Professional Documents
Culture Documents
Assignment - Futuristic Outlook of Pakistan in Urdu
Assignment - Futuristic Outlook of Pakistan in Urdu
مست
پ اکست ان کے ب ل پر ظ ر
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ـــــــــــــــــــــــــــ ارباب نام
ــــــــــــــــــــــــــ 4338 رولنمبر
ـــــــــــــــــــــــ آصف نوید پروفیسر
مضمون ـــــــــــــــــــــــ مطالعہ پاکستان
سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ ــــــــــــــــــــــــ
ـــــــــــــــــــــــــــــــ فرسٹ سمیسٹر
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
گورنمٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج سمن آباد فیصل آباد
ہمارا دینی اور ملی فریضہ ہے کہ ہم اپنے گردو پیش کے حاالت سے بے خبر رہیں اور اصالح حال کی
کوشش کرتے رہیں۔ہللا کے نزدیک غفلت کی زندگی انسانی نہیں بلکہ حیوانیـ سطح کی زندگی ہے۔
شیطان کا یہ حربہ ہے کہ وہ چاہتا ہے کے ہم مسائل سے التعلق ہو کر کسی جزوی نیکی کے اندر ہی
ق ن ن ن
ے اپ ی ز دگی کیلگے رہین اور مطمئین نرہیں کہ ہاں ہم اپنیش دینی ذمہ داری پوری کر رہیں ہیں۔ان ب ال ئ ن
ن خ
ے مکروہ عزا م کے حوالے آ ری ظ موں خمی ں سے نای ک ظ م "اب لیس کی مج لس وری" می ں ب ی ان ک ی ا کہ اب لیس کو د ی ا می ں پا
ئ ن ش ٰ ص
ے کہ کہی ں مسلمان پ ھر سے ن ہ ج اگ ج ا ی ں۔لہٰذا وہ ای ک ے۔اس کو ا دی ف ہ الحق ہسے ا ل طرہ مسلما وں سے ہ
ت کن ت غ
ے کہے کی دبیر ی ہ ب ت ا ہ
ا :مسلمان کو ا ل ر ھ
ف
ص ح گاہ ی می ں اسے مست رکھو ذکر و کر ب
نق خ ت
پ ت ہ ر کردو مزاج خ ا اہ ی می ں اسے
مط ئ پن ت ن
ے اور گردوپ یش ر ن م ں یم وں ی
م سرگر ی ب ہمذ ان ی ا ے، ر ا کر مرے ع و حج ے، ر ا ت ھ ے ،روزے رک ر ا تھڑ ں یزما یہ
ہ ہ ت ہ تہ پ
نن ک ئض ن ت ب ع ب
ے روری ے۔ا لیس کی اس دشبیر کو اکام ب اے ی ل ے سوچ چ ار سے ال لق رہ کے حاالت کے ج زی ہ اور اصالحت کے یل
ے حاالت کو دی ک ہ ن
ان حاالت کی اصالح کی کو ش کری ں۔اگرچ ہ وطن عزیز عد ب کے اس اور ں یر ک ہ یزق ج ں، یھ نکی م اپن ت ے ہ
ل غ ف ن ت
س م
ہ ی ہ
ے کن پ اکست ان کے ب ارے می ں م کے ب ل کے حوالے سے ورو کر کر ا ق م پر الز نم ہ ہ وے کے اے پ اکست ان ت
ے۔ ے جس کے ی ام کی ب ی اد اسالم ہ ے کہ ی ہ وہ واحد ملک ہ ے ب ڑھ ج ا ی ہ پر ی ہ زمہ داری اس یل
کسی بھی معاشرے ،ملک ،یا پھر قومـ کا مستقبل اس معاشرے ،ملک یا پھر قوم کے نوجوانوں کے ہاتھ
میں ہوتا ہے ۔ دنیا بھر کی آبادی کا چھٹا حصہ جبکہ پاکستان میں کل آبادی کا نصف نوجوانوں پر مشتمل
