Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 548

‫اﻧﺎڑی دوﻟﮩﺎ ﮐﮭﻼڑی ﺑﮩﻦ‬

‫‪  ‬‏ﺻﻔﺤﮧ_‪ 1‬‬

‫راﺋﯿﭩﺮ ﻧﻮاﺑﺰادہ‬

‫‪    ‬‬

‫ﭘﮩﻠﯽ‪  ‬ﺑﺎر ﮐﺎﻣﯿﮉی اور روﻣﺎﻧﺲ ﮐﺎ ﺗﮍﮐﺎ_اﯾﮏ‬


‫ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻨﻔﺮد اﻧﺪاز‬

‫دﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮨﺮ ذی روح روز ازل ﺳﮯ ﭘﯿﺎر ﮐﯽ‬


‫ﻣﺘﻼﺷﯽ ﮬﮯ اور اﭘﻨﮯ ﻟﺌﯿﮯ ﭘﯿﺎر ﮐﯽ ﺗﻼش ﻣﯿﮟ‬
‫رہتی ھے اور روح تو روح ساال جسم کا ہر‬
‫حصہ اپنی جسمانی ضروریات پوری کرنے کا‬
‫مطالبہ کرتا ھے اسمیں سر فہرست انسان کا‬
‫لن اور عورت کی چوت ھے دوستو لن کبھی‬
‫یہ نہیں دیکھتا کہ سامنے چوت کس کی ھے‬
‫بس اس کے اندر گھس جانے کی کوشش کرتا‬
‫ھے اسی سلسلے کی ایک کڑی‪  ‬ایک کشمیری‬
‫جوان مہرو نے دہرائی اپنے بھائی فیصل‬
‫کیساتھ جسے شروع میں سیکس کی الف‬
‫اور ب‪  ‬معلوم‪  ‬نہیں تھی‬

‫اس کہانی میں مرکزی کردار فیصل شہزاد‪ ‬‬


‫عمر بائیس سال رنگ گورا جسامت بھاری‬
‫پہلوان ٹائپ کے دراز قد پر موٹے دماغ‬
‫کےمالک اور‪  ‬پھر اسکی شوخ چینچل بہن‬
‫مہرو نساء کر رہی ہیں پتلی کمر گورا سفید‬
‫رنگ گھر میں سب کی الڈلی اور خاندان کی‬
‫سب سے اتھری لڑکی جو بوائز تو کیا کسی‬
‫پرندے کو بھی اپنے اوپر سے نہ گزرنے دے‬
‫تیکھے نین نقش بھارتی اداکارہ نیرو باجوہ‬
‫جیسی شکل اسکی سہیلیاں‪  ‬اسے کشمیری‪ ‬‬
‫بلی کہہ کر پکارتی ہیں یہ مہرو اپنے بھائی‬
‫فیصل سے بڑی ھیں دو سال جس کا فگر‬
‫بتیس سائز کا ھے اور اب آتے ھیں فیصل کی‬
‫منگیتر علیشاہ جسے پری بھی کہتے ھیں‪  ‬وہ‬
‫دو بھائیوں کی اکلوتی بہن ھے بچپن سے‬
‫فیصل کی منگیتر ھے اور فیصل کی خالہ زاد‬
‫بہن ھے‬
‫جسے فیصل کی ماں نے بچپن میں ھی اپنے‪ ‬‬
‫بیٹے کے لئیے مانگ لیا تھا شاید قدرت کو یہ‬
‫سب منظور تھا کہ ان دونوں کی جوڑی بنے‬
‫گی ایک بہن اور بھائی اور ماں باپ فیصل‬
‫کی فیملی میں کل چار افراد تھے وہ ایک‬
‫دیہاتی زمیندار گھرانے سے تعلق رکھتا تھا‬
‫میر پور میں انکی زمینیں تھیں فیصل کی‬
‫منگیتر‬

‫علیشاہ چاہتی تھی کہ اسکا شوہر ایسا ھو‬


‫جو اسکو دنیا جہاں کا سکھ دے سکے وہ‬
‫جب گاؤں میں اسکی بارات لیکر آۓ تو گاؤں‬
‫کو گوریاں اپنی انگلیاں اپنے دانتوں تلے‬
‫دباتے ھوۓ کہیں کس ماں نے شہزادے کو‬
‫‪ ‬جنم دیا ھے خیر‬
‫فیصل کو اکثر لوگ سیدا کھیڑا کہتے جو ہیر‬
‫اور رانجھا فلم میں آیا ھے‬

‫جسکا رول منور ظریف نے نبھایا تھا‪ ‬‬


‫مگرگاؤں‪  ‬کا یہ نوجوان فیصل دیکھنے تو‬
‫پورا مرد لگتا تھا مگر اسکی حرکتیں پاگلوں‬
‫جیسی ھی ھوتی تھیں اسی لئیے موٹے دماغ‬
‫والے فیصل علیشاہ کو ذرا بھی قبول نہیں‬
‫تھا اس نے صاف انکار کر دیا تھا کہ میں نے‬
‫اس پینڈو سے شادی نہیں کرنی‪  ‬مہرو ایک‬
‫نخریلی لڑکی جسے چھونا تو درکنار دیکھنے‬
‫والے کی انکھیں نوچ لیتی تھی جسے سب‬
‫اتھری کشمیری گھوڑی بھی کہتے تھے پھر‬
‫اس گھوڑی نے کیا جادو کیا کہ اس کا بھائی‬
‫اس کے اگے کٹھ پتلی بن گیا چلیں شروع‬
‫‪  ‬کرتے ھیں‬

‫بابا جی‪  ‬اج اے‪  ‬مہمان کیوں جمع ھوۓ ھیں‬


‫اج ساری دنیا ادھر‪  ‬ھی جمع ھوگئ اے خیر‬
‫تو ھے تو اس کا باپ رضوی صاحب بوال‬
‫فیصل بیٹا آپ کا شادی ھے کل‪  ‬آپکی کزن‬
‫علیشاہ کیساتھ اور یہ سب مہمان ھماری‬
‫خوشیوں میں شریک ھونے آۓ ھیں آپکو‬
‫شادی کے لئیے مبارکباد دینے آۓ ہیں دوسری‬
‫طرف مہرو نساء اپنےبھائی کو گلے لگا کر‬
‫بولی ہمارے رانجھا اب ہیر بیاہنے جارہے ھیں‬
‫فیصل کے باپ نے وضاحت پیش کرتے ھوۓ‬
‫کہا کہ میرا بچہ اب دولہا بنے گاتو فیصل‬
‫بوال ابا جی آپ جھوٹ بول رھے اے سب‬
‫میری شادی پر نہیں آۓ بلکہ یہ سب تو چکن‬
‫کھانے آۓ ھیں فیصل کی بات سن کر پنڈال‬
‫میں سب کھل کھال کر ہنس دئیے سب کا‬
‫ہنس ہنس کر برا حال ھوگیا اوئے توں چپ‬
‫کر کھوتے ایسی باتیں نہیں کر تے‪  ‬پتر یہ‬
‫سب ہمارے مہمان ھیں آپ ہر وقت اول فول‬
‫بکتے رہتے ھو تو‬

‫فیصل بوال ابو جی میں نے اپنے کانوں سے‪ ‬‬


‫سنا ھے آنٹی شکیلہ کہہ رھی تھی پتر ایک‬
‫بوٹی تو اور ڈال دو تاکہ پتہ تو لگے ھم‬
‫شادی پر ائے ھیں ہمارے سیدے کی شادی ھے‬
‫کونسا مذاق ھے‪  ‬ایک لیگ‪  ‬پیس تو میرا بھی‬
‫بنتا ھے‬

