You are on page 1of 7

‫‪OUTLOOK‬ن ‪FUTURISTIC‬‬‫ق‬ ‫‪OF PAKISTAN‬‬

‫مست‬
‫پ اکست ان کے ب ل پر ظ ر‬
‫ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ‬
‫ـــــــــــــــــــــــــــ ارباب‬ ‫نام‬
‫ــــــــــــــــــــــــــ ‪4338‬‬ ‫رولنمبر‬
‫ـــــــــــــــــــــــ آصف نوید‬ ‫پروفیسر‬
‫مضمون ـــــــــــــــــــــــ مطالعہ پاکستان‬
‫سوشیالوجی‬ ‫ڈیپارٹمنٹ ــــــــــــــــــــــــ‬
‫ـــــــــــــــــــــــــــــــ فرسٹ‬ ‫سمیسٹر‬
‫ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ‬
‫گورنمٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج سمن آباد فیصل آباد‬
‫ہمارا دینی اور ملی فریضہ ہے کہ ہم اپنے گردو پیش کے حاالت سے بے خبر رہیں اور اصالح حال کی‬
‫کوشش کرتے رہیں۔ہللا کے نزدیک غفلت کی زندگی انسانی نہیں بلکہ حیوانیـ سطح کی زندگی ہے۔‬
‫شیطان کا یہ حربہ ہے کہ وہ چاہتا ہے کے ہم مسائل سے التعلق ہو کر کسی جزوی نیکی کے اندر ہی‬
‫ق ن ن ن‬
‫ے اپ ی ز دگی کی‬‫لگے رہین اور مطمئین نرہیں کہ ہاں ہم اپنیش دینی ذمہ داری پوری کر رہیں ہیں۔ان ب ال ئ‬ ‫ن‬
‫ن‬ ‫خ‬
‫ے مکروہ عزا م کے حوالے‬ ‫آ ری ظ موں خمی ں سے نای ک ظ م "اب لیس کی مج لس وری" می ں ب ی ان ک ی ا کہ اب لیس کو د ی ا می ں پا‬
‫ئ‬ ‫ن ش ٰ‬ ‫ص‬
‫ے کہ کہی ں مسلمان پ ھر سے ن ہ ج اگ ج ا ی ں۔لہٰذا وہ ای ک‬ ‫ے۔اس کو ا دی ف ہ الحق ہ‬‫سے ا ل طرہ مسلما وں سے ہ‬
‫ت‬ ‫کن ت‬ ‫غ‬
‫ے کہ‬‫ے کی دبیر ی ہ ب ت ا ہ‬
‫ا‬ ‫‪:‬مسلمان کو ا ل ر ھ‬
‫ف‬
‫ص ح گاہ ی می ں اسے‬ ‫مست رکھو ذکر و کر ب‬
‫نق‬ ‫خ ت‬
‫پ ت ہ ر کردو مزاج خ ا اہ ی می ں اسے‬
‫مط ئ‬ ‫پن‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫ے اور گردوپ یش‬ ‫ر‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫وں‬ ‫ی‬
‫م‬ ‫سرگر‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ہ‬‫مذ‬ ‫ان‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ے‪،‬‬ ‫ر‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫مرے‬ ‫ع‬ ‫و‬ ‫حج‬ ‫ے‪،‬‬ ‫ر‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ے‪ ،‬روزے رک‬ ‫ر‬ ‫ا‬ ‫ت‬‫ھ‬‫ڑ‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫ز‬‫ما‬ ‫یہ‬
‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ت‬‫ہ‬ ‫پ‬
‫نن ک ئض‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫ع‬ ‫ب‬
‫ے روری‬ ‫ے۔ا لیس کی اس دشبیر کو اکام ب اے ی ل‬ ‫ے سوچ چ ار سے ال لق رہ‬ ‫کے حاالت کے ج زی ہ اور اصالحت کے یل‬
‫ے حاالت کو دی ک‬ ‫ہ ن‬
‫ان حاالت کی اصالح کی کو ش کری ں۔اگرچ ہ وطن عزیز‬ ‫عد‬ ‫ب‬ ‫کے‬ ‫اس‬ ‫اور‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫ر‬ ‫ک‬ ‫ہ‬ ‫ی‬‫ز‬‫ق‬ ‫ج‬ ‫ں‪،‬‬ ‫ی‬‫ھ‬ ‫نکی م اپن ت‬ ‫ے‬ ‫ہ‬
‫ل‬ ‫غ ف ن‬ ‫ت‬
‫س‬ ‫م‬
‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ہ‬
‫ے کن پ اکست ان کے ب ارے می ں م‬ ‫کے ب ل کے حوالے سے ورو کر کر ا ق م پر الز نم ہ‬ ‫ہ وے کے اے پ اکست ان ت‬
‫ے۔‬ ‫ے جس کے ی ام کی ب ی اد اسالم ہ‬ ‫ے کہ ی ہ وہ واحد ملک ہ‬ ‫ے ب ڑھ ج ا ی ہ‬ ‫پر ی ہ زمہ داری اس یل‬
‫کسی بھی معاشرے ‪،‬ملک ‪،‬یا پھر قومـ کا مستقبل اس معاشرے ‪،‬ملک یا پھر قوم کے نوجوانوں کے ہاتھ‬
‫میں ہوتا ہے ۔ دنیا بھر کی آبادی کا چھٹا حصہ جبکہ پاکستان میں کل آبادی کا نصف نوجوانوں پر مشتمل‬
‫ہے‪ ،‬ہمارے ہاں آبادی میں سب سے زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے یعنی ‪ 15‬سے ‪ 30‬سال کے افراد کی‬
‫عمر کی تعداد ‪ 40‬فیصدـ سے زائد ہے۔وہ تمام افراد جن کی عمریں ‪15‬ـ‪ 29‬برس کے درمیان ہوں ‪ ،‬یوتھ‬
‫یعنی نوجوان کہالتے ہیں۔ انھیں معاشرے کا سب سے فعال اور چاق و چوبند طبقہ سمجھاجاتا ہے‬
‫کیونکہ عمر کے اس حصے میں انسان مسلسل زیادہ ذہنی وجسمانیـ محنت کرسکتا ہے۔ اس حقیقت سے‬
‫کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ نوجوان نسل ملک و قوم کا بیش بہا اثاثہ ہوتا ہے۔ اسے فرض شناسیـ اور‬
‫اپنی ذمہ داریوں کا احساس دالکر صحیح سمت کی طرفـ رواں کیا جائے تو نہ صرف ہر شعبہ ہائے‬
‫زندگی اپنا بھرپور کردارـ ادا کرسکتا ہے بلکہ ملک کی معاشی و معاشرتی ترقیـ میں نئی تاریخ رقم‬
‫کرسکتا ہے۔پاکستان کو یوتھ کی تعداد کے اعتبار سے خوش قسمت ملک تصورـ کیا جاتا ہے کیونکہ‬
‫ملک کی کل بادی کا ایک بڑا حصہ یعنی ‪ 25‬ملین نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ ‪ 1998‬کی مردم شماریـ کے‬
‫مطابق ملک کی آبادی کا ہر پانچواں فرد ‪15‬ـ‪ 25‬سال کے درمیانی عمر کا ہوتا ہے اس عمر میں کچھ‬
‫کرنے کا وقت ہوتا ہے نوجوان ملک کے مستقبل کے لئے کوشاں ہوتے ہیں ۔ملک پاکستان کی بنیاد کلمہ‬
‫طیبہ الالہ ہللا پر رکھی گئی تھی۔تاکہ ہم علیحدہ ملک حاصل کرکے اسالم کی تعلیمات پر عمل پیرہ ہو‬
‫گئیں۔ اوراسالمـ کی اور اپنے اسالف کی تاریخ کو روشن رکھیں گئیں۔‬