ہے ،ہمارے ہاں آبادی میں سب سے زیادہ تعداد نوجوانوں کی ہے یعنی 15سے 30سال کے افراد کی
عمر کی تعداد 40فیصدـ سے زائد ہے۔وہ تمام افراد جن کی عمریں 15ـ 29برس کے درمیان ہوں ،یوتھ
یعنی نوجوان کہالتے ہیں۔ انھیں معاشرے کا سب سے فعال اور چاق و چوبند طبقہ سمجھاجاتا ہے
کیونکہ عمر کے اس حصے میں انسان مسلسل زیادہ ذہنی وجسمانیـ محنت کرسکتا ہے۔ اس حقیقت سے
کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ نوجوان نسل ملک و قوم کا بیش بہا اثاثہ ہوتا ہے۔ اسے فرض شناسیـ اور
اپنی ذمہ داریوں کا احساس دالکر صحیح سمت کی طرفـ رواں کیا جائے تو نہ صرف ہر شعبہ ہائے
زندگی اپنا بھرپور کردارـ ادا کرسکتا ہے بلکہ ملک کی معاشی و معاشرتی ترقیـ میں نئی تاریخ رقم
کرسکتا ہے۔پاکستان کو یوتھ کی تعداد کے اعتبار سے خوش قسمت ملک تصورـ کیا جاتا ہے کیونکہ
ملک کی کل بادی کا ایک بڑا حصہ یعنی 25ملین نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ 1998کی مردم شماریـ کے
مطابق ملک کی آبادی کا ہر پانچواں فرد 15ـ 25سال کے درمیانی عمر کا ہوتا ہے اس عمر میں کچھ
کرنے کا وقت ہوتا ہے نوجوان ملک کے مستقبل کے لئے کوشاں ہوتے ہیں ۔ملک پاکستان کی بنیاد کلمہ
طیبہ الالہ ہللا پر رکھی گئی تھی۔تاکہ ہم علیحدہ ملک حاصل کرکے اسالم کی تعلیمات پر عمل پیرہ ہو
گئیں۔ اوراسالمـ کی اور اپنے اسالف کی تاریخ کو روشن رکھیں گئیں۔
لیکن آج ہمیں پاکستان میں چندگنتیـ کے اداروں کے عالوہ کہیں اسالم کی تعلیم کے ادارے نظر نہیں
آتے ہم دشمن کی سازشوں کاشکارـ ہوگئے ہیں اور دن بدن ہوتے جارہے ہیں ۔بھارت ،امریکہ ،اور
مغربی ملکوں کا آپس میں اتحادخطے کے لئے خطرے کا باعث بن گیا ہے ۔ یونیورسٹیوں ،کالجز میں
لڑکے ،لڑکیاں اکٹھی تعلیم حاصل کررہے ہیں ،جوطریقہـ ہم میں مغرب نے رائج کیا ہے اور آج ہم اس
کے مطابق چل رہے ہیں اسکی وجہ کرکے گرل فرینڈ،بوائے فرینڈـ ،کی بیماریـ ہم میں عام ہورہیـ ہے
اور یہ بیماریـ ہمارے نوجوانوں کو تعلیمی اداروں سے تحفے کے طور پر لگائی گئی ہے ایک نہیں
ایسی کتنی ہی بیماریاں ہیں جو ہمیں اس مخلوط تعلیم حاصل کرنے کے وقت لگی ہیں اور جو ہماریـ
رگوں میں خون کی طرح گردش کررہی ہیں۔چند ر وز قبل ذرائع ابالغ میں ایک دردناک رپورٹـ شائع
ہوئی جس کے مطابق قائداعظمـ یونیورسٹی کے طلبا شراب ،چرس ،ہیروئن اور دیگر منشیات کا استعمال
کر رہے ہیں۔ قائداعظم یونیورسٹیـ کے حوالے سے شائع ہونے والی رپورٹ کی تفصیالت درج ذیل ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ میں قائداعظمـ یونیورسٹی کے ڈین ڈاکٹر وسیمـ احمد نے انکشاف کیا
