Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 18

‫‪CE526756‬‬

‫قدما یونان کا دور ایک زرخیز دور تھا اس دور میں ایسے ایسے فلسفی اور نکتہ دان پیدا ہوئے جنہوں نے مختل ف عل وم‬
‫و فنون کو ایسا خزانہ دیا کہ جس پر یونان والے بجا طور پ ر فخ ر ک ر س کتے ہیں ۔ ش اعری ادب اور ڈرامے پ ر خ اص‬
‫طور عمدہ تنقید دیکھنے میں آئی ہے۔ اس دور کے نظری ات میں س ے بہت س ے ایس ے ہیں ج و آج س ے دو ڈھ ائی ہ زار‬
‫برس گزرنے کے باوجود بھی قابل توجہ سمجھے جاتے ہیں۔ خاص ک ر افالط و ن اور ارس طو ‪ ،‬ای ک نق اد ک ا کہن ا ہے۔‬
‫”حیرت کی بات یہ ہے کہ دو ڈھائی ہزار سال گزرنے جانے کے باوجود افالطون ‪ ،‬ارسطو ‪ ،‬ہیوریس ‪ ،‬الن جائی نس پر‬
‫وقت کی گرد نہیں جمنے پائی۔ ان کی نگارشات کے مطالعے کے بغیر ادبی تنقید کا مط العہ تش نہ رہ جات ا ہے۔ اور تنقی د‬
‫وتی۔“‬ ‫دا نہیں ہ‬ ‫یرت پی‬ ‫ر کی بص‬ ‫ور و فک‬ ‫رغ‬ ‫ائل پ‬ ‫ادی اور اہم مس‬ ‫کے بعض بنی‬
‫ارسطو کا زمانہ افالطون کے فوراً بعد کا زمانہ ہے وہ افالطون کا ش اگرد تھ ا لیکن ش اعری اور ڈرامے کے ب ارے میں‬
‫اس سے مختلف رائے رکھتا تھا۔ اس نے افالطون کا نام لئے بغیر اس کے اعتراض وں کے ج واب دیے ہیں خی ال ہے کہ‬
‫اس نے ک ئی مختص ر کت ابیں لکھیں جن میں س ے ”فن خط ابت “ ”‪ “RHETORIES‬اور فن ش اعری ی ا ”بوطیق ا“” ُ‬
‫ئیں ۔‬ ‫ذر ہوگ‬ ‫انہ کی ن‬ ‫ات زم‬ ‫اقی انقالب‬ ‫ک پہنچی ب‬ ‫‪ “POETICS‬ہم ت‬
‫اندازہ ہوتا ہے کہ کہ یہ ارسطو کی تقریروں کی یاداشتیں یعنی لیکچر نوٹس ہیں جن کے کچھ حص ے ض ائع ہوگ ئے ہیں۔‬
‫”بوطیقا“ میں المیہ پر تفصیلی بحث کی گئی ہے لیکن طربیہ اور رزمیہ پر سرسری گفتگ و ہے اور غن ائیہ ش اعری کے‬
‫بارے میں کچھ بھی نہیں کہا گیا۔ جگہ جگہ ایسے اشارے ملتے ہیں جن کی تشریح درک ار ہے۔ ڈاک ٹر جمی ل ج البی اپ نی‬
‫تص نیف ”ارسطوس ے ایلیٹ ت ک “ میں لکھ تے ہیں۔” اس ک ا ذہن منطقی ‪ ،‬م زاج سائنس ی اور فک ر موض وعی ہے۔“‬
‫ادبی تنقید میں ”بوطیق ا “ کی حی ثیت پہلی باقاع دہ تص نیف کی س ی ہے۔ اس کت اب میں ارس طو نے ش اعروں کی وک الت‬
‫کرتے ہوئے انہیں افالطون کے الزامات سے بچانے کی کوش ش کی ہے اور ش اعری ک و ای ک مفی د ش ے ق رار دی ا ہے۔‬
‫تے ہیں۔‬ ‫البی کہ‬ ‫لج‬ ‫ٹر جمی‬ ‫ڈاک‬
‫” ارس طو نے ان تم ام مس ائل ک و ج و افالط ون نے اُٹھ ائے تھے ای ک مرب وط نظ ام ِ فک ر میں تب دیل ک ر دی ا۔“‬
‫رتے ہیں۔‬ ‫ات ک‬ ‫ی ہی ب‬ ‫دہللا بھی ایس‬ ‫ید عب‬ ‫ٹر س‬ ‫ڈاک‬
‫ئے“‬ ‫ائم ک‬ ‫ول ق‬ ‫ا تی اص‬ ‫تا ً جمالی‬ ‫د خالص‬ ‫ا جس نے چن‬ ‫ر تھ‬ ‫ی مفک‬ ‫طو پیدائش‬ ‫” ارس‬
‫شاعری کے بارے میں ارسطو کے شعری نظریات کی وضاحت کرنے سے پہلے افالطون کے تنقیدی تصورات کو بیان‬
‫کرتا ضروری ہے کیوں کہ ارسطو کے شعری نظریات اس وقت تک سمجھ نہیں آس کتے جب ت ک افالط ون کے تنقی دی‬
‫تصورات کا ہمیں علم نہ ہو۔ افالطون کے ”نظریات “ درحقیقت اس کے ”اعتراضات “ ہیں ۔ جن کا اجمالی خاکہ ذیل میں‬
‫ا۔‬ ‫ا گی‬ ‫دی‬

‫ات‪:‬۔‬ ‫ون کے اعتراض‬ ‫ر افالط‬ ‫اعری پ‬ ‫ش‬


‫ارسطو سے پہلے افالطون کے نظریات علم و ادب پر چھائے ہوئے تھے۔ افالطون ادبی نظ ریے کے خالف تھ ا اس کے‬
‫نزدیک اس کی مثالی ریاست میں شاعر کے لئے کوئی گنجائش نہیں تھی۔ اور اس کے خیال میں ش اعر ک و ریاس ت ب در‬
‫کردینا چاہیے۔ کیونکہ وہ جھوٹے دیوتائوں کی جھوٹی تعریف پیش کرت ا ہے۔ اس کی مث الی ریاس ت میں ش اعر کے ل ئے‬
‫کوئی جگہ ہے تو صرف اس صورت میں کہ شاعر کو معلم ِ اخالق ہو۔ افالطون کا دوسرا نظریہ تقلید فن ہے افالطون کا‬
‫خی ال تھ ا کہ تم ام فن ون کی بنی اد نق ل پ ر ہے۔ فن ک ار مظ اہر ق درت پ ر مظ اہر انس ان کی نق ل پیش کرت ا ہے۔‬
‫ارسطو نے اس نظریے کی ازسرنو تشکیل کی اور آج ساری دنیا میں یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ فن کی بنیاد نق ل پ ر ہے وہ‬
‫تمام مسائل جو افالطون نے اُٹھائے تھے ۔ ارسطو نے انھیں ایک مربوط نظام فک ر میں تب دیل ک ر دی ا۔ اس ل ئے تنقی د ک ا‬
‫اعلی ث ابت کی ا‬
‫ٰ‬ ‫اصل بانی اُسے سمجھا جاتا ہے۔ ارسطو نے تمام فنون ‪ ،‬مصوری‪ ،‬شاعری ‪ ،‬مجسمہ سازی‪ ،‬موس یقی ک و‬
‫ہے۔‬

‫ر میں‪:‬۔‬ ‫طو کی نظ‬ ‫شاعرارس‬

‫شاعر عام حاالت و واقعات کو خاص بناتا ہے اور انھیں افاقیت عطا کرتا ہے اور اپنی انفرادی کیفیت میں اجتماعی رن گ‬
‫پیدا کرکے اسے سب کے لئے قاب ِل قبول بناتا ہے۔ ارسطو کا خیال ہے کہ شاعر بھی فلسفی کی طرح کائناتی سچائیوں کو‬
‫وبی بھی ہے۔‬ ‫افی خ‬ ‫نے کی اض‬ ‫اس کہ‬ ‫اعر کے پ‬ ‫ا ہے کہ ش‬ ‫رف اتن‬ ‫رق ص‬ ‫ڈتا ہے۔ ف‬ ‫ڈھون‬

‫ات‪:‬۔‬ ‫طو کے نظری‬ ‫ق ارس‬ ‫اعری کے متعل‬ ‫ش‬

‫ارسطو سے پہلے بھی تنقیدی نظریات ملتے ہیں۔ لیکن وہ خال خال اور منتشر ح الت پ ائے ج اتے ہیں۔ ارس طو کی کت اب‬
‫بوطیقا کی مختصر نوعیت کے بارے میں قیاس کی ا ج ا س کتا ہے ۔ کہ اس کت اب ک ا پہال حص ہ ت ا ح ال گم ہے اس پہلے‬
‫یل یہ ہے۔‬ ‫تے ہیں۔ ان کی تفص‬ ‫ات مل‬ ‫و نظری‬ ‫ے میں ج‬ ‫حص‬
‫‪١‬۔فن خط ابت ‪٢‬۔ش اعری کے ب ارے میں نظری ات ‪٣‬۔ڈارمے کے متعل ق نظری ات ‪٤‬۔ المیہ ‪٥‬۔ت زکیہ نفس‬
‫ان کیں ہیں۔‬ ‫ام بی‬ ‫ار اقس‬ ‫اعری کی چ‬ ‫طو نے ش‬ ‫ے پہلے ارس‬ ‫بس‬ ‫س‬
‫ائیہ ‪٤‬۔رزمیہ‬ ‫ربیہ ‪٣‬۔غن‬ ‫‪١‬۔المیہ ‪٢‬۔ ط‬
‫ارسطو شاعری کی تعریف کرتے ہوئے ہر قسم کی شاعری کو نقل قرار دیتا ہے آج بھی س اری دنی ا تس لیم ک رتی ہے کہ‬
‫شاعری زندگی کی نقل ہے۔ یہ نظریہ ارسطو نے افالطون ہی سے اخذ کیا ہے اور مکمل وضاحت کرتے ہوئےلکھت اہے۔‬
‫اہے۔“‬ ‫د کرت‬ ‫رت کی تقلی‬ ‫”فن فط‬
‫فنون لطیفہ کی طرح شاعری بھی نقالی ہے اور ش اعری کے ل ئے جن لوازم ات کی ض رورت‬
‫ِ‬ ‫ارسطو کے نزدیک دیگر‬
‫ل ہیں۔‬ ‫ہے وہ ذی‬
‫اتی ہے۔‬ ‫الی کی ج‬ ‫االت جن کی نق‬ ‫یاءاور ح‬ ‫‪١‬۔ وہ اش‬

‫رت‬ ‫اہر فط‬ ‫انی‪ ،‬مظ‬ ‫اہر انس‬ ‫ر ‪ ،‬مظ‬ ‫ل ‪ ،‬فک‬ ‫اتی ہے تخی‬ ‫الی کی ج‬ ‫‪٢‬۔ وہ جن کے ذریعے نق‬

