Professional Documents
Culture Documents
4622 1
4622 1
صرف زید کا علم ’’ تص ور‘‘ ہے ۔ اور جب اس کی ط رف’’ کھ ڑے ہ ونے ‘‘ی ا ’’نہ ہ ونے ‘‘ کی نس بت کی
جائے ۔ جیسے :زید کھڑا ہے یا زید کھڑا نہیں ہے تو اسے ’’ تصدیق‘‘ کہتے ہیں ۔ نیز زید اور قی ام کے درمی ان ج و
نسبت(یعنی تعلق) ہے اسے حکم کہتے ہیں ۔
1
ش ت ت ق ن
ب۔ علم سےم علق رآ ی آی ات کا رج مہ و رح
علم کی فضیلت کو بیان کرنے کے سلسلہ میں جتنی بھی باتیں کہی جاسکتی ہیں ان میں سب سے اہم بندہ عاجز کے
نزدیک یہ ہے کہ علم ہللا کی صفتوں میں سے ایک ہے اور یہ وہ صفت ہے جس کی وضاحت قرآن کریم نے صفت
حسنی کا بھی ذکر کیا ہے۔ مثالً کہیں
ٰ ربوبیت کے بعد سب سے زیادہ تاکید سے کی ہے اور اس کے تعلق سے کئی اسماء
اس نے ہللا کو ’ اَ ْل َعالِ ُم‘(سب کچھ جاننے واال ،پوری طرح واقف) کہا ہے توکہیں ’اَ ْل َعلِ ْی ُم‘ (بہت جاننے واال،ہر چیز کا علم
رکھنے واال)،کہیں ’اَ ْل َعاَّل ُم‘ (جاننے واال) ،تو کہیں ’اَ ْلخَ بِ ْیرُ‘ (با خبر)،کہیں ’اَ ْل َح ِک ْی ُم‘ (حکمت واال) تو کہیں ’اَل َّش ِھ ْیدُ‘ (ہر
چیز پر نگاہ رکھنے واال،گواہ) ،کہیں ’اَللَّ ِطیْفُ ‘ (باریک بیں) تو کہیں ’اَل َّس ِم ْیعُ‘ ( بہت سننے واال) اور ’ اَ ْلبَ ِ
ص ْیرُ‘ (بہت
دیکھنے واال) کہا ہے۔
ان میں سے ہر ایک اسم ہللا کی صفت علم کے ایک خاص رخ کو ہی واضح کرتا ہے۔ قرآن کریم پر نگاہ عمیق رکھنے
والے علماء یہ بتاتے ہیں کہ کتاب ہللا میں صفات ٰالہیہ کا بار بار بیان اور ان کے تعلق سے اسماء ٰ
حسنی کا ذکر صرف
اس حکمت کے پیش نظر ہے کہ بندہ ان صفات میں غور و فکر کرے ،انہیں سمجھے اور اپنے اندر جذب کرے تاکہ ہللا
کی صحیح معرفت اسے حاصل ہو ،پھر ان صفات کواپنی ذات میں پیدا کرنے کی حتی المقدور کوشش کرے تاکہ ان
صفات کے حصول کے بعداس کی ذات انوار ٰالہیہ کا پرتو ہوجائے ،ساتھ ہی ان کے تقاضوں کے مطابق اپنی زندگی کو
ڈھالنے کی کوشش کرے جس سے اس کی زندگی اسالمی اخالق و اقدارکا پیکر بنے۔ مثالً گزشتہ صدی کے ایک اہم
مصری (۱۹۰۶۔ ۱۹۶۶ء) سورۃ الحشر کی آیت نمبر ۲۴کی
ؒ مفسر قرآن اور اسالم کے ایک عظیم داعی شیخ قطب
حسنی انسانوں کے دلوں پر حسن کے فیوض کرتے ہیں۔ ان پر غور و تدبر
ٰ تفسیر میں یوں رقمطراز ہیں ’’ :یہ اسمائے
کرکے اور ان صفات کو اپنے اندر پیدا کرکے اور ان سے ہدایت لے کرانسان کمال حاصل کرسکتا ہے کیونکہ ہللا ان
صفات کے ساتھ متصف ہونا پسند کرتا ہے ،تو یہ پسندیدہ صفات ہیں ،اوصاف حمیدہ ہیں۔ لہٰ ذا انسان کو ان درجات میں
بلند ہوتے رہنا چاہیے۔‘‘۔ (فی ظالل القرآن اردو ،ادارہ منشورات اسالمی ،الہور ،سنہ اشاعت ۱۹۹۷ء ،جلد ،۶صفحہ
)۳۱۳۔
2
کورس :مٹطالخعہ حدی ث ()4622
سمس ر :زاں 2020،ء
الغزالی مع اسم اعظم از عالمہ ابوبکر جالل
ؒ الحسنی از امام محمد
ٰ کی اصلی کامیابی کا باعث ہوسکے‘‘۔ (شرح اسماء
سیوطی مترجم عالمہ عبداالحد قادری ،زاویہ پبلشرز ،الہور ،سنہ اشاعت ۲۰۰۷ء ،صفحہ)۵۰۔
ؒ الدین
حسنی کو سمجھنا ،ان کا پڑھنایا سننا اور ہللا کی ان صفات پر جن کے ساتھ یہ
ٰ غزالی کے نزدیک اسمائے
ؒ یعنی امام
حسنی منسوب ہیں اعتقاد رکھنا بھی حقیقی کامیابی کے لیے کافی نہیں چہ جائیکہ ان کے الفاظ کو حفظ کرلینا اور
ٰ اسماء
تعالی میں مقربین کا حصہ تین امور ہیں )۱( :
ٰ ورد کرتے رہنا کافی سمجھا جائے۔ وہ آگے لکھتے ہیں ’’ :اسمائے باری
ان اسماء کے معانی کو مکاشفہ اور مشاہدہ کے طور پر سمجھناتاکہ ایسی دلیل کے ساتھ ان کے حقائق معلوم ہوجائیں
تعالی کا موصوف ہونا ان پر اس طرح منکشف ہوجائے جس طرح
ٰ جس میں خطا ممکن نہ ہو۔ اور ان صفات سے ہللا
انسان کو اپنی صفات کے متعلق یقین ہوجاتا ہے جو اس کو احساس ظاہر سے نہیں بلکہ مشاہدہ باطن سے حاصل ہوتا
ہے۔۔۔۔ ( )۲مقربین کا اس کی صفات جالل کو اس عظمت کی نگاہ سے دیکھناجس سے ان کو خود ان صفات سے حتی
تعالی کے قریب
ٰ االمکان متصف ہونے کا شوق پیدا ہوجائے تاکہ وہ اس ذریعہ سے نہ صرف باالمکان بلکہ بالصفت ہللا
ہوجائیں اور اس اتصاف کے ساتھ مالئکہ مقربین سے مشابہت پیدا کرلیں۔ اور جب کسی صفت کی عظمت دل میں سما
جاتی ہے تو اس کے لیے الزم ہے کہ اس صفت کا شوق اور اس جمال و جالل کا عشق اور اس وصف سے اپنے باطن
کو آراستہ کرنے کی خواہش پیدا ہو۔ اگر یہ سعادت کامل طور پر حاصل ہونی ممکن ہو تو کامل طور پر ورنہ بقدر
امکان ضرور شوق پیدا ہو۔ اور اس شوق سے خالی ہونے کے دو ہی باعث ہوسکتے ہیں ؛ یا تو اس وصف کے اوصاف
جالل و کمال میں سے ہونے کا پورا پورا یقین نہ ہویا دل کسی دوسرے شوق میں ڈوبا ہوا ہو۔۔۔۔۔ ( )۳مقربین کا تیسرا
حصہ یہ ہے کہ کسی ممکن حد تک ان صفات کو حاصل کریں اور ان کی خوبیوں سے اپنی باطنی حالت کو آراستہ
اعلی کا رفیق
ٰ کریں جس سے بندہ ربانی یعنی رب کا مقرب بن جاتا ہے کیونکہ ان صفات کی بدولت وہ فرشتگان مالئے
ہوجاتا ہے جو مقربان درگاہ ٰالہی ہیں۔ پس جو شخص ان صفات کے ساتھ کچھ نہ کچھ مشابہت پیدا کرلیتا ہے وہ اس
تعالی کا قرب حاصل کرلیتا ہے‘‘۔ (حوالہ باال ،صفحہ ۵۱۔ )۵۲۔َ
ٰ مشابہت کی مقدار کے موافق ہللا
اس لیے علم کی جستجو میں لگنا ایسا ہے گویا ہللا کی اس صفت کے کسی گوشہ کے حصول کی کوشش کرنا یا اسے
اپنے اندر پیدا کرنے کی مشق کرنا جو یقیناًبقدر حصول بلندی درجات اور قرب ٰالہی کا موجب ہوگا۔ دوسری اہم بات یہ
ہے کہ اس دنیا میں علم و حکمت کا جتنا حصّہ بھی موجود ہے اس کا حقیقی منبع اور سرچشمہ ہللا ہی کی ذات ہے۔
فرشتوں کا اعتراف (اَل ِع ْل َم لَنَآ اِاَّل َما َعلَّ ْمتَنَا) (ہمیں کوئی علم نہیں سوائے اس کے جو تو نے ہمیں سکھادیا) (البقرۃ)۳۲:
اور رسول پاک ﷺ کا فرمان ’’ِإنَّ َما َأنَا قَا ِس ٌم َوہّٰللا ُ یُ ْع ِط ْي‘‘ (میں تو محض تقسیم کرنے واال ہوں ،عطا کرنے واال تو ہللا ہی
ؓ
سفیان) اس بات پر شاہد ہے۔ ہے) (صحیح بخاری،کتاب العلم ،بابُ َم ْن ی ُِر ِد ہللاُ بِ ِہ َخ ْیرًا یُفَقِّ ْھہُ فِ ْي ال ِّدی ِْن ،بروایت معاویہ بن
