Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 1

‫حاجی لق لق پر پچھلے دنوں بھینس کے ہاتھوں قیامت گزر گئی۔‬

‫یہ تو اکثر لوگوں کو معلوم ہے کہ حاجی صاحب نے کوئی سال بھر سے ایک بھینس پال رکھی ہے اور اس کی خدمت اس تن دہی سے‬
‫کرتے ہیں کہ کوئی اس طرح بزرگوں کی خدمت بھی کیا کرے گا؟ اگرچہ حاجی صاحب خود ’’بیچارہ‘‘ ہیں۔ مگر بھینس کے لیے چارہ‬
‫فراہم کرنے میں ان سے کبھی کو تاہی نہیں ہوئی۔ لیکن پچھلے دنوں خدا جانے اس بھینس کے جی میں کیا آئی کہ رسہ تڑا کے بھاگ کھڑی‬
‫ہوئی۔ اور جوار کے کھیت سے بخط مستقیم کانجی ہاؤس جا پہنچی۔‬

‫حاجی صاحب دؑل ی گئے ہوئے تھے۔ آتے ہی یہ واقعہ سنا۔ کلیجہ دھک سے رہ گیا اور منہ سے بے اختیار نکل گیا۔ ’’اٰل ہی مری بھینس کی‬
‫خیر ہو۔‘‘ ہوش ٹھکانے ہوئے تو کانجی ہاؤس پہنچے اور بھینس سے مالقات کی خواہش ظاہر کی۔ کانجی ہاؤس والوں نے کہا‪ ،‬صاحب!‬
‫کانجی ہاؤس کے قوانین بورسٹل جیل کے قاعدوں سے زیادہ سخت ہیں۔ بھینس سے ملنا ہے تو درخواست دیجیے ہم اسے مسٹر میکناب (افسر‬
‫اعلٰی مونسپلٹی) کے پاس بھیج دیں گے۔ وہ چاہے اجازت دیں چاہے نہ دیں۔ مرتا کیا نہ کرتا۔ مجبور ہو کر درخواست لکھی اور مسٹر میکناب‬
‫کے پاس بھیج دی۔ تیرہ دن گزرگئے مگر کوئی جواب نہ آیا۔‬

‫وکیل سے مشورہ کیا تو اس نے کہا معلوم نہیں آپ کو بھینس سے مالقات کی اجازت ملے یا نہ ملے۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اجازت حاصل‬
‫کرنے میں پورا سال صرف ہوجائے۔ اب جرمانہ ادا کرکے بھینس کو چھڑا کیوں نہیں التے؟ حاجی صاحب کو یہ بات پسند آئی۔ چناں چہ‬
‫جرمانہ ادا کرنے کے لیے نہ تو کوئی چندے کی اپیل شائع کی‪ ،‬نہ لوگوں سے کہا کہ آپ کی غیرت کے امتحان کا وقت آگیا ہے اور نہ یہ‬
‫فرمایا کہ پنجاب کی اتحادی وزارت نے مجھ سے انتقام لینے کے لیے میری عزیز از جان بھینس کو کانجی ہاؤس بھجوا دیا ہے بلکہ جرمانہ‬
‫کی رقم جو غالبًا پندرہ روپے ساڑھے سات آنے تھی‪ ،‬اپنی جیب سے ادا کرکے بھینس کو چھڑوا الئے۔‬

‫سنا ہے کہ بھینس کا جلوس بڑی دھوم دھام سے نکال۔ اس کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے گئے۔ اور مصری شاہ کے گلی کوچوں میں‬
‫’’انقالب زندہ باد‘‘ کانجی ہاؤس ہائے ہائے اور ’’میری بھینس کو ڈنڈا کیوں مارا‘‘ کے نعروں کے ساتھ اسے پھرایا گیا۔ بھینس شاعر نہیں‬
‫بن سکتی۔ شعر فہم نہیں بن سکتی تو کیا‪ ،‬لیڈر تو بن سکتی ہے۔‬

‫آپ کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ حاجی لق لق کے خاندان میں اس بھینس کے سوا کبھی کسی نے قانون شکنی نہیں کی۔ بھینس کو شاعری‬
‫سے اس لیے بھی کوئی تعلق نہیں کہ عقل اور شاعری میں ہمیشہ سے جنگ رہی ہے اور بھینس کا مقابلہ ہمیشہ عقل سے کیا جاتا ہے۔ چناں‬
‫چہ آج تک بڑے بڑے عالم یہ فیصلہ کرسکے کہ عقل بڑی ہے یا بھینس۔ بھینس کا طول و عرض حتٰی کہ اس کا وزن تک لوگوں کو معلوم‬
‫ہے لیکن عقل کے حدود و اربعہ کے متعلق ہی علما میں اختالف نہیں بلکہ اس کے وزن کا مسئلہ بھی مشتبہ ہے۔ اب تک صرف اتنا معلوم‬
‫ہوسکا ہے کہ عقل اور علم کے وزن میں ایک اور دس کی نسبت ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ ’’یک من علم را دہ من عقل باید‘‘۔‬

‫علم کا وزن متعین ہوجائے تو عقل کے وزن کا مسئلہ بھی طے ہوسکتا ہے۔ اور عقل کا وزن معلوم ہوجائے تو اس متنازع فیہ مسئلہ کا فیصلہ‬
‫بھی کیا جا سکتا ہے کہ عقل بھینس سے بڑی ہے یا بھینس عقل سے۔ بہرحال اس مسئلہ کا فیصلہ ہو یا نہ ہو۔ اتنا ظاہر ہے کہ بھینس کو‬
‫شاعری سے کوئی تعلق نہیں۔‬

You might also like