کہ قائداعظمـ یونیورسٹی میں ہر قسم کی منشیات سپالئی ہو رہی ہیں۔ طلبہ شراب ،چرس ،ہیروئن کے
عالوہ الہورـ میں تیار ہونے والی 5سے 15ہزار مالیت کی نشہ آور گولی استعمال کر رہے ہیں۔
استعمال کرنے واال پانچ سے چھ گھنٹے بے ہوش رہتا ہے۔
تعینات ڈسپلن کمیٹی نے بعض طلبا کو جرمانے بھی کئے ہیں۔ یونیورسٹی کے ذمہ داران اس حوالے
سے کئی بار پولیس کو بھی آگاہ کر چکے ہیں۔ یونیورسٹی کی چار دیواری نہ ہونے کی وجہ سے
منشیات کی کھلے عام سپالئی کی جا رہی ہے اور سیکورٹیـ کے مسائل بھی ہیں اس سے پہلے بھی
24اکتوبر کو سینٹ کی قائمہ کمیٹی داخلہ کے اجالس میں یہ رپورٹـ پیش کی گئی کہ اسالم آباد کے
نجی تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبا و طالبات میں سے 53فیصد ایسے ہیں جو منشیات کا شکار
ہیں۔ یہ منشیات ادارے کی کینٹین ،باہرسے آنے والے ریڑی بان ،اساتذہ اور پہلے نشہ کرنے والے طالب
علموں سے میسر آتی ہیں۔ نشہ کی لت میں مبتال اکثر امیر گھروں کے چشم و چراغ ہیں جو جیب خرچ
کو نشہ کی عادت کو پورا کرنے کے لیے لگا دیتے ہیں۔ اس خبرنے ملک کے باشعورـ حلقوں میں ایک
ہل چل مچادی ہے۔
یک مخصوص طبقہ جو نوجوانوں کی رگوں میں زہر اتارکر قیمت وصول کر رہا ہے ،اس نے ماحول
پر بڑے بھیانک اثرات مرتب کیے ہیں۔ جگہ جگہ شیشہ سنٹر کھل گئے ہیں۔ جہاں پر یہ مکروہ کام ہو
رہا ہے۔ یہ نوجوان جو ابھی پوری طرح شعورـ کی منزل تک نہیں پہنچے ،جو اپنے نفع اور نقصان کو
بھی اچھی طرح نہیں جانتے ،وہ بے چینی میں اس مہلک بیماری میں مبتال ہو رہے ہیں۔ وہ ایک
دوسرے کو دیکھ کر فیشن کے طورـ پر منشیات کے عادی ہو رہے ہیں۔ وہ گھرانے جن کے خاندان میں
کوئی نشہ کرنے واال نہیں ،اُن گھر وں کے بچے اس فعل بد میں شامل ہو رہے ہیں۔ ماں باپ تو اوالد کا
مستقبل سنوارنےـ کے لیے اوالد کو تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہیں لیکن یہی تعلیمی ادارے ان کے
مستقبل کی تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔ اہم بات یہ کہ نام نہاد آزادی ،بے حیائی ،سیکولرازمـ اور لبرل ازم
کے رنگ میں رنگے ہوئے اور مخلوطـ ماحول مہیا کرنے والے یہ ادارے خاص طورـ پر اس بیماریـ
میں مبتال ہیں۔ جہاں گرل فرینڈـ اور بوئے فرینڈـ کا کلچر فروغـ پا رہا ہے ،جو بعد میں ناکامی ،مایوسیـ
اور تعلیمی اداروں میں خود کشی کے واقعات کا سبب بنتا ہے۔گزشتہـ پندرہ سالوںسے وطن عزیز دہشت
گردی کا شکار ہے اور یہاں خون بہ رہا ہے 50ہزار کے قریب پاکستانیـ اس جنگ میںجان سے ہاتھ
دھو بیٹھے ہیں۔
ملک کو اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ امریکہ کی اس جنگ نے پاکستان کی معیشت پر بڑے برے
