Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 139

‫تحقیقی مقالہ برائے بی ۔ایس اسالمیات‬

‫سورة النساء میں مذکورہ معاشرتی مسائل کا تحقیقی‬


‫جائزہ‬

‫نگران مقالہ‬ ‫مقالہ نگار‬

‫اسستنٹ پروفیسر‬ ‫محمد عماد‬


‫میاں اسعد اللہ‬

‫رولنمبر‪185494:‬‬

‫شعبہ اسالمیات‬
‫ٴ‬

‫گورنمنٹ سپیریئر سائنس کالج پشاور‬


‫ملحقہ جامعہ پشاور‬

‫سیشن ‪2018-2022‬‬

‫﷽‬
‫تصدیق نامہ‬

‫تقدیق کی جاتی ہے کہ زیر نظر مقالہ ''سورة النساء میں مذکورہ‬


‫معاشرتی مسائل کا تحقیقی جائزہ"سکالر محمد عماد نے بی ۔ ایس‬
‫اسالمات کی سند کے حصول کے لیے مکمل کیا ہے ۔مقالہ نگار نے مقالے‬
‫کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے دستیاب وسائل سے استفادہ کیا‬
‫ہے اس مقالے سے ان کی محنت بھی عیاں ہے ۔یہ مقالہ فاضل مقالہ‬
‫نگار کو بی ۔ایس اسالمیات کی سند(ڈگری)کا مستحق ٹھہراتا ہے ۔‬

‫اندرونی‬ ‫بیرونی ممتحن‬


‫ممتحن‬

‫اسسٹنٹ پروفیسر‬
‫میاں اسعد اللہ‬
‫گورنمنٹ سپیریئر‬
‫سائنس کالج پشاور‬

‫فہرست مضامین‬

‫عنوانات‬ ‫نمبر شمار‬


‫صفحہ نمبر‬

‫کلمہ تشکر‬ ‫‪1‬‬

‫مقدمہ‬ ‫‪2‬‬

‫‪08‬‬ ‫باب اول ‪:‬سورۃ النساء کا تعارف‬ ‫‪3‬‬

‫‪09‬‬ ‫سورۃ النساء کے نام‬ ‫‪4‬‬


‫‪09‬‬ ‫وجہ تسمیہ‬ ‫‪5‬‬
‫‪09‬‬ ‫خال صہ‬ ‫‪6‬‬
‫‪10‬‬ ‫زمانہ نزول اور اجزا مضمون‬ ‫‪7‬‬
‫‪11‬‬ ‫شان نزول اور مباحث‬ ‫‪8‬‬
‫‪14‬‬ ‫باب دوم ‪:‬انسان کی معا شرتی زندگی اور‬ ‫‪9‬‬

‫اسالم کا طرز عمل‬


‫‪15‬‬ ‫فصل اول ‪:‬معاشرتی زندگی کا تعارف اور‬ ‫‪10‬‬

‫اہمیت‬
‫‪16‬‬ ‫معاشرہ کی تعریف‬ ‫‪11‬‬
‫‪19‬‬ ‫معاشرہ کی اقسام‬ ‫‪12‬‬
‫‪20‬‬ ‫مقاصد کے اعتبار سے معاشرہ کی اقسام‬ ‫‪13‬‬
‫‪21‬‬ ‫معاشرے کی ا کائیاں‬ ‫‪14‬‬
‫‪21‬‬ ‫اسالمی معاشرے میں خاندان کا کردار‬ ‫‪15‬‬
‫‪26‬‬ ‫معاشرے کی ضرورت و اہمیت‬ ‫‪16‬‬
‫‪32‬‬ ‫فصل دوم ‪:‬انسانی زندگی پر معاشرہ‬ ‫‪17‬‬

‫کےاثرات‬
‫‪33‬‬ ‫فصل سوم‪ :‬اسالمی معاشرے کے اقدار‬ ‫‪18‬‬

‫‪44‬‬ ‫اسالمی معاشرے کی تعریف‬ ‫‪19‬‬


‫‪45‬‬ ‫اسالمی معاشرہ کے اثرات‬ ‫‪20‬‬
‫‪49‬‬ ‫اسالمی معاشرے میں قوانین کی پابندی‬ ‫‪21‬‬
‫‪52‬‬ ‫اسالمی معاشرے کے قیام کی ضرورت‬ ‫‪22‬‬
‫‪58‬‬ ‫باب سوم‪ :‬سورۃ انساء میں مذکورہ‬ ‫‪23‬‬

‫معاشرتی مسائل‬
‫‪59‬‬ ‫فصل اول ‪:‬صلہ رحمی‪،‬یتیموں کے‬ ‫‪24‬‬

‫تحفظ کا حقوق اور تقسیم‬


‫‪77‬‬ ‫فصل دوم قتل کی اقسام اور احکام‬ ‫‪25‬‬

‫اظہار تشکر‬
‫الحمد ہللا رب العلمین والصلوة والسلام علی سیدالانبیاء والمرسلین وعلی الہ‬
‫واصحابہ اجمعین اما بعد‬
‫سب سے پہلے میں رب کریم کا شکر ادا کرتا ہوں جس کی رضا کے بغیر علمی کاوش‬
‫میرے بس میں نہیں تھا جس نے مجھے حوصلہ دیا کہ میں اس مقدس اور اہم کام پر‬
‫کم بستہ ہو اور اس کو آخری مراحل تک پہنچایا۔‬

‫اس کے بعد شعبہ اسالمیات کے چیئر مین مفتی صبغت اللہ صاحب کا بھی شکریہ‬
‫ادا کرتا ہوں‪،‬جن کی سرپرستی میں یہ علمی کام ممکن ہوا اور خاص کر اپنے نگران‬
‫اسسٹنٹ پروفیسر میاں اسعداللہ صاحب کا بے حد ممنون ہوں جنہوں نے اپنا قیمتی‬
‫وقت د ے کر مقالے کی نگرانی کی ‪ ،‬اس کے ساتھ ساتھ تمام اساتذہ کرام پروفیسر‬
‫سیف الملوک صاحب ‪،‬پروفیسر صداقت صاحب اور پروفیسر ا کرام ولی صاحب کا بھی‬
‫دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے اس مقالے میں میرے ساتھ تعاون‬
‫کیا۔اور اس کے ساتھ پروفیسر ذبیح اللہ صاحب کا بھی شکریہ ادا کر تا ہوں جنہوں نے‬
‫اس مقالے میں میرے ساتھ مدد کی ۔‬

‫آخر میں گھر کے تمام افراد کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کے تعاون اور دعائوں کی بدولت‬
‫مجھے یہ مقالہ تحریر کرنے میں کامیابی ملی۔اللہ تعالی ان سب کو جزائے خیر عطا‬
‫فرمائے۔آمین‬

‫محمد عماد‬

‫بی ایس (اسالمیات)‬

‫شعبہ اسالمیات‬

‫گورنمنٹ سپیر یئر سائنس‬


‫کالج پشاور‬
‫مقدمہ‬

‫اسالم ایک مکمل نظام حیات کا نام ہے ‪،‬شریعت مطہرہ نے انسانوں کو زندگی کے ہر‬
‫شعبہ اور ہر گوشہ میں رہنمائی عطا فرمائی ہے چاہیے وہ انسان کی انفرادی زندگی ہو‬
‫یا اس کی کی اجتماعی زندگی ہو ‪،‬انفرادی زندگی کے لیے شریعت نے انسان کو عقائد‬
‫‪،‬عبادات اور اخالقیات وغیرہ کی صورت میں کامل رہنمائی عطا کی ہے جبکہ‬
‫معامالت‪،‬معاشرت اور سیاست کے احکام کی صورت میں انسانوں کی اجتماعی‬
‫احکامات میں سے کچھ احکام وہ ہے جو سورة النساء میں اللہ تعالی نے مسلمانوں کی‬
‫معاشرتی زندگی کے لیے صادر فرمائے۔‬

‫سورة النساء وہ سورةہے جس میں اللہ نے مسلمانوں کو کھل کر معاشرتی زندگی کے‬
‫اصول و آداب سمجھائے ہیں اس میں میرث اور تقسیم میراث کے احکام ‪،‬یتیموں کے‬
‫حقوق کا تحفظ ‪،‬قتل کے احکام اورطالق کے احکام ذکر وغیرہ ذکر ہیں‬

‫موضوع کی اہمیت‪:‬‬

‫قرآ ن مجید اللہ تعالی کا کالم ہے اس کے ایک ایک حرف پر نیکیاں ملتی ہے اورہر ایک‬
‫آیت اپنے اندر ایک مقصدر رکھتی ہے لیکن زیر نظر موضوع اس وجہ سے بھی اہمیت‬
‫کی حامل ہے ‪،‬کہ اس میں معاشرہ سے متعلق تمام احکام پائے جاتے ہیں‪،‬چونکہ ہر‬
‫شخص کا واسطہ معاشرے سے پڑتا ہے اور ہر ایک فرد معاشرے کا حصہ ہے لہذا‬
‫معاشرے کے آداب کے بارے میں جاننا ہر ایک شحص پر الزم ہے‬
‫اس سورةمیں نکاح کے احکام میراث کے احکام ‪،‬عورتوں کے حقوق ‪،‬قتل کے احکام اور‬
‫اصالح بین الناس‪،‬اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت اور امراء و علماء کے اطاعت کے‬
‫احکام پائے جاتے ہیں‬

‫اگر ان احکام پر نظرڈالی جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ہمارے معاشرے کیلئے ناگزیر ہے‬
‫اور کوئی بھی معاشرہ ان احکام کے بغیر مثالی اور اصالحی معاشرہ ثابت نہیں ہو‬
‫سکتی‬

‫اسلوب تحقیق‪:‬‬

‫زیر نظر مقالہ کی تکمیل میں راقم نے مندرجہ ذیل تفاسیر و احادیث کی کتابوں اور‬
‫فقہ کی کتابوں سے استفادہ حاصل کیا ہے‬

‫تفہیم القران ‪،‬ابواالعلی مودودی ‪،‬مکتبہ تعمیر انسانیت الہور‪،‬ط‪18,1981‬ء‬

‫الجامع الصحیح مسلم‪،‬مسلم ابن حجاج القشیری ‪،‬کتاب فضائل القران ‪،‬دار االشاعت‬
‫‪،‬بیروت ‪،‬ط ‪1991‬ئ‪٢‬‬

‫تفسیرقرطبی ‪،‬محمد بن احمد ‪،‬القرطبی ‪،‬داراحیاء الترات العربی ‪،‬ط‪،2‬سن‪1997‬‬

‫معارف القرآن ‪،‬مفتی شفیع عثمانی‪،‬ادارة المعارف کراچی ‪،‬سال اشاعت اپریل ‪2008‬‬

‫اہداف واغراض‪:‬‬

‫سورة مسولہ میں بیان کردہ احکام کے بارے میں خود آگاہی حاصل کرنا اور اس پر‬
‫عمل کرنا اوراس عمل سے دوسرے لوگوں کوبھی آگاہ کرنا ۔‬

‫معاشرہ میں رائج غیر اسالمی رسوم و روایات کا قرآن کی روشنی میں تدرا ک کرنا‬
‫لوگوں میں بالخصوص میراث‪،‬عورتوں کے حقوق بالعموم دیگر معاشرتی مسائل‬
‫جیسا نکاح ‪،‬اور طالق وغیرہ کے بارے میں شعور اجاکر کرنا‬
‫باب اول‬

‫سورۃالنساء میں مذکورمعاشرتی‬

‫مسائل کا تحقیقی جائزہ‬

‫فصل اول‬

‫سورةالنساء تعارف‬

‫‪1‬قرآن مجید کی چوتھی سورت ہے۔ اس سورت کا موضوع امت مسلمہ کے لیے صالح‬
‫معاشرت کی اساسات اور اس کا تزکیہ و تطہیر ہے۔ سورت آنحضرت صلی اللہ علیہ‬

‫‪1‬‬
‫‪https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%A8%D8%A7%D8%A8:%D9%85%D8%B9%D8%A7%D8%B4%D8%‬‬
‫‪B1%DB%81‬‬
‫وسلم کے مدینہ منورہ ہجرت فرمانے کے بعد ابتدائی سالوں میں نازل ہوئی‪،‬اور اس کا‬
‫ا کثر حصہ جنگ بدر کے بعد نازل ہوا تھا ۔یہ وقت نھا جب مدینہ منورہ کی نوازائیدہ‬
‫مسلمان ریاست مختلف مسائل سے دو چار تھی۔زندگی کا ایک نیا ڈھانچہ ابھر رہا تھا‬
‫جس کیلئے مسلمانوں کو اپنی عبادت کے طریقوںاور اخالق و معاشرت سے متعلق‬
‫تفصیلی ہدایات کی ضرورت تھی‪،‬دشمن طاقتیں اسالم کی پیش قدمی کا راستہ روکنے‬
‫کیلئے سر توڑ کوششیں کررہی تھی‪،‬اور مسلمانوں کو اپنی جغرافیائی اور نظریاتی‬
‫سرحدوں کی حفاظت کے لئے نت نئے مسائل کا سامنا تھا‪،‬سورة النساء نے ان تمام‬
‫معامالت میں تفصیلی ہدایات فراہم کی ہیں چو نکہ ایک مستحکم خاندانی ڈھانچہ‬
‫کسی بھی معاشرے کی بنیاد ہوتا ہے اس لیے یہ سورت خاندانی معامالت کے بارے‬
‫میں مفصل احکام سے شروع ہوئی ہے ۔‬

‫وجہ تسمیہ‪:‬‬

‫چونکہ خاندانی نظام میں عورتوں کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے اس لیے عورتوں کے بارے میں‬
‫اس سورت نے تفصیلی احکام عطا فرمائے ہیں اور اسی لیے اس کا نام سورةالنساء ہے‬
‫۔‬

‫خالصہ‪:‬‬

‫جنگ احد کے بعد بہت سی خواتین بیوہ اور بہت سے بچے یتیم ہوگئے تھے‪،‬اس لیے‬
‫سورت نے شروع ہی میںیتیموں کے حقوق کے تحفظ کا انتظام فرمایا ہے اور ''ایات‬
‫نمبر ‪'' 14‬تک میراث کے احکام تفصیل سے بیان فرمائے ہیں۔زمانے جاہلیت میں عورتوں‬
‫کے ساتھ طرح طرح کے ظلم ہوتے تھے‪،‬ان مظالم کی ایک ایک کرکے نشاندہی کی گئی‬
‫ہے اور معاشرے سے ان کا خاتمہ کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔نکاح و طالق کے مفصل‬
‫احکام بیان کیے گئے ہیں ‪،‬اور میاں بیوی کے حقوق معتین فرمائے گئے ہیں ۔یہ مضمون''‬
‫ایت نمبر ‪'' 35‬تک چال ہے جس کے بعد انسان کی باطنی اور معاشرتی اصالح کی طرف‬
‫توجہ دالئی گئی ہے۔مسلمانوں کو عرف کے صحرائوں میں سفر کے دوران پانی کی‬
‫قلت پیش آئی تھی ‪،‬لہذا''آیت نمبر ‪34‬میں تیمم کا طریقہ اور ''آیت نمبر ‪35‬تک چال‬
‫ہے جس کے بعد انسان کی باطنی اور معاشرتی اصالح کی طرف سے توجہ دالئی گئی‬
‫ہیں۔مسلمانوں کو عرب کے صحرائوں میں سفر کے دوران پانی کی قلت پیش آتی‬
‫تھی‪،‬لہذا آیت ‪43‬میں تیمم کا طریقہ اور آیت ‪101‬میں سفرمیں نماز قصر کرنے کی‬
‫سہولت عطا فرمائی گئی ہے ‪،‬نیز جہاد کے دوران نماز خوف کا طریقہ آیت‬
‫‪102‬اور‪103‬میں بتایا گیا ہے ۔مدینہ منورہ میں بسنے والے یہودیوں نے آ آنحضرت صلی‬
‫اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کرنے کے باوجود مسلمانوں کے خالف سازشوں کاایک المتنا‬
‫ہی سلسلہ شروع کررکھاتھا۔آیت‪44‬تا‪57‬اور‪103‬تا‪ 170‬میں ان کے ساتھ عیسائیوں کو‬
‫بھی خطاب میں شامل کرلیاگیا ہے ‪،‬اور انہیں تثلیث کے عقیدے کے بجائے خالص توحید‬
‫اختیارکرنے کی دعوت دی گئی ہے اس کے عالوہ آیات ‪58,59‬میں سیاست اور حکمرانی‬
‫سے متعلق ہدایات ائی ہیں ‪،‬منافقین کی بد اعمالیاں آیات ‪60‬تا ‪70‬اور پھر آیات‬
‫‪137‬تا‪152‬میں واضح کی گئی ہیں آیات ‪71‬تا‪92‬نے جہاد کے احکام بیان کر کے منافقین‬
‫کی ریشہ دوانیوں کا پردہ چاک کیا ہے ۔اسی سیاق میں آیات ‪92,93‬میں قتل کی‬
‫سزائیں مقرر فرمائی گئی ہیں ۔جو مسلمان مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے اور کفار کے‬
‫ہاتھوں مظالم جھیل رہے تھے ‪،‬ان کی ہجرت کے مسائل آیات ‪97,100‬میں زیر بحث آئے‬
‫ہیں‪،‬اسی دوران بہت سے تنازعات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے فیصلے‬
‫کے لئے الئے گئے ۔ایات ‪105‬تا ‪110‬میں ان کے فیصلے کا طریقہ آپ کو بتایا گیا ہے ‪،‬اور‬
‫مسلمانوں کو آپ کا فیصلہ دل و جان سے قبول کرنے کی تاکید کی گئی ہے ‪،‬آیات‬
‫‪116‬تا‪ 126‬میں توحیدکی اہمیت واضح کی گئی ہے ‪،‬خاندانی نظام اور میراث کے بارے‬
‫میں صحابہ کرام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد سواالت پوچھے تھے‬
‫‪،‬آیات ‪ 127‬تا ‪129‬اور پھر‪174‬میں ان سواالت کا جواب دیا گیا ہے ‪،‬خالصہ یہ کہ پوری‬
‫سورت احکام اور تعلیمات سے بھری ہوئی ہے اور شروع میں تقوی کا جو حکم دیا گیا‬
‫تھا‪،‬کہا جا سکتا ہے کہ پوری سورت اس کی تفصیالت بیان کرتی ہے‬
‫زمانہ نزول اور اجزا مضمون‪:‬‬

‫یہ سورت متعدد خطبوں پر مشتمل ہے جو غالبا ‪3‬ھ کے اوآخر سے لے کر ‪4‬ھ کے اواخر‬
‫یا ‪5‬ھ کے اوائل تک مختلف اوقات میں نازل ہوئے ہیں۔ اگرچہ یہ تعین کرنا مشکل ہے‬
‫کہ کس مقام سے کس مقام تک آیات ایک سلسل تقریر میں نازل ہوئی تھیں اور ان کا‬
‫ٹھیک زمانہ نزول کیا ہے لیکن بعض احکام اور واقعات کی طرف بعض اشارے ایسے‬
‫ہیں جن کے نزول کی تاریخیں ہمیں روایات سے معلوم ہوجاتی ہیں اس لیے ان کی مدد‬
‫سے ہم ان مختلف تقریروں کو ایک سرسری سی حد بندی کرسکتی ہیں جن میں یہ‬
‫احکام اور یہ اشارے واقع ہوئے ہیں۔مثال‪:‬‬

‫‪ 1‬۔ ہمیں معلوم ہے کہ وراثت کی تقسیم اور یتیموں کے حقوق کے متعلق ہدایات جنگ‬
‫احد کے بعد نازل ہوئی تھیں جبکہ مسلمانوں کے ‪ 70‬آدمی شہید ہو گئے تھے اور مدینے‬
‫کی چھوٹی سی بستی میں اس حادثے کی وجہ سے بہت سے گھروں میں یہ سوال‬
‫پیدا ہو گیا تھا کہ شہدا کی میراث کس طرح تقسیم کی جائے اور جو یتیم بچے انہوں‬
‫نے چھوڑے ہیں‪ ،‬ان کے مفاد کا تحفظ کیسے ہو۔ اس بنا پر ہم قیاس کرسکتے ہیں کہ‬
‫ابتدائی چار رکوع اور پانچویں رکوع کی پہلی تین آیتیں اسی زمانے میں نازل ہوئی ہوں‬
‫گی۔‬

‫‪2‬روایات میں صل ِو خوف (عین حالت جنگ میں نماز پڑھنے) کا ذکر ہمیں غزو ذات‬
‫الرقاع میں ملتا ہے جو ‪4‬ھ میں واقع ہوا۔ اس لیے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اسی کے لگ‬
‫بھگ زمانے میں وہ خطبہ نازل ہوا ہوگا جس میں اس نماز کی ترکیب بیان کی گئی ہے۔‬
‫رکوع ‪15‬‬

‫‪3‬مدینے سے بنی نضیر کا اخراج ربیع االول ‪4‬ھ میں ہوا اس لیے غالب گمان یہ ہے کہ‬
‫وہ خطبہ اس سے پہلے قریبی زمانے میں نازل ہوا ہوگا جس میں یہودیوں کو آخری‬
‫تنبیہ کی گئی ہے کہ ''ایمان لے آ قبل اس کے کہ ہم چہرے بگاڑ کر پیچھے پھیردیں ''۔‬
‫‪4‬پانی نہ ملنے کی وجہ سے تیمم کی اجازت غزو بنی المصطلق کے موقع پر دی گئی‬
‫تھی جو ‪5‬ھ میں ہوا اس لیے وہ خطبہ جس میں تیمم کا ذکر ہے اسی سے متصل عہد‬
‫سمجھنا چاہیے (رکوع ‪)7‬‬

‫شان نزول اور مباحث‪:‬‬

‫بحیثیت مجموعی سورت کا زمان نزول معلوم ہوجانے کے بعد ہمیں اس‬
‫ِ‬ ‫اس طرح‬
‫زمانے کی تاریخ پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے تاکہ سورت کے مضامین سمجھنے میں‬
‫اس سے مدد لی جاسکے۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سامنے اس وقت جو کام‬
‫تھا اسے تین بڑے شعبوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے‪ :‬ایک اس نئی منظم اسالمی‬
‫سوسائٹی کا نشو و نما جس کی بنا پر ہجرت کے ساتھ ہی مدینہ طیبہ اور اس کے‬
‫اطراف و جوانب میں پڑچکی تھی اور جس میں جاہلیت کے پرانے طریقوں کو مٹا کر‬
‫اخالق ‪ ،‬تمدن‪ ،‬معاشرت‪ ،‬معیشت اور تدبیر مملکت کے نئے اصول رائج کیے جا رہے تھے۔‬
‫دوسرے اس کشمکش کا مقابلہ جو مشرکین عرب‪ ،‬یہودی قبائل اور منافقین کی‬
‫مخالف اصالح طاقتوں کے ساتھ پوری شدت سے جاری تھی۔ تیسرے اسالم کی دعوت‬
‫ِ‬
‫کو ان مزاحم طاقتوں کے علی الرغم پھیالنا اور مزید دلوں اور دماغوں کو مسخر کرنا۔‬
‫اللہ تعالی کی جانب سے اس موقع پر جتنے خطبے نازل کیے گئے وہ سب انہی تین‬
‫شعبوں سے متعلق ہیں۔‬

‫اسالمی معاشرے کی تنظیم کے لیے سور بقرہ میں جو ہدایات دی گئی تھیں‪ ،‬اب یہ‬
‫معاشرہ ان سے زائد ہدایات کا طالب تھا‪ ،‬اس لیے سورةالنساء کے ان خطبوں میں زیادہ‬
‫تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ مسلمان اپنی اجتماعی زندگی کو اسالم کے طریق پر‬
‫کس طرح درست کریں۔ خاندان کی تنظیم کے اصول بتائے گئے۔ نکاح پر پابندیاں عائد‬
‫کی گئیں۔ معاشرت میں عورت اور مرد کے تعلقات کی حد بندی کی گئی۔ یتیموں کے‬
‫حقوق معین کیے گئے۔ وراثت کی تقسیم کا ضابطہ مقرر کیا گیا۔ معاشی معامالت کی‬
‫درستی کے متعلق ہدایات دی گئیں۔ خانگی جھگڑوں کی اصالح کا طریقہ سکھایا گیا۔‬
‫تعزیری قانون کی بنا ڈالی گئی۔ شراب نوشی پر پابندی عائد کی گئی۔ طہارت و‬
‫پاکیزگی کے احکام دیے گئے۔ مسلمانوں کو بتایا گیا کہ ایک صالح انسان کا طرز عمل‬
‫خدا اور بندوں کے ساتھ کیسا ہونا چاہیے۔ مسلمانوں کے اندر جماعتی نظم و ضبط‬
‫(ڈسپلن) قائم کرنے کے متعلق ہدایات دی گئیں۔ اہل کتاب کے اخالقی و مذہب رویے پر‬
‫تبصرہ کرکے مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا کہ اپنی ان پیش رو امتوں کے نقش قدم پر‬
‫چلنے سے پ رہی ز کریں۔ منافقین کے طرز عمل پر تنقید کرکے سچی ایماندی کے‬
‫مقیضات واضح کیے گئے اور ایمان و نفاق کے امتیازی اوصاف کو بالکل نمایاں کرکے‬
‫گیا۔مخالف اصالح طاقتوں سے جو کشمکش برپا تھی اس نے جنگ احد کے بعد‬
‫ِ‬ ‫رکھ دیا‬
‫زیادہ نازک صورت اختیار کرلی۔ تھی۔ احد کی شکست نے اطراف و نواح کے مشرک‬
‫قبائل‪ ،‬یہودی ہمسایوں اور گھر کے منافقوں کی ہمتیں بہت بڑھادی تھیں اور مسلمان‬
‫ہر طرف خطرات میں گھر گئے تھے۔ ان حاالت میں اللہ تعالی نے ایک طرف پرجوش‬
‫خطبوں کے ذریعے سے مسلمانوں کو مقابلے کے لیے ابھارا اور دوسری طرف جنگی‬
‫حاالت میں کام کرنے کے لیے انہیں مختلف ضروری ہدایات دیں۔ مدینے میں منافق اور‬
‫ضعیف االیمان لوگ ہر قسم کی خوفناک خبریں اڑا کر بدحواسی پھیالنے کی کوشش‬
‫کر رہے تھے۔ حکم دیا گیا کہ ہر ایسی خبر ذمہ دار لوگوں تک پہنچائی جائے اور جب تک‬
‫وہ کسی خبر کی تحقیق نہ کر لیں اس کی اشاعت کو روکا جائے۔ مسلمانوں کو بار بار‬
‫غزوات اور سریوں میں جانا پڑتا تھا اور ا کثر ایسے راستوں سے گذرنا ہوتا تھا جہاں پانی‬
‫فراہم ن ہ ہو سکتا تھا۔ اجازت دی گئی کہ پانی نہ ملے تو غسل اور وضو دونوں کی‬
‫بجائے تیمم کر لیا جائے۔ نیز ایسے حاالت میں نماز مختصر کرنے کی بھی اجازت دے‬
‫دی گئی اور جہاں خطرہ سر پر ہو وہاں صل ِو خوف ادا کرنے کا طریقہ بتایا گیا۔ عرب کے‬
‫مختلف عالقوں میں جو مسلمان کافر قبیلوں کے درمیان منتشر تھے اور بسا اوقات‬
‫جنگ کی لپیٹ میں بھی آجاتے تھے ان کا معاملہ مسلمانوں کے لیے سخت پریشان کن‬
‫تھا۔ اس مسئلے میں ایک طرف اسالمی جماعت کو تفصیلی ہدایات دی گئیں اور‬
‫دوسری طرف ان مسلمانوں کو بھی ہجرت پر ابھارا گیا تاکہ وہ ہر طرف سے سمٹ کر‬
‫داراالسالم میں آجائیں۔یہودیوں میں سے بنی نضیر کا رویہ خصوصیت کے ساتھ نہایت‬
‫دشمنان‬
‫ِ‬ ‫معاندانہ ہو گیا تھا اور وہ معاہدات کی صریح خالف ورزی کرکے کھلم کھال‬
‫اسالم کا ساتھ دے رہے تھے اور خود مدینہ میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور‬
‫آپ کی جماعت کے خالف سازشوں کے جال بچھا رہے تھے۔ ان کی اس روش پر سخت‬
‫گرفت کی گئی اور انہیں صاف الفاظ میں آخری تنبیہ کردی گئی۔ اس کے بعد ہی مدینہ‬
‫سے ان کا اخراج عمل میں آیا۔منافقین کے مختلف گروہ مختلف طرز ِ عمل رکھتے تھے‬
‫اور مسلمانوں کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ کس قسم کے منافقوں سے کیا‬
‫معاملہ کریں۔ ان سب کو الگ الگ طبقوں میں تقسیم کرکے ہر طبقہ کے منافقوں کے‬
‫متعلق بتادیا گیا کہ ان کے ساتھ یہ برتا ہونا چاہیے۔غیر جانبدار معاہد قبائل کے ساتھ‬
‫جو رویہ مسلمانوں کا ہونا چاہیے تھا اس کو بھی واضح کیا گیا۔‬

‫سب سے زیادہ اہم چیز یہ تھی کہ مسلمان کا اپنا کردار بے داغ ہو کیونکہ اس کشمکش‬
‫اخالق فاضلہ ہی کے زور سے‬
‫ِ‬ ‫میں یہ مٹھی بھر جماعت اگر جیت سکتی تھی تو اپنے‬
‫جیت سکتی تھی۔ اس لیے مسلمانوں کو بلند ترین اخالقیات کی تعلیم دی گئی اور‬
‫جو کمزوری بھی ان کی جماعت میں ظاہر ہوئی اس پر سخت گرفت کی گئی۔دعوت و‬
‫تبلیغ کا پہلو اس سورت میں چھوٹنے نہیں پایا ہے۔ جاہلیت کے مقابلے میں اسالم جس‬
‫اخالقی و تمدنی اصالح کی طرف دنیا کو بال رہا تھا‪ ،‬اس کی توضیح کرنے کے عالوہ‬
‫یہودیوں‪ ،‬عیسائیوں اور مشرکین‪ ،‬تینوں گروہوں کے غلط مذہبی تصورات اور غلط‬
‫اخالق و اعمال پر اس سورت میں تنقید کرکے ان کو دین حق کی طرف دعوت دی گئی‬
‫ہے۔‬
‫باب دوم‬

‫انسان کی معا شرتی زندگی اور اسالم کا طرز عمل‬


‫فصل اول‬

‫معاشرتی زندگی کا تعارف اور اہمیت‬

‫فصل اول‬

‫معاشرتی زندگی کا تعارف اور اہمیت‬

‫معاشرہ کی تعریف ‪:‬‬

‫معاشرے کی مختلف تعریفات کی گئیں ہیں کچھ لوگوں نے معاشرہ کی تعریف یوں‬
‫کی ہے ''افراد کا ایسا گروہ جو اس اصول پر آپس میں رہائش پذیر ہوں کہ ان کے مفادات‬
‫مشترک ہوں ۔بعض حضرات کاکہنا ہے کہ یہ لوگوں کا ایک گروہ ہے جس کا مشترکہ‬
‫مقصد ہوتا ہے اورکچھ خاص قواعد کے تحت حکومت کرتا ہے ۔یہ ایک ایسا شہر یا ملک‬
‫ہو سکتا ہے جس میں زبان ‪،‬تاریخ اورنسل جیسے دیگر پہلوئوں کے ساتھ کچھ معیارات‬
‫کا اشترا ک کیا جاسکے ۔ایک معاشرے کی تعیین اس کے محاوراتی تصورسے کی جاتی‬
‫ہے ‪،‬یہ اپنی روایات ‪،‬رسوم و رواج ‪،‬اظہار کی صورتوں اور اس کے معروف قاعدے کی‬
‫وجہ سے دوسرے قریبی ممالک سے مختلف ہوتا ہے ۔یہ انہی پہلوئوں کی بنا پر‬
‫دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔‬

‫انگریزی زبان میں معاشرہ کے لیے لفظ سوسائٹی (‪ ) Society‬استعمال ہوتا ہے۔‬
‫سوسائٹی کی وضاحت کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کی ذاتیات کی اصل کی‬
‫تحقیقات کی جائے اور انھیں تالش کیا جائے۔ خاص طور پر ‪ ،‬یہ الطینی زبان کا لفظ ہے‬
‫جس کا مطلب ہے دوسروں کے ساتھ دوستی اور وابستگی“۔ معاشرتی اصطالح میں‬
‫سوسائٹی ایک اصطالح ہے جو ایک مشترکہ ثقافت ‪ ،‬ایک مخصوص لوک داستان اور‬
‫مشترکہ معیار کے ذریعہ نشان زد افراد کے ایک گروپ کی وضاحت کرتی ہے جو ان کے‬
‫رواج اور طرز زندگی کا تعین کرتی ہے اور جو معاشرے کے دائرہ کار میں ایک دوسرے‬
‫سے متعلق ہے۔‬

‫‪A society is a group of individuals involved in persistent social interaction,‬‬


‫‪or a large social group sharing the same spatial or social territory,‬‬
‫‪typically subject to the same political authority and dominant cultural‬‬
‫‪'expectations1‬‬

‫‪1‬‬
‫‪: Boyd, Robert; Richerson, Peter J. (12 November 2009). "Culture and the evolution of‬‬
‫‪human cooperation". Philosophical Transactions of the Royal Society B: Biological Sciences.‬‬
‫‪364‬‬
‫ایک معاشرہ ان افراد کا ایک گروہ ہے جو مستقل سماجی تعامل میں شامل ہوتا ہے‪،‬یا‬
‫ایک بڑا سماجی گروہ جو ایک ہی مقامی یاسماجی عالقے کااشترا ک کرتا ہے ‪،‬عام طور‬
‫پر ایک ہی سیاسی اتھارٹی اور غالب ثقافتی توقعات کے تابع ہوتا ہے۔‬

‫عربی زبان میں معاشرہ کے لیے المجتمع کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔‬

‫]المجتمع هو مجموعة من الناس التي تشكل النظام نصف المغلق والتي تشكل شبكة العلاقات‬
‫بين الناس ‪ ،‬المعنى العادي للمجتمع يشير إلى مجموعة من الناس تعيش سوية في شكل منظم‬
‫وضمن جماعة منظمة‪ .‬والمجتمعات اساس ترتكز عليه دراسة علوم الاجتماعيات‪ .‬وهو مجموعة‬
‫من الأفراد تعيش في موق ع معين ترتبط فيما بينها بعلاقات ثقافية واجتماعية ‪ ،‬يسعى كل واحد‬
‫منهم لتحقيق المصالح والاحتياجات وإلى حد ما هو متعاون ‪ ،‬فمن الممكن أن ُيتيح المجتمع لأعضائه‬
‫الاستفادة بطرق قد لا تكون ممكنة على مستوى الأفراد ‪[1‬‬

‫معاشر ولوگوں کا ایک گروہ ہے جو ایک نیم بند نظام کی تشکیل کرتا ہے جو لوگوں کے‬
‫درمیان تعلقات کا جال بناتا ہے‪ ،‬معاشرے کے عام معنی سے مراد لوگوں کا ایک گروہ‬
‫ہے جو ایک منظم شکل میں اور ایک منظم گروہ کے اندر ا کٹھے رہتے ہیں۔ معاشرے‬
‫سماجی علوم کے مطالعہ کی بنیاد ہیں۔ یہ ایک مخصوص مقام پر رہنے والے افراد کا‬
‫گروہ ہے جو ثقافتی اور سماجی تعلقات کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں‪،‬‬
‫ان میں سے ہر ایک مفادات اور ضروریات کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ کسی حد تک‬
‫یہ تعاون پر مبنی ہے‪ ،‬معاشرے کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اپنے ارا کین کو ان طریقوں‬
‫سے فائدہ اٹھانے کی اجازت دے جو انفرادی سطح پر ممکن نہ ہو۔‬

‫معاشرہ کی تعریف ان الفاظ سے کیا جاتا ہے کہ یہ انسانی روابط کا ایک کلی مجموعہ‬
‫ہے اس حیثیت سے کہ یہ روایت پر عمل سے پیدا ہوتے ہیں جو ذرائع و مقاصد کے رشتہ‬
‫سے قائم ہیں۔‬

‫‪ 2 1‬مجلة كلية اآلداب لجامعة القاهرة‪ ،‬مجلد ‪ ، ٦۸‬سنة ‪ ، ۲۰۰۸‬الجزء الثاني ‪ ،‬صفحات ‪ ۱۸۱‬تا ‪۱۸۳‬‬
‫مذکورہ بات فالسفہ نے بھی کہی ہے۔ ارسطو کے اس قول کو بے حد شہرت حاصل‬
‫ہوئی کہ انسان ایک معاشرتی پسند حیوان ہے اور زمانہ بھی آج تک اس بات کی‬
‫شہادت دے رہا ہے کہ انسان دوسروں کا محتاج ہے۔ انسان دوسروں سے مستغنی‬
‫نہیں ہو سکتا۔ یہ بات فکر انسانی کے باہمی رشتوں سے مضبوط تر بناتی ہے اور ایک‬
‫معاشرہ اور سوسائٹی وجود میں آتی ہے امام ابن خلدون رحمتہ اللہ علیہ اسی طرف‬
‫اشارہ فرماتے ہیں‪:‬‬

‫افراد انسانی کا ا کٹھے مل جل کر رہنا ایک ناگزیر امر ہے اور یہ حقیقت ہے جس سے اہل‬
‫‪1‬‬
‫علم اس طرح بیان کرتےہیں کہ انسان پیدائشی طور پر مدنیت پسند واقع ہوا ہے‬

‫گور یامعاشرے کی تعریفات کا حاصل یہ ہے کہ معاشرہ انسانی روابط کی اس تنظیم‬


‫کا نام ہے جس کو ہم خیال افراد نے بنایا ہو۔ اور اس کےمقاصد اور مفادات میں یکسانیت‬
‫پائی جاتی ہوں۔‬

‫معاشروں میں پھر سب سے زیادہ ترقی یافتہ معاشرہ اگرچہ انسانی ہے تاہم حیوانات‬
‫کے بھی اپنے معاشرے ہوتے ہیں اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جانوروں کے معاشرے‬
‫وہی ہیں جو مکمل طور پر فطری انداز میں تشکیل پائی ہیں۔ شہد کی مکھی معاشرے‬
‫میں رہنے والے جانداروں کے ایک گروہ میں سے ایک ہے اور یہ نسبتا دوسرے جانوروں‬
‫سے زیادہ مہذب ہوتا ہے۔‬

‫انسانی معاشرے آبادی پر مشتمل ہیں جہاں کے باشندے اور ان کا ماحول مشترکہ‬
‫تناظر میں باہمی تعلق رکھتا ہے جس سے انہیں ایک شناخت اور اپنے آپ کو اپنے تعلق‬
‫کا احساس ملتا ہے۔ اس تصور سے یہ بھی اشارہ ملتا ہے کہ یہ گروپ نظریاتی‪ ،‬معاشی‬
‫اور سیاسی روابط استوار کرتا ہے۔ جب کسی معاشرے کا تجزیہ کرتے ہیں تو ‪ ،‬اس کی‬

‫‪ 1‬تاریخ ابن خلدون‪ ،‬ترجمہ حکیم احمد حسین مکتبه اداره تعلیمات اسالمی دیوبند‪ ،‬ج ‪ ،۱‬ص ‪44‬‬
‫ترقی کی سطح‪ ،‬تکنیکی کامیابیوں اور معیار زندگی جیسے پہلوؤں کو مد نظر ر کھا‬
‫جاتا ہے۔ اس طرح دوسری چیزوں کے عالوہ انہیں ایک مشترکہ جغرافیائی عالقہ میں‬
‫ایک مقام رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے‪ ،‬ہر ایک کو اپنے سماجی کام کے ساتھ مختلف‬
‫گروہوں میں تبدیل کیا جاتا ہے ‪ ،‬ان کا مشترکہ ثقافت ہو ناضروری ہے‪ ،‬انہیں مجموعی‬
‫طور پر آبادی سمجھا جا سکتا ہے۔‬

‫جب سے انسان نے اس زمینی سیارے کو آباد کرناشروع کیا معاشرہ موجود ہے‪ ،‬حاالنکہ‬
‫اس کی تنظیم کی شکل پوری تاریخ میں مختلف ہوتی رہی ہے۔ انسان کی سوسائٹی‬
‫کو ایک درجہ بندی کے انداز میں منظم کیا گیا تھا‪ ،‬جہاں ایک سربراہ (گروہ کا سب‬
‫سے مضبوط یا عقلمند)طاقت کو مر تکز کرتا تھا۔‬

‫یہ واضح رہے کہ معاشرے کے تصور کو معاشی اور قانونی نقطہ نظر سے بھی سمجھا‬
‫جاسکتا ہے ‪ ،‬تاکہ کم سے کم دو افراد کی اتحاد کو سمجھا جاسکے جو تجارتی سرگرمی‬
‫کو فروغ دینے اور مشترکہ کوششیں کرنے اور اپنے آپ میں حاصل ہونے والے منافع کو‬
‫تقسیم کرنے کےلئے حصہ لینے اور مشترکہ کوششیں کرنے کا بیڑہ اٹھاتے ہیں۔‬

‫معاشرہ کی اقسام‬

‫کئی اعتبار سے معاشرے کو مختلف اقسام میں تقسیم کیاجاتاہے مثال تاریخی اعتبار‬
‫سے ‪،‬افراد کے اعتبار سے ‪،‬مقاصد کے اعتبار سے وغیرہ افراد کے اعتبار سے معاشرہ کو‬
‫دو اقسام میں تقسیم کیا جاتاہے‬

‫‪:1‬حیوانی معاشرہ‬

‫جانوروں میں بھی بعض جانورایک دوسرے کے ساتھ مل جل کررہتے ہیں ۔یہ تعلق مختلف‬
‫مقاصدکے لیے ہوتا ہے مثال توالد اور تناسل کے لیے جیسے عام جانور‪،‬بوقت ضرورت ایک‬
‫دوسرے کی مدد کے لیے مثال بھیڑیاں اورچیونٹیاں ‪،‬یا مل جل کراپنی افادیت دکھانے کے لیے‬
‫مثال شہد کی مکھی وغیرہ ۔‬

‫‪:2‬انسانی معاشرہ‬

‫انسان آپس میں جانوروں سے زیادہ کثیر المقاصد معاشرے بناتا ہے جس کی وجہ سے‬
‫انسانی معاشرہ کے مختلف اقسام بنتے ہیں۔تاریخی اعتبار سے انسانی معاشرے کو‬
‫تین اداوار میں تقسیم کیا جاتا ہے ۔‬

‫‪:1‬حجری معاشرہ‬

‫اس سے مراد انسانی تاریخ کاوہ معاشرہ ہے جب انسان جنگلوں میں رہتاتھااورپہاڑوں‬
‫کو اپنا مسکن بناتا تھا۔اس وقت انسان میں اتنا شعور نہیں تھا کہ وہ اپنا لباس‪،‬خورا ک‬
‫اور مسکن اتنا متنوع سنا سکے بلکہ صرف گزران وقت کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ‬
‫رہتے تھے اور سادہ اور فطری زندگی گزارتے تھے۔‬

‫‪:2‬روایتی معاشرہ‬

‫اس سے مراد وہ معاشرہ ہے جب انسان حجری دور سے نکل کرتہذیب یافتہ زندگی‬
‫گزارنے لگا اور خورا ک لباس اور مسکن میں تنوع آگیا اور انسان اچھا خورا ک ‪،‬اچھی‬
‫لباس اور اچھے گھر بنانے میں آگے بڑھنے لگا۔‬

‫‪:3‬جدید معاشرہ‬

‫اس سے مراد وہ معاشرہ ہے جب انسان نے جدید صنعتی انقالبات کے ذریعے ترقی کی‬
‫اور مشینی دور شروع ہوا ‪ ،‬اس دور میں انسانی معاشرہ بھی کافی حد تک بدل گیا اور‬
‫انسان نے پوری دنیا کو ایک گائوںکی مانند بنا دیا۔‬

‫مقاصد کے اعتبار سے معاشرہ کی اقسام‪:‬‬


‫انسان پھر مختلف مقاصد کے لیے آپس میں مل جل کر رہتا ہے ۔اس اعتبار سے مختلف‬
‫معاشرے تشکیل پاتے ہیں جس کا تذکرہ درجہ ذیل ہیں۔‬

‫‪:١‬رنگ ونسل‬

‫کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک رنگ و نسل کے لوگ آپس میں مل جل کر ساتھ رہتے ہیں اور ایک‬
‫معاشرہ تشکیل پاتے ہیں۔اس کی مثا ل خاندان ‪،‬قبیلہ اور قوم ہے۔‬

‫‪:٢‬تعاون‬

‫اس سے مراد وہ معاشرہ ہے جس میںلوگ آپس میں تعاون کی بنیاد پر اکھٹے ہو کر‬
‫زندگی بسر کرتے ہیں ایسے معاشروں کی بنیاد عمومارفاہی ادارے بنتے ہیںجو مختلف‬
‫رنگ ‪ ،‬نسل اور عالقوں کے لوگوں کو مال کر تعاون کی بنیاد پر ایک جیسا مقصدان کے‬
‫سامنے رکھتا ہے جس سے ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے ۔‬

‫‪:٣‬معاش‬

‫کبھی ایسا ہو تاہے کہ مختلف قسم کے لوگ کسی ایک یا زیادہ معاشی مقاصد کی‬
‫تکمیل کے لیے آپس میں ایک معاہدہ کرتے ہیں اور پھر اس معاہدہ کی پاسداری کرتے‬
‫ہوئے ایک ساتھ چلتے ہیں جس سے ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے اس کو معاشی‬
‫معاشرہ کہتے ہیں بالفاط دیگر آج کل کی کمپنیاں اور دیگر صنعتی ادارے معاشرے‬
‫کی مثالیں ہیں۔‬

‫اس کے عالوہ بھی معاشرہ کی مختلف اقسام بن سکتے ہیں مثال آج کل ملک اور وطن‬
‫کو ایک معاشرہ کی حیثیت حاصل ہے کہ ہر ملک ا لگ ایک معاشرہ ہوتا ہے لہذا آج‬
‫کل ہم کہ سکتے ہیں کہ پاکستانی معاشرہ ہندوستانی معاشرہ ‪،‬برطانوی معاشرہ‬
‫وغیرہ۔‬
‫معاشرے کی ا کائیاں‪:‬‬

‫معاشرہ مختلف ا کائیوں سے مل کر بنتا ہے ان ا کائیوں کا تعین ضروری ہے۔ جن‬


‫ا کائیوں سے معاشر ہ مل کر بنتا ہے ان میں خاندان‪ ،‬قبیلہ ‪،‬قوم‪ ،‬شہر ‪ ،‬ملک ‪ ،‬مذہب‬
‫اور خطہ شامل ہے۔‬

‫ا‪ :‬خاندان‬

‫خاندان پر پہلے بحث ہو گئی ہے کہ ایک ہی جنس کے افراد جن میں باہمی قریبی‬
‫رشتہ داری ہوتی ہے اور وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں۔ خاندان کی‬
‫ابتداء ایک مرد اور ایک عورت سے ہوتی ہے اور پھر یہ بڑھتے بڑھتے کنبہ بن جاتا ہے‬
‫اور پھر قبیلہ۔‬