‫فیصل کی بات سن کر پنڈال میں ایک بار‬


‫پھر سے ہنسی کا طوفان آ گیا تھا اوۓ شاہد‬
‫بیٹا ادھر آؤ یار آپ اپنے دوست کو کچھ‬
‫عقل دیا کرو کیسے بھائی‪  ‬ھو آپ اسکے تو‬
‫شاہد بوال رضوی صاحب صبر سے کام لیں‬
‫بچہ گھبرا گیا ھے اور کچھ نہیں ھے وہ‬
‫جگتیں کرنا پسند کرتا ھے اور بڑا ہنس مکھ‬
‫ھے اپنا فیصل شاہد نے وضاحت دیتے ھوئے‬
‫کہا تو مہرو بولی بھیا تم جلدی سے تیار ھو‬
‫جاؤ مہندی کی رسم ھے ساری تیاریاں کرنی‬
‫ھیں‬
‫چل یار فیصل تیار ھوجا اج تیری مہندی کی‬
‫رات ھے اور کل تیری بارات لے کے جانی ھے‬
‫تو فیصل خوش ھوتے ھوۓ بوال اوہ یار‬
‫نوابزادے یہ تو بتاؤ کہ بھالعلیشاہ مان گئ‬
‫ھے وہ کرے گی مجھ سے شادی فیصل نے‬
‫خدشات ظاہرکرتے ھوۓ کہا تو اسکاباپ‬
‫سینہ چوڑا کرتے ھوۓ بوال کہ پتر وہ بھال‬
‫کیوں نہیں مانے گی وہ تیری خالہ زاد ھے‬
‫‪ ‬کونسا وہ کوئی غیر ھے‬

‫اچھا ابا جان یہ سچ ھے کہ اب وہ مان گئ‬


‫ھے اس نے پھر اپنی بات کو دہرایا وہ اپنی‬
‫جگہ سچا تھا کیوں گزشتہ کئ مہینوں سے‬
‫ان دونوں کی شادی کی باتیں گردش میں‬
‫تھیں اور بڑی مشکل سے ھوا تیرا میرا ساتھ‬
‫پیا واال حساب ھی تھا کیوں کہ بھلے ھی‬
‫علیشاہ سیدھی سادھی شریف لڑکی تھی‬
‫مگر اپنے درست ہمسفر کا چناؤ کرنے کا اسکو‬
‫‪ ‬پورا پورا حق تھا‬

‫اسے نے بڑی مزاحمت کی مگر دنیا کی کوئی‬


‫بھی طاقت خونی رشتوں پر غالب نہیں‬
‫آسکی جی ہاں یہاں بھی علیشاہ اور فیصل‬
‫کے بڑوں نے اپنا زور چالیا اور ان دونوں کے‬
‫بچپن کے رشتے کو حتمی شکل دینے کا‬
‫فیصلہ کردیا اور علیشاہ اپنے باپ کے بزرگوں‬
‫کا فیصلہ ماننے پر مجبور ھوگئ اور پھر‬
‫گاؤں میں ھرطرف چہ مگوئیاں ھونا شرو ع‬
‫ھوگئیں ڈھول بج گئے کہ اس اتوار کو‬
‫فیصل مرزا کی شادی بڑی دھوم دھام سے‬
‫منائی جاۓ گی‬

‫گاؤں کی مائی گالبو جسے دائی ماں کے نام‬


‫سے لوگ جانتے ھیں جا کر اپنے سب سے‬
‫پیاری سہیلی نوری سے کہنے لگی نوری نوری‬
‫کدھر ھو تم تو نوری بولی آجاؤ گالبو کیا‬
‫ھوا ھے خیر تو ھے تو نوری بولی جی خیر‬
‫ھی ھےنوری بختے‪  ‬یہ لڈو چوہدری رضوی‬
‫صاحب کے بیٹے فیصل کی شادی کے دن پکے‬
‫ھونے کی خوشی میں چوہدری رضوی‬
‫صاحب نے بھیجے ھیں‬
‫واہ گالبو اے کرشمہ کدوں ھویا اے‪  ‬نوری‬
‫نے حیران ھوتے ھوۓ پوچھا تو گالبو بولی‬
‫نورئیے یہ بات تو بچپن سے ھوگئ تھی‬
‫چوہدری صاحب نے علیشاہ کا رشتہ تو بچپن‬
‫میں قبول کرلیا تھا پر گالبو بات چوہدری‬
‫صاحب کی نہیں بات علیشاہ کی ھے وہ ایک‬
‫سمجھدار اور بڑی سگھڑ لڑکی ھے وہ بھال‬
‫اس سیدے کھیڑے سے کیوں شادی کرے گی‬

‫نوری کو فیصل پر شرو ع دن سے غصہ تھا‬


‫وہ نوری کو ھمیشہ کالی آپا کہتا تھا جس‬
‫سے نوری پریشان ھوجاتی اور پھر تنگ آ کر‬
‫اسے گالیاں نکالتی آج بھی اس خوشی کے‬
‫موقع پر نوری کو غصہ آ رہا تھا فیصل کی‬
‫اچھی قسمت پر تو اس نے کہا گالبو بھال اے‬
‫گل سچ اے‬

‫گالبو بولی باجی کونسی بات تو نوری بولی‬


‫علیشاہ کیسے مان گئ اس شادی پر کہاں‬
‫علیشاہ اور کہاں یہ نامراد فیصل تو گالبو‬
‫بولی فیصل کونسا کوئی الوارث ھے میر پور‬
‫میں اسکی دو مربع‪  ‬زمین ھے ایسا رشتہ پھر‬
‫کب ملنا ھے علیشاہ کو انکار کا تو سوال ہی‬
‫پیدا نہیں ھوتا مہرو فیصل کے کپڑے پریس‬
‫کر رہی تھی تب فیصل وہاں ایا جیسے کچھ‬
‫پوچھنا چاہ رہا ھو مہرو اپنے بھائی کی بے‬
‫چینی جلد ہی سمجھ گئی اور بولی جناب‬
‫کیا پریشانی ھے کس بات کو چھپایا جا رہا‬
‫ھے‬
‫فیصل بوال مہرو تم کسی کو بتاو گی تو‬
‫نہیں تو وہ اپنے کپڑے پریس کرتے ھوئے‬
‫بولی تم بتاو تو کیا پریشانی ھے بھائی بھال‬
‫میں نے اپ کی کوئی بات کسی کو بتائی ھے‬
‫تو وہ شرماتے ھوئے بوال مہرو یار مجھے‬
‫کچھ نہیں معلوم کہ شادی کے بعد ھوتا کیا‬
‫ھے دونوں بہن بھائیوں کی کیمسٹری بہت‬
‫ملتی جلتی تھی وہ بولی بھائی تم اپنے‬
‫کسی دوست سے پوچھ لو بھال میں کیا بتا‬
‫سکتی ھوں‬

‫گالبو بولی مجھے نہیں لگتا کہ علیشاہ اتنی‬


‫جلدی ہار مان جائیگی اور اس نکمے کی‬
‫ڈولی چڑھ جائیگی‬
‫ایک مکمل انٹرٹینمنٹ میری نئی کہانی جو‬
‫صرف وٹس ایپ پر حاصل کرسکیں گے‬
‫کیونکہ یہ کہانی اب مکمل کر دی گئی ھے‬
‫اسکے عالوہ‪  ‬اناڑی دولہا بھی چند دنوں بعد‬
‫اس گروپ میں شامل کی جائے گی انسیسٹ‬
‫کہانیوں کے پڑھنے والے اسکو وٹس ایپ پر‬
‫خرید کر پڑھ رہے ہیں‬