‫اتی ہے۔‬ ‫الی پیش کی ج‬ ‫اظ جن کے ذریعے نق‬ ‫‪٣‬۔وہ الف‬

‫و‪:‬۔‬ ‫ادی و اخالقی پہل‬ ‫ا اف‬ ‫اعری ک‬ ‫کش‬ ‫طو کے نزدی‬ ‫ارس‬

‫شاعر عکس کے عکس کا بچاری ہوتا ہے۔ لیکن ارسطو کے ہاں یہ طریقہ کا ر بہت فط ری ہے اس کے عالوہ افالط ون‬
‫مطالعہ فن اور مطالعہ اخالق میں بھی فرق نہیں برتتا۔ ارسطو نے اس فرق ک و واض ح کی ا ہے۔ اور اس مقص د کے ل ئے‬
‫اس کا طریقہ کار سائنسی اور دو ٹوک ہے۔ ارسطو ”کیا ہے“ پر بحث کرتا ہے یعنی زندگی کی اص ل کھ ری تص ویر فن‬
‫کے آئینے میں نظر آئے اور افالطون ’ ’ کیا ہونا چاہیے“ پر بحث کرتا ہے۔ یعنی زندگی کی تصویر ک و کتن ا حس ین اور‬
‫دلکش ہونا چاہیے۔ اور یہ بات فن کی بنیاد کے خالف ہے ۔ کی ونکہ اس ط رح ادب ای ک مخص وص نظ ریے کی ت دریس‬
‫کرتا ہے۔ اور زندگی کی حقیقی تصویر سے چشم پوشی کا مرتکب ہوتا ہے۔ ارسطو کے عہ د ت ک یہ ب ات طے ش دہ تھی‬
‫معلم اخالق ہونا چاہیے۔ لیکن ارسطو نے اس حقیقت کو پا لی ا۔ کہ اخالق کی ت دریس ش اعری ک ا اف ادی پہل و‬
‫کہ شاعر کو ِ‬
‫ہے جب کہ ارسطو افادی پہلو کی بج ائے جمالی اتی ق درو ں کی پرچ ار کرت ا ہے۔ اس ک ا تنقی دی پہل و یہ ہے کہ ش اعری‬
‫اعلی مسرت پہنچاتی ہے۔ ارسطو نے اس نظریے کو یہاں ت ک‬
‫ٰ‬ ‫اخالق کا سرچشمہ نہیں بلکہ شاعری ایک خاص قسم کی‬
‫محدود نہیں رکھا ۔ بلکہ اس کا خیا ل ہے کہ ج و اذہ ان نارم ل اور ص حت من د ہ وتے ہیں ۔ وہ جمالی اتی مس رت اس وقت‬
‫و۔‬ ‫اہ‬ ‫ورا اترت‬ ‫رپ‬ ‫وں پ‬ ‫اتی تقاص‬ ‫ارہ جمالی‬ ‫کتے ہیں کہ فن پ‬ ‫رس‬ ‫لک‬ ‫حاص‬
‫اس طرح ارسطو نے اخالقی و افادی پہلوئوں کی ذمہ داری خالق کے کندھوں سے ہٹا کر قاری کے کندھوں پر ڈال دی ۔‬
‫ارسطو کے اس کام کا توازن بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ بات قاب ل ت وجہ ہے کہ ارس طو جمالی اتی ح ظ ک و‬
‫بنیادی اور اخالقی تدریس ک و ث انوی حی ثیت دیت ا ہے۔ وہ اخالقی ت دریس ک ا منک ر نہیں لیکن ایس ی ش اعری ج و ص رف‬
‫ا ہے کہ‪،‬‬ ‫ز لکھت‬ ‫کاٹ جیم‬ ‫ل نہیں۔ س‬ ‫ا قائ‬ ‫و‪،‬ک‬ ‫دہ‬ ‫دریس کی پابن‬ ‫اخالقی ت‬
‫” افالط ون اخالقی ات اور جمالی ات ک و گڈم ڈ ک ر رہ ا تھ ا ارس طو نے اس ک و دور ک رکے جمالی ات کی بنی اد رکھی۔“‬

‫وزنیت‪:‬۔‬ ‫ام‬ ‫ریہ وزن ی‬ ‫ا نظ‬ ‫طو ک‬ ‫ارس‬

‫ارسطو کے عہد کے تناظر میں اس کے بعض بیانات ک و س مجھنے کی ض رورت ہے۔ مثالً ارس طو کہت ا ہے کہ وزن ی ا‬
‫موزونیت شاعری کے لئے الزمی نہیں ۔ تنقید کا یہ حصہ انتہائی متنازعہ ہے اور متض اد بھی ۔ کی ونکہ ای ک ط رف ت و‬
‫ارسطو اپنے نظریات کی بنیاد جمالیات پر رکھتا ہے۔ اور دوسری طرف وزن یا موزونیت کے خالف اتنا ش دید بی ان دیت ا‬
‫ہے۔ اس کی وجہ جاننے کے لئے اس کے عہد کے ادبی منظر نامے کو دیکھنا ض روری ہے۔ کی ونکہ عظیم ادب و تنقی د‬
‫پہلے اپ نے عہ د س ے عہ دہ ب راہ ہ وتے ہیں۔ اور پھ ر زم ان کے قی د س ے آزاد ہ و ک ر کالس ک بن تے ہیں۔‬
‫کالم موزوں کو شاعری س مجھا جاتاتھ ا۔ اور خی ال و فک ر کی اہمیت‬
‫ارسطو کے عہد میں ایک بدعت عام تھی کہ محض ِ‬
‫نہ تھی یعنی اگر حکیم کا نسخہ بھی منظوم تھا تو اُسے شاعری گردانا جاتا تھا۔ اس ب دعت کے خالف ارس طو نے نہ ایت‬
‫سخت رویہ اختیار کیا۔ اور اپنے مخصوص استداللی انداز کو چھوڑ کر ج ذباتی ان داز اختی ار کی ا۔ دراص ل ارس طو وزن‬
‫اور موزونیت کے خالف نہیں لیکن ایسی شاعری کا بھی قائل نہیں جو صرف موزونیت کی حامل ہ و۔ اور اس میں کس ی‬
‫قسم کی سچائی کا انکشاف نہ ہو اور نہ ہی خیال و فکر موجود ہو۔ ارس طو کے اس بی ان ک و س یاق و س باق کے اس عہ د‬
‫میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ کیو نکہ عام صورت ح ال میں ارس طو نغمگی اور آھن گ ک ا اتن ا قائ ل ہے کہ بعض ن ثر‬
‫پ اروں ک و ش اعری مانت ا ہے ۔ لیکن اس م وزونیت ک و ث انوی اہمیت دیت ا ہے۔ اور لفظ وں کے ذریعے تنقی د کے مختل ف‬
‫طریقوں کو بنیادی اہمیت دیتا ہے۔ شاعر لفظوں کے ذریعے جو نقالی پیش کرتا ہے۔ وہ کسی کائناتی ص داقت اور علم کی‬
‫دری افت ک ا ب اعث ب نے تب ہی وہ ش اعر کہالی ا ج ائے گ ا۔ کی ونکہ ق اری ک و ف وری مس رت اس وقت مل تی ہے جب‬
‫شاعر ‪،‬شاعری کے ذریعے کائنات ‪ ،‬انسان یا خدا کے بارے میں سچائی کا انکشاف کرتا ہے۔ اس طرح شاعری کی بنی اد‬
‫رت ہے۔‬ ‫د مس‬ ‫ور ی مقص‬ ‫اف‬ ‫علم اور اس ک‬

‫طو‪:‬۔‬ ‫اعری میں المیہ اور ارس‬ ‫ش‬

‫ش اعری میں ارس طو نے الم یے پ ر س یر حاص ل بحث کی ہے الم یے کی تعری ف ک رتے ہ وئے وہ لکھ تے ہیں کہ ‪،‬‬
‫” المیہ ایک ایسے عمل کی تقلید کرتا ہے جو سنجیدہ اور مکمل ہو ایک خاص طوالت اور ضخامت کا حامل ہ و۔ اس کے‬
‫مختلف حصے زبان وبیان کے مختلف وسائل سے مزین ہ وں اس کی ہ یئت بی انیہ ہ ونے کے بج ائے ڈرام ائی ہ و اور یہ‬
‫و۔“‬ ‫وجب ہ‬ ‫ام‬ ‫ذکیے ک‬ ‫ذبات کے ت‬ ‫اعث ان ج‬ ‫اظر کے ب‬ ‫وف کے من‬ ‫رحم اور خ‬
‫المیہ ارسطو کے نزدیک ایسے اعمال و افعال اور حاالت و واقعات کی نقل ہے جس کی بنیاد دکھ درد پر ہے اس ل ئے یہ‬
‫خ ود بخ ود س نجیدہ ہے اس کے مکم ل ہ ونے س ے م راد یہ ہے کہ اس میں تین وح دتوں ک ا خی ال رکھ ا ج ائے۔‬

‫ط ‪٣‬۔ انتہا‬ ‫دائ ‪٢‬۔ وس‬ ‫‪١‬۔ ابت‬

‫ڈاکٹر جمیل جالبی اپنی تصنیف ”ارسطو سے ایلیٹ تک “ میں ارسطو کے المیے یا ٹریجڈی کی اہمیت یوں واضح کرتے‬
‫ہیں کہ ‪،‬‬
‫” ارسطو ٹریج ڈی ک و تم ام اص ناف ک ا کام ل نم ونہ س مجھتا ہے بلکہ ای ک جگہ وہ یہ اں ت ک کہہ دیت ا ہے کہ ج و کچھ‬
‫ا۔“‬ ‫رے گ‬ ‫ورا ات‬ ‫رپ‬ ‫ناف پ‬ ‫ب اص‬ ‫ا۔ وہ س‬ ‫ائے گ‬ ‫اج‬ ‫ارے میں کی‬ ‫ڈی کے ب‬ ‫ٹریج‬
‫المیہ ایک خاص طوالت و ضخامت کا حامل ہوتا ہے۔ نہ تو اس کو اتنا طویل ہونا چاہیے کہ قاری ک و پچھلے واقع ات ی اد‬
‫رکھنے کے لئے ذہن پر زور دینا پڑے اور نہ ہی اتنا مختصر ہو کہ قاری پر اپنا تاثر قائم کرنے میں ناک ام رہے اس کے‬
‫مختلف حصے یعنی ابتداءوسط اور انتہا زبان و بیان کے مختلف وسائل یعنی تش بیہ ‪ ،‬اس تعارہ اور غن ائیہ س ے م زین ہ و‬
‫یعنی جمالیاتی حظ کے لئے فن کا خاص اہتمام ہونا چاہیے۔ ارسطو کے نزدیک المیے کا فن ‪ ،‬فکری ڈھانچہ بی انیہ ہ ونے‬
‫کی بجائے ڈرامائی ہو ۔ یعنی حقیقت کا بیان سیدھے سادے طریقے کی بجائے ڈرامائی انداز میں ہو تاکہ ن اظر اور ق اری‬
‫میں تجسّس و جستجو کے جذبے کو ابھارا جا سکے ۔اور وہ یہ جاننے کے لئے بے چین ہو کہ آگے کی ا ہوگ ا۔ الم یے ک ا‬
‫قابل توجہ اور نہایت اہم ہے۔ جس میں ارسطو ”کتھارسس“ کا نظریہ پیش کرتا ہے۔ جس سے زائد جذبات کا‬
‫آخری حصہ ِ‬
‫انخالءہوتا ہے۔بعض ناقدین نے المیے میں خوف کے ج ذبے پ ر اع تراض کی ا ہے۔ کی ونکہ ان ک ا خی ال ہے کہ جب ت ک‬
‫کوئی خطرہ بنی نوع انسان کو براہ راست نہیں گھیر لیتا کوئی شخص بھی ب راہ راس ت خ وف محس وس نہیں کرت ا۔ لیکن‬
‫ا ہے۔‬ ‫وس کرت‬ ‫دردی محس‬ ‫ئے ہم‬ ‫ار کے ل‬ ‫ر فن ک‬ ‫ور پ‬ ‫ری ط‬ ‫اظر فط‬ ‫حقیقت یہ ہے کہ ن‬
‫افالطون کا خیال تھا کہ المیہ انسان کو بیم ار ک ر دیت ا ہے اور ان کی ذہ نی گھٹن ک و بڑھ ا دیت ا ہے۔ جب کہ ارس طو کے‬
‫ادی اہمیت ہے۔‬ ‫ا ہے اور اس کی یہی اف‬ ‫ائے عالج کرت‬ ‫رنے کی بج‬ ‫ار ک‬ ‫ک بیم‬ ‫نزدی‬
‫کیتھارسس کے سلسلے میں ایک اور بحث عام ہے کہ تظہیر نفس کی اہمیت نفس یاتی ہے ی ا اخالقی اس ل ئے یہ نہیں کہ ا‬
‫جا سکتا کہ کیتھارسس منفی ہے یا زائ د ج ذبات ک ا انخالء‪ ،‬چ اہے وہ کس ط رح بھی ہ و اگ رچہ ارس طو نے الم یے کے‬
‫ذریعے صرف دکھ درد کے جذبات کے انخالءکا ذکر کیا ہے لیکن ہم دیکھتے کہ یہ کام طربیہ ‪ ،‬غن ائیہ اور رزمیہ س ے‬
‫بھی انجام دیا جا سکتا ہے۔ المیے کے ذریعے صرف جذباتی گھٹن کو ہی نہیں کم کیا جس سکتا بلکہ یہ ہم ارے نگ اہ ک و‬
‫بھی بصیرت عطا کرتی ہے ہم تقدیر کے قائل ہونے لگتے ہیں۔ اور ہمیں اپنا آپ ہلکا لگنے لگت ا ہے۔ ج ذبات ک ا یہ ت ذکیہ‬
‫ا ہے۔‬ ‫و بڑھات‬ ‫تک‬ ‫ت برداش‬
‫و ِ‬ ‫ا ہے اور ان کی ق‬ ‫یع کرت‬ ‫و وس‬ ‫ات ک‬ ‫انی تجرب‬ ‫انس‬
‫”‪ “LESING‬کے مطابق ارسطو نے المیے میں خوف کا ذکر اس لئے کیا ہے کہ ن اظر یہ س مجھتا ہے کہ مص یبت میں‬
‫تے ہیں۔‬ ‫لے میں لکھ‬ ‫رف اس سلس‬ ‫ر ایم ایم اش‬ ‫کتا ہے۔ پروفیس‬ ‫وس‬ ‫ود بھی ہ‬ ‫خص وہ خ‬ ‫ار ش‬ ‫گرفت‬
‫” رحم ک و الم یے ک ا خصوص ی ج ذبہ ض رور کہ ا ج ا س کتا ہے خ وف کی حی ثیت ض منی ج ذبے کی ہے۔“‬
‫ارسطو کے نزدیک المیہ خالق اور ناظر دونوں کا تزکیہ کرتا ہے کیوں کہ جب کوئی خالق تخلیق پیش کرت ا ہے ت و اپ نی‬
‫تخلیق کے ذریعے اس کرب سے چھٹکارا حاصل کرت ا ہے۔ج و اس ے تخلی ق پ ر آم ادہ کرت ا ہے۔ اور ان کے ج ذبات کی‬
‫تظہیر بھی ہوتی ہے۔ جب ناظر یا قاری اس سے حظ اُٹھات ا ہے ت و اس کے ان در کی گھٹن کم ہ و ج اتی ہے۔ ارس طو کے‬
‫ا ہے۔‬ ‫ل ہوت‬ ‫ا حام‬ ‫رات ک‬ ‫د اث‬ ‫حت من‬ ‫ائے ص‬ ‫ار کے بج‬ ‫ا فش‬ ‫نی ی‬ ‫ک المیہ بے چی‬ ‫نزدی‬
‫ارس طو کے نزدی ک الم یے کے عناص ر ترکی بی چھ ہیں جس پ ر تفص یالً بحث کی ہے ج و کہ ذی ل ہیں۔‬