‫لیکن آج ہمیں پاکستان میں چندگنتیـ کے اداروں کے عالوہ کہیں اسالم کی تعلیم کے ادارے نظر نہیں‬
‫آتے ہم دشمن کی سازشوں کاشکارـ ہوگئے ہیں اور دن بدن ہوتے جارہے ہیں ۔بھارت ‪،‬امریکہ ‪،‬اور‬
‫مغربی ملکوں کا آپس میں اتحادخطے کے لئے خطرے کا باعث بن گیا ہے ۔ یونیورسٹیوں ‪،‬کالجز میں‬
‫لڑکے ‪،‬لڑکیاں اکٹھی تعلیم حاصل کررہے ہیں ‪،‬جوطریقہـ ہم میں مغرب نے رائج کیا ہے اور آج ہم اس‬
‫کے مطابق چل رہے ہیں اسکی وجہ کرکے گرل فرینڈ‪،‬بوائے فرینڈـ ‪،‬کی بیماریـ ہم میں عام ہورہیـ ہے‬
‫اور یہ بیماریـ ہمارے نوجوانوں کو تعلیمی اداروں سے تحفے کے طور پر لگائی گئی ہے ایک نہیں‬
‫ایسی کتنی ہی بیماریاں ہیں جو ہمیں اس مخلوط تعلیم حاصل کرنے کے وقت لگی ہیں اور جو ہماریـ‬
‫رگوں میں خون کی طرح گردش کررہی ہیں۔چند ر وز قبل ذرائع ابالغ میں ایک دردناک رپورٹـ شائع‬
‫ہوئی جس کے مطابق قائداعظمـ یونیورسٹی کے طلبا شراب‪ ،‬چرس‪ ،‬ہیروئن اور دیگر منشیات کا استعمال‬
‫کر رہے ہیں۔ قائداعظم یونیورسٹیـ کے حوالے سے شائع ہونے والی رپورٹ کی تفصیالت درج ذیل ہیں۔‬
‫سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں قائداعظمـ یونیورسٹی کے ڈین ڈاکٹر وسیمـ احمد نے انکشاف کیا‬
‫کہ قائداعظمـ یونیورسٹی میں ہر قسم کی منشیات سپالئی ہو رہی ہیں۔ طلبہ شراب‪ ،‬چرس‪ ،‬ہیروئن کے‬
‫عالوہ الہورـ میں تیار ہونے والی ‪ 5‬سے ‪ 15‬ہزار مالیت کی نشہ آور گولی استعمال کر رہے ہیں۔‬
‫استعمال کرنے واال پانچ سے چھ گھنٹے بے ہوش رہتا ہے۔‬

