Professional Documents
Culture Documents
قرانی رسم الخط
قرانی رسم الخط
اردو
قیس کے لوگ تانیث کے کاف کا تلفظ شین سے اس طرح کرتے ہیں کہ’’قَ ْد َج َع َل َربُّ ِ
ک تَحْ ت ِ
َک
َش َس ِریًّا‘‘ پڑھتے ہیں ،تمیمی’’َٔان‘‘کو’’عن‘‘ ادا کر تے ہیں اور یہی
ُّش تَحْ ت ِ َس ِریًّا‘‘ کو َ
’’رب ِ
تمیمی ’’سین‘‘ کی جگہ ’’ثا‘‘ کا تلفظ کرتے تھے ،مثالً ’’:برب الناث ،ملک النا ِ
ث ‘‘ پڑھتے
تھے ۔ قارئین کرام غور فرمائیں کہ جب لب ولہجہ کے اختالف میں قبائل عرب کا یہ حال تھا ،تو
اہل عجم کا کیا پوچھنا؟یوں بھی لب ولہجہ اور زبان کا اختالف آپ کو ہر دور میں ملے گا۔ اب
اگر قرآن کریم کی کتابت وطباعت مختلف انداز ،تلفظ اور طرح طرح کے لب و لہجہ کے لحاظ
سے ہوتی توآج ہمارا کیا حال ہوتا؟ امت عظیم اختالف وتفریق $کا شکار ہو کر رہ جاتی ،اسی کے
ساتھ دوسرا مسئلہ یہ بھی درپیش تھا کہ عوام الناس معلمین سے قرآن سیکھتے ،پڑھتے اور
دوسروں کو تعلیم دیتے رہے ،ان معلمین میں بعض تعلیم کے وقت کچھ تشریحی و توضیحی$
کلمات کا اضافہ $بھی کرتے تھے اور متعلمین بعض مر تبہ اسے قرآن کا جزو سمجھ کر محفوظ
ْس َعلَ ْی ُک ْم ُجنَا ٌح َٔا ْن تَ ْبتَ ُغوْ ا فَضْ الً ِّم ْن َّربِّ ُک ْم‘‘ ۔۔۔۔۔۔ ’’تم پر کوئی گناہ نہیں
کرلیتے تھے ،مثالً ’’:لَی َ
نے اپنے ذاتی نسخہ میں ’’فی qکہ تم اپنے رب کا فضل تالش کرو۔‘‘ حضرت عبدہللا بن مسعود
مواسم الحج‘‘ کے الفاظ لکھے تھے ،جس کا مطلب یہ ہے کہ ایام حج میں تجارت کرکے کچھ
ِ
مالی فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے ،اب ظاہر بات ہے کہ یہ اضافہ $محض توضیح وتشریح کی غرض
نے جو اجازت دی تھی ،اس میں بھیaسے تھا۔ اسی طرح ہر تلفظ کی ادائیگی کے لیے پیغمبر
مبالغہ ہونے لگا اور نوبت سخت قسم $کے اختالفات’’ َکفَّ َر بعضُہم بعضًا‘‘ تک پہنچنے لگی ۔
چنانچہ عہد عثمانی میں فتح آرمینیہ $اور آذربائیجان ۳۰ھ کے وقت شام اور عراق کی فوجیں
ایک جگہ جمع تھیں ،ان دونوں کی قراء ت میں تشویشناک حد تک اختالف پایا گیا ،ہر شخص
اصحاب کے ساتھ حضرت
ؓ اپنی قراء ت کو دوسرے سے افضل قرار دیتا ۔ اس جنگ میں دیگر
بھی تھے ،انہوں نے جب یہ صورت $حال دیکھی تو انہیں سخت تشویش ہوئی q ،حذیفہ بن یمان
پوری تفصیل بخاری شریف صفحہ ۷۴۶:میں موجود ہے ،اسی طرح مشکوۃ ،باب فضائل
نے vالقرآن ،صفحہ، ۱۹۳:اور النشر،جلد، ۱:صفحہ ۷:میں مذکور ہے ،جبکہ امام شاطبی
متوفی۴۴۴ :ھ( vعالمہ دانی
ٰ کی کتاب ’’المقنع ‘‘کو نظم کرتے ہوئے اپنے قصیدٔہ رائیہ کے)
شعر نمبر ۳۱:سے نمبر ۳۴:تک کے چار اشعار میں اس کو بیان کیا ہے۔ خالصہ یہ کہ حضرت
سے یہ qکو اس سے بڑا دکھ ہوا اور واپس ہو کر آپ نے خلیفٔہ وقت حضرت عثمان qحذیفہ
واقعہ بیان کرکے ان کی توجہ اس جانب مبذول کرائی کہ قراء ت کو رسم الخط کا پابند اور
اضافہ جات کو حذف کیا جائے اور جمع شدہ قرآن سب کے روبہ $رو الیا جائے۔حضرت عثمان
کے پاس سے tکی رائے کو پسند فرمایا $اور ام المؤمنین حضرت حفصہ qنے حضرت حذیفہ q
حضرت عبد الرحمٰ ن بن q،عہد صدیقی کا جمع کردہ قرآن مجید منگواکر $حضرت زید بن ثابت
کو اس کام پر مقرر فرمایا۔( بخاری شریف ،ج ،۲:ص ) ۷۸۴:ان حضرات کو qحارث بن ہشام
کی طرف $سے یہ تاکید کی گئی کہ اس رسم $الخط میں تمام قراء ات متواترہ qحضرت عثمان
االتقان ،جلد، ۲:صفحہ ۲۸۹:میں لکھتے ہیں کہ جہاں تک مشہور اور ‘ vثابت ہوں ،امام سیوطی$
جیسۓ’’:اوصی $اور و ٰ ّ
صی ، $تجری $تحتھا اور من تحتھا ،سیقولون ٰ مختلف قراء ت کا تعلق ہے،
کے مصحف qہّٰللا اور سیقولون ہّٰلِل ِ ،فتبیَّنوا اور فتثبّتوا، $وغیرہ‘‘ یہ سب قراء تیں حضرت عثمان
میں موجود تھیں اور چونکہ اس میں نقطے اور اعراب نہیں تھے جس کا الزمی نتیجہ یہ ہوا کہ
ت
بعض الفاظ کو جن میں مختلف قراء ات تھیں انہیں کئی طریقے سے پڑھا جاسکتا تھا ۔ قراء ا ِ
متواترہ کو ثابت اور باقی رکھنے کی وجہ یہ تھی کہ اس کی اجازت خود حدیث مشہور سے
نے’’ِإن ھذا القرآن ُٔانزل ٰ
علی سبعۃ ٔاحرف فاقرؤا $ماتیسر aثابت ہے ،ارشاد فرمایا $نبی کریم
منہ۔‘‘ (متفق علیہ ،بخاری،ج ،۲:ص۷۴۷:۔ مسلم ،ج ،۱:ص ) ۲۷۲:دوسری $تاکید یہ تھی کہ
دورا ِن تالوت جہاں اختالف ہو اور مشکل پیش آئے وہاں لغت قریش کو ترجیح دیتے ہوئے اسی
ت قرآن
کے مطابق لکھا جائے ،کیونکہ $قریش ہی کی لغت میں قرآن نازل ہوا ہے ،چنانچہ قراء ِ
کے قرآن کریم کو کتا بی صورت میں جمع qکے بارے میں یہی اختالف ونزاع حضرت عثمان
کر نے وکتابت کا حکم فرمانے کا اساسی وبنیادی سبب تھا۔ اس مہتم بالشان خدمت قرآن کی
تکمیل کے بعد مشہور قول کے مطابق قرآن مجید کے پانچ نسخے لکھے گئے۔
(االتقان،ج،۱:ص )۱۰۴:یہ نسخے مدینہ طیبہ ،مکہ مکرمہ ،شام،بصرہ اور کوفہ روانہ $کیے
کا منشٔا یہ تھا کہ صرف $تحریر کردہ قرآنی $نسخو ں ہی پر qگئے ۔ دراصل سیدنا حضرت عثمان
کے منہ سے قرآن سن کر اپنے سینوں sقناعت نہ کی جائے ،بلکہ برا ِہ راست و با لمشافہ $صحابہ
جب کہیں کوئی قرآنی نسخہ روانہ فرماتے تو اس qمیں محفوظ کرلیں ،اس لیے حضرت عثمان
کے ساتھ ایک معلم وقاری $بھی بھیجتے تھے۔ اس لیے مذکورہ پانچوں شہروں کے لیے ممتاز
معلم اور نگران مقر ر کیے گئے۔ اس سے یہ بھی معلوم $ہوا کہ قرآن کریم کی sصحابہ $کرام
تعلیم میں صرف قرآنی نسخے کا پڑھ لینا یا مطالعہ $کر لینا کافی نہیں ،بلکہ کسی ماہر و مشاق
کو ،مکہ qمعلم سے بالمشافہ سیکھنا ضروری ہے۔ چنانچہ مدینہ طیبہ میں حضرت زید بن ثابت
کو ،بصرہ میں qکو ،شام میں حضرت مغیرہ بن شہاب qمکرمہ میں حضرت عبدہللا بن سائب
کو نگراں qکو ،اور کوفہ میں حضرت عبدالرحمن السلمی q حضرت عامر بن عبد ہللا القیس
مقرر کیا گیا۔ (مناہل العرفان ،ج ،۱:ص )۳۹۷-۳۹۶:اور ایک نسخہ آپ نے اپنے لیے خاص
فرما یا جسے ’’مصحف امام‘‘ کہاجاتاہے ،اس طرح کل تعداد ان مصاحف $کی چھ ہو گئی ۔ پھر
بعض نے تعداد آٹھ بتائی ہے ،اس اعتبا ر سے ساتواں بحرین اور آٹھواں یمن ارسال فرمایا۔$
بعض کے نزدیک آپ نے ایک نسخہ مصر بھی روانہ $فرمایا۔( النشر،ج،۱:ص)۷:
قرآنیت کے اصول ثالثہ میں سے ایک اصول یہ بھی ہے کہ جس قرآن کا رسم الخط مصاحف
عثمانی کے مطابق $ہو گا وہی قرآن کہا جائے گا ،اس کے خالف جائز نہیں۔ قرآن مجید کو
کے دور خالفت میں دیا گیا ،چنانچہ محمد بن qمصحف کا نام سب سے پہلے حضرت ابوبکر
موسی بن عقبہ روایت کر تے
ٰ عبدہللا بن اشتہ متوفی۳۶۰$ھ اپنی کتاب ’’المصاحف‘‘میں بطریق
نے فرمایا qہیں کہ جب قرآن کریم کو جمع کرکے اوراق پر لکھا گیا تو حضرت ابوبکر صدیق$
کہ اس کا کوئی نام مقرر کیا جائے ،بعض حضرات نے ’’السِّفر‘‘(پیغامات)تجویزکیا،آپ نے
فرمایا :یہ یہود کا تجویز کردہ نام ہے ،بعض نے حبشہ میں رائج نام یعنی ’’المصحف‘‘ $تجویزکیا$
نے qجس پر اتفاق ہوگیا اور قرآن مجید کو ’’المصحف‘‘ کہا جانے لگا۔ سیدنا حضرت عثمان
مذکورہ باالعالقوں میں مصاحف $روانہ کرکے یہ حکم جاری فرمایا کہ اس کے عالوہ جس کے
پاس بھی ذاتی قرآن کے نسخے موجود $ہوں وہ حکومت کو بھیج دئیے جائیں ،چنانچہ دوسرے
تمام نسخے تلف کردئیے گئے ۔ اس میں شک نہیں کہ آپ کا یہ فیصلہ بہت سی حکمتوں اور
مصلحتوں پر مبنی تھا ،کیونکہ $بعد میں ان نسخوں کا وجود امت میں زبردست $افتراق واختالف$
سے جس قدر دوری $ہوتی جاتی ،اسی قدر یہ نسخے امت aکا سبب بن سکتا تھا ،عہد رسالت مآب
مسلمہ کے لیے زیادہ مضرثابت ہوتے۔ فائدہ مہمہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ قرآن کریم کے
جن کلمات میں ایک سے زائد قراء تیں متواتر دلیل سے ثابت نہیں تھیں ،ان کو ایک ہی طرح
سے لکھا جاتا تھا ،لیکن جن کلمات قرآنی میں بدلیل تواتر ایک سے زائد قراء تیں تھیںان تمام
قراء توں کا اظہار صرف ایک ہی رسم $الخط کے ذریعہ ہر جگہ ممکن نہ تھا ،اس لیے کتابت
کرنے والے ایسے تمام کلمات کو ایک نسخہ میں ایک متواتر قراء ت کے اظہار کے لیے ایک
طرح اور دوسرے $نسخہ میں دوسری متواتر $قراء ت کے اظہار کے لیے دوسری طرح اور
تیسری متواتر $قراء ت کے اظہارکے لیے تیسرے نسخے میں تیسری $طرح لکھنے پر مجبور$
کے اس اقدام qتھے ،اس مجبوری میں مصاحف $میں تعدد ناگزیر $تھا ۔ بہرحال حضرت عثمان
کو سب حضرات نے بڑی وقعت اور پسندید $گی کی نگاہ سے دیکھا ،قرآن کریم $کے ذاتی
کے مشوروں کے بعد کیا تھاs ،وانفرادی نسخوں کے معدوم کیے جانے کا اقدام آپ ؓ نے صحابہ$
وجہہ فرمایا $کرتے تھے کہ:عثمان
ٗ کے بارے میں بھالئی کے سوا qچنانچہ حضرت علی کرم ہللا
کچھ نہ کہو ،بخدا آپ نے مصاحف $کے بارے میں جو کچھ بھی کیا وہ ہمارے مشورے کے
مطابق اور ہماری موجودگی میں کیا ۔ (االتقان ،ج، ۱:ص )۱۰۳:بعض نے کہا کہ حضرت سوید
کا بھی یہی قول ہے ۔ بہرحال ان مصاحف $عثمانی میں نقطے اور اعراب نہیں تھے qبن غفلہ
جن کا فائدہ یہ تھا کہ مختلف قراء ات پڑھی جاسکتی تھیں ،نیز ان میں آیات اور سورتوں کی
بعینہ وہی ترتیب تھی جو کہ موجودہ قرآنی $نسخوں میں ہے۔ اس امر میں بھی کوئی $شک وشبہ$
نہیں کہ قرآن مجید فرقان حمید کے سو ا دنیا کی کسی کتاب کی حفاظت کے لیے وہ اہتمام نہیں
کیا گیا جو قرآن کے حصے میں آیا ،قرآن کریم کے سوا دنیا میں کوئی کتاب بطریق تواتر
1433
1434
1435
1436
1437
1438
1439
1440
1441
1442
1443
مضامین
قرآن وعلوم قرآن )5300(
حدیث و علوم حدیث )37(
سیرت )48(
ختم نبوت )5(
عقائد و فلسفہ وکالم )13(
افکار ونظریات )53(
ادیان ومذاہب و مسالک )23(
محاسن اسالم )10(
عبادات وارکان اسالم )8(
احکام ومسائل )21(
جدید مسائل )2(
ٰ
فتاوی بینات )154(
تزکیہ واحسان ،اصالح و تصوف)47(
آداب واخالق )37(
اصالحی مضامین )25(
دعوت و تبلیغ )26(
تعلیم وتربیت)55(
دینی مدارس )26(
فقہ واصول فقہ )31(
فقہ الحالل والحرام )15(
اجتھاد وتقلید )5(
نکاح و طالق وشادی بیاہ )23(
میراث و وصیت )2(
رسوم و رواج و ثقافت )4(
آئین و قانون )55(
حدود وتعزیرات )1(
حقوق نسواں )12(
مملکت وریاست وتاریخ پاکستان )54(
خالفت وسیاست )31(
جہاد و غزوات و جنگیں )3(
واقعات و حاالت و سانحات )25(
معیشت وتجارت و بینکنگ )29(
سائنس وٹیکنالوجی )12(
تذکرہ وسوانح )79(
یاد رفتگان )171(
تبصرٔہ کتب و نقد ونظر )105(
فکر ٓاخرت )1(
خطوط ومکاتیب و ملفوظات )66(
اشعار و لغات و اصطالحات )6(
اعالنات ،نوٹس ،وضاحتیں )2(
عظمت صحابہ کرام و مشاجرات صحابہ)10(
طریقہ تعاون