Professional Documents
Culture Documents
Fall of The Rupee
Fall of The Rupee
پاکستانی کرنسی غیر ملکی کرنسیوں کے مقابلے میں اتنی تیزی سے کیوں گر رہی ہے؟ اس رجحان ک##و کیس#ے روک##ا ج#ا
سکتا ہے؟ پاکستان کی کرنسی کا مستقبل کیا ہے؟ ان سوالوں کو غیر جانبدارانہ انداز میں حل کیا جانا چاہیے۔
معاشی نظریہ میں کرنسی کی متعلقہ نقل و حرکت کی بہت سی وضاحتیں ہیں۔ سب سے آسان یہ ہے کہ اگر ملک Xافراط
زر کی شرح 10pcساالنہ پر ریکارڈ کرتا ہے جبکہ ملک Yکی شرح صرف 2pcہے ،ت##و مل##ک Xکی دو ط##رفہ ش##رح
مبادلہ کے نتیجے میں Yکے مقابلے میں 8pcکی قدر میں کمی ہونی چاہیے۔
شاید ہی کسی ملک کے معاشی تعلقات صرف ایک ملک سے ہوں۔ لہٰ ذا ،تجارتی وزن والی شرح مبادلہ کا استعمال کیا جاتا
ہے جہاں وزن ایک دی گئی ٹوکری میں ہر مل##ک کے س##اتھ تج#ارت میں متعلقہ حص##ہ کے مط##ابق ہوت##ا ہے۔ کث##یر الجہ##تی
ٹوکری پر امریکی ڈالر کا غلبہ ہے کیونکہ تیل کی ادائیگی اور دیگر تجارت اور خدمات امریکی ڈال##ر میں طے کی ج##اتی
ہیں۔ یہ دیکھتے #ہوئے کہ مؤخر الذکر غالب کرنسی ہے ،امریکہ اور پاکستان کے درمی##ان نس##بتا اف##راط زر ک##ا ف##رق ش##رح
مبادلہ کی نقل و حرکت کا ایک اہم عامل بن جاتا ہے۔
تجارت غیر ملکی کرنسی کے لین دین کا واحد جزو نہیں ہے۔ مزدوروں کی ترسیالت زر اب تجارتی س##امان کی برآم##دات
کے 50فیصد سے زیادہ ہیں۔ کرنس#ی کی نق#ل و ح#رکت کی وض#احت کے ل#یے ک#رنٹ اک#اؤنٹ بیلنس کی ج#انچ کی ج#انی
چاہیے۔ اضافی کرنٹ اکاؤنٹ کا مطلب ہے کہ پاکستان باقی دنیا کو سرمائے کا خالص برآمد کنندہ بن گیا ہے۔
یہ یا تو اس اضافی رقم کو غیر ملکی محکم#وں میں س#رمایہ ک#اری کے ل#یے اس#تعمال ک#ر س#کتا ہے ی#ا اپ#نی کمپ#نیوں ک#و
دوسرے ممالک میں براہ راست سرمایہ کاری کرنے کی اجازت دے سکتا ہے۔ ایک غریب ملک کے لیے بہترین ش##رط یہ
ہے کہ اس اضافی رقم کو ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر میں شامل کیا جائے۔ کرنٹ اکاؤنٹ ،تاہم ،ادائیگیوں کے توازن کا
صرف ایک حصہ ہے ،دوسرا سرمایہ اور مالیاتی اکاؤنٹ ہے۔
جب غیر ملکی اپنی خالص سرمایہ کاری التے ہیں — براہ راست غیر ملکی س#رمایہ ک#اری ی##ا پ##ورٹ فولی##و — ی##ا مل##ک
غیر ملکی کرنسی میں قرض لیتا ہے تو یہ اکاؤنٹس مثبت ہو جاتے ہیں۔ کیپٹل اکاؤنٹ میں اس مثبت بیلنس کے ساتھ ک##رنٹ
اکاؤنٹ سرپلس کا مطلب ہے کہ ملک میں ضرورت سے زیادہ زرمبادلہ موجود ہے۔
ایکسچینج ریٹ پھر بڑھنا شروع ہو جاتا ہے اور ہمیں ہر ڈالر کے بدلے #کم روپے ملتے ہیں۔ قابل قدر زر مب##ادلہ کی ش##رح
ہماری برآمدات کو غیر مسابقتی اور درآمدات کو سستی بناتی ہے۔