‫تعینات ڈسپلن کمیٹی نے بعض طلبا کو جرمانے بھی کئے ہیں۔ یونیورسٹی کے ذمہ داران اس حوالے‬
‫سے کئی بار پولیس کو بھی آگاہ کر چکے ہیں۔ یونیورسٹی کی چار دیواری نہ ہونے کی وجہ سے‬
‫منشیات کی کھلے عام سپالئی کی جا رہی ہے اور سیکورٹیـ کے مسائل بھی ہیں اس سے پہلے بھی‬
‫‪24‬اکتوبر کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی داخلہ کے اجالس میں یہ رپورٹـ پیش کی گئی کہ اسالم آباد کے‬
‫نجی تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبا و طالبات میں سے ‪ 53‬فیصد ایسے ہیں جو منشیات کا شکار‬
‫ہیں۔ یہ منشیات ادارے کی کینٹین‪ ،‬باہرسے آنے والے ریڑی بان‪ ،‬اساتذہ اور پہلے نشہ کرنے والے طالب‬
‫علموں سے میسر آتی ہیں۔ نشہ کی لت میں مبتال اکثر امیر گھروں کے چشم و چراغ ہیں جو جیب خرچ‬
‫کو نشہ کی عادت کو پورا کرنے کے لیے لگا دیتے ہیں۔ اس خبرنے ملک کے باشعورـ حلقوں میں ایک‬
‫ہل چل مچادی ہے۔‬