‫خاندان اور معاشرہ‪:‬‬

‫خاندان معاشرے کا سب سے اہم اور بنیادی یونٹ ہے جو مرد اور عورت کے درمیان‬
‫رشتہ ازدواج سے وجود میں آتا ہے۔ معاشرے کی ترقی اور نشوو نما کا انحصار جہاں‬
‫خاندان پر ہے وہاں معاشرے کی تنزلی اور انتشار کا انحصار بھی اسی خاندان پر ہے‬
‫کیونکہ خاندان ہی معاشرے کی اساسی ا کائی کی حیثیت رکھتے ہیں اور اسی سے‬
‫معاشرے وجود میں آتے ہیں۔ جس قدر خاندان مضبوط اور مستحکم ہو گا اسی‬
‫قدرہی معاشرہ اور ریاست مضبوط اور مستحکم ہوں گے۔ خاندان کی اہمیت کا اندازہ‬
‫اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ خاندان کی بقا اور تحفظ کو شریعت کی بنیادی مقاصد‬
‫میں شمار کیا گیا ہے۔ اور اسالمی تعلیمات کا ایک مکمل شعبہ جو مناکات یا اسالم‬
‫کے عائلی نظام سے موسوم ہے اس مقصد کے لیے وجود میں آیا ہے۔ قرآن میں ایک‬
‫تہائی سے زائد احکام عائلی نظم و ضبط کو منضبط کرنے کے لیے آئے ہیں۔ مذکورہ‬
‫بحث کی تکمل تفصیالت معلوم کرنے سے قبل ہم معاشرے کی تعریف بیان کرتے‬
‫ہیں جبکہ خاندان کی تعریفات باؤل میں گزر چکی ہیں۔ مختلف کتنے قبیلے اور‬
‫خاندان مل کر ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے جو مختلف قسم کے قوموں اور افراد کو‬
‫اپنے اندر شامل کیے ہوتا ہے۔‬

‫اسالمی معاشرے میں خاندان کا کردار ‪:‬‬

‫خاندان ایک اہم سماجی ادارہ ہے جو مرد کے ساتھ معاشرے کے لئے بھی مشترکہ‬
‫طور پر کام کرتا ہے ممتاز ماہر عمرانیات جارج پیٹرن الک کے مطابق ایک خاندان در‬
‫اصل رفاقتوں کے فروغ کے لیے بنیادی وسیلہ ہے جو نئے افراد کو مشترک سماجی‬
‫قدر اور روایات سکھا کر معاشرے کی ثقافت میں رفیق کار بنالیتا ہے۔ خاندان نکاح‬
‫کے معاہدے کے ذریعے سماجی نظم اور عام اتفاق رائے کو برقرار رکھتے ہیں معاشرے‬
‫کے افراد کو کنٹرول کرتا ہے۔‬

‫اسالمی اصولوں کے مطابق ایک کنبہ اور خاندان اگر چہ ایک مرد اور عورت کے‬
‫درمیان نکاح کے بندھن اور پھر ان کے بچوں سے وجود میں آتا ہے لیکن اس میں‬
‫شوہر کے والدین اور خونی رشتے کے غیر شادی شدہ عزیز بھی شامل ہو کر ایک‬
‫وسیع کنبے کو تشکیل دیتے ہیں معاشرے میں جنسی بے راہ روی کو روکنے کے لیے‬
‫اسالم نے نہ صرف نکاح کی حوصلہ افزائی کی ہے بلکہ اس نے بعض رشتوں کو‬
‫محض الزامات میں سے شمار کیا ہے جہاں ایک مرد اور عورت کے درمیان نکاح ہو‬
‫ہی نہیں سکتی ارشاد باری تعالی ہے‪:‬‬

‫ت‬
‫خ ِ‬‫نت الْأُ ْ‬
‫آخ َو َب ُ‬ ‫نت الْ ِ‬ ‫م َو َب ُ‬ ‫﴿حرمت علي ُك ُ‬
‫م َو َخل َُت ُك ْ‬‫م ْت ُك ْ‬
‫م َو َع َّ‬ ‫وت ُك ْ‬
‫اخ ُ‬
‫م َو ْ‬ ‫م َو َب َن ْت ُك ْ‬ ‫م أ َّم َهنَّ ُك ْ‬ ‫ْ ْ‬
‫م ا َّل ِتي ِفي‬ ‫اع ِة َو ُأ َّم َه ْ‬ ‫َ‬ ‫َو ُأ َّم َه ْت ُك َّ‬
‫م َو َر َبا ِي ُب ُك ُ‬‫سائِ ُك ْ‬
‫ت نِ َ‬ ‫ض َ‬ ‫الر َ‬
‫م ِم َن َّ‬ ‫وت ُك ْ‬‫اخ ُ‬ ‫م َو ْ‬ ‫ض ْع َت ُك ْ‬‫م ال ِتي أ ْر َ‬ ‫ُ‬
‫م‬ ‫َّ‬ ‫سا ِب ُك َّ‬
‫دخلتم ِب ِه َّن َفلا جناح عليْ ُك ْ‬ ‫ُ‬ ‫ونوا‬
‫م َت ُك ُ‬‫م ِب ِه َّن َفإِن ل ْ‬ ‫م التِي َد َخ ْل ُت ْ‬ ‫ُ‬ ‫م ِم ْن نِ َ‬‫ور ُك ْ‬
‫ُح ُج َ‬
‫ان‬
‫ان ہللاَ َك َ‬ ‫م ُعوا َب ْي َن الْأ َ ْخ َت ْي ِن إِلَّا َما َق ْد َ‬
‫سل ََف َّ‬ ‫ان َت ْج َ‬
‫اصلابِ ُكم َو ْ‬ ‫م ا َّل ِذ َ‬
‫ين ِم ْن ْ‬ ‫خلابل ْابتاب ُك ُ‬
‫ُ‬ ‫َو‬
‫‪1‬‬
‫يما ﴾‬ ‫ورا َّر ِح ً‬
‫َغ ُف ً‬
‫تم پر حرام کی گئی ہیں تمہاری مائیں اور بیٹیاں‪ ،‬بہنیں‪ ،‬پھوپھیاں اور خاالئیں‪،‬‬
‫بھانجیاں ‪ ،‬بھتیجیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پالیا اور تمہاری‬
‫دودھ شریک بہن اور تمہاری بیویوں کی مائیں اور تمہاری بیویوں کی بیٹیاں جنہوں‬
‫نے تمہاری گود میں پرورش پائی ہو ان بیوی کی لڑکیاں جن سے تمہارا زن و شوہر ہو‬
‫چکا ہوں ورنہ اگرصرف نکاح ہوا ہو اور تعلق زن و شوہر نہ ہوا ہو تو انہیں چھوڑ کر ان‬
‫کی لڑکیوں سے نکاح کر لینے میں تم پر کوئی مواخذہ نہیں۔ اور تمہاری ان بیٹوںکی‬
‫بیویاں جو تمہاری سب سے ہو اور یہ بھی تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو‬
‫بہنوں کو جمع کرو مگر جو ہو چکا ہے اللہ بخشنے واالر تم کرنے واال ہے۔‬

‫قرآن کریم میں نکاح کو مقدس تعلق قرار دیا گیا ہے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اسالم‬
‫میں کسی قسم کے غیر قانونی اور خفیہ جنسی نیات کلنی سے منع کیا گیا ہیں۔ نئی‬
‫نسل کی تربیت اور عورت کے حقوق کا تحفظ ایسے دو پہلو ہیں جن پر اسالم کے‬
‫معاشرتی نظام میں بہت زور دیا گیا ہے۔ اسالم غیر قانونی تعلق کو ایک ایسا اذیت‬
‫ناک وسیلہ سمجھتا ہے جو بچوں کو مشکوک حسب نسب عطا کرتا ہے۔ اس صورت‬
‫میں بچے کی پیدائش کے بعد معاشرے میں تمام ذمہ داری عورت پر آجاتی ہے جس‬
‫سے توقع کی جاتی ہے کہ بحیثیت ا کیلی ماں ایسے بچوں کی تربیت کرے گی پھر‬
‫ایسے بچوں کا مستقبل غیر مستحکم تعلقات میں بسر ہو نا شروع ہو جاتا ہے اور اس‬
‫طرح کا ایک چکر چلتا رہتا ہے۔ اسالم ایک مرد اور عورت کے تمام جنسی تعلقات کو‬
‫اس کے اپنے نکاح تک محدود کرتا ہے ایسے تعلقات کو خود اپنے خاندان کے بہت قریبی‬
‫رشتہ داروں کے درمیان ممنوع قرار دیتا ہے۔ اس کے نظام میں تمام تعلقات کی بنیاد‬

‫‪ 1‬سورة النساء‪۲۳ :‬‬


‫تقوی اور خداتر سی ہے۔ خاندان سے باہر تغلط طریقے سے تکمیل خواہشات کے تمام‬
‫ٰ‬
‫رابطوں پابندی لگانے کے لیے اسالم پاکدامنی‪ ،‬حجاب‪ ،‬نگاہوں کو نیچے رکھنا اور روزے‬
‫رکھنے پر زور دیتا ہے۔ خاندان اشترا کیت کے عمل کا ایسا مرکز ہے جہاں انسان آنے والی‬
‫نسلوں میں درست دینی علوم اور اعلی اقدار پیدا کی جاتی ہے۔ یہ بات شک و شبہ‬
‫سے باال تر ہے کہ خاندان میں قیادت اور سرپرستی مردوں کو سونپی گئی ہے لیکن یہ‬
‫خاندان کے افراد کی معاشی امداد کے ساتھ ساتھ اضافی ذمہ داری ہے نہ کہ وسیع‬
‫اختیارات کا مطلق العنان منبع و مصدر۔ اسی طرح یہ حقیقت تسلیم کرنے کے باوجود‬
‫کہ عورت کا دائرہ کار گھر کے کاموں اور بچوں کی نگہداشت ہی ہے اس سے یہ ثابت‬
‫نہیں ہوتا کہ عورت خاندان کی ساخت میں ایک گھٹیا کائی یاکم درجہ پر موجود ہے۔‬
‫اللہ تعالی کی نظر میں مردوں اور عورتوں کے حقوق برابر ہیں تاہم مردوں کو عورتوں‬
‫پر ایک درجہ بڑائی سے پیدا کرنے کا مقصد اس پر اضافی ذمہ داریاں ڈالتا ہے کہ انہیں‬
‫انصاف اور حکومت سے نوازنا ہے۔ خاندان کو ایک چھوٹے درجے کی جمہوریت سمجھنا‬
‫چاہیے تاکہ یہ جمہوریت ملک کے سیاسی نظام میں بڑے درجے پر اپنار و یہ درست‬
‫استعمال کرے ایسا نہیں کہ اپنے خاندان کی عورتوں پر جیسے چاہے حکم کریں۔‬

‫آج تک اسالم کا تصور خاندان کسی تنازعے کی وجہ نہیں بنا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ‬
‫تعلقات کی تعیین کے بارے اس کے عام اصولوں کو وسیع مسلم معاشروں میں قبول‬
‫کیا گیا اور مسلمان گھرانوں میں ان کا موثر نفاذ کیا گیا ہے۔ تاہم اس پر جو سواالت‬
‫اٹھائے گئے وہ یا توان اصالحی تعلیمات سے عدم واقفیت کی وجہ سے ہیں یا پھر کچھ‬
‫برائے نام مسلمانوں کے رویوں کو اہمیت دی گئی ہے کہ بے خبری میں انہیں اسالمی‬
‫تعلیمات کے مترادف سمجھ کر لیا گیا۔ اس طرح وہ لوگ جو خاندان کے بارے میں‬
‫اسالم کی حقیقی تعلیمات سے اچھی طرح واقف نہیں ہے انہوں نے عورتوں کے ساتھ‬
‫زیادتیوں کو سامنے رکھتے ہوئے اسالم پر الزامات لگانے شروع کر دیے۔ الغرض اللہ تعالی‬
‫نے تمام بنی نوع انسانیت کو خاندان کے نظام سے منسلک کر دیا ہے جس کو اللہ تعالی‬
‫اس انداز میں بیان فرماتے ہیں‪:‬‬

‫ِيرا‬ ‫َّ‬ ‫َ‬


‫ما ِر َجالًا َكث ً‬
‫ت ِم ْن ُه َ‬
‫َق ِم ْن َها َز ْو َج َها َو َب ْ‬
‫س َواحِ َدةٍ َو َخل َ‬‫م ِم ْن َن ْف ٍ‬
‫اس ا َّت َق ْو َار ِب ُك ُم الذِي َخل ََق ُك ْ‬
‫﴿ َيأ ُّي َها ال َّن ُ‬
‫‪1‬‬
‫اة ﴾‬ ‫ِس ٌ‬ ‫َون َ‬

‫اے لوگوں اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا فرمایا اور اس سے اس‬
‫کی بیوی کو پیدا فرمایا اور ان دونوں سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو زمین میں‬
‫پہل آیا۔‬

‫اور سورۃ االنعام کی آیت نمبر ‪ ۲۶‬مذکورہ مفہوم کو بیان فرمارہی ہے کہ اللہ تعالی نے‬
‫ہر شخص کو خاندان سے منسلک فرمادیا ہے ۔ اس استنباط کو مزید تقویت اس بات‬
‫سے ملتی ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں اللہ تعالی ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم اپنے‬
‫والدین کی اطاعت کریں ان سے نرمی اور محبت سے پیش آئیں ساتھ ہی ہمیں یہ حکم‬
‫دیا گیا ہے کہ ا پنے اقربا اور رشتہ داروں کے ساتھ بھی محبت سے پیش آئیں۔ اللہ رب‬
‫العزت اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہم خاندانی بندھن میں بندھے ہوئے رہیں کیونکہ وہ‬
‫جانتا ہے کہ معاشرے کی فالح بہبود اس میں ہے کہ خاندانی نظام کو تحفظ دیا جائے۔‬
‫یہاں اس بات کا تذکرہ غیر ضروری نہیں ہے کہ سماجی گروہوں کی حفاظت جبلی طور‬
‫پر ہر انسان میں موجود ہوتا ہے۔ خاندانی نظام اور معاشرہ گروہ یا جماعت کے ہر فرد‬
‫دعوی کرے کہ وہ خود مختار‬
‫ٰ‬ ‫کے لیے بنیادی ضرورت ہے۔ اور اگر کوئی فرد اس بات کا‬
‫ہیں اور اسے اپنی مرضی سے اپنی راہ پر چلنا ہے اور وہ اپنی خوشیوں اور خواہشات‬
‫کی قربانی دینے کا جذبہ اپنے اندر نہیں رکھتیار کھتی تو معاشرے شدید بد امنی اور‬
‫بد نظمی کی وجہ سے ایک دم بہہ کر اڑ جائیں گے۔ اگر کوئی شخص اپنے حقوق سے‬

‫‪ 1‬سورة النساء ‪1‬‬


‫لطف اور مستفید ہو نا چاہتا ہے تو اسے دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنا ہو گا۔ یادر ہے‬
‫کہ جہاں ایک فرد کے حقوق کی انتہا ہوتی ہیں وہاں سے دوسرے فردکے حقوق کا آغاز‬
‫ہوتا ہے اگر پورے خاندان ایک دوسرے کے حقوق کا خیال کرے گا تو صالح معاشرہ‬
‫وجود میں آئے گا بلکہ ترقی کی منازل طے کرے گا۔ اسالمی معاشرے میں خاندان کا‬
‫کردار ظاہر ہے کہ والدین اپنے بچوں کے حقوق کو بطریق احسن ادا کرتے ہیں اور پھر‬
‫لڑکی کے نکاح میں مناسب شوہر کا انتخاب پر اس کے نکاح میں حق مہر کا مقرر کرتے‬
‫ہیں تاکہ شوہر اسے معمولی سمجھتے ہوئے اس کے حقوق ادا کرنے سے کنارہ کش نہ‬
‫ہو جائے۔ اور جہاں چاہے زندگی کے لمحات بسر کرتا رہے۔ اسی طرح اسالمی معاشرہ‬
‫میں خاندان یہ کردار ادا کرتا ہے کہ لڑکی کو خواہ وہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ‬
‫اسے وراثت کا حق فراہم کرتا ہے۔ اسالمی معاشرہ میں اس طرح کی بے شمار چیزوں‬
‫کا خیال کیا جاتا ہے اور یہ اسالمی مذہبی نہیں بلکہ دینی خاندان ہی کے ذریعے اعلی‬
‫کردار ادا کیا جاتا ہے۔ اس پر مسٹر جسٹس‬

‫آفتاب ‪ status of women in Islam‬میں لکھتے ہیں۔‬

‫‪Islam placed women and on the same footing an economic independence,‬‬


‫‪property rights and legal process. She might follow any legitimate.‬‬
‫‪Profasion keep her earning, inherit property and dispose of will.1‬‬

‫اسالم نے مرد اور عورت کو معاشی آزادی مالی حقوق اور قانونی طریقہ کار میں‬
‫مساوی درجہ دیا ہے وہ کوئی بھی جائز پیشہ اختیار کر سکتی ہے وہ اپنی آمدنی کی‬

‫‪1‬‬
‫‪6 Mr. Amir Aftab. Status of women in Islam Vol. 4, No. 7 (Feb., 1976), p. 70 Published By:‬‬
‫‪Social Sciences‬‬
‫مالک بن سکتی ہے وراثت میں اس کا حصہ ہے اور اپنی مرضی سے اپنی ملکیت میں‬
‫تصرف کر سکتی ہے‬

‫‪Encyclopedia of Religion and ethics‬میں ہے۔‬

‫‪It is said that two women are proved to be equal to the male by the principal‬‬
‫‪of inheritance in the line generally has been the rule. The Quranic legislating‬‬
‫‪giving the daughter half as much of the estate as went to a son was an‬‬
‫‪indication.”1‬‬

‫مرد کے مقابلے میں عورت کا حصہ نصف ٹھہرانے کی حکمت یہ ہے کہ شریعت اسالمی‬
‫میں عورت کے حصے کا خرچ مرد کے ذمے ڈال دیا ہے۔ اس طرح مختلف امور میں‬
‫بعض اوقات یہ مرد کے مساوی ہوتی ہے اور کبھی اس سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے بغیر‬
‫کسی محنت کے نصف حصہ میں بھی وراثت کی حقدار ہوتی ہے۔ اس طرح شوہر سے‬
‫اسے مہر ملتا ہے وہ ان زیورات اور تحفے تحائف کی مالک ہوتی ہے جو شادی یا خوشی‬
‫کے دیگر مواقع پر اسے دیے جاتے ہیں یہ سب کچھ اس کا محفوظ سرمایہ ہے۔‬

‫‪:2‬قبیله‬

‫خاندان جب میاں بیوی اور بچوں سے نکل کر چا‪ ،‬چازاد اور داد‪ ،‬پر داد کی اوالد تک‬
‫پہنچتا ہے تو اسے قبیلہ کہتے ہیں۔ قبیلہ بھی معاشرہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا‬
‫کرتا ہے۔‬

‫‪7 Encyclopedia of Religion and ethics Siraj, Asifa (October 2011). “Meanings of modesty‬‬ ‫‪1‬‬

‫‪and the hijab amongst Muslim women in Glasgow, Scotland”. 18 (6‬‬


‫‪:3‬قوم‬

‫جب مختلف قبیلے آپس میں مل کر رہتے ہیں تو اس سے قوم بنتی ہے اور ہر قوم کا‬
‫رہن سہن اور ایک الگ تہذیب ہوتی ہے ان سب چیزوں کو مال کر معاشرہ کی تشکیل‬
‫ہوتی ہے۔‬

‫‪:4‬شہر‬

‫شہر معاشرہ کی تشکیل کی بنیادی ا کائی ہے اگرچہ شہر بذات خود کسی معاشرہ‬
‫کی تشکیل نہیں کر ہتا ہم شہر کی گود میں کئی اقوام آگر آباد ہوتے ہیں اور مختلف‬
‫اقوام کے مالپ سے ایک معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ اس لیے شہر کو معاشرے کی تشکیل‬
‫میں ایک اہم کردار کا حامل سمجھا جاتاہے‬

‫‪ :5‬ملک‬

‫جدید دور میں کوئی بھی ملک معاشرے کی تشکیل میں بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں‬
‫تک کہ آج کل کی جدید دنیا میں قوم سے بھی بڑھ کر ایک ملک کسی انسان کو‬
‫شناخت دیتا ہے لہذا بیرون دنیا میں کوئی بھی پاکستانی خود کو پنجابی یا پٹھان نہیں‬
‫کہتا بلکہ اس کے تعارف کے لیے پاکستانی‪ ،‬ہندوستانی‪ ،‬امیریکن اور برٹش کہنا کافی‬
‫ہے۔ اور اس ملک کے وجہ سے آج کل معاشروں کا تعین بھی ہوتا ہے۔‬

‫‪:6‬خطہ‬

‫دنیا کے مختلف خطوں کی تہذیب و ثقافت اور رہن سہن کے طریقوں کے پیش نظر ہر‬
‫خطے کا الگ الگ معاشرہ ہوتا ہے حتی کہ جدید دنیا بھی اس تفریق کو مثانہ سکی‬
‫بلکہ اس کی وجہ سے یہ تفریق اور بھی زیادہ ہو گئی۔ مثال مغربی معاشرہ‪ ،‬مشرقی‬
‫معاشرہ یا عرب معاشرہ وغیرہ۔‬
‫‪:7‬مذہب‬

‫اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ معاشرہ کی تشکیل میں مذہب کا بھی‬
‫بنیادی کردار ہوتا ہے اور کبھی کبھی معاشرے کی اضافت مذہب کی طرف بھی ہوتا ہے۔‬
‫مثال اسالمی معاشرہ‪ ،‬ہندو معاشرہ‪ ،‬عیسائی معاشرہ وغیرہ۔‬

‫معاشرے کی ضرورت و اہمیت ‪:‬‬

‫انسان فطر تامدنی الطبع ہے اور اس کے اس فطرت کی بدولت وہ ا کیلے کبھی زندگی‬
‫نہیں گزار سکتا بلکہ وہ الزما دوسرے انسانوں کے ساتھ مل جل کر زندگی گزارنا پسند‬
‫کرتا ہے۔ پھر اگر انسان اس میل جول کو ایک اچھے طریقے سے طے کرے گا تو یہ اس‬
‫کے لیے بھی بہتر ہوگا اور دوسرے انسانوں حتی کہ جانوروں کے لیے بھی بہتر ہو گا اور‬
‫اگر انسان یہ میل جول غلط طریقے سے اختیار کرے گا تو اس میں تمام عالم حیات کو‬
‫تکلیف ہو گی۔ اس وجہ سے اس معاشرتی زندگی کی اہمیت بہت بڑھتی ہے کہ انسانی‬
‫نہیں بلکہ حیوانی زندگی کا دار ومدار بھی انسان کی معاشرتی زندگی پر ہے۔ اس‬
‫معاشرتی زندگی کو بہترین بنانے کے لیے چند اصول کو سامنار کھنا چاہیے۔ ارشاد باری‬
‫تعالی ہے ‪:‬‬

‫م ْع ُر ْوفِ َو َت ْن َه ْو َن َع ِن ا ْل ُم ْنكَ ِر َو ُت ْؤ ِم ُن ْو َن ِبال ّٰلهِ ‪-‬‬


‫َتا ْ ُم ُر ْو َن ِبا ْل َ‬ ‫اس‬
‫ت لِل َّن ِ‬ ‫﴿ ُك ْن ُت ْ‬
‫م َخ ْی َر ُا َّمةٍ ُا ْخ ِر َج ْ‬
‫‪1‬‬
‫ان َخ ْی ًرا َّل ُه ْم‪ِ -‬م ْن ُه ُم ا ْل ُم ْؤ ِم ُن ْو َن َو اَكْ َث ُر ُه ُم ا ْل ٰفسِ ُق ْو َن﴾‬
‫ب َلكَ َ‬
‫ل ا ْلك ِٰت ِ‬
‫َه ُ‬
‫َو ل َْو ا ٰ َم َن ا ْ‬

‫تم بہترین امت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی کے لئے ظاہر کی گئی ہے‪ ،‬تم بھالئی کا‬
‫حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ‪ ،‬اور اگر اہل کتاب بھی‬

‫‪ 1‬سورة آل عمران‪۱۱۰ :‬‬


‫ایمان لے آتے تو یقینا ً ان کے لئے بہتر ہوتا‪ ،‬ان میں سے کچھ ایمان والے بھی ہیں اور ان‬
‫میں سے ا کثر نافرمان ہیں۔‬

‫اس آیت میں اللہ تبارک و تعالی نے امت محمدیہ کی باقی تمام امتوں اور قوموں کے‬
‫مقابلے میں فضیلت و شان بیان فرمائی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ مخلوق کو نفع‬
‫پہنچانے کے لئے وجود میں آئی ہے۔ اس کا سب سے بڑا نفع یہ ہے کہ یہ مخلوق کی‬
‫روحانی اور اخالقی اصالح کی فکر کرتی ہے اور یہ اس امت محمدیہ کا فرض منصبی‬
‫ہے۔ اگر چہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ( یعنی لوگوں کو نیکیوں کا حکم کرنے اور‬
‫برائیوں سے روکنے کا حکم پچھلی امتوں کو بھی دیا گیا تھا‪ ،‬لیکن اس کی تکمیل اسی‬
‫امت کے ذریعے ہوئی ہے۔ دوسرا پچھلی امتوں نے اس حکم کو چھوڑ دیا تھا ‪ ،‬جب کہ‬
‫امت محمدیہ کے حوالے سے نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی علی تعلیم کی پیش‬
‫گوئی ہے کہ اس امت میں تا قیامت ایک جماعت ایسی قائم رہے گی‪ ،‬جو برابر یہ‬
‫فریضہ انجام دیتی رہے گی۔ یہی اس امت کی وجہ افتخار ووجہ امتیاز ہے۔‬

‫امام قرطبی رحمہ اللہ " احکام القرآن " میں لکھتے ہیں کہ ” یہ اعزاز اس امت کے پاس‬
‫اس وقت تک برقرار رہے گا‪ ،‬جب تک وہ اس دین پر قائم رہے گی اور نیکی کا حکم دینے‬
‫اور برائی سے روکنے والی صفت ان میں باقی رہے گی‪ ،‬اگر انہوں نے برائی کو اچھائی‬
‫سے بدلنے کی بجائے‬

‫اس برائی کو خود اپنا لیا تو یہ اعزاز ان سے خود بخود چھن جائے گا۔ اس کی تائید نبی‬
‫کریم ملی علی نام کی اس روایت سے ہوتی ہے جس میں آپ میلی علی سلیم نے تین‬
‫جرائم کی تین سزائیں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا‪ ،‬جو امام جالل الدین سیوطی نے‬
‫اپنی تفسیر در منثور میں نقل فرمائی ہے کہ ”جب میری امت دنیا کو بڑی چیز سمجھنے‬
‫لگے گی تو اسالم کی بیت ووقعت اس کے قلوب سے نکل جائے گی‪ ،‬جب امر بالمعروف‬
‫اور نہی عن المنکر چھوڑ بیٹھے گی تو وحی کی برکات سے محروم ہو جائے گی اور جب‬
‫‪1‬‬
‫آپس میں گالم گلوچ اختیار کرے گی تو اللہ جل شانہ کی نگاہ سے گر جائے گی“‬

‫اس طرح صحیح بخاری میں حضرت نعمان بن بشیر سے نقل کردہ روایت سے واضح‬
‫ہوتا ہے کہ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک فالح نہیں پا سکتا‪ ،‬جب تک کہ وہ امر‬
‫بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو انجام نہ دے۔ نبی کریم ملی لیں کہ تم نے‬
‫فرمایا‪:‬‬

‫ل القائم في ُحدو ِد ال َّلهِ ‪َ ،‬وا ْل َوا ِق ِع‬ ‫ل َم َث ُ‬


‫بن َبشِ ي ٍر رضي ہللا عنهما ‪ ،‬عن النبي عله الا ہللا َقا َ‬ ‫مان ِ‬ ‫]عن ال ُّن ْع ِ‬
‫الذين في‬ ‫َ‬ ‫وكان‬
‫َ‬ ‫وبعضهم أسفلها ‪،‬‬ ‫ُ‬ ‫اس َت َه ُموا َعلَى سفينةٍ ‪ ،‬فصار بعضهم أعلاها ‪،‬‬ ‫م َث ِل قومٍ ْ‬ ‫ِيها كَ َ‬ ‫ف َ‬
‫َم ُن ْؤ ِذ َم ْن‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫م ‪َ ،‬ف َقا ُلوا‪ :‬ل َْو أ َّنا َخ َر ْق َنا في َنصيبنا َخ ْر ًقا َول ْ‬ ‫اس َت َق ْوا ِم َن الما ِء َم ُّروا َعلَى َم ْن َف ْو َق ُه ْ‬‫س َفل َِها إ ِ َذا ْ‬ ‫أ ْ‬
‫يعا ‪ ،‬وإ ِ ْن أَ َخ ُذوا َعلَى أ َ ْيد ِ‬ ‫م َو َما أ َ َر ُ‬
‫‪2‬‬
‫يعا [‬
‫ِيهم َن َج ْوا َو َن َج ْوا َج ِم ً‬ ‫ه َل ُكوا َج ِم ً‬
‫ادوا َ‬ ‫وه ْ‬
‫َف ْو َق َنا‪َ .‬فإِ ْن َت َر ُك ُ‬

‫"اللہ کی حدود پر قائم رہنے اور اس کے پامال کرنے والے کی مثال ان لوگوں کی سی‬
‫ہے‪ ،‬جنہوں نے ایک دو منزلہ کشتی کے اوپر اور نیچے والے حصے کے حوالے سے قرعہ‬
‫اندازی کی (کہ کون کس منزل پر رہے گا ) تو کچھ کو اوپر واال حصہ مال اور کچھ کو نیچے‬
‫واال حصہ مال۔ پھر نیچے والوں کو پانی کی ضرورت ہوتی تو وہ اوپر والوں کے پاس جاتے‬
‫(اور اپنی پانی کی ضرورت پوری کر لیتے)۔ (ایک دن) ان لوگوں نے سوچا کہ اگر ہم‬
‫کشتی کے نچلے حصے میں سوراخ کر دیں اور پانی کی ضرورت خود پوری کر لیں اور‬
‫اوپر والوں کو ( بار بار جانے کے ذریعے سے ) تکلیف نہ دیں تو کتنا اچھا رہے گا‪ ،‬اب اگر‬
‫اوپر والے ان نیچے والوں کو ان کے (اس احمقانہ ) ارادے پر عمل کرنے سے نہ روکیں‬

‫‪ 9 1‬تفسیر قرطبی‪ ،‬ج ‪ ،۲‬ص‪۲۳۳‬‬

‫‪ 10 2‬الصحيح للبخاري‪ ,‬ج ‪ ۲‬ص ‪۱۸۷‬‬


‫اور انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیں‪ ،‬تو وہ سب کے سب ڈوب کر ہالک و برباد ہو جائیں‬
‫گے۔ اگر وہ انہیں بروقت روک دیں تووہ سب ہالک ہونے سے بچ جائیں گے ۔‬

‫قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ‪:‬‬

‫ان ﴾‬
‫‪1‬‬
‫او ُن ْوا َع َلى الْ ِإ ْث ِم َوا ْل ُع ْد َو ِ‬
‫او ُن ْوا َعلَى ا ْل ِب ِر َو ال َّت ْق َوى َو لَا َت َع َ‬
‫﴿ َو َت َع َ‬

‫نیکی اور بھالئی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو اور گناہ و سرکشی‬
‫میں ایک دوسرے کے مددگارنہ بنو۔‬

‫اسالم حقوق اللہ اور حقوق العباد کا حسین امتزاج ہے۔ وہ اپنے ماننے والوں سے اس‬
‫امر کا تقاضا کرتا ہے کہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی بھی بہت‬
‫ضروری ہے۔ قرآن مجید نے ایسے نمازیوں کے لئے ہالکت کی وعید سنائی ہے جو نماز‬
‫کو رکوع و سجدہ تک محمد ودر کھتے ہیں اور انسانیت کو دکھوں سے نجات نہیں دالتے‬
‫‪ ،‬ارشاد ہوتا ہے‪:‬‬

‫م‬ ‫﴿ا َّلذ َ‬


‫ِين ُه ْ‬ ‫ون﴾‬
‫اه َ‬
‫س ُ‬
‫م َ‬
‫صلَات ِِه ْ‬
‫م َع ْن َ‬
‫ه ْ‬ ‫﴿ا َّلذ َ‬
‫ِين ُ‬ ‫ص َّل ْين ﴾‬
‫﴿ َف َو ْي ٌل ِل ْل ُم َ‬
‫‪2‬‬
‫ُي َراء ون ﴾‬

‫ایسے نمازیوں کے لئے ہالکت ہے جو اپنی نماز سے بے خبر ہیں ‪ ،‬جو ریا کاری کرتے ہیں‬
‫اور اشیائے ضرورت کو روکتے ہیں۔‬

‫اسالم معاشرتی فالح و بہبود اور رفاہ عامہ کا عالمگیر چارٹر ہے۔ ارشاد ہوتا ہے‪:‬‬

‫‪ 1‬سورة المائدة‪۲ :‬‬

‫‪ :12 2‬سورة الماعون‪۶.۴ :‬‬


‫مليكَةِ َو‬ ‫هلل َوا ْل َي ْومِ الْآخِ ِر َو ا ْل َ‬
‫آم َن ِبا ِ‬
‫الب ِر َم ْن َ‬
‫ب َو َلك َِّن َ‬‫م ْغ ِر ِ‬‫ش ِر ِق َوا ْل َ‬
‫م ْ‬‫ل ا ْل َ‬
‫م ق ِْب َ‬
‫ه ُك ْ‬‫س البران ُت َو ُّلوا ُو ُج ْو َ‬ ‫﴿ل َْي َ‬
‫ِين َو‬ ‫َ‬
‫سا ِبل َ‬‫س ِب ْي ِل َو ال َّ‬
‫سك ِْي َن َو ْاب َن ال َّ‬‫م ْ‬
‫ل َعلى ُح ِبهِ ذَ ِوي ا ْل ُق ْر َبى َوا ْل َي ْثنى َو ا ْل َ‬ ‫ما َ‬‫ب َو ال َّن ِب ِي َّن َو أ َتى ا ْل َ‬
‫ا ْلك َِت ِ‬
‫‪1‬‬
‫فِي الرقاب﴾‬

‫نیکی یہی نہیں کہ تم مشرق و مغرب کی طرف اپنا منہ کر لو‪ ،‬بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ‬
‫لوگ اللہ پر ‪ ،‬یوم آخرت پر‪ ،‬فرشتوں پر ‪ ،‬کتابوں اور پیغمبروں پر ایمان الئیں‪ ،‬اور اس کی‬
‫محبت پر اپنا مال عزیزوں‪ ،‬یتیموں‪ ،‬مسکینوں‪ ،‬مسافروںاور سائلوں کو دیں اور گرد‬
‫نہیں چھڑانے پر خرچ کریں۔‬

‫انسانی فالح و بہبود کے اس چارٹر کے مطابق اصلی نیکی اور بھالئی یہ ہے کہ انسان‬
‫ایمانیات کے نتیجے میں اپنے مال و دولت کے ساتھ محبت اور رغبت کے باوجودا سے‬
‫معاشرتی بہبود اور رفاہی کاموں پر خرچ کرے۔ اسالم کے معاشرتی بہبود ورفاہ عامہ‬
‫کے نظام اور اسالم کی روحانی اور اخالقی اقدار میں گہرا تعلق ہے۔ اسالم کی یہ اقدار‬
‫انسان کو ایثار‪ ،‬قربانی اور بے لوث خدمت خلق پر آمادہ کرتی ہیں۔ نتیجتا ً وہ اپنے‬
‫ضرورت مند بھائیوں کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے پر روحانی خوشی محسوس کرتا‬
‫ہے اور اس کی واضح مثالیں عہد نبوی‪ ،‬عبد خلفائے راشدین میں بکثرت موجود ہیں۔‬

‫انسانی فالح و بہبود کے اس چارٹر کے مطابق اصلی نیکی اور بھالئی یہ ہے کہ انسان‬
‫ایمانیات کے نتیجے میں اپنے مال و دولت کے ساتھ محبت اور رغبت کے باوجود اسے‬
‫معاشرتی بہبود اور رفاہی کاموں پر خرچ کرے۔ اسالم کے معاشرتی بہبود ورفاہ عامہ‬
‫کے نظام اور اسالم کی روحانی اور اخالقی اقدار میں گہرا تعلق ہے۔ اسالم کی یہ اقدار‬
‫انسان کو ایثار‪ ،‬قربانی اور بے لوث خدمت خلق پر آمادہ کرتی ہیں۔ نتیجتا ً وہ اپنے‬

‫‪ :13 1‬سورة البقرة‪۱۷۷ :‬‬


‫ضرورت مند بھائیوں کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے پر روحانی خوشی محسوس کرتا‬
‫ہے اور اس کی واضح مثالیں عہد نبوی‪ ،‬عہد خلفائے راشدین میں بکثرت موجود ہیں۔‬

‫اسالم آخری اور مکمل دین ہے۔ اس لئے اس نے ہر قسم کے انسانوں کی فطرت کے‬
‫مطابق ہدایات دی ہیں بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کے لئے روحانی اور‬
‫اخالقی اقدار کے ساتھ ساتھ قانونی اور انتظامی ضابطوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔‬
‫اس ضرورت کے پیش نظر اسالم میں اخالقی و قانونی ضابطوں کے درمیان حسین‬
‫امتزاج کیا گیا ہے۔‬

‫معاشرتی فالح و بہبود کے بنیادی اصول سورۃ البقرہ میں بیان ہوئے ہیں۔ انہی اصولوں‬
‫کو عہد رسالت‪ ،‬خالفت راشدہ میں قانونی حیثیت دے کر حکومت اسالمیہ کی‬
‫باضابطہ حکمت عملی قرار دیا گیا۔ چنانچہ ارشادر بانی ہے ‪:‬‬

‫ين َو ِفي‬
‫ب َو ا ْل َف ِر ِم َ‬
‫الر َقا ِ‬
‫م َو فِى ِ‬ ‫َّ‬
‫ِين َعل َْي َها َو ا ْل ُمؤل َفةِ ُق ُل ْو ُب ُه ْ‬
‫ِين َو ا ْل َع ِمل َ‬
‫سك ِ‬‫م ْ‬
‫ت ِل ْل ُف َق َرا ِء َو ا ْل َ‬
‫الص َد َق ُ‬
‫َّ‬ ‫ما‬
‫﴿إ ِ َّن َ‬
‫‪1‬‬
‫ل ال َّلهِ و ابن السبيل﴾‬ ‫س ِب ْي ِ‬
‫َ‬

‫کارکنان صدقات کا حق ہے اور ان لوگوں کا جن کی‬


‫ِ‬ ‫صدقات (زکوۃ) تو فقراء‪ ،‬مساکین ‪،‬‬
‫تالیف قلب منظور ہو‪ ،‬اور غالموں کو آزاد کرانے میں اور قرض کے قرض ادا کرنے میں (‬
‫اور اللہ کی راہ میں مسافروں کی مدد میں یہ مال خرچ کرنا چاہیئے )۔‬

‫اس آیت میں ہر قسم کے بے کس‪ ،‬مجبور ‪ ،‬محتاج‪ ،‬غریب اور بے سہارا لوگوں کا ذکر‬
‫کیا گیا ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے جو اصطالح استعمال کی گئی‪ ،‬وہ اپنی جامعیت میں‬
‫تاریخی عوامل کے تحت ہر زمانے میں رونما ہونے والے فقر و احتیاج اور بے کسی و‬
‫بیچارگی پر حاوی ہے۔ ان میں وہ لوگ شامل ہیں جو حاجت مند ہوں‪ ،‬جو معاشی‬

‫‪: 1‬سورة التوبة ‪٦٠ :‬‬


‫واقتصادی طور پر بالکل تباہ حال ہوں‪ ،‬جو غالمی کی زندگی بسر کر رہے ہوں اور جو‬
‫دوران‬
‫ِ‬ ‫تعلیم و عالج سے محروم ہوں۔ وہ لوگ جو اپنے وسائل سفر پر قادر نہ ہوں یا‬
‫سفر اس قا بل نہ رہے ہوں‪ ،‬ان سب کے لئے رفاہ عامہ کے نقطہ نظر سے اسالم نے‬
‫مستقل نظام کو وضع کر دیا ہے۔ غرض فقر و مسکنت اور غربت و مسافرت جیسی‬
‫مجبوریوں اور معذوریوں کے انسداد کے لئے عہد رسالت مآب می ریم دور خالفت‬
‫راشدہ کی سماجی خدمات بھی تاریخ میں مینارہ نور کی حیثیت رکھتی ہیں۔‬

‫آج جب کہ پوری دنیا‪ ،‬غربت و افالس اور بدامنی و عدم سکون کا شکار ہے ‪ ،‬مادیت کا‬
‫غلبہ ہے جب کہ روحانیت مفقود ہے‪ ،‬ایسے حاالت میں سمارتی خدمت اور قاہ عامہ‬
‫کی بدولت انسانیت کی فالح کے لئے کوشش کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔ چنانچہ اس کا‬
‫حتہ کی روشنی میں ایسا نظام تشکیل دیا جائے جس کی نظیر خالفت راشدہ میں‬
‫ملتی ہے یہی وجہ ہے کہ ابتدائے اسالم میں انسانیت کی بے لوث خدمات انجام دی‬
‫گئیں حتی کہ معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لئے فالحی اسکیمیں اور اداروں کا قیام‬
‫عمل میں الیا گیا۔‬

‫موجودہ زمانے میں اسالمی تعلیمات کی روشنی میں ایسا مفید سماجی نظام تیار‬
‫کریں کہ اس کا فائدہ برادر است انسانیت کو پہنچے اور معاشر سے بد امنی‪ ،‬رشوت‪،‬‬
‫غربت جیسی مہلک بیماریوں کا خاتمہ کیا جاسکے۔ چنانچہ اس وقت ضرورت ہے کہ‬
‫ہم اسالم کے فالحی معاشرے کا ڈھانچہ انسانیت کے سامنے پیش کریں ‪ ،‬تاکہ ان‬
‫اصولوں سے فائدہ اٹھا کر قوم کی ترقی کے لئے کام کریں۔ اللہ تعا ٰلی ہم سب کو‬
‫معاشرے کی اصالح کی فکر کرنے ساتھ ساتھ اپنی اصالح کرنے کی بھی توفیق عطا‬
‫فرمائے۔ آمین‬
‫فصل دوم‬

‫انسانی زندگی پر معاشرہ کےاثرات‬


‫فصل دوم‬

‫انسانی زندگی پر معاشرہ کےاثرات‬

‫انسان کی شخصیت‪ ،‬اس کے عادات واطوار اور افعال اور کردار سے نمایاں ہوتی ہے۔‬
‫انسان فطری طور پر اپنا مصاحب اور دوست بھی انہی کو بنانا پسند کرتا ہے جو‬
‫معاشرے میں اچھے ہوتے ہیں اور برے لوگوں سے کنارہ کشی اختیار کرتا ہے۔ فارسی‬
‫مثل مشہور ہے "صحبت طالع تر اطالع کند ‪ ،‬اور جاپانی مقولہ ہے " جب کسی شخص‬
‫کا کردار تم پر واضح نہ ہو تو اس کے دوستوں کو دیکھو“۔ اس سے اس کے معیار کا پتا‬
‫چلتا ہے‪ ،‬اس لئے معمولی سے معمولی عقل و شعور رکھنے واال انسان کبھی برے‬
‫لوگوں کو اپنا دوست بنانا پسند نہیں کرتا‪ ،‬بلکہ اس کی فحش باتوں اور برے کاموں‬
‫سے بچنے کے لئے اس سے دوری اختیار کرنے میں اپنی بھالئی محسوس کرتا ہے۔ نبی‬
‫کریم مسلم ارشاد فرمایا‪" :‬مومن محبت اور الفت کا حامل ہوتا ہے اور اس شخص میں‬
‫کوئی خوبی اور بھالئی نہیں جو نہ خود محبت کرےاور نہ لوگوں کو اس سے الفت ہو‬
‫‪1‬‬
‫۔‬

‫‪ 1 1‬مستدرک للحاکم‪ ،‬ابو عبد هللا حاکم نیساپوری دارلکتب العلمیة‪ ،‬بیروت‪ ،‬ط ‪ ،۲ ، ۲۰۰۱‬ج ‪ ،۱‬ص ‪،١٤٦‬‬
‫حدیث ‪67‬‬
‫مسلمان برے دوستوں سے بچتے ہوئے اللہ کے نیک اور صالح بندوں سے محبت اور‬
‫دوستی کرتا ہے۔ وہ سب لوگ جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے باغی‬
‫اور فاسق ہیں‪ ،‬وہ ان سے بغض رکھتا ہے۔ گویا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ‬
‫وسلم کی محبت اس کی محبت ہے اور اللہ اور سول صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی‬
‫اس کی دشمنی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد عالی ہے ‪:‬‬

‫ان[‬
‫م َ‬‫ل الْ ِإ ْي َ‬
‫م َ‬
‫اس َتكَ َ‬ ‫ض لِلهِ َوأَ ْع َطى ِ‬
‫هلل َو َم َن َع لِلهِ َف َق ِد ْ‬
‫َ‬ ‫] َم ْن أ َ َح ُّ‬
‫ب لِلهِ َوأ ْب َغ َ‬

‫جو شخص اللہ کے لیے کسی سے محبت و بغض رکھے اور اللہ ہی کے لیے کوئی چیز‬
‫‪1‬‬
‫دے اور روکے ‪ ،‬تو اس نے اپنا ایمان مکمل کر لیا۔‬

‫اچھے لوگوں سے میل جول رکھنا اور دوستی کا ہاتھ بڑھانا ایک پکے مومن کی شان ہے‬
‫‪ ،‬جیسا کہ حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‪ :‬مومن دوستی کرتا ہے اور اس‬
‫سے دوستی کی جاتی ہے (اور) اس شخص میں کوئی خیر نہیں ہے جو نہ تو کسی‬
‫‪2‬‬
‫سے مانوی ہوتا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی مانوس ہوتا ہے۔‬

‫اچھے دوست بنانے والوں کے متعلق رسول اللہ علیم نے عظیم خوشخبری سنائی ہے‬
‫کہ ‪ :‬عرش کے ارد گرد نور کے منبر ہیں ‪ ،‬ان پر نورانی لباس اور نورانی چہروں والے لوگ‬
‫ہوں گے‪ ،‬وہ انبیاء و شہداء تو نہیں‪ ،‬مگر انبیاء و شہداء ان پر رشک کریں گے۔ صحابہ‬
‫کرام نے عرض کیا "اے اللہ کے رسول علیکم ! ہمیں بھی ان کی صفات بیان کیجئے ۔‬

‫‪ 2 1‬سنن ابی داود‪ ،‬ابو داؤد سلیمان بن اشعث سجستانی‪ ،‬دار احیاء اتراث العربی‪،‬‬
‫‪ ،۴ ،۲۰۱۴‬ج ‪ ،۱‬ص ‪۲۲‬‬

‫‪ 3 2‬مسند احمد‪ ،‬امام احمد بن حنبل‪ ،‬دار الكتب العلمیۃ‪ ،‬بیروت‪ ،‬ط ‪ ،۱۹۹۷ ، ۲‬ج ‪ ،۲‬ص ‪۲۳۳‬‬
‫آپ می کریم نے فرمایا‪ :‬یہ لوگ اللہ کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے‪ ،‬ایک‬
‫دوسرے کے پاس بیٹھنے والے اور اللہ ہی کے لیے ایک دوسرے کی مالقات کو آنے والے‬
‫‪1‬‬
‫ہیں۔‬

‫اچھے لوگوں سے دوستی رکھنا اللہ تعالی کی محبت کا ذریعہ ہے۔ حدیث قدسی میں‬
‫ہے‪ ،‬اللہ تعالی فر ماتا ہے‪ :‬میری محبت ان کے لیے ثابت ہو چکی ہے جو میرے لیے ایک‬
‫دوسرے سے ملتے ہیں اور میری محبت ان لوگوں پر ثابت ہو چکی ہے جو میری خاطر‬
‫‪2‬‬
‫ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں۔‬

