Professional Documents
Culture Documents
خواتین کی معاشی دھارے میں شمولیت
خواتین کی معاشی دھارے میں شمولیت
1
خواتین نے زرعی قرضے لیے۔زیادہ تر خواتین کا قرض ان کی گھریلو ضروریات پورا
کرنے میں ہی خرچ ہوجاتا ہے۔
دیہی زمین خواتین کے نام کردی جاتی ہے مگر ان ک))ا قبض))ہ نہیں ہوت))ا۔ تقریب)ا َ 10س))ے
15فیصد خواتین لینڈ الرڈ ہیں جبکہ 85فیصد س))ے زائ))د زمین م))رد کے پ))اس ہے ،اس))ی
طرح صرف 1فیصد خواتین انٹرپرینیور ہیں جو جنوبی ایشیا میں سب سے کم شرح ہے
لہٰ ذا جب تک خواتین معاشی دھارے میں شامل نہیں ہوں گی تب تک ملکی معیش))ت بہ))تر
نہیں ہوسکتی۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معاش))ی نم))و ک))ا 30
فیصد امتیازی پالیسیوں کی وجہ سے ضائع ہوجاتا ہے۔
اس سے ان))دازہ لگای))ا جاس))کتا ہے کہ خ))واتین کی ع))دم ش))مولیت کی وجہ س))ے ہمیں کتن))ا
نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے لہٰ ذا تمام طبقات کو شامل کرکے بہتر پالیسیاں بنانے سے مس))ائل
حل ہوسکتے ہیں۔ پنجاب جینڈر مینجمنٹ سسٹم کا ف))وکس 7بنیادی چ))یزیوں پ))ر ہے۔ اس
میں دیکھ)))ا یہ جات)))ا ہے کہ کت)))نی لڑکیوں کی پیدائش ،ش)))ادیاں ،طالق اورام)))وات کی
رجسٹریشن ہوئی اور کتنی خواتین کے شناختی کارڈ بنے ہیں۔
افس))وس ہے کہ ل))ڑکے اور لڑکیوں کی پیدائش کے ان))دراج میں 8فیص))د جبکہ ش))ناختی
کارڈ میں 12سے 14فیصد کا فرق ہے۔ افسوس ہے کہ ع))ورت ک))و معاش))رے ک))ا براب))ر
شہری نہیں سمجھا جاتا ،خواتین کے ساتھ امتیازی س))لوک ختم کیا ج))ائے۔ ہم))ارے ہ))اں
ای))ک بہ))تری یہ ٓائی ہے کہ اب مختل))ف چ))یزوں پ))ر ریس))رچ کی ج))ارہی ہے۔ ہم نے جب
پنجاب جینڈر مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم بنایا تو سوال اٹھا کہ کیا اس کو پبلک کرنا ہے ی))ا
نہیں؟ فیصلہ ہوا کہ ہمیں اپنے مسائل چھپانے نہیں چاہئیں بلکہ ان پر کام کرنا چاہیے۔
ہم نے اپنی ریس))رچ پبل))ک کی اور پ))ورے ایش))یاء میں پنج))اب کے عالوہ کس))ی بھی جگہ
خواتین کے حوالے سے ایڈمنسٹریٹیو ڈیٹ))ا موج))ود نہیں کیونکہ ادارے کے 1049دف))اتر
نے دستخط کیے کہ یہ تمام اعداد و شمار درست ہیں۔ہمارے ہاںایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ
تعلیمی اداروں میں بھی اصل ریسرچ نہیں پڑھائی ج))اتی۔ یہی وجہ ہے کہ ریس))رچ س))ے
خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوتا۔ ح))ال ہی میں گلوب))ل جین))ڈر گیپ رپ))ورٹ 2018ء ش))ائع ہ))وئی