‫‪ ...‬جاری ہے‬

‫پڑھیں انسیسٹ کہانیاں سہاگن۔۔مالئیکہ کی‬


‫شرارتیں۔۔ہماکی شرارتیں۔۔ساگر کی بہنیں۔۔‬
‫پشتون گھوڑیاں۔۔شوہر کون۔۔بھٹکتے قدم۔۔‬
‫عاقب اور اسکی بہنیں۔۔بڑی حویلی کی بہو۔۔‬
‫اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‏‪#‬‬

‫‪  ‬صفحہ_‪#2‬‬

‫رائیٹر_نوابزادہ_شاہد‪#   ‬‬
‫‪ ‬‏‪#‬پہلی_بار_کامیڈی_اور_رومانس_کا_تڑکا_‬
‫ایک_ساتھ_منفرد_انداز‬

‫گالبو‏ آپ نے سچ سنا ھے بہن نہ صرف‬


‫علیشاہ مان گئ ھے بلکہ آج کل وہ شادی کی‬
‫ﺷﺎﭘﻨﮓ ﮐﺮﺗﯽ ﺑﮭﯽ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ دﯾﮑﮭﯽ ﮬﮯ ﻣﯿﮟ‬
‫ﻧﮯ آۓ ﮨﺎۓ اس ﮐﮯ ﻣﻌﺼﻮم ﺳﮯ ﭼﮩﺮے ﭘﺮ ﺟﻮ‬
‫ﺳﺮﺧﯽ ﺗﮭﯽ وہ دﯾﮑﮭﻨﮯ واﻟﯽ ﺗﮭﺎ ﮔﻼﺑﻮ ﻧﮯ‬
‫ﭼﮍاﺗﮯ ﮬﻮۓ اﺳﮯ ﮐﮩﺎ‪  ‬ﺗﻮ ﻧﻮری ﺟﻮ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﮬﯽ‬
‫ﮐﺮﺳﯽ ﭘﺮ ﺑﺮاﺟﻤﺎن ﺗﮭﯽ ﺑﻮﻟﯽ ﻧﻮری ﺗﻢ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ‬
‫ﺗﻌﺮﯾﻒ ﮐﮯ ﭘﻞ ﺑﺎﻧﺪھ دﯾﺘﯽ ﮬﻮ ﻓﯿﺼﻞ ﮐﯽ ﺑﮭﻼ‬
‫وہ ﮐﯿﻮں ﺧﻮش ﮬﻮﮔﺊ‬

‫ﮔﻼﺑﻮ ﺑﻮﻟﯽ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﺑﮭﯽ دو ﻣﺮﺑﻌﻮں ﮐﯽ ﻣﺎﻟﮏ‬


‫ﺑﻦ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ ﺟﺐ وہ ﻓﯿﺼﻞ ﮐﮯ ﻧﺎم‪  ‬ﮐﯿﺴﺎﺗﮫ‬
‫اﭘﻨﺎ ﻧﺎم ﺟﻮڑ ﻟﮯ ﮔﯽ وہ دوﻧﻮں ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮ رﮬﯽ‬
‫ﺗﮭﯿﮟ ﺗﺐ ﻧﻮری ﮐﯽ ﺑﮍی ﺑﯿﭩﯽ ﭼﺎۓ ﺑﻨﺎﮐﺮ ﻟﮯ‬
‫آﺋﯽ اور اﻧﮩﯿﮟ ﺑﻮﻟﯽ ﺗﻢ ﻟﻮگ ﺑﮭﻼ ﮐﯿﻮں‬
‫ﭘﺮﯾﺸﺎن ﮬﻮ رﮬﯽ ﮬﻮ ﺷﺎدی ﮐﺴﯽ ﮐﯽ اور آپ‬
‫ادﮬﺮ ﺑﺤﺚ و ﺗﮑﺮار ﮐﺮ رﮬﯽ ﮬﻮ ﭼﭗ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻟﮉو‬
‫کھاؤ مجھے تو موتی چور لڈو بہت پسند‬
‫ھیں شبو نے کہا شبو نوری کے بڑی بیٹی کا‬
‫نام جو اصل نام شبنم سے جانی جاتی تھی‬

‫شبنم ایک ناک چڑھی شادی شدہ لڑکی ھے‬


‫جو حال ھی میں اپنے کزن میاں صلیح‪ ‬‬
‫کیساتھ رشتہ ازواج سے منسلک ھوئی تھی‬
‫وہ بھی اپنی ماں اور آنٹی گالبو کیساتھ‬
‫شریک محفل ھوگئ اور شبو نے ایک کپ میں‬
‫چاۓ ڈال کر گالبو کو اور پھر اپنی ماں کو‬
‫دی اور پھر بولی اب مزہ آۓ گا جب چوہدری‬
‫کو اسکی بہو دن میں یہ کہہ کر تارے‬
‫دکھائیگی کے تیرا بیٹا تو دونوں طرف سے‬
‫نکما ھے شبو کی بات سن کر نوری تو ہنس‬
‫ہنس کر لوٹ پوٹ ھوگئ اسکے دل کی بات‬
‫جو کر دی شبو نے اب خوش ھونا تو بنتا ھی‬
‫‪ ‬تھا‬

‫دونوں ماں بیٹی کو فیصل کامذاق اڑاتے‬


‫ھوۓ دیکھ کرگالبو بولی دونوں طرف سے‬
‫بھال کیوں نکما ھوگا چوہدری فیصل آخر‬
‫کچھ نہ کچھ تو دے گا سہاگ رات کو اپنی‬
‫بیوی کو تو نوری بولی ہاں دیگا صرف دعا‬
‫اسکو باقی کچھ نہیں‬

‫گالبو بولی آپ کی بھول ھے آپ لوگوں کو‬


‫شاید یہ معلوم نہیں کہ مست لوگوں کا‬
‫سپارو اکثر بہت بڑا ھوتا ھے تو شبو اپنی‬
‫ماں کی طرف دیکھتے ھوۓ بولے ہا ماسی تم‬
‫نےشاید کسی مست کا چیک کیا ھوگا پھر تو‬
‫گالبو بولی کہ بات چیک کرنے کی نہیں ھے‬
‫مر جانی ایں ھم نے اکثر دیکھا ھے‬