اثرات مرتب کیے ہیں۔ یہ سارا نقصان ایک طرف ،اس سے کئی گناہ بڑا نقصان نسل کا تباہی کی طرف
تیزی کے ساتھ بڑھنا ہے۔ نوجوان طلبا اپنے پیسوں سے موت کو خرید رہے ہیں۔ دشمن سے جنگ کیے
بغیر اپنے ہی ہاتھوں تباہی کا شکار ہو رہے ہیں۔ میڈیا اس میدان میں بڑا اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ میڈیا
پر اس کی تباہ کاریوں سے متنبہ کیا جائے ۔9/11کے بعد جب امریکہ نے حملہ کیا تو اس کے بعد
امریکی سرپرستی میں کام شروع ہوا اور یہ آج بام عروج پر ہے۔ جو نسلوں کو تباہ کر رہا ہے اور
والدین کی امیدوں پر پانی پھیر رہاہے۔
حکومت وقت کو چاہیے جو نوجوان منشیات کا شکار ہو چکے ہیں اُن کو اس بیماری سے آزاد کروانے
کے لیے ایسے ادارے کھولے جائیں جو بہترین عالج معالجہ فراہمـ کریں۔ خاص طور پر وزارت تعلیم
اس پر توجہ دے۔ کہیں ایسا نہ ہ و کہ مستقبل کے ڈاکٹر ،انجینئر اور بزنس مین ،وہ خودکشیـ کی اس
راہ پر چل پڑیںاور معاشرے میں اپنا کوئی مثبت کردار ادا نہ کر سکیں۔اس سلسلے میں حکومت کو
ٹھوس الئحہ عمل اپنانا چاہیے اور یونیورسٹیوں ،کالجز ،اور مختلف تعلیمی اداروں میں تربیت کا اہتمام
کرنا چاہیے تاکہ ہمارے نوجوانوں کا مستقبل محفوظ ہوسکے اور یہ نوجوان آنے والے وقتوں میں
پاکستان کی سالمیت میں اہم کردار ادا کرسکیں۔
بیرون ملک جانا اور وہاں جاکر کوئی بھی مالزمت کرلینا ہمارے ملک کے نوجوانوں کا ایک خواب ہے
ِ
جس کی تعبیرـ میں وہ ایک کثیر سرمایہـ خرچ کرکے بیرون ملک جاتے ہیں ،اور وہاں ہمارے نوجوان
ہر وہ کام کرتے ہیں جس کو اپنے ملک میں کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتے ،لیکن پھر بھی باہر
جاکر وہ سب کام کرنے پر فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔ اگر یہ سارے کام صرف ناخواندہ افراد کررہے
ہوتے تو شاید معاملہ قابل ذکر نہیں ہوتا ،کیونکہ دنیا کے ہر ملک میں غیر مقامی لیبر فورسـ موجود
ہوتی ہے ،لیکن اب اِس کی زد میں ہمارے پڑھے لکھے نوجوان بھی ٓاچکے ہیں جو ٓانکھوں میں مستقبل
کے حوالے سے سنہری خواب سجائے بیرون ملک سدھار جاتے ہیں اور وہاں جاکر معمولیـ مالزمت
کرکے اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بطور مسلمان یہ ہمارے ایمان کا بنیادی جزو ہے کہ رازق ہللا کی ذات ہے اور
ِ یہ بات سمجھ لیجیے کہ
کوئی آپ کا رزق نہیں چھین نہیں سکتا ،جبکہ موت کا ایک وقت مقرر ہے جوکہ آکر رہنی ہی ہے خواہ
آپ کا مقررہ وقت پاکستان میں آپہنچا ہو یا امریکہ میں۔
یقین مانیے کہ اگر آپ نے اِن دو چیزوں کو اختیار کرلیا تو کوئی آپ کو ایک کامیاب انسان بننے سے
