ِدل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
رویئں گے ہم ہزار بار کوئی ہمیں ستاۓ کیوں
دیر نہیں حرم نہیں در نہیں آستاں نہیں بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم غیر ہمیں اُٹھائے کیوں جب وہ جمال دل فروز صورت مہر نیم روز آپ ہی ہو نظارہ سوز پردے میں منہ چھُپائے کیوں دشنہ ء غمزہ جاں ستاں ناوک ناز بے پناہ تیرا ہی عکس رُخ سہی سامنے تیرے آئے کیوں قی ِد حیات و بن ِّد غم اصل دونوں ایک ہیں موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پاۓ کیوں حسن اور اس پہ حسن ظن رہ گئی بو الہواس کی شرم اپنے پہ اعتماد ہے غیر کو آزمائے کیوں واں وہ غرور عز و ناز یاں یہ حجاب پاس وضع راہ میں ہم ِملیں کہاں بزم میں وہ بُالئے کیوں ہاں وہ نہیں ُخدا پرست جاو وہ بے وفا سہی جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں ب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں غال ِ رویئے زار زار کیا کیجیے ہاۓ ہاۓ کیوں