر پیش کی گئی۔ اتنی بڑی سلطنت کے حاکم ہونے
کے باجود سادگی ،عاجزی اور انکساری ٓاپ کا خاصہ تھی۔ ٓاپ کے پیش ِ نظر خدمت خلق کا جذبہ تھا۔
ٓاپ نے رعایا کی خبر گیری کو الزم رکھا اور ٓاپ نے عوام کے لیے اپنا دروازہ کھال رکھنے کی پالیسی
اپنا رکھی تھی ،نیز اپنے گورنروں اور دیگر اہلکارو ں کو ہدایت دے رکھی تھی کہ عوام پر اپنے
دروازے ہمیشہ کھلے رکھیں او ر مظلوموں کی داد رسی کریں۔یہی وجہ ہے کہ عدل و انصاف اور
رعایاکی خبر گیری میں ٓاج بھی دور ِ فاروقی کوبطور ِ مثال پیش کیاجاتا ہے۔
سوال -5درج ذیل پرنوٹ ہیں ۔
خلفائے راشدین
محمد صلی ہللا علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد ابوبکر صدیق ،عمر فاروق ،عثمان ،علی اور حسن
کا عہد خالفت خالفت راشدہ کہالتا ہے۔ اس عہد کی مجموعی مدت تیس سال ہے جس میں ابوبکر صدیق
اولین اور علی آخری خلیفہ ہیں۔ اس عہد کی نمایاں ترین خصوصیت یہ تھی کہ یہ قرآن و سنت کی بنیاد
پر قائم نظام حکومت تھا۔
خالفت راشدہ کا دور اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ اس زمانے میں اسالمی تعلیمات پر عمل کیا گیا اور
حکومت کے اصول اسالم کے مطابق رہے۔ یہ زمانہ اسالمی فتوحات کا بھی ہے۔ اور اسالم میں جنگ
جمل اور جنگ صفین جیسے واقعات بھی پیش آئے۔ جزیرہ نما عرب کے عالوہ ایران ،عراق ،مصر،
فلسطین اور شام بھی اسالم کے زیر نگیں آ گئے۔
تاریخ
خالفت
◄اہم خالفتیں
◄مدمقابل خالفتیں
◄متعلقہ موضوعات
باب اسالم
دبت
محمد صلی ہللا علیہ و آلہ وسلم کے وصال کے بعد چار خلفاء کو مجموعی طور ہر خلفائے راشدین کہا
جاتا ہے۔
آفتاب رسالت صلی ہللا علیہ و آلہ وسلم کے درخشندہ ستاروں میں سب سے روشن نام یار غار رسالت،
پاسدار خالفت ،تاجدار امامت ،افضل بشر بعد االنبیاء ابوبکر صدیق کا ہے جن کو امت مسلمہ کا سب
سے افضل امتی کہا گیا ہے۔ بالغ مردوں میں آپ سب سے پہلے حلقہ بگوش اسالم ہوئے۔ آپ کی صاحب
زادی عائشہ صدیقہ کو رسول ہللا صلی ہللا علیہ و آلہ وسلمکی سب سے محبوب زوجہ ہونے کا شرف
حاصل ہوا۔ آپ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ تھے۔
عمر بن خطاب
عمر فاروق ،خلیفۂ ا ّول ابوبکرصدیق کے بعد مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ تھے۔ ان كے دور میں
اسالمی مملکت 22الکھ مربع میل کے رقبے پر پھیل گئی۔
عثمان بن عفان
عثمان اسالم کے تیسرے خلیفہ راشد تھے۔ آپ نے 644ء سے 656ء تک خالفت کی ذمہ داریاں سر
انجام دیں۔
علی پیغمبر اسالم صلی ہللا علیہ و آلہ وسلم کے چچا زاد بھائی ہیں بچپن میں پیغمبر کے گھر آئے اور
وہیں پرورش پائی۔ پیغمبر کی زیر نگرانی آپ کی تربیت ہوئی۔ آپ اسالم کے چوتھے خلیفہ راشد تھے۔
حضرت عمر ؓ 7نبوی میں اسالم الئے تھے اور 13نبوی میں ہجرت ہوئی ،اس طرح گویا
انہوں نے اسالم النے کے بعد تقریب ًا 7،6برس تک قریش کے مظالم برداشت کیے ،جب مسلمانوں کو
مدینہ کی جانب ہجرت کی اجازت ملی تو عمربھی اس سفر کے لیے آمادہ ہوئے اور بارگاہ نبوت سے