نہیں روک سکتا۔ اگر ٓاپ کسی بات کا عزم کرلیں تو وہ عزم ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ اپنا ارادہ ہر دو دن
بعد تبدیل کریں بلکہ اُس ارادے پر قائم ہوجائیں اور طے کرلیں کہ یہ کام اب آپ کو ہر حال میں کرنا
ہے۔ دوسری اہم بات یہ کہ محنت کرنے کی عادت ڈالیں کیونکہ یہ دنیا کی شاید سب سے بڑی حقیقت
ہے کہ ہللا کسی کی بھی محنت کو ضائع نہیں کرتا ،لیکن محنت کے ساتھ صبر کو بھی اپنا شعار بنائیے۔
ایک دن محنت کرکے دوسرے دن اُس کے صلے کی توقع کرنا اور صلہ نہ ملنے کی صورتـ میں
محنت ترک کردیناـ سب سے بڑی بیوقوفی ہے ،لیکن جب ٓاپ مسلسل محنت کرتے رہیں گے تو ایک دن
ایسا ضرور ٓائے گا جب کامیابیـ ٓاپ کے قدمـ چومے گی۔
اب بات کرتے ہیں پاکستان کے مستقبل کے بارے میں۔ میرا تو اِس بات پر یقین ہے اور ٓاپ سے بھی
کہنا چاہتا ہوں کہ ٓاپ بھی اِس بات پر یقین رکھیے کہ دنیا کی کوئی قوم اور ملک اِس وقت یہ دعوی
کرنے کی پوزیشن میں ہے ہی نہیں کہ وہ فنا ہونے کے خطرے سے دوچارـ نہیں۔ آپ پورے یورپ کو
اٹھاکر دیکھ لیجیے ،ہر وقت اُن کے سنجیدہ طبقات میں یہی گفتگو جاری ہے کہ کس طرح ہم اپنے سماج
کو بچائیں؟ کسی کو اپنے مذہب کے فنا ہونے کا خطرہ ہے ،کسی کو اپنی معیشت کے بیٹھ جانے کا ڈر
تو کسی کو باصالحیت افراد کی کمی کا سامنا ھے۔ یہی وجہ ہے کہ کہ آئے دن وہ مختلف عنوانات سے
دنیا کے مختلف ممالک سے مختلف قسم کے افراد کو اپنے ہاں بالتے ہیں۔ لیکن اُن کے سنجیدہ طبقات
میں جاری یہ بحث کبھی ملک پر سوالیہ نشان کی صورت میں چوک اور چوراہوں پر نہیں ہورہی ہوتی
اور نا ہی اُن کی نوجوان نسل کو یہ باور کروایاـ جاتا ہے کہ بس یہ ملک اب ڈوبنے کے قریب ہے۔ اگر
کسی ڈوبتی ہوئی کشتی کا مالح اِس بات کا اعالن کردے کہ بس اب ہمیں اب ڈوبنے سے کوئی نہیں
بچاسکتا تو اُس کشتی میں پھیلنے والی مایوسی کی بدولت کچھ لوگ سمندرـ میں چھالنگ لگا کر اپنی
جان ضائع کردیں گے تو کچھ مایوسیـ سے اپنی موت کا تماشہ دیکھیں گے۔ لیکن اِس کے برعکس اگر
وہی مالح اِس بات کا اعالن یوں کرے کہ اِس کشتی میں ایک سوراخ ہوگیا ہے جس کی وجہ سے پانی
اندر آرہا ہے ،اور یہ پانی ہمارے لیے مشکالت پیدا کرسکتا ہے تو لوگوں کی سوچ مختلف ہوگی اور اُن
کی سوچ کا محورـ و مرکز صرفـ اور صرفـ کشتی میں موجود سوراخ کو بند کرنا ہوگا۔ لہذا وہ مایوس
ہوکر کشتی سے کودنے کے بجائے سوراخ کو بند کرنے کی جدوجہد کریں گے اور منزل تک پہنچنے
کی اُمید زندہ رکھیں گے۔ یعنی اِس پوریـ مثال سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ایک ہی مسئلے میں سوچ کے
