Professional Documents
Culture Documents
بلیک ہول، سائنس اور ہم
بلیک ہول، سائنس اور ہم
سائنس سے ہمارا تعلق اتنا ہی افسوس نا ک رہا ہے جتنا ہمارے ملک کے ا کرث سیاست دانوں کا ملک یک معایش
پیچیدگیوں اور بنیادی مسائل سے۔ ان بے چاروں کو یہ معلوم نہیں کہ وطن کا بنیادی مسئلہ کیا ہے اور ہمیں یہ
معلوم نہیں ہے کہ ” کوانٹم تھیوری “ کس عالقے یک چڑیا کا نام ہے؟
سائنس سے ہماری یہ دشمین عم عز یز کے ایک طویل عرصے پر محیط ہے ،میرٹک میں ہمیں زبردسیت سائنس پڑھنا پڑی
ِر
تھی اور کیمسرٹی مسلسل تنی دن پڑھ لینے کے بعد ہمیں سخت بخار آ جایا کرتا تھا۔ طبیعیات سے ہماری طبیعت ویسے
ہی ناالں رہیت تھی ،پھر وہ وقت بھی آیا جب ساالنہ امتحانات ہونے والے تھے اور ہمارے وہ قارئنی جو میرٹک کرنے کے جاں
گسل ملحات سے گزر چکے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ امتحانات کے دنوں میں ”گیس پیرپز“ کا سیالب سا آجایا کرتا ہے۔
کچھ راز ہائے رسبستہ سینہ بہ سینہ بھی چلتے ہیں اور اکرث لڑکے قسم کھا کر بتاتے ہیں کہ پرچے میں آنے والے کچھ سواالت
انہیں نہایت باوثوق ذرائع سے معلوم ہوگئے ہیں۔ چنانچہ ایسے ہی ایک طالب علم نے سخت رازدارنہ انداز میں ایک معترب
ذر یعے کا حوالہ دیتے ہوئے ہمیں بتایا کہ اس بار کیمسرٹی کے پرچے میں ”نائیرٹوجن“ کے بارے میں سوال الزمی طور پر ہوگا۔
چونکہ یہ راز ہمیں پرچہ ہونے سے رصف ایک دن پہلے بتایا گیا تھا اس لئے ہم نے آ کسیجن ،ہائیڈروجن اور کاربن ڈایئ
آ کسائیڈ وغریہ کو ایک طرف رکھا اور نائیرٹوجن کا ” َرّٹا “ لگانا رشوع کردیا!
اس مسلسل محنت سے ہم چند ہی گھنٹوں میں خود کو نائیرٹوجن کا شمُس العلماء کہالنے کے مستحق ہو گئے تھے…
صبح کو ہم نہایت ہشاش بشاش اٹھے ،کتاب کھول کر ایک بار پھر نائیرٹوجن پر نظر ڈایل اور اپنے حافظے کو داد دیتے ہوئے
امتحان گاہ یک طرف روانہ ہو گئے ،وہاں حالت یہ تھی کہ ہم بالوجہ گنگنا رہے تھے بلکہ جب امتحاین پرچہ ہمیں دیا گیا
تو ہم نے قہقہہ تک لگا دیا ،پھر وہ قیامت خزی ملحہ آیا جب ہم نے پرچے پر نظر ڈایل اور اچانک نظروں کے سامنے اندھریا سا
چھا گیا۔ یوں لگا جیسے یہ کائنات آ کسیجن یک طرح بالکل بے ُبو ،بے رنگ اور بے ذائقہ ہو چیک ہے۔ پرچے میں نائیرٹوجن کا ذکر
بالکل نہیں تھا اور کاربن ڈایئ آ کسائیڈ کے خواص بیان کرنے کے لئے کہا گیا تھا۔ ہمارے پاؤں لرزنے لگے ،ذہن چکرانے لگا ،دنیا یک
بے ثبایت کا نقشہ آنکھوں میں پھرنے لگا اور اپنے قر یب کھڑے نگراین کرنے والے شخص یک صورت ہمیں بالکل ملُک املوت
جییس نظر آنے لیگ مگر کرتے تو کیا کرتے کہ نائیرٹوجن کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھا اور کاربن ڈایئ آ کسائیڈ ہمیں یوں
لگ رہی تھی جیسے ہم ناشتے میں چائے کے ساتھ کویئ دسیت بم نگل کر آئے ہوں ،مجال ہے جو کاربن ڈایئ آ کسائیڈ سے کبھی
ہماری ذرا یس بھی واقفیت یا سالم دعا رہی ہو… ہم نے نائیرٹوجن کے بارے میں ز ی لب کچھ ایسے الفاظ کہے جن سے اس
ِر
رش یف گیس یک توہنی کا نہایت غری اخالیق پہلو نکلتا تھا ،پھر قلم سنبھاال اور دورسے سواالت حل کرنے کے لئے بساط بھر
کوشش رشوع کردی مگر کاربن ڈایئ آ کسائیڈ سے بچنا ممکن نہیں تھا کیونکہ یہ سوال الزمی تھا ،چنانچہ آخر میں ہم نے
اس لڑکے کو چند نہایت دل گداز اور عربت انگزی کوسنے دیے جس نے ہمیں نائیرٹوجن کے بارے میں بتایا تھا۔ لگے ہاتھوں ایسا
مشکل پرچہ ترتیب دینے والے کے لئے بھی کچھ جدید کوسنے ایجاد کئے اور قلم سنبھال کر پرچے کو ایک بار پھر دیکھا کہ سہو
نظر نہ ہوا ہو مگر وہاں نائیرٹوجن یک جگہ کاربن ڈایئ آ کسائیڈ ہی لکھا تھا لٰہذا ہم نے نہایت خوش خط انداز میں
امتحاین کایپ پر لکھا ” کاربن ڈایئ آ کسائیڈ “ اور اس کے نیچے وہ سب کچھ لکھ دیا جو نائیرٹوجن کے بارے میں یاد کیا تھا۔
قلم تزیی سے دوڑ رہا تھا اور ہم نے نائیرٹوجن کے خواص کے عالوہ اس کے عادات و خصائل تک کے بارے میں ہمارا اشہ
ِب
ایک وسیع و عر یض مقالہ تحر یر کر ڈاال!