جس میں 5مزید ممالک ک))و ش))امل کیا گیا ۔ اس رپ))ورٹ میں 149ممال))ک میں س))ے ہم
148ویں نمبر پر ہیں۔
پنجاب کمیشن نے لڑکوں اور لڑکیوں کے کالجوں میں انسانی حقوق اور نئے قوانین کے
حوالے س)ے بہت س)ارے ٓاگ)اہی س)یمینارز منعق)د ک)روائے ہیں۔ 100س)ے زائ)د س)یمینار
گزش))تہ م))اہ ک))روائے گ))ئے ہیں جبکہ میڈیا پ))ر بھی وراثت کے حق))وق ،تش))دد ،س))ائبر
ہراسمنٹ اور کام کی جگہ پر ہراسمنٹ کے حوالے سے ٓاگاہی مہم چالئی گئی۔ٓاگ))اہی مہم
کو مزید وسیع کیا جائے گ)ا۔ س))ی پیک منص)وبے میں خ)واتین کی ش)مولیت کے ح)والے
سے ریسرچ کروا رہے ہیں تاکہ جہاں جہاں سے سی پیک گزر رہا ہے وہاں کی خواتین
ک)))و ٹیکن)))الوجی بیس)))ڈ ت)))ربیت دی ج)))ائے کہ زرعی ش)))عبے میں ک)))ام ک)))رنے والی 70
فیصدخواتین کے روزگار کو تحفظ مل سکے۔
کمیشن نے ’’جاب ٓاسان‘’ منصوبہ شروع کیا ج))و ایمپالئمنٹ س))پورٹ س))ینٹر ہے۔ ایس))ی
لڑکیاں جو اپنی ڈگ))ری کے ٓاخ))ری س))ال میں ہیں انہیں س))ی وی رائٹن))گ ،ان))ٹرویو س))کلز
وغیرہ سکھائی جاتی ہیں۔ ایک ماہ کے اندر اندر ج)اب پورٹ)ل بھی النچ کردی))ا ج)ائے گ)ا
2
جو خواتین کو مختلف نوکریوں سے خود ہی لنک کرے گ))ا۔ وویمن انکوبیش))ن نیٹ ورک
میں انٹرپرینیورز) کو سپورٹ کیا جارہا ہے۔ ہم علیح))دگی کے قائ))ل نہیں لیکن بعض جگہ
خواتین کو ساز گار ماحول فراہم کرنے کی ض))رورت ہے ت))اکہ وہ م))وثر ان))داز میں ٓاگے
بڑھ سکیں۔
ابھی صرف الہور میں انکوبیشن سینٹر بنایا گیا ہے امید ہے حک))ومت دیگ))ر اض))الع میں
بھی یہ سینٹرز قائم کرے گی۔وویمن چیمبر ٓاف کامرس کی صدر ہماری ب))ورڈ مم))بر ہیں۔
ہمیں چیمبر کی سپورٹ حاصل ہے جس سے ہمیں بزنس وویمن کے مسائل کا معلوم ہوتا
ہے اور پالیس))ی س))ازی میں م))دد بھی مل))تی ہے۔ ابت))دائی 100دن))وں میں کمیش))ن نے 13
قوانین میں تبدیلی کی تجویز دی ۔ ابھی ان میں سے 3ق))وانین لیبر ڈیپ))ارٹمنٹ نے ک))ابینہ
کوبھجوا دیے ہیں جن میں ڈومیسٹک ورکرز ،ہوم بیسڈ ورکرز اور زرعی مزدور شامل
ہیں۔ ان قوانین کو جلد اسمبلی میں پیش کیا جائے۔
پروفیسر ڈاکٹر فیصل باری(ماہر معاشیات )
مل))ک کی نص))ف ٓاب))ادی خ))واتین پ))ر مش))تمل ہے جس س))ے ان کی اہمیت ک))ا ان))دازہ لگای))ا
جاسکتا ہے لہٰ) ذا اگ)ر ای)ک ب)ڑا حص)ہ کس)ی وجہ س)ے پیچھے ہوت)و ت)رقی کی رفت)ار کم
ہوجاتی ہے۔دنیا کے دیگر ممالک سے خواتین کی عملی شمولیت کا موازنہ کیا جائے ت))و