اجازت لے کر چند آدمیوں کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے
تاریخ ِ عالم نے ہزاروں جرنیل پیدا کیے ،لیکن دنیا جہاں کے فاتحین سیدنا عمر فاروق رضی ہللا عنہ کے
سامنے طف ِل مکتب لگتے ہیں اور دنیا کے اہ ِل انصاف سیدنا عمر فاروق رضی ہللا عنہ کی عدل پروری
کو دیکھ کر جی کھول کر ُان کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔
امیر ِ شریعت سید عطا ہللا شاہ بخاری ؒ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ’’ :عمر( رضی ہللا
عنہ ) مرا ِد رسول( صلی ہللا علیہ وسلم )ہے۔ ‘‘ یعنی دیگر صحابہ کرام رضی ہللا عنہم ُمری ِد رسول(
صلی ہللا علیہ وسلم ) ہیں اور عمر فاروق اعظم رضی ہللا عنہ مرا ِد رسول( صلی ہللا علیہ وسلم ) ہیں۔
ایک عالم نے کیا خوب کہا کہ’’ :عمر پیغمبر اسالم صلی ہللا علیہ وسلم کے لیے عطائے خداوندی
تھے۔‘‘ ان کے عالوہ اور بھی بہت سے علمائے اسالم ،حکمائے اسالم اور مستشرقین نے اپنے اپنے
لفظوں میں بارگاہِ فاروقی میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے ہیں۔
سیدنا عمر فاروق رضی ہللا عنہ کاشمار مکہ مکرمہ کے چند پڑھے لکھوں میں ہوتاتھا ،لیکن وہ بھی
اسی عرب معاشرے کا حصہ تھے ،جہاں پیغمبر اسالم صلی ہللا علیہ وسلم کو قبل از نبوت صادق وامین
کہا جاتا تھا اور بعد از اعال ِن نبوت نعوذ باہلل! ساحر ،شاعر،کاہن ،اور نجانے کیا کیا کہا گیا۔
اہ ِل مکہ کے جبر وستم بہت بڑھ چکے تھے ،صحابہ کرام رضی ہللا عنہم سرِعام تبلیغ تو درکنار‘ عبادت
بھی نہیں کرسکتے تھے ،چھپ کر دین اسالم کی تبلیغ وعبادت کی جاتی تھی۔ صحابہ کرام رضی ہللا
عنہم کی تعداد اس وقت ُانتالیس تھی۔ ایک رات بیت ہللا کے سامنے عبادت کرتے ہوئے پیغمبر ِ اسالم
صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنے پرور ِدگار سے عجیب دعا کی ،مانگی بھی تو عجب شئے مانگی۔ کسی کے
وہم وگمان میں نہیں تھا کہ دعا میں یہ بھی مانگا جاتا ہے ،اسالم کی بڑھوتری کی دعا کی جاتی ،اہ ِل
مکہ کے ایمان النے کی دعا کی جاتی ،دنیائے عالم میں اسالم کی اشاعت کی دعا کی جاتی یا اہل مکہ
کے ظلم وستم کی بندش کے لیے ہاتھ ُاٹھائے جاتے ،لیکن میرے عظیم پیغمبر صلی ہللا علیہ وسلم نے
دعا کی کہ’’ :اے ہللا! عمر وابن ہشام اور عمر بن خطاب میں سے کسی کو اسالم کی عزت کا ذریعہ بنا
‘‘۔
نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں دو لوگوں کو نامزد کیا اور فیصلہ خدائے عالم الغیوب
پر چھوڑ دیا کہ ہللا ! ان دونوں میں سے جو تجھے پسند ہو وہ دے دے۔ ہللا تبارک وتعالیٰ نے پیغمبر ِ
ف قبولیت سے نوازا اور اسباب کی دنیا میں سیدنا عمر فاروق اسالم صلی ہللا علیہ وسلم کی دعاکو شر ِ
رضی ہللا عنہ کے اسالم النے کا سبب یہ بنا کہ ایک روز تیغ ِ برہنہ لیے جارہے تھے ،راستہ میں بنو
زہرہ سے تعلق رکھنے واال ایک شخص مال ،جس نے پوچھا کہ عمر! خیریت! کہاں کا ارادہ ہے؟ کہنے
