Professional Documents
Culture Documents
مولانا اسمٰعیل میرٹھی
مولانا اسمٰعیل میرٹھی
اسمعیل نگر کے نام سے موسوم ہے۔ آپ کے والد کا نام شیخ پیر بخش تھا اور یہی آپکے ٰ
پہلے استاد بھی تھے۔ اس دور کے رواج کے مطابق موالنا نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی
حاصل کی ۔ پہلے فارسی اور پھر دس برس کی عمر میں ناظرہ قرآن مجید کی تعلیم
اسمعیل نے محسوس مکمل کی۔ 1857کی جنگِ آزادی کی تحریک کے وقت 14سالہ ٰ
کرلیا تھا کہ اس وقت اس مردہ قوم کو جگانے اور جگائے رکھے کی ضرورت ہے۔
چنانچہ اسی مقصد کے تحت انھوں نے دینی علوم کی تکمیل کے بعد جدیدعلوم سیکھنے
پرتوجہ دی ،انگریزی میں مہارت حاصل کی ،انجنیئرنگ کا کورس پاس کیا ،مگر ان
اعلی مالزمت حاصل کرنے کی بجائے تدریس کا معزز پیشی ٰ علوم سے فراغت کے بعد
اختیار کیا تاکہ اس راہ سے قوم کو اپنے کھوئے ہوئے مقام تک واپس لے جانے کی
کوشش کریں۔
1857ء سے پہلے اردو شاعروں نے خیاالت کے میدان میں گھوڑے دوڑانے کے عالوہ
اسمعیل میرٹھی نے ،اپنے ہمعصروں ،حالی اور شبلی کی طرح کم ہی کام کیا تھا ،مگر ٰ
اپنی شاعری کو بچوں اور بڑوں کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنایا۔ موالنا نے 50پچاس
سے زیادہ نظمیں لکھی ہیں جو صرف بچوں کیلئے ہیں۔ان میں سے کچھ ایسی ہیں جن کا
انہوں نے انگریزی Pشاعری سے ترجمہ کیا ہے مگر اس کے باوجود یہ نظمیں اپنی زبان
اور بیان کے لحاظ سے انتہائی سادہ اور پر اثر ہیں۔اردو کے عالوہ موالنا نے فارسی
ریڈریں بھی ترتیب دیں اور فارسی زبان کی گرامر کی تعلیم کیلئے کتابیں لکھیں۔ موالنا
علم
کے دو ہندو دوستوں نے جو سرجن تھے ،اردو میں اناٹومی اور فزیالوجی یعنی ِ
تشریح اور علم افعال االعضا پر کتابیں لکھی تھیں۔ موالنا نے ان دوستوں کی درخواست
نظر ثانی کی اور ان کی زبان کو ٹھیک کیا۔ اپنے روحانی استاد اور پیرہر ان کتابوں پر ِ
کی حاالت پر ایک کتاب ’’ تذکرہ غوثیہ‘‘ کے نام سےلکھی۔ دہلی کے مشہور عالم اور
ادیب منشی ذ کاء ہللا نے بھی سرکاری اسکولوں کیلئے اردو ریڈروں کا ایک سلسلہ مرتب
اسمعیل کی نظمیں شامل تھیں۔موالنا نے جغرافیہ پر کیا تھا ،ان کی ان کتابوں میں موالنا ٰ
بھی ایک کتاب لکھی جو اسکولوں Pکے نصاب میں داخل رہی۔ مسلمانوں کے اس عظیم
خدمت گزار مصلح نے 73سال کی عمر میں یکم نومبر 1917ء کو وفات پائی۔ موالنا
کی نظمیں ،عنقریب پیش کی جائینگی۔
موالنا نے مدرسۃ البنات کے نام سے 1909ء میں لڑکیوں کا ایک اسکول میرٹھ میں قائم
کیا ،یہ درس گاہ آج بھی قائم ہے اور اس کا نام اسماعیلیہ ڈگری گرلز کالج ہے۔ ان تمام
تعلیمی اور علمی مصروفیات کے باوجود آپ مسلمانوں کی سیاسی تربیت سے غافل نہیں
پیش نظر انہیں 1911ء میں میرٹھ شہر کی مسلم لیگ کا رہے ،انہی سیاسی خدمات کے ِ
شوری کے رکن ٰ مجلس
ِ نائب صدر منتخب کیا گیا تھا ،اسی طرح وہ انجمن ترقی اردو کی
بھی رہے۔
ہماری گائے
رب کا شکر ادا کر بھائی
جس نے ہماری گائے بنائی
اس مالک کو کیوں نہ پکاریں
جس نے پالئیں دودھ کی دھاریں
خاک کو اس نے سبزہ بنایا
سبزہ کو پھر گائے نے کھایا
کل جو گھاس چری تھی بن میں
دودھ بنی اب گائے کے تھن میں
سبحان ہللا دودھ ہے کیساا
تازہ گرم سفید اور میٹھا
دودھ میں بھیگی روٹی میری
اس کے کرم نے بخشی سیری
دودھ دہی اور مٹھگا مسکا
دے نہ خدا تو کس کے بس کا
گائے کو دی کیا اچھی صورت
خوبی کی ہے گویا مورت
دانہ دنکا بھوسی چوکر
کھا لیتی ہے سب خوش ہو کر
کھا کر تنکے اور ٹھیڑے
دودھ دیتی ہے شام سویرے
کیا ہی غریب اور کیسی پیاری
صبح ہوئی جنگل کو سدھاری
سبزہ سے میدان ہرا ہے
جھیل میں پانی صاف بھرا ہے
پانی موجیں مار رہا ہے
چرواہا چمکار رہا ہے
پانی پی کر چارہ چر کر
شام کو آئی اپنے گھر پر
دوری میں جو دن ہے کاٹا
بچہ کو کس پیار سے چاٹا