Download as doc, pdf, or txt
Download as doc, pdf, or txt
You are on page 1of 17

‫کورس‪ :‬مٹطالخعہ حدی ث (‪)4622‬‬

‫سمس ر‪ :‬زاں ‪2020،‬ء‬


‫ت ن ش ن‬
‫ام حا ی م ق مب ر ‪1‬‬ ‫ن‬
‫سوال مب ر ‪1‬۔ درج ذی فل کی کی وض احت کری ں ۔‬
‫ن‬
‫الف۔ علم کامع ی وم ہوم‬
‫علم کی تعریف ‪:‬‬
‫ص وْ َر ِۃ َّْ‬
‫الش ْیِئ فِی‬ ‫ُص وْ ُل ُ‬
‫‪            ‬علم ک ا لغ وی مع نی جانن ا ہے ۔ اور اص طالح میں علم کی تعری ف یہ ہے ‪ ’’ :‬ح ُ‬
‫ْال َع ْق ِل‘‘یعنی کسی شے کی صورت کا عقل میں ٓانا ۔‬
‫‪            ‬اعلی حضرت‪ ،‬امام اہلسنت‪ ،‬مجدددین وملت‪ ،‬حضرت عالمہ موالنا امام‪ ‬احمد رضا خ ان‪ ‬علیہ رحمۃ ال رحمن نے‬
‫علم کی تعری ف ی وں بی ان فرم ائی ہے ‪’’ :‬علم وہ ن ور ہے کہ ج و ش ے اس کے دائ رے میں ٓاگ ئی منکش ف‪( ‬یع نی‬
‫ظاہر)‪ ‬ہوگئی اور جس سے‪ ‬متعلِّق‪  ‬ہوگیا اس کی صورت ہمارے ‪ ‬ذہن میں‪ُ  ‬مرْ ت َِس ْم(یعنی نقش)‪ ‬ہوگئی ‘‘ ۔‪ ( ‬ملفوظ ات اعلی‬
‫حضرت ص‪ ۱۶۳ ‬نوری کتب خانہ الہور)‬
‫علم کی اقسام‬
‫‪            ‬علم کی دوقسمیں ہیں ‪ ۱                       :‬۔ ‪ ‬تصور‪ ۲              ‬۔ ‪ ‬تصدیق‬
‫‪ ۱‬۔ تصور ‪:‬‬
‫‪            ‬وہ علم ہے جس میں حکم نہ پایا جائے جیسے ‪  :‬صرف زید کاعلم ۔‬
‫‪ ۲‬۔ تصدیق ‪:‬‬
‫‪            ‬وہ علم ہے جس میں حکم پایاجائے جیسے ‪  :‬زید کھڑاہے یا زید کھڑا نہیں ہے ۔‬
‫حکم کی تعریف ‪  :‬‬
‫‪’’            ‬ن ْسبَۃُ َٔا ْم ٍر اِ ٰلی َٔا ْم ٍر ٓا َخ َر اِی َْجابا ً اَوْ َس ْلباً‘‘ایک شے کی دوسری شے کی طرف نسبت کرنا خ واہ وہ نس بت ایج ابی‬
‫ہویا سلبی جیسے ‪  :‬زَ ْی ٌد عاق ٌل‪ ‬اور‪َ  ‬ز ْی ٌد لَی َ‬
‫ْس بِ َعاقِ ٍل‪ ‬۔‬
‫نسبت ایجابی ‪:‬‬
‫‪            ‬ایک چیز کو دوسری چیز کیلئے ثابت کرنا جیسے ‪  :‬زید کھڑاہے ۔ اس مثال میں کھڑے ہونے کو زید کے ل ئے‬
‫ثابت کیا گیا ہے ۔ ‪ ‬‬
‫نسبت سلبی ‪:‬‬
‫‪             ‬ایک چیز کی دوسری چیز سے نفی کرناجیسے ‪  :‬زید کھڑا نہیں ہے ۔ اس مثال میں کھڑے ہونے کی زید س ے‬
‫نفی کی گئی ہے ۔‬
‫وضاحت ‪:‬‬

‫‪            ‬صرف زید کا علم ’’ تص ور‘‘ ہے ۔ اور جب اس کی ط رف’’ کھ ڑے ہ ونے ‘‘ی ا ’’نہ ہ ونے ‘‘ کی نس بت کی‬
‫جائے ۔ ‪ ‬جیسے ‪  :‬زید کھڑا ہے یا زید کھڑا نہیں ہے تو اسے ’’ تصدیق‘‘ کہتے ہیں ‪ ‬۔ نیز زید اور قی ام کے درمی ان ج و‬
‫نسبت(یعنی تعلق)‪ ‬ہے اسے حکم کہتے ہیں ۔‬

‫‪1‬‬
‫ش‬ ‫ت‬ ‫ت ق ن‬
‫ب۔ علم سےم علق رآ ی آی ات کا رج مہ و رح‬
‫علم کی فضیلت کو بیان کرنے کے سلسلہ میں جتنی بھی باتیں کہی جاسکتی ہیں ان میں سب سے اہم بندہ عاجز کے‬
‫نزدیک یہ ہے کہ علم ہللا کی صفتوں میں سے ایک ہے اور یہ وہ صفت ہے جس کی وضاحت قرآن کریم نے صفت‬
‫حسنی کا بھی ذکر کیا ہے۔ مثالً کہیں‬
‫ٰ‬ ‫ربوبیت کے بعد سب سے زیادہ تاکید سے کی ہے اور اس کے تعلق سے کئی اسماء‬
‫اس نے ہللا کو ’ اَ ْل َعالِ ُم‘(سب کچھ جاننے واال‪ ،‬پوری طرح واقف) کہا ہے توکہیں ’اَ ْل َعلِ ْی ُم‘ (بہت جاننے واال‪،‬ہر چیز کا علم‬
‫رکھنے واال)‪،‬کہیں ’اَ ْل َعاَّل ُم‘ (جاننے واال)‪ ،‬تو کہیں ’اَ ْلخَ بِ ْیرُ‘ (با خبر)‪،‬کہیں ’اَ ْل َح ِک ْی ُم‘ (حکمت واال) تو کہیں ’اَل َّش ِھ ْیدُ‘ (ہر‬
‫چیز پر نگاہ رکھنے واال‪،‬گواہ)‪ ،‬کہیں ’اَللَّ ِطیْفُ ‘ (باریک بیں) تو کہیں ’اَل َّس ِم ْیعُ‘ ( بہت سننے واال) اور ’ اَ ْلبَ ِ‬
‫ص ْیرُ‘ (بہت‬
‫دیکھنے واال) کہا ہے۔‬

‫ان میں سے ہر ایک اسم ہللا کی صفت علم کے ایک خاص رخ کو ہی واضح کرتا ہے۔ قرآن کریم پر نگاہ عمیق رکھنے‬
‫والے علماء یہ بتاتے ہیں کہ کتاب ہللا میں صفات ٰالہیہ کا بار بار بیان اور ان کے تعلق سے اسماء ٰ‬
‫حسنی کا ذکر صرف‬
‫اس حکمت کے پیش نظر ہے کہ بندہ ان صفات میں غور و فکر کرے‪ ،‬انہیں سمجھے اور اپنے اندر جذب کرے تاکہ ہللا‬
‫کی صحیح معرفت اسے حاصل ہو‪ ،‬پھر ان صفات کواپنی ذات میں پیدا کرنے کی حتی المقدور کوشش کرے تاکہ ان‬
‫صفات کے حصول کے بعداس کی ذات انوار ٰالہیہ کا پرتو ہوجائے‪ ،‬ساتھ ہی ان کے تقاضوں کے مطابق اپنی زندگی کو‬
‫ڈھالنے کی کوشش کرے جس سے اس کی زندگی اسالمی اخالق و اقدارکا پیکر بنے۔ مثالً گزشتہ صدی کے ایک اہم‬
‫مصری (‪۱۹۰۶‬۔ ‪۱۹۶۶‬ء) سورۃ الحشر کی آیت نمبر ‪ ۲۴‬کی‬
‫ؒ‬ ‫مفسر قرآن اور اسالم کے ایک عظیم داعی شیخ قطب‬
‫حسنی انسانوں کے دلوں پر حسن کے فیوض کرتے ہیں۔ ان پر غور و تدبر‬
‫ٰ‬ ‫تفسیر میں یوں رقمطراز ہیں ‪’’ :‬یہ اسمائے‬
‫کرکے اور ان صفات کو اپنے اندر پیدا کرکے اور ان سے ہدایت لے کرانسان کمال حاصل کرسکتا ہے کیونکہ ہللا ان‬
‫صفات کے ساتھ متصف ہونا پسند کرتا ہے‪ ،‬تو یہ پسندیدہ صفات ہیں‪ ،‬اوصاف حمیدہ ہیں۔ لہٰ ذا انسان کو ان درجات میں‬
‫بلند ہوتے رہنا چاہیے۔‘‘۔ (فی ظالل القرآن اردو‪ ،‬ادارہ منشورات اسالمی‪ ،‬الہور‪ ،‬سنہ اشاعت ‪۱۹۹۷‬ء‪ ،‬جلد‪ ،۶‬صفحہ‬
‫‪)۳۱۳‬۔‬

‫صاھَا َدخَ َل ْال َجنَّۃَ‘‘ یعنی‬ ‫ہّٰلِل‬


‫احدًا‪َ ،‬م ْن َأحْ َ‬
‫غور کریں تو رسول پاک ﷺ کے ارشاد ’’ِإ َّن ِ تِ ْس َعۃً َو تِ ْس ِع ْینَ اِ ْس ًما‪ِ ،‬ما َءۃً ِإاَّل َو ِ‬
‫تعالی کے ننانوے‪ ،‬ایک کم سو‪ ،‬نام ہیں‪ ،‬جس نے ان کا احصا کیا وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘ (صحیح مسلم‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫’’بالشبہ ہللا‬
‫ابوہریرہ) میں لفظ‬
‫ؓ‬ ‫تعالی و فَضْ ِل َم ْن َأحْ َ‬
‫صاھا‪ ،‬بروایت‬ ‫ٰ‬ ‫کتاب الذکر و الدعاء والتوبۃ و االستغفار‪ ،‬باب في أسما ِء ہللا‬
‫’احصاھا‘ کے استعمال میں بھی اس کی طرف واضح اشارہ موجود ہے لیکن اکثر شارحین حدیث نے ا نھیں حفظ اور یاد‬
‫کرنے تک ہی محدود کردیا اور اسے ہی اتنی بڑی فضیلت کو حاصل کرنے کے لیے کافی سمجھا لیکن دیکھئے حجۃ‬
‫غزالی (‪۱۰۵۸‬۔ ‪۱۱۱۱‬ء) کیا لکھتے ہیں ؟‪’’ :‬تجھے معلوم ہونا چاہیے کہ جو‬
‫ؒ‬ ‫االسالم و المسلمین امام ابوحامد محمد‬
‫تعالی کے معانی سے صرف اسی قدر بہرہ یاب ہے کہ ان کو الفاظ کی حیثیت سے سنتا ہے‪ ،‬لغات‬
‫ٰ‬ ‫شخص اسمائے باری‬
‫تعالی میں ان کے معانی موجود ہیں تو‬
‫ٰ‬ ‫کی کتابوں میں ان کی تفسیر پڑھتا ہے اور دل سے اعتقاد رکھتا ہے کہ ہللا‬
‫سمجھو وہ نہایت ہی کم نصیب اور کم رتبہ کا شخص ہے جس کے اس سرمایہ کے نسبت یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اس‬

‫‪2‬‬
‫کورس‪ :‬مٹطالخعہ حدی ث (‪)4622‬‬
‫سمس ر‪ :‬زاں ‪2020،‬ء‬
‫الغزالی مع اسم اعظم از عالمہ ابوبکر جالل‬
‫ؒ‬ ‫الحسنی از امام محمد‬
‫ٰ‬ ‫کی اصلی کامیابی کا باعث ہوسکے‘‘۔ (شرح اسماء‬
‫سیوطی مترجم عالمہ عبداالحد قادری‪ ،‬زاویہ پبلشرز‪ ،‬الہور‪ ،‬سنہ اشاعت ‪۲۰۰۷‬ء‪ ،‬صفحہ‪)۵۰‬۔‬
‫ؒ‬ ‫الدین‬