اب آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ میرٹک کے ساالنہ امتحان کا نتیجہ آنے پر ہم نہایت امتیازی نمربوں سے فیل ہوئے ہوں گے…
جی نہیں! ہم پاس ہوگئے تھے اور وہ بھی فرسٹ ڈویژن میں ،یعین جسے اللہ رکھے اسے کون ممتحن چکھے!! پاس ہونے یک
خرب پاتے ہی ہم نے شکرانے کے نفل پڑھے اور آخر میں کیمسرٹی کے پرچے کے نابینا ممتحن یک درازیٴ عمر کے لئے رقت انگزی انداز
میں دعا مانیگ کہ اس کے درجات بلند ہوں ،وہ ہیڈ ماسرٹ بنے ،رزق کشادہ ہو ،بال بچے روز افزوں تریق کر یں اور آخر میں
شدت جذبات سے یہ تک کہہ بیٹھے کہ اللہ اس کے لواحقنی کو صرب جمیل عطا فرمائے!
اب اتنے برسوں کے بعد پھر ایک سائنیس مسئلہ ہمارے سامنے ہے جسے حل کرنا یا سمجھنا ہمارے لئے اتنا ہی مشکل ہے
جتنا وز یر توانایئ و بجلی کے لئے یہ سمجھنا کہ جب ملک میں بارہ چودہ گھنٹے روز تک یک لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے تو بجلی
یک قیمتوں میں ایسے ہوش ربا اضافے کا جواز کیا ہے۔ اخباری خرب مخترص طور پر کچھ یوں ہے کہ ” آج دنیا میں طبعیات کا
سب سے طاقتور تجربہ کیا جا رہا ہے جس کا بنیادی مقصد کائنات میں Big bangکے چند ملحوں کے بعد حاالت کو ایک
مرتبہ پھر تخلیق کرنا ہے۔ نیو کلیایئ ر یرسچ کے یوریپ ادارے کے ز ی اہتمام ہونے والے اس تجربے کے دوران انجینرئز اور سائنسدان
ِر
ایٹم کے مثبت چارج والے ” ذرات “ ” پروٹانز “ کو ستائیس کلومیرٹ طویل ز یر زمنی رسنگ نما مشنی سے گزار یں گے اور دو
مخالف سمت سے آنے وایل پروٹانز یک شعاعوں کو تقر یبًا روشین یک رفتار سے 10کھرب ڈگری سینیٹ گر یڈ پر آپس میں
ٹکرادیا جائے گا۔ مادے کے بار یک ذرات کو حرکت دینے وایل مشنی انساین تار یخ یک سب سے بڑی مشنی ہے ،بیس برس یک
تیار یوں کے بعد 10ارب ڈالر الگت سے تیار ہونے وایل 27کلومیرٹ رسنگ نما اس مشنی میں پروٹان یک شعاعوں کو دہشت
ناک طاقت سے آپس میں ٹکرایا جائے گا جس سے نیئ طبعیات میں ” بگ بینگ “ جییس کیفیت پیدا یک جا سکے ،کیئ ایسے
سائنسدان بھی ہیں جو کائنات یک تخلیق کے آغاز کے لئے بگ بینگ جیسے کیس مفروضے کو نہیں مانتے اور ہم تو بحیثیت
مسلمان کیس بھی بگ بینگ پر یقنی نہیں رکھ سکتے کیونکہ اس کائنات یک تخلیق کیس بھی بگ بینگ نے نہیں خداوند
کر یم نے لفظ ” ُکن “ کہہ کر یک تھی اور ُکن فیکون پر ہمارا پختہ ایمان ہے مگر وہ دورسے سائنسدان بھی جو بگ بینگ
تھیوری پر یقنی نہیں رکھتے آخر اس منصوبے پر 10ارب ڈالر خرچ کر دینے والے ان فضول خرچ سائنس دانوں سے یہ احتجاج
کیوں نہیں کرتے کہ بھوک اور افالس یک ماری ہویئ اس دنیا میں اتین بڑی رقم خوراک اور صاف پاین جیسے وسائل یک
فراہمی پر خرچ یک جایت تو کتنے پسماندہ ممالک اور ان کے کروڑوں لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا تھا۔
سائنس دانوں کے ایک گروپ یک جانب سے یہ خدشہ بھی پیش کیا جا رہا ہے کہ اس بڑے لرزہ خزی دھماکے کے نتیجے میں
زمنی پر ایک بڑا بلیک ہول بھی پیدا ہو سکتا ہے اور بلیک ہول کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ بڑی سے بڑی اشیاء کو
نگل لیتا ہے۔ اگر ایسا کویئ بلیک ہول پیدا ہو تو ہماری خوش گوار خواہش ہے کہ اس کا پہال نواال یہ خطرناک تجربہ کرنے
والے ہزاروں سائنس دان ہی بنیں ،اگر دو چار آدمی کم پڑ جائیں تو ہم اپنے ملک کے چند بے مرصف موقع شناس سیاست
داں بھجوانے پر تیار ہیں۔
Comments