لگے :محمد کو قتل کرنے جارہاہوں ،اس نے نئے دین کااعالن کرکے مکہ والوں میں تفریق کردی ہے،
کیوں نہ اس قصہ کو ہی ختم کردوں۔ بنو زہرہ سے تعلق رکھنے والے شخص نے کہا کہ :عمر! اگر تم
نے ایسا کیا تو کیا ’’بنو ہاشم وبنو زہرہ ‘‘تم سے انتقام نہیں لیں گے؟ کہنے لگے :لگتا ہے کہ تم بھی اس
نئے دین میں شامل ہوچکے ہو ،انہوننے کہا کہ پھر پہلے اپنے گھر کی خبر تو لو ،تمہاری بہن وبہنوئی
مسلمان ہوچکے ہیں ۔
جالل میں نکلنے واال عمر سیدھا بہن کے گھر پہنچتا ہے ،یہاں سیدنا خباب بن االرت رضی ہللا عنہ ان
کے بہنوئی وبہن کو سورۂ ط ٰہ پڑھا رہے تھے ،باہر سے ٓاواز سنی اور دروازہ پر دستک دی ،اندر سے
پوچھاگیا کون؟ عمر! نام سنتے ہی سیدنا خباب چھپ گئے ،عمر نے ٓاتے ہی پوچھا :تم لوگ کیا پڑھ
رہے تھے؟ انہوں نے بات ٹالتے ہوئے کہا کہ :ہم ٓاپس میں باتیں کررہے تھے ،کہنے لگے :میں نے سنا
ہے تم نئے دین میں شامل ہوگئے ہو؟ بہنوئی نے کہا کہ :عمر! وہ دین تیرے دین سے بہتر ہے ،تو جس
دین پر ہے یہ گمراہ راستہ ہے ،بس سننا تھا کہ بہنوئی کو دے مارا زمین پر ،بہن چھڑانے ٓائی تواتنی
زور سے اس کے چہرے پر طمانچہ رسید کیا کہ ان کے چہرے سے خون نکل ٓایا ،بہن کے چہرے پہ
خون دیکھ کر غصہ ٹھنڈا ہوا اور بہنوئی کو چھوڑ کر الگ ہو بیٹھے اور کہنے لگے کہ :اچھا! الئو،
دکھائو ،تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے؟ بہن نے کہا کہ :تم ابھی اس کالم کے ٓاداب سے ناواقف ہو ،اس کال ِم
مقدس کے ٓاداب ہیں ،پہلے تم وضو کرو ،پھر دکھائوں گی ،انہوننے وضو کیا اور سورۂ ط ٰہ پڑھنی
شروع کی ،یہ پڑھتے جارہے تھے اور کال ِم ٰالہی کی تاثیر قلب کو متاثر کیے جارہے تھی۔ خباب بن
ارت رضی ہللا عنہ یہ منظر دیکھ کر باہر نکل ٓائے اور کہنے لگے :عمر! کل رات نبی کریم صلی ہللا
علیہ وسلم نے بارگاہِ خداوندی میں دعا کی تھی کہٰ :
’’ال ّلھ ّم ٔا ّ
عز اإلسالم بأحد الرجلین إ ّما ابن ھشام وإ ّما
عمر بن الخطاب‘‘ اور ایک دوسری روایت میں الفاظ کچھ اس طرح سے ہیں کہٰ :
’’ال ّلھم ٔاید اإلسالم بأبي
الحکم بن ھشام وبعمر بن الخطاب۔‘‘ اے ہللا ! عمر وبن ہشام یا عمر بن خطاب میں سے کسی کو اسالم
کی عزت کا ذریعہ بنا ،یا ان میں سے کسی ایک کے ذریعے اسالم کی تائید فرما۔‘‘ اے عمر! میرے دل
نے گواہی دی تھی کہ یہ دعا ئے پیغمبر صلی ہللا علیہ وسلم عمر بن خطاب کے حق میں پوری ہوگی۔
اسی طرح کی ایک روایت سیدنا سعید بن مسیب رحمہ ہللا سے مروی ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ’’ :کان
رسول ٰ ّہللا صلی ہللا علیہ وسلم إذا رٔای عمر بن الخطاب ٔاو ٔابا جھل بن ھشام قالٰ :ال ّلھم اشدد دینک بأحبّہما
إلیک‘‘ یعنی جب کبھی رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم عمر بن خطاب یا ابوجہل کو دیکھتے تو رب
العزت کے حضور دستِ دعا دراز کرتے ہوئے فرماتے :اے ہللا! ان دونوں میں سے جو تیرے نزدیک
زیادہ پسندیدہ ہے ،اس سے اپنے دین کو قوت عطا فرما۔ (طبقات ابن سعد)