‫یک مخصوص طبقہ جو نوجوانوں کی رگوں میں زہر اتارکر قیمت وصول کر رہا ہے‪ ،‬اس نے ماحول‬
‫پر بڑے بھیانک اثرات مرتب کیے ہیں۔ جگہ جگہ شیشہ سنٹر کھل گئے ہیں۔ جہاں پر یہ مکروہ کام ہو‬
‫رہا ہے۔ یہ نوجوان جو ابھی پوری طرح شعورـ کی منزل تک نہیں پہنچے‪ ،‬جو اپنے نفع اور نقصان کو‬
‫بھی اچھی طرح نہیں جانتے‪ ،‬وہ بے چینی میں اس مہلک بیماری میں مبتال ہو رہے ہیں۔ وہ ایک‬
‫دوسرے کو دیکھ کر فیشن کے طورـ پر منشیات کے عادی ہو رہے ہیں۔ وہ گھرانے جن کے خاندان میں‬
‫کوئی نشہ کرنے واال نہیں‪ ،‬اُن گھر وں کے بچے اس فعل بد میں شامل ہو رہے ہیں۔ ماں باپ تو اوالد کا‬
‫مستقبل سنوارنےـ کے لیے اوالد کو تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں لیکن یہی تعلیمی ادارے ان کے‬
‫مستقبل کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔ اہم بات یہ کہ نام نہاد آزادی‪ ،‬بے حیائی‪ ،‬سیکولرازمـ اور لبرل ازم‬
‫کے رنگ میں رنگے ہوئے اور مخلوطـ ماحول مہیا کرنے والے یہ ادارے خاص طورـ پر اس بیماریـ‬
‫میں مبتال ہیں۔ جہاں گرل فرینڈـ اور بوئے فرینڈـ کا کلچر فروغـ پا رہا ہے‪ ،‬جو بعد میں ناکامی‪ ،‬مایوسیـ‬
‫اور تعلیمی اداروں میں خود کشی کے واقعات کا سبب بنتا ہے۔گزشتہـ پندرہ سالوںسے وطن عزیز دہشت‬
‫گردی کا شکار ہے اور یہاں خون بہ رہا ہے ‪ 50‬ہزار کے قریب پاکستانیـ اس جنگ میںجان سے ہاتھ‬
‫دھو بیٹھے ہیں۔‬

‫ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ امریکہ کی اس جنگ نے پاکستان کی معیشت پر بڑے برے‬
‫اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ سارا نقصان ایک طرف‪ ،‬اس سے کئی گناہ بڑا نقصان نسل کا تباہی کی طرف‬
‫تیزی کے ساتھ بڑھنا ہے۔ نوجوان طلبا اپنے پیسوں سے موت کو خرید رہے ہیں۔ دشمن سے جنگ کیے‬
‫بغیر اپنے ہی ہاتھوں تباہی کا شکار ہو رہے ہیں۔ میڈیا اس میدان میں بڑا اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ میڈیا‬
‫پر اس کی تباہ کاریوں سے متنبہ کیا جائے ۔‪9/11‬کے بعد جب امریکہ نے حملہ کیا تو اس کے بعد‬
‫امریکی سرپرستی میں کام شروع ہوا اور یہ آج بام عروج پر ہے۔ جو نسلوں کو تباہ کر رہا ہے اور‬
‫والدین کی امیدوں پر پانی پھیر رہاہے۔‬

‫حکومت وقت کو چاہیے جو نوجوان منشیات کا شکار ہو چکے ہیں اُن کو اس بیماری سے آزاد کروانے‬
‫کے لیے ایسے ادارے کھولے جائیں جو بہترین عالج معالجہ فراہمـ کریں۔ خاص طور پر وزارت تعلیم‬
‫اس پر توجہ دے۔ کہیں ایسا نہ ہ و کہ مستقبل کے ڈاکٹر‪ ،‬انجینئر اور بزنس مین ‪ ،‬وہ خودکشیـ کی اس‬
‫راہ پر چل پڑیںاور معاشرے میں اپنا کوئی مثبت کردار ادا نہ کر سکیں۔اس سلسلے میں حکومت کو‬
‫ٹھوس الئحہ عمل اپنانا چاہیے اور یونیورسٹیوں ‪،‬کالجز ‪،‬اور مختلف تعلیمی اداروں میں تربیت کا اہتمام‬
‫کرنا چاہیے تاکہ ہمارے نوجوانوں کا مستقبل محفوظ ہوسکے اور یہ نوجوان آنے والے وقتوں میں‬
‫پاکستان کی سالمیت میں اہم کردار ادا کرسکیں۔‬