‫یہی نہیں بلکہ آپ میں ہیں کہ ہم نے فرمایا‪ :‬قیامت کے دن جب اللہ تعالی کے عرش‬
‫کے سائے کے عالوہ کوئی سایہ نہ ہو گا‪ ،‬اس وقت اللہ تعالی سات بندوں کو اپنے عرش‬
‫کا سایہ نصیب فرمائے گا‪ ،‬جس میں سے وہ دو آدمی بھی ہوں گے جو اللہ کے لیے ایک‬
‫‪3‬‬
‫دوسرے سے محبت رکھتے اور اللہ ہی کے لیے ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔‬

‫احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں‬
‫اچھے لوگوں کے اوصاف اور خوبیاں بیان کی ہیں‪ ،‬وہیں مرے اور ناپسندیدہ لوگوں کی‬
‫بھی پہچان بتادی ہے‪ ،‬تاکہ ایسے لوگوں سے دور رہا جائے۔ اس سلسلے میں ایک اصولی‬
‫بات یہ ہے کہ ہر وہ انسان جس میں کسی طرح کی خیر کی امید نہ رکھی جائے‪ ،‬حتی‬
‫کہ اس کے شر سے بھی لوگ محفوظ نہ ہوں تو وہ شخص بد ترین انسان مانا جائے گا‪،‬‬

‫‪ :1‬سنن النسائى‪ ،‬احمد بن شعيب النسائی ‪،‬دار الکتاب‪ ،‬قابره ‪ ،۲‬سن ‪ ،۲۰۰۲‬ج‪ ،۳‬ص‪۳۵۳‬‬

‫‪ : 2‬مستدرک حاکم‪ ،‬ج ‪ ،۲‬ص ‪۲۱۱‬‬

‫‪ :3‬الصحيح للبخاري‪ ,‬محمد بن اسماعيل دار القلم بيروت ‪۱۴۰۱ ,۱‬ه‪ ,‬ج ‪ ،۱‬ص‪۲۳۳‬‬
‫کیونکہ ایسی صورت میں وہ معاشرے کے فساد و بگاڑ کا سبب بنے گا۔ نبی کریم صلی‬
‫اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے ‪ :‬تم میں بد ترین شخص وہ ہے جس سے دوسرے لوگوں‬
‫‪1‬‬
‫کو نہ خیر کی امید ہو ‪ ،‬نہ اس کے شر سے لوگ محفوظ ہوں۔‬

‫اللہ تعالی نے انسانوں کو پیدا کر کے مختلف قبیلوں اور خاندانوں میں تقسیم فرمادیا‬
‫ہے۔ پھر یہ انسان مل جل کر زندگی گزارنے لگے۔ یہی مشترکہ اجتماعی زندگی معاشرہ‬
‫کہالنے لگا اور اس میں رہنے والے انسان معاشرہ کے افراد کہالنے لگے یعنی افراد‬
‫معاشرے کے تشکیل کیلئے اجزا اور معاشرہ اس کا کل ہے۔ لفظ معاشرہ کا مطلب ایک‬
‫دوسرے کے ساتھ مل جل کر زندگی گزارنا ہے لیکن اصطالح میں معاشرہ سے مراد وہ‬
‫انسانی اجتماعی زندگی ہے جو کسی خاص فکر و عمل کے نظام پر چل رہی ہو ‪ ،‬اگر‬
‫کچھ انسان ایک جگہ جمع ہو کر بے مقصد زندگی گزاریں تو اسے معاشرہ نہیں کہا‬
‫جائے گا بلکہ وہ صرف انسانوں کا ایک غیر منظم ہجوم ہو گا اور انسانیت کی شرافت‬
‫کے غلبہ کے بجائے اس معاشرے کی سماجی اقدار پر بہیمیت کا غلبہ ہو گا۔ معاشرہ‬
‫افراد کے ایک ایسے گروہ کو کہا جاتا ہے کہ جس کی بنیادی ضروریات زندگی میں ایک‬
‫دوسرے سے مشترکہ روابط موجود ہوں اور معاشرے کی تعریف کے مطابق یہ الزم‬
‫نہیں کہ ان کا تعلق ایک ہی قوم یا ایک ہی مذہب ہو ۔ جب کسی خاص قوم یا مذہب‬
‫کی تاریخ کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو عموما ً اس کا تذکرہ معاشرے کے طور پر‬
‫کیا جاتا ہے جیسے ہندوستانی معاشرہ‪ ،‬مغربی معاشرہ یا اسالمی معاشرہ اسالم میں‬
‫مشترکہ بنیادی ضروریات زندگی کے اس تصور کو مزید بڑھا کر بھائی چارے‪ ،‬فالح‬
‫انسانیت اور فالح و بہبود پر مبنی معاشرے کا تصور دیا گیا‪ ،‬ایک ایسا تصور جس کے‬
‫سامنے مع اشرے کی تمام لغاتی تعریفیں اپنی چمک کھو دیتی ہیں۔ سورۃ آل عمران‬

‫‪ 1‬جامع الترمذى‪ ،‬محمد بن عيسى الترمذى‪ ،‬دار الكتب بيروت ‪،‬ط‪ ۱۴۰۸ ،۲‬ه‪ ،‬ج‪ ،۱‬ص‪۲۳۳‬‬
‫میں اسی تصور کی ایک جھلک دکھائی گئی ہے کہ معاشرہ کیا ہے یا کیا ہونا چاہئے‪،‬‬
‫‪1‬‬
‫(مفہوم) تم اچھے کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو ۔‬

‫اس قرآنی تصور سے ایک ایسے معاشرے کے قیام کی راہ کھلتی ہے جس میں تمام‬
‫افراد کو بنیادی ضروریات زندگی بھی میسر ہوں اور ذہنی آسودگی بھی۔ کسی بھی‬
‫معاشرے کو اس وقت تک ایک اچھا معاشرہ نہیں کہا جا سکتا جب تک کہ اس کے‬
‫ہر فرد کو یکساں شہری نہ سمجھا جائے اور ایک کمزور انسان کو بھی وہی حقوق‬
‫حاصل نہ ہوں جو ایک طاقتور کو حاصل ہوتے ہیں خواہ یہ کمزوری طبعی ہو یا معاشی‬
‫یعنی سماجی مساوات بال تفریق رنگ و نسل معاشرے کی تشکیل کی بنیادی ا کائی‬
‫ہے۔ انصاف کے بغیر معاشرے بہت جلد ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ کسی بھی‬
‫معاشرے میں فرد اور معاشرہ باہم الزم و ملزوم ہیں‪ ،‬جس طرح فرد معاشرے سے الگ‬
‫ہو کر ایک بے حقیقت ا کائی کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے ‪ ،‬اسی طرح معاشرہ افراد کے‬
‫بغیر وجود میں نہیں آسکتا۔ دوسرے لفظوں میں افراد کی مجموعی حیثیت کا نام‬
‫معاشرہ ہے۔ ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کیلئے فرد کی اصالح معاشرہ کی اصالح‬
‫پر منتج ہو گی اور فرد کا بگاڑ پورے معاشرہ کے بگاڑ کا باعث بنے گا۔ اسی لئے اسالم‬
‫نے فرد اور معاشرہ دونوں کی اصالح کا اہتمام کیا ہے تاکہ کہیں دونوں کے درمیان بعد‬
‫پیدا نہ ہو جس سے معاشرتی بگاڑ کی راہ ہموار نہ ہو جائے۔ ساتھ ہی فالحی معاشرے‬
‫کی تشکیل بہترین انسانی خصائل کی بنیاد پر رضا کارانہ ہونی چاہئے کیونکہ قوانین‬
‫کی سختی مزاجوں کو سلجھانے کے بجائے بگاڑتی ہے۔ سماجی ماہرین کا کہنا ہے کہ‬
‫انفرادی رویے ہی معاشرتی رویوں کے عکاس ہوتے ہیں۔ آپ نے کسی سوسائٹی کا ڈی‬
‫این اے اور تجزیہ کرنا ہو تو اس سوسائٹی کے چند گنے چنے افراد کو ہی شمار کر کے‬

‫‪ 1‬سورة آل عمران‪۱۱۰ ،‬‬


‫آ پ اگر مشاہدہ کی چھلنی سے گزاریں گے تو آپ کو اس معاشرے کی تمام اجتماعی‬
‫بیماریوں کا علم ہو جائے گا اور بیماریوں کے خالف مدافعتی نظام کا کٹھا چٹھا بھی‬
‫سامنے آ جائے گا۔ اس وقت ہمارا معاشرہ فکری پسماندگی‪ ،‬انتشار اور ابتری کی جس‬
‫صورت حال سے دوچار ہے‪ ،‬جبکہ یہ المیہ تمام پسماندہ ممالک کا مشترکہ ہے‪ ،‬اس بے‬
‫چینی کی صور تحال پر ہر صاحب بصیرت ہر اساں اور پریشان ہے۔ ہماری سماجی‬
‫زندگی میں ہر سطح پر ایسے رویے رائج اور جاری ہیں جو کسی بھی زندہ معاشرے‬
‫میں شرمناک سمجھے جاتے ہیں۔ اجتماعیت پر آنے کے بجائے ہم اپنی ذاتی خواہشات‬
‫ک ی تکمیل کی خاطر تجرد پسند بن گئے ہیں اور یہی عمل تجرید کسی بھی مثالی‬
‫معاشرہ بنے کیلئے زہر قاتل ہے۔ عمومی طور پر ان اجتماعیت گریز سماجی اطوار اور‬
‫رویوں پر تنقید کی جاتی ہے‪ ،‬ان مسائل اور مصائب کی نشان دہی کی کوشش کی‬
‫جاتی ہے اور اس تنقید اور نشان دہی کے عمل کو مثبت بھی قرار دیا جاتا ہے‪ ،‬مگر نتیجہ‬
‫وہی ڈھاک کے تین پات۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے ہم اصالح کی خاطرخیر کو‬
‫بحیثیت مجموعی کیوں قبول نہیں کرتے ‪ ،‬ہم معاشرتی ترقی کے بجائے تنزل کی قعر‬
‫مذلت کی طرف کیوں گامزن ہیں ؟ سماجی سطح پر رائج اس ابتری اور انتشار سے‬
‫نجات کیوں ممکن نہیں ہو رہی؟ ان سواالت کے جواب سہل نہیں ہیں۔ فکری سطح‬
‫پر اجمال کا شکار معاشرے میں ان سوالوں کا جواب تالشنا بھی نہیں چاہا کرتے کہ‬
‫ایسے معاشروں میں بسنے والے لوگوں کے ہاں جذب دروں اور یقین ذات کے سوتے‬
‫خشک ہو چکے ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو بدلنے کے بجائے ہر وقت معجزوں کے منتظر‬
‫ہوتے ہیں۔ ایسے میں سماجی دانشوروں پر الزم ٹھہرتا ہے کہ وہ صرف پسماندہ فکری‪،‬‬
‫انتشار اور ابتری کے واقعات کو زیر بحث نہ الئیں بلکہ اس صورت حال کی بنیادی‬
‫وجوہات کو زیر بحث التے ہوئے نئے سماجی حاالت اور ضروریات کے مطابق فرد کے‬
‫رویوں کے تعین کے لئے تجاویز مرتب کریں‪ ،‬سماجی برائیوں کی اصالح کی خاطر تجزیہ‬
‫کریں اور معاشرے کو نئی راہیں بجھائیں تاکہ جہاں دھواں اٹھ رہا ہو پانی ادھر ہی‬
‫پھینکا جائے۔ مگر ہم ایسا نہیں کر رہے۔ دوسرا یہ کہ ہمارے ہاں مستقبل بینی اور دور‬
‫اندیشی کا فقدان ہے۔‬

‫مثالوں اور تشبیہات و تمثیالت سے اگر کسی بات کو سمجھایا جائے تو بات زیادہ‬
‫سمجھ میں آتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مثالوں اور تشبیہات کی مدد سے‬
‫محسوسات کے ذریعہ غیر محسوس باتوں کو جانی اور دیکھی ہوئی حقیقتوں کے‬
‫ذریعہ انجانی اور ان دیکھی حقیقتوں کو اس طرح سمجھایا ہے کہ عام آدمی بھی اسے‬
‫سمجھ لے۔ رسول ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماحول کی اہمیت اور اس کے اثرات‬
‫کو ایک مثال کے ذریعہ سے سمجھایا ہے۔‬

‫آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‪:‬‬

‫] انما مثل الجليس الصالح و الجليس السوء كحامل المسک و نافخ الكير فحامل المسك اما ان‬
‫يحذیک و ام ا ان تبتاع منہ و اما ان تجد من ريحا طيبة و نافح الكير اما ان يحرق ثیابک و اما ان تجد‬
‫‪1‬‬
‫ريحا خبیثہ[‬

‫نیک و بد ہم نشیں اور دوست کی مثال اس طرح ہے جیسے مشک واال اور بھٹی‬
‫پھونکنے واال ‪ ،‬پس مشک واال یا تو تجھے مشک کا تحفہ دے دے گا یا تو اس سے مشک‬
‫خریدے گا‪ ،‬یا پھر کم از کم اس کے پاس بیٹھنے سے تجھے عمدہ خوشبو تو سونگنے کو‬
‫ملے گی ہی‪ ،‬اور بھٹی پھونکنے واال یا تو تیرے کپڑوں کو جال دے گا اور یا کم از کم ) اس‬
‫کے پاس بیٹھنے سے تجھے بد بو سونگھنا پڑے گی۔‬

‫اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو مثال دے کر سمجھایا ہے کہ‬
‫انسانی زندگی میں ماحول واطراف ‪،‬اچھے برے لوگوں کی صحبت و ہم نشینی اور گرد‬

‫‪ 9 1‬الصحيح لمسلم‪ ،‬مسلم ابن حجاج القشيرى‪ ،‬كتاب فضائل القران ‪،‬داراالشاعت ‪،‬بیروت ط ‪ ، ۲‬كتاب البر‬
‫والصلة واآلداب‪ ،‬ج ‪ ،۲‬ص ‪۲۵۵‬‬
‫و پیش کا بڑا اثر پڑتا ہے ‪ ،‬انسان جس ماحول میں رہتا ہے ویسے ہی اثرات اس کی زندگی‬
‫پر پڑتے ہیں‪ ،‬انسان اگر میدانی اور ہم وار عالقہ میں رہتا ہے یا شہری اور متمدن ماحول‬
‫میں رہتا ہے تو اس کی زندگی میں بھی وہ اثرات نمایاں رہتے ہیں۔ عموما‬

‫وہاں کے لوگوں کا ذہن معتدل اور ہموار ہوتا ہے ‪ ،‬ان کے اندر ضد‪ ،‬ہٹ دھرمی‪ ،‬شدت و‬
‫سختی اور اجڑ پن نہیں ہوتا۔ اس کے بر عکس جولوگوں پہاڑی‪ ،‬غیر ہموار اور جنگلی‬
‫عالقوں میں رہتے ہیں یاد یہات میں رہتے ہیں تمدن اور مدنیت سے ان کا سابقہ نہیں‬
‫پڑتا ان کے اندر گنوار پن‪ ،‬سختی اور شدت زیادہ ہوتی ہے‪ ،‬ذہنی اور فکری اعتدال سے‬
‫عموما ً وہاں کے لوگ محروم ہوتے ہیں۔ ایک حدیث شریف سے بھی اس تائید ہوتی ہے‬
‫کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‪:‬‬

‫]من سكن البادية فقد جفا[‬

‫جو دیہات کا رہنے واال ہوتا ہے یعنی دیہاتی آدمی وہ سچ مچ سخت مزاج اور ضدی‬
‫ہوتا ہے۔‬

‫شروع شروع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بدوی صحابی ملنے آتے تھے ان کی‬
‫گفتگو اور ان کا انداز کالم سخت ہوتا تھا‪ ،‬لیکن بعد میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی‬
‫صحبت کیمیا اثر نے ان کی زندگی اور ماحول میں ایک انقالب برپا کر دیا پھر وہی‬
‫صحابی دوسروں کے لئے اسوہ اور نمونہ بن گئے۔‬

‫معلوم یہ ہوا کہ انسان پر ماحول کا زبردست اثر پڑتا ہے۔ جو خارجی عوامل انسان پر‬
‫بہت زیادہ اثرات مرتب کرتے ہیں وہ بنیادی طور پر دو ہیں ایک ماحول دوسرا تعلیم۔‬
‫تعلیم کے اثرات انسانی زندگی میں کس قدر نمایاں ہیں یہ کسی سے مخفی و پوشیدہ‬
‫نہیں خاندان کا اگر ایک بچہ پڑھ لکھ کر کامیاب ہو جاتا ہے اور وہ بڑا بن جاتا ہے تو‬
‫صرف گھر اور خاندان ہی نہیں بلکہ آنے والی نسلوں میں تبدیلی اور انقالب آجاتا ہے۔‬
‫دوسری چیز ہے ماحول ‪ :‬ماحول کے اصل معنی تو ہیں گرد و پیش کے ‪ ،‬لیکن ماحول‬
‫کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جن لوگوں کے درمیان رہتا ہے‪ ،‬فکر و نظر اور عملی زندگی میں‬
‫ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ اس کو ایک مثال سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ پانی‬
‫کی اصل فطرت ٹھنڈا ہوتا ہے ‪ ،‬وہ نہ صرف خود ٹھنڈا ہوتا ہے ‪ ،‬بلکہ دوسرے کو بھی‬
‫ٹھنڈک پہنچاتا ہے لیکن جب سخت گرمی ‪ ،‬لو اور تپش کا موقع ہوتا ہے اور دھوپ کی‬
‫حدت و شدت اور اس کی تمازت بڑھ جاتی ہے تو پانی بھی گرم ہو جاتا ہے اور پینے‬
‫والوں کی پیاس بجھائے نہیں بجھتی۔ اسی طرح انسان پر ماحول کا اثر پڑتا ہے۔ اگر اس‬
‫کو نیک ‪ ،‬شریف اور با اخالق لوگوں کا ماحول میسر آتا ہے تو اس کی فطری صالحیت‪،‬‬
‫تقوی اور نیکی پروان چڑھتی ہے اور اس کی خوبیاں دو چند ہو جاتی ہیں۔ اس کی مثال‬
‫ایسی ہی ہے جیسے پانی میں برف ڈال دیا جائے کہ اس سے اس کی ٹھنڈک اور بڑھ‬
‫جاتی ہے۔ اور پھر یہ پانی پیاسوں کے لئے ا کسیر بن جاتا ہے۔ اور اس کے بر عکس اگر‬
‫انسان کو ماحول غالط ملے تو وہ خراب ہو جاتا ہے اور اس کے اندر جو خوبیاں ہوتی ہیں‬
‫وہ بھی بتدریج ختم ہو جاتی ہیں۔ اس کی مثال اس صاف و شفاف پانی کی ہے جس‬
‫کے اندر کسی نے گندگی ڈال دی ہو۔‬

‫یہاں یہ حقیقت بھی ذہن میں رہے کہ انسان فطرتا نیک ہوتا ہے اس کی فطرت میں‬
‫بنیادی طور پر خیر ہی کا غلبہ رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہر شخص سچائی ‪ ،‬عدل‪ ،‬انصاف‪،‬‬
‫دیانت داری ‪ ،‬مروت اور شرم و حیا کو قابل تعریف سمجھتا ہے اور ان اوصاف و کماالت‬
‫کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے ‪ ،‬اس کے مقابلے میں جھوٹ‪ ،‬ظلم ‪ ،‬خیانت بے حیائی وبے‬
‫مروتی بخل اور لچر پنی کو نا پسند کرتا ہے۔ ایک آدمی اگر جھوٹ بولتا ہے لیکن کوئی‬
‫دوسرا اس کو جھوٹا کہہ دے تو اس کو تکلیف پہنچتی ہے اور وہ اپنے کو سچا ثابت‬
‫کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ انسان بے حیائی کا کام کرتا ہے لیکن اپنے عمل پر پردہ ڈالنے‬
‫کی بھر پور کوشش کرتا ہے۔ یہ دراصل فطرت کی آواز ہے۔ اسی لئے نبی ا کرم صلی اللہ‬
‫علیہ وسلم نے فرمایا‪:‬‬
‫نص َرائِهِ ‪ ،‬أَ ْو‬ ‫اه يه َ َ‬
‫ودانِهِ أ ْو ُي َ‬
‫َ‬
‫ِط َرةِ َفأ َب َو ُ ُ َ‬ ‫م ُك ُّ‬
‫ل َم ْو ُلود ُِيول َُد َعلَى الف ْ‬ ‫ي ص َّلى ہللاُ َعل َْيهِ َو َ َّ‬
‫سل َ‬ ‫ل ال َّن ِب ُّ َ‬
‫﴿ َقا َ‬
‫‪1‬‬
‫سانِه﴾‬ ‫م ِج َ‬ ‫ُي َ‬

‫ہر بچہ اپنی فطرت کے اعتبار سے اسالم پر پیدا ہوتا ہے یعنی خدا کی فرمانبرداری کے‬
‫مزاج پر پیدا ہوتا ہے ‪ ،‬لیکن اس کے والدین اس کو یہودی‪ ،‬نصرانی یا مجوسی بنا دیتے‬
‫ہیں‬

‫معلوم یہ ہوا کہ خارجی حاالت کی وجہ سے بہت دفعہ انسان اپنی اصل فطرت سے‬
‫ہٹ جاتا ہے اور وہ فطرت کے خالف چیزوں کو اختیارکرنے لگتا ہے بلکہ کرلیتا ہے۔‬

‫ماحول و معاشرہ (خاندان و قبیلہ ) اور سوسائٹی کا اثر انسانی زندگی پر بہت گہرا‬
‫اور دیر پاہوتا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جانہ ہوگا کہ عموما انسان ماحول اور‬
‫معاشرے ہی کی پیداوار ہوتے ہیں‪ ،‬بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنی سوسائٹی‬
‫اور اپنے ماحول واطراف سے بلند ہو کر فکر و عمل کی صالحیت رکھتے ہوں‪ ،‬عام طور‬
‫پر ماحول اور معاشرے کا جور نگ ‪ ،‬ڈھنگ اور آہنگ ہوتا ہے اور سوسائٹی میں جو رسم‬
‫درواج اور طرز معاشرت اور زندگی گزارنے کا طور و طریقہ ہوتا ہے افراد بھی شعوری و‬
‫غیر شعوری طور پر اسی رنگ ڈھنگ میں رنگ جاتے ہیں اور اسی قالب میں ڈھل‬
‫جاتے ہیں‬

‫انسان پر گھر سے باہر کے ماحول میں سب سے زیادہ جن کا اثر پڑتا ہے وہ دوست و‬


‫احباب اور ساتھی ہوتے ہیں۔ مشاہدہ یہی ہے کہ انسانی زندگی اور اس کے کردار و اخالق‬
‫پر سب سے گہرا اثر ہم عمر ساتھیوں اور دوستوں کا پڑتا ہے‪ ،‬ساتھیوں کی ذہنیت اور‬

‫‪ :1‬الصحيح المسلم‪ ،‬مسلم ابن حجاج القشيري کتاب فضائل القرآن‪ ،‬داراالشاعت بيروت‪ ،‬ط‪ ،۲‬ج‪ ،۲‬ص‪۱۵۵‬‬
‫پسندیدگی و ناپسندیدگی کا معیار ‪ ،‬ان کے رجحانات و میالنات انسان پر ضرور اثر انداز‬
‫ہوتے ہیں ‪ ،‬اسی لئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‪:‬‬

‫‪1‬‬
‫]المرء علی دین خلیلہ ‪ ،‬فلينظر احدكم من يخالل[‬

‫آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے تو اسے غور کرنا چاہیے کہ وہ کس سے دوستی کر‬
‫رہا ہے۔‬

‫ایک دوسری جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوٹوک الفاظ میں متنبہ فرمایا‪:‬‬

‫‪2‬‬
‫]ایاک و قرین السوء فانک به تعرف[‬

‫تم برے ساتھی سے بچو کیوں کہ تم بھی اسی کے ساتھ پہچانے جاؤ گے۔‬

‫صرف ماحول و معاشرہ ہی کیا انسان پر آب و ہوا اور مٹی و عالقہ کے اثرات بھی مرتب‬
‫ہوتے ہیں نیز خورد و نوش اور ستر و لباس پر بھی‬

‫عالقہ اور آب و ہوا کے آثار نظر آتے ہیں۔‬

‫ایک بار ایک مسلم بادشاہ جنگی مہم پر اپنے الؤ لشکر کے ساتھ نکال‪ ،‬مہم پر نکلنے‬
‫سے پہلے حسب عادت اپنی والدہ سے ملنے اور دعائیں لینے گیا‪ ،‬والدہ نے ڈھیر ساری‬
‫دعائیں دیں اور نصیحت و وصیت بھی کی اور خاص طور پر تلقین کی کہ بیٹا ! نماز‬
‫کی پابندی کرنا اور فجر کی نماز کاکچھ زیادہ ہی اہتمام کرنا۔‬

‫‪ :1‬ابو داود‪ ،‬ج ‪ ،۲‬ص‪۳۳۲‬‬

‫‪ 12: 2‬فيض القدير‪ ،‬شرح الجامع الصغير‪ ،‬محمد عبد الرؤوف المناوي‪ ،‬دار المعرفة‪ ،‬سن ‪ ،۱۹۷۱‬ج‪۱۲۲ ،۲‬‬
‫بادشاہ اپنے الؤ لشکر اور فوجیوں کے ساتھ نکال اور جب اس عالقہ اور شہر تک پہنچ‬
‫گیا اور شہر کا محاصرہ کر لیا تو پہلی رات جب وہ خیمہ میں سویا ہواتھا فجر کی نماز‬
‫قضا ہو گئی یا تاخیر سے ادا کی۔ اس کو بہت دکھ اور افسوس ہوا کہ والدہ کی نصیحت‬
‫پر پہلے ہی دن عمل نہیں کر سکا وہ بہت مضطرب اور پریشان ہوا اور ذہن میں یہ‬
‫بات آئی کہ یہاں کی مٹی میں کوئی ایسی تاثیر تو نہیں ہے ؟ سال دو سال کے بعد‬
‫جب بادشاہ مسم فتح کر کے اور عالقہ پر قابض ہو کر دار الحکومت لوٹا تو اپنے ساتھ‬
‫انہوں نے وہاں کی تھوڑی سی مٹی بھی لے لی۔ واپسی پر والدہ سے مالقات کی اور‬
‫مہم اور لڑائی کی پوری تفصیالت سنائی اور پہلے ہی دن فجر کی نماز قضا ہونے یا‬
‫تاخیر سے ادا کرنے کا بھی ذکر کیا۔ والدہ کی خدمت سے فارغ ہو کر انہوں نے چپکے‬
‫سے وہ مٹی ماں کے تکیہ کے نیچے رکھ دی اتفاق دیکھئے کہ اس دن ان کی والدہ کی‬
‫آنکھیں بھی دیر سے کھلی اور بالکل اخیر وقت میں فجر کی نماز پڑھ سکیں‪ ،‬صبح کو‬
‫باد شاہ جب والدہ جان سے ملنے گیا تو ماں بولی بیٹا ! آج میری بھی آنکھ دیر سے‬
‫کھلی اور کسی طرح فجر ادا کر سکی۔ بادشاہ نے تکیہ کے نیچے سے وہ مٹی اٹھائی اور‬
‫والدہ کو دکھائی کہ یہ اس مٹی کی تاثیر ہے۔ میں یہ مٹی وہاں سے اپنے ساتھ الیا تھا۔‬

‫اس واقعہ کی صداقت اور حوالہ پر مت جائیے بچپن کا سنا ہوا ایک واقعہ تھا جو‬
‫موضوع سے ہم آہنگ تھا اس لئے اس کو ذکر کر دیا۔ لیکن یہ تو درست ہے کہ ماحول‪،‬‬
‫خاندان اور آب و ہوا نیز مٹی کے اثرات انسان پر مرتب ہوتے ہیں۔ ماحول و معاشرہ کی‬
‫اسی اہمیت کی وجہ سے قرآن و حدیث میں اس کی خاص طور پر تاکید کی گئی ہے‬
‫کہ انسان اچھے ماحول میں رہے اور خراب ماحول سے اپنے آپ کو بچائے۔‬

‫اللہ تعا ٰلی نے ارشاد فرمایا‬


‫‪1‬‬
‫ن﴾‬
‫الص ِدق ِْی َ‬
‫ّٰ‬ ‫﴿ ٰٰۤیاَیُّ َها ا َّلذ ِْی َن اٰ َم ُنوا ا َّت ُقوا ال ّٰل َه َو ُك ْو ُن ْوا َم َع‬

‫اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور تم راست گو اور راست عمل لوگوں یعنی بچے لوگوں‬
‫کے ساتھ رہا کرو۔‬

‫آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہجرت مدینہ کے بعد صحابہ کرام کو حکم دیا اور تمام‬
‫مسلمانوں پر یہ ضروری اور الزم کیا کہ وہ اپنے اپنے عالقہ کو چھوڑ کر مدینہ چلے آئیں‬
‫چنانچہ تاریخ گواہ ہے کہ اس حکم کے ملتے ہی مجاز بلکہ جزیرۃ العرب کے طول و‬
‫عرض سے صحابہ ہجرت کر کے مدینہ منورہ آگئے اور یہیں مقیم و آباد ہو گئے۔ لیکن‬
‫جب فتح مکہ کا آیا تو ایسا نہیں ہوا کہ پورا مدینہ خالی ہو گیا ہو بلکہ مدینہ کا تو‬
‫خطرہ میں نہ پڑ جائے ‪ ،‬اس لیے بہت سے بوڑھے بچے عورتیں اور جوان مدینہ ہی میں‬
‫رہے۔ علماء کرام نے لکھا ہے کہ ہجرت کے حکم کی بنیادی وجہ اور سبب یہی تھا کہ‬
‫لوگوں کو ایک معیاری اسالمی‪ ،‬دینی اور ایمانی ماحول ملے۔ انہیں پاکیزہ معاشرہ‬
‫نصیب ہو‪ ،‬وہ لوگوں کو دیکھ کر دین و ایمان کو سیکھ سکیں اور اس ماحول میں رہ‬
‫کر اعلی اور عمدہ اخالق کا نمونہ پیش کر سکیں۔ دین اور دنیا کو شریعت کے مطابق‬
‫کیسے برتیں اس کو جان سکیں۔ یہ ماحول ہی کا اثر تھا کہ جہاں کے لوگ ظلم و‬
‫زیادتی‪ ،‬قتل وغارت گری‪ ،‬بے حیائی وبے شرمی اور شراب و کباب کے لئے مشہور تھے‪،‬‬
‫جو چھوٹی چھوٹی اور معمولی باتوں پر برسوں جنگ کرتے تھے ‪ ،‬جہاں بعض خاندان‬
‫اور قبیلے لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیتے تھے اور جہاں لوگ اپنی اوالد کو‬
‫انتقام لینے کی وصیت کرتے تھے ‪،‬انہوں نے ایک ایسا پاکیزہ وایمانی معاشرہ اور ایسی‬
‫بلند سوسائٹی کا نقشہ چھوڑا کہ انبیاء کرام کے سواز مین کے سینے پر اور آسمان کے‬

‫‪ :: 1‬سورة التوبة ‪۱۱۹‬‬


‫سائے میں اس کا کوئی نمونہ نہیں ملتا‪ ،‬یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بافیض‬
‫صحبت اور ماحول کا ہی اثر تھا۔‬

‫نبی ا کرم صلی اللہ علیہ و سلم نے مختلف انداز سے اور مختلف طریقوں پر ماحول‬
‫سازی اور معاشرے کو دینی‪ ،‬ایمانی اور اسالمی بنانے کا حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ‬
‫وسلم نے ایک طرف یہ حکم دیا کہ نیک لوگوں سے تعلق رکھو‪ ،‬ان کی صحبت اختیار‬
‫کرو۔ نیک لوگوں کو اپنے دستر خوان پر بالو اور دوستی اور دوست کے انتخاب میں‬
‫نیکی اور شرافت کو بنیاد بنا و یعنی نیک لوگوں سے دوستی کرو‪ ،‬وہیں اس کے لئے‬
‫کہ گھر کا ماحول بھی پاکیزہ اور دینی و ایمانی رہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد‬
‫فرمایا کہ فرض نمازوں کے عالوہ دوسری نمازیں سنت و نوافل گھر میں پڑھو۔ فقہاء‬
‫اور اہل علم اس کو افضل بتایا ہے۔ بخاری شریف کی روایت ہے ‪:‬‬

‫‪1‬‬
‫] فصلوا ايها الناس في بيوتكم فان افضل صلاة المرء فی بیتہ الا المكتوبة [‬

‫اے لوگو ! ان نمازوں کو اپنے گھر میں پڑھا کرو اس لئے کہ پنجگانہ نماز چھوڑ کر انسان‬
‫کی سب سے بہتر نماز وہ ہے جو وہ اپنے گھر میں پڑھے۔‬

‫حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان‬
‫‪2‬‬
‫اور ارشاد منقول ہے کہ گھروں میں نماز پڑھا کرو‪ ،‬اس کو قبرستان نہ بنا و‬

‫‪ : 1‬صحيح البخارى‪ ،‬ج ‪ ،۱‬ص ‪ ،۲۳۳‬رقم الحدیث ‪۷۲۹۰‬‬

‫‪ :15: 2‬الجامع الصحيح لالمام مسلم‪ ،‬رقم الحديث ‪۷۷۷‬‬


‫فقہاء کرام نے بھی کتب فقہ میں یہ بات لکھی ہے کہ فرض نمازوں کے پہلے اور بعد‬
‫میں جو سنتیں ہیں انہیں گھر میں ادا کریں۔]و الافضل في السنن القبلية و البعدية‬
‫‪1‬‬
‫اداؤها في المنزل [‬

‫فرض نماز سے پہلے اور بعد کی سنتوں میں مستحب یہ ہے کہ گھر میں پڑھی جائیں۔‬
‫غور کیجئے کہ مسجد سے زیادہ محترم‪ ،‬قابل تقدیس اور پاکیزہ جگہ کون سی ہو سکتی‬
‫ہے اور نماز جیسی مہتم بالشان عبادت کے لئے اور کون سی جگہ ہے جو اس سے زیادہ‬
‫موزوں اور مناسب ہو۔ اس کے باوجود آنحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے سنن‬
‫و نوافل کو گھر میں پڑھنے کا حکم دیا۔ اس کی وجہ جو بالکل صاف سمجھ میں آتی‬
‫ہے وہ یہ ہے کہ اس سے گھر کا ماحول دینی بنے گانچے اور گھر کے دیگر افراد بڑوں کو‬
‫نمازپڑھتے ہوئے اور دعاو تسبیحات میں دیکھیں گے تو وہ بھی نماز پڑھیں گے ‪ ،‬بچے‬
‫بڑوں کی نقل اتاریں گے اور بچپن ہی سے نماز کی اہمیت اور عظمت ان کے دل میں‬
‫بیٹھ جائے گی اور گھر کا ماحول بھی نماز واال ماحول بنا رہے گا۔ اس طرح آپ صلی اللہ‬
‫علیہ وسلم نے مسلمانوں کو خاص طور پر اس کی ترغیب دی کہ لوگ زیادہ سے زیادہ‬
‫گھر میں قرآن مجید کی تالوت کیا کریں چنانچہ سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے‬
‫روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ‪ :‬اپنے گھروں کو قبرستان‬
‫نہ بناؤ بلکہ اس میں تالوت کیا کرو خاص کر سورہ بقرہ کی۔ جس گھر میں سورہ بقرہ‬
‫پڑھی جاتی ہے شیطان وہاں سے بھاگ جاتاہے۔‬

‫گھر کے اندر تالوت کا ماحول بنانے سے ماحول پاکیز ہیمنتا ہے اور اس طرح دینی ماحول‬
‫بنانے میں قرآن مجید کی تالوت بہت مفید اور موثر ہوتی ہے۔ بچے کے ذہن میں یہ بات‬

‫‪ :16: 1‬حاشیہ الطحطاوی‪ ،‬امام محمد احمد بن محمد بن اسماعيل الطحطاوی‪ ،‬دار الکتب العلمیة‪ ،‬بیروت‪ ،‬ط‬
‫‪ ، ۲‬سن ‪۱/۰۲ ،۱۹۹۹‬‬
‫بیٹھتی ہے کہ گھر کے اندر تالوت کرنا عبادت اور ثواب کا کام ہے اس لئے ہمیں بھی‬
‫تالوت کرنی‬

‫چاہیے۔‬

‫اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر کے اندر ذکر کرنے کی فضیلت بیان کی‬
‫چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‪:‬‬

‫‪1‬‬
‫]مثل البيت الذي يذكر ہللا فيه ‪ ،‬و البيت الذى لا يذكر ہللا فیہ مثل الحي و المیت[‬

‫‪ 17‬جس گھر میں اللہ کاذکر کیاجاتا ہے اور جس گھر میں اللہ کا ذکر نہیں ہوتا ان کی‬
‫مثال زندہ اور مردہ شخص کی ہے۔‬

‫اسی طرح شریعت نے اس بات کو بہتر قرار دیا اور پسند کیا کہ گھر میں بھی کوئی‬
‫خاص جگہ نماز کی ادائیگی کے لئے ہو ۔ اگر نماز پڑھنی ہو تو‬

‫کوشش کرے کہ وہیں نماز پڑھے۔ حدیث اور فقہ کہ کتابوں میں اس جگہ کو مسجد‬
‫البیت " سے تعبیر کیا گیا ہے۔‬

‫ماحول کو بگاڑ و فساد سے بچانے کی تدبیر کے طور پر شریعت کے اس حکم کو دیکھا‬


‫جا سکتا ہے کہ اگر کسی شخص کے مکان یازمین کے پڑوس میں مکان یاز مین فروخت‬
‫کی جائے تو پڑوسی کو اس میں حق شفعہ حاصل ہوتا ہے۔ اگر پڑوسی وہی قیمت ادا‬
‫کرنے کو تیار ہو جو قیمت‬

‫دوسرا دے رہا ہے تو اس کو پڑوسی کے ہاتھ ہی بیچنا واجب ہے۔‬

‫‪ : 1‬الصحيح لمسلم ‪ ،‬رقم الحديث ‪۹۷۷‬‬


‫فصل سوم‬

‫اسالمی معاشرے کے اقدار‬

‫فصل سوم‬

‫اسالمی معاشرے کے اقدار‬

‫اسالمی معاشرے کی تعریف‪:‬‬

‫اسالمی معاشرے سے مراد ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں اسالمی احکامات کی پیروی‬
‫ہوتی ہو اسالمی احکامات کی بجا آوری میں کسی پر کوئی قدغن نہ ہو اور جہاں‬
‫اسالمی شرعی احکامات کے پیش نظر اللہ کی توحید‪ ،‬انسانیت کا احترام اور اسالم کے‬
‫بنیادی عقائد پروان چڑھتے ہوں۔‬
‫اسالمی معاشرہ کے اثرات‪:‬‬

‫حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منصب نبوت پر فائز ہونے کے بعد شرک اور ضاللت‬
‫میں ڈوبے ہوئے سماج میں توحید کی صدا بلند کی مکۃ المکرمہ کے شرک زدہ ماحول‬
‫میں توحید کی یہ صدا بے حد نامانوس تھی‪ ،‬اور اس کی زد براہ راست رؤسائے کفار کے‬
‫موروثی دین باطل پر پڑ رہی تھی‪ ،‬اس لئے مخالفتوں کا ایک طوفان امڈ آیا‪ ،‬توحید کی‬
‫صدا پر لبیک کہنے والے گنتی کے چند افراد پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ‪ ،‬مگر ان‬
‫تمام مخالفتوں اور ایذارسانیوں کے باوجود قافلہ توحید بڑھتا گیا‪ ،‬باآلخر مدينة الرسول‬
‫میں ایک مثالی آئیڈیل اسالمی معاشرہ تشکیل پایا۔‬

‫صحابہ کرام کا ساج ایک نمونے کا مسلم سماج تھا‪ ،‬اور اسکی بے شمار امتیازی‬
‫خصوصیات و کماالت کی خوبیوں نے پورے عالم کو متاثر کیا اور پھر اس کے نتیجے میں‬
‫مشرق سے تا مغرب تک اسالم پھیال اور اسالم کا حلقہ اور دائرہ پھیلتا اور بڑھتا گیا‪،‬‬
‫مرور ایام سے پھر بعد کی صدیوں میں اس معاشرہ کی خصوصیات کم ہو نا شروع ہو‬
‫ئیں اور پھر اسکی تاثیر اور مقبولیت کا گراف بھی نیچا ہوتا گیا‪ ،‬اور اب موجودہ صورت‬
‫حال مسلم سماج کی یہ ہے کہ ہر طرف اخالقی طاعون پھیال ہوا ہے‪ ،‬اباحیت اور عریانیت‪،‬‬
‫مادیت اور حیوانیت کے باب میں نمونے کا مقام رکھنے والی یورپی تہذیب کی دریوزہ‬
‫گری اور اندھی تقلید نے تمام مذہبی اور اخالقی اقدار پر تیشے چال ڈالے ہیں‪ ،‬اور بقول‬
‫حافظ شیرازی‪:1‬‬

‫‪ 1 1‬حافظ کا نام محمد لقب شمس الدین اور تخلص حافظ حافظ نے خود اپنا نام یوں تحریر کیا ہے ‪ :‬محمد‬
‫بن المقلب بہ شمس الحافظ الشیرازی۔ حافظ کا سال والدت ‪ ۷۲۶‬ہجری مانا جاتا ہے۔ حافظ شیرازی کا ایک‬
‫بیٹا ‪ ۷۶۴‬ہجری میں فوت ہوا۔ اس وقت حافظ کی عمر ‪ ۳۷‬سال تھی۔ اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ حافظ کا‬
‫سال والدت ‪ ۷۲۶‬ہجری ہے۔ اس طرح حافظ کا سال وفات ‪ ۷۹۲‬ہجری تحریر کیا گیا ہے۔ اس طرح وفات کے‬
‫وقت حافظ کی عمر ‪ ۶۵‬سال تھی۔‬
‫]همه آفاق پر از فتنه و شر می بینم[‬

‫پوری دنیافتنہ اور شر کی آماج گاہ بنی ہوئی نظر آتی ہے۔‬

‫اور حدیث نبوی کے بموجب گناہوں کی بہتات اور گندگی نے تباہی کے دہانے پر کھڑا کر‬
‫دیا ہے‪ ،‬مسلم سماج کی یہ بد حالی اور بے راہ روی پورے انسانی سماج کی نگاہ میں‬
‫اُس کی دناءت اور رذالت کی منظر کشی کرتی ہے‪ ،‬اور مسلمانوں کی عملی زندگی پر‬
‫نگاہ رکھنے واال انسان متاثر ہونے کے بجائے مایوس‪ ،‬بدول و بد گمان اور نفور و گریزاں‬
‫ہوتا ہے۔‬

‫ایک اسالمی معاشرہ انسانی معاشرے کو اُسی وقت متاثر کر سکتا ہے جب وہ قرن‬
‫اول (عہد صحابہ) کے مثالی سماج کی نمایاں خصوصیات اختیار کرلے اور ان سے‬
‫انحراف کو اپنے لئے تباہی کی عالمت اُسی طرح باور کرے جس طرح صحابة الرسول‬
‫ان خصوصیات سے کسی بھی قیمت پر دست بردار ہو نا ہالکت کے مترادف سمجھا‬
‫کرتے تھے۔‬

‫صحابہ کرام کے معاشرے کی تمام خصوصیات کا احاطہ تو دشوار ہے‪ ،‬تاہم ان کے روشن‬
‫عناوین کچھ یوں ہیں ‪:‬‬

‫موقف حق پر محکم یقین اور استقامت ‪:‬‬

‫دل کی گہرائیوں سے حق قبول کر لینے کے بعد صحابہ کو ایسا پختہ یقین اور اپنے‬
‫موقف پر ایسا ثبات و استقالل حاصل ہو جاتا تھا که باد مخالف کے کتنے ہی جھکڑ کیوں‬
‫نہ چلیں‪ ،‬رکاوٹوں کا طوفان کیوں نہ آجائے اور مصائب و مشکالت کی بھٹیوں میں تپایا‬
‫کیوں نہ جائے وہ کوئی لچک اور نرمی پیدا کرنے پر تیار نہ ہوتے تھے ‪ ،‬دشمنوں کی‬
‫ترغیبات و تحریصات کا دام ہو یا تهدیدات و تشدیدات کی کارروائی‪ ،‬ان کے موقف میں‬
‫زبان حال یہ پیغام دیتی تھی۔‬
‫ِ‬ ‫سر مو انحراف نہ آتا تھا اور ان کی‬

‫کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف‬

‫کافی ہے اگر ایک خدا میرے لئے ہے‬

‫جذ به ایثار و قربانی معاشرتی زندگی کی کامیابی کار از ایثار و قربانی میں ہے ‪ ،‬صحابہ‬
‫کرام کا سماج ایثار و قربانی کا آئیڈیل سماج تھا‪ ،‬قرآن انصار صحابہ کےجذبہ ایثار کو‬

‫‪1‬‬
‫خصاصة﴾‬ ‫﴿و یوثرون على أنفسهم ولو كان بهم‬

‫وہ اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ خود اپنی جگہ محتاج کیوں نہ ہوں۔‬
‫ان الفاظ سے بیان کرتا ہے‪ ،‬سیرت صحابہ میں مالی ایثار کی بے شمار داستانیں ہیں ‪،‬‬
‫ہجرت نبوی کے پر خطر سفر کے موقع پر دشمنان اسالم کی طرف سے اجتماعی طور‬
‫پر قتل رسول کی منظم پالننگ معلوم ہونے کے باوجو د حضرت علی کا آپ صلی یہ‬
‫سکیم کے بستر مبارک پر آرام‪ ،‬اسی طرح سفر ہجرت کی دشوار گزاریوں میں حضرت‬
‫ابو بکر کی طرف سے والہانہ طلب پر شرکت ور فاقت جانی ایثار کے عدیم النظیر نمونے‬
‫ہیں‪ ،‬غزوات کا موقعہ ہو‪ ،‬حفاظت رسول کا موقعہ ہو ‪ ،‬تحفظ دین کا موقعہ ہو ‪ ،‬ملت‬
‫کی خدمت کا موقعہ ہو‪ ،‬ہر موڑ پر صحابہ کی قربانیوں اور ایثار کے ریکارڈ موجود ہیں‪،‬‬
‫اور اسالم سے محروم انسانی سماج پر صحابہ کے اس جذبے نے کیا کیا اثرات مرتب‬
‫کئے اور کس طرح وہ اسالم سے قریب آیا یہ بالکل واضح ہے۔‬

‫نافعیت اور مواسات‪:‬‬

‫‪ 2 1‬سورة الحشر ‪۹ :‬‬


‫سب سے بہتر انسان وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچائے‪ ،‬مسلمان وہی ہے جس کی‬
‫زبان دراز ویوں اور دست درازیوں سے انسان محفوظ رہیں ‪ ،‬مومن وہی ہے جس سے‬
‫لوگ اپنی جانوں اور مالوں کے سلسلے میں مامون وبے خوف ہیں‪ ،‬اللہ کا سب سے‬
‫محبوب بندہ وہ ہے جو اس کی مخلوق کے ساتھ حسن سلوک کرے ‪ ،‬ان بنیادوں پر آپ‬
‫صلی اللہ علیہ وسلم نے اسالمی معاشرہ قائم فرمایا تھا‪ ،‬صحابہ کے معاشرے کی‬
‫پوری تاریخ اس پر شاہد ہے کہ انھوں نے ہمیشہ یہی انداز اپنائے رکھا کہ ۔‬