اس لیے علم کے فروغ اور اس کی ترویج و شاعت کی کوشش میں لگنارُوئے زمین پر ہللا کے علم و حکمت کی
ترجمانی کرنے کے مترادف ہے اور اس سے بڑی علم کی کوئی اور فضیلت نہیں ہو سکتی۔
ت ئ ن ض ت ن خ ن ن
ن
سوال مب ر 2۔ کت اب العلم ب اب مب ر 51کی حدی ث کا الصہ کات کی صورت می ں حریر کری ں۔ ی ز عہ ِد حا ر می ں اس حدی ث سے ج و رہ ما ی مل ی
ے اس کی وض احت کری ں۔ ہ
3
وتعالی نے حضرت آدم علیہ السالم سے لے کر آخری نبی حضرت محمد صلى هللا عليه وسلم تک
ٰ ہللا تبارک
ہزاروں نبیوں و رسولوں کو اپنی کتاب اور اپنے احکام سے نوازااور انہیں انسانیت کی ہدایت کے لیے دنیا میں بھیجا۔
باوجود اس کے دنیا میں تہذیب وتمدن اور علم وفن کی ترقی نہیں ہوئی اور وہ جہالت ہی میں مبتال رہی۔ان کتابوں نے
ٰ
دعوی کیا کہ ان میں دنیا کی تمام چیزوں کو جمع کردیاگیا ہے۔ انبیا ِء سابقین پر نازل کتاب اور نہ ان کے حاملین نے یہ
اور ان کی تعلیمات کو مخصوص خطہ ،محدود افراداور ایک خاص عہد تک کے لیے موثر قرار دیتے ہوے عالمہ سید
سلیمان ندوی رحمة هللا عليه لکھتے ہیں:
”تورات کے تمام انبیاء ملک عراق یا ملک شام یا ملک مصر سے آگے نہیں بڑھے،یعنی اپنے وطن میں جہاں وہ
رہتے تھے محدود رہے اور اپنی نسل و قوم کے سوا غیروں کو انہوں نے آواز نہیں دی۔ زیادہ تر ان کی کوششوں کا
مرکز صرف اسرائیل کا خاندان رہا۔عرب کے قدیم انبیاء بھی اپنی اپنی قوموں کے ذمہ دار تھے،وہ باہر نہیں گئے۔
عیسی کے مکتب میں بھی غیر اسرائیلی طالب علم کا وجود نہ تھا،وہ صرف اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑیوں
ٰ حضرت
کی تالش میں تھے(متی،باب،۷:آیت )۲۴:اور غیروں کو تعلیم دے کر وہ بچوں کی روٹی کتوں کے آگے ڈالنا پسند نہیں
کرتے تھے۔ (انجیل) ہندوستان کے داعی پاک آریہ ورت سے باہر جانے کا خیال بھی دل میں نہیں السکتے تھے،اگرچہ
پیرووں کا
ٴ بدھ کے پیرو بادشاہوں نے اس کے پیغام کو باہر کی قوموں تک پہنچایا،مگر یہ عیسائیوں کی طرح بعد کے
فعل تھا ،جو داعی مذہب کی سیرت اس عالم گیر جامعت کی مثال سے خالی ہے۔“()۱
ٰ
دعوی ہے کہ یہ کتاب اس کے برعکس نبی صلى هللا عليه وسلم پر جو کتاب نازل ہوئی اس کا اعجاز وامتیاز اور
تعالی نے
ٰ رہتی دنیا تک اور پوری انسانیت کے لیے ہدایت ورحمت ہے۔ اس میں دنیا کے تمام علوم کا ذکر ہے اور ہللا
اسے دوسروں تک پہنچانے کا حکم دیا ہے ۔ اس کے رسول صلى هللا عليه وسلم نے بھی بہ ذات خود اس کی اشاعت میں
بڑی دل چسپی لی ۔ قرآن کہتا ہے:
َاب تِ ْبیَانا ً لِّ ُک ِّل َش ْْی ٍء َوہُدًی َو َرحْ َمةً َوبُ ْش َری لِ ْل ُم ْسلِ ِم ْینَ ( “.النحل)۸۹: ” َونَ َّز ْلنَا َعلَ ْْی َ
ک ْال ِکت َ
(اے نبی صلى هللا عليه وسلم ! ہم نے آپ پر جو کتاب نازل کی ہے اس میں ہرچیز کو بیان کردیا ہے اور اس میں
رحمت وہدایت ہے اور مسلمانوں کے لیے خوش خبری ہے۔)
وتعالی نے انسانیت کی ہدایت اور اس کے لیے شب وروز گزارنے کے
ٰ قرآن مقدس میں جگہ جگہ ہللا تبارک
اصول بیان کیے ہیں ۔ انسانیت کی خوبیوں کو آشکارا کیا ہے اور خامیوں کی نشان دہی کی ہے۔ جو بھی اس پر عمل
کرے گا اور اس سے استفادہ کرے گا وہ دین و دنیاکی کامیابی سے ہم کنار ہوگااورجو اس کی خالف ورزی کرے گا وہ
ناکام ونامراد ہوگا۔
حضور صلى هللا عليه وسلم کو جب نبوت کے منصب عظیم سے نوازا گیا ،اس وقت جزیرة العرب کی کیا حالت
تھی؟ قتل وغارت گری ،چوری ،ڈکیتی ،قتل اوالد ،زنا،بت پرستی کون سی ایسی برائی تھی جو ان میں پائی نہ جاتی ہو۔
بعضے وقت بڑے فخریہ انداز میں اسے نجام دیاجاتا تھا۔ ہللا کے رسول نے ان کی تعلیم و تربیت اس انداز سے کی اور
زندگی گزارنے کے ایسے اصول بتائے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ان کی حالت یکسر بدل گئی اور تہذیبی قدروں سے آشنا
ہوگئے۔ جہاں اور جدھر دیکھیے لوگ تعلیم وتعلم سے جڑ گئے اور قرآن وحدیث کی افہام وتفہیم میں مشغول ہوگئے۔ اس
4
کورس :مٹطالخعہ حدی ث ()4622
سمس ر :زاں 2020،ء
کے لیے باضابطہ ہللا کے رسول نے مسجد نبوی میں ایک مقام کو خاص کردیا ،جسے صفہ کہا جاتا تھا۔اس میں صحابہ
کرام فروکش ہوتے اور علم وعمل کی دولت سے ماال مال ہوتے۔ اس کے عالوہ بھی مدینہ میں اور مسجدیں تھیں جن
میں صحابہ کرام کی تعلیم و تربیت کا انتظام تھا۔ یہاں سے فیضان نبوت حاصل کرکے یہ حضرات دور دراز مقام پر
پہنچے اور دوسروں کو علوم نبوت سے ماالمال کیا۔ کون کہہ سکتا تھا کہ عرب جیسی اجڈ قوم اتنی جلد علم و تہذیب
سے اس طرح آراستہ وپیراستہ ہوجائے گی کہ لوگ اس کی تقلید کرنے لگیں گے اور دنیا اس روشنی سے معمور
ہوجائے گی۔ یہ کارنامہ تھا ہللا کے رسول کا اور ان کے فیوض و برکات کا جس کی نظیر نہیں ملتی۔جیساکہ دنیا پر عہد
نبوی کے تعلیمی اثرات کا جائزہ لیتے ہوے ایک دانش ور لکھتے ہیں:
”عرب میں چھٹی صدی عیسوی میں اسالم سے علم وحکمت کا نیا باب شروع ہوا،جس نے پندرہویں صدی تک
ایشیاء ،افریقہ اور مغربی یورپ کو دنیا کے نقشہ پر انقالب آفریں خطہ بنادیااور علم وحکمت کی فصل گل سے پورا
خطہ چمن زار ہوگیا۔ باآلخر ہر چہار سو خوش حالی ،امن و آشتی اور باد بہاری کی خوش گواری سے اہل یورپ بھی
وسطی کہالیا۔ اس عہد کی ابتدا ء میں کہتے ہیں قرطبہ اور بغداد دنیا کی عظیم ترین دانش گاہ
ٰ بیدار ہوے۔ یہ عہد عہد
مانی جاتی تھی۔ قدیم علمی ذخیروں کی تالش کی گئی اور یونان ،مصر،روم اور ہند کی نایاب کتابوں کا ترجمہ کرکے
ان علمی سرمایوں کو ضائع ہونے سے بچالیا۔ مسلم خلفا ء و سالطین نے اپنی نوازشوں سے علم کی خدمت پر مامور
دنیا بھر کے دانش وروں اور ماہرین فن کی سرپرستی کی جنہوں نے علم و حکمت میں گراں مایہ کارنامے انجام
دیے۔“()۲
اہل علم کی فضیلت
نبی اکرم کو جس دین سے نوازا گیا ،اس کی ابتدا ہی تعلیم ہوئی۔غارحرا میں سب سے پہلی جو وحی نازل ہوئی