ہمارے ہاں یہ تعداد خاصی کم ہے۔ خواتین کی شمولیت کا تعل))ق زی))ادہ ی))ا کم ت))رقی ی))افتہ
ممالک سے نہیں ہے کیونکہ ایسے ممال))ک بھی ہیں جن میں خ))واتین کی ش))مولیت زی))ادہ
ہے لیکن وہ کم ترقی یافتہ ہیں۔
اس))ی ط))رح م))ذہب ی))ا کلچ))ر س))ے بھی تعل))ق نہیں ہے کیونکہ ہم))ارے خطے میں ایس))ے
ممالک ہیں جہ))اں خ))واتین کی ش))مولیت زی))ادہ ہے جبکہ ہم))ارے ہم م))ذہب ایس))ے ممال))ک
موجود ہیں جہاں خواتین کا ک))ردار زی))ادہ ہے۔ خ))واتین کی ع))دم ش))مولیت کی بہت س))اری
وجوہات ہیں لہٰ ذا کسی ایک کو بنیاد ٹہرانا درست نہیں۔اگر) والدین اپنی بچیوں ک)و ص)رف
اس لیے تعلیم نہیں دلواتے کہ سکول دور ہے ،ٹرانسپورٹ کی سہولت ی))ا تحف))ظ نہیں ہے
تو اس کا تعلق مذہب س))ے نہیں بلکہ س))ہولیات کے فق))دان س))ے ہے۔ اس))ی ط))رح مالزمت
میں بھی خواتین کو مس))ائل ہیں لہٰ) ذا م))احول ک))و س))ازگار بن))اکر خ))واتین کی ش))مولیت ک))و
بڑھایا جاسکتا ہے۔
پہلے ہ))ائر ایجوکیش))ن میں لڑک))وں کی نس))بت لڑکیوں کی تع))داد کم تھی مگ))ر گزش))تہ دو
دہ)))ائیوں س)))ے یہ ف)))رق کم ہورہ)))ا ہے ت)))اہم ابھی بھی انجینئرن)))گ ،ب)))زنسٓ ،ائی ٹی،
انٹرپرینیورشپ جیسے ش))عبوں میں خ))واتین کی تع))داد کم ہے۔اص))ل مس))ئلہ یہ ہے ڈگ))ری
حاصل کرنے کے بعد زیادہ ترخ))واتین ک))ام نہیں ک))رتی جس ک))ااثر معیش))ت پ))ر پڑت))ا ہے۔
شعبہ تعلیم میں خواتین کی شمولیت بہت زیادہ ہے۔ گزشتہ دو س))ے تین دہ))ائیوں میں نجی
سکولوں کی تعداد میں اضافے کی وجہ تعلیم یافتہ ینگ ٹیچ))رز ہیں لہٰ) ذا اگ)ر خ)واتین ک)و
دیگر شعبوں میں بھی مواقع دیے جائیں تو بہتری ٓاسکتی ہے۔ میرے نزدیک خواتین کے
حوالے سے وسیع پیمانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
کچھ عرصے کے لیے خواتین کے لیے مختلف شعبوں میں کوٹہ مقرر کر دیا جائے اور
اس پر عملدرٓامد کیا جائے تاکہ ان کی شمولیت میں اضافہ ہوس))کے۔ اس کے س))اتھ س))اتھ
انہیں ٹرانسپورٹ ،تحفظ و دیگر سہولیات دی جائیں۔ ہراسمنٹ و دیگر مسائل کے حوالے
3
سے قانون سازی ہوئی ہے لیکن اگ))ر کہیں س))قم ہے ت))و اس))ے دور کیا ج))ائے اور جہ))اں
ضرورت ہے نئی قانون سازی کی جائے۔
اس سے بھی اہم یہ ہے کہ قوانین پ))ر ان کی اص))ل روح کے مط))ابق ص))حیح معن))وں میں
عملدرٓامد بھی کروایا جائے۔ تعلیم اور اپنا کیرئیر بنان))ا ہ))ر ای))ک ک))ا بنیادی ح))ق ہے لہٰ) ذا
خواتین کے لیے خصوصی اقدامات ک))ا ہرگ))ز یہ مطلب نہیں ہے کہ ان پ))ر ک))وئی احس))ان