‫بیرون ملک جانا اور وہاں جاکر کوئی بھی مالزمت کرلینا ہمارے ملک کے نوجوانوں کا ایک خواب ہے‬
‫ِ‬
‫جس کی تعبیرـ میں وہ ایک کثیر سرمایہـ خرچ کرکے بیرون ملک جاتے ہیں‪ ،‬اور وہاں ہمارے نوجوان‬
‫ہر وہ کام کرتے ہیں جس کو اپنے ملک میں کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے‪ ،‬لیکن پھر بھی باہر‬
‫جاکر وہ سب کام کرنے پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔ اگر یہ سارے کام صرف ناخواندہ افراد کررہے‬
‫ہوتے تو شاید معاملہ قابل ذکر نہیں ہوتا‪ ،‬کیونکہ دنیا کے ہر ملک میں غیر مقامی لیبر فورسـ موجود‬
‫ہوتی ہے‪ ،‬لیکن اب اِس کی زد میں ہمارے پڑھے لکھے نوجوان بھی ٓاچکے ہیں جو ٓانکھوں میں مستقبل‬
‫کے حوالے سے سنہری خواب‪ ‬سجائے بیرون ملک سدھار جاتے ہیں اور وہاں جاکر معمولیـ مالزمت‬
‫کرکے اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‬

‫پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں ہللا ٰ‬


‫تعالی نے بے پناہ صالحیتوں کے لوگ پیدا کئے ہیں۔ ہمارے‬
‫نوجوان ہر قسم کی صالحیتوں کے مالک ہیں لیکن شومئی قسمت کہ اُن کے ذہنوں میں بچپن سے ہی‬
‫نظام تعلیم اور‬
‫ِ‬ ‫پاکستان سے باہر اپنا مستقبل بنانے کے سپنے سجانے والے کوئی اور نہیں‪ ،‬بلکہ ہمارا‬
‫ہمارے والدین ہی ہیں۔ حکومت کو میں اِس پوری صورتحالـ کا اولین ذمہ دار سمجھتا ہوں لیکن حکومت‬
‫پر تبرا بھیجنے سے کچھ حاصل ہونے واال نہیں ہے۔ میں اپنے نوجوانوں کو یہ بات بتانا چاہتا ہوں کہ‬
‫زندگی میں دو چیزوں کا خوف اپنے دل سے نکال دیں اور دو چیزوں کو اختیار کرلیں‪ ،‬اگر انہوں نے‬
‫یہ کام کرلیا تو پھر دنیا کی کوئیـ طاقت اُن کو پاکستان میں بہترین مستقبل بنانے سے نہیں روک سکتی۔‬
‫پہلی دو چیزیں جن کا خوفـ آپ کو اپنے دل سے نکالنا ہوگا وہ ہیں‬

‫‪ ‬‬

‫‪‬‬ ‫رزق کا خوف‬

‫‪‬‬ ‫موت کا خوف‬

‫بطور مسلمان یہ ہمارے ایمان کا بنیادی جزو ہے کہ رازق ہللا کی ذات ہے اور‬
‫ِ‬ ‫یہ بات سمجھ لیجیے کہ‬
‫کوئی آپ کا رزق نہیں چھین نہیں سکتا‪ ،‬جبکہ موت کا ایک وقت مقرر ہے جوکہ آکر رہنی ہی ہے خواہ‬
‫آپ کا مقررہ وقت پاکستان میں آپہنچا ہو یا امریکہ میں۔‬

‫جن دو باتوں کو آپ کو اختیار کرنا ہے وہ ہیں‬

‫‪ ‬‬

‫‪‬‬ ‫عزم صمیم‬

‫‪‬‬ ‫مستقل محنت‬

‫یقین مانیے کہ اگر آپ نے اِن دو چیزوں کو اختیار کرلیا تو کوئی آپ کو ایک کامیاب انسان بننے سے‬
‫نہیں روک سکتا۔ اگر ٓاپ کسی بات کا عزم کرلیں تو وہ عزم ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اپنا ارادہ ہر دو دن‬
‫بعد تبدیل کریں بلکہ اُس ارادے پر قائم ہوجائیں اور طے کرلیں کہ یہ کام اب‪ ‬آپ کو ہر حال میں کرنا‬
‫ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ محنت کرنے کی عادت ڈالیں کیونکہ یہ دنیا کی شاید سب سے بڑی حقیقت‬
‫ہے کہ ہللا کسی کی بھی محنت کو ضائع نہیں کرتا‪ ،‬لیکن محنت کے ساتھ صبر کو بھی اپنا شعار بنائیے۔‬
‫ایک دن محنت کرکے دوسرے دن اُس کے صلے کی توقع کرنا اور صلہ نہ ملنے کی صورتـ میں‬
‫محنت ترک کردیناـ سب سے بڑی بیوقوفی ہے‪ ،‬لیکن جب ٓاپ مسلسل محنت کرتے رہیں گے تو ایک دن‬
‫ایسا ضرور ٓائے گا جب کامیابیـ ٓاپ کے قدمـ چومے گی۔‬