اس طرح اگلے دور میں ہمارا کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس خسارے میں بدل جائے گا جس کی مالی اعانت س##رمائے کی آم##د س##ے
کی جائے گی۔ شرح مبادلہ اپنی سابقہ سطح کی طرف بڑھنا شروع کر دے گی۔ لیکن اگر کرنٹ اکاؤنٹ خس##ارے میں رہت##ا
ہے اور کیپیٹل بیلنس منفی ہے (پاکستان میں ایف ڈی آئی اور پورٹ فولیو کی آم##د گزش##تہ پ##انچ س##الوں کے دوران جی ڈی
پی کے 3فیصد سے گھٹ کر منفی پر آ گئی ہے) تو زرمبادلہ کی طلب رسد سے زیادہ ہو جاتی ہے۔
اس اضافی طلب کو غیر ملکی ذخائر میں کمی سے ہی پ#ورا کی#ا ج#ا س#کتا ہے۔ 2012/13میں ذخ#ائر میں 44فیص#د کمی
واقع ہوئی جس کی ب#ڑی وجہ ق#رض دہن#دگان ک#و ادائیگی تھی۔ اس وقت س##ے اب ت##ک روپے کی ق##در میں 17فیص#د کمی
ہوئی ہے حاالنکہ اسٹیٹ بینک نے کرنسی کے دفاع میں تقریبا ً 3.5بلین ڈالر کے ذخائر ک##و کھ##و دی##ا ہے۔ ہمیں 2008میں
بھی ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔
زرمبادلہ کے ذخائر ملک کی ب##یرونی ادائیگی کی ص##الحیت ک##ا ای##ک بیرومی##ٹر ہیں۔ مناس##ب ذخ##ائر درآم##د اور برآم##د کے
کاروبار سے وابستہ افراد کو اعتماد کا احساس دیتے ہیں۔
ایک بار جب ذخائر نیچے کی طرف بڑھنے لگ##تے ہیں ،برآم##د کنن##دگان (ان##ٹر بین##ک م##ارکیٹ میں زرمب##ادلہ ف##راہم ک##رنے
والے) اپنی کمائی کو مارکیٹ سے روک لی##تے ہیں (وہ 90دن کے ان##در زرمب##ادلہ کے ح##والے ک##رنے کے پابن##د ہیں) اس
امید پر کہ وہ اگلے دنوں میں زیادہ شرح حاصل کریں گے۔ چند ماہ اس طرح مارکیٹ میں ڈالر کی کمی کا باعث بنتی ہے۔
درآمد کنندگان (جو ایک ہی مارکیٹ سے زرمبادلہ کا مطالبہ کرتے ہیں) مس##تقبل میں گ##راوٹ س##ے بچ##نے کے ل##یے اپ##نے
آرڈر بک کروانے کے لیے جلدی کرتے ہیں۔
قیاس آرائیاں کرنے والے بھی آگے بڑھتے ہیں۔ اس سے انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر کی مجم#وعی مان#گ ب#ڑھ ج#اتی ہے۔
چونکہ کسی خاص تاریخ پر شرح مبادلہ کا تعین مارکیٹ میں دستیاب غیر ملکی کرنسی کی طلب اور رسد س##ے ہوت##ا ہے،
جس کی وجہ سے کم رسد کی نسبت ضرورت سے زیادہ طلب ہ##وتی ہے ،جس کے ن##تیجے میں ق##در میں کمی واق##ع ہ##وتی
ہے۔
یہ گراوٹ دوسروں کو خبردار کرتی ہے اور یہاں تک کہ گھریلو خ##واتین بھی اپ##نی بچت ک##و روپے س##ے ڈال##ر میں تب##دیل
کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ خود کو پورا کرنے والی پیشین گوئی کو پ##ورا کی#ا جات#ا ہے ،اور م#ارکیٹ کے منفی ج##ذبات ک##و
تقویت ملتی ہے ،اور روپے اور ڈالر کی برابری مسلسل گرتی رہتی ہے۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے مالیاتی قرض##وں کے
حصول کے لیے بینکنگ سسٹم میں روپے کی اضافی لیکویڈیٹی غیر ملکی کرنسی کے حاملین کی مدد #ک##رتی ہے کی##ونکہ
