Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 3

‫متفر ق‬ ‫فن و ثقافت‬

‫بلیک ہول‪ ،‬سائنس اور ہم‬

‫میئ ‪2023 ,2‬‬


‫ویب ڈیسک‬

‫سائنس سے ہمارا تعلق اتنا ہی افسوس نا ک رہا ہے جتنا ہمارے ملک کے ا کرث سیاست دانوں کا ملک یک معایش‬
‫پیچیدگیوں اور بنیادی مسائل سے۔ ان بے چاروں کو یہ معلوم نہیں کہ وطن کا بنیادی مسئلہ کیا ہے اور ہمیں یہ‬
‫معلوم نہیں ہے کہ ” کوانٹم تھیوری “ کس عالقے یک چڑیا کا نام ہے؟‬

‫سائنس سے ہماری یہ دشمین عم عز یز کے ایک طویل عرصے پر محیط ہے‪ ،‬میرٹک میں ہمیں زبردسیت سائنس پڑھنا پڑی‬
‫ِر‬
‫تھی اور کیمسرٹی مسلسل تنی دن پڑھ لینے کے بعد ہمیں سخت بخار آ جایا کرتا تھا۔ طبیعیات سے ہماری طبیعت ویسے‬
‫ہی ناالں رہیت تھی‪ ،‬پھر وہ وقت بھی آیا جب ساالنہ امتحانات ہونے والے تھے اور ہمارے وہ قارئنی جو میرٹک کرنے کے جاں‬
‫گسل ملحات سے گزر چکے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ امتحانات کے دنوں میں ”گیس پیرپز“ کا سیالب سا آجایا کرتا ہے۔‬
‫کچھ راز ہائے رسبستہ سینہ بہ سینہ بھی چلتے ہیں اور اکرث لڑکے قسم کھا کر بتاتے ہیں کہ پرچے میں آنے والے کچھ سواالت‬
‫انہیں نہایت باوثوق ذرائع سے معلوم ہوگئے ہیں۔ چنانچہ ایسے ہی ایک طالب علم نے سخت رازدارنہ انداز میں ایک معترب‬
‫ذر یعے کا حوالہ دیتے ہوئے ہمیں بتایا کہ اس بار کیمسرٹی کے پرچے میں ”نائیرٹوجن“ کے بارے میں سوال الزمی طور پر ہوگا۔‬
‫چونکہ یہ راز ہمیں پرچہ ہونے سے رصف ایک دن پہلے بتایا گیا تھا اس لئے ہم نے آ کسیجن‪ ،‬ہائیڈروجن اور کاربن ڈایئ‬
‫آ کسائیڈ وغریہ کو ایک طرف رکھا اور نائیرٹوجن کا ” َرّٹا “ لگانا رشوع کردیا!‬