‫اب بات کرتے‪ ‬ہیں پاکستان کے مستقبل کے بارے میں۔ میرا تو اِس بات پر یقین ہے اور ٓاپ سے بھی‬
‫کہنا چاہتا ہوں کہ ٓاپ بھی اِس بات پر یقین رکھیے کہ دنیا کی کوئی قوم اور ملک اِس وقت یہ دعوی‬
‫کرنے کی پوزیشن میں ہے ہی نہیں کہ وہ فنا ہونے کے خطرے سے دوچارـ نہیں۔ آپ پورے یورپ کو‬
‫اٹھاکر دیکھ لیجیے‪ ،‬ہر وقت اُن کے سنجیدہ طبقات میں یہی گفتگو جاری ہے کہ کس طرح ہم اپنے سماج‬
‫کو بچائیں؟ کسی کو اپنے مذہب کے فنا ہونے کا خطرہ ہے‪ ،‬کسی کو اپنی معیشت کے بیٹھ جانے کا ڈر‬
‫تو کسی کو باصالحیت افراد کی کمی کا سامنا ھے۔ یہی وجہ ہے کہ کہ آئے دن وہ مختلف عنوانات سے‬
‫دنیا کے مختلف ممالک سے مختلف قسم کے افراد کو اپنے ہاں بالتے ہیں۔ لیکن اُن کے سنجیدہ طبقات‬
‫میں جاری یہ بحث کبھی ملک پر سوالیہ نشان کی صورت میں چوک اور چوراہوں پر نہیں ہورہی ہوتی‬
‫اور نا ہی اُن کی نوجوان نسل کو یہ باور کروایاـ جاتا ہے کہ بس یہ ملک اب ڈوبنے کے قریب ہے۔ اگر‬
‫کسی ڈوبتی ہوئی کشتی کا مالح اِس بات کا اعالن کردے کہ بس اب ہمیں اب ڈوبنے سے کوئی نہیں‬
‫بچاسکتا تو اُس کشتی میں پھیلنے والی مایوسی کی بدولت کچھ لوگ سمندرـ میں چھالنگ لگا کر اپنی‬
‫جان ضائع کردیں گے تو کچھ مایوسیـ سے اپنی موت کا تماشہ دیکھیں گے۔ لیکن اِس کے برعکس اگر‬
‫وہی مالح اِس بات کا اعالن یوں کرے کہ اِس کشتی میں ایک سوراخ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے پانی‬
‫اندر آرہا ہے‪ ،‬اور یہ پانی ہمارے لیے مشکالت پیدا کرسکتا ہے تو لوگوں کی سوچ مختلف ہوگی اور اُن‬
‫کی سوچ کا محورـ و مرکز صرفـ اور صرفـ کشتی میں موجود سوراخ کو بند کرنا ہوگا۔ لہذا وہ مایوس‬
‫ہوکر کشتی سے کودنے کے بجائے سوراخ کو بند کرنے کی جدوجہد کریں گے اور منزل تک پہنچنے‬
‫کی اُمید زندہ رکھیں گے۔ یعنی اِس پوریـ مثال سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ایک ہی مسئلے میں سوچ کے‬
‫فرق کی وجہ سے عمل مکمل طور پر تبدیل ہوسکتاـ ہے۔‬

