Professional Documents
Culture Documents
سورةالنساء تعارف3
سورةالنساء تعارف3
رولنمبر185494:
شعبہ اسالمیات
ٴ
سیشن 2018-2022
﷽
تصدیق نامہ
اسسٹنٹ پروفیسر
میاں اسعد اللہ
گورنمنٹ سپیریئر
سائنس کالج پشاور
فہرست مضامین
مقدمہ 2
اہمیت
16 معاشرہ کی تعریف 11
19 معاشرہ کی اقسام 12
20 مقاصد کے اعتبار سے معاشرہ کی اقسام 13
21 معاشرے کی ا کائیاں 14
21 اسالمی معاشرے میں خاندان کا کردار 15
26 معاشرے کی ضرورت و اہمیت 16
32 فصل دوم :انسانی زندگی پر معاشرہ 17
کےاثرات
33 فصل سوم :اسالمی معاشرے کے اقدار 18
معاشرتی مسائل
59 فصل اول :صلہ رحمی،یتیموں کے 24
اظہار تشکر
الحمد ہللا رب العلمین والصلوة والسلام علی سیدالانبیاء والمرسلین وعلی الہ
واصحابہ اجمعین اما بعد
سب سے پہلے میں رب کریم کا شکر ادا کرتا ہوں جس کی رضا کے بغیر علمی کاوش
میرے بس میں نہیں تھا جس نے مجھے حوصلہ دیا کہ میں اس مقدس اور اہم کام پر
کم بستہ ہو اور اس کو آخری مراحل تک پہنچایا۔
اس کے بعد شعبہ اسالمیات کے چیئر مین مفتی صبغت اللہ صاحب کا بھی شکریہ
ادا کرتا ہوں،جن کی سرپرستی میں یہ علمی کام ممکن ہوا اور خاص کر اپنے نگران
اسسٹنٹ پروفیسر میاں اسعداللہ صاحب کا بے حد ممنون ہوں جنہوں نے اپنا قیمتی
وقت د ے کر مقالے کی نگرانی کی ،اس کے ساتھ ساتھ تمام اساتذہ کرام پروفیسر
سیف الملوک صاحب ،پروفیسر صداقت صاحب اور پروفیسر ا کرام ولی صاحب کا بھی
دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس مقالے میں میرے ساتھ تعاون
کیا۔اور اس کے ساتھ پروفیسر ذبیح اللہ صاحب کا بھی شکریہ ادا کر تا ہوں جنہوں نے
اس مقالے میں میرے ساتھ مدد کی ۔
آخر میں گھر کے تمام افراد کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کے تعاون اور دعائوں کی بدولت
مجھے یہ مقالہ تحریر کرنے میں کامیابی ملی۔اللہ تعالی ان سب کو جزائے خیر عطا
فرمائے۔آمین
محمد عماد
شعبہ اسالمیات
اسالم ایک مکمل نظام حیات کا نام ہے ،شریعت مطہرہ نے انسانوں کو زندگی کے ہر
شعبہ اور ہر گوشہ میں رہنمائی عطا فرمائی ہے چاہیے وہ انسان کی انفرادی زندگی ہو
یا اس کی کی اجتماعی زندگی ہو ،انفرادی زندگی کے لیے شریعت نے انسان کو عقائد
،عبادات اور اخالقیات وغیرہ کی صورت میں کامل رہنمائی عطا کی ہے جبکہ
معامالت،معاشرت اور سیاست کے احکام کی صورت میں انسانوں کی اجتماعی
احکامات میں سے کچھ احکام وہ ہے جو سورة النساء میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کی
معاشرتی زندگی کے لیے صادر فرمائے۔
سورة النساء وہ سورةہے جس میں اللہ نے مسلمانوں کو کھل کر معاشرتی زندگی کے
اصول و آداب سمجھائے ہیں اس میں میرث اور تقسیم میراث کے احکام ،یتیموں کے
حقوق کا تحفظ ،قتل کے احکام اورطالق کے احکام ذکر وغیرہ ذکر ہیں
موضوع کی اہمیت:
قرآ ن مجید اللہ تعالی کا کالم ہے اس کے ایک ایک حرف پر نیکیاں ملتی ہے اورہر ایک
آیت اپنے اندر ایک مقصدر رکھتی ہے لیکن زیر نظر موضوع اس وجہ سے بھی اہمیت
کی حامل ہے ،کہ اس میں معاشرہ سے متعلق تمام احکام پائے جاتے ہیں،چونکہ ہر
شخص کا واسطہ معاشرے سے پڑتا ہے اور ہر ایک فرد معاشرے کا حصہ ہے لہذا
معاشرے کے آداب کے بارے میں جاننا ہر ایک شحص پر الزم ہے
اس سورةمیں نکاح کے احکام میراث کے احکام ،عورتوں کے حقوق ،قتل کے احکام اور
اصالح بین الناس،اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اور امراء و علماء کے اطاعت کے
احکام پائے جاتے ہیں
اگر ان احکام پر نظرڈالی جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ہمارے معاشرے کیلئے ناگزیر ہے
اور کوئی بھی معاشرہ ان احکام کے بغیر مثالی اور اصالحی معاشرہ ثابت نہیں ہو
سکتی
اسلوب تحقیق:
زیر نظر مقالہ کی تکمیل میں راقم نے مندرجہ ذیل تفاسیر و احادیث کی کتابوں اور
فقہ کی کتابوں سے استفادہ حاصل کیا ہے
الجامع الصحیح مسلم،مسلم ابن حجاج القشیری ،کتاب فضائل القران ،دار االشاعت
،بیروت ،ط 1991ئ٢
معارف القرآن ،مفتی شفیع عثمانی،ادارة المعارف کراچی ،سال اشاعت اپریل 2008
اہداف واغراض:
سورة مسولہ میں بیان کردہ احکام کے بارے میں خود آگاہی حاصل کرنا اور اس پر
عمل کرنا اوراس عمل سے دوسرے لوگوں کوبھی آگاہ کرنا ۔
معاشرہ میں رائج غیر اسالمی رسوم و روایات کا قرآن کی روشنی میں تدرا ک کرنا
لوگوں میں بالخصوص میراث،عورتوں کے حقوق بالعموم دیگر معاشرتی مسائل
جیسا نکاح ،اور طالق وغیرہ کے بارے میں شعور اجاکر کرنا
باب اول
فصل اول
سورةالنساء تعارف
1قرآن مجید کی چوتھی سورت ہے۔ اس سورت کا موضوع امت مسلمہ کے لیے صالح
معاشرت کی اساسات اور اس کا تزکیہ و تطہیر ہے۔ سورت آنحضرت صلی اللہ علیہ
1
https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%A7%D8%A8:%D9%85%D8%B9%D8%A7%D8%B4%D8%
B1%DB%81
وسلم کے مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے بعد ابتدائی سالوں میں نازل ہوئی،اور اس کا
ا کثر حصہ جنگ بدر کے بعد نازل ہوا تھا ۔یہ وقت نھا جب مدینہ منورہ کی نوازائیدہ
مسلمان ریاست مختلف مسائل سے دو چار تھی۔زندگی کا ایک نیا ڈھانچہ ابھر رہا تھا
جس کیلئے مسلمانوں کو اپنی عبادت کے طریقوںاور اخالق و معاشرت سے متعلق
تفصیلی ہدایات کی ضرورت تھی،دشمن طاقتیں اسالم کی پیش قدمی کا راستہ روکنے
کیلئے سر توڑ کوششیں کررہی تھی،اور مسلمانوں کو اپنی جغرافیائی اور نظریاتی
سرحدوں کی حفاظت کے لئے نت نئے مسائل کا سامنا تھا،سورة النساء نے ان تمام
معامالت میں تفصیلی ہدایات فراہم کی ہیں چو نکہ ایک مستحکم خاندانی ڈھانچہ
کسی بھی معاشرے کی بنیاد ہوتا ہے اس لیے یہ سورت خاندانی معامالت کے بارے
میں مفصل احکام سے شروع ہوئی ہے ۔
وجہ تسمیہ:
چونکہ خاندانی نظام میں عورتوں کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے اس لیے عورتوں کے بارے میں
اس سورت نے تفصیلی احکام عطا فرمائے ہیں اور اسی لیے اس کا نام سورةالنساء ہے
۔
خالصہ:
جنگ احد کے بعد بہت سی خواتین بیوہ اور بہت سے بچے یتیم ہوگئے تھے،اس لیے
سورت نے شروع ہی میںیتیموں کے حقوق کے تحفظ کا انتظام فرمایا ہے اور ''ایات
نمبر '' 14تک میراث کے احکام تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔زمانے جاہلیت میں عورتوں
کے ساتھ طرح طرح کے ظلم ہوتے تھے،ان مظالم کی ایک ایک کرکے نشاندہی کی گئی
ہے اور معاشرے سے ان کا خاتمہ کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔نکاح و طالق کے مفصل
احکام بیان کیے گئے ہیں ،اور میاں بیوی کے حقوق معتین فرمائے گئے ہیں ۔یہ مضمون''
ایت نمبر '' 35تک چال ہے جس کے بعد انسان کی باطنی اور معاشرتی اصالح کی طرف
توجہ دالئی گئی ہے۔مسلمانوں کو عرف کے صحرائوں میں سفر کے دوران پانی کی
قلت پیش آئی تھی ،لہذا''آیت نمبر 34میں تیمم کا طریقہ اور ''آیت نمبر 35تک چال
ہے جس کے بعد انسان کی باطنی اور معاشرتی اصالح کی طرف سے توجہ دالئی گئی
ہیں۔مسلمانوں کو عرب کے صحرائوں میں سفر کے دوران پانی کی قلت پیش آتی
تھی،لہذا آیت 43میں تیمم کا طریقہ اور آیت 101میں سفرمیں نماز قصر کرنے کی
سہولت عطا فرمائی گئی ہے ،نیز جہاد کے دوران نماز خوف کا طریقہ آیت
102اور103میں بتایا گیا ہے ۔مدینہ منورہ میں بسنے والے یہودیوں نے آ آنحضرت صلی
اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کرنے کے باوجود مسلمانوں کے خالف سازشوں کاایک المتنا
ہی سلسلہ شروع کررکھاتھا۔آیت44تا57اور103تا 170میں ان کے ساتھ عیسائیوں کو
بھی خطاب میں شامل کرلیاگیا ہے ،اور انہیں تثلیث کے عقیدے کے بجائے خالص توحید
اختیارکرنے کی دعوت دی گئی ہے اس کے عالوہ آیات 58,59میں سیاست اور حکمرانی
سے متعلق ہدایات ائی ہیں ،منافقین کی بد اعمالیاں آیات 60تا 70اور پھر آیات
137تا152میں واضح کی گئی ہیں آیات 71تا92نے جہاد کے احکام بیان کر کے منافقین
کی ریشہ دوانیوں کا پردہ چاک کیا ہے ۔اسی سیاق میں آیات 92,93میں قتل کی
سزائیں مقرر فرمائی گئی ہیں ۔جو مسلمان مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے اور کفار کے
ہاتھوں مظالم جھیل رہے تھے ،ان کی ہجرت کے مسائل آیات 97,100میں زیر بحث آئے
ہیں،اسی دوران بہت سے تنازعات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے فیصلے
کے لئے الئے گئے ۔ایات 105تا 110میں ان کے فیصلے کا طریقہ آپ کو بتایا گیا ہے ،اور
مسلمانوں کو آپ کا فیصلہ دل و جان سے قبول کرنے کی تاکید کی گئی ہے ،آیات
116تا 126میں توحیدکی اہمیت واضح کی گئی ہے ،خاندانی نظام اور میراث کے بارے
میں صحابہ کرام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد سواالت پوچھے تھے
،آیات 127تا 129اور پھر174میں ان سواالت کا جواب دیا گیا ہے ،خالصہ یہ کہ پوری
سورت احکام اور تعلیمات سے بھری ہوئی ہے اور شروع میں تقوی کا جو حکم دیا گیا
تھا،کہا جا سکتا ہے کہ پوری سورت اس کی تفصیالت بیان کرتی ہے
زمانہ نزول اور اجزا مضمون:
یہ سورت متعدد خطبوں پر مشتمل ہے جو غالبا 3ھ کے اوآخر سے لے کر 4ھ کے اواخر
یا 5ھ کے اوائل تک مختلف اوقات میں نازل ہوئے ہیں۔ اگرچہ یہ تعین کرنا مشکل ہے
کہ کس مقام سے کس مقام تک آیات ایک سلسل تقریر میں نازل ہوئی تھیں اور ان کا
ٹھیک زمانہ نزول کیا ہے لیکن بعض احکام اور واقعات کی طرف بعض اشارے ایسے
ہیں جن کے نزول کی تاریخیں ہمیں روایات سے معلوم ہوجاتی ہیں اس لیے ان کی مدد
سے ہم ان مختلف تقریروں کو ایک سرسری سی حد بندی کرسکتی ہیں جن میں یہ
احکام اور یہ اشارے واقع ہوئے ہیں۔مثال:
1۔ ہمیں معلوم ہے کہ وراثت کی تقسیم اور یتیموں کے حقوق کے متعلق ہدایات جنگ
احد کے بعد نازل ہوئی تھیں جبکہ مسلمانوں کے 70آدمی شہید ہو گئے تھے اور مدینے
کی چھوٹی سی بستی میں اس حادثے کی وجہ سے بہت سے گھروں میں یہ سوال
پیدا ہو گیا تھا کہ شہدا کی میراث کس طرح تقسیم کی جائے اور جو یتیم بچے انہوں
نے چھوڑے ہیں ،ان کے مفاد کا تحفظ کیسے ہو۔ اس بنا پر ہم قیاس کرسکتے ہیں کہ
ابتدائی چار رکوع اور پانچویں رکوع کی پہلی تین آیتیں اسی زمانے میں نازل ہوئی ہوں
گی۔
2روایات میں صل ِو خوف (عین حالت جنگ میں نماز پڑھنے) کا ذکر ہمیں غزو ذات
الرقاع میں ملتا ہے جو 4ھ میں واقع ہوا۔ اس لیے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اسی کے لگ
بھگ زمانے میں وہ خطبہ نازل ہوا ہوگا جس میں اس نماز کی ترکیب بیان کی گئی ہے۔
رکوع 15
3مدینے سے بنی نضیر کا اخراج ربیع االول 4ھ میں ہوا اس لیے غالب گمان یہ ہے کہ
وہ خطبہ اس سے پہلے قریبی زمانے میں نازل ہوا ہوگا جس میں یہودیوں کو آخری
تنبیہ کی گئی ہے کہ ''ایمان لے آ قبل اس کے کہ ہم چہرے بگاڑ کر پیچھے پھیردیں ''۔
4پانی نہ ملنے کی وجہ سے تیمم کی اجازت غزو بنی المصطلق کے موقع پر دی گئی
تھی جو 5ھ میں ہوا اس لیے وہ خطبہ جس میں تیمم کا ذکر ہے اسی سے متصل عہد
سمجھنا چاہیے (رکوع )7
بحیثیت مجموعی سورت کا زمان نزول معلوم ہوجانے کے بعد ہمیں اس
ِ اس طرح
زمانے کی تاریخ پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے تاکہ سورت کے مضامین سمجھنے میں
اس سے مدد لی جاسکے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے اس وقت جو کام
تھا اسے تین بڑے شعبوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :ایک اس نئی منظم اسالمی
سوسائٹی کا نشو و نما جس کی بنا پر ہجرت کے ساتھ ہی مدینہ طیبہ اور اس کے
اطراف و جوانب میں پڑچکی تھی اور جس میں جاہلیت کے پرانے طریقوں کو مٹا کر
اخالق ،تمدن ،معاشرت ،معیشت اور تدبیر مملکت کے نئے اصول رائج کیے جا رہے تھے۔
دوسرے اس کشمکش کا مقابلہ جو مشرکین عرب ،یہودی قبائل اور منافقین کی
مخالف اصالح طاقتوں کے ساتھ پوری شدت سے جاری تھی۔ تیسرے اسالم کی دعوت
ِ
کو ان مزاحم طاقتوں کے علی الرغم پھیالنا اور مزید دلوں اور دماغوں کو مسخر کرنا۔
اللہ تعالی کی جانب سے اس موقع پر جتنے خطبے نازل کیے گئے وہ سب انہی تین
شعبوں سے متعلق ہیں۔
اسالمی معاشرے کی تنظیم کے لیے سور بقرہ میں جو ہدایات دی گئی تھیں ،اب یہ
معاشرہ ان سے زائد ہدایات کا طالب تھا ،اس لیے سورةالنساء کے ان خطبوں میں زیادہ
تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ مسلمان اپنی اجتماعی زندگی کو اسالم کے طریق پر
کس طرح درست کریں۔ خاندان کی تنظیم کے اصول بتائے گئے۔ نکاح پر پابندیاں عائد
کی گئیں۔ معاشرت میں عورت اور مرد کے تعلقات کی حد بندی کی گئی۔ یتیموں کے
حقوق معین کیے گئے۔ وراثت کی تقسیم کا ضابطہ مقرر کیا گیا۔ معاشی معامالت کی
درستی کے متعلق ہدایات دی گئیں۔ خانگی جھگڑوں کی اصالح کا طریقہ سکھایا گیا۔
تعزیری قانون کی بنا ڈالی گئی۔ شراب نوشی پر پابندی عائد کی گئی۔ طہارت و
پاکیزگی کے احکام دیے گئے۔ مسلمانوں کو بتایا گیا کہ ایک صالح انسان کا طرز عمل
خدا اور بندوں کے ساتھ کیسا ہونا چاہیے۔ مسلمانوں کے اندر جماعتی نظم و ضبط
(ڈسپلن) قائم کرنے کے متعلق ہدایات دی گئیں۔ اہل کتاب کے اخالقی و مذہب رویے پر
تبصرہ کرکے مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا کہ اپنی ان پیش رو امتوں کے نقش قدم پر
چلنے سے پ رہی ز کریں۔ منافقین کے طرز عمل پر تنقید کرکے سچی ایماندی کے
مقیضات واضح کیے گئے اور ایمان و نفاق کے امتیازی اوصاف کو بالکل نمایاں کرکے
گیا۔مخالف اصالح طاقتوں سے جو کشمکش برپا تھی اس نے جنگ احد کے بعد
ِ رکھ دیا
زیادہ نازک صورت اختیار کرلی۔ تھی۔ احد کی شکست نے اطراف و نواح کے مشرک
قبائل ،یہودی ہمسایوں اور گھر کے منافقوں کی ہمتیں بہت بڑھادی تھیں اور مسلمان
ہر طرف خطرات میں گھر گئے تھے۔ ان حاالت میں اللہ تعالی نے ایک طرف پرجوش
خطبوں کے ذریعے سے مسلمانوں کو مقابلے کے لیے ابھارا اور دوسری طرف جنگی
حاالت میں کام کرنے کے لیے انہیں مختلف ضروری ہدایات دیں۔ مدینے میں منافق اور
ضعیف االیمان لوگ ہر قسم کی خوفناک خبریں اڑا کر بدحواسی پھیالنے کی کوشش
کر رہے تھے۔ حکم دیا گیا کہ ہر ایسی خبر ذمہ دار لوگوں تک پہنچائی جائے اور جب تک
وہ کسی خبر کی تحقیق نہ کر لیں اس کی اشاعت کو روکا جائے۔ مسلمانوں کو بار بار
غزوات اور سریوں میں جانا پڑتا تھا اور ا کثر ایسے راستوں سے گذرنا ہوتا تھا جہاں پانی
فراہم ن ہ ہو سکتا تھا۔ اجازت دی گئی کہ پانی نہ ملے تو غسل اور وضو دونوں کی
بجائے تیمم کر لیا جائے۔ نیز ایسے حاالت میں نماز مختصر کرنے کی بھی اجازت دے
دی گئی اور جہاں خطرہ سر پر ہو وہاں صل ِو خوف ادا کرنے کا طریقہ بتایا گیا۔ عرب کے
مختلف عالقوں میں جو مسلمان کافر قبیلوں کے درمیان منتشر تھے اور بسا اوقات
جنگ کی لپیٹ میں بھی آجاتے تھے ان کا معاملہ مسلمانوں کے لیے سخت پریشان کن
تھا۔ اس مسئلے میں ایک طرف اسالمی جماعت کو تفصیلی ہدایات دی گئیں اور
دوسری طرف ان مسلمانوں کو بھی ہجرت پر ابھارا گیا تاکہ وہ ہر طرف سے سمٹ کر
داراالسالم میں آجائیں۔یہودیوں میں سے بنی نضیر کا رویہ خصوصیت کے ساتھ نہایت
دشمنان
ِ معاندانہ ہو گیا تھا اور وہ معاہدات کی صریح خالف ورزی کرکے کھلم کھال
اسالم کا ساتھ دے رہے تھے اور خود مدینہ میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور
آپ کی جماعت کے خالف سازشوں کے جال بچھا رہے تھے۔ ان کی اس روش پر سخت
گرفت کی گئی اور انہیں صاف الفاظ میں آخری تنبیہ کردی گئی۔ اس کے بعد ہی مدینہ
سے ان کا اخراج عمل میں آیا۔منافقین کے مختلف گروہ مختلف طرز ِ عمل رکھتے تھے
اور مسلمانوں کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کس قسم کے منافقوں سے کیا
معاملہ کریں۔ ان سب کو الگ الگ طبقوں میں تقسیم کرکے ہر طبقہ کے منافقوں کے
متعلق بتادیا گیا کہ ان کے ساتھ یہ برتا ہونا چاہیے۔غیر جانبدار معاہد قبائل کے ساتھ
جو رویہ مسلمانوں کا ہونا چاہیے تھا اس کو بھی واضح کیا گیا۔
سب سے زیادہ اہم چیز یہ تھی کہ مسلمان کا اپنا کردار بے داغ ہو کیونکہ اس کشمکش
اخالق فاضلہ ہی کے زور سے
ِ میں یہ مٹھی بھر جماعت اگر جیت سکتی تھی تو اپنے
جیت سکتی تھی۔ اس لیے مسلمانوں کو بلند ترین اخالقیات کی تعلیم دی گئی اور
جو کمزوری بھی ان کی جماعت میں ظاہر ہوئی اس پر سخت گرفت کی گئی۔دعوت و
تبلیغ کا پہلو اس سورت میں چھوٹنے نہیں پایا ہے۔ جاہلیت کے مقابلے میں اسالم جس
اخالقی و تمدنی اصالح کی طرف دنیا کو بال رہا تھا ،اس کی توضیح کرنے کے عالوہ
یہودیوں ،عیسائیوں اور مشرکین ،تینوں گروہوں کے غلط مذہبی تصورات اور غلط
اخالق و اعمال پر اس سورت میں تنقید کرکے ان کو دین حق کی طرف دعوت دی گئی
ہے۔
باب دوم
فصل اول
معاشرے کی مختلف تعریفات کی گئیں ہیں کچھ لوگوں نے معاشرہ کی تعریف یوں
کی ہے ''افراد کا ایسا گروہ جو اس اصول پر آپس میں رہائش پذیر ہوں کہ ان کے مفادات
مشترک ہوں ۔بعض حضرات کاکہنا ہے کہ یہ لوگوں کا ایک گروہ ہے جس کا مشترکہ
مقصد ہوتا ہے اورکچھ خاص قواعد کے تحت حکومت کرتا ہے ۔یہ ایک ایسا شہر یا ملک
ہو سکتا ہے جس میں زبان ،تاریخ اورنسل جیسے دیگر پہلوئوں کے ساتھ کچھ معیارات
کا اشترا ک کیا جاسکے ۔ایک معاشرے کی تعیین اس کے محاوراتی تصورسے کی جاتی
ہے ،یہ اپنی روایات ،رسوم و رواج ،اظہار کی صورتوں اور اس کے معروف قاعدے کی
وجہ سے دوسرے قریبی ممالک سے مختلف ہوتا ہے ۔یہ انہی پہلوئوں کی بنا پر
دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔
انگریزی زبان میں معاشرہ کے لیے لفظ سوسائٹی ( ) Societyاستعمال ہوتا ہے۔
سوسائٹی کی وضاحت کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کی ذاتیات کی اصل کی
تحقیقات کی جائے اور انھیں تالش کیا جائے۔ خاص طور پر ،یہ الطینی زبان کا لفظ ہے
جس کا مطلب ہے دوسروں کے ساتھ دوستی اور وابستگی“۔ معاشرتی اصطالح میں
سوسائٹی ایک اصطالح ہے جو ایک مشترکہ ثقافت ،ایک مخصوص لوک داستان اور
مشترکہ معیار کے ذریعہ نشان زد افراد کے ایک گروپ کی وضاحت کرتی ہے جو ان کے
رواج اور طرز زندگی کا تعین کرتی ہے اور جو معاشرے کے دائرہ کار میں ایک دوسرے
سے متعلق ہے۔
1
: Boyd, Robert; Richerson, Peter J. (12 November 2009). "Culture and the evolution of
human cooperation". Philosophical Transactions of the Royal Society B: Biological Sciences.