‫اس مسلسل محنت سے ہم چند ہی گھنٹوں میں خود کو نائیرٹوجن کا شمُس العلماء کہالنے کے مستحق ہو گئے تھے…‬
‫صبح کو ہم نہایت ہشاش بشاش اٹھے‪ ،‬کتاب کھول کر ایک بار پھر نائیرٹوجن پر نظر ڈایل اور اپنے حافظے کو داد دیتے ہوئے‬
‫امتحان گاہ یک طرف روانہ ہو گئے‪ ،‬وہاں حالت یہ تھی کہ ہم بالوجہ گنگنا رہے تھے بلکہ جب امتحاین پرچہ ہمیں دیا گیا‬
‫تو ہم نے قہقہہ تک لگا دیا‪ ،‬پھر وہ قیامت خزی ملحہ آیا جب ہم نے پرچے پر نظر ڈایل اور اچانک نظروں کے سامنے اندھریا سا‬
‫چھا گیا۔ یوں لگا جیسے یہ کائنات آ کسیجن یک طرح بالکل بے ُبو‪ ،‬بے رنگ اور بے ذائقہ ہو چیک ہے۔ پرچے میں نائیرٹوجن کا ذکر‬
‫بالکل نہیں تھا اور کاربن ڈایئ آ کسائیڈ کے خواص بیان کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ ہمارے پاؤں لرزنے لگے‪ ،‬ذہن چکرانے لگا‪ ،‬دنیا یک‬
‫بے ثبایت کا نقشہ آنکھوں میں پھرنے لگا اور اپنے قر یب کھڑے نگراین کرنے والے شخص یک صورت ہمیں بالکل ملُک املوت‬
‫جییس نظر آنے لیگ مگر کرتے تو کیا کرتے کہ نائیرٹوجن کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا اور کاربن ڈایئ آ کسائیڈ ہمیں یوں‬
‫لگ رہی تھی جیسے ہم ناشتے میں چائے کے ساتھ کویئ دسیت بم نگل کر آئے ہوں‪ ،‬مجال ہے جو کاربن ڈایئ آ کسائیڈ سے کبھی‬
‫ہماری ذرا یس بھی واقفیت یا سالم دعا رہی ہو… ہم نے نائیرٹوجن کے بارے میں ز ی لب کچھ ایسے الفاظ کہے جن سے اس‬
‫ِر‬
‫رش یف گیس یک توہنی کا نہایت غری اخالیق پہلو نکلتا تھا‪ ،‬پھر قلم سنبھاال اور دورسے سواالت حل کرنے کے لئے بساط بھر‬
‫کوشش رشوع کردی مگر کاربن ڈایئ آ کسائیڈ سے بچنا ممکن نہیں تھا کیونکہ یہ سوال الزمی تھا‪ ،‬چنانچہ آخر میں ہم نے‬
‫اس لڑکے کو چند نہایت دل گداز اور عربت انگزی کوسنے دیے جس نے ہمیں نائیرٹوجن کے بارے میں بتایا تھا۔ لگے ہاتھوں ایسا‬
‫مشکل پرچہ ترتیب دینے والے کے لئے بھی کچھ جدید کوسنے ایجاد کئے اور قلم سنبھال کر پرچے کو ایک بار پھر دیکھا کہ سہو‬
‫نظر نہ ہوا ہو مگر وہاں نائیرٹوجن یک جگہ کاربن ڈایئ آ کسائیڈ ہی لکھا تھا لٰہذا ہم نے نہایت خوش خط انداز میں‬
‫امتحاین کایپ پر لکھا ” کاربن ڈایئ آ کسائیڈ “ اور اس کے نیچے وہ سب کچھ لکھ دیا جو نائیرٹوجن کے بارے میں یاد کیا تھا۔‬
‫قلم تزیی سے دوڑ رہا تھا اور ہم نے نائیرٹوجن کے خواص کے عالوہ اس کے عادات و خصائل تک کے بارے میں‬ ‫ہمارا اشہ‬
‫ِب‬
‫ایک وسیع و عر یض مقالہ تحر یر کر ڈاال!‬

‫اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میرٹک کے ساالنہ امتحان کا نتیجہ آنے پر ہم نہایت امتیازی نمربوں سے فیل ہوئے ہوں گے…‬
‫جی نہیں! ہم پاس ہوگئے تھے اور وہ بھی فرسٹ ڈویژن میں‪ ،‬یعین جسے اللہ رکھے اسے کون ممتحن چکھے!! پاس ہونے یک‬
‫خرب پاتے ہی ہم نے شکرانے کے نفل پڑھے اور آخر میں کیمسرٹی کے پرچے کے نابینا ممتحن یک درازیٴ عمر کے لئے رقت انگزی انداز‬
‫میں دعا مانیگ کہ اس کے درجات بلند ہوں‪ ،‬وہ ہیڈ ماسرٹ بنے‪ ،‬رزق کشادہ ہو‪ ،‬بال بچے روز افزوں تریق کر یں اور آخر میں‬
‫شدت جذبات سے یہ تک کہہ بیٹھے کہ اللہ اس کے لواحقنی کو صرب جمیل عطا فرمائے!‬