‫یلہ ‪٥‬۔نغمہ‬ ‫ان‪ ،‬وس‬ ‫ان و بی‬ ‫د ‪٤‬۔زب‬ ‫ی تقلی‬ ‫وع‪ ،‬معروض‬ ‫ا موض‬ ‫واد ی‬ ‫ری م‬ ‫ردار ‪٣‬۔فک‬ ‫‪١‬۔پالٹ ‪٢‬۔ک‬
‫‪٦‬۔منظر‬
‫ا ہے۔‬ ‫ادی اہمیت دیت‬ ‫و بنی‬ ‫طو پالٹ ک‬ ‫ب میں ارس‬ ‫ان س‬

‫ر میں‪:‬۔‬ ‫طو کی نظ‬ ‫پالٹ ارس‬

‫ارسطو کا خیا ل ہے کہ پالٹ ہی واقعات کی بناوٹ میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ پالٹ زندگی کے نمائند ہ واقع ات ک و آپس‬
‫میں اس طرح جوڑتا ہے کہ ہر واقعہ پہلے سے جڑا ہو نظرا ت ا ہے۔ اس ک ا منطقی ن تیجہ معل وم ہوت ا ہے۔ پالٹ واقع ات‬
‫کے تسلسل کو مدنظر رکھتا ہے اور پالٹ ہی کے ذریعے کہانی میں یکے بعد دیگرے واقعات کو بیان کیا ج ا س کتا ہے۔‬
‫ر ہے۔‬ ‫ادی عنص‬ ‫ا پہال اور بنی‬ ‫یے ک‬ ‫ا ہے۔ یہ الم‬ ‫انچہ ہوت‬ ‫رتب ڈھ‬ ‫ام‬ ‫ات ک‬ ‫پالٹ واقع‬
‫ڈاکٹر سجاد باقر رضوی ”مغرب کے تنقیدی اصول “ میں ارسطو کے نزدی ک پالٹ کی اہمیت ی وں بی ان ک رتے ہیں کہ‪،‬‬
‫” اس ( ارسطو( کی نظر میں پالٹ ‪ ،‬ڈرامائی اش خاص ک و ذاتی و ج ذباتی ص الحیتوں ( ک رداروں ) اور ان کے عقلی و‬
‫ل ہے۔“‬ ‫ا حام‬ ‫ادہ اہمیت ک‬ ‫ے زی‬ ‫وں میں س‬ ‫ال ) دون‬ ‫ات ( خی‬ ‫ری رجحان‬ ‫فک‬

‫ردار‪:‬۔‬ ‫ک‬

‫ارسطو المیے میں کرداروں کو بھی اہمیت دیتا ہے لیکن اس کا خیال ہے کہ کرداروں کی گفتگو چاہے کتنی ہی دلچسپ ‪،‬‬
‫منطقی اور مرتب کیوں نہ ہو وہ ایک پالٹ کی طرح کہ انی کی بنت نہیں ک ر س کتی ۔ چن انچہ اولین حی ثیت پالٹ ہی ک و‬
‫حاصل ہے۔ اور کردار تو محض پیش کرنے والے ہیں۔ کرداروں میں وہ ہیرو کے کردار کو اہمیت دیتا ہے اگر ہ یرو ک و‬
‫اپ نے دوس توں س ے مص ائب ملیں ت و المیہ مث الی بن جات ا ہے۔ اس سلس لے میں خ ود ارس طو ک ا کہن ا ہے کہ‪،‬‬
‫” سب سے زیادہ اہم خیز و صورت ہے جس میں اس ذریعے سے برے نتائج برآمد ہوں جس س ے اچھے نت ائج کی توق ع‬
‫وتی ہے۔“‬ ‫ہ‬

‫واد‪:‬۔‬ ‫ری م‬ ‫فک‬

‫المیے کا تیسرا اہم موضوع فکری مواد ہے جس میں معروضی تقلید سے کام لیا جاتا ہے موضوع کے بارے میں ارسطو‬
‫کا نظریہ یہ ہے کہ” وہ ایسی کہانی ہوتی ہے جس میں المناک صور ت حال دوستوں اور عزیزوں کے انجانے عمل سے‬
‫ے“‬ ‫اقی س‬ ‫ل اور نہ اتف‬ ‫منوں کے بال ارادہ عم‬ ‫ونہ کہ دش‬ ‫دا ہ‬ ‫پی‬

‫ان‪:‬۔‬ ‫ان و بی‬ ‫زب‬

‫ارسطو جمالیاتی قدروں ک ا قائ ل تھ ا۔ اس ل ئے وہ ش عری زب ان اور معم ولی ن ثر میں ف رق ک و اہمیت دیت ا ہے۔ کی وں کہ‬
‫تے ہیں۔‬ ‫طو لکھ‬ ‫داوار ہے۔ ارس‬ ‫تراعی ذہن کی پی‬ ‫درت اور اخ‬ ‫تعارہ ن‬ ‫اس‬
‫”مرکب الفاظ طربیہ اور غنائیہ کو مزین اسلوب کے لئے موزوں ہیں غیر موزوں الف اظ رزمیہ نظم وں کے ل ئے مناس ب‬
‫اہیے۔ “‬ ‫اچ‬ ‫تعمال ہون‬ ‫ا اس‬ ‫تعاروں ک‬ ‫ائی نظم میں اس‬ ‫ہیں ۔ ڈرام‬

‫نغمہ‪:‬۔‬

‫افالطوں کے برعکس ارسطو جمالیاتی اقدار کو برتنے پر زور دیتا ہے۔ اور المیے میں نغموں ک ا ذک ر کرت ا ہے کی ونکہ‬
‫نغموں کی موج ودگی س ے ت اثر میں اض افہ ہوت ا ہے۔ لیکن یہ نغمے خ ارجی نہ ہ وں بلکہ بنی ادی قص ہ میں ش امل ہ وں۔‬

‫ال‪:‬۔‬ ‫ا خی‬ ‫طو ک‬ ‫ارے میں ارس‬ ‫ر کے ب‬ ‫منظ‬

‫المیے کے چھٹے عنصر منظر کو وہ زیادہ اہمیت نہیں دیتا اس کے نزدیک لباس اور سٹیج کا فن الزمی ج ز نہیں و ہ اس‬
‫بارے میں یہاں تک کہتا ہے ” محض پڑھ کریا سن کر بغیر سٹیج پر پیش کئے المناک تاثرات پیش کئے جا سکتے ہیں۔ “‬
‫تنقید کا یہ انداز ارسطو جیسے سائنٹیفک فلسفی کے لئے غیر مناسب تھا۔ اصل میں ارسطو علم کے ایک معمولی جز کا‬