کیا جارہا ہے لہٰ ذا اس سوچ کو بھی تبدیل کرنا ہوگا۔ ٹیکنیکل ایجوکیش))ن کی م))ارکیٹ ک))و
س))مجھنے کی ض))رورت ہے۔ اس میں بے ش))مار مس))ائل ہیں کہ ہم تعلیم اور مالزمت کی
جگہ کو ٓاپس میں لن))ک نہیں ک)ر س))کے جس کی وجہ س))ے ٹیکنیک)ل ایجوکیش))ن کے بع))د
بھی لوگ بے روزگار ہیں لہٰ ذا اس کو بہتر بنانا ہوگ))ا۔ اگ))ر گ)اؤں میں ہی م))ارکیٹ ہ))و ت))و
وہاں خواتین کی شمولیت زیادہ ہوگی لیکن اگر دور ہوتو ان کے ل))یے ک))ام مش))کل ہوجات))ا
ہے۔
اس کے پیش نظر خواتین کو مقامی سطح پر ٹیکنیکل ٹریننگ دی جائے اور وہ))اں ہی ان
کے لیے روزگار کے مواق))ع پیدا ک))یے ج))ائیں ،اس ط))رح ان کی ش))مولیت زی))ادہ ہ))وگی۔
خواتین کو چھوٹے قرضے دین))ا م))ردوں کی نس))بت بہ))تر ہے کیونکہ اس میں ڈیف))الٹ ک))ا
رسک کم ہے لیکن خ))واتین ک))و ص))رف ق))رض دین))ا ہی ک))افی نہیں بلکہ انہیں ت))ربیت اور
سپورٹ فراہم کی جائے تاکہ وہ اپنا روزگار کما سکیں۔ اثاثوں کی منتقلی کا پروگرام دنیا
میں چل رہا ہے۔ خواتین کی معاشی حالت بہتر ک))رنے کیل))ئے یہ))اں بھی ایس))ے پروگ))رام
حتی کہ انہیں زمین بھی دی جائے۔ سٹیٹ چالئے جائیں جن میں بھینسیں ،مرغیاں وغیرہ ٰ
بینک کا خواتین کو قرض دینے کا منصوبہ خوش ٓائند ہے ،ایسا کرنے سے معاشرے ک))ا
وہ طبقہ جو بعض وجوہات کی بناء پ))ر پیچھے رہ گیا ہے ،اس))ے ٓاگے النے میں بہ))تری
ٓائے گی۔
ممتاز مغل(ریزیڈنٹ ڈائریکٹر عورت فاؤنڈیشن)
دنیا میں صرف 23فیصد خواتین سینئر پوزیشنز پرہیں جس سے صنفی امتیاز ک))ا ان))دازہ
لگایا جاسکتا ہے۔ پاکستان کی بات ک))ریں ت))و اس ح))والے س))ے ہم 149ممال))ک میں س))ے
148ویں نم))بر پ))ر ہیں۔ ان اع))داد و ش))مار س))ے خ))واتین کی ص))ورتحال ک))ا ان))دازہ لگای))ا
جاسکتا ہے۔ عورت فاؤنڈیشن نے 90ء کی دہائی سے ہی اس مسئلے پر ٓاواز اٹھا رکھی
ہے کہ خواتین کے شمار کے ساتھ ساتھ ان کے کام کو بھی گنا جائے ،اس س))ے پالیس))ی
سازی میں مدد ملے گی۔بدقسمتی سے ابھی تک حکوم))تی و معاش))رتی س))طح پ))ر خ))واتین
کے کردار کو تسلیم ہی نہیں کیا گیا۔ ایک ریسرچ کے مطابق خاتون صبح 5بجے اٹھ))تی
ہے اور رات تک مختلف اقسام کے 72کام کرتی ہے لیکن اس کو کام نہیں سمجھا جاتا۔
پرائیویٹ سیکٹر میں خواتین کی شمولیت زیادہ ہے مگر افسوس ہے کہ وہ))اں بھی ان ک))ا
استحصال ہو رہا ہے ،انہیں کم تنخواہ ،تحفظ ،ٹرانس))پورٹ و دیگ))ر مس)ائل ک))ا س)امنا ہے
لیکن ان پ))ر ب))ات نہیں کی ج))ارہی۔ فارم))ل س))یکٹر میں بھی خ))واتین ک))و مس))ائل ہیں اور
