Professional Documents
Culture Documents
امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا
امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا
امام کے پیچھے مقتدی نماز میں فاتحہ یا قرآن مجید کی کوئی سورت یا آیت
تعالی کا حکم ہے ،رسول ہللا صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کی
ٰ نہ پڑھے۔ یہ ہللا
سنت ہے ،صحابہ و ائمہ کبار کا معمول ہے۔ یہ قاعدہ یاد رکھ لیں کہ ہللا
سب سے بڑا ہے ،اس کا فرمان سب سے بڑا ہے ،جو بات قرآن سے ثابت
ہو اس پر اعتراض مسلمان کا کام نہیں۔ قرآن مجید کے مقابلہ میں نہ کوئی
روایت پیش ہو سکتی ہے نہ کسی بزرگ کا قول۔ مسئلہ مسؤلہ میں ہم پہلے
قرآن کریم سے ہدایت لیں گے ،پھر حدیث پاک سے۔
تعالی کا ارشاد ہے :
ٰ ہللا
1
امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا
ظہر اور عصر میں نماز میں قرات آہستہ ہوتی ہے جو سنی نہیں جاتی،
فجر ،مغرب اور عشا کی نمازوں میں قرات با آواز بلند ہوتی ہے جو سنی
جاتی ہے ،گویا قرآن مجید کی دو صورتیں ہوئیں۔
جہری ،یعنی بلند آواز کے ساتھ ،جیسے فجر ،مغرب اور عشا 1۔
سری ،یعنی آہستہ ،جیسے ظہر و عصر۔ 4۔
لہٰ ذا ایک ہی آیت میں دو حکم فرمائے گئے ،ایک یہ کہ کان لگا کر سنو،
یعنی جب آواز آئے ،جیسے جہری نمازوں میں۔ دوسرا چپ رہو ،یعنی جب
آواز نہ آئے ،جیسے سری نمازوں میں۔
حدیث پاک کی توضیح :
حضرت عبادہ بن صامت رضی ہللا عنہ کہتے ہیں کہ رسول ہللا صلی ہللا
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ال صلوة لمن لم یقرا بفاتحة.
جو فاتحہ نہ پڑھے اس کی کوئی نماز نہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا عنہ کی روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا :
من صلی صلوة لم یقرا فیھا بام القرآن فھی خداج ثالثا غیر تام.
(صحیح مسلم)121 : 1 ،
جس نے ایسی نماز پڑھی جس میں فاتحہ نہ پڑھی وہ نماز ناقص ہے۔ تین
بار فرمایا مکمل نہیں۔
2
امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا
حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
جب تم نماز کے لیے آؤ اس وقت ہم سجدے میں ہوں۔
ٰ
الصلوة. فاسجدوا و ال تعدوہ شیاء و من ادرک رکعة فقد ادرک
(سنن ابی داؤد)131 : 1 ،
تو تم بھی سجدہ کرو اور اس کا شمار نہ کرنا ،اور جس نے رکوع پا لیا
اس نے (رکعت) پا لی۔
تعالی کا کالم ہے ،حدیث پاک رسول ہللا صلی ہللا علیہ وآلہ
ٰ قرآن مجید ہللا
وسلم کا فرمان ،فعل یا تقریر ہے ،قرآن مجید میں کمی بیشی جائز نہیں۔
حدیث پاک میں کسی راوی سے غلطی سے کمی بیشی ہو سکتی ہے ،اس
لیے صحت حدیث کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ قرآن کریم کے خالف
نہ ہو۔ قرآن مجید نے فاتحہ پڑھنے کی قید نہیں لگائی بلکہ جو بھی قرآن
مجید جہاں سے آسان ہو پڑھنا فرض قرار دیا ،تو اب فاتحہ کی تخصیص
بطور فرض قرآن کے عموم و اطالق کے خالف ہوگا۔ ہاں مطلق قرآن
پڑھنا ،قرآن مجید کی رو سے فرض ہے اور فاتحہ پڑھنا بحکم حدیث
واجب۔
اگر فاتحہ کے عالوہ قرآن پڑھنا تو فرض ادا ہو جائے گا۔ لیکن واجب رہ
گیا۔ غلطی سے ایسا کیا تو سجدہ سہو کرنے سے نماز درست ہو جائے گی۔
دانستہ کیا تو دوبارہ ادا کرے کہ واجب االعادہ ہے ،فھی خداج کا مفہوم یہی
ہے۔ نماز نہ ہوئی کا مفہوم یہی ہے کہ ناقص ہوئی۔ جس نے امام کے
3
امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا
پیچھے رکوع پا لیا اس نے پوری رکعت پا لی ،اگر فاتحہ پڑھنا فرض ہو تو
رکعت کیسے مل سکتی ہے؟ حاالنکہ باالتفاق رکوع میں ملنے واال رکعت
پا لیتا ہے۔ پتہ چال کہ فاتحہ پڑھنا فرض نہیں۔
امام کے پیچھے فاتحہ یا دیگر قرآن نہ پڑھنے کا حکم حدیث پاک سے :
حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی 1۔
ہللا علیہ وآلہ وسلم جہری قراءت والی نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا :
ھل قرا معی احد منکم انفا فقال رجل نعم یا رسول هللا صلی هللا علیه وآله
وسلم ،قال انی اقول مالی انازع القرآن قال فانتھی الناس عن القراة مع
رسول هللا صلی هللا علیه وآله وسلم فیما جھر فیه ،بالقراة عن الصلوة حین
سمعوا ذلک من رسول هللا صلی هللا علیه وآله وسلم.
