Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 11

‫انیس اشفاق کے افسانے "آئینہ گر'' کا توانا کردار ‪ 

:‬نیر‪ ‬مسعود‬
‫‪:Abstract‬‬
‫‪Nayyar masud is a renowned writer of Urdu‬‬
‫‪literature.His stories has been translated in more‬‬
‫‪than twenty different International languages.But‬‬
‫‪seldom critics know about the fact about him, that‬‬
‫‪he had also been made a core character of Anees‬‬
‫‪Ashfaq's short story "Aaena Ger" back in 1984 as‬‬
‫‪historical fiction. The story describes him not‬‬
‫‪directly but indirectly with some explicit and‬‬
‫‪obvious clues and Inklings. This story also unfolds‬‬
‫‪some rare and interesting biographical informations‬‬
‫‪about him. The article deals with unfolding of such‬‬
‫‪facts along with the description of historical fiction‬‬
‫‪and its techniques.‬‬
‫‪Key‬‬ ‫‪Aaena, Chehra, sufaid amart, Hakeem, khoaf‬‬
‫‪:words‬‬

‫ہمارے ادب کی تاریخ میں ایسا بہت کم ہوا ہے کہ کسی تخلیق کار یا افس‪--‬انہ نگ‪--‬ار‬
‫کو خود فکشن کا کردار بنا کر پیش کی‪--‬ا ج‪--‬ائے۔ کالس‪--‬یکی ش‪--‬عرا اور ن‪--‬اول نگ‪--‬اروں(مثالً‪-‬‬
‫رتن ناتھ سرشار) پر معدودے چند تاریخی افسانے تو لکھے گئے ہیں‪ ،‬لیکن ان کو کس‪--‬ی‬
‫طور بدیعی (‪ )The created‬فکشن کا کردار نہیں قرار دیا جا سکتا جس میں ان کی از‬
‫س‪--‬ر ن‪--‬و تخلی‪--‬ق ی‪--‬ا پی‪--‬دائش ہ‪--‬وتی ہے اور وہ اس ح‪--‬د ت‪--‬ک خ‪--‬ود مخت‪--‬ار (اور بعض اوق‪--‬ات‬
‫سرکش بھی) ہوتے ہیں کہ بسا اوقات مص‪--‬نف ک‪--‬و اپ‪--‬نی مرض‪--‬ی س‪--‬ے لے ک‪--‬ر چل‪--‬نے پ‪--‬ر‬
‫قدرت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر دستوئیسکی کے مشہور ناول ‪" ،‬ج‪--‬رم و س‪--‬زا" کے‬
‫مرکزی کردار رسکولنیکوف‪ -‬کے بارے میں چیخوف کا کہنا تھا کہ اگر وہ اس کردار کو‬
‫ناول کے صفحے پر نہ اتارتا ‪ ،‬تو دنیا اس نوع کی مخل‪--‬وق ک‪--‬و کبھی دیکھ ہی نہ پ‪--‬اتی۔ (‬
‫‪ )1‬جب چیخ‪--‬وف کی اس ب‪--‬ات پ‪--‬ر کچھ حلق‪--‬وں س‪--‬ے اع‪--‬تراض ہ‪--‬وا ت‪--‬و ٹالس‪--‬ٹائی نے اپن‪--‬ا‬
‫مشہور زمانہ جملہ لکھا‪ ،‬اس نے کہا‪:‬‬
‫"آپ کہ‪--‬تے ہیں کہ دستوئیس‪--‬کی نے اپ‪--‬نے ہ‪--‬یروؤں کے پ‪--‬ردے‬
‫میں خود کو پیش کیا ہے اور یہ تصور‪ -‬کیا ہے کہ س‪--‬بھی ل‪--‬وگ‬
‫اس طرح کے ہوتے ہیں تو کیا ہ‪--‬وا۔ اس ک‪--‬ا ن‪--‬تیجہ یہ ہے کہ ان‬
‫غیر معمولی شخصیتوں میں نا صرف ہم اپنے کو‪ ،‬ب‪--‬ل کہ غ‪--‬یر‬
‫ملکی بھی خ‪--‬ود ک‪--‬و پہچ‪--‬انتے ہیں اور اپ‪--‬نی روح ک‪--‬و دیکھ‪--‬تے‬
‫ہیں۔"(‪)2‬‬
‫افسانے کی نظری تاریخ میں اس بات پر بح‪--‬ثیں ت‪--‬و ش‪--‬د و م‪--‬د س‪--‬ے مل‪--‬تی ہیں کہ‬
‫افسانہ نگار الزما ً کسی نہ کسی طور قاری کی راہنمائی اور دماغی سمت نمائی کے جبر‬
‫( ‪ )Determinism‬کا مرتکب ہوت‪-‬ا ہے ب‪-‬ل کہ ش‪-‬مس ال‪-‬رحمن ف‪-‬اروقی کے بق‪-‬ول افس‪-‬انہ‬
‫نگار قاری کی گردن پر جھولتا رہتا ہے‪ )3(،‬لیکن اس نقطہ نظر کے علی الرغم اس بات‬
‫کو کم ہی زیر بحث الیا گیا ہے کہ افسانے کا ک‪--‬وئی ک‪--‬ردار ( یہ راوی اور متکلم بھی ہ‪--‬و‬
‫سکتا ہے) اس حد تک توانا اور منہ زور بھی ہو سکتا ہے کہ خود مصنف اور کہانی کی‬
‫زمام سنبھال لے۔ ظاہر ہے ایسے کردار کی تخلیق بہت مشکل ہ‪--‬وتی ہے‪ ،‬اور اگ‪--‬ر ای‪--‬ک‬
‫بار ایسا فاعل (‪ )Subject‬جنم لے لے‪ ،‬تو کہانی کی تقدیر ڈرامائی ح‪--‬د ت‪--‬ک زی‪--‬ر وبم ک‪--‬ا‬
‫شکار ہوتی ہے ۔ فالئبر ‪،‬جس کو ناول کی تاریخ کا شاید سب سے بڑا نام سمجھا جاتا ہے‬
‫‪ ،‬اس نے بھی آخری دور میں اپ‪--‬نے دوس‪--‬ت کے ن‪--‬ام اس ج‪--‬بر ک‪--‬ا اظہ‪--‬ار کی‪--‬ا ہے۔اس نے‬
‫اسی احساس کے تحت کہا تھا کہ ایسی تخلیق کرنا اس کی تمنا ہے ‪ ،‬ج‪--‬و محض نفی کے‬
‫بارے میں ہو یعنی کسی چیز یا کردار کے بارے میں نہ ہو۔(‪)4‬‬
‫فالئبر نے اس پیچی‪--‬دگی ک‪--‬و اس کی انتہ‪--‬ا پ‪--‬ر ج‪--‬ا ک‪--‬ر دیکھ‪--‬ا ہے۔ اس ض‪--‬من میں‬
‫دستوئیس‪--‬کی ک‪--‬ا بھی کہن‪--‬ا تھ‪--‬ا کہ میں اپ‪--‬نے کچھ ک‪--‬رداروں س‪--‬ے تن‪--‬گ ہ‪--‬وں‪ ،‬وہ م‪--‬یری‬
‫راہنمائی کرتے ہیں کجا کہ میں انھیں راہ پر چلتا دکھاوں‪ ،‬میں انھیں کچھ بنان‪--‬ا چاہت‪--‬ا تھ‪--‬ا‬
‫اور یہ کچھ بن بیٹھے۔بیسویں صدی کی بڑی انگریزی ناول نگار ورجینیا وولف نے بھی‬
‫اس قسم کا گلہ کیا ہے۔ (‪)5‬‬
‫یہ‪--‬اں پ‪--‬ر اس بحث کی تفص‪--‬یالت اور ب‪--‬اریکیوں ک‪--‬و اس ل‪--‬یے اٹھای‪--‬ا گی‪--‬ا ہے کہ‬