وہ سورہ علق کی ابتدائی چند آیتیں ہیں ،جن میں نبی امی کو کہا گیا :
ق .ا ْق َرْأ َو َرب َ
ُّک اَأْل ْک َر ُم .الَّ ِذیْ عَلَّ َم بِ ْالقَلَ ِم .عَلَّ َم اِإْل ن َسانَ َما لَ ْم ”ا ْق َرْأ بِاس ِْم َربِّ َ
ک الَّ ِذیْ َخلَقََ .خلَ َ
ق اِإْل ن َسانَ ِم ْن َعلَ ٍ
یَ ْعلَم(“.العلق)۵-۱:
(پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے سب کو پیدا کیا۔ پیدا کیا اس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے ۔ پڑھ ،
تیرارب بڑا کریم ہے۔ جس نے سکھایا علم قلم کے زیعہ۔ اس چیز کا علم دیا انسان کو جو وہ نہیں جانتا ۔)
علم کے ذریعہ ہی آدمی ایمان ویقین کی دنیا آباد کرتا ہے ،بھٹکے ہوے لوگوں کو سیدھا راستہ دکھاتا ہے ،بروں
کو اچھا بناتا ہے ،دشمن کو دوست بناتاہے ،بے گانوں کو اپنا بناتا ہے اور دنیا میں امن وامان کی فضاء پیدا کرتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ حاملین علم کی قرآن وحدیث میں بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور اسے دنیوی و اخروی بشارتوں سے
نوازاگیا ہے۔ قرآن کہتا ہے:
”یَرْ فَ ِع ہَّللا ُ الَّ ِذ ْینَ آ َمنُوا ِمن ُک ْم َوالَّ ِذ ْینَ ُأوتُوا ْال ِع ْل َم َد َر َجا ٍ
ت َوہَّللا ُ بِ َما تَ ْع َملُونَ َخبِ ْیرٌ(“.المجادلہ)۱۱:
(تم میں سے جو لوگ ایمان الئے اور جن کو علم عطا ہواہے ،ہللا اس کے درجات بلند فرمائے گا اورجو عمل تم
کرتے ہو اس سے ہللا باخبر ہے۔)
دوسرے مقام پر فرمایا گیا ہے:
5
”قُلْ ہَلْ یَ ْست َِویْ الَّ ِذ ْینَ یَ ْعلَ ُمونَ َوالَّ ِذ ْینَ اَل یَ ْعلَ ُمونَ ِإنَّ َما یَتَ َذ َّک ُر ُأوْ لُوا اَأْل ْلبَاب( “.الزمر)۹:
(اے نبی،کہہ دیجیے کیاعلم رکھنے والے(عالم) اور علم نہ رکھنے والے (جاہل) برابر ہوسکتے ہیں۔نصیحت تو
وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔)
وتعالی فرماتا ہے:
ٰ تاریکی اور روشنی کی مثال دے کر عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گیاہے۔ ہللا تبارک
ص ْی ُر َأ ْم ہَلْ تَ ْست َِویْ ُّ
الظلُ َم ُ
ات َوالنُّور(“.الرعد)۱۶: ”قُلْ ہَلْ یَ ْست َِویْ اَأل ْع َمی َو ْالبَ ِ
(کہہ دیجیے،کیا برابر ہوسکتے ہیں اندھا(جاہل) اور دیکھنے واال(عالم) یا کہیں برابر ہوسکتا ہے اندھیرا اور
اجاال۔)
اس طرح کی بہت ساری آیتیں ہیں جن میں عالم اور جاہل کے فرق کو واضح کیا گیا ہے اور ان کے درجات کے
تعین کے ساتھ مسلمانوں کو حصول علم کے لیے ابھارا گیا ہے۔
اس سلسلے میں کثرت سے احادیث بھی وارد ہوئی ہیں جن میں اہل علم کی ستائش کی گئی ہے اور انہیں انسانیت
کا سب سے اچھا آدمی قرار دیا گیا ہے۔ ہللا کے رسول فرماتے ہیں:
” َوفَضْ ُل ْال َعالِ ِم َعلَی ْالعابِ ِد َ ،کفَضْ لِی َعلَی اَ ْدنَا ُک ْم ،ثُ َّم قَا َل َرسُو ُل ہّٰللا ِ صلى هللا عليه وسلم :اِ َّن ہّٰللا َ َو َماَل ِئ َکتَہُ َوا ْھ َل
اس ْالخَ ی َْر)۳(“. ض ْینَ َحتَّی النَّ ْملَةَ فِی جُحْ ِرھَا َو َحتَّی ْالحُوْ تَ لَیُ َ
ص ُّلوْ نَ عَلی ُم َعلِّ ِم النَّ ِ ت َو ااْل َرْ ِ
السَّمٰ َوا ِ
(اورعابد پر عالم کی فضیلت ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے ادنی پر۔ یقینا ہللا عزوجل ،اس کے
حتی کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلی تک لوگوں کے معلم کے لیے بھالئی کی
فرشتے اور آسمان وزمین والے ٰ
دعاء کرتی ہیں۔)
ایک دوسرے حدیث کے راوی حضرت عبدہللا بن عمر رضی ہللا عنہ ہیں ،وہ بیان کرتے ہیں:
ْجدَ ،فَاِ َذا ھ َُو بِ َح ْلقَتَی ِْن :اِحْ داھُ َما یَق َر ٴُون ہّٰللا
ُج ِر ِہ ،فَ َد َخ َل ْال َمس ِ ”خ ََر َج َرسُوْ ُل ِ صلى هللا عليه وسلم َذاتَ یَوْ ٍم ِمن بَ ِ
عض ح َ
یُ :ک ٌّل عَلی َخی ٍْرٰ ،ھ ٴُواَل ِء یَقُ َر ٴُونَ ْالقُرْ آنَ َویَ ْد ُعوْ نَ ہّٰللا ،فَاِ ْن َشا َء ہّٰللا
الُقُرْ آنَ َویَ ْد ُعوْ نَ َ ،وااْل ُ ْخ َری یَتَ َعلَّ ُمونَ َویُ َعلِّ ُمونَ .فَقَا َل النَّبِ ُ
اَ ْعطَاھُ ْم َواِ ْن َشا َء َمنَ َعھُ ْمَ ،و ٰھ ٴواَل ِء یَتَ َعلَّ ُموْ نَ َویُ َعلِّ ُموْ نَ َ ،واِنَّ ّما بُ ِع ْث ُ
ت ُم َعلِّماً ،فَ َجلَ َ
س َم َعھُ ْم)۴(“.
(ایک دن رسول ہللا اپنے حجرے سے باہر تشریف الئے اور مسجد (نبوی) میں داخل ہوے،وہاں دوحلقے بیٹھے
ہوے تھے،ایک حلقہ قرآن کی تالوت کررہا تھا اورہللا سے دعاء کررہا تھا،دوسرا تعلیم وتعلم کا کام سرانجام دے رہا تھا۔
آپ نے فرمایا :دونوں بھالئی پر ہیں۔ یہ حلقہ قرآن پڑھ رہا ہے اور ہللا سے دعاء کررہاہے ۔ ہللا چاہے تو اس کی دعاء
قبول فرمائے ،یا نہ فرمائے۔دوسرا حلقہ تعلیم وتعلم میں مشغول ہے (یہ زیادہ بہتر ہے) اور میں تو معلم بناکر بھیجا گیا
ہوں۔ پھر یہیں بیٹھ گئے۔)
اہل علم کاصرف یہی مقام ومرتبہ نہیں ہے کہ اسے دنیا کی تمام چیزوں پر فضیلت دی گئی ہے اور اس کام میں وہ
تعالی کی تمام مخلوق اس کے لیے دعاء کرتی رہتی ہے،بلکہ اس کا مقام ومرتبہ یہ بھی ہے
ٰ جب تک مصروف ہیں ،ہللا
کہ ہللا کے رسول نے انہیں انبیاء کا وارث اور جانشین قرار دیا ہے :
ب ْال ِع ْل ِمَ ،واِ َّن ” م ْن سلَک طَریْقا ً ی ْبتَغی ف ْیہ ع ْلما ً سلَ ہّٰللا
ض ُع اَجنِحْ تَھَا َرضًی لَطَالِ ِ ک ُ بِہ طَ ِریْقا ً اَلَی ْال َجنَّ ِةَ ،واِ َّن ْال َمالِئ َکةَ لَتَ َ َ َ َ َ َ ِ َ ِ ِ ِ ِ
ض َحتَّی ْال ِحیتَانُ فَی ْال َما ِءَ ،وفَضْ ُل ْال َعالِم َعلَی ْال َعابِ ِدَ ،کفَضْ ِل ْالقَ َم ِر َعلَی َساِئ ِر ت َو َم ْن فِی ااْل َرْ ِْال َعالِ َم لَیَ ْستَ ْغفِ ُر لَہُ َم ْن فِی ال َّس َموا ِ
6
کورس :مٹطالخعہ حدی ث ()4622
سمس ر :زاں 2020،ء
ان ْالع ُْل َما َء َو َرثَةُ ااْل َ ْنبِیَا ِء ،اِ َّن ااْل َ ْنبِیَا َء لَ ْم ی َُو ِّرثُوْ ا ِد ْینَارًا َواَل ِدرْ ھَماً ،اِنَّ َما َو َّرثُوا ْال ِع ْل َم ،فَ َم ْن اَخَ َذ بِہ فَقَ ْد اَ َخ َذ بِ َحظّ ْال َک َوا ِک ِ
بَّ ،
َوافَ ٍر)۵(“.