‫انتخاب کرتا ہے اور اس کے مطالعے اور تجزیے کے ذریعے کائنات کی اہم حقیقتوں تک پہنچتا ہے۔‬
‫دانتے اور ڈرائیڈن انسان کو فطرت سے ہم آہنگ دیکھن ا چاہت ا ہے اور وہی انس ان اس کے نزدی ک اچھ ا انس ان ہے ج و‬
‫فطرت سے جڑا ہوا ہو۔ شاعری کے مقصد کو بھی وہ اسی عمدہ انسان سے جوڑتا ہے اور شاعری کو ایسی ہی معی اری‬
‫انسانی زندگی کا عکاس قرار دیتا ہے۔ اسی ذیل میں وہ کہتا ہے فطری انسان کی زبان احساس سے بھرپور ہوتی ہے اور‬
‫فطری انسان مستقل اور مضبوط احساس کا حامل ہوتا ہے۔‬
‫دانتے اور ڈرائیڈن شعری زبان کے متعلق ع وامی لب و لہجہ ک ا قائ ل ہے اور کہت ا ہے ش اعری فط ری زب ان میں ہ ونی‬
‫چاہیے کیونکہ مخلص جذبات کی عکاسی فطری زبان میں ہی سب سے بہتر ہو سکتی ہے۔ اس بات کی ذی ل میں ہم پہلے‬
‫دانتے اور ڈرائیڈن کی بات کا اعادہ کرتے ہیں اور پھر افالطون کی بات کا تناظر بط ور نم ونہ کے پیش ک یے دی تے ہیں‬
‫کہ کس طرح ادب و شاعری کے لئے بنائے گئے قدما فالسفہ و ناقدین کے ادبی اص ول تسلس ل کے س اتھ تغ یر پ ذیر اور‬
‫اثر پذیر رہے ہیں۔ دانتے اور ڈرائیڈن شاعری کو ”شدید جذبات کا بے ساختہ اظہار“ کہتا ہے اور افالط ون ش اعری کے‬
‫حوالہ سے جب شاعرانہ جنون کی بات کرتا ہے تو اس کا مقصود یہاں جذبوں کو موضوع بنان ا ہے‪ ،‬دان تے اور ڈرائی ڈن‬
‫کا جذبات کی شدت کا اظہار ایک ط رح ک ا جہ اں جمالی اتی نظ ریے کے زی ر اث ر ہے وہیں یہ افالط ون کے نظ ریے ک ا‬
‫تسلسل بھی نظر آتا ہے۔‬
‫دان تے اور ڈرائی ڈن انس ان اور فط رت میں دوئی ق ائم نہیں کرت ا بلکہ انہیں الزم و مل زوم س مجھتا ہے‪ ،‬وہ کام ل انس ان‬
‫سمجھتا ہی اسی کو ہے جو جتنا زیادہ فطرت سے ہم آہنگ ہو گا۔ شاعر کے ذمہ وہ یہ کرتا ہے کہ شاعر‪ ،‬فطرت و انسان‬
‫کی ہم آہنگی کو لفظی پیکر اور تخیالتی تمثیل کے ذریعہ منکشف کرے۔ وہ شاعری کو محض جمالیاتی تس کین ک ا ذریعہ‬
‫نہیں سمجھتا بلکہ اسے کل علم کی روح جمال سمجھتا ہے‪ ،‬وہ قوت متخیلہ کو شاعری کی رنگ آمیزی کے ل ئے ن اگزیر‬
‫سمجھتا ہے۔‬
‫وہ شاعری کو اجتماعی زندگی میں اہم جانتا ہے اور کہت ا ہے کہ اس س ے ن وع انس ان علم و ج ذبے کے ب اہمی اش تراک‬
‫سے وسیع سطح پہ اپنے آپ کو متحد رکھتا ہے۔ زبان کے حوالہ سے وہ سالست ک ا قائ ل ہے کہ س ادہ زب ان ہی ش اعری‬
‫کے ظاہر و باطن میں حسن پیدا کر سکتی ہے۔ جہاں وہ شاعری کو علوم و فن ون کی روح لطی ف کہت ا ہے وہیں ش اعری‬
‫کو علم کا ذریعہ بھی خیال کرتا ہے۔ شاعری میں صداقت و اخالقی مقاصد کی بات بالترتیب خ الص ج ذبات اور انس انوں‬
‫کے مابین محبت‪ ،‬کے حوالہ سے کرتا ہے۔‬
‫شاعری میں اوزان و بحور کو وہ پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے اور کہتا ہے کہ اس س ے جمالی اتی ح ظ ک ا حص ول‬
‫ہوتا ہے۔ شاعری کو جذبہ کی بنیاد پر الزوال کہتا ہے اور تجربہ ص داقت کی بنی اد پ ر اس ے دوس روں لوگ وں اور عل وم‬
‫(فالسفہ اور سائنس ) س ے ممت از کرت ا ہے ج و کہ ش اعر نہیں ہیں۔ وہ ش اعری میں آرام دہ لمح وں کی ب ات ج ذبات کے‬
‫حوالہ سے کرتا ہے۔‬
‫(‪)Emotions recollected in tranquility‬‬
‫دانتے اور ڈرائیڈن فن کو تجربے کے حوالہ س ے ب ڑی اہمیت ک ا حام ل گردانت ا ہے‪ ،‬وہ فط رت ک و بھی اس تج ربے ک ا‬
‫حصہ بناتا ہے اور اسے وقیع درجہ دیتا ہے‪ ،‬آخری عمر میں تو وہ فن کاری کا بہت نام لیوا نظر آتا ہے‪ ،‬اسی حوالہ سے‬
‫اپنے ایک دوست کو بھی لکھتا ہے ‪:‬‬
‫”نظم گوئی عام تصورات سے بہت زیادہ فنی ریہرسل کا تقاضا کرتی ہے“‬
‫وہ کہتا ہے فطرت کو شاعر کی ذہنی کیفیت کا بھی حصہ بننا چاہیے تب جا کر وہ تجربہ کی بھ ٹی س ے گ زر ک ر ق در و‬
‫قیمت کا حامل ہو گا۔ وہ اپنی نظموں میں فطرت کے تجربے کو پیش کرتا ہے اور اس کی نظمیں فطرت کی عکاس نظ ر‬
‫آتی ہیں‪ ،‬نظموں میں وہ تجربے ک و فط رت کے س اتھ ہم آہن گ کرت ا نظ ر آت ا ہے وہ کہت ا ہے اس ط رح ہی تج ربے اور‬
‫فطرت کو ہم آہنگ کرنے سے الہیاتی کشف حاصل کیا جا سکتا ہے۔‬
‫دانتے اور ڈرائیڈن کہتا ہے شاعر اظہار کی سب سے اعلی صورت تب ہی پا سکتا ہے جب وہ احساس کے تجزیے س ے‬
‫آگاہ ہو اور وہ احساس اس نے فطرت پر غور و فکر کے ذریعے حاصل کیا ہو۔‬
‫دانتے اور ڈرائیڈن کہتا ہے شاعری کا کوئی نہ کوئی جواز ی ا مقص د ہون ا چ اہیے اور اس ک و ق اری پ ر اث رات س ے ہی‬
‫معلوم کیا جا سکتا ہے وہ کہتا ہے شاعری کے ذریعے شاعر کوئی اہم پیغام دے۔‬
‫” معیاری شاعر لوگوں کے احساس کو منظم کرتا ہے۔ انہیں نئے احساس ات س ے ب اخبر کرت ا ہے‪ ،‬احس اس ک و شائس تہ‪،‬‬
‫پاکیزہ اور مربوط و مضبوط بناتا ہے‪ ،‬اختص ار کے س اتھ یہ کہ ا ج ا س کتا ہے کہ وہ فط رت س ے جوڑت ا ہے‪ ،‬ہمیش گی‬
‫فطرت سے جس سے تمام اشیا کو جذبہ ملتا ہے“ ۔‬
‫دانتے اور ڈرائیڈن کے ہاں فطرت بھی دو طرح کی نظر آتی ہے ایک کو وہ خارجی فطرت کہتا ہے کہ یہ فط رت انس ان‬
‫کی ذہنی و جذباتی صالحیتوں پر اثرانداز ہوتی ہے اور اسے ایک خاص پیکر میں ڈھال دی تی ہے جبکہ دوس ری فط رت‬
‫کو وہ انسانی فطرت کہتا ہے کہ یہ فطرت انسانیت سے انسان کی قدروقیمت بڑھا دیتی ہے۔‬
‫جس طرح ہم پہلے لکھ آئے ہیں کہ دانتے اور ڈرائیڈن قوت متخیلہ کو شاعری کی رنگ آمیزی کے لئے ض روری خی ال‬
‫کرتا ہے‪ ،‬ہم اس کی تھوڑی مزید صراحت کریں گے کہ کیسے دانتے اور ڈرائیڈن اس ک و ض روری خی ال کرت ا ہے؟ وہ‬
‫متخیلہ کو داخلی شے سمجھتا ہے‪ ،‬اس کا متخیلہ کا تصور مع روض س ے ج ڑا نظ ر آت ا ہے تبھی ت و وہ یہ کہت ا ہے ج و‬
‫موضوعات عام زندگی سے لیے جاتے ہیں قوت متخیلہ کی بوقلمونی کی بنیاد پر وہ شعری موضوعات ک ا م رتبہ حاص ل‬
‫کر لیتے ہیں‪ ،‬اسی ذیل میں وہ یہ لکھتا ہے کہ‪:‬‬
‫” شاعری کا کام یہ ہے کہ وہ چیزوں کو اس طرح مستعمل نہ کرے جیسی وہ ہیں بلکہ جیسی وہ نظر آتی ہیں۔ اس ط رح‬
‫نہیں جیسے ان کا اصلی وجود ہے بلکہ اس طرح جیسے وہ احساسات اور جذبات کے روبرو خود کو پیش کرتی ہوں“ ۔‬
‫وہ متخیلہ کو بذات خود تخلیقی قوت سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ ج و فط رت کے مظ اہر کی ط رح چ یزوں ک و خل ق ک ر‬
‫سکتا ہے‪ ،‬اس کا خیال ہے کہ متخیلہ‪ ،‬تکثیریت کو اکائی میں بدل دیتا ہے‪ ،‬اس کے ساتھ ہی وہ اسے مرکز س ے المرک ز‬
‫میں تب دیل ک رنے والی ش ے بھی س مجھتا ہے۔ دان تے اور ڈرائی ڈن متخیلہ کے ب رعکس متص ورہ ک و بھی تخلیقی ش ے‬
‫سمجھتا ہے کہ یہ دونوں قوتیں ہی اشیا کو جمع کرتی ہیں اور ان میں ربط بھی قائم ک رتی ہیں۔ ہم دان تے اور ڈرائی ڈن کی‬
‫اس بات پر ہی اختتام کرتے ہیں کہ انسانی ذہن اور فطرت کے عمل کی مطابقت اور اس کو اعلی حسیاتی سطح پہ پیش‬
‫کش کرنے کی صالحیت شاعری میں مسرت کا حصول ممکن بناتی ہے۔‬