364
ایک معاشرہ ان افراد کا ایک گروہ ہے جو مستقل سماجی تعامل میں شامل ہوتا ہے،یا
ایک بڑا سماجی گروہ جو ایک ہی مقامی یاسماجی عالقے کااشترا ک کرتا ہے ،عام طور
پر ایک ہی سیاسی اتھارٹی اور غالب ثقافتی توقعات کے تابع ہوتا ہے۔
عربی زبان میں معاشرہ کے لیے المجتمع کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
]المجتمع هو مجموعة من الناس التي تشكل النظام نصف المغلق والتي تشكل شبكة العلاقات
بين الناس ،المعنى العادي للمجتمع يشير إلى مجموعة من الناس تعيش سوية في شكل منظم
وضمن جماعة منظمة .والمجتمعات اساس ترتكز عليه دراسة علوم الاجتماعيات .وهو مجموعة
من الأفراد تعيش في موق ع معين ترتبط فيما بينها بعلاقات ثقافية واجتماعية ،يسعى كل واحد
منهم لتحقيق المصالح والاحتياجات وإلى حد ما هو متعاون ،فمن الممكن أن ُيتيح المجتمع لأعضائه
الاستفادة بطرق قد لا تكون ممكنة على مستوى الأفراد [1
معاشر ولوگوں کا ایک گروہ ہے جو ایک نیم بند نظام کی تشکیل کرتا ہے جو لوگوں کے
درمیان تعلقات کا جال بناتا ہے ،معاشرے کے عام معنی سے مراد لوگوں کا ایک گروہ
ہے جو ایک منظم شکل میں اور ایک منظم گروہ کے اندر ا کٹھے رہتے ہیں۔ معاشرے
سماجی علوم کے مطالعہ کی بنیاد ہیں۔ یہ ایک مخصوص مقام پر رہنے والے افراد کا
گروہ ہے جو ثقافتی اور سماجی تعلقات کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں،
ان میں سے ہر ایک مفادات اور ضروریات کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ کسی حد تک
یہ تعاون پر مبنی ہے ،معاشرے کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے ارا کین کو ان طریقوں
سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دے جو انفرادی سطح پر ممکن نہ ہو۔
معاشرہ کی تعریف ان الفاظ سے کیا جاتا ہے کہ یہ انسانی روابط کا ایک کلی مجموعہ
ہے اس حیثیت سے کہ یہ روایت پر عمل سے پیدا ہوتے ہیں جو ذرائع و مقاصد کے رشتہ
سے قائم ہیں۔
2 1مجلة كلية اآلداب لجامعة القاهرة ،مجلد ، ٦۸سنة ، ۲۰۰۸الجزء الثاني ،صفحات ۱۸۱تا ۱۸۳
مذکورہ بات فالسفہ نے بھی کہی ہے۔ ارسطو کے اس قول کو بے حد شہرت حاصل
ہوئی کہ انسان ایک معاشرتی پسند حیوان ہے اور زمانہ بھی آج تک اس بات کی
شہادت دے رہا ہے کہ انسان دوسروں کا محتاج ہے۔ انسان دوسروں سے مستغنی
نہیں ہو سکتا۔ یہ بات فکر انسانی کے باہمی رشتوں سے مضبوط تر بناتی ہے اور ایک
معاشرہ اور سوسائٹی وجود میں آتی ہے امام ابن خلدون رحمتہ اللہ علیہ اسی طرف
اشارہ فرماتے ہیں:
افراد انسانی کا ا کٹھے مل جل کر رہنا ایک ناگزیر امر ہے اور یہ حقیقت ہے جس سے اہل
1
علم اس طرح بیان کرتےہیں کہ انسان پیدائشی طور پر مدنیت پسند واقع ہوا ہے
معاشروں میں پھر سب سے زیادہ ترقی یافتہ معاشرہ اگرچہ انسانی ہے تاہم حیوانات
کے بھی اپنے معاشرے ہوتے ہیں اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جانوروں کے معاشرے
وہی ہیں جو مکمل طور پر فطری انداز میں تشکیل پائی ہیں۔ شہد کی مکھی معاشرے
میں رہنے والے جانداروں کے ایک گروہ میں سے ایک ہے اور یہ نسبتا دوسرے جانوروں
سے زیادہ مہذب ہوتا ہے۔
انسانی معاشرے آبادی پر مشتمل ہیں جہاں کے باشندے اور ان کا ماحول مشترکہ
تناظر میں باہمی تعلق رکھتا ہے جس سے انہیں ایک شناخت اور اپنے آپ کو اپنے تعلق
کا احساس ملتا ہے۔ اس تصور سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ یہ گروپ نظریاتی ،معاشی
اور سیاسی روابط استوار کرتا ہے۔ جب کسی معاشرے کا تجزیہ کرتے ہیں تو ،اس کی
1تاریخ ابن خلدون ،ترجمہ حکیم احمد حسین مکتبه اداره تعلیمات اسالمی دیوبند ،ج ،۱ص 44
ترقی کی سطح ،تکنیکی کامیابیوں اور معیار زندگی جیسے پہلوؤں کو مد نظر ر کھا
جاتا ہے۔ اس طرح دوسری چیزوں کے عالوہ انہیں ایک مشترکہ جغرافیائی عالقہ میں
ایک مقام رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے ،ہر ایک کو اپنے سماجی کام کے ساتھ مختلف
گروہوں میں تبدیل کیا جاتا ہے ،ان کا مشترکہ ثقافت ہو ناضروری ہے ،انہیں مجموعی
طور پر آبادی سمجھا جا سکتا ہے۔
جب سے انسان نے اس زمینی سیارے کو آباد کرناشروع کیا معاشرہ موجود ہے ،حاالنکہ
اس کی تنظیم کی شکل پوری تاریخ میں مختلف ہوتی رہی ہے۔ انسان کی سوسائٹی
کو ایک درجہ بندی کے انداز میں منظم کیا گیا تھا ،جہاں ایک سربراہ (گروہ کا سب
سے مضبوط یا عقلمند)طاقت کو مر تکز کرتا تھا۔
یہ واضح رہے کہ معاشرے کے تصور کو معاشی اور قانونی نقطہ نظر سے بھی سمجھا
جاسکتا ہے ،تاکہ کم سے کم دو افراد کی اتحاد کو سمجھا جاسکے جو تجارتی سرگرمی
کو فروغ دینے اور مشترکہ کوششیں کرنے اور اپنے آپ میں حاصل ہونے والے منافع کو
تقسیم کرنے کےلئے حصہ لینے اور مشترکہ کوششیں کرنے کا بیڑہ اٹھاتے ہیں۔
معاشرہ کی اقسام
کئی اعتبار سے معاشرے کو مختلف اقسام میں تقسیم کیاجاتاہے مثال تاریخی اعتبار
سے ،افراد کے اعتبار سے ،مقاصد کے اعتبار سے وغیرہ افراد کے اعتبار سے معاشرہ کو
دو اقسام میں تقسیم کیا جاتاہے
:1حیوانی معاشرہ
جانوروں میں بھی بعض جانورایک دوسرے کے ساتھ مل جل کررہتے ہیں ۔یہ تعلق مختلف
مقاصدکے لیے ہوتا ہے مثال توالد اور تناسل کے لیے جیسے عام جانور،بوقت ضرورت ایک
دوسرے کی مدد کے لیے مثال بھیڑیاں اورچیونٹیاں ،یا مل جل کراپنی افادیت دکھانے کے لیے
مثال شہد کی مکھی وغیرہ ۔
:2انسانی معاشرہ
انسان آپس میں جانوروں سے زیادہ کثیر المقاصد معاشرے بناتا ہے جس کی وجہ سے
انسانی معاشرہ کے مختلف اقسام بنتے ہیں۔تاریخی اعتبار سے انسانی معاشرے کو
تین اداوار میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔
:1حجری معاشرہ
اس سے مراد انسانی تاریخ کاوہ معاشرہ ہے جب انسان جنگلوں میں رہتاتھااورپہاڑوں
کو اپنا مسکن بناتا تھا۔اس وقت انسان میں اتنا شعور نہیں تھا کہ وہ اپنا لباس،خورا ک
اور مسکن اتنا متنوع سنا سکے بلکہ صرف گزران وقت کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ
رہتے تھے اور سادہ اور فطری زندگی گزارتے تھے۔
:2روایتی معاشرہ
اس سے مراد وہ معاشرہ ہے جب انسان حجری دور سے نکل کرتہذیب یافتہ زندگی
گزارنے لگا اور خورا ک لباس اور مسکن میں تنوع آگیا اور انسان اچھا خورا ک ،اچھی
لباس اور اچھے گھر بنانے میں آگے بڑھنے لگا۔
:3جدید معاشرہ
اس سے مراد وہ معاشرہ ہے جب انسان نے جدید صنعتی انقالبات کے ذریعے ترقی کی
اور مشینی دور شروع ہوا ،اس دور میں انسانی معاشرہ بھی کافی حد تک بدل گیا اور
انسان نے پوری دنیا کو ایک گائوںکی مانند بنا دیا۔
:١رنگ ونسل
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک رنگ و نسل کے لوگ آپس میں مل جل کر ساتھ رہتے ہیں اور ایک
معاشرہ تشکیل پاتے ہیں۔اس کی مثا ل خاندان ،قبیلہ اور قوم ہے۔
:٢تعاون
اس سے مراد وہ معاشرہ ہے جس میںلوگ آپس میں تعاون کی بنیاد پر اکھٹے ہو کر
زندگی بسر کرتے ہیں ایسے معاشروں کی بنیاد عمومارفاہی ادارے بنتے ہیںجو مختلف
رنگ ،نسل اور عالقوں کے لوگوں کو مال کر تعاون کی بنیاد پر ایک جیسا مقصدان کے
سامنے رکھتا ہے جس سے ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے ۔
:٣معاش
کبھی ایسا ہو تاہے کہ مختلف قسم کے لوگ کسی ایک یا زیادہ معاشی مقاصد کی
تکمیل کے لیے آپس میں ایک معاہدہ کرتے ہیں اور پھر اس معاہدہ کی پاسداری کرتے
ہوئے ایک ساتھ چلتے ہیں جس سے ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کو معاشی
معاشرہ کہتے ہیں بالفاط دیگر آج کل کی کمپنیاں اور دیگر صنعتی ادارے معاشرے
کی مثالیں ہیں۔
اس کے عالوہ بھی معاشرہ کی مختلف اقسام بن سکتے ہیں مثال آج کل ملک اور وطن
کو ایک معاشرہ کی حیثیت حاصل ہے کہ ہر ملک ا لگ ایک معاشرہ ہوتا ہے لہذا آج
کل ہم کہ سکتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ ہندوستانی معاشرہ ،برطانوی معاشرہ
وغیرہ۔
معاشرے کی ا کائیاں:
ا :خاندان
خاندان پر پہلے بحث ہو گئی ہے کہ ایک ہی جنس کے افراد جن میں باہمی قریبی
رشتہ داری ہوتی ہے اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ خاندان کی
ابتداء ایک مرد اور ایک عورت سے ہوتی ہے اور پھر یہ بڑھتے بڑھتے کنبہ بن جاتا ہے
اور پھر قبیلہ۔
خاندان معاشرے کا سب سے اہم اور بنیادی یونٹ ہے جو مرد اور عورت کے درمیان
رشتہ ازدواج سے وجود میں آتا ہے۔ معاشرے کی ترقی اور نشوو نما کا انحصار جہاں
خاندان پر ہے وہاں معاشرے کی تنزلی اور انتشار کا انحصار بھی اسی خاندان پر ہے
کیونکہ خاندان ہی معاشرے کی اساسی ا کائی کی حیثیت رکھتے ہیں اور اسی سے
معاشرے وجود میں آتے ہیں۔ جس قدر خاندان مضبوط اور مستحکم ہو گا اسی
قدرہی معاشرہ اور ریاست مضبوط اور مستحکم ہوں گے۔ خاندان کی اہمیت کا اندازہ
اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ خاندان کی بقا اور تحفظ کو شریعت کی بنیادی مقاصد
میں شمار کیا گیا ہے۔ اور اسالمی تعلیمات کا ایک مکمل شعبہ جو مناکات یا اسالم
کے عائلی نظام سے موسوم ہے اس مقصد کے لیے وجود میں آیا ہے۔ قرآن میں ایک
تہائی سے زائد احکام عائلی نظم و ضبط کو منضبط کرنے کے لیے آئے ہیں۔ مذکورہ
بحث کی تکمل تفصیالت معلوم کرنے سے قبل ہم معاشرے کی تعریف بیان کرتے
ہیں جبکہ خاندان کی تعریفات باؤل میں گزر چکی ہیں۔ مختلف کتنے قبیلے اور
خاندان مل کر ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے جو مختلف قسم کے قوموں اور افراد کو
اپنے اندر شامل کیے ہوتا ہے۔
خاندان ایک اہم سماجی ادارہ ہے جو مرد کے ساتھ معاشرے کے لئے بھی مشترکہ
طور پر کام کرتا ہے ممتاز ماہر عمرانیات جارج پیٹرن الک کے مطابق ایک خاندان در
اصل رفاقتوں کے فروغ کے لیے بنیادی وسیلہ ہے جو نئے افراد کو مشترک سماجی
قدر اور روایات سکھا کر معاشرے کی ثقافت میں رفیق کار بنالیتا ہے۔ خاندان نکاح
کے معاہدے کے ذریعے سماجی نظم اور عام اتفاق رائے کو برقرار رکھتے ہیں معاشرے
کے افراد کو کنٹرول کرتا ہے۔
اسالمی اصولوں کے مطابق ایک کنبہ اور خاندان اگر چہ ایک مرد اور عورت کے
درمیان نکاح کے بندھن اور پھر ان کے بچوں سے وجود میں آتا ہے لیکن اس میں
شوہر کے والدین اور خونی رشتے کے غیر شادی شدہ عزیز بھی شامل ہو کر ایک
وسیع کنبے کو تشکیل دیتے ہیں معاشرے میں جنسی بے راہ روی کو روکنے کے لیے
اسالم نے نہ صرف نکاح کی حوصلہ افزائی کی ہے بلکہ اس نے بعض رشتوں کو
محض الزامات میں سے شمار کیا ہے جہاں ایک مرد اور عورت کے درمیان نکاح ہو
ہی نہیں سکتی ارشاد باری تعالی ہے:
ت
خ ِنت الْأُ ْ
آخ َو َب ُ نت الْ ِ م َو َب ُ ﴿حرمت علي ُك ُ
م َو َخل َُت ُك ْم ْت ُك ْ
م َو َع َّ وت ُك ْ
اخ ُ
م َو ْ م َو َب َن ْت ُك ْ م أ َّم َهنَّ ُك ْ ْ ْ
م ا َّل ِتي ِفي اع ِة َو ُأ َّم َه ْ َ َو ُأ َّم َه ْت ُك َّ
م َو َر َبا ِي ُب ُك ُسائِ ُك ْ
ت نِ َ ض َ الر َ
م ِم َن َّ وت ُك ْاخ ُ م َو ْ ض ْع َت ُك ْم ال ِتي أ ْر َ ُ
م َّ سا ِب ُك َّ
دخلتم ِب ِه َّن َفلا جناح عليْ ُك ْ ُ ونوا
م َت ُك ُم ِب ِه َّن َفإِن ل ْ م التِي َد َخ ْل ُت ْ ُ م ِم ْن نِ َور ُك ْ
ُح ُج َ
ان
ان ہللاَ َك َ م ُعوا َب ْي َن الْأ َ ْخ َت ْي ِن إِلَّا َما َق ْد َ
سل ََف َّ ان َت ْج َ
اصلابِ ُكم َو ْ م ا َّل ِذ َ
ين ِم ْن ْ خلابل ْابتاب ُك ُ
ُ َو
1
يما ﴾ ورا َّر ِح ً
َغ ُف ً
تم پر حرام کی گئی ہیں تمہاری مائیں اور بیٹیاں ،بہنیں ،پھوپھیاں اور خاالئیں،
بھانجیاں ،بھتیجیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پالیا اور تمہاری
دودھ شریک بہن اور تمہاری بیویوں کی مائیں اور تمہاری بیویوں کی بیٹیاں جنہوں
نے تمہاری گود میں پرورش پائی ہو ان بیوی کی لڑکیاں جن سے تمہارا زن و شوہر ہو
چکا ہوں ورنہ اگرصرف نکاح ہوا ہو اور تعلق زن و شوہر نہ ہوا ہو تو انہیں چھوڑ کر ان
کی لڑکیوں سے نکاح کر لینے میں تم پر کوئی مواخذہ نہیں۔ اور تمہاری ان بیٹوںکی
بیویاں جو تمہاری سب سے ہو اور یہ بھی تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو
بہنوں کو جمع کرو مگر جو ہو چکا ہے اللہ بخشنے واالر تم کرنے واال ہے۔
قرآن کریم میں نکاح کو مقدس تعلق قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اسالم
میں کسی قسم کے غیر قانونی اور خفیہ جنسی نیات کلنی سے منع کیا گیا ہیں۔ نئی
نسل کی تربیت اور عورت کے حقوق کا تحفظ ایسے دو پہلو ہیں جن پر اسالم کے
معاشرتی نظام میں بہت زور دیا گیا ہے۔ اسالم غیر قانونی تعلق کو ایک ایسا اذیت
ناک وسیلہ سمجھتا ہے جو بچوں کو مشکوک حسب نسب عطا کرتا ہے۔ اس صورت
میں بچے کی پیدائش کے بعد معاشرے میں تمام ذمہ داری عورت پر آجاتی ہے جس
سے توقع کی جاتی ہے کہ بحیثیت ا کیلی ماں ایسے بچوں کی تربیت کرے گی پھر
ایسے بچوں کا مستقبل غیر مستحکم تعلقات میں بسر ہو نا شروع ہو جاتا ہے اور اس
طرح کا ایک چکر چلتا رہتا ہے۔ اسالم ایک مرد اور عورت کے تمام جنسی تعلقات کو
اس کے اپنے نکاح تک محدود کرتا ہے ایسے تعلقات کو خود اپنے خاندان کے بہت قریبی
رشتہ داروں کے درمیان ممنوع قرار دیتا ہے۔ اس کے نظام میں تمام تعلقات کی بنیاد
آج تک اسالم کا تصور خاندان کسی تنازعے کی وجہ نہیں بنا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ
تعلقات کی تعیین کے بارے اس کے عام اصولوں کو وسیع مسلم معاشروں میں قبول
کیا گیا اور مسلمان گھرانوں میں ان کا موثر نفاذ کیا گیا ہے۔ تاہم اس پر جو سواالت
اٹھائے گئے وہ یا توان اصالحی تعلیمات سے عدم واقفیت کی وجہ سے ہیں یا پھر کچھ
برائے نام مسلمانوں کے رویوں کو اہمیت دی گئی ہے کہ بے خبری میں انہیں اسالمی
تعلیمات کے مترادف سمجھ کر لیا گیا۔ اس طرح وہ لوگ جو خاندان کے بارے میں
اسالم کی حقیقی تعلیمات سے اچھی طرح واقف نہیں ہے انہوں نے عورتوں کے ساتھ
زیادتیوں کو سامنے رکھتے ہوئے اسالم پر الزامات لگانے شروع کر دیے۔ الغرض اللہ تعالی
نے تمام بنی نوع انسانیت کو خاندان کے نظام سے منسلک کر دیا ہے جس کو اللہ تعالی
اس انداز میں بیان فرماتے ہیں:
اے لوگوں اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا اور اس سے اس
کی بیوی کو پیدا فرمایا اور ان دونوں سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو زمین میں
پہل آیا۔
اور سورۃ االنعام کی آیت نمبر ۲۶مذکورہ مفہوم کو بیان فرمارہی ہے کہ اللہ تعالی نے
ہر شخص کو خاندان سے منسلک فرمادیا ہے ۔ اس استنباط کو مزید تقویت اس بات
سے ملتی ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں اللہ تعالی ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم اپنے
والدین کی اطاعت کریں ان سے نرمی اور محبت سے پیش آئیں ساتھ ہی ہمیں یہ حکم
دیا گیا ہے کہ ا پنے اقربا اور رشتہ داروں کے ساتھ بھی محبت سے پیش آئیں۔ اللہ رب
العزت اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہم خاندانی بندھن میں بندھے ہوئے رہیں کیونکہ وہ
جانتا ہے کہ معاشرے کی فالح بہبود اس میں ہے کہ خاندانی نظام کو تحفظ دیا جائے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ غیر ضروری نہیں ہے کہ سماجی گروہوں کی حفاظت جبلی طور
پر ہر انسان میں موجود ہوتا ہے۔ خاندانی نظام اور معاشرہ گروہ یا جماعت کے ہر فرد
دعوی کرے کہ وہ خود مختار
ٰ کے لیے بنیادی ضرورت ہے۔ اور اگر کوئی فرد اس بات کا
ہیں اور اسے اپنی مرضی سے اپنی راہ پر چلنا ہے اور وہ اپنی خوشیوں اور خواہشات
کی قربانی دینے کا جذبہ اپنے اندر نہیں رکھتیار کھتی تو معاشرے شدید بد امنی اور
بد نظمی کی وجہ سے ایک دم بہہ کر اڑ جائیں گے۔ اگر کوئی شخص اپنے حقوق سے
اسالم نے مرد اور عورت کو معاشی آزادی مالی حقوق اور قانونی طریقہ کار میں
مساوی درجہ دیا ہے وہ کوئی بھی جائز پیشہ اختیار کر سکتی ہے وہ اپنی آمدنی کی
1
6 Mr. Amir Aftab. Status of women in Islam Vol. 4, No. 7 (Feb., 1976), p. 70 Published By:
Social Sciences
مالک بن سکتی ہے وراثت میں اس کا حصہ ہے اور اپنی مرضی سے اپنی ملکیت میں
تصرف کر سکتی ہے
It is said that two women are proved to be equal to the male by the principal
of inheritance in the line generally has been the rule. The Quranic legislating
giving the daughter half as much of the estate as went to a son was an
indication.”1
مرد کے مقابلے میں عورت کا حصہ نصف ٹھہرانے کی حکمت یہ ہے کہ شریعت اسالمی
میں عورت کے حصے کا خرچ مرد کے ذمے ڈال دیا ہے۔ اس طرح مختلف امور میں
بعض اوقات یہ مرد کے مساوی ہوتی ہے اور کبھی اس سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے بغیر
کسی محنت کے نصف حصہ میں بھی وراثت کی حقدار ہوتی ہے۔ اس طرح شوہر سے
اسے مہر ملتا ہے وہ ان زیورات اور تحفے تحائف کی مالک ہوتی ہے جو شادی یا خوشی
کے دیگر مواقع پر اسے دیے جاتے ہیں یہ سب کچھ اس کا محفوظ سرمایہ ہے۔
:2قبیله
خاندان جب میاں بیوی اور بچوں سے نکل کر چا ،چازاد اور داد ،پر داد کی اوالد تک
پہنچتا ہے تو اسے قبیلہ کہتے ہیں۔ قبیلہ بھی معاشرہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا
کرتا ہے۔
7 Encyclopedia of Religion and ethics Siraj, Asifa (October 2011). “Meanings of modesty 1
جب مختلف قبیلے آپس میں مل کر رہتے ہیں تو اس سے قوم بنتی ہے اور ہر قوم کا
رہن سہن اور ایک الگ تہذیب ہوتی ہے ان سب چیزوں کو مال کر معاشرہ کی تشکیل
ہوتی ہے۔
:4شہر
شہر معاشرہ کی تشکیل کی بنیادی ا کائی ہے اگرچہ شہر بذات خود کسی معاشرہ
کی تشکیل نہیں کر ہتا ہم شہر کی گود میں کئی اقوام آگر آباد ہوتے ہیں اور مختلف
اقوام کے مالپ سے ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ اس لیے شہر کو معاشرے کی تشکیل
میں ایک اہم کردار کا حامل سمجھا جاتاہے
:5ملک
جدید دور میں کوئی بھی ملک معاشرے کی تشکیل میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں
تک کہ آج کل کی جدید دنیا میں قوم سے بھی بڑھ کر ایک ملک کسی انسان کو
شناخت دیتا ہے لہذا بیرون دنیا میں کوئی بھی پاکستانی خود کو پنجابی یا پٹھان نہیں
کہتا بلکہ اس کے تعارف کے لیے پاکستانی ،ہندوستانی ،امیریکن اور برٹش کہنا کافی
ہے۔ اور اس ملک کے وجہ سے آج کل معاشروں کا تعین بھی ہوتا ہے۔
:6خطہ
دنیا کے مختلف خطوں کی تہذیب و ثقافت اور رہن سہن کے طریقوں کے پیش نظر ہر
خطے کا الگ الگ معاشرہ ہوتا ہے حتی کہ جدید دنیا بھی اس تفریق کو مثانہ سکی
بلکہ اس کی وجہ سے یہ تفریق اور بھی زیادہ ہو گئی۔ مثال مغربی معاشرہ ،مشرقی
معاشرہ یا عرب معاشرہ وغیرہ۔
:7مذہب
اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ معاشرہ کی تشکیل میں مذہب کا بھی
بنیادی کردار ہوتا ہے اور کبھی کبھی معاشرے کی اضافت مذہب کی طرف بھی ہوتا ہے۔
مثال اسالمی معاشرہ ،ہندو معاشرہ ،عیسائی معاشرہ وغیرہ۔
انسان فطر تامدنی الطبع ہے اور اس کے اس فطرت کی بدولت وہ ا کیلے کبھی زندگی
نہیں گزار سکتا بلکہ وہ الزما دوسرے انسانوں کے ساتھ مل جل کر زندگی گزارنا پسند
کرتا ہے۔ پھر اگر انسان اس میل جول کو ایک اچھے طریقے سے طے کرے گا تو یہ اس
کے لیے بھی بہتر ہوگا اور دوسرے انسانوں حتی کہ جانوروں کے لیے بھی بہتر ہو گا اور
اگر انسان یہ میل جول غلط طریقے سے اختیار کرے گا تو اس میں تمام عالم حیات کو
تکلیف ہو گی۔ اس وجہ سے اس معاشرتی زندگی کی اہمیت بہت بڑھتی ہے کہ انسانی
نہیں بلکہ حیوانی زندگی کا دار ومدار بھی انسان کی معاشرتی زندگی پر ہے۔ اس
معاشرتی زندگی کو بہترین بنانے کے لیے چند اصول کو سامنار کھنا چاہیے۔ ارشاد باری
تعالی ہے :
تم بہترین امت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی کے لئے ظاہر کی گئی ہے ،تم بھالئی کا
حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ،اور اگر اہل کتاب بھی
اس آیت میں اللہ تبارک و تعالی نے امت محمدیہ کی باقی تمام امتوں اور قوموں کے
مقابلے میں فضیلت و شان بیان فرمائی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ مخلوق کو نفع
پہنچانے کے لئے وجود میں آئی ہے۔ اس کا سب سے بڑا نفع یہ ہے کہ یہ مخلوق کی
روحانی اور اخالقی اصالح کی فکر کرتی ہے اور یہ اس امت محمدیہ کا فرض منصبی
ہے۔ اگر چہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ( یعنی لوگوں کو نیکیوں کا حکم کرنے اور
برائیوں سے روکنے کا حکم پچھلی امتوں کو بھی دیا گیا تھا ،لیکن اس کی تکمیل اسی
امت کے ذریعے ہوئی ہے۔ دوسرا پچھلی امتوں نے اس حکم کو چھوڑ دیا تھا ،جب کہ
امت محمدیہ کے حوالے سے نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی علی تعلیم کی پیش
گوئی ہے کہ اس امت میں تا قیامت ایک جماعت ایسی قائم رہے گی ،جو برابر یہ
فریضہ انجام دیتی رہے گی۔ یہی اس امت کی وجہ افتخار ووجہ امتیاز ہے۔
امام قرطبی رحمہ اللہ " احکام القرآن " میں لکھتے ہیں کہ ” یہ اعزاز اس امت کے پاس
اس وقت تک برقرار رہے گا ،جب تک وہ اس دین پر قائم رہے گی اور نیکی کا حکم دینے
اور برائی سے روکنے والی صفت ان میں باقی رہے گی ،اگر انہوں نے برائی کو اچھائی
سے بدلنے کی بجائے
اس برائی کو خود اپنا لیا تو یہ اعزاز ان سے خود بخود چھن جائے گا۔ اس کی تائید نبی
کریم ملی علی نام کی اس روایت سے ہوتی ہے جس میں آپ میلی علی سلیم نے تین
جرائم کی تین سزائیں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ،جو امام جالل الدین سیوطی نے
اپنی تفسیر در منثور میں نقل فرمائی ہے کہ ”جب میری امت دنیا کو بڑی چیز سمجھنے
لگے گی تو اسالم کی بیت ووقعت اس کے قلوب سے نکل جائے گی ،جب امر بالمعروف
اور نہی عن المنکر چھوڑ بیٹھے گی تو وحی کی برکات سے محروم ہو جائے گی اور جب
1
آپس میں گالم گلوچ اختیار کرے گی تو اللہ جل شانہ کی نگاہ سے گر جائے گی“
اس طرح صحیح بخاری میں حضرت نعمان بن بشیر سے نقل کردہ روایت سے واضح
ہوتا ہے کہ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک فالح نہیں پا سکتا ،جب تک کہ وہ امر
بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو انجام نہ دے۔ نبی کریم ملی لیں کہ تم نے
فرمایا:
"اللہ کی حدود پر قائم رہنے اور اس کے پامال کرنے والے کی مثال ان لوگوں کی سی
ہے ،جنہوں نے ایک دو منزلہ کشتی کے اوپر اور نیچے والے حصے کے حوالے سے قرعہ
اندازی کی (کہ کون کس منزل پر رہے گا ) تو کچھ کو اوپر واال حصہ مال اور کچھ کو نیچے
واال حصہ مال۔ پھر نیچے والوں کو پانی کی ضرورت ہوتی تو وہ اوپر والوں کے پاس جاتے
(اور اپنی پانی کی ضرورت پوری کر لیتے)۔ (ایک دن) ان لوگوں نے سوچا کہ اگر ہم