‫حسنی کو سمجھنا‪ ،‬ان کا پڑھنایا سننا اور ہللا کی ان صفات پر جن کے ساتھ یہ‬
‫ٰ‬ ‫غزالی کے نزدیک اسمائے‬
‫ؒ‬ ‫یعنی امام‬
‫حسنی منسوب ہیں اعتقاد رکھنا بھی حقیقی کامیابی کے لیے کافی نہیں چہ جائیکہ ان کے الفاظ کو حفظ کرلینا اور‬
‫ٰ‬ ‫اسماء‬
‫تعالی میں مقربین کا حصہ تین امور ہیں ‪)۱( :‬‬
‫ٰ‬ ‫ورد کرتے رہنا کافی سمجھا جائے۔ وہ آگے لکھتے ہیں ‪’’ :‬اسمائے باری‬
‫ان اسماء کے معانی کو مکاشفہ اور مشاہدہ کے طور پر سمجھناتاکہ ایسی دلیل کے ساتھ ان کے حقائق معلوم ہوجائیں‬
‫تعالی کا موصوف ہونا ان پر اس طرح منکشف ہوجائے جس طرح‬
‫ٰ‬ ‫جس میں خطا ممکن نہ ہو۔ اور ان صفات سے ہللا‬
‫انسان کو اپنی صفات کے متعلق یقین ہوجاتا ہے جو اس کو احساس ظاہر سے نہیں بلکہ مشاہدہ باطن سے حاصل ہوتا‬
‫ہے۔۔۔۔ (‪ )۲‬مقربین کا اس کی صفات جالل کو اس عظمت کی نگاہ سے دیکھناجس سے ان کو خود ان صفات سے حتی‬
‫تعالی کے قریب‬
‫ٰ‬ ‫االمکان متصف ہونے کا شوق پیدا ہوجائے تاکہ وہ اس ذریعہ سے نہ صرف باالمکان بلکہ بالصفت ہللا‬
‫ہوجائیں اور اس اتصاف کے ساتھ مالئکہ مقربین سے مشابہت پیدا کرلیں۔ اور جب کسی صفت کی عظمت دل میں سما‬
‫جاتی ہے تو اس کے لیے الزم ہے کہ اس صفت کا شوق اور اس جمال و جالل کا عشق اور اس وصف سے اپنے باطن‬
‫کو آراستہ کرنے کی خواہش پیدا ہو۔ اگر یہ سعادت کامل طور پر حاصل ہونی ممکن ہو تو کامل طور پر ورنہ بقدر‬
‫امکان ضرور شوق پیدا ہو۔ اور اس شوق سے خالی ہونے کے دو ہی باعث ہوسکتے ہیں ؛ یا تو اس وصف کے اوصاف‬
‫جالل و کمال میں سے ہونے کا پورا پورا یقین نہ ہویا دل کسی دوسرے شوق میں ڈوبا ہوا ہو۔۔۔۔۔ (‪ )۳‬مقربین کا تیسرا‬
‫حصہ یہ ہے کہ کسی ممکن حد تک ان صفات کو حاصل کریں اور ان کی خوبیوں سے اپنی باطنی حالت کو آراستہ‬
‫اعلی کا رفیق‬
‫ٰ‬ ‫کریں جس سے بندہ ربانی یعنی رب کا مقرب بن جاتا ہے کیونکہ ان صفات کی بدولت وہ فرشتگان مالئے‬
‫ہوجاتا ہے جو مقربان درگاہ ٰالہی ہیں۔ پس جو شخص ان صفات کے ساتھ کچھ نہ کچھ مشابہت پیدا کرلیتا ہے وہ اس‬
‫تعالی کا قرب حاصل کرلیتا ہے‘‘۔ (حوالہ باال‪ ،‬صفحہ ‪۵۱‬۔ ‪)۵۲‬۔َ‬
‫ٰ‬ ‫مشابہت کی مقدار کے موافق ہللا‬

‫اس لیے علم کی جستجو میں لگنا ایسا ہے گویا ہللا کی اس صفت کے کسی گوشہ کے حصول کی کوشش کرنا یا اسے‬
‫اپنے اندر پیدا کرنے کی مشق کرنا جو یقیناًبقدر حصول بلندی درجات اور قرب ٰالہی کا موجب ہوگا۔ دوسری اہم بات یہ‬
‫ہے کہ اس دنیا میں علم و حکمت کا جتنا حصّہ بھی موجود ہے اس کا حقیقی منبع اور سرچشمہ ہللا ہی کی ذات ہے۔‬
‫فرشتوں کا اعتراف (اَل ِع ْل َم لَنَآ اِاَّل َما َعلَّ ْمتَنَا) (ہمیں کوئی علم نہیں سوائے اس کے جو تو نے ہمیں سکھادیا) (البقرۃ‪)۳۲:‬‬
‫اور رسول پاک ﷺ کا فرمان ’’ِإنَّ َما َأنَا قَا ِس ٌم َوہّٰللا ُ یُ ْع ِط ْي‘‘ (میں تو محض تقسیم کرنے واال ہوں‪ ،‬عطا کرنے واال تو ہللا ہی‬
‫ؓ‬
‫سفیان) اس بات پر شاہد ہے۔‬ ‫ہے) (صحیح بخاری‪،‬کتاب العلم‪ ،‬بابُ َم ْن ی ُِر ِد ہللاُ بِ ِہ َخ ْیرًا یُفَقِّ ْھہُ فِ ْي ال ِّدی ِْن‪ ،‬بروایت معاویہ بن‬
‫اس لیے علم کے فروغ اور اس کی ترویج و شاعت کی کوشش میں لگنارُوئے زمین پر ہللا کے علم و حکمت کی‬
‫ترجمانی کرنے کے مترادف ہے اور اس سے بڑی علم کی کوئی اور فضیلت نہیں ہو سکتی۔‬
‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ض‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫خ‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ن‬
‫سوال مب ر ‪2‬۔ کت اب العلم ب اب مب ر ‪51‬کی حدی ث کا الصہ کات کی صورت می ں حریر کری ں۔ ی ز عہ ِد حا ر می ں اس حدی ث سے ج و رہ ما ی مل ی‬
‫ے اس کی وض احت کری ں۔‬ ‫ہ‬

‫‪3‬‬
‫وتعالی نے حضرت آدم علیہ السالم سے لے کر آخری نبی حضرت محمد صلى هللا عليه وسلم تک‬
‫ٰ‬ ‫ہللا تبارک‬
‫ہزاروں نبیوں و رسولوں کو اپنی کتاب اور اپنے احکام سے نوازااور انہیں انسانیت کی ہدایت کے لیے دنیا میں بھیجا۔‬
‫باوجود اس کے دنیا میں تہذیب وتمدن اور علم وفن کی ترقی نہیں ہوئی اور وہ جہالت ہی میں مبتال رہی۔ان کتابوں نے‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا کہ ان میں دنیا کی تمام چیزوں کو جمع کردیاگیا ہے۔ انبیا ِء سابقین پر نازل کتاب‬ ‫اور نہ ان کے حاملین نے یہ‬
‫اور ان کی تعلیمات کو مخصوص خطہ ‪،‬محدود افراداور ایک خاص عہد تک کے لیے موثر قرار دیتے ہوے عالمہ سید‬
‫سلیمان ندوی رحمة هللا عليه لکھتے ہیں‪:‬‬
‫”تورات کے تمام انبیاء ملک عراق یا ملک شام یا ملک مصر سے آگے نہیں بڑھے‪،‬یعنی اپنے وطن میں جہاں وہ‬
‫رہتے تھے محدود رہے اور اپنی نسل و قوم کے سوا غیروں کو انہوں نے آواز نہیں دی۔ زیادہ تر ان کی کوششوں کا‬
‫مرکز صرف اسرائیل کا خاندان رہا۔عرب کے قدیم انبیاء بھی اپنی اپنی قوموں کے ذمہ دار تھے‪،‬وہ باہر نہیں گئے۔‬
‫عیسی کے مکتب میں بھی غیر اسرائیلی طالب علم کا وجود نہ تھا‪،‬وہ صرف اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑیوں‬
‫ٰ‬ ‫حضرت‬
‫کی تالش میں تھے(متی‪،‬باب‪،۷:‬آیت‪ )۲۴:‬اور غیروں کو تعلیم دے کر وہ بچوں کی روٹی کتوں کے آگے ڈالنا پسند نہیں‬
‫کرتے تھے۔ (انجیل) ہندوستان کے داعی پاک آریہ ورت سے باہر جانے کا خیال بھی دل میں نہیں السکتے تھے‪،‬اگرچہ‬
‫پیرووں کا‬
‫ٴ‬ ‫بدھ کے پیرو بادشاہوں نے اس کے پیغام کو باہر کی قوموں تک پہنچایا‪،‬مگر یہ عیسائیوں کی طرح بعد کے‬
‫فعل تھا ‪ ،‬جو داعی مذہب کی سیرت اس عالم گیر جامعت کی مثال سے خالی ہے۔“(‪)۱‬‬
‫ٰ‬
‫دعوی ہے کہ یہ کتاب‬ ‫اس کے برعکس نبی صلى هللا عليه وسلم پر جو کتاب نازل ہوئی اس کا اعجاز وامتیاز اور‬
‫تعالی نے‬
‫ٰ‬ ‫رہتی دنیا تک اور پوری انسانیت کے لیے ہدایت ورحمت ہے۔ اس میں دنیا کے تمام علوم کا ذکر ہے اور ہللا‬
‫اسے دوسروں تک پہنچانے کا حکم دیا ہے ۔ اس کے رسول صلى هللا عليه وسلم نے بھی بہ ذات خود اس کی اشاعت میں‬
‫بڑی دل چسپی لی ۔ قرآن کہتا ہے‪:‬‬
‫َاب تِ ْبیَانا ً لِّ ُک ِّل َش ْْی ٍء َوہُدًی َو َرحْ َمةً َوبُ ْش َری لِ ْل ُم ْسلِ ِم ْینَ ‪( “.‬النحل‪)۸۹:‬‬ ‫” َونَ َّز ْلنَا َعلَ ْْی َ‬
‫ک ْال ِکت َ‬
‫(اے نبی صلى هللا عليه وسلم ! ہم نے آپ پر جو کتاب نازل کی ہے اس میں ہرچیز کو بیان کردیا ہے اور اس میں‬
‫رحمت وہدایت ہے اور مسلمانوں کے لیے خوش خبری ہے۔)‬
‫وتعالی نے انسانیت کی ہدایت اور اس کے لیے شب وروز گزارنے کے‬
‫ٰ‬ ‫قرآن مقدس میں جگہ جگہ ہللا تبارک‬
‫اصول بیان کیے ہیں ۔ انسانیت کی خوبیوں کو آشکارا کیا ہے اور خامیوں کی نشان دہی کی ہے۔ جو بھی اس پر عمل‬
‫کرے گا اور اس سے استفادہ کرے گا وہ دین و دنیاکی کامیابی سے ہم کنار ہوگااورجو اس کی خالف ورزی کرے گا وہ‬
‫ناکام ونامراد ہوگا۔‬
‫حضور صلى هللا عليه وسلم کو جب نبوت کے منصب عظیم سے نوازا گیا ‪،‬اس وقت جزیرة العرب کی کیا حالت‬
‫تھی؟ قتل وغارت گری‪ ،‬چوری‪ ،‬ڈکیتی ‪،‬قتل اوالد‪ ،‬زنا‪،‬بت پرستی کون سی ایسی برائی تھی جو ان میں پائی نہ جاتی ہو۔‬
‫بعضے وقت بڑے فخریہ انداز میں اسے نجام دیاجاتا تھا۔ ہللا کے رسول نے ان کی تعلیم و تربیت اس انداز سے کی اور‬
‫زندگی گزارنے کے ایسے اصول بتائے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ان کی حالت یکسر بدل گئی اور تہذیبی قدروں سے آشنا‬
‫ہوگئے۔ جہاں اور جدھر دیکھیے لوگ تعلیم وتعلم سے جڑ گئے اور قرآن وحدیث کی افہام وتفہیم میں مشغول ہوگئے۔ اس‬
‫‪4‬‬
‫کورس‪ :‬مٹطالخعہ حدی ث (‪)4622‬‬
‫سمس ر‪ :‬زاں ‪2020،‬ء‬
‫کے لیے باضابطہ ہللا کے رسول نے مسجد نبوی میں ایک مقام کو خاص کردیا ‪،‬جسے صفہ کہا جاتا تھا۔اس میں صحابہ‬
‫کرام فروکش ہوتے اور علم وعمل کی دولت سے ماال مال ہوتے۔ اس کے عالوہ بھی مدینہ میں اور مسجدیں تھیں جن‬
‫میں صحابہ کرام کی تعلیم و تربیت کا انتظام تھا۔ یہاں سے فیضان نبوت حاصل کرکے یہ حضرات دور دراز مقام پر‬
‫پہنچے اور دوسروں کو علوم نبوت سے ماالمال کیا۔ کون کہہ سکتا تھا کہ عرب جیسی اجڈ قوم اتنی جلد علم و تہذیب‬
‫سے اس طرح آراستہ وپیراستہ ہوجائے گی کہ لوگ اس کی تقلید کرنے لگیں گے اور دنیا اس روشنی سے معمور‬
‫ہوجائے گی۔ یہ کارنامہ تھا ہللا کے رسول کا اور ان کے فیوض و برکات کا جس کی نظیر نہیں ملتی۔جیساکہ دنیا پر عہد‬
‫نبوی کے تعلیمی اثرات کا جائزہ لیتے ہوے ایک دانش ور لکھتے ہیں‪:‬‬
‫”عرب میں چھٹی صدی عیسوی میں اسالم سے علم وحکمت کا نیا باب شروع ہوا‪،‬جس نے پندرہویں صدی تک‬
‫ایشیاء‪ ،‬افریقہ اور مغربی یورپ کو دنیا کے نقشہ پر انقالب آفریں خطہ بنادیااور علم وحکمت کی فصل گل سے پورا‬
‫خطہ چمن زار ہوگیا۔ باآلخر ہر چہار سو خوش حالی ‪ ،‬امن و آشتی اور باد بہاری کی خوش گواری سے اہل یورپ بھی‬
‫وسطی کہالیا۔ اس عہد کی ابتدا ء میں کہتے ہیں قرطبہ اور بغداد دنیا کی عظیم ترین دانش گاہ‬
‫ٰ‬ ‫بیدار ہوے۔ یہ عہد عہد‬
‫مانی جاتی تھی۔ قدیم علمی ذخیروں کی تالش کی گئی اور یونان‪ ،‬مصر‪،‬روم اور ہند کی نایاب کتابوں کا ترجمہ کرکے‬
‫ان علمی سرمایوں کو ضائع ہونے سے بچالیا۔ مسلم خلفا ء و سالطین نے اپنی نوازشوں سے علم کی خدمت پر مامور‬
‫دنیا بھر کے دانش وروں اور ماہرین فن کی سرپرستی کی جنہوں نے علم و حکمت میں گراں مایہ کارنامے انجام‬
‫دیے۔“(‪)۲‬‬
‫اہل علم کی فضیلت‬
‫‪ ‬نبی اکرم کو جس دین سے نوازا گیا ‪،‬اس کی ابتدا ہی تعلیم ہوئی۔غارحرا میں سب سے پہلی جو وحی نازل ہوئی‬
‫وہ سورہ علق کی ابتدائی چند آیتیں ہیں ‪،‬جن میں نبی امی کو کہا گیا ‪:‬‬
‫ق‪ .‬ا ْق َرْأ َو َرب َ‬
‫ُّک اَأْل ْک َر ُم‪ .‬الَّ ِذیْ عَلَّ َم بِ ْالقَلَ ِم‪ .‬عَلَّ َم اِإْل ن َسانَ َما لَ ْم‬ ‫”ا ْق َرْأ بِاس ِْم َربِّ َ‬
‫ک الَّ ِذیْ َخلَقَ‪َ .‬خلَ َ‬
‫ق اِإْل ن َسانَ ِم ْن َعلَ ٍ‬
‫یَ ْعلَم‪(“.‬العلق‪)۵-۱:‬‬
‫(پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے سب کو پیدا کیا۔ پیدا کیا اس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے ۔ پڑھ ‪،‬‬
‫تیرارب بڑا کریم ہے۔ جس نے سکھایا علم قلم کے زیعہ۔ اس چیز کا علم دیا انسان کو جو وہ نہیں جانتا ۔)‬
‫علم کے ذریعہ ہی آدمی ایمان ویقین کی دنیا آباد کرتا ہے ‪،‬بھٹکے ہوے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھاتا ہے‪ ،‬بروں‬
‫کو اچھا بناتا ہے‪ ،‬دشمن کو دوست بناتاہے ‪ ،‬بے گانوں کو اپنا بناتا ہے اور دنیا میں امن وامان کی فضاء پیدا کرتا ہے ۔‬
‫یہی وجہ ہے کہ حاملین علم کی قرآن وحدیث میں بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور اسے دنیوی و اخروی بشارتوں سے‬
‫نوازاگیا ہے۔ قرآن کہتا ہے‪:‬‬
‫”یَرْ فَ ِع ہَّللا ُ الَّ ِذ ْینَ آ َمنُوا ِمن ُک ْم َوالَّ ِذ ْینَ ُأوتُوا ْال ِع ْل َم َد َر َجا ٍ‬
‫ت َوہَّللا ُ بِ َما تَ ْع َملُونَ َخبِ ْیرٌ‪(“.‬المجادلہ‪)۱۱:‬‬
‫(تم میں سے جو لوگ ایمان الئے اور جن کو علم عطا ہواہے ‪،‬ہللا اس کے درجات بلند فرمائے گا اورجو عمل تم‬
‫کرتے ہو اس سے ہللا باخبر ہے۔)‬
‫دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے‪:‬‬

