Professional Documents
Culture Documents
5605 2 1
5605 2 1
قدما یونان کا دور ایک زرخیز دور تھا اس دور میں ایسے ایسے فلسفی اور نکتہ دان پیدا ہوئے جنہوں نے مختل ف عل وم
و فنون کو ایسا خزانہ دیا کہ جس پر یونان والے بجا طور پ ر فخ ر ک ر س کتے ہیں ۔ ش اعری ادب اور ڈرامے پ ر خ اص
طور عمدہ تنقید دیکھنے میں آئی ہے۔ اس دور کے نظری ات میں س ے بہت س ے ایس ے ہیں ج و آج س ے دو ڈھ ائی ہ زار
برس گزرنے کے باوجود بھی قابل توجہ سمجھے جاتے ہیں۔ خاص ک ر افالط و ن اور ارس طو ،ای ک نق اد ک ا کہن ا ہے۔
”حیرت کی بات یہ ہے کہ دو ڈھائی ہزار سال گزرنے جانے کے باوجود افالطون ،ارسطو ،ہیوریس ،الن جائی نس پر
وقت کی گرد نہیں جمنے پائی۔ ان کی نگارشات کے مطالعے کے بغیر ادبی تنقید کا مط العہ تش نہ رہ جات ا ہے۔ اور تنقی د
وتی۔“ دا نہیں ہ یرت پی ر کی بص ور و فک رغ ائل پ ادی اور اہم مس کے بعض بنی
ارسطو کا زمانہ افالطون کے فوراً بعد کا زمانہ ہے وہ افالطون کا ش اگرد تھ ا لیکن ش اعری اور ڈرامے کے ب ارے میں
اس سے مختلف رائے رکھتا تھا۔ اس نے افالطون کا نام لئے بغیر اس کے اعتراض وں کے ج واب دیے ہیں خی ال ہے کہ
اس نے ک ئی مختص ر کت ابیں لکھیں جن میں س ے ”فن خط ابت “ ” “RHETORIESاور فن ش اعری ی ا ”بوطیق ا“” ُ
ئیں ۔ ذر ہوگ انہ کی ن ات زم اقی انقالب ک پہنچی ب “POETICSہم ت
اندازہ ہوتا ہے کہ کہ یہ ارسطو کی تقریروں کی یاداشتیں یعنی لیکچر نوٹس ہیں جن کے کچھ حص ے ض ائع ہوگ ئے ہیں۔
”بوطیقا“ میں المیہ پر تفصیلی بحث کی گئی ہے لیکن طربیہ اور رزمیہ پر سرسری گفتگ و ہے اور غن ائیہ ش اعری کے
بارے میں کچھ بھی نہیں کہا گیا۔ جگہ جگہ ایسے اشارے ملتے ہیں جن کی تشریح درک ار ہے۔ ڈاک ٹر جمی ل ج البی اپ نی
تص نیف ”ارسطوس ے ایلیٹ ت ک “ میں لکھ تے ہیں۔” اس ک ا ذہن منطقی ،م زاج سائنس ی اور فک ر موض وعی ہے۔“
ادبی تنقید میں ”بوطیق ا “ کی حی ثیت پہلی باقاع دہ تص نیف کی س ی ہے۔ اس کت اب میں ارس طو نے ش اعروں کی وک الت
کرتے ہوئے انہیں افالطون کے الزامات سے بچانے کی کوش ش کی ہے اور ش اعری ک و ای ک مفی د ش ے ق رار دی ا ہے۔
تے ہیں۔ البی کہ لج ٹر جمی ڈاک
” ارس طو نے ان تم ام مس ائل ک و ج و افالط ون نے اُٹھ ائے تھے ای ک مرب وط نظ ام ِ فک ر میں تب دیل ک ر دی ا۔“
رتے ہیں۔ ات ک ی ہی ب دہللا بھی ایس ید عب ٹر س ڈاک
ئے“ ائم ک ول ق ا تی اص تا ً جمالی د خالص ا جس نے چن ر تھ ی مفک طو پیدائش ” ارس
شاعری کے بارے میں ارسطو کے شعری نظریات کی وضاحت کرنے سے پہلے افالطون کے تنقیدی تصورات کو بیان
کرتا ضروری ہے کیوں کہ ارسطو کے شعری نظریات اس وقت تک سمجھ نہیں آس کتے جب ت ک افالط ون کے تنقی دی
تصورات کا ہمیں علم نہ ہو۔ افالطون کے ”نظریات “ درحقیقت اس کے ”اعتراضات “ ہیں ۔ جن کا اجمالی خاکہ ذیل میں
ا۔ ا گی دی
شاعر عام حاالت و واقعات کو خاص بناتا ہے اور انھیں افاقیت عطا کرتا ہے اور اپنی انفرادی کیفیت میں اجتماعی رن گ
پیدا کرکے اسے سب کے لئے قاب ِل قبول بناتا ہے۔ ارسطو کا خیال ہے کہ شاعر بھی فلسفی کی طرح کائناتی سچائیوں کو
وبی بھی ہے۔ افی خ نے کی اض اس کہ اعر کے پ ا ہے کہ ش رف اتن رق ص ڈتا ہے۔ ف ڈھون
ارسطو سے پہلے بھی تنقیدی نظریات ملتے ہیں۔ لیکن وہ خال خال اور منتشر ح الت پ ائے ج اتے ہیں۔ ارس طو کی کت اب
بوطیقا کی مختصر نوعیت کے بارے میں قیاس کی ا ج ا س کتا ہے ۔ کہ اس کت اب ک ا پہال حص ہ ت ا ح ال گم ہے اس پہلے
یل یہ ہے۔ تے ہیں۔ ان کی تفص ات مل و نظری ے میں ج حص
١۔فن خط ابت ٢۔ش اعری کے ب ارے میں نظری ات ٣۔ڈارمے کے متعل ق نظری ات ٤۔ المیہ ٥۔ت زکیہ نفس
ان کیں ہیں۔ ام بی ار اقس اعری کی چ طو نے ش ے پہلے ارس بس س
ائیہ ٤۔رزمیہ ربیہ ٣۔غن ١۔المیہ ٢۔ ط
ارسطو شاعری کی تعریف کرتے ہوئے ہر قسم کی شاعری کو نقل قرار دیتا ہے آج بھی س اری دنی ا تس لیم ک رتی ہے کہ
شاعری زندگی کی نقل ہے۔ یہ نظریہ ارسطو نے افالطون ہی سے اخذ کیا ہے اور مکمل وضاحت کرتے ہوئےلکھت اہے۔
اہے۔“ د کرت رت کی تقلی ”فن فط
فنون لطیفہ کی طرح شاعری بھی نقالی ہے اور ش اعری کے ل ئے جن لوازم ات کی ض رورت
ِ ارسطو کے نزدیک دیگر
ل ہیں۔ ہے وہ ذی
اتی ہے۔ الی کی ج االت جن کی نق یاءاور ح ١۔ وہ اش
رت اہر فط انی ،مظ اہر انس ر ،مظ ل ،فک اتی ہے تخی الی کی ج ٢۔ وہ جن کے ذریعے نق
و:۔ ادی و اخالقی پہل ا اف اعری ک کش طو کے نزدی ارس
شاعر عکس کے عکس کا بچاری ہوتا ہے۔ لیکن ارسطو کے ہاں یہ طریقہ کا ر بہت فط ری ہے اس کے عالوہ افالط ون
مطالعہ فن اور مطالعہ اخالق میں بھی فرق نہیں برتتا۔ ارسطو نے اس فرق ک و واض ح کی ا ہے۔ اور اس مقص د کے ل ئے
اس کا طریقہ کار سائنسی اور دو ٹوک ہے۔ ارسطو ”کیا ہے“ پر بحث کرتا ہے یعنی زندگی کی اص ل کھ ری تص ویر فن
کے آئینے میں نظر آئے اور افالطون ’ ’ کیا ہونا چاہیے“ پر بحث کرتا ہے۔ یعنی زندگی کی تصویر ک و کتن ا حس ین اور
دلکش ہونا چاہیے۔ اور یہ بات فن کی بنیاد کے خالف ہے ۔ کی ونکہ اس ط رح ادب ای ک مخص وص نظ ریے کی ت دریس
کرتا ہے۔ اور زندگی کی حقیقی تصویر سے چشم پوشی کا مرتکب ہوتا ہے۔ ارسطو کے عہ د ت ک یہ ب ات طے ش دہ تھی
معلم اخالق ہونا چاہیے۔ لیکن ارسطو نے اس حقیقت کو پا لی ا۔ کہ اخالق کی ت دریس ش اعری ک ا اف ادی پہل و
کہ شاعر کو ِ
ہے جب کہ ارسطو افادی پہلو کی بج ائے جمالی اتی ق درو ں کی پرچ ار کرت ا ہے۔ اس ک ا تنقی دی پہل و یہ ہے کہ ش اعری
اعلی مسرت پہنچاتی ہے۔ ارسطو نے اس نظریے کو یہاں ت ک
ٰ اخالق کا سرچشمہ نہیں بلکہ شاعری ایک خاص قسم کی
محدود نہیں رکھا ۔ بلکہ اس کا خیا ل ہے کہ ج و اذہ ان نارم ل اور ص حت من د ہ وتے ہیں ۔ وہ جمالی اتی مس رت اس وقت
و۔ اہ ورا اترت رپ وں پ اتی تقاص ارہ جمالی کتے ہیں کہ فن پ رس لک حاص
اس طرح ارسطو نے اخالقی و افادی پہلوئوں کی ذمہ داری خالق کے کندھوں سے ہٹا کر قاری کے کندھوں پر ڈال دی ۔