‫تاریخی فکشن کے کرداروں اور بدیعی فکشن کے کرداروں کے درمیان فرق کر کے یہ‬
‫واضح کیا جا سکے کہ نا قابل شناخت اور ٹھوس کردار کہانی کو چالنے اور اسے غیر‬
‫متوقع موڑ پر ال سکنے یعنی جبر کرنے کے مرتکب ہونے ک‪--‬ا ک‪--‬وں ک‪--‬ر زی‪--‬ادہ حوص‪--‬لہ‬
‫رکھتے ہیں۔ بات کو بڑھاتے ہوئے یہ کہا جا س‪--‬کتا ہے کہ جب ک‪--‬وئی ک‪--‬ردار ت‪--‬اریخ کی‬
‫حقیقی شخص‪--‬یت پ‪--‬ر اس‪--‬توار ہوت‪--‬ا ہے ت‪--‬و اس کی شخص‪--‬یت میں اس کے حقیقی پن کے‬
‫ش‪--‬ائبے اور کن‪--‬ایے (‪ )Inklings‬الزم‪--‬ا در آتے ہیں ۔ اس کے ب‪--‬رعکس‪ -‬اگ‪--‬ر یہ تمن‪--‬ا کی‬
‫جائے کہ کردار تاریخی ہو کر بھی اپنے اندر بنیادی تبدیلوں کا ح‪--‬والہ اور ظ‪--‬رف رکھیں‬
‫تو ضرورت یہ ہے کہ ان کو ناقابل شناخت ہونے سے بچای‪--‬ا جاس‪--‬کے ‪ ،‬یع‪--‬نی وہ چ‪--‬یزیں‬
‫جو کسی بھی انسان یا کردار کی واضح پہچ‪--‬ان ک‪--‬ا ب‪--‬اعث بن‪--‬تی ہیں ‪ ،‬اس‪--‬ے ان س‪--‬ے دور‬
‫رکھا جائے (واضح‪ -‬ہو کہ محروم نہیں‪ ،‬دور رکھنے کی بات ہوئی ہے) مثالً ن‪--‬ام‪ ،‬اس ک‪--‬ا‬
‫سماجی کردار(‪ ،)Social Role‬معروف تفاعل‪ ،‬قدر و قامت یا ایس‪--‬ے امتی‪--‬ازات ج‪--‬و اس‬
‫شخص کی حقیقی زن‪-‬دگی س‪-‬ے ج‪-‬ڑے ہ‪-‬وں۔ ان لطی‪-‬ف خی‪-‬االت ک‪-‬و ذہن میں رکھے بغ‪-‬یر‬
‫کسی حقیقی کردار کو فکشن کی دنیا کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔‬
‫نیر مسعود کے کردار کو فکش‪--‬ن کے پ‪--‬یرائے میں دیکھ‪--‬نے کے ح‪--‬والے س‪--‬ے ان‬
‫کے قریب قریب تمام ناقدین سے ایک دل چسپ لیکن کم شناسا گوشہ نظ‪--‬ر ان‪--‬داز ہ‪--‬وا ہے‬
‫اور وہ یہ کہ فکشن کی دنیا میں انمٹ نام حاص‪-‬ل ک‪-‬رنے س‪-‬ے پہلے وہ خ‪-‬ود کس‪-‬ی ب‪-‬ڑے‬
‫افسانے کا کردار بھی رہے ہیں‪ ،‬لیکن ایسا کردار جسے واضح عالمتوں کی بجائے‪ ،‬آس‬
‫پاس کے لطائف اور مناسبات سے پہچانا جا سکے۔ ہماری م‪--‬راد انیس اش‪--‬فاق کے نہ‪--‬ایت‬
‫اہم افسانے "آئینہ گر" سے ہے۔ انیس اش‪--‬فاق کی ن‪--‬اول نگ‪--‬اری کی روز اف‪--‬زوں ش‪--‬ہرت ‪،‬‬
‫"دکھارے" کا ہاتھوں ہاتھ لیے جانا‪" ،‬خ‪--‬واب س‪--‬راب" کی بج‪--‬ا و مس‪--‬کت پ‪--‬ذیرائی( اب یہ‬
‫ناول ساہتیہ ای‪--‬وارڈ بھی حاص‪--‬ل ک‪--‬ر چک‪--‬ا ہے)اور "پ‪--‬ری ن‪--‬از اور پرن‪--‬دے" کے ت‪--‬اریخی‬
‫فکشن میں مقام و مرتبے نے ان کے افسانوی مجموعے کو نسبتا ً لوگ‪--‬وں کے ذہن‪--‬وں میں‬
‫محو کر دیا ہے ۔ حاالں کہ یہ مختصر مجموعہ الزم‪--‬ا اس قاب‪--‬ل ہے کہ اردو افس‪--‬انے کی‬
‫تاریخ میں جاوید رہے گا۔ اس مختصر مجموعے کا نام "کتبے پڑھنے والے" ہے‪ ,‬چوں‬
‫کہ یہ مجموعہ پاکس‪--‬تان س‪--‬ے نہیں چھپ‪--‬ا ص‪--‬رف ہندوس‪--‬تان ہی س‪--‬ے ش‪--‬ائع ہ‪--‬وا ہے ‪ ،‬لہ‪--‬ذا‬
‫پاکستان کا ق‪--‬اری اس مجم‪--‬وعے س‪--‬ے زی‪--‬ادہ آگ‪--‬اہ نہیں ہے۔ ہندوس‪--‬تان س‪--‬ے اس کی پہلی‬
‫اشاعت ‪ 2015‬میں ہوئی ‪ ،‬اس کے ناشر خود انیس اشفاق ہی۔ اس ‪182‬صفحات کی کتاب‬
‫میں کل آٹھ افسانے شامل ہیں۔‬
‫مجموعہ انتظار حسین کے نام معنون ہے۔‬
‫تمام افسانوں کے آغاز سے پہلے ن‪--‬یر مس‪--‬عود ہی کی فکش‪--‬نی تکنی‪--‬ک کے مط‪--‬ابق ای‪--‬ک‬
‫فارسی اور ایک انگریزی شعر پیش کیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ انتخ‪--‬اب قطعی ط‪--‬ور پ‪--‬ر‬
‫الل ٹپ نہیں بل کہ ان کا افسانے کے خیال یا تکنیک سے گہرا داخلہ انسالک رکھت‪--‬ا ہے۔‬
‫نیر مسعود نے جس طور کی کہانی کو اردو میں رائج کیا‪ ،‬اس میں اردو کے س‪--‬ہل پس‪--‬ند‬
‫قاری کے لیے انھوں نے براہ راس‪--‬ت متن میں تفہیمی و تعب‪--‬یری س‪--‬ہولت پی‪--‬دا ک‪--‬رنے کی‬
‫بجائے‪ ،‬انھوں نے اس کے خیال ‪ ،‬پیچیدگی یا تعقید (‪)Complex‬ک‪--‬و افس‪--‬انے س‪--‬ے پہلے‬
‫کے اس فارسی و انگری‪--‬زی ش‪--‬عری انتخ‪--‬اب کی ص‪--‬ورت میں س‪--‬لجھانے کی کوش‪--‬ش کی‬
‫ہے۔ جدید تنقید اسے پیراٹیکس(‪ )paratext-‬سے منسوب کرتی ہے۔‬
‫بہر حال انیس اشفاق نے اس افس‪--‬انے س‪--‬ے پہلے پ‪--‬یراٹیکس‪ -‬کے ط‪--‬ور پ‪--‬ر یہ تحری‪--‬ر کی‪--‬ا‬
‫ہے‪:‬‬
‫"آئینہ نقش بن‪-----------------‬د طلس‪-----------------‬م خی‪-----------------‬ال ماست‬
‫تص‪---------‬ویر‪ -‬خ‪---------‬ود بہ ل‪---------‬وح دگ‪---------‬ر می کش‪---------‬یم ما‬
‫(جو آئینہ ہم دیکھ رہے ہیں وہ خیال کے طلس‪--‬م ک‪--‬و مجس‪--‬م نہیں‬
‫کر سکتا اور اسی لیے ہم اپنی تصویر ایک اور ل‪--‬وح پ‪--‬ر کھینچ‬
‫رہے ہیں)‬
‫اس شعر کے بعد بودلیئر‪ -‬کا یہ وحشتناک قول نقل کیا گیا ہے‪:‬‬
‫" ‪I have nurtured my hysteria with delight and‬‬
‫)‪terror" (6‬‬