‫آپ نے دیکھا ھوگا پر ہمیں لگتا ھے کہ یہ وہ‬


‫واال دیسی مست نہیں ھے بلکہ یہ چائنا کا‬
‫مست ھے اس کا سپاڑا چھوٹا ھی ھوگا لگالو‬
‫شرط اور وہ بھی علیشاہ کی سیل نہیں‬
‫توڑے گا کیونکہ اسمیں سب بھوال پن ھی تو‬
‫باقی اسکو کسی چیز کا پتۂ نہیں ھے شبو نے‬
‫کہا شبو مہرو نساء کی بڑی خاص سہیلی‬
‫ں‪‎‬تھی اور اسے فیصل میں دلچسپی‏‬
‫تو نہی ‪‎‬‬
‫تھی پر جانتی سب کچھ‪  ‬تھی‬
‫شبو بولی تیرا فیصل سہاگ رات کی علیشاہ‬
‫کی چوت مارے‪  ‬بغیر ہی سو جاۓ گا اور‬
‫صبح تک علیشاہ اپنے میکے واپس چلی جاۓ‬
‫گی اور شادی صرف ایک رات کی ھی ثابت‬
‫ھوگی شبو کا طنزیہ تبصرہ سن کر سب‬
‫ہنسنے لگیں گالبو مائی بولی کہ شبو کہیں‬
‫تمہارے ساتھ تو ایسا نہیں ھوا مطلب‬
‫کھودا پہاڑ اور نکال چوہا میاں صلیح آپکی‬
‫سیل توڑنے میں کامیاب ھو گیا تھا کہ نہیں‬
‫گالبو کی بات سن کر شبو بوکھال گئ اور‬
‫اسکی رنگت زرد پڑ گئ وہ خود کو سنبھالتے‬
‫ھوۓ بولی نہیں نہیں ماسی ایسا کچھ نہیں‬
‫اگر ھوتا تو آپ کو پھر بتا نہ دیتی نوری اس‬
‫طر ح کی باتوں سے بہت خوش رہتی تھی‬
‫اس لئیے وہ ماں بیٹی کا فاصلہ بہت کم‬
‫رکھتی تھی‬
‫شبو کو چھیڑتے ھوۓ وہ بولی کہ دیکھ شبو‬
‫جب بھی چوت اور لنڈ کی جنگ ھوتی‪  ‬ھے‬
‫پہلی شکست چوت کو ھی نصیب ھوتی ھے‪ ‬‬
‫راجے مہاراجے سالے غرق ھو گئے اس چوت‬
‫کا درشن پاکر پھر جاکر دو گھونٹ پانی‬
‫نکلتا ھے اور جب پانی نکل جاتا ھے تو پھر‬
‫تو کون اور میں کون‬

‫نوری بولی لو کرلو گل اس کی بات سن لو‬


‫اگرراجے اور مہاراجے غرق ھوۓ تو رانیاں‬
‫اور مہارانیاں بھی تو اپنی چوت کی آ گ‪ ‬‬
‫بجھانے کے لئیے محلوں کی عیش و عشرت‬
‫چھوڑ کر اپنی ٹانگیں غیر کے کندھوں پر‬
‫مجبور ھوئیں تالی اور چوت دونوں ہاتھوں‬
‫سے بجے تو ھی مزہ آتا ھے‬

‫جتنی مرضی اکڑ ھو لن کی چوت کے سامنے‬


‫پانی بن کرنکل جاتی ھے گالبو اور شبو کے‬
‫قہقہے جاری تھے کہ گالبو اٹھی اور بولی کہ‬
‫اچھا فیر میں جاتی ھوں بہت دیر ھوگئ اور‬
‫تم لوگ مہندی پر الزمی آنا چوہدری صاحب‬
‫نے آپکو انوائیٹ کیا ھے آجانا خوب ہال گال‬
‫کرینگے لینا دینا مقدر کی بات ھے‪  ‬تھوڑا‬
‫سیرو تفریح ھو جاۓ گی شبو بولی اچھا‬
‫خالہ ھم آجائیں گی فنگشن کب شرو ع ھوگا‬
‫بھال تو گالبو نے کہا فنگشن کو چھوڑو آپ‬
‫لوگ تو گھر کے بندے ھو آپ کو پہلے آنا‬
‫چاھیئے‬
‫تو شبو بولی خالہ ھم آ جائینگے ہم بھی تو‬
‫دیکھیں گے سیدا کھیڑا کتنا سوہنا لگتا ھے‬
‫ہاہاہاہا تو بھی نہ شبو کچھ بھی بول دیتی‬
‫ھے اسکا دوست شاہد اسکو پارلر لیکر گیا ھے‬
‫دیکھنا خوب سجے گا ہمارا چوہدری اچھا‬
‫جی جناب پارلر سے تیار ھونے گئے ھیں وہ تو‬
‫شاہد کا بھال ھو اس نے پارلر سے اسکی‬
‫اچھی سی لک بنانے کی سوچی ورنہ اس‬
‫کمینے اللچی انسان نے گھر میں ہی دو کلو‬
‫مہندی اور دو کلو بیسن منگوا کر لیپ کر لینا‬
‫تھا لے بہن نورئیے تمہاری شبو تو بہت باتیں‬
‫کرتی ھے ماسی یہ سب میں نے آپ سے ھی‬
‫سیکھا ھے نئیں بیٹا ہم سے یہ نئ نسل بہت آ‬
‫گے ھے ھم لوگ تو چراغ کی روشنی میں ھی‬
‫سہاگ رات مناتے تھے تو اوالد بھی حیا والی‬
‫پیدا ھوتی تھی۔۔‬

‫مگر اب تو پہلی رات ھی الئٹنگ کرکے چوت‪ ‬‬


‫اور لن کو کھل کر کھیلنے کا موقع دیا جاتا‬
‫ھے پھر اوال بھی تیرے جیسی پیدا ھوتی ھے‬
‫نوری ہنس کر بولی تو کدرے امانت چن دی‬
‫شاگر تے نئیں بڑی جگتیں مارتی ھو تو گالبو‬
‫بولی آپ لوگ تیاری کرو میں جاتی ھوں‬

‫گالبو کے جانے کے بعد شبنم سوچنے لگی ایک‬


‫بار فیصل کے دوست شاہد نے اسکا مما پکڑ‬
‫کر دبایا تھا جب وہ کنواری تھی تب اسے‬
‫بہت مزہ آیا تھا کہیں آج رات بھی شاہد اس‬
‫کے ساتھ شرارتیں نہ کرنے لگ جاۓ نیئں‬
‫میں اسکو چانس ‪‎ ‬نئیں بھالوہ کیوں کرے گا‬
‫ہی نہیں دونگی تو پھر وہ میرا کچھ نہیں‬
‫بگاڑ سکتا‬

‫جاری ہے‪ .....‬‬

‫ایک مکمل انٹرٹینمنٹ میری نئی کہانی جو‬


‫صرف وٹس ایپ پر حاصل کرسکیں گے‬
‫کیونکہ یہ کہانی اب مکمل کر دی گئی ھے‬
‫اسکے عالوہ‪  ‬اناڑی دولہا بھی چند دنوں بعد‬
‫اس گروپ میں شامل کی جائے گی انسیسٹ‬
‫کہانیوں کے پڑھنے والے اسکو وٹس ایپ پر‬
‫خرید کر پڑھ رہے ہیں‬
‫اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‏‪#‬‬

‫‪ ‬صفحہ_ ‪#3‬‬

‫رائیٹر_نوابزادہ_شاہد‪#   ‬‬
‫‪ ‬‏‪#‬پہلی_بار_کامیڈی_اور_رومانس_کا_تڑکا_‬
‫ایک_ساتھ_منفرد_انداز‬

‫اسکی کیا مجال کہ وہ مجھے چھیڑے گا اس‬


‫دن تو اس نے میرا مما شرارت سے دبایا تھا‬
‫وہ شرارتی بھی تو بہت ھے وہ اپنے آپ سے‬
‫باتیں کرتے ھوۓ بڑ بڑاتے ھوۓ مہندی کی‬
‫تیاری کرنے میں مصروف ھوگئ اس نے اپنی‬
‫سرخ رنگ کی فراک نکالی اسکے ساتھ چوڑی‬
‫دار پاجامہ نکاال اور نہانے چلی گئ کیوں‬
‫غروب آفتاب ھو چکا تھا بس تھوڑا سا ھی‬
‫تو وقت بچا تھا تو اس نے سوچا ابھی میک‬
‫‪ ‬اپ بھی تو کرنا ھے‬