‫ایزرا پاؤنڈ (‪ )1972-1885‬امریکہ کے نقاد‪ ،‬شاعر اور پروپیگنڈہ کرنے والے احتجاجی اور مزاحمتی م زاج کے ادیب و‬
‫شاعر ہیں۔ جدیدیت کے رجحان کی تشکیل کی قلمی اور عملی قوتوں میں ان کی ‪ ‬نثر اور ش اعری نمای اں ط ور پ ر نظ ر‬
‫آتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ انہو ں نے اپنےدور کے سب سے زیادہ بااثر ادبا ‪ ،‬شعرا ا ور دانشوروں کے س اتھ رابطہ اس توار‬
‫کیا تھا ۔‬
‫” آزاد نظم ” کی شعری مشق نے شعری آفاق میں نئے نظام اشاریت کو ہی خلق نہیں کیا بلکہ اس کو شعری تج ربے گ اہ‬
‫میں بھی لے آئے۔ اور اس پر آزادانہ طور پر مباحث کی دعوت دی۔ اس نئے پن میں رس می ش عری اور فک ری تجرب ات‬
‫ہنری مندی اور جمالیات کی نئی خوشبویں پھیلی ہ وئی تھیں۔ جس ک و ” آون گ ارد ” ‪ avant garde /‬بھی کہ ا جات ا ہے۔‬
‫ایزرا پاؤنڈ نے جدیدیت کی جمالیاتی اور جدید معاشرتی حسیات کو اپنی تحریروں میں ف روغ دی ا اور انھ وں نے بیس ویں‬
‫صدی کے اوائل میں ‪  ‬برطانوی اور امریکی نوجوان لکھ نے وال وں کے درمی ان تخلیقی عم ل اور فک ر اور خی االت ک و‬
‫تقابلی انداز میں پیش کرتے ہوئے ” مبادلیاتی اور تجزیاتی” مب احث کے دروازے کھ ول دئ یے۔ جس میں ڈبلی و۔بی ایٹس‪،‬‬
‫رابرٹ فراست‪ ،‬ولیم جیمز ‪ ،‬کارلوس ‪ ،‬ماریانے مور‪ ،‬جیمز جوائس‪ ،‬ارنسٹ ہیمنگوے اور خاص طور پ ر ٹی۔ ایس ایلیٹ‬
‫شامل ہیں۔‬
‫ایزرا پاونڈ ‪ 30‬اکتوبر ‪ 1885‬میں امریکی ریاست اوہایو کے چھوٹے سے قصبے ” ہیلی میں پیدا ہوئے۔ ‪ 1889‬میں ان کا‬
‫خاندان فالڈلفیا کے ای ک ن واحی قص بے ” جنکش ن ٹ اون” منتق ل ہوگی ا۔ ہیملٹن ک الج اور پینس لوینیا یونیورس ٹی میں تعلیم‬
‫حاصل کی۔ جہاں سے انھوں نے ایم اے کی سند حاصل کی۔ یہاں ان کی مالقات شاعر ولیم کریوزولیمز سے ہوئی جو ان‬
‫کے ہی ہم مکتب تھے۔ اس کے بع د ای زرا پاون ڈ نے نیوی ارک کے ای ک ک الج کی راہ لی۔ یہیں ‪ ‬پ ر ان ک و پ رودانس کی‬
‫شاعری سے شغف پیدا ہوا۔ اور وہ تاحیات ان کی شاعری سے متاثر رہے۔ یونیورسٹی کی تعلیم سے فارغ ہونے کے بع د‬
‫انھوں نے ہسپانوی ڈرامے اور تھیٹر میں دلچسپی لینا شروع کی اور اس کا مطالعہ کیا اور ہسپانوی اور اطالوی ش اعری‬
‫کا بھی مطالعہ کیا۔ انہوں نے ہسپانوی ڈامہ نگار لوپ ڈی ویگا پر ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھنے ک ا ارادہ کی ا۔ لیکن اپ نے غ یر‬
‫رسمی اخالقی مزاج کے سبب انھیں اپنی مالزمت سے ہاتھ دھونا پڑا۔‬
‫‪ 1900‬میں وہ یورپ کے سفر پر روانہ ہوئے۔ کچھ عرصہ وہ اٹلی میں قیام پذیر رہے۔ جہاں وینس میں انھوں نے ‪1908‬‬
‫میں اپنی نظموں کی پہلی بیاض ” ‪ ”LUME SPENTO‬کو شائع کروایا۔ ‪ 1909‬میں ایزرا پاونڈ لندن چلے گ ئے۔ جہ ان‬
‫وہ ‪ 1920‬تک رہے۔ اسی دوران ان کی مالقات آئرلینڈ کے قوم پرست اور نوآبادیات شکن شاعر ڈبلیو بی ایٹس سے ہوئی۔‬
‫اور انھوں نے لندن میں ای ک ادبی حلقہ بنالی ا۔ جس میں ‪ ‬ٹی۔ ایس ایلٹ بھی ش امل تھے۔ جس کے م ربی اور رہنم ا ای زرا‬
‫پاونڈ ‪ ‬خود ہی تھے۔ وہ بنگال کے نوبل انعام یافتہ شاعر رابندرناتھ ٹیگور کے بڑے مداح تھے ۔ وہ ٹیگور کو نوبل انع ا م‬
‫دلوانے میں ییٹس کے ساتھ مل کر کوششیں کرتے رہے۔ لیکن بعد میں ٹیگور کو لوگوں نے پیغمبر بنا دیا ت و پون ڈ نے ان‬
‫کے ‪ ‬حامیوں سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ ” میں نے ٹیگور کو شاعر کے طور پر قبول کیا‬
‫تھا۔۔ مسیحا کے طور پر نہیں۔‬
‫” ‪1900‬میں ان کا دوسرا شعری مجموعہ ” ‪ ”PERSONAE‬شائع ہوا تھا۔ اس کے عالوہ انھوں نے تیرھویں صدی کے‬
‫اطالوی شاعر کیول کینٹی ‪ CAVAL CANTI /‬اور چی نی ش اعری کے ت رجمے اور تص رفات بھی ‪ 1912‬اور ‪1915‬‬
‫میں چھاپی۔ ‪ 1920‬میں ان کی معروف نظم “ ‪ ”HIGH SELWYN MAUBERLEY‬شائع ہوئی۔ اسی برس وہ پیرس‬
‫میں قیام پذیر ہوئے۔ اور ‪ 1924‬تک وہ دریائے سین کے بائیں کنارے پر سکونت پذیر رہے۔ جہ اں ام ریکہ اور دوس رے‬
‫ملکوں کے تارکین وطن لوگ وں کی ای ک ب ڑی تع داد رہ تی تھی۔ جن میں گرٹروڈاس ٹین کے عالوہ ہیمنگ وے اور جمیس‬
‫جوائس بھی تھے جن سے ایزرا پونڈ کی گہری دوستی تھی۔ ‪ 1924‬میں پھر وہ واپس اٹلی آئے ور پھ ر تقریب ا ً ‪ ‬بیس س ال‬
‫وہیں رہے۔ ” کینٹوز‪ ”CANTOS /‬کی پہلی قسط ‪ 1925‬میں چھپی۔ اور ‪ 1955‬ت ک اس کی متع دد قس طیں ش ائع ہ وئیں۔‬
‫کینٹوز کی آخری قسط “‪ ROCK. DRILL” 1955‬میں چھپی۔ ای زرا پون دڈ نے ہی وم کی روم انی ش اعری ک و مس ترد‬
‫کرتے ہوئے اس پر اپنے شدید ردعمل کا ظہار کیا۔ ان کا خیال تھا کی رومانی شاعری فرد کو المحدودیت کا اہ ل تص ور‬
‫کرتی ہے۔ اور یہ خطرناک رجحان ہے۔ اور یہ بھی کہا کہ رومانیت کے جذباتی اسلوب کے بجائے اب ایک نئے ش عری‬
‫محاورے کی ضرورت ہے۔ مگر وہ ہیوم کی اس شعری تحریک میں شامل تھے اور اس تحریک کو پیکریت‪ /‬تمثال پس ند‬
‫شاعری کہا۔ ہیوم اور پاونڈ کی نظر میں ” امیج” آرائش کازریعہ نہیں ‪ ‬بلکہ ایک گہری وردات کا ترجمان ہوتا ہے۔‬
‫ایزرا پونڈ کی شروع کی شاعری ‪ ‬پرپرسانس کی شعری روایت کا عمیق اثرات تھے۔ پونڈ کی شاعری قوت بیان اور ف نی‬
‫حسن و جمالیات سے خالی ہے۔ اور یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ ان کی ش اعری ک ا بیش تر حص ہ ہن وز تش ریح اور‬
‫تفہیم طلب ہے۔ مگر کینٹوز میں بھی جو ان کی سب سے مشکل ‪ ‬اور دقیق نظم ہے۔ اس میں قاری کو کچھ ایسے تراش ے‬
‫مل جاتے ہیں جن میں غزلیہ شاعری کا الزوال جم ال و حس ن اور لط افت بھی ہے۔ اس نظم میں ایس ے حص ے بھی ہیں‬
‫جس میں پونڈ کی بذلہ سنجی بھی دکھائی دیتی ہے۔ ان کی شاعری میں ایسے ‪ ‬مقامات بھی آتے ہیں جن میں تلمیح ات ک و‬
‫سمجھے بغیر ان سے لطف و انبس اط ملت ا ہے۔ مثال ً ان کی نظم “‪ ”DANCE FIGURE‬س ے لط ف ان دوز ہ ونے کے‬
‫لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ قاری کو” گلیلی” شادی کے بارے میں آگاہی ہو۔ جس میں حضرت عیس ی { علیہ} ش ریک‬
‫ڑا دیکھیں ‪:‬‬ ‫ا یہ ٹک‬ ‫ڈ کی اس نظم ک‬ ‫زرا پون‬ ‫وئے تھے۔ا ی‬ ‫ہ‬
‫وں والی‪،‬‬ ‫الی آنکھ‬ ‫۔۔۔ اے ک‬
‫ینہ‬ ‫واب کی حس‬ ‫یرے خ‬ ‫م‬
‫یم تن‪،‬‬ ‫س‬
‫رقاصاوں میں تجھ سا کوئی نہیں‬
‫ایزرا پونڈ ڈبلیو بی یٹس سے بہت قریب رہے۔ مگر ان دنوں کی دلچسپیاں مختلف تھیں۔ مگر ان دونوں نے ایک دوس رے‬
‫کے اثرات قبول کئے۔ ہیٹس باطنی علوم اور قدیم دانش اور متصوفانہ روی وں ک و پس ند ک رتے تھے۔ جب کہ پون ڈ نے ان‬
‫علوم و فکریات سے دلچسپی کا کبھی اظہار نہیں کیا۔ مگ ر ان کے کینٹ وز ک و پ ڑھ ک ر یہ احس اس ہوت ا ہے کہ یٹس کے‬
‫دلچسپی کے موضوعات سے اس نے براہ راست فائدہ اٹھایا۔ ۔ اس سلسلے میں پونڈ ک ا کہن ا ہے” ییٹس س ے میں نے ج و‬
‫اصل بات سیکھی وہ یہ تھی کہ شاعر پر ایسا وقت بھی آتا ہے۔ جب وہ فاونٹین کا قافیہ ماونٹین باندھتے ہیں۔‬
‫اٹلی میں قیام کے دوران معیشت اور معاشی تاریخ میں پونڈ کی دلچسپیوں میں اضافہ ہوا‪ ،‬انھوں نےمیج ر س ی ایچ ڈگلس‬
‫{‪}Major C.H. Douglas‬جو” معاشرتی کریڈٹ” {‪} ,Social Credit‬کے بانی تھے۔ ڈگلس‪،‬نے ایک معاشی اصول‬
‫مرتب کیا کہ دولت کی کمزور اور غیر منصفانہ تقسیم حکومتوں ‪ ‬کی ناکافی اور کمزور حکمت عملیوں کے س بب ہ وئی‬
‫ہیں۔ پاؤن ڈ بین االق وامی بینک وں کی ناانص افیوں ک و معاش رتی برائی وں کی ج ڑ تص ور ک رتے تھے۔ ‪ ،‬جن کی من م انی‬
‫حکمت عملیوں کی وجہ سے پیسہ کی جنگ اور تنازعات جنم لیتے ہیں اور ممالک کے درمیاں جنگیں بھی ہوتی ہیں۔‪.‬‬
‫اس معاملے میں پاونڈ نے اطالوی آمر‪ ،‬بینوٹو میسو لینی کے نظریات کو لبیّ ک کہ ا۔ ‪ 1939 .‬میں‪ ،‬پائون ڈ نے امی د ظ اہر‬
‫کی تھی ان کا خیال تھا کہ اگر ان کے تصورات سے مد د لی جائے تو ممالک جنگ س ے اور اس کی تب اہ ک اریوں س ے‬
‫بچ سکتے ہیں۔ کے اور ایزرا پاونڈ نے میسولینی کے نظریات کے تحت اس بات ک ا دع وی کی ا کہ یہودی وں کے بینک وں‬
‫کے ذریعے امریکی کو پہلی جنگ عظیم میں ال پھینکا گیا۔‬
‫ایزرا پاونڈ نے اقتصادی مسائل اور دولت کی ہیت اور تقسیم دولت کے کچھ پمفلٹ لکھے۔ ان کا خی ال تھ ا کی رزمیہ نظم‬
‫میں تاریخ ‪ ‬کا عمل دخل ہوتا ہے اور تاریخ کو معاشی نظریات کے بغیر سمجھا نہیں جاس کتا۔ اس وقت ام ریکہ نظ ام زر‬
‫کی نمائندہ قوت کے طور پر ابھر رہا تھا۔ پاونڈ نے امریکی معیش ت س ے ہمیش ہ نف رت کی اور انک ا ذہن فس طائیوں کے‬
‫قریب ہوگیا۔ اور فسطائی نظریات میں ان کی دلچسپی بڑھ گئی ۔ وہ مسولینی پرامریکی صدر کو فوقیت دیتے تھے۔ ان ک ا‬
‫خیال تھا کی مولیس نی اور ای ڈولف ہٹل ر کنفیوش یس کی تعلیم ات اور نظری ات س ے مت اثر تھے۔ اس ل یے وہ ام ریکہ کے‬
‫اللچی یہودیوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر ہیں۔ ان کا کہنا تھا ان رہنماوں کی ناکامی یہی تھی وہ کنفیوش یس کے نظری ات‬
‫کومکمل طور پ ر س مجھ نہیں پ ائے۔ اور اس ک ا ‪ ‬مل ک میں اطالق نہیں کرس کے۔ پون ڈ کی غ یر مقب ولیت کی ای ک وجہ‬
‫سرمایہ داریت کے خالف ان کی شدید اور جارحانہ تضحیک اور مخ الفت ہے۔ ح االنکہ مس ولینی کی ام ریت کے ح امی‬
‫تھے۔ جو سرمایہ داریت کی انتہائی شکل ہے۔ یہ غیر معمولی تضاد ہے۔ جو پاونڈ کے خیالی تصور ” معاش رتی ق رض”‬
‫( ‪ )SOCIAL CREDIT‬کو بے معنی بنادیتی ہے۔ وہ جدید سرمایہ داری کو مغربی تہذیب کی م وت کہ تے ہیں۔ ان کی‬
‫منطق سے قطع نظر یہ نظریہ مغرب کے سرمایہ دار ملکوں خصوصا امریکہ اور انگلستان میں نہایت ناپس ندیدگی س ے‬
‫مسترد کیا۔ کیونکہ ان ممالک کے معاشروں کی بنیاد سرمایہ کاری پ ر ہی ہے۔ ‪ 1921‬میں ‪ ‬انھ وں نے اط الوی ری ڈیو پ ر‬
‫ام ریکی پالیس یوں ‪ ‬کے خالف تق اریر کیں۔ دوس ری جن گ عظیم کے دوران پاون ڈ نے روم ری ڈیو س ے ہف تے میں دو‬
‫بارتقاریر کرتے تھے۔ اپنی تقریروں میں انھوں نے امریکی عوام کو خبردار کیا کہ وہ ایک بڑی سازش کا شکار ہ ورہے‬
‫ہیں۔ وہ ایک ایسا نظام قبول کررہے ہیں۔ جو انسانیت کے لیے مہلک ثابت ہوگا۔ انھوں نے کہا امریکی عوام اص ل حق ائق‬
‫سے بے خبر ہے۔ اس لیے امریکی اخبارات اور نشر وابالغ کی حکمت عملیاں پالیسیاں صنعت کاروں اور اشتہار دی نے‬
‫والی کمپنیوں کی مرضی سے طے ہوتی ہیں۔ مگر وہ کہ تے تھے میں نے جن گ کے ب ارے میں کچھ نہیں کہ ا۔ میں نے‬
‫صرف نظام کی مخالفت کی تھی جو جنگیں پیدا کرتا ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہ تقریریں اقتصادیات اور تاریخ کے بارے میں مخصوص نظریات کی بنیاد پر کی تھیں۔ اور‬
‫کبھی کوئی جرمن یا اطالوی افسر اسے حکم دینے کی ہمت نہیں کرسکا۔ پاونڈ ک و رجعت پس ند ش اعر بھی کہ ا جات ا ہے۔‬
‫اب ”‬ ‫ونے والی کت‬ ‫ائع ہ‬ ‫‪ 1935‬میں ش‬
‫‪ ”JAFEERSON AND/ OR MUSSOLINI‬کو پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے وہ میسولینی کا بڑا حامی اور مداح تھا۔‬
‫ان کی ری ڈیو کی ام ریکہ ش کن تق اریر پ ر ام ریکی اسٹمبلش منٹ ک ا ش دید ردعم ل س امنے آی ا۔ ‪ 1942‬میں ان کی ع دم‬
‫موج ودگی میں ان پ ر غ داری اور مل ک دش منی کے ج رم میں م وت کی س زا س نائی گ ئی۔ ‪ 1948‬میں وہ میس ولینی کی‬
‫شکست کے بعد گرفتار کرکے امریکہ الیا گی ا۔ جہ اں ان ک ا طبّی مع ائنہ ک رکے ٰ‬
‫انھیں پاگ ل ق رار دے ک ر واش نگٹن کے‬
‫سینٹ الزبتھ ہسپتال میں نظر بند کردیا گیا۔ جہاں انھوں نے تیرہ سال بسر ک ئے۔ رہ ائی کے بع د وہ اٹلی چلے گ ئے۔ وہ اں‬
‫انھوں نے ایک صحیفہ نگار سے کہا ” امریکہ ایک بہت بڑا پاگل خانہ ہے ” ‪ ،‬ایزرا پاون ڈ نے فس طائی ان داز میں س الم‬
‫بھی پیش کیا۔ اور کہا کہ وہ یہاں کی مٹی کو چومنا چاہتا ہے۔ لیکن یہاں مجھے ہ ر ط رف س مینٹ ک ا ف رش نظ ر آت ا ہے‬
‫مجھے کسی چراگاہ یا گھاس کےمیدان میں لے جاؤ۔‬