سیدنا خباب بن ارت رضی ہللا عنہ سے سیدناعمر رضی ہللا عنہ کہنے لگے کہ :اچھا! تو مجھے بتائو
محمد صلی ہللا علیہ وسلم کہاں ہیں؟ میں ان سے ملنا چاہتا ہوں ،انہوں نے بتایا کہ :صفاپہاڑی پر واقع
ارقم رضی ہللا عنہ کے مکان میں قیام پذیر ہیں۔ سیدنا عمر رضی ہللا عنہ چل پڑےَ ،درّے پر مقیم
صحابہ کرام رضی ہللا عنہم نے جب دیکھا کہ عمر ٓارہا ہے اور ہاتھ میں ننگی تلوار ہے ،تو گھبرائے
ہوئے ٓانحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کو بتایا ،وہیں اسدہللا ورسولہ سیدنا حمزہ بن عبدالمطلب رضی ہللا
عنہ بھی تھے ،وہ فرمانے لگےٓ :انے دو ،اگر ارادہ نیک ہے تو خیر ہے اور اگر ارادہ صحیح نہیں تو
میں اس کی تلوار سے اس کاکام تما م کردوں گا۔
جب سیدنا عمر رضی ہللا عنہ وہاں پہنچے تو پیغمبر اسالم صلی ہللا علیہ وسلم پر نزو ِل وحی جاری تھا،
چند لمحوں بعد ٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم نے عمر سے فرمایا ’’:اے عمر! تم کس چیز کا انتظا رکررہے
ہو؟ کیا ابھی وقت نہیں ٓایا کہ تم اسالم قبول کرو؟!۔‘‘ بس یہ سننا تھا کہ فور ًاکلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے
دائرہ اسالم میں داخل ہوگئے۔ اصحابِ رسول( صلی ہللا علیہ وسلم ) نے حضرت عمر رضی ہللا عنہ کے
اسالم النے کی خوشی میں اس زور سے نعرۂ تکبیر بلند کیا کہ صح ِن کعبہ میں بیٹھے ہوئے کفار
ی مکہ گونج ُاٹھی۔ پھر نبی رئوف ورحیم صلی ومشرکین نے بھی سنا اور اس نعرے کی ٓاواز سے واد ِ
ہللا علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی ہللا عنہ کے سینۂ مبارک پر دستِ اقدس رکھا اور دعا فرمائیَ :ا ٰل ّلھُ َّم
ص ْدر ِ ٖہ ِم ْن ِغ ٍّل َو َٔایِّ ْد َل ٗہ إ ِ ْی َما ًنا۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’یا ہللا ۔!اس کے سینے میں جو کچھ میل کچیل ہو وہ دور ْ
اخرُجْ َماف ِ ْي َ
کردے اور اس کے بدلے ایمان سے اس کا سینہ بھردے ۔‘‘ (مستدرک للحاکم) قبو ِل اسالم کے وقت
بعض م ٔورخین کے نزدیک ٓاپ کی عمر تیس سال تھی اور بعض کہتے ہیں کہ عمر چھبیس سال
طنطناوی نے عجیب جملہ کہا ہے کہ:
ؒ تھی۔مصر کے ایک بہت بڑے عالم مفسر ِ قر ٓان جناب عالمہ
‘‘’’حقیقت یہ ہے کہ عمر اسی گھڑی پیدا ہوئے اور یہیں سے ان کی تاریخی زندگی کا ٓاغاز ہوا ۔
مفسر ِ قر ٓان سیدنا عبدہللا بن عباس رضی ہللا عنہما فرماتے ہیں ’’ :قال رسول ٰ ّہللا صلی ہللا علیہ وسلم :لما
ٔاسلم ٔاتاني جبرائیل ،فقال :استبشر ٔاھل السماء بإسالم عمر ‘‘ یعنی حضور سرورِکائنات صلی ہللا علیہ
وسلم نے فرمایا کہ’’ :جبرئیل ؑ میرے پاس ٓائے اور کہا کہٓ :اسمان والے عمر کے قبو ِل اسالم پر
خوشیاں منا رہے ہیں۔‘‘ (مستدرک للحاکم و طبقات ابن سعد)
چند ہی لمحوں بعدسیدنا عمر رضی ہللا عنہ نے فرمایا کہ :اے ہللا کے نبی! کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ ٓاپ
صلی ہللا علیہ وسلم نے اثبات میں جواب دیا ،تو فرمانے لگے کہ :پھر چھپ کر عبادت کیوں کریں؟