‫اس نے واش روم جاکر کر اپنی سارے کپڑے‬


‫نکال دئیے اور شاور کھول دیا اور سردیوں‬
‫کے دن تھے سرد موسم میں شاور کے گرم‬
‫پانی کی بوندیں شبنم کے گورے بدن پر گرنے‬
‫لگیں تو شبو نے شیمپو کا ھلکا ھلکا سا‬
‫مساج کرتے ھوۓ اپنے گورے بدن سے گاؤں‬
‫کی میل اتارنا شرو ع کر دی‬
‫کچھ ھی دیر پہلے وہ ایک رومانٹک گفتگو کا‬
‫حصہ تھی گالبو اور نوری کی باتوں نے اسے‬
‫خوب گرم کردیا تھا اور اب رھی سہی کسر‬
‫شاور کے گرم پانی نے پوری کردی تھی وہ‬
‫اب اپنے بوبز سہالنے لگی تھی اسکو بوبز‬
‫سہالتے ھوۓ یاد آیا کہ میرا یہی مما تھا‬
‫جسے گلی میں شدید دھند کا فائدہ اٹھاتے‬
‫ھوۓ دبا دیا تھا دبایا تو بہت زور سے تھا پر‬
‫بہت درد ھوا تھا ہاۓ کیا احساس تھا اس‬
‫رات کو خواب میں اسکی چوت نے ڈھیر‬
‫سارا پانی چھوڑا تھا‬

‫وہ ایک ماہ پہلے ھوۓ اس واقعے کو یاد‬


‫کرکے بہت ہارنی ھورھی تھی اسکا ذکر اس‬
‫نے اپنی پیاری سہیلی مہرونساء سے بھی کیا‬
‫تھا مہرو نے اسے کہا تھا کہ شاہد تم سے‬
‫مذاق کرتا ھوگا مگر اس شرارت نے چنگاری‬
‫بن کر آ گ پکڑنا شرو ع کردی تو شبنم نے اپنا‬
‫ہاتھ تھوڑا نیچے اپنی گالبی چوت پر پھیرنا‬
‫شرو ع کر دیا اسے بہت مزا آنے لگا تھا شبنم‬
‫سے رہا نہ گیا اور اس نے اپنی مڈل فنگر‬
‫اپنی گالبی چوت میں ڈال کر فنگرنگ شرو ع‬
‫کردی اور اپنی فنگر کو اپنے شوہر میاں‬
‫صلیح کا لنڈ سمجھ کر اندر باہر کرنے لگی‬
‫اسکی بڑی وجہ شاید میاں صاحب کا باریک‬
‫لنڈ تھا جسے بڑی آسانی سے شبنم نے اپنی‬
‫مڈل فنگر سے تشبیہہ دے ڈالی خیرلن اور‬
‫فنگر کے کردار الگ الگ ھیں‪  ‬شبو کو اب مزہ‬
‫ں‪‎‬آنے لگا تھا‬
‫اس نے اپنی آنکھیں بند کرلی تھی ‪‎‬‬
‫اور اس حسین منظر کا مزہ لیتے ھوۓ شبنم‬
‫کی گالبی چوت کے چھوٹے چھوٹے لبوں نے‬
‫پانی چھوڑ دیا‪  ‬ایک دم اسکی ٹانگیں‬
‫خوشی سے کانپنے لگیں اور اسکی چوت نے‬
‫ڈھیر سارا پانی چھوڑ دیا تھا وہ اپنے بدن‬
‫کو ٹاول میں چھپاکر باہر نکلی اور پھر اپنی‬
‫ماں کو بولی امی جی جلدی سے فریش ھو‬
‫جاؤ پھر چلتے ھیں نوری اپنا سر ہاں میں‬
‫ہالتے ھوۓ اندر چلی گئ اور شبو سوچنے‬
‫لگی کہ آج کیا ھوا اسکے ساتھ‪  ‬جو اس نے‬
‫بڑی دیر بعد فنگرکا سہارا لے لیا ھے وہ اپنے‬
‫شہوت انگیز خیاالت سے نکلنے کی ناکام‬
‫کوشش کر رھی تھی‬

‫دوسری طرف فیصل اب پارلر سے واپس آ‬


‫گئیا تھا سب اسکے انتظار میں تھے وہ سفید‬
‫شلوار قمیض اور پیلے رنگ کا مفلر سا گلے‬
‫میں ڈال کر اپنی پراڈو سے باہر آیا تو ساتھ‬
‫اسکے اسکا دوست نوابزادہ شاہد بھی باہر‬
‫آیا دونوں نے خوب تیاری پکڑی تھی مہندی‬
‫کی رات کے حوالے سے ہاۓ ماں صدقے میرے‬
‫چاند کو نظر نہ لگے دیکھو بہت پیارا لگ رہا‬
‫ھے میرے دولہے راجہ آجاؤ اسکی ماں نے‬
‫صدقہ اتارتے ھوۓ کہا‪  ‬بڑی دیر لگادی شاہد‬
‫آپ لوگوں نے شہر جاکر تو شاہد بوال آنٹی‬
‫آپکا الڈلۂ شاپنگ کرنے چال گیا تھا پورا شہر‬
‫چھان مارا تب جا کر اسے شیروانی اور‬
‫کھسا پسند آیا چلو کوئی بات نہیں اکثر‬
‫‪ ‬ھوجاتا ھے‬
‫فیصل بوال نہیں ماں شاہد جھوٹ بول رہا‬
‫ھے ھم تو آ آہ ھم تو میرا مطلب میں تو‬
‫کبوتر کے پر کاٹنے لگ گیا تھا فیصل کی ماں‬
‫بولی کبوتر کہاں سے مال آپکو تو فیصل بوال‬
‫ماں جی آپ بھی کمال کرتی ھو آپکو شاید‬
‫پتہ نہیں ھے بیوٹی پارلر والے کبوتر کے پر‬
‫کریم لگا کرگرا دیتے ھیں اور پھر کبوتر ایک‬
‫دم صاف ھو جاتا ھے ہاہاہا ہا سب کزن‪ ‬‬
‫اسکی بات سن کر ہنسنے لگے تو فیصل کی‬
‫ماں سمجھ گئ کہ یہ کریم سے اپنے لنڈ کے‬
‫بال صاف کرکے آیا ھے وہ بولی چل تیری تو‬
‫بے شرما شرم تو کرلیاکرو موقع مناسبت‬
‫بھی تو دیکھ لیا کرو ہروقت اول فول بک‬
‫دیتا ھے‬
‫ماں مجھے کیا ضرورت ھے جھوٹ بولنے کی‬
‫میں کریم لگا کر بیٹھا رہا اور کرتا رہا اپنی‬
‫مرضی اب آ گیا ھوں نہ آنٹی چھوڑو آپ‬
‫آپکو معلوم تو ھے یہ ایسا ھی ھے مہرو بولی‬
‫بھائی چلو بیٹھو ادھر سٹیج پر اور اب ایک‬
‫لفظ بھی مت بولنا کیونکہ دولہا ان دنوں‬
‫بہت کم بولتا ھے کیو ں کم بولتا ھے مہرو‬
‫میں دولہا ھوں مردہ نہیں جو بات نہ کروں‬