کشتی کے نچلے حصے میں سوراخ کر دیں اور پانی کی ضرورت خود پوری کر لیں اور
اوپر والوں کو ( بار بار جانے کے ذریعے سے ) تکلیف نہ دیں تو کتنا اچھا رہے گا ،اب اگر
اوپر والے ان نیچے والوں کو ان کے (اس احمقانہ ) ارادے پر عمل کرنے سے نہ روکیں
ان ﴾
1
او ُن ْوا َع َلى الْ ِإ ْث ِم َوا ْل ُع ْد َو ِ
او ُن ْوا َعلَى ا ْل ِب ِر َو ال َّت ْق َوى َو لَا َت َع َ
﴿ َو َت َع َ
نیکی اور بھالئی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو اور گناہ و سرکشی
میں ایک دوسرے کے مددگارنہ بنو۔
اسالم حقوق اللہ اور حقوق العباد کا حسین امتزاج ہے۔ وہ اپنے ماننے والوں سے اس
امر کا تقاضا کرتا ہے کہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی بھی بہت
ضروری ہے۔ قرآن مجید نے ایسے نمازیوں کے لئے ہالکت کی وعید سنائی ہے جو نماز
کو رکوع و سجدہ تک محمد ودر کھتے ہیں اور انسانیت کو دکھوں سے نجات نہیں دالتے
،ارشاد ہوتا ہے:
ایسے نمازیوں کے لئے ہالکت ہے جو اپنی نماز سے بے خبر ہیں ،جو ریا کاری کرتے ہیں
اور اشیائے ضرورت کو روکتے ہیں۔
اسالم معاشرتی فالح و بہبود اور رفاہ عامہ کا عالمگیر چارٹر ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
نیکی یہی نہیں کہ تم مشرق و مغرب کی طرف اپنا منہ کر لو ،بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ
لوگ اللہ پر ،یوم آخرت پر ،فرشتوں پر ،کتابوں اور پیغمبروں پر ایمان الئیں ،اور اس کی
محبت پر اپنا مال عزیزوں ،یتیموں ،مسکینوں ،مسافروںاور سائلوں کو دیں اور گرد
نہیں چھڑانے پر خرچ کریں۔
انسانی فالح و بہبود کے اس چارٹر کے مطابق اصلی نیکی اور بھالئی یہ ہے کہ انسان
ایمانیات کے نتیجے میں اپنے مال و دولت کے ساتھ محبت اور رغبت کے باوجودا سے
معاشرتی بہبود اور رفاہی کاموں پر خرچ کرے۔ اسالم کے معاشرتی بہبود ورفاہ عامہ
کے نظام اور اسالم کی روحانی اور اخالقی اقدار میں گہرا تعلق ہے۔ اسالم کی یہ اقدار
انسان کو ایثار ،قربانی اور بے لوث خدمت خلق پر آمادہ کرتی ہیں۔ نتیجتا ً وہ اپنے
ضرورت مند بھائیوں کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے پر روحانی خوشی محسوس کرتا
ہے اور اس کی واضح مثالیں عہد نبوی ،عبد خلفائے راشدین میں بکثرت موجود ہیں۔
انسانی فالح و بہبود کے اس چارٹر کے مطابق اصلی نیکی اور بھالئی یہ ہے کہ انسان
ایمانیات کے نتیجے میں اپنے مال و دولت کے ساتھ محبت اور رغبت کے باوجود اسے
معاشرتی بہبود اور رفاہی کاموں پر خرچ کرے۔ اسالم کے معاشرتی بہبود ورفاہ عامہ
کے نظام اور اسالم کی روحانی اور اخالقی اقدار میں گہرا تعلق ہے۔ اسالم کی یہ اقدار
انسان کو ایثار ،قربانی اور بے لوث خدمت خلق پر آمادہ کرتی ہیں۔ نتیجتا ً وہ اپنے
اسالم آخری اور مکمل دین ہے۔ اس لئے اس نے ہر قسم کے انسانوں کی فطرت کے
مطابق ہدایات دی ہیں بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کے لئے روحانی اور
اخالقی اقدار کے ساتھ ساتھ قانونی اور انتظامی ضابطوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
اس ضرورت کے پیش نظر اسالم میں اخالقی و قانونی ضابطوں کے درمیان حسین
امتزاج کیا گیا ہے۔
معاشرتی فالح و بہبود کے بنیادی اصول سورۃ البقرہ میں بیان ہوئے ہیں۔ انہی اصولوں
کو عہد رسالت ،خالفت راشدہ میں قانونی حیثیت دے کر حکومت اسالمیہ کی
باضابطہ حکمت عملی قرار دیا گیا۔ چنانچہ ارشادر بانی ہے :
ين َو ِفي
ب َو ا ْل َف ِر ِم َ
الر َقا ِ
م َو فِى ِ َّ
ِين َعل َْي َها َو ا ْل ُمؤل َفةِ ُق ُل ْو ُب ُه ْ
ِين َو ا ْل َع ِمل َ
سك ِم ْ
ت ِل ْل ُف َق َرا ِء َو ا ْل َ
الص َد َق ُ
َّ ما
﴿إ ِ َّن َ
1
ل ال َّلهِ و ابن السبيل﴾ س ِب ْي ِ
َ
اس آیت میں ہر قسم کے بے کس ،مجبور ،محتاج ،غریب اور بے سہارا لوگوں کا ذکر
کیا گیا ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے جو اصطالح استعمال کی گئی ،وہ اپنی جامعیت میں
تاریخی عوامل کے تحت ہر زمانے میں رونما ہونے والے فقر و احتیاج اور بے کسی و
بیچارگی پر حاوی ہے۔ ان میں وہ لوگ شامل ہیں جو حاجت مند ہوں ،جو معاشی
آج جب کہ پوری دنیا ،غربت و افالس اور بدامنی و عدم سکون کا شکار ہے ،مادیت کا
غلبہ ہے جب کہ روحانیت مفقود ہے ،ایسے حاالت میں سمارتی خدمت اور قاہ عامہ
کی بدولت انسانیت کی فالح کے لئے کوشش کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔ چنانچہ اس کا
حتہ کی روشنی میں ایسا نظام تشکیل دیا جائے جس کی نظیر خالفت راشدہ میں
ملتی ہے یہی وجہ ہے کہ ابتدائے اسالم میں انسانیت کی بے لوث خدمات انجام دی
گئیں حتی کہ معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لئے فالحی اسکیمیں اور اداروں کا قیام
عمل میں الیا گیا۔
موجودہ زمانے میں اسالمی تعلیمات کی روشنی میں ایسا مفید سماجی نظام تیار
کریں کہ اس کا فائدہ برادر است انسانیت کو پہنچے اور معاشر سے بد امنی ،رشوت،
غربت جیسی مہلک بیماریوں کا خاتمہ کیا جاسکے۔ چنانچہ اس وقت ضرورت ہے کہ
ہم اسالم کے فالحی معاشرے کا ڈھانچہ انسانیت کے سامنے پیش کریں ،تاکہ ان
اصولوں سے فائدہ اٹھا کر قوم کی ترقی کے لئے کام کریں۔ اللہ تعا ٰلی ہم سب کو
معاشرے کی اصالح کی فکر کرنے ساتھ ساتھ اپنی اصالح کرنے کی بھی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین
فصل دوم
انسان کی شخصیت ،اس کے عادات واطوار اور افعال اور کردار سے نمایاں ہوتی ہے۔
انسان فطری طور پر اپنا مصاحب اور دوست بھی انہی کو بنانا پسند کرتا ہے جو
معاشرے میں اچھے ہوتے ہیں اور برے لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے۔ فارسی
مثل مشہور ہے "صحبت طالع تر اطالع کند ،اور جاپانی مقولہ ہے " جب کسی شخص
کا کردار تم پر واضح نہ ہو تو اس کے دوستوں کو دیکھو“۔ اس سے اس کے معیار کا پتا
چلتا ہے ،اس لئے معمولی سے معمولی عقل و شعور رکھنے واال انسان کبھی برے
لوگوں کو اپنا دوست بنانا پسند نہیں کرتا ،بلکہ اس کی فحش باتوں اور برے کاموں
سے بچنے کے لئے اس سے دوری اختیار کرنے میں اپنی بھالئی محسوس کرتا ہے۔ نبی
کریم مسلم ارشاد فرمایا" :مومن محبت اور الفت کا حامل ہوتا ہے اور اس شخص میں
کوئی خوبی اور بھالئی نہیں جو نہ خود محبت کرےاور نہ لوگوں کو اس سے الفت ہو
1
۔
1 1مستدرک للحاکم ،ابو عبد هللا حاکم نیساپوری دارلکتب العلمیة ،بیروت ،ط ،۲ ، ۲۰۰۱ج ،۱ص ،١٤٦
حدیث 67
مسلمان برے دوستوں سے بچتے ہوئے اللہ کے نیک اور صالح بندوں سے محبت اور
دوستی کرتا ہے۔ وہ سب لوگ جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے باغی
اور فاسق ہیں ،وہ ان سے بغض رکھتا ہے۔ گویا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کی محبت اس کی محبت ہے اور اللہ اور سول صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی
اس کی دشمنی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے :
ان[
م َل الْ ِإ ْي َ
م َ
اس َتكَ َ ض لِلهِ َوأَ ْع َطى ِ
هلل َو َم َن َع لِلهِ َف َق ِد ْ
َ ] َم ْن أ َ َح ُّ
ب لِلهِ َوأ ْب َغ َ
جو شخص اللہ کے لیے کسی سے محبت و بغض رکھے اور اللہ ہی کے لیے کوئی چیز
1
دے اور روکے ،تو اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا۔
اچھے لوگوں سے میل جول رکھنا اور دوستی کا ہاتھ بڑھانا ایک پکے مومن کی شان ہے
،جیسا کہ حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :مومن دوستی کرتا ہے اور اس
سے دوستی کی جاتی ہے (اور) اس شخص میں کوئی خیر نہیں ہے جو نہ تو کسی
2
سے مانوی ہوتا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی مانوس ہوتا ہے۔
اچھے دوست بنانے والوں کے متعلق رسول اللہ علیم نے عظیم خوشخبری سنائی ہے
کہ :عرش کے ارد گرد نور کے منبر ہیں ،ان پر نورانی لباس اور نورانی چہروں والے لوگ
ہوں گے ،وہ انبیاء و شہداء تو نہیں ،مگر انبیاء و شہداء ان پر رشک کریں گے۔ صحابہ
کرام نے عرض کیا "اے اللہ کے رسول علیکم ! ہمیں بھی ان کی صفات بیان کیجئے ۔
2 1سنن ابی داود ،ابو داؤد سلیمان بن اشعث سجستانی ،دار احیاء اتراث العربی،
،۴ ،۲۰۱۴ج ،۱ص ۲۲
3 2مسند احمد ،امام احمد بن حنبل ،دار الكتب العلمیۃ ،بیروت ،ط ،۱۹۹۷ ، ۲ج ،۲ص ۲۳۳
آپ می کریم نے فرمایا :یہ لوگ اللہ کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے ،ایک
دوسرے کے پاس بیٹھنے والے اور اللہ ہی کے لیے ایک دوسرے کی مالقات کو آنے والے
1
ہیں۔
اچھے لوگوں سے دوستی رکھنا اللہ تعالی کی محبت کا ذریعہ ہے۔ حدیث قدسی میں
ہے ،اللہ تعالی فر ماتا ہے :میری محبت ان کے لیے ثابت ہو چکی ہے جو میرے لیے ایک
دوسرے سے ملتے ہیں اور میری محبت ان لوگوں پر ثابت ہو چکی ہے جو میری خاطر
2
ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔
یہی نہیں بلکہ آپ میں ہیں کہ ہم نے فرمایا :قیامت کے دن جب اللہ تعالی کے عرش
کے سائے کے عالوہ کوئی سایہ نہ ہو گا ،اس وقت اللہ تعالی سات بندوں کو اپنے عرش
کا سایہ نصیب فرمائے گا ،جس میں سے وہ دو آدمی بھی ہوں گے جو اللہ کے لیے ایک
3
دوسرے سے محبت رکھتے اور اللہ ہی کے لیے ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔
احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں
اچھے لوگوں کے اوصاف اور خوبیاں بیان کی ہیں ،وہیں مرے اور ناپسندیدہ لوگوں کی
بھی پہچان بتادی ہے ،تاکہ ایسے لوگوں سے دور رہا جائے۔ اس سلسلے میں ایک اصولی
بات یہ ہے کہ ہر وہ انسان جس میں کسی طرح کی خیر کی امید نہ رکھی جائے ،حتی
کہ اس کے شر سے بھی لوگ محفوظ نہ ہوں تو وہ شخص بد ترین انسان مانا جائے گا،
:1سنن النسائى ،احمد بن شعيب النسائی ،دار الکتاب ،قابره ،۲سن ،۲۰۰۲ج ،۳ص۳۵۳
:3الصحيح للبخاري ,محمد بن اسماعيل دار القلم بيروت ۱۴۰۱ ,۱ه ,ج ،۱ص۲۳۳
کیونکہ ایسی صورت میں وہ معاشرے کے فساد و بگاڑ کا سبب بنے گا۔ نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :تم میں بد ترین شخص وہ ہے جس سے دوسرے لوگوں
1
کو نہ خیر کی امید ہو ،نہ اس کے شر سے لوگ محفوظ ہوں۔
اللہ تعالی نے انسانوں کو پیدا کر کے مختلف قبیلوں اور خاندانوں میں تقسیم فرمادیا
ہے۔ پھر یہ انسان مل جل کر زندگی گزارنے لگے۔ یہی مشترکہ اجتماعی زندگی معاشرہ
کہالنے لگا اور اس میں رہنے والے انسان معاشرہ کے افراد کہالنے لگے یعنی افراد
معاشرے کے تشکیل کیلئے اجزا اور معاشرہ اس کا کل ہے۔ لفظ معاشرہ کا مطلب ایک
دوسرے کے ساتھ مل جل کر زندگی گزارنا ہے لیکن اصطالح میں معاشرہ سے مراد وہ
انسانی اجتماعی زندگی ہے جو کسی خاص فکر و عمل کے نظام پر چل رہی ہو ،اگر
کچھ انسان ایک جگہ جمع ہو کر بے مقصد زندگی گزاریں تو اسے معاشرہ نہیں کہا
جائے گا بلکہ وہ صرف انسانوں کا ایک غیر منظم ہجوم ہو گا اور انسانیت کی شرافت
کے غلبہ کے بجائے اس معاشرے کی سماجی اقدار پر بہیمیت کا غلبہ ہو گا۔ معاشرہ
افراد کے ایک ایسے گروہ کو کہا جاتا ہے کہ جس کی بنیادی ضروریات زندگی میں ایک
دوسرے سے مشترکہ روابط موجود ہوں اور معاشرے کی تعریف کے مطابق یہ الزم
نہیں کہ ان کا تعلق ایک ہی قوم یا ایک ہی مذہب ہو ۔ جب کسی خاص قوم یا مذہب
کی تاریخ کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو عموما ً اس کا تذکرہ معاشرے کے طور پر
کیا جاتا ہے جیسے ہندوستانی معاشرہ ،مغربی معاشرہ یا اسالمی معاشرہ اسالم میں
مشترکہ بنیادی ضروریات زندگی کے اس تصور کو مزید بڑھا کر بھائی چارے ،فالح
انسانیت اور فالح و بہبود پر مبنی معاشرے کا تصور دیا گیا ،ایک ایسا تصور جس کے
سامنے مع اشرے کی تمام لغاتی تعریفیں اپنی چمک کھو دیتی ہیں۔ سورۃ آل عمران
1جامع الترمذى ،محمد بن عيسى الترمذى ،دار الكتب بيروت ،ط ۱۴۰۸ ،۲ه ،ج ،۱ص۲۳۳
میں اسی تصور کی ایک جھلک دکھائی گئی ہے کہ معاشرہ کیا ہے یا کیا ہونا چاہئے،
1
(مفہوم) تم اچھے کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو ۔
اس قرآنی تصور سے ایک ایسے معاشرے کے قیام کی راہ کھلتی ہے جس میں تمام
افراد کو بنیادی ضروریات زندگی بھی میسر ہوں اور ذہنی آسودگی بھی۔ کسی بھی
معاشرے کو اس وقت تک ایک اچھا معاشرہ نہیں کہا جا سکتا جب تک کہ اس کے
ہر فرد کو یکساں شہری نہ سمجھا جائے اور ایک کمزور انسان کو بھی وہی حقوق
حاصل نہ ہوں جو ایک طاقتور کو حاصل ہوتے ہیں خواہ یہ کمزوری طبعی ہو یا معاشی
یعنی سماجی مساوات بال تفریق رنگ و نسل معاشرے کی تشکیل کی بنیادی ا کائی
ہے۔ انصاف کے بغیر معاشرے بہت جلد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کسی بھی
معاشرے میں فرد اور معاشرہ باہم الزم و ملزوم ہیں ،جس طرح فرد معاشرے سے الگ
ہو کر ایک بے حقیقت ا کائی کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے ،اسی طرح معاشرہ افراد کے
بغیر وجود میں نہیں آسکتا۔ دوسرے لفظوں میں افراد کی مجموعی حیثیت کا نام
معاشرہ ہے۔ ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کیلئے فرد کی اصالح معاشرہ کی اصالح
پر منتج ہو گی اور فرد کا بگاڑ پورے معاشرہ کے بگاڑ کا باعث بنے گا۔ اسی لئے اسالم
نے فرد اور معاشرہ دونوں کی اصالح کا اہتمام کیا ہے تاکہ کہیں دونوں کے درمیان بعد
پیدا نہ ہو جس سے معاشرتی بگاڑ کی راہ ہموار نہ ہو جائے۔ ساتھ ہی فالحی معاشرے
کی تشکیل بہترین انسانی خصائل کی بنیاد پر رضا کارانہ ہونی چاہئے کیونکہ قوانین
کی سختی مزاجوں کو سلجھانے کے بجائے بگاڑتی ہے۔ سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ
انفرادی رویے ہی معاشرتی رویوں کے عکاس ہوتے ہیں۔ آپ نے کسی سوسائٹی کا ڈی
این اے اور تجزیہ کرنا ہو تو اس سوسائٹی کے چند گنے چنے افراد کو ہی شمار کر کے
مثالوں اور تشبیہات و تمثیالت سے اگر کسی بات کو سمجھایا جائے تو بات زیادہ
سمجھ میں آتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مثالوں اور تشبیہات کی مدد سے
محسوسات کے ذریعہ غیر محسوس باتوں کو جانی اور دیکھی ہوئی حقیقتوں کے
ذریعہ انجانی اور ان دیکھی حقیقتوں کو اس طرح سمجھایا ہے کہ عام آدمی بھی اسے
سمجھ لے۔ رسول ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماحول کی اہمیت اور اس کے اثرات
کو ایک مثال کے ذریعہ سے سمجھایا ہے۔
] انما مثل الجليس الصالح و الجليس السوء كحامل المسک و نافخ الكير فحامل المسك اما ان
يحذیک و ام ا ان تبتاع منہ و اما ان تجد من ريحا طيبة و نافح الكير اما ان يحرق ثیابک و اما ان تجد
1
ريحا خبیثہ[
نیک و بد ہم نشیں اور دوست کی مثال اس طرح ہے جیسے مشک واال اور بھٹی
پھونکنے واال ،پس مشک واال یا تو تجھے مشک کا تحفہ دے دے گا یا تو اس سے مشک
خریدے گا ،یا پھر کم از کم اس کے پاس بیٹھنے سے تجھے عمدہ خوشبو تو سونگنے کو
ملے گی ہی ،اور بھٹی پھونکنے واال یا تو تیرے کپڑوں کو جال دے گا اور یا کم از کم ) اس
کے پاس بیٹھنے سے تجھے بد بو سونگھنا پڑے گی۔
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو مثال دے کر سمجھایا ہے کہ
انسانی زندگی میں ماحول واطراف ،اچھے برے لوگوں کی صحبت و ہم نشینی اور گرد
9 1الصحيح لمسلم ،مسلم ابن حجاج القشيرى ،كتاب فضائل القران ،داراالشاعت ،بیروت ط ، ۲كتاب البر
والصلة واآلداب ،ج ،۲ص ۲۵۵
و پیش کا بڑا اثر پڑتا ہے ،انسان جس ماحول میں رہتا ہے ویسے ہی اثرات اس کی زندگی
پر پڑتے ہیں ،انسان اگر میدانی اور ہم وار عالقہ میں رہتا ہے یا شہری اور متمدن ماحول
میں رہتا ہے تو اس کی زندگی میں بھی وہ اثرات نمایاں رہتے ہیں۔ عموما
وہاں کے لوگوں کا ذہن معتدل اور ہموار ہوتا ہے ،ان کے اندر ضد ،ہٹ دھرمی ،شدت و
سختی اور اجڑ پن نہیں ہوتا۔ اس کے بر عکس جولوگوں پہاڑی ،غیر ہموار اور جنگلی
عالقوں میں رہتے ہیں یاد یہات میں رہتے ہیں تمدن اور مدنیت سے ان کا سابقہ نہیں
پڑتا ان کے اندر گنوار پن ،سختی اور شدت زیادہ ہوتی ہے ،ذہنی اور فکری اعتدال سے
عموما ً وہاں کے لوگ محروم ہوتے ہیں۔ ایک حدیث شریف سے بھی اس تائید ہوتی ہے
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جو دیہات کا رہنے واال ہوتا ہے یعنی دیہاتی آدمی وہ سچ مچ سخت مزاج اور ضدی
ہوتا ہے۔
شروع شروع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بدوی صحابی ملنے آتے تھے ان کی
گفتگو اور ان کا انداز کالم سخت ہوتا تھا ،لیکن بعد میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی
صحبت کیمیا اثر نے ان کی زندگی اور ماحول میں ایک انقالب برپا کر دیا پھر وہی
صحابی دوسروں کے لئے اسوہ اور نمونہ بن گئے۔
معلوم یہ ہوا کہ انسان پر ماحول کا زبردست اثر پڑتا ہے۔ جو خارجی عوامل انسان پر
بہت زیادہ اثرات مرتب کرتے ہیں وہ بنیادی طور پر دو ہیں ایک ماحول دوسرا تعلیم۔
تعلیم کے اثرات انسانی زندگی میں کس قدر نمایاں ہیں یہ کسی سے مخفی و پوشیدہ
نہیں خاندان کا اگر ایک بچہ پڑھ لکھ کر کامیاب ہو جاتا ہے اور وہ بڑا بن جاتا ہے تو
صرف گھر اور خاندان ہی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں میں تبدیلی اور انقالب آجاتا ہے۔
دوسری چیز ہے ماحول :ماحول کے اصل معنی تو ہیں گرد و پیش کے ،لیکن ماحول
کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جن لوگوں کے درمیان رہتا ہے ،فکر و نظر اور عملی زندگی میں
ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ اس کو ایک مثال سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ پانی
کی اصل فطرت ٹھنڈا ہوتا ہے ،وہ نہ صرف خود ٹھنڈا ہوتا ہے ،بلکہ دوسرے کو بھی
ٹھنڈک پہنچاتا ہے لیکن جب سخت گرمی ،لو اور تپش کا موقع ہوتا ہے اور دھوپ کی
حدت و شدت اور اس کی تمازت بڑھ جاتی ہے تو پانی بھی گرم ہو جاتا ہے اور پینے
والوں کی پیاس بجھائے نہیں بجھتی۔ اسی طرح انسان پر ماحول کا اثر پڑتا ہے۔ اگر اس
کو نیک ،شریف اور با اخالق لوگوں کا ماحول میسر آتا ہے تو اس کی فطری صالحیت،
تقوی اور نیکی پروان چڑھتی ہے اور اس کی خوبیاں دو چند ہو جاتی ہیں۔ اس کی مثال
ایسی ہی ہے جیسے پانی میں برف ڈال دیا جائے کہ اس سے اس کی ٹھنڈک اور بڑھ
جاتی ہے۔ اور پھر یہ پانی پیاسوں کے لئے ا کسیر بن جاتا ہے۔ اور اس کے بر عکس اگر
انسان کو ماحول غالط ملے تو وہ خراب ہو جاتا ہے اور اس کے اندر جو خوبیاں ہوتی ہیں
وہ بھی بتدریج ختم ہو جاتی ہیں۔ اس کی مثال اس صاف و شفاف پانی کی ہے جس
کے اندر کسی نے گندگی ڈال دی ہو۔
یہاں یہ حقیقت بھی ذہن میں رہے کہ انسان فطرتا نیک ہوتا ہے اس کی فطرت میں
بنیادی طور پر خیر ہی کا غلبہ رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر شخص سچائی ،عدل ،انصاف،
دیانت داری ،مروت اور شرم و حیا کو قابل تعریف سمجھتا ہے اور ان اوصاف و کماالت
کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے ،اس کے مقابلے میں جھوٹ ،ظلم ،خیانت بے حیائی وبے
مروتی بخل اور لچر پنی کو نا پسند کرتا ہے۔ ایک آدمی اگر جھوٹ بولتا ہے لیکن کوئی
دوسرا اس کو جھوٹا کہہ دے تو اس کو تکلیف پہنچتی ہے اور وہ اپنے کو سچا ثابت
کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ انسان بے حیائی کا کام کرتا ہے لیکن اپنے عمل پر پردہ ڈالنے
کی بھر پور کوشش کرتا ہے۔ یہ دراصل فطرت کی آواز ہے۔ اسی لئے نبی ا کرم صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:
نص َرائِهِ ،أَ ْو اه يه َ َ
ودانِهِ أ ْو ُي َ
َ
ِط َرةِ َفأ َب َو ُ ُ َ م ُك ُّ
ل َم ْو ُلود ُِيول َُد َعلَى الف ْ ي ص َّلى ہللاُ َعل َْيهِ َو َ َّ
سل َ ل ال َّن ِب ُّ َ
﴿ َقا َ
1
سانِه﴾ م ِج َ ُي َ
ہر بچہ اپنی فطرت کے اعتبار سے اسالم پر پیدا ہوتا ہے یعنی خدا کی فرمانبرداری کے
مزاج پر پیدا ہوتا ہے ،لیکن اس کے والدین اس کو یہودی ،نصرانی یا مجوسی بنا دیتے
ہیں
معلوم یہ ہوا کہ خارجی حاالت کی وجہ سے بہت دفعہ انسان اپنی اصل فطرت سے
ہٹ جاتا ہے اور وہ فطرت کے خالف چیزوں کو اختیارکرنے لگتا ہے بلکہ کرلیتا ہے۔
ماحول و معاشرہ (خاندان و قبیلہ ) اور سوسائٹی کا اثر انسانی زندگی پر بہت گہرا
اور دیر پاہوتا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ عموما انسان ماحول اور
معاشرے ہی کی پیداوار ہوتے ہیں ،بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی سوسائٹی
اور اپنے ماحول واطراف سے بلند ہو کر فکر و عمل کی صالحیت رکھتے ہوں ،عام طور
پر ماحول اور معاشرے کا جور نگ ،ڈھنگ اور آہنگ ہوتا ہے اور سوسائٹی میں جو رسم
درواج اور طرز معاشرت اور زندگی گزارنے کا طور و طریقہ ہوتا ہے افراد بھی شعوری و
غیر شعوری طور پر اسی رنگ ڈھنگ میں رنگ جاتے ہیں اور اسی قالب میں ڈھل
جاتے ہیں
:1الصحيح المسلم ،مسلم ابن حجاج القشيري کتاب فضائل القرآن ،داراالشاعت بيروت ،ط ،۲ج ،۲ص۱۵۵
پسندیدگی و ناپسندیدگی کا معیار ،ان کے رجحانات و میالنات انسان پر ضرور اثر انداز
ہوتے ہیں ،اسی لئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
1
]المرء علی دین خلیلہ ،فلينظر احدكم من يخالل[
آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے تو اسے غور کرنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کر
رہا ہے۔
ایک دوسری جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوٹوک الفاظ میں متنبہ فرمایا:
2
]ایاک و قرین السوء فانک به تعرف[
تم برے ساتھی سے بچو کیوں کہ تم بھی اسی کے ساتھ پہچانے جاؤ گے۔
صرف ماحول و معاشرہ ہی کیا انسان پر آب و ہوا اور مٹی و عالقہ کے اثرات بھی مرتب
ہوتے ہیں نیز خورد و نوش اور ستر و لباس پر بھی
ایک بار ایک مسلم بادشاہ جنگی مہم پر اپنے الؤ لشکر کے ساتھ نکال ،مہم پر نکلنے
سے پہلے حسب عادت اپنی والدہ سے ملنے اور دعائیں لینے گیا ،والدہ نے ڈھیر ساری
دعائیں دیں اور نصیحت و وصیت بھی کی اور خاص طور پر تلقین کی کہ بیٹا ! نماز
کی پابندی کرنا اور فجر کی نماز کاکچھ زیادہ ہی اہتمام کرنا۔
12: 2فيض القدير ،شرح الجامع الصغير ،محمد عبد الرؤوف المناوي ،دار المعرفة ،سن ،۱۹۷۱ج۱۲۲ ،۲
بادشاہ اپنے الؤ لشکر اور فوجیوں کے ساتھ نکال اور جب اس عالقہ اور شہر تک پہنچ
گیا اور شہر کا محاصرہ کر لیا تو پہلی رات جب وہ خیمہ میں سویا ہواتھا فجر کی نماز
قضا ہو گئی یا تاخیر سے ادا کی۔ اس کو بہت دکھ اور افسوس ہوا کہ والدہ کی نصیحت
پر پہلے ہی دن عمل نہیں کر سکا وہ بہت مضطرب اور پریشان ہوا اور ذہن میں یہ
بات آئی کہ یہاں کی مٹی میں کوئی ایسی تاثیر تو نہیں ہے ؟ سال دو سال کے بعد
جب بادشاہ مسم فتح کر کے اور عالقہ پر قابض ہو کر دار الحکومت لوٹا تو اپنے ساتھ
انہوں نے وہاں کی تھوڑی سی مٹی بھی لے لی۔ واپسی پر والدہ سے مالقات کی اور
مہم اور لڑائی کی پوری تفصیالت سنائی اور پہلے ہی دن فجر کی نماز قضا ہونے یا
تاخیر سے ادا کرنے کا بھی ذکر کیا۔ والدہ کی خدمت سے فارغ ہو کر انہوں نے چپکے
سے وہ مٹی ماں کے تکیہ کے نیچے رکھ دی اتفاق دیکھئے کہ اس دن ان کی والدہ کی
آنکھیں بھی دیر سے کھلی اور بالکل اخیر وقت میں فجر کی نماز پڑھ سکیں ،صبح کو
باد شاہ جب والدہ جان سے ملنے گیا تو ماں بولی بیٹا ! آج میری بھی آنکھ دیر سے
کھلی اور کسی طرح فجر ادا کر سکی۔ بادشاہ نے تکیہ کے نیچے سے وہ مٹی اٹھائی اور
والدہ کو دکھائی کہ یہ اس مٹی کی تاثیر ہے۔ میں یہ مٹی وہاں سے اپنے ساتھ الیا تھا۔
اس واقعہ کی صداقت اور حوالہ پر مت جائیے بچپن کا سنا ہوا ایک واقعہ تھا جو
موضوع سے ہم آہنگ تھا اس لئے اس کو ذکر کر دیا۔ لیکن یہ تو درست ہے کہ ماحول،
خاندان اور آب و ہوا نیز مٹی کے اثرات انسان پر مرتب ہوتے ہیں۔ ماحول و معاشرہ کی
اسی اہمیت کی وجہ سے قرآن و حدیث میں اس کی خاص طور پر تاکید کی گئی ہے
کہ انسان اچھے ماحول میں رہے اور خراب ماحول سے اپنے آپ کو بچائے۔
اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور تم راست گو اور راست عمل لوگوں یعنی بچے لوگوں
کے ساتھ رہا کرو۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہجرت مدینہ کے بعد صحابہ کرام کو حکم دیا اور تمام
مسلمانوں پر یہ ضروری اور الزم کیا کہ وہ اپنے اپنے عالقہ کو چھوڑ کر مدینہ چلے آئیں
چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ اس حکم کے ملتے ہی مجاز بلکہ جزیرۃ العرب کے طول و
عرض سے صحابہ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آگئے اور یہیں مقیم و آباد ہو گئے۔ لیکن
جب فتح مکہ کا آیا تو ایسا نہیں ہوا کہ پورا مدینہ خالی ہو گیا ہو بلکہ مدینہ کا تو
خطرہ میں نہ پڑ جائے ،اس لیے بہت سے بوڑھے بچے عورتیں اور جوان مدینہ ہی میں
رہے۔ علماء کرام نے لکھا ہے کہ ہجرت کے حکم کی بنیادی وجہ اور سبب یہی تھا کہ
لوگوں کو ایک معیاری اسالمی ،دینی اور ایمانی ماحول ملے۔ انہیں پاکیزہ معاشرہ
نصیب ہو ،وہ لوگوں کو دیکھ کر دین و ایمان کو سیکھ سکیں اور اس ماحول میں رہ
کر اعلی اور عمدہ اخالق کا نمونہ پیش کر سکیں۔ دین اور دنیا کو شریعت کے مطابق
کیسے برتیں اس کو جان سکیں۔ یہ ماحول ہی کا اثر تھا کہ جہاں کے لوگ ظلم و
زیادتی ،قتل وغارت گری ،بے حیائی وبے شرمی اور شراب و کباب کے لئے مشہور تھے،
جو چھوٹی چھوٹی اور معمولی باتوں پر برسوں جنگ کرتے تھے ،جہاں بعض خاندان
اور قبیلے لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیتے تھے اور جہاں لوگ اپنی اوالد کو
انتقام لینے کی وصیت کرتے تھے ،انہوں نے ایک ایسا پاکیزہ وایمانی معاشرہ اور ایسی
بلند سوسائٹی کا نقشہ چھوڑا کہ انبیاء کرام کے سواز مین کے سینے پر اور آسمان کے
نبی ا کرم صلی اللہ علیہ و سلم نے مختلف انداز سے اور مختلف طریقوں پر ماحول
سازی اور معاشرے کو دینی ،ایمانی اور اسالمی بنانے کا حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے ایک طرف یہ حکم دیا کہ نیک لوگوں سے تعلق رکھو ،ان کی صحبت اختیار
کرو۔ نیک لوگوں کو اپنے دستر خوان پر بالو اور دوستی اور دوست کے انتخاب میں
نیکی اور شرافت کو بنیاد بنا و یعنی نیک لوگوں سے دوستی کرو ،وہیں اس کے لئے
کہ گھر کا ماحول بھی پاکیزہ اور دینی و ایمانی رہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد
فرمایا کہ فرض نمازوں کے عالوہ دوسری نمازیں سنت و نوافل گھر میں پڑھو۔ فقہاء
اور اہل علم اس کو افضل بتایا ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہے :
1
] فصلوا ايها الناس في بيوتكم فان افضل صلاة المرء فی بیتہ الا المكتوبة [
اے لوگو ! ان نمازوں کو اپنے گھر میں پڑھا کرو اس لئے کہ پنجگانہ نماز چھوڑ کر انسان
کی سب سے بہتر نماز وہ ہے جو وہ اپنے گھر میں پڑھے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان
2
اور ارشاد منقول ہے کہ گھروں میں نماز پڑھا کرو ،اس کو قبرستان نہ بنا و
فرض نماز سے پہلے اور بعد کی سنتوں میں مستحب یہ ہے کہ گھر میں پڑھی جائیں۔
غور کیجئے کہ مسجد سے زیادہ محترم ،قابل تقدیس اور پاکیزہ جگہ کون سی ہو سکتی
ہے اور نماز جیسی مہتم بالشان عبادت کے لئے اور کون سی جگہ ہے جو اس سے زیادہ
موزوں اور مناسب ہو۔ اس کے باوجود آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سنن
و نوافل کو گھر میں پڑھنے کا حکم دیا۔ اس کی وجہ جو بالکل صاف سمجھ میں آتی
ہے وہ یہ ہے کہ اس سے گھر کا ماحول دینی بنے گانچے اور گھر کے دیگر افراد بڑوں کو
نمازپڑھتے ہوئے اور دعاو تسبیحات میں دیکھیں گے تو وہ بھی نماز پڑھیں گے ،بچے
بڑوں کی نقل اتاریں گے اور بچپن ہی سے نماز کی اہمیت اور عظمت ان کے دل میں
بیٹھ جائے گی اور گھر کا ماحول بھی نماز واال ماحول بنا رہے گا۔ اس طرح آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے مسلمانوں کو خاص طور پر اس کی ترغیب دی کہ لوگ زیادہ سے زیادہ
گھر میں قرآن مجید کی تالوت کیا کریں چنانچہ سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :اپنے گھروں کو قبرستان
نہ بناؤ بلکہ اس میں تالوت کیا کرو خاص کر سورہ بقرہ کی۔ جس گھر میں سورہ بقرہ
پڑھی جاتی ہے شیطان وہاں سے بھاگ جاتاہے۔
گھر کے اندر تالوت کا ماحول بنانے سے ماحول پاکیز ہیمنتا ہے اور اس طرح دینی ماحول
بنانے میں قرآن مجید کی تالوت بہت مفید اور موثر ہوتی ہے۔ بچے کے ذہن میں یہ بات
:16: 1حاشیہ الطحطاوی ،امام محمد احمد بن محمد بن اسماعيل الطحطاوی ،دار الکتب العلمیة ،بیروت ،ط
، ۲سن ۱/۰۲ ،۱۹۹۹
بیٹھتی ہے کہ گھر کے اندر تالوت کرنا عبادت اور ثواب کا کام ہے اس لئے ہمیں بھی
تالوت کرنی
چاہیے۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر کے اندر ذکر کرنے کی فضیلت بیان کی
چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
1
]مثل البيت الذي يذكر ہللا فيه ،و البيت الذى لا يذكر ہللا فیہ مثل الحي و المیت[
17جس گھر میں اللہ کاذکر کیاجاتا ہے اور جس گھر میں اللہ کا ذکر نہیں ہوتا ان کی
مثال زندہ اور مردہ شخص کی ہے۔
اسی طرح شریعت نے اس بات کو بہتر قرار دیا اور پسند کیا کہ گھر میں بھی کوئی
خاص جگہ نماز کی ادائیگی کے لئے ہو ۔ اگر نماز پڑھنی ہو تو
کوشش کرے کہ وہیں نماز پڑھے۔ حدیث اور فقہ کہ کتابوں میں اس جگہ کو مسجد
البیت " سے تعبیر کیا گیا ہے۔
فصل سوم
اسالمی معاشرے سے مراد ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں اسالمی احکامات کی پیروی
ہوتی ہو اسالمی احکامات کی بجا آوری میں کسی پر کوئی قدغن نہ ہو اور جہاں
اسالمی شرعی احکامات کے پیش نظر اللہ کی توحید ،انسانیت کا احترام اور اسالم کے
بنیادی عقائد پروان چڑھتے ہوں۔
اسالمی معاشرہ کے اثرات:
حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منصب نبوت پر فائز ہونے کے بعد شرک اور ضاللت
میں ڈوبے ہوئے سماج میں توحید کی صدا بلند کی مکۃ المکرمہ کے شرک زدہ ماحول
میں توحید کی یہ صدا بے حد نامانوس تھی ،اور اس کی زد براہ راست رؤسائے کفار کے
موروثی دین باطل پر پڑ رہی تھی ،اس لئے مخالفتوں کا ایک طوفان امڈ آیا ،توحید کی
صدا پر لبیک کہنے والے گنتی کے چند افراد پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ،مگر ان
تمام مخالفتوں اور ایذارسانیوں کے باوجود قافلہ توحید بڑھتا گیا ،باآلخر مدينة الرسول
میں ایک مثالی آئیڈیل اسالمی معاشرہ تشکیل پایا۔
صحابہ کرام کا ساج ایک نمونے کا مسلم سماج تھا ،اور اسکی بے شمار امتیازی
خصوصیات و کماالت کی خوبیوں نے پورے عالم کو متاثر کیا اور پھر اس کے نتیجے میں
مشرق سے تا مغرب تک اسالم پھیال اور اسالم کا حلقہ اور دائرہ پھیلتا اور بڑھتا گیا،
مرور ایام سے پھر بعد کی صدیوں میں اس معاشرہ کی خصوصیات کم ہو نا شروع ہو
ئیں اور پھر اسکی تاثیر اور مقبولیت کا گراف بھی نیچا ہوتا گیا ،اور اب موجودہ صورت
حال مسلم سماج کی یہ ہے کہ ہر طرف اخالقی طاعون پھیال ہوا ہے ،اباحیت اور عریانیت،
مادیت اور حیوانیت کے باب میں نمونے کا مقام رکھنے والی یورپی تہذیب کی دریوزہ
گری اور اندھی تقلید نے تمام مذہبی اور اخالقی اقدار پر تیشے چال ڈالے ہیں ،اور بقول
حافظ شیرازی:1
1 1حافظ کا نام محمد لقب شمس الدین اور تخلص حافظ حافظ نے خود اپنا نام یوں تحریر کیا ہے :محمد
بن المقلب بہ شمس الحافظ الشیرازی۔ حافظ کا سال والدت ۷۲۶ہجری مانا جاتا ہے۔ حافظ شیرازی کا ایک
بیٹا ۷۶۴ہجری میں فوت ہوا۔ اس وقت حافظ کی عمر ۳۷سال تھی۔ اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ حافظ کا
سال والدت ۷۲۶ہجری ہے۔ اس طرح حافظ کا سال وفات ۷۹۲ہجری تحریر کیا گیا ہے۔ اس طرح وفات کے
وقت حافظ کی عمر ۶۵سال تھی۔
]همه آفاق پر از فتنه و شر می بینم[
پوری دنیافتنہ اور شر کی آماج گاہ بنی ہوئی نظر آتی ہے۔
اور حدیث نبوی کے بموجب گناہوں کی بہتات اور گندگی نے تباہی کے دہانے پر کھڑا کر
دیا ہے ،مسلم سماج کی یہ بد حالی اور بے راہ روی پورے انسانی سماج کی نگاہ میں
اُس کی دناءت اور رذالت کی منظر کشی کرتی ہے ،اور مسلمانوں کی عملی زندگی پر
نگاہ رکھنے واال انسان متاثر ہونے کے بجائے مایوس ،بدول و بد گمان اور نفور و گریزاں
ہوتا ہے۔
ایک اسالمی معاشرہ انسانی معاشرے کو اُسی وقت متاثر کر سکتا ہے جب وہ قرن
اول (عہد صحابہ) کے مثالی سماج کی نمایاں خصوصیات اختیار کرلے اور ان سے
انحراف کو اپنے لئے تباہی کی عالمت اُسی طرح باور کرے جس طرح صحابة الرسول
ان خصوصیات سے کسی بھی قیمت پر دست بردار ہو نا ہالکت کے مترادف سمجھا
کرتے تھے۔
صحابہ کرام کے معاشرے کی تمام خصوصیات کا احاطہ تو دشوار ہے ،تاہم ان کے روشن
عناوین کچھ یوں ہیں :
دل کی گہرائیوں سے حق قبول کر لینے کے بعد صحابہ کو ایسا پختہ یقین اور اپنے
موقف پر ایسا ثبات و استقالل حاصل ہو جاتا تھا که باد مخالف کے کتنے ہی جھکڑ کیوں
نہ چلیں ،رکاوٹوں کا طوفان کیوں نہ آجائے اور مصائب و مشکالت کی بھٹیوں میں تپایا
کیوں نہ جائے وہ کوئی لچک اور نرمی پیدا کرنے پر تیار نہ ہوتے تھے ،دشمنوں کی
ترغیبات و تحریصات کا دام ہو یا تهدیدات و تشدیدات کی کارروائی ،ان کے موقف میں
زبان حال یہ پیغام دیتی تھی۔
ِ سر مو انحراف نہ آتا تھا اور ان کی
جذ به ایثار و قربانی معاشرتی زندگی کی کامیابی کار از ایثار و قربانی میں ہے ،صحابہ
کرام کا سماج ایثار و قربانی کا آئیڈیل سماج تھا ،قرآن انصار صحابہ کےجذبہ ایثار کو
1
خصاصة﴾ ﴿و یوثرون على أنفسهم ولو كان بهم
وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ خود اپنی جگہ محتاج کیوں نہ ہوں۔
ان الفاظ سے بیان کرتا ہے ،سیرت صحابہ میں مالی ایثار کی بے شمار داستانیں ہیں ،
ہجرت نبوی کے پر خطر سفر کے موقع پر دشمنان اسالم کی طرف سے اجتماعی طور
پر قتل رسول کی منظم پالننگ معلوم ہونے کے باوجو د حضرت علی کا آپ صلی یہ
سکیم کے بستر مبارک پر آرام ،اسی طرح سفر ہجرت کی دشوار گزاریوں میں حضرت
ابو بکر کی طرف سے والہانہ طلب پر شرکت ور فاقت جانی ایثار کے عدیم النظیر نمونے
ہیں ،غزوات کا موقعہ ہو ،حفاظت رسول کا موقعہ ہو ،تحفظ دین کا موقعہ ہو ،ملت
کی خدمت کا موقعہ ہو ،ہر موڑ پر صحابہ کی قربانیوں اور ایثار کے ریکارڈ موجود ہیں،
اور اسالم سے محروم انسانی سماج پر صحابہ کے اس جذبے نے کیا کیا اثرات مرتب
کئے اور کس طرح وہ اسالم سے قریب آیا یہ بالکل واضح ہے۔
حضرت جابر بن عبد اللہ کو پہلی مالقات میں یہ نصیحت کی تھی کہ تم کبھی کسی
کو برابھال مت کہنا ،وہ فرماتے ہیں کہ پھر مرتے دم تک میں نے نہ کسی آزاد کو برا کہا
نہ کسی غالم کو ،اور انسان تو انسان ہے کسی اونٹ اور بکری کے لئے بھی سخت کلمہ
میری زبان سے نہیں نکال ،دوسروں کے درد کو اپنا سمجھنا بلکہ اپنے درد سے زیادہ
اس کا احساس اور ہمہ وقت دوسروں کو نفع پہنچانےکی کوشش صحابہ کے معاشرے
کا طرئہ امتیاز تھا۔
عدل و مساوات :قرآن ایسا ایمانی معاشرہ چاہتا ہے جو انصاف کا علم بردار اور
مساوات کی روش پر قائم ہو ،طبقاتی تفاوت اور اونچ نیچ اسالم کی نگاہ میں جاہلیت
کی لعنت اور غالظت ہے ،ظلم اور نا انصافی امن عالم اور بقائے انسانیت کی راہ کا
سب سے بڑار وڑا ہے ،صحابہ کا معاشرہ عدل و مساوات کی شاہراہ پر گامزن تھا ،اس
سماج میں ہر فرد عدل کا خوگر تھا ،خواہ اس کی زد اس کی اپنی ذات یا اس کے والدین
و اقارب پر کیوں نہ آتی ہو ،اسی طرح مساوات اور برابری کے لحاظ سے بھی وہ معاشرہ
نمونے کا تھا ،مشہور عسانی سردار جبلہ بن اسیم جس نے اسالم قبول کر لیا تھا اور
طواف کے دوران ایک دیہاتی مسلمان کا پاؤں اس کے تہ بند پر جاپڑا تھا ،جس پر اس
نے اسے اتنی زور سے مارا کہ ناک کا بانسہ ٹیڑھا ہو گیا اور خون رسنے لگا ،حضرت عمر
نے فیصلہ سنایا کہ یا تو بدو کو راضی کر دیا قصاص کے لئے تیار ہو جاؤ ،جبلہ نے الکھ
نرمی کا معاملہ کرانا چاہا مگر حضرت عمر نے کہا کہ اسالم شاہ و گدا کا فرق نہیں
کرتا ،اس کا قانون عام مساوات قانون ہے ،باآلخر جبلہ نے کچھ مہلت لی ،اور راتوں رات
بھاگ کر پھر عیسائی ہو گیا ،مگر اسالمی قانون عدل و مساوات پر حضرت عمر نے آنچ
نہ آنے دی۔
اجتماعیت واخوت:
صحابہ کا معاشرہ باہمی الفت و محبت میں جسم واحد کی طرح تھا ،اور باہمی اتحاد
و اجتماعیت میں ان کی کیفیت بنیان مرصوص" سیسہ پالئی ہوئی دیوار کی طرح
تھی ،اوس و خزرج کی باہمی طویل خانہ جنگی اور سلسلہ کشت و خون اسالم کی
برکت سے باہمی محبت و الفت میں اس طرح تبدیل ہوئی کہ منافق اور یہود مل کر
بھی اس اجتماعیت میں دراڑ پیدا نہ کر سکے ،اختالف کو ہوا دینی والی چیزوں سے ،
ہر طرح کی بد گمانیوں اور بے جاخدشات سے اور افواہوں پر یقین کرنے سے صحابہ کا
سماج پاک تھا ،اور اسی لئے اس میں مثالی اتحاد اور اخوت کا جذبہ تھا ،جو دوسروں
کو حد سے زیادہ متاثر و مرعوب کرتا تھا۔
قرآن کی صراحت کے مطابق قول و عمل کا تضاد اللہ کی نگاہ میں بے حد مبغوض
عمل اور انسانی سماج کے لئے زہر قاتل ہے ،معاشرے کی اصالح کا بنیادی نقطہ یہ ہے
کہ ہر فرد غازی کردار ہو ،حضرت عثمان غنی نے اپنا اول خطبہ خالفت اس حقیقت کے
اظہار سے شروع کیا تھا کہ آج مسلمانوں کو غازی گفتار رہنما کی ضرورت ہے نہ کی
غازی گفتار رہنما کی۔ عہد صحابہ قول و عمل کی یکسانیت میں ممتاز تھا ،اور اس
معاشرے کا ہر فرد جو کہتا تھا سب سے پہلے اس پر عمل کر کے دکھاتا تھا ،چنانچہ
اس کی تاثیر یہ سامنے آتی تھی کہ گروہ در گروہ لوگ آ کر اسالم کے دامن میں پناہ
لیتے تھے۔
پاکیزگی :
اسالم کا مطالبہ انسان سے ہمہ جہتی پاکیزگی کا ہے ،صحابہ کا معاشرہ سر سے لے
کر پاؤں تک پاکیزگی کے رنگ میں رنگا ہوا تھا ،ان کے دل و دماغ باطل خیاالت اور باطنی
امراض سے پاک تھے ،ان کی نگاہ پاکیزہ تھی ،ان کی خورا ک و پوشاک پاک تھی ،ان
کا ماحول ظلم اور عریانیت سے پاک تھا ،ان کی انفرادی زندگی کا ہر پہلو اور گوشہ
پاکیزہ تھا ،ان کی زبان پاک تھی ،اور ان کی سیاست بھی مکر و فریب سے پاک تھی،
شراب کی رسیا عرب قوم کو جب اس کے ناپاک و حرام ہونے کا علم ہوا تو پورا مدینہ
شراب کی لعنت سے پاک ہو گیا ،تاریخ صحابہ پاکیزگی کے بے شمار ہمہ جہتی نمونوں
سے ماال مال تاریخ ہے۔
ادائے حقوق:
اسالم نے بندگان خدا پر حقوق عائد کئے ہیں ،اللہ کے حقوق کی الگ فہرست ہے ،اور
بندوں کے حقوق کی الگ ،بلکہ بندوں کے حقوق کی ادائیگی نسبت زیادہ اہم قرار دی
گئی ہے ،صحابہ کی زندگی میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کاجو اہتمام
نظر آتاہے وہ بے نظیر ہے۔
صحابہ کرام کے قرآنی ،ربانی اور ایمانی معاشرے کی بے شمار خصوصیات کے یہ روشن
خطوط ہیں ،اس لئے بجاطور پر یہ کہا جاسکتاہے کہ ایک اسالمی معاشرہ ان
خصوصیات کو اپنائے بغیر اور اسوئہ صحابہ کی پیروی کئے بغیر انسانی معاشرے کو
نہ تو متاثر کر سکتا ہے اور نہ اپنی عملی زندگی میں کامیابی اور سعادت سے بہرہ
مند ہو سکتا ہے۔
کسی بھی ملک کی ترقی اور تنزلی کار از اس کے قوانین کی پابندی میں مضمر ہوتا
ہے۔ مملکت خداداد اسالمی جمہوریہ پاکستان ہمارا پیارا وطن ہے اور الحمد للہ ! ہم
مسلمان ہیں ،ہمارا مذہب اسالم ہے ،اسالم اللہ جل جاللہ کا بنایا ہوا نظام زندگی ہے جس
کی پابندی ہم پر فرض ہے۔ اسالم امن و سالمتی کا مذہب ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد
باری تعالی ہے :
1
ِين﴾
ض ُم ْفسِ د َ﴿و ََلَا َت ْع َث ْوا فِي الْأ َ ْر ِ
لفظ ”اسالم“ میں سالمتی کا درس ہے اور پھر مذہب اسالم پر چلنے واال مسلمان کہالتا
ہے تو لفظ ”مسلمان“ میں بھی سالمتی کی درس ہے اور جب دو مسلمان آپس میں
مالقات کرتے ہیں تو "السالم علیکم کہتے ہیں ،چنانچہ روز روشن کی طرح ثابت ہوا کہ
اسالم امن و سکون اور سالمتی کا مذہب ہے۔ مذہب کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر
یہ ایک مثبت پہلو ہے اور منفی پہلو یہ ہے کہ قانون توڑنے اور اُصول و ضوابط کا احترام
نہ کرنے سے افرا تفری پھیل جاتی ہے ،جن کی بنا پر نہ صرف افراد کا سکون تہ و باال
ہو جاتا ہے ،بلکہ پورے معاشرے اور قوم کی زندگی متاثر ہو جاتی ہے ،اس لیے مذہب
اسالم نے مسلمانوں کو قانون کا احترام اور پابندی کرنے کی تاکید کی ہے۔
نبی ا کرم صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں اسالمی معاشرے میں قانون کا کس قدر
احترام کیا جاتا تھا ،اس کی نہایت عمدہ مثال شراب کی حرمت کے سلسلے میں
دیکھنے میں آئی ہے ،جوں ہی شراب کی حرمت کا اعالن کرایا گیا ،اسی وقت لوگوں
نے شراب کے تمام بر تن تو ڑ دیئے اور شراب مدینے کی گلیوں میں بہہ نکلی اور
اسالمی معاشرہ شراب کی لعنت سے پاک ہو گیا اور یہی اللہ جل جاللہ اور رسول
صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی اصل روح اور اسالم کا حقیقی مفہوم ہے ،کیونکہ
ارشا ِد باری تعالی ہے:
اے ایمان والو! اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو بر باد نہ کرو۔
یوں تو دنیا کا کم عقل سے کم عقل انسان بھی قانون کی ضرورت ،اس کی پابندی اور
اہمیت کا اعتراف کرے گا ،لیکن کم لوگ ایسے ہیں جو عمال ً قانون کے تقاضے پورے
کرتے ہوں ،عصر حاضر میں دو افراد کے باہمی معامالت سے لے کر بین اال قوامی تعلقات
تک لوگ ضوابط اور قوانین کی پابندی سے گریزاں ہیں اور القانونیت کے اس رجحان نے
دنیا کا امن و سکون غارت کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسان قانون کی افادیت کا قائل
ہونے کے باوجود اس کی خالف ورزی کیوں کرتا ہے ؟ اس کی چندوجوہ ہیں:
اسالمی تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی کی زرہ گم ہو گئی اور
ایک یہودی کے پاس ملی ،خود خلیفہ وقت ہونے کے باوجود آپ اسے قاضی کی عدالت
میں لے گئے ،چنانچہ جب قاضی نے آپ سے گواہوں کا مطالبہ کیا تو خلیفہ وقت حضرت
علیؓ نے اپنے بیٹے اور غالم کو پیش کیا۔ قاضی نے دونوں کی گواہی ان سے قریبی
تعلق کی بنا پر قبول کرنے سے انکار کر دیا تو آپ اپنے دعوے سے دستبردار ہو گئے۔
احترام قانون کے اس فقید المثال واقعے نے یہودی کو اتنا متاثر کیا کہ وہ کلمہ پڑھ کر
مسلمان ہو گیا۔
اسالمی معاشرے میں نماز کے اندر قانون کی پابندی کی دلکش تصویر موجود ہے،
ایک صف میں کھڑے ہو کر ایک قبلے کی طرف رخ کر کے ایک امام کی اقتداء میں قیام،
رکوع اور سجود ،زید ،عمرو ،بکر ،محمود و ایاز سب مل کر ہمیں قانون کی پابندی
سکھاتے ہیں اور دلوں میں
اسی طرح رمضان المبارک میں روزہ رکھنا احترام قانون کا حسین نقشہ ہے۔ حکم
خداوندی کے تحت صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک مفطرات ثالثہ (ا کل ،شرب
خالق حقیقی
ِ اور بعال یعنی جماع) سے مطلق پر ہیز یہ ظاہر کرتا ہے کہ مسلمان اپنے
کا مطیع اور فرماں بردار ہے۔ حج بھی اسی قوانین کی پابندی کا ایک دلنشین نظارہ
ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں امن و سکون ہے ،اس کا راز یہی ہے کہ وہاں کے باشندے
قانون کے پابند ہیں ،جہاں کہیں بگاڑ وانتشار ہے ،بدامنی اور پریشانی ہے ،وہاں قانون
بدن انسانی ہمارے سامنے ہے
ِ شکنی کی حکمرانی ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے
بدن
کہ جب جسم کے نظام میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے تو بیماری الحق ہو جاتی ہے اور ِ
انسانی کا چین و سکون غارت ہو جاتا ہے۔ فتح مکہ کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ
عنہم نے سرکار دو عالم میں لی یتیم کی ہدایت کے تحت ان گھروں اور باغوں پر بھی
قبضہ نہ کیا جن کورہ ہجرت کے وقت چھوڑ گئے تھے ،جو کہ کی پابندی کی زندہ مثال
ہے۔
ب
ل ا ْلك َِت ِ م ْع ُر ْوفِ َو َت ْن َه ْو َن َع ِن ا ْل ُم ْن َك ِر َو ُت ْؤ ِم ُن ْو َن ِبال َّلهِ َو َل ْوأ َ َم َن أ َ ْ
ه ُ ون ِبا ْل َ
ت لِل َّن ِ ْ
اس َتأ ُم ُر َ اخ ِر َج ْ
امةٍ ْ
م َخ ْي َر ُ
نت ْ
﴿ ُك ُ
1
ن﴾ ه ُم ا ْل َفسِ ُق ْو َ م ِم ْن ُه ُم ا ْل ُم ْؤ ِم ُن ْو َن َوا ْك َث ُر ُ َّ
ان َخ ْي ًرا ل ُه ْ
َلكَ َ
تم بہترین امت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے ،تم بھالئی کا
حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ،اور اگر اہل کتاب بھی
ایمان لے آتے تو یقینا ً ان کے لئے بہتر ہوتا ،ان میں سے کچھ ایمان والے بھی ہیں اور ان
میں سے ا کثر نا فرمان ہیں۔
اس آیت میں اللہ تبارک و تعالی نے امت محمدیہ کی باقی تمام امتوں اور قوموں کے
مقابلے میں فضیلت و شان بیان فرمائی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ مخلوق کو نفع
پہنچانے کے لئے وجود میں آئی ہے۔ اس کا سب سے بڑا نفع یہ ہے کہ یہ مخلوق کی
روحانی اور اخالقی اصالح کی فکر کرتی ہے اور یہ اس امت محمدیہ کا فرئض منصبی
ہے۔ اگر چہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (یعنی لوگوں کو نیکیوں کا حکم کرنے اور
امام قرطبی رحمہ اللہ احکام القرآن میں فرماتے ہیں کہ یہ اعزاز اس امت کے پاس اس
وقت تک برقرار رہے گا ،جب تک وہ اس دین پر قائم رہے گی اور نیکی کا حکم دینے اور
برائی سے روکنے والی صفت ان میں باقی رہے گی ،اگر انہوں نے برائی کو اچھائی سے
1
بدلنے کی بجائے اس برائی کو خود اپنا لیا تو یہ اعزاز ان سے خود بخود چھن جائے گا“۔
اس کی تائید نبی کریم ملی یم کی اس روایت سے ہوتی ہے جس میں آپ مینی یا ہم
نے تین جرائم کی تین سزائیں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ،جو امام جالل الدین سیوطی
نے اپنی تفسیر در منثور میں نقل فرمائی ہے کہ
هيْ َب ُة
م ِتي ال ُّد ْن َيا ُن ِز َع ِم ْن َها َ ت ُأ َّم ْ
ل« :إ ِ َذا َع ْظ َ م أ َ َّن ُه َقا َ ي ال َّل ِه ص َّلى ال َّل ُه َعل َْي ِه َو َ َّ
سل َ َ ] َع ْن َن ِب َّ
2
حي [ َام ،و إ ِ َذا َتركَ ِ َ
ت بَ َر َك َة ا ْل َو ْ
رم ْ م ْنكَ ِر ُح َ
ي َع ِن ا ْل ُ وف َوال َّن ْه َ م ْع ُر ِم َر ِبا ْل َ
ت الْأ ْ َ سل ِ َ الْ ِإ ْ
جب میری امت دنیا کو بڑی چیز سمجھنے لگے گی تو اسالم کی ہیبت و وقعت اس کے
قلوب سے نکل جائے گی ،جب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ بیٹھے گی تو
وحی کی برکات سے محروم ہو جائے گی اور جب
اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت نعمان بن بشیر سے نقل کردہ روایت سے واضح
ہوتا ہے کہ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک فالح نہیں پاسکتا ،جب تک کہ وہ امر
بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو انجام نہ دے۔ نبی کریم ملی تیار کریم نے
فرمایا:
القائِ ِم ِفي ل َ م َث ُ
لَ :شي ٍر رضي ہللا عنهما ،عن النبي عل له اللهم َقا َ بن َب ِ ان ِ م ِ ]عن ال ُّن ْع َ
أعلاها ،
َ بعضهم ُ موا َعلَى سفينة ،فصار اس َت َه ُ
وم ْ م َث ِل َق ٍيها كَ َ ُحدو ِد ہللا ،وا ْل َوا ِق ِع ِف َ
م، َ
اس َت َق ْوا ِم َن الما ِء َم ُّروا َعلَى َم ْن َف ْو َق ُه ْ س َف ِل َها إ ِ َذا ْ
وبعضهم أسفلها ،وكان الذين في أ ْ ُ
ه َل ُكوا
ادوا َ َ َ
م َو َما أ َر ُوه ْ
َم ُن ْؤ ِذ َم ْن َف ْو َق َناَ .فإ ِ ْن َت َر ُك ُ
صيبنا َخ ْر ًقا َول ْ َف َقا ُلوا :ل َْو أ َّنا َخ َر ْق َنا ِفي َن ِ
أخ ُذوا على أَيْ ِد ِ
1
يعا [
ج ِم ًيهم َن َج ْوا َو َن َج ْوا َ وإن َ
يعا ْ ، َج ِم ً
اللہ کی حدود پر قائم رہنے اور اس کے پامال کرنے والے کی مثال ان لوگوں کی سی ہے،
جنہوں نے ایک دو منزلہ کشتی کے اوپر اور نیچے والے حصے کے حوالے سے قرعہ اندازی
کی (کہ کون کس منزل پر رہے گا) تو کچھ کو اوپر واال حصہ مال اور کچھ کو نیچے واال
حصہ مال۔ پھر نیچے والوں کو پانی کی ضرورت ہوتی تو وہ اوپر والوں کے پاس جاتے
(اور اپنی پانی کی ضرورت پوری کر لیتے)۔ (ایک دن) ان لوگوں نے سوچا کہ اگر ہم
کشتی کے نچلے حصے میں سوراخ کر دیں اور پانی کی ضرورت خود پوری کر لیں ) اور
اوپر والوں کو ( بار بار جانے کے ذریعے سے ) تکلیف نہ دیں تو کتنا اچھا رہے گا ،اب اگر
اوپر والے ان نیچے والوں کو ان کے ( اس احمقانہ) ارادے پر عمل کرنے سے نہ روکیں
1
ان﴾
َوا ْل ُع ْد َو ِ او ُنوا َعلَى ا ْل ِإ ْث ِم
او ُنوا َعلَى ا ْل ِب ِر َوال َّت ْق َوى – َولَا َت َع َ
﴿ َو َت َع َ
نیکی اور بھالئی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر و اور گناہ و سرکشی
میں ایک دوسرےکے مددگار نہ بنو۔
اسالم حقوق اللہ اور حقوق العباد کا حسین امتزاج ہے۔ وہ اپنے ماننے والوں سے اس
امر کا تقاضا کرتا ہے کہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی بھی بہت
ضروری ہے۔ قرآن مجید نے ایسے نمازیوں کے لئے ہالکت کی وعید سنائی ہے جو نماز
کورکوع و سجدہ تک محدود رکھتے ہیں اور انسانیت کو دکھوں سے نجات نہیں دالتے ،
ارشاد ہوتا ہے :
2
ن﴾
س ُاب ْو َ م َّ م َّ
َ صلَاتِ ِه ْ
م َع ْن َ
صل ْي َن ال ِذ ْي َن ُب ُه ْ﴿ َف َو ْي ٌل لِ ْل ُ َ
ایسے نمازیوں کے لئے ہالکت ہے جو اپنی نماز سے بے خبر ہیں ،جو ریا کاری کرتے ہیں
اور اشیائے ضرورت کو روکتے ہیں۔
اسالم معاشرتی فالح و بہبود اور رفاہ عامہ کا عالمگیر چارٹر ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
لو ،بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ لوگ اللہ پر ،یوم آخرت پر ،فرشتوں پر ،کتابوں اور
پیغمبروں پر ایمان الئیں ،اور اس کی محبت پر اپنا مال عزیزوں ،یتیموں ،مسکینوں،
1
مسافروں اور سائلوں کو دیں اور گرد نیں چھڑانے پر خرچ کریں۔
انسانی فالح و بہبود کے اس چارٹر کے مطابق اصلی نیکی اور بھالئی یہ ہے کہ انسان
ایمانیات کے نتیجے میں اپنے مال و دولت کے ساتھ محبت اور رغبت کے باوجود اسے
معاشرتی بہبود اور رفاہی کاموں پر خرچ کرے۔ اسالم کے معاشرتی بہبود اور فاہ عامہ
کے نظام اور اسالم کی روحانی اور اخالقی اقدار میں گہرا تعلق ہے۔ اسالم کی یہ اقدار
انسان کو ایثار ،قربانی اور بے لوث خدمت خلق پر آمادہ کرتی ہیں۔ نتیجتا ً وہ اپنے
ضرورت مند بھائیوں کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے پر روحانی خوشی محسوس کرتا
ہے اور اس کی واضح مثالیں عہد نبوی ،عہد خلفائے راشدین میں بکثرت موجود ہیں۔
اسالم آخری اور مکمل دین ہے۔ لئے اس نے ہر قسم کے انسانوں کی فطرت کے مطابق
ہدایات دی ہیں بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کے لئے روحانی اور اخالقی اقدار
کے ساتھ ساتھ قانونی اور انتظامی ضابطوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس ضرورت
کے پیش نظر اسالم میں اخالقی و قانونی ضابطوں کے درمیان حسین امتزاج کیا گیا
ہے۔
ين
ب َوا ْل َغ ِر ِم َ
الر َقا ِ
م َو ِفي ِ مؤ َّل َف ِة ُق ُل ُ
وب ُه ْ ين َعل َْي َها َوا ْل ُ
ين َوا ْل َق ِم ِل َ
م َت ِك ِ
ت لِ ْل ُف َق َرا ِء َوا ْل َ
الص َد َق ُ
َّ ما
﴿إِنَّ َ
يل ال َّل ِه َو ْاب ِن ال َّ
1
يل﴾س ِب ِ س ِب َِو ِفي َ
اس آیت میں ہر قسم کے بے کس ،مجبور ،محتاج ،غریب اور بے سہارا لوگوں کا ذکر کیا
گیا ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے جو اصطالح استعمال کی گئی ،وہ اپنی جامعیت میں
تاریخی عوامل کے تحت ہر زمانے میں رونما ہونے والے فقر و احتیاج اور بے کسی و
بیچارگی پر حاوی ہے۔ ان میں وہ لوگ شامل ہیں جو حاجت مند ہوں ،جو معاشی و
اقتصادی طور پر بالکل تباہ حال ہوں ،جو غالمی کی زندگی بسر کر رہے ہوں اور جو
دوران
ِ تعلیم و عالج سے محروم ہوں۔ وہ لوگ جو اپنے وسائل سفر پر قادر نہ ہوں یا
سفر اس قابل نہ رہے ہوں ،ان سب کے لئے رفاہ عامہ کے نقطہ نظر سے اسالم نے
مستقل نظام کو وضع کر دیا ہے۔ غرض فقر و مسکنت اور غربت و مسافرت جیسی
مجبوریوں اور معذوریوں کے انسداد کے لئے عہد رسالت مآب ملی ام دور خالفت راشدہ
کی سماجی خدمات بھی تاریخ میں مینارہ نور کی حیثیت رکھتی ہیں۔
موجودہ زمانے میں اسالمی تعلیمات کی روشنی میں ایسا مفید سماجی نظام تیار
کریں کہ اس کا فائدہ براہ راست انسانیت کو پہنچے اور معاشر سے بدامنی ،رشوت،
غربت جیسی مہلک بیماریوں کا خاتمہ کیا جاسکے۔ چنانچہ اس وقت ضرورت ہے کہ
ہم اسالم کے فالحی معاشرے کا ڈھانچہ انسانیت کے سامنے پیش کریں ،تاکہ ان
اصولوں سے فائدہ اٹھا کر قوم کی ترقی کے لئے کام کریں۔
باب سوم
صلہ رحمی
صلہ رحمی سے مراد ہے اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ اچھے اور بہتر تعلقات قائم
کرنا ،آپس میں اتفاق و اتحاد سے رہنا ،دکھ ،درد ،خوشی اور غمی میں ایک دوسرے کے
شانہ بشانہ چلنا ،آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ رکھنا ،ایک دوسرے کے ہاں آنا
جانا۔ الغرض اپنے رشتہ کو اچھی طرح سے نبھانا اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال
رکھنا ،ان پر احسان کرنا ،ان پر صدقہ و خیرات کرنا ،اگر مالی حوالے سے تنگدستی اور
کمزور ہیں تو ان کی مدد کرنا اور ہر لحاظ سے ان کا خیال رکھنا صلہ رحمی کہالتا
ہے۔صلہ رحمی میں اپنے والدین ،بہن بھائی ،بیوی بچے ،خالہ پھوپھی ،چچا اور ان کی
اوالدیں وغیرہ یہ سارے رشتہ دار صلہ رحمی میں آتے ہیں۔ اپنے والدین کے دوست
احباب جن کے ساتھ ان کے تعلقات ہوں ،ان سب کے ساتھ صلہ رحمی کرنی چاہیے۔
جب ان رشتہ داروں کا خیال نہیں رکھا جائے گا ،ان کے حقوق پورے نہیں کیے جائیں
گے ،ان کی مدد نہیں کی جائے گی تو یہی قطع رحمی کہالتی ہے۔ یعنی اپنے رشتہ
داروں سے ہر قسم کے تعلقات ختم کرنا۔صلہ رحمی ہر دور میں کی جا سکتی ہے۔
ضروری نہیں کہ انسان مالی مدد ہی کرے ،بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ جس چیز
کی وہ استطاعت رکھتا ہو ،اس کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔ مثال ان کے دکھ درد میں
شریک ہو کر ان کی حوصلہ افزائی کرے ،ان کے ساتھ اچھی گفتگو کرے ،ان کے گھر جا
کر حال احوال دریافت کرے۔ ان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرے ،غمی خوشی میں
شریک ہو۔ یہ ساری باتیں صلہ رحمی میں آتی ہیں۔ قطع رحمی کی سزا تو دنیا میں
بھی مل جاتی ہے ،جب بھائی مشکل وقت میں اپنے بھائی کا ساتھ نہیں دیتا۔ ایک
دوسرے کے دکھ درد کو نہ سمجھا جائے۔ جب خون سفید ہو جائے ،تعلقات ختم کریں،
جب ضرورت ہو تو اس کی ضرورت کو پورا نہ کیا جائے ،حتی کہ ایک دوسرے کے ساتھ
مرنا جینا ختم کر دیا جاتا ہے۔ یہ سزا ہی ہے۔ اور قیامت کے دن صلہ رحمی کے متعلق
پوچھا جائے گا کہ ہم نے ان رشتوں کے تقدس کا کتنا خیال رکھا ہے ،اللہ تعالی فرماتا
ہے:
ولئ
ِ الرض
﴿الذِین ینقضون عہد اللہِ ِمن بع ِد ِمیثاقِہِ ویقطعون ما مر اللہ ِبہِ ن یوصل ویفسِ دون فِی ِ
1
ہم الخاسِ رون﴾
یہ نافرمان وہ لوگ ہیں جو اللہ کے عہد کو اس سے پختہ کرنے کے بعد توڑتے ہیں ،اور
اس(تعلق)کو کاٹتے ہیں جس کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور زمین میں فساد بپا
کرتے ہیں ،یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیںo
اللہ تعالی نے اس آیت مبارکہ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات جوڑنے کا حکم دیا
ہے ،اگر اس کے خالف کریں گے تو یقینا دنیا و آخرت میں نقصان اٹھانے والے ہونگے۔
اسی طرح بے شمار آیات میں اللہ تعالی نے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے اور حضور نبی
ا کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی احادیث مبارکہ میں آپس میں صلہ رحمی کا
حکم دیا ہے۔ صلہ رحمی کی اہمیت اور فضیلت کو بیان کیا ہے اور قطع رحمی پر وعید
سنائی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہر حال میں صلہ رحمی کا خیال رکھیں ،ایسا نہ ہو کہ جو
:1البقرہ 27
رشتے دار غیرب ہوں ،غربت کی وجہ سے ان سے تعلقات ختم کر لیں ،جیسا کہ آجکل
رواج ہے کہ اگر بعض رشتہ دار غریب ہوں اور بعض امیر تو امیر لوگ ان غریب رشتہ
داروں سے ق طع تعلق کر لیتے ہیں ،اور ان کو اپنا رشتہ دار سمجھنا اور کہنا اپنی توہین
سمجھتے ہیں۔ اپنیدوست احباب کے سامنے اپنا رشتہ دار قبول کرنے سے انکار کرتے
ہیں۔ جیسے اوالد جب جوان ہوتی ہے تو اپنے والدین کو گھر سے نکال دیتی ہے ،ان کے
حقوق کا خیال نہیں رکھتی ،یہ ساری چیزیں گناہ کبیرہ ہیں اور اس کی سزا قیامت کے
دن ملے گی ،حضور نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا والدین اوالد کے لیے
جنت بھی ہیں اور جہنم بھی ،جس نے ان کی خدمت کی اس نے جنت کو پا لیا ورنہ
اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔
ترجمہ :اور رشتہ دار کو اس کا حق دو ،اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق ادا کرو ،اور
فضول خرچی نہ کرو۔
﴿:3واتقوا اللہ الذِی تسالون ِبہِ والرحام ِن اللہ ان علیم رقِیبا النسا﴾:31 :
ِین وقولوا
ِدین ِحسانا وذِی القرب والیتام والمسا ِ
﴿:4اخذنا ِمیثاق بنِی ِسرائِیل لا تعبدون ِلا ہللا و ِبالوال ِ
ِلناس حسنا وقِیموا الصلا وآتوا الزا البقر﴾ 483
ل ِ
ترجمہ :اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا کہ تم لوگ اللہ تعالی کے
عالوہ کسی کی عبادت نہ کرو گے اور والدین سے ،رشتہ داروں ،یتیموں اور مسکینوں
سے اچھا برتا کرو گے ،لوگوں سے بھلی باتیں کہو گے ،نماز کو قائم کرو گے اور زکو دیتے
رہو گے۔
ترجمہ :اور اللہ تعالی حکم فرماتے ہیں انصاف اور حسن سلوک کا اور رشتہ داروں کے
حقوق ادا کرنے کا۔
احادیث
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کے پاس آیا اور کہا":یا رسول اللہ! میں اپنے رشتہ داروں سے بنا کر رکھنا
چاہتا ہوں لیکن وہ مجھ سے قطع تعلقی کرتے ہیں ،میں انکی خیر خواہی کرتا
ہوں ،لیکن وہ مجھ سے برا سلوک کرتیہیں ،میں بردباری سے انکے ساتھ پیش
آتا ہوں لیکن وہ میرے ساتھ جاہلوں جیسا رویہ اختیار کرتے ہیں"تو آپ نے
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں
کہ آپ نے فرمایا( :صلہ رحمی وہ نہیں کرتا جو صرف صلہ رحمی کرنے والوں ہی سے
بنا کر رکھے ،صلہ رحمی تو وہ شخص کرتا ہیجب قطع رحمی کی جائے تو وہ صلہ رحمی
کرے)
] َع ْن أ ِبي ُ َ َ :3
َ َ
م َما لَ « :ت َع َّل ُموا ِم ْن أ ْن َ
سا ِب ُك ْ م َقا َ هر ْير َةَ ،ع ِن ال َّن ِبي ِ ص َّلى ال َّل ُه َعل َْيهِ َو َ َّ
سل َ َ
سأَ ٌة فِي الأ َ َث ِر[2 الَ ،م ْن َ
الم ِ ه ِلَ ،م ْث َرا ٌة فِي َالرحِ مِ َم َح َّب ٌة ِفي الأَ ْ صل ََة َّمَ ،فإِ َّن ِ
ام ُك ْ
َ
ون ِبهِ أ ْر َح َ
ص ُل ََت ِ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
ارشاد فرمایا :تم اپنے وہ انساب سیکھو جن کے سبب تم صلہ رحمی کرو گے ۔کیونکہ
صلہ رحمی گھر والوں میں محبت کا سبب ہے مال میں کثرت کا ذریعہ ہے عمر میں
زیادتی کا باعث ہے ۔
1رقم الحديث5991:
سنن الترمذي,رقم الحديث19792:
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا من حب ن یبسط
لہ فی رزقہ وینس لہ فی ثرہ فلیصل رحمہجس کو یہ بات اچھی لگے کہ اس کی روزی
کشادہ کی جائے اوراس کی عمر لمبی کی جائے تو اسے رشتہ داروں سے نیک سلوک
کرتے رہنا چاہیے
2
الج َّن َة َقاطِ ٌع[ ي ص َّلى ہللاُ َعل َْيهِ َو َ َّ َ َ
ل َ ول« :لا َ َي ْد ُخ ُ
م َي ُق ُ
سل َ س ِم َع ال َّن ِب َّ َ
]:6إ ِ َّن ُج َب ْي َر ْب َن ُم ْطعِ مٍ ،أ ْخ َب َر ُه :أ َّن ُه َ
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا :جنت میں رشتہ داری کاٹنے واال داخل نہیں ہوگا ۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ
تعالی نے ساری مخلوق کو پیدا کیا یہاں تک کہ جب پیدا کرنے سے فارغ ہوچکا تو
رشتہ داری نے عرض کیا کہ یہ اس شخص کا مقام ہے جو قطع رحم سے تیری پناہ
3البخاري,رقم الحديث4830:
مانگے ،اللہ تعالی نے فرمایا کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ میں اس سے (تعلق)جوڑوں
جو تجھ سے جوڑے اور اور اس سے قطع( تعلق )کروں جو تجھ سے قطع
کرے(توڑے) ،رشتہ داری نے عرض کیا کیوں نہیں (ایسا ہی ہونا چاہئے)! اللہ تعالی نے
فرمایا بس تجھے حاصل ہے(یعنی ایسا ہی ہوگا) ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
وتقطعو
ِ الارض
ِ فرمایا کہ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو ﴿فہل عسیتم اِن تولیتم ان تفسِ دوا فِی
ا ارحامم﴾ 47۔ محمد )22 (:ترجمہ :اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو
حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کر دو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو ()22
یتیم اس نابالغ بچے کو کہا جاتا ہے کہ جس کے سر سے اس کے باپ کا سایہ اٹھ گیا ہو
اور وہ شفقت پدری سے محروم ہو گیا ہو۔اسالم نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق
ادا کرنے اور ان کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے
ترجمہ:اور یتیموں کو ان کے مال دے دو اور اچھے مال کو خراب سے تبدیل نہ کرو ،اور
ان( یتیموں)کا مال اپنے مال کے ساتھ مالکر مت کھاو! بے شک یہ بڑا گناہ ہے۔شفقت ِ
پدری سے محروم ہو جانے والے بچوں کی حفاظت و نگہداشت اہم فرائض میں سے
ایک ہے
1سور النسا02:
یتیم اس نابالغ بچے کو کہا جاتا ہے کہ جس کے سر سے اس کے باپ کا سایہ اٹھ گیا ہو
اور وہ شفقت پدری سے محروم ہو گیا ہو۔اسالم نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق
ادا کرنے اور ان کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے۔ یتیم
آغوش محبت میں لے کر ان سے پیار کرنا ،ان کو والد کی طرف سے
ِ بچوں کو اپنی
می راث میں ملنے والے مال و اسباب کی حفاظت کرنا ،ان کی تعلیم و تربیت کی فکر
کرنا ،سن شعور کو پہنچنے کے بعد ان کے مال و اسباب کا ان کے حوالے کرنا اور انہیں
ا ِس کا مالک بنانااور بالغ ہونے کے بعد ان کی شادی بیاہ کی مناسب فکر کرکے کسی
اچھی جگہ ان کا رشتہ طے کرنا اسالم کی وہ زریں اور روشن تعلیمات ہیں جن کا اس
نے ہر ایک مسلمان شخص کو پابند بنایا ہے۔
زمانہ قبل از اسالم میں آئے دن عربوں میں باہمی قتل و قتال اور کشت و خون ریزی
داغ یتیمی ملتا اور ا ِس کے
جاری رہتی جس کے نتیجے میں بیسیوں معصوم بچوں کو ِ
بعد ان پر ظلم و ستم کا ایک نیا دور شروع ہوجاتا،خاندان کے خود کفیل لوگ ان کے
مال و اسباب پر قابض ہوجاتے،ان کی جائیدادیں ہڑپ کرجاتے ،ان کو تعلیم و تربیت
سے عاری رکھتے اور ان کا کسی مناسب جگہ رشتہ طے کرکے ان کی شادی نہ کرتے،
نتیجہ یہ نکلتا کہ یہ بچے کل جب اپنے سن شعور کو پہنچتے اور عاقل بالغ ہوجاتے تو
ا ِن کے ہاتھ میں سوائے غالمی و اسیری ،افالس و تنگ دستی اور مناسب تعلیم و
تربیت سے محرومی کے سواکچھ بھی نہ آتا ،لیکن جب اسالم نے اپنی کرنیں بکھیریں
اور وہ ا ِس دنیا میں آیا تو اس نے اپنی روشن اور مبارک تعلیمات کے ذریعے یتیم بچوں
اور بچیوں کو ان کے حقوق دلوائے ،ان کی حفاظت و نگہداشت کی اور ان کے حقیقی
مقام و مرتبہ سے تمام مسلمانوں کو روشناس کیا ،تب کہیں جاکر یتیموں پر سے ظلم
و ستم کا دور ختم ہوا اور انہوں نے سکھ کا سانس لیا ۔
چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ منورہ آجانے کے بعد اللہ تعالی نے
یتیموں کے حقوق کے متعلق چند مخصوص احکام اتارے اور یتیموں کی صحیح کفالت
نہ کرنے والوں کو حکم دیا گیا کہ ان کے مال و اسباب پر اپنے ہاتھ صاف مت کرو اور نہ
ہی اس میں خورد برد کرو کہ یہ بڑے گناہ کی بات ہے۔
اور یتیموں کو ان کے مال دے دو اور اچھے مال کو خراب سے تبدیل نہ کرو ،اور
ان(یتیموں)کا مال اپنے مال کے ساتھ مالکر مت کھاو! بے شک یہ بڑا گناہ ہے۔
یعنی یتیم بچے جن کا باپ مر گیا ہوان کے متعلق ان کے ولی اور سرپرست کو یہ حکم
ہے کہ جب وہ بالغ ہوجائیں تو ان کا مال ان کے سپرد کردے اور زمانہ تولیت میں یتیموں
کی کسی اچھی چیز کو لے کر اس کے معاوضہ میں بری اور گھٹیا چیز ان کے مال میں
شامل نہ کردے اور ان کے مال کو اپنے مال کے ساتھ مال کر نہ کھاوے ۔ مثال ولی کو
اجازت ہے کہ اپنا اور یتیم کا کھانا مشترک اور شامل رکھے ،مگر یہ ضرور ہے کہ یتیم
کا نقصان نہ ہونے پائے ،یہ نہ ہو کہ ا ِس شرکت کے بہانے سے یتیم کا مال کھا جاوے
اور اپنا نفع کرلے ،کیوں کہ یتیم کا مال کھانا سخت گناہ ہے۔
احادیث صحیحہ میں منقول ہے کہ یتیم لڑکیاں (جو اپنے ولی کی تربیت میں ہوتی
تھیں) اور وہ لڑکی اس ولی کے مال اور باغ میں بوجہ قرابت باہمی شریک ہوتی ،تو
اب دو صورتیں پیش آتیں ،کبھی تو یہ ہوتا کہ ولی کو اس کا جمال اور مال دونوں
مرغوب ہوتے تو وہ ولی اس سے تھوڑے سے مہر پر نکاح کرلیتا ،کیوں کہ دوسرا
1سور النسا02:
شخص اس لڑکی کا حق مانگنے واال تو کوئی ہے ہی نہیںاور کبھی یہ ہوتا کہ یتیم لڑکی
کی صورت تو مرغوب نہ ہوتی ،مگر دل یہ خیال کرتا کہ دوسرے سے نکاح کردوں گا
تو لڑکی کا مال میرے قبضہ سے نکل جائے گا اور میرے مال میں دوسرا شریک ہوجاوے
گا ،ا ِس مصلحت سے نکاح تو جیسے تیسے کرلیتا مگر منکوحہ سے کچھ رغبت نہ رکھتا
،اس پر یہ آیت اتری اور اولیا کو ارشاد ہواکہ اگر تم کو اس بات کا ڈر ہے کہ تم یتیم
لڑکیوں کی بابت انصاف نہ کرسکوگے اور ان کے مہر اور ان کے ساتھ حسب معاشرت
میں تم سے کوتاہی ہوگی تو تم ان سے نکاح مت کرو ،بلکہ اور عورتیں جو تم کو مرغوب
ہوں ان سے ایک چھوڑ چار تک کی تم کو اجازت ہے ۔ قاعدہ شریعت کے موافق ان سے
نکاح کرلو ،تاکہ یتیم لڑکیوں کو بھی نقصان نہ پہنچے ،کیوں کہ تم ان کے حقوق کے
حامی رہوگے اور تم بھی کسی خرابی اور گناہ میں نہ پڑو۔ یتیم لڑکیوں کے نکاح کی
تیسری صورت یہ بھی حدیث میں ہے کہ جس یتیم لڑکی کی طرف صورت اور مال
1
دونوں وجہ سے بے رغبتی ہوتی تھی اس کا نکاح ولی دوسری جگہ کرادیتا تھا۔
اور اگر تم یتیم لڑکیوں سے بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تمہیں پسند
آئیں ان میں سے دو دو تین تین چار چار سے نکاح کر لو ،اگر تمہیں خطرہ ہو کہ انصاف
نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی سے نکاح کرو یا جو لونڈی تمہارے مل ِک میں ہو وہی
سہی ،یہ طریقہ بے انصافی سے بچنے کے لیے زیادہ قریب ہے۔
اسی طرح یہ بھی زمانہ جاہلیت کا ایک دستور تھا کہ یتیم بچے بچی کے عاقل بالغ
ہونے سے پہلے پہلے ہی محض ا ِس غرض اور نیت سے ان کے مال کو جلدی جلدی
ہڑپ کرلیا جاتا کہ کہیں سن شعور کو پہنچنے کے بعد ان کو یہ مال واپس نہ کرنا
پڑجائے ا ِس لئے اللہ تعالی نے ایسا کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے:اور
یہ مال فضول خرچی کرکے اور یہ سوچ کر جلدی جلدی نہ کھا بیٹھو کہ وہ کہیں بڑے
نہ ہوجائیں۔
اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں ،پھر اگر
ان میں ہوشیاری دیکھو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو ،اور ان کا مال نہ کھاؤ فضول
خرچی میں یا جلدی میں کہ وہ بڑے ہو جائیں گے (اور اپنا مال لے لیں گے) ،اور جسے
ضرورت نہ ہو تو وہ یتیم کے مال سے بچے ،اور جو حاجت مند ہو تو مناسب مقدار کھا
لے ،پھر جب ان کے مال ان کے حوالے کرو تو اس پر گواہ بنا لو ،اور حساب لینے کے لیے
اللہ کافی ہے۔
1سور النسا06:
جب کسی بچے کا باپ مر جائے تو چاہیے کہ چند مسلمانوں کے رو بر و یتیم کا مال
لکھ کر امانت دار کو سونپ دیں ،جب یتیم بالغ ہوشیار ہوجائے تو ا ِس تحریر کے موافق
اس کا مال اس کے حوالہ کردیںاور جو کچھ خرچ ہوا ہو وہ اس کو سمجھا دیں۔ اور جو
کچھ یتیم کے حوالہ کیا جائے شاہدوں کو دکھال کر حوالہ کریں ،شاید کسی وقت اختالف
1
ہو تو بہ سہولت طے ہوسکے ۔
اسی طرح احادیث مبارکہ میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم
نے بھی یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور ان کے ساتھ صلہ رحمی اور شفقت و پیار
کرنے کی بڑی تاکید اور ترغیب ذکر فرمائی گئی ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے دل کی
سختی کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا کہ :یتیم کے سرپر ہاتھ پھیرا کرواور مسکین
2
کو کھانا کھالیا کرو
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کی طرف لکھا کہ ایک
آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے دل کی سختی کی شکایت کی تو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا دل نرم ہوجائے تو
3
تم یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کرواوراسے کھالیا کرو!