وہ اب بین بینک مارکیٹ میں اپنی پوزیشن برقرار رکھ سکتے ہیں۔ اگر اسٹیٹ بینک مارکیٹ میں مداخلت کرنے کا انتخاب
کرتا ہے یا تو کچھ گانٹھ درآمدات کے لیے صریحا ً ادائیگی کرتا ہے یا فارورڈ مارکیٹ میں ڈالر خریدتا ہے تو اس##ے اپ##نے
ذخائر کو کم کرنا پڑتا ہے۔ جب تک ان ذخائر کو دوبارہ حاصل نہیں کیا جاتا ان کی گرتی ہوئی سطح کے وہی نتائج برآم##د
ہوں گے جو بین بینک لین دین کے معاملے میں ہوتے ہیں۔
اس رجحان کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ قلیل مدت میں ،غ##یر ملکی زرمب##ادلہ کی خ##اطر خ#واہ انفی##وژن ی##ا اس ط#رح کے
انفیوژن کی توقع سے مارکیٹ کے ج#ذبات ک#و تب#دیل #ک#رنے کی ض#رورت ہے۔ موج#ودہ حک#ومت ج#و کہ من#ڈی کے ل#یے
سازگار جذبات رکھتی ہے ،نے آئی ایم ایف کے ساتھ ایک توسیعی فنڈ سہولت پر بات چیت ک##رکے اس ش##یطانی چک##ر ک##و
توڑنے کی کوشش کی ہے تاکہ آئی ایم ایف کے قرض کی مستقبل کی اقساط کی ادائیگی کی جاسکے۔
یہ ورلڈ بینک #،ایشیائی ترقیاتی بینک اور اسالمی ترقیاتی بینک کے ساتھ 6بلین ڈالر کے کچھ فوری قرضوں پر بھی ب##ات
چیت کر رہا ہے۔ اگر حکومت قسط کے اجراء کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کرتی ہے اور پروگرام کو ٹری##ک پ##ر رکھ##ا
جاتا ہے ،تو ممکن ہے کہ ذخائر محفوظ حدوں تک بھر جائیں۔ اس طرح مارکیٹ کے کھالڑیوں کو یقین دالیا جائے گ##ا کہ
وہ مستحکم ش#رح پ##ر غ##یر ملکی کرنس##ی ف#روخت ی##ا خری##د س##کتے ہیں۔ احتی##اطی اض##افی طلب اور قی##اس آرائی پ##ر مب##نی
س##رگرمی اس ط##رح بت##دریج کم ہ##و ج##ائے گی اور بین بین##ک م##ارکیٹ ت##وازن کے مق##ام پ##ر ی##ا اس کے ق##ریب ہ##و گی اور
فرسودگی کی رفتار معمول پر آجائے گی۔
لہٰ ذا پاکستانی کرنسی کے لیے مستقبل کا نقطہ نظر مکمل ط#ور پ#ر اقتص#ادی منتظمین کی پالیس#ی ک#ارکردگی پ#ر منحص#ر
ہوگا -وہ بروقت اق#دامات کے ذریعے م#ارکیٹ ک#ا اعتم#اد کت#نی اچھی اور ت#یزی س#ے بح#ال ک#ر س#کتے ہیں۔ اگ#ر مالی#اتی
خسارے کو کم نہیں کیا جاتا ہے اور زیادہ طاقت والے پیسوں سے منیٹائز ہوتا رہتا ہے ،ت##و ذخ##ائر غ##یر یقی##نی رہ##تے ہیں،
سپالئی کی کمی جاری رہتی ہے اور افراط زر کا دباؤ برقرار رہتا ہے۔ اس سے شرح مبادلہ پ##ر دب##اؤ پ##ڑے گ##ا ج##و نیچے
کی طرف ایڈجسٹمنٹ کے راستے پر آگے بڑھے گا۔
اگر حکومت سنجیدگی سے ان اصالحات کو نافذ کرے جس کا اس نے خود وعدہ کیا ہے ،تو آؤٹ ل#ک بہ#تر ہ#و س#کتا ہے۔
عمل درآمد کے مرحلے کے دوران کسی بھی طرح کی ہٹ دھرمی ،غ##یر فیص##لہ کن پن ،پیچھے ہٹن##ا ی##ا سیاس##ی مص##لحت
پسندی ایک بار پھر معیشت کو طے شدہ راستے سے ہٹا سکتی ہے۔
http://dawn.com/news/1045193/fall-of-the-rupee