‫نثری ‪ ‬اصناف میں ‪ ‬ناول ایک اہم ترین صنف ہے۔مختلف ناق دین نے ن اول کے ح والے س ے اپ نی مختل ف رائیں پیش کی‬
‫ہیں۔ اٹھارویں صدی ‪ ‬میں کالراریو(‪)Clara Reeve‬نے اپنی کتاب "‪Progress of Romance"۱۷۸۵‬ء) میں لکھا‪:‬‬
‫"‪".The novel is a picture of real life and manners, and of time in which it is written‬‬
‫اور اس کے ایک صدی بعد ہنری جیمز نے ‪۱۸۸۴‬ء میں اپنے مشہور مقالے ’’فکشن کافن‘‘ میں یہ رائے دی‪:‬‬
‫’’ناول کی وسیع ترین تعریف یہ ہے کہ وہ زندگی کا ذاتی اور براہ راست تاثر پیش کرتا ہے۔ یہی بات اس کی قدر وقیمت‬
‫مقرر کرتی ہے۔ اگریہ تاثر پوری شدت سے بیان ہو گیاتو ناول کام یاب ہے اور اگر کمزور رہا تو اسی اعتبار س ے ن اول‬
‫کم زور اور ناکامیاب ہو گا۔‬
‫اور بیسویں صدی میں ڈی ایچ الرنس نے بھی اسی سے ملتی جلتی رائے دی‪:‬‬
‫’’ناول کا فریضہ یہ ہے کہ انسان اور اس کے گردو پیش میں پائی ج انے والی کائن ات کے م ابین ج و رب ط موج ود ہے‪،‬‬
‫اس کا ایک زندہ لمحے میں انکشاف کرے"۔‬
‫ناول کے دیگر مغربی نقادوں لباک‪ ،‬ای ایم فاسٹر‪ ،‬ہیری لیون‪ ،‬فرینک کرموڈ‪ ،‬آرسٹیگ آئن واٹ اور رینے ویلک وغ یرہ‬
‫نے بھی اسی قسم کی ‪ ‬تعریفیں پیش کی ہیں۔ ان ناقدین کے ‪ ‬تعریفوں کا خالصہ یہ ہے کہ ن اول ‪ ‬ہم اری حقیقی زن دگی ک ا‬
‫ترجمان ہوتاہے۔ جو تجربات‪ ،‬سانحات اور واقعات ہمیں روز مرہ زن دگی میں پیش آتے ہیں‪  ،‬ن اول ‪ ‬انھیں بی ان کرت ا ہے۔‬
‫یوں ہم ناول کے ذریعے اپنی گزری اور گزررہی زندگی کی باز آفرینی کرتے ہیں کیونکہ ناول ہمارے ماض ی اور ح ال‬
‫کا آئنہ ہوتا ہے۔‬
‫ناول کی تنقید کے ابتدائی نقوش یونانی تنقی د میں مل تے ہیں۔ افالط ون نے ’جمہ وریہ ‘‘میں نق ل نگ اری (‪)Mimesis‬اور‬
‫واقعہ نگاری(‪)Digesis‬کی اصطالحات استعمال کی ہیں۔ افالطون نقل سے مراد ایسا بیانیہ لیت ا ہے ج و کس ی واقعے کی‬
‫ٹھیک ٹھیک نمایندگی یا نقل کرے۔ ’’نقل‘‘پڑھتے ہوئے ہم ارا دھی ان نہ ص رف واقعے پ ر براب ر مرک وز رہے بلکہ اس‬
‫کے حقیقی ہ ونے ک ا ت اثر بھی ملے۔ دوس رے لفظ وں میں ’’نق ل‘‘ ای ک قس م کی حقیقت نگ اری ہے‪ ،‬جب کہ ’’واقعہ‬
‫نگاری‘‘ ایک ایسے بیانیہ کا مفہوم لیے ہوئے ہے جو اپنے تخیلی اور تشکیلی ہونے کا تاثر دے اور اسے پڑھتے ہ وئے‬
‫قاری کی توجہ بیانیے کی اپنی جداگا نہ کائنات پر مرکوز رہے۔‬
‫ہم َکہ سکتے ہیں کہ ’’نقل‘ ناول کو زندگی کے خارجی ‪،‬مانوس اور روز مرہ تجربات سے مرب وط ک رتی ہے اور واقعہ‬
‫نگاری بیانئے کے خود مختار ‪ ،‬خود کفیل اور خود اپنے شعریاتی ضوابط کے تابع ہونے کا مفہ وم ‪ ‬دیت ا ہے۔ نق ل ‪،‬واقعہ‬
‫ہے اور واقعہ نگاری‪ ،‬بیان واقعہ۔ نیز یہ دو اصطالحیں دو زاویہ ہائے نظر بھی ہیں جو ‪ ‬ناول ک و زن دگی کی نظ ر س ے‬
‫اور ‪ ‬ناول کو خود ‪ ‬ناول کی نظر سے دیکھنے سے عبارت ہیں۔ ایک ‪ ‬ناول کے اصول ‪ ‬ناول سے ب اہر زن دگی میں تالش‬
‫کرتا ہے اور دوسرا زاویہ نگاہ ناول ‪ ‬کے اصولوں کو خود ‪ ‬ناول کے اندر دریافت کرتا ہے۔ ۔‬
‫ان ‪ ‬تفصیالت کی روشنی میں اس مق الے میں ان س والوں پرب اختن کے نظ ریہ ‪ ‬اص نافکا تفص یلی ج ائزہ پیش ک رنے کی‬
‫کوشش کی گئ ہے۔‬
‫روسی ماہر لسانیات اور نقاد میخائل ‪ ‬باختن ‪   ‬کا خیال ہے کہ ‪ ‬روز اوّل س ے ‪ ‬ادبی تنقی د نے ان س والوں ک و الجھای ا ہے۔‬
‫اور ایک طویل عرصے تک ‪ ‬ناول کی تنقید میں مائی می سس کا زاویہ نظر حاوی رہا اور ناول ک و زن دگی اور اس کے‬
‫تجربات و مسائل کی ترجمانی کے ح والے س ے س مجھنے اور ج انچنے ک ا میالن غ الب رہ ا اور اب ڈائی جی س س کے‬
‫زوایہ نظر نے اپنی موزونیت کو باور کرای ا ہے اور ن اول ‪ ‬کی ش عریات اور اس کی رس میات و ض وابط کودری افت اور‬
‫طے کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‬
‫روسی ہیئت پسندی اور ساختیات سے قبل فکشن کی تنقید میں یہ بات عقیدے کا درجہ رکھتی تھی کہ فکشن (بالخص وص‬
‫ناول اور افسانے)کا زندگی سے گہرا ‪،‬اٹوٹ رشتہ ہے اور فکشن کا زندگی کے بغ یر اور زن دگی س ے ال گ تص ور بھی‬
‫نہیں کیا جا سکتا۔ مثالً افسانوی تنقید نے بیسویں صدی کے اوائل تک یہ موقف اختیار کیے رکھا ہے ۔‬
‫‪ ‬بالفاظ دیگر ‪ ‬روایتی تنقید نے ‪  ‬ناول کے تجزیہ میں مواد یا موضوع (یعنی نظ ریے )ک و ‪ ‬ف ارم س ے ہمیش ہ ال گ تھل گ‬
‫رکھا ‪ ‬ہے‪  .‬لیکن حقیقت یہ ہے کہ خیاالت کا ‪ ‬زبان کے ‪ ‬بغیر کوئی وجود نہیں ہے ۔ اس ضمن میں باختن کا خیال ہے کہ‬
‫فارم اور مواد کے درمیان خط فاصل نہیں کھینچا ج ا س کتا ۔ ‪ ‬اس کی مزی د وض احت کے ل یے وہ ن اول اور بالخص وص‬
‫دوستوواسکی کی ناول ‪ ‬پر توجہ مرکوز ‪ ‬کرتا ہے ‪ .‬اس ‪ ‬کا خیال ہے کہ ‪ ‬فارم نظری اتی ہوت ا ہے ‪ ‬لیکن ک وئ بھی نظ ریہ‬
‫کسی فارم کے بغیر ممکن نہبں۔ یہی وجہ ہے کہ باختن ‪ ‬سماجی اسلوبیات ‪    stylistics ‬کی پیروی کرتا ہے۔کیونکہ اس‬
‫کی نظر میں نشان ‪ (    ‬سائن ) ایک مستحکم اکائ نہیں ہے۔بلکہ یہ ‪ ‬ایک خاص سماجی سیاق میں اپنی تعبیر پاتا ہے۔ یہی‬
‫وجہ ہے کہ باختن ناول کو بھی سیاسی سماجی اقتصادی نظامات کے ساتھ مختص کر کے دیکھتا ہے۔‬
‫اس کا خیال ہے کہ ‪ ‬ناول ایک واحد ‪ ،‬متحدہ ‪ ‬فارم پر مشتمل نہیں ہوتا ‪ ‬ہے۔ یعنی ناول ایک ایسی ص نف ہے جس میں کئ‬
‫اصناف کے فارم پوشیدہ ہوتے ہیں جسےوہ اپنے مخصوص لہجے میں" ‪"several heterogeneous stylistic unities‬‬
‫‪ ،‬کہتا ہے مزید یہ کہ اس کی نظر میں ‪ ‬اس ‪ ‬ش اعری کے ب ر عکس ج و ی ک آوازی اور ی ک رو منط ق کی حام ل ہ وتی‬
‫ہے‪ ،‬ناول کثیر االصواتی یعنی ‪ Hetroglot ‬ہوتا ہے۔ اور ناول کا کثیراالصواتی ڈسکورس ناول کو کثیر فکری بناتا ہے۔‬
‫ناول کے کثیراالصواتی لہجے کے لیے باختن نے بعض جگہوں پر ذو آوازی یعنی ‪  Polyphonic‬ی ا ‪  Dialogic  ‬کی‬
‫اصطالح بھی استعمال کی ہے۔ ‪ ‬ناول ایک پھیلی ہوئی بڑی تصویر ہے جس میں ایک مقررہ پالٹ کو واض ح ک رنے کے‬
‫لیے زندگی کے کردار مختلف جماعتوں کے ساتھ مختل ف پہل وؤں س ے دکھ ائے ج اتے ہیں‘‘ گوی ا ‪ ‬اس کی نظ ر میں یہ‬
‫صنف شاعری کی طرح ‪  monological ‬نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں کثیر اظہاریت ک ا عم ل ک ارفرمہ ہوت ا ہے جس کے‬
‫سبب ناول میں مستعمل آواز مصنف تک محدود نہیں ہوتی۔ اپنی اس تحریر میں باختن نے جن تین نمایاں آوازوں ک ا ذک ر‬
‫کیا ہے ان میں پہلی آواز ‪   ‬‬
‫• مصنف کی اپنی آواز ہے۔ یہ آواز ‪ ‬نام نہاد لیکن ‪ ‬براہ راست ‪  ‬مصنفی مداخلتوں یعنی ‪interventions    authorial   ‬‬
‫کی آواز ہے‬
‫• راوی کی آواز ( راوی کی آواز عام طور پر ایک مخصوص ادبی سٹائل یا کنونشن کی آواز ہوتی ہے )؛‬
‫• مختلف ‪ ‬کردار کی آوازیں ( کردار کی آوازعام طور نیم ادبی انداز میں پیش کردہ آواز ہوتی ہے)۔‬
‫دوس رے الف اظ میں‪ ،‬مص نف کی آواز ن اول کی کثیراالص واتی آوازوں میں س ے ‪ ‬محض ای ک آواز ‪ ‬ہے۔ ‪              .‬‬
‫‪   Bakhtin‬کے لئے‪ ،‬یہ آواز وسیع تر طبقے کی آوازوں سے کم حیثیت رکھتی ہے۔ وسیع تر طبقے کی آواز کسی خاص‬
‫طبقے کی نظریاتی نقطہ نظر کی نمائندگی کرتی ہے اور کثیراالص واتی ‪ ‬آواز‪  heteroglossia‬کی وجہ بن تی ہے۔ کث یر‬
‫االصواتی متن میں ہر آواز کی اپنی ایک قیمت ہوتی ہے۔ ‪ ‬ہیٹرو گلوسیا کی اصطالح درون لسانی تکثیریت کی طرف بھی‬
‫اشارہ کرتی ہے۔ جو بعض اوق ات اس لوبیاتی تن وع کی وجہ بن تی ہے۔ اور ن اول میں داخ ل ہ ونے والی آوازوں مین کث یر‬
‫جہتی پیدا کرتی ہے۔ ‪ ‬ن اول ک ا ‪ ‬مرک ز گری ز بکھ راؤ ‪    )centrifugal Dispersion (  ‬ن اول میں ‪dialogisation " ‬‬
‫"ذوص وتیت تش کیل دیت ا ‪ ‬ہے ‪ ‬اور تحری ری عالیم و اص طالحات کی نش و و نم ا پ ر بھی اث ر ڈالت ا ہے۔ اس ط رح ن اول‬
‫رمزیاتی یامجازیاتی (‪ )Allegorical‬اور خیالی تحریروں کو پیش کرتا ہے‬
‫چونکہ ناول کا مزاج کثیراالصواتی ہے لہذا ناول کی تنقید کو یکساں طور پر فارمالسٹ اور سماجی ہونا چاہیے۔ باختن کا‬
‫خی ال ہے کہ چ ونکہ ن اول کے ڈس کورس میں س ماجی تکث یریت ش امل ہ وتی ہے لہ ذا ن اول کے ڈس کورس ک و بخ وبی‬
‫سمجھنے کے لیے ناول کے سماجی سیاق کو سمجھنا ض روری ہے۔ کی ونکہ اس ی س ماجی س یاق کے زی ر اث ر ن اول ک ا‬
‫لسانی مزاج متشکل ہوتا ہے۔ اور ‪ ‬فارم اور مواد کا تعین کرتا ہے‬
‫وہ مانتا ہے کہ شاعری‪ ،‬وحدانی اور‪  monologic‬ہوتی ہے کیونکہ اس کے ذریعے شاعر اپنے ارادے کا " خالص اور‬
‫براہ راست اظہار کرتا ‪ ‬ہے " مزید یہ کہ شاعری میں کثیراالصواتی کیفیت نہیں مل تی۔ اس کے الف اظ میں غن ائ ش اعری‬
‫‪  .neither multiform in style nor variform in voice‬ہوتی ہے۔‬
‫اس کے برعکس‪  ،‬وہ یہ بھی مانتا ہے کہ کثیراالصواتی یعنی‪  heteroglossia‬نثری اصناف مثال ناول اور ‪ ‬افس انے کی‬
‫غالب خصوصیت ہے۔ مزید وضاجت کے لیے وہ کہتا ہے کہ ‪ ‬تنقید کے روایتی ‪ ‬طریقہ کار ‪ ‬شاعری کی تشریح پر مب نی‬
‫ہیں‪ .‬نتیجتا ‪ ،‬وہ اکثر نظری اتی‪monologism‬اور ش اعری کے اس لوبیاتی اتح اد کے مق ابلے میں ن اول کے نظری اتی اور‬
‫اسلوبیاتی تنوع کو کم کر کے آنکتے ہیں‬
‫مؤخر الذکر‪heteroglossia‬کی حقیقت کو نظر انداز ‪ ‬کرنے کی وجہ سے ناول کا مطالعہ تنقید کے ‪ ‬موج ودہ ف ریم ورک‬
‫میں فٹ ‪ ‬نہیں ہوتا ہے۔‪ .‬اس نقطہ نظر سے‪ ،‬ن اول س میت ک وئ بھی ‪   ‬ن ثری اظہ ار "ای ک س ماجی ط ور پ ر مخص وص‬
‫ماحول میں اور ‪ ‬مخصوص تاریخی لمحے میں " ‪ ‬شکل لیتا ہے اور ‪ " ‬سماجی مکالمے میں شریک ہوت ا ہے۔ ‪ ‬ب اختن کے‬
‫خیال میں‪ ،‬زبان بنیادی طور پر ذو آوازی ہے کیونکہ اس میں مختلف النوع آوازوں کو شریک کرنے کی صالحیت ہ وتی‬
‫ہے۔ اور یہ صرف غالب آواز یا غالب نقطہ نظر کے اظہار کا ذریعہ ‪ ‬نہیں بنتی ‪ ‬ہے۔‬
‫یہ تصور کہ ناول ‪ ‬شاعری کی طرح‪ ،‬یک آوازی اظہار یعنی ‪ monological utterance ‬ہے ‪ ‬ایک عرص ے ت ک ادبی‬
‫تنقید میں غالب رہا ہے کی ونکہ یہ تص وّر ت اریخی اعتب ار س ے اس فک ر کی نمائن دگی کرت ا ہے ج و اقتص ادی‪ ،‬سیاس ی‪،‬‬
‫سماجی‪ ،‬اور ثقافتی مرکزیت کا قائل ہے‪ ،‬باختن ‪ ‬کا خیال ہے کہ ‪ ‬اسی وجہ سے ‪ ‬انیسویں صدی تک ‪ ، ‬شاعری کا ص نف‬
‫سب سے زیادہ بورژوائ دلچسپی کا سامان تھا۔ ‪ ‬اور اس دور کا ادبی سٹائل بن گیا تھا ۔‬
‫گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ ادبی تنقید نے عام طور پر ای ک ‪ ‬طوی ل ‪ ‬عرص ے ت ک زب ان کے ذو آوازی لہجے اور ن اول‬
‫کے کثیراالصواتی انداز کو نظر انداز کیا ہے‪ .‬زبان کے کثیر لسانی لہجے سے ن اواقفیت کی وجہ س ے ناق دین نے ن اول‬
‫جیسے ان تمام اصناف ‪ ‬کو نظر انداز کیا جو ‪ ‬نظریاتی سطح پر ان ‪ ‬رجحانات کے ‪ ‬پیروک ار تھے ج و مرک ز گری ز یع نی‬
‫‪ CENTRIPETAL‬قدروں کے حامل تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ غنائ ش اعری ک ا م زاج ی ورپ کے ب ور‍‌ژوائ س وچ‬
‫سے مطابقت رکھتا تھا۔ جو یورپ کے تہ ذیبی اور ثق افتی ‪ ‬وح دت ک ا قائ ل تھ ا۔ ‪ ‬اس ط رح ‪ ‬ش اعری میں ہمیں ب ورژوائ‬
‫شعور کی صورت گری ‪ ‬ملتی ہے ۔کیونکہ اس دور میں ‪ ‬شاعری ب ڑی ح د ت ک ج اگیردارانہ سرپرس تی کی مرہ ون منت‬
‫تھی لیکن ‪ ‬جاگیردانہ نظام ‪ ‬کے خاتمے کے بعد متوس ط طبقے کی ت رقی کی وجہ س ے ای ک پ یراڈائم ش فٹ کی ص ورت‬
‫نظر آتی ہے جس کی وجہ سے ‪ ‬ناول کا صنف ‪  ‬لوک بیانیہ کے عوامی تہذیبی روایت کے ‪ ‬زیر اثر ظہور پ ذیر ہوت ا ہے‬
‫اور میلوں ٹھیلوں کے کارنیول روائتوں سے ہوتا ہوا یونانی رومان پاروں تک پہنچت ا ہے۔ ‪ ‬ب اختن ک ارنیول روائت وں اور‬
‫یونانی رومان پاروں کی مثالوں سے یہ واض ح کرت ا ہے کہ ان اص ناف ک و ذو آوازی ی ا ‪ ‬ڈائ لوج ک ہون ا ‪ ‬ای ک منطقی‬
‫عمل تھا کیونکہ ان کے پالٹ کا جاۓ وقوع مختلف جغرافیائ حدوں میں پھیال ہوتا ہے۔ ‪ ‬ان اص ناف ‪ ‬کے پالٹ کے جاۓ‬
‫وقوع کی وسعت انھیں ذو آوازی یا ‪ ‬ڈائ لوجک بناتی ہے۔‬
‫ان تفصیالت کی روشنی میں‪ ،‬اس ‪ ‬بات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ ‪ ‬ن اول کے کث یر االص واتی ‪heteroglot ‬ن وعیت پر‬
‫‪Bakhtin‬کے خیاالت حقیقت پسندی کے انسان دوستی اور مارکسی ‪ ‬تصورات کا تنقید پیش کرتے ہیں‬
‫ناول کا ‪ mimetic‬ماڈل ناول کے متعلق ‪Georg Lukács‬کے نقطہ نظر ‪ ‬کو پیش کرتا ہے‪  Bakhtin‬کا دع وی ہے ‪ ‬کہ‬
‫شاعری اس حقیقت کو بھول جاتی ہے کہ تخلیقی مواد کی اپنی تاریخ ہوتی ہے ‪ ، ‬اس کے برعکس‪ ،‬نثری اصناف سماجی‬
‫کثیر االصواتی آوازوں کا معترف ‪ ‬ہوتا ہے۔ مزی د یہ کہ زب ان کی ‪ dialogic‬ن وعیت کے م دنظر ب اختن ک ا خی ال ہے کہ‬
‫دیگر چیزوں کے عالوہ مصنف ‪ ‬کو ممکنہ قارئین کے نقطہ نظر کو بھی م ّد نظ ر رکھن ا چ اہیے کی ونکہ تخلی ق میں پیش‬
‫کردہ اجنبی الفاظ ‪ ‬قاری کی ذہنی بالیدگی کے زیر اثر پروان چڑھتے ہیں۔ تفہیم کا عمل قاری کے ‪ ‬کاگنیٹو اور ‪ ‬تصوراتی‬
‫ّ‬
‫حص ہ بن جات ا ہے جس س ے ‪ ‬اجن بی‬ ‫نظام میں نشو نما پات ا ہے اور ج ذب و اختالط ‪ ‬کی کیفیت س ے گ زر ک ر ‪  ‬تفہیم ک ا‬
‫معنوی افق ‪  ‬تک رسائ ہوتی ہے۔‬
‫ن اول ک ا کثیراالص واتی ‪heteroglot‬ن وعیت ‪ ،‬ق اری کی آواز ک و ش امل ک رنے کے نۓ"امکان ات " ‪ ‬ڈھون ڈتا ‪ ‬ہے۔ گوی ا‬
‫مصنف اور اس کے مقصد بیان ‪ ‬کے درمیان ایک ‪ ‬اور ‪  intruding ‬یعنی تدخلی نقطہ نظ ر ہوت ا ‪ ‬ہے"‪ .‬ن اول نگ ار کے‬
‫لیے ‪ ‬اس کے اپنے سماجی اور کثیراالصواتی‪   heteroglot‬تصورات سے ب اہر ک وئی دوس ری ‪ ‬دنی ا نہیں ہ وتی۔ ‪ ‬یع نی‬
‫باختن کا خیا ل ہے کہ ‪ ‬ناول نگار بعض صورتوں میں اپنی تص وراتی دنی ا ک و ‪ ‬حقیقی دنی ا تص ور کرت ا ہے کی ونکہ اس‬
‫کثیراالصواتی ‪ ‬تصوراتی دنیا ‪ ‬کے اصول زبان کے ذو آوازی م زاج س ے ہم آہن گ ہ وتے ہیں۔ گوی ا اس ک ا خی ال ہے کہ‬
‫ناول میں پیش کردہ دنیا حقیقی نہیں ہوتی بلکہ ‪ ‬کثیراالصواتی ‪ ‬تصوراتی دنیا کی ایک ایس ی تص ویر ہ وتی ہے ج و زب ان‬
‫کی ذو آوازی قوت سے تخلیق ہوتی ہے۔ لہذا اس کی دلیل ہے کہ کثیراالصواتی دنیا کی فنی اور لسانی نمائندگی ن اول ک ا‬
‫مرکزی مسلہ ہے۔‬
‫مزی د یہ کہ ن اول نہ ص رف ک ردار اور ان طبق ات کی جس کی وہ نمائن دگی ک رتے ہیں ‪ ‬کے ڈائ لیکٹیک ل ( ذو آوازی)‬
‫ٹکراؤ کو پیش کرنے کا عمل ہے بلکہ ‪ ‬نظریاتی نقطہ ن‍ظر کا ال ینحل من اطرہ ‪ ‬بھی پیش کرت ا ہےجس میں ' س چ ' ہمیش ہ‬
‫معطل اور ملتوی ‪ ‬رہتاہے۔‬
‫لہذا‪Bakhtin‬کہتا ہے کہ ناول کا ہر کردار اپنی منفرد نظریاتی ‪ ‬آواز رکھتا ہے کیونکہ ناول ک ا کردارہمیش ہ ای ک بول نے‬
‫واال انسان ہوتا ہے۔ ‪ ‬اس منفرد نظریاتی ‪ ‬آواز کو نظریاتی ‪ ‬ڈسکورس ‪ ‬کا نام بھی دیا جا سکتا ہے۔‬
‫ناول بعض اوقات زبان کی مخلوط شکل پیش کرنے کی شعوری کوشش کرتا ہے تاکہ مختلف سماجی بولیوں کی فنکارانہ‬
‫تصویر تخلیق کی جا سکے۔ یہ کوشش قاری کے ذہن میں ‪ ‬سماجی لسانیاتی فرق ک و واض ح ک رتی ہے۔ ‪ ‬گوی ا ن اول ای ک‬
‫ایسی صنف ہے جو ‪ ‬مختلف سماجی بولیوں کو یکجا کرنے کا منظم نظام پیش کرتا ہے۔ ب اختن ک ا خی ال ہے کہ زب ان کی‬
‫فنکارانہ تصویر پیش کرنے کے تین بنیادی طریقہ کار ہیں۔ جو بظاہر ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے با وجود ای ک‬
‫دوسرے سے منسلک ہوتے ہیں‬
‫‪‬مکالمہ‬
‫‪‬لسانی مخلوطیت‪  :‬مختلف لسانی‪consciousnesses‬کے درمیان ایک ‪ ‬مک المہ جہ اں دو لس انی روی ون ک ا ب راہ راس ت‬
‫اختالط ہوتا ہے‬
‫‪‬ذوآوازی لس انی رب ط‪ :‬دو ی ا دو س ے زی ادہ زب انوں ‪ ‬کی موج ودگی۔ ‪ ‬ب اختن اس کے ل یے‪ parodic stylization‬کی‬
‫اصطالح بھی استعمال کرتا ہے۔‬
‫ان تفصیالت کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ باختن ‪ ‬نے ‪ ‬اپ نے نظ ریہ اص ناف میں ‪ ‬بین ‪ ‬المت ونیت ‪intertextuality‬‬
‫کا ایک ایسا ‪ ‬ماڈل پیش کیا ہے جو فرڈی ننڈ ڈی ‪ ‬سس یور کے نظ ریہ پ یرول اور ‪ ‬ذو عص ریت ک و ‪  ‬اس دور میں ‪ ‬اہمیت‬
‫دیتا ہے جب ساختیات کے ماہرین فرڈی ننڈ ڈی ‪  ‬سسیو ر کے نظریہ الن گ ‪ ،‬عص ریت‪  ،‬اور ‪ ‬غ یر انف رادیت ‪(' ‬مص نف‬
‫کی موت') کی باتیں کر رہے تھے ۔ باختن کا خیال ہے کہ ہر مصنف ‪ ‬دوسرے مصنفین ک و دہرات ا ہے۔وہ ‪ ‬اس عم ل ک و '‬
‫‪  parodying‬کہتا ہے ۔ اس کا یہ خیال حضرت علی کے اس قول کہ قریب نظر آتا ہے کہ لفظ کہناایک عہد ک و دہ رانے‬
‫کے مترادف ہے ‪ ‬اس کے خیال میں یہ عمل ‪  ‬کبھی شعوری طور پ ر کبھی اتف اقی ط ور پ ر‪ ،‬کبھی واض ح ط ور پ ر اور‬
‫کبھی غیر واضح طور پر دہرایا جاتا ہے۔ ناول ‪ ‬کی اس بنیاد ی تخلیقی جہت کو نظر یاتی بنیاد اس کے کث یر االص واتی (‬
‫‪ )  Hetroglot‬نظریےنے مہیا کی۔ باختن ‪ ‬کا بنیادی مفروضہ یہ ‪ ‬ہے کہ ناول ‪ ‬معاصر زندگی کی سچائیوں کو پیش کرتا‬
‫ہے اورزندگی کی سچائیوں میں اس عہد کی سماجی‪ ،‬سیاسی‪ ،‬معاشرتی صداقتیں شامل ہوتی ہیں۔ یوں اس کا خیال ہے کہ‬
‫ناول ‪ ،‬زندگی سے متعلق آرزومندانہ تصورات کے بجائے حقیقی زندگی کے تجرب ات و مش اہدات ک و پیش کرت ا ہے اور‬
‫اصولی طور پر انسان کی تخیلی زندگی سے زیادہ اس کے خارجی احوال قلم بند ک رنے پ ر زور دیت ا ہے اور اس ط رح‬
‫باختن ‪ ‬ناول کو ذات کا اظہار نہیں‪  ،‬بلکہ حیات کا بیانیہ قرار دیتا ہے۔‬