‫یہ دونوں ہی آئینہ گر کے متن سے راست اور معکوس‪ -‬دون‪--‬وں حوال‪--‬وں س‪--‬ے ف‪--‬نی عالؤہ‬
‫رکھتے ہیں۔‬
‫انیس اشفاق س‪--‬ے ٹیلی ف‪--‬ونی رابطے پ‪--‬ر انھ‪--‬وں نے راقم ک‪--‬و یہ اطالع بہم پہنچ‪--‬ائی کہ یہ‬
‫افسانہ پہلی بار ‪ 1984‬میں لکھا گیا تھ‪--‬ا اور اس‪--‬ی س‪--‬ال مالیگ‪--‬اوں کے مع‪--‬روف جری‪--‬دے‬
‫"جواز" میں چھپا ۔‬
‫افسانہ میں کہانی کے متکلم (جو مختلف قرینوں سے جامعہ کا پروفیس‪--‬ر ہے) ک‪--‬ا‬
‫چہرہ خوفناک اور دہشتناک طور پر بگڑنا شروع ہوت‪--‬ا ہے۔ وہ پہلے پہ‪--‬ل س‪--‬مجھتا ہے کہ‬
‫یہ خراب آئینے کی وجہ سے ہے ‪ ،‬نتیجتا ً وہ درست آئینہ کی چھان پھٹک کرت‪--‬ا ہے‪ ،‬اس‬
‫کی جانچ پڑتال کے بعد جب اسے اس میں ک‪--‬وئی نقص معل‪--‬وم نہیں ہوت‪--‬ا ت‪--‬و وہ ب‪--‬ازار نی‪--‬ا‬
‫آئینہ خریدنے چال جاتا ہے‪ ،‬بالکل ویسے جیسے غالب نے نیا س‪--‬اغر خری‪--‬دنے کے ل‪--‬یے‬
‫خیال کا درس دوڑایا تھا‪:‬‬
‫اور ب‪----‬ازار س‪----‬ے لے آئے اگ‪----‬ر ٹ‪----‬وٹ گی‪----‬ا‬
‫س‪---‬اغر جم س‪---‬ے م‪---‬را ج‪---‬ام س‪---‬فال اچھ‪---‬ا ہے‬

‫کہانی کی ابتدائی سطریں مالحظہ ہوں‪:‬‬


‫"اس نے ایک بار پھر آئینے میں اپنے آپ کو غور سے دیکھ‪--‬ا‬
‫لیکن اس‪--‬ے یقین نہیں آی‪--‬ا۔اس نے آئی‪--‬نے ک‪--‬و دی‪--‬وار س‪--‬ے ات‪--‬ارا‪،‬‬
‫اسے اچھی طرح صاف کی‪--‬ا اور جب وہ پ‪--‬وری ط‪--‬رح چمک‪--‬نے‬
‫لگا تو پھر سے خود کو دیکھنا شروع کر دی‪--‬ا۔لیکن آئینہ ص‪--‬اف‬
‫کرنے کے بعد بھی عکس میں ک‪--‬وئی‪ -‬تب‪--‬دیلی نظ‪--‬ر نہیں آئی۔۔۔۔۔۔‬
‫اس نے آئینے کو شک کی نگاہ سے دیکھا ‪ ،‬دیر ت‪--‬ک دیکھ‪--‬تے‬
‫رہنے کے بعد اس نے آئینے ک‪--‬و دی‪--‬وار‪ -‬س‪--‬ے ات‪--‬ارا‪ ،‬اس‪--‬ے الٹ‬
‫پلٹ کر دیکھا اس کی س‪--‬طح پ‪--‬ر ہ‪--‬اتھ پھ‪--‬یرا ‪ ،‬پش‪--‬ت پ‪--‬ر اس کی‬
‫پ‪--‬الش ک‪--‬ا مع‪--‬ائنہ‪ -‬کی‪--‬ا لیکن آئی‪--‬نے میں ک‪--‬وئی خ‪--‬رابی نظ‪--‬ر نہیں‬
‫آئی"(‪)7‬‬