ٰ
مشکوة )11 : ( مالک ،احمد ،ابو داؤد ،ترمذی ،نسائی ،ابن ماجه ،بحواله
ابھی ابھی تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قرآن پڑھا؟ ایک شخص نے
عرض کی جی ہاں ،یا رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ،فرمایا میں کہہ
رہا تھا میرے ساتھ قرآن میں جھگڑا کیوں ہو رہا ہے؟ کہا اس کے بعد جب
لوگوں نے یہ بات جہری نمازوں کے بارے میں خود رسول هللا صلی هللا
علیہ وآلہ وسلم سے سن لی تو قراءت خلف االمام ترک کر دی۔
4
امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا
رسول ہللا صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : 2۔
ان المصلی یناجی ربه و ال یجھر بعضکم علی بعض بالقرآن.
ٰ
مشکوة )11 : (احمد بن حنبل ،بحواله
نمازی اپنے رب سے سرگوشی کرتاہے اور ایک دوسرے کے مقابلہ میں
کوئی آواز سے قرآن نہ پڑھے۔
سو اسے دیکھنا چاہیے کہ کیسی سرگوشی کر رہا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا عنہ کہتے ہیں کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ 3۔
وآلہ وسلم نے فرمایا :
انما جعل االمام لیوتم به فاذا کبر فکبروا و اذا قرا فانصتوا.
ٰ
مشکوة )11 : (ابو داؤد ،نسائی ،ابن ماجه ،بحواله
امام صرف اس لیے مقرر کیا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے۔ پھر جب
تکبیر کہے تو تم بھی هللا اکبر کہو ،اور جب قرآن پڑھے تو خاموش رہو۔
فثقلت علیه القراءة ،فلما فرغ قال لعلکم تقرؤن خلف امامکم قلنا نعم یا
رسول هللا صلی هللا علیه وآله وسلم ،قال ال تفعلوا اال بفاتحة الکتاب فانه ال
صلوة لمن لم یقرا بھا.
5
امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا
آپ صلی هللا علیہ وآلہ وسلم پر قرآن پڑھنا دشوار ہوگیا ،جب آپ نماز سے
فارغ ہوئے تو فرمایا ،شاید تم لوگ اپنے امام کے پیچھے قرآن پڑھتے ہو؟
ہم نے عرض کی جی ہاں یا رسول هللا صلی هللا علیہ وآلہ وسلم ،فرمایا ایسا
مت کرو۔ ہاں فاتحہ ،کہ جس نے فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوتی۔
اس کی وضاحت اوپر آ چکی ہے۔
حضرت ابو موسی اشعری رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول 5۔
ہللا صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
نماز پڑھنے لگو تو صفیں سیدھی کرو پھر تم میں سے ایک امامت
کروائے ،جب تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو ،جب غیر المغضوب علیھم
وال الضالین کہے تم آمین کہو۔ هللا تمہاری دعا قبول فرمائے گا۔ فاذا کبر و
رکع فکبروا وارکعوا .واذا قراً فانصتوا.
جب تکبیر کہے اور رکوع کرے تو تکبیر کہو اور رکوع کرو ،اور جب
قرآن پڑھے تم خاموش رہو۔
ٰ
مشکوة ،بحواله صحیح مسلم )71 : (
حضرت رفاعہ بن رافع رضی ہللا عنہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وآلہ 6۔
وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں :
اذا انت قمت فی صلوتک فکبر هللا عزوجل ثم اقراء ما تیسر علیک من
القرآن.
(ابو داؤد)134 : 1 ،
6
امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا
جب نماز میں کھڑے ہو تو هللا اکبر کہو ،پھر جو قرآن میں سے آسان لگے
پڑھو۔
کی نماز بھی صحیح ہوجاتی ہے ۔ ل ٰہذا نماز خواہ سری ہو یا جہری امام کی
قرأت تمام مقتدیوں کی طرف سے کافی ہوگی۔
’’عن جابر بن عبد هللا قال :قال رسول هللا صلي هللا علیه وسلم :من كان له
إمام فقراءة اإلمام له قراءة‘‘( .باب :إذا قرأ اإلمام فأنصتوا ،ص)١٦ :
ترجمہ :حضرت جابر بن عبد هللا رضی هللا عنہ رسو ِل اکرم صلی هللا علیہ
وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں :جس شخص کا کوئی امام ہو تو امام کی
قرأت اس کی بھی قرأت ہے۔
’’عن حیطان بن عبد هللا الرقاشي قال :صلیت مع أبي موسي األشعري ...أن
رسول هللا صلي هللا علیه وسلم خطبنا ،فبین لنا سنتنا و علمنا صلواتنا فقال:
إذا صلیتم فأقیموا صفوفكم ثم لیؤمكم أحدكم؛ فإذا كبر فكبروا و إذا قرأ
فأنصتوا ‘‘...الحدیث (باب التشھد في الصالة)٦٧١ /٦ ،
موسی اشعری رضی هللا عنہ روایت کرتے ہیں کہ
ٰ ترجمہ :حضرت ابو
رسو ِل اکرم صلی هللا علیہ وسلم نے خطبہ دیا اور ہمیں طریقہ بیان کیا اور
ہمیں نماز سکھالئی کہ جب تم نماز ادا کرو تو اپنی صفوں کو درست کرو،
پھر تم میں سے کوئی امامت کرائے ،پس جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر
کہو اور جب وہ قرأت کرے تو بالکل خاموشی سے سنو۔
8