چلیے خانہ کعبہ میں چل کر عبادت کرتے ہیں ،میں قربان جائوں اپنے ٓاقا وموال صلی ہللا علیہ وسلم پر
کہ انہوں نے ایسے ہی عمر کو نہینمانگا تھا ،بلکہ دوررس نگاہِ نبوت دیکھ رہی تھی کہ اسالم کو عزت
وشوکت عمر کے ٓانے سے ہی نصیب ہوگی۔
حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی ہللا عنہم کو دو صفوں میں تقسیم کیا :ایک صف
کے ٓاگے اسد ہللا ورسولہ سیدنا حمزہ رضی ہللا عنہ چل رہے تھے اور دوسری صف کے ٓاگے مرا ِد
رسول ،پیغمبر ِ اسالم صلی ہللا علیہ وسلم کے لیے عطائے خداوندی یعنی سیدنا عمر فاروق رضی ہللا
عنہ چل رہے تھے۔ مسلمان جب خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو کفار ِ مکہ نے دیکھا ،نظر پڑی حمزہ پر
اور عمر پر تو بڑے غمگین ہوئے ،لیکن کس میں جرٔات تھی کہ کوئی بولتا؟! اس دن سے مسلمانوں
کے لیے تبلیغ ِ دین میں ٓاسانی پیدا ہوئی اور یہی وہ دن تھا جب ہللا کے نبی پاک صلی ہللا علیہ وسلم نے
علی لسان عمر وقلبہ وھو الفاروق فرّق ٰ ّہللا ب ٖہ بین الحق والباطل۔‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’ :فرمایا تھا کہ
إن ٰ ّہللا جعل الحق ٰ
’’ہللا تعالیٰ نے سچ کو عمر کے قلب ولسان پر جاری کردیا اور وہ فاروق ہے ،ہللا تعالیٰ نے اس کے
ذریعہ حق وباطل میں فرق کردیا ہے ۔‘‘ (طبقات ابن سعد)
ّٰ
وہللا ما استطعنا ٔان نص ّلي عندالکعبۃ ظاھرین ٰ
حتی ’’ :جناب سیدنا عبدہللا رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ
۔۔۔۔ ’’ہللا کی قسم ! ہم کعبہ کے پاس کھلے بندوں نماز نہیں پڑھ سکتے تھے ،یہاں تک کہ ‘‘ٔاسلم عمر
حضرت عمر رضی ہللا عنہ اسالم الئے۔‘‘ (مستدرک للحاکم)
اسی طرح حضرت صہیب بن سنان رضی ہللا عنہ فرماتے ہینکہ:جب عمر رضی ہللا عنہ نے اسالم قبول
کیا تو اسالم کو غلبہ نصیب ہوا ،اور ہم کھلے بندوں اسالم کی دعوت دینے لگے اور ہم حلقہ بنا کر بیت
ہللا میں بیٹھتے تھے ،ہم بیت ہللا کا طواف کرنے لگے اور اب ہم پر اگر کوئی زیادتی کرتا تو ہم اس سے
بدلہ لیتے تھے ۔
کچھ اسی قسم کے تأثرات فقیہ االمت سیدنا عبد ہللا بن مسعود رضی ہللا عنہ کے بھی ہیں ،وہ فرماتے ہیں
کہ’’ :عمر کا اسالم قبول کرنا ہماری کھلی فتح تھی ،اور عمر کا ہجرت کرنا ہمارے لیے ہللا تعالیٰ کی
نصرتِ خاص تھی ،اور ٓاپ کی خالفت تو ہمارے لیے سراپا رحمت تھی ،میں نے وہ دن بھی دیکھے
ہیں جب ہم بیت ہللا کے قریب بھی نماز ادا نہیں کرسکتے تھے ،لیکن جب عمر رضی ہللا عنہ اسالم
الئے تو ٓاپ نے کفار سے مقابلہ کیا ،یہاں تک کہ وہ ہمیں نماز پڑھنے دینے لگے۔ (طبقات ابن سعد)
سیدنا حضرت عمر رضی ہللا عنہ کی شا ِن رفیعہ میں چند فرامی ِن رسالت م ٓاب صلی ہللا علیہ وسلم پیش
کرتا ہوں ۔
:نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ۱:-
اے ابن خطاب !اس ذات پاک کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے ،جس راستے پہ ٓاپ ’’
کو چلتا ہواشیطان پالیتا ہے وہ اس راستہ سے ہٹ جاتا ہے ،وہ راستہ چھوڑ کر دوسراراستہ اختیار کرتا