‫‪5‬‬
‫”قُلْ ہَلْ یَ ْست َِویْ الَّ ِذ ْینَ یَ ْعلَ ُمونَ َوالَّ ِذ ْینَ اَل یَ ْعلَ ُمونَ ِإنَّ َما یَتَ َذ َّک ُر ُأوْ لُوا اَأْل ْلبَاب‪( “.‬الزمر‪)۹:‬‬
‫(اے نبی‪،‬کہہ دیجیے کیاعلم رکھنے والے(عالم) اور علم نہ رکھنے والے (جاہل) برابر ہوسکتے ہیں۔نصیحت تو‬
‫وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔)‬
‫وتعالی فرماتا ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫تاریکی اور روشنی کی مثال دے کر عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گیاہے۔ ہللا تبارک‬
‫ص ْی ُر َأ ْم ہَلْ تَ ْست َِویْ ُّ‬
‫الظلُ َم ُ‬
‫ات َوالنُّور‪(“.‬الرعد‪)۱۶:‬‬ ‫”قُلْ ہَلْ یَ ْست َِویْ اَأل ْع َمی َو ْالبَ ِ‬
‫(کہہ دیجیے‪،‬کیا برابر ہوسکتے ہیں اندھا(جاہل) اور دیکھنے واال(عالم) یا کہیں برابر ہوسکتا ہے اندھیرا اور‬
‫اجاال۔)‬
‫اس طرح کی بہت ساری آیتیں ہیں جن میں عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گیا ہے اور ان کے درجات کے‬
‫تعین کے ساتھ مسلمانوں کو حصول علم کے لیے ابھارا گیا ہے۔‬
‫‪ ‬اس سلسلے میں کثرت سے احادیث بھی وارد ہوئی ہیں جن میں اہل علم کی ستائش کی گئی ہے اور انہیں انسانیت‬
‫کا سب سے اچھا آدمی قرار دیا گیا ہے۔ ہللا کے رسول فرماتے ہیں‪:‬‬
‫” َوفَضْ ُل ْال َعالِ ِم َعلَی ْالعابِ ِد ‪َ ،‬کفَضْ لِی َعلَی اَ ْدنَا ُک ْم‪ ،‬ثُ َّم قَا َل َرسُو ُل ہّٰللا ِ صلى هللا عليه وسلم‪ :‬اِ َّن ہّٰللا َ َو َماَل ِئ َکتَہُ َوا ْھ َل‬
‫اس ْالخَ ی َْر‪)۳(“.‬‬ ‫ض ْینَ َحتَّی النَّ ْملَةَ فِی جُحْ ِرھَا َو َحتَّی ْالحُوْ تَ لَیُ َ‬
‫ص ُّلوْ نَ عَلی ُم َعلِّ ِم النَّ ِ‬ ‫ت َو ااْل َرْ ِ‬
‫السَّمٰ َوا ِ‬
‫(اورعابد پر عالم کی فضیلت ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ادنی پر۔ یقینا ہللا عزوجل ‪،‬اس کے‬
‫حتی کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلی تک لوگوں کے معلم کے لیے بھالئی کی‬
‫فرشتے اور آسمان وزمین والے ٰ‬
‫دعاء کرتی ہیں۔)‬
‫ایک دوسرے حدیث کے راوی حضرت عبدہللا بن عمر رضی ہللا عنہ ہیں ‪،‬وہ بیان کرتے ہیں‪:‬‬
‫ْجدَ‪ ،‬فَاِ َذا ھ َُو بِ َح ْلقَتَی ِْن‪ :‬اِحْ داھُ َما یَق َر ٴُون‬ ‫ہّٰللا‬
‫ُج ِر ِہ‪ ،‬فَ َد َخ َل ْال َمس ِ‬ ‫”خ ََر َج َرسُوْ ُل ِ صلى هللا عليه وسلم َذاتَ یَوْ ٍم ِمن بَ ِ‬
‫عض ح َ‬
‫ی‪ُ :‬ک ٌّل عَلی َخی ٍْر‪ٰ ،‬ھ ٴُواَل ِء یَقُ َر ٴُونَ ْالقُرْ آنَ َویَ ْد ُعوْ نَ ہّٰللا ‪ ،‬فَاِ ْن َشا َء‬ ‫ہّٰللا‬
‫الُقُرْ آنَ َویَ ْد ُعوْ نَ ‪َ ،‬وااْل ُ ْخ َری یَتَ َعلَّ ُمونَ َویُ َعلِّ ُمونَ ‪ .‬فَقَا َل النَّبِ ُ‬
‫اَ ْعطَاھُ ْم َواِ ْن َشا َء َمنَ َعھُ ْم‪َ ،‬و ٰھ ٴواَل ِء یَتَ َعلَّ ُموْ نَ َویُ َعلِّ ُموْ نَ ‪َ ،‬واِنَّ ّما بُ ِع ْث ُ‬
‫ت ُم َعلِّماً‪ ،‬فَ َجلَ َ‬
‫س َم َعھُ ْم‪)۴(“.‬‬
‫(ایک دن رسول ہللا اپنے حجرے سے باہر تشریف الئے اور مسجد (نبوی) میں داخل ہوے‪،‬وہاں دوحلقے بیٹھے‬
‫ہوے تھے‪،‬ایک حلقہ قرآن کی تالوت کررہا تھا اورہللا سے دعاء کررہا تھا‪،‬دوسرا تعلیم وتعلم کا کام سرانجام دے رہا تھا۔‬
‫آپ نے فرمایا‪ :‬دونوں بھالئی پر ہیں۔ یہ حلقہ قرآن پڑھ رہا ہے اور ہللا سے دعاء کررہاہے ۔ ہللا چاہے تو اس کی دعاء‬
‫قبول فرمائے ‪ ،‬یا نہ فرمائے۔دوسرا حلقہ تعلیم وتعلم میں مشغول ہے (یہ زیادہ بہتر ہے) اور میں تو معلم بناکر بھیجا گیا‬
‫ہوں۔ پھر یہیں بیٹھ گئے۔)‬
‫اہل علم کاصرف یہی مقام ومرتبہ نہیں ہے کہ اسے دنیا کی تمام چیزوں پر فضیلت دی گئی ہے اور اس کام میں وہ‬
‫تعالی کی تمام مخلوق اس کے لیے دعاء کرتی رہتی ہے‪،‬بلکہ اس کا مقام ومرتبہ یہ بھی ہے‬
‫ٰ‬ ‫جب تک مصروف ہیں ‪ ،‬ہللا‬
‫کہ ہللا کے رسول نے انہیں انبیاء کا وارث اور جانشین قرار دیا ہے ‪:‬‬
‫ب ْال ِع ْل ِم‪َ ،‬واِ َّن‬ ‫” م ْن سلَک طَریْقا ً ی ْبتَغی ف ْیہ ع ْلما ً سلَ ہّٰللا‬
‫ض ُع اَجنِحْ تَھَا َرضًی لَطَالِ ِ‬ ‫ک ُ بِہ طَ ِریْقا ً اَلَی ْال َجنَّ ِة‪َ ،‬واِ َّن ْال َمالِئ َکةَ لَتَ َ‬ ‫َ َ‬ ‫َ َ َ ِ َ ِ ِ ِ ِ‬
‫ض َحتَّی ْال ِحیتَانُ فَی ْال َما ِء‪َ ،‬وفَضْ ُل ْال َعالِم َعلَی ْال َعابِ ِد‪َ ،‬کفَضْ ِل ْالقَ َم ِر َعلَی َساِئ ِر‬ ‫ت َو َم ْن فِی ااْل َرْ ِ‬‫ْال َعالِ َم لَیَ ْستَ ْغفِ ُر لَہُ َم ْن فِی ال َّس َموا ِ‬
‫‪6‬‬
‫کورس‪ :‬مٹطالخعہ حدی ث (‪)4622‬‬
‫سمس ر‪ :‬زاں ‪2020،‬ء‬
‫ان ْالع ُْل َما َء َو َرثَةُ ااْل َ ْنبِیَا ِء‪ ،‬اِ َّن ااْل َ ْنبِیَا َء لَ ْم ی َُو ِّرثُوْ ا ِد ْینَارًا َواَل ِدرْ ھَماً‪ ،‬اِنَّ َما َو َّرثُوا ْال ِع ْل َم‪ ،‬فَ َم ْن اَخَ َذ بِہ فَقَ ْد اَ َخ َذ بِ َحظّ‬ ‫ْال َک َوا ِک ِ‬
‫ب‪َّ ،‬‬
‫َوافَ ٍر‪)۵(“.‬‬
‫(جو کوئی حصول علم کی غرض سے راستہ طے کرے تو خدا اس کے سبب اسے جنت کی ایک راہ چالتا ہے۔‬
‫فرشتے طالب علم کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھادیتے ہیں اور یقینا عالم کے لیے آسمان اور زمین کی تمام چیزیں‬
‫مغفرت طلب کرتی ہیں‪،‬یہاں تک کہ وہ مچھلیاں بھی جو پانی میں ہیں ۔ عابد پر عالم کو ایسی فضیلت حاصل ہے جیسی‬
‫چاند کو تمام تاروں پر۔بالشبہ علماء ہی پیغمبروں کے وارث ہیں۔پیغمبروں نے ترکہ میں نہ دینار چھوڑا ہے اور نہ‬
‫درہم ۔ انہوں نے تو صرف علم کو اپنے ترکہ میں چھوڑا۔ پس جس کسی نے علم حاصل کیا اس نے ہی حصہ کامل پایا۔)‬
‫علم کا دائرہ بہت وسیع ہے‬
‫قرآن میں جہاں بھی علم کا تذکرہ کیا گیا ہے ‪،‬بیش تر مقامات پر مطلق علم کاذکر ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے‬
‫کہ علم اپنی ذات کے اعتبار سے ال محدود ہے اور اسالم نے اس کی المحدودیت کو برقرار رکھتے ہوے حکم دیا ہے کہ‬
‫علم حاصل کرو۔حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا بیان کرتے ہیں‪:‬‬
‫ہّٰللا‬
‫ضةٌ عَا ِدلَةٌ‪(“.‬‬ ‫”قَا َل َرسُوْ ُل ِ صلى هللا عليه وسلم اَ ْل ِع ْل ُم ثَالثَةٌ‪ :‬فَ َما َو َرا َء ٰذلِ َ‬
‫ک فَھُ َو فَضْ لٌ‪ ،‬آیَةٌ ُمحْ َک َمةٌ‪ ،‬اَوْ ُسنَّةٌ قَاِئ َمةٌ اَوْ فَ ِر ْی َ‬
‫‪)۶‬‬
‫فریضہ عادلہ‪،‬اس کے سوا‬
‫ٴ‬ ‫(ہللا کے رسول صلى هللا عليه وسلم نے فرمایا ‪:‬علم تین ہیں‪:‬آیت محکمہ‪،‬سنت قائمہ اور‬
‫جو کچھ بھی ہے وہ زائد ہے۔)‬
‫ایک دوسری حدیث میں جو تفصیل آئی ہے ‪،‬اس سے بھی یہی واضح ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا‪:‬‬
‫ض ْع ِع ْل ِم ْی فِ ْی ُک ْم اِل َع ِّذبَ ُک ْم‪ْ ،‬اذھَبُوْ ا فَقَ ْد‬ ‫”ی ْبع ُ ہّٰللا‬
‫ث ُ ْال ِعبَا َد یَوْ َم ْالقِیَا َم ِة‪ ،‬ثُ َّم یُ َمیِّ ُز ْال ُعلَ َما َء فَیَقُوْ لُ‪ :‬یَا َم ْع َش َر ْال ُعلَ َما ِء اِنِّی لَ ْم اَ َ‬ ‫َ َ‬
‫ت لَ ُک ْم‪)۷(“.‬‬
‫َغفَرْ ُ‬
‫تعالی لوگوں کو زندہ کرے گا اور اس میں علماء کو ممتاز کرے گا اور فرمائے گا اے پڑھے‬
‫ٰ‬ ‫(قیامت کے دن ہللا‬
‫‪،‬جاو تم سب کی مغفرت کردی۔)‬
‫لکھے لوگو!میں نے اپنا علم تمہارے اندر اس لیے نہیں رکھا کہ میں تمہیں عذاب دوں ٴ‬
‫عالم کہتے ہی ہیں پڑھے لکھے لوگوں کو ‪،‬چاہے اس نے قرآن کی تعلیم حاصل کی ہو یا حدیث کی‪ ،‬فقہ کی کی ہو‬
‫یا کالم ومنطق کی ۔ سائنس کی ڈگری لی ہو یا میڈیکل سائنس کی ۔ نیچرل سائنس پڑھاہو یاآرٹس کے مضامین ۔ سارے‬
‫کے سارے پڑھے لکھے لوگوں میں شمار کیے جائیں گے۔ یہ ایسی چیز ہے جو انسان کو ہمیشہ کام آئے گی‪ ،‬مقصد‬
‫نیک ہو اور اس کا صحیح استعمال کیا جائے تو اس کی بدولت وہ دین ودنیا کی ساری نعمت اور دولت حاصل کرسکتا‬
‫ہے۔‬
‫‪ ‬قرآن میں متعدد مقامات پر اہل ایمان کوعلم حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے‪ ،‬اس میں دینی علوم بھی شامل ہیں‬
‫اورسائنسی علوم بھی۔ بلکہ ان آیات کی تالوت کی جائے تویہ واضح ہوتا ہے کہ آج ہم جن چیزوں کوسائنس وٹکنالوجی‬
‫کاعلم کہتے ہیں‪،‬اسکے حصول پر خاص طور سے توجہ دالئی گئی ہے۔ جگہ جگہ فرمایاگیاہے‪ :‬تم اپنی صالحیتوں کو‬
‫کام میں کیوں نہیں التے؟ تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے؟ تم قرآنی آیات پرغور کیوں نہیں کرتے ؟ تمہارے اندر‬
‫شعورکیوں نہیں ہے؟ تم سمجھ کر کیوں نہیں پڑھتے؟ میری نشانی پرغور کیوں نہیں کرتے ؟ گویاکہ قرآن مجید میں لفظ‬