‫مری زبان و قلم سے کسی کا دل نہ دکھے‬

‫کسی کو شکوہ نہ ہو زیر آسماں مجھے سے‬

‫حضرت جابر بن عبد اللہ کو پہلی مالقات میں یہ نصیحت کی تھی کہ تم کبھی کسی‬
‫کو برابھال مت کہنا‪ ،‬وہ فرماتے ہیں کہ پھر مرتے دم تک میں نے نہ کسی آزاد کو برا کہا‬
‫نہ کسی غالم کو ‪ ،‬اور انسان تو انسان ہے کسی اونٹ اور بکری کے لئے بھی سخت کلمہ‬
‫میری زبان سے نہیں نکال‪ ،‬دوسروں کے درد کو اپنا سمجھنا بلکہ اپنے درد سے زیادہ‬
‫اس کا احساس اور ہمہ وقت دوسروں کو نفع پہنچانےکی کوشش صحابہ کے معاشرے‬
‫کا طرئہ امتیاز تھا۔‬

‫عدل و مساوات ‪ :‬قرآن ایسا ایمانی معاشرہ چاہتا ہے جو انصاف کا علم بردار اور‬
‫مساوات کی روش پر قائم ہو ‪ ،‬طبقاتی تفاوت اور اونچ نیچ اسالم کی نگاہ میں جاہلیت‬
‫کی لعنت اور غالظت ہے‪ ،‬ظلم اور نا انصافی امن عالم اور بقائے انسانیت کی راہ کا‬
‫سب سے بڑار وڑا ہے‪ ،‬صحابہ کا معاشرہ عدل و مساوات کی شاہراہ پر گامزن تھا‪ ،‬اس‬
‫سماج میں ہر فرد عدل کا خوگر تھا‪ ،‬خواہ اس کی زد اس کی اپنی ذات یا اس کے والدین‬
‫و اقارب پر کیوں نہ آتی ہو ‪ ،‬اسی طرح مساوات اور برابری کے لحاظ سے بھی وہ معاشرہ‬
‫نمونے کا تھا‪ ،‬مشہور عسانی سردار جبلہ بن اسیم جس نے اسالم قبول کر لیا تھا اور‬
‫طواف کے دوران ایک دیہاتی مسلمان کا پاؤں اس کے تہ بند پر جاپڑا تھا‪ ،‬جس پر اس‬
‫نے اسے اتنی زور سے مارا کہ ناک کا بانسہ ٹیڑھا ہو گیا اور خون رسنے لگا‪ ،‬حضرت عمر‬
‫نے فیصلہ سنایا کہ یا تو بدو کو راضی کر دیا قصاص کے لئے تیار ہو جاؤ‪ ،‬جبلہ نے الکھ‬
‫نرمی کا معاملہ کرانا چاہا مگر حضرت عمر نے کہا کہ اسالم شاہ و گدا کا فرق نہیں‬
‫کرتا‪ ،‬اس کا قانون عام مساوات قانون ہے‪ ،‬باآلخر جبلہ نے کچھ مہلت لی‪ ،‬اور راتوں رات‬
‫بھاگ کر پھر عیسائی ہو گیا‪ ،‬مگر اسالمی قانون عدل و مساوات پر حضرت عمر نے آنچ‬
‫نہ آنے دی۔‬

‫اجتماعیت واخوت‪:‬‬

‫صحابہ کا معاشرہ باہمی الفت و محبت میں جسم واحد کی طرح تھا‪ ،‬اور باہمی اتحاد‬
‫و اجتماعیت میں ان کی کیفیت بنیان مرصوص" سیسہ پالئی ہوئی دیوار کی طرح‬
‫تھی‪ ،‬اوس و خزرج کی باہمی طویل خانہ جنگی اور سلسلہ کشت و خون اسالم کی‬
‫برکت سے باہمی محبت و الفت میں اس طرح تبدیل ہوئی کہ منافق اور یہود مل کر‬
‫بھی اس اجتماعیت میں دراڑ پیدا نہ کر سکے‪ ،‬اختالف کو ہوا دینی والی چیزوں سے ‪،‬‬
‫ہر طرح کی بد گمانیوں اور بے جاخدشات سے اور افواہوں پر یقین کرنے سے صحابہ کا‬
‫سماج پاک تھا‪ ،‬اور اسی لئے اس میں مثالی اتحاد اور اخوت کا جذبہ تھا‪ ،‬جو دوسروں‬
‫کو حد سے زیادہ متاثر و مرعوب کرتا تھا۔‬

‫قول و عمل کی یکسانیت‪:‬‬

‫قرآن کی صراحت کے مطابق قول و عمل کا تضاد اللہ کی نگاہ میں بے حد مبغوض‬
‫عمل اور انسانی سماج کے لئے زہر قاتل ہے‪ ،‬معاشرے کی اصالح کا بنیادی نقطہ یہ ہے‬
‫کہ ہر فرد غازی کردار ہو‪ ،‬حضرت عثمان غنی نے اپنا اول خطبہ خالفت اس حقیقت کے‬
‫اظہار سے شروع کیا تھا کہ آج مسلمانوں کو غازی گفتار رہنما کی ضرورت ہے نہ کی‬
‫غازی گفتار رہنما کی۔ عہد صحابہ قول و عمل کی یکسانیت میں ممتاز تھا‪ ،‬اور اس‬
‫معاشرے کا ہر فرد جو کہتا تھا سب سے پہلے اس پر عمل کر کے دکھاتا تھا‪ ،‬چنانچہ‬
‫اس کی تاثیر یہ سامنے آتی تھی کہ گروہ در گروہ لوگ آ کر اسالم کے دامن میں پناہ‬
‫لیتے تھے۔‬

‫پاکیزگی ‪:‬‬

‫اسالم کا مطالبہ انسان سے ہمہ جہتی پاکیزگی کا ہے‪ ،‬صحابہ کا معاشرہ سر سے لے‬
‫کر پاؤں تک پاکیزگی کے رنگ میں رنگا ہوا تھا‪ ،‬ان کے دل و دماغ باطل خیاالت اور باطنی‬
‫امراض سے پاک تھے ‪ ،‬ان کی نگاہ پاکیزہ تھی ‪ ،‬ان کی خورا ک و پوشاک پاک تھی‪ ،‬ان‬
‫کا ماحول ظلم اور عریانیت سے پاک تھا‪ ،‬ان کی انفرادی زندگی کا ہر پہلو اور گوشہ‬
‫پاکیزہ تھا‪ ،‬ان کی زبان پاک تھی‪ ،‬اور ان کی سیاست بھی مکر و فریب سے پاک تھی‪،‬‬
‫شراب کی رسیا عرب قوم کو جب اس کے ناپاک و حرام ہونے کا علم ہوا تو پورا مدینہ‬
‫شراب کی لعنت سے پاک ہو گیا‪ ،‬تاریخ صحابہ پاکیزگی کے بے شمار ہمہ جہتی نمونوں‬
‫سے ماال مال تاریخ ہے۔‬

‫ادائے حقوق‪:‬‬

‫اسالم نے بندگان خدا پر حقوق عائد کئے ہیں‪ ،‬اللہ کے حقوق کی الگ فہرست ہے‪ ،‬اور‬
‫بندوں کے حقوق کی الگ‪ ،‬بلکہ بندوں کے حقوق کی ادائیگی نسبت زیادہ اہم قرار دی‬
‫گئی ہے‪ ،‬صحابہ کی زندگی میں حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کاجو اہتمام‬
‫نظر آتاہے وہ بے نظیر ہے۔‬
‫صحابہ کرام کے قرآنی‪ ،‬ربانی اور ایمانی معاشرے کی بے شمار خصوصیات کے یہ روشن‬
‫خطوط ہیں‪ ،‬اس لئے بجاطور پر یہ کہا جاسکتاہے کہ ایک اسالمی معاشرہ ان‬
‫خصوصیات کو اپنائے بغیر اور اسوئہ صحابہ کی پیروی کئے بغیر انسانی معاشرے کو‬
‫نہ تو متاثر کر سکتا ہے اور نہ اپنی عملی زندگی میں کامیابی اور سعادت سے بہرہ‬
‫مند ہو سکتا ہے۔‬

‫اسالمی معاشرے میں قوانین کی پابندی‪:‬‬

‫کسی بھی ملک کی ترقی اور تنزلی کار از اس کے قوانین کی پابندی میں مضمر ہوتا‬
‫ہے۔ مملکت خداداد اسالمی جمہوریہ پاکستان ہمارا پیارا وطن ہے اور الحمد للہ ! ہم‬
‫مسلمان ہیں‪ ،‬ہمارا مذہب اسالم ہے‪ ،‬اسالم اللہ جل جاللہ کا بنایا ہوا نظام زندگی ہے جس‬
‫کی پابندی ہم پر فرض ہے۔ اسالم امن و سالمتی کا مذہب ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد‬
‫باری تعالی ہے ‪:‬‬

‫‪1‬‬
‫ِين﴾‬
‫ض ُم ْفسِ د َ‬‫﴿و ََلَا َت ْع َث ْوا فِي الْأ َ ْر ِ‬

‫اللہ کی زمین میں فساد پھیالنے والے مت ہو۔‬

‫لفظ ”اسالم“ میں سالمتی کا درس ہے اور پھر مذہب اسالم پر چلنے واال مسلمان کہالتا‬
‫ہے تو لفظ ”مسلمان“ میں بھی سالمتی کی درس ہے اور جب دو مسلمان آپس میں‬
‫مالقات کرتے ہیں تو "السالم علیکم کہتے ہیں‪ ،‬چنانچہ روز روشن کی طرح ثابت ہوا کہ‬
‫اسالم امن و سکون اور سالمتی کا مذہب ہے۔ مذہب کے دائرے میں رہتے ہوئے ہر‬

‫‪ :3 1‬سورة البقرة‪٦٠ :‬‬


‫معاشرے‪ ،‬ہر قوم اور ہر ملک کے کچھ قوانین اور ضوابط ہوتے ہیں‪ ،‬پر امن اور پر سکون‬
‫زندگی گزارنے کے لیے ان کی پابندی از حد ضروری ہوتی ہے۔‬

‫یہ ایک مثبت پہلو ہے اور منفی پہلو یہ ہے کہ قانون توڑنے اور اُصول و ضوابط کا احترام‬
‫نہ کرنے سے افرا تفری پھیل جاتی ہے‪ ،‬جن کی بنا پر نہ صرف افراد کا سکون تہ و باال‬
‫ہو جاتا ہے ‪ ،‬بلکہ پورے معاشرے اور قوم کی زندگی متاثر ہو جاتی ہے‪ ،‬اس لیے مذہب‬
‫اسالم نے مسلمانوں کو قانون کا احترام اور پابندی کرنے کی تاکید کی ہے۔‬

‫نبی ا کرم صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں اسالمی معاشرے میں قانون کا کس قدر‬
‫احترام کیا جاتا تھا‪ ،‬اس کی نہایت عمدہ مثال شراب کی حرمت کے سلسلے میں‬
‫دیکھنے میں آئی ہے ‪ ،‬جوں ہی شراب کی حرمت کا اعالن کرایا گیا‪ ،‬اسی وقت لوگوں‬
‫نے شراب کے تمام بر تن تو ڑ دیئے اور شراب مدینے کی گلیوں میں بہہ نکلی اور‬
‫اسالمی معاشرہ شراب کی لعنت سے پاک ہو گیا اور یہی اللہ جل جاللہ اور رسول‬
‫صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی اصل روح اور اسالم کا حقیقی مفہوم ہے‪ ،‬کیونکہ‬
‫ارشا ِد باری تعالی ہے‪:‬‬

‫َ‬ ‫ط ْي ُعوا ال َّله َوأ َ ِ‬


‫آم ُنوا أ َ ِ‬ ‫َ‬
‫﴿ َيأيُّ َها ا َّل ِذ َ‬
‫‪1‬‬
‫﴾‬ ‫م‬
‫ما َل ُك ْ‬
‫ط ُل ْوا أ ْع َ‬
‫ل َولَا ُت ْب ِ‬
‫س ْو َ‬
‫الر ُ‬
‫ط ْي ُعوا َّ‬ ‫ين َ‬

‫اے ایمان والو! اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو بر باد نہ کرو۔‬

‫چنانچہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اسالم کے اصول واحکام اور اس کی روشنی میں‬


‫بنائے ہوئے تمام قوانین و ضوابط کی پوری پابندی اور کامل احترام کرے‪ ،‬اسی طرح ہم‬
‫ایک اچھے شہری‪ ،‬اچھے پاکستانی اور سچے مسلمان بن سکتے ہیں‪ ،‬جس طرح قدرت‬

‫‪ 4 1‬محمد ‪۳۳ :‬‬


‫کا نظام چند ضروری قوانین کا پابند ہے‪ ،‬اسی طرح معاشرے کا قیام و دوام‪ ،‬معاشرتی‬
‫‪ ،‬اخالقی اور دینی احکام و قوانین پر موقوف ہے‬

‫یوں تو دنیا کا کم عقل سے کم عقل انسان بھی قانون کی ضرورت‪ ،‬اس کی پابندی اور‬
‫اہمیت کا اعتراف کرے گا‪ ،‬لیکن کم لوگ ایسے ہیں جو عمال ً قانون کے تقاضے پورے‬
‫کرتے ہوں‪ ،‬عصر حاضر میں دو افراد کے باہمی معامالت سے لے کر بین اال قوامی تعلقات‬
‫تک لوگ ضوابط اور قوانین کی پابندی سے گریزاں ہیں اور القانونیت کے اس رجحان نے‬
‫دنیا کا امن و سکون غارت کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسان قانون کی افادیت کا قائل‬
‫ہونے کے باوجود اس کی خالف ورزی کیوں کرتا ہے ؟ اس کی چندوجوہ ہیں‪:‬‬

‫‪ :۲‬۔ خود غرضی اور مفاد‬ ‫‪ :-1‬اسالمی تعلیمات سے رو گردانی۔‬


‫پرستی۔‬

‫‪-:۴‬‬ ‫‪:3‬اپنے آپ کو قانون سے باال تر سمجھنا۔‬


‫حب الوطنی سے بے تو جہی۔‬

‫‪ –: ۵‬امن و سالمتی کی ناقدری۔‬

‫چنانچہ اسالم ان سب وجوہ کا خوبی سے تدارک کر کے مسلمانوں کو قانون کا پابند‬


‫بناتا ہے ‪ ،‬بہ ایں وجہ ایک طرف وہ انہیں خدا پرستی اور ایثار و سخاوت اور ا کرام مسلم‬
‫کا درس دیتا ہے تو دوسری طرف ان میں آخرت کی جواب دہی کا احساس و شعور پیدا‬
‫کرتا ہے اور انہیں احساس دالنا چاہتا ہے کہ اگر وہ اپنے اثر ورسوخ یاد ھو کے فریب سے‬
‫دنیا میں قانون کی خالف ورزی کی سزا سے بچ بھی گئے تو آخرت میں انہیں خدا کی‬
‫گرفت سے کوئی نہیں بچا سکے گا۔ آخرت میں جواب دہی کا یہی احساس اسالمی‬
‫معاشرے کے گناہ میں ملوث ہو جانے والے افراد کو از خود عدالت میں جانے پر مجبور‬
‫کرتا ہے اور وہ اصرار کرتے ہیں کہ انہیں دنیا ہی میں سزادے کر پاک کر دیا جائے ‪ ،‬تاکہ‬
‫وہ آخرت کی سزا سے بچ جائیں۔ لوگوں کے دلوں میں قانون کے احترام کا سچا جذبہ‬
‫پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ خود حکمران طبقہ بھی قانون کی پاسبانی کرے اور‬
‫اپنے اثر ورسوخ کو قانون کی زد سے بچنے کا ذریعہ نہ بنائے۔ آج دنیا کا شاید ہی کوئی‬
‫دستور یا آئین ایسا ہو جس میں حکمران طبقے کو مخصوص مراعات مہیانہ ہو گئی‬
‫ہوں اور قانون میں آقاو غالم‪ ،‬شاہ اور گدا کا کوئی امتیاز نہ ہو۔‬

‫اسالمی تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت علی کی زرہ گم ہو گئی اور‬
‫ایک یہودی کے پاس ملی‪ ،‬خود خلیفہ وقت ہونے کے باوجود آپ اسے قاضی کی عدالت‬
‫میں لے گئے‪ ،‬چنانچہ جب قاضی نے آپ سے گواہوں کا مطالبہ کیا تو خلیفہ وقت حضرت‬
‫علیؓ نے اپنے بیٹے اور غالم کو پیش کیا۔ قاضی نے دونوں کی گواہی ان سے قریبی‬
‫تعلق کی بنا پر قبول کرنے سے انکار کر دیا تو آپ اپنے دعوے سے دستبردار ہو گئے۔‬
‫احترام قانون کے اس فقید المثال واقعے نے یہودی کو اتنا متاثر کیا کہ وہ کلمہ پڑھ کر‬
‫مسلمان ہو گیا۔‬

‫اسالمی معاشرے میں نماز کے اندر قانون کی پابندی کی دلکش تصویر موجود ہے‪،‬‬
‫ایک صف میں کھڑے ہو کر ایک قبلے کی طرف رخ کر کے ایک امام کی اقتداء میں قیام‪،‬‬
‫رکوع اور سجود‪ ،‬زید‪ ،‬عمرو‪ ،‬بکر‪ ،‬محمود و ایاز سب مل کر ہمیں قانون کی پابندی‬
‫سکھاتے ہیں اور دلوں میں‬

‫احترام قانون کا احساس پیدا کرتے ہیں۔‬

‫اسی طرح رمضان المبارک میں روزہ رکھنا احترام قانون کا حسین نقشہ ہے۔ حکم‬
‫خداوندی کے تحت صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک مفطرات ثالثہ (ا کل‪ ،‬شرب‬
‫خالق حقیقی‬
‫ِ‬ ‫اور بعال یعنی جماع) سے مطلق پر ہیز یہ ظاہر کرتا ہے کہ مسلمان اپنے‬
‫کا مطیع اور فرماں بردار ہے۔ حج بھی اسی قوانین کی پابندی کا ایک دلنشین نظارہ‬
‫ہے۔ دنیا میں جہاں کہیں امن و سکون ہے ‪ ،‬اس کا راز یہی ہے کہ وہاں کے باشندے‬
‫قانون کے پابند ہیں‪ ،‬جہاں کہیں بگاڑ وانتشار ہے‪ ،‬بدامنی اور پریشانی ہے ‪ ،‬وہاں قانون‬
‫بدن انسانی ہمارے سامنے ہے‬
‫ِ‬ ‫شکنی کی حکمرانی ہے۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے‬
‫بدن‬
‫کہ جب جسم کے نظام میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے تو بیماری الحق ہو جاتی ہے اور ِ‬
‫انسانی کا چین و سکون غارت ہو جاتا ہے۔ فتح مکہ کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ‬
‫عنہم نے سرکار دو عالم میں لی یتیم کی ہدایت کے تحت ان گھروں اور باغوں پر بھی‬
‫قبضہ نہ کیا جن کورہ ہجرت کے وقت چھوڑ گئے تھے ‪ ،‬جو کہ کی پابندی کی زندہ مثال‬
‫ہے۔‬

‫اسالمی معاشرے کے قیام کی ضرورت‪:‬‬

‫ارشاد باری تعالی ہے ‪:‬‬

‫ب‬
‫ل ا ْلك َِت ِ‬ ‫م ْع ُر ْوفِ َو َت ْن َه ْو َن َع ِن ا ْل ُم ْن َك ِر َو ُت ْؤ ِم ُن ْو َن ِبال َّلهِ َو َل ْوأ َ َم َن أ َ ْ‬
‫ه ُ‬ ‫ون ِبا ْل َ‬
‫ت لِل َّن ِ ْ‬
‫اس َتأ ُم ُر َ‬ ‫اخ ِر َج ْ‬
‫امةٍ ْ‬
‫م َخ ْي َر ُ‬
‫نت ْ‬
‫﴿ ُك ُ‬
‫‪1‬‬
‫ن﴾‬ ‫ه ُم ا ْل َفسِ ُق ْو َ‬ ‫م ِم ْن ُه ُم ا ْل ُم ْؤ ِم ُن ْو َن َوا ْك َث ُر ُ‬ ‫َّ‬
‫ان َخ ْي ًرا ل ُه ْ‬
‫َلكَ َ‬

‫تم بہترین امت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے‪ ،‬تم بھالئی کا‬
‫حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو ‪ ،‬اور اگر اہل کتاب بھی‬
‫ایمان لے آتے تو یقینا ً ان کے لئے بہتر ہوتا‪ ،‬ان میں سے کچھ ایمان والے بھی ہیں اور ان‬
‫میں سے ا کثر نا فرمان ہیں۔‬

‫اس آیت میں اللہ تبارک و تعالی نے امت محمدیہ کی باقی تمام امتوں اور قوموں کے‬
‫مقابلے میں فضیلت و شان بیان فرمائی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ مخلوق کو نفع‬
‫پہنچانے کے لئے وجود میں آئی ہے۔ اس کا سب سے بڑا نفع یہ ہے کہ یہ مخلوق کی‬
‫روحانی اور اخالقی اصالح کی فکر کرتی ہے اور یہ اس امت محمدیہ کا فرئض منصبی‬
‫ہے۔ اگر چہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر (یعنی لوگوں کو نیکیوں کا حکم کرنے اور‬

‫‪ 1‬سوره آل عمران‪۱۱۰ :‬‬


‫برائیوں سے روکنے ) کا حکم پچھلی امتوں کو بھی دیا گیا تھا‪ ،‬لیکن اس کی تکمیل اس‬
‫امت کے ذریعے ہوئی ہے۔ دوسرا پچھلی امتوں نے اس حکم کو چھوڑ دیا تھا‪ ،‬جب کہ‬
‫امت محمدیہ کے حوالے سے نبی آخر الزماں حضرت محمد میں ایل ایم کی پیش گوئی‬
‫ہے کہ اس امت میں تاقیامت ایک جماعت ایسی قائم رہے گی‪ ،‬جو برابر یہ فرئضہ انجام‬
‫دیتی رہے گی۔ یہی اس امت کی وجہ افتخار و وجہ امتیاز ہے۔‬

‫امام قرطبی رحمہ اللہ احکام القرآن میں فرماتے ہیں کہ یہ اعزاز اس امت کے پاس اس‬
‫وقت تک برقرار رہے گا‪ ،‬جب تک وہ اس دین پر قائم رہے گی اور نیکی کا حکم دینے اور‬
‫برائی سے روکنے والی صفت ان میں باقی رہے گی‪ ،‬اگر انہوں نے برائی کو اچھائی سے‬
‫‪1‬‬
‫بدلنے کی بجائے اس برائی کو خود اپنا لیا تو یہ اعزاز ان سے خود بخود چھن جائے گا“۔‬

‫اس کی تائید نبی کریم ملی یم کی اس روایت سے ہوتی ہے جس میں آپ مینی یا ہم‬
‫نے تین جرائم کی تین سزائیں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا‪ ،‬جو امام جالل الدین سیوطی‬
‫نے اپنی تفسیر در منثور میں نقل فرمائی ہے کہ‬

‫هيْ َب ُة‬
‫م ِتي ال ُّد ْن َيا ُن ِز َع ِم ْن َها َ‬ ‫ت ُأ َّ‬‫م ْ‬
‫ل‪« :‬إ ِ َذا َع ْظ َ‬ ‫م أ َ َّن ُه َقا َ‬ ‫ي ال َّل ِه ص َّلى ال َّل ُه َعل َْي ِه َو َ َّ‬
‫سل َ‬ ‫َ‬ ‫] َع ْن َن ِب َّ‬
‫‪2‬‬
‫حي [‬ ‫َام ‪ ،‬و إ ِ َذا َتركَ ِ َ‬
‫ت بَ َر َك َة ا ْل َو ْ‬
‫رم ْ‬ ‫م ْنكَ ِر ُح َ‬
‫ي َع ِن ا ْل ُ‬ ‫وف َوال َّن ْه َ‬ ‫م ْع ُر ِ‬‫م َر ِبا ْل َ‬
‫ت الْأ ْ‬ ‫َ‬ ‫سل ِ َ‬ ‫الْ ِإ ْ‬
‫جب میری امت دنیا کو بڑی چیز سمجھنے لگے گی تو اسالم کی ہیبت و وقعت اس کے‬
‫قلوب سے نکل جائے گی‪ ،‬جب امر بالمعروف اور نہی عن المنکر چھوڑ بیٹھے گی تو‬
‫وحی کی برکات سے محروم ہو جائے گی اور جب‬

‫‪ : 1‬تفسیر قرطبی‪ ،‬الجامع الحكام القرآن ‪ ،‬ج ‪ ،۱‬ص ‪۳۲۹‬‬


‫‪ :2‬الدر المنثور في التفسير بالمأثور ‪ ،‬جالل الدين ‪ ،‬عبدالرحمن السیوطی‪ ،‬دار احیاء التراث العربي ‪ ،‬ط ‪ ، ۲‬سن‬
‫‪ ،۱۹۹۹‬ج ‪ ،۲‬ص ‪۱۲۲‬‬
‫آپس میں گالم گلوچ اختیار کرے گی تو اللہ جل شانہ کی نگاہ سے گر جائے گی۔‬

‫اسی طرح صحیح بخاری میں حضرت نعمان بن بشیر سے نقل کردہ روایت سے واضح‬
‫ہوتا ہے کہ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک فالح نہیں پاسکتا‪ ،‬جب تک کہ وہ امر‬
‫بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کو انجام نہ دے۔ نبی کریم ملی تیار کریم نے‬
‫فرمایا‪:‬‬

‫القائِ ِم ِفي‬ ‫ل َ‬ ‫م َث ُ‬
‫ل‪َ :‬‬‫شي ٍر رضي ہللا عنهما ‪ ،‬عن النبي عل له اللهم َقا َ‬ ‫بن َب ِ‬ ‫ان ِ‬ ‫م ِ‬ ‫]عن ال ُّن ْع َ‬
‫أعلاها ‪،‬‬
‫َ‬ ‫بعضهم‬ ‫ُ‬ ‫موا َعلَى سفينة‪ ،‬فصار‬ ‫اس َت َه ُ‬
‫وم ْ‬ ‫م َث ِل َق ٍ‬‫يها كَ َ‬ ‫ُحدو ِد ہللا ‪ ،‬وا ْل َوا ِق ِع ِف َ‬
‫م‪،‬‬ ‫َ‬
‫اس َت َق ْوا ِم َن الما ِء َم ُّروا َعلَى َم ْن َف ْو َق ُه ْ‬ ‫س َف ِل َها إ ِ َذا ْ‬
‫وبعضهم أسفلها ‪ ،‬وكان الذين في أ ْ‬ ‫ُ‬
‫ه َل ُكوا‬
‫ادوا َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫م َو َما أ َر ُ‬‫وه ْ‬
‫َم ُن ْؤ ِذ َم ْن َف ْو َق َنا‪َ .‬فإ ِ ْن َت َر ُك ُ‬
‫صيبنا َخ ْر ًقا َول ْ‬ ‫َف َقا ُلوا‪ :‬ل َْو أ َّنا َخ َر ْق َنا ِفي َن ِ‬
‫أخ ُذوا على أَيْ ِد ِ‬
‫‪1‬‬
‫يعا [‬
‫ج ِم ً‬‫يهم َن َج ْوا َو َن َج ْوا َ‬ ‫وإن َ‬
‫يعا ‪ْ ،‬‬ ‫َج ِم ً‬
‫اللہ کی حدود پر قائم رہنے اور اس کے پامال کرنے والے کی مثال ان لوگوں کی سی ہے‪،‬‬
‫جنہوں نے ایک دو منزلہ کشتی کے اوپر اور نیچے والے حصے کے حوالے سے قرعہ اندازی‬
‫کی (کہ کون کس منزل پر رہے گا) تو کچھ کو اوپر واال حصہ مال اور کچھ کو نیچے واال‬
‫حصہ مال۔ پھر نیچے والوں کو پانی کی ضرورت ہوتی تو وہ اوپر والوں کے پاس جاتے‬
‫(اور اپنی پانی کی ضرورت پوری کر لیتے)۔ (ایک دن) ان لوگوں نے سوچا کہ اگر ہم‬
‫کشتی کے نچلے حصے میں سوراخ کر دیں اور پانی کی ضرورت خود پوری کر لیں ) اور‬
‫اوپر والوں کو ( بار بار جانے کے ذریعے سے ) تکلیف نہ دیں تو کتنا اچھا رہے گا‪ ،‬اب اگر‬
‫اوپر والے ان نیچے والوں کو ان کے ( اس احمقانہ) ارادے پر عمل کرنے سے نہ روکیں‬

‫‪ 8: 1‬الصحيح للبخاري ‪ ،‬ج ‪ ،۱‬ص ‪۲۱۱‬‬


‫اور انہیں اپنے حال پر چھوڑ دیں‪ ،‬تو وہ سب کے سب ڈوب کر ہالک و برباد ہو جائیں‬
‫گے۔ اگر وہ انہیں بروقت روک دیں تو وہ سب ہالک ہونے سے بچ جائیں گے۔‬

‫قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ‪:‬‬

‫‪1‬‬
‫ان﴾‬
‫َوا ْل ُع ْد َو ِ‬ ‫او ُنوا َعلَى ا ْل ِإ ْث ِم‬
‫او ُنوا َعلَى ا ْل ِب ِر َوال َّت ْق َوى – َولَا َت َع َ‬
‫﴿ َو َت َع َ‬

‫نیکی اور بھالئی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر و اور گناہ و سرکشی‬
‫میں ایک دوسرےکے مددگار نہ بنو۔‬

‫اسالم حقوق اللہ اور حقوق العباد کا حسین امتزاج ہے۔ وہ اپنے ماننے والوں سے اس‬
‫امر کا تقاضا کرتا ہے کہ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی بھی بہت‬
‫ضروری ہے۔ قرآن مجید نے ایسے نمازیوں کے لئے ہالکت کی وعید سنائی ہے جو نماز‬
‫کورکوع و سجدہ تک محدود رکھتے ہیں اور انسانیت کو دکھوں سے نجات نہیں دالتے ‪،‬‬
‫ارشاد ہوتا ہے ‪:‬‬

‫‪2‬‬
‫ن﴾‬
‫س ُاب ْو َ‬ ‫م‬ ‫َّ‬ ‫م َّ‬
‫َ‬ ‫صلَاتِ ِه ْ‬
‫م َع ْن َ‬
‫صل ْي َن ال ِذ ْي َن ُب ُه ْ‬‫﴿ َف َو ْي ٌل لِ ْل ُ َ‬

‫ایسے نمازیوں کے لئے ہالکت ہے جو اپنی نماز سے بے خبر ہیں ‪ ،‬جو ریا کاری کرتے ہیں‬
‫اور اشیائے ضرورت کو روکتے ہیں۔‬

‫اسالم معاشرتی فالح و بہبود اور رفاہ عامہ کا عالمگیر چارٹر ہے۔ ارشاد ہوتا ہے‪:‬‬

‫‪ 9 1‬سورة المائده ‪۲ :‬‬

‫‪ : 2‬سورة الماعون ‪۴ ،۵ :‬‬


‫وم‬ ‫ام َن ِبال َّل ِه َو َ‬
‫الي ِ‬ ‫ب َو َل ِك َّن البِ َّر َمن َ‬
‫المغ ِر ِ‬
‫المشرِ ِق َو َ‬
‫ل َ‬ ‫جوه ُكم ِق َب َ‬‫َ‬ ‫﴿ليس البر أن ُت َو ُّلوا ُو‬
‫ين‬
‫س ِك َ‬‫الم ْ‬
‫القربى واليتمى َو َ‬ ‫ل َعلى ُحب ِه َذ ِوى ُ‬ ‫ب َوال َّن ِبي َن َوائى الما َ‬
‫الملئِكَ ِة َوال ِك ْت ِ‬
‫الآخ ِر َو َ‬
‫ِ‬
‫يل﴾‬
‫سبِ ِ‬
‫ابن ال َّ‬
‫َو َ‬

‫ب ﴾ نیکی یہی نہیں کہ تم مشرق و مغرب کی طرف اپنا منہ کر‬


‫الر َقا ِ‬
‫ِين َوفِي ِ‬
‫سائِل َ‬
‫﴿ َوال َّ‬

‫لو‪ ،‬بلکہ نیکی تو یہ ہے کہ لوگ اللہ پر ‪ ،‬یوم آخرت پر‪ ،‬فرشتوں پر ‪ ،‬کتابوں اور‬
‫پیغمبروں پر ایمان الئیں‪ ،‬اور اس کی محبت پر اپنا مال عزیزوں‪ ،‬یتیموں‪ ،‬مسکینوں‪،‬‬
‫‪1‬‬
‫مسافروں اور سائلوں کو دیں اور گرد نیں چھڑانے پر خرچ کریں۔‬

‫انسانی فالح و بہبود کے اس چارٹر کے مطابق اصلی نیکی اور بھالئی یہ ہے کہ انسان‬
‫ایمانیات کے نتیجے میں اپنے مال و دولت کے ساتھ محبت اور رغبت کے باوجود اسے‬
‫معاشرتی بہبود اور رفاہی کاموں پر خرچ کرے۔ اسالم کے معاشرتی بہبود اور فاہ عامہ‬
‫کے نظام اور اسالم کی روحانی اور اخالقی اقدار میں گہرا تعلق ہے۔ اسالم کی یہ اقدار‬
‫انسان کو ایثار‪ ،‬قربانی اور بے لوث خدمت خلق پر آمادہ کرتی ہیں۔ نتیجتا ً وہ اپنے‬
‫ضرورت مند بھائیوں کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے پر روحانی خوشی محسوس کرتا‬
‫ہے اور اس کی واضح مثالیں عہد نبوی ‪ ،‬عہد خلفائے راشدین میں بکثرت موجود ہیں۔‬

‫اسالم آخری اور مکمل دین ہے۔ لئے اس نے ہر قسم کے انسانوں کی فطرت کے مطابق‬
‫ہدایات دی ہیں بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن کے لئے روحانی اور اخالقی اقدار‬
‫کے ساتھ ساتھ قانونی اور انتظامی ضابطوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس ضرورت‬
‫کے پیش نظر اسالم میں اخالقی و قانونی ضابطوں کے درمیان حسین امتزاج کیا گیا‬
‫ہے۔‬

‫‪ : 1‬سورة البقره‪۱۷۷ :‬‬


‫معاشرتی فالح و بہبود کے بنیادی اصول سورۃ البقرہ میں بیان ہوئے ہیں۔ انہی اصولوں‬
‫کو عبد رسالت‪ ،‬خالفت راشدہ میں قانونی حیثیت دے کر حکومت اسالمیہ کی باضابطہ‬
‫حکمت عملی قرار دیا گیا۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے‪:‬‬

‫ين‬
‫ب َوا ْل َغ ِر ِم َ‬
‫الر َقا ِ‬
‫م َو ِفي ِ‬ ‫مؤ َّل َف ِة ُق ُل ُ‬
‫وب ُه ْ‬ ‫ين َعل َْي َها َوا ْل ُ‬
‫ين َوا ْل َق ِم ِل َ‬
‫م َت ِك ِ‬
‫ت لِ ْل ُف َق َرا ِء َوا ْل َ‬
‫الص َد َق ُ‬
‫َّ‬ ‫ما‬
‫﴿إِنَّ َ‬
‫يل ال َّل ِه َو ْاب ِن ال َّ‬
‫‪1‬‬
‫يل﴾‬‫س ِب ِ‬ ‫س ِب ِ‬‫َو ِفي َ‬

‫کارکنان صدقات کا حق ہے اور ان لوگوں کا جن کی‬


‫ِ‬ ‫صدقات (زکوة) تو فقراء‪ ،‬مساکین ‪،‬‬
‫تالیف قلب منظور ہو ‪ ،‬اور غالموں کو آزاد کرانے میں اور قرض داروں کے قرض ادا کرنے‬
‫میں ) اور اللہ کی راہ میں مسافروں کی مدد میں (یہ مال خرچ کرنا چاہئے)۔‬

‫اس آیت میں ہر قسم کے بے کس‪ ،‬مجبور‪ ،‬محتاج‪ ،‬غریب اور بے سہارا لوگوں کا ذکر کیا‬
‫گیا ہے۔ ایسے لوگوں کے لئے جو اصطالح استعمال کی گئی‪ ،‬وہ اپنی جامعیت میں‬
‫تاریخی عوامل کے تحت ہر زمانے میں رونما ہونے والے فقر و احتیاج اور بے کسی و‬
‫بیچارگی پر حاوی ہے۔ ان میں وہ لوگ شامل ہیں جو حاجت مند ہوں‪ ،‬جو معاشی و‬
‫اقتصادی طور پر بالکل تباہ حال ہوں ‪ ،‬جو غالمی کی زندگی بسر کر رہے ہوں اور جو‬
‫دوران‬
‫ِ‬ ‫تعلیم و عالج سے محروم ہوں۔ وہ لوگ جو اپنے وسائل سفر پر قادر نہ ہوں یا‬
‫سفر اس قابل نہ رہے ہوں‪ ،‬ان سب کے لئے رفاہ عامہ کے نقطہ نظر سے اسالم نے‬
‫مستقل نظام کو وضع کر دیا ہے۔ غرض فقر و مسکنت اور غربت و مسافرت جیسی‬
‫مجبوریوں اور معذوریوں کے انسداد کے لئے عہد رسالت مآب ملی ام دور خالفت راشدہ‬
‫کی سماجی خدمات بھی تاریخ میں مینارہ نور کی حیثیت رکھتی ہیں۔‬

‫‪ 1‬سورة التوبة ‪٦٠ :‬‬


‫آج جب کہ پوری دنیا‪ ،‬غربت و افالس اور بدامنی و عدم سکون کا شکار ہے‪ ،‬مادیت کا‬
‫غلبہ ہے جب کہ روحانیت مفقود ہے‪،‬ایسے حاالت میں سماجی خدمت اور فاہ عامہ کی‬
‫بدولت انسانیت کی فالح کے لئے کوشش کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔ چنانچہ اسوہ حسنہ‬
‫کی روشنی میں ایسا نظام تشکیل دیا جائے جس کی نظیر خالفت راشدہ میں ملتی‬
‫ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدائے اسالم میں انسانیت کی بے لوث خدمات انجام دی گئیں‬
‫حتی کہ معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لئے فالحی اسکیمیں اور اداروں کا قیام عمل‬
‫میں الیا گیا۔‬

‫موجودہ زمانے میں اسالمی تعلیمات کی روشنی میں ایسا مفید سماجی نظام تیار‬
‫کریں کہ اس کا فائدہ براہ راست انسانیت کو پہنچے اور معاشر سے بدامنی‪ ،‬رشوت‪،‬‬
‫غربت جیسی مہلک بیماریوں کا خاتمہ کیا جاسکے۔ چنانچہ اس وقت ضرورت ہے کہ‬
‫ہم اسالم کے فالحی معاشرے کا ڈھانچہ انسانیت کے سامنے پیش کریں‪ ،‬تاکہ ان‬
‫اصولوں سے فائدہ اٹھا کر قوم کی ترقی کے لئے کام کریں۔‬
‫باب سوم‬

‫سورۃ انساء میں مذکورہ معاشرتی مسائل‬


‫فصل اول‬

‫صلہ رحمی‪،‬یتیموں کے تحفظ کا حقوق اور تقسیم‬


‫میراث‬
‫فصل اول‬

‫صلہ رحمی‬

‫صلہ رحمی تعریف‬

‫صلہ رحمی سے مراد ہے اپنے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ اچھے اور بہتر تعلقات قائم‬
‫کرنا‪ ،‬آپس میں اتفاق و اتحاد سے رہنا‪ ،‬دکھ‪ ،‬درد‪ ،‬خوشی اور غمی میں ایک دوسرے کے‬
‫شانہ بشانہ چلنا‪ ،‬آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ رابطہ رکھنا‪ ،‬ایک دوسرے کے ہاں آنا‬
‫جانا۔ الغرض اپنے رشتہ کو اچھی طرح سے نبھانا اور ایک دوسرے کے حقوق کا خیال‬
‫رکھنا‪ ،‬ان پر احسان کرنا‪ ،‬ان پر صدقہ و خیرات کرنا‪ ،‬اگر مالی حوالے سے تنگدستی اور‬
‫کمزور ہیں تو ان کی مدد کرنا اور ہر لحاظ سے ان کا خیال رکھنا صلہ رحمی کہالتا‬
‫ہے۔صلہ رحمی میں اپنے والدین‪ ،‬بہن بھائی‪ ،‬بیوی بچے‪ ،‬خالہ پھوپھی‪ ،‬چچا اور ان کی‬
‫اوالدیں وغیرہ یہ سارے رشتہ دار صلہ رحمی میں آتے ہیں۔ اپنے والدین کے دوست‬
‫احباب جن کے ساتھ ان کے تعلقات ہوں‪ ،‬ان سب کے ساتھ صلہ رحمی کرنی چاہیے۔‬
‫جب ان رشتہ داروں کا خیال نہیں رکھا جائے گا‪ ،‬ان کے حقوق پورے نہیں کیے جائیں‬
‫گے‪ ،‬ان کی مدد نہیں کی جائے گی تو یہی قطع رحمی کہالتی ہے۔ یعنی اپنے رشتہ‬
‫داروں سے ہر قسم کے تعلقات ختم کرنا۔صلہ رحمی ہر دور میں کی جا سکتی ہے۔‬
‫ضروری نہیں کہ انسان مالی مدد ہی کرے‪ ،‬بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ جس چیز‬
‫کی وہ استطاعت رکھتا ہو‪ ،‬اس کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔ مثال ان کے دکھ درد میں‬
‫شریک ہو کر ان کی حوصلہ افزائی کرے‪ ،‬ان کے ساتھ اچھی گفتگو کرے‪ ،‬ان کے گھر جا‬
‫کر حال احوال دریافت کرے۔ ان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرے‪ ،‬غمی خوشی میں‬
‫شریک ہو۔ یہ ساری باتیں صلہ رحمی میں آتی ہیں۔ قطع رحمی کی سزا تو دنیا میں‬
‫بھی مل جاتی ہے‪ ،‬جب بھائی مشکل وقت میں اپنے بھائی کا ساتھ نہیں دیتا۔ ایک‬
‫دوسرے کے دکھ درد کو نہ سمجھا جائے۔ جب خون سفید ہو جائے‪ ،‬تعلقات ختم کریں‪،‬‬
‫جب ضرورت ہو تو اس کی ضرورت کو پورا نہ کیا جائے‪ ،‬حتی کہ ایک دوسرے کے ساتھ‬
‫مرنا جینا ختم کر دیا جاتا ہے۔ یہ سزا ہی ہے۔ اور قیامت کے دن صلہ رحمی کے متعلق‬
‫پوچھا جائے گا کہ ہم نے ان رشتوں کے تقدس کا کتنا خیال رکھا ہے‪ ،‬اللہ تعالی فرماتا‬
‫ہے‪:‬‬

‫ولئ‬
‫ِ‬ ‫الرض‬
‫﴿الذِین ینقضون عہد اللہِ ِمن بع ِد ِمیثاقِہِ ویقطعون ما مر اللہ ِبہِ ن یوصل ویفسِ دون فِی ِ‬
‫‪1‬‬
‫ہم الخاسِ رون﴾‬

‫یہ نافرمان وہ لوگ ہیں جو اللہ کے عہد کو اس سے پختہ کرنے کے بعد توڑتے ہیں‪ ،‬اور‬
‫اس(تعلق)کو کاٹتے ہیں جس کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اور زمین میں فساد بپا‬
‫کرتے ہیں‪ ،‬یہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں‪o‬‬

‫اللہ تعالی نے اس آیت مبارکہ میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات جوڑنے کا حکم دیا‬
‫ہے‪ ،‬اگر اس کے خالف کریں گے تو یقینا دنیا و آخرت میں نقصان اٹھانے والے ہونگے۔‬
‫اسی طرح بے شمار آیات میں اللہ تعالی نے صلہ رحمی کا حکم دیا ہے اور حضور نبی‬
‫ا کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی احادیث مبارکہ میں آپس میں صلہ رحمی کا‬
‫حکم دیا ہے۔ صلہ رحمی کی اہمیت اور فضیلت کو بیان کیا ہے اور قطع رحمی پر وعید‬
‫سنائی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہر حال میں صلہ رحمی کا خیال رکھیں‪ ،‬ایسا نہ ہو کہ جو‬

‫‪ :1‬البقرہ ‪27‬‬
‫رشتے دار غیرب ہوں‪ ،‬غربت کی وجہ سے ان سے تعلقات ختم کر لیں‪ ،‬جیسا کہ آجکل‬
‫رواج ہے کہ اگر بعض رشتہ دار غریب ہوں اور بعض امیر تو امیر لوگ ان غریب رشتہ‬
‫داروں سے ق طع تعلق کر لیتے ہیں‪ ،‬اور ان کو اپنا رشتہ دار سمجھنا اور کہنا اپنی توہین‬
‫سمجھتے ہیں۔ اپنیدوست احباب کے سامنے اپنا رشتہ دار قبول کرنے سے انکار کرتے‬
‫ہیں۔ جیسے اوالد جب جوان ہوتی ہے تو اپنے والدین کو گھر سے نکال دیتی ہے‪ ،‬ان کے‬
‫حقوق کا خیال نہیں رکھتی‪ ،‬یہ ساری چیزیں گناہ کبیرہ ہیں اور اس کی سزا قیامت کے‬
‫دن ملے گی‪ ،‬حضور نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا والدین اوالد کے لیے‬
‫جنت بھی ہیں اور جہنم بھی‪ ،‬جس نے ان کی خدمت کی اس نے جنت کو پا لیا ورنہ‬
‫اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔‬

‫صلہ رحمی کے دالءل‬

‫ارشاد باری تعالی ہے ‪:‬‬


‫‪1‬‬
‫وولئ ہم المفلِحون﴾‬
‫ِ‬ ‫ذل خیر لِلذِین ی ِر یدون وجہ اللہِ‬
‫یل ِ‬
‫والمسِ ین وابن الس ِب ِ‬
‫ِ‬ ‫‪﴿:1‬فآ ِ‬
‫ت ذا القرب حقہ‬

‫ترجمہ‪ :‬قرابت والے کو مسکین اور مسافر کو اس کا حق دو ۔ یہ بات ان لوگوں کیلئے‬


‫بہتر ہے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں اور یہی لوگ کامیاب ہوں گے۔‬

‫السرا‪:226 :‬‬ ‫یل ولا تبذِر تبذِیرا﴾‬


‫والمسِ ین وابن الس ِب ِ‬
‫ِ‬ ‫‪﴿:2‬وآ ِ‬
‫ت ذا القرب حقہ‬

‫ترجمہ‪ :‬اور رشتہ دار کو اس کا حق دو‪ ،‬اور مسکین اور مسافر کو اس کا حق ادا کرو‪ ،‬اور‬
‫فضول خرچی نہ کرو۔‬

‫‪﴿:3‬واتقوا اللہ الذِی تسالون ِبہِ والرحام ِن اللہ ان علیم رقِیبا النسا﴾‪:31 :‬‬

‫‪ 1‬سورہ روم آیہ ‪138‬‬


‫ترجمہ‪ :‬نیز اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے‬
‫ہو اور قریبی رشتوں کے معاملہ میں بھی اللہ سے ڈرتے رہو۔‬

‫ِین وقولوا‬
‫ِدین ِحسانا وذِی القرب والیتام والمسا ِ‬
‫‪﴿:4‬اخذنا ِمیثاق بنِی ِسرائِیل لا تعبدون ِلا ہللا و ِبالوال ِ‬
‫ِلناس حسنا وقِیموا الصلا وآتوا الزا البقر﴾ ‪483‬‬
‫ل ِ‬