ہے ۔‘‘ (صحیح بخاری)
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ ’’:حضور پاک رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں :میں نے حالتِ خواب ۲:-
میں دودھ پیا ،یہاں تک کہ میں اس سے سیر ہوگیا اور اس کی سیرابی کے ٓاثار میرے ناخنوں میں نمایاں
ہونے لگے ،پھر میں نے وہ دودھ عمر کو دے دیا ،اصحابِ رسول نے پوچھا :یارسول ہللا! اس خواب
کی تعبیر کیا ہے؟ تو ٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا’’ :علم‘‘۔
:اسی طرح امام بخاری ؒنے ایک اور روایت بھی اپنی صحیح میندرج کی ہے کہ۳:-
سیدنا ابوسعید خدری رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ :میں نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کویہ ’’
فرماتے ہوئے سنا ہے کہ :میں نیند میں تھا ،میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ میرے سامنے پیش کیے
جارہے ہیں اور انہوننے قمیصیں پہنی ہوئی ہیں ،کسی کی قمیص سینے تک اور کسی کی اس سے
نیچے تک ،اور پھر عمر کو پیش کیا گیا ،انہوں نے ایسی لمبی وکھلی قمیص پہنی ہوئی تھی کہ وہ زمین
پر گھسٹتی جارہی تھی ،اصحابِ رسول ( صلی ہللا علیہ وسلم ) نے عرض کیا کہ :یارسول ہللا! اس
خواب کی تعبیر کیا ہے؟ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ’’:دین ‘‘۔
اسی طرح بڑی ہی مشہور ومعروف حدیث نبوی ہے کہ :نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا۴:- :
’’اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتا۔‘‘یعنی اگر سلسلۂ نبوت جاری رہتا تو سیدنا حضرت عمر
رضی ہللا عنہ بھی منصبِ نبوت سے سرفراز کیے جاتے ۔
ایک حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ ’’:رسول مکرم ومعظم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ :تم سے ۵:-
پہلے جو ُامم گزری ہیں ان میں ُمحدَث ہوا کرتے تھے اور میری امت میں اگر کوئی ُمحدَث ہے تو وہ
‘‘عمر ہے۔
کی تشریح مینصاحب فتح الباری عالمہ ابن حجر عسقالنی رحمہ ‘‘ ُمحدَث’’اسی حدیث مبارکہ میں لفظ
:ہللا یوں تحریر فرماتے ہیں کہ
ال ُمحْ دَث ال ُم ْلھَم وھو من ٔالقي في روعہ شيء من قبل المالء اال ٰ
ٔعلی ومن یجری الصواب علیٰ لسان ٖہ بغیر ’’
‘‘قصد۔
یعنی ’’محدث وہ ہے جس کی طرف ہللا کی طرف سے الہام کیاجائے ،مالء اعلیٰ سے اس کے دل میں
القاء کیا جائے اور بغیر کسی ارادہ وقصد کے جس کی زبان پر حق جاری کردیا جائے۔‘‘ یعنی اس کی
زبان سے حق بات ہی نکلے ۔
ایک بار سیدنا عمر رضی ہللا عنہ شفیع اعظم نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ۶:-
یا ٔاخي ’’ :ہوئے اور عمرہ کی اجازت طلب کی تو نبی مکرم ومعظم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا
۔۔۔ ’’اے میرے بھائی ! اپنی نیک دعائوں میں ہمیں بھی شریک ‘‘ٔاشرکنا في صالح دعاء ک وال تنسنا
‘‘کرنا اور بھول نہ جانا۔
سلسلۂ احادیث سے ٓاخری حدیث پیش کرتا ہوں کہ یہ سلسلہ بہت دراز ہے اور دام ِن صفحات میں ۷:-