‫‪7‬‬
‫علم مختلف اشتقاقی صورتوں میں‪ ۷۷۸‬مرتبہ واردہواہے ۔ان سے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ قرآن مجیدکی رو سے‬
‫علم کو غیر معمولی بلکہ فوق الکل اہمیت حاصل ہے اور جب یہ لفظ جزوی ترادف کے ساتھ دوسرے مرادفات‬
‫(مثالتعقلون‪ ،‬یتدبرون‪ ،‬تفہمون‪ ،‬تشعرون‪).‬وغیرہ کے ساتھ مل کریاان کی جگہ آتاہے توان سے علم کے طریقوں‪ ،‬غایتوں‬
‫اورجہتوں کاپتہ چلتاہے ۔(‪)۸‬‬
‫انسان کو جس چیز سے واسطہ پڑ سکتا ہے ‪،‬اس کے حل کے لیے معلومات حاصل کرنا اور اس میں مہارت پیدا‬
‫تعالی نے جب پیدا کیا تو انہیں وہ تمام علوم عطاکیے جن سے‬
‫ٰ‬ ‫کرنا اسالم کو مطلوب ہے۔حضرت آدم علیہ السالم کو ہللا‬
‫ان کا واسطہ پڑ سکتا تھا۔قرآن کریم میں اس کی صراحت موجودہے‪:‬‬
‫َک الَ ِع ْل َم لَنَا‬‫وا ُسب َْحان َ‬ ‫صا ِدقِیْن‪ .‬قَالُ ْ‬ ‫ضہُ ْم َعلَی ْال َمالَِئ َک ِة فَقَا َل َأنبُِئونِ ْی بَِأ ْس َماء ہَُؤالء ِإن ُکنتُ ْم َ‬ ‫” َوعَلَّ َم آ َد َم اَأل ْس َماء ُکلَّہَا ثُ َّم ع ََر َ‬
‫ال َألَ ْم َأقُل لَّ ُک ْم ِإنِّ ْی َأ ْعلَ ُم َغ ْْی َ‬
‫ب ال َّس َم َوا ِ‬
‫ت‬ ‫ال یَا آ َد ُم َأنبِْئہُم بَِأ ْس َمآِئ ِہ ْم فَلَ َّما َأنبََأہُ ْم بَِأ ْس َمآِئ ِہ ْم قَ َ‬
‫ک َأنتَ ْال َعلِ ْی ُم ْال َح ِک ْی ُم‪ .‬قَ َ‬
‫ِإالَّ َما َعلَّ ْمتَنَا ِإنَّ َ‬
‫ض َوَأ ْعلَ ُم َما تُ ْب ُدونَ َو َما ُکنتُ ْم تَ ْکتُ ُمونَ ‪( “.‬البقرہ‪)۳۱:‬‬
‫َواَألرْ ِ‬
‫تعالی نے آدم کو تمام چیزوں کے نام اور پھر سامنے کیا ان سب چیزوں کوفرشتوں کے‪،‬پھر ہللا‬
‫ٰ‬ ‫(اور سکھایا ہللا‬
‫بتاو مجھ کو ان کے نام اگر تم سچے(جانتے) ہو؟فرشتوں نے کہا‪ :‬تیری ذات پاک ہے ‪،‬ہم کو نہیں‬
‫نے فرمایا ان سے ٴ‬
‫معلوم‪ ،‬مگر جتنا تونے مجھے علم دیا ہے۔ بے شک تو ہی ہے اصل جاننے واال اور حکمت واال۔ پھر ہللا نے آدم سے‬
‫بتاو تم ان کو ان چیزوں کے نام ۔ جب انہوں نے بتادیا ان کے نام ‪،‬توہللا نے فرشتوں سے کہا‪ :‬کیا میں نے تم سے‬
‫کہا‪ :‬ٴ‬
‫نہیں کہا تھا کہ میں خوب جانتا ہوں ان چیزوں کو جو آسمان و زمیں میں چھپی ہوئی ہیں اور میں یہ بھی جانتا ہوں جو‬
‫ظاہر ہے اور جو چیز چھپی ہوئی ہے۔)‬
‫حکمت ودانائی کی بات مومن کی گم شدہ پونجی ہے‬
‫انسان کو جب ہللا نے اپنا خلیفہ بنایا ہے(البقرہ‪ )۲۰:‬تو ضروری ہے کہ وہ خالفت کا حق اداکرے۔یہ کام ایسے ہی‬
‫انجام نہیں پائے گا۔اس کے لیے بہت سی چیزوں کی ضرور ت پڑتی ہے اور ہر طرح کے لوگ درکار ہوتے ہیں‪،‬تاکہ وہ‬
‫اپنے علم وہنر اور تجربے کی روشنی میں اور خالفت کی ضرورتوں کو پورا کریں۔اگر نفع بخشی کا سامان کسی‬
‫دوسری جگہ سے حاصل ہو تو یہ بھی ضروری ہے کہ اسے وہاں سے حاصل کیاجائے ‪،‬اگر وہ اس کے حصول میں‬
‫کوتا ہی کرے گا تو خدا کے نزدیک قابل مواخذہ ہوگا۔ہللا کے رسول نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے ‪:‬‬
‫ضالَّةُ ْال ُم ْٴو ِم ِن‪ ،‬فَ َحی ُ‬
‫ْث َو َج َدھَافَھ َُو اَ َح ُّ‬
‫ق بِھَا‪)۹(“.‬‬ ‫”اَ ْل َکلِ َمةُ ْال ِح ْک َمةُ َ‬
‫(حکمت ودانائی کی بات مومن کی گم شدہ پونجی ہے ‪،‬پس جہاں بھی پائے حاصل کرنا چاہیے)‬
‫حکمت کے معنی ڈکشنری میں وہی ملیں گے جو سائنس کے معنی ہیں۔ یعنی اشیاء اور چیزوں کی حقیقتوں پر‬
‫غور کرنا ‪،‬اسے پہچاننا اور سمجھنا ‪،‬اس کے خواص اور تاثیرات کو معلوم کرنے کے بعد اس کو اپنے لیے اور‬
‫دوسروں کے لیے نفع بخش بنانا اور استعمال میں النا ہے۔‬
‫علم سے انسان کے اندر اخالق حمیدہ پیدا ہوتے ہیں‬
‫جب انبیا ِء سابقین کے عہد میں علم واخالق کو عمومی وسعت حاصل نہ ہوسکی تو کیسے ممکن تھا کہ دنیا میں‬
‫اخالق وکردار اور تہذیب وتمدن کا بول باالہو۔انبیاء کی آمد سے ان کے اندر کسی قدر تہذیبی قدروں کو ترقی ضرور‬
‫‪8‬‬
‫کورس‪ :‬مٹطالخعہ حدی ث (‪)4622‬‬
‫سمس ر‪ :‬زاں ‪2020،‬ء‬
‫ہوئی ‪،‬مگر جلدہی وہ فنا ہوگئی۔اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ پہلے بھی جہالت میں مبتال تھے اور بعد میں بھی یہ‬
‫صورت برقرار رہی۔ بڑے اچھے انداز میں اس نکتہ کی وضاحت کرتے ہوے عالمہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫”دنیامیں بابل واسیریا‪،‬ہندوستان وچین‪،‬مصر وشام ‪،‬یونان وروم میں بڑے بڑے تمدن پیدا ہوے۔اخالق کے بڑے‬
‫بڑے نظریے قائم کیے گئے۔ تہذیب وشائستگی کے بڑے بڑے اصول بنائے گئے۔ اٹھنے بیٹھنے‪ ،‬کھانے پینے‪،‬ملنے‬
‫جلنے‪،‬پہننے اوڑھنے‪ ،‬رہنے سہنے‪،‬سونے جاگنے‪ ،‬شادی بیاہ‪،‬مرنے جینے‪ ،‬غم ومسرت‪ ،‬دعوت ومالقات‪،‬مصافحہ‬
‫وسالم ‪،‬غسل و طہارت‪ ،‬عیادت وتعزیت‪ ،‬تبریک وتہنیت‪ ،‬دفن وکفن کے بہت سے رسوم ‪ ،‬آداب ‪ ،‬شرائط اور ہدایات‬
‫مرتب ہوے اور ان سے ان قوموں کی تہذیب‪ ،‬تمدن‪ ،‬اور معاشرت کے اصول بنائے گئے۔ یہ اصول صدہا سال میں بنے‬
‫پھر بھی بگڑ گئے۔صدیوں میں ان کی تعمیر ہوئی تاہم وہ فنا ہوگئے۔“(‪)۱۰‬‬
‫لیکن قرآن ‪ ،‬پیغمبر عربی صلى هللا عليه وسلم نے صالح معاشرہ کی تعمیر وتشکیل کا جودرس دیا وہ اس وقت‬
‫سے لے کر آج تک اپنی اصل صورت میں برقرار ہے اور جب تک مسلمانوں کے اندر دینی وعلمی روح زندہ رہے گی‬
‫‪،‬دنیا میں اخالقی اقدار کی باال دستی رہے گی۔ مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ خودکو اخالق کا نمونہ بنائیں ۔ گھر میں‬
‫ہوں یا بازار میں‪ ،‬محفل میں ہوں یا مجلس میں‪ ،‬ہر جگہ اخالق کا مظاہر ہ کرنا اسالم کو مطلوب ہے۔ہللا کے رسول نے‬
‫ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا ۔ دوست ہو یا دشمن ‪،‬اپنے ہو کہ پرائے ‪،‬سب کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کیا۔اگر علم‬
‫حاصل کرنے کے بعد آدمی کے اندر یہ صفت پیدا نہ ہوئی تو ایسا علم کسی کام کانہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہللا کے رسول‬
‫فرمایا کرتے تھے‪ :‬ب ُِع ْث ُ‬
‫ت اِل ُتَ ِّمم ُحسْن ااْل ِ ْخاْل ق۔‪)۱۱( ‬آپ کے اس وصف خاص کی گواہی قرآن مقدس میں بھی موجود‬
‫لی ُخلق َعظَیْم۔‪( ‬القرآن) (آپ اخالق کے اعلی مقام پر فائز ہیں۔)ایک مرتبہ چند صحابہ رضوان هللا عليهم‬ ‫ہے‪:‬اِنَّ َ‬
‫ک لَ َع ٰ‬
‫اجمعين حضرت عائشہ رضى هللا تعالى عنها کی خدمت میں حاضر ہوے اور ان سے دریافت کیا کہ ہمیں حضور کے‬
‫ق َرسُوْ ل ہّٰللا صلى هللا عليه وسلم َکا نَ ْالقُرْ آنَ ۔‪)۱۲( ‬‬
‫اخالق اور معموالت کے بارے میں کچھ بتائیے۔انہوں نے فرمایا‪ُ  :‬خ ْل َ‬
‫درستی اخالق کی دعاکرتے رہتے ہیں۔ آئینہ میں اپنا چہرہ‬ ‫ٴ‬ ‫(آپ کا اخالق ہمہ تن قرآن تھا۔) باوجود اس کے آپ ہر وقت‬
‫یکھتے تو ہللا کا شکر اداکرتے اور خدا کے حضور یہ دعا کرتے‪ :‬اَ ٰللّھُ َّم اَحْ َس ْنتَ خَ ْلقِ ْی فَاَحْ ِسنَ ُخ ْلقِی۔(‪( )۱۳‬اے ہللا میرے‬
‫اخالق کو بھی اسی طرح اچھا کردے جس طرح تونے میرے چہرے کو اچھا بنایا ہے۔) آپ سے کسی نے پوچھا کون‬
‫لوگ اچھے ہیں؟ آپ نے فرمایا‪”:‬اِ َّن َخیَا َر ُک ْم اَحْ َسنُ ُک ْم اَ ْخاَل قاً۔“(‪ )۱۴‬سب سے بہتر انسان وہ ہے جس کا اخالق سب سے‬
‫اچھا ہے۔) ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا‪:‬اَ ْک َم ُل ْال ُم ْٴو ِمنِ ْینَ اِ ْی َمانا ً اَحْ َسنُھُم ُخ ْلقاً۔‪()۱۵( ‬سب سے زیادہ کامل االیمان وہ‬
‫شخص ہے جس کا اخالق سب سے اچھا ہو۔) اس طرح بہت سی احادیث ہیں جن میں اخالق کی اہمیت کو واضح کیا گیا‬
‫ہے۔‬
‫اخالق صرف یہی نہیں ہے کہ لوگوں سے ہنستے مسکراتے مل لیا اور اس کے ساتھ کچھ اچھی باتیں کرلیں ۔ یہ‬
‫تو اخالق کا جزوہے ‪ ،‬ان کے عالوہ بھی اور بہت ساری باتیں اخالق میں داخل ہیں۔ یہ خوبیاں اسی وقت پیدا ہوں گی‬
‫جب ہم علم سے آراستہ و پیراستہ ہوں گے۔ ہللا اور اس کے بتائے ہوے راستہ پر چلیں گے۔اگر ایک آدمی اچھے اخالق‬
‫کا حامل ہے تو کسی کے ظلم کو برداشت کرنا بھی اخالق کے دائرہ میں آتا ہے۔ بے صبری کا مظاہرہ کرنااورانتقام لینا‬
‫بے اخالقی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تلخ باتوں پر صبر کریں ۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا کرنے سے وہ ہم نوا بن‬

‫‪9‬‬
‫جائے ۔ غصہ کرنا‪،‬بد لہ لینا‪،‬کسی کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش نہ آنا‪،‬کسی کا ما ل غصب کرنا‪،‬چوری ڈکیتی کرنا یہ‬
‫مذموم حرکتیں ہیں ‪،‬جو بداخالقی ہے۔چنانچہ ہللا کے رسول نے فرمایا‪:‬‬
‫ک نَ ْف َسہُ ِع ْند َْالغ َ‬
‫َضب‪)۱۶(“.‬‬ ‫ْس ال َّش ِد ْی ُد بِالصُّ رْ عَة اِنَّ َماال َّش ِد ْی ُد اَلَّ ِذیْ یَ ْملِ ُ‬
‫”لَی َ‬
‫( طاقت وروہ آدمی نہیں ہے جوکشتی میں کسی کو پچھاڑدے‪ ،‬بلکہ وہ آدمی طاقت ور ہے‪ ،‬جوغصہ کے وقت‬
‫اپنے نفس کوقابو میں رکھے۔)‬
‫ایک دوسری حدیث میں ہللا کے رسول نے فرمایا‪:‬‬
‫ت‪َ ،‬واَل فِ ْقہٌ فِی ال ِّد ْی ِن‪)۱۷(“.‬‬
‫ق‪ُ :‬حسْنُ َس ْم ٍ‬ ‫”خَصْ لَت ِ‬
‫َان اَل تَجْ تَ ِم َع ِ‬
‫ان فِی ُمنَافِ ٍ‬
‫(دوعادتیں ایسی ہیں جو منافق میں جمع نہیں ہوتیں ۔ ایک اچھی عادت اور دوسرے دینی بصیرت۔)‬
‫دنیا کے لیے نفع بخش بنا جائے‬
‫اسالم حکم دیتا ہے کہ اپنے آپ کو ضرر رساں نہیں بلکہ نفع بخش بنا ٴو۔ایک انسان کے قول وعمل سے دوسرے‬
‫انسان کو تکلیف نہ پہنچے۔ اچھی اور بھلی باتوں کا تمیز وہی انسان کرسکتا ہے جس کے اندر شعور وفراست ہوگی اور‬
‫یہ خوبی بغیر علم کے پیدا نہیں ہوسکتی۔عقل و شعور تو جاہل کے پا س بھی ہے۔مگر جو فراست ایک پڑھے لکھے کو‬
‫حاصل ہوگی وہ جاہل کو ہر گز حاصل نہیں ہوسکتی۔اس کے دن رات کے عمل میں ‪،‬اس کی گفتگو میں ‪،‬اس کے‬
‫معامالت میں ‪ ،‬اس کے فیصلہ لینے میں ایسی بات کا صادر ہونا جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچ جائے کوئی بعید‬
‫نہیں ہے۔ اگر اسے اس کا ادراک ہوجائے تو وہ جاہل ہی کیوں رہے گا۔ ہللا کے رسول کی حدیث سے بھی اس بات کو‬
‫اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔آپ نے فرمایا‪:‬‬
‫ق فِی َسبِی ِْل ہّٰللا ‪)۱۸(“.‬‬
‫”ان َمثَ َل ِع ْل ٍم اَل یَ ْنفَ ُع َک َمثَ ِل َک ْن ٍز اَل یُ ْنفَ ُ‬
‫َّ‬
‫( جو علم نفع بخش نہ ہو اس کی مثال اس خزانے جیسی ہے جس میں سے خداکی راہ میں کچھ خرچ نہ کیا‬
‫جائے۔)‬
‫نیز آپ نے یہ بھی فرمایا‪:‬‬
‫اس اَ ْنفَ َعھُ ْم لِلنَّ ِ‬
‫اس‪)۱۹(“.‬‬ ‫” َخ ْی ُر النَّ ِ‬
‫( ہللا کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ آدمی وہ ہے جو سب سے زیادہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے واالہے۔)‬
‫جب آدمی کے اندر یہ ذوق و جذبہ ہوگا تو یقینا وہ کوشش کرے گا کہ وہ علم حاصل کرے اور دوسروں تک‬
‫پہنچائے۔‬
‫علم نافع کی دعا ء بھی کرتے رہنا چاہیے‬
‫نبی اکرم صلى هللا عليه وسلم دنیا کے لیے معلم بناکر بھیجے گئے ۔ آپ کی وجہ سے دنیا میں علم کی روشنی‬
‫پھیلی اورانسانیت کو روشن اور واضح سمت مال ۔باوجود اس کے ہر وقت ہللا کے حضور زیادتی علم اور استقامت علم‬
‫کے ساتھ علم نافع کی دعا ء کرتے ہیں‪:‬‬
‫ک ِم ْن ِع ْل ٍم اَل یَ ْنفَعُ‪َ ،‬و ِم ْن ُدعَا ٍء اَل یُ ْس َمعُ‪َ ،‬و ِم ْن قَ ْل ٍ‬ ‫ٰ‬
‫ب اَل یَ ْخ َش ُع َو ِم ْن نَ ْف ٍ‬
‫س اَل تَ ْشبَعُ۔“(‪)۲۰‬‬ ‫”اَللّہُ َّم اِنِّی اَ ُعوْ ُذبِ َ‬

‫‪10‬‬
‫کورس‪ :‬مٹطالخعہ حدی ث (‪)4622‬‬
‫سمس ر‪ :‬زاں ‪2020،‬ء‬
‫(اے ہللا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس علم سے جو نفع بخش نہ ہو اور اس دعاء سے جو سنی نہ جائے اور اس دل‬
‫سے جس میں خشوع نہ ہو اور اس نفس سے جو کبھی سیر نہ ہو۔)‬
‫علم نافع اور رزق وسیع کے لیے ہللا کے حضور یہ دعاء بھی کرتے تھے‪:‬‬
‫ک ِع ْلما ً نَافِعاً‪َ ،‬ع َمالً ُمتَقَبَّالً‪َ ،‬و ِر ْزقا ً طَیِّباً‪)۲۱(“.‬‬ ‫ٰ‬
‫”اَللّھُ َّم اِنّی اَسَْئلُ َ‬
‫(اے ہللا! میں تجھ سے علم نافع‪ ،‬عمل مقبول اور پاک رزق کی درخواست کرتا ہوں۔)‬
‫کیوں کہ ہللا نے انہیں ایسا کرنے کا حکم دیا تھا‪:‬‬
‫ٰ‬
‫ما‪(“.‬طہٰ ‪)۱۱۴:‬‬‫” َوقُل رَّبِّ ِز ْدنِ ْی ِع ْل‬
‫(اے پیغمبر کہو‪:‬اے میرے رب !میرا علم زیادہ کر۔)‬
‫” َربَّنَا آتِنَا فِ ْی ال ُّد ْنیَا َح َسنَةً َوفِ ْی اآل ِخ َر ِة َح َسنَةً‪(“.‬البقرہ‪)۲۰۱:‬‬
‫(اے میرے رب! تو مجھے دنیا وآخرت دونوں میں اچھا بنا۔)‬
‫‪ ‬ہللا نے انسان کو جو علم عطا کیا ہے ‪،‬اسے ہی حرف آخر نہ سمجھا جائے ‪ ،‬بلکہ زیادتی علم کی کوشش کرتے‬
‫رہنا چاہیے اوراسے اپنی محنت اور جدو جہد کا نتیجہ نہ سمجھنا چاہیے بلکہ عطا ِء خدا وندی سمجھتے ہوئے یہ‬
‫اعتراف کرتے رہنا چاہیے‪:‬‬
‫ک َما لَ ْم تَ ُک ْن تَ ْعلَ ُم َو َکانَ فَضْ ُل ہّللا ِ َعلَ ْْی َ‬
‫ک َع ِظیْما‪( “.‬النساء‪)۱۱۳:‬‬ ‫” َوعَلَّ َم َ‬
‫(اور تجھ کوسکھائیں وہ باتیں جو نہیں جانتا تھااور یہ تیرے رب کا فضل عظیم ہے۔)‬
‫‪ ‬جس کو علم وحکمت سے نواز دیاگیا‪،‬گویا اسے دین ودنیا کی دولت حاصل ہو گئی۔ ضروری ہے کہ جو علم عطا‬
‫تعالی نے اہل علم کی ستائش کرتے ہوے‬
‫ٰ‬ ‫کیا گیا ہے اس کی قدر کی جائے اور اس کا صحیح استعمال کیا جائے۔ باری‬
‫فرمایا‪:‬‬
‫” َو َمن یُْؤ تَ ْال ِح ْک َمةَ فَقَ ْد ُأوتِ َی خَ ْْیراً َکثِیْراً َو َما یَ َّذ َّک ُر ِإالَّ ُأوْ لُ ْ‬
‫وا اَأل ْلبَا ِ‬
‫ب‪( “.‬البقرہ‪)۲۶۹:‬‬
‫(اور جس کو حکمت مل گئی اس کو بڑی خوبی کی چیز مل گئی اور نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل‬
‫رکھتے ہیں۔)‬
‫اسی طرح ہللا کے رسول صلى هللا عليه وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫اس ٌم‪َ ،‬وہّٰللا ُ یُ ْع ِطی‪)۲۲(“.‬‬ ‫ہّٰللا‬
‫” َمن ی ُِر ِد ُ بِہ َخ ْیرًایُفَقِّ ْہہُ فِی ال ِّد ْی ِن‪َ ،‬واِنَّ َما اَنَا قَ ِ‬
‫(ہللا جس کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے اور میں تو صرف تقسیم کرنے واال‬
‫ہوں اور دینے واال ہللا ہے۔)‬
‫عہد نبوی میں علوم وفنون کی ترقی‬
‫عہدنبوی کے مدنی معاشرہ پرغورکریں کہ کس کس مپرسی کے عالم میں مسلمان مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ‬
‫پہنچے ۔ کھانے کھانے کوترستے تھے‪ ،‬تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا میسر نہیں تھا‪،‬رہنے کوگھرنہیں تھے ‪ ،‬لیکن ان کے‬
‫اندرحصول علم کاجذبہ تھا۔ اسی وجہ سے مختصرعرصے میں وہ نمونہ زندگی بن گئے اورزندگی کے ہرشعبے میں‬
‫کمال پیدا کرکے اپنی ضرورتوں کی تکمیل کرنے لگے ۔ چوں کہ ہللا کے رسول صلى هللا عليه وسلم ایک بڑے پیغمبر‬

‫‪11‬‬
‫ہونے کے ساتھ ایک عظیم حکم راں بھی تھے اورکوئی بھی حکومت اس وقت تک صحیح طریقے سے نہیں چل سکتی‬
‫جب تک کہ اس کے اندرمختلف صالحیت کے افراد موجودنہ ہوں۔ضروری ہے کہ یہاں طبیب بھی ہوں اور سرجن‬
‫بھی ‪،‬یہ بھی ضروری ہے کہ وہاں بڑھی بھی ہوں اور لوہاربھی ‪ ،‬کاشت کار بھی ہوں اور صنعت گربھی ۔جس وقت‬
‫حضورصلى هللا عليه وسلم مسجدنبوی کی تعمیر کروارہے تھے ‪ ،‬صحابہ کرام مختلف کاموں پر مامور تھے ۔ کسی کو‬
‫اینٹ بنانے اور ڈھونے کا حکم دیا تو کسی کو گارا بنانے کا ‪،‬تو کسی کو کوئی دوسرے کام پر مامور کیا۔ ایک صحابی‬
‫نے خواہش ظاہر کی کہ میں دوسرا کام بھی کرسکتا ہوں ‪،‬آپ نے منع کیا اور فرمایا ‪:‬نہیں تم گارا گھولو‪،‬تم اس کام سے‬
‫خوب واقف ہو۔ (‪ )۲۳‬گویاکہ حضورکے زمانہ میں ہرفن کے ماہرین موجودتھے ۔ کچھ لوگوں نے علمی کام کیے ‪ ،‬کچھ‬
‫لوگوں نے دست کاریاں سیکھیں‪ ،‬بعض صحابہ نے دوسری قوموں کی زبان اور ان کی تہذیب و تمدن کامطالعہ کیا۔ (‬
‫‪)۲۴‬اس وقت کی ضرورت کے مطابق کوئی ایسا علم اورفن نہ تھاجس میں صحابہ کرام پیچھے رہے ہوں۔ عملی علم‬
‫ہویافنی ‪ ،‬سبھی میں صحابہ کرام ماہراور یکتا ِء روزگارتھے۔ مندرجہ ذیل اقتباس سے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا‬
‫ہے۔ عالمہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫”ایک طرف عقال ِء روزگار ‪،‬اسرار فطرت کے محرم ‪،‬دنیا کے جہاں باں اور ملکوں کے فرماں روااس درس گاہ‬
‫سے تعلیم پاکر نکلے ہیں‪ ،‬جنہوں نے مشرق سے مغرب تک ‪،‬افریقہ سے ہندوستان کی سرحد تک فرماں روائی کی اور‬
‫ایسی فرماں روائی جو دنیا کے بڑے سے بڑے شہنشاہ اور حکم راں کی سیاست وتدبر اور نظم ونسق کے کارناموں کو‬
‫منسوخ کردیتی ہے ۔ دوسری طرف خالد بن ولید رضى هللا عنه‪ ،‬سعدبن ابی وقاص رضى هللا عليه‪ ،‬ابو عبیدہ بن جراح‬
‫رضى هللا عنه‪ ،‬عمروبن العاص رضى هللا عنه ہیں جنہوں نے مشرق ومغرب کی دوظالم و گناہ گار اور انسانیت کے لیے‬
‫لعنت سلطنتوں کا چند سال میں قلع قمع کر دیتے ہیں اور دنیا کے وہ فاتح اعظم اور سپہ ساالر اکبر ثابت ہوتے ہیں‪ ،‬جن‬
‫کے فاتحانہ کارناموں کی دھاک آج بھی دنیا میں بیٹھی ہوئی ہے۔ تیسری طرف وہ صحابہ ہیں جنہوں نے صوبوں اور‬
‫شہروں کی کامیاب حکومت کی اور خلق خدا کو آرام پہنچایا۔ چوتھی طرف علماء وفقہاء کی صف ہے۔ انہوں نے اسالم‬
‫کے فقہ وقانون کی بنیاد ڈالی اور دنیا کے مقنن میں خاص درجہ پایا۔ پانچویں صف عام ارباب روایت وتاریخ کی ہے‪،‬جو‬
‫احکام ووقائع کے ناقل وراوی ہیں۔ ایک چھٹی جماعت ان ستر صحابہ (اصحاب صفہ) کی ہے جن کے پاس سررکھنے‬
‫کے لیے مسجد نبوی کے چبوترے کے سوا کوئی جگہ نہ تھی ۔ ساتواں رخ دیکھو! ابو ذررضى هللا عنه ہیں‪ ،‬ان کے‬
‫ٰ‬
‫زہدوتقوی‬ ‫نزدیک آج کا کھانا کل کے لیے اٹھا رکھنا بھی شان توکل کے خالف تھا۔سلمان فارسی رضى هللا عنه ہیں جو‬
‫کی تصویر ہیں ۔ عبدہللا بن عمر رضى هللا عنه ہیں جن کے سامنے خالفت پیش ہوئی تو فرمایا کہ اگر اس میں مسلمانوں‬
‫کا ایک قطرہ خون گرے تو مجھے منظور نہیں ۔ مصعب بن عمیر رضى هللا عنه ہیں جو اسالم سے پہلے قاقم وحریر‬
‫کے کپڑے پہنتے اور جب اسالم الئے تو ٹاٹ اوڑھتے اور پیوند لگے کپڑے پہنتے تھے اور جب شہادت پائی تو کفن‬
‫کے لیے پورا کپڑا تک نہ مال۔ عثمان بن مطعون رضى هللا عنه ہیں جو اسالم سے پہلے صوفی کہالتے ہیں۔ ابودردا‬
‫رضى هللا عنه ہیں کہ جن کی راتیں نمازوں میں اور دن روزوں میں گزرتے تھے۔ ایک اور طرف دیکھو! یہ بہادر کار‬
‫پردازوں اور عرب کے مدبرین کی جماعت ہے ۔کاروباری دنیا میں دیکھو تو مکہ کے تاجر اور بیوپاری ہیں اور مدینہ‬
‫کے کاشت کار اور کسان بھی ہیں اور بڑے بڑے دولت مند بھی ہیں۔ ان نیرنگیوں اور اختالف استعداد کے باوجود ایک‬
‫‪12‬‬
‫کورس‪ :‬مٹطالخعہ حدی ث (‪)4622‬‬
‫سمس ر‪ :‬زاں ‪2020،‬ء‬
‫چیز تھی جو مشترک طورسے سب میں نمایاں تھی۔وہ ایک بجلی تھی جو سب میں کوند رہی تھی‪،‬کوئی بھی ہوں توحید‬
‫تعالی کی رضا‬
‫ٰ‬ ‫کا نور‪ ،‬اخالق کی رو‪،‬قربانی کا ولولہ ‪،‬خلق کی ہدایت اور رہنمائی کا جذبہ اور باآلخر ہر کام میں خدا‬
‫طلبی کا جو ش ہر ایک کے اندر کام کررہاتھا۔“(‪)۲۵‬‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫سوال مب ر ‪3‬۔ س ن ابی داؤد کے مؤلف اور کت اب کا عارف حریر کری ں۔‬
‫امام ابوداود نے اہل مکہ کے نام اپنے مکتوب میں کتاب السنن کے منہج اورطریقہ ٔ تالیف پرمفصل روشنی ڈالی ہے‪ ،‬ذیل‬
‫‪:‬میں ہم اس کے کچھ فقرات ٓاپ کے منہج وطریقٔہ تالیف کو بیان کرنے کے لئے نقل کررہے ہیں‬
‫میں نے ہرباب میں صرف ایک یا دو حدیثیں نقل کی ہیں‪ ،‬گو اس باب میں اور بھی صحیح حدیثیں موجود ہیں‪ ،‬اگر ان‪۱- ‬‬
‫سب کو میں ذکر کرتا تو ان کی تعداد کافی بڑھ جاتی‪ ،‬اس سلسلہ میں میرے پیش نظر صرف قرب منفعت رہاہے۔‬
‫اگر کسی روایت کے دویا تین طرق سے ٓانے کی وجہ سے میں نے کسی باب میں اسے مکرر ذکرکیا ہے تو اس کی ‪۲-‬‬
‫وجہ صرف سیاق کالم کی زیادتی ہے ‪ ،‬بسااوقات بعض سندوں میں کوئی لفظ زائد ہوتاہے جو دوسری سند میں نہیں‬
‫ہوتا ‪ ،‬اس زائد لفظ کو بیان‪ ‬کرنے کے لئے میں نے ایسا کیا ہے۔‬
‫بعض طویل حدیثوں کو میں نے اس لئے مختصر کردیا ہے کہ اگر میں انہیں پوری ذکر کرتاتوبعض سامعین (وقراء)‪۳-‬‬
‫کی نگاہ سے اصل مقصد اوجھل رہ جاتا‪ ،‬اور وہ اصل نکتہ نہ سمجھ پاتے‪ ،‬اس وجہ سے‪ ‬میں نے زوائد کو حذف‪ ‬کرکے‬
‫صرف اس ٹکڑے کو ذکر کیا ہے ‪ ،‬جو اصل مقصد سے مناسبت ومطابقت رکھتا ہے۔‬
‫کتاب السنن میں میں نے کسی متروک الحدیث شخص سے کوئی روایت نہیں نقل کی ہے‪ ،‬اور اگر صحیح روایت کے ‪۴-‬‬
‫نہ ہونے کی وجہ سے اگر کسی باب میں کوئی منکر روایت ٓائی بھی ہے‪ ،‬تو اس کی نکارت واضح کردی گئی ہے۔‬
‫میری اس کتاب میں اگر کوئی روایت ایسی ٓائی ہے جس میں شدید ضعف پایا جاتاہے‪ ‬تو اس کا یہ ضعف بھی میں نے ‪۵-‬‬
‫واضح کردیا ہے‪ ،‬اور اگر کسی روایت کی سند صحیح نہیں اور میں نے اس پرسکوت اختیار کیا ہے تو وہ میرے‬
‫نزدیک صالح ہے‪ ،‬اور نسبتہً ان میں بعض بعض سے اصح ہیں۔‬
‫اس کتاب میں بعض روایتیں ایسی بھی ہیں جو‪ ‬غیر متصل‪ ،‬مرسل اور مدلس‪ ‬ہیں‪ ،‬بیشتر محدثین ایسی روایتوں کو ‪۶-‬‬
‫مستند و معتبر مانتے ہیں اور ان پر متصل ہی کا حکم لگاتے ہیں۔‬

‫میں نے کتاب السنن میں صرف‪ ‬احکام کی حدیثوں کو شامل کیا ہے‪ ‬اس میں زہد اور فضائل اعمال وغیرہ سے متعلق ‪۷-‬‬
‫حدیثیں درج نہیں کیں‪ ،‬یہ کتاب کل چارہزار ٓاٹھ سو احادیث پرمشتمل ہے‪ ،‬جو سب کی سب احکام کے سلسلہ کی ہیں۔‬
‫مام بقاعی ابو داود کے مذکورہ باال قول ‪ ( :‬جو ان کے مکتوب بنام اہل مکہ میں موجود ہے) کو ذکر کرنے کے بعد‬
‫لکھتے ہیں‪ :‬ان کے اس قول کی روسے سنن میں وارد احادیث کی پانچ قسمیں بنتی ہیں‪:‬‬
‫‪ -۱‬صحیح جس سے انہوں نے صحیح لذاتہ مراد لیاہوگا۔‬
‫‪ -۲‬صحیح کے مشابہ جس سے ان کی مراد صحیح لغیرہ ہوگی۔‬
‫‪ -۳‬درجہ صحت کے قریب غالبا ً اس سے وہ حسن لذاتہ مراد لیتے ہوں گے۔‬
‫‪ -۴‬جس میں شدید ضعف ہو۔‬

‫‪13‬‬
‫‪ -۵‬ان کے اس قول‪’’ :‬وما سكتت عنه فهو صالح‘‘‪( ‬جن احادیث پر میں نے سکوت اختیار کیا ہے وہ صالح ہیں) سے سنن‬
‫میں وارد احادیث کی ایک پانچویں قسم ان احادیث کی سمجھی جاتی ہے جو بہت زیادہ کمزور نہ ہوں‪،‬اس قسم کی‬
‫روایتیں اگر تائید و تقویت سے محروم ہوں تو وہ صرف اعتبار کے قبیل سے ہیں‬
‫‪ -۶‬لیکن اگر انہیں کسی کی تائید و تقویت مل جائے تو بحیثیت مجموعی وہ ’’حسن لغیرہ‘‘ کے درجہ پر ٓاجاتی ہیں‪ ،‬اور‬
‫استدالل واحتجاج کے الئق بن جاتی ہیں‪ ،‬اس طرح ایک چھٹی قسم بھی وجود میں ٓاجاتی ہے۔‬
‫امام ذہبی کابیان ہے کہ ابوداود کی کتاب میں وارد احادیث کے مختلف درجے ہیں‪ٓ ،‬اپ نے ابن داسہ کا یہ قول نقل کیا‬
‫کہ’’میں نے ابو داود کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے اپنی سنن میں صحیح اور اس سے قریب کی احادیث ذکر کی‬
‫ہیں‪ ،‬اور اگر ان میں شدید ضعف ہے تو میں نے اس کو بیان کر دیا ہے‘‘‪ ،‬ذہبی کہتے ہیں‪’’ :‬میں کہتا ہوں‪ :‬امام رحمہ‬
‫ہللا نے اپنے اجتہاد کے مطابق اسے پورا پورا بیان کیا اور شدید ضعف والی احادیث کو جس کا ضعف قابل برداشت‬
‫نہیں تھا بیان کردیا‪ ،‬اور قابل برداشت خفیف ضعف سے اغماض برتا‪ ،‬تو ایسی حالت میں ٓاپ کے کسی حدیث پر سکوت‬
‫سے یہ الزم نہیں ٓاتا کہ یہ حدیث ٓاپ کے یہاںحسن کے درجے کی ہو‪،‬بالخصوص جب ہم حسن کی تعریف پر اپنی جدید‬
‫اصطالح کا حکم لگائیں جو سلف کے عرف میںصحیح کی اقسام میں سے ایک قسم کی طرف لوٹتی ہے‪ ،‬اور جمہور‬
‫علماء کے یہاں جس پر عمل واجب ہوتا ہے‪ ،‬یا جس سے امام بخاری بے رغبتی برتتے ہیں اور امام مسلم اسے لے لیتے‬
‫ہیں‪ ،‬وبالعکس‪ ،‬تو یہ مراتب صحت کے ادنی مرتبہ میں ہے‪ ،‬اور اگر اس سے بھی نیچے گر جائے تو احتجاج واستدالل‬
‫کی حد سے خارج ہوجاتی‪ ،‬اور حسن اور ضعیف کے درمیان متجاذب قسم بن جاتی ہے‪ ،‬تو ابو داود کی کتاب السنن میں‪:‬‬
‫‪ -۱‬سب سے اونچا درجہ ان روایات کا ہے جن کی تخریج بخاری ومسلم دونوں نے کی ہے‪ ،‬اور جو تقریبا ً نصف کتاب‬
‫پر مشتمل ہے۔‬
‫‪ -۲‬اس کے بعد وہ حدیثیں ہیں جن کی تخریج بخاری ومسلم (شیخین) میں سے کسی ایک نے کی‪ ،‬اور دوسرے نے نہیں‬
‫کی ہے۔‬
‫‪ -۳‬پھر اس کے بعد وہ روایات ہیں جن کو بخاری ومسلم (شیخین) نے روایت نہیں کیا‪ ،‬اور وہ جید االسناد ہیں اور علت‬
‫وشذوذ سے محفوظ ہیں۔‬
‫‪ -۴‬پھر وہ روایات ہیں جس کی اسناد صالح ہے‪ ،‬اور علماء نے ان کو دو یا اس سے زیادہ ضعیف طرق سے ٓانے کی‬
‫وجہ سے قبول کر لیا ہے کہ ان میں سے ہر سند دوسرے کے لئے تقویت کا باعث ہے۔‬
‫‪ -۵‬پھراس کے بعد وہ احادیث ہیں جن کی سندوں کا ضعف رواۃ کے حفظ میں کمی کی وجہ سے ہے‪ ،‬ایسی احادیث کو‬
‫ابو داود قبول کر لیتے ہیں اور اکثر اس پر سکوت اختیار فرماتے ہیں۔‬
‫‪ -۶‬ان کے بعد سب سے ٓاخری درجہ ان احادیث کا ہے جن کے رواۃ کا ضعف واضح ہوتاہے‪ ،‬ایسی روایتوں پر وہ عام‬
‫طور سے خاموش نہیں رہتے ہیں‪ ،‬ان کا ضعف ذکر کردیتے ہیں۔‬
‫‪ -۷‬اور اگرکبھی خاموش رہتے بھی ہیں تو اس کی وجہ اس کے ضعف کی شہرت و نکارت ہوتی ہے‪ ،‬وہللا اعلم‘‘‬
‫(السیر ‪۱۳‬؍ ‪)۲۱۵ -۲۱۴‬۔‬

‫‪14‬‬
‫کورس‪ :‬مٹطالخعہ حدی ث (‪)4622‬‬
‫سمس ر‪ :‬زاں ‪2020،‬ء‬
‫خ ت لن‬ ‫ض‬ ‫ن‬ ‫شن‬ ‫ّ‬ ‫ن‬
‫سوال مب ر‪4‬۔ کت اب اآلداب کے ب اب اول اور دی گر احادی ث کی رو ی می ں ب ی کری م ح رت دمحم رسول ہللا ا م ا ب ی ی ن صلی ہللا علی ہ وع ٰلی‬
‫خ‬
‫آلہ و اصحاب ہ وسلم کے حلم و ا الق کی وض احت کری ں‬
‫نبی کریم‪  ‬ﷺ اعلى اقدار‪،‬حسن اخالق‪،‬نرم خوئی ونرم گوئی‪ ،‬امانت وصداقت‪ ،‬تہذیب وشائستگی‪،‬متانت وسنجیدگی‪ ،‬حلم‬
‫وبردباری‪،‬عفو ودرگزری‪،‬حسن معاملہ‪ ،‬شفقت وکرم‪،‬بلن د وب اال ک ردار‪  ،‬حس ن‪  ‬اوص اف‪  ‬اور ع الی اط وار وع ادات کے‬
‫پیکر تھے۔ ہمارے نبی‪  ‬ﷺ نبوت‪  ‬سے قبل‪   ‬بھی اخالقی خوبیوں سے ممتار تھے‪  ،‬اور جب نبوت س ے س رفراز ہ وئے‬
‫تو آپ ﷺ مکم ل ط ور س ے‪  ‬ق رآن وح دیث کے تن اظر میں اخالقی ش رافتوں س ے بہ رہ ور ہوگ یے۔ اور ہللا تع الى نے‪ ‬‬
‫ہمارے تاجدار مدینہ مصطفقی ﷺ کے اخالق فاضلہ ک و اپ نی کت اب‪  ‬میں‪  ‬ثبت کردی ا ہے‪ ،‬جیس ا کہ ہللا تع الى ک ا فرم ان‬
‫ك لَ َعلَى ُخلُ ٍ‬
‫ق َع ِظي ٍْم“‪( .‬سورہ قلم‪)4 :‬‬ ‫ہے ‪َ ”:‬وِإنَّ َ‬

‫ترجمہ‪ ”:‬اور بے شک تو بہت بڑے (عمدہ) اخالق پر ہے“۔‬


‫اور نبی کریم ﷺکا فرمان ہے ‪”:‬بُ ِع ْث ُ ُأ‬
‫ار َم اَأْل ْخاَل ِ‬
‫ق“‪(.‬موطأ امام مالک‪،‬ح‪)2633:‬‬ ‫ت َأ ْن تَ ِّم َم َم َک ِ‬

‫ترجمہ‪” :‬میں‪  ‬اعلى اخالقی شرافتوں کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں“۔‬

‫جب حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا سے نبی کریم ﷺکے اخالق کی بابت پوچھا گیا تو فرمایا ‪َ ”:‬كانَ ُخلُقُ هُ ْالقُ رْ آنَ “‪(.‬مس ند‬
‫احمد)‬

‫ترجمہ‪” :‬آپ کاخلق قرآن ہے“۔‬

‫امام ابوداود رحمہ ہللا نے اپنی کتاب ”سنن ابی داود “ میں نبی کریم ﷺ کے‪   ‬اخالق کریم انہ س ے متعل ق‪  ‬حض رت انس‬
‫رضی ہللا عنہ کے قصہ کے ساتھ چیدہ چیدہ احادیث بیان کیا ہے‪ ،‬جو درج ذیل ہیں‪-:‬‬