(جو کوئی حصول علم کی غرض سے راستہ طے کرے تو خدا اس کے سبب اسے جنت کی ایک راہ چالتا ہے۔
فرشتے طالب علم کی خوشی کے لیے اپنے پر بچھادیتے ہیں اور یقینا عالم کے لیے آسمان اور زمین کی تمام چیزیں
مغفرت طلب کرتی ہیں،یہاں تک کہ وہ مچھلیاں بھی جو پانی میں ہیں ۔ عابد پر عالم کو ایسی فضیلت حاصل ہے جیسی
چاند کو تمام تاروں پر۔بالشبہ علماء ہی پیغمبروں کے وارث ہیں۔پیغمبروں نے ترکہ میں نہ دینار چھوڑا ہے اور نہ
درہم ۔ انہوں نے تو صرف علم کو اپنے ترکہ میں چھوڑا۔ پس جس کسی نے علم حاصل کیا اس نے ہی حصہ کامل پایا۔)
علم کا دائرہ بہت وسیع ہے
قرآن میں جہاں بھی علم کا تذکرہ کیا گیا ہے ،بیش تر مقامات پر مطلق علم کاذکر ہوا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے
کہ علم اپنی ذات کے اعتبار سے ال محدود ہے اور اسالم نے اس کی المحدودیت کو برقرار رکھتے ہوے حکم دیا ہے کہ
علم حاصل کرو۔حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا بیان کرتے ہیں:
ہّٰللا
ضةٌ عَا ِدلَةٌ(“. ”قَا َل َرسُوْ ُل ِ صلى هللا عليه وسلم اَ ْل ِع ْل ُم ثَالثَةٌ :فَ َما َو َرا َء ٰذلِ َ
ک فَھُ َو فَضْ لٌ ،آیَةٌ ُمحْ َک َمةٌ ،اَوْ ُسنَّةٌ قَاِئ َمةٌ اَوْ فَ ِر ْی َ
)۶
فریضہ عادلہ،اس کے سوا
ٴ (ہللا کے رسول صلى هللا عليه وسلم نے فرمایا :علم تین ہیں:آیت محکمہ،سنت قائمہ اور
جو کچھ بھی ہے وہ زائد ہے۔)
ایک دوسری حدیث میں جو تفصیل آئی ہے ،اس سے بھی یہی واضح ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا:
ض ْع ِع ْل ِم ْی فِ ْی ُک ْم اِل َع ِّذبَ ُک ْمْ ،اذھَبُوْ ا فَقَ ْد ”ی ْبع ُ ہّٰللا
ث ُ ْال ِعبَا َد یَوْ َم ْالقِیَا َم ِة ،ثُ َّم یُ َمیِّ ُز ْال ُعلَ َما َء فَیَقُوْ لُ :یَا َم ْع َش َر ْال ُعلَ َما ِء اِنِّی لَ ْم اَ َ َ َ
ت لَ ُک ْم)۷(“.
َغفَرْ ُ
تعالی لوگوں کو زندہ کرے گا اور اس میں علماء کو ممتاز کرے گا اور فرمائے گا اے پڑھے
ٰ (قیامت کے دن ہللا
،جاو تم سب کی مغفرت کردی۔)
لکھے لوگو!میں نے اپنا علم تمہارے اندر اس لیے نہیں رکھا کہ میں تمہیں عذاب دوں ٴ
عالم کہتے ہی ہیں پڑھے لکھے لوگوں کو ،چاہے اس نے قرآن کی تعلیم حاصل کی ہو یا حدیث کی ،فقہ کی کی ہو
یا کالم ومنطق کی ۔ سائنس کی ڈگری لی ہو یا میڈیکل سائنس کی ۔ نیچرل سائنس پڑھاہو یاآرٹس کے مضامین ۔ سارے
کے سارے پڑھے لکھے لوگوں میں شمار کیے جائیں گے۔ یہ ایسی چیز ہے جو انسان کو ہمیشہ کام آئے گی ،مقصد
نیک ہو اور اس کا صحیح استعمال کیا جائے تو اس کی بدولت وہ دین ودنیا کی ساری نعمت اور دولت حاصل کرسکتا
ہے۔
قرآن میں متعدد مقامات پر اہل ایمان کوعلم حاصل کرنے کا حکم دیا گیا ہے ،اس میں دینی علوم بھی شامل ہیں
اورسائنسی علوم بھی۔ بلکہ ان آیات کی تالوت کی جائے تویہ واضح ہوتا ہے کہ آج ہم جن چیزوں کوسائنس وٹکنالوجی
کاعلم کہتے ہیں،اسکے حصول پر خاص طور سے توجہ دالئی گئی ہے۔ جگہ جگہ فرمایاگیاہے :تم اپنی صالحیتوں کو
کام میں کیوں نہیں التے؟ تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے؟ تم قرآنی آیات پرغور کیوں نہیں کرتے ؟ تمہارے اندر
شعورکیوں نہیں ہے؟ تم سمجھ کر کیوں نہیں پڑھتے؟ میری نشانی پرغور کیوں نہیں کرتے ؟ گویاکہ قرآن مجید میں لفظ
7
علم مختلف اشتقاقی صورتوں میں ۷۷۸مرتبہ واردہواہے ۔ان سے یہ نتیجہ نکالنا مشکل نہیں کہ قرآن مجیدکی رو سے
علم کو غیر معمولی بلکہ فوق الکل اہمیت حاصل ہے اور جب یہ لفظ جزوی ترادف کے ساتھ دوسرے مرادفات
(مثالتعقلون ،یتدبرون ،تفہمون ،تشعرون).وغیرہ کے ساتھ مل کریاان کی جگہ آتاہے توان سے علم کے طریقوں ،غایتوں
اورجہتوں کاپتہ چلتاہے ۔()۸
انسان کو جس چیز سے واسطہ پڑ سکتا ہے ،اس کے حل کے لیے معلومات حاصل کرنا اور اس میں مہارت پیدا
تعالی نے جب پیدا کیا تو انہیں وہ تمام علوم عطاکیے جن سے
ٰ کرنا اسالم کو مطلوب ہے۔حضرت آدم علیہ السالم کو ہللا
ان کا واسطہ پڑ سکتا تھا۔قرآن کریم میں اس کی صراحت موجودہے:
َک الَ ِع ْل َم لَنَاوا ُسب َْحان َ صا ِدقِیْن .قَالُ ْ ضہُ ْم َعلَی ْال َمالَِئ َک ِة فَقَا َل َأنبُِئونِ ْی بَِأ ْس َماء ہَُؤالء ِإن ُکنتُ ْم َ ” َوعَلَّ َم آ َد َم اَأل ْس َماء ُکلَّہَا ثُ َّم ع ََر َ
ال َألَ ْم َأقُل لَّ ُک ْم ِإنِّ ْی َأ ْعلَ ُم َغ ْْی َ
ب ال َّس َم َوا ِ
ت ال یَا آ َد ُم َأنبِْئہُم بَِأ ْس َمآِئ ِہ ْم فَلَ َّما َأنبََأہُ ْم بَِأ ْس َمآِئ ِہ ْم قَ َ
ک َأنتَ ْال َعلِ ْی ُم ْال َح ِک ْی ُم .قَ َ
ِإالَّ َما َعلَّ ْمتَنَا ِإنَّ َ
ض َوَأ ْعلَ ُم َما تُ ْب ُدونَ َو َما ُکنتُ ْم تَ ْکتُ ُمونَ ( “.البقرہ)۳۱:
َواَألرْ ِ
تعالی نے آدم کو تمام چیزوں کے نام اور پھر سامنے کیا ان سب چیزوں کوفرشتوں کے،پھر ہللا
ٰ (اور سکھایا ہللا
بتاو مجھ کو ان کے نام اگر تم سچے(جانتے) ہو؟فرشتوں نے کہا :تیری ذات پاک ہے ،ہم کو نہیں
نے فرمایا ان سے ٴ
معلوم ،مگر جتنا تونے مجھے علم دیا ہے۔ بے شک تو ہی ہے اصل جاننے واال اور حکمت واال۔ پھر ہللا نے آدم سے
بتاو تم ان کو ان چیزوں کے نام ۔ جب انہوں نے بتادیا ان کے نام ،توہللا نے فرشتوں سے کہا :کیا میں نے تم سے
کہا :ٴ
نہیں کہا تھا کہ میں خوب جانتا ہوں ان چیزوں کو جو آسمان و زمیں میں چھپی ہوئی ہیں اور میں یہ بھی جانتا ہوں جو
ظاہر ہے اور جو چیز چھپی ہوئی ہے۔)
حکمت ودانائی کی بات مومن کی گم شدہ پونجی ہے
انسان کو جب ہللا نے اپنا خلیفہ بنایا ہے(البقرہ )۲۰:تو ضروری ہے کہ وہ خالفت کا حق اداکرے۔یہ کام ایسے ہی
انجام نہیں پائے گا۔اس کے لیے بہت سی چیزوں کی ضرور ت پڑتی ہے اور ہر طرح کے لوگ درکار ہوتے ہیں،تاکہ وہ
اپنے علم وہنر اور تجربے کی روشنی میں اور خالفت کی ضرورتوں کو پورا کریں۔اگر نفع بخشی کا سامان کسی
دوسری جگہ سے حاصل ہو تو یہ بھی ضروری ہے کہ اسے وہاں سے حاصل کیاجائے ،اگر وہ اس کے حصول میں
کوتا ہی کرے گا تو خدا کے نزدیک قابل مواخذہ ہوگا۔ہللا کے رسول نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے :
ضالَّةُ ْال ُم ْٴو ِم ِن ،فَ َحی ُ
ْث َو َج َدھَافَھ َُو اَ َح ُّ
ق بِھَا)۹(“. ”اَ ْل َکلِ َمةُ ْال ِح ْک َمةُ َ
(حکمت ودانائی کی بات مومن کی گم شدہ پونجی ہے ،پس جہاں بھی پائے حاصل کرنا چاہیے)
حکمت کے معنی ڈکشنری میں وہی ملیں گے جو سائنس کے معنی ہیں۔ یعنی اشیاء اور چیزوں کی حقیقتوں پر