‫یہی کچھ پاکستان اور دیگر ممالک کی سوچ کا فرق ہے۔ مجھے یہ بات کہنے میں کوئیـ عار نہیں‬
‫کہ‪ ‬پاکستان کی کشتی میں بھی سوراخ موجودـ ہیں‪ ،‬لیکن سوال یہ ہے کہ اِس صورتحال مین ہمارا عمل‬
‫کیا ہے؟ ہم اِن سوراخوں کو بند کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں یا پھر بیٹھ کر تماشا دیکھ رہے ہیں؟ ایک‬
‫اور بات بھی سمجھ لیجیے کہ معاملہ دنیا کا ہو یا کشتی کا‪ٓ ،‬اپ کو کبھی بھی ہر ایک فرد سوراخـ بند‬
‫کرنے کی کوشش کرتا نہیں نظر آئے گا بلکہ صرف شعورـ رکھنے والے افراد ہی اِس سوراخ کو بند‬
‫کرنے کی جدوجہد کریں گے۔ لہذا باقی لوگوں کو دیکھ کر مایوس نہ ہوں بلکہ اپنا کام جاری رکھیں‪،‬‬
‫کیونکہ اگر ٓاپ بھی سوراخ بند کرنے کی جدوجہد کو صرف اِس لیے بند کردیں کہ دیگر لوگ یہ کام‬
‫نہیں کررہے تو وہ کشتی جس میں آپ بھی سوار ہیں‪ ،‬آپ سمیت ہی ڈوب جائے گی۔‬

‫یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ پاکستان کو چھوڑـ کر آپ کہیں بھی بھاگ جائیں‪ ،‬آپ ہمیشہ پاکستانی ہی رہیں‬
‫گے اور پاکستان آپ کی شناخت رہے گا۔ اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو امریکہ و برطانیہـ میں آباد‬
‫پاکستانیوں کی تیسری نسل کو ہی دیکھ لیجیے جو وہیں پیدا ہوئیـ اور وہیں پلی بڑھی‪ ،‬لیکن اِس کے‬
‫باوجودـ بھی وہ تیسریـ نسل ٓاج بھی پاکستانی ہی کہالئی جاتی ہے۔ لہذا جب میں اور ٓاپ اپنی شناخت تو‬
‫تبدیل نہیں کرسکتے تو کیوں ایسا نہیں کرتے کہ اپنی شناخت تو بہتر کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہـ‬
‫اِس ملک کی اچھی شناخت بھی ہماری شناخت تصورـ ہوگی اور اِس ملک کی بُری شناخت بھی ہماری‬
‫شناخت ہی تصورـ ہوگی۔ لہذا اِس ملک میں موجود سوراخوںـ کو اور اِس کے دامن پر لگے ہوئے دھبوں‬
‫کو ہم نے اور ٓاپ نے مل کر ہی دھونا ہے۔ اِس کے دامن کو رفو کرنا ہے اور یہ کام کرنے کے لیے‬
‫اپنے عمل کو کشتی میں موجودـ سوراخ کو بھرنے واال بنانا ہوگا۔ اگر ٓاپ صحافیـ ہیں تو ٓاپ بااصول‬
‫صحافی ہوں‪ ،‬اگر ٓاپ استاد ہیں تو ٓاپ کا عمل استاد واال ہو‪ ،‬اگر ٓاپ منصفـ ہوں تو ٓاپ انصافـ کرتے‬
‫ہوں۔ اپنی ذات سے ابتداء کریں پھر دیکھیے کہ کیسے یہ قوم ایک باوقارـ قوم کے روپ میں سامنے نہیں‬
‫ٓاتی۔ لیکن محض کوسنے دینے سے پاکستان کا نہ تو وقار بحال ہوگا اور نہ ہی پاکستان کے مستقبل پر‬
‫پھیلے مایوسیـ کے بادل چھٹیں گے۔ لہذا ٓاپ کو بارش کا پہال قطرہ بننا ہوگا۔‬

‫ٹ ئ‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ے‬ ‫ی‬‫ھا‬ ‫ا‬ ‫ں‬ ‫ے ی‬
‫گاہ‬ ‫د ی ا ب دل رہ ی ہ‬
‫نک م ئ‬ ‫تق ئ‬
‫ے‬ ‫اس ار ا ی دور سے آ ھی ں الی‬
‫ئ‬ ‫تف ق‬
‫ے‬ ‫ب‬ ‫ب‬
‫آپس کے ر وں کو ا ھی ھول ج ای‬
‫ئ‬ ‫ن‬
‫ے‬ ‫ہ‬
‫ص ح و کی س ی ا ی م ٹ ای‬‫مل ج ل کے ِب‬

You might also like