حکومت لیبر قوانین کے ہوتے ہوئے بھی انہیں تحفظ فراہم نہیں کر پارہی۔ حکومتوں کی
جانب سے اچھے اقدامات بھی ہوئے ہیں۔ بے نظیر انکم س))پورٹ جیس))ے حکوم))تی اق))دام
سے غریب خواتین کو معاشی طور پ))ر مض))بوط ک))رنے میں م))دد ملی۔ اس س))ے خ))واتین
کے شناختی کارڈز بنے ،انہیں پیسے ملنا ش))روع ہ))وئے اور انہ))وں نے اپ))نے بچ))وں ک))و
4
سکول بھیجنا ش))روع کیا جبکہ انٹرپرینیورش))پ پروگ))رام کے تحت خ))واتین نے چھ))وٹے
کاروبار بھی شروع کیے۔ موجودہ حکومت خواتین کو معاشی دھارے میں النے کا ع))زم
رکھتی ہے لہٰ ذا اسے چاہیے کے BISPجیسے اچھے پروگراموں) کو مزید وسیع ک))رے۔
بدقس)))متی س)))ے 13ملین خ)))واتین کے پ)))اس ش)))ناختی ک)))ارڈ نہیں ہیں۔ س)))وال یہ ہے کہ
جوخواتین اپنے بنیادی حق سے ہی محروم ہیں وہ کیسے حکومتی اقدامات سے فائدہ اٹھا
سکتی ہیں؟میرے نزدیک مڈل یا میٹرک کی سطح سے ہی بچوں ک))و ٹیکنیک))ل ایجوکیش))ن
دی جائے۔
اس کاہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ چائلڈ لیبر کو فروغ دی))ا ج))ائے بلکہ اس ط))رح لڑکیوں
کو ہنرمند بنای))ا جاس))کتا ہے۔ اس کے عالوہ یونیورس))ٹیوں میں کیرئ))یر کونس))لگ س))ینٹرز
بنائے جائیں تاکہ داخلے کے وقت ہی لڑکیوں کی کاؤنسلنگ کی جائے کہ انہیں م))ارکیٹ
کی ڈیمانڈ کے مطابق کون سے کورسز کرنے چاہئیں۔ہم نے دیہاتوں میں ریسرچ کی ت))و
یہ مطالبہ سامنے ٓایا کہ مقامی سطح پر ہی چھوٹی صنعت کو فروغ دیا جائے۔
گاؤں کی سطح پر ہی ٹیکنالوجی بیسڈ تربیت فراہم کی ج))ائے اور ایس))ی انڈس))ٹری لگ))ائی
جائے جس سے مقامی خواتین کو فائ))دہ ہ))و ت))اکہ وہ اپن))ا روزگ))ار کم))ا س))کیں۔ س))ی پیک
منصوبے کی ضرورت کے مطابق قریبی عالقوں کی خواتین کو ت)ربیت دی ج)ائے ت)اکہ
انٹر پرینیور شپ کو فروغ مل سکے۔غیر رسمی شعبے میں ابھی تک صرف ڈومیس))ٹک
ورکر ز کے لیے قانون سازی جاری ہے لیکن ہ))وم بیس))ڈ ورک))رز اور دیہی خ))واتین کے
حوالے سے ابھی ت)ک ق)انون س)ازی نہیں ہ)وئی۔ ہم)ارے ہ)اں ای)ک مس)ئلہ یہ بھی ہے کہ
قوانین بنا دیے جاتے ہیں لیکن حکومتیں ان کے لیے بجٹ مختص ک))رنے اور عملدرٓام))د
پ))ر خ))اص ت))وجہ نہیں دی))تی ،اس میں بہ))تری الئی ج))ائے۔ زرعی ش))عبہ وزی))راعظم کے
ایجنڈے میں شامل ہے لہٰ ذا اس شعبے میں کام کرنے والی خواتین کی معاش))ی و س))ماجی
حالت بہتر کرنے کیلئے اق))دامات ک))یے ج))ائیں اور جہ))اں ض))روری ہ))و وہ))اں ق))وانین میں