‫ترجمہ‪ :‬اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا کہ تم لوگ اللہ تعالی کے‬
‫عالوہ کسی کی عبادت نہ کرو گے اور والدین سے‪ ،‬رشتہ داروں‪ ،‬یتیموں اور مسکینوں‬
‫سے اچھا برتا کرو گے‪ ،‬لوگوں سے بھلی باتیں کہو گے‪ ،‬نماز کو قائم کرو گے اور زکو دیتے‬
‫رہو گے۔‬

‫ِحسان ِوایتا ِ ذِی القربی﴾‪5‬‬


‫ِ‬ ‫العدل وال‬
‫ِ‬ ‫‪﴿:5‬ا ِن ہللا یمر ِب‬

‫ترجمہ‪ :‬اور اللہ تعالی حکم فرماتے ہیں انصاف اور حسن سلوک کا اور رشتہ داروں کے‬
‫حقوق ادا کرنے کا۔‬

‫احادیث‬

‫م َو َي ْق َط ُعونِي‪َ ،‬وأُ ْحسِ ُن‬ ‫ل ہللاِ إ ِ َّن لِي َق َر َاب ًة أ َ ِ‬


‫ص ُل ُه ْ‬ ‫سو َ‬ ‫ل‪َ :‬يا َر ُ‬ ‫‪َ ] .1‬ع ْن أ َ ِبي ُ‬
‫ه َر ْي َر َة‪ ،‬أَ َّن َر ُجلًا َقا َ‬
‫ما‬ ‫َ‬ ‫إِلَي ِهم و يسِ ي ُئون إِل َّ َ‬
‫ت‪َ ،‬ف َكأ َّن َ‬‫ما ُق ْل َ‬
‫ت َك َ‬ ‫ل‪َ « :‬لئ ِْن ُك ْن َ‬ ‫َي‪َ ،‬ف َقا َ‬‫ون َعل َّ‬ ‫م َو َي ْج َه ُل َ‬ ‫َي‪َ ،‬وأ ْح ُل ُم َع ْن ُه ْ‬ ‫َ‬ ‫ْ ْ َُ‬
‫‪1‬‬
‫ِك[‬
‫َ َ‬‫ل‬ ‫ذ‬ ‫َى‬ ‫ل‬‫ع‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫د‬ ‫ا‬‫م‬ ‫م‬
‫َ ِ ٌ َ ِْ ْ َ ُ ْ َ َ‬ ‫ه‬ ‫َي‬‫ل‬ ‫ع‬ ‫ير‬ ‫ه‬‫ظ‬ ‫ہللا‬
‫ِ‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ِ‬ ‫ك‬ ‫ع‬ ‫م‬
‫ُ ُ َ َ ََ ُ َ َ َ َ‬ ‫ال‬ ‫ز‬ ‫ي‬ ‫َا‬ ‫ل‬‫و‬ ‫َّ‬
‫ل‬ ‫م‬ ‫ل‬
‫ْ‬ ‫ا‬ ‫م‬ ‫ه‬ ‫ف‬
‫ُّ‬ ‫سِ‬ ‫ُت‬

‫ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ‬
‫وسلم کے پاس آیا اور کہا‪":‬یا رسول اللہ! میں اپنے رشتہ داروں سے بنا کر رکھنا‬
‫چاہتا ہوں لیکن وہ مجھ سے قطع تعلقی کرتے ہیں‪ ،‬میں انکی خیر خواہی کرتا‬
‫ہوں ‪ ،‬لیکن وہ مجھ سے برا سلوک کرتیہیں‪ ،‬میں بردباری سے انکے ساتھ پیش‬
‫آتا ہوں لیکن وہ میرے ساتھ جاہلوں جیسا رویہ اختیار کرتے ہیں"تو آپ نے‬

‫يعت َِها‪ ,‬رقم الحديث‪.2558:‬‬


‫ط َ‬‫الرحِ مِ َو َت ْح ِر يمِ َق ِ‬
‫صلَةِ َّ‬
‫اب ِ‬
‫‪ .‬الصحيح لمسلم‪َ ,‬ب ُ‬
‫‪1‬‬
‫فرمایا‪(:‬اگر معاملہ ایسے ہی ہے جیسے تم نے بیان کیا تو تم انکے پیٹ میں گرم‬
‫ریت ڈال رہے ہو‪ ،‬جب تک تم انکے ساتھ ایسے ہی اچھا سلوک کرتے رہو گے اللہ‬
‫کی طرف سے تمہارے لئے ایک مددگار مقرر رہے گا‬

‫ص َّلى ہللاُ َعل َْيهِ‬


‫ش إِلَى ال َّن ِبي ِ َ‬ ‫م ُ‬ ‫َم َي ْر َف ْع ُه الأ َ ْع َ‬
‫ان‪ :‬ل ْ‬
‫س ْف َي ُ‬‫ل ُ‬
‫م ٍرو‪َ - :‬قا َ‬‫‪َ ] .2‬ع ْن َع ْب ِد ال َّلهِ ْب ِن َع ْ‬
‫ل‬
‫اص ُ‬ ‫الو ِ‬
‫س َ‬ ‫ل‪« :‬ل َْي َ‬ ‫م َقا َ‬ ‫ِطر ‪َ -‬ع ِن ال َّن ِبي ِ ص َّلى ہللاُ َعل َْيهِ َو َ َّ‬ ‫َو َ َّ‬
‫سل َ‬ ‫َ‬ ‫س ٌن َوف ْ ٌ‬
‫م‪َ ،‬و َر َف َع ُه َح َ‬ ‫سل َ‬
‫صل ََها‪[1‬‬ ‫ل ا َّل ِذي إِذَا ُقطِ َع ْ‬
‫ت َرحِ ُم ُه َو َ‬ ‫اص ُ‬
‫الو ِ‬ ‫ِئ‪َ ،‬و َلك ِِن َ‬
‫ِبا ْل ُمكَاف ِ‬

‫عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں‬
‫کہ آپ نے فرمایا‪( :‬صلہ رحمی وہ نہیں کرتا جو صرف صلہ رحمی کرنے والوں ہی سے‬
‫بنا کر رکھے‪ ،‬صلہ رحمی تو وہ شخص کرتا ہیجب قطع رحمی کی جائے تو وہ صلہ رحمی‬
‫کرے)‬

‫] َع ْن أ ِبي ُ َ َ‬ ‫‪:3‬‬
‫َ‬ ‫َ‬
‫م َما‬ ‫ل‪َ « :‬ت َع َّل ُموا ِم ْن أ ْن َ‬
‫سا ِب ُك ْ‬ ‫م َقا َ‬ ‫هر ْير َة‪َ ،‬ع ِن ال َّن ِبي ِ ص َّلى ال َّل ُه َعل َْيهِ َو َ َّ‬
‫سل َ‬ ‫َ‬
‫سأَ ٌة فِي الأ َ َث ِر‪[2‬‬ ‫ال‪َ ،‬م ْن َ‬
‫الم ِ‬ ‫ه ِل‪َ ،‬م ْث َرا ٌة فِي َ‬‫الرحِ مِ َم َح َّب ٌة ِفي الأَ ْ‬ ‫صل ََة َّ‬‫م‪َ ،‬فإِ َّن ِ‬
‫ام ُك ْ‬
‫َ‬
‫ون ِبهِ أ ْر َح َ‬
‫ص ُل َ‬‫َت ِ‬

‫حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے‬
‫ارشاد فرمایا ‪:‬تم اپنے وہ انساب سیکھو جن کے سبب تم صلہ رحمی کرو گے ۔کیونکہ‬
‫صلہ رحمی گھر والوں میں محبت کا سبب ہے مال میں کثرت کا ذریعہ ہے عمر میں‬
‫زیادتی کا باعث ہے ۔‬

‫الرحِ ُم ُم َع َّل َق ٌة ِبا ْل َع ْر ِش َت ُق ُ‬


‫ول َم ْن‬ ‫م‪َّ « :‬‬ ‫ول ہللاِ ص َّلى ہللاُ َعل َْيهِ َو َ َّ‬
‫سل َ‬ ‫َ‬ ‫س ُ‬
‫ل َر ُ‬‫َت‪َ :‬قا َ‬ ‫‪َ ] :4‬ع ْن َعائ َ‬
‫ِش َة‪َ ،‬قال ْ‬
‫ہللا‪[3‬‬
‫صل َُه ہللاُ‪َ ،‬و َم ْن َق َط َعنِي َق َط َع ُه ُ‬
‫ص َلنِي َو َ‬
‫َو َ‬

‫‪ 1‬رقم الحديث‪5991:‬‬
‫سنن الترمذي‪,‬رقم الحديث‪19792:‬‬

‫‪ 3‬الصحيح لمسلم‪ ,‬رقم الحديث‪2555:‬‬


‫حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ‪:‬رشتہ‬
‫داری عرش سے لٹکی ہوئی ہے وہ کہتی ہے کہ جو مجھے مالئے گا میں اسے مالں گی‬
‫اور جو مجھے کاٹے گا میں اسے کاٹوں گی‬

‫ول‪َ « :‬م ْن‬


‫م‪َ ،‬ي ُق ُ‬ ‫ل ال َّلهِ ص َّلى ہللاُ َعل َْيهِ َو َ َّ‬
‫سل َ‬ ‫َ‬ ‫سو َ‬‫ت َر ُ‬ ‫س ِم ْع ُ‬ ‫ل‪َ :‬‬ ‫ي ال َّل ُه َع ْن ُه‪َ ،‬قا َ‬
‫ض َ‬ ‫ِك َر ِ‬
‫س ْب ِن َمال ٍ‬‫‪َ ]:5‬ع ْن أ َ َن ِ‬
‫م ُه‪[1‬‬
‫ل َرحِ َ‬ ‫سأ َ ل َُه فِي أ َ َث ِرهِ ‪َ ،‬ف ْل َي ِ‬
‫ص ْ‬ ‫َ‬
‫س َط ل َُه فِي ِر ْزقِهِ ‪ ،‬أ ْو ُي ْن َ‬
‫َ‬
‫س َّر ُه أ ْن ُي ْب َ‬
‫َ‬

‫حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا من حب ن یبسط‬
‫لہ فی رزقہ وینس لہ فی ثرہ فلیصل رحمہجس کو یہ بات اچھی لگے کہ اس کی روزی‬
‫کشادہ کی جائے اوراس کی عمر لمبی کی جائے تو اسے رشتہ داروں سے نیک سلوک‬
‫کرتے رہنا چاہیے‬

‫‪2‬‬
‫الج َّن َة َقاطِ ٌع[‬ ‫ي ص َّلى ہللاُ َعل َْيهِ َو َ َّ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ل َ‬ ‫ول‪« :‬لا َ َي ْد ُخ ُ‬
‫م َي ُق ُ‬
‫سل َ‬ ‫س ِم َع ال َّن ِب َّ َ‬
‫‪]:6‬إ ِ َّن ُج َب ْي َر ْب َن ُم ْطعِ مٍ ‪ ،‬أ ْخ َب َر ُه‪ :‬أ َّن ُه َ‬

‫جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے‬
‫فرمایا ‪:‬جنت میں رشتہ داری کاٹنے واال داخل نہیں ہوگا ۔‬

‫ما َف َر َغ‬ ‫ق‪َ ،‬ف َل َّ‬ ‫َق ال َّل ُه َ‬


‫الخ ْل َ‬ ‫ل‪َ " :‬خل َ‬ ‫م َقا َ‬ ‫سل َ‬
‫ضي ال َّل ُه َع ْن ُه‪َ ،‬ع ِن ال َّن ِبي ِ ص َّلى ہللاُ َعل َْيهِ َو َ َّ‬
‫َ‬ ‫‪َ ]:7‬ع ْن أ َ ِبي ُ‬
‫ه َر ْي َر َة َر ِ َ‬
‫ل‪:‬‬ ‫يعةِ ‪َ ،‬قا َ‬ ‫القطِ َ‬
‫ك ِم َن َ‬ ‫العائِ ِذ ِب َ‬
‫ام َ‬ ‫ه َذا َم َق ُ‬ ‫َت‪َ :‬‬‫ل ل َُه‪َ :‬م ْه‪َ ،‬قال ْ‬‫م ِن‪َ ،‬ف َقا َ‬ ‫الر ْح َ‬‫ت ِب َح ْق ِو َّ‬ ‫الرحِ ُم‪َ ،‬فأَ َخ َذ ْ‬ ‫ت َّ‬ ‫ام ِ‬ ‫ِم ْن ُه َق َ‬
‫ه َر ْي َر َة‪" :‬‬‫ل أ َ ُبو ُ‬‫اك " َقا َ‬ ‫ل‪َ :‬ف َذ ِ‬ ‫َت‪َ :‬بلَى َيا َربِ‪َ ،‬قا َ‬ ‫َك‪َ ،‬وأ َ ْق َط َع َم ْن َق َط َع ِ‬
‫ك‪َ ،‬قال ْ‬ ‫صل ِ‬ ‫ل َم ْن َو َ‬ ‫ص َ‬ ‫ض ْي َن أ َ ْن أ َ ِ‬
‫ألا َ َت ْر َ‬
‫َ‬
‫‪3‬‬
‫م} [محمد‪" ]22 :‬‬ ‫َ‬ ‫م أ َ ْن ُت ْفسِ ُدوا فِي الأ َ ْر ِ‬ ‫َّ‬
‫ام ُك ْ‬
‫ط ُعوا أ ْر َح َ‬ ‫ض َو ُت َق ِ‬ ‫م إِ ْن َت َول ْي ُت ْ‬‫س ْي ُت ْ‬
‫ل َع َ‬ ‫{ف َه ْ‬
‫م‪َ :‬‬ ‫اق َر ُءوا إ ِ ْن شِ ْئ ُت ْ‬
‫ْ‬

‫سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ‬
‫تعالی نے ساری مخلوق کو پیدا کیا یہاں تک کہ جب پیدا کرنے سے فارغ ہوچکا تو‬
‫رشتہ داری نے عرض کیا کہ یہ اس شخص کا مقام ہے جو قطع رحم سے تیری پناہ‬

‫‪ 1‬البخاري‪ ,‬رقم الحديث‪2067:‬‬


‫‪ 2‬البخاري‪,‬رقم الحديث‪5984:‬‬

‫‪ 3‬البخاري‪,‬رقم الحديث‪4830:‬‬
‫مانگے‪ ،‬اللہ تعالی نے فرمایا کیا تجھے یہ پسند نہیں کہ میں اس سے (تعلق)جوڑوں‬
‫جو تجھ سے جوڑے اور اور اس سے قطع( تعلق )کروں جو تجھ سے قطع‬
‫کرے(توڑے)‪ ،‬رشتہ داری نے عرض کیا کیوں نہیں (ایسا ہی ہونا چاہئے)! اللہ تعالی نے‬
‫فرمایا بس تجھے حاصل ہے(یعنی ایسا ہی ہوگا)‪ ،‬رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے‬
‫وتقطعو‬
‫ِ‬ ‫الارض‬
‫ِ‬ ‫فرمایا کہ اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھو ﴿فہل عسیتم اِن تولیتم ان تفسِ دوا فِی‬

‫ا ارحامم﴾ ‪47‬۔ محمد ‪ )22 (:‬ترجمہ‪ :‬اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو‬
‫حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کر دو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو (‪)22‬‬

‫یتیموں کے حقوق کا تحفظ‪:‬‬

‫یتیم اس نابالغ بچے کو کہا جاتا ہے کہ جس کے سر سے اس کے باپ کا سایہ اٹھ گیا ہو‬
‫اور وہ شفقت پدری سے محروم ہو گیا ہو۔اسالم نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق‬
‫ادا کرنے اور ان کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے‬

‫قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتے ہیں‪:‬‬


‫ِ‬

‫َـه ٰٓ‬ ‫﴿ َوا ٰ ُتوا ا ْل َي َت ٰٰٓ‬


‫م ۚ ا ِ َّن ‪ٝ‬ه كَ َ‬
‫ان ُح ْو ًبا‬ ‫ـم ا ِ ٰلى ا َْم َوا ِل ُك ْ‬
‫ب ۖ َولَا َتا ْ ُك ُل ٰٓـوا ا َْم َوال ُ ْ‬ ‫ث ِب َّ‬
‫الط ِي ِ‬ ‫ـم ۖ َولَا َت َت َب َّد ُلوا ا ْل َخ ِب ْي َ‬
‫َـه ْ‬
‫امى ا َْم َوال ُ‬
‫َك ِب ْي ًـرا‪﴾ 1‬‬

‫ترجمہ‪:‬اور یتیموں کو ان کے مال دے دو اور اچھے مال کو خراب سے تبدیل نہ کرو ‪ ،‬اور‬
‫ان( یتیموں)کا مال اپنے مال کے ساتھ مالکر مت کھاو! بے شک یہ بڑا گناہ ہے۔شفقت ِ‬
‫پدری سے محروم ہو جانے والے بچوں کی حفاظت و نگہداشت اہم فرائض میں سے‬
‫ایک ہے‬

‫‪ 1‬سور النسا‪02:‬‬
‫یتیم اس نابالغ بچے کو کہا جاتا ہے کہ جس کے سر سے اس کے باپ کا سایہ اٹھ گیا ہو‬
‫اور وہ شفقت پدری سے محروم ہو گیا ہو۔اسالم نے مسلمانوں کو یتیم بچوں کے حقوق‬
‫ادا کرنے اور ان کے حقوق کی نگہبانی کرنے کی بڑی سختی سے تاکید کی ہے۔ یتیم‬
‫آغوش محبت میں لے کر ان سے پیار کرنا‪ ،‬ان کو والد کی طرف سے‬
‫ِ‬ ‫بچوں کو اپنی‬
‫می راث میں ملنے والے مال و اسباب کی حفاظت کرنا‪ ،‬ان کی تعلیم و تربیت کی فکر‬
‫کرنا‪ ،‬سن شعور کو پہنچنے کے بعد ان کے مال و اسباب کا ان کے حوالے کرنا اور انہیں‬
‫ا ِس کا مالک بنانااور بالغ ہونے کے بعد ان کی شادی بیاہ کی مناسب فکر کرکے کسی‬
‫اچھی جگہ ان کا رشتہ طے کرنا اسالم کی وہ زریں اور روشن تعلیمات ہیں جن کا اس‬
‫نے ہر ایک مسلمان شخص کو پابند بنایا ہے۔‬

‫زمانہ قبل از اسالم میں آئے دن عربوں میں باہمی قتل و قتال اور کشت و خون ریزی‬
‫داغ یتیمی ملتا اور ا ِس کے‬
‫جاری رہتی جس کے نتیجے میں بیسیوں معصوم بچوں کو ِ‬
‫بعد ان پر ظلم و ستم کا ایک نیا دور شروع ہوجاتا‪،‬خاندان کے خود کفیل لوگ ان کے‬
‫مال و اسباب پر قابض ہوجاتے‪،‬ان کی جائیدادیں ہڑپ کرجاتے‪ ،‬ان کو تعلیم و تربیت‬
‫سے عاری رکھتے اور ان کا کسی مناسب جگہ رشتہ طے کرکے ان کی شادی نہ کرتے‪،‬‬
‫نتیجہ یہ نکلتا کہ یہ بچے کل جب اپنے سن شعور کو پہنچتے اور عاقل بالغ ہوجاتے تو‬
‫ا ِن کے ہاتھ میں سوائے غالمی و اسیری ‪،‬افالس و تنگ دستی اور مناسب تعلیم و‬
‫تربیت سے محرومی کے سواکچھ بھی نہ آتا‪ ،‬لیکن جب اسالم نے اپنی کرنیں بکھیریں‬
‫اور وہ ا ِس دنیا میں آیا تو اس نے اپنی روشن اور مبارک تعلیمات کے ذریعے یتیم بچوں‬
‫اور بچیوں کو ان کے حقوق دلوائے‪ ،‬ان کی حفاظت و نگہداشت کی اور ان کے حقیقی‬
‫مقام و مرتبہ سے تمام مسلمانوں کو روشناس کیا‪ ،‬تب کہیں جاکر یتیموں پر سے ظلم‬
‫و ستم کا دور ختم ہوا اور انہوں نے سکھ کا سانس لیا ۔‬

‫چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ منورہ آجانے کے بعد اللہ تعالی نے‬
‫یتیموں کے حقوق کے متعلق چند مخصوص احکام اتارے اور یتیموں کی صحیح کفالت‬
‫نہ کرنے والوں کو حکم دیا گیا کہ ان کے مال و اسباب پر اپنے ہاتھ صاف مت کرو اور نہ‬
‫ہی اس میں خورد برد کرو کہ یہ بڑے گناہ کی بات ہے۔‬

‫قرآن مجید میں اللہ تعالی فرماتے ہیں‪:‬‬


‫ِ‬ ‫چنانچہ‬

‫ب ۪‪ -‬و لَا َتا ْ ُك ُل ٰۤوا ا َموالَه ٰۤ‬ ‫﴿ َو ا ٰ ُتوا ا ْل َی ٰت ٰٰۤ‬


‫م ا ِ ٰلى ا َْم َوا ِل ُك ْ‬
‫م‪-‬‬ ‫ْ َْ ُ ْ‬ ‫َ‬ ‫ث ِب َّ‬
‫الط ِی ِ‬ ‫م َو لَا َت َت َب َّد ُلوا ا ْل َخ ِب ْی َ‬
‫مى ا َْم َوال َُه ْ‬
‫ان ُح ْو ًبا َك ِب ْی ًرا‪﴾1‬‬
‫ا ِ َّنه َك َ‬

‫اور یتیموں کو ان کے مال دے دو اور اچھے مال کو خراب سے تبدیل نہ کرو ‪ ،‬اور‬
‫ان(یتیموں)کا مال اپنے مال کے ساتھ مالکر مت کھاو! بے شک یہ بڑا گناہ ہے۔‬

‫یعنی یتیم بچے جن کا باپ مر گیا ہوان کے متعلق ان کے ولی اور سرپرست کو یہ حکم‬
‫ہے کہ جب وہ بالغ ہوجائیں تو ان کا مال ان کے سپرد کردے اور زمانہ تولیت میں یتیموں‬
‫کی کسی اچھی چیز کو لے کر اس کے معاوضہ میں بری اور گھٹیا چیز ان کے مال میں‬
‫شامل نہ کردے اور ان کے مال کو اپنے مال کے ساتھ مال کر نہ کھاوے ۔ مثال ولی کو‬
‫اجازت ہے کہ اپنا اور یتیم کا کھانا مشترک اور شامل رکھے ‪ ،‬مگر یہ ضرور ہے کہ یتیم‬
‫کا نقصان نہ ہونے پائے ‪ ،‬یہ نہ ہو کہ ا ِس شرکت کے بہانے سے یتیم کا مال کھا جاوے‬
‫اور اپنا نفع کرلے ‪ ،‬کیوں کہ یتیم کا مال کھانا سخت گناہ ہے۔‬

‫احادیث صحیحہ میں منقول ہے کہ یتیم لڑکیاں (جو اپنے ولی کی تربیت میں ہوتی‬
‫تھیں) اور وہ لڑکی اس ولی کے مال اور باغ میں بوجہ قرابت باہمی شریک ہوتی ‪ ،‬تو‬
‫اب دو صورتیں پیش آتیں ‪ ،‬کبھی تو یہ ہوتا کہ ولی کو اس کا جمال اور مال دونوں‬
‫مرغوب ہوتے تو وہ ولی اس سے تھوڑے سے مہر پر نکاح کرلیتا ‪ ،‬کیوں کہ دوسرا‬

‫‪ 1‬سور النسا‪02:‬‬
‫شخص اس لڑکی کا حق مانگنے واال تو کوئی ہے ہی نہیںاور کبھی یہ ہوتا کہ یتیم لڑکی‬
‫کی صورت تو مرغوب نہ ہوتی ‪ ،‬مگر دل یہ خیال کرتا کہ دوسرے سے نکاح کردوں گا‬
‫تو لڑکی کا مال میرے قبضہ سے نکل جائے گا اور میرے مال میں دوسرا شریک ہوجاوے‬
‫گا‪ ،‬ا ِس مصلحت سے نکاح تو جیسے تیسے کرلیتا مگر منکوحہ سے کچھ رغبت نہ رکھتا‬
‫‪ ،‬اس پر یہ آیت اتری اور اولیا کو ارشاد ہواکہ اگر تم کو اس بات کا ڈر ہے کہ تم یتیم‬
‫لڑکیوں کی بابت انصاف نہ کرسکوگے اور ان کے مہر اور ان کے ساتھ حسب معاشرت‬
‫میں تم سے کوتاہی ہوگی تو تم ان سے نکاح مت کرو‪ ،‬بلکہ اور عورتیں جو تم کو مرغوب‬
‫ہوں ان سے ایک چھوڑ چار تک کی تم کو اجازت ہے ۔ قاعدہ شریعت کے موافق ان سے‬
‫نکاح کرلو‪ ،‬تاکہ یتیم لڑکیوں کو بھی نقصان نہ پہنچے ‪ ،‬کیوں کہ تم ان کے حقوق کے‬
‫حامی رہوگے اور تم بھی کسی خرابی اور گناہ میں نہ پڑو۔ یتیم لڑکیوں کے نکاح کی‬
‫تیسری صورت یہ بھی حدیث میں ہے کہ جس یتیم لڑکی کی طرف صورت اور مال‬
‫‪1‬‬
‫دونوں وجہ سے بے رغبتی ہوتی تھی اس کا نکاح ولی دوسری جگہ کرادیتا تھا۔‬

‫اع ۖ َفا ِْن‬


‫َاث َو ُر َب َ‬
‫ِسآ ِء َم ْث ٰنى َو ُثل َ‬
‫م ِم َن الن َ‬‫اب َل ُك ْ‬ ‫ـم اَلَّا ُت ْقسِ ُط ْوا فِى ا ْل َي َت ٰ‬
‫امى َف ْانك ُِح ْوا َما َط َ‬ ‫﴿ َوا ِْن خِ ْف ُت ْ‬
‫د ُلوا فواحِ دة ا َو ما م َلكت ا َيمانكم ۚ ذلِك ا َدنٰٓى اَلَّا تعو ُلوا﴾ ‪2‬‬
‫َ ُ ْ ْ‬ ‫ـم اَلَّا َت ْع ِ ْ َ َ َ ً ْ َ َ َ ْ ْ َ ُ ُ ْ ٰ َ ْ ٰ‬ ‫خِ ْف ُت ْ‬

‫اور اگر تم یتیم لڑکیوں سے بے انصافی کرنے سے ڈرتے ہو تو جو عورتیں تمہیں پسند‬
‫آئیں ان میں سے دو دو تین تین چار چار سے نکاح کر لو‪ ،‬اگر تمہیں خطرہ ہو کہ انصاف‬
‫نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی سے نکاح کرو یا جو لونڈی تمہارے مل ِک میں ہو وہی‬
‫سہی‪ ،‬یہ طریقہ بے انصافی سے بچنے کے لیے زیادہ قریب ہے۔‬

‫‪ 1‬تفسیر عثمانی‪ :‬ص‪133‬‬

‫‪:‬سور النسا‪03:‬‬ ‫‪2‬‬


‫اسی طرح یتیم بچوں کے مال کو بد دیانتی اور اسراف سے بھی خرچ نہیں کرنا چاہئے‬
‫اور نہ ہی ان کو اس وقت تک یہ مال سپرد کرنا چاہیے جب تب کہ عقل و شعور کامل‬
‫بیدار نہ ہوجائے‪ ،‬پس جب وہ اپنے سن رشد کو پہنچ جائیں اور ان میں عقل و شعور‬
‫بیدار ہوجائے ‪-‬‬

‫اسی طرح یہ بھی زمانہ جاہلیت کا ایک دستور تھا کہ یتیم بچے بچی کے عاقل بالغ‬
‫ہونے سے پہلے پہلے ہی محض ا ِس غرض اور نیت سے ان کے مال کو جلدی جلدی‬
‫ہڑپ کرلیا جاتا کہ کہیں سن شعور کو پہنچنے کے بعد ان کو یہ مال واپس نہ کرنا‬
‫پڑجائے ا ِس لئے اللہ تعالی نے ایسا کرنے سے بھی منع فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے‪:‬اور‬
‫یہ مال فضول خرچی کرکے اور یہ سوچ کر جلدی جلدی نہ کھا بیٹھو کہ وہ کہیں بڑے‬
‫نہ ہوجائیں۔‬

‫هآ‬‫ـم ۖ َولَا َتاْ ُك ُل ْو َ‬


‫َـه ْ‬ ‫ـع ٰٓـوا اِل َْي ِـه ْ‬
‫ـم ا َْم َوال ُ‬ ‫اد َف ُ‬
‫ش ًدا َف ْ‬‫ـم ُر ْ‬
‫ـه ْ‬‫ـم ِم ْن ُ‬ ‫س ُت ْ‬
‫اح َفا ِْن ا ٰ َن ْ‬ ‫امى َحتــٰٰٓى اِذَا َبل َُغوا النِكَ َۚ‬ ‫﴿ َو ْاب َت ُلوا ا ْل َي َت ٰ‬
‫ـم‬
‫م ْع ُـر ْوفِ ۚ َفا ِ َذا دَ َف ْع ُت ْ‬ ‫ل ِبا ْل َ‬
‫ان َفق ِْي ًـرا َف ْل َياْ ُك ْ‬
‫ِف ۖ َو َم ْن كَ َ‬ ‫س َت ْعف ْ‬ ‫ان َغ ِنيًّا َف ْل َي ْ‬‫افا َو ِب َد ًارا ا َْن َيكْ َـب ُـر ْوا ۚ َو َم ْن كَ َ‬
‫ِس َر ً‬ ‫ا ْ‬
‫اِل َْي ِـه ْ‬
‫‪1‬‬
‫حسِ ْي ًبا﴾‬ ‫ـم ۚ َو َك ٰفى ِباللـٰهِ َ‬ ‫َش ِه ُد ْوا َعل َْي ِـه ْ‬
‫ـم َفا ْ‬ ‫َـه ْ‬
‫ـم ا َْم َوال ُ‬

‫اور یتیموں کی آزمائش کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں‪ ،‬پھر اگر‬
‫ان میں ہوشیاری دیکھو تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو‪ ،‬اور ان کا مال نہ کھاؤ فضول‬
‫خرچی میں یا جلدی میں کہ وہ بڑے ہو جائیں گے (اور اپنا مال لے لیں گے)‪ ،‬اور جسے‬
‫ضرورت نہ ہو تو وہ یتیم کے مال سے بچے‪ ،‬اور جو حاجت مند ہو تو مناسب مقدار کھا‬
‫لے‪ ،‬پھر جب ان کے مال ان کے حوالے کرو تو اس پر گواہ بنا لو‪ ،‬اور حساب لینے کے لیے‬
‫اللہ کافی ہے۔‬

‫‪ 1‬سور النسا‪06:‬‬
‫جب کسی بچے کا باپ مر جائے تو چاہیے کہ چند مسلمانوں کے رو بر و یتیم کا مال‬
‫لکھ کر امانت دار کو سونپ دیں ‪ ،‬جب یتیم بالغ ہوشیار ہوجائے تو ا ِس تحریر کے موافق‬
‫اس کا مال اس کے حوالہ کردیںاور جو کچھ خرچ ہوا ہو وہ اس کو سمجھا دیں۔ اور جو‬
‫کچھ یتیم کے حوالہ کیا جائے شاہدوں کو دکھال کر حوالہ کریں ‪ ،‬شاید کسی وقت اختالف‬
‫‪1‬‬
‫ہو تو بہ سہولت طے ہوسکے ۔‬

‫اسی طرح احادیث مبارکہ میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم‬
‫نے بھی یتیم بچوں کے حقوق ادا کرنے اور ان کے ساتھ صلہ رحمی اور شفقت و پیار‬
‫کرنے کی بڑی تاکید اور ترغیب ذکر فرمائی گئی ہے۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ‬
‫عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے دل کی‬
‫سختی کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا کہ‪ :‬یتیم کے سرپر ہاتھ پھیرا کرواور مسکین‬
‫‪2‬‬
‫کو کھانا کھالیا کرو‬

‫حضرت ابودردا رضی اللہ عنہ نے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کی طرف لکھا کہ ایک‬
‫آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے دل کی سختی کی شکایت کی تو‬
‫رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‪ :‬اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا دل نرم ہوجائے تو‬
‫‪3‬‬
‫تم یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرا کرواوراسے کھالیا کرو!‬

‫حضرت بشیر بن عقربہ جہنی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جنگ احد کے دن میری‬
‫حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مالقات ہوئی ‪ ،‬میں نے پوچھا میرے والد کا کیا‬
‫ہوا؟حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‪ :‬وہ تو شہید ہوگئے‪ ،‬اللہ تعالی ان پر رحم‬

‫‪ 1‬تفسیر عثمانی‪ :‬ص‪134‬‬


‫‪ 2‬مسند احمد‪7577 :‬‬
‫‪ 3‬السنن الکبری للبیہقی‪7095:‬‬
‫فرمائے۔ میں یہ سن کر رونے لگ پڑا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پکڑ کر‬
‫میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے اپنے ساتھ اپنی سواری پر سوار کرلیااور فرمایا کہ‪ :‬کیا‬
‫‪1‬‬
‫تم ا ِس پر راضی نہیں ہوکہ میں تمہارا باپ بن جاوں اور عائشہ تمہاری ماں؟‬

‫حضرت ام سعید بنت مرہ الفہری رضی اللہ عنہا اپنے والد سے روایت کرتی ہیں کہ‬
‫رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ‪ :‬میں اور یتیم کی کفالت کرنے واال‬
‫شخص جنت میں ا ِس طرح ہوں گے‪ ،‬اس کے بعد آپ نے درمیان والی انگلی اور شہادت‬
‫‪2‬‬
‫والی انگلی سے اشارہ فرمایا۔‬

‫حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم‬
‫نے ارشاد فرمایا‪ :‬مسلمانوں کا سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہواور اس‬
‫کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہواور سب سے برا گھر وہ ہے جس میں کوئی یتیم ہو اور‬
‫اس کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو۔ میں اور یتیم کی کفالت کرنے واال جنت میں ا ِس‬
‫‪3‬‬
‫طرح ہوں گے اور آپ نے اپنی دو انگلیوں سے اشارہ فرمایا‬

‫قارئین کرام !آج دنیا کے چپے چپے پر یتیم خانے قائم ہیں۔ سکول قائم ہیں۔ ہسپتال قائم‬
‫ہیں لیکن اگر تاریخ عالم کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺکی آمد‬
‫سے پہلے یتیموں کا یہ بدقسمت گروہ ا ِس نعمت عظمی سے یکسر محروم تھا۔ بال‬
‫شبہ اسالم ہی وہ پہال اور آخری مذہب ہے جس نے ا ِس مظلوم گروہ کی داد رسی کی‪،‬‬

‫‪ 1‬شعب االیمان للبیہقی‪10533:‬‬

‫‪ 2‬مسند الحمیدی‪861:‬‬

‫‪ 3‬الزہد والرقائق البن المبارک‪654:‬‬


‫عرب پہلی سرزمین ہے جہاں کسی یتیم خانہ کی بنیاد پڑی اور اسالمی حکومت وہ‬
‫پہلی حکومت ہے جو جہاں جہاں وسیع ہوتی گئی ان کے لئے امن و راحت کا گہوارہ‬
‫بنتی گئی‪ ،‬اس نے یتیموں کے لئے پرسکون گھر بنائے‪ ،‬ان کو ان کے حقوق دلوائے‪ ،‬ان‬
‫کے وظائف مقرر کیے‪ ،‬ان کی اسالم کے مطابق مناسب تعلیم و تربیت کی‪ ،‬اور اس نے‬
‫اپنے قاضیوں اور حاکموں کو ا ِس مظلوم و بے کس طبقے کا سرپرست بنایا‪ ،‬ان کو ان‬
‫کی جائیدادیں محفوظ رکھنے کا پابند بنایا‪ ،‬ان کے جملہ معامالت کی دیکھ بھال کا حکم‬
‫دیا اور ان کا مناسب جگہ رشتہ طے کرکے ان کے گھروں کو آباد کرنے کا پابند بنایا۔ آج‬
‫غیر مسلم ممالک میں بھی جس طرح غریب بچوں کا خیال رکھا جاتا ہے وہ اسالم ہی‬
‫کی درخشاں تاریخ کی پیروی ہے‬

‫تقسیم میراث‬

‫جیسا کہ یہ بات محتاج بیان نہیں ہے کہ میراث کا علم اللہ کے نزدیک بہت زیادہ اہمیت‬
‫رکھنے واال علم ہے ‪،‬نبی کریم ﷺنے فرمایا تعلموالفرائض وعلموفانہ نصف العلم ‪1‬علم‬
‫میراث سیکھو اور اسے لوگوں کو سکھائو ‪،‬اس لئے کہ یہ آدھا علم ہے ‪ ،،‬اس علم کوعلم‬
‫الفرائض کانام بھی اسی وجہ سے دیاگیا ہے کہ اسے اللہ تعالی نے اپنے بندوں پر فرض‬
‫کیا ہے ‪،‬یا اس وجہ سے کہ اس میں ورثاء کے حصے میں اللہ تعالی نے خود مقرر فرمادیے‬
‫ہیں‬

‫علم میراث کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ باقی تمام عبادات کو‬
‫اللہ تعالی نے اجماال ً بیان فرمایا ہے اور اس کی تفصیالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ‬
‫وسلم نے احادیث مبارکہ کے ذریعے بیان فرمائی ہیں۔جیسا کہ نماز کی فرضیت کا حکم‬

‫القروینی ‪،‬ابو عبداللہ ‪،‬محمد بن یزید ‪،‬ابن ماجہ ‪٧٢٣،‬ھ‪،‬سنن ابن ماجہ ‪،‬ج‪،٤‬ص ‪٢٣‬‬ ‫‪1‬‬
‫تو اللہ نے دیا ہے ‪،‬لیکن اس کی باقی تفصیالت احادیث میں بیان ہوئی ہیں کہ اس کے‬
‫اوقات کیا ہیں ‪،‬فرض رکعات کتنی ہیں ‪،‬سنتیں کتنی ہیں‪،‬واجبات کتنی ہیں‪،‬نوافل کتنے‬
‫ہیں‪،‬وغیرہ وغیرہ ۔یہ تفصیلی وضاحت بھی احادیث ہی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ‬
‫وسلم نے بیان فرمایء ہے کہ'' لفظ صالة''سے اللہ تعالی کی مراد یہ پانچ نمازیں ہیں‬
‫‪،‬اسی طرح زکوة کے بارے میں بھی فرضیت کا حکم تو قرآن نے دیا ہے ‪،‬لیکن اس کا‬
‫نصاب ‪،‬اور مقدار زکوة کی تفصیالت رسول اللہ ؓنے بتائی ہیں ۔رمضان کے مہینے‬
‫میںروزوں کا قرآن نے صرف یہ حکم دیا کہ‬

‫م َت َّت ُق ْو َن‪﴾َ1‬‬ ‫َّ‬ ‫َّ‬ ‫﴿یا َ ُّی َها ا َّلذ ِْی َن اٰ َم ُن ْوا ُكت َ‬
‫م ل ََعل ُك ْ‬
‫ِب َعلَى الذ ِْی َن ِم ْن َق ْب ِل ُك ْ‬
‫ما ُكت َ‬
‫ام َك َ‬
‫الص َی ُ‬
‫ِب َعل َْی ُك ُم ِ‬

‫'' اے مو منو‪:‬تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض‬
‫کئے گئے تھے ‪،‬تاکہ تم تقوی دار بنو''‬

‫لیکن روزے کی باقی ساری تفصیالت احادیث میں مذکور ہیں۔حج کے بار ے میں اسی‬
‫لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر فرمایا‪:‬‬

‫] عن جابر یقول رایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم یرمی علی راحلتہ یوم النحر ویقول‬
‫لتاخذو مناسککم فانی لا ادری لعلی لا احج بعد حجی ھذہ‪[2‬‬

‫''حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبیؓ کو یوم النحر میں اپنی‬
‫سواری پر جمرہ عقبہ کو کنکر مارتے ہوئے دیکھا کہ آپ ؓ فرما رہے تھے مجھ سے حج‬
‫کے احکام سیکھو ‪،‬کیونکہ میں نہیں جانتا کہ میں اپنے اس حج کے بعد حج کر سکوں‬
‫گا''‬

‫‪ 1‬سورۃالبقرہ(‪)183‬‬
‫‪ 2‬امام مسلم ‪،‬ابو الحسن ‪،‬مسلم بن حجاج بن مسلم ‪،‬القشیری ‪،‬النسابوری ‪،‬الجامع الصحیح مسلم ‪،‬داراحیاء‬
‫الثرث العربی ‪،‬بیروت ‪،‬تحقیق محمد فئواد عبدالباقی ‪،‬ج‪٢‬ص‪٤٩٣‬۔‬
‫لیکن اس کے برعکس میراث کے قانون کی پوری تفصیالت قرآن کریم نے خود بتائی‬
‫ہیں‪،‬اور ذوی الفروض اور عصبات کے تمام حصوں کا تعین خود قرآن کریم نے کر دیا ہے‬
‫‪،‬اور ان میں سے ہر ایک حصہ الگ الگ کر کے دیا ہے ۔اور قانون میراث کے ساری‬
‫تفصیالت کو ان تین آیتوں میں بیان فرمایاگیا ہے‬

‫ك‪-‬‬
‫ق ا ْث َن َت ْی ِن َفل َُه َّن ُث ُل َثا َما َت َر َۚ‬ ‫آء َف ْو َ‬
‫ِس ً‬
‫ن َ‬ ‫ظ الْ ُا ْن َث َی ْی ِۚن‪َ -‬فا ِْن ُك َّن‬ ‫ل َح ِ‬ ‫م‪-‬لِل َّذ َك ِر ِم ْث ُ‬ ‫ِی ا َْولَا ِد ُك ْ‬‫م ال ّٰل ُه ف ْٰۤ‬ ‫ص ْی ُك ُ‬
‫﴿ ُی ْو ِ‬
‫ان لَه َول ٌ َۚد‪-‬‬‫ك ا ِْن كَ َ‬ ‫ما َت َر َ‬ ‫س ِم َّ‬ ‫الس ُد ُ‬
‫ُّ‬ ‫ما‬
‫ف‪َ -‬و لِاَ َب َو ْیهِ ِل ُك ِل َواحِ ٍد ِم ْن ُه َ‬ ‫ِص ُ‬ ‫ت َواحِ َد ًة َفل ََها الن ْ‬ ‫َو ا ِْن كَ َان ْ‬
‫ُث‪-‬‬ ‫م َی ُك ْن َّله َول ٌَد َّو َو ِر َث ٰۤه ا ََب ٰو ُه َفلِ ُا ِمهِ ال ُّثل ُۚ‬ ‫َّ‬
‫َفا ِْن ل ْ‬
‫ی ِب َهاٰۤ اَ ْو َد ْی ٍن‪-‬‬ ‫ص ْ‬ ‫صیَّةٍ یُّ ْو ِ‬ ‫س ِم ْن َب ْع ِد َو ِ‬ ‫س ُد ُ‬ ‫ان ل َٰۤه ا ِْخ َو ٌة َفلِاُ ِمهِ ال ُّ‬ ‫َفا ِْن كَ َ‬
‫ض ًة ِم َن ال ّٰله‪-‬‬ ‫م َن ْف ًعا‪َ -‬ف ِر ْی َ‬ ‫ب َل ُك ْ‬ ‫م ا َْق َر ُ‬ ‫م لَا َت ْد ُر ْو َن اَیُّ ُه ْ‬ ‫م َو ا َْب َنآ ُؤ ُك ْ‬ ‫ا ٰ َبآ ُؤ ُك ْ‬
‫م َی ُك ْن َّل ُه َّن َو َل ٌ ۚد‪-‬‬ ‫َّ‬
‫م ا ِْن ل ْ‬ ‫اج ُك ْ‬ ‫ك ا َْز َو ُ‬ ‫ف َما َت َر َ‬ ‫ِص ُ‬ ‫م ن ْ‬ ‫ما(‪َ ﴾۱۱‬و َل ُك ْ‬ ‫ما َحك ِْی ً‬ ‫ان َعل ِْی ً‬ ‫ا َِّن ال ّٰل َه كَ َ‬
‫ص ْی َن ِب َهاٰۤ ا َْو َد ْی ٍن‪-‬‬ ‫ص َّیةٍ یُّ ْو ِ‬ ‫ما َت َركْ َن ِم ْن َب ْع ِد َو ِ‬ ‫الر ُب ُع ِم َّ‬ ‫م ُّ‬ ‫ان ل َُه َّن َول ٌَد َف َل ُك ُ‬ ‫َفا ِْن كَ َ‬
‫م َول ٌ َۚد‪-‬‬ ‫َّ‬ ‫َّ‬
‫م َی ُك ْن ل ُك ْ‬ ‫م ا ِْن ل ْ‬ ‫ما َت َر ْك ُت ْ‬ ‫الر ُب ُع ِم َّ‬
‫َو ل َُه َّن ُّ‬
‫ص ْو َن ِب َهاٰۤ ا َْو َد ْی ٍن‪-‬‬ ‫صیَّةٍ ُت ْو ُ‬ ‫م ِم ْن َب ْع ِد َو ِ‬ ‫ما َت َركْ ُت ْ‬ ‫ُّم ُن ِم َّ‬ ‫م َول ٌَد َفل َُه َّن الث ُ‬ ‫ان َل ُك ْ‬ ‫َفا ِْن كَ َ‬
‫س‪-‬‬
‫الس ُد ُۚ‬‫ُّ‬ ‫ما‬
‫ت َف ِل ُك ِل َواحِ ٍد ِم ْن ُه َ‬ ‫ام َرا ٌَة َّو ل َٰۤه ا ٌَخ ا َْو ا ُْخ ٌ‬
‫ث كَ ٰلل ًَة اَ ِو ْ‬ ‫ان َر ُج ٌل یُّ ْو َر ُ‬
‫َو ا ِْن كَ َ‬
‫آر‪-‬‬
‫ض ٍۚ‬
‫صى ِب َهاٰۤ ا َْو َد ْی ٍن‪َ -‬غ ْی َر ُم َ‬‫ص َّیةٍ ُّی ْو ٰ‬ ‫ث ِم ْن َب ْع ِد َو ِ‬ ‫آء فِی ال ُّث ُل ِ‬ ‫ش َركَ ُ‬
‫م ُ‬ ‫ِك َف ُه ْ‬ ‫َفا ِْن كَ ُان ْٰۤوا اَكْ َث َر ِم ْن ٰذل َ‬
‫‪1‬‬
‫م﴾‬ ‫ّٰ‬ ‫ّٰ‬
‫صیَّ ًة ِم َن اللهِ ‪َ -‬و الل ُه َعل ِْی ٌم َحل ِْی ٌ‬ ‫َو ِ‬

‫اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اوالد کے بارے میں بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں برابر پھر‬
‫اگر نری لڑکیاں ہوں اگرچہ دو سے اوپر تو ان کو ترکہ کی دو تہائی اور اگر ایک لڑکی تو‬
‫اس کا آدھا اور میت کے ماں باپ کو ہر ایک کو اس کے ترکہ سے چھٹا اگر میت کے اوالد‬
‫ہو ‪ -‬پھر اگر اس کی اوالد نہ ہو اور ماں باپ چھوڑے تو ماں کا تہائی پھر اگر اس کے‬
‫کئی بہن بھائی توماں کا چھٹا بعد اس وصیت کے جو کر گیا اور دَین کے تمہارے باپ‬
‫اور تمہارے بیٹے تم کیا جانو کہ ان میں کون تمہارے زیادہ کام آئے گا یہ حصہ باندھا‬
‫ہوا ہے اللہ کی طرف سے بے شک اللہ علم واال حکمت واال ہےاور تمہاری بیبیاں جو‬
‫چھوڑ جائیں اس میں سے تمہیں آدھا ہے اگر ان کی اوالد نہ ہو پھر اگر ان کی اوالد ہو‬
‫تو اُن کے ترکہ میں سے تمہیں چوتھائی ہے جو وصیت وہ کر گئیں اور دَین نکال کر اور‬
‫تمہارے ترکہ میں عورتوں کا چوتھائی ہے اگر تمہارے اوالد نہ ہو پھر اگر تمہارے اوالد‬
‫ہو تو ان کا تمہارے ترکہ میں سے آٹھواں جو وصیت تم کر جاؤ اور دین نکال کر اور اگر‬

‫‪ 1‬سورۃالنسا(‪10‬۔‪)11‬‬
‫کسی ایسے مرد یا عورت کا ترکہ بٹتا ہو جس نے ماں باپ اوالد کچھ نہ چھوڑے اور ماں‬
‫کی طرف سے اس کا بھائی یا بہن ہے تو ان میں سے ہر ایک کو چھٹا پھر اگر وہ بہن‬
‫بھائی ایک سے زیادہ ہوں تو سب تہائی میں شریک ہیں میت کی وصیت اور دین نکال‬
‫کر جس میں اس نے نقصان نہ پہنچایا ہو یہ اللہ کا ارشاد ہے اور اللہ علم واال حلم واال‬
‫ہے‬

‫ك‪َ -‬و‬
‫ف َما َت َر َۚ‬‫ِص ُ‬ ‫ّٰ‬
‫ت َفل ََها ن ْ‬ ‫س لَه َول ٌَد َّو ل َٰۤه اُ ْخ ٌ‬ ‫َك ل َْی َ‬ ‫هل َ‬ ‫ام ُر ٌؤا َ‬‫م فِی ا ْلكَ ٰللَةِ ‪-‬ا ِِن ْ‬ ‫ك‪ُ -‬ق ِل الل ُه ُی ْفت ِْی ُك ْ‬ ‫س َت ْف ُت ْو َن َ‬ ‫﴿ َی ْ‬
‫آء‬
‫ِس ً‬‫ك‪َ -‬و ا ِْن كَ ُان ْٰۤوا ا ِْخ َو ًة ِر َجا ًلا َّو ن َ‬ ‫ما َت َر َ‬ ‫م َی ُك ْن َّل َها َول ٌَد‪َ -‬فا ِْن َك َان َتا ْاث َن َت ْی ِن َفل َُه َ‬
‫ما ال ُّث ُل ٰث ِن ِم َّ‬ ‫َّ‬
‫ه َو َی ِر ُث َها ٰۤ ا ِْن ل ْ‬‫ُ‬
‫‪1‬‬
‫م﴾‬ ‫ّٰ‬ ‫ُّ‬ ‫ّٰ‬ ‫َفلِل َّذكَ ِر ِم ْث ُ‬
‫ی ٍء َعل ِْی ٌ‬‫ش ْ‬‫ضل ْوا‪َ -‬و الل ُه ِب ُك ِل َ‬ ‫م ا َْن َت ِ‬ ‫ظ الْاُ ْن َث َی ْی ِن‪ُ -‬ی َب ِی ُن الل ُه َل ُك ْ‬
‫ل َح ِ‬

‫فتوی پوچھتے ہیں تم فرما دو کہ اللہ تمہیں کاللہ کے بارے میں‬


‫ٰ‬ ‫اے حبیب! تم سے‬
‫فتوی دیتا ہے۔ اگر کسی مرد کا انتقال ہو جس کی اوالد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو‬
‫ٰ‬
‫تو ترکہ میں اس کی بہن کا آدھا ہے اور مرد اپنی بہن کا وارث ہوگا اگر بہن کی اوالد‬
‫نہ ہو پھر اگر دو بہنیں ہوں ترکہ میں ان کا دو تہائی (حصہ ہوگا) اور اگر بھائی بہن‬
‫ہوں (جن میں ) مرد بھی (ہوں ) اور عورتیں بھی تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر‬
‫ہوگا۔ اللہ تمہارے لئے صاف بیان فرماتا ہے تاکہ تم بھٹک نہ جا ٔو اور اللہ ہرچیز جانتا ہے۔‬

‫زمانہ جاہلیت میں وراثت صرف طاقتور مردوں کا حق ہوتا تھا یعنی عورتوں اور بچوں‬
‫کا میراث میںکوئی حصہ نہیںہوتا تھا ‪،‬اس قانون کی بنیاد یہ تھی کہ جوجنگ نہیں‬
‫لڑ سکتا وہ میراث میں حصہ نہیں لے سکتا ‪،‬جیسا کہ اما م قرطبی رحمہ اللہ نے اپنی‬
‫تفسیر احکام القرآن میں لکھا ہے و ہ فرماتے ہیں‬

‫]وکانت الوراثة فی الجا ھلےة بالر جولےة والقو ة‪ ،‬وکانو ا یورثو ن الرجال دون النساء ‪ ،‬فا‬
‫‪2‬‬
‫بطل اللہ عزوجل ذلک بقولہ [﴿للرجال نصیب مما اکتسبو وللنساء نصیب﴾‬

‫‪ 1‬سورۃانسا(‪)176‬‬
‫‪ 2‬القرطبی‪،‬او عبد اللہ ‪،‬محمد بن احمد ‪،‬االنصاری ‪٦٨١،‬ھ‪،‬الجامع االحکام القرآن تفسیر القرطبی ‪،‬دارالکتاب‬
‫العربی ‪،‬بیروت‪٢٠٠٨،‬م‪١٤٢٩،‬ھ‪،‬ج ہ‪،‬ص ‪٨٨‬‬
‫ترجمہ'' وراثت جاہلیت کے زمانہ میں صرف طاقتور مردوں کو مال کرتا تھا ‪،‬اور عورتوں‬
‫کو اس میں سے کوئی حصہ نہیں دیا جاتا تھا ‪،‬تو اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کرکے اس‬
‫ظلم پر مبنی قانون کو باطل کر دیا''‬

‫مردوں کا حصہ ہے اپنی کمائی میں سے ‪،‬اور عورتوں کا حصہ ہے اپنی کمائی میں‬
‫الکبری میں حضر ت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت‬
‫ٰ‬ ‫سے‪،‬سنن النسائی‬
‫سے ایک حدیث نقل ہوئی ہے ‪،‬اس حدیث کو الفاظ کے تھوڑے سے اختالف کے ساتھ‬
‫امام بیہقی رحمہ اللہ نے شعیب ایمان میں‪،‬اما م ابو عبد اللہ الحاکم نے المستدرک‬
‫علی الصحیحین‪،‬ابو الحسن علی بن عمر الدار قطنی نے سنن الدار قطنی میں اور امام‬
‫الکبری میں بھی نقل کیا ہے‬
‫ٰ‬ ‫نسائی نے السنن‬

‫میراث کے علم سے بے خبری اور حد درجہ غفلت کا زیادہ برا اثر خواتین پر ہوا ہے جس‬
‫کے نتیجے میں بہنوں کو لوگوں نے میراث کاحصہ دینا ہی بند کردیا ‪،‬اور بڑے اطمینان‬
‫اور خوشی کے ساتھ بیٹھ کر باپ کا ترکہ آپس میں تقسیم کرتے ہیں ‪،‬اور بہنیں‬
‫موجودہوتی ہیں‪،‬لیکن ان کے دیکھتے دیکھتے ‪،‬یعنی ان کے سامنے ان کا حصہ خود‬
‫تقسیم کرتے ہیں ‪،‬اور بہنیں اپنے باپ کی میراث سے عمر بھر کے لئے محروم ہو جاتی‬
‫ہیں ‪،‬اور ظاہر ہے اس ظلم کے نتیجے میں ان بہنوں کے بچے بچیاں بھی محروم ہی ہو‬
‫جاتی ہیں ۔یہ بھی حقیقت ہے کہ صرف بہنیں اس ظلم کا شکار نہیں بلکہ بہت ساری‬
‫بیوائیں اور یتیم بچیاں اور بچے بھی اس ظلم کاشکار ہیں کہ ان کا حصہ طاقتور برد‬
‫وثاء ہڑپ کر جاتے ہیں یہ با لکل جاہلیت کے زمانے کی وہ شکل ہے ‪ ،‬جیسے اس وقت‬
‫مرد اور پھر طاقتور مرد کو میراث کا حق پہنچتا تھا‪،‬جبکہ عورتو اور بچوں کو کوئی حصہ‬
‫نہیں ملتا تھا‪،‬بالکل اس طر ح آج ہمارے معاشرے میں بھی عورتیں تو مکمل طور پر‬
‫محروم ہو گئیں ہیں‪،‬لیکن ساتھ کمزور مرد یعنی بچپن میںیتیم ہونے والے بچے بھی ان‬
‫کے میراث کے حق سے محروم کردیے جاتے ہیں‪،‬اوروہ تمام اموال منقولہ اور غیر منقولہ‬
‫جو ان بچوں کے حصے میں آتے تھے وہ سب یا تو آپس میں تقسیم کر کے باکل کالعدم‬
‫کر دیتے ہیں ‪،‬گویا وہ بچہ ان کے خاندان کا ہے ہی نہیں‪،‬اور نہ کبھی تھایاور یایتیم کا مال‬
‫پچپن ہی میں اس پر خرچ کے نام سے خود ہڑپ کر جاتے ہیں‪،‬اور بڑا ہو کر اس بے چارے‬
‫کو یہ معلوم بھی نہیں ہوتا کہ میر ا بھی کوئی مال تھا۔‬

‫پوتے کی وراثت کے مسئلے پر چونکہ اسالم کے خالف ان دشمنان اسالم کو ایک بے‬
‫بنیاد اور قرضی شوشہ ہاتھ آگیا ‪،‬تو اس پر انہوں نے بڑا شور مچایا ‪،‬لیکن مسئلہ تو‬
‫صرف یتیم پوتے کا نہیں‪،‬پوتیوں کا بھی ہے ‪،‬اور ان یتیم بچوں اور بچیوں کا بھی ہے ‪،‬اور‬
‫ان بچوں اور بچیوں کی بیوہ ماں کا بھی ہے ‪،‬جسے کچھ بھی نہیں ملتا ‪،‬بلکہ ستم پر‬
‫ستم یہ کہ اس بیوہ کو تو یہ لوگ عدت گزرنے کے بعد بھی ایسا رکھتے ہیں ‪،‬جیسے یہ‬
‫ان کے بھائی کے نکاح سے نکل کر خود بخود ان کے نکاح میں آگئی ہے ۔اس کو دوسرے‬
‫نکا ح کا بھی حق نہیں دیتے اور اسے اپنی ناک کا مسئلہ سمجھتے ہیں ‪،‬اور اس بیوہ‬
‫کے یتیم بچوں ‪،‬بچیوں کو اپنی میراث سمجھ کر آپس میں ریو ڑیوں کی طرح تقسیم‬
‫کر دیتے ہیں‪،‬اور بعض دفعہ تو ایسے دردناک واقعات ہوئے ہیں ‪،‬جن میںسے ایک آدھ‬
‫واقعے کا میں خود بھی گواہ ہوں کہ شوہر کی وفات کے چند بعد کسی بہانے یا ضرورت‬
‫کیلئے اس بیوہ خاتون کو اپنے بچوں سمیت اپنے والدین کے گھر بھیج دیا ‪،‬اور واپسی‬
‫پر اس کیلئے اس گھر کے دروازے بند کر دیے‪،‬کہ دوبارہ اب وہ اس گھر میں قدم ہی‬
‫نہیں رکھ سکتی ۔‬

‫تقسیم میراث کا فلسفہ‬

‫ك ا ْل َوال ِٰد ِن َو الْا َ ْق َر ُب ْو َن ِم‬


‫ما َت َر َ‬
‫ب ِم َّ‬
‫ص ْی ٌ‬
‫ِسآ ِء َن ِ‬
‫ك ا ْل َوال ِٰد ِن َو الْا َ ْق َر ُب ْو َن ۪ َو لِلن َ‬ ‫ما َت َر َ‬‫ِم َّ‬ ‫ب‬
‫ص ْی ٌ‬ ‫ال َن ِ‬ ‫ِلر َج ِ‬
‫ل ِ‬
‫‪1‬‬
‫ضا‬
‫ص ْی ًبا َّم ْف ُر ْو ً‬
‫كَ ُث َر‪َ -‬ن ِ‬ ‫َّما َق َّ‬
‫ل ِم ْن ُه ا َْو‬

‫‪ 1‬سورت النسا‪7،‬‬
‫اس ایت کریمہ میں پانچ بنیادی مسائل کا یبان ہے‬

‫‪١‬۔میراث ضرور تقسیم ہونی چاہئے خواہ کتنا ہی کم کیوں نہ ہو۔‬

‫‪٢‬۔میراث میں صرف مردوں کا حصہ نہیں بلکہ عورتوں کا بھی حصہ ہے‬

‫‪٣‬۔وارثت کا قانون ہر قسم کے اموال پر الگو ہوگا خواہ اموال منقولہ ہو یا غیر منقولہ۔‬

‫‪٤‬۔میراث کا حق اس وقت پیدا ہوتا ہے کہ جب کوئی شخص مال چھوڑ کر مرے ۔‬

‫‪٥‬۔قریب ترین رشتہ دارکی موجودگی میں بعیدتر محروم ہوگا ‪،‬علم میراث کے قانون کے‬
‫اس شق سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو گئی کہ میراث کے قانون میں مقامی قاری‬
‫کی کوئی حیثیت نہیں ہے‪،‬اس کا فلسفہ یہ ہے کہ اگر قائمقامی کا سلسلہ شروع‬
‫ہوجائے تو پھر ہر میت کے قائمقام تقسیم میراث کے وقت حاضر ہوجائیں گے اور اپنے‬
‫اپنے رشتہ دار کے قائم مقام بن جائیںگے‪،‬مثال ًبردار نسبتی آئیں گے اور اپنی متوفی‬
‫بہن کے قائمقام بن کر اس کاحصہ وصول کرنے کا مطالبہ کریںگے۔چھوٹے بچوں کی‬
‫ماں ان کا حق مانگتا شروع کردیں گی‪،‬اور میراث میں زندہ وورثاء کو کچھ بھی نہیں‬
‫ملے گا ‪،‬بلکہ قائمقام سارا ترکہ لے جائیں گے ‪ ،‬جس سے میراث کا قانون ایک پراگندہ‬
‫اور غیر معقول قانون بن جائے گا۔‬

‫تقسم میراث کے احکام شرعیہ کا فلسفہ تین بنیادی اصولوں پر مبنی‬


‫ہے۔‬

‫‪ ١‬۔قرابت یعنی رشتہ داری‪:‬پہال حق قریبی رشتہ داروں کا ہے‪،‬تو میت کے قریبی رشتہ‬
‫داروں کی موجودگی میں دور کے رشتہ دار محروم ہونگے۔یعنی میت کے وہ رشتہ دار‬
‫سب سے پہلے حقدار ہوںگے جن کے اور میت کے درمیان کوئی اوررشتہ دار حاجب‬
‫(حائل)نہ ہو۔‬
‫‪ ٢‬۔ضرورت‪:‬یعنی اللہ نے میراث کے حصے حسب ضرورت مقرر کئے ہیں تو لڑکوں کی‬
‫ضرورت زیاد ہ ہے ‪،‬اس لئے کہ لڑکیوں کا خرچہ والدین کی ذمہ داری ہے اور ان پر کمانا‬
‫الزم نہیں ہے اور شادی کے بعدشوہر پر نفقہ الزم ہے ‪،‬اسی طرح عورت والد اور شوہر‬
‫دونوں سے حصہ لیتی ہے اور نان نفقہ کی ذمہ داری اس پرکچھ بھی نہیں ہے ۔‬

‫اسی طرح میت کی اوالد کی ضرورتیں اس کے والدین سے زیادہ ہوتی ہیں اس لئے‬
‫میراث میں ان کا حصہ زیادہ مقرر ہوا۔‬
‫فصل دوم‬

‫قتل کی اقسام اور احکام‬


‫فصل دوم‬

‫قتل کی اقسام اور احکام‬

‫ب ال ّٰل ُه َعل َْیهِ َو ل ََع َنه َو ا ََع َّد لَه َع َذ ًابا‬


‫ض َ‬
‫ل ُم ْؤ ِم ًنا ُّم َت َع ِم ًدا َف َج َز ُآؤه َج َه َّن ُم ٰخل ًِدا ف ِْی َها َو َغ ِ‬
‫﴿ َو َم ْن یَّ ْق ُت ْ‬
‫ما‪﴾1‬‬ ‫َعظِ ْی ً‬

‫اور وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی جزا جہنم ہے‬
‫جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ‪ ،‬اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس‬
‫کے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے‬

‫اس آیت کی تفہیم سے قبل ایک مقدمہ کا سمجھنا ضروری ہے کہ‪ :‬النسا آیت میں ‪،‬‬
‫مومن کو خطا سے قتل کرنے کا ذکر ہے ‪ ،‬البقرہ آیت کے آغاز میں ﴿یا یہا الذِین آمنوا کتِب‬

‫علیکم القِصاص فِی القتلی﴾ کے الفاظ سے مومنین کو مخاطب کرتے ہوئے قصاص کا حکم‬
‫دے دیا گیا ہے ‪ ،‬اس سے بھی بڑھ کر (الحر ِبالح ِر والعبد ِبالعب ِد والنثی ِبالنثی﴾کے الفاظ سے‬
‫مزید وضاحت کر دی گئی ہے ‪ ،‬اسی طرح المائد آیت کے آغاز میں ہی﴿ النفس بالنفس﴾کا‬
‫قتل خطا کی‬
‫ِ‬ ‫عمومی بیان‪ ،‬مومن کو بھی اپنے اندر سموئے ہوئے ہے ۔النسا آیت میں‬
‫ممنا ِلا خطئا﴾سے یہ تو خودبخود ظاہر ہو جاتا ہے کہ دیگر‬
‫تصریح ﴿وما کان لِمو ِمن من یقتل ِ‬

‫قتل خطا سے الگ قسم کا حامل ہے ‪ ،‬اس لیے‬


‫ِ‬ ‫مقامات پر قتل کا بیان بہ اعتبار ِ نوعیت‬
‫قتل خطا اور اس کے مقابل‬
‫ِ‬ ‫قتل خطا ہرگز نہیں ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب‬
‫ِ‬ ‫کم از کم‪،‬‬
‫قتل کی نوع کا باقاعدہ سزاں کے ساتھ ذکر ہو چکا ہے تو پھر یہاں(النسا آیت میں)الگ‬

‫‪ 1‬سورت النسا‪93،‬‬
‫سے مومن کے قتل کا تذکرہ کیوں کیا جا رہا ہے؟ کیا اس آیت کے بغیر شارع کی منشا‬
‫پوری نہیں ہو رہی؟‬

‫معلوم ہوتا ہے کہ شارع نے قتل خطا کے مقابل قتل کی نوع کی درجہ بندی کی ہے ۔‬
‫البقر آیت اور ا لمائد آیت میں اگر مقتول کو مومن تصور کر لیا جائے تو قرینہ بتاتا ہے‬
‫کہ قتل بشری کم زوری کی وجہ سے ہوا ہے یا کسی نہ کسی حوالے سے مقتول خود‬
‫بھی قتل کی وجہ بنا ہے ‪ ،‬اسی لیے وہاں مقتول کے مومن ہوتے ہوئے بھی قاتل کے لیے‬
‫قدرے نرمی دکھائی گئی ہے اور مقتول کے ورثا کو قصاص لینے کے بجائے خون بہا‬
‫لینے(البقر)یا مکمل معاف کرنے(المائد)کی ترغیب دی گئی ہے۔ بنی اسرائیل آیت میں‬
‫مقتول کو مومن یا غیر مومن نہیں کہا گیا ‪ ،‬البتہ مظلوم ضرور کہا گیا ہے اور ورثا کو‬
‫خون بہا لینے یا معاف کرنے کی کوئی ترغیب دینے کے بجائے اسراف فی القتل سے‬
‫قتل خطا کے مقابل ‪ ،‬قتل کی ان انواع کو جانچا جائے تو کہا جا‬
‫ِ‬ ‫منع کیا گیا ہے۔ اگر‬
‫سکتا ہے کہ البقر اور المائد میں بیان کیا گیا قتل جواز کے تحت قتل کے زمرے میں آتا‬
‫ہے اور بنی اسرائیل میں بیان کیا گیا قتل ‪ ،‬بدیہی طور پر مظلومانہ قتل یا ظالمانہ قتل‬
‫کا نام پا سکتا ہے ۔ ان تینوں مقامات پر خطا یا عمد کا ذکر نہیں کیا گیا ۔ بنی اسرائیل‬
‫قتل عمد میں آسانی سے شامل‬
‫ِ‬ ‫آیت میں مقتول کے مظلوم ہونے کی وجہ سے ‪ ،‬اسے‬
‫کیا جا سکتا ہے۔ لیکن البقر آیت اور المائد میں ایسی تخصیص کافی مشکل ہے کہ‬
‫قتل کی نوعیت کے حوالے سے وہاں کوئی لفظ نہیں ملتا ۔ البتہ سزاں کو م ِد نظر رکھ‬
‫کر یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ البقر میں بیان کیے گئے قتل میں ‪ ،‬عمد کا شائبہ موجود‬
‫ہے ‪ ،‬جبکہ المائد میں خطا کا احتما ل پایا جاتا ہے ۔ اس لیے ہر دو مقامات پر اصول کی‬
‫سطح پر قصاص کو قائم رکھتے ہوئے ‪ ،‬بالترتیب ‪ ،‬معافی کی کچھ گنجایش نکالی گئی‬
‫ہے ‪ ،‬اور مکمل معاف کیا گیا ہے ۔‬
‫بنی اسرائیل آیت میں قاتل کو سزا دینے کے لیے مقتول کے ولی کی (ایک لحاظ سے‬
‫قانونی پوزیشن ﴿ جعلنا لِو ِل ِیہِ سلطانا﴾کے الفاظ میں واضح کی گئی ہے‪ ،‬لیکن النسا آیت‬
‫میں مقتول مومن کے ولی کی قانونی پوزیشن کی تصریح کی ضرورت محسوس نہیں‬
‫کی گئی ‪ ،‬بلکہ مزید غور سے دیکھا جائے تو ولی ہی کا بیان موجود نہیں‪ ،‬قانونی‬
‫پوزیشن کی صراحت تو خیر اگلی بات تھی ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسے انداز ِ بیان سے‬
‫شارع کی منشا کیا ہے؟ ( خیال رہے کہ البقر آیت میں ﴿فمن عفِی لہ ِمن خِ یہِ شی ﴾کے‬
‫الفاظ اور المائد آیت میں ﴿فمن تصدق ِبہِ فہو کفار لہ﴾ کے الفاظ کسی فریق ثانی یا ولی‬
‫کی موجودگی پر داللت کر رہے ہیں ) جبکہ النسا آیت میں فریق ثانی وہ مومن ہے جس‬
‫کو عمدا قتل کیا جا چکا ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مقتول مومن کا قائم مقام آخر کون‬
‫ہو گا؟ ہم سمجھتے ہیں کہ مقتول مومن کے قائم مقام کو تالش کرنے سے ہی ‪ ،‬اس‬
‫آیت میں کسی فریق ثانی یا ولی کی عدم موجودگی کے پیچھے پوشیدہ شارع کی منشا‬
‫و حکمت سامنے آ سکتی ہے ۔‬

‫مقتول مومن کے قائم مقام کی تالش میں بنی اسرائیل آیت اور النسا آیت کا تقابلی‬
‫مطالعہ کافی معاونت کر سکتا ہے ۔ سور بنی اسرائیل آیت میں ﴿ومن قتِل مظلوما﴾ کے‬
‫متعمدا﴾ کے ذکر کی بظاہر کوئی گنجایش‬
‫ِ‬ ‫بیان سے ‪ ،‬سور النسا آیت میں ﴿ومن یقتل ِ‬
‫ممنا‬

‫باقی نہیں رہتی ‪ ،‬کہ مقتول مظلوم ‪ ،‬مومن بھی ہو سکتا ہے ۔ لیکن غور کیا جائے تو‬
‫واضح ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل آیت میں مقتول کی مظلومیت کی نوعیت بیان نہیں‬
‫کی گئی ۔ چونکہ مقتول مظلوم ‪ ،‬غیر مومن بھی ہو سکتا ہے ‪ ،‬اس لیے قرینہ بتاتا ہے‬
‫کہ مظلومیت ‪ ،‬نوعیت کے اعتبار سے دنیاوی پہلو کی حامل ہے ‪،‬مثال سماج میں‬
‫طبقاتی کھینچا تانی کے عمل میں کوئی شخص مظلومانہ قتل ہو سکتا ہے یا کارا کاری‬
‫جیسی کسی قبیح رسم کی بھینٹ چڑھ سکتا ہے وغیرہ وغیرہ ۔اسی لیے شارع نے ایک‬
‫طرف (بنی اسرائیل آیت کے تناظر میں ) النسا آیت میں مومن پر فوکس کیا ہے‬
‫اوردوسری طرف (البقر آیت کے تناظر میں ) عمد پر توجہ مرکوز رکھی ہے کہ کسی‬
‫بھی قسم کے جواز کے بغیر ‪ ،‬جانتے بوجھتے مومن کو عمدا قتل کرنا ‪ ،‬اللہ کے غضب‬
‫عذاب عظیم کو دعوت دینے والی بات ہے‬
‫ِ‬ ‫اللہ کی لعنت اور جہنم میں ہمیشہ رہنے کے‬
‫۔ اس تقابلی مطالعہ سے یہ نکتہ بھی سامنے آتا ہے کہ اگر کسی شخص کا طبقاتی‬
‫کھینچا تانی وغیرہ کے عمل میں ‪ ،‬مظلومانہ قتل ہو جائے اور وہ شخص مومن بھی ہو‬
‫تو ‪ ،‬اس کے قاتل کے جرم کی سنگینی بہت بڑھ جاتی ہے ‪ ،‬غالبا اسی سنگینی کو‬
‫باقاعدہ ظاہر کرنے کے لیے ہی‪ ،‬بنی اسرائیل آیت کے برعکس مقتول (اور اس کے ولی‬
‫وغضب‬
‫ِ‬ ‫)کے بجائے زیر ِ نظر آیت میں قاتل پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ﴿فجزآہ جہنم خالِدا فِیہا‬

‫ہللا علیہِ ولعنہ وعد لہ عذابا عظِ یما﴾ جیسی سخت وعید بیان کی گئی ہے ۔اس وعید میں‬
‫یہ معنویت بھی مستور ہے کہ چونکہ مومن قرآن کے نظامِ اقدار کا متشکل روپ یا‬
‫تجسیم ہے ‪،‬اس لیے اسے عمدا قتل کرنا ایسے ہی ہے جیسے قرآن کو حق جانتے ہوئے‬
‫نہ صرف جھٹال یا جائے بلکہ اس کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی مذموم کوشش بھی‬
‫کی جائے ۔لہذا ‪ ،‬اس آیت سے یہ معانی اخذ کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ مومن‬
‫ہیت اجتماعی کو چیلنج کرنے‬
‫کو بال جوازعمدا قتل کرنا درحقیقت قرآنی اقدار پر مبنی ِ‬
‫ہیت‬
‫کے مترادف ہے اس لیے ایسے مقتول مومن کا قائم مقام یا ولی صرف اور صرف ِ‬
‫اجتماعی یا حاکم ہی ہو سکتا ہے ‪ ،‬کوئی دوسرا نہیں ۔‬

‫وغضب ہللا علیہِ ولعنہ وعد لہ عذابا‬


‫ِ‬ ‫اب ذرا‪ ،‬النسا آیت کے اس حصے ﴿فجزآہ جہنم خالِدا فِیہا‬

‫عظِ یما﴾ میں سے ﴿فجزآہ﴾ پر غور کیجیے اور دیگر قرآنی مقامات سے اس کا موازنہ‬
‫کیجیے‪ ،‬مثال البقر آیت کے اس حصے(فمن عفِی لہ ِمن خِ یہِ شی فاتِباع ِبالمعروفِ ودا ِلیہِ‬

‫فمن اعتدی بعد ذلِک فلہ عذاب لِیم﴾ میں سے (فمن‬


‫ِ‬ ‫بَِِ حسان ذلِک تخفِیف ِمن ر ِبکم ورحم‬

‫عفِی﴾ پرتدبر کیجیے ‪ ،‬اور المائد آیت کے اس حصے ﴿فمن تصدق ِبہِ فہو کفار لہ ومن لم یحکم‬

‫ِبما نزل ہللا فولئِک ہم الظالِمون) میں سے (فمن تصدق﴾ پرغور و فکر کیجیے ‪ ،‬اور بنی‬
‫القتل ِنہ‬
‫ِ‬ ‫اسرائیل آیت کے اس حصے (ومن قتِل مظلوما فقد جعلنا لِو ِل ِیہِ سلطانا فلا یس ِرف فِی‬

‫قابل غور مقام‬


‫ِ‬ ‫کان منصورا) میں سے ﴿فقد جعلنا لِو ِل ِیہِ سلطانا﴾ کا تجزیہ کیجیے ۔ انتہائی‬
‫ہے کہ النسا آیت میں فقط ﴿فجزآہ﴾کا بیان ہے ‪ ،‬جبکہ دیگر مقامات پر (فمن عفِی﴾‪( ،‬فمن‬

‫تصدق﴾‪ ،‬اور ﴿فقد جعلنا لِو ِل ِیہِ سلطانا﴾جیسے الفاظ موجود ہیں‪ ،‬ان کا تنقیدی تقابلی‬
‫مطالعہ نہایت صراحت سے بیان کر رہا ہے کہ ﴿فجزآہ﴾ میں یک طرفہ کاروائی ہے ‪ ،‬نہ تو‬
‫قاتل کے لیے کوئی گنجایش (قانونی ‪ ،‬اخالقی ‪ ،‬سماجی وغیرہ ) ہے اور نہ ہی کسی‬
‫بھی درجے میں مقتول مومن کے ورثا کی رائے یا جذبات کا احترام ملحوظ ہے ‪ ،‬بلکہ ایک‬
‫لحاظ سے یہ طے کر دیا گیا ہے کہ مومن کو عمدا قتل کرنے والے قاتل کے لیے ایک ہی‬
‫وغضب اللہ علیہِ ولعنہ وعد لہ عذابا عظِ یما۔‬
‫ِ‬ ‫فیصلہ ہے اور وہ یہ ہے‪ :‬جہنم خالِدا فِیہا‬
‫اس مقام پر مناسب ہو گا کہ دیگر قرآنی مقامات کی مدد سے ‪ ،‬جہاں جہنم کو جزا کی‬
‫حیثیت دی گئی ہیجزا کے مفہوم کے تعین کی کوشش کی جائے‪:‬‬

‫هلل لکم ِذا انقلبتم ِلی ِہم لِتع ِرضوا عنہم فع ِرضوا عنہم ِنہم ِرجس ومواہم جہنم جزا ِبما‬
‫﴿سیحلِفون ِبا ِ‬
‫کانوا یکسِ بون﴾‬

‫اب تمہارے آگے اللہ کی قسمیں کھائیں گے جب تم ان کی طرف پلٹ کر جا گے اس‬


‫لیے کہ تم ان کے خیال میں نہ پڑو تو ہاں تم ان کا خیال چھوڑ دو وہ تو نرے پلید ہیں‬
‫اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے بدلہ اس کا جو کماتے تھے ۔‬

‫﴿قال اذہب فمن ت ِبعک ِمنہم فِن جہنم جزآکم جزا موفورا ﴾ (االسرا(‬

‫کہا جا پس جو کوئی پیروی کرے گا تیری ان میں سے ‪ ،‬تو بے شک جہنم ہے جزا‬


‫تمہاری جزا پوری ۔‬

‫ی َو َك ُان ْوا لَا‬ ‫ِی غِ َطآ ٍء َع ْن ِذ ْك ِر ْ‬ ‫مف ْ‬ ‫ت ا َْع ُی ُن ُه ْ‬‫ضاﰳَا َّلذ ِْی َن َك َان ْ‬ ‫م َی ْو َم ٕى ٍذ ِل ْل ٰك ِف ِر ْی َن َع ْر َ‬ ‫ض َنا َج َه َّن َ‬
‫﴿ َّو َع َر ْ‬
‫م ِل ْل ٰك ِف ِر ْی َن‬ ‫آء‪-‬ا ِ َّنا ٰۤ ا َْع َت ْد َنا َج َه َّن َ‬
‫ِی ا َْول َِی َ‬
‫ِی ِم ْن ُد ْون ْٰۤ‬ ‫ب ا َّلذ ِْی َن كَ َف ُر ْٰۤوا ا َْن َّی َّتخِ ُذ ْوا عِ َباد ْ‬ ‫م ًعاا ََف َحسِ َ‬ ‫س ْ‬ ‫س َتطِ ْی ُع ْو َن َ‬‫َی ْ‬
‫م‬ ‫ض َّ‬ ‫َّ‬
‫س ُب ْو َن ا َ َّن ُه ْ‬‫م َی ْح َ‬ ‫ه ْ‬ ‫م فِی ا ْل َح ٰیوةِ ال ُّد ْن َیا َو ُ‬ ‫س ْع ُی ُه ْ‬
‫ل َ‬ ‫مالًااَلذ ِْی َن َ‬ ‫س ِر ْی َن ا َْع َ‬‫م ِبا ْلا َ ْخ َ‬ ‫ل ُن َن ِب ُئ ُك ْ‬
‫ه ْ‬‫ل َ‬ ‫اق ْ‬‫ُن ُزلً ُ‬
‫مةِ‬
‫م َی ْو َم ا ْلق ِٰی َ‬
‫م َفلَا ُنق ِْی ُم ل َُه ْ‬
‫ما ُل ُه ْ‬
‫ت ا َْع َ‬‫م َو ل َِقآى ٖٕه َف َح ِب َط ْ‬
‫ت َر ِب ِه ْ‬ ‫ص ْن ًعااُو ٰٰٓلى َ‬
‫ٕك ا َّلذ ِْی َن كَ َف ُر ْوا ِبا ٰ ٰی ِ‬ ‫ُی ْحسِ ُن ْو َن ُ‬
‫‪1‬‬
‫ه ُز ًوا ﴾‬
‫ِی ُ‬ ‫سل ْ‬ ‫ِی َو ُر ُ‬ ‫ما َك َف ُر ْوا َو ا َّت َخ ُذ ْٰۤوا ا ٰ ٰیت ْ‬‫م َج َه َّن ُم ِب َ‬ ‫ه ْ‬ ‫ِك َج َز ُآؤ ُ‬
‫َو ْز ًنا ٰذل َ‬
‫اور ہم اس دن جہنم کافروں کے سامنے الئیں گے۔ وہ جن کی آنکھوں پر میری یاد سے‬
‫پردہ پڑا تھا اور حق بات سن نہ سکتے تھے۔ تو کیا کافر یہ سمجھتے ہیں کہ میرے بندوں‬
‫کو میرے سوا حمایتی بنا لیں گے بے شک ہم نے کافروں کی مہمانی کو جہنم تیار کر‬
‫رکھی ہے۔ تم فرما کیا ہم تمہیں بتا دیں کہ اعمال کے اعتبار سے سب سے بڑھ کر‬
‫خسارہ میں کون ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی ساری کوشش دنیا کی زندگی میں گم‬
‫گئی اور وہ اس خیال میں ہیں کہ اچھا کام کر رہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو رب کی آیتوں‬
‫اور اس کے ملنے کا انکار کر رہے ہیں ‪ ،‬سو ان کے سارے اعمال غارت ہو گئے ‪ ،‬تو قیامت‬
‫کے روز ہم ان کا ذرا بھی وزن قائم نہیں کریں گے۔ یہ ہے جزا ہے ان کی ‪ ،‬جہنم ‪ ،‬بسبب‬
‫اس کے کہ کفر کیا ہے انہوں نے ‪ ،‬اور پکڑا نشانیوں میری کو ‪ ،‬اور رسولوں میرے کو‬
‫ٹھٹھا بنایا ۔‬

‫ن‪﴾2‬‬
‫الظل ِِم ْی َ‬
‫ِك َن ْج ِزی ّٰ‬
‫م‪-‬كَ ٰذل َ‬ ‫ِی ا ِ ٰل ٌه ِم ْن ُد ْون ِٖه َف ٰذل َ‬
‫ِك َن ْج ِز ْیهِ َج َه َّن َ‬ ‫م ا ِن ْٰۤ‬
‫ل ِم ْن ُه ْ‬
‫﴿ َو َم ْن یَّ ُق ْ‬
‫اور ان میں جو کوئی کہے کہ میں اللہ کے سوا الہ ہوں تو اسے ہم جہنم کی جزا دیں‬
‫گے ہم ایسی ہی جزا دیتے ہیں ظالموں کو۔‬

‫جہنم کی جز ا کے ان قرآنی اطالقات سے مزیدصراحت ہو جاتی ہے کہ جزا یک طرفہ‬


‫(ایک لحاظ سے خود کار )کاروائی ہے جس کے پیچھے (جوازا) اتمامِ حجت کی ایسی‬
‫داللت پائی جاتی ہے جس کے بعد کسی حیل و حجت کی گنجایش باقی نہیں رہتی ۔‬
‫ہم سمجھتے ہیں کہ النسا آیت میں مومن ایسی ہی داللت کی عالمت ہے ‪ ،‬اس کی‬
‫وضاحت سور الحجرات کی اس آیت سے یوں ہوتی ہے ‪:‬‬

‫‪: 1‬سورۃ الکھف‪106،105،104،103،102،101،100‬‬


‫‪: 2‬االنبیا‪29‬‬
‫م‪َ -‬و ا ِْن ُتطِ ْی ُعوا‬ ‫اب ا ٰ َم َّنا‪ُ -‬ق ْ َّ‬
‫ِی ُق ُل ْو ِب ُك ْ‬
‫ان ف ْ‬ ‫م ُ‬ ‫ما َی ْد ُخ ِل الْا ِْی َ‬
‫َم َنا َو َل َّ‬
‫َسل ْ‬
‫م ُت ْؤ ِم ُن ْوا َو ٰلك ِْن ُق ْو ُل ْٰۤوا ا ْ‬‫لل ْ‬ ‫ت الْاَ ْع َر ُ‬
‫﴿ َقا َل ِ‬
‫م‪﴾1‬‬ ‫ّٰ‬ ‫ال ّٰل َه َو َر ُ‬
‫ش ْیــٴ ًَـا‪-‬ا َِّن الل َه َغ ُف ْو ٌر َّرحِ ْی ٌ‬‫م َ‬ ‫ما ِل ُك ْ‬
‫م ِم ْن ا َْع َ‬ ‫س ْولَه لَا َیل ِْت ُك ْ‬
‫کہتے ہیں گنوار کہ ہم ایمان الئے ‪ ،‬آپ کہیے تم ایمان نہیں الئے بلکہ تم یوں کہو ہم‬
‫مسلمان ہوئے اور ابھی نہیں داخل ہوا ایمان تمہارے قلوب میں‪ ،‬اور اگر اللہ اور اس‬
‫کے رسول کی اطاعت کرو گے تو اللہ تمہارے اعمال میں سے کچھ کمی نہیں کرے گا‬
‫اللہ یقینابخشنے واال رحم کرنے واال ہے ۔‬

‫مومن کی مذکورہ داللت واضح ہونے کے بعد جزا کی ایک اور معنوی سطح منکشف‬
‫ہوتی ہے ۔ ذرا غور کیجیے کہ النسا آیت میں قصاص کے بجائے جزا کا بیان ہوا ہے ۔ اس‬
‫بیان سے ظاہری طور پر یہ مغالطہ ہوتا ہے کہ جزا (فجزآہ﴾ اور اس کے بعد کا بیان (جہنم‬

‫وغضب ہللا علیہِ ولعنہ وعد لہ عذابا عظِ یما﴾‪ ،‬صرف اور صرف اخروی زندگی کی‬
‫ِ‬ ‫خالِدا فِیہا‬

‫سزا کے لیے آیا ہے دنیاوی سزا سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ لیکن حقیقت میں ایسا‬
‫ہرگز نہیں ہے۔البقر اور المائد کی قصاص سے متعلق آیات میں قصاص کا ذکر کیا گیا‬
‫ہے ‪ ،‬اور قصاص ‪ ،‬برابری کے معنی میں مستعمل ہے ‪ ،‬حتی کہ سزا دیتے وقت ظاہری‬
‫صورت میں بھی برابری مقصود ہوتی ہے ‪ ،‬اسی لیے قتل کے سوا ا کثر دیگر صورتوں‬
‫میں قصاص کا اطالق ممکن نہیں ہوتا ۔ النسا آیت میں بھی اگر مقتول مومن کے قاتل‬
‫کے لیے قصاص کا لفظ برتا جاتا ‪ ،‬تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ اسے بھی قتل کر دیا جائے‬
‫قابل غور بات یہ ہے کہ اس عمل سے جان‬
‫ِ‬ ‫‪ ،‬اس طرح قصاص یا برابری واقع ہو جاتی ۔‬
‫کے بدلے جان تو لے لی جاتی ‪ ،‬لیکن مقتول کی مومنیت دھری کی دھری رہ جاتی‬
‫القتل ِنہ کان‬
‫ِ‬ ‫۔(خیال رہے کہ بنی اسرائیل آیت میں (فقد جعلنا لِو ِل ِیہِ سلطانا فلا یس ِرف فِی‬

‫منصورا ﴾کا بیان مقتول کی مظلومیت کا التزام رکھے ہوئے ہے کہ اس کے قاتل کے قتل‬
‫میں اسراف تو نہ کیا جائے ‪ ،‬لیکن قاتل کو معافی بھی ہرگز نہ دی جائے اور الزما قتل‬

‫کیاجائے )‪ ،‬اس لیے شارع نے النسا آیت میں مقتول کے ایمان کا پورا دھیان رکھا ہے ‪ ،‬زیر ِ‬

‫‪ 1‬سورۃ الحجرات‪14‬‬
‫نظر آیت کی ابتدائی سطروں میں بھی ہم نے بطور مقدمہ یہ نکتہ اٹھایا تھا کہ اس آیت‬
‫میں مومن کے بیان کے بغیر شارع کی منشا پوری نہیں ہورہی۔ بہرحال ! اب اگر مقتول‬
‫کے عالوہ مومن پر بھی توجہ مرکوز کی جائے تو قصاص کے بجائے جزا کے انتخاب کی‬
‫حکمت سمجھ میں آتی ہے ۔ پورے قرآن مجید میں جزا کے اطالقات پر نظر دوڑائی جائے‬
‫تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی معنویت قصاص کے مانند صرف ظاہری برابری تک ہی‬
‫محدود نہیں ‪ ،‬بلکہ کیفیت میں عدمِ مطابقت کے تدارک کے لیے اور وزن و کمیت میں‬
‫برابری کی خاطر ‪ ،‬ظاہری طور پر مختلف صورت کا اپنایا جانا بھی ‪ ،‬جزا کے معنوی‬
‫دائرے میں شامل ہے ‪،‬مثال‪:‬‬

‫س َبا َن َكالًا ِم َن ال ّٰلهِ ‪َ -‬و ال ّٰل ُه َع ِز ْی ٌز َحك ِْی ٌم‪﴾1‬‬


‫ما َك َ‬
‫آء ِب َ‬
‫ما َج َز ً‬
‫اق َط ُع ْٰۤوا ا َْید َِی ُه َ‬
‫سا ِر َق ُة َف ْ‬
‫ق َو ال َّ‬ ‫﴿ َو ال َّ‬
‫سا ِر ُ‬

‫اور جو مرد یا عورت چور ہو تو ان کا ہاتھ کاٹو ‪ ،‬ان کے کیے کی جزا اللہ کی طرف سے‬
‫عبرت ‪ ،‬اور اللہ غالب حکمت واال ہے‬

‫اگر جزا کا مطلب ویسا ہی بدلہ ہے توچور کی سزا چور کے ہاں چوری کی صورت میں‬
‫ہونی چاہیے تھی‪ ،‬لیکن چونکہ ایسی ظاہری مطابقت ممکن نہیں تھی ‪ ،‬اس لیے عدم‬
‫مطابقت کے تدارک کے لیے قطع ید کی جزا مقرر کی گئی۔پھر عام طور پر چور کا کٹا ہوا‬
‫ہاتھ ‪ ،‬سماجی کلنک کی عالمت بھی بن جاتا ہے جسے اللہ رب العزت نے (نکاال مِ ن الل ِہ)‬
‫کے الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا قطع ید اور (نکاال مِ ن اللہِ ) جرم‬
‫کے عین مطابق سزا کے بجائے زیادہ سزا پر داللت کرتے ہیں؟اس سلسلے میں جزا کے‬
‫دیگر قرآنی اطالقات ‪ ،‬قطعیت کے ساتھ راہنمائی کرتے ہیں کہ سزا کی ایسی نوعیت‬
‫سزا میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہے ‪ ،‬لہذا اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے ظلم کی‬
‫عالمت بھی نہیں ہے بلکہ حقیقت میں کسی منفی فعل یا جرم کا عین بدل ہے ‪ ،‬مثال‪:‬‬

‫‪ 1‬المائد‪38‬‬
‫الحسن فلہ عشر مثالِہا ومن جا ِبالس ِیَِ فلا یجزی ِلا ِمثلہا وہم لا یظلمون ﴾ االنعام‬
‫ِ‬ ‫﴿من جا ِب‬

‫جو ایک نیکی الئے تو اس کے لیے اس جیسی دس ہیں اور جو برائی الئے تو اسے جزا‬
‫نہ ملے گی مگر اس کے برابر ‪ ،‬اور ان پر ظلم نہ ہو گا ۔‬

‫ت ِلا ما کانوا یعملون‬ ‫یَِ فلا یجزی الذِین ِ‬


‫عملوا الس ِیا ِ‬ ‫الحسن فلہ خیر ِمنہا ومن جا ِبالس ِ‬
‫ِ‬ ‫﴿من جا ِب‬
‫﴾القصص‬

‫جو نیک کام کرے اسے اس سے بہتر صلہ ملے گا اور جو برا کام کرے تو انہیں جو برا‬
‫کام انجام دیتے ہیں ‪ ،‬جزا نہیں ملے گی سوا اس کے جو وہ کرتے تھے‬

‫ب‪﴾1‬‬
‫سا ِ‬ ‫م ا ْل َی ْو َم‪-‬ا َِّن ال ّٰل َه َ‬
‫س ِر ْی ُع الْحِ َ‬ ‫ت‪-‬لَا ُظ ْل َ‬
‫س َب ْ‬
‫ما كَ َ‬
‫س ِب َ‬ ‫﴿ا َ ْل َی ْو َم ُت ْج ٰزى ُك ُّ‬
‫ل َن ْف ٍٍۭ‬
‫آج ہر جان اپنے کیے کی جزا پائے گی آج کسی پر ظلم نہیں ‪ ،‬بے شک اللہ جلد حساب‬
‫لینے واال ہے‬

‫ه َو ُم ْؤ ِم ٌن َف ُاو ٰٰٓلى َ‬
‫ٕك َی ْد ُخ ُل ْو َن‬ ‫صال ًِحا ِم ْن ذَكَ ٍر ا َْو اُ ْن ٰثى َو ُ‬ ‫س ِی َئ ًة َفلَا ُی ْج ٰٰۤزى اِلَّا ِم ْثل ََهاۚ‪َ -‬و َم ْن َع ِم َ‬
‫ل َ‬ ‫ل َ‬ ‫﴿ َم ْن َع ِم َ‬
‫ب‪﴾2‬‬ ‫سا ٍ‬ ‫ا ْل َج َّن َة ُی ْر َز ُق ْو َن ف ِْی َها ِب َغ ْی ِر حِ َ‬
‫جو برا کام کرے اسے جزا نہیں دی جائے گی مگر اتنی ہی ‪ ،‬اور جو اچھا کام کرے مرد‬
‫ہو یا عورت اور وہ ہو مومن ‪ ،‬پس وہ جنت میں داخل کیے جائیں گے وہاں بے حساب‬
‫رزق پائیں گے‬