ارسطو کے اس کام کا توازن بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ بات قاب ل ت وجہ ہے کہ ارس طو جمالی اتی ح ظ ک و
بنیادی اور اخالقی تدریس ک و ث انوی حی ثیت دیت ا ہے۔ وہ اخالقی ت دریس ک ا منک ر نہیں لیکن ایس ی ش اعری ج و ص رف
ا ہے کہ، ز لکھت کاٹ جیم ل نہیں۔ س ا قائ و،ک دہ دریس کی پابن اخالقی ت
” افالط ون اخالقی ات اور جمالی ات ک و گڈم ڈ ک ر رہ ا تھ ا ارس طو نے اس ک و دور ک رکے جمالی ات کی بنی اد رکھی۔“
ارسطو کے عہد کے تناظر میں اس کے بعض بیانات ک و س مجھنے کی ض رورت ہے۔ مثالً ارس طو کہت ا ہے کہ وزن ی ا
موزونیت شاعری کے لئے الزمی نہیں ۔ تنقید کا یہ حصہ انتہائی متنازعہ ہے اور متض اد بھی ۔ کی ونکہ ای ک ط رف ت و
ارسطو اپنے نظریات کی بنیاد جمالیات پر رکھتا ہے۔ اور دوسری طرف وزن یا موزونیت کے خالف اتنا ش دید بی ان دیت ا
ہے۔ اس کی وجہ جاننے کے لئے اس کے عہد کے ادبی منظر نامے کو دیکھنا ض روری ہے۔ کی ونکہ عظیم ادب و تنقی د
پہلے اپ نے عہ د س ے عہ دہ ب راہ ہ وتے ہیں۔ اور پھ ر زم ان کے قی د س ے آزاد ہ و ک ر کالس ک بن تے ہیں۔
کالم موزوں کو شاعری س مجھا جاتاتھ ا۔ اور خی ال و فک ر کی اہمیت
ارسطو کے عہد میں ایک بدعت عام تھی کہ محض ِ
نہ تھی یعنی اگر حکیم کا نسخہ بھی منظوم تھا تو اُسے شاعری گردانا جاتا تھا۔ اس ب دعت کے خالف ارس طو نے نہ ایت
سخت رویہ اختیار کیا۔ اور اپنے مخصوص استداللی انداز کو چھوڑ کر ج ذباتی ان داز اختی ار کی ا۔ دراص ل ارس طو وزن
اور موزونیت کے خالف نہیں لیکن ایسی شاعری کا بھی قائل نہیں جو صرف موزونیت کی حامل ہ و۔ اور اس میں کس ی
قسم کی سچائی کا انکشاف نہ ہو اور نہ ہی خیال و فکر موجود ہو۔ ارس طو کے اس بی ان ک و س یاق و س باق کے اس عہ د
میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کیو نکہ عام صورت ح ال میں ارس طو نغمگی اور آھن گ ک ا اتن ا قائ ل ہے کہ بعض ن ثر
پ اروں ک و ش اعری مانت ا ہے ۔ لیکن اس م وزونیت ک و ث انوی اہمیت دیت ا ہے۔ اور لفظ وں کے ذریعے تنقی د کے مختل ف
طریقوں کو بنیادی اہمیت دیتا ہے۔ شاعر لفظوں کے ذریعے جو نقالی پیش کرتا ہے۔ وہ کسی کائناتی ص داقت اور علم کی
دری افت ک ا ب اعث ب نے تب ہی وہ ش اعر کہالی ا ج ائے گ ا۔ کی ونکہ ق اری ک و ف وری مس رت اس وقت مل تی ہے جب
شاعر ،شاعری کے ذریعے کائنات ،انسان یا خدا کے بارے میں سچائی کا انکشاف کرتا ہے۔ اس طرح شاعری کی بنی اد
رت ہے۔ د مس ور ی مقص اف علم اور اس ک
ش اعری میں ارس طو نے الم یے پ ر س یر حاص ل بحث کی ہے الم یے کی تعری ف ک رتے ہ وئے وہ لکھ تے ہیں کہ ،
” المیہ ایک ایسے عمل کی تقلید کرتا ہے جو سنجیدہ اور مکمل ہو ایک خاص طوالت اور ضخامت کا حامل ہ و۔ اس کے
مختلف حصے زبان وبیان کے مختلف وسائل سے مزین ہ وں اس کی ہ یئت بی انیہ ہ ونے کے بج ائے ڈرام ائی ہ و اور یہ
و۔“ وجب ہ ام ذکیے ک ذبات کے ت اعث ان ج اظر کے ب وف کے من رحم اور خ
المیہ ارسطو کے نزدیک ایسے اعمال و افعال اور حاالت و واقعات کی نقل ہے جس کی بنیاد دکھ درد پر ہے اس ل ئے یہ
خ ود بخ ود س نجیدہ ہے اس کے مکم ل ہ ونے س ے م راد یہ ہے کہ اس میں تین وح دتوں ک ا خی ال رکھ ا ج ائے۔
ڈاکٹر جمیل جالبی اپنی تصنیف ”ارسطو سے ایلیٹ تک “ میں ارسطو کے المیے یا ٹریجڈی کی اہمیت یوں واضح کرتے
ہیں کہ ،
” ارسطو ٹریج ڈی ک و تم ام اص ناف ک ا کام ل نم ونہ س مجھتا ہے بلکہ ای ک جگہ وہ یہ اں ت ک کہہ دیت ا ہے کہ ج و کچھ
ا۔“ رے گ ورا ات رپ ناف پ ب اص ا۔ وہ س ائے گ اج ارے میں کی ڈی کے ب ٹریج
المیہ ایک خاص طوالت و ضخامت کا حامل ہوتا ہے۔ نہ تو اس کو اتنا طویل ہونا چاہیے کہ قاری ک و پچھلے واقع ات ی اد
رکھنے کے لئے ذہن پر زور دینا پڑے اور نہ ہی اتنا مختصر ہو کہ قاری پر اپنا تاثر قائم کرنے میں ناک ام رہے اس کے
مختلف حصے یعنی ابتداءوسط اور انتہا زبان و بیان کے مختلف وسائل یعنی تش بیہ ،اس تعارہ اور غن ائیہ س ے م زین ہ و
یعنی جمالیاتی حظ کے لئے فن کا خاص اہتمام ہونا چاہیے۔ ارسطو کے نزدیک المیے کا فن ،فکری ڈھانچہ بی انیہ ہ ونے
کی بجائے ڈرامائی ہو ۔ یعنی حقیقت کا بیان سیدھے سادے طریقے کی بجائے ڈرامائی انداز میں ہو تاکہ ن اظر اور ق اری
میں تجسّس و جستجو کے جذبے کو ابھارا جا سکے ۔اور وہ یہ جاننے کے لئے بے چین ہو کہ آگے کی ا ہوگ ا۔ الم یے ک ا
قابل توجہ اور نہایت اہم ہے۔ جس میں ارسطو ”کتھارسس“ کا نظریہ پیش کرتا ہے۔ جس سے زائد جذبات کا
آخری حصہ ِ
انخالءہوتا ہے۔بعض ناقدین نے المیے میں خوف کے ج ذبے پ ر اع تراض کی ا ہے۔ کی ونکہ ان ک ا خی ال ہے کہ جب ت ک
کوئی خطرہ بنی نوع انسان کو براہ راست نہیں گھیر لیتا کوئی شخص بھی ب راہ راس ت خ وف محس وس نہیں کرت ا۔ لیکن
ا ہے۔ وس کرت دردی محس ئے ہم ار کے ل ر فن ک ور پ ری ط اظر فط حقیقت یہ ہے کہ ن
افالطون کا خیال تھا کہ المیہ انسان کو بیم ار ک ر دیت ا ہے اور ان کی ذہ نی گھٹن ک و بڑھ ا دیت ا ہے۔ جب کہ ارس طو کے
ادی اہمیت ہے۔ ا ہے اور اس کی یہی اف ائے عالج کرت رنے کی بج ار ک ک بیم نزدی
کیتھارسس کے سلسلے میں ایک اور بحث عام ہے کہ تظہیر نفس کی اہمیت نفس یاتی ہے ی ا اخالقی اس ل ئے یہ نہیں کہ ا
جا سکتا کہ کیتھارسس منفی ہے یا زائ د ج ذبات ک ا انخالء ،چ اہے وہ کس ط رح بھی ہ و اگ رچہ ارس طو نے الم یے کے
ذریعے صرف دکھ درد کے جذبات کے انخالءکا ذکر کیا ہے لیکن ہم دیکھتے کہ یہ کام طربیہ ،غن ائیہ اور رزمیہ س ے
بھی انجام دیا جا سکتا ہے۔ المیے کے ذریعے صرف جذباتی گھٹن کو ہی نہیں کم کیا جس سکتا بلکہ یہ ہم ارے نگ اہ ک و
بھی بصیرت عطا کرتی ہے ہم تقدیر کے قائل ہونے لگتے ہیں۔ اور ہمیں اپنا آپ ہلکا لگنے لگت ا ہے۔ ج ذبات ک ا یہ ت ذکیہ
ا ہے۔ و بڑھات تک ت برداش
و ِ ا ہے اور ان کی ق یع کرت و وس ات ک انی تجرب انس
” “LESINGکے مطابق ارسطو نے المیے میں خوف کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ ن اظر یہ س مجھتا ہے کہ مص یبت میں
تے ہیں۔ لے میں لکھ رف اس سلس ر ایم ایم اش کتا ہے۔ پروفیس وس ود بھی ہ خص وہ خ ار ش گرفت
” رحم ک و الم یے ک ا خصوص ی ج ذبہ ض رور کہ ا ج ا س کتا ہے خ وف کی حی ثیت ض منی ج ذبے کی ہے۔“
ارسطو کے نزدیک المیہ خالق اور ناظر دونوں کا تزکیہ کرتا ہے کیوں کہ جب کوئی خالق تخلیق پیش کرت ا ہے ت و اپ نی
تخلیق کے ذریعے اس کرب سے چھٹکارا حاصل کرت ا ہے۔ج و اس ے تخلی ق پ ر آم ادہ کرت ا ہے۔ اور ان کے ج ذبات کی
تظہیر بھی ہوتی ہے۔ جب ناظر یا قاری اس سے حظ اُٹھات ا ہے ت و اس کے ان در کی گھٹن کم ہ و ج اتی ہے۔ ارس طو کے
ا ہے۔ ل ہوت ا حام رات ک د اث حت من ائے ص ار کے بج ا فش نی ی ک المیہ بے چی نزدی
ارس طو کے نزدی ک الم یے کے عناص ر ترکی بی چھ ہیں جس پ ر تفص یالً بحث کی ہے ج و کہ ذی ل ہیں۔
یلہ ٥۔نغمہ ان ،وس ان و بی د ٤۔زب ی تقلی وع ،معروض ا موض واد ی ری م ردار ٣۔فک ١۔پالٹ ٢۔ک
٦۔منظر
ا ہے۔ ادی اہمیت دیت و بنی طو پالٹ ک ب میں ارس ان س
ارسطو کا خیا ل ہے کہ پالٹ ہی واقعات کی بناوٹ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پالٹ زندگی کے نمائند ہ واقع ات ک و آپس
میں اس طرح جوڑتا ہے کہ ہر واقعہ پہلے سے جڑا ہو نظرا ت ا ہے۔ اس ک ا منطقی ن تیجہ معل وم ہوت ا ہے۔ پالٹ واقع ات
کے تسلسل کو مدنظر رکھتا ہے اور پالٹ ہی کے ذریعے کہانی میں یکے بعد دیگرے واقعات کو بیان کیا ج ا س کتا ہے۔
ر ہے۔ ادی عنص ا پہال اور بنی یے ک ا ہے۔ یہ الم انچہ ہوت رتب ڈھ ام ات ک پالٹ واقع
ڈاکٹر سجاد باقر رضوی ”مغرب کے تنقیدی اصول “ میں ارسطو کے نزدی ک پالٹ کی اہمیت ی وں بی ان ک رتے ہیں کہ،
” اس ( ارسطو( کی نظر میں پالٹ ،ڈرامائی اش خاص ک و ذاتی و ج ذباتی ص الحیتوں ( ک رداروں ) اور ان کے عقلی و
ل ہے۔“ ا حام ادہ اہمیت ک ے زی وں میں س ال ) دون ات ( خی ری رجحان فک
ردار:۔ ک
ارسطو المیے میں کرداروں کو بھی اہمیت دیتا ہے لیکن اس کا خیال ہے کہ کرداروں کی گفتگو چاہے کتنی ہی دلچسپ ،
منطقی اور مرتب کیوں نہ ہو وہ ایک پالٹ کی طرح کہ انی کی بنت نہیں ک ر س کتی ۔ چن انچہ اولین حی ثیت پالٹ ہی ک و
حاصل ہے۔ اور کردار تو محض پیش کرنے والے ہیں۔ کرداروں میں وہ ہیرو کے کردار کو اہمیت دیتا ہے اگر ہ یرو ک و
اپ نے دوس توں س ے مص ائب ملیں ت و المیہ مث الی بن جات ا ہے۔ اس سلس لے میں خ ود ارس طو ک ا کہن ا ہے کہ،
” سب سے زیادہ اہم خیز و صورت ہے جس میں اس ذریعے سے برے نتائج برآمد ہوں جس س ے اچھے نت ائج کی توق ع
وتی ہے۔“ ہ
المیے کا تیسرا اہم موضوع فکری مواد ہے جس میں معروضی تقلید سے کام لیا جاتا ہے موضوع کے بارے میں ارسطو
کا نظریہ یہ ہے کہ” وہ ایسی کہانی ہوتی ہے جس میں المناک صور ت حال دوستوں اور عزیزوں کے انجانے عمل سے
ے“ اقی س ل اور نہ اتف منوں کے بال ارادہ عم ونہ کہ دش دا ہ پی
ارسطو جمالیاتی قدروں ک ا قائ ل تھ ا۔ اس ل ئے وہ ش عری زب ان اور معم ولی ن ثر میں ف رق ک و اہمیت دیت ا ہے۔ کی وں کہ
تے ہیں۔ طو لکھ داوار ہے۔ ارس تراعی ذہن کی پی درت اور اخ تعارہ ن اس
”مرکب الفاظ طربیہ اور غنائیہ کو مزین اسلوب کے لئے موزوں ہیں غیر موزوں الف اظ رزمیہ نظم وں کے ل ئے مناس ب
اہیے۔ “ اچ تعمال ہون ا اس تعاروں ک ائی نظم میں اس ہیں ۔ ڈرام
نغمہ:۔
افالطوں کے برعکس ارسطو جمالیاتی اقدار کو برتنے پر زور دیتا ہے۔ اور المیے میں نغموں ک ا ذک ر کرت ا ہے کی ونکہ
نغموں کی موج ودگی س ے ت اثر میں اض افہ ہوت ا ہے۔ لیکن یہ نغمے خ ارجی نہ ہ وں بلکہ بنی ادی قص ہ میں ش امل ہ وں۔
المیے کے چھٹے عنصر منظر کو وہ زیادہ اہمیت نہیں دیتا اس کے نزدیک لباس اور سٹیج کا فن الزمی ج ز نہیں و ہ اس
بارے میں یہاں تک کہتا ہے ” محض پڑھ کریا سن کر بغیر سٹیج پر پیش کئے المناک تاثرات پیش کئے جا سکتے ہیں۔ “
تنقید کا یہ انداز ارسطو جیسے سائنٹیفک فلسفی کے لئے غیر مناسب تھا۔ اصل میں ارسطو علم کے ایک معمولی جز کا
انتخاب کرتا ہے اور اس کے مطالعے اور تجزیے کے ذریعے کائنات کی اہم حقیقتوں تک پہنچتا ہے۔
دانتے اور ڈرائیڈن انسان کو فطرت سے ہم آہنگ دیکھن ا چاہت ا ہے اور وہی انس ان اس کے نزدی ک اچھ ا انس ان ہے ج و
فطرت سے جڑا ہوا ہو۔ شاعری کے مقصد کو بھی وہ اسی عمدہ انسان سے جوڑتا ہے اور شاعری کو ایسی ہی معی اری
انسانی زندگی کا عکاس قرار دیتا ہے۔ اسی ذیل میں وہ کہتا ہے فطری انسان کی زبان احساس سے بھرپور ہوتی ہے اور
فطری انسان مستقل اور مضبوط احساس کا حامل ہوتا ہے۔
دانتے اور ڈرائیڈن شعری زبان کے متعلق ع وامی لب و لہجہ ک ا قائ ل ہے اور کہت ا ہے ش اعری فط ری زب ان میں ہ ونی
چاہیے کیونکہ مخلص جذبات کی عکاسی فطری زبان میں ہی سب سے بہتر ہو سکتی ہے۔ اس بات کی ذی ل میں ہم پہلے
دانتے اور ڈرائیڈن کی بات کا اعادہ کرتے ہیں اور پھر افالطون کی بات کا تناظر بط ور نم ونہ کے پیش ک یے دی تے ہیں
کہ کس طرح ادب و شاعری کے لئے بنائے گئے قدما فالسفہ و ناقدین کے ادبی اص ول تسلس ل کے س اتھ تغ یر پ ذیر اور
اثر پذیر رہے ہیں۔ دانتے اور ڈرائیڈن شاعری کو ”شدید جذبات کا بے ساختہ اظہار“ کہتا ہے اور افالط ون ش اعری کے
حوالہ سے جب شاعرانہ جنون کی بات کرتا ہے تو اس کا مقصود یہاں جذبوں کو موضوع بنان ا ہے ،دان تے اور ڈرائی ڈن
کا جذبات کی شدت کا اظہار ایک ط رح ک ا جہ اں جمالی اتی نظ ریے کے زی ر اث ر ہے وہیں یہ افالط ون کے نظ ریے ک ا
تسلسل بھی نظر آتا ہے۔
دان تے اور ڈرائی ڈن انس ان اور فط رت میں دوئی ق ائم نہیں کرت ا بلکہ انہیں الزم و مل زوم س مجھتا ہے ،وہ کام ل انس ان
سمجھتا ہی اسی کو ہے جو جتنا زیادہ فطرت سے ہم آہنگ ہو گا۔ شاعر کے ذمہ وہ یہ کرتا ہے کہ شاعر ،فطرت و انسان
کی ہم آہنگی کو لفظی پیکر اور تخیالتی تمثیل کے ذریعہ منکشف کرے۔ وہ شاعری کو محض جمالیاتی تس کین ک ا ذریعہ
نہیں سمجھتا بلکہ اسے کل علم کی روح جمال سمجھتا ہے ،وہ قوت متخیلہ کو شاعری کی رنگ آمیزی کے ل ئے ن اگزیر
سمجھتا ہے۔
وہ شاعری کو اجتماعی زندگی میں اہم جانتا ہے اور کہت ا ہے کہ اس س ے ن وع انس ان علم و ج ذبے کے ب اہمی اش تراک
سے وسیع سطح پہ اپنے آپ کو متحد رکھتا ہے۔ زبان کے حوالہ سے وہ سالست ک ا قائ ل ہے کہ س ادہ زب ان ہی ش اعری
کے ظاہر و باطن میں حسن پیدا کر سکتی ہے۔ جہاں وہ شاعری کو علوم و فن ون کی روح لطی ف کہت ا ہے وہیں ش اعری
کو علم کا ذریعہ بھی خیال کرتا ہے۔ شاعری میں صداقت و اخالقی مقاصد کی بات بالترتیب خ الص ج ذبات اور انس انوں
کے مابین محبت ،کے حوالہ سے کرتا ہے۔
شاعری میں اوزان و بحور کو وہ پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ اس س ے جمالی اتی ح ظ ک ا حص ول
ہوتا ہے۔ شاعری کو جذبہ کی بنیاد پر الزوال کہتا ہے اور تجربہ ص داقت کی بنی اد پ ر اس ے دوس روں لوگ وں اور عل وم
(فالسفہ اور سائنس ) س ے ممت از کرت ا ہے ج و کہ ش اعر نہیں ہیں۔ وہ ش اعری میں آرام دہ لمح وں کی ب ات ج ذبات کے
حوالہ سے کرتا ہے۔
()Emotions recollected in tranquility
دانتے اور ڈرائیڈن فن کو تجربے کے حوالہ س ے ب ڑی اہمیت ک ا حام ل گردانت ا ہے ،وہ فط رت ک و بھی اس تج ربے ک ا
حصہ بناتا ہے اور اسے وقیع درجہ دیتا ہے ،آخری عمر میں تو وہ فن کاری کا بہت نام لیوا نظر آتا ہے ،اسی حوالہ سے
اپنے ایک دوست کو بھی لکھتا ہے :
”نظم گوئی عام تصورات سے بہت زیادہ فنی ریہرسل کا تقاضا کرتی ہے“
وہ کہتا ہے فطرت کو شاعر کی ذہنی کیفیت کا بھی حصہ بننا چاہیے تب جا کر وہ تجربہ کی بھ ٹی س ے گ زر ک ر ق در و
قیمت کا حامل ہو گا۔ وہ اپنی نظموں میں فطرت کے تجربے کو پیش کرتا ہے اور اس کی نظمیں فطرت کی عکاس نظ ر
آتی ہیں ،نظموں میں وہ تجربے ک و فط رت کے س اتھ ہم آہن گ کرت ا نظ ر آت ا ہے وہ کہت ا ہے اس ط رح ہی تج ربے اور
فطرت کو ہم آہنگ کرنے سے الہیاتی کشف حاصل کیا جا سکتا ہے۔
دانتے اور ڈرائیڈن کہتا ہے شاعر اظہار کی سب سے اعلی صورت تب ہی پا سکتا ہے جب وہ احساس کے تجزیے س ے
آگاہ ہو اور وہ احساس اس نے فطرت پر غور و فکر کے ذریعے حاصل کیا ہو۔
دانتے اور ڈرائیڈن کہتا ہے شاعری کا کوئی نہ کوئی جواز ی ا مقص د ہون ا چ اہیے اور اس ک و ق اری پ ر اث رات س ے ہی
معلوم کیا جا سکتا ہے وہ کہتا ہے شاعری کے ذریعے شاعر کوئی اہم پیغام دے۔
” معیاری شاعر لوگوں کے احساس کو منظم کرتا ہے۔ انہیں نئے احساس ات س ے ب اخبر کرت ا ہے ،احس اس ک و شائس تہ،
پاکیزہ اور مربوط و مضبوط بناتا ہے ،اختص ار کے س اتھ یہ کہ ا ج ا س کتا ہے کہ وہ فط رت س ے جوڑت ا ہے ،ہمیش گی
فطرت سے جس سے تمام اشیا کو جذبہ ملتا ہے“ ۔
دانتے اور ڈرائیڈن کے ہاں فطرت بھی دو طرح کی نظر آتی ہے ایک کو وہ خارجی فطرت کہتا ہے کہ یہ فط رت انس ان
کی ذہنی و جذباتی صالحیتوں پر اثرانداز ہوتی ہے اور اسے ایک خاص پیکر میں ڈھال دی تی ہے جبکہ دوس ری فط رت
کو وہ انسانی فطرت کہتا ہے کہ یہ فطرت انسانیت سے انسان کی قدروقیمت بڑھا دیتی ہے۔
جس طرح ہم پہلے لکھ آئے ہیں کہ دانتے اور ڈرائیڈن قوت متخیلہ کو شاعری کی رنگ آمیزی کے لئے ض روری خی ال
کرتا ہے ،ہم اس کی تھوڑی مزید صراحت کریں گے کہ کیسے دانتے اور ڈرائیڈن اس ک و ض روری خی ال کرت ا ہے؟ وہ
متخیلہ کو داخلی شے سمجھتا ہے ،اس کا متخیلہ کا تصور مع روض س ے ج ڑا نظ ر آت ا ہے تبھی ت و وہ یہ کہت ا ہے ج و
موضوعات عام زندگی سے لیے جاتے ہیں قوت متخیلہ کی بوقلمونی کی بنیاد پر وہ شعری موضوعات ک ا م رتبہ حاص ل
کر لیتے ہیں ،اسی ذیل میں وہ یہ لکھتا ہے کہ:
” شاعری کا کام یہ ہے کہ وہ چیزوں کو اس طرح مستعمل نہ کرے جیسی وہ ہیں بلکہ جیسی وہ نظر آتی ہیں۔ اس ط رح
نہیں جیسے ان کا اصلی وجود ہے بلکہ اس طرح جیسے وہ احساسات اور جذبات کے روبرو خود کو پیش کرتی ہوں“ ۔
وہ متخیلہ کو بذات خود تخلیقی قوت سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ ج و فط رت کے مظ اہر کی ط رح چ یزوں ک و خل ق ک ر
سکتا ہے ،اس کا خیال ہے کہ متخیلہ ،تکثیریت کو اکائی میں بدل دیتا ہے ،اس کے ساتھ ہی وہ اسے مرکز س ے المرک ز
میں تب دیل ک رنے والی ش ے بھی س مجھتا ہے۔ دان تے اور ڈرائی ڈن متخیلہ کے ب رعکس متص ورہ ک و بھی تخلیقی ش ے
سمجھتا ہے کہ یہ دونوں قوتیں ہی اشیا کو جمع کرتی ہیں اور ان میں ربط بھی قائم ک رتی ہیں۔ ہم دان تے اور ڈرائی ڈن کی
اس بات پر ہی اختتام کرتے ہیں کہ انسانی ذہن اور فطرت کے عمل کی مطابقت اور اس کو اعلی حسیاتی سطح پہ پیش
کش کرنے کی صالحیت شاعری میں مسرت کا حصول ممکن بناتی ہے۔
ایزرا پاؤنڈ ( )1972-1885امریکہ کے نقاد ،شاعر اور پروپیگنڈہ کرنے والے احتجاجی اور مزاحمتی م زاج کے ادیب و
شاعر ہیں۔ جدیدیت کے رجحان کی تشکیل کی قلمی اور عملی قوتوں میں ان کی نثر اور ش اعری نمای اں ط ور پ ر نظ ر
آتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ انہو ں نے اپنےدور کے سب سے زیادہ بااثر ادبا ،شعرا ا ور دانشوروں کے س اتھ رابطہ اس توار
کیا تھا ۔
” آزاد نظم ” کی شعری مشق نے شعری آفاق میں نئے نظام اشاریت کو ہی خلق نہیں کیا بلکہ اس کو شعری تج ربے گ اہ
میں بھی لے آئے۔ اور اس پر آزادانہ طور پر مباحث کی دعوت دی۔ اس نئے پن میں رس می ش عری اور فک ری تجرب ات
ہنری مندی اور جمالیات کی نئی خوشبویں پھیلی ہ وئی تھیں۔ جس ک و ” آون گ ارد ” avant garde /بھی کہ ا جات ا ہے۔
ایزرا پاؤنڈ نے جدیدیت کی جمالیاتی اور جدید معاشرتی حسیات کو اپنی تحریروں میں ف روغ دی ا اور انھ وں نے بیس ویں
صدی کے اوائل میں برطانوی اور امریکی نوجوان لکھ نے وال وں کے درمی ان تخلیقی عم ل اور فک ر اور خی االت ک و
تقابلی انداز میں پیش کرتے ہوئے ” مبادلیاتی اور تجزیاتی” مب احث کے دروازے کھ ول دئ یے۔ جس میں ڈبلی و۔بی ایٹس،
رابرٹ فراست ،ولیم جیمز ،کارلوس ،ماریانے مور ،جیمز جوائس ،ارنسٹ ہیمنگوے اور خاص طور پ ر ٹی۔ ایس ایلیٹ
شامل ہیں۔
ایزرا پاونڈ 30اکتوبر 1885میں امریکی ریاست اوہایو کے چھوٹے سے قصبے ” ہیلی میں پیدا ہوئے۔ 1889میں ان کا
خاندان فالڈلفیا کے ای ک ن واحی قص بے ” جنکش ن ٹ اون” منتق ل ہوگی ا۔ ہیملٹن ک الج اور پینس لوینیا یونیورس ٹی میں تعلیم
حاصل کی۔ جہاں سے انھوں نے ایم اے کی سند حاصل کی۔ یہاں ان کی مالقات شاعر ولیم کریوزولیمز سے ہوئی جو ان
کے ہی ہم مکتب تھے۔ اس کے بع د ای زرا پاون ڈ نے نیوی ارک کے ای ک ک الج کی راہ لی۔ یہیں پ ر ان ک و پ رودانس کی
شاعری سے شغف پیدا ہوا۔ اور وہ تاحیات ان کی شاعری سے متاثر رہے۔ یونیورسٹی کی تعلیم سے فارغ ہونے کے بع د
انھوں نے ہسپانوی ڈرامے اور تھیٹر میں دلچسپی لینا شروع کی اور اس کا مطالعہ کیا اور ہسپانوی اور اطالوی ش اعری
کا بھی مطالعہ کیا۔ انہوں نے ہسپانوی ڈامہ نگار لوپ ڈی ویگا پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھنے ک ا ارادہ کی ا۔ لیکن اپ نے غ یر
رسمی اخالقی مزاج کے سبب انھیں اپنی مالزمت سے ہاتھ دھونا پڑا۔
1900میں وہ یورپ کے سفر پر روانہ ہوئے۔ کچھ عرصہ وہ اٹلی میں قیام پذیر رہے۔ جہاں وینس میں انھوں نے 1908
میں اپنی نظموں کی پہلی بیاض ” ”LUME SPENTOکو شائع کروایا۔ 1909میں ایزرا پاونڈ لندن چلے گ ئے۔ جہ ان
وہ 1920تک رہے۔ اسی دوران ان کی مالقات آئرلینڈ کے قوم پرست اور نوآبادیات شکن شاعر ڈبلیو بی ایٹس سے ہوئی۔
اور انھوں نے لندن میں ای ک ادبی حلقہ بنالی ا۔ جس میں ٹی۔ ایس ایلٹ بھی ش امل تھے۔ جس کے م ربی اور رہنم ا ای زرا
پاونڈ خود ہی تھے۔ وہ بنگال کے نوبل انعام یافتہ شاعر رابندرناتھ ٹیگور کے بڑے مداح تھے ۔ وہ ٹیگور کو نوبل انع ا م
دلوانے میں ییٹس کے ساتھ مل کر کوششیں کرتے رہے۔ لیکن بعد میں ٹیگور کو لوگوں نے پیغمبر بنا دیا ت و پون ڈ نے ان
کے حامیوں سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ ” میں نے ٹیگور کو شاعر کے طور پر قبول کیا
تھا۔۔ مسیحا کے طور پر نہیں۔
” 1900میں ان کا دوسرا شعری مجموعہ ” ”PERSONAEشائع ہوا تھا۔ اس کے عالوہ انھوں نے تیرھویں صدی کے
اطالوی شاعر کیول کینٹی CAVAL CANTI /اور چی نی ش اعری کے ت رجمے اور تص رفات بھی 1912اور 1915
میں چھاپی۔ 1920میں ان کی معروف نظم “ ”HIGH SELWYN MAUBERLEYشائع ہوئی۔ اسی برس وہ پیرس
میں قیام پذیر ہوئے۔ اور 1924تک وہ دریائے سین کے بائیں کنارے پر سکونت پذیر رہے۔ جہ اں ام ریکہ اور دوس رے
ملکوں کے تارکین وطن لوگ وں کی ای ک ب ڑی تع داد رہ تی تھی۔ جن میں گرٹروڈاس ٹین کے عالوہ ہیمنگ وے اور جمیس
جوائس بھی تھے جن سے ایزرا پونڈ کی گہری دوستی تھی۔ 1924میں پھر وہ واپس اٹلی آئے ور پھ ر تقریب ا ً بیس س ال
وہیں رہے۔ ” کینٹوز ”CANTOS /کی پہلی قسط 1925میں چھپی۔ اور 1955ت ک اس کی متع دد قس طیں ش ائع ہ وئیں۔
کینٹوز کی آخری قسط “ ROCK. DRILL” 1955میں چھپی۔ ای زرا پون دڈ نے ہی وم کی روم انی ش اعری ک و مس ترد
کرتے ہوئے اس پر اپنے شدید ردعمل کا ظہار کیا۔ ان کا خیال تھا کی رومانی شاعری فرد کو المحدودیت کا اہ ل تص ور
کرتی ہے۔ اور یہ خطرناک رجحان ہے۔ اور یہ بھی کہا کہ رومانیت کے جذباتی اسلوب کے بجائے اب ایک نئے ش عری
محاورے کی ضرورت ہے۔ مگر وہ ہیوم کی اس شعری تحریک میں شامل تھے اور اس تحریک کو پیکریت /تمثال پس ند
شاعری کہا۔ ہیوم اور پاونڈ کی نظر میں ” امیج” آرائش کازریعہ نہیں بلکہ ایک گہری وردات کا ترجمان ہوتا ہے۔
ایزرا پونڈ کی شروع کی شاعری پرپرسانس کی شعری روایت کا عمیق اثرات تھے۔ پونڈ کی شاعری قوت بیان اور ف نی
حسن و جمالیات سے خالی ہے۔ اور یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ ان کی ش اعری ک ا بیش تر حص ہ ہن وز تش ریح اور
تفہیم طلب ہے۔ مگر کینٹوز میں بھی جو ان کی سب سے مشکل اور دقیق نظم ہے۔ اس میں قاری کو کچھ ایسے تراش ے
مل جاتے ہیں جن میں غزلیہ شاعری کا الزوال جم ال و حس ن اور لط افت بھی ہے۔ اس نظم میں ایس ے حص ے بھی ہیں
جس میں پونڈ کی بذلہ سنجی بھی دکھائی دیتی ہے۔ ان کی شاعری میں ایسے مقامات بھی آتے ہیں جن میں تلمیح ات ک و
سمجھے بغیر ان سے لطف و انبس اط ملت ا ہے۔ مثال ً ان کی نظم “ ”DANCE FIGUREس ے لط ف ان دوز ہ ونے کے
لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ قاری کو” گلیلی” شادی کے بارے میں آگاہی ہو۔ جس میں حضرت عیس ی { علیہ} ش ریک
ڑا دیکھیں : ا یہ ٹک ڈ کی اس نظم ک زرا پون وئے تھے۔ا ی ہ
وں والی، الی آنکھ ۔۔۔ اے ک
ینہ واب کی حس یرے خ م
یم تن، س
رقاصاوں میں تجھ سا کوئی نہیں
ایزرا پونڈ ڈبلیو بی یٹس سے بہت قریب رہے۔ مگر ان دنوں کی دلچسپیاں مختلف تھیں۔ مگر ان دونوں نے ایک دوس رے
کے اثرات قبول کئے۔ ہیٹس باطنی علوم اور قدیم دانش اور متصوفانہ روی وں ک و پس ند ک رتے تھے۔ جب کہ پون ڈ نے ان
علوم و فکریات سے دلچسپی کا کبھی اظہار نہیں کیا۔ مگ ر ان کے کینٹ وز ک و پ ڑھ ک ر یہ احس اس ہوت ا ہے کہ یٹس کے
دلچسپی کے موضوعات سے اس نے براہ راست فائدہ اٹھایا۔ ۔ اس سلسلے میں پونڈ ک ا کہن ا ہے” ییٹس س ے میں نے ج و
اصل بات سیکھی وہ یہ تھی کہ شاعر پر ایسا وقت بھی آتا ہے۔ جب وہ فاونٹین کا قافیہ ماونٹین باندھتے ہیں۔
اٹلی میں قیام کے دوران معیشت اور معاشی تاریخ میں پونڈ کی دلچسپیوں میں اضافہ ہوا ،انھوں نےمیج ر س ی ایچ ڈگلس
{}Major C.H. Douglasجو” معاشرتی کریڈٹ” {} ,Social Creditکے بانی تھے۔ ڈگلس،نے ایک معاشی اصول
مرتب کیا کہ دولت کی کمزور اور غیر منصفانہ تقسیم حکومتوں کی ناکافی اور کمزور حکمت عملیوں کے س بب ہ وئی
ہیں۔ پاؤن ڈ بین االق وامی بینک وں کی ناانص افیوں ک و معاش رتی برائی وں کی ج ڑ تص ور ک رتے تھے۔ ،جن کی من م انی
حکمت عملیوں کی وجہ سے پیسہ کی جنگ اور تنازعات جنم لیتے ہیں اور ممالک کے درمیاں جنگیں بھی ہوتی ہیں۔.
اس معاملے میں پاونڈ نے اطالوی آمر ،بینوٹو میسو لینی کے نظریات کو لبیّ ک کہ ا۔ 1939 .میں ،پائون ڈ نے امی د ظ اہر
کی تھی ان کا خیال تھا کہ اگر ان کے تصورات سے مد د لی جائے تو ممالک جنگ س ے اور اس کی تب اہ ک اریوں س ے
بچ سکتے ہیں۔ کے اور ایزرا پاونڈ نے میسولینی کے نظریات کے تحت اس بات ک ا دع وی کی ا کہ یہودی وں کے بینک وں
کے ذریعے امریکی کو پہلی جنگ عظیم میں ال پھینکا گیا۔
ایزرا پاونڈ نے اقتصادی مسائل اور دولت کی ہیت اور تقسیم دولت کے کچھ پمفلٹ لکھے۔ ان کا خی ال تھ ا کی رزمیہ نظم
میں تاریخ کا عمل دخل ہوتا ہے اور تاریخ کو معاشی نظریات کے بغیر سمجھا نہیں جاس کتا۔ اس وقت ام ریکہ نظ ام زر
کی نمائندہ قوت کے طور پر ابھر رہا تھا۔ پاونڈ نے امریکی معیش ت س ے ہمیش ہ نف رت کی اور انک ا ذہن فس طائیوں کے
قریب ہوگیا۔ اور فسطائی نظریات میں ان کی دلچسپی بڑھ گئی ۔ وہ مسولینی پرامریکی صدر کو فوقیت دیتے تھے۔ ان ک ا
خیال تھا کی مولیس نی اور ای ڈولف ہٹل ر کنفیوش یس کی تعلیم ات اور نظری ات س ے مت اثر تھے۔ اس ل یے وہ ام ریکہ کے
اللچی یہودیوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہیں۔ ان کا کہنا تھا ان رہنماوں کی ناکامی یہی تھی وہ کنفیوش یس کے نظری ات
کومکمل طور پ ر س مجھ نہیں پ ائے۔ اور اس ک ا مل ک میں اطالق نہیں کرس کے۔ پون ڈ کی غ یر مقب ولیت کی ای ک وجہ
سرمایہ داریت کے خالف ان کی شدید اور جارحانہ تضحیک اور مخ الفت ہے۔ ح االنکہ مس ولینی کی ام ریت کے ح امی
تھے۔ جو سرمایہ داریت کی انتہائی شکل ہے۔ یہ غیر معمولی تضاد ہے۔ جو پاونڈ کے خیالی تصور ” معاش رتی ق رض”
( )SOCIAL CREDITکو بے معنی بنادیتی ہے۔ وہ جدید سرمایہ داری کو مغربی تہذیب کی م وت کہ تے ہیں۔ ان کی
منطق سے قطع نظر یہ نظریہ مغرب کے سرمایہ دار ملکوں خصوصا امریکہ اور انگلستان میں نہایت ناپس ندیدگی س ے
مسترد کیا۔ کیونکہ ان ممالک کے معاشروں کی بنیاد سرمایہ کاری پ ر ہی ہے۔ 1921میں انھ وں نے اط الوی ری ڈیو پ ر
ام ریکی پالیس یوں کے خالف تق اریر کیں۔ دوس ری جن گ عظیم کے دوران پاون ڈ نے روم ری ڈیو س ے ہف تے میں دو
بارتقاریر کرتے تھے۔ اپنی تقریروں میں انھوں نے امریکی عوام کو خبردار کیا کہ وہ ایک بڑی سازش کا شکار ہ ورہے
ہیں۔ وہ ایک ایسا نظام قبول کررہے ہیں۔ جو انسانیت کے لیے مہلک ثابت ہوگا۔ انھوں نے کہا امریکی عوام اص ل حق ائق
سے بے خبر ہے۔ اس لیے امریکی اخبارات اور نشر وابالغ کی حکمت عملیاں پالیسیاں صنعت کاروں اور اشتہار دی نے
والی کمپنیوں کی مرضی سے طے ہوتی ہیں۔ مگر وہ کہ تے تھے میں نے جن گ کے ب ارے میں کچھ نہیں کہ ا۔ میں نے
صرف نظام کی مخالفت کی تھی جو جنگیں پیدا کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہ تقریریں اقتصادیات اور تاریخ کے بارے میں مخصوص نظریات کی بنیاد پر کی تھیں۔ اور
کبھی کوئی جرمن یا اطالوی افسر اسے حکم دینے کی ہمت نہیں کرسکا۔ پاونڈ ک و رجعت پس ند ش اعر بھی کہ ا جات ا ہے۔
اب ” ونے والی کت ائع ہ 1935میں ش
”JAFEERSON AND/ OR MUSSOLINIکو پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے وہ میسولینی کا بڑا حامی اور مداح تھا۔
ان کی ری ڈیو کی ام ریکہ ش کن تق اریر پ ر ام ریکی اسٹمبلش منٹ ک ا ش دید ردعم ل س امنے آی ا۔ 1942میں ان کی ع دم
موج ودگی میں ان پ ر غ داری اور مل ک دش منی کے ج رم میں م وت کی س زا س نائی گ ئی۔ 1948میں وہ میس ولینی کی
شکست کے بعد گرفتار کرکے امریکہ الیا گی ا۔ جہ اں ان ک ا طبّی مع ائنہ ک رکے ٰ
انھیں پاگ ل ق رار دے ک ر واش نگٹن کے
سینٹ الزبتھ ہسپتال میں نظر بند کردیا گیا۔ جہاں انھوں نے تیرہ سال بسر ک ئے۔ رہ ائی کے بع د وہ اٹلی چلے گ ئے۔ وہ اں
انھوں نے ایک صحیفہ نگار سے کہا ” امریکہ ایک بہت بڑا پاگل خانہ ہے ” ،ایزرا پاون ڈ نے فس طائی ان داز میں س الم
بھی پیش کیا۔ اور کہا کہ وہ یہاں کی مٹی کو چومنا چاہتا ہے۔ لیکن یہاں مجھے ہ ر ط رف س مینٹ ک ا ف رش نظ ر آت ا ہے
مجھے کسی چراگاہ یا گھاس کےمیدان میں لے جاؤ۔
نثری اصناف میں ناول ایک اہم ترین صنف ہے۔مختلف ناق دین نے ن اول کے ح والے س ے اپ نی مختل ف رائیں پیش کی
ہیں۔ اٹھارویں صدی میں کالراریو()Clara Reeveنے اپنی کتاب "Progress of Romance"۱۷۸۵ء) میں لکھا:
"".The novel is a picture of real life and manners, and of time in which it is written
اور اس کے ایک صدی بعد ہنری جیمز نے ۱۸۸۴ء میں اپنے مشہور مقالے ’’فکشن کافن‘‘ میں یہ رائے دی:
’’ناول کی وسیع ترین تعریف یہ ہے کہ وہ زندگی کا ذاتی اور براہ راست تاثر پیش کرتا ہے۔ یہی بات اس کی قدر وقیمت
مقرر کرتی ہے۔ اگریہ تاثر پوری شدت سے بیان ہو گیاتو ناول کام یاب ہے اور اگر کمزور رہا تو اسی اعتبار س ے ن اول
کم زور اور ناکامیاب ہو گا۔
اور بیسویں صدی میں ڈی ایچ الرنس نے بھی اسی سے ملتی جلتی رائے دی:
’’ناول کا فریضہ یہ ہے کہ انسان اور اس کے گردو پیش میں پائی ج انے والی کائن ات کے م ابین ج و رب ط موج ود ہے،
اس کا ایک زندہ لمحے میں انکشاف کرے"۔
ناول کے دیگر مغربی نقادوں لباک ،ای ایم فاسٹر ،ہیری لیون ،فرینک کرموڈ ،آرسٹیگ آئن واٹ اور رینے ویلک وغ یرہ
نے بھی اسی قسم کی تعریفیں پیش کی ہیں۔ ان ناقدین کے تعریفوں کا خالصہ یہ ہے کہ ن اول ہم اری حقیقی زن دگی ک ا
ترجمان ہوتاہے۔ جو تجربات ،سانحات اور واقعات ہمیں روز مرہ زن دگی میں پیش آتے ہیں ،ن اول انھیں بی ان کرت ا ہے۔
یوں ہم ناول کے ذریعے اپنی گزری اور گزررہی زندگی کی باز آفرینی کرتے ہیں کیونکہ ناول ہمارے ماض ی اور ح ال
کا آئنہ ہوتا ہے۔
ناول کی تنقید کے ابتدائی نقوش یونانی تنقی د میں مل تے ہیں۔ افالط ون نے ’جمہ وریہ ‘‘میں نق ل نگ اری ()Mimesisاور
واقعہ نگاری()Digesisکی اصطالحات استعمال کی ہیں۔ افالطون نقل سے مراد ایسا بیانیہ لیت ا ہے ج و کس ی واقعے کی
ٹھیک ٹھیک نمایندگی یا نقل کرے۔ ’’نقل‘‘پڑھتے ہوئے ہم ارا دھی ان نہ ص رف واقعے پ ر براب ر مرک وز رہے بلکہ اس
کے حقیقی ہ ونے ک ا ت اثر بھی ملے۔ دوس رے لفظ وں میں ’’نق ل‘‘ ای ک قس م کی حقیقت نگ اری ہے ،جب کہ ’’واقعہ
نگاری‘‘ ایک ایسے بیانیہ کا مفہوم لیے ہوئے ہے جو اپنے تخیلی اور تشکیلی ہونے کا تاثر دے اور اسے پڑھتے ہ وئے
قاری کی توجہ بیانیے کی اپنی جداگا نہ کائنات پر مرکوز رہے۔
ہم َکہ سکتے ہیں کہ ’’نقل‘ ناول کو زندگی کے خارجی ،مانوس اور روز مرہ تجربات سے مرب وط ک رتی ہے اور واقعہ
نگاری بیانئے کے خود مختار ،خود کفیل اور خود اپنے شعریاتی ضوابط کے تابع ہونے کا مفہ وم دیت ا ہے۔ نق ل ،واقعہ
ہے اور واقعہ نگاری ،بیان واقعہ۔ نیز یہ دو اصطالحیں دو زاویہ ہائے نظر بھی ہیں جو ناول ک و زن دگی کی نظ ر س ے
اور ناول کو خود ناول کی نظر سے دیکھنے سے عبارت ہیں۔ ایک ناول کے اصول ناول سے ب اہر زن دگی میں تالش
کرتا ہے اور دوسرا زاویہ نگاہ ناول کے اصولوں کو خود ناول کے اندر دریافت کرتا ہے۔ ۔
ان تفصیالت کی روشنی میں اس مق الے میں ان س والوں پرب اختن کے نظ ریہ اص نافکا تفص یلی ج ائزہ پیش ک رنے کی
کوشش کی گئ ہے۔
روسی ماہر لسانیات اور نقاد میخائل باختن کا خیال ہے کہ روز اوّل س ے ادبی تنقی د نے ان س والوں ک و الجھای ا ہے۔
اور ایک طویل عرصے تک ناول کی تنقید میں مائی می سس کا زاویہ نظر حاوی رہا اور ناول ک و زن دگی اور اس کے
تجربات و مسائل کی ترجمانی کے ح والے س ے س مجھنے اور ج انچنے ک ا میالن غ الب رہ ا اور اب ڈائی جی س س کے
زوایہ نظر نے اپنی موزونیت کو باور کرای ا ہے اور ن اول کی ش عریات اور اس کی رس میات و ض وابط کودری افت اور
طے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
روسی ہیئت پسندی اور ساختیات سے قبل فکشن کی تنقید میں یہ بات عقیدے کا درجہ رکھتی تھی کہ فکشن (بالخص وص
ناول اور افسانے)کا زندگی سے گہرا ،اٹوٹ رشتہ ہے اور فکشن کا زندگی کے بغ یر اور زن دگی س ے ال گ تص ور بھی
نہیں کیا جا سکتا۔ مثالً افسانوی تنقید نے بیسویں صدی کے اوائل تک یہ موقف اختیار کیے رکھا ہے ۔
بالفاظ دیگر روایتی تنقید نے ناول کے تجزیہ میں مواد یا موضوع (یعنی نظ ریے )ک و ف ارم س ے ہمیش ہ ال گ تھل گ
رکھا ہے .لیکن حقیقت یہ ہے کہ خیاالت کا زبان کے بغیر کوئی وجود نہیں ہے ۔ اس ضمن میں باختن کا خیال ہے کہ
فارم اور مواد کے درمیان خط فاصل نہیں کھینچا ج ا س کتا ۔ اس کی مزی د وض احت کے ل یے وہ ن اول اور بالخص وص
دوستوواسکی کی ناول پر توجہ مرکوز کرتا ہے .اس کا خیال ہے کہ فارم نظری اتی ہوت ا ہے لیکن ک وئ بھی نظ ریہ
کسی فارم کے بغیر ممکن نہبں۔ یہی وجہ ہے کہ باختن سماجی اسلوبیات stylistics کی پیروی کرتا ہے۔کیونکہ اس
کی نظر میں نشان ( سائن ) ایک مستحکم اکائ نہیں ہے۔بلکہ یہ ایک خاص سماجی سیاق میں اپنی تعبیر پاتا ہے۔ یہی
وجہ ہے کہ باختن ناول کو بھی سیاسی سماجی اقتصادی نظامات کے ساتھ مختص کر کے دیکھتا ہے۔
اس کا خیال ہے کہ ناول ایک واحد ،متحدہ فارم پر مشتمل نہیں ہوتا ہے۔ یعنی ناول ایک ایسی ص نف ہے جس میں کئ
اصناف کے فارم پوشیدہ ہوتے ہیں جسےوہ اپنے مخصوص لہجے میں" "several heterogeneous stylistic unities
،کہتا ہے مزید یہ کہ اس کی نظر میں اس ش اعری کے ب ر عکس ج و ی ک آوازی اور ی ک رو منط ق کی حام ل ہ وتی
ہے ،ناول کثیر االصواتی یعنی Hetroglot ہوتا ہے۔ اور ناول کا کثیراالصواتی ڈسکورس ناول کو کثیر فکری بناتا ہے۔
ناول کے کثیراالصواتی لہجے کے لیے باختن نے بعض جگہوں پر ذو آوازی یعنی Polyphonicی ا Dialogic کی
اصطالح بھی استعمال کی ہے۔ ناول ایک پھیلی ہوئی بڑی تصویر ہے جس میں ایک مقررہ پالٹ کو واض ح ک رنے کے
لیے زندگی کے کردار مختلف جماعتوں کے ساتھ مختل ف پہل وؤں س ے دکھ ائے ج اتے ہیں‘‘ گوی ا اس کی نظ ر میں یہ
صنف شاعری کی طرح monological نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں کثیر اظہاریت ک ا عم ل ک ارفرمہ ہوت ا ہے جس کے
سبب ناول میں مستعمل آواز مصنف تک محدود نہیں ہوتی۔ اپنی اس تحریر میں باختن نے جن تین نمایاں آوازوں ک ا ذک ر
کیا ہے ان میں پہلی آواز
• مصنف کی اپنی آواز ہے۔ یہ آواز نام نہاد لیکن براہ راست مصنفی مداخلتوں یعنی interventions authorial
کی آواز ہے
• راوی کی آواز ( راوی کی آواز عام طور پر ایک مخصوص ادبی سٹائل یا کنونشن کی آواز ہوتی ہے )؛
• مختلف کردار کی آوازیں ( کردار کی آوازعام طور نیم ادبی انداز میں پیش کردہ آواز ہوتی ہے)۔
دوس رے الف اظ میں ،مص نف کی آواز ن اول کی کثیراالص واتی آوازوں میں س ے محض ای ک آواز ہے۔ .
Bakhtinکے لئے ،یہ آواز وسیع تر طبقے کی آوازوں سے کم حیثیت رکھتی ہے۔ وسیع تر طبقے کی آواز کسی خاص
طبقے کی نظریاتی نقطہ نظر کی نمائندگی کرتی ہے اور کثیراالص واتی آواز heteroglossiaکی وجہ بن تی ہے۔ کث یر
االصواتی متن میں ہر آواز کی اپنی ایک قیمت ہوتی ہے۔ ہیٹرو گلوسیا کی اصطالح درون لسانی تکثیریت کی طرف بھی
اشارہ کرتی ہے۔ جو بعض اوق ات اس لوبیاتی تن وع کی وجہ بن تی ہے۔ اور ن اول میں داخ ل ہ ونے والی آوازوں مین کث یر
جہتی پیدا کرتی ہے۔ ن اول ک ا مرک ز گری ز بکھ راؤ )centrifugal Dispersion ( ن اول میں dialogisation "
"ذوص وتیت تش کیل دیت ا ہے اور تحری ری عالیم و اص طالحات کی نش و و نم ا پ ر بھی اث ر ڈالت ا ہے۔ اس ط رح ن اول
رمزیاتی یامجازیاتی ( )Allegoricalاور خیالی تحریروں کو پیش کرتا ہے
چونکہ ناول کا مزاج کثیراالصواتی ہے لہذا ناول کی تنقید کو یکساں طور پر فارمالسٹ اور سماجی ہونا چاہیے۔ باختن کا
خی ال ہے کہ چ ونکہ ن اول کے ڈس کورس میں س ماجی تکث یریت ش امل ہ وتی ہے لہ ذا ن اول کے ڈس کورس ک و بخ وبی
سمجھنے کے لیے ناول کے سماجی سیاق کو سمجھنا ض روری ہے۔ کی ونکہ اس ی س ماجی س یاق کے زی ر اث ر ن اول ک ا
لسانی مزاج متشکل ہوتا ہے۔ اور فارم اور مواد کا تعین کرتا ہے
وہ مانتا ہے کہ شاعری ،وحدانی اور monologicہوتی ہے کیونکہ اس کے ذریعے شاعر اپنے ارادے کا " خالص اور
براہ راست اظہار کرتا ہے " مزید یہ کہ شاعری میں کثیراالصواتی کیفیت نہیں مل تی۔ اس کے الف اظ میں غن ائ ش اعری
.neither multiform in style nor variform in voiceہوتی ہے۔
اس کے برعکس ،وہ یہ بھی مانتا ہے کہ کثیراالصواتی یعنی heteroglossiaنثری اصناف مثال ناول اور افس انے کی
غالب خصوصیت ہے۔ مزید وضاجت کے لیے وہ کہتا ہے کہ تنقید کے روایتی طریقہ کار شاعری کی تشریح پر مب نی
ہیں .نتیجتا ،وہ اکثر نظری اتیmonologismاور ش اعری کے اس لوبیاتی اتح اد کے مق ابلے میں ن اول کے نظری اتی اور
اسلوبیاتی تنوع کو کم کر کے آنکتے ہیں
مؤخر الذکرheteroglossiaکی حقیقت کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ناول کا مطالعہ تنقید کے موج ودہ ف ریم ورک
میں فٹ نہیں ہوتا ہے۔ .اس نقطہ نظر سے ،ن اول س میت ک وئ بھی ن ثری اظہ ار "ای ک س ماجی ط ور پ ر مخص وص
ماحول میں اور مخصوص تاریخی لمحے میں " شکل لیتا ہے اور " سماجی مکالمے میں شریک ہوت ا ہے۔ ب اختن کے
خیال میں ،زبان بنیادی طور پر ذو آوازی ہے کیونکہ اس میں مختلف النوع آوازوں کو شریک کرنے کی صالحیت ہ وتی
ہے۔ اور یہ صرف غالب آواز یا غالب نقطہ نظر کے اظہار کا ذریعہ نہیں بنتی ہے۔
یہ تصور کہ ناول شاعری کی طرح ،یک آوازی اظہار یعنی monological utterance ہے ایک عرص ے ت ک ادبی
تنقید میں غالب رہا ہے کی ونکہ یہ تص وّر ت اریخی اعتب ار س ے اس فک ر کی نمائن دگی کرت ا ہے ج و اقتص ادی ،سیاس ی،
سماجی ،اور ثقافتی مرکزیت کا قائل ہے ،باختن کا خیال ہے کہ اسی وجہ سے انیسویں صدی تک ، شاعری کا ص نف
سب سے زیادہ بورژوائ دلچسپی کا سامان تھا۔ اور اس دور کا ادبی سٹائل بن گیا تھا ۔
گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ادبی تنقید نے عام طور پر ای ک طوی ل عرص ے ت ک زب ان کے ذو آوازی لہجے اور ن اول
کے کثیراالصواتی انداز کو نظر انداز کیا ہے .زبان کے کثیر لسانی لہجے سے ن اواقفیت کی وجہ س ے ناق دین نے ن اول
جیسے ان تمام اصناف کو نظر انداز کیا جو نظریاتی سطح پر ان رجحانات کے پیروک ار تھے ج و مرک ز گری ز یع نی
CENTRIPETALقدروں کے حامل تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ غنائ ش اعری ک ا م زاج ی ورپ کے ب ورژوائ س وچ
سے مطابقت رکھتا تھا۔ جو یورپ کے تہ ذیبی اور ثق افتی وح دت ک ا قائ ل تھ ا۔ اس ط رح ش اعری میں ہمیں ب ورژوائ
شعور کی صورت گری ملتی ہے ۔کیونکہ اس دور میں شاعری ب ڑی ح د ت ک ج اگیردارانہ سرپرس تی کی مرہ ون منت
تھی لیکن جاگیردانہ نظام کے خاتمے کے بعد متوس ط طبقے کی ت رقی کی وجہ س ے ای ک پ یراڈائم ش فٹ کی ص ورت
نظر آتی ہے جس کی وجہ سے ناول کا صنف لوک بیانیہ کے عوامی تہذیبی روایت کے زیر اثر ظہور پ ذیر ہوت ا ہے
اور میلوں ٹھیلوں کے کارنیول روائتوں سے ہوتا ہوا یونانی رومان پاروں تک پہنچت ا ہے۔ ب اختن ک ارنیول روائت وں اور
یونانی رومان پاروں کی مثالوں سے یہ واض ح کرت ا ہے کہ ان اص ناف ک و ذو آوازی ی ا ڈائ لوج ک ہون ا ای ک منطقی
عمل تھا کیونکہ ان کے پالٹ کا جاۓ وقوع مختلف جغرافیائ حدوں میں پھیال ہوتا ہے۔ ان اص ناف کے پالٹ کے جاۓ
وقوع کی وسعت انھیں ذو آوازی یا ڈائ لوجک بناتی ہے۔
ان تفصیالت کی روشنی میں ،اس بات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ ن اول کے کث یر االص واتی heteroglot ن وعیت پر
Bakhtinکے خیاالت حقیقت پسندی کے انسان دوستی اور مارکسی تصورات کا تنقید پیش کرتے ہیں
ناول کا mimeticماڈل ناول کے متعلق Georg Lukácsکے نقطہ نظر کو پیش کرتا ہے Bakhtinکا دع وی ہے کہ
شاعری اس حقیقت کو بھول جاتی ہے کہ تخلیقی مواد کی اپنی تاریخ ہوتی ہے ، اس کے برعکس ،نثری اصناف سماجی
کثیر االصواتی آوازوں کا معترف ہوتا ہے۔ مزی د یہ کہ زب ان کی dialogicن وعیت کے م دنظر ب اختن ک ا خی ال ہے کہ
دیگر چیزوں کے عالوہ مصنف کو ممکنہ قارئین کے نقطہ نظر کو بھی م ّد نظ ر رکھن ا چ اہیے کی ونکہ تخلی ق میں پیش
کردہ اجنبی الفاظ قاری کی ذہنی بالیدگی کے زیر اثر پروان چڑھتے ہیں۔ تفہیم کا عمل قاری کے کاگنیٹو اور تصوراتی
ّ
حص ہ بن جات ا ہے جس س ے اجن بی نظام میں نشو نما پات ا ہے اور ج ذب و اختالط کی کیفیت س ے گ زر ک ر تفہیم ک ا
معنوی افق تک رسائ ہوتی ہے۔
ن اول ک ا کثیراالص واتی heteroglotن وعیت ،ق اری کی آواز ک و ش امل ک رنے کے نۓ"امکان ات " ڈھون ڈتا ہے۔ گوی ا
مصنف اور اس کے مقصد بیان کے درمیان ایک اور intruding یعنی تدخلی نقطہ نظ ر ہوت ا ہے" .ن اول نگ ار کے
لیے اس کے اپنے سماجی اور کثیراالصواتی heteroglotتصورات سے ب اہر ک وئی دوس ری دنی ا نہیں ہ وتی۔ یع نی
باختن کا خیا ل ہے کہ ناول نگار بعض صورتوں میں اپنی تص وراتی دنی ا ک و حقیقی دنی ا تص ور کرت ا ہے کی ونکہ اس
کثیراالصواتی تصوراتی دنیا کے اصول زبان کے ذو آوازی م زاج س ے ہم آہن گ ہ وتے ہیں۔ گوی ا اس ک ا خی ال ہے کہ
ناول میں پیش کردہ دنیا حقیقی نہیں ہوتی بلکہ کثیراالصواتی تصوراتی دنیا کی ایک ایس ی تص ویر ہ وتی ہے ج و زب ان
کی ذو آوازی قوت سے تخلیق ہوتی ہے۔ لہذا اس کی دلیل ہے کہ کثیراالصواتی دنیا کی فنی اور لسانی نمائندگی ن اول ک ا
مرکزی مسلہ ہے۔
مزی د یہ کہ ن اول نہ ص رف ک ردار اور ان طبق ات کی جس کی وہ نمائن دگی ک رتے ہیں کے ڈائ لیکٹیک ل ( ذو آوازی)
ٹکراؤ کو پیش کرنے کا عمل ہے بلکہ نظریاتی نقطہ نظر کا ال ینحل من اطرہ بھی پیش کرت ا ہےجس میں ' س چ ' ہمیش ہ
معطل اور ملتوی رہتاہے۔
لہذاBakhtinکہتا ہے کہ ناول کا ہر کردار اپنی منفرد نظریاتی آواز رکھتا ہے کیونکہ ناول ک ا کردارہمیش ہ ای ک بول نے
واال انسان ہوتا ہے۔ اس منفرد نظریاتی آواز کو نظریاتی ڈسکورس کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔
ناول بعض اوقات زبان کی مخلوط شکل پیش کرنے کی شعوری کوشش کرتا ہے تاکہ مختلف سماجی بولیوں کی فنکارانہ
تصویر تخلیق کی جا سکے۔ یہ کوشش قاری کے ذہن میں سماجی لسانیاتی فرق ک و واض ح ک رتی ہے۔ گوی ا ن اول ای ک
ایسی صنف ہے جو مختلف سماجی بولیوں کو یکجا کرنے کا منظم نظام پیش کرتا ہے۔ ب اختن ک ا خی ال ہے کہ زب ان کی
فنکارانہ تصویر پیش کرنے کے تین بنیادی طریقہ کار ہیں۔ جو بظاہر ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے با وجود ای ک
دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں
مکالمہ
لسانی مخلوطیت :مختلف لسانیconsciousnessesکے درمیان ایک مک المہ جہ اں دو لس انی روی ون ک ا ب راہ راس ت
اختالط ہوتا ہے
ذوآوازی لس انی رب ط :دو ی ا دو س ے زی ادہ زب انوں کی موج ودگی۔ ب اختن اس کے ل یے parodic stylizationکی
اصطالح بھی استعمال کرتا ہے۔
ان تفصیالت کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ باختن نے اپ نے نظ ریہ اص ناف میں بین المت ونیت intertextuality
کا ایک ایسا ماڈل پیش کیا ہے جو فرڈی ننڈ ڈی سس یور کے نظ ریہ پ یرول اور ذو عص ریت ک و اس دور میں اہمیت
دیتا ہے جب ساختیات کے ماہرین فرڈی ننڈ ڈی سسیو ر کے نظریہ الن گ ،عص ریت ،اور غ یر انف رادیت (' مص نف
کی موت') کی باتیں کر رہے تھے ۔ باختن کا خیال ہے کہ ہر مصنف دوسرے مصنفین ک و دہرات ا ہے۔وہ اس عم ل ک و '
parodyingکہتا ہے ۔ اس کا یہ خیال حضرت علی کے اس قول کہ قریب نظر آتا ہے کہ لفظ کہناایک عہد ک و دہ رانے
کے مترادف ہے اس کے خیال میں یہ عمل کبھی شعوری طور پ ر کبھی اتف اقی ط ور پ ر ،کبھی واض ح ط ور پ ر اور
کبھی غیر واضح طور پر دہرایا جاتا ہے۔ ناول کی اس بنیاد ی تخلیقی جہت کو نظر یاتی بنیاد اس کے کث یر االص واتی (
) Hetroglotنظریےنے مہیا کی۔ باختن کا بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ ناول معاصر زندگی کی سچائیوں کو پیش کرتا
ہے اورزندگی کی سچائیوں میں اس عہد کی سماجی ،سیاسی ،معاشرتی صداقتیں شامل ہوتی ہیں۔ یوں اس کا خیال ہے کہ
ناول ،زندگی سے متعلق آرزومندانہ تصورات کے بجائے حقیقی زندگی کے تجرب ات و مش اہدات ک و پیش کرت ا ہے اور
اصولی طور پر انسان کی تخیلی زندگی سے زیادہ اس کے خارجی احوال قلم بند ک رنے پ ر زور دیت ا ہے اور اس ط رح
باختن ناول کو ذات کا اظہار نہیں ،بلکہ حیات کا بیانیہ قرار دیتا ہے۔
رومانیت ایک ثقافتی تحریک جس کا آغاز اٹھارویں صدی کے نص ف آخ ر میں ی ورپ میں ہ وا۔ یہ دراص ل کالس یزم کی
روایت ،ہیئت اور مذاق کے خالف بغاوت تھی۔ اس میں تخیل کو منطق پ ر ت رجیح دی ج اتی ہے اور فن ون کی کالس یکی
مثالوں کی غیر مبہم وضاحت اور مکمل ہیئت سے انح راف کی ا جات ا ہے۔ عش ق و محبت ،غم و غص ہ اور دیگ ر بنی ادی
جذبات تمام فن پاروں کے موضوع ہوتے ہیں لیکن رومانیت پسند فن کاروں کی تخلیقات میں ان جذبات کی انتہ ائی ش دت
ہ وتی ہے۔ ان ک ا نع رہ ادب ب رائے ادب اور فن ب رائے فن ہے جبکہ ت رقی پس ند ادیب و فنک ار ادب ب رائے زن دگی و فن
برائے زندگی کے قائل ہیں۔ مغربی ادیبوں ،شاعروں اور فن کاروں میں ورڈزورتھ ،بلیک ،بائرن ،شیلے ،کیٹس ،شومان،
ڈوما ،ہیوگو ،ویکسز ،براہمز ،دیلکرائے ،والٹر سکاٹ ،گوئٹے ،شلر ،ج ارج س ینڈ ،ہی ڈن ،بیتھ وون وغ یرہ روم انیت کے
نمائندے سمجھے جاتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ یورپ میں رومانیت کا دور 1850ء کے لگ بھگ ختم ہ و گی ا۔ لیکن اس کے وس یع ت ر مفہ وم میں دیکھ ا
جائے تو یورپ کے فن کاروں کی ایک اچھی خاصی تعداد ہنوز اُسی عہ د میں جی رہی ہے۔ ذاتی رنج و الم اور احس اس
تنہائی حقیقی یا تصوراتی پر مبنی شاہکار اب بھی تخلی ق ک یے ج ا رہے ہیں۔ ایس ے ادب کی بھرم ار ہے جس میں دکھی
انسانیت یا قانون شکن افراد کے ساتھ رومانی ہمدردی کا برتاؤ کیا جاتا ہے۔
ہیں اس لیے رومانیت کے متعلق کوئی متعین بات کہنا چاہیں تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ رومانیت کے معانی روم انیت ہیں