‫‪71‬‬
‫بازار میں ایک دوکان سے دوسری میں گھومنے کے بعد کوئی آئینہ اس کی نظ‪--‬ر‬
‫میں نہیں جچت‪--‬ا‪ ،‬ب‪--‬ل کہ ہ‪--‬ر آئی‪--‬نے میں وہی چہ‪--‬رے ک‪--‬ا نقص دکھ‪--‬ائی دیت‪--‬ا ہے‪ ،‬وہ دک‪--‬ان‬
‫داروں سے اس کا گال کرنے کے بعد گھر واپسی کو پر تولتا ہے‪ ،‬دکان دار ح‪--‬یرت س‪--‬ے‬
‫اس کی طرف دیکھتے رہ ج‪--‬اتے ہیں۔ گھ‪--‬ر آنے کے بع‪--‬د بھی آٹھ پہ‪--‬ر وہ اپ‪--‬نی آنے والی‬
‫زندگی کا سوچ کر غم سے آدھا رہ جاتا ہے۔ نیند بھی انھی خوفناک خی‪-‬االت اور خواب‪-‬وں‬
‫(‪ )Anxiety Dreams‬س‪--‬ے ممل‪--‬و ہ‪--‬وتی ہے۔ افس‪--‬انے کے اس مق‪--‬ام پ‪--‬ر متکلم ک‪--‬و اس‬
‫شخص سے ملنے کا خیال آتا ہے‪ ،‬جس کے ب‪--‬ارے میں وہ ای‪--‬ک ہی ص‪--‬فحہ پہلے یہ لف‪--‬ظ‬
‫استعمال کر چکا ہے‬
‫"جب ش‪--‬ام پ‪--‬وری ط‪--‬رح پھی‪--‬ل گ‪--‬ئی ت‪--‬و اس نے س‪--‬وچا‪ -‬اب اس‬
‫طرف چال جائے جہاں پہنچ کر اس اذیت سے نجات مل س‪--‬کتی‬
‫ہے۔"(‪)8‬‬

‫‪76‬‬
‫اب وہ حقیقتا ً اس غیر معلوم لیکن منتظر شخص ک‪--‬و مل‪--‬نے جات‪--‬ا ہے۔ افس‪--‬انے کے‬
‫عجیب و غریب پالٹ نے اب تک قاری کے ذہن میں ایسی دل چسپی پی‪--‬دا ک‪--‬ر دی ہے کہ‬
‫وہ یہ جاننے ک‪--‬ا مش‪--‬تاق ہے کہ وہ ش‪--‬خص ک‪--‬ون ہے جس کے پ‪--‬اس نام‪--‬انوس مس‪--‬ئلے ک‪--‬ا‬
‫عالج موجود ہے۔نامعلوم شخص کے گھر کو یوں دکھایا گیا ہے‪:‬‬
‫"یہ رومی‪ -‬ط‪---‬رز کی ای‪---‬ک س‪---‬فید عم‪---‬ارت تھی ۔عم‪---‬ارت کے‬
‫بیرونی‪ -‬دروازے سے گ‪--‬زر ک‪--‬ر وہ اس دروازے‪ -‬کی ط‪--‬رف آی‪--‬ا‬
‫جس کے دوس‪--‬ری‪ -‬ط‪--‬رف ک‪--‬ا حص‪--‬ہ اس دروازے س‪--‬ے ص‪--‬اف‬
‫نظر آتا تھا۔۔۔۔یہ دروازہ عموما ً مقفل رہت‪-‬ا تھ‪-‬ا اور اس وقت بھی‬
‫تاال پڑا ہوا تھا ۔اس نے سوچا کہ واپس لوٹ ج‪--‬ائے مالق‪--‬ات ک‪--‬ا‬
‫یہ وقت مناس‪---‬ب نہیں۔لیکن اس‪---‬ی وقت دروازے کے دوس‪---‬ری‬
‫طرف برآمدے میں کس‪--‬ی کے ق‪--‬دموں کی چ‪--‬اپ س‪--‬نائی دی اور‬
‫برآمدہ روشن ہو گیا۔ روشنی دیکھ کر اس میں حوصلہ‪ -‬پیدا ہ‪--‬وا‬
‫اور وہ پھر برآمدے تک پہنچ گیا ۔‬
‫اس نے دروازے پر کھڑے ہو کر آواز دی ‪:‬‬
‫"تمثال"‬
‫کوئی جواب نہیں مال‬
‫اس نے ذرا بلند آواز سے پکارا‪:‬‬
‫"تمثال"‬
‫اب کے اس کی آواز پر ایک بچی آئی لیکن اس‪--‬ے دیکھ‪--‬تے ہی‬
‫چیخ مار کر اندر بھاگ گئی‪)9(.‬‬
‫‪76‬‬