‫رومانیت ایک ثقافتی تحریک جس کا آغاز اٹھارویں صدی کے نص ف آخ ر میں ی ورپ میں ہ وا۔ یہ دراص ل کالس یزم کی‬
‫روایت‪ ،‬ہیئت اور مذاق کے خالف بغاوت تھی۔ اس میں تخیل کو منطق پ ر ت رجیح دی ج اتی ہے اور فن ون کی کالس یکی‬
‫مثالوں کی غیر مبہم وضاحت اور مکمل ہیئت سے انح راف کی ا جات ا ہے۔ عش ق و محبت‪ ،‬غم و غص ہ اور دیگ ر بنی ادی‬
‫جذبات تمام فن پاروں کے موضوع ہوتے ہیں لیکن رومانیت پسند فن کاروں کی تخلیقات میں ان جذبات کی انتہ ائی ش دت‬
‫ہ وتی ہے۔ ان ک ا نع رہ ادب ب رائے ادب اور فن ب رائے فن ہے جبکہ ت رقی پس ند ادیب و فنک ار ادب ب رائے زن دگی و فن‬
‫برائے زندگی کے قائل ہیں۔ مغربی ادیبوں‪ ،‬شاعروں اور فن کاروں میں ورڈزورتھ‪ ،‬بلیک‪ ،‬بائرن‪ ،‬شیلے‪ ،‬کیٹس‪ ،‬شومان‪،‬‬
‫ڈوما‪ ،‬ہیوگو‪ ،‬ویکسز‪ ،‬براہمز‪ ،‬دیلکرائے‪ ،‬والٹر سکاٹ‪ ،‬گوئٹے‪ ،‬شلر‪ ،‬ج ارج س ینڈ‪ ،‬ہی ڈن‪ ،‬بیتھ وون وغ یرہ روم انیت کے‬
‫نمائندے سمجھے جاتے ہیں۔‪ ‬‬
‫کہا جاتا ہے کہ یورپ میں رومانیت کا دور ‪1850‬ء کے لگ بھگ ختم ہ و گی ا۔ لیکن اس کے وس یع ت ر مفہ وم میں دیکھ ا‬
‫جائے تو یورپ کے فن کاروں کی ایک اچھی خاصی تعداد ہنوز اُسی عہ د میں جی رہی ہے۔ ذاتی رنج و الم اور احس اس‬
‫تنہائی حقیقی یا تصوراتی پر مبنی شاہکار اب بھی تخلی ق ک یے ج ا رہے ہیں۔ ایس ے ادب کی بھرم ار ہے جس میں دکھی‬
‫انسانیت یا قانون شکن افراد کے ساتھ رومانی ہمدردی کا برتاؤ کیا جاتا ہے۔‬
‫ہیں اس لیے رومانیت کے متعلق کوئی متعین بات کہنا چاہیں تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ رومانیت کے معانی روم انیت ہیں‬ ‫‪‬‬