غور کرنا ،اسے پہچاننا اور سمجھنا ،اس کے خواص اور تاثیرات کو معلوم کرنے کے بعد اس کو اپنے لیے اور
دوسروں کے لیے نفع بخش بنانا اور استعمال میں النا ہے۔
علم سے انسان کے اندر اخالق حمیدہ پیدا ہوتے ہیں
جب انبیا ِء سابقین کے عہد میں علم واخالق کو عمومی وسعت حاصل نہ ہوسکی تو کیسے ممکن تھا کہ دنیا میں
اخالق وکردار اور تہذیب وتمدن کا بول باالہو۔انبیاء کی آمد سے ان کے اندر کسی قدر تہذیبی قدروں کو ترقی ضرور
8
کورس :مٹطالخعہ حدی ث ()4622
سمس ر :زاں 2020،ء
ہوئی ،مگر جلدہی وہ فنا ہوگئی۔اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ پہلے بھی جہالت میں مبتال تھے اور بعد میں بھی یہ
صورت برقرار رہی۔ بڑے اچھے انداز میں اس نکتہ کی وضاحت کرتے ہوے عالمہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
”دنیامیں بابل واسیریا،ہندوستان وچین،مصر وشام ،یونان وروم میں بڑے بڑے تمدن پیدا ہوے۔اخالق کے بڑے
بڑے نظریے قائم کیے گئے۔ تہذیب وشائستگی کے بڑے بڑے اصول بنائے گئے۔ اٹھنے بیٹھنے ،کھانے پینے،ملنے
جلنے،پہننے اوڑھنے ،رہنے سہنے،سونے جاگنے ،شادی بیاہ،مرنے جینے ،غم ومسرت ،دعوت ومالقات،مصافحہ
وسالم ،غسل و طہارت ،عیادت وتعزیت ،تبریک وتہنیت ،دفن وکفن کے بہت سے رسوم ،آداب ،شرائط اور ہدایات
مرتب ہوے اور ان سے ان قوموں کی تہذیب ،تمدن ،اور معاشرت کے اصول بنائے گئے۔ یہ اصول صدہا سال میں بنے
پھر بھی بگڑ گئے۔صدیوں میں ان کی تعمیر ہوئی تاہم وہ فنا ہوگئے۔“()۱۰
لیکن قرآن ،پیغمبر عربی صلى هللا عليه وسلم نے صالح معاشرہ کی تعمیر وتشکیل کا جودرس دیا وہ اس وقت
سے لے کر آج تک اپنی اصل صورت میں برقرار ہے اور جب تک مسلمانوں کے اندر دینی وعلمی روح زندہ رہے گی
،دنیا میں اخالقی اقدار کی باال دستی رہے گی۔ مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ خودکو اخالق کا نمونہ بنائیں ۔ گھر میں
ہوں یا بازار میں ،محفل میں ہوں یا مجلس میں ،ہر جگہ اخالق کا مظاہر ہ کرنا اسالم کو مطلوب ہے۔ہللا کے رسول نے
ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا ۔ دوست ہو یا دشمن ،اپنے ہو کہ پرائے ،سب کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کیا۔اگر علم
حاصل کرنے کے بعد آدمی کے اندر یہ صفت پیدا نہ ہوئی تو ایسا علم کسی کام کانہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ہللا کے رسول
فرمایا کرتے تھے :ب ُِع ْث ُ
ت اِل ُتَ ِّمم ُحسْن ااْل ِ ْخاْل ق۔)۱۱( آپ کے اس وصف خاص کی گواہی قرآن مقدس میں بھی موجود
لی ُخلق َعظَیْم۔( القرآن) (آپ اخالق کے اعلی مقام پر فائز ہیں۔)ایک مرتبہ چند صحابہ رضوان هللا عليهم ہے:اِنَّ َ
ک لَ َع ٰ
اجمعين حضرت عائشہ رضى هللا تعالى عنها کی خدمت میں حاضر ہوے اور ان سے دریافت کیا کہ ہمیں حضور کے
ق َرسُوْ ل ہّٰللا صلى هللا عليه وسلم َکا نَ ْالقُرْ آنَ ۔)۱۲(
اخالق اور معموالت کے بارے میں کچھ بتائیے۔انہوں نے فرمایاُ :خ ْل َ
درستی اخالق کی دعاکرتے رہتے ہیں۔ آئینہ میں اپنا چہرہ ٴ (آپ کا اخالق ہمہ تن قرآن تھا۔) باوجود اس کے آپ ہر وقت
یکھتے تو ہللا کا شکر اداکرتے اور خدا کے حضور یہ دعا کرتے :اَ ٰللّھُ َّم اَحْ َس ْنتَ خَ ْلقِ ْی فَاَحْ ِسنَ ُخ ْلقِی۔(( )۱۳اے ہللا میرے
اخالق کو بھی اسی طرح اچھا کردے جس طرح تونے میرے چہرے کو اچھا بنایا ہے۔) آپ سے کسی نے پوچھا کون
لوگ اچھے ہیں؟ آپ نے فرمایا”:اِ َّن َخیَا َر ُک ْم اَحْ َسنُ ُک ْم اَ ْخاَل قاً۔“( )۱۴سب سے بہتر انسان وہ ہے جس کا اخالق سب سے
اچھا ہے۔) ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا:اَ ْک َم ُل ْال ُم ْٴو ِمنِ ْینَ اِ ْی َمانا ً اَحْ َسنُھُم ُخ ْلقاً۔()۱۵( سب سے زیادہ کامل االیمان وہ
شخص ہے جس کا اخالق سب سے اچھا ہو۔) اس طرح بہت سی احادیث ہیں جن میں اخالق کی اہمیت کو واضح کیا گیا
ہے۔
اخالق صرف یہی نہیں ہے کہ لوگوں سے ہنستے مسکراتے مل لیا اور اس کے ساتھ کچھ اچھی باتیں کرلیں ۔ یہ
تو اخالق کا جزوہے ،ان کے عالوہ بھی اور بہت ساری باتیں اخالق میں داخل ہیں۔ یہ خوبیاں اسی وقت پیدا ہوں گی
جب ہم علم سے آراستہ و پیراستہ ہوں گے۔ ہللا اور اس کے بتائے ہوے راستہ پر چلیں گے۔اگر ایک آدمی اچھے اخالق
کا حامل ہے تو کسی کے ظلم کو برداشت کرنا بھی اخالق کے دائرہ میں آتا ہے۔ بے صبری کا مظاہرہ کرنااورانتقام لینا
بے اخالقی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تلخ باتوں پر صبر کریں ۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا کرنے سے وہ ہم نوا بن
9
جائے ۔ غصہ کرنا،بد لہ لینا،کسی کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش نہ آنا،کسی کا ما ل غصب کرنا،چوری ڈکیتی کرنا یہ
مذموم حرکتیں ہیں ،جو بداخالقی ہے۔چنانچہ ہللا کے رسول نے فرمایا:
ک نَ ْف َسہُ ِع ْند َْالغ َ
َضب)۱۶(“. ْس ال َّش ِد ْی ُد بِالصُّ رْ عَة اِنَّ َماال َّش ِد ْی ُد اَلَّ ِذیْ یَ ْملِ ُ
”لَی َ
( طاقت وروہ آدمی نہیں ہے جوکشتی میں کسی کو پچھاڑدے ،بلکہ وہ آدمی طاقت ور ہے ،جوغصہ کے وقت
اپنے نفس کوقابو میں رکھے۔)
ایک دوسری حدیث میں ہللا کے رسول نے فرمایا:
تَ ،واَل فِ ْقہٌ فِی ال ِّد ْی ِن)۱۷(“.
قُ :حسْنُ َس ْم ٍ ”خَصْ لَت ِ
َان اَل تَجْ تَ ِم َع ِ
ان فِی ُمنَافِ ٍ
(دوعادتیں ایسی ہیں جو منافق میں جمع نہیں ہوتیں ۔ ایک اچھی عادت اور دوسرے دینی بصیرت۔)
دنیا کے لیے نفع بخش بنا جائے
اسالم حکم دیتا ہے کہ اپنے آپ کو ضرر رساں نہیں بلکہ نفع بخش بنا ٴو۔ایک انسان کے قول وعمل سے دوسرے
انسان کو تکلیف نہ پہنچے۔ اچھی اور بھلی باتوں کا تمیز وہی انسان کرسکتا ہے جس کے اندر شعور وفراست ہوگی اور
یہ خوبی بغیر علم کے پیدا نہیں ہوسکتی۔عقل و شعور تو جاہل کے پا س بھی ہے۔مگر جو فراست ایک پڑھے لکھے کو
حاصل ہوگی وہ جاہل کو ہر گز حاصل نہیں ہوسکتی۔اس کے دن رات کے عمل میں ،اس کی گفتگو میں ،اس کے
معامالت میں ،اس کے فیصلہ لینے میں ایسی بات کا صادر ہونا جس سے دوسروں کو تکلیف پہنچ جائے کوئی بعید
نہیں ہے۔ اگر اسے اس کا ادراک ہوجائے تو وہ جاہل ہی کیوں رہے گا۔ ہللا کے رسول کی حدیث سے بھی اس بات کو
اچھی طرح سمجھا جاسکتا ہے۔آپ نے فرمایا:
ق فِی َسبِی ِْل ہّٰللا )۱۸(“.
”ان َمثَ َل ِع ْل ٍم اَل یَ ْنفَ ُع َک َمثَ ِل َک ْن ٍز اَل یُ ْنفَ ُ
َّ
( جو علم نفع بخش نہ ہو اس کی مثال اس خزانے جیسی ہے جس میں سے خداکی راہ میں کچھ خرچ نہ کیا
جائے۔)
نیز آپ نے یہ بھی فرمایا:
اس اَ ْنفَ َعھُ ْم لِلنَّ ِ
اس)۱۹(“. ” َخ ْی ُر النَّ ِ
( ہللا کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ آدمی وہ ہے جو سب سے زیادہ دوسروں کو فائدہ پہنچانے واالہے۔)
جب آدمی کے اندر یہ ذوق و جذبہ ہوگا تو یقینا وہ کوشش کرے گا کہ وہ علم حاصل کرے اور دوسروں تک
پہنچائے۔
علم نافع کی دعا ء بھی کرتے رہنا چاہیے
نبی اکرم صلى هللا عليه وسلم دنیا کے لیے معلم بناکر بھیجے گئے ۔ آپ کی وجہ سے دنیا میں علم کی روشنی
پھیلی اورانسانیت کو روشن اور واضح سمت مال ۔باوجود اس کے ہر وقت ہللا کے حضور زیادتی علم اور استقامت علم
کے ساتھ علم نافع کی دعا ء کرتے ہیں:
ک ِم ْن ِع ْل ٍم اَل یَ ْنفَعَُ ،و ِم ْن ُدعَا ٍء اَل یُ ْس َمعَُ ،و ِم ْن قَ ْل ٍ ٰ
ب اَل یَ ْخ َش ُع َو ِم ْن نَ ْف ٍ
س اَل تَ ْشبَعُ۔“()۲۰ ”اَللّہُ َّم اِنِّی اَ ُعوْ ُذبِ َ
10
کورس :مٹطالخعہ حدی ث ()4622
سمس ر :زاں 2020،ء
(اے ہللا میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس علم سے جو نفع بخش نہ ہو اور اس دعاء سے جو سنی نہ جائے اور اس دل
سے جس میں خشوع نہ ہو اور اس نفس سے جو کبھی سیر نہ ہو۔)
علم نافع اور رزق وسیع کے لیے ہللا کے حضور یہ دعاء بھی کرتے تھے:
ک ِع ْلما ً نَافِعاًَ ،ع َمالً ُمتَقَبَّالًَ ،و ِر ْزقا ً طَیِّباً)۲۱(“. ٰ
”اَللّھُ َّم اِنّی اَسَْئلُ َ
(اے ہللا! میں تجھ سے علم نافع ،عمل مقبول اور پاک رزق کی درخواست کرتا ہوں۔)
کیوں کہ ہللا نے انہیں ایسا کرنے کا حکم دیا تھا:
ٰ
ما(“.طہٰ )۱۱۴:” َوقُل رَّبِّ ِز ْدنِ ْی ِع ْل
(اے پیغمبر کہو:اے میرے رب !میرا علم زیادہ کر۔)
” َربَّنَا آتِنَا فِ ْی ال ُّد ْنیَا َح َسنَةً َوفِ ْی اآل ِخ َر ِة َح َسنَةً(“.البقرہ)۲۰۱:
(اے میرے رب! تو مجھے دنیا وآخرت دونوں میں اچھا بنا۔)
ہللا نے انسان کو جو علم عطا کیا ہے ،اسے ہی حرف آخر نہ سمجھا جائے ،بلکہ زیادتی علم کی کوشش کرتے
رہنا چاہیے اوراسے اپنی محنت اور جدو جہد کا نتیجہ نہ سمجھنا چاہیے بلکہ عطا ِء خدا وندی سمجھتے ہوئے یہ
اعتراف کرتے رہنا چاہیے:
ک َما لَ ْم تَ ُک ْن تَ ْعلَ ُم َو َکانَ فَضْ ُل ہّللا ِ َعلَ ْْی َ
ک َع ِظیْما( “.النساء)۱۱۳: ” َوعَلَّ َم َ
(اور تجھ کوسکھائیں وہ باتیں جو نہیں جانتا تھااور یہ تیرے رب کا فضل عظیم ہے۔)
جس کو علم وحکمت سے نواز دیاگیا،گویا اسے دین ودنیا کی دولت حاصل ہو گئی۔ ضروری ہے کہ جو علم عطا
تعالی نے اہل علم کی ستائش کرتے ہوے
ٰ کیا گیا ہے اس کی قدر کی جائے اور اس کا صحیح استعمال کیا جائے۔ باری
فرمایا:
” َو َمن یُْؤ تَ ْال ِح ْک َمةَ فَقَ ْد ُأوتِ َی خَ ْْیراً َکثِیْراً َو َما یَ َّذ َّک ُر ِإالَّ ُأوْ لُ ْ
وا اَأل ْلبَا ِ
ب( “.البقرہ)۲۶۹:
(اور جس کو حکمت مل گئی اس کو بڑی خوبی کی چیز مل گئی اور نصیحت وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل
رکھتے ہیں۔)
اسی طرح ہللا کے رسول صلى هللا عليه وسلم نے اپنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا:
اس ٌمَ ،وہّٰللا ُ یُ ْع ِطی)۲۲(“. ہّٰللا
” َمن ی ُِر ِد ُ بِہ َخ ْیرًایُفَقِّ ْہہُ فِی ال ِّد ْی ِنَ ،واِنَّ َما اَنَا قَ ِ
(ہللا جس کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے اور میں تو صرف تقسیم کرنے واال
ہوں اور دینے واال ہللا ہے۔)
عہد نبوی میں علوم وفنون کی ترقی
عہدنبوی کے مدنی معاشرہ پرغورکریں کہ کس کس مپرسی کے عالم میں مسلمان مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ
پہنچے ۔ کھانے کھانے کوترستے تھے ،تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا میسر نہیں تھا،رہنے کوگھرنہیں تھے ،لیکن ان کے
اندرحصول علم کاجذبہ تھا۔ اسی وجہ سے مختصرعرصے میں وہ نمونہ زندگی بن گئے اورزندگی کے ہرشعبے میں
کمال پیدا کرکے اپنی ضرورتوں کی تکمیل کرنے لگے ۔ چوں کہ ہللا کے رسول صلى هللا عليه وسلم ایک بڑے پیغمبر
11
ہونے کے ساتھ ایک عظیم حکم راں بھی تھے اورکوئی بھی حکومت اس وقت تک صحیح طریقے سے نہیں چل سکتی
جب تک کہ اس کے اندرمختلف صالحیت کے افراد موجودنہ ہوں۔ضروری ہے کہ یہاں طبیب بھی ہوں اور سرجن
بھی ،یہ بھی ضروری ہے کہ وہاں بڑھی بھی ہوں اور لوہاربھی ،کاشت کار بھی ہوں اور صنعت گربھی ۔جس وقت
حضورصلى هللا عليه وسلم مسجدنبوی کی تعمیر کروارہے تھے ،صحابہ کرام مختلف کاموں پر مامور تھے ۔ کسی کو
اینٹ بنانے اور ڈھونے کا حکم دیا تو کسی کو گارا بنانے کا ،تو کسی کو کوئی دوسرے کام پر مامور کیا۔ ایک صحابی
نے خواہش ظاہر کی کہ میں دوسرا کام بھی کرسکتا ہوں ،آپ نے منع کیا اور فرمایا :نہیں تم گارا گھولو،تم اس کام سے
خوب واقف ہو۔ ( )۲۳گویاکہ حضورکے زمانہ میں ہرفن کے ماہرین موجودتھے ۔ کچھ لوگوں نے علمی کام کیے ،کچھ
لوگوں نے دست کاریاں سیکھیں ،بعض صحابہ نے دوسری قوموں کی زبان اور ان کی تہذیب و تمدن کامطالعہ کیا۔ (
)۲۴اس وقت کی ضرورت کے مطابق کوئی ایسا علم اورفن نہ تھاجس میں صحابہ کرام پیچھے رہے ہوں۔ عملی علم
ہویافنی ،سبھی میں صحابہ کرام ماہراور یکتا ِء روزگارتھے۔ مندرجہ ذیل اقتباس سے اس کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا
ہے۔ عالمہ سید سلیمان ندوی لکھتے ہیں:
”ایک طرف عقال ِء روزگار ،اسرار فطرت کے محرم ،دنیا کے جہاں باں اور ملکوں کے فرماں روااس درس گاہ
سے تعلیم پاکر نکلے ہیں ،جنہوں نے مشرق سے مغرب تک ،افریقہ سے ہندوستان کی سرحد تک فرماں روائی کی اور
ایسی فرماں روائی جو دنیا کے بڑے سے بڑے شہنشاہ اور حکم راں کی سیاست وتدبر اور نظم ونسق کے کارناموں کو
منسوخ کردیتی ہے ۔ دوسری طرف خالد بن ولید رضى هللا عنه ،سعدبن ابی وقاص رضى هللا عليه ،ابو عبیدہ بن جراح
رضى هللا عنه ،عمروبن العاص رضى هللا عنه ہیں جنہوں نے مشرق ومغرب کی دوظالم و گناہ گار اور انسانیت کے لیے
لعنت سلطنتوں کا چند سال میں قلع قمع کر دیتے ہیں اور دنیا کے وہ فاتح اعظم اور سپہ ساالر اکبر ثابت ہوتے ہیں ،جن
کے فاتحانہ کارناموں کی دھاک آج بھی دنیا میں بیٹھی ہوئی ہے۔ تیسری طرف وہ صحابہ ہیں جنہوں نے صوبوں اور
شہروں کی کامیاب حکومت کی اور خلق خدا کو آرام پہنچایا۔ چوتھی طرف علماء وفقہاء کی صف ہے۔ انہوں نے اسالم
کے فقہ وقانون کی بنیاد ڈالی اور دنیا کے مقنن میں خاص درجہ پایا۔ پانچویں صف عام ارباب روایت وتاریخ کی ہے،جو
احکام ووقائع کے ناقل وراوی ہیں۔ ایک چھٹی جماعت ان ستر صحابہ (اصحاب صفہ) کی ہے جن کے پاس سررکھنے
کے لیے مسجد نبوی کے چبوترے کے سوا کوئی جگہ نہ تھی ۔ ساتواں رخ دیکھو! ابو ذررضى هللا عنه ہیں ،ان کے
ٰ
زہدوتقوی نزدیک آج کا کھانا کل کے لیے اٹھا رکھنا بھی شان توکل کے خالف تھا۔سلمان فارسی رضى هللا عنه ہیں جو
کی تصویر ہیں ۔ عبدہللا بن عمر رضى هللا عنه ہیں جن کے سامنے خالفت پیش ہوئی تو فرمایا کہ اگر اس میں مسلمانوں
کا ایک قطرہ خون گرے تو مجھے منظور نہیں ۔ مصعب بن عمیر رضى هللا عنه ہیں جو اسالم سے پہلے قاقم وحریر
کے کپڑے پہنتے اور جب اسالم الئے تو ٹاٹ اوڑھتے اور پیوند لگے کپڑے پہنتے تھے اور جب شہادت پائی تو کفن
کے لیے پورا کپڑا تک نہ مال۔ عثمان بن مطعون رضى هللا عنه ہیں جو اسالم سے پہلے صوفی کہالتے ہیں۔ ابودردا
رضى هللا عنه ہیں کہ جن کی راتیں نمازوں میں اور دن روزوں میں گزرتے تھے۔ ایک اور طرف دیکھو! یہ بہادر کار
پردازوں اور عرب کے مدبرین کی جماعت ہے ۔کاروباری دنیا میں دیکھو تو مکہ کے تاجر اور بیوپاری ہیں اور مدینہ
کے کاشت کار اور کسان بھی ہیں اور بڑے بڑے دولت مند بھی ہیں۔ ان نیرنگیوں اور اختالف استعداد کے باوجود ایک
12
کورس :مٹطالخعہ حدی ث ()4622
سمس ر :زاں 2020،ء
چیز تھی جو مشترک طورسے سب میں نمایاں تھی۔وہ ایک بجلی تھی جو سب میں کوند رہی تھی،کوئی بھی ہوں توحید
تعالی کی رضا
ٰ کا نور ،اخالق کی رو،قربانی کا ولولہ ،خلق کی ہدایت اور رہنمائی کا جذبہ اور باآلخر ہر کام میں خدا
طلبی کا جو ش ہر ایک کے اندر کام کررہاتھا۔“()۲۵
ت ت ن ن
سوال مب ر 3۔ س ن ابی داؤد کے مؤلف اور کت اب کا عارف حریر کری ں۔
امام ابوداود نے اہل مکہ کے نام اپنے مکتوب میں کتاب السنن کے منہج اورطریقہ ٔ تالیف پرمفصل روشنی ڈالی ہے ،ذیل
:میں ہم اس کے کچھ فقرات ٓاپ کے منہج وطریقٔہ تالیف کو بیان کرنے کے لئے نقل کررہے ہیں
میں نے ہرباب میں صرف ایک یا دو حدیثیں نقل کی ہیں ،گو اس باب میں اور بھی صحیح حدیثیں موجود ہیں ،اگر ان۱-
سب کو میں ذکر کرتا تو ان کی تعداد کافی بڑھ جاتی ،اس سلسلہ میں میرے پیش نظر صرف قرب منفعت رہاہے۔
اگر کسی روایت کے دویا تین طرق سے ٓانے کی وجہ سے میں نے کسی باب میں اسے مکرر ذکرکیا ہے تو اس کی ۲-
وجہ صرف سیاق کالم کی زیادتی ہے ،بسااوقات بعض سندوں میں کوئی لفظ زائد ہوتاہے جو دوسری سند میں نہیں
ہوتا ،اس زائد لفظ کو بیان کرنے کے لئے میں نے ایسا کیا ہے۔
بعض طویل حدیثوں کو میں نے اس لئے مختصر کردیا ہے کہ اگر میں انہیں پوری ذکر کرتاتوبعض سامعین (وقراء)۳-
کی نگاہ سے اصل مقصد اوجھل رہ جاتا ،اور وہ اصل نکتہ نہ سمجھ پاتے ،اس وجہ سے میں نے زوائد کو حذف کرکے
صرف اس ٹکڑے کو ذکر کیا ہے ،جو اصل مقصد سے مناسبت ومطابقت رکھتا ہے۔
کتاب السنن میں میں نے کسی متروک الحدیث شخص سے کوئی روایت نہیں نقل کی ہے ،اور اگر صحیح روایت کے ۴-
نہ ہونے کی وجہ سے اگر کسی باب میں کوئی منکر روایت ٓائی بھی ہے ،تو اس کی نکارت واضح کردی گئی ہے۔
میری اس کتاب میں اگر کوئی روایت ایسی ٓائی ہے جس میں شدید ضعف پایا جاتاہے تو اس کا یہ ضعف بھی میں نے ۵-
واضح کردیا ہے ،اور اگر کسی روایت کی سند صحیح نہیں اور میں نے اس پرسکوت اختیار کیا ہے تو وہ میرے
نزدیک صالح ہے ،اور نسبتہً ان میں بعض بعض سے اصح ہیں۔
اس کتاب میں بعض روایتیں ایسی بھی ہیں جو غیر متصل ،مرسل اور مدلس ہیں ،بیشتر محدثین ایسی روایتوں کو ۶-
مستند و معتبر مانتے ہیں اور ان پر متصل ہی کا حکم لگاتے ہیں۔
میں نے کتاب السنن میں صرف احکام کی حدیثوں کو شامل کیا ہے اس میں زہد اور فضائل اعمال وغیرہ سے متعلق ۷-
حدیثیں درج نہیں کیں ،یہ کتاب کل چارہزار ٓاٹھ سو احادیث پرمشتمل ہے ،جو سب کی سب احکام کے سلسلہ کی ہیں۔
مام بقاعی ابو داود کے مذکورہ باال قول ( :جو ان کے مکتوب بنام اہل مکہ میں موجود ہے) کو ذکر کرنے کے بعد
لکھتے ہیں :ان کے اس قول کی روسے سنن میں وارد احادیث کی پانچ قسمیں بنتی ہیں:
-۱صحیح جس سے انہوں نے صحیح لذاتہ مراد لیاہوگا۔
-۲صحیح کے مشابہ جس سے ان کی مراد صحیح لغیرہ ہوگی۔
-۳درجہ صحت کے قریب غالبا ً اس سے وہ حسن لذاتہ مراد لیتے ہوں گے۔
-۴جس میں شدید ضعف ہو۔
13
-۵ان کے اس قول’’ :وما سكتت عنه فهو صالح‘‘( جن احادیث پر میں نے سکوت اختیار کیا ہے وہ صالح ہیں) سے سنن
میں وارد احادیث کی ایک پانچویں قسم ان احادیث کی سمجھی جاتی ہے جو بہت زیادہ کمزور نہ ہوں،اس قسم کی
روایتیں اگر تائید و تقویت سے محروم ہوں تو وہ صرف اعتبار کے قبیل سے ہیں
-۶لیکن اگر انہیں کسی کی تائید و تقویت مل جائے تو بحیثیت مجموعی وہ ’’حسن لغیرہ‘‘ کے درجہ پر ٓاجاتی ہیں ،اور
استدالل واحتجاج کے الئق بن جاتی ہیں ،اس طرح ایک چھٹی قسم بھی وجود میں ٓاجاتی ہے۔
امام ذہبی کابیان ہے کہ ابوداود کی کتاب میں وارد احادیث کے مختلف درجے ہیںٓ ،اپ نے ابن داسہ کا یہ قول نقل کیا
کہ’’میں نے ابو داود کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں نے اپنی سنن میں صحیح اور اس سے قریب کی احادیث ذکر کی
ہیں ،اور اگر ان میں شدید ضعف ہے تو میں نے اس کو بیان کر دیا ہے‘‘ ،ذہبی کہتے ہیں’’ :میں کہتا ہوں :امام رحمہ
ہللا نے اپنے اجتہاد کے مطابق اسے پورا پورا بیان کیا اور شدید ضعف والی احادیث کو جس کا ضعف قابل برداشت
نہیں تھا بیان کردیا ،اور قابل برداشت خفیف ضعف سے اغماض برتا ،تو ایسی حالت میں ٓاپ کے کسی حدیث پر سکوت
سے یہ الزم نہیں ٓاتا کہ یہ حدیث ٓاپ کے یہاںحسن کے درجے کی ہو،بالخصوص جب ہم حسن کی تعریف پر اپنی جدید
اصطالح کا حکم لگائیں جو سلف کے عرف میںصحیح کی اقسام میں سے ایک قسم کی طرف لوٹتی ہے ،اور جمہور
علماء کے یہاں جس پر عمل واجب ہوتا ہے ،یا جس سے امام بخاری بے رغبتی برتتے ہیں اور امام مسلم اسے لے لیتے
ہیں ،وبالعکس ،تو یہ مراتب صحت کے ادنی مرتبہ میں ہے ،اور اگر اس سے بھی نیچے گر جائے تو احتجاج واستدالل
کی حد سے خارج ہوجاتی ،اور حسن اور ضعیف کے درمیان متجاذب قسم بن جاتی ہے ،تو ابو داود کی کتاب السنن میں:
-۱سب سے اونچا درجہ ان روایات کا ہے جن کی تخریج بخاری ومسلم دونوں نے کی ہے ،اور جو تقریبا ً نصف کتاب
پر مشتمل ہے۔
-۲اس کے بعد وہ حدیثیں ہیں جن کی تخریج بخاری ومسلم (شیخین) میں سے کسی ایک نے کی ،اور دوسرے نے نہیں
کی ہے۔
-۳پھر اس کے بعد وہ روایات ہیں جن کو بخاری ومسلم (شیخین) نے روایت نہیں کیا ،اور وہ جید االسناد ہیں اور علت
وشذوذ سے محفوظ ہیں۔
-۴پھر وہ روایات ہیں جس کی اسناد صالح ہے ،اور علماء نے ان کو دو یا اس سے زیادہ ضعیف طرق سے ٓانے کی
وجہ سے قبول کر لیا ہے کہ ان میں سے ہر سند دوسرے کے لئے تقویت کا باعث ہے۔
-۵پھراس کے بعد وہ احادیث ہیں جن کی سندوں کا ضعف رواۃ کے حفظ میں کمی کی وجہ سے ہے ،ایسی احادیث کو
ابو داود قبول کر لیتے ہیں اور اکثر اس پر سکوت اختیار فرماتے ہیں۔
-۶ان کے بعد سب سے ٓاخری درجہ ان احادیث کا ہے جن کے رواۃ کا ضعف واضح ہوتاہے ،ایسی روایتوں پر وہ عام
طور سے خاموش نہیں رہتے ہیں ،ان کا ضعف ذکر کردیتے ہیں۔
-۷اور اگرکبھی خاموش رہتے بھی ہیں تو اس کی وجہ اس کے ضعف کی شہرت و نکارت ہوتی ہے ،وہللا اعلم‘‘
(السیر ۱۳؍ )۲۱۵ -۲۱۴۔
14
کورس :مٹطالخعہ حدی ث ()4622
سمس ر :زاں 2020،ء
خ ت لن ض ن شن ّ ن
سوال مب ر4۔ کت اب اآلداب کے ب اب اول اور دی گر احادی ث کی رو ی می ں ب ی کری م ح رت دمحم رسول ہللا ا م ا ب ی ی ن صلی ہللا علی ہ وع ٰلی
خ
آلہ و اصحاب ہ وسلم کے حلم و ا الق کی وض احت کری ں
نبی کریم ﷺ اعلى اقدار،حسن اخالق،نرم خوئی ونرم گوئی ،امانت وصداقت ،تہذیب وشائستگی،متانت وسنجیدگی ،حلم
وبردباری،عفو ودرگزری،حسن معاملہ ،شفقت وکرم،بلن د وب اال ک ردار ،حس ن اوص اف اور ع الی اط وار وع ادات کے
پیکر تھے۔ ہمارے نبی ﷺ نبوت سے قبل بھی اخالقی خوبیوں سے ممتار تھے ،اور جب نبوت س ے س رفراز ہ وئے
تو آپ ﷺ مکم ل ط ور س ے ق رآن وح دیث کے تن اظر میں اخالقی ش رافتوں س ے بہ رہ ور ہوگ یے۔ اور ہللا تع الى نے
ہمارے تاجدار مدینہ مصطفقی ﷺ کے اخالق فاضلہ ک و اپ نی کت اب میں ثبت کردی ا ہے ،جیس ا کہ ہللا تع الى ک ا فرم ان
ك لَ َعلَى ُخلُ ٍ
ق َع ِظي ٍْم“( .سورہ قلم)4 : ہے َ ”:وِإنَّ َ
ترجمہ” :میں اعلى اخالقی شرافتوں کی تکمیل کے لیے مبعوث کیا گیا ہوں“۔
جب حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا سے نبی کریم ﷺکے اخالق کی بابت پوچھا گیا تو فرمایا َ ”:كانَ ُخلُقُ هُ ْالقُ رْ آنَ “(.مس ند
احمد)
امام ابوداود رحمہ ہللا نے اپنی کتاب ”سنن ابی داود “ میں نبی کریم ﷺ کے اخالق کریم انہ س ے متعل ق حض رت انس
رضی ہللا عنہ کے قصہ کے ساتھ چیدہ چیدہ احادیث بیان کیا ہے ،جو درج ذیل ہیں-:
ترجمہ”:حضرت انس رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ لوگوں میں باعتبار اخالق کےس ب س ے اچھے تھے،
ایک دن نبی کریم ﷺ نے مجھے کسی ضرورت کے پیش نظر (باہر)بھیجا ،ت و میں نے کہ اکہ و ہللا میں نہیں ج اؤں گ ا،
اور دل میں یہ بات تھی کہ آپ ﷺکے حکم کی تعمیل کے لیے(ضرور) جاؤں گ ا۔ (بع د ازاں ) حض رت أنس رض ی ہللا
عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں گھر سے نکال تو بازار میں کھیل رہے کچھ بچوں کے پاس سے گذر ہوا ،پس اچانک نبی
کریمﷺ میرے پیچھے س ے م یرے س رکی گ دی پک ڑ ل یے ،جب میں نے دیکھ ا ت و ن بی ک ریم ﷺ ہنس رہے ہیں،اور
فرمایا«:اے انس! جاؤ جہاں جانے ک ا حکم دی ا تھ ا»پس میں نے کہ ا کہ ہ اں میں ج اؤں گ ا یارس ول ہللا۔ حض رت انس
15
رض ی ہللا عنہ فرم اتے ہیں کہ میں نے ن بی ک ریم ﷺ کی س ات س ال ی ا ن و س ال خ دمت کی ، مجھے نہیں معل وم کہ
میرےکیے ہوئے کام پر کبھی سوال کیے ہوں ،اور نہ کیے ہوئے کام پر میری سرزنش اور مالمت کی ہو۔
-2نبی کریم صلی ہللا علیہ و سلم کا فرمان ہےِ”:إ َّن ْالهَ ْد َ
ي الصَّالِ َحَ ،وال َّس ْمتَ الصَّالِ َحَ ،وااِل ْقتِ َ
صا َد ُج ْز ٌء ِم ْن َخ ْم َس ٍة َو ِع ْش ِرينَ
ج ُْز ًءا ِمنَ النُّبُ َّو ِة”( سنن ابی داود ،ح)4776:
ترجمہ”یقینا راست روی ،اور حسن خلق ،اور میانہ روی نبوت کے پچیسویں اجزاء کا ایک جزو ہے” –
ترجمہ :حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا فرماتی ہیں کہ”:ہللا کے نبی صلی ہللا علیہ و سلم نے کبھی کسی مالزم ک و ض رب
نہیں ماری اور نہ کسی عورت کو”-
ترجمہ :حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا عرض کرتی ہیں کہ”نبی ک ریم ص لی ہللا علیہ و س لم کی جن اب میں کس ی ش خص
سے متعلق کوئی چیز (شکایات)پہونچتی ،تو آپ نے یہ نہیں فرماتے کہ فالں ک و کی ا ہوگی اہے ج و ایس ی ب ات کرت ا ہے،
لیکن یہ ضرور کہتے کہ ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جو ایسی باتیں کرتے ہیں” –
ترجمہ”:میں ایسے شخص کے لیے جنت کے عالقے میں ایک گھر کی ضمانت لیتا ہوں جس نے حق بجانب ہوتے ہوئے
جنگ وجدال سے ہاتھ ٹھالیا ،اور جنت کے وس ط میں ای ک گھ ر کی ض مانت لیت ا ہ وں جس نے مزاح ا ہی س ہی جھ وٹ
ودورغ گوئی سے اجتناب کرلیا ،اور جنت کے اعلی سطح پر ایک گھر کی ضمانت لیتا ہ وں جس نے اخالق وک ردار کی
تحسین وتزئین کاری کی”-
ان احادیث کے عالوہ بہت سی حدیثیں حدیث کی کتابوں میں درج ہیں جو نبی کریم صلی ہللا علیہ و سلم کی ش رافتوں اور
اعلی اخالقی اقدار سے روشناس کرتی ہیں -طول وطویل کے پیش نظر انہی چند احادیث پر اکتفا کرتا ہوں-
16
کورس :مٹطالخعہ حدی ث ()4622
سمس ر :زاں 2020،ء
-1نبی کریم صلی ہللا علیہ و سلم کی اخالقی اقدار کا مقابلہ کرہ ارضی پ ر قی ام پ ذیر ل وگ نہیں کرس کتے ،کی وں کہ آپ
حسن کردار کی اعلی سطح پر براجمان تھے-
-2ہمارے نبی تاجدار مدینہ صلی ہللا علیہ و سلم نہایت ہی خندہ رو ،خ وش م زاج ،خ وش طب ع اور ہنس مکھ تھے ،غی ظ
وغضب سے بہت پرے تھے-
-3مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو اسالمی س انچے اور اس المی تعلیم ات ک ا آئینہ دار بن ائیں اور اچھے
عادات واطوار اور اعلی کردار سے اپنے آپ کو متصف کریں-
-4اپنے مالزمین اور نوکر چاکر کے ساتھ اچھا سلوک وبرتاؤ کریں ،انہیں اخالق باختہ کلمات ت سے نہ بالئیں ،اگ ر ان
سے بشری تقاضے کے مطابق کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو ترش روئی ک ا مظ اہرہ نہ ک ریں اور نہ سرزنش ی ک ردار
نبھائیں ،جیساکہ نبی کریم صلی ہللا علیہ و سلم کے واقعات سے پتہ چلتا ہے –
-5بزرگ اور بڑوں کی خدمت کرنی چاہیے ،ان سے نرم لہجے میں کالم کرنا چاہیے-
-6راست روی اور دیانت داری ،حسن اخالق اور اعتدال پسندی ایک عظیم انسانی سوغات ہے ،جس ے ن بی ک ریم ص لی
ہللا علیہ و سلم نے اس کی اہمیت وفضلت کے پیش نظر نبوت کے پچیسویں اجزاء کا ایک جزو قرار دیا –
-7کسی کی اصالح اور سدھار کرتے وقت عمومی طور سے انکار منک ر ک ریں ت اکہ کس ی کے دل میں تنگی نہ ہ ونے
پائے-
-8حسن خلق نہایت ہی وزنی شی ہے ،جسے کوئی میزان سے وزن نہیں کیا جاسکتا-
17