‫اب اتنے برسوں کے بعد پھر ایک سائنیس مسئلہ ہمارے سامنے ہے جسے حل کرنا یا سمجھنا ہمارے لئے اتنا ہی مشکل ہے‬
‫جتنا وز یر توانایئ و بجلی کے لئے یہ سمجھنا کہ جب ملک میں بارہ چودہ گھنٹے روز تک یک لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے تو بجلی‬
‫یک قیمتوں میں ایسے ہوش ربا اضافے کا جواز کیا ہے۔ اخباری خرب مخترص طور پر کچھ یوں ہے کہ ” آج دنیا میں طبعیات کا‬
‫سب سے طاقتور تجربہ کیا جا رہا ہے جس کا بنیادی مقصد کائنات میں ‪ Big bang‬کے چند ملحوں کے بعد حاالت کو ایک‬
‫مرتبہ پھر تخلیق کرنا ہے۔ نیو کلیایئ ر یرسچ کے یوریپ ادارے کے ز ی اہتمام ہونے والے اس تجربے کے دوران انجینرئز اور سائنسدان‬
‫ِر‬
‫ایٹم کے مثبت چارج والے ” ذرات “ ” پروٹانز “ کو ستائیس کلومیرٹ طویل ز یر زمنی رسنگ نما مشنی سے گزار یں گے اور دو‬
‫مخالف سمت سے آنے وایل پروٹانز یک شعاعوں کو تقر یبًا روشین یک رفتار سے ‪ 10‬کھرب ڈگری سینیٹ گر یڈ پر آپس میں‬
‫ٹکرادیا جائے گا۔ مادے کے بار یک ذرات کو حرکت دینے وایل مشنی انساین تار یخ یک سب سے بڑی مشنی ہے‪ ،‬بیس برس یک‬
‫تیار یوں کے بعد ‪ 10‬ارب ڈالر الگت سے تیار ہونے وایل ‪ 27‬کلومیرٹ رسنگ نما اس مشنی میں پروٹان یک شعاعوں کو دہشت‬
‫ناک طاقت سے آپس میں ٹکرایا جائے گا جس سے نیئ طبعیات میں ” بگ بینگ “ جییس کیفیت پیدا یک جا سکے‪ ،‬کیئ ایسے‬
‫سائنسدان بھی ہیں جو کائنات یک تخلیق کے آغاز کے لئے بگ بینگ جیسے کیس مفروضے کو نہیں مانتے اور ہم تو بحیثیت‬
‫مسلمان کیس بھی بگ بینگ پر یقنی نہیں رکھ سکتے کیونکہ اس کائنات یک تخلیق کیس بھی بگ بینگ نے نہیں خداوند‬
‫کر یم نے لفظ ” ُکن “ کہہ کر یک تھی اور ُکن فیکون پر ہمارا پختہ ایمان ہے مگر وہ دورسے سائنسدان بھی جو بگ بینگ‬
‫تھیوری پر یقنی نہیں رکھتے آخر اس منصوبے پر ‪ 10‬ارب ڈالر خرچ کر دینے والے ان فضول خرچ سائنس دانوں سے یہ احتجاج‬
‫کیوں نہیں کرتے کہ بھوک اور افالس یک ماری ہویئ اس دنیا میں اتین بڑی رقم خوراک اور صاف پاین جیسے وسائل یک‬
‫فراہمی پر خرچ یک جایت تو کتنے پسماندہ ممالک اور ان کے کروڑوں لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا تھا۔‬

‫سائنس دانوں کے ایک گروپ یک جانب سے یہ خدشہ بھی پیش کیا جا رہا ہے کہ اس بڑے لرزہ خزی دھماکے کے نتیجے میں‬
‫زمنی پر ایک بڑا بلیک ہول بھی پیدا ہو سکتا ہے اور بلیک ہول کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ بڑی سے بڑی اشیاء کو‬
‫نگل لیتا ہے۔ اگر ایسا کویئ بلیک ہول پیدا ہو تو ہماری خوش گوار خواہش ہے کہ اس کا پہال نواال یہ خطرناک تجربہ کرنے‬
‫والے ہزاروں سائنس دان ہی بنیں‪ ،‬اگر دو چار آدمی کم پڑ جائیں تو ہم اپنے ملک کے چند بے مرصف موقع شناس سیاست‬
‫داں بھجوانے پر تیار ہیں۔‬

‫(از قلم‪ :‬اطہر شاہ خان جیدؔی)‬

‫‪Comments‬‬

You might also like