Professional Documents
Culture Documents
حجرِاسود کی تاریخ،رفیع رضا
حجرِاسود کی تاریخ،رفیع رضا
تاریخ کیا کہتی ھے۔۔۔۔
قرامطیوں نے لوگوں کو تلوار کے گھاٹ اتارنا شروع کر دیا جو
بھی سامنے آیا قتل ہوا۔ بہت سے لوگ ڈر کے مارے کنووں میں
اتر گئے ،یا پہاڑ پر بھاگ گئے۔ قرامطیوں نے بیت ہللا میں توڑ
پھوڑ شروع کر دی ،بیت ہللا کو نقصان پہنچایا ،بیت ہللا کا غالف
اتار کر تار تار کرکے غارت کر دیا گیا ،بیت ہللا کا دروازہ اکھاڑ
ڈاال ،حجر اسود کو بھی بیت ہللا کی دیوار سے اکھاڑ پھینکا۔ چاہ
زمزم کو الشوں سے پاٹ دیا گیا۔ قرامطیوں کا کہنا تھا کہ اگر ہللا
خود آسمان پر ہے تو اسے زمین پر کسی گھر کی ضرورت نہیں
اس لئے کعبہ کو لوٹنا ضروری ہے۔ وہ بیت ہللا کے صحن میں
بآواز بلند پکارتے کہ کہاں ہے وہ خدا جس کا کہنا ہے کہ
147من دخله کان آمنا( 147جو حرم میں داخل ہوا اسے امان
حاصل ہوئی) اور جو کہتا ہے کہ 148آمنھم من خوف( 147ہللا
نے انہیں (اہل مکہ) کو خوف سے امن میں رکھا) حاجیوں کو
مخاطب کرکے کہا 148تم جو خانہ خدا میں داخل ہو ہماری
تلواروں سے کیوں حفاظت نہیں پاتے؟ اگر تمہارا خدا سچا ہوتا تو
تمہیں ہماری تلواروں سے ضرور بچاتا۔ غرض اس طرح قرآنی
آیات اور حاجیوں کو اپنے طنز ،طعن اور مذاق کا نشانہ بنایا،
مسلمانوں کی عورتوں اور بچوں کو لونڈی اور غالم بنایا ،لگ
بھگ بیس ہزار لوگوں کو قتل کیا۔ یہ تعداد ان کے عالوہ ہے جو
از خود اپنی جان بچانے کیلئے کنووں میں کود گئے تھے ،اور
بعد میں قرامطیوں نے ان کنووں کو الشوں سے پاٹ کر انہیں
بھی ہالک کر ڈاال تھا۔ غرض مکہ و اہل مکہ خوب اچھی طرح
تاخت و تاراج کرتے ہوئے خوب لوٹ و کھسوٹ کا بازار گرم
کیا۔ اور واپسی پر حجر اسود اور بیت ہللا کا دروازہ پنے ساتھ
بحرین لے گیا۔
ابو طاہر نے لحساء واپس پہنچ کر کتب سماوی یعنی تورات،
انجیل اور قرآن کے نسخوں کو صحراء میں پھنکوا دیا اور
قرامطی ان پر بول و براز کرتے رہے۔ ابو طاہر کہا کرتا تھاکہ
148تین افراد نے انسانوں کو برباد کرکے رکھ دیا۔ ایک گڈریا
(عیسی) اور ایک شتربان (محمد)۔ مجھے ٰ تھا (ابراہیم) ،ایک اتائی
سب سے زیادہ غصہ اس شتر بان پر ہے کہ یہ شتربان باقیوں کی
نسبت زیادہ بڑا شعبدہ باز تھا۔ ابو طاہر نے اپنے زیر اثر عالقےX
میں سب لوگوں پر الزم کر رکھا تھا کہ انبیاء و رسل پر لعنت
بھیجی جائے۔
!قارئین کرام
اب ذرا جگر تھام کر بیٹھئے کہ وہ مقدس حجر اسود جو جنت
سے اتارا گیا ،جو انبیاء کے ہاتھوں بیت ہللا کی زینت بنا ،جسے
آج تک حاجی بڑی عقیدت کے ساتھ چومتے چاٹتے اور َمس
کرتے ہیں اس حجر اسود کے ساتھ ابو طاہر نے بحرین میں کیا
سلوک کیا؟ تاریخ کا یہ گمشدہ ورق آپ میں سے اکثر کی نگاہوں
سے قصدا پوشیدہ رکھا گیا ہے ،کیونکہ اس گمشدہ ورق کے
افشاء میں رسوائی ہی رسوائی مضمر ہے ،گمراہ اذہان فورا سورہ
فیل کے شان نزول کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں ،اور طرح
طرح کے سوال داغنا شروع کر دیتے ہیں اس لئے تاریخ کے اس
گمشدہ ورق کی پوشیدگی میں حکمت ہی حکمت ہے ،اور اظہار
میں نری خجالت۔ تو سنئے! ابو طاہر نے حجر اسود کو دو
ٹکڑوں میں تقسیم کرکے اپنے بیت الخالء کے گڑھے پر قدمچے
کے طور پر نصب کرا دیا۔ ایک ٹکڑا ایک طرف اور دوسرا ٹکڑا
دوسری طرف ،جب قضاء حاجت کیلئے بیٹھتا تو ایک پاؤں ایک
ٹکڑے پر رکھتا اور دوسرا پاؤں دوسرے ٹکڑے پر۔ تقریبا ً 22
برس تک حجر اسود اسی حالت میں ابو طاہر کے قبضے میں
رہا۔
زیادہ تر مؤرخین کے مطابق عباسی خلیفہ کی درخواست پر مصر
کے فاطمی خلیفہ کی مداخلت کی بدولت 22برس کے بعد یعنی
339ھ میں ابو طاہر نے بھاری تاوان وصول کرنے کے بعد
عباسیوں کے حوالے کیا۔ جبکہ نظام الملک طوسی کے مطابق
قرامطیوں کی شرارتوں سے عاجز آکر عراق و خراسان سے
بہت بڑے لشکر نے بحرین پر یلغار کا قصد کیا تو اس یلغار کے
خوف سے گھبرا کر قرامطیوں نے حجر اسود کے ٹکڑوں کو
کوفہ کی جامع مسجد ال پھینکا۔ کوفہ کے لوگوں نے لوہے کی
سالخ کے ذریعے دونوں ٹکڑوں کو آپس میں کس دیا اور لے جا
کر بیت ہللا میں دوبارہ سے نصب کر دیا۔
تمام تر تفصیل کیلئے سیر الملوک یا سیاست نامہ از ابو علی(
حسن بن علی خواجہ نظام الملک طوسی ،صفحہ نمبر 306تا
311مالحظہ کیجئے