‫َم ْو َن‪﴾3‬‬
‫م لَا ُی ْظل ُ‬
‫ه ْ‬
‫ت َو ُ‬
‫س َب ْ‬
‫ما َك َ‬
‫س ِب َ‬ ‫ض ِبا ْل َح ِق َو ل ُِت ْج ٰزى ُك ُّ‬
‫ل َن ْف ٍٍۭ‬ ‫ت َو ا ْلا َ ْر َ‬
‫م ٰو ِ‬ ‫َق ال ّٰل ُه ال َّ‬
‫س ٰ‬ ‫﴿ َو َخل َ‬
‫اور اللہ نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ بنایا اور اس لیے کہ ہر جان اپنے کیے‬
‫کی جزا پائے اور ان پر ظلم نہ ہو گا‬

‫( چور کو قطع ید کی جزا اور اللہ کی طرف سے عبرت ‪ ،‬اگرچہ ظاہری طور پر زیادہ سزا‬
‫معلوم ہوتے ہیں ‪ ،‬لیکن اگر قرآن مجید میں کسی کا مال حرام طریقے سے کھانے وغیرہ‬

‫‪ 1‬سورۃ المومن‪17‬‬
‫‪ 2‬سورۃالمومن‪40‬‬
‫‪ 3‬سورۃالجاثیہ‬
‫‪ ،‬اور کسی سماج میں مال کی اہمیت وغیرہ ‪ ،‬کو م ِد نظر رکھا جائے تو قطع ید کی جزا‬
‫‪،‬وزن و کمیت کے لحاظ سے جزا کی معنوی سطح پر پوری اترتی ہے اور جرم کا عین‬
‫بدل معلوم ہوتی ہے ) ۔ اس لیے زیر ِ نظرسورة النسا آیت کے مطابق بھی مقتول مومن‬
‫کے قاتل کو قتل کرنا ہی جزا نہیں کہ ایسی جزا میں مقتول کے ایمانکا دھیان نہیں‬
‫رکھا جاتا ‪ ،‬اس لیے جرم کی نوعیت کے لحاظ سے ‪ ،‬جزا کی معنوی سطح کا اطالق(بہ‬
‫اعتبار وزن و کمیت ) اسی صورت ممکن ہے جب قاتل کے قتل سے بھی بڑھ کر سزا‬
‫تجویز کی جائے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ المائد آیت میں سے (نکاال مِ ن اللہِ ) اور النسا آیت‬
‫(وغضب اللہ علیہِ ) کا تنقیدی تقابلی مطالعہ ‪ ،‬شارع کی منشا جاننے کی راہ‬
‫ِ‬ ‫میں سے‬
‫ہموار کر سکتا ہے ۔ اس سلسلے میں قرآنی مغضوبین کی ذلت و محتاجی کی حالت‬
‫(نکاال مِ ن اللہِ ) سے بھی بڑھی ہوئی معلوم ہوتی ہے‪ ،‬مالحظہ کیجیے ‪:‬‬

‫ض ِم ْن َب ْقل َِها َو‬ ‫ت الْا َ ْر ُ‬ ‫ما ُت ْن ِب ُ‬ ‫ك ُی ْخ ِر ْج ل ََنا ِم َّ‬ ‫اد ُع ل ََنا َر َّب َ‬
‫ص ِب َر َع ٰلى َط َعامٍ َّواحِ ٍد َف ْ‬ ‫َن َّن ْ‬ ‫سى ل ْ‬ ‫م ٰی ُم ْو ٰ‬ ‫﴿ َو ا ِ ْذ ُق ْل ُت ْ‬
‫ص ًرا َفا َِّن‬‫ِه ِب ُط ْوا ِم ْ‬ ‫ه َو َخ ْی ٌر‪-‬ا ْ‬ ‫ِی ُ‬ ‫ه َو ا َْد ٰنى ِبا َّلذ ْ‬
‫ِی ُ‬ ‫س َت ْب ِد ُل ْو َن ا َّلذ ْ‬‫ل ا ََت ْ‬
‫صل َِها‪َ -‬قا َ‬‫ِقثَّآى َٕها َو ُف ْو ِم َها َو َع َدسِ َها َو َب َ‬
‫م َك ُان ْوا َی ْك ُف ُر ْو َن ِبا ٰ ٰیتِ‬ ‫ب ِم َن ال ّٰلهِ ٰذل َ‬
‫ِك ِباَ َّن ُه ْ‬ ‫ض ٍ‬ ‫آء ْو ِب َغ َ‬ ‫سكَ َن ُة‪َ -‬و َب ُ‬ ‫م ْ‬‫الذ َّل ُة َو ا ْل َ‬
‫ت َعل َْی ِه ُم ِ‬ ‫ض ِر َب ْ‬
‫م‪َ -‬و ُ‬ ‫سا َ ْل ُت ْ‬
‫م َّما َ‬ ‫َل ُك ْ‬
‫ان ْوا َی ْع َت ُد ْو َن‪﴾1‬‬‫ص ْوا َّو كَ ُ‬ ‫ما َع َ‬ ‫ال ّٰلهِ َو َی ْق ُت ُل ْو َن ال َّن ِب ٖی َن ِب َغ ْی ِر ا ْل َح ِق‪-‬ذٰل َ‬
‫ِك ِب َ‬

‫اور جب تم نے کہا کہ موسی ! ہم سے ایک ( ہی ) کھانے پر صبرنہیں ہو سکتا تو اپنے‬


‫رب سے دعا کیجیے کہ ترکاری اور ککڑی اور گیہوں اور مسور اور پیاز ( وغیرہ) جو‬
‫نباتات زمین سے اگتی ہیں ‪ ،‬ہمارے لیے پیدا کردے ۔ انھوں نے کہا کہ بھال عمدہ چیزیں‬
‫چھوڑ کر ان کے بدلے ناقص چیزیں کیوں چاہتے ہو ؟ ( اگر یہی چیزیں مطلوب ہیں) تو‬
‫کسی شہر میں جا اترو ‪ ،‬وہاں جو مانگتے ہو مل جائے گا ۔ اور ( آخرکار) ذلت ( اور‬
‫رسوائی ) اور محتاجی ( و بے نوائی ) ان سے چمٹا دی گئی اور وہ اللہ کے غضب میں‬
‫گرفتار ہو گئے ۔ یہ اس لیے کہ وہ اللہ کی آیات سے انکار کرتے تھے اور ( اس کے ) نبیوں‬

‫‪ 1‬سورۃالبقرہ‪61‬‬
‫کو ناحق قتل کر دیتے تھے یہ اس لیے کہ نافرمانی کیے جاتے اور حد سے بڑھے جاتے‬
‫تھے‬

‫ب ِم َن‬
‫ض ٍ‬
‫آء ْو ِب َغ َ‬
‫اس َو َب ُ‬ ‫الذ َّل ُة ا َْی َن َما ُثق ُِف ْٰۤوا ا ِ َّلا ِب َح ْب ٍل ِم َن ال ّٰلهِ َو َح ْب ٍل ِم َن ال َّن ِ‬ ‫ت َعل َْی ِه ُم ِ‬
‫ض ِر َب ْ‬
‫﴿ ُ‬
‫س َك َن ُة‪-‬‬
‫م ْ‬ ‫ت َعل َْی ِه ُم ا ْل َ‬‫ض ِر َب ْ‬‫ال ّٰلهِ َو ُ‬
‫آء ِب َغ ْی ِر َح ٍق‪-‬‬ ‫ِك ِبا َ َّن ُهم َك ُان ْوا َی ْك ُفر ْو َن ِبا ٰ ٰی ِ ّٰ‬
‫ت اللهِ َو َی ْق ُت ُل ْو َن ا ْلا َ ْن ِب َی َ‬ ‫ُ‬ ‫ْ‬ ‫ٰذل َ‬
‫‪1‬‬
‫ان ْوا َی ْع َت ُد ْو َن ﴾‬ ‫ص ْوا َّو َك ُ‬‫ما َع َ‬ ‫ِك ِب َ‬ ‫ذٰل َ‬

‫ان پر جما دی گئی خواری ‪ ،‬جہاں ہوں امان نہ پائیں ‪ ،‬مگر ہاں ایک تو ایسے ذریعہ کے‬
‫سبب جو اللہ کی طرف سے ہے اور ایک ایسے ذریعہ سے جو انسانوں کی طرف سے‬
‫ہے ‪ ،‬اور مستحق ہو گئے اللہ کے غضب کے ‪ ،‬اور جما دی گئی ان پر محتاجی ‪ ،‬یہ اس‬
‫وجہ سے ہوا کہ وہ لوگ منکرہو جاتے تھے اللہ کی آیتوں سے ‪ ،‬اور قتل کر دیا کرتے تھے‬
‫نبیوں کو ناحق ‪ ،‬اور یہ اس وجہ سے ہوا کہ نافرمانی کی انہوں نے اور حد سے نکل‬
‫جاتے تھے‬

‫﴿ا ِن الذِین اتخذوا العِ جل سینالہم غضب ِمن ر ِب ِہم و ِذل فِی الحیا ِ الدنیا وکذلِک نج ِزی المفت ِر ین ‪﴾2‬‬

‫یقینا جنہوں نے بچھڑا بنایا انہیں پہنچے گا غضب ان کے رب کی طرف سے اور ذلت‬
‫اس دنیاوی زندگی میں اور ایسی ہی ہم جزا دیا کرتے ہیں جھوٹ باندھنے والوں کو۔‬

‫لہذا‪ ،‬زیر ِ نظر النسا آیت میں جزا کے مذکورہ مفہوم کو ذہن میں رکھتے ہوئے ‪ ،‬قرآنی‬
‫مغضوبین کی ذلت و رسوائی پر بھی توجہ کی جائے ‪ ،‬تو استدالل کیا جا سکتا ہے کہ‬
‫المائد آیت کے مانند ‪ ،‬مومن کے قتل کی جزا کا وزن و کمیت کے لحاظ سے اطالق ‪ ،‬قاتل‬
‫کی ذلت و رسوائی کے بغیر ممکن نہیں ۔اہم بات یہ ہے کہ النسا آیت کے عالوہ ‪ ،‬قرآن‬

‫‪ 1‬آل عمران ‪112‬‬

‫‪ 2‬االعراف‬
‫مجید میں جن دو مقامات پر مغضوب و ملعون کاا کٹھے ذکر کیا گیا ہے وہاں بھی‬
‫دنیاوی ذلت و رسوائی کا واضح اہتمام موجود ہے‪:‬‬

‫ل ِم ْن ُه ُم ا ْلق َِر َد َة َو‬


‫ب َعل َْیهِ َو َج َع َ‬ ‫ض َ‬‫ِك َم ُث ْو َب ًة عِ ْن َد ال ّٰلهِ ‪َ -‬م ْن َّل َع َن ُه ال ّٰل ُه َو َغ ِ‬‫ش ٍر ِم ْن ٰذل َ‬ ‫م ِب َ‬ ‫ل اُ َن ِب ُئ ُك ْ‬
‫ه ْ‬
‫ل َ‬
‫﴿ ُق ْ‬
‫ل‪﴾1‬‬‫س ِب ْی ِ‬
‫س َوآ ِء ال َّ‬
‫ل َع ْن َ‬‫َض ُّ‬
‫ش ٌّر َّمكَ ًانا َّو ا َ‬ ‫ٕك َ‬ ‫ت‪-‬اُو ٰٰٓلى َ‬ ‫اغ ْو َ‬ ‫الط ُ‬ ‫ا ْل َخ َنا ِز ْی َر َو َع َب َد َّ‬

‫تم فرما کیا میں بتا دوں جو اللہ کے یہاں اس سے بدتر درجہ میں ہیں وہ جن پر اللہ نے‬
‫لعنت کی اور غضب فرمایا اور ان میں سے کر دیے بندر اور سور اور طاغوت کے پجاری‬
‫‪ ،‬یہ لوگ جگہ کے لحاظ سے بدتر اور سیدھے راستے سے زیادہ ہٹے ہوئے ہیں ۔‬

‫هلل ظن الس ِو علی ِہم داِر الس ِو‬


‫ت الظانِین ِبا ِ‬
‫ت والمش ِرکِین والمش ِرکا ِ‬
‫﴿ویعذِب المنا ِفقِین والمنافِقا ِ‬
‫مصیرا‪﴾ 2‬‬
‫ِ‬ ‫وغضب ہللا علی ِہم ولعنہم وعد لہم جہنم وسا ت‬
‫ِ‬

‫اور عذاب دے منافق مردوں اور منافق عورتوں اورمشرک مردوں اور مشرک عورتوں‬
‫کو ‪،‬جو اللہ کی نسبت برے گمان رکھتے ہیں‪ ،‬ان پر برا وقت پڑنے واال ہے اور اللہ ان پر‬
‫غضب ناک ہے اور ان پر لعنت کرتا ہے اور اس نے ان کے لیے جہنم تیار کر رکھی ہے اور‬
‫وہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے‬

‫ہماری رائے میں النسا آیت میں (فجزآہ) کے بعد ‪ ،‬جہنم میں خلود ‪ ،‬اللہ کا غضب و‬
‫عذاب عظیم کی تیاری کابیان‪( ،‬کیفیت میں عدم تطابق کے تدارک اور وزن و‬
‫ِ‬ ‫لعنت اور‬
‫کمیت میں برابری کی خاطر )مقتول مومن کے قاتل کے قتل سے بڑھ کر کسی ایسی‬
‫مرکب سزا کی راہ دکھاتا ہے جس میں ذلت و رسوائی کا پہلو بدرجہ اتم موجود ہو ۔‬
‫یہاں منطقی طور پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایسی مرکب سزا کی ظاہری نوعیت کیا ہو‬
‫گی ؟۔ کیونکہ مرکب سزا تو خیر دور کی بات ہے ‪ ،‬النسا آیت کے ظاہری الفاظ ‪ ،‬کسی‬

‫‪ 1‬المائد‪60‬‬
‫‪ 2‬الفتح‬
‫بھی قسم کی دنیاوی سزا پر داللت نہیں کرتے ۔ اس سلسلے میں ( فجزآہ جہنم خالِدا‬

‫پیش نظر ‪ ،‬قرآنی جہنمیوں کی دنیاوی سزا کی تالش کے لیے قرآن مجید کا‬
‫فِیہا ﴾ کے ِ‬
‫مطالعہ کیاجائے تو سور توبہ کی آیت کافی مددگار معلوم ہوتی ہے ‪:‬‬

‫المصیر ﴾‬
‫ِ‬ ‫﴿یا یہا الن ِبی جا ِہ ِد الکفار والمنا ِفقِین واغلظ علی ِہم ومواہم جہنم و ِبئس‬

‫اے نبی ! کافروں پر اور منافقوں پر جہاد کرو اور ان پر سختی (واغلظ) فرما اور ان کا‬
‫ٹھکانا جہنم ہے اور کیا ہی برا انجام۔‬

‫اس آیت میں (واغلظ) رقت کے متضاد معنی میں استعمال ہوا ہے اور مخاطب نبی‬
‫ہیت اجتماعی کے قاید کی‬
‫خاتم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کی حیثیت مومنین کی ِ‬
‫ہے ۔سور توبہ میں ہی مومنین کو اجتماعی طور پر مخاطب کرکے سختی کا حکم دیا‬
‫گیا ہے ‪:‬‬

‫َم ْٰۤوا ا ََّن ال ّٰل َه َم َع ال ُ‬


‫ْم َّتق ِْی َن‪﴾1‬‬ ‫اعل ُ‬
‫م غِ ل َْظ ًة‪َ -‬و ْ‬
‫م ِم َن ا ْل ُك َّفا ِر َو ل َْی ِج ُد ْوا ف ِْی ُك ْ‬
‫َّ‬ ‫َّ‬
‫﴿ ٰۤیٰاَ ُّی َها الذ ِْی َن اٰ َم ُن ْوا َقاتِلُوا الذ ِْی َن َیل ُْو َن ُك ْ‬
‫اے ایمان والو ان کافروں سے جنگ کرو جن کا عالقہ تمہارے ساتھ ملتا ہے اور ان کے‬
‫ساتھ تمہیں سختی (غِلظ) کے ساتھ پیش آنا چاہیے اور یہ جان لو کہ اللہ متقین کے‬
‫ساتھ ہے۔‬

‫قابل غور مقام ہے کہ نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کو قاید کی حیثیت میں اور‬
‫ِ‬
‫مومنین کو اجتماعی حیثیت میں سختی اختیار کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ اس کا ایک‬
‫مطلب یہ ہوا کہ النسا آیت میں مقتول مومن کے وارث کی حیثیت مومنین کے قا ید یا‬
‫ہیت اجتماعی ہی کو حاصل ہے کہ دیگر ورثا کی جانب سے رقت کا احتمال‬
‫مومنین کی ِ‬
‫موجود ہے جبکہ شارع کی منشا سختی ہے (اسی لیے مقتول مومن کے وارث یا ولی‬

‫‪ 1‬التوبہ‪123‬‬
‫کاذکر ہی سرے سے موجود نہیں )۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ مومنین کے قاید‬
‫ہیت اجت ماعی کو مومن کے قاتل کے ساتھ صرف اور صرف سختی ہی کے ساتھ پیش‬
‫یا ِ‬
‫آنا چاہیے ۔سور النور میں زنا کی سزا کے ضمن میں بھی صرف سختی اپنانے کا حکم‬
‫دیا گیا ہے ‪:‬‬

‫هلل‬
‫تمنون ِبا ِ‬
‫ِین ہللاِ ِن کنتم ِ‬
‫﴿الزانِی والزانِی فاجلِدوا کل واحِ د ِمنہما مِ جلد ولا تخذکم ِب ِہما رف فِی د ِ‬
‫الممنِین‪﴾1‬‬
‫ِ‬ ‫والیومِ الآخِ ِر ولیشہد عذابہما طا ِف ِمن‬

‫اور جو عورت بدکار ہو اور جو مرد تو ان میں ہر ایک کو سو کوڑے لگا اور تمہیں ان پر‬
‫ترس نہ آئے اللہ کے دین میں‪ ،‬اگر تم ایمان التے ہو اللہ اور پچھلے دن پر‪ ،‬اور چاہیے کہ‬
‫ان کوعذاب کرتے وقت مومنین کا ایک گروہ حاضر ہو ۔‬

‫لہذا‪ ،‬مومن کے قاتل کے لیے بدرجہ اولی سختی کے اہتمام کی زیادہ ضرورت ہے ‪ ،‬اسی‬
‫لیے قاتل کا ہمیشہ کے لیے جہنمی ہونا ‪ ،‬اس پر اللہ کا غضب و لعنت اور اس کے لیے‬
‫عذاب عظیم کی تیاری ‪ ،‬انتہائی سختی و درشتی پر داللت کرتے ہیں ۔ یہاں ایک سوال‬
‫ِ‬
‫پیدا ہوتا ہے کہ قاتل کے ساتھ سختی کی نوعیت کیا ہوگی ؟۔ اس سلسلے میں سور‬
‫الزخرف کی آیات‪ ،‬جہنمی مجرموں کی بابت آگاہ کرتی ہیں کہ وہ ظالم تھے ‪:‬‬

‫﴿ا ِن المج ِر ِمین فِی عذا ِ‬


‫ب جہنم خالِدون ۔ لا یفتر عنہم وہم فِیہِ مبلِسون ۔ وما ظلمناہم ولکِن کانوا‬
‫ِمین ﴾‬
‫ہم الظال ِ‬

‫بے شک مجرم جہنم کے عذاب میں ہمیشہ رہنے والے ہیں وہ کبھی ان پر سے ہلکا نہ‬
‫پڑے گا اور وہ اس میں بے آس رہیں گے اور ہم نے ان پر کچھ ظلم نہ کیا ہاں وہ خود ہی‬
‫ظالم تھے‬

‫‪ 1‬النور‬
‫زیر ِ نظر النسا آیت میں مومن کے قاتل کو جہنمی کے عالوہ ملعون بھی قرار دیا گیا ہے‬
‫اور قرآن مجید میں ملعونین کو ظالم گردانا گیا ہے ‪:‬‬

‫م َح ًّقا‪-‬‬
‫م َّما َو َع َد َر ُّب ُك ْ‬
‫ل َو َج ْد ُّت ْ‬ ‫ب ال َّنا ِر ا َْن َق ْد َو َج ْد َنا َما َو َع َد َنا َر ُّب َنا َح ًّقا َف َه ْ‬‫َص ٰح َ‬ ‫ب ا ْل َج َّنةِ ا ْ‬
‫َص ٰح ُ‬
‫ادٰۤى ا ْ‬
‫﴿ َو َن ٰ‬
‫ن‪﴾1‬‬ ‫م ا َْن َّل ْع َن ُة ال ّٰلهِ َعلَى ّٰ‬
‫الظل ِِم ْی َ‬ ‫‪-‬فاَذ ََّن ُم َؤذ ٌِن َب ْی َن ُه ْ‬‫م َ‬‫َقا ُل ْوا َن َع ْۚ‬

‫اور جنت والوں نے دوزخ والوں کو پکارا کہ ہمیں تو مل گیا جو سچا وعدہ ہم سے ہمارے‬
‫رب نے کیا تھا تو کیا تم نے بھی پایا جو تمہارے رب نے سچا وعدہ تمہیں دیا تھا ‪ ،‬بولے‬
‫ہاں ‪ ،‬تو ایک اعالن کرنے واال اعالن کرے گا کہ ا للہ کی لعنت ہو ظالموں پر۔‬

‫من افتری علی ہللاِ کذِبا ولئِک یعرضون علی ر ِب ِہم ویقول الشہاد ہلا الذِین کذبوا علی‬
‫﴿ومن ظلم ِم ِ‬
‫ر ِب ِہم لا لعن ہللاِ علی الظال ِِمین ‪﴾2‬‬

‫اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے وہ اپنے رب کے حضور پیش کیے‬
‫جائیں گے اور گواہ کہیں گے یہ ہیں جنہوں نے اپنے رب پر جھوٹ بوال تھا ‪ ،‬سن لو ‪،‬‬
‫لعنت ہے اللہ کی اوپر ظالموں کے ۔‬

‫‪3‬‬
‫﴾‬ ‫﴿یوم لا ینفع الظالِ ِمین مع ِذرتہم ولہم اللعنۃ ولہم سو الدا ِر‬

‫جس دن ظالموں کو ان کے بہانے کچھ کام نہ دیں گے اور ان کے لیے لعنت ہے اور ان‬
‫کے لیے برا گھر‬

‫اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو جہنمی و لعنتی ہے وہ ظالم ہے اور جو ظالم ہے وہ لعنتی و‬


‫جہنمی ہے ۔ لہذا جودنیاوی سزا ظالم کے لیے مقرر کی گئی ہے وہ مومن کے قاتل‬
‫جہنمی و لعنتی کو بھی دی جا سکتی ہے ۔ مثال کے طور پر سور بنی اسرائیل آیت‬

‫‪ 1‬االعراف‪44‬‬

‫‪ 2‬ہود‬
‫‪ 3‬غافر‬
‫میں مقتول کو مظلوم کہا گیا ہے ‪( ،‬یعنی قاتل ظالم ٹھہرا) ‪ ،‬پھر نرمی کی کوئی‬
‫گنجایش رکھے بغیر انتہائی سرد لہجے میں قاتل کو قتل کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ اس‬
‫لیے مومن کے قاتل کو بھی ظالم گردانتے ہوئے قتل کیا جا سکتا ہے(بلکہ جہنمی و‬
‫ملعون ہونے کی بنا پر دوہراظالم قرار دے کر برے طریقے سے قتل کیا جا سکتا ہے )‬
‫۔سور البقر کی درج ذیل آیات کے مطابق ‪ ،‬جہنم کے سزاوار دنیاوی زندگی میں فسادی‬
‫اور نفس کے تابع ہوتے ہیں ‪:‬‬

‫اد َو اِ َذا ق ِْی َ‬


‫ل‬ ‫س َ‬ ‫ل‪َ -‬و ال ّٰل ُه لَا ُیحِ ُّ‬
‫ب ا ْل َف َ‬ ‫س َ‬‫ث َو ال َّن ْ‬ ‫ِك ا ْل َح ْر َ‬
‫ض ل ُِی ْفسِ َد ف ِْی َها َو ُی ْهل َ‬ ‫س ٰعى فِی الْا َ ْر ِ‬ ‫﴿ َو ا ِ َذا َت َو ّٰلى َ‬
‫اد‪﴾1‬‬
‫س ا ْل ِم َه ُ‬ ‫س ُبه َج َه َّن ُم‪َ -‬و َل ِب ْئ َ‬ ‫ل َُه ا َّت ِق ال ّٰل َه ا ََخ َذ ْت ُه الْعِ َّز ُة ِبا ْلا ِْثمِ َف َح ْ‬

‫اور جب وہ لوٹتا ہے تو تو عمال اس کی تگ و دو یہ ہوتی ہے کہ زمین میں فساد مچائے‬


‫اور کھیتی اور نسل (انسانی) کو تباہ کرے اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا ‪ ،‬اور جب‬
‫اس سے کہا جاتا ہے کہ اللہ سے ڈرو تو اپنی عزت کی خاطر گناہ پر جم جاتا ہے تو جہنم‬
‫اسے کافی ہے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے‬

‫جہنمی کے فسادی ہونے کے عالوہ فسادی کے لعنتی ہونے کا بھی پورا قرینہ موجود‬
‫ہے ‪:‬‬

‫﴿والذِین ینقضون عہد ہللاِ ِمن بع ِد ِمیثاقِہِ ویقطعون ما مر ہللا ِبہِ ن یوصل ویفسِ دون‬

‫الرض ولئِک لہم اللعن ولہم سو الدا ِر‪﴾2‬‬


‫ِ‬ ‫فِی‬

‫اور وہ جو اللہ کاعہد اس کی مضبوطی کے بعد توڑتے ہیں اور جس کے جوڑنے کو اللہ‬
‫نے فرمایا اسے قطع کرتے اور زمین میں فساد پھیالتے ہیں ان کے لیے لعنت ہے اور ان‬
‫کا نصیب برا گھر‬

‫‪ 1‬البقر ‪205،206‬‬
‫قرآن مجید نے لعنتی اور فسادی کے لیے یہ جزامقرر کی ہے ‪:‬‬

‫ص َّل ُب ْٰۤوا ا َْو ُت َق َّط َع‬


‫ادا ا َْن ُّی َق َّت ُل ْٰۤوا ا َْو ُی َ‬
‫س ً‬‫ض َف َ‬ ‫س َع ْو َن فِی الْا َ ْر ِ‬ ‫س ْولَه َو َی ْ‬ ‫ما َج ٰٰٓز ُؤا ا َّلذ ِْی َن ُی َحا ِر ُب ْو َن ال ّٰل َه َو َر ُ‬‫﴿ا ِ َّن َ‬
‫اب‬
‫م فِی الْاٰخِ َرةِ َع َذ ٌ‬ ‫ی فِی ال ُّد ْن َیا َو ل َُه ْ‬ ‫م خِ ْز ٌ‬ ‫ِك ل َُه ْ‬
‫ض‪-‬ذٰل َ‬ ‫م ِم ْن خِ لَافٍ ا َْو ُی ْن َف ْوا ِم َن الْاَ ْر ِ‬ ‫م َو ا َْر ُج ُل ُه ْ‬ ‫ا َْید ِْی ِه ْ‬
‫‪1‬‬
‫م﴾‬ ‫َعظِ ْی ٌ‬
‫وہ کہ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے اور زمین میں فساد کرتے پھرتے ہیں ‪،‬ان کی یہی‬
‫جزا ہے کہ گن گن کر قتل کیے جائیں یا سولی دیے جائیں یا ان کے ایک طرف کے ہاتھ‬
‫اور دوسری طرف کے پاں کاٹے جائیں یا زمین سے دور کر دیے جائیں ‪ ،‬یہ دنیا میں ان‬
‫کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لیے بڑا عذاب‬

‫﴿ملعونِین ینما ثقِفوا خِ ذوا وقتِلوا تقتِیلا ‪﴾2‬‬

‫وہ مور ِد لعنت ہیں جہاں بھی وہ پائے جائیں پکڑے جائیں اور پوری طرح قتل کیے‬
‫جائیں۔‬

‫اور(قابل غور ہے‬


‫ِ‬ ‫قرآن مجید نے حق راہ واضح ہونے کے بعد رسول کے خالف چلنے والے‬
‫کہ ) مومنین کی راہ سے الگ راہ لینے والے کو جہنم کی وعید سنائی ہے‪:‬‬

‫س ِب ْی ِل ا ْل ُم ْؤ ِمن ِْی َن‬


‫ـع َغ ْی َر َ‬‫ل ِم ْن َب ْع ِد َما َت َب َّی َن ل َُه ا ْل ُه ٰدى َو َی َّت ِب ْ‬
‫س ْو َ‬
‫الر ُ‬
‫ِق َّ‬
‫شاق ِ‬
‫﴿ َو َم ْن ُّی َ‬
‫ص ْی ًرا‪﴾3‬‬‫ت َم ِ‬ ‫آء ْ‬ ‫ّٰ‬
‫س َ‬
‫م‪َ -‬و َ‬ ‫صل ِٖه َج َه َّن َ‬ ‫ُن َول ِٖه َما َت َولى َو ُن ْ‬
‫اور جو رسول کا خالف کرے بعد اس کے کہ حق راستہ اس پر کھل چکا اور مومنین کی‬
‫راہ سے الگ راہ چلے ہم اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں گے اور اسے جہنم میں داخل‬
‫کریں گے اور کیا ہی بری جگہ پلٹنے کی۔‬

‫‪ 1‬المائد ‪33‬‬

‫‪ 2‬االحزاب‬
‫‪ 3‬النسا ‪115‬‬
‫چہ جائے کہ الگ راہ لینے سے کئی درجے بڑھ کر مومن کو عمدا قتل کر دیا جائے ‪ ،‬خیال‬
‫رہے النسا آیت میں عمد حق راہ جاننے کے حوالے سے اتمامِ حجت اور تحقق پر بھی‬
‫داللت کرتا ہے ۔ بہرحال ‪ ،‬قرآن نے مطلق انسان کے قتل کو انتہائی نا پسندیدہ قرار دیا‬
‫ہے چہ جائے کہ مومن ہو ‪:‬‬

‫ما‬
‫ض َفكَاَ َّن َ‬‫سا ٍد فِی الْا َ ْر ِ‬
‫س ا َْو َف َ‬‫سا ِب َغ ْی ِر َن ْف ٍ‬
‫ل َن ْف ً‬
‫ل ا َ َّنه َم ْن َق َت َ‬
‫ِس َرآء ِْی َ‬
‫ِی ا ْ‬
‫ِك ﳎ َك َت ْب َنا َع ٰلى َبن ْٰۤ‬
‫﴿ ِم ْن ا َْج ِل ذٰل َ‬
‫م ا ِ َّن َكث ِْی ًرا‬
‫س ُل َنا ِبا ْل َب ِی ٰنتِ ‪ُ -‬ث َّ‬
‫م ُر ُ‬
‫آء ْت ُه ْ‬
‫اس َج ِم ْی ًعا‪َ -‬و ل ََق ْد َج َ‬ ‫ما ٰۤ ا َْح َیا ال َّن َ‬
‫اها َف َكا َ َّن َ‬ ‫اس َج ِم ْی ًعا‪َ -‬و َم ْن ا َْح َی َ‬
‫ل ال َّن َ‬
‫َق َت َ‬
‫س ِر ُف ْو َن‪﴾1‬‬
‫َم ْ‬
‫ضل ُ‬ ‫ِك فِی ا ْلا َ ْر ِ‬ ‫م َب ْع َد ٰذل َ‬ ‫ِم ْن ُه ْ‬

‫اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ جس نے کسی انسان کو‬
‫خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیالنے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے‬
‫گویا تمام انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام‬
‫انسانوں کو زندگی بخش دی ‪ ،‬مگر ان کا حال یہ ہے کہ ہمارے رسول پے درپے کھلی‬
‫کھلی ہدایات لے کر آئے پھر بھی ان میں بکثرت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں۔‬

‫تخلیق آدم سے قبل فرشتوں نے کہا تھا کہ انسان تو زمین میں فساد‬
‫ِ‬ ‫خیا ل رہے کہ‬
‫پھیالئے گا قتل و غارت کرے گا ‪ ،‬اور اللہ نے فرمایا تھا کہ جو میں جانتا ہوں تم نہیں‬
‫جانتے‪ ،‬اس لیے یہاں یہ قرینہ پایا جاتا ہے کہ مومن ‪ ،‬فرشتوں کے اس سوال کا جواب‬
‫آیات الہی کی‬
‫ِ‬ ‫آیت الہی ہے اور دوسری جہت سے‬
‫ہونے کے ناطے ایک جہت سے ِ‬
‫آیت الہی‬
‫تجسیم ہے ‪ ،‬نہ فسادی اور نہ قتل و غارت پر تال ہوا ۔اس لیے اگر اس کا قتل ‪ِ ،‬‬
‫کے خاتمے کی کوشش خیال کیا جائے تو اس کے قاتل کو جزا کے طور پر لوگوں کے لیے‬
‫آیت بنا دیا جانا چاہیے ‪،‬جیسا کہ سور الفرقان میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے ‪:‬‬

‫ما َۖۚ‪﴾2‬‬
‫ِلظل ِِم ْی َن َع َذ ًابا اَل ِْی ً‬
‫اس ا ٰ َی ًة‪َ -‬و ا َْع َت ْد َنا ل ّٰ‬
‫م لِل َّن ِ‬
‫م َو َج َع ْل ٰن ُه ْ‬
‫ل ا َْغ َر ْق ٰن ُه ْ‬
‫س َ‬
‫الر ُ‬ ‫﴿ َو َق ْو َم ُن ْو ٍح َّل َّ‬
‫ما كَذ َُّبوا ُّ‬

‫‪ 1‬المائد‪32‬‬
‫‪ 2‬الفرقان‪37‬‬
‫اور نوح کی قوم کو جب انہوں نے رسولوں کو جھٹالیا ہم نے ان کو ڈبو دیا اور انہیں‬
‫لوگوں کے لیے نشانی کر دیا اور ہم نے ظالموں کے لیے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔‬

‫مذکورہ نکتے کی مزید تصریح درج ذیل آیات سے ہوتی ہے ‪:‬‬

‫رض ہللاِ ولا تمسوہا ِبسو فیخذکم عذاب ق ِر یب ‪﴾1‬‬


‫﴿ویا قومِ ہذِہِ ناق ہللاِ لکم آی فذروہا تکل فِی ِ‬

‫اور اے میری قوم ‪ ،‬یہ اللہ کا ناقہ ہے تمہارے لیے آیت ‪ ،‬تو اسے چھوڑ دو کہ اللہ کی‬
‫زمین میں کھائے ‪ ،‬اور اس کو برائی کے ساتھ ہاتھ بھی مت لگانا ‪ ،‬پس پکڑے گا تم کو‬
‫عذاب فوری۔‬

‫الص ِدق ِْی َن‬


‫ّٰ‬ ‫ت ِم َن‬ ‫ت ِباٰ َیةٍ ا ِْن ُك ْن َ‬ ‫ت اِلَّا َب َ‬
‫ش ٌر ِم ْث ُل َنا َۖۚ‪َ -‬فا ْ ِ‬ ‫س َّح ِر ْی َۚن َما ٰۤ ا َْن َ‬‫ت ِم َن ا ْل ُم َ‬ ‫﴿ َقا ُل ْٰۤوا اِ َّن َ‬
‫ما ٰۤ ا َْن َ‬
‫اب َی ْومٍ َعظِ ْی ٍم‬ ‫م َع َذ ُ‬ ‫س ْٰٓو ٍء َف َیاْ ُخ َذ ُك ْ‬
‫ها ِب ُ‬‫س ْو َ‬‫م ُّ‬
‫ب َی ْومٍ َّم ْع ُل ْومٍ ۚ َو لَا َت َ‬ ‫م شِ ْر ُ‬ ‫ب َّو َل ُك ْ‬‫اق ٌة َّل َها شِ ْر ٌ‬ ‫هذ ِٖه َن َ‬ ‫ل ٰ‬‫َقا َ‬
‫ن‪﴾2‬‬ ‫م ُّم ْؤ ِمن ِْی َ‬
‫ه ْ‬ ‫ان اَكْ َث ُر ُ‬
‫ِك لَا ٰ َی ًة‪َ -‬و َما َك َ‬ ‫ِی ذٰل َ‬ ‫اب‪-‬ا َِّن ف ْ‬ ‫ه ُم ا ْل َع َذ ُ‬ ‫َص َب ُح ْوا ٰند ِِم ْی َن َفا ََخ َذ ُ‬
‫ها َفا ْ‬ ‫َف َع َق ُر ْو َ‬
‫وہ کہنے لگے تم تو ایک سحر زدہ آدمی ہو ‪ ،‬تم ہمارے ہی جیسے ایک آدمی ہو اگر تم‬
‫سچے ہو تو کوئی آیت ال ‪ ،‬کہا آیت یہ ناقہ ہے ایک دن اس ناقہ کے پانی پینے کے لیے‬
‫مقرر ہے اور ایک دن تم سب کے لیے ‪ ،‬اسے کوئی دکھ نہ پہنچانا ورنہ ایک بڑے دن کا‬
‫عذاب تمہیں آ لے گا ‪ ،‬سو انہوں نے اس اونٹنی کو مار ڈاال پھر صبح کو پچھتاتے رہ گئے‬
‫‪ ،‬تو انہیں عذاب نے آ لیا بے شک اس میں ضرور آیت ہے اور ان میں ا کثر ایمان نہیں‬
‫التے‬

‫پیش نظر رکھا جائے تو‬


‫آیات الہی کی تجسیم کو ِ‬
‫ِ‬ ‫اگرمومن کی دوسری جہت ‪ ،‬یعنی‬
‫‪:‬‬

‫‪ 1‬ہود‬
‫‪ 2‬الشعرا‪53،54،55،56،57،58‬‬
‫معاج ِز ین ولِک لہم عذاب ِمن ِرجز لِیم‪﴾1‬‬
‫ِ‬ ‫﴿والذِین سعوا فِی آیاتِنا‬

‫اور جنہوں نے ہماری آیتوں میں ہرانے کی کوشش کی ‪ ،‬ان کے لیے سخت درد ناک‬
‫عذاب ہے‬

‫آیات الہی کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے اس لیے خدائی‬


‫ِ‬ ‫کے مصداق ‪ ،‬اس کا قتل ‪،‬‬
‫نظام میں فتنہ و فساد برپا کرنے کی کوشش ہے اور قرآن مجید کا فیصلہ ہے ‪ :‬والفِتن‬
‫القتل (البقر ‪ ):‬اور فتنہ‬
‫ِ‬ ‫القتل (البقر ‪ ):‬اور فتنہ سخت تر ہے قتل سیوالفِتن کبر ِمن‬
‫ِ‬ ‫شد مِ ن‬
‫انگیزی ‪ ،‬قتل سے بھی بڑھ کر ہے۔ ایسے فتنہ و فساد پر قرآن نے خاموشی اختیار نہیں‬
‫کی اور نہ ہی محض اخروی سزاں پر انحصار کیا ہے بلکہ ان کے س ِد باب کے لیے سخت‬
‫دنیاوی تدابیر و سزائیں مقرر کی ہیں ‪ ،‬مثال‪ :‬سور النور آیت میں زانی مرد و عورت پر‬
‫ترس نہ کھانے اور مومنین کے ایک گروہ کی حاضری کا حکم آیا ہے ‪ ،‬ظاہر ہے کہ اس‬
‫آیات الہی کو چیلنج کرتے‬
‫ِ‬ ‫حکم کے پیچھے جواز یہی ہے کہ زانی لوگ ‪ ،‬ایک لحاظ سے‬
‫ہوئے ‪ ،‬قرآنی اقدار پر مبنی اجتماعی نظم میں خلل اندازی کی کوشش کرتے ہیں‪ ،‬اس‬
‫لیے وہ ترس کے بجائے ذلت و رسوائی کے زیادہ مستحق ہیں ۔ زنا کے مقابلے میں مومن‬
‫آیات الہی کو کلی اعتبار سے چیلنج کرنے کے مترادف اور اجتماعی نظم میں‬
‫ِ‬ ‫کا قتل ‪،‬‬
‫خلل اندازی کی انتہائی کوشش ہے ‪ ،‬اس لیے منطقی طور پر اس کے قاتل کے لیے نہ‬
‫تو نرمی کا کو ئی گوشہ ہونا چاہیے اور نہ ہی اس کی ذلت و رسوائی میں کوئی کسر‬
‫متعمدا فجزآہ‬
‫ِ‬ ‫باقی چھوڑنی چاہیے۔ زیر ِ نظر النسا آیت کو دوبارہ دیکھیے ﴿ومن یقتل ِ‬
‫ممنا‬

‫وغضب ہللا علیہِ ولعنہ وعد لہ عذابا عظِ یما﴾‪ ،‬اس میں کہیں بھی کوئی ایسا‬
‫ِ‬ ‫جہنم خالِدا فِیہا‬

‫لفظ استعمال نہیں کیا گیا جس میں قاتل کے لیے کسی حوالے سے نرمی کی ذرہ برابر‬
‫بھی گنجایش نکلتی ہو ۔ اس کے برعکس ‪ ،‬سور بنی اسرائیل آیت میں مقتول کے‬
‫القتل) کے الفاظ ‪ ،‬ایک حد‬
‫ِ‬ ‫مظلوم ہونے کے باوجود ظالم قتل کے لیے (فال یسرِف فِی‬

‫‪ 1‬سبا‬
‫تک نرمی ظاہر کرتے ہیں ۔ اس لیے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ النسا آیت میں اس اسراف‬
‫(سختی و رسوائی )کی اجازت (بلکہ حکم ) دیا گیا ہے جس کی بنی اسرائیل آیت میں‬
‫ممانعت کی گئی ہے ۔اگرالمائد آیت کے بیان (من قتل نفسا ِبغی ِر نفس و فساد فِی ِ‬
‫الرض فکنما‬

‫جمیعا﴾ جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے‬


‫جمیعا ومن حیاہا فکنما حیا الناس ِ‬
‫قتل الناس ِ‬

‫یا زمین میں فساد پھیالنے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں‬
‫کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی‬
‫بخش دی میں انسانی جان کی حرمت اور قرآن میں مومن کے مقام پر نظر رکھتے ہوئے‪،‬‬
‫النسا آیت میں قصاص کے مقابل جزا کی معنویت کا احاطہ کرکے ‪ ،‬مذکور سزاں جہنم‬
‫غضب لعنت عظیم عذاب پر غور و خوض کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مومن کے قاتل‬
‫کے ساتھ اسراف کرنے کی صورت میں بھی جزا کا معنوی اطالق (قاتل کے فعل کے‬
‫مساوی ‪ ،‬وزن و کمیت کے لحاظ سے ) ممکن نہیں ہوتا ‪ ،‬اس لیے قاتل کی سزا کے لیے‬
‫ایسے الفاظ (جہنم غضب لعنت عظیم عذاب﴾ برتے گئے ہیں جو بدیہی طور پر اخروی‬
‫سزا پر داللت کرتے ہیں ‪ ،‬یعنی دنیاوی سزا کی کوئی بھی نوعیت چونکہ قاتل کے فعل‬
‫کا بدل نہیں ہو سکتی ‪ ،‬اس لیے آخرت میں بھی اسے الزما سزا ملے گی ۔‬

‫قابل اعتنا پہلو ‪ ،‬تشنہ طلب ہے کہ مومن کون ہے؟ کیا اس‬
‫ِ‬ ‫زیر نظر النسا آیت کا ایک‬
‫کی کوئی جامع تعریف موجود ہے ؟ قرآنی مطالعہ بتاتا ہے کہ مومنین ‪ ،‬مساوی نہیں‬
‫ہیں ‪:‬‬

‫م‪-‬‬ ‫ّٰ‬
‫م َو ا َْن ُفسِ ِه ْ‬
‫س ِب ْی ِل اللهِ ِبا َْم َوا ِل ِه ْ‬
‫ِی َ‬ ‫ض َر ِر َو ا ْل ُم ٰج ِه ُد ْو َن ف ْ‬‫س َت ِوی ا ْل ٰقعِ ُد ْو َن ِم َن ا ْل ُم ْؤ ِمن ِْی َن َغ ْی ُر اُولِی ال َّ‬ ‫﴿لَا َی ْ‬
‫ل ال ّٰل ُه‬
‫ض َ‬
‫س ٰنى‪َ -‬و َف َّ‬ ‫م َعلَى ا ْل ٰقعِ د ِْی َن دَ َر َج ًة‪َ -‬و ُكلًّا َّو َع َد ال ّٰل ُه ا ْل ُح ْ‬
‫م َو ا َْن ُفسِ ِه ْ‬
‫ض َ ّٰ‬
‫ل الل ُه ا ْل ُم ٰج ِه ِد ْی َن ِبا َْم َوال ِِه ْ‬ ‫َف َّ‬
‫‪1‬‬
‫ما ﴾‬‫ا ْل ُم ٰج ِهد ِْی َن َعلَى ا ْل ٰقعِ د ِْی َن ا َْج ًرا َعظِ ْی ً‬

‫‪ 1‬النسا ‪95‬‬
‫برابر نہیں ہیں مومنین میں سے بغیر معذوری کے گھر میں بیٹھنے والے اور اپنے مالوں‬
‫اور جانوں کے ساتھ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ‪ ،‬اللہ نے اپنے مالوں اور جانوں سے‬
‫جہاد کرنے والوں کو بیٹھے رہنے والوں پردرجے میں فضیلت دی ہے اور یوں تو ہر ایک‬
‫سے اس نے بھالئی کا وعدہ کیا ہے اور جہاد کرنے والوں کو پیچھے رہنے والوں پر بہت‬
‫بڑے اجر کے ساتھ فضیلت دی ہے۔‬

‫قرآن مجید کے مطابق ایمان کی کیفیات کے بھی مدارج ہیں ‪:‬‬

‫م ًانا ﳓ‬
‫م ا ِْی َ‬
‫ه ْ‬
‫م َف َزادَ ُ‬
‫ه ْ‬
‫ش ْو ُ‬
‫اخ َ‬
‫م َف ْ‬
‫م ُع ْوا َل ُك ْ‬
‫اس َق ْد َج َ‬
‫اس ا َِّن ال َّن َ‬ ‫﴿ا َ َّلذ ِْی َن َقا َ‬
‫ل ل َُه ُم ال َّن ُ‬

‫ل ‪﴾1‬‬
‫م ا ْل َوك ِْی ُ‬ ‫ّٰ‬
‫س ُب َنا الل ُه َو ن ِْع َ‬
‫َّو َقا ُل ْوا َح ْ‬

‫وہ کہ جن سے لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمہارے مقابلہ کے لیے بڑا لشکر جمع کیا ہے‬
‫ان سے ڈرو تو اس سے ان کے ایمان میں اور اضافہ ہوا اور انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے‬
‫اللہ کافی ہے اور بڑا اچھا کارساز۔‬

‫لہذا ‪ ،‬یہاں منطقی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ النسا آیت میں مذکور مقتول مومن‬
‫کو ایمان کے کس درجے کا حامل خیال کیا جائے کہ درجے کے تعین کے بعد اور درجے‬
‫کے مطابق‪ ،‬اس کے قاتل سے معاملہ نمٹایا جائے؟ بنظر ِ غائر ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ‬
‫اس زاویے سے معاملے کو نمٹانا‪ ،‬انسانی اختیار کی حدود سے تجاوز کرنے کے مترادف‬
‫ہے ۔ اس لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ قرآن مجید میں مومن کی کوئی ایسی تعریف تالش‬
‫کی جائے جس کا اطالق تمام مومنین پر یکساں ہو سکے۔ سور النسا آیت ‪ ،‬اس سلسلے‬
‫میں ہماری راہنمائی کرتی ہے ‪:‬‬

‫‪ 1‬آل عمران‪173‬‬
‫ت ُم ْؤ ِم ًناۚ‪-‬‬ ‫َس َ‬‫مل ْ‬ ‫س ٰل َ‬ ‫س ِب ْی ِل ال ّٰلهِ َف َت َب َّی ُن ْوا َو لَا َت ُق ْو ُل ْوا ل َ‬
‫ِم ْن ا َ ْل ٰقٰۤى اِل َْی ُك ُم ال َّ‬ ‫ِی َ‬
‫مف ْ‬‫ض َر ْب ُت ْ‬‫﴿ ٰٰۤیا َ ُّی َها ا َّلذ ِْی َن اٰ َم ُن ْٰۤوا اِذَا َ‬
‫م َف َت َب َّی ُن ْوا‪-‬ا َِّن‬ ‫ّٰ‬ ‫ّٰ‬
‫م َّن الل ُه َعل َْی ُك ْ‬ ‫ل َف َ‬ ‫م ِم ْن َق ْب ُ‬ ‫ِك ُك ْن ُت ْ‬‫ِم كَث ِْی َر ٌة‪َ -‬ك ٰذل َ‬ ‫ض ا ْل َح ٰیوةِ ال ُّد ْن َیا‪َ -‬فعِ ْن َد اللهِ َم َغان ُ‬ ‫َت ْب َت ُغ ْو َن َع َر َ‬
‫ال ّٰل َه َك َ‬
‫‪1‬‬
‫خ ِب ْی ًرا ﴾‬
‫م ُل ْو َن َ‬‫ما َت ْع َ‬ ‫ان ِب َ‬
‫اے ایمان والو جب سفر کرو اللہ کی راہ میں تو تحقیق کر لیا کرو اور مت کہو اس‬
‫شخص کو جو تم سے سالم علیک کہے کہ تو مومن نہیں ‪ ،‬تم چاہتے ہو اسباب دنیا‬
‫کی زندگی کا ‪ ،‬سو اللہ کے ہاں بہت غنیمتیں ہیں ‪ ،‬تم بھی تو ایسے ہی تھے اس سے‬
‫پہلے ‪ ،‬پھر اللہ نے تم پر فضل کیا ‪ ،‬سو اب تحقیق کر لو ‪ ،‬بے شک اللہ تمہارے کاموں‬
‫سے خبردار ہے ۔‬

‫اس لیے خالصتا قانونی پہلو سے ‪ ،‬کسی کی باطنی کیفیات کے اعتبار سے ایمان کے‬
‫تعین کے بجائے ظاہری حالت کا لحاظ ہی ممکن اور قرین مصلحت معلوم ہوتا ہے ۔ اور‬
‫اگر کوئی شخص اپنے ظواہر و شعائر سے ایمان واال دکھائی دیتا ہو ‪ ،‬تو اس کی اس‬
‫حالت کو قانونا تسلیم کیا جانا چاہیے۔ لہذا‪ ،‬النسا آیت کا اطالق کسی مخصوص مومن‬
‫پر ہی نہیں ہوتا ‪ ،‬بلکہ ہر درجے کے مومنین اس کے دائرہ میں آ جاتے ہیں ۔‬

‫قابل غور ہے کہ مومن کا قاتل اگر کافر‬


‫ِ‬ ‫اسی بحث کے ضمن میں ایک اور سوال‬
‫ہو تو کفر کے سبب اسے ہمیشہ جہنم میں رہنا ہے ‪ ،‬اگر قاتل خود بھی مومن ہو تو کیا‬
‫وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا ؟ جبکہ جہنم میں ہمیشگی کے سزاوار کافر و مشرک ہیں‬
‫‪ ،‬مومن نہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مومن کے قاتل کی سزاں کا مذکورہ تنقیدی مطالعہ‬
‫‪ ،‬اس ا مر پر شاہد ہے کہ اس کا قاتل اگر مومن تھا بھی ‪ ،‬تو وہ قتل کرنے کے عمل کے‬
‫دوران میں ایمان سے محروم ہو جاتا ہے ۔اس حوالے سے زیر ِ نظر النسا آیت میں‬
‫(متعمِ دا) کی مستور معنویت کا کھوج ‪ ،‬قاتل کے لیے ہر اعتبار سے اتمامِ حجت و تحقق‬
‫پر داللت کرتا ہے ۔ سورہ الشوری میں ارشا ِد ربانی ہے ‪:‬‬

‫‪ 1‬النسا‪94‬‬
‫م‬
‫م َو َعل َْی ِه ْ‬
‫ض ٌة ِع ْن َد َر ِب ِه ْ‬
‫اح َ‬
‫م َد ِ‬
‫ب لَه ُح َّج ُت ُه ْ‬ ‫آج ْو َن ِفی ال ّٰل ِه ِم ْن َب ْع ِد َما ْ‬
‫اس ُت ِجیْ َ‬ ‫﴿ َو ا َّل ِذ ْی َن ُی َح ُّ‬
‫‪1‬‬
‫د﴾‬ ‫ش ِد ْی ٌ‬
‫اب َ‬
‫م َع َذ ٌ‬ ‫ب َّو ل َُه ْ‬‫ض ٌ‬ ‫َغ َ‬

‫اور وہ جو اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں بعد اس کے کہ اسے قبول کیا جا چکا ‪ ،‬ان کی‬
‫حجت ان کے رب کے نزدیک بے ثبات ہے اور ان پر غضب ہے اور ان کے لیے سخت عذاب‬
‫ہے‬

‫اس لیے قاتل اگر مومن ہے تواس کا مومن کوعمدا قتل کرنا‪ ،‬ذہنی حالت کے لحاظ سے‬
‫اتما مِ حجت کے بعد حجت بازی کی عالمت بن جاتا ہے ‪ ،‬جس کے باعث وہ مغضوب‬
‫سیاق کالم سے قاتل کی تکفیر کی‬
‫ِ‬ ‫قرار پاتا ہے اور شدید عذاب کا مستحق ٹھہرتا ہے ۔‬
‫ممنا ِلا خطئا (النسا ‪ ،):‬ذرا غور کیجیے کہ بیان‬ ‫مزید تصریح ہوتی ہے‪ :‬وما کان ل ِ‬
‫ِممن ن یقتل ِ‬

‫کے لیے جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے‪ ،‬اس میں کس قدر زور ہے‪ ،‬اور اس زور میں شدت‬
‫و قطعیت (ِلا خطئا﴾ سے مزید نمایا ں ہوئی ہے۔ لہذا ‪ ،‬قاتل اگر مومن تھا تو وہ مومن‬
‫کوعمدا قتل کرکے بالفعل ارتداد کا مرتکب ہو گیا ہے ‪ ،‬اس لیے اس کی سزا میں مرتد‬
‫ہونے کے باعث تخفیف کی کوئی گنجایش نہیں نکلتی بلکہ مزید اضافہ ہی ہو‬
‫سیاق‬
‫ِ‬ ‫تاہے۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسے تجدی ِد ایمان کی توفیق نصیب ہو سکتی ہے؟‬
‫کی عدم‬ ‫( توب ِمن ہللاِ﴾‬ ‫کالم میں (توب ِمن ہللاِ﴾ کو ملحوظ رکھتے ہوئے اور کالم میں‬
‫موجودگی و سزاں کی نوعیت پر نظر رکھتے ہوئے اس کا جواب نفی میں ملتا ہے ۔‬

‫بحث کے اس مقام پریہ لطیف نکتہ سامنے آتا ہے کہ مومن ‪ ،‬مومن کا قتل (خطئا ) ہی‬
‫کر سکتا ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ البقر ‪ ،‬المائد اور االسرا میں قتل کی جن انواع کا ذکر‬
‫ہواہے ‪ ،‬کیا مومن ان سے مبرا ہے یا ان انواع کو خطا کے ذیل میں لیا جائے گا؟ ہم‬

‫‪ 1‬الشوری‪16‬‬
‫سمجھتے ہیں کہ قرآن مجید میں قتل عمد و قتل خطا ‪ ،‬دو انتہاں کا بیان ہوا ہے ‪ ،‬قتل‬
‫کی دیگر اقسام ان کے بین بین ہیں۔‬

‫خط مستقیم کو دائیں سے بائیں دیکھیں تو عمد کی شدت میں کمی واقع ہوتی‬
‫اس ِ‬
‫جاتی ہے اور خطا کا مقام آ جاتا ہے اور بائیں سے دائیں نظر دوڑائیں تو خطا کی نوعیت‬
‫سنگین ہوتے ہوتے ظلم کے مرحلے سے گزر کر عمد سے جا ملتی ہے ۔‬

‫المائد آیت و البقر آیت کے تکمیلی الفاظ سے قبل کے احکامات ‪ ،‬قاتل کے مومن ہونے‬
‫کی صورت میں بھی اس کی قانونی پوزیشن(ایمان) کو موضوع بحث نہیں بناتے اورنہ‬
‫ہی االسرا آیت میں ایسا قرینہ ملتا ہے ۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوا کہ مومن ‪ ،‬خطا کی‬
‫ان سنگین صورتوں یا عمد کی تخفیف حالتوں کا مصداق ہو سکتا ہے۔‬

‫اختتامی کلمات کی طرف بڑھتے ہوئے گزارش کریں گے کہ سور النسا آیت میں دنیاوی‬
‫سزا کی تالش کے حوالے سے مذکورہ داخلی شواہد کو نظر میں رکھتے ہوئے ‪،‬اب ذرا‬
‫(فمن اعتدی بعد ذلِک فلہ عذاب لِیم﴾ اور سور المائد آیت‬
‫ِ‬ ‫سور البقر آیت کے تکمیلی الفاظ‬
‫کے تکمیلی الفاظ (ومن لم یحکم ِبما نزل ہللا فولئِک ہم الظالِمون﴾ پر غور کیجیے کہ کیا ان دو‬
‫مقامات پر بھی سزا کی ایسی ہی نوعیت کی گنجایش موجود نہیں ہے؟ اور کیا قاتل‬
‫(اگر مومن ہو) کی قانونی پوزیشن مشکوک نہیں ہو جاتی؟ ہماری رائے میں اعتدی‪،‬‬
‫عذاب لِیم اور الظال ِمون جیسے الفاظ مذکورہ سزاں ( جن کا بیان النسا آیت کے ضمن‬
‫میں ہوا ) کی تنفیذ کے لیے داخلی شہادت دے رہے ہیں ۔ لیکن ان کا محل یہ ہے کہ‬
‫اگر الہی احکامات ﴿یا یہا الذِین آمنوا کتِب علیکم القِصاص فِی القتلی الحر ِبالح ِر والعبد ِبالعب ِد‬

‫والنثی ِبالنثی فمن عفِی لہ ِمن خِ یہِ شی فاتِباع ِبالمعروفِ ودا ِلیہِ بَِِ حسان ذلِک تخفِیف ِمن ر ِبکم‬
‫العین والنف ِبالنفِ‬
‫ِ‬ ‫النفس والعین ِب‬
‫ِ‬ ‫ورحم﴾ کے بعدیا الہی احکامات ﴿وکتبنا علی ِہم فِیہا ن النفس ِب‬

‫الذن والسِ ن ِبالسِ ِن والجروح قِصاص فمن تصدق ِبہِ فہو کفار لہ﴾کے عالوہ ‪ ،‬کوئی حیل و‬
‫والذن ِب ِ‬

‫حجت کی گئی ہو تو ایسے سرکش و ظالم کو (مذکورہ النسا آیت کی تصریح کے مطابق‬
‫) ‪ ،‬ظالم ‪ ،‬لعنتی ‪ ،‬فسادی اور فتنہ باز قراردیا جا سکتا ہے ‪ ،‬یعنی البقر آیت ‪ ،‬اور المائد‬
‫آیت میں ‪ ،‬پہلے ہی مرحلے میں کسی فریق یا فریقین کو اس انداز میں نہیں لیا جا‬
‫سکتا جیسے النسا آیت میں مومن کے قاتل کو پہلے ہی مرحلے میں لیا گیا ہے کہ اس‬
‫ہیت اجتماعی ‪ ،‬یک طرفہ طور پر سختی و درشتی اور‬
‫سے معاملہ مومنین کا قاید یا ِ‬
‫ذلت و رسوائی کے انداز میں نمٹائے گی ‪ ،‬جبکہ ا لبقر و المائد میں یہ معاملہ ہماری‬
‫رائے میں پہلے مرحلے میں ناکامی کے بعد اس کے تسلسل میں دوسرے مرحلے پر آتا‬
‫ہیت اجتماعی کو اس وقت کلی اختیار حاصل ہو جاتا ہے‬
‫ہے ‪ ،‬یعنی مومنین کے قاید یا ِ‬
‫جب فریقین یا کوئی فریق پہلے حکم کی تکفیر و تکذیب کرے ‪ ،‬اس کے نتیجے میں‬
‫وارث ولی وغیرہ کا عمل دخل و اختیار بھی بالکلیہ ختم ہوجاتا ہے ۔‬
‫خالصہ بحث‬
‫نتائج‬

‫سورة النساء میں اللہ تبارک وتعالی نے تمام مسلمانوں کو معاشرتی آداب سکھاتا ہے‬
‫۔سب سے پہلے اس سورة میں میراث کا حکم ذکر کیا گیا ہے جس سے ہم یہ نتیجہ‬
‫اخد کرتے ہے کہ اگر ہم ورثاء کو ان کا حق دیدے تو معاشرہ میں جو بگاڑ میراث کے نہ‬
‫دینے پر پیدا ہوتا ہے وہ ختم ہو جائے گااو ر زیادہ تر اس دور میں عورتوں کو میراث سے‬
‫محروم کر دیتا ہے اور اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ وراثت ایک الزمی‬
‫واجبی حق ہے ‪،‬وارث ہر حال میں اس کا مستحق ہوتا ہے جو لڑکیا بادل نخواستہ اپنا‬
‫حق وارثت معاف کر دیتی ہیں کہ ناراضگی سے بچ سکیں اس طرح ان کا حق ساقط‬
‫نہیں ہوتا بلکہ بھائیوں پر الزم ہے کہ ان کا حق انہیں دیں‪ ،‬چونکہ سورة النساء میں‬
‫میراث کے بارے میں تفصیل سے ذکر آیا ہے اگر ہم میراث میں عورتوں کے حق کو بھی‬
‫اپنا بنا لے تو اس سے آخرت تباہ ہو جاتی ہے اور پھر اس سورة عورتوں کے حقوق کے‬
‫بارے میں ذکر آیا ہے کہ اگر ہم عورت کو اس طرح کے حقوق دے جس طرح کے قرآن‬
‫مجید میں ذکر آیا ہے تو معاشرہ بگاڑ سے بچ جائے گا اور اس سے اجر و ثواب بھی ملے‬
‫گا اور اس سورة میں قتل کے بارے میںحکم آیا ہے کہ اگر کوئی انسان بے گناہ کسی‬
‫انسان کو قتل کر دے تو اس سے قتل کے بارے میں پوچھا جائے گا اور اس سے قصاص‬
‫لیا جائے گا ‪،‬اگر چہ اس نے بے گناہ انسان کو قتل کیا ہے اور اس قتل کی وجہ سے اس‬
‫کو آخرت میں بھی سزا ملے گا‬
‫تجاویز و سفارشات‬

‫زیر نظر مقالہ میں سورہ النساء کی روشنی میں معاشرتی مسائل تفصیل کے ساتھ‬
‫بیان کی گئے ہیں ‪،‬ویسے قرآن و حدیث میں اس بارے میں بہت ساری آیات و احادیث‬
‫موجود ہے لیکن جس انداز میں اس کا بیان ہوا ہے وہ قابل تقلید ہے۔اس پر بہت ساری‬
‫کتابیں اور تفاسیر بھی موجود ہیں تاہم اافسوس اس بات کی ہے کہ ہم قرآن کو سمجھے‬
‫بغیر اس کی صرف تالوت کرتے ہیںان کی تعلیمات کو سمجھے اور اس کو اپنی زندگی‬
‫میں النے کی کوشش کرے تو بہت سارے مفاسد کا مداوا ہو سکتا ہے ۔ذیل میں ہم‬
‫چند سفارشات پیش کرتے ہیں تاکہ ان تجاویز اور سفارشات کی روشنی میں قانون‬
‫سازی ہو سکے اور مقتد ر طبقہ اس کو سمجھ کر اس کی صورتحال کا جائزہ لے سکیں‬

‫‪:1‬میراث کے احکام کے بارے میں لوگوں کو آگاہی دے اور اس موضوع پر ایک نصاف‬
‫قائم کرے اور کالج اور یونیورسٹیوں میں پڑھایا جائے اور لوگوں میں شعور پیدا کرے‬

‫‪:2‬اور اس کیلئے قانونی الء بھی نافذ کرے جو اس کے خالف ورزی کرنے سے گریز کریں‬
‫فنی فہارس‬

‫فہرست آیات‬

‫آیات‬ ‫نمبر شمار‬


‫صفحہ نمبر‬

‫‪14‬‬ ‫م ْع ُر ْوفِ ‪-----------------------‬‬ ‫اس َتا ْ ُم ُر ْو َن ِبا ْل َ‬ ‫ت لِل َّن ِ‬


‫م َخ ْی َر ُا َّمةٍ ُا ْخ ِر َج ْ‬ ‫ُك ْن ُت ْ‬ ‫‪1‬‬
‫‪16‬‬ ‫ان‪-----------------------‬‬
‫او ُن ْوا َعلَى الْ ِإ ْثمِ َوا ْل ُع ْد َو ِ‬ ‫او ُن ْوا َعلَى ا ْل ِب ِر َو ال َّت ْق َوى َو لَا َت َع َ‬
‫َو َت َع َ‬ ‫‪2‬‬
‫م ُي َراء ون‪16 ------------‬‬
‫ه ْ‬ ‫ا َّلذ َ‬
‫ِين ُ‬ ‫ون‬
‫اه َ‬
‫س ُ‬
‫م َ‬
‫صلَات ِِه ْ‬
‫م َع ْن َ‬
‫ه ْ‬ ‫ا َّلذ َ‬
‫ِين ُ‬ ‫ص َّل ْين‬ ‫فو ْي ٌل ِل ْل ُم َ‬
‫َ‬ ‫‪3‬‬
‫‪-----------‬‬
‫‪16‬‬ ‫البر ‪-----------------------‬‬
‫ِن َ‬‫ب َو َلك َّ‬
‫م ْغ ِر ِ‬
‫ش ِر ِق َوا ْل َ‬
‫م ْ‬
‫ل ا ْل َ‬
‫م ق ِْب َ‬ ‫س البران ُت َو ُّلوا ُو ُج ْو َ‬
‫ه ُك ْ‬ ‫ل َْي َ‬ ‫‪4‬‬
‫‪17‬‬ ‫ِين َعل َْي َها َو ا ْل ُمؤ َّل َفةِ ‪-----------------------‬‬
‫ِين َو ا ْل َع ِمل َ‬
‫سك ِ‬‫م ْ‬ ‫ت ِل ْل ُف َق َرا ِء َو ا ْل َ‬
‫الص َد َق ُ‬
‫َّ‬ ‫ما‬‫إ ِ َّن َ‬ ‫‪5‬‬
‫ان ‪19 ----------------‬‬
‫م َ‬‫ل الْ ِإ ْي َ‬
‫م َ‬
‫اس َتكَ َ‬ ‫ض لِلهِ َوأ َ ْع َطى ِ‬
‫هلل َو َم َن َع لِلهِ َف َق ِد ْ‬
‫َ‬
‫ب لِلهِ َوأ ْب َغ َ‬ ‫َم ْن أ َ َح ُّ‬ ‫‪6‬‬
‫‪-------‬‬
‫‪27‬‬ ‫الص ِدق ِْی َن‪-----------------------‬‬
‫ّٰ‬ ‫یا ََیُّ َها ا َّلذ ِْی َن اٰ َم ُنوا ا َّت ُقوا ال ّٰل َه َو ُك ْو ُن ْوا َم َع‬ ‫‪7‬‬
‫‪35‬‬ ‫ِين‪-----------------------‬‬ ‫ض ُم ْفسِ د َ‬ ‫و ََلَا َت ْع َث ْوا فِي الْأ َ ْر ِ‬ ‫‪8‬‬
‫‪36‬‬ ‫ل ‪------------------------‬‬ ‫س ْو َ‬ ‫آم ُنوا أَطِ ْي ُعوا ال َّله َوأَطِ ْي ُعوا َّ‬
‫الر ُ‬ ‫ِين َ‬
‫َ‬
‫َيأيُّ َها ا َّلذ َ‬ ‫‪9‬‬
‫م ْع ُر ْوفِ َو َت ْن َه ْو َن‪-----------------‬‬ ‫ت لِل َّن ِ ْ‬
‫‪38‬‬ ‫ون ِبا ْل َ‬
‫اس َتأ ُم ُر َ‬ ‫اخ ِر َج ْ‬ ‫امةٍ ْ‬
‫م َخ ْي َر ُ‬ ‫نت ْ‬‫ُك ُ‬ ‫‪10‬‬
‫‪40‬‬ ‫ان‪--------------‬‬
‫او ُنوا َعلَى الْ ِإ ْثمِ َوا ْل ُع ْد َو ِ‬ ‫او ُنوا َعلَى ا ْل ِب ِر َوال َّت ْق َوى – َولَا َت َع َ‬ ‫َو َت َع َ‬ ‫‪11‬‬
‫س ُاب ْو َن‪-------------------‬‬ ‫م َ‬ ‫َّ‬ ‫َف َو ْي ٌل ِل ْل ُم َّ‬
‫‪41‬‬ ‫صلَات ِِه ْ‬ ‫م َع ْن َ‬ ‫صل ْي َن الذ ِْي َن ُب ُه ْ‬ ‫َ‬ ‫‪12‬‬
‫‪41‬‬ ‫ب‪-------------------‬‬ ‫المغ ِر ِ‬ ‫المش ِر ِق َو َ‬ ‫ل َ‬ ‫جوه ُكم ق َِب َ‬ ‫َ‬ ‫ليس البر أن ُت َو ُّلوا ُو‬ ‫‪13‬‬
‫‪42‬‬ ‫ِين َعل َْي َها َوا ْل ُمؤ َّل َفةِ ‪---------------‬‬‫ِين َوا ْل َق ِمل َ‬ ‫م َتك ِ‬ ‫ت ِل ْل ُف َق َرا ِء َوا ْل َ‬
‫الص َد َق ُ‬
‫َّ‬ ‫ما‬‫إ ِ َّن َ‬ ‫‪14‬‬
‫‪49‬‬ ‫ب‪-----------------‬‬ ‫الط ِي ِ‬ ‫ث ِب َّ‬‫ـم ۖ َولَا َت َت َب َّد ُلوا ا ْل َخ ِب ْي َ‬‫َـه ْ‬
‫امى ا َْم َوال ُ‬ ‫َوا ٰ ُتوا ا ْل َي َت ٰٰٓ‬ ‫‪15‬‬
‫‪49‬‬ ‫ب‪----------------‬‬ ‫ث ِب َّ‬
‫الط ِي ِ‬ ‫ـم ۖ َولَا َت َت َب َّد ُلوا ا ْل َخ ِب ْي َ‬
‫َـه ْ‬
‫امى ا َْم َوال ُ‬
‫َوا ٰ ُتوا ا ْل َي َت ٰٰٓ‬ ‫‪16‬‬
‫‪51‬‬ ‫اب‪--------------------‬‬ ‫ـم اَلَّا ُت ْقسِ ُط ْوا فِى ا ْل َي َت ٰ‬
‫امى َف ْانك ُِح ْوا َما َط َ‬ ‫ا ِْن خِ ْف ُت ْ‬ ‫‪17‬‬
‫‪52‬‬ ‫ـم‪--------------‬‬
‫س ُت ْ‬ ‫امى َحتــٰٰٓى اِ َذا َبل َُغوا النِ َك َۚ‬
‫اح َفا ِْن ا ٰ َن ْ‬ ‫َو ْاب َت ُلوا ا ْل َي َت ٰ‬ ‫‪18‬‬
‫‪55‬‬ ‫ما‪---------------------‬‬ ‫ام َك َ‬ ‫الص َی ُ‬
‫ِب َعل َْی ُك ُم ِ‬ ‫یاَیُّ َها ا َّلذ ِْی َن اٰ َم ُن ْوا ُكت َ‬ ‫‪19‬‬
‫‪55‬‬ ‫ظ الْ ُا ْن َث َی ْی ِۚن‪----------------‬‬ ‫م‪-‬لِل َّذ َك ِر ِم ْث ُ‬
‫ل َح ِ‬ ‫م ال ّٰل ُه ف ْٰۤ‬
‫ِی ا َْولَا ِد ُك ْ‬ ‫ص ْی ُك ُ‬
‫ُی ْو ِ‬ ‫‪20‬‬
‫ام ُر ٌؤا‪-----------------‬‬ ‫ّٰ‬
‫‪56‬‬ ‫م فِی ا ْلكَ ٰللَةِ ‪-‬ا ِِن ْ‬
‫ك‪ُ -‬ق ِل الل ُه ُی ْفت ِْی ُك ْ‬
‫س َت ْف ُت ْو َن َ‬
‫َی ْ‬ ‫‪21‬‬
‫‪58‬‬ ‫ِسآ ِء‪-------------‬‬
‫ك ا ْل َوال ِٰد ِن َو الْا َ ْق َر ُب ْو َن ۪ َو لِلن َ‬
‫ما َت َر َ‬
‫ب ِم َّ‬
‫ص ْی ٌ‬‫ال َن ِ‬ ‫ِلر َج ِ‬
‫ل ِ‬ ‫‪22‬‬
‫‪60‬‬ ‫ل ُم ْؤ ِم ًنا ُّم َت َع ِم ًدا َف َج َز ُآؤه َج َه َّن ُم ٰخل ًِدا‪--------------------‬‬‫َو َم ْن َّی ْق ُت ْ‬ ‫‪23‬‬
‫‪63‬‬ ‫ضا‪------------------------------‬‬
‫م َی ْو َم ٕى ٍذ ِل ْلكٰ ِف ِر ْی َن َع ْر َ‬
‫ض َنا َج َه َّن َ‬
‫و َ َع َر ْ‬ ‫‪24‬‬
‫‪63‬‬ ‫ِی ا ِ ٰل ٌه ِم ْن ُد ْون ِٖه َف ٰذل َ‬
‫ِك َن ْج ِز ْیهِ ‪-----------------------‬‬ ‫م ا ِن ْٰۤ‬
‫ل ِم ْن ُه ْ‬
‫َو َم ْن یَّ ُق ْ‬ ‫‪25‬‬
‫م ُت ْؤ ِم ُن ْوا َو ٰلك ِْن ُق ْو ُل ْٰۤوا‪---------------------‬‬ ‫اب ا ٰ َم َّنا‪ُ -‬ق ْ َّ‬
‫‪64‬‬ ‫لل ْ‬ ‫ت الْاَ ْع َر ُ‬
‫َقا َل ِ‬ ‫‪26‬‬
‫‪65‬‬ ‫س َبا‪--------------------------------‬‬
‫ما كَ َ‬
‫آء ِب َ‬
‫ما َج َز ً‬
‫اق َط ُع ْٰۤوا ا َْید َِی ُه َ‬
‫سا ِر َق ُة َف ْ‬
‫ق َو ال َّ‬
‫سا ِر ُ‬
‫َو ال َّ‬ ‫‪27‬‬
‫‪65‬‬ ‫ت‪----------------------------------------------------‬‬
‫س َب ْ‬
‫ما َك َ‬
‫س ِب َ‬ ‫ا َ ْل َی ْو َم ُت ْج ٰزى ُك ُّ‬
‫ل َن ْف ٍٍۭ‬ ‫‪28‬‬
‫‪66‬‬ ‫س ِی َئ ًة َفلَا ُی ْج ٰٰۤزى اِلَّا ِم ْثل ََهاۚ‪َ -‬و َم ْن َع ِم َ‬
‫ل‪----------------------------‬‬ ‫ل َ‬
‫َم ْن َع ِم َ‬ ‫‪29‬‬
‫ض ِبا ْل َح ِق‪66 ---------------------------------------------------‬‬ ‫ت َو الْا َ ْر َ‬
‫م ٰو ِ‬‫س ٰ‬ ‫َق ال ّٰل ُه ال َّ‬
‫َو َخل َ‬ ‫‪30‬‬
‫ض ِم ْن َب ْقل َِها َو ِقثَّآى َٕها‪67 -----------------------------------------‬‬
‫ت الْاَ ْر ُ‬ ‫ما ُت ْن ِب ُ‬‫ُی ْخ ِر ْج ل ََنا ِم َّ‬ ‫‪31‬‬
‫‪67‬‬ ‫الذ َّل ُة ا َْی َن َما ُثق ُِف ْٰۤوا اِلَّا ِب َح ْب ٍل ِم َن ال ّٰلهِ ‪-------------------------------‬‬
‫ت َعل َْی ِه ُم ِ‬ ‫ض ِر َب ْ‬‫ُ‬ ‫‪32‬‬
‫‪---‬‬
‫‪68‬‬ ‫ِك َم ُث ْو َب ًة عِ ْن َد ال ّٰلهِ ‪-------------------------------------‬‬ ‫ش ٍر ِم ْن ٰذل َ‬ ‫م ِب َ‬
‫ل اُ َن ِب ُئ ُك ْ‬
‫ه ْ‬
‫ل َ‬ ‫ُق ْ‬ ‫‪33‬‬
‫‪69‬‬ ‫م ‪----------------------------------------------‬‬ ‫َّ‬ ‫َّ‬
‫ٰۤیٰاَ ُّی َها الذ ِْی َن اٰ َم ُن ْوا َقا ِتلُوا الذ ِْی َن َی ُل ْو َن ُك ْ‬ ‫‪34‬‬
‫‪70‬‬ ‫ب ال َّنا ِر ا َْن َق ْد َو َج ْد َنا‪--------------------------------------‬‬ ‫َص ٰح َ‬‫ب ا ْل َج َّنةِ ا ْ‬
‫َص ٰح ُ‬
‫ادٰۤى ا ْ‬ ‫َو َن ٰ‬ ‫‪35‬‬
‫ث‪71 ------------------------------‬‬
‫ِك ا ْل َح ْر َ‬
‫ض ل ُِی ْفسِ َد ف ِْی َها َو ُی ْهل َ‬ ‫س ٰعى فِی الْا َ ْر ِ‬ ‫َو اِذَا َت َو ّٰلى َ‬ ‫‪36‬‬
‫‪---‬‬
‫‪72‬‬ ‫س َع ْو َن ‪--------------------------------------‬‬ ‫ما َج ٰٰٓز ُؤا ا َّلذ ِْی َن ُی َحا ِر ُب ْو َن ال ّٰل َه َو َر ُ‬
‫س ْولَه َو َی ْ‬ ‫ا ِ َّن َ‬ ‫‪37‬‬
‫‪-‬‬
‫‪72‬‬ ‫ل ِم ْن َب ْع ِد َما َت َب َّی َن‪-----------------------------------------------‬‬ ‫س ْو َ‬ ‫الر ُ‬
‫ِق َّ‬ ‫شاق ِ‬ ‫َو َم ْن ُّی َ‬ ‫‪38‬‬
‫‪72‬‬ ‫ل ا َ َّنه‪-------------------------------‬‬
‫ِس َرآء ِْی َ‬
‫ِی ا ْ‬ ‫َِ ا ْن ا َْج ِل ٰذل َ‬
‫ِك ﳎ كَ َت ْب َنا َع ٰلى َبن ْٰۤ‬ ‫‪39‬‬
‫‪73‬‬ ‫م‪-------------------‬‬
‫م َو َج َع ْل ٰن ُه ْ‬
‫ل ا َْغ َر ْق ٰن ُه ْ‬
‫س َ‬
‫الر ُ‬ ‫َو َق ْو َم ُن ْو ٍح َّل َّ‬
‫ما كَذ َُّبوا ُّ‬ ‫‪40‬‬
‫‪73‬‬ ‫ض َر ِر‬
‫س َت ِوی ا ْل ٰقعِ ُد ْو َن ِم َن ا ْل ُم ْؤ ِمن ِْی َن َغ ْی ُر اُولِی ال َّ‬ ‫لَا َی ْ‬ ‫‪41‬‬
‫‪75‬‬ ‫م ُع ْوا ‪-----------------------------‬‬ ‫اس َق ْد َج َ‬ ‫اس ا َِّن ال َّن َ‬ ‫ل ل َُه ُم ال َّن ُ‬ ‫ا َ َّلذ ِْی َن َقا َ‬ ‫‪42‬‬
‫‪76‬‬ ‫س ِب ْی ِل ال ّٰلهِ َف َت َب َّی ُن ْوا‪---------------------‬‬‫ِی َ‬
‫مف ْ‬ ‫ض َر ْب ُت ْ‬‫یا َ ُّی َها ا َّلذ ِْی َن اٰ َم ُن ْٰۤوا اِ َذا َ‬ ‫‪43‬‬
‫‪76‬‬ ‫ب‪--------------------------------‬‬ ‫آج ْو َن فِی ال ّٰلهِ ِم ْن َب ْع ِد َما ْ‬
‫اس ُت ِج ْی َ‬ ‫َو ا َّلذ ِْی َن ُی َح ُّ‬ ‫‪44‬‬

‫فہرست احادیث‬

‫نمبر شمار‬
‫صفحہ نمبر‬ ‫احادیث‬

‫‪17‬‬ ‫بن َبشِ ي ٍر رضي ہللا عنهما‪------------------------------‬‬ ‫مان ِ‬


‫عن ال ُّن ْع ِ‬ ‫‪1‬‬
‫‪22‬‬ ‫ض لِلهِ َوأ َ ْع َطى ِ‬
‫هلل َو َم َن َع لِلهِ ‪-----------------------‬‬ ‫َ‬ ‫َم ْن أ َ َح ُّ‬
‫ب لِلهِ َوأ ْب َغ َ‬ ‫‪2‬‬
‫‪26‬‬ ‫انما مثل الجليس الصالح و الجليس السوء ‪---------------------------‬‬ ‫‪3‬‬
‫‪26‬‬ ‫ن سكن البادية فقد جفا‪-----------------------------------------------‬‬ ‫‪4‬‬
‫المرء علی دین خلیلہ ‪ ،‬فلينظر احدكم من يخالل‪28 ---------------------------‬‬ ‫‪5‬‬
‫‪-‬‬
‫ایاک و قرین السوء فانک به تعرف‪29 ------------------------------‬‬ ‫‪6‬‬
‫‪-‬‬
‫‪31‬‬ ‫فصلوا ايها الناس في بيوتكم فان افضل صلاة‪---------------------------‬‬ ‫‪7‬‬
‫و الافضل في السنن القبلية و البعدية‪31 -------------------------‬‬ ‫‪8‬‬
‫‪-‬‬
‫مثل البيت الذي يذكر ہللا فيه ‪ ،‬و البيت الذى‪32 ------------------‬‬ ‫‪9‬‬
‫‪-‬‬
‫همه آفاق پر از فتنه و شر می بینم‪35 -----------------------------‬‬ ‫‪10‬‬
‫‪-‬‬
‫ل‪42 -----------------------‬‬‫م أ َ َّن ُه َقا َ‬ ‫ي ال َّلهِ ص َّلى ال َّل ُه َعل َْيهِ َو َ َّ‬
‫سل َ‬ ‫َ‬ ‫َع ْن َن ِب َّ‬ ‫‪11‬‬
‫‪-‬‬
‫بن َبشِ ي ٍر رضي ہللا عنهما ‪ ،‬عن النبي‪43 ---------------‬‬ ‫ان ِ‬ ‫م ِ‬ ‫عن ال ُّن ْع َ‬ ‫‪12‬‬
‫‪-‬‬
‫ل ہللاِ ‪51 ---------------------------‬‬ ‫سو َ‬ ‫ل‪َ :‬يا َر ُ‬‫ه َر ْي َر َة‪ ،‬أَ َّن َر ُج ًلا َقا َ‬
‫َع ْن أ َ ِبي ُ‬ ‫‪13‬‬
‫‪-‬‬
‫ش‪52 ---------------------‬‬‫م ُ‬‫َم َي ْر َف ْع ُه الأ َ ْع َ‬
‫ان‪ :‬ل ْ‬
‫س ْف َي ُ‬
‫ل ُ‬ ‫م ٍرو‪َ - :‬قا َ‬ ‫ا ََ ْن َع ْب ِد ال َّلهِ ْب ِن َع ْ‬ ‫‪14‬‬
‫‪-‬‬
‫ل‪------------------------:‬‬ ‫م َقا َ‬ ‫هر ْير َة‪َ ،‬ع ِن ال َّن ِبي ِ ص َّلى ال َّل ُه َعل َْيهِ َو َ َّ‬ ‫َ‬
‫‪52‬‬ ‫سل َ‬ ‫َ‬ ‫َع ْن أ ِبي ُ َ َ‬ ‫‪15‬‬
‫‪-‬‬
‫م‪----------------------‬‬ ‫ول ہللاِ ص َّلى ہللاُ َعل َْيهِ َو َ َّ‬
‫‪52‬‬ ‫سل َ‬ ‫َ‬ ‫س ُ‬ ‫ل َر ُ‬ ‫َت‪َ :‬قا َ‬ ‫ِش َة‪َ ،‬قال ْ‬ ‫َع ْن َعائ َ‬ ‫‪16‬‬
‫‪-‬‬
‫‪53‬‬ ‫ت‪-------------------------------‬‬ ‫س ِم ْع ُ‬ ‫ل‪َ :‬‬ ‫ي ال َّل ُه َع ْن ُه‪َ ،‬قا َ‬ ‫ض َ‬ ‫ِك َر ِ‬‫س ْب ِن َمال ٍ‬ ‫َع ْن أ َ َن ِ‬ ‫‪17‬‬
‫ص َّلى‪------------------------------‬‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫‪53‬‬ ‫ي َ‬ ‫س ِم َع ال َّن ِب َّ‬‫اَِ َّن ُج َب ْي َر ْب َن ُم ْطعِ مٍ ‪ ،‬أ ْخ َب َر ُه‪ :‬أ َّن ُه َ‬ ‫‪18‬‬
‫‪53‬‬ ‫ص َّلى ‪-------------------------------‬‬ ‫ي الل ُه َع ْن ُه‪َ ،‬ع ِن ال َّن ِبي ِ َ‬
‫َّ‬
‫ض َ‬ ‫َع ْن أ َ ِبي ُ‬
‫ه َر ْي َر َة َر ِ‬ ‫‪19‬‬
‫‪59‬‬ ‫‪20‬‬
‫تعلموالفرائض وعلموفانہ نصف العلم ‪---------------------------‬‬
‫‪60‬‬ ‫‪21‬‬
‫عن جابر یقول رایت النبی صلی اللہ علیہ وسلم‪-------------------‬‬
‫‪62‬‬ ‫وکانت الوراثة فی الجا‬ ‫‪22‬‬
‫ھلےة بالر جولےة والقو ة‪--------------------------‬‬
‫فہرست اعالم‬
‫حضرت محمدﷺ‬ ‫‪1‬‬
‫حضرت عبداللہ بن عمر‬ ‫‪2‬‬
‫حضرت جابر بن عبد اللہ‬ ‫‪3‬‬
‫حضرت علی‬ ‫‪4‬‬
‫حضرت نعمان بن بشیر‬ ‫‪5‬‬
‫ابوہریرہ‬ ‫‪6‬‬
‫حضرت عائشہ‬ ‫‪7‬‬
‫حضرت انس‬ ‫‪8‬‬
‫جبیر بن مطعم‬ ‫‪9‬‬
‫حضرت ابو دردا‬ ‫‪10‬‬
‫حضرت بشیر بن عقریہ جہنی‬ ‫‪11‬‬
‫حضرت ام سعید بنت مرہ الضہری‬ ‫‪12‬‬
‫مصادر و مراجع‬

‫مصادر ومراجع‬

‫نام کتاب‬ ‫نمبر شمار‬

‫التفسير المنير‪ ،‬وهبة الزحیلی‪ ،‬دار الكتب العلمیة‪ ،‬بیروت‪ ،‬لبنان‪۲۰۲۱ ،۲۵ ،‬ء‬ ‫‪1‬‬
‫تفسیر روح المعانی‪ ،‬آلوسی شباب الدین محمود ‪ ،‬بغدادی‪ ،‬مکتبہ حقانیہ پشاور ‪ ،‬طبع‬ ‫‪2‬‬
‫و سن ندارد‬
‫اعراب القرآن الکریم و بیانه ‪ ،‬االستاذ محیی الدین الدرویش‪ ،‬قدیمی کتب خانہ کراچی‬ ‫‪34‬‬
‫التحریر والتنوير ‪ ،‬ابن عاشور محمد الطاهر ‪ ،‬مكتب الدار التونسیه ‪۲۰۰۱۱‬‬ ‫‪5‬‬
‫الجامع الحکام القرآن‪ ،‬القرطبی ابو عبد هللا محمد بن احمد االنصاری‪ ،‬المکتبة الحقانیہ‪،‬‬ ‫‪6‬‬
‫پشاور‪ ،‬پاکستان سط ‪۱۳۱۸۰۱‬ھ‬
‫الصحيح البخاری‪ ،‬محمد بن اسماعیل‪ ،‬دار القلم بیروت طا‪۱۴۰۱ ,‬ھ‬ ‫‪7‬‬
‫تدبر قرآن امین احسن اصالحی‪ ،‬مکتبہ جدید پریس ط ‪۲۰۰۴ ,۱۰‬‬ ‫‪8‬‬
‫ابواالعلی مودودی‪ ،‬مکتبہ تعمیر انسانیت الہور ‪ ،‬ط ‪۱۹۸۱ ,۱۸‬ء‬
‫ٰ‬ ‫تفہیم القرآن‪،‬‬ ‫‪9‬‬
‫الجامع الصحيح لالمام مسلم‪ ،‬مسلم ابن حجاج القشیری‪ ،‬کتاب فضائل القران‪ ،‬دار‬ ‫‪10‬‬
‫االشاعت ‪ ،‬بیروت ‪۲۰۱۹۹۱ ،‬‬
‫جامع الترمذی‪ ،‬محمد بن عیسی الترمذی‪ ،‬دار الکتب بیروت‪ ،‬ط ‪۱۴۰۸ ،۲‬ھ‬ ‫‪11‬‬
‫بصائر ذوى التمييز في لطائف الكتاب العزيز‪ ،‬محمد يعقوب الفيروزابادی‪ ،‬المجلس‬ ‫‪12‬‬
‫للثمن االسالمی‪۲۰۱۲ ،‬ء‬
‫مجمع البیان فی تفسیر القرآن‪ ،‬فضل بن حسن الطبرسی‪ ،‬ناشر ‪ ،‬ناصر خسرو‪ ،‬سن‬ ‫‪13‬‬
‫‪،۲۰۱۵‬‬
‫تیر مصطلح الحديث‪ ،‬محمود الطحان‪ ،‬مكتبة المعارف للنشر والتوزيع‪۲۰۰۶ ،‬ء‬ ‫‪14‬‬
‫تفسیر مصباح القران حکیم عبد الخالق‪ ،‬مكتبة البشير‪ ،‬خوشاب‪۲۰۱۵ ،‬‬ ‫‪15‬‬
‫‪Boyd, Robert; Richerson, Peter J. (12 November 2009). “CultureAnd the‬‬ ‫‪16‬‬
‫‪evolution of human cooperation”. PhilosophicalTransactions of the Royal‬‬
‫‪Society‬‬
‫مجلة كلية اآلداب للجامعة القاهرة"‪ ،‬مجلد ‪ ، ۶۸‬سنة ‪٢٠٠٨‬‬ ‫‪17‬‬
‫تاریخ ابن خلدون‪ ،‬ترجمه حکیم احمد حسین‪ ،‬مکتبه اداره تعلیمات اسالمی دیوبند ‪،‬‬ ‫‪18‬‬
‫‪۱۹۹۳‬‬
‫متدرک للحاکم‪ ،‬ابو عبد اللہ حاکم نیسا پوری‪ ،‬دار لکتب العلمیة‪ ،‬بیروت‪ ،۲ ،‬سن ‪،۲۰۰۱‬‬ ‫‪19‬‬
‫سنن ابی داود‪ ،‬ابو داؤد سلیمان بن اشعث السجستانی‪ ،‬دار احیاء اتراث العربی‪،۴ ،‬‬ ‫‪20‬‬
‫سن ‪۲۰۱۴‬‬
‫مسند احمد ‪ ،‬امام احمد بن حنبل‪ ،‬دار الکتب العلمیة‪ ،‬بیروت‪۱۹۹۷،۲ ،‬‬ ‫‪21‬‬
‫سنن النسائی‪ ،‬احمد بن شعیب النسائی‪ ،‬دار الکتاب‪ ،‬قاہره‪ ،‬ط ‪ ، ۲‬سن ‪۲۰۰۲‬‬ ‫‪22‬‬
‫فيض القدير ‪ ،‬شرح الجامع الصغير‪ ،‬محمد عبد الرؤوف المناوي‪ ،‬دار المعرفة‪ ،‬سن‬ ‫‪23‬‬
‫‪۱۹۷۱‬‬
‫حاشیہ الطحطاوی‪ ،‬امام محمد احمد بن محمد بن اسماعیل الطحطاوی‪ ،‬دار الکتب‬ ‫‪24‬‬
‫العلمیة‪ ،‬بیروت‪ ،‬ط ‪ ،۲‬سن ‪۱۹۹۹‬‬
‫الدر المنثور فی التفسیر بالماثور ‪ ،‬جالل الدین‪ ،‬عبدالرحمن السیوطی‪ ،‬دار احیاء التراث‬ ‫‪25‬‬
‫العربی سطه ‪ ، ۲‬سن ‪۱۹۹۹‬‬
‫مصباح اللغات ‪،‬عبدالحفیظ بلیاوی‪ ،‬مکتبہ قدوسیه ‪۱۹۹۸ ،‬‬ ‫‪26‬‬
‫تاج العروس ‪ ،‬مرتضی زبیدی‪ ،‬دار اال خالص ‪ ،‬ط ‪ ،۳‬سن ‪۲۰۰۷‬‬ ‫‪27‬‬
‫النوادر في المغتہ ابو زید ‪ ،‬سید بن اوس االنصاری‪ ،‬دار احیاء التراث العربی‪ ،‬سن ‪۲۰۰۷‬‬ ‫‪28‬‬
‫تفسیر ابن کثیر ‪ ،‬حافظ عماد الدین ابن کثیر ‪ ،‬دار الکتب العلمیة بیروت‪ ،‬سن ‪۲۰۰۲‬‬ ‫‪29‬‬
‫الشفا بتعريف حقوق المصطفى القاضی فضیل بن عیاض‪ ،‬دار الحدیث القاهرة‪ ،‬سن‬
‫‪۲۰۱۳‬‬
‫مسند البزاز‪ ،‬حافظ ابو بکر البزاز‪ ،‬دار الکتب العلمیہ‪ ،‬بیروت ‪ ،‬ط ‪ ،۳‬سن ‪۲۰۰۹‬‬ ‫‪30‬‬
‫تفسیر قرطبی‪ ،‬محمد بن احمد ‪ ،‬القرطبی‪ ،‬دار احیاء التراث العربی‪ ،‬ط ‪ ، ۲‬سن ‪۱۹۹۷‬‬ ‫‪31‬‬
‫معارف القرآن‪ ،‬مفتی شفیع عثمانی ‪ ،‬ادارۃ المعارف کراچی‪ ،‬سال اشاعت اپریل ‪۲۰۰۸‬‬ ‫‪32‬‬

You might also like