حضرت بشیر بن عقربہ جہنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنگ احد کے دن میری
حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مالقات ہوئی ،میں نے پوچھا میرے والد کا کیا
ہوا؟حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :وہ تو شہید ہوگئے ،اللہ تعالی ان پر رحم
حضرت ام سعید بنت مرہ الفہری رضی اللہ عنہا اپنے والد سے روایت کرتی ہیں کہ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ :میں اور یتیم کی کفالت کرنے واال
شخص جنت میں ا ِس طرح ہوں گے ،اس کے بعد آپ نے درمیان والی انگلی اور شہادت
2
والی انگلی سے اشارہ فرمایا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے ارشاد فرمایا :مسلمانوں کا سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہواور اس
کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہواور سب سے برا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور
اس کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو۔ میں اور یتیم کی کفالت کرنے واال جنت میں ا ِس
3
طرح ہوں گے اور آپ نے اپنی دو انگلیوں سے اشارہ فرمایا
قارئین کرام !آج دنیا کے چپے چپے پر یتیم خانے قائم ہیں۔ سکول قائم ہیں۔ ہسپتال قائم
ہیں لیکن اگر تاریخ عالم کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺکی آمد
سے پہلے یتیموں کا یہ بدقسمت گروہ ا ِس نعمت عظمی سے یکسر محروم تھا۔ بال
شبہ اسالم ہی وہ پہال اور آخری مذہب ہے جس نے ا ِس مظلوم گروہ کی داد رسی کی،
2مسند الحمیدی861:
تقسیم میراث
جیسا کہ یہ بات محتاج بیان نہیں ہے کہ میراث کا علم اللہ کے نزدیک بہت زیادہ اہمیت
رکھنے واال علم ہے ،نبی کریم ﷺنے فرمایا تعلموالفرائض وعلموفانہ نصف العلم 1علم
میراث سیکھو اور اسے لوگوں کو سکھائو ،اس لئے کہ یہ آدھا علم ہے ،،اس علم کوعلم
الفرائض کانام بھی اسی وجہ سے دیاگیا ہے کہ اسے اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر فرض
کیا ہے ،یا اس وجہ سے کہ اس میں ورثاء کے حصے میں اللہ تعالی نے خود مقرر فرمادیے
ہیں
علم میراث کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ باقی تمام عبادات کو
اللہ تعالی نے اجماال ً بیان فرمایا ہے اور اس کی تفصیالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے احادیث مبارکہ کے ذریعے بیان فرمائی ہیں۔جیسا کہ نماز کی فرضیت کا حکم
القروینی ،ابو عبداللہ ،محمد بن یزید ،ابن ماجہ ٧٢٣،ھ،سنن ابن ماجہ ،ج،٤ص ٢٣ 1
تو اللہ نے دیا ہے ،لیکن اس کی باقی تفصیالت احادیث میں بیان ہوئی ہیں کہ اس کے
اوقات کیا ہیں ،فرض رکعات کتنی ہیں ،سنتیں کتنی ہیں،واجبات کتنی ہیں،نوافل کتنے
ہیں،وغیرہ وغیرہ ۔یہ تفصیلی وضاحت بھی احادیث ہی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم نے بیان فرمایء ہے کہ'' لفظ صالة''سے اللہ تعالی کی مراد یہ پانچ نمازیں ہیں
،اسی طرح زکوة کے بارے میں بھی فرضیت کا حکم تو قرآن نے دیا ہے ،لیکن اس کا
نصاب ،اور مقدار زکوة کی تفصیالت رسول اللہ ؓنے بتائی ہیں ۔رمضان کے مہینے
میںروزوں کا قرآن نے صرف یہ حکم دیا کہ
م َت َّت ُق ْو َن﴾َ1 َّ َّ ﴿یا َ ُّی َها ا َّلذ ِْی َن اٰ َم ُن ْوا ُكت َ
م ل ََعل ُك ْ
ِب َعلَى الذ ِْی َن ِم ْن َق ْب ِل ُك ْ
ما ُكت َ
ام َك َ
الص َی ُ
ِب َعل َْی ُك ُم ِ
'' اے مو منو:تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض
کئے گئے تھے ،تاکہ تم تقوی دار بنو''
لیکن روزے کی باقی ساری تفصیالت احادیث میں مذکور ہیں۔حج کے بار ے میں اسی
لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر فرمایا:
] عن جابر یقول رایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یرمی علی راحلتہ یوم النحر ویقول
لتاخذو مناسککم فانی لا ادری لعلی لا احج بعد حجی ھذہ[2
''حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبیؓ کو یوم النحر میں اپنی
سواری پر جمرہ عقبہ کو کنکر مارتے ہوئے دیکھا کہ آپ ؓ فرما رہے تھے مجھ سے حج
کے احکام سیکھو ،کیونکہ میں نہیں جانتا کہ میں اپنے اس حج کے بعد حج کر سکوں
گا''
1سورۃالبقرہ()183
2امام مسلم ،ابو الحسن ،مسلم بن حجاج بن مسلم ،القشیری ،النسابوری ،الجامع الصحیح مسلم ،داراحیاء
الثرث العربی ،بیروت ،تحقیق محمد فئواد عبدالباقی ،ج٢ص٤٩٣۔
لیکن اس کے برعکس میراث کے قانون کی پوری تفصیالت قرآن کریم نے خود بتائی
ہیں،اور ذوی الفروض اور عصبات کے تمام حصوں کا تعین خود قرآن کریم نے کر دیا ہے
،اور ان میں سے ہر ایک حصہ الگ الگ کر کے دیا ہے ۔اور قانون میراث کے ساری
تفصیالت کو ان تین آیتوں میں بیان فرمایاگیا ہے
ك-
ق ا ْث َن َت ْی ِن َفل َُه َّن ُث ُل َثا َما َت َر َۚ آء َف ْو َ
ِس ً
ن َ ظ الْ ُا ْن َث َی ْی ِۚنَ -فا ِْن ُك َّن ل َح ِ م-لِل َّذ َك ِر ِم ْث ُ ِی ا َْولَا ِد ُك ْم ال ّٰل ُه ف ْٰۤ ص ْی ُك ُ
﴿ ُی ْو ِ
ان لَه َول ٌ َۚد-ك ا ِْن كَ َ ما َت َر َ س ِم َّ الس ُد ُ
ُّ ما
فَ -و لِاَ َب َو ْیهِ ِل ُك ِل َواحِ ٍد ِم ْن ُه َ ِص ُ ت َواحِ َد ًة َفل ََها الن ْ َو ا ِْن كَ َان ْ
ُث- م َی ُك ْن َّله َول ٌَد َّو َو ِر َث ٰۤه ا ََب ٰو ُه َفلِ ُا ِمهِ ال ُّثل ُۚ َّ
َفا ِْن ل ْ
ی ِب َهاٰۤ اَ ْو َد ْی ٍن- ص ْ صیَّةٍ یُّ ْو ِ س ِم ْن َب ْع ِد َو ِ س ُد ُ ان ل َٰۤه ا ِْخ َو ٌة َفلِاُ ِمهِ ال ُّ َفا ِْن كَ َ
ض ًة ِم َن ال ّٰله- م َن ْف ًعاَ -ف ِر ْی َ ب َل ُك ْ م ا َْق َر ُ م لَا َت ْد ُر ْو َن اَیُّ ُه ْ م َو ا َْب َنآ ُؤ ُك ْ ا ٰ َبآ ُؤ ُك ْ
م َی ُك ْن َّل ُه َّن َو َل ٌ ۚد- َّ
م ا ِْن ل ْ اج ُك ْ ك ا َْز َو ُ ف َما َت َر َ ِص ُ م ن ْ ما(َ ﴾۱۱و َل ُك ْ ما َحك ِْی ً ان َعل ِْی ً ا َِّن ال ّٰل َه كَ َ
ص ْی َن ِب َهاٰۤ ا َْو َد ْی ٍن- ص َّیةٍ یُّ ْو ِ ما َت َركْ َن ِم ْن َب ْع ِد َو ِ الر ُب ُع ِم َّ م ُّ ان ل َُه َّن َول ٌَد َف َل ُك ُ َفا ِْن كَ َ
م َول ٌ َۚد- َّ َّ
م َی ُك ْن ل ُك ْ م ا ِْن ل ْ ما َت َر ْك ُت ْ الر ُب ُع ِم َّ
َو ل َُه َّن ُّ
ص ْو َن ِب َهاٰۤ ا َْو َد ْی ٍن- صیَّةٍ ُت ْو ُ م ِم ْن َب ْع ِد َو ِ ما َت َركْ ُت ْ ُّم ُن ِم َّ م َول ٌَد َفل َُه َّن الث ُ ان َل ُك ْ َفا ِْن كَ َ
س-
الس ُد ُُّۚ ما
ت َف ِل ُك ِل َواحِ ٍد ِم ْن ُه َ ام َرا ٌَة َّو ل َٰۤه ا ٌَخ ا َْو ا ُْخ ٌ
ث كَ ٰلل ًَة اَ ِو ْ ان َر ُج ٌل یُّ ْو َر ُ
َو ا ِْن كَ َ
آر-
ض ٍۚ
صى ِب َهاٰۤ ا َْو َد ْی ٍنَ -غ ْی َر ُم َص َّیةٍ ُّی ْو ٰ ث ِم ْن َب ْع ِد َو ِ آء فِی ال ُّث ُل ِ ش َركَ ُ
م ُ ِك َف ُه ْ َفا ِْن كَ ُان ْٰۤوا اَكْ َث َر ِم ْن ٰذل َ
1
م﴾ ّٰ ّٰ
صیَّ ًة ِم َن اللهِ َ -و الل ُه َعل ِْی ٌم َحل ِْی ٌ َو ِ
اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اوالد کے بارے میں بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں برابر پھر
اگر نری لڑکیاں ہوں اگرچہ دو سے اوپر تو ان کو ترکہ کی دو تہائی اور اگر ایک لڑکی تو
اس کا آدھا اور میت کے ماں باپ کو ہر ایک کو اس کے ترکہ سے چھٹا اگر میت کے اوالد
ہو -پھر اگر اس کی اوالد نہ ہو اور ماں باپ چھوڑے تو ماں کا تہائی پھر اگر اس کے
کئی بہن بھائی توماں کا چھٹا بعد اس وصیت کے جو کر گیا اور دَین کے تمہارے باپ
اور تمہارے بیٹے تم کیا جانو کہ ان میں کون تمہارے زیادہ کام آئے گا یہ حصہ باندھا
ہوا ہے اللہ کی طرف سے بے شک اللہ علم واال حکمت واال ہےاور تمہاری بیبیاں جو
چھوڑ جائیں اس میں سے تمہیں آدھا ہے اگر ان کی اوالد نہ ہو پھر اگر ان کی اوالد ہو
تو اُن کے ترکہ میں سے تمہیں چوتھائی ہے جو وصیت وہ کر گئیں اور دَین نکال کر اور
تمہارے ترکہ میں عورتوں کا چوتھائی ہے اگر تمہارے اوالد نہ ہو پھر اگر تمہارے اوالد
ہو تو ان کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں جو وصیت تم کر جاؤ اور دین نکال کر اور اگر
1سورۃالنسا(10۔)11
کسی ایسے مرد یا عورت کا ترکہ بٹتا ہو جس نے ماں باپ اوالد کچھ نہ چھوڑے اور ماں
کی طرف سے اس کا بھائی یا بہن ہے تو ان میں سے ہر ایک کو چھٹا پھر اگر وہ بہن
بھائی ایک سے زیادہ ہوں تو سب تہائی میں شریک ہیں میت کی وصیت اور دین نکال
کر جس میں اس نے نقصان نہ پہنچایا ہو یہ اللہ کا ارشاد ہے اور اللہ علم واال حلم واال
ہے
كَ -و
ف َما َت َر َِۚص ُ ّٰ
ت َفل ََها ن ْ س لَه َول ٌَد َّو ل َٰۤه اُ ْخ ٌ َك ل َْی َ هل َ ام ُر ٌؤا َم فِی ا ْلكَ ٰللَةِ -ا ِِن ْ كُ -ق ِل الل ُه ُی ْفت ِْی ُك ْ س َت ْف ُت ْو َن َ ﴿ َی ْ
آء
ِس ًكَ -و ا ِْن كَ ُان ْٰۤوا ا ِْخ َو ًة ِر َجا ًلا َّو ن َ ما َت َر َ م َی ُك ْن َّل َها َول ٌَدَ -فا ِْن َك َان َتا ْاث َن َت ْی ِن َفل َُه َ
ما ال ُّث ُل ٰث ِن ِم َّ َّ
ه َو َی ِر ُث َها ٰۤ ا ِْن ل ُْ
1
م﴾ ّٰ ُّ ّٰ َفلِل َّذكَ ِر ِم ْث ُ
ی ٍء َعل ِْی ٌش ْضل ْواَ -و الل ُه ِب ُك ِل َ م ا َْن َت ِ ظ الْاُ ْن َث َی ْی ِنُ -ی َب ِی ُن الل ُه َل ُك ْ
ل َح ِ
زمانہ جاہلیت میں وراثت صرف طاقتور مردوں کا حق ہوتا تھا یعنی عورتوں اور بچوں
کا میراث میںکوئی حصہ نہیںہوتا تھا ،اس قانون کی بنیاد یہ تھی کہ جوجنگ نہیں
لڑ سکتا وہ میراث میں حصہ نہیں لے سکتا ،جیسا کہ اما م قرطبی رحمہ اللہ نے اپنی
تفسیر احکام القرآن میں لکھا ہے و ہ فرماتے ہیں
]وکانت الوراثة فی الجا ھلےة بالر جولےة والقو ة ،وکانو ا یورثو ن الرجال دون النساء ،فا
2
بطل اللہ عزوجل ذلک بقولہ [﴿للرجال نصیب مما اکتسبو وللنساء نصیب﴾
1سورۃانسا()176
2القرطبی،او عبد اللہ ،محمد بن احمد ،االنصاری ٦٨١،ھ،الجامع االحکام القرآن تفسیر القرطبی ،دارالکتاب
العربی ،بیروت٢٠٠٨،م١٤٢٩،ھ،ج ہ،ص ٨٨
ترجمہ'' وراثت جاہلیت کے زمانہ میں صرف طاقتور مردوں کو مال کرتا تھا ،اور عورتوں
کو اس میں سے کوئی حصہ نہیں دیا جاتا تھا ،تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کرکے اس
ظلم پر مبنی قانون کو باطل کر دیا''
مردوں کا حصہ ہے اپنی کمائی میں سے ،اور عورتوں کا حصہ ہے اپنی کمائی میں
الکبری میں حضر ت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت
ٰ سے،سنن النسائی
سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے ،اس حدیث کو الفاظ کے تھوڑے سے اختالف کے ساتھ
امام بیہقی رحمہ اللہ نے شعیب ایمان میں،اما م ابو عبد اللہ الحاکم نے المستدرک
علی الصحیحین،ابو الحسن علی بن عمر الدار قطنی نے سنن الدار قطنی میں اور امام
الکبری میں بھی نقل کیا ہے
ٰ نسائی نے السنن
میراث کے علم سے بے خبری اور حد درجہ غفلت کا زیادہ برا اثر خواتین پر ہوا ہے جس
کے نتیجے میں بہنوں کو لوگوں نے میراث کاحصہ دینا ہی بند کردیا ،اور بڑے اطمینان
اور خوشی کے ساتھ بیٹھ کر باپ کا ترکہ آپس میں تقسیم کرتے ہیں ،اور بہنیں
موجودہوتی ہیں،لیکن ان کے دیکھتے دیکھتے ،یعنی ان کے سامنے ان کا حصہ خود
تقسیم کرتے ہیں ،اور بہنیں اپنے باپ کی میراث سے عمر بھر کے لئے محروم ہو جاتی
ہیں ،اور ظاہر ہے اس ظلم کے نتیجے میں ان بہنوں کے بچے بچیاں بھی محروم ہی ہو
جاتی ہیں ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ صرف بہنیں اس ظلم کا شکار نہیں بلکہ بہت ساری
بیوائیں اور یتیم بچیاں اور بچے بھی اس ظلم کاشکار ہیں کہ ان کا حصہ طاقتور برد
وثاء ہڑپ کر جاتے ہیں یہ با لکل جاہلیت کے زمانے کی وہ شکل ہے ،جیسے اس وقت
مرد اور پھر طاقتور مرد کو میراث کا حق پہنچتا تھا،جبکہ عورتو اور بچوں کو کوئی حصہ
نہیں ملتا تھا،بالکل اس طر ح آج ہمارے معاشرے میں بھی عورتیں تو مکمل طور پر
محروم ہو گئیں ہیں،لیکن ساتھ کمزور مرد یعنی بچپن میںیتیم ہونے والے بچے بھی ان
کے میراث کے حق سے محروم کردیے جاتے ہیں،اوروہ تمام اموال منقولہ اور غیر منقولہ
جو ان بچوں کے حصے میں آتے تھے وہ سب یا تو آپس میں تقسیم کر کے باکل کالعدم
کر دیتے ہیں ،گویا وہ بچہ ان کے خاندان کا ہے ہی نہیں،اور نہ کبھی تھایاور یایتیم کا مال
پچپن ہی میں اس پر خرچ کے نام سے خود ہڑپ کر جاتے ہیں،اور بڑا ہو کر اس بے چارے
کو یہ معلوم بھی نہیں ہوتا کہ میر ا بھی کوئی مال تھا۔
پوتے کی وراثت کے مسئلے پر چونکہ اسالم کے خالف ان دشمنان اسالم کو ایک بے
بنیاد اور قرضی شوشہ ہاتھ آگیا ،تو اس پر انہوں نے بڑا شور مچایا ،لیکن مسئلہ تو
صرف یتیم پوتے کا نہیں،پوتیوں کا بھی ہے ،اور ان یتیم بچوں اور بچیوں کا بھی ہے ،اور
ان بچوں اور بچیوں کی بیوہ ماں کا بھی ہے ،جسے کچھ بھی نہیں ملتا ،بلکہ ستم پر
ستم یہ کہ اس بیوہ کو تو یہ لوگ عدت گزرنے کے بعد بھی ایسا رکھتے ہیں ،جیسے یہ
ان کے بھائی کے نکاح سے نکل کر خود بخود ان کے نکاح میں آگئی ہے ۔اس کو دوسرے
نکا ح کا بھی حق نہیں دیتے اور اسے اپنی ناک کا مسئلہ سمجھتے ہیں ،اور اس بیوہ
کے یتیم بچوں ،بچیوں کو اپنی میراث سمجھ کر آپس میں ریو ڑیوں کی طرح تقسیم
کر دیتے ہیں،اور بعض دفعہ تو ایسے دردناک واقعات ہوئے ہیں ،جن میںسے ایک آدھ
واقعے کا میں خود بھی گواہ ہوں کہ شوہر کی وفات کے چند بعد کسی بہانے یا ضرورت
کیلئے اس بیوہ خاتون کو اپنے بچوں سمیت اپنے والدین کے گھر بھیج دیا ،اور واپسی
پر اس کیلئے اس گھر کے دروازے بند کر دیے،کہ دوبارہ اب وہ اس گھر میں قدم ہی
نہیں رکھ سکتی ۔
1سورت النسا7،
اس ایت کریمہ میں پانچ بنیادی مسائل کا یبان ہے
٢۔میراث میں صرف مردوں کا حصہ نہیں بلکہ عورتوں کا بھی حصہ ہے
٣۔وارثت کا قانون ہر قسم کے اموال پر الگو ہوگا خواہ اموال منقولہ ہو یا غیر منقولہ۔
٥۔قریب ترین رشتہ دارکی موجودگی میں بعیدتر محروم ہوگا ،علم میراث کے قانون کے
اس شق سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو گئی کہ میراث کے قانون میں مقامی قاری
کی کوئی حیثیت نہیں ہے،اس کا فلسفہ یہ ہے کہ اگر قائمقامی کا سلسلہ شروع
ہوجائے تو پھر ہر میت کے قائمقام تقسیم میراث کے وقت حاضر ہوجائیں گے اور اپنے
اپنے رشتہ دار کے قائم مقام بن جائیںگے،مثال ًبردار نسبتی آئیں گے اور اپنی متوفی
بہن کے قائمقام بن کر اس کاحصہ وصول کرنے کا مطالبہ کریںگے۔چھوٹے بچوں کی
ماں ان کا حق مانگتا شروع کردیں گی،اور میراث میں زندہ وورثاء کو کچھ بھی نہیں
ملے گا ،بلکہ قائمقام سارا ترکہ لے جائیں گے ،جس سے میراث کا قانون ایک پراگندہ
اور غیر معقول قانون بن جائے گا۔
١۔قرابت یعنی رشتہ داری:پہال حق قریبی رشتہ داروں کا ہے،تو میت کے قریبی رشتہ
داروں کی موجودگی میں دور کے رشتہ دار محروم ہونگے۔یعنی میت کے وہ رشتہ دار
سب سے پہلے حقدار ہوںگے جن کے اور میت کے درمیان کوئی اوررشتہ دار حاجب
(حائل)نہ ہو۔
٢۔ضرورت:یعنی اللہ نے میراث کے حصے حسب ضرورت مقرر کئے ہیں تو لڑکوں کی
ضرورت زیاد ہ ہے ،اس لئے کہ لڑکیوں کا خرچہ والدین کی ذمہ داری ہے اور ان پر کمانا
الزم نہیں ہے اور شادی کے بعدشوہر پر نفقہ الزم ہے ،اسی طرح عورت والد اور شوہر
دونوں سے حصہ لیتی ہے اور نان نفقہ کی ذمہ داری اس پرکچھ بھی نہیں ہے ۔
اسی طرح میت کی اوالد کی ضرورتیں اس کے والدین سے زیادہ ہوتی ہیں اس لئے
میراث میں ان کا حصہ زیادہ مقرر ہوا۔
فصل دوم
اور وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے
جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ،اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس
کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے
اس آیت کی تفہیم سے قبل ایک مقدمہ کا سمجھنا ضروری ہے کہ :النسا آیت میں ،
مومن کو خطا سے قتل کرنے کا ذکر ہے ،البقرہ آیت کے آغاز میں ﴿یا یہا الذِین آمنوا کتِب
علیکم القِصاص فِی القتلی﴾ کے الفاظ سے مومنین کو مخاطب کرتے ہوئے قصاص کا حکم
دے دیا گیا ہے ،اس سے بھی بڑھ کر (الحر ِبالح ِر والعبد ِبالعب ِد والنثی ِبالنثی﴾کے الفاظ سے
مزید وضاحت کر دی گئی ہے ،اسی طرح المائد آیت کے آغاز میں ہی﴿ النفس بالنفس﴾کا
قتل خطا کی
ِ عمومی بیان ،مومن کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ۔النسا آیت میں
ممنا ِلا خطئا﴾سے یہ تو خودبخود ظاہر ہو جاتا ہے کہ دیگر
تصریح ﴿وما کان لِمو ِمن من یقتل ِ
1سورت النسا93،
سے مومن کے قتل کا تذکرہ کیوں کیا جا رہا ہے؟ کیا اس آیت کے بغیر شارع کی منشا
پوری نہیں ہو رہی؟
معلوم ہوتا ہے کہ شارع نے قتل خطا کے مقابل قتل کی نوع کی درجہ بندی کی ہے ۔
البقر آیت اور ا لمائد آیت میں اگر مقتول کو مومن تصور کر لیا جائے تو قرینہ بتاتا ہے
کہ قتل بشری کم زوری کی وجہ سے ہوا ہے یا کسی نہ کسی حوالے سے مقتول خود
بھی قتل کی وجہ بنا ہے ،اسی لیے وہاں مقتول کے مومن ہوتے ہوئے بھی قاتل کے لیے
قدرے نرمی دکھائی گئی ہے اور مقتول کے ورثا کو قصاص لینے کے بجائے خون بہا
لینے(البقر)یا مکمل معاف کرنے(المائد)کی ترغیب دی گئی ہے۔ بنی اسرائیل آیت میں
مقتول کو مومن یا غیر مومن نہیں کہا گیا ،البتہ مظلوم ضرور کہا گیا ہے اور ورثا کو
خون بہا لینے یا معاف کرنے کی کوئی ترغیب دینے کے بجائے اسراف فی القتل سے
قتل خطا کے مقابل ،قتل کی ان انواع کو جانچا جائے تو کہا جا
ِ منع کیا گیا ہے۔ اگر
سکتا ہے کہ البقر اور المائد میں بیان کیا گیا قتل جواز کے تحت قتل کے زمرے میں آتا
ہے اور بنی اسرائیل میں بیان کیا گیا قتل ،بدیہی طور پر مظلومانہ قتل یا ظالمانہ قتل
کا نام پا سکتا ہے ۔ ان تینوں مقامات پر خطا یا عمد کا ذکر نہیں کیا گیا ۔ بنی اسرائیل
قتل عمد میں آسانی سے شامل
ِ آیت میں مقتول کے مظلوم ہونے کی وجہ سے ،اسے
کیا جا سکتا ہے۔ لیکن البقر آیت اور المائد میں ایسی تخصیص کافی مشکل ہے کہ
قتل کی نوعیت کے حوالے سے وہاں کوئی لفظ نہیں ملتا ۔ البتہ سزاں کو م ِد نظر رکھ
کر یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ البقر میں بیان کیے گئے قتل میں ،عمد کا شائبہ موجود
ہے ،جبکہ المائد میں خطا کا احتما ل پایا جاتا ہے ۔ اس لیے ہر دو مقامات پر اصول کی
سطح پر قصاص کو قائم رکھتے ہوئے ،بالترتیب ،معافی کی کچھ گنجایش نکالی گئی
ہے ،اور مکمل معاف کیا گیا ہے ۔
بنی اسرائیل آیت میں قاتل کو سزا دینے کے لیے مقتول کے ولی کی (ایک لحاظ سے
قانونی پوزیشن ﴿ جعلنا لِو ِل ِیہِ سلطانا﴾کے الفاظ میں واضح کی گئی ہے ،لیکن النسا آیت
میں مقتول مومن کے ولی کی قانونی پوزیشن کی تصریح کی ضرورت محسوس نہیں
کی گئی ،بلکہ مزید غور سے دیکھا جائے تو ولی ہی کا بیان موجود نہیں ،قانونی
پوزیشن کی صراحت تو خیر اگلی بات تھی ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے انداز ِ بیان سے
شارع کی منشا کیا ہے؟ ( خیال رہے کہ البقر آیت میں ﴿فمن عفِی لہ ِمن خِ یہِ شی ﴾کے
الفاظ اور المائد آیت میں ﴿فمن تصدق ِبہِ فہو کفار لہ﴾ کے الفاظ کسی فریق ثانی یا ولی
کی موجودگی پر داللت کر رہے ہیں ) جبکہ النسا آیت میں فریق ثانی وہ مومن ہے جس
کو عمدا قتل کیا جا چکا ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مقتول مومن کا قائم مقام آخر کون
ہو گا؟ ہم سمجھتے ہیں کہ مقتول مومن کے قائم مقام کو تالش کرنے سے ہی ،اس
آیت میں کسی فریق ثانی یا ولی کی عدم موجودگی کے پیچھے پوشیدہ شارع کی منشا
و حکمت سامنے آ سکتی ہے ۔
مقتول مومن کے قائم مقام کی تالش میں بنی اسرائیل آیت اور النسا آیت کا تقابلی
مطالعہ کافی معاونت کر سکتا ہے ۔ سور بنی اسرائیل آیت میں ﴿ومن قتِل مظلوما﴾ کے
متعمدا﴾ کے ذکر کی بظاہر کوئی گنجایش
ِ بیان سے ،سور النسا آیت میں ﴿ومن یقتل ِ
ممنا
باقی نہیں رہتی ،کہ مقتول مظلوم ،مومن بھی ہو سکتا ہے ۔ لیکن غور کیا جائے تو
واضح ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل آیت میں مقتول کی مظلومیت کی نوعیت بیان نہیں
کی گئی ۔ چونکہ مقتول مظلوم ،غیر مومن بھی ہو سکتا ہے ،اس لیے قرینہ بتاتا ہے
کہ مظلومیت ،نوعیت کے اعتبار سے دنیاوی پہلو کی حامل ہے ،مثال سماج میں
طبقاتی کھینچا تانی کے عمل میں کوئی شخص مظلومانہ قتل ہو سکتا ہے یا کارا کاری
جیسی کسی قبیح رسم کی بھینٹ چڑھ سکتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔اسی لیے شارع نے ایک
طرف (بنی اسرائیل آیت کے تناظر میں ) النسا آیت میں مومن پر فوکس کیا ہے