‫اس عبارت کو غ‪--‬ور س‪--‬ے دیکھ‪--‬نے ‪ ،‬اس کی مت‪--‬نی تحلی‪--‬ل اور اس کے آئن‪--‬دہ آنے‬
‫والے حصوں کی تعبیر کرنے کے بعد الم نشرح ہوتا ہے‪ ،‬یہ عمارت اور کوئی عم‪--‬ارت‬
‫نہیں بل کہ خود ادبستان ہے ‪ ،‬اور اس س‪-‬ے نکل‪-‬نے والی بچی(ج‪-‬و غالب‪-‬ا َ ن‪-‬یر مس‪-‬عود کی‬
‫چھوٹی بیٹی صائمہ کا روپ ہے)اپنے بھائی تمثال کے ساتھ نیر مسعود کے اس گھرانے‬
‫ہی کی نمائندہ ہے جو ن‪--‬ا ص‪--‬رف ادبس‪--‬تان ک‪--‬ا مکین تھ‪--‬ا‪ ،‬ب‪--‬ل کہ لوگ‪--‬وں کی مش‪--‬کلیں دور‬
‫کرنے ک‪--‬ا مرک‪--‬ز بھی ۔انیس اش‪--‬فاق نے اپ‪--‬نے اس افس‪--‬انے کے لکھے ج‪--‬انے کے پین‪--‬تیس‬
‫برس بعد مرحوم نیر مسعود پر جو کت‪--‬اب" ن‪--‬یر دوران" کے عن‪--‬وان س‪--‬ے لکھی‪ ،‬اس میں‬
‫وضاحت اور مثالوں کے ساتھ لکھا ہے‪ ،‬کہ لوگ نیر مسعود کے پاس اپنے آپ ے مسائل‬
‫کا حل ڈھونڈنے اور نت نئے خیاالت کی توثیق کے لئے آی‪--‬ا ک‪--‬رتے تھے ۔ان مس‪--‬ائل میں‬
‫میں حکمت ‪ ،‬عمل ‪ ،‬علم االعداد ‪ ،‬فقہ ‪ ،‬تاریخ اور کئی ایسے مرموز عل‪--‬وم بھی تھے جن‬
‫کا شاید کوئی مصدقہ نام بھی نہیں۔ یہ س‪--‬ارے عل‪--‬وم اپ‪--‬نی تخلیقی ش‪--‬ان کے س‪--‬اتھ خ‪--‬ود ان‬
‫کے افسانوں اور ان کے مندرجات میں بھی در آئے ہیں۔(‪)10‬‬
‫کہانی کی طرف واپس لوٹتے ہیں۔ بچی کے دور جانے اور پراس‪--‬رار ش‪--‬خص کے‬
‫نا ملنے کے بعد‪ ،‬متکلم اسے خط لکھنے کا سوچتا ہے۔ خط کا متن پڑھنے کے بعد ‪ ،‬اس‬
‫شخص کے کنایوں اور مناسبتوں سے ن‪--‬یر مس‪-‬عود کے ث‪-‬ابت ہ‪--‬و ج‪-‬انے پ‪--‬ر مہ‪-‬ر ثبت ہ‪--‬و‬
‫جاتی ہے‪ ،‬خط کا متن مالحظہ ہو‪:‬‬
‫"دوسرے علوم کی طرح چونکہ حکمت میں بھی آپ کو خاصا‬
‫دخل ہے اس لیے آپ یہ ضرور‪ -‬بتا دیتے کہ ایسا کیوں ہوا ہے‬
‫لیکن ص‪---‬ائمہ کے ڈر ج‪---‬انے کی وجہ س‪---‬ے میں نے آپ س‪---‬ے‬
‫ملنے کا ارادہ ترک کر دیا آپ خواہ مخواہ اس بات کا ب‪--‬را م‪--‬ان‬
‫جاتے اگر ص‪--‬ائمہ نہ بھی ڈرتی‪ -‬تب بھی آپ ن‪--‬اراض ہ‪--‬و ج‪--‬انے‬
‫کا اندیشہ تھا کیونکہ میں نا وقت آپ کے پاس پہنچا تھا" (‪)11‬‬
‫صب‪78‬‬
‫اس پیراگراف میں بہت سی باتیں غور طلب ہیں‪:‬‬
‫اول‪ :‬حکمت کے عالوہ دوسرے علوم میں درک‪ ،‬یہ ن‪--‬یر مس‪--‬عود کی س‪--‬وانح س‪--‬ے‬
‫بھی ظاہر ہے‪ "،‬نیر دوراں "میں جا بجا ایسے واقعات نقل کیے گئے ہیں‪،‬دوسرا خ‪--‬ود ان‬
‫کے افس‪-‬انے پ‪--‬ڑھ ک‪--‬ر بھی اس ب‪--‬ات پ‪--‬ر یقین آجات‪--‬ا ہے ہے کہ وہ حکمت اور دیگ‪--‬ر بہت‬
‫سے علوم پر دسترس رکھتے ہیں ‪ ،‬مثال کے طور پرسیمیا اور عطر کافور ہی ک‪--‬و دیکھ‬
‫لیجیے ‪ ،‬ان میں ان کی سوانح کا پر تو نظر آتا ہے‪ ،‬انیس اشفاق لکھتے ہیں‪:‬‬
‫"دوم‪ :‬اس پ‪---‬یراگراف‪ -‬میں بچی ک‪---‬ا باقاع‪---‬دہ اور پہلی ب‪---‬ار ن‪---‬ام‬
‫اس‪--‬تعمال ہ‪--‬وا ہے یع‪--‬نی ص‪--‬ائمہ ‪ ،‬ص‪--‬ائمہ کے ڈر ج‪--‬انے س‪--‬ے‬
‫پراسرار‪ -‬شخص کے خفا ہو ج‪--‬انے ک‪--‬ا خ‪--‬وف ‪ ،‬اس ش‪--‬خص کی‬
‫صائمہ سے محبت اور لگاؤ کو ظاہر کرتا ہے۔ نیر مس‪--‬عود کی‬
‫وف‪---‬ات کے بع‪---‬د ہ‪---‬ونے والی ک‪---‬انفرنس میں ان کی چھ‪---‬وٹی‬
‫بیٹی( جس کا نام بھی صائمہ ہے) نے ان کے بارے میں کہا‪:‬‬
‫"باقی لوگوں کے لیے وہ کچھ بھی ہوں‪ ،‬میرے لیے ت‪--‬و وہ ن‪--‬از‬
‫برداری‪--‬اں اٹھ‪--‬انے والے بے مث‪--‬ل وال‪--‬د تھے‪ ،‬ات‪--‬وار کی ص‪--‬بح‬
‫میرے لیے آپ ہی آپ اٹھتے‪ ،‬شیر مال کے درمیاں تازہ ب‪--‬االئی‬
‫لگا ک‪--‬ر م‪--‬یرے بس‪--‬تر پ‪-‬ر التے‪ ،‬اور خ‪--‬وب پی‪--‬ار س‪-‬ے کھالتے‪،‬‬
‫م‪--‬یری خفگی س‪--‬ے بچ‪--‬نے کے ل‪--‬یے س‪--‬اروں کی خفگی م‪--‬ول‬
‫لیتے"(‪)11‬‬

‫صائمہ کی اس بات اور خط کے متن کے درمیان واضح مطابقت پیدا کی جا سکتی ہے۔‬
‫سوم‪ :‬میں نا وقت آپ کے پاس پہنچا تھا‬
‫اس کے معنی کچھ اسی شخص پر کھل سکتے ہیں جو نیر مس‪-‬عود کی ذاتی زن‪-‬دگی س‪-‬ے‬
‫بہت آگاہ ہ‪--‬و‪ ،‬ن‪--‬یر مس‪--‬عود اپ‪--‬نی ذاتی زن‪--‬دگی میں بہت عب‪--‬ادت گ‪--‬زار‪ ,‬لم‪--‬بی لم‪--‬بی دع‪--‬ائیں‬
‫پڑھنے اور وظیفے کرنے والے انسان تھے۔ "نیر دوراں " میں انیس اشفاق نے لکھا ہے‬
‫کہ وہ مغرب کے بعد کسی سے حتی کہ قریبی لوگوں سے ملنا بھی نا پسند کرتے‪ ،‬ای‪--‬ک‬
‫دو بار میں ان کے گھر بے وقت چال بھی گیا تو انھوں نے خاصا ڈانٹ ک‪--‬ر م‪--‬راجعت کی‬
‫راہ دکھالئی۔ان کی زندگی کو دیکھتے ہوئے وہ اس حدیث کی عملی تفسیر معل‪--‬وم ہ‪--‬وتے‬
‫ال مجلس بعد العشاء۔(‪)12‬‬
‫ان کے م‪--‬ذہبی ہ‪--‬ونے ک‪--‬ا ثب‪--‬وت‪ ،‬ان کی تحری‪--‬روں س‪--‬ے بھی منکش‪--‬ف ہے‪ ،‬مثالً کیس‪--‬ری‬
‫کشور کے خاکے میں دعائے جوشن کی ذیل میں دیے گئے واقعات بھی ہم‪--‬ارے دع‪--‬وے‬
‫پر دال ہیں۔‬
‫بہر صورت‪ ،‬دوبارا کہانی کی طرف پلٹتے ہیں‪ ،‬کہانی ک‪--‬ا متکلم یہ خ‪--‬ط ڈاک کے‬
‫حوالے کر دیتا ہے اور اس کے بعد تفکرات میں مبتال ہ‪--‬و جات‪--‬ا ہے‪ ،‬اگلے دن اپ‪--‬نی پیش‪--‬ہ‬
‫ورانہ مصروفیات سے جامعہ جاتا ہے لیکن جم‪-‬اعت میں ل‪-‬ڑکے اس‪-‬ے دیکھ‪-‬تے ہی چیخ‬
‫مارتے ہیں اور بھاگ جاتے ہیں‪ ،‬یہ بھی اپنی اس ہ‪-‬یئت ک‪-‬ذائی کے ع‪-‬الم میں گھ‪-‬ر بھ‪-‬اگ‬
‫نکلتا ہے‪ ،‬ایک ندائے ہاتف کہ‪--‬تی ہے اس کے گھ‪--‬ر ج‪--‬اؤ جس کے گھ‪--‬ر ک‪--‬ل گ‪--‬ئے تھے‪،‬‬
‫نتیجے میں وہ پھر اسی در پر چال جاتا ہے۔‬
‫ب‪-----‬ار ب‪------‬ار اس کے در پہ جات‪-----‬ا ہ‪------‬وں‬
‫ح‪-------‬الت اب اض‪-------‬طراب کی س‪-------‬ی ہے‬