تبدیلی الئی جائے۔
عبدہللا ملک(نمائندہ سول سوسائٹی)
خواتین کی عملی شمولیت کے بغیر ترقی کا خواب شرمندئہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ بدقسمتی
سے ہمارے ہاں پالیسی سازی میں خواتین کی شمولیت انتہائی کم ہے تاہم میڈیا اور سول
سوسائٹی کی کاوشوں سے ماض))ی کی نس))بت ک))افی بہ))تری ٓائی ہے لیکن ابھی مزی))د ک))ام
کرنے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں صرف 7فیصد خواتین کلیدی عہ))دوں پ))ر ف))ائز تھیں
تاہم موجودہ دور حکومت میں انتظامی عہدوں پر بھی خواتین فائز ہیں ت))اہم حک))ومت ک))و
اس میں مزید بہتری النا ہوگی۔
صنفی مساوات کے حوالے سے پاکس))تان 149ممال))ک میں س))ے 148ویں نم))بر پ))ر ہے
جو افسوسناک ہے۔ بدقسمتی سے خواتین کے حوالے س))ے ق))انون س))ازی میں معروض))ی
ڈھانچے کو سٹڈی نہیں کیا گیا اور بغیر تحقیق کے ایسی ق))انون س))ازی کی گ))ئی۔ہم یہ ت))و
کہہ سکتے ہیں کہ کاغذی حد تک اچھی قانون سازی ہ))وئی لیکن س))وال یہ ہے کہ کیا ان
قوانین سے شہری و دیہی خواتین کے مسائل حل ہوئے؟ غیرت کے نام پر قتل ک))ا ق))انون
بنا مگر اس میں بھی مسائل ہیں۔
5
3ماہ بعد عدالت میں متاثرین کی جانب سے مجرم کو مع))اف ک))رنے ک))ا حل))ف ن))امہ پیش
کردیا جاتا ہے اور مجرم بری ہوجاتا ہے۔ میرے نزدیک ریاست ک))و اس میں اپن))ا ک))ردار
ادا کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے اسالمی نظریاتی کونسل و ق)انونی م))اہرین کی مش))اورت
سے قانون میں مزید بہتری الئی جائے۔بدقسمتی سے بڑے پیمانے پر خواتین کے حق))وق
پامال کیے جارہے ہیں جن کی وجہ سے مختلف مسائل پیدا ہ))ورہے ہیں۔اگ))ر خ))واتین ک))و
معاشرے کا کلیدی شہری بنانا ہے ت))و انہیں ووکیش))نل ٹرینن))گ کے ذریعے ب))ا ص))الحیت
بنایا جائے۔
ایسا کرنے سے وہ نہ صرف اپنا روزگار کما سکیں گی بلکہ وہ اپ))نے بچ))وں ک))ا مس))تقبل
بھی بہتر طریقے سے سنوار سکیں گے۔ ٹیکنیکل ٹرینن))گ کے اداروں میں بھی ریس))رچ
کی کمی ہے کہ کن عالقوں میں خواتین کو کونسے کورسز کروائے جائیں۔
اس کے ل))یے ض))روری ہے کہ سوش))ل سائنس))ز کے ش))عبوں میں ریس))رچ ک))رائی ج))ائے
اوراس کے ساتھ ساتھ حکومت کو ریسرچ کے ادارے بنانے چاہئیں ج))و مختل))ف پہل))وؤں
پر تحقیق کریں اور پھر اس کی روشنی میں پالیسی بنائی جائے۔خواتین ک))و مالزمت میں
ٹرانسپورٹ و دیگر مسائل کا سامنا ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو ایسی پالیس))ی بن))انی