اوردوسری طرف (البقر آیت کے تناظر میں ) عمد پر توجہ مرکوز رکھی ہے کہ کسی
بھی قسم کے جواز کے بغیر ،جانتے بوجھتے مومن کو عمدا قتل کرنا ،اللہ کے غضب
عذاب عظیم کو دعوت دینے والی بات ہے
ِ اللہ کی لعنت اور جہنم میں ہمیشہ رہنے کے
۔ اس تقابلی مطالعہ سے یہ نکتہ بھی سامنے آتا ہے کہ اگر کسی شخص کا طبقاتی
کھینچا تانی وغیرہ کے عمل میں ،مظلومانہ قتل ہو جائے اور وہ شخص مومن بھی ہو
تو ،اس کے قاتل کے جرم کی سنگینی بہت بڑھ جاتی ہے ،غالبا اسی سنگینی کو
باقاعدہ ظاہر کرنے کے لیے ہی ،بنی اسرائیل آیت کے برعکس مقتول (اور اس کے ولی
وغضب
ِ )کے بجائے زیر ِ نظر آیت میں قاتل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ﴿فجزآہ جہنم خالِدا فِیہا
ہللا علیہِ ولعنہ وعد لہ عذابا عظِ یما﴾ جیسی سخت وعید بیان کی گئی ہے ۔اس وعید میں
یہ معنویت بھی مستور ہے کہ چونکہ مومن قرآن کے نظامِ اقدار کا متشکل روپ یا
تجسیم ہے ،اس لیے اسے عمدا قتل کرنا ایسے ہی ہے جیسے قرآن کو حق جانتے ہوئے
نہ صرف جھٹال یا جائے بلکہ اس کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی مذموم کوشش بھی
کی جائے ۔لہذا ،اس آیت سے یہ معانی اخذ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ مومن
ہیت اجتماعی کو چیلنج کرنے
کو بال جوازعمدا قتل کرنا درحقیقت قرآنی اقدار پر مبنی ِ
ہیت
کے مترادف ہے اس لیے ایسے مقتول مومن کا قائم مقام یا ولی صرف اور صرف ِ
اجتماعی یا حاکم ہی ہو سکتا ہے ،کوئی دوسرا نہیں ۔
عظِ یما﴾ میں سے ﴿فجزآہ﴾ پر غور کیجیے اور دیگر قرآنی مقامات سے اس کا موازنہ
کیجیے ،مثال البقر آیت کے اس حصے(فمن عفِی لہ ِمن خِ یہِ شی فاتِباع ِبالمعروفِ ودا ِلیہِ
عفِی﴾ پرتدبر کیجیے ،اور المائد آیت کے اس حصے ﴿فمن تصدق ِبہِ فہو کفار لہ ومن لم یحکم
ِبما نزل ہللا فولئِک ہم الظالِمون) میں سے (فمن تصدق﴾ پرغور و فکر کیجیے ،اور بنی
القتل ِنہ
ِ اسرائیل آیت کے اس حصے (ومن قتِل مظلوما فقد جعلنا لِو ِل ِیہِ سلطانا فلا یس ِرف فِی
تصدق﴾ ،اور ﴿فقد جعلنا لِو ِل ِیہِ سلطانا﴾جیسے الفاظ موجود ہیں ،ان کا تنقیدی تقابلی
مطالعہ نہایت صراحت سے بیان کر رہا ہے کہ ﴿فجزآہ﴾ میں یک طرفہ کاروائی ہے ،نہ تو
قاتل کے لیے کوئی گنجایش (قانونی ،اخالقی ،سماجی وغیرہ ) ہے اور نہ ہی کسی
بھی درجے میں مقتول مومن کے ورثا کی رائے یا جذبات کا احترام ملحوظ ہے ،بلکہ ایک
لحاظ سے یہ طے کر دیا گیا ہے کہ مومن کو عمدا قتل کرنے والے قاتل کے لیے ایک ہی
وغضب اللہ علیہِ ولعنہ وعد لہ عذابا عظِ یما۔
ِ فیصلہ ہے اور وہ یہ ہے :جہنم خالِدا فِیہا
اس مقام پر مناسب ہو گا کہ دیگر قرآنی مقامات کی مدد سے ،جہاں جہنم کو جزا کی
حیثیت دی گئی ہیجزا کے مفہوم کے تعین کی کوشش کی جائے:
هلل لکم ِذا انقلبتم ِلی ِہم لِتع ِرضوا عنہم فع ِرضوا عنہم ِنہم ِرجس ومواہم جہنم جزا ِبما
﴿سیحلِفون ِبا ِ
کانوا یکسِ بون﴾
﴿قال اذہب فمن ت ِبعک ِمنہم فِن جہنم جزآکم جزا موفورا ﴾ (االسرا(
ی َو َك ُان ْوا لَا ِی غِ َطآ ٍء َع ْن ِذ ْك ِر ْ مف ْ ت ا َْع ُی ُن ُه ْضاﰳَا َّلذ ِْی َن َك َان ْ م َی ْو َم ٕى ٍذ ِل ْل ٰك ِف ِر ْی َن َع ْر َ ض َنا َج َه َّن َ
﴿ َّو َع َر ْ
م ِل ْل ٰك ِف ِر ْی َن آء-ا ِ َّنا ٰۤ ا َْع َت ْد َنا َج َه َّن َ
ِی ا َْول َِی َ
ِی ِم ْن ُد ْون ْٰۤ ب ا َّلذ ِْی َن كَ َف ُر ْٰۤوا ا َْن َّی َّتخِ ُذ ْوا عِ َباد ْ م ًعاا ََف َحسِ َ س ْ س َتطِ ْی ُع ْو َن ََی ْ
م ض َّ َّ
س ُب ْو َن ا َ َّن ُه ْم َی ْح َ ه ْ م فِی ا ْل َح ٰیوةِ ال ُّد ْن َیا َو ُ س ْع ُی ُه ْ
ل َ مالًااَلذ ِْی َن َ س ِر ْی َن ا َْع َم ِبا ْلا َ ْخ َ ل ُن َن ِب ُئ ُك ْ
ه ْل َ اق ُْن ُزلً ُ
مةِ
م َی ْو َم ا ْلق ِٰی َ
م َفلَا ُنق ِْی ُم ل َُه ْ
ما ُل ُه ْ
ت ا َْع َم َو ل َِقآى ٖٕه َف َح ِب َط ْ
ت َر ِب ِه ْ ص ْن ًعااُو ٰٰٓلى َ
ٕك ا َّلذ ِْی َن كَ َف ُر ْوا ِبا ٰ ٰی ِ ُی ْحسِ ُن ْو َن ُ
1
ه ُز ًوا ﴾
ِی ُ سل ْ ِی َو ُر ُ ما َك َف ُر ْوا َو ا َّت َخ ُذ ْٰۤوا ا ٰ ٰیت ْم َج َه َّن ُم ِب َ ه ْ ِك َج َز ُآؤ ُ
َو ْز ًنا ٰذل َ
اور ہم اس دن جہنم کافروں کے سامنے الئیں گے۔ وہ جن کی آنکھوں پر میری یاد سے
پردہ پڑا تھا اور حق بات سن نہ سکتے تھے۔ تو کیا کافر یہ سمجھتے ہیں کہ میرے بندوں
کو میرے سوا حمایتی بنا لیں گے بے شک ہم نے کافروں کی مہمانی کو جہنم تیار کر
رکھی ہے۔ تم فرما کیا ہم تمہیں بتا دیں کہ اعمال کے اعتبار سے سب سے بڑھ کر
خسارہ میں کون ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں گم
گئی اور وہ اس خیال میں ہیں کہ اچھا کام کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو رب کی آیتوں
اور اس کے ملنے کا انکار کر رہے ہیں ،سو ان کے سارے اعمال غارت ہو گئے ،تو قیامت
کے روز ہم ان کا ذرا بھی وزن قائم نہیں کریں گے۔ یہ ہے جزا ہے ان کی ،جہنم ،بسبب
اس کے کہ کفر کیا ہے انہوں نے ،اور پکڑا نشانیوں میری کو ،اور رسولوں میرے کو
ٹھٹھا بنایا ۔
ن﴾2
الظل ِِم ْی َ
ِك َن ْج ِزی ّٰ
م-كَ ٰذل َ ِی ا ِ ٰل ٌه ِم ْن ُد ْون ِٖه َف ٰذل َ
ِك َن ْج ِز ْیهِ َج َه َّن َ م ا ِن ْٰۤ
ل ِم ْن ُه ْ
﴿ َو َم ْن یَّ ُق ْ
اور ان میں جو کوئی کہے کہ میں اللہ کے سوا الہ ہوں تو اسے ہم جہنم کی جزا دیں
گے ہم ایسی ہی جزا دیتے ہیں ظالموں کو۔
مومن کی مذکورہ داللت واضح ہونے کے بعد جزا کی ایک اور معنوی سطح منکشف
ہوتی ہے ۔ ذرا غور کیجیے کہ النسا آیت میں قصاص کے بجائے جزا کا بیان ہوا ہے ۔ اس
بیان سے ظاہری طور پر یہ مغالطہ ہوتا ہے کہ جزا (فجزآہ﴾ اور اس کے بعد کا بیان (جہنم
وغضب ہللا علیہِ ولعنہ وعد لہ عذابا عظِ یما﴾ ،صرف اور صرف اخروی زندگی کی
ِ خالِدا فِیہا
سزا کے لیے آیا ہے دنیاوی سزا سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ لیکن حقیقت میں ایسا
ہرگز نہیں ہے۔البقر اور المائد کی قصاص سے متعلق آیات میں قصاص کا ذکر کیا گیا
ہے ،اور قصاص ،برابری کے معنی میں مستعمل ہے ،حتی کہ سزا دیتے وقت ظاہری
صورت میں بھی برابری مقصود ہوتی ہے ،اسی لیے قتل کے سوا ا کثر دیگر صورتوں
میں قصاص کا اطالق ممکن نہیں ہوتا ۔ النسا آیت میں بھی اگر مقتول مومن کے قاتل
کے لیے قصاص کا لفظ برتا جاتا ،تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ اسے بھی قتل کر دیا جائے
قابل غور بات یہ ہے کہ اس عمل سے جان
ِ ،اس طرح قصاص یا برابری واقع ہو جاتی ۔
کے بدلے جان تو لے لی جاتی ،لیکن مقتول کی مومنیت دھری کی دھری رہ جاتی
القتل ِنہ کان
ِ ۔(خیال رہے کہ بنی اسرائیل آیت میں (فقد جعلنا لِو ِل ِیہِ سلطانا فلا یس ِرف فِی
منصورا ﴾کا بیان مقتول کی مظلومیت کا التزام رکھے ہوئے ہے کہ اس کے قاتل کے قتل
میں اسراف تو نہ کیا جائے ،لیکن قاتل کو معافی بھی ہرگز نہ دی جائے اور الزما قتل
کیاجائے ) ،اس لیے شارع نے النسا آیت میں مقتول کے ایمان کا پورا دھیان رکھا ہے ،زیر ِ
1سورۃ الحجرات14
نظر آیت کی ابتدائی سطروں میں بھی ہم نے بطور مقدمہ یہ نکتہ اٹھایا تھا کہ اس آیت
میں مومن کے بیان کے بغیر شارع کی منشا پوری نہیں ہورہی۔ بہرحال ! اب اگر مقتول
کے عالوہ مومن پر بھی توجہ مرکوز کی جائے تو قصاص کے بجائے جزا کے انتخاب کی
حکمت سمجھ میں آتی ہے ۔ پورے قرآن مجید میں جزا کے اطالقات پر نظر دوڑائی جائے
تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی معنویت قصاص کے مانند صرف ظاہری برابری تک ہی
محدود نہیں ،بلکہ کیفیت میں عدمِ مطابقت کے تدارک کے لیے اور وزن و کمیت میں
برابری کی خاطر ،ظاہری طور پر مختلف صورت کا اپنایا جانا بھی ،جزا کے معنوی
دائرے میں شامل ہے ،مثال:
اور جو مرد یا عورت چور ہو تو ان کا ہاتھ کاٹو ،ان کے کیے کی جزا اللہ کی طرف سے
عبرت ،اور اللہ غالب حکمت واال ہے
اگر جزا کا مطلب ویسا ہی بدلہ ہے توچور کی سزا چور کے ہاں چوری کی صورت میں
ہونی چاہیے تھی ،لیکن چونکہ ایسی ظاہری مطابقت ممکن نہیں تھی ،اس لیے عدم
مطابقت کے تدارک کے لیے قطع ید کی جزا مقرر کی گئی۔پھر عام طور پر چور کا کٹا ہوا
ہاتھ ،سماجی کلنک کی عالمت بھی بن جاتا ہے جسے اللہ رب العزت نے (نکاال مِ ن الل ِہ)
کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا قطع ید اور (نکاال مِ ن اللہِ ) جرم
کے عین مطابق سزا کے بجائے زیادہ سزا پر داللت کرتے ہیں؟اس سلسلے میں جزا کے
دیگر قرآنی اطالقات ،قطعیت کے ساتھ راہنمائی کرتے ہیں کہ سزا کی ایسی نوعیت
سزا میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہے ،لہذا اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے ظلم کی
عالمت بھی نہیں ہے بلکہ حقیقت میں کسی منفی فعل یا جرم کا عین بدل ہے ،مثال:
1المائد38
الحسن فلہ عشر مثالِہا ومن جا ِبالس ِیَِ فلا یجزی ِلا ِمثلہا وہم لا یظلمون ﴾ االنعام
ِ ﴿من جا ِب
جو ایک نیکی الئے تو اس کے لیے اس جیسی دس ہیں اور جو برائی الئے تو اسے جزا
نہ ملے گی مگر اس کے برابر ،اور ان پر ظلم نہ ہو گا ۔
جو نیک کام کرے اسے اس سے بہتر صلہ ملے گا اور جو برا کام کرے تو انہیں جو برا
کام انجام دیتے ہیں ،جزا نہیں ملے گی سوا اس کے جو وہ کرتے تھے
ب﴾1
سا ِ م ا ْل َی ْو َم-ا َِّن ال ّٰل َه َ
س ِر ْی ُع الْحِ َ ت-لَا ُظ ْل َ
س َب ْ
ما كَ َ
س ِب َ ﴿ا َ ْل َی ْو َم ُت ْج ٰزى ُك ُّ
ل َن ْف ٍٍۭ
آج ہر جان اپنے کیے کی جزا پائے گی آج کسی پر ظلم نہیں ،بے شک اللہ جلد حساب
لینے واال ہے
ه َو ُم ْؤ ِم ٌن َف ُاو ٰٰٓلى َ
ٕك َی ْد ُخ ُل ْو َن صال ًِحا ِم ْن ذَكَ ٍر ا َْو اُ ْن ٰثى َو ُ س ِی َئ ًة َفلَا ُی ْج ٰٰۤزى اِلَّا ِم ْثل ََهاَۚ -و َم ْن َع ِم َ
ل َ ل َ ﴿ َم ْن َع ِم َ
ب﴾2 سا ٍ ا ْل َج َّن َة ُی ْر َز ُق ْو َن ف ِْی َها ِب َغ ْی ِر حِ َ
جو برا کام کرے اسے جزا نہیں دی جائے گی مگر اتنی ہی ،اور جو اچھا کام کرے مرد
ہو یا عورت اور وہ ہو مومن ،پس وہ جنت میں داخل کیے جائیں گے وہاں بے حساب
رزق پائیں گے
َم ْو َن﴾3
م لَا ُی ْظل ُ
ه ْ
ت َو ُ
س َب ْ
ما َك َ
س ِب َ ض ِبا ْل َح ِق َو ل ُِت ْج ٰزى ُك ُّ
ل َن ْف ٍٍۭ ت َو ا ْلا َ ْر َ
م ٰو ِ َق ال ّٰل ُه ال َّ
س ٰ ﴿ َو َخل َ
اور اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ بنایا اور اس لیے کہ ہر جان اپنے کیے
کی جزا پائے اور ان پر ظلم نہ ہو گا
( چور کو قطع ید کی جزا اور اللہ کی طرف سے عبرت ،اگرچہ ظاہری طور پر زیادہ سزا
معلوم ہوتے ہیں ،لیکن اگر قرآن مجید میں کسی کا مال حرام طریقے سے کھانے وغیرہ
1سورۃ المومن17
2سورۃالمومن40
3سورۃالجاثیہ
،اور کسی سماج میں مال کی اہمیت وغیرہ ،کو م ِد نظر رکھا جائے تو قطع ید کی جزا
،وزن و کمیت کے لحاظ سے جزا کی معنوی سطح پر پوری اترتی ہے اور جرم کا عین
بدل معلوم ہوتی ہے ) ۔ اس لیے زیر ِ نظرسورة النسا آیت کے مطابق بھی مقتول مومن
کے قاتل کو قتل کرنا ہی جزا نہیں کہ ایسی جزا میں مقتول کے ایمانکا دھیان نہیں
رکھا جاتا ،اس لیے جرم کی نوعیت کے لحاظ سے ،جزا کی معنوی سطح کا اطالق(بہ
اعتبار وزن و کمیت ) اسی صورت ممکن ہے جب قاتل کے قتل سے بھی بڑھ کر سزا
تجویز کی جائے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ المائد آیت میں سے (نکاال مِ ن اللہِ ) اور النسا آیت
(وغضب اللہ علیہِ ) کا تنقیدی تقابلی مطالعہ ،شارع کی منشا جاننے کی راہ
ِ میں سے
ہموار کر سکتا ہے ۔ اس سلسلے میں قرآنی مغضوبین کی ذلت و محتاجی کی حالت
(نکاال مِ ن اللہِ ) سے بھی بڑھی ہوئی معلوم ہوتی ہے ،مالحظہ کیجیے :
ض ِم ْن َب ْقل َِها َو ت الْا َ ْر ُ ما ُت ْن ِب ُ ك ُی ْخ ِر ْج ل ََنا ِم َّ اد ُع ل ََنا َر َّب َ
ص ِب َر َع ٰلى َط َعامٍ َّواحِ ٍد َف ْ َن َّن ْ سى ل ْ م ٰی ُم ْو ٰ ﴿ َو ا ِ ْذ ُق ْل ُت ْ
ص ًرا َفا َِّنِه ِب ُط ْوا ِم ْ ه َو َخ ْی ٌر-ا ْ ِی ُ ه َو ا َْد ٰنى ِبا َّلذ ْ
ِی ُ س َت ْب ِد ُل ْو َن ا َّلذ ْل ا ََت ْ
صل َِهاَ -قا َِقثَّآى َٕها َو ُف ْو ِم َها َو َع َدسِ َها َو َب َ
م َك ُان ْوا َی ْك ُف ُر ْو َن ِبا ٰ ٰیتِ ب ِم َن ال ّٰلهِ ٰذل َ
ِك ِباَ َّن ُه ْ ض ٍ آء ْو ِب َغ َ سكَ َن ُةَ -و َب ُ م ْالذ َّل ُة َو ا ْل َ
ت َعل َْی ِه ُم ِ ض ِر َب ْ
مَ -و ُ سا َ ْل ُت ْ
م َّما َ َل ُك ْ
ان ْوا َی ْع َت ُد ْو َن﴾1ص ْوا َّو كَ ُ ما َع َ ال ّٰلهِ َو َی ْق ُت ُل ْو َن ال َّن ِب ٖی َن ِب َغ ْی ِر ا ْل َح ِق-ذٰل َ
ِك ِب َ
1سورۃالبقرہ61
کو ناحق قتل کر دیتے تھے یہ اس لیے کہ نافرمانی کیے جاتے اور حد سے بڑھے جاتے
تھے
ب ِم َن
ض ٍ
آء ْو ِب َغ َ
اس َو َب ُ الذ َّل ُة ا َْی َن َما ُثق ُِف ْٰۤوا ا ِ َّلا ِب َح ْب ٍل ِم َن ال ّٰلهِ َو َح ْب ٍل ِم َن ال َّن ِ ت َعل َْی ِه ُم ِ
ض ِر َب ْ
﴿ ُ
س َك َن ُة-
م ْ ت َعل َْی ِه ُم ا ْل َض ِر َب ْال ّٰلهِ َو ُ
آء ِب َغ ْی ِر َح ٍق- ِك ِبا َ َّن ُهم َك ُان ْوا َی ْك ُفر ْو َن ِبا ٰ ٰی ِ ّٰ
ت اللهِ َو َی ْق ُت ُل ْو َن ا ْلا َ ْن ِب َی َ ُ ْ ٰذل َ
1
ان ْوا َی ْع َت ُد ْو َن ﴾ ص ْوا َّو َك ُما َع َ ِك ِب َ ذٰل َ
ان پر جما دی گئی خواری ،جہاں ہوں امان نہ پائیں ،مگر ہاں ایک تو ایسے ذریعہ کے
سبب جو اللہ کی طرف سے ہے اور ایک ایسے ذریعہ سے جو انسانوں کی طرف سے
ہے ،اور مستحق ہو گئے اللہ کے غضب کے ،اور جما دی گئی ان پر محتاجی ،یہ اس
وجہ سے ہوا کہ وہ لوگ منکرہو جاتے تھے اللہ کی آیتوں سے ،اور قتل کر دیا کرتے تھے
نبیوں کو ناحق ،اور یہ اس وجہ سے ہوا کہ نافرمانی کی انہوں نے اور حد سے نکل
جاتے تھے
﴿ا ِن الذِین اتخذوا العِ جل سینالہم غضب ِمن ر ِب ِہم و ِذل فِی الحیا ِ الدنیا وکذلِک نج ِزی المفت ِر ین ﴾2
یقینا جنہوں نے بچھڑا بنایا انہیں پہنچے گا غضب ان کے رب کی طرف سے اور ذلت
اس دنیاوی زندگی میں اور ایسی ہی ہم جزا دیا کرتے ہیں جھوٹ باندھنے والوں کو۔
لہذا ،زیر ِ نظر النسا آیت میں جزا کے مذکورہ مفہوم کو ذہن میں رکھتے ہوئے ،قرآنی
مغضوبین کی ذلت و رسوائی پر بھی توجہ کی جائے ،تو استدالل کیا جا سکتا ہے کہ
المائد آیت کے مانند ،مومن کے قتل کی جزا کا وزن و کمیت کے لحاظ سے اطالق ،قاتل
کی ذلت و رسوائی کے بغیر ممکن نہیں ۔اہم بات یہ ہے کہ النسا آیت کے عالوہ ،قرآن
2االعراف
مجید میں جن دو مقامات پر مغضوب و ملعون کاا کٹھے ذکر کیا گیا ہے وہاں بھی
دنیاوی ذلت و رسوائی کا واضح اہتمام موجود ہے:
تم فرما کیا میں بتا دوں جو اللہ کے یہاں اس سے بدتر درجہ میں ہیں وہ جن پر اللہ نے
لعنت کی اور غضب فرمایا اور ان میں سے کر دیے بندر اور سور اور طاغوت کے پجاری
،یہ لوگ جگہ کے لحاظ سے بدتر اور سیدھے راستے سے زیادہ ہٹے ہوئے ہیں ۔
اور عذاب دے منافق مردوں اور منافق عورتوں اورمشرک مردوں اور مشرک عورتوں
کو ،جو اللہ کی نسبت برے گمان رکھتے ہیں ،ان پر برا وقت پڑنے واال ہے اور اللہ ان پر
غضب ناک ہے اور ان پر لعنت کرتا ہے اور اس نے ان کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے اور
وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے
ہماری رائے میں النسا آیت میں (فجزآہ) کے بعد ،جہنم میں خلود ،اللہ کا غضب و
عذاب عظیم کی تیاری کابیان( ،کیفیت میں عدم تطابق کے تدارک اور وزن و
ِ لعنت اور
کمیت میں برابری کی خاطر )مقتول مومن کے قاتل کے قتل سے بڑھ کر کسی ایسی
مرکب سزا کی راہ دکھاتا ہے جس میں ذلت و رسوائی کا پہلو بدرجہ اتم موجود ہو ۔
یہاں منطقی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی مرکب سزا کی ظاہری نوعیت کیا ہو
گی ؟۔ کیونکہ مرکب سزا تو خیر دور کی بات ہے ،النسا آیت کے ظاہری الفاظ ،کسی
1المائد60
2الفتح
بھی قسم کی دنیاوی سزا پر داللت نہیں کرتے ۔ اس سلسلے میں ( فجزآہ جہنم خالِدا
پیش نظر ،قرآنی جہنمیوں کی دنیاوی سزا کی تالش کے لیے قرآن مجید کا
فِیہا ﴾ کے ِ
مطالعہ کیاجائے تو سور توبہ کی آیت کافی مددگار معلوم ہوتی ہے :
المصیر ﴾
ِ ﴿یا یہا الن ِبی جا ِہ ِد الکفار والمنا ِفقِین واغلظ علی ِہم ومواہم جہنم و ِبئس
اے نبی ! کافروں پر اور منافقوں پر جہاد کرو اور ان پر سختی (واغلظ) فرما اور ان کا
ٹھکانا جہنم ہے اور کیا ہی برا انجام۔
اس آیت میں (واغلظ) رقت کے متضاد معنی میں استعمال ہوا ہے اور مخاطب نبی
ہیت اجتماعی کے قاید کی
خاتم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کی حیثیت مومنین کی ِ
ہے ۔سور توبہ میں ہی مومنین کو اجتماعی طور پر مخاطب کرکے سختی کا حکم دیا
گیا ہے :
قابل غور مقام ہے کہ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کو قاید کی حیثیت میں اور
ِ
مومنین کو اجتماعی حیثیت میں سختی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اس کا ایک
مطلب یہ ہوا کہ النسا آیت میں مقتول مومن کے وارث کی حیثیت مومنین کے قا ید یا
ہیت اجتماعی ہی کو حاصل ہے کہ دیگر ورثا کی جانب سے رقت کا احتمال
مومنین کی ِ
موجود ہے جبکہ شارع کی منشا سختی ہے (اسی لیے مقتول مومن کے وارث یا ولی
1التوبہ123
کاذکر ہی سرے سے موجود نہیں )۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ مومنین کے قاید
ہیت اجت ماعی کو مومن کے قاتل کے ساتھ صرف اور صرف سختی ہی کے ساتھ پیش
یا ِ
آنا چاہیے ۔سور النور میں زنا کی سزا کے ضمن میں بھی صرف سختی اپنانے کا حکم
دیا گیا ہے :
هلل
تمنون ِبا ِ
ِین ہللاِ ِن کنتم ِ
﴿الزانِی والزانِی فاجلِدوا کل واحِ د ِمنہما مِ جلد ولا تخذکم ِب ِہما رف فِی د ِ
الممنِین﴾1
ِ والیومِ الآخِ ِر ولیشہد عذابہما طا ِف ِمن
اور جو عورت بدکار ہو اور جو مرد تو ان میں ہر ایک کو سو کوڑے لگا اور تمہیں ان پر
ترس نہ آئے اللہ کے دین میں ،اگر تم ایمان التے ہو اللہ اور پچھلے دن پر ،اور چاہیے کہ
ان کوعذاب کرتے وقت مومنین کا ایک گروہ حاضر ہو ۔
لہذا ،مومن کے قاتل کے لیے بدرجہ اولی سختی کے اہتمام کی زیادہ ضرورت ہے ،اسی
لیے قاتل کا ہمیشہ کے لیے جہنمی ہونا ،اس پر اللہ کا غضب و لعنت اور اس کے لیے
عذاب عظیم کی تیاری ،انتہائی سختی و درشتی پر داللت کرتے ہیں ۔ یہاں ایک سوال
ِ
پیدا ہوتا ہے کہ قاتل کے ساتھ سختی کی نوعیت کیا ہوگی ؟۔ اس سلسلے میں سور
الزخرف کی آیات ،جہنمی مجرموں کی بابت آگاہ کرتی ہیں کہ وہ ظالم تھے :
بے شک مجرم جہنم کے عذاب میں ہمیشہ رہنے والے ہیں وہ کبھی ان پر سے ہلکا نہ
پڑے گا اور وہ اس میں بے آس رہیں گے اور ہم نے ان پر کچھ ظلم نہ کیا ہاں وہ خود ہی
ظالم تھے
1النور
زیر ِ نظر النسا آیت میں مومن کے قاتل کو جہنمی کے عالوہ ملعون بھی قرار دیا گیا ہے
اور قرآن مجید میں ملعونین کو ظالم گردانا گیا ہے :
م َح ًّقا-
م َّما َو َع َد َر ُّب ُك ْ
ل َو َج ْد ُّت ْ ب ال َّنا ِر ا َْن َق ْد َو َج ْد َنا َما َو َع َد َنا َر ُّب َنا َح ًّقا َف َه َْص ٰح َ ب ا ْل َج َّنةِ ا ْ
َص ٰح ُ
ادٰۤى ا ْ
﴿ َو َن ٰ
ن﴾1 م ا َْن َّل ْع َن ُة ال ّٰلهِ َعلَى ّٰ
الظل ِِم ْی َ -فاَذ ََّن ُم َؤذ ٌِن َب ْی َن ُه ْم ََقا ُل ْوا َن َع ْۚ
اور جنت والوں نے دوزخ والوں کو پکارا کہ ہمیں تو مل گیا جو سچا وعدہ ہم سے ہمارے
رب نے کیا تھا تو کیا تم نے بھی پایا جو تمہارے رب نے سچا وعدہ تمہیں دیا تھا ،بولے
ہاں ،تو ایک اعالن کرنے واال اعالن کرے گا کہ ا للہ کی لعنت ہو ظالموں پر۔
من افتری علی ہللاِ کذِبا ولئِک یعرضون علی ر ِب ِہم ویقول الشہاد ہلا الذِین کذبوا علی
﴿ومن ظلم ِم ِ
ر ِب ِہم لا لعن ہللاِ علی الظال ِِمین ﴾2
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے وہ اپنے رب کے حضور پیش کیے
جائیں گے اور گواہ کہیں گے یہ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بوال تھا ،سن لو ،
لعنت ہے اللہ کی اوپر ظالموں کے ۔
3
﴾ ﴿یوم لا ینفع الظالِ ِمین مع ِذرتہم ولہم اللعنۃ ولہم سو الدا ِر
جس دن ظالموں کو ان کے بہانے کچھ کام نہ دیں گے اور ان کے لیے لعنت ہے اور ان
کے لیے برا گھر
1االعراف44
2ہود
3غافر
میں مقتول کو مظلوم کہا گیا ہے ( ،یعنی قاتل ظالم ٹھہرا) ،پھر نرمی کی کوئی
گنجایش رکھے بغیر انتہائی سرد لہجے میں قاتل کو قتل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ اس
لیے مومن کے قاتل کو بھی ظالم گردانتے ہوئے قتل کیا جا سکتا ہے(بلکہ جہنمی و
ملعون ہونے کی بنا پر دوہراظالم قرار دے کر برے طریقے سے قتل کیا جا سکتا ہے )
۔سور البقر کی درج ذیل آیات کے مطابق ،جہنم کے سزاوار دنیاوی زندگی میں فسادی
اور نفس کے تابع ہوتے ہیں :
جہنمی کے فسادی ہونے کے عالوہ فسادی کے لعنتی ہونے کا بھی پورا قرینہ موجود
ہے :
﴿والذِین ینقضون عہد ہللاِ ِمن بع ِد ِمیثاقِہِ ویقطعون ما مر ہللا ِبہِ ن یوصل ویفسِ دون
اور وہ جو اللہ کاعہد اس کی مضبوطی کے بعد توڑتے ہیں اور جس کے جوڑنے کو اللہ
نے فرمایا اسے قطع کرتے اور زمین میں فساد پھیالتے ہیں ان کے لیے لعنت ہے اور ان
کا نصیب برا گھر
1البقر 205،206
قرآن مجید نے لعنتی اور فسادی کے لیے یہ جزامقرر کی ہے :
وہ مور ِد لعنت ہیں جہاں بھی وہ پائے جائیں پکڑے جائیں اور پوری طرح قتل کیے
جائیں۔
1المائد 33
2االحزاب
3النسا 115
چہ جائے کہ الگ راہ لینے سے کئی درجے بڑھ کر مومن کو عمدا قتل کر دیا جائے ،خیال
رہے النسا آیت میں عمد حق راہ جاننے کے حوالے سے اتمامِ حجت اور تحقق پر بھی
داللت کرتا ہے ۔ بہرحال ،قرآن نے مطلق انسان کے قتل کو انتہائی نا پسندیدہ قرار دیا
ہے چہ جائے کہ مومن ہو :
ما
ض َفكَاَ َّن َسا ٍد فِی الْا َ ْر ِ
س ا َْو َف َسا ِب َغ ْی ِر َن ْف ٍ
ل َن ْف ً
ل ا َ َّنه َم ْن َق َت َ
ِس َرآء ِْی َ
ِی ا ْ
ِك ﳎ َك َت ْب َنا َع ٰلى َبن ْٰۤ
﴿ ِم ْن ا َْج ِل ذٰل َ
م ا ِ َّن َكث ِْی ًرا
س ُل َنا ِبا ْل َب ِی ٰنتِ ُ -ث َّ
م ُر ُ
آء ْت ُه ْ
اس َج ِم ْی ًعاَ -و ل ََق ْد َج َ ما ٰۤ ا َْح َیا ال َّن َ
اها َف َكا َ َّن َ اس َج ِم ْی ًعاَ -و َم ْن ا َْح َی َ
ل ال َّن َ
َق َت َ
س ِر ُف ْو َن﴾1
َم ْ
ضل ُ ِك فِی ا ْلا َ ْر ِ م َب ْع َد ٰذل َ ِم ْن ُه ْ
اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ جس نے کسی انسان کو
خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیالنے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے
گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام
انسانوں کو زندگی بخش دی ،مگر ان کا حال یہ ہے کہ ہمارے رسول پے درپے کھلی
کھلی ہدایات لے کر آئے پھر بھی ان میں بکثرت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں۔
تخلیق آدم سے قبل فرشتوں نے کہا تھا کہ انسان تو زمین میں فساد
ِ خیا ل رہے کہ
پھیالئے گا قتل و غارت کرے گا ،اور اللہ نے فرمایا تھا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں
جانتے ،اس لیے یہاں یہ قرینہ پایا جاتا ہے کہ مومن ،فرشتوں کے اس سوال کا جواب
آیات الہی کی
ِ آیت الہی ہے اور دوسری جہت سے
ہونے کے ناطے ایک جہت سے ِ
آیت الہی
تجسیم ہے ،نہ فسادی اور نہ قتل و غارت پر تال ہوا ۔اس لیے اگر اس کا قتل ِ ،
کے خاتمے کی کوشش خیال کیا جائے تو اس کے قاتل کو جزا کے طور پر لوگوں کے لیے
آیت بنا دیا جانا چاہیے ،جیسا کہ سور الفرقان میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے :
ما َۖۚ﴾2
ِلظل ِِم ْی َن َع َذ ًابا اَل ِْی ً
اس ا ٰ َی ًةَ -و ا َْع َت ْد َنا ل ّٰ
م لِل َّن ِ
م َو َج َع ْل ٰن ُه ْ
ل ا َْغ َر ْق ٰن ُه ْ
س َ
الر ُ ﴿ َو َق ْو َم ُن ْو ٍح َّل َّ
ما كَذ َُّبوا ُّ
1المائد32
2الفرقان37
اور نوح کی قوم کو جب انہوں نے رسولوں کو جھٹالیا ہم نے ان کو ڈبو دیا اور انہیں
لوگوں کے لیے نشانی کر دیا اور ہم نے ظالموں کے لیے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔
اور اے میری قوم ،یہ اللہ کا ناقہ ہے تمہارے لیے آیت ،تو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی
زمین میں کھائے ،اور اس کو برائی کے ساتھ ہاتھ بھی مت لگانا ،پس پکڑے گا تم کو
عذاب فوری۔
1ہود
2الشعرا53،54،55،56،57،58
معاج ِز ین ولِک لہم عذاب ِمن ِرجز لِیم﴾1
ِ ﴿والذِین سعوا فِی آیاتِنا
اور جنہوں نے ہماری آیتوں میں ہرانے کی کوشش کی ،ان کے لیے سخت درد ناک
عذاب ہے
وغضب ہللا علیہِ ولعنہ وعد لہ عذابا عظِ یما﴾ ،اس میں کہیں بھی کوئی ایسا
ِ جہنم خالِدا فِیہا
لفظ استعمال نہیں کیا گیا جس میں قاتل کے لیے کسی حوالے سے نرمی کی ذرہ برابر
بھی گنجایش نکلتی ہو ۔ اس کے برعکس ،سور بنی اسرائیل آیت میں مقتول کے
القتل) کے الفاظ ،ایک حد
ِ مظلوم ہونے کے باوجود ظالم قتل کے لیے (فال یسرِف فِی
1سبا
تک نرمی ظاہر کرتے ہیں ۔ اس لیے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ النسا آیت میں اس اسراف
(سختی و رسوائی )کی اجازت (بلکہ حکم ) دیا گیا ہے جس کی بنی اسرائیل آیت میں
ممانعت کی گئی ہے ۔اگرالمائد آیت کے بیان (من قتل نفسا ِبغی ِر نفس و فساد فِی ِ
الرض فکنما
یا زمین میں فساد پھیالنے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں
کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی
بخش دی میں انسانی جان کی حرمت اور قرآن میں مومن کے مقام پر نظر رکھتے ہوئے،
النسا آیت میں قصاص کے مقابل جزا کی معنویت کا احاطہ کرکے ،مذکور سزاں جہنم
غضب لعنت عظیم عذاب پر غور و خوض کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مومن کے قاتل
کے ساتھ اسراف کرنے کی صورت میں بھی جزا کا معنوی اطالق (قاتل کے فعل کے
مساوی ،وزن و کمیت کے لحاظ سے ) ممکن نہیں ہوتا ،اس لیے قاتل کی سزا کے لیے
ایسے الفاظ (جہنم غضب لعنت عظیم عذاب﴾ برتے گئے ہیں جو بدیہی طور پر اخروی
سزا پر داللت کرتے ہیں ،یعنی دنیاوی سزا کی کوئی بھی نوعیت چونکہ قاتل کے فعل
کا بدل نہیں ہو سکتی ،اس لیے آخرت میں بھی اسے الزما سزا ملے گی ۔
قابل اعتنا پہلو ،تشنہ طلب ہے کہ مومن کون ہے؟ کیا اس
ِ زیر نظر النسا آیت کا ایک
کی کوئی جامع تعریف موجود ہے ؟ قرآنی مطالعہ بتاتا ہے کہ مومنین ،مساوی نہیں
ہیں :
م- ّٰ
م َو ا َْن ُفسِ ِه ْ
س ِب ْی ِل اللهِ ِبا َْم َوا ِل ِه ْ
ِی َ ض َر ِر َو ا ْل ُم ٰج ِه ُد ْو َن ف ْس َت ِوی ا ْل ٰقعِ ُد ْو َن ِم َن ا ْل ُم ْؤ ِمن ِْی َن َغ ْی ُر اُولِی ال َّ ﴿لَا َی ْ
ل ال ّٰل ُه
ض َ
س ٰنىَ -و َف َّ م َعلَى ا ْل ٰقعِ د ِْی َن دَ َر َج ًةَ -و ُكلًّا َّو َع َد ال ّٰل ُه ا ْل ُح ْ
م َو ا َْن ُفسِ ِه ْ
ض َ ّٰ
ل الل ُه ا ْل ُم ٰج ِه ِد ْی َن ِبا َْم َوال ِِه ْ َف َّ
1
ما ﴾ا ْل ُم ٰج ِهد ِْی َن َعلَى ا ْل ٰقعِ د ِْی َن ا َْج ًرا َعظِ ْی ً
1النسا 95
برابر نہیں ہیں مومنین میں سے بغیر معذوری کے گھر میں بیٹھنے والے اور اپنے مالوں
اور جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ،اللہ نے اپنے مالوں اور جانوں سے
جہاد کرنے والوں کو بیٹھے رہنے والوں پردرجے میں فضیلت دی ہے اور یوں تو ہر ایک
سے اس نے بھالئی کا وعدہ کیا ہے اور جہاد کرنے والوں کو پیچھے رہنے والوں پر بہت
بڑے اجر کے ساتھ فضیلت دی ہے۔
م ًانا ﳓ
م ا ِْی َ
ه ْ
م َف َزادَ ُ
ه ْ
ش ْو ُ
اخ َ
م َف ْ
م ُع ْوا َل ُك ْ
اس َق ْد َج َ
اس ا َِّن ال َّن َ ﴿ا َ َّلذ ِْی َن َقا َ
ل ل َُه ُم ال َّن ُ
ل ﴾1
م ا ْل َوك ِْی ُ ّٰ
س ُب َنا الل ُه َو ن ِْع َ
َّو َقا ُل ْوا َح ْ
وہ کہ جن سے لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمہارے مقابلہ کے لیے بڑا لشکر جمع کیا ہے
ان سے ڈرو تو اس سے ان کے ایمان میں اور اضافہ ہوا اور انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے
اللہ کافی ہے اور بڑا اچھا کارساز۔
لہذا ،یہاں منطقی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ النسا آیت میں مذکور مقتول مومن
کو ایمان کے کس درجے کا حامل خیال کیا جائے کہ درجے کے تعین کے بعد اور درجے
کے مطابق ،اس کے قاتل سے معاملہ نمٹایا جائے؟ بنظر ِ غائر ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ
اس زاویے سے معاملے کو نمٹانا ،انسانی اختیار کی حدود سے تجاوز کرنے کے مترادف
ہے ۔ اس لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ قرآن مجید میں مومن کی کوئی ایسی تعریف تالش
کی جائے جس کا اطالق تمام مومنین پر یکساں ہو سکے۔ سور النسا آیت ،اس سلسلے
میں ہماری راہنمائی کرتی ہے :
1آل عمران173
ت ُم ْؤ ِم ًناۚ- َس َمل ْ س ٰل َ س ِب ْی ِل ال ّٰلهِ َف َت َب َّی ُن ْوا َو لَا َت ُق ْو ُل ْوا ل َ
ِم ْن ا َ ْل ٰقٰۤى اِل َْی ُك ُم ال َّ ِی َ
مف ْض َر ْب ُت ْ﴿ ٰٰۤیا َ ُّی َها ا َّلذ ِْی َن اٰ َم ُن ْٰۤوا اِذَا َ
م َف َت َب َّی ُن ْوا-ا َِّن ّٰ ّٰ
م َّن الل ُه َعل َْی ُك ْ ل َف َ م ِم ْن َق ْب ُ ِك ُك ْن ُت ِْم كَث ِْی َر ٌةَ -ك ٰذل َ ض ا ْل َح ٰیوةِ ال ُّد ْن َیاَ -فعِ ْن َد اللهِ َم َغان ُ َت ْب َت ُغ ْو َن َع َر َ
ال ّٰل َه َك َ
1
خ ِب ْی ًرا ﴾
م ُل ْو َن َما َت ْع َ ان ِب َ
اے ایمان والو جب سفر کرو اللہ کی راہ میں تو تحقیق کر لیا کرو اور مت کہو اس
شخص کو جو تم سے سالم علیک کہے کہ تو مومن نہیں ،تم چاہتے ہو اسباب دنیا
کی زندگی کا ،سو اللہ کے ہاں بہت غنیمتیں ہیں ،تم بھی تو ایسے ہی تھے اس سے
پہلے ،پھر اللہ نے تم پر فضل کیا ،سو اب تحقیق کر لو ،بے شک اللہ تمہارے کاموں
سے خبردار ہے ۔
اس لیے خالصتا قانونی پہلو سے ،کسی کی باطنی کیفیات کے اعتبار سے ایمان کے
تعین کے بجائے ظاہری حالت کا لحاظ ہی ممکن اور قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے ۔ اور
اگر کوئی شخص اپنے ظواہر و شعائر سے ایمان واال دکھائی دیتا ہو ،تو اس کی اس
حالت کو قانونا تسلیم کیا جانا چاہیے۔ لہذا ،النسا آیت کا اطالق کسی مخصوص مومن
پر ہی نہیں ہوتا ،بلکہ ہر درجے کے مومنین اس کے دائرہ میں آ جاتے ہیں ۔
1النسا94
م
م َو َعل َْی ِه ْ
ض ٌة ِع ْن َد َر ِب ِه ْ
اح َ
م َد ِ
ب لَه ُح َّج ُت ُه ْ آج ْو َن ِفی ال ّٰل ِه ِم ْن َب ْع ِد َما ْ
اس ُت ِجیْ َ ﴿ َو ا َّل ِذ ْی َن ُی َح ُّ
1
د﴾ ش ِد ْی ٌ
اب َ
م َع َذ ٌ ب َّو ل َُه ْض ٌ َغ َ
اور وہ جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں بعد اس کے کہ اسے قبول کیا جا چکا ،ان کی
حجت ان کے رب کے نزدیک بے ثبات ہے اور ان پر غضب ہے اور ان کے لیے سخت عذاب
ہے
اس لیے قاتل اگر مومن ہے تواس کا مومن کوعمدا قتل کرنا ،ذہنی حالت کے لحاظ سے
اتما مِ حجت کے بعد حجت بازی کی عالمت بن جاتا ہے ،جس کے باعث وہ مغضوب
سیاق کالم سے قاتل کی تکفیر کی
ِ قرار پاتا ہے اور شدید عذاب کا مستحق ٹھہرتا ہے ۔
ممنا ِلا خطئا (النسا ،):ذرا غور کیجیے کہ بیان مزید تصریح ہوتی ہے :وما کان ل ِ
ِممن ن یقتل ِ
کے لیے جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے ،اس میں کس قدر زور ہے ،اور اس زور میں شدت
و قطعیت (ِلا خطئا﴾ سے مزید نمایا ں ہوئی ہے۔ لہذا ،قاتل اگر مومن تھا تو وہ مومن
کوعمدا قتل کرکے بالفعل ارتداد کا مرتکب ہو گیا ہے ،اس لیے اس کی سزا میں مرتد
ہونے کے باعث تخفیف کی کوئی گنجایش نہیں نکلتی بلکہ مزید اضافہ ہی ہو
سیاق
ِ تاہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسے تجدی ِد ایمان کی توفیق نصیب ہو سکتی ہے؟
کی عدم ( توب ِمن ہللاِ﴾ کالم میں (توب ِمن ہللاِ﴾ کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور کالم میں
موجودگی و سزاں کی نوعیت پر نظر رکھتے ہوئے اس کا جواب نفی میں ملتا ہے ۔
بحث کے اس مقام پریہ لطیف نکتہ سامنے آتا ہے کہ مومن ،مومن کا قتل (خطئا ) ہی
کر سکتا ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ البقر ،المائد اور االسرا میں قتل کی جن انواع کا ذکر
ہواہے ،کیا مومن ان سے مبرا ہے یا ان انواع کو خطا کے ذیل میں لیا جائے گا؟ ہم
1الشوری16
سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید میں قتل عمد و قتل خطا ،دو انتہاں کا بیان ہوا ہے ،قتل
کی دیگر اقسام ان کے بین بین ہیں۔
خط مستقیم کو دائیں سے بائیں دیکھیں تو عمد کی شدت میں کمی واقع ہوتی
اس ِ
جاتی ہے اور خطا کا مقام آ جاتا ہے اور بائیں سے دائیں نظر دوڑائیں تو خطا کی نوعیت
سنگین ہوتے ہوتے ظلم کے مرحلے سے گزر کر عمد سے جا ملتی ہے ۔
المائد آیت و البقر آیت کے تکمیلی الفاظ سے قبل کے احکامات ،قاتل کے مومن ہونے
کی صورت میں بھی اس کی قانونی پوزیشن(ایمان) کو موضوع بحث نہیں بناتے اورنہ
ہی االسرا آیت میں ایسا قرینہ ملتا ہے ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ مومن ،خطا کی
ان سنگین صورتوں یا عمد کی تخفیف حالتوں کا مصداق ہو سکتا ہے۔
اختتامی کلمات کی طرف بڑھتے ہوئے گزارش کریں گے کہ سور النسا آیت میں دنیاوی
سزا کی تالش کے حوالے سے مذکورہ داخلی شواہد کو نظر میں رکھتے ہوئے ،اب ذرا
(فمن اعتدی بعد ذلِک فلہ عذاب لِیم﴾ اور سور المائد آیت
ِ سور البقر آیت کے تکمیلی الفاظ
کے تکمیلی الفاظ (ومن لم یحکم ِبما نزل ہللا فولئِک ہم الظالِمون﴾ پر غور کیجیے کہ کیا ان دو
مقامات پر بھی سزا کی ایسی ہی نوعیت کی گنجایش موجود نہیں ہے؟ اور کیا قاتل
(اگر مومن ہو) کی قانونی پوزیشن مشکوک نہیں ہو جاتی؟ ہماری رائے میں اعتدی،
عذاب لِیم اور الظال ِمون جیسے الفاظ مذکورہ سزاں ( جن کا بیان النسا آیت کے ضمن
میں ہوا ) کی تنفیذ کے لیے داخلی شہادت دے رہے ہیں ۔ لیکن ان کا محل یہ ہے کہ
اگر الہی احکامات ﴿یا یہا الذِین آمنوا کتِب علیکم القِصاص فِی القتلی الحر ِبالح ِر والعبد ِبالعب ِد
والنثی ِبالنثی فمن عفِی لہ ِمن خِ یہِ شی فاتِباع ِبالمعروفِ ودا ِلیہِ بَِِ حسان ذلِک تخفِیف ِمن ر ِبکم
العین والنف ِبالنفِ
ِ النفس والعین ِب
ِ ورحم﴾ کے بعدیا الہی احکامات ﴿وکتبنا علی ِہم فِیہا ن النفس ِب
الذن والسِ ن ِبالسِ ِن والجروح قِصاص فمن تصدق ِبہِ فہو کفار لہ﴾کے عالوہ ،کوئی حیل و
والذن ِب ِ
حجت کی گئی ہو تو ایسے سرکش و ظالم کو (مذکورہ النسا آیت کی تصریح کے مطابق
) ،ظالم ،لعنتی ،فسادی اور فتنہ باز قراردیا جا سکتا ہے ،یعنی البقر آیت ،اور المائد
آیت میں ،پہلے ہی مرحلے میں کسی فریق یا فریقین کو اس انداز میں نہیں لیا جا
سکتا جیسے النسا آیت میں مومن کے قاتل کو پہلے ہی مرحلے میں لیا گیا ہے کہ اس
ہیت اجتماعی ،یک طرفہ طور پر سختی و درشتی اور
سے معاملہ مومنین کا قاید یا ِ
ذلت و رسوائی کے انداز میں نمٹائے گی ،جبکہ ا لبقر و المائد میں یہ معاملہ ہماری
رائے میں پہلے مرحلے میں ناکامی کے بعد اس کے تسلسل میں دوسرے مرحلے پر آتا
ہیت اجتماعی کو اس وقت کلی اختیار حاصل ہو جاتا ہے
ہے ،یعنی مومنین کے قاید یا ِ
جب فریقین یا کوئی فریق پہلے حکم کی تکفیر و تکذیب کرے ،اس کے نتیجے میں
وارث ولی وغیرہ کا عمل دخل و اختیار بھی بالکلیہ ختم ہوجاتا ہے ۔
خالصہ بحث
نتائج
سورة النساء میں اللہ تبارک وتعالی نے تمام مسلمانوں کو معاشرتی آداب سکھاتا ہے
۔سب سے پہلے اس سورة میں میراث کا حکم ذکر کیا گیا ہے جس سے ہم یہ نتیجہ
اخد کرتے ہے کہ اگر ہم ورثاء کو ان کا حق دیدے تو معاشرہ میں جو بگاڑ میراث کے نہ
دینے پر پیدا ہوتا ہے وہ ختم ہو جائے گااو ر زیادہ تر اس دور میں عورتوں کو میراث سے
محروم کر دیتا ہے اور اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ وراثت ایک الزمی
واجبی حق ہے ،وارث ہر حال میں اس کا مستحق ہوتا ہے جو لڑکیا بادل نخواستہ اپنا
حق وارثت معاف کر دیتی ہیں کہ ناراضگی سے بچ سکیں اس طرح ان کا حق ساقط
نہیں ہوتا بلکہ بھائیوں پر الزم ہے کہ ان کا حق انہیں دیں ،چونکہ سورة النساء میں
میراث کے بارے میں تفصیل سے ذکر آیا ہے اگر ہم میراث میں عورتوں کے حق کو بھی
اپنا بنا لے تو اس سے آخرت تباہ ہو جاتی ہے اور پھر اس سورة عورتوں کے حقوق کے
بارے میں ذکر آیا ہے کہ اگر ہم عورت کو اس طرح کے حقوق دے جس طرح کے قرآن
مجید میں ذکر آیا ہے تو معاشرہ بگاڑ سے بچ جائے گا اور اس سے اجر و ثواب بھی ملے
گا اور اس سورة میں قتل کے بارے میںحکم آیا ہے کہ اگر کوئی انسان بے گناہ کسی
انسان کو قتل کر دے تو اس سے قتل کے بارے میں پوچھا جائے گا اور اس سے قصاص
لیا جائے گا ،اگر چہ اس نے بے گناہ انسان کو قتل کیا ہے اور اس قتل کی وجہ سے اس
کو آخرت میں بھی سزا ملے گا
تجاویز و سفارشات
زیر نظر مقالہ میں سورہ النساء کی روشنی میں معاشرتی مسائل تفصیل کے ساتھ
بیان کی گئے ہیں ،ویسے قرآن و حدیث میں اس بارے میں بہت ساری آیات و احادیث
موجود ہے لیکن جس انداز میں اس کا بیان ہوا ہے وہ قابل تقلید ہے۔اس پر بہت ساری
کتابیں اور تفاسیر بھی موجود ہیں تاہم اافسوس اس بات کی ہے کہ ہم قرآن کو سمجھے
بغیر اس کی صرف تالوت کرتے ہیںان کی تعلیمات کو سمجھے اور اس کو اپنی زندگی
میں النے کی کوشش کرے تو بہت سارے مفاسد کا مداوا ہو سکتا ہے ۔ذیل میں ہم
چند سفارشات پیش کرتے ہیں تاکہ ان تجاویز اور سفارشات کی روشنی میں قانون
سازی ہو سکے اور مقتد ر طبقہ اس کو سمجھ کر اس کی صورتحال کا جائزہ لے سکیں
:1میراث کے احکام کے بارے میں لوگوں کو آگاہی دے اور اس موضوع پر ایک نصاف
قائم کرے اور کالج اور یونیورسٹیوں میں پڑھایا جائے اور لوگوں میں شعور پیدا کرے
:2اور اس کیلئے قانونی الء بھی نافذ کرے جو اس کے خالف ورزی کرنے سے گریز کریں
فنی فہارس
فہرست آیات
فہرست احادیث
نمبر شمار
صفحہ نمبر احادیث
مصادر ومراجع
التفسير المنير ،وهبة الزحیلی ،دار الكتب العلمیة ،بیروت ،لبنان۲۰۲۱ ،۲۵ ،ء 1
تفسیر روح المعانی ،آلوسی شباب الدین محمود ،بغدادی ،مکتبہ حقانیہ پشاور ،طبع 2
و سن ندارد
اعراب القرآن الکریم و بیانه ،االستاذ محیی الدین الدرویش ،قدیمی کتب خانہ کراچی 34
التحریر والتنوير ،ابن عاشور محمد الطاهر ،مكتب الدار التونسیه ۲۰۰۱۱ 5
الجامع الحکام القرآن ،القرطبی ابو عبد هللا محمد بن احمد االنصاری ،المکتبة الحقانیہ، 6
پشاور ،پاکستان سط ۱۳۱۸۰۱ھ
الصحيح البخاری ،محمد بن اسماعیل ،دار القلم بیروت طا۱۴۰۱ ,ھ 7
تدبر قرآن امین احسن اصالحی ،مکتبہ جدید پریس ط ۲۰۰۴ ,۱۰ 8
ابواالعلی مودودی ،مکتبہ تعمیر انسانیت الہور ،ط ۱۹۸۱ ,۱۸ء
ٰ تفہیم القرآن، 9
الجامع الصحيح لالمام مسلم ،مسلم ابن حجاج القشیری ،کتاب فضائل القران ،دار 10
االشاعت ،بیروت ۲۰۱۹۹۱ ،
جامع الترمذی ،محمد بن عیسی الترمذی ،دار الکتب بیروت ،ط ۱۴۰۸ ،۲ھ 11
بصائر ذوى التمييز في لطائف الكتاب العزيز ،محمد يعقوب الفيروزابادی ،المجلس 12
للثمن االسالمی۲۰۱۲ ،ء
مجمع البیان فی تفسیر القرآن ،فضل بن حسن الطبرسی ،ناشر ،ناصر خسرو ،سن 13
،۲۰۱۵
تیر مصطلح الحديث ،محمود الطحان ،مكتبة المعارف للنشر والتوزيع۲۰۰۶ ،ء 14
تفسیر مصباح القران حکیم عبد الخالق ،مكتبة البشير ،خوشاب۲۰۱۵ ، 15
Boyd, Robert; Richerson, Peter J. (12 November 2009). “CultureAnd the 16
evolution of human cooperation”. PhilosophicalTransactions of the Royal
Society
مجلة كلية اآلداب للجامعة القاهرة" ،مجلد ، ۶۸سنة ٢٠٠٨ 17
تاریخ ابن خلدون ،ترجمه حکیم احمد حسین ،مکتبه اداره تعلیمات اسالمی دیوبند ، 18
۱۹۹۳
متدرک للحاکم ،ابو عبد اللہ حاکم نیسا پوری ،دار لکتب العلمیة ،بیروت ،۲ ،سن ،۲۰۰۱ 19
سنن ابی داود ،ابو داؤد سلیمان بن اشعث السجستانی ،دار احیاء اتراث العربی،۴ ، 20
سن ۲۰۱۴
مسند احمد ،امام احمد بن حنبل ،دار الکتب العلمیة ،بیروت۱۹۹۷،۲ ، 21
سنن النسائی ،احمد بن شعیب النسائی ،دار الکتاب ،قاہره ،ط ، ۲سن ۲۰۰۲ 22
فيض القدير ،شرح الجامع الصغير ،محمد عبد الرؤوف المناوي ،دار المعرفة ،سن 23
۱۹۷۱
حاشیہ الطحطاوی ،امام محمد احمد بن محمد بن اسماعیل الطحطاوی ،دار الکتب 24
العلمیة ،بیروت ،ط ،۲سن ۱۹۹۹
الدر المنثور فی التفسیر بالماثور ،جالل الدین ،عبدالرحمن السیوطی ،دار احیاء التراث 25
العربی سطه ، ۲سن ۱۹۹۹
مصباح اللغات ،عبدالحفیظ بلیاوی ،مکتبہ قدوسیه ۱۹۹۸ ، 26
تاج العروس ،مرتضی زبیدی ،دار اال خالص ،ط ،۳سن ۲۰۰۷ 27
النوادر في المغتہ ابو زید ،سید بن اوس االنصاری ،دار احیاء التراث العربی ،سن ۲۰۰۷ 28
تفسیر ابن کثیر ،حافظ عماد الدین ابن کثیر ،دار الکتب العلمیة بیروت ،سن ۲۰۰۲ 29
الشفا بتعريف حقوق المصطفى القاضی فضیل بن عیاض ،دار الحدیث القاهرة ،سن
۲۰۱۳
مسند البزاز ،حافظ ابو بکر البزاز ،دار الکتب العلمیہ ،بیروت ،ط ،۳سن ۲۰۰۹ 30
تفسیر قرطبی ،محمد بن احمد ،القرطبی ،دار احیاء التراث العربی ،ط ، ۲سن ۱۹۹۷ 31
معارف القرآن ،مفتی شفیع عثمانی ،ادارۃ المعارف کراچی ،سال اشاعت اپریل ۲۰۰۸ 32