‫مالحظہ ہو‪:‬‬
‫"اس کی نظ‪--‬ر داخلی دروازے س‪--‬ے ہ‪--‬وتی ہ‪--‬وئی عم‪--‬ارت کے‬
‫اندرونی‪ -‬حصے تک پہنچ گ‪--‬ئی۔ وہ‪--‬اں ص‪--‬ائمہ اور تمث‪--‬ال ک‪--‬وئی‬
‫کھیل کھیل رہے تھے۔ صائمہ کو دیکھ ک‪--‬ر اس‪--‬ے اطمین‪--‬ان بھی‬
‫ہوا اور خوشی‪ -‬بھی۔ اس کے جی میں آی‪--‬ا کہ وہ تمث‪--‬ال ک‪--‬و آواز‬
‫دے ک‪---‬ر اپ‪---‬نے ق‪---‬ریب بالئے اور جب ص‪---‬ائمہ بھی اس کے‬
‫پیچھے پیچھے چلی آئے تو اسے پکڑ کر اس کی چھ‪--‬وٹی س‪--‬ی‬
‫ہتھیلی پر کوئی‪ -‬نقش بنا دے۔ یہ کام وہ اکثر کیا کرتا تھا "(‪)13‬‬

‫"نیر دوراں" ہی میں لکھا ہے کہ انیس اش‪--‬فاق ن‪-‬یر مس‪--‬عود کی چھ‪--‬وٹی بی‪--‬ٹی س‪-‬ے‬
‫بہت محبت کرتے تھے اور اسے خوب صورت خوب صورت ناموں سے پک‪--‬ار ک‪--‬ر اس‬
‫کی دل چسپی کا سامان پیدا کیا کرتے تھے۔ بل کہ انیس اشفاق نے اپنی اوالد ک‪--‬ا ن‪--‬ام بھی‬
‫نیر مسعود کے مشورے سے ہوا۔(‪)14‬‬
‫اس کے بعد افسانے میں متکلم خود آئینہ بن‪--‬انے ک‪--‬ا س‪--‬وچتا ہے‪ ،‬اور ب‪--‬ازار س‪--‬ے س‪--‬امان‬
‫النے سے پہلے اس س‪--‬فید عم‪--‬ارت والے پراس‪--‬رار ش‪--‬خص ک‪--‬و دوب‪--‬ارہ خ‪--‬ط لکھ‪--‬نے کی‬
‫سوچتا ہے ۔چھوٹے سے افسانے میں اپنے مس‪--‬ائل کے ل‪--‬ئے ل‪--‬یے پے بہ پے اس ش‪--‬خص‬
‫سے رجوع کرنا سجھاتا ہے کہ متکلم کے لیے وہ شخص کتنی اہمیت کا حامل ہے۔‬
‫دوسرے خط کے متن میں وہ اسے اپ‪--‬نی بیم‪--‬اری کی ن‪--‬وعیت ک‪--‬ا بتات‪--‬ا ہے اور یہ بھی کہ‬
‫ایک ندائے غیبی نے اسے حکیموں سے ملنے کا مشورہ دیا ہے۔‬
‫متواتر لکھے گئے خطوط اور ان کے عدم جواب سے متکلم ک‪--‬و یہ خدش‪--‬ہ ہوت‪--‬ا ہے کہ‬
‫کہیں وہ شخص ناراض تو نہیں۔ اس سوچ بچ‪--‬ار س‪--‬ے پہلے وہ یہ بھی خی‪--‬ال کرت‪--‬ا ہے کہ‬
‫ان تمام مسائل کا حل کہیں نہ کہیں اسی شخص کے پاس موجود ہے۔‬
‫اقتباس مالحظہ ہو‪:‬‬
‫"سفید عمارت والے شخص کا جواب ابھی تک نہیں آیا تھا اس شہر میں وہ سفید عم‪--‬ارت‬
‫والے شخص ہی کو سب سے بہتر جانتا تھا وہ جس حکیم کو بتاتا اسی سے وہ عالج ک‪--‬ر‬
‫آتا ۔لیکن اس نے دونوں خط کے جواب میں خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔‬
‫"کہیں وہ مجھ سے ناراض تو نہیں "اس نے سوچا اور اس کا جسم ٹھنڈا پڑنے لگا‪.‬‬
‫"شاید وہ بھی مجھ س‪--‬ے نف‪--‬رت ک‪--‬رنے لگ‪--‬ا ہے" اس‪--‬ی ل‪--‬ئے اب‬
‫ت‪--‬ک اس نے ختم ک‪--‬ا ج‪--‬واب نہیں دی‪--‬ا ‪.‬مجھے آج پھ‪--‬ر اس کی‬
‫ط‪--‬رف جان‪--‬ا چ‪--‬اہئے اور حکیم کے ب‪--‬ارے میں مش‪--‬ورہ کرن‪--‬ا‬
‫چاہیے۔‬
‫یہ خیال آتے ہی وہ س‪--‬فید عم‪--‬ارت کی ط‪--‬رف ج‪--‬انے کی تی‪--‬اری‬
‫کرنے لگا ۔ گھر سے ب‪--‬اہر نک‪-‬ل ک‪--‬ر جب وہ س‪--‬فید عم‪--‬ارت کے‬
‫پ‪---‬اس پہنچ‪---‬ا ت‪---‬و اس نے دیکھ‪---‬ا کہ عم‪---‬ارت کے کے ص‪---‬در‬
‫دروازے پر پر ایک بوڑھا ش‪--‬خص کھ‪--‬ڑا ہے جس کے ہ‪--‬اتھوں‬
‫میں خوبص‪--‬ورت س‪--‬ی چھ‪--‬ڑی ہے وہ ب‪--‬ار ب‪--‬ار اس‪--‬ے ہالت‪--‬ا اور‬
‫کبھی کبھی اس س‪--‬ے دروازے کے ب‪--‬ائیں ط‪--‬رف لگی پ‪--‬یڑ کی‬
‫پتیوں سے وار کر دیتا۔ پیڑ کی شاخوں سے زرد پتیاں ٹوٹ کر‬
‫زمین پ‪--‬ر گ‪--‬رنے لگ‪--‬تیں اور وہ انہیں زمین س‪--‬ے اٹھ‪--‬ا ک‪--‬ر اپ‪--‬نی‬
‫جیب میں بھر لیتا ۔اسے بوڑھے شخص کا یہ عمل بہت انوکھ‪--‬ا‪-‬‬
‫معلوم ہوا جب وہ صدر دروازے‪ -‬کے قریب پہنچا تو وہ شخص‬
‫اسے غور سے دیکھنے لگا بوڑھے کی آنکھوں میں دوس‪--‬روں‬
‫ک‪--‬و خ‪--‬وفزدہ ک‪--‬ر دی‪--‬نے والی چم‪--‬ک تھی ۔وہ زی‪--‬ادہ دی‪--‬ر ت‪--‬ک‬
‫بوڑھے کی متجسس نگاہوں کی تاب نہ ال سکا ۔"(‪)15‬‬

‫یہ بوڑھا شخص اس خراب ہ‪--‬وتے چہ‪--‬رے والے آدمی ک‪--‬و مخص‪--‬وص حکیم س‪--‬ے‬
‫ملنے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ حکیم اپنے تئیں ن‪--‬وادرات میں س‪--‬ے ہے‪ ،‬اس کے مل‪--‬نے ک‪--‬ا‬
‫پت‪--‬ا‪ ،‬کہیں دور ہے‪ ،‬آب‪--‬ادی س‪--‬ے ہٹ کے اس کے مطب کی عم‪--‬ارت س‪--‬یاہ رن‪--‬گ کی ہے‪،‬‬
‫طرہ یہ کہ حکیم صاحب لوگ‪--‬وں کے س‪--‬امنے نہیں آتے‪ ،‬ب‪--‬ل کہ پ‪--‬ردے کے پیچھے س‪--‬ے‬
‫مخ‪--‬اطب ہ‪--‬وتے ہیں‪ ،‬البتہ ان ک‪--‬ا مع‪--‬اون بیم‪--‬اری کی تفص‪--‬یالت و جزئی‪--‬ات لکھی ہ‪--‬وئی‬
‫صورت میں ان تک لے ج‪-‬اتے ہیں۔متکلم‪ -‬وہ‪-‬اں پ‪-‬ر جن بیم‪-‬ار لوگ‪-‬وں ک‪-‬و دیکھت‪-‬ا ہے‪ ،‬وہ‬
‫بیماریاں بھی ایسی گھناؤنی اور ناقابل مشاہدہ ہیں‪ ،‬کہ جسم پر بچھو چل‪--‬تے ہ‪--‬وئے معل‪--‬وم‬
‫ہوتے ہیں‪ ،‬مالحظہ ہو‪:‬‬
‫"ایک مریض کے سینے پر بہت گہ‪--‬را زخم تھ‪--‬ا اور وہ مع‪--‬اون‬
‫سے باربار پانی مانگ رہا تھا۔ایک کی گردن اک‪--‬ڑی ہ‪--‬وئی تھی‬
‫اور آدھی سے زیادہ زبان کٹی ہوئی تھی۔ایک م‪--‬ریض کی آنکھ‬
‫میں زخم تھا جس کی وجہ سے اس کی بصارت زائ‪--‬ل ہ‪--‬و گ‪--‬ئی‬
‫تھی۔"(‪)16‬‬

‫ان عجیب و غریب مریضوں کے مابین متکلم بھی اپنے بگڑتے ہوئے نق‪--‬وش کے‬
‫ہمراہ بیٹھتا ہے ۔ سارے مریض‪--‬وں کے م‪--‬رض اور ان کی تفص‪--‬یل ک‪--‬و ب‪--‬اریکی ء مش‪--‬اہدہ‬
‫کے ساتھ پیش کرنے کے بعد اس کی باری پر حکیم اس‪--‬ے ای‪--‬ک ہف‪--‬تے بع‪--‬د آنے ک‪--‬ا حکم‬
‫دیت‪--‬ا ہے۔ اس بھی‪--‬د بھ‪--‬ری عم‪--‬ارت س‪--‬ے نکل‪--‬نے کے بع‪--‬د متکلم دوب‪--‬ارا س‪--‬فید مک‪--‬ان والے‬
‫شخص کی طرف جانے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن حسب سابق وہاں ش‪-‬نوائی نہیں ہ‪-‬وتی‪،‬‬
‫یہاں وہ سخت پریشانی کے عالم میں انھیں تیسرا خط لکھتا ہے۔ یہ خدش‪--‬ہ‪ ،‬کہ وہ ش‪--‬خص‬
‫بھی اس سے خفا نہ ہو گیا ہو‪ ،‬اسے مزید نڈھال کر دیت‪--‬ا ہے۔ خط‪--‬وط لکھ‪--‬نے کے دوران‬
‫کی شدت اور ان کی طرف سے جواب کی طلبہ ظاہر کرتی ہے کہ اس پراسرار ن‪--‬امعلوم‬
‫فرد کا کوئی نہ کوئی ایسا رشتہ ناطہ ضرور ہے‪ ،‬جس کی وجہ۔ س‪--‬ے ی‪--‬ا ت‪--‬و وہ مکت‪--‬وب‬
‫نگار کے مسئلے کی اصل وجہ جانتا ہے ‪ ،‬یا اس کے پاس اس کا حل موجود ہے۔ دونوں‬
‫صورتوں میں پراسرار آدمی کی روحانی و الوہی جہات سامنے آتی ہیں۔ نیر مس‪--‬عود کے‬
‫بارے میں آس‪--‬مانی و روح‪--‬انی اور پراس‪--‬رار و ہ‪--‬وائی ب‪--‬اتیں ک‪--‬رنے وال‪--‬وں کی کمی نہیں۔‬
‫شمس الرحمن فاروقی کے بقول ان کے افسانوں میں مستقل طور پ‪--‬ر ای‪--‬ک ‪ menace‬کی‬
‫فض‪--‬ا پ‪--‬ائی ج‪-‬اتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ف‪--‬اروقی ص‪--‬احب نے کہ‪--‬ا تھ‪--‬ا کہ اگ‪--‬ر مجھے ن‪--‬یر‬
‫مسعود کی کہانیوں کا راوی ملے تو اسے بہت پیٹوں۔(‪)17‬‬
‫دوسرا یہ کہ نیر مسعود نے ساگری سین گپتا کو دیے گئے اپ‪--‬نے ان‪--‬ٹرویو میں بہت س‪--‬ی‬
‫مافوق العادہ باتوں اور واقعات ک‪--‬ا ذک‪--‬ر ک‪--‬ا ذک‪--‬ر کی‪--‬ا ہے اور اپ‪--‬نی زن‪--‬دگی ک‪--‬و ‪sam‬س‪--‬ے‬
‫منسوب کیا ہے ۔ آئینہ گر میں بھی اس پراسرار آدمی کی یہ ساری نش‪-‬انیاں پ‪--‬وری ہ‪--‬وتی‬
‫دکھائی دیتی ہیں۔‬
‫تیسرے خط کے بعد جب حکیم صاحب سے دوبارا رجوع کیا جات‪--‬ا ہے اور دوا کی ی‪--‬افت‬
‫کے بعد وہ سفید عمارت کا رخ کرتا ہے‪ ،‬تو وہاں پر ایک مزید انجانے ک‪--‬ردار کے س‪--‬اتھ‬
‫اس کا یہ مکالمہ ہوتا ہے ‪:‬‬
‫"کون؟ "روشنی کرنے والے نے سامنے آئے بغیر پوچھا‬
‫جواب میں اس نے اپنا نام اور آمد کا سبب بتایا‬
‫"وہ آپ سے ملنا نہیں چاہتے"‬
‫"کیوں"اس نے سبب جاننا چاہا‬
‫"انک‪---‬ار ک‪---‬ر دی‪---‬ا ہے اور وہ اب وہ آپ س‪---‬ے نہیں ملیں گے"‬
‫روشنی‪ -‬کرنے والے نے مالقات نہ کرنے والے کا سبب بت‪--‬ائے‬
‫بغیر روشنی گل کر دی۔" (‪)18‬‬
‫‪103-3‬‬
‫اس کے بعد متکلم اپنے جسم پر بچھو ‪ ،‬سانپ ‪،‬کن کھجورے(اس کا ذکر خود نیر مسعود‬
‫کی کہانیوں میں بھی ملتا ہے) چل‪--‬تے محس‪--‬وس کرن‪--‬ا ش‪--‬روع ک‪--‬ر دیت‪--‬ا ہےاور خ‪--‬وف کے‬
‫مارے‬
‫بندر بن جاتا ہے‪ ،‬اس مقام پر تنگ آ کر وہ پاگلوں کی طرح ایک مثالی آئینہ بنانے‬
‫لگتا ہے‪ ،‬دن رات کی محنت کے بع‪--‬د جب وہ آئینہ تی‪--‬ار ہوت‪--‬ا ہے ت‪--‬و اس میں اس ک‪--‬ا اپن‪--‬ا‬
‫عکس تو درست معلوم ہونے لگتا ہے لیکن مکان کی باقی ہر چیز اپنی ہ‪--‬یئت کھ‪--‬و دی‪--‬تی‬
‫ہے اور اس کے اندر اسرار کا ایک جہان آباد نظر آت‪--‬ا ہے۔ متکلم اس آئی‪--‬نے ک‪--‬و لے ک‪--‬ر‬
‫بازار جاتا ہے‪ ،‬آئینہ گر کو دکھاتا ہے‪ ،‬وہ اس میں شکل دیکھ‪--‬تے ہی چیخ مارت‪--‬ا ہے اور‬
‫گر جاتا ہے‪ ،‬آس پاس کے لوگ بھی اس میں عکس دیکھ کر چیخیں م‪--‬ارنے لگ‪--‬تے ہیں ‪،‬‬
‫متکلم اس آئینے کو لے کر گھر دوڑتا ہے اور دیوار پر لگاتا ہے ‪ ،‬دیکھتے ہی دیکھ‪--‬تے‬
‫وہ پتھر کا بن جاتا ہے ۔‬
‫اس عجیب و غریب اور کسی حد تک تلمیحی و عالمتی افسانے کے بارے میں کسی قدر‬
‫تفصیلی بات کی جا سکتی ہے۔ لیکن اس مقام پر ہمارا تمام تر مسئلہ یعنی ‪ concern‬ن‪--‬یر‬
‫مسعود کے کردار سے ہے۔‬
‫ہمارے خیال میں مرموز و غائب کردار کی شخصیت‪ ،‬ان کا لوگ‪--‬وں کے مس‪--‬ئلوں‬
‫میں روشن مینار کی حیثیت اختی‪--‬ار ک‪--‬یے رکھن‪--‬ا اور قبح دنی‪--‬ا و زن‪--‬دگی س‪--‬ے دور رہن‪--‬ا ‪،‬‬
‫ایس‪--‬ی خ‪--‬اص اور واض‪--‬ح عالم‪--‬تیں ہیں ج‪--‬و ن‪--‬یر مس‪--‬عود س‪--‬ے خ‪--‬اص الخ‪--‬اص ط‪--‬ور پ‪--‬ر‬
‫مخصوص ہیں۔ مزید ان کے بیٹے بی‪--‬ٹی کے ن‪--‬ام‪ ،‬ادبس‪--‬تان کی عم‪--‬ارت‪ ،‬اور اس عم‪--‬ارت‬
‫کے باہر کھڑے روحانی یا الوہی بوڑھے کی موجودگی عالمتی ط‪--‬ور پ‪--‬ر مس‪--‬عود حس‪--‬ن‬
‫رضوی ادیب کی طرف بھی اشارا کرتی ہے۔ افسانے کی فضا میں چھائی ہ‪--‬وئی بیم‪--‬اری‬
‫اور طب‪ ،‬بھی نیر مسعود کے افسانے اور سوانح کے ساتھ واض‪--‬ح مناس‪--‬بت رکھ‪--‬تی ہے۔‬
‫نیر مسعود کے دادا مرتضی حسین خود حکیم تھے اور اپنی ہی تیار ک‪--‬ردہ دوا کی زی‪--‬ادہ‬
‫مقدار کھا کر نا فوق الفطرت ح‪--‬االت میں ف‪--‬وت ہ‪--‬وئے ن‪--‬یر مس‪--‬عود نے جگہ جگہ ان کے‬
‫اس واقعے کو خاص اہمیت کے ساتھ بیان کیا ہے۔(‪)19‬‬
‫یہ ان کے الش‪--‬عوری تط‪--‬ابق یع‪--‬نی ‪ Mental adjustment‬کی ص‪--‬ورت بھی ہ‪--‬و‬
‫سکتی ہے۔ بہر ص‪--‬ورت یہ اردو کی ت‪--‬اریخ میں وہ پہال افس‪--‬انہ ہے جس میں ن‪--‬یر مس‪--‬عود‬
‫جیسے بے مثال کہانی کار کو خود کہانی کا حص‪--‬ہ بنای‪--‬ا ہے۔ یہ ک‪--‬ردار انیس اش‪--‬فاق کے‬
‫ناول "پری ناز اور پرندے " میں مزید وسعت گیر صورت اختیار کر لیتا ہے۔‬
‫نیر مسعود نے بھی عمر میمن کے نام اپنے خطوط دو سے تین بار انیس اشفاق کے اس‬
‫افسانے کو عمدہ قرار‪ ‬دیا‪ ‬ہے۔‪)20( ‬‬

You might also like