چ))اہیے کہ جہ))اں ٓاس))امی ہ))و پہلے اس عالقے کی خ))واتین ک))و مالزمت دی ج))ائے۔ اگ))ر
عالق))ائی س))طح پ))ر خ))واتین ک))و مالزمت کے مواق))ع دیے ج))ائیں ت))و ان کی ش))مولیت میں
اضافہ ہوگا اور اس طرح بیشتر مسائل بھی خودبخود کم ہوجائیں گے۔ خواتین کو بکری،
بھیڑیا مرغی فارم کی طرف راغب کیا جائے اور انہیں اس کے لیے ٓاس))ان قرض))ے بھی
دیے جائیں۔ ہمارے ہاں ایک مسئلہ منفی سوچ کا ہے اور خواتین کے مختلف مسائل اسی
کا نتیجہ ہیں۔
اس کے عالوہ لوگوں کو اپنے حقوق کے بارے میں ٓاگاہی بھی نہیں ہے ل ٰہذا انسانی حق))و
ق کے مضامین کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنایا ج))ائے اور س))کول کی س))طح پ))ر اس کی
تعلیم دی جائے تاکہ ص))ورتحال ک))و بہ))تر بنای))ا ج))ا س))کے۔ بدقس))متی س))ے م))ذہب ،کلچ))ر،
معاشرتی روایات ،وراثت و دیگر حوالے سے خ))واتین ک))ا استحص))ال ہورہ))ا ہے۔ ص))رف
الہور میں گزشتہ برس 3الکھ 25ہزار سے زائد خواتین کو طالق ہ))وئی ہے۔ ات))نی ب))ڑی
تعداد میں خواتین کا گھر بیٹھ جانا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اگر تعلیم ی))افتہ خ))اتون ہ))و اور اس
کے پاس ہ))نر بھی ہ))و ت))و وہ اپن))ا اور اپ))نے بچ))وں ک)ا مس))تقبل س))نوار س))کتی ہے۔ م))یرے
نزدیک سیاسی جماعتوں کے سربراہان معاشرے میں سدھار السکتے ہیں۔ اگ))ر وہ اپ))نے
منشور میں خواتین کے مسائل کو موثر طریقے سے شامل کریں تو بہتری ٓاسکتی ہے۔
اس کے عالوہ انہیں پالیس))ی س))ازی میں بھی ش))امل کیا ج))ائے۔ اگ))ر ایس))ا ہوج))ائے ت))و
معاشرے میں خواتین کے متعلق منفی سوچ کو ختم کیا جاس))کتا ہے۔ پ))ارلیمنٹ کی ق)ائمہ
کمیٹیوں میں حکومت اور اپوزیش))ن کی خ))واتین ک))و 50فیص))د نمائن))دگی دی ج))ائے ،اس
سے ق))انون س))ازی میں بہ))تری ٓائے گی۔ مق))امی حکومت))وں کے نظ))ام کے ذریعے بہ))تری
الئی جاسکتی ہے۔ لوکل باڈیز ایکٹ میں یونین کونسل کی سطح پر اکنامک سروے کرانا
موجود ہے ل ٰہذا یہ سروے کروایا جائے اس سے ہوم بیسڈ ورکرز کی تعداد معلوم ک))رنے
میں مدد ملے گی اور پھ)ر خ)واتین کی ح)الت بھی بہ)تر بن)ائی جاس)کے کی۔ چیم)برز ٓاف
کامرس اینڈ انڈسٹری کے انتخابات میں خواتین کی نمائندگی نہیں ہے ،اسے یقینی بن))انے
6
کے لیے وزارت خزانہ کوکام کرنا چاہیے یا پھر ع))دالت س))ے رج))وع کیا ج))ائے۔م))یرے
نزدک اگر معاشرے کے تمام سٹیک ہولڈرز اپنا کردار ادا کریں تو خواتین کے مسائل ک))ا
خاتمہ ممکن ہے۔
7