فرق کی وجہ سے عمل مکمل طور پر تبدیل ہوسکتاـ ہے۔
یہی کچھ پاکستان اور دیگر ممالک کی سوچ کا فرق ہے۔ مجھے یہ بات کہنے میں کوئیـ عار نہیں
کہ پاکستان کی کشتی میں بھی سوراخ موجودـ ہیں ،لیکن سوال یہ ہے کہ اِس صورتحال مین ہمارا عمل
کیا ہے؟ ہم اِن سوراخوں کو بند کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں یا پھر بیٹھ کر تماشا دیکھ رہے ہیں؟ ایک
اور بات بھی سمجھ لیجیے کہ معاملہ دنیا کا ہو یا کشتی کآ ،اپ کو کبھی بھی ہر ایک فرد سوراخـ بند
کرنے کی کوشش کرتا نہیں نظر آئے گا بلکہ صرف شعورـ رکھنے والے افراد ہی اِس سوراخ کو بند
کرنے کی جدوجہد کریں گے۔ لہذا باقی لوگوں کو دیکھ کر مایوس نہ ہوں بلکہ اپنا کام جاری رکھیں،
کیونکہ اگر ٓاپ بھی سوراخ بند کرنے کی جدوجہد کو صرف اِس لیے بند کردیں کہ دیگر لوگ یہ کام
نہیں کررہے تو وہ کشتی جس میں آپ بھی سوار ہیں ،آپ سمیت ہی ڈوب جائے گی۔
یہ بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ پاکستان کو چھوڑـ کر آپ کہیں بھی بھاگ جائیں ،آپ ہمیشہ پاکستانی ہی رہیں
گے اور پاکستان آپ کی شناخت رہے گا۔ اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو امریکہ و برطانیہـ میں آباد
پاکستانیوں کی تیسری نسل کو ہی دیکھ لیجیے جو وہیں پیدا ہوئیـ اور وہیں پلی بڑھی ،لیکن اِس کے
باوجودـ بھی وہ تیسریـ نسل ٓاج بھی پاکستانی ہی کہالئی جاتی ہے۔ لہذا جب میں اور ٓاپ اپنی شناخت تو
تبدیل نہیں کرسکتے تو کیوں ایسا نہیں کرتے کہ اپنی شناخت تو بہتر کرنے کی کوشش کریں۔ کیونکہـ
اِس ملک کی اچھی شناخت بھی ہماری شناخت تصورـ ہوگی اور اِس ملک کی بُری شناخت بھی ہماری
شناخت ہی تصورـ ہوگی۔ لہذا اِس ملک میں موجود سوراخوںـ کو اور اِس کے دامن پر لگے ہوئے دھبوں
کو ہم نے اور ٓاپ نے مل کر ہی دھونا ہے۔ اِس کے دامن کو رفو کرنا ہے اور یہ کام کرنے کے لیے
اپنے عمل کو کشتی میں موجودـ سوراخ کو بھرنے واال بنانا ہوگا۔ اگر ٓاپ صحافیـ ہیں تو ٓاپ بااصول
صحافی ہوں ،اگر ٓاپ استاد ہیں تو ٓاپ کا عمل استاد واال ہو ،اگر ٓاپ منصفـ ہوں تو ٓاپ انصافـ کرتے
ہوں۔ اپنی ذات سے ابتداء کریں پھر دیکھیے کہ کیسے یہ قوم ایک باوقارـ قوم کے روپ میں سامنے نہیں
ٓاتی۔ لیکن محض کوسنے دینے سے پاکستان کا نہ تو وقار بحال ہوگا اور نہ ہی پاکستان کے مستقبل پر
پھیلے مایوسیـ کے بادل چھٹیں گے۔ لہذا ٓاپ کو بارش کا پہال قطرہ بننا ہوگا۔
ٹ ئ ن ن
ے یھا ا ں ے ی
گاہ د ی ا ب دل رہ ی ہ
نک م ئ تق ئ
ے اس ار ا ی دور سے آ ھی ں الی
ئ تف ق
ے ب ب
آپس کے ر وں کو ا ھی ھول ج ای
ئ ن
ے ہ
ص ح و کی س ی ا ی م ٹ ایمل ج ل کے ِب