‫بہر حال سید عبد ہللا رومانیت کا مفہوم بیان۔‬


‫چھایا واد ہندی‪छयवद :‬اردو میں رومانیت ہے لفظی معنی سایہ سے م راد ہن دی ادب بالخص وص ہن دی ش اعری میں جدی د‬ ‫‪‬‬

‫رومانیت کا عہد ‪1922‬ء ‪1938‬ء ہے ہندی رومانی۔‬


‫عبید صدیقی کے آگے زان وئے ادب تہ کی ا فی اض ال دین فیض چ ودھری کی ش اعری میں روم انیت اور تغ زل ک ا رن گ‬ ‫‪‬‬

‫جھلکتا ہے موصوف نے شاعری کا آغاز ‪1981‬ء میں کیا ان کی۔‬


‫تسلیم کیا گیا ہے اس کے اصناف میں فنطاسیہ گوتھک فکشن معاصر فکشن تاریخی رومانیت م اورائے طبعی فکش ن اور‬ ‫‪‬‬

‫سائنس فکشن شامل ہیں حاالں کہ رومانوی ناولوں کے۔‬


‫آزاد اور نیک پیدا ہوا ہے لیکن معاشرہ اسے بدی میں مبتال کر دیتا ہے اسے رومانیت ک ا ب انی بھی س مجھا جات ا ہے اس‬ ‫‪‬‬

‫نے آزاد خیالی اور عام لوگوں کے حقوق کے بارے۔‬


‫پر تنقید وتحسین کے تجزیئے ہونے شروع ہونے لگے اس سے قبل کالسیکیت اور رومانیت میں معی اری ش عر وادب ک ا‬ ‫‪‬‬

‫اعزاز زیادہ تر مصنف کے بلند کردار منفرد انداز اور۔‬


‫‪ 1914‬تک آسٹریا ‪ -‬مجارستان شاہزادہ فرانز فرڈیننڈ کی رہائش گاہ تھا یہ قلعہ رومانیت کی طرز تعم یر کی ای ک ش اندار‬ ‫‪‬‬

‫مثال بھی ہے قلعہ کونوپیشٹے ایک مشهور شرافت۔‬


‫کارکن ہیں وہ بیک وقت پولستان لتھیوپیا اور بیالروس کے قومی شاعر ہیں پ ولش روم انیت میں انہیں خصوص ی امتی از‬ ‫‪‬‬

‫حاصل ہے اور وہ پولینڈ کے تین بڑے شعرا میں سے ایک۔‬


‫اور آخری رات جیسی نظمیں ان کی شعری آفاقیت کا منہ بولتا ثب وت ہے دراص ل وہ روم انیت اور حقیقت کے س نگم پ ر‬ ‫‪‬‬

‫کھڑے ہیں اور یہی ان کی عظمت کا راز ہے ا ن کے ہاں۔‬


‫چن د کے افس انوں میں روم انیت اور حقیقت نگ اری ک ا ام تزاج زن دگی کے خ ارجی مع امالت اور معاش رے کی ص حیح‬ ‫‪‬‬

‫عکاسی حقیقت نگاری کہالتی ہے جبکہ رومانیت میں زندگی کے باطنی۔‬

You might also like