‫اس ُخلُقً ا‪ ،‬فََأرْ َس لَنِي يَوْ ًم ا‬


‫ص لَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َس لَّ َم ِم ْن َأحْ َس ِن النَّ ِ‬‫‪ -1‬حضرت انس رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں‪َ " :‬ك انَ َر ُس و ُل هَّللا ِ َ‬
‫ت َحتَّى َأ ُم َّر َعلَى‬ ‫ال ‪ :‬فَخَ َرجْ ُ‬ ‫َب لِ َما َأ َم َرنِي بِ ِه نَبِ ُّي هَّللا ِ َ‬
‫ص لَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َس لَّ َم‪ .‬قَ َ‬ ‫ت ‪َ :‬وهَّللا ِ اَل َأ ْذهَبُ ‪َ .‬وفِي نَ ْف ِسي َأ ْن َأ ْذه َ‬
‫لِ َحا َج ٍة‪ ،‬فَقُ ْل ُ‬
‫ك فَقَ ا َل ‪:‬‬ ‫اي ِم ْن َو َراِئي‪ ،‬فَنَظَرْ ُ‬
‫ت ِإلَ ْي ِه َوهُ َو يَ ْ‬
‫ض َح ُ‬ ‫صلَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم قَابِضٌ بِقَفَ َ‬ ‫ص ْبيَا ٍن َوهُ ْم يَ ْل َعبُونَ فِي الس ِ‬
‫ُّوق‪ ،‬فَِإ َذا َرسُو ُل هَّللا ِ َ‬ ‫ِ‬
‫ُول هَّللا ِ‪ .‬قَا َل َأنَسٌ ‪َ :‬وهَّللا ِ لَقَ ْد خَ َد ْمتُهُ َس ْب َع ِسنِينَ – َأوْ تِ ْس َع ِسنِينَ – َما‬
‫ت ‪ :‬نَ َع ْم‪َ ،‬أنَا َأ ْذهَبُ يَا َرس َ‬ ‫ك "‪ .‬قُ ْل ُ‬ ‫” يَا ُأنَيْسُ ‪ْ ،‬اذهَبْ َحي ُ‬
‫ْث َأ َمرْ تُ َ‬
‫ت ‪ :‬هَاَّل فَ َع ْلتَ َك َذا َو َك َذا ؟”( سنن ابی داود‪ ،‬ح‪)4773:‬‬
‫ْت ‪ :‬لِ َم فَ َع ْلتَ َك َذا َو َك َذا ؟ َواَل لِ َش ْي ٍء تَ َر ْك ُ‬
‫صنَع ُ‬ ‫َعلِ ْم ُ‬
‫ت قَا َل لِ َش ْي ٍء َ‬

‫ترجمہ‪”:‬حضرت انس‪  ‬رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ لوگوں میں‪  ‬باعتبار اخالق ‪ ‬کےس ب س ے اچھے تھے‪،‬‬
‫ایک دن نبی کریم ﷺ نے مجھے کسی ضرورت کے پیش نظر (باہر)بھیجا‪ ،‬ت و میں نے کہ اکہ و ہللا میں نہیں ج اؤں گ ا‪،‬‬
‫اور دل میں یہ بات تھی کہ آپ ﷺکے حکم کی تعمیل کے لیے(ضرور) جاؤں گ ا۔ (بع د ازاں ) حض رت أنس‪  ‬رض ی ہللا‬
‫عنہ فرماتے ہیں کہ ‪ ‬جب ‪ ‬میں گھر سے نکال تو بازار میں کھیل رہے کچھ ‪ ‬بچوں کے پاس سے گذر ہوا‪ ،‬پس اچانک نبی‬
‫کریمﷺ میرے پیچھے س ے م یرے س رکی گ دی پک ڑ ل یے‪   ،‬جب میں نے ‪ ‬دیکھ ا ت و ن بی ک ریم ﷺ ہنس رہے ہیں‪،‬اور‬
‫فرمایا‪«:‬اے انس! ‪ ‬جاؤ جہاں جانے ک ا حکم دی ا تھ ا»پس میں نے کہ ا کہ ہ اں میں ج اؤں گ ا‪  ‬یارس ول ہللا۔ ‪ ‬حض رت انس‬

‫‪15‬‬
‫رض ی ہللا عنہ فرم اتے ہیں کہ ‪ ‬میں نے ن بی ک ریم ﷺ کی س ات س ال ی ا ن و س ال خ دمت کی ‪ ، ‬مجھے نہیں معل وم کہ‬
‫میرےکیے ہوئے کام پر کبھی سوال کیے ہوں‪ ،‬اور نہ کیے ہوئے کام پر میری سرزنش اور مالمت کی ہو۔‬

‫‪ -2‬نبی کریم صلی ہللا علیہ و سلم کا فرمان ہے‪ِ”:‬إ َّن ْالهَ ْد َ‬
‫ي الصَّالِ َح‪َ ،‬وال َّس ْمتَ الصَّالِ َح‪َ ،‬وااِل ْقتِ َ‬
‫صا َد ُج ْز ٌء ِم ْن َخ ْم َس ٍة َو ِع ْش ِرينَ‬
‫ج ُْز ًءا ِمنَ النُّبُ َّو ِة”( سنن ابی داود‪ ،‬ح‪)4776:‬‬

‫ترجمہ”یقینا راست روی‪  ،‬اور حسن خلق‪ ،‬اور میانہ روی نبوت کے پچیسویں اجزاء کا ایک جزو ہے” –‬

‫صلَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم خَا ِد ًما َواَل ا ْم َرَأةً قَ ُّ‬


‫ط”‪(.‬سنن ابی داود‪ ،‬ح‪)4789:‬‬ ‫ب َرسُو ُل هَّللا ِ َ‬
‫ض َر َ‬ ‫‪-3‬ع َْن عَاِئ َشةَ َعلَ ْيهَا ال َّساَل ُم قَالَ ْ‬
‫ت ‪َ " :‬ما َ‬

‫ترجمہ‪ :‬حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا فرماتی ہیں کہ‪”:‬ہللا کے نبی صلی ہللا علیہ و سلم نے کبھی کسی مالزم ک و ض رب‬
‫نہیں ماری اور‪  ‬نہ کسی عورت کو”‪-‬‬

‫صلَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َسلَّ َم ِإ َذا بَلَ َغهُ َع ِن ال َّر ُج ِل َّ‬


‫الش ْي ُء لَ ْم يَقُ لْ ‪َ :‬م ا بَ ا ُل فُاَل ٍن يَقُ و ُل ؟‬ ‫ان النَّبِ ُّي َ‬ ‫ض َي هَّللا ُ َع ْنهَا قَالَ ْ‬
‫ت ‪َ :‬ك َ‬ ‫‪َ -4‬ع ْن َعاِئ َشةَ َر ِ‬
‫َولَ ِك ْن يَقُو ُل ‪َ ” :‬ما بَا ُل َأ ْق َو ٍام يَقُولُونَ َك َذا َو َك َذا ؟ "‪(.‬سنن ابی داود‪ ،‬ح‪)4788:‬‬

‫ترجمہ‪ :‬حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا عرض کرتی ہیں کہ”نبی ک ریم ص لی ہللا علیہ و س لم کی جن اب میں کس ی ش خص‬
‫سے متعلق کوئی چیز (شکایات)پہونچتی‪ ،‬تو آپ نے یہ نہیں فرماتے کہ فالں ک و کی ا ہوگی اہے ج و ایس ی ب ات کرت ا ہے‪،‬‬
‫لیکن یہ ضرور کہتے کہ ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو ایسی باتیں کرتے ہیں” –‬

‫ك ْال ِم َرا َء َوِإ ْن َك انَ ُم ِحقًّ ا‪َ ،‬وبِبَ ْي ٍ‬


‫ت فِي‬ ‫ض ْال َجنَّ ِة لِ َم ْن ت ََر َ‬ ‫‪-5‬نبی کریم صلی ہللا علیہ و سلم کا فرمان ہے‪َ ”:‬أنَا زَ ِعي ٌم بِبَ ْي ٍ‬
‫ت فِي َربَ ِ‬
‫ت فِي َأ ْعلَى ْال َجنَّ ِة لِ َم ْن َحسُنَ ُخلُقُهُ "‪(.‬سنن ابی داود‪ ،‬ح‪)4800:‬‬ ‫َو َس ِط ْال َجنَّ ِة لِ َم ْن تَ َركَ ْال َك ِذ َ‬
‫ب َوِإ ْن َكانَ َم ِ‬
‫ازحًا‪َ ،‬وبِبَ ْي ٍ‬

‫ترجمہ‪”:‬میں ایسے شخص کے لیے جنت کے عالقے میں ایک گھر کی ضمانت لیتا ہوں جس نے حق بجانب ہوتے ہوئے‬
‫جنگ وجدال سے ہاتھ ٹھالیا‪ ،‬اور جنت کے وس ط میں ای ک گھ ر کی ض مانت لیت ا ہ وں جس نے مزاح ا ہی س ہی جھ وٹ‬
‫ودورغ گوئی سے اجتناب کرلیا‪ ،‬اور جنت کے اعلی سطح پر ایک گھر کی ضمانت لیتا ہ وں جس نے اخالق وک ردار کی‬
‫تحسین وتزئین کاری کی”‪-‬‬

‫ُس ِن ْال ُخلُ ِ‬


‫ق "‪(.‬س نن ابی داود‪ ،‬ح‪:‬‬ ‫‪ ”-6‬نبی کریم صلی ہللا علیہ و س لم ک ا فرم ان ہے‪َ ”:‬م ا ِم ْن َش ْي ٍء َأ ْثقَ ُل فِي ْال ِم يزَ ِ‬
‫ان ِم ْن ح ْ‬
‫‪)4799‬‬

‫ترجمہ‪(”:‬انسانی)میزان میں حسن خلق سے بھاری بھرکم کوئی چیز نہیں”‪-‬‬

‫ان احادیث کے عالوہ بہت سی حدیثیں حدیث کی کتابوں میں درج ہیں جو نبی کریم صلی ہللا علیہ و سلم کی ش رافتوں اور‬
‫اعلی اخالقی اقدار سے روشناس کرتی ہیں‪ -‬طول وطویل کے پیش نظر انہی چند احادیث پر اکتفا کرتا ہوں‪-‬‬

‫مذکورہ احادیث سے مستنبط مسائل‪:‬‬

‫‪16‬‬
‫کورس‪ :‬مٹطالخعہ حدی ث (‪)4622‬‬
‫سمس ر‪ :‬زاں ‪2020،‬ء‬
‫‪ -1‬نبی کریم صلی ہللا علیہ و سلم کی اخالقی اقدار کا مقابلہ کرہ ارضی پ ر قی ام پ ذیر ل وگ نہیں کرس کتے‪ ،‬کی وں کہ آپ‬
‫حسن کردار کی اعلی سطح پر براجمان تھے‪-‬‬

‫‪ -2‬ہمارے نبی تاجدار مدینہ صلی ہللا علیہ و سلم نہایت ہی خندہ رو‪ ،‬خ وش م زاج‪ ،‬خ وش طب ع اور ہنس مکھ تھے‪ ،‬غی ظ‬
‫وغضب سے بہت پرے تھے‪-‬‬

‫‪ -3‬مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو اسالمی س انچے اور اس المی تعلیم ات ک ا آئینہ دار بن ائیں اور اچھے‬
‫عادات واطوار اور اعلی کردار سے اپنے آپ کو متصف کریں‪-‬‬

‫‪ -4‬اپنے مالزمین اور نوکر چاکر کے ساتھ اچھا سلوک وبرتاؤ کریں‪ ،‬انہیں اخالق باختہ کلمات ت سے نہ بالئیں‪ ،‬اگ ر ان‬
‫سے بشری تقاضے کے مطابق کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو ترش روئی ک ا مظ اہرہ نہ ک ریں اور نہ سرزنش ی ک ردار‪ ‬‬
‫نبھائیں‪ ،‬جیساکہ نبی کریم صلی ہللا علیہ و سلم کے واقعات سے پتہ چلتا ہے –‬

‫‪ -5‬بزرگ اور بڑوں کی خدمت کرنی چاہیے‪ ،‬ان سے نرم لہجے میں کالم کرنا چاہیے‪-‬‬

‫‪ -6‬راست روی اور دیانت داری‪ ،‬حسن اخالق اور اعتدال پسندی ایک عظیم انسانی سوغات ہے‪ ،‬جس ے ن بی ک ریم ص لی‬
‫ہللا علیہ و سلم نے اس کی اہمیت وفضلت کے پیش نظر نبوت کے پچیسویں اجزاء کا ایک جزو قرار دیا –‬

‫‪ -7‬کسی کی اصالح اور سدھار کرتے وقت عمومی طور سے انکار منک ر ک ریں ت اکہ کس ی کے دل میں تنگی نہ ہ ونے‬
‫پائے‪-‬‬

‫‪ -8‬حسن خلق نہایت ہی وزنی شی ہے‪ ،‬جسے کوئی میزان سے وزن نہیں کیا جاسکتا‪-‬‬

‫‪17‬‬

You might also like