جگہ کم ،بخاری شریف میں سیدنا انس بن مالک رضی ہللا عنہ سے مروی حدیث ہے کہ ’’:ایک دفعہ
حضور پرنور صلی ہللا علیہ وسلم ُاحد کے پہاڑ پر تشریف لے گئے ،ہمراہ ابوبکر ،عمر اور عثمان
بھی تھےُ ،احد کاپہاڑ لرزنے لگا توحضور انور صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنا قدم مبارک ُاحد پر مارتے
ہوئے فرمایا’’ :اے ُاحد! ٹھہر جا ،تجھ پر اس وقت نبی ،صدیق اور شہید کے عالوہ اور کوئی نہیں۔‘‘اس
ٰال ّلھم ارزقني شھادۃ في سبیلک وموتا في ’’ :کے بعد سیدنا عمر رضی ہللا عنہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ
۔۔۔ ’’اے ہللا! مجھے اپنی راہ میں شہادت کی موت دینا اور موت ٓائے تو تیرے حبیب( ‘‘بلد حبیبک
‘‘صلی ہللا علیہ وسلم ) کے شہر میں ٓائے ۔
ٓاخری ایا ِم حیات میں ٓاپ نے خواب دیکھا کہ ایک سرخ مرغ نے ٓاپ کے شکم مبارک میں تین چونچیں
ماریںٓ ،اپ نے یہ خواب لوگوں سے بیان کیا اور فرمایا کہ میری موت کا وقت قریب ہے۔ اس کے بعد یہ
ہوا کہ ایک روز اپنے معمول کے مطابق بہت سویرے نماز کے لیے مسجد میں تشریف لے گئے ،اس
وقت ایک درّہ ٓاپ کے ہاتھ میں ہوتا تھا اور سونے والے کو اپنے درّہ سے جگاتے تھے ،مسجد میں پہنچ
کر نمازیوں کی صفیں درست کرنے کا حکم دیتے ،اس کے بعد نماز شروع فرماتے اور نماز میں بڑی
بڑی سورتیں پڑھتے۔ اس روز بھی ٓاپ نے ایساہی کیا ،نماز ویسے ہی ٓاپ نے شروع کی تھی ،صرف
تکبیر تحریمہ کہنے پائے تھے کہ ایک مجوسی کافر ابو ل ٔول ٔو (فیروز) جو حضرت مغیرہ رضی ہللا عنہ
کا غالم تھا ،ایک زہر ٓالود خنجر لیے ہوئے مسجد کی محراب میں چھپا ہوا بیٹھا تھا ،اس نے ٓاپ کے
شکم مبارک میں تین زخم کاری اس خنجر سے لگائےٓ ،اپ بے ہوش ہوکر گر گئے اور حضرت
عبدالرحمن بن عوف رضی ہللا عنہ نے ٓاگے بڑھ کر بجائے ٓاپ کی امامت کے مختصر نماز پڑھ کر
سالم پھیرا ،ابول ٔول ٔو نے چاہا کہ کسی طرح مسجد سے باہر نکل کر بھاگ جائے ،مگر نمازیوں کی صفیں
مثل دیوار کے حائل تھیں ،اس سے نکل جانا ٓاسان نہ تھا ،اس نے اور صحابیوں کو بھی زخمی کرنا
شروع کردیا ،تیرہ صحابی زخمی ،جن میں سے سات جاں بر نہ ہوسکے ،اتنے میں نماز ختم ہوگئی اور
ابول ٔول ٔو پکڑ لیا گیا ،جب اس نے دیکھا کہ میں گرفتار ہوگیا تو اسی خنجر سے اس نے اپنے ٓاپ کو ہالک
لکھنوی)
ؒ کردیا ۔ (خلفائے راشدین ،از
با ٓالخر ٓاپ کی دعائے شہادت کو حق تعالیٰ نے قبول فرمایا اور دیار ِ حبیب صلی ہللا علیہ وسلم میں بلکہ
ُمصالئے رسول ( صلی ہللا علیہ وسلم ) پر ٓاپ کو ۲۷ذو الحجہ بروز چہار شنبہ (بدھ) زخمی کیا گیا
اور یکم محرم بروز یک شنبہ (اتوار) ٓاپ رضی ہللا عنہ نے شہادت پائی۔ شہادت کے وقت ٓاپ کی عمر
مبارک تریسٹھ برس تھی ،حضرت صہیب رضی ہللا عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور خاص روضۂ نبوی
میں حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ کے پہلو میں ٓاپ کی قبر بنائی گئی۔ رضي ٰ ّہللا ٰ
تعالی عنہ
ؤارضاہ