‫لو کرلو بات یہ کرے گا اس گاؤں کا نام فخر‬


‫سے بلند نوری نے فیصل کی ماں کو گلے ملتے‬
‫ھوۓ کہا آپا اسکو دو تین دن چپ کروا کر‬
‫رکھو تب ھی ڈولی اس گھر آئیگی ورنہ یہ‬
‫نہ ھو ولیمے پر لوگ صرف چکن پکوڑا کھا کر‬
‫واپس چلے جائیں اور بولیں کہ سالمیاں‬
‫رھنے دو کونسا ولیمہ حالل ھوا ھے بس کیا‬
‫بتاؤں نورئیے ساڈی تے اے قسمت و چ اے‪ ‬‬
‫تم سناؤ کیسی ھو تو نوری بولی میں ٹیک‬
‫‪ ‬ھو آپا‬

‫شبو بولی کیا حال ھے بھائی جان تو فیصل‬


‫بوال بہت خوب آپ سناؤ میاں کدھر ھے‬
‫اسکو بھی لے آنا تھا تو وہ بولی بھائی آپکو‬
‫تو پتہ ھے کہ وہ میرپور جاب کرتے ہیں اس‬
‫لئیے نہیں آسکے ہم آ تو گئے ھیں تو سٹیج پر‬
‫فیصل کیساتھ اسکا دوست شاہد براجمان‬
‫تھا وہ بوال شبنم جی آپ کی آمد ہمارے لئیے‬
‫باعث مسرت ھے بیٹھ جائیے تو شبو بولی‬
‫شکریہ شاہد بھائی بہت شکریہ تو مہرو نساء‬
‫بولی بہت زیادہ خوشی تو نہیں ھوئی شاہد‬
‫سہیلی میری ھے اور استقبال آپ کر رھے ھو‬

‫اوہ ھو پہلے جناب پہلے آپ کرلو ھم بعد‪ ‬‬


‫میں کرلینگے شاہد کی دو معنی بات سن کر‬
‫‪.........‬مہرو نے کہا‬

‫جاری ہے‪. . . .‬‬

‫ایک مکمل انٹرٹینمنٹ میری نئی کہانی جو‬


‫صرف وٹس ایپ پر حاصل کرسکیں گے‬
‫کیونکہ یہ کہانی اب مکمل کر دی گئی ھے‬
‫اسکے عالوہ‪  ‬اناڑی دولہا بھی چند دنوں بعد‬
‫اس گروپ میں شامل کی جائے گی انسیسٹ‬
‫‪ ‬اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‪#‬‬

‫صفحہ_‪#4‬‬

‫‪ ‬‬

‫کیا بعد میں کروگے تم شاہد بوال آپ کی‬


‫خدمت کرینگے ھم نہیں کروائینگے آپ سے‬
‫خدمت کیوں ایسا کیا ھے جو آپ ڈر رھی‬
‫ھو‪  ‬شاہد تم میری دوست کو تنگ مت کرو‬
‫مہرو بولی تو‪  ‬آپ میری سہیلی کو بال وجہ‬
‫تنگ کر رھے ھو‬

‫میں اسے بھال کیوں تنگ کروں گانئیں آپ‬


‫تنگ کررھے ھو میں دیکھ رہی‪  ‬ھوں‪  ‬ادھر‬
‫سے کچھ نہیں ملنا آپ کو مہرو نے شبو کی‬
‫طرف دیکھتے ھوۓ کہا تو شاہد بوال کہ یہ‬
‫آپکو لگتا ھے مگر ھمیں مجھے تو یہ حسن‬
‫کانذرانہ ملتا نذر آ رہا ھے آپکو شاید اندازہ‬
‫نہیں ھے پانی اپنا راستہ خود بنالیتا ھے اب‬
‫راستے اتنے آسانی سے بھی نہیں بننے دوں‬
‫گی میں مہرو نے شاہد سے کہا تو شاہد بوال‬
‫جب وہ گرین سگنل دے چکی ھے تو تجھے‬
‫کیا اعتراض ھے‪  ‬میں اگر نہ لوں گا تو کوئی‬
‫اور لے لے گا شاہد نے شرارتی انداز سے مہرو‬
‫کو چھیڑا جو شبو اور شاہد کے آنکھ مٹکے‬
‫سے جل رھی تھی مہرو بولی میری سہیلی‬
‫ایسی نہیں ھے وہ تو تم اسے گھور رھے ھو‬
‫وہ تجھے کچھ نہیں دے گی چپ کرکے‬
‫فیصل کیساتھ بیٹھ جاؤ دیکھو سارے‬
‫میرے بے چارے معصوم بھائی کو تنگ کر‬
‫رھے ھیں کرنے دو مو ج مستی ان کو شاہد‬
‫نے مہرو کی گانڈ پر چٹکی کاٹتے ھوۓ بوال‬
‫تو غصے سے مہرو نے اپنی ہیل والی جوتی‬
‫سے شاہد کا پاؤں دبا دیا تو درد کے مارے‬
‫شاہد لڑکھڑا گیا اور سامنے سٹیج پر فیصل‬
‫کیساتھ بیٹھ گیا شبو اپنی ماں کیساتھ‬
‫فیصل‪  ‬کو مہندی لگانے کی رسم ادا کر رھی‬
‫تھی فیصل اکیال مہمانوں کی توجہ کا مرکز‬
‫ں ‪‎ ‬بنا ھوا تھا سب لوگ‬
‫اسکے ساتھ شرارتی ‪‎‬‬
‫کر رھے تھے‬
‫شبو نے فیصل کے ہاتھ پر مہندی لگائی اور‬
‫سامنے پڑے ھوۓ رس گلے کو پورے کا پورا‬
‫فیصل کے منہ میں ڈال دیا مجبوری میں‬
‫فیصل کو سارا رس گلہ سارا نگلنا پڑا تو‬
‫شاہد نے شبو سے کہا ھمارے دولہے بھائی کو‬
‫تنگ مت کریں بے چارہ زیادہ میٹھا برداشت‬
‫نہیں کرتا آپکی مٹھاس جدھر ضرورت ھے‬
‫ادھر تو بڑھتی نہیں ایک ایسی شرارت‬
‫ہمارے ساتھ بھی کرو نہ کب سے منتظر ھوں‬
‫میں مہرو فیصل سے نوٹ وار کر سامنے پڑے‬
‫باکس میں ڈال رھی تھی پر اسکی نظریں‬
‫شاہد کیساتھ چار ھو چکی تھیں وہ بھی‬
‫اپنی نظروں سے گھائل کر رھی تھی شاہد‬
‫کو اس نے مہندی کی رسم ادا کرکے اٹھنے‬
‫سے پہلے ایک برفی کا ٹکڑا اٹھایا اور شاہد‬
‫کے منہ کو لگا دیا‪  ‬جسے شاہد نے فورا نگل‬
‫لیا شبو کی اس شرارت سے ہال میں موجود‬
‫لڑکے اور لڑکیوں نے تالیاں بجا دیں مہرو نے‬
‫ایک دم شاہد کی طرف غصے سے دیکھا تو‬
‫اس نے مہرو کو آنکھ مار دی اور چپ رہنے‬
‫کا اشارہ کیا مہرو نے منہ پر ہاتھ پھیرتے‬
‫ھوۓ اپنی ناک کو سکیڑ لیا تھا جیسے شاہد‬
‫سے کہہ رہا ھو کہ میرے ھوتے آج رات تیرے‬
‫قسمت میں شبو جیسی شو خ چینچل لڑکی‬
‫کی چوت مارنے کا چانس ناممکن سی بات‬
‫ھے‬

‫مہرو نے آسمان کی طرف تارے گنتے ھوۓ‬


‫شاہد سے اشارے سے کہا کہ اگر تم نوابزادہ‬
‫شاہد ھو تو میں بھی مہرو نساء ھوں آج‬
‫رات کا سین بنالے واال کوئی کام نہیں ھونے‬
‫دوں گی مگر مہندی لگاتے ھوۓ نوری نے ان‬
‫‪‎‎‬دونوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی‪-‬‏‬

‫نوری نے فیصل کے ہاتھ پر مہندی لگائی اور‬


‫بولی کہ پتر پہلے سال ہی آپکو اوالد جیسی‬
‫نعمت نصیب ھو اچھا ماں نورئیے بڑی‬
‫دعائیں دے رھی ھو خاندان آپ کا مراسی تو‬
‫نہیں فیصل نے نوری سے کہا تو وہ ہنستے‬
‫ھوۓ لوٹ پوٹ ھوگئ فیصل بھی مسکرا رہا‬
‫تھا تو نوری نے کافی ساری مہندی فیصل کے‬
‫سر پر لگا دی تو سارے کزن ہنسنے لگے تو‬
‫فیصل نے بھی کہا نوری مائی بوری آج کی‬
‫رات تو شرارتیں نہ کریں‬
‫اج صرف مجھے دعائیں دے تو نوری بولی‬
‫چلو تم ھی بتاؤ کہ میں تمہیں کیا دعا دوں‬
‫تو بے چارہ فیصل سو چ میں پڑ گیا فیصل‬
‫کی ماں بولی بہن نوری ہمارے چودھری‬
‫صاحب کو تنگ مت کرو بے چارہ پہلے ھی‬
‫نروس بیٹھا ھے کہیں گیا نئیں نہ اور نہ ھی‬
‫اتنے سارے مہمانوں کو فیس کیا اس نے‪  ‬تو‬
‫نہ تنگ کرو اس کو ابھی تو میرے بیٹے نے‬
‫سہرا باندھنا ھے اور پھر اسکی بارات جانی‬
‫ھے اور پھر وہاں اسکی سالیاں بھی ھونگی‬
‫وہ بھی شرارتیں کریں گے اس کے ساتھ‪ ‬‬
‫فیصل کی ماں نے‪  ‬وضاحت کیساتھ کہا تو‬
‫وہ حیران ھوا اور بوال امی جی میں نے بھال‬
‫سالیوں کا کیا بگاڑا ھے وہ کیوں تنگ کرینگی‬
‫تو شبو‪  ‬جو کب سے خاموش کھڑی تھی‬
‫بولی کہ فیصل بھائی آپ کیا سالیاں آپکے‬
‫جوتے بھی چرائینگی سنبھل کر رہنا آپ‏‬

‫فیصل بوال اب بندہ کدھر جاۓ بہن شبو‬


‫چرا لیتے ھیں اور گھ ‪‎‬ر‪‎‬مسجد سے سالے جوتے‬
‫میں سالیاں ہاہاہاہا ساری مہمان فیصل کی‬
‫بے بسی پر ہنس رھے تھے ان کو مزہ آتا تھا‬
‫چھوٹے چوہدری کیساتھ چھیڑ چھاڑ‪  ‬کر نے‬
‫سے اسی لئیے سارے باری باری فیصل‬
‫چودھری کو مہندی لگا رھے تھے اور اپنے‬
‫اپنے طرف سے فیصل میاں کو ستا رھے تھے‬
‫زیادہ تعداد لڑکیوں کی تھی جو‪  ‬چودھری‬
‫صاحب کی بھانجیاں اور بھتیجیاں تھیں‬
‫مذاق مڈاق میں ڈبہ مٹھائی کا فیصل میاں‬
‫کو کھال دیا تھا وہ بے چارہ مجبور تھا کچھ‬
‫تو وہ سیدھا سادھا تھا اور دوسرا اسکی‬
‫ماں نے اسے یہ کہہ کر چپ کروادیا تھا کہ‬
‫شادی کی رسموں میں دولہے میاں زیادہ‬
‫نہیں بولتے بس مطلب کی بات کرتے ھیں‬
‫کہیں اول فول بک دیا تو علیشاہ کے گھر‬
‫والے اس رشتے سے یہ کہہ کر انکار کر دینگے‬
‫کہ لڑکا تو پاگل ھے ھم لوگ اپنی بچی کی‬
‫زندگی تباہ نہیں کرسکتے‬

‫اب رہ گئ تھی فیصل کی کزن مریم اس نے‬


‫فیصل کے کان میں کہا کہ بھائی مہندی تو‬
‫لگالی ھے اب دولہے میاں ہمیں ڈانس کرکے‬
‫دکھائینگے تو فیصل بوال آپی تم تو ڈانس‬
‫کرلیتی ھو جبکہ میں کیسے کروں مجھے آتا‬
‫نہیں ھے‬

‫جاری ہے‪.......‬‬


‫ایک مکمل انٹرٹینمنٹ میری نئی کہانی جو‬


‫صرف وٹس ایپ پر حاصل کرسکیں گے‬
‫کیونکہ یہ کہانی اب مکمل کر دی گئی ھے‬
‫اسکے عالوہ‪  ‬اناڑی دولہا بھی چند دنوں بعد‬
‫اس گروپ میں شامل کی جائے گی انسیسٹ‬
‫کہانیوں کے پڑھنے والے اسکو وٹس ایپ پر‬
‫خرید کر پڑھ رہے ہیں‬
‫‪ ‬اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‪#‬‬

‫صفحہ_‪#5‬‬

‫‪ ‬‬

‫مجھے تو ڈانس نہیں آتا بہن آپ کرو ڈانس‬


‫مہرو نے کہا شبو تم آج کل شاہد سے بہت‬
‫فرینک ھورھی ھو خیریت تو ھے تو شبو نے‬
‫کہا یار مہرو‪  ‬خوشی کا موقع ھے تھوڑا ہلہ‬
‫گلہ کرنا ہمارا حق ھے پھر ایسے لمحات بہت‬
‫کم میسر ھوتے ھیں تو مہرو نے چٹکی کاٹتے‬
‫ھوۓ کہا شبو کی بچی وہ بھی تم پر الئن‬
‫مارتا ھے تم دونوں کو آگ لگی ھوئی ھے یہ‬
‫سلسلہ اب آگے بڑھے گا یا صرف نظریں ھی‬
‫ملیں گی مہرو نے سوالیہ انداز سے اس سے‬
‫پوچھا تو شبو نے کہا مہرو تم بس صبر کرو‪ ‬‬
‫ایسا جادو چالؤں گی کہ نواب زادہ خود‬
‫اسے چودنے کی آفرکریگا اور جلد وہ شاہد‬
‫کے نیچے لیٹ جائیگی جوائنٹ فیمیلی سسٹم‬
‫تھا اسی لئیے فیصل اور علیشاہ کی مہندی‬
‫کی رات رسم حنا‪  ‬ہال میں دونوںاکٹھے‬
‫بیٹھے تھے‬
‫مہندی میں باہرکا ناچ گانا ختم ھو چکا تھا‬
‫اور چندلڑکیاں لڑکے ڈانس کر رھے تھے اور‬
‫علیشاہ اور فیصل کے ہاتھوں پر مہندی لگا‬
‫رھے تھے تب مہرو کی کزن ندا نے کہا مہندی‬
‫تب سجے گی جب ناچے دولہے کی بہن‪ ‬‬
‫ساری لڑکیاں مہرو کو بولیں کہ تم بھی‬
‫ڈانس کرو آج تھوڑا سا وہ بولی مجھے بہت‬
‫شرم آتی ھے‬

‫شادی کا مو قع تھا‪ ........‬اسی لئیے‪  ‬کچھ‬


‫پرتکلف انتظامات تھے جسمیں سختی کی‬
‫گنجائش بہت کم تھی اسی لئیے علیشاہ نے‬
‫اور مہرو نے ڈانس کیا شاہد بھی فیصل‬
‫کیساتھ بیٹھا تھا فیصل اسے اپنا بھائی ہی‬
‫سمجھتا تھا اسی لئیے ہروقت اسے اپنے‬
‫ساتھ ساتھ رکھتا تھا اسے‬

‫مہرو نے علیشاہ کو خوب‪  ‬ٹھمکے لگانے پر‬


‫مجبور کر دیا پھر اسکی کی کزن ندا اور‬
‫مہرو کا کزن ارشد گانے پر ڈانس کرنے لگے‬
‫سارے بزرگ سو چکے تھے اور دوسری طرف‬
‫ندا اور ارشد سرائیکی‪ .....‬سونگ ‪......‬ونگاں‬
‫‪‎‎‬لے ‪.......‬بھاویں لے چھلے سوہنا‪ ........‬ڈھول‬
‫چل ‪.......‬دونویں چلئیے‪ .........‬سنارے‪........‬‬
‫کول‪ ......‬پر ڈانس کرنے لگے گانا ختم ھوا تو‬
‫ارشد نے شاہد کا بازو پکڑا اور پنڈال میں لے‬
‫آیا اور ندا نے مہرو کو کپل ڈانس آفرکرکے‬
‫خود تھک کر بیٹھ گئے‬
‫سانولی سلونی بھارتی اداکارہ‪  ‬نیرو باجوہ‬
‫کی شکل و صورت والی اتھری گھوڑی مہرو‬
‫جب شاھد کیساتھ ڈانس پر آئی تو ڈی جے‬
‫نے مہوش حیات کی مووی کا گانا پلے کر‬
‫دیا‪ .......‬مجھے‪ ......‬کہتے‪ .....‬ھیں‪ ........‬بلی‪ ‬‬
‫شاہد اور مناہل ڈانس کر رھے تھے انکا پہال‬
‫موقع تھا اتنا قریب آنے کا اور ایک دوسرے‬
‫‪ ‬کو چھونے کا‬

‫مجھے کہتے ھیں بلی کافی فاسٹ سونگ تھا‬


‫دونوں ڈانس کے دوران ایک دوسرے کو بہت‬
‫نرمی‪  ‬سے چھورھے تھے ڈانس کے ایک سین‬
‫میں مناہل نے اپنی کمر شاہد کے سینے سے لگا‬
‫دی اور شاہد کو اپنے نرم چوتڑ کا لمس مال‬
‫تو اسکے دل کی دھڑکنیں بیتاب ھونا شرو ع‬
‫ھو گئیں‬

‫ساری لڑکیاں دونوں کا ڈانس انجواۓ کرنے‬


‫لگیں ندا اور ارشد بھی سیٹیاں مار مار کر‬
‫شاباش دے رھے تھے پھر شاہد نے شبو عرف‬
‫شبنم کیساتھ‪  ‬بھی فلم سوہا ‪......‬جوڑا کا‬
‫ٹائٹل سونگ‪ .......‬چٹی‪ .......‬وے‪ .......‬چٹی‬
‫‪........‬وے‪ .....‬چن‪ ....‬دی‪ ...‬میں‪ ....‬مٹی ‪....‬وے‬
‫‪ ....‬پر ڈانس کیا ڈانس کے دوران دونوں کی‬
‫پرائیویٹ پارٹس ایک دوسرے سے مس ھو‬
‫نے لگے‪  ‬سارے پنڈال میں رنگ جم چکا تھا ہر‬
‫طرف تالیوں کا شور تھا فیصل بھی علیشاہ‬
‫کیساتھ سٹیج پر بیٹھا شبو اور نواب زادہ‬
‫شاہد کا ڈانس انجو اۓ کررہے تھے‬
‫دوران ڈانس مہرو نے محسوس کیا کہ شاہد‬
‫اور شبو آپس میں جڑ سے جاتے ھیں اور ایک‬
‫دوسرے پر زیادہ ھی مہربان ھوتے جارھے‬
‫ھیں تو مہرو کو نواب شاہد سے جلن سی‬
‫ھونے لگی‬

‫ڈانس پر اب کسی اورکی باری تھی مہرو نے‬


‫شاہد سے پوچھا کہ وہ لڑکی کون تھی‬
‫نوابزادے تو اس نے کہا کون لڑکی وہ بولی‬
‫جو سٹور میں لیٹی تھی تو اس نے کہا وہ‬
‫لڑکی کرسچن تھی جسیکا نام تھا اس کا‬
‫کیوں آپ کو اچھی نہیں لگی‬
‫پھر شبو _بولی کہ وہ کیا خاص تھی جو ھم‬
‫تمہیں نظر نہ آۓ اور نواب زادہ نے کہا آپ‬
‫میرے دوست کی بہن ھو مطلب میری بھی‬
‫‪ ‬بہن تو شبو بولی مجھے کہتے ھیں بلی‬

‫نواب زادہ نے کہا مطلب تو شبو بولی بلی‬


‫گوشت کھاتی ھے جب اسے بھوک لگتی ھے‪ ‬‬
‫بہن بھائی بعد کی بات ھےتو مجھے بھی اب‬
‫بھوک لگی ھے شبو نوابزادہ کو آفر کر چکی‬
‫تھی جسے اس نے مذاق سمجھ کر اڑا دیا‬
‫کیونکہ مہرو کب سے کباب میں ہڈی بنی‬
‫ھوئی تھی‬
‫شاہد نے شبو کو اشارے سے کہا کہ مہرو سے‬
‫الگ ھوکرکچھ پروگرام فکس کرسکتی ھو تو‬
‫ٹھیک ھے‪  ‬مستی سے شبو نے اپنی آنکھیں‬
‫پوری طرح بند کرلیں جو اس بات کا ثبوت‬
‫تھا کہ شبو نے آج پورا بندوبست کر رکھا ھے‬

‫شبو کی ماں نے کہا شبو اب جانا نہیں گھر‬


‫تو شبو نے کہا امی جان میں صبح کو آؤنگی‬
‫آپ اکیلی چلی جاؤ تو اسکی ماں نے کہا‬
‫نہیں بیٹا رات کافی ھوگئ ھے اب ھمیں چلنا‬
‫چاھئیے تو مہرو بولی کہ خالہ جان آپ اسکو‬
‫آج رات ادھر ھی چھوڑ دو‪  ‬ہم نے ابھی بہت‬
‫سارا کام کرنا ھے آپ چلی جائیں تو نوری‬
‫بولی کہ اچھا مہرو بیٹا جیسے آپکی مرضی‬
‫‪ ‬پھر وہ اپنے منزل کی طرف روانہ ھوگئ‬
‫مہرو کی ماں نے اسے آواز دی کہ بیٹا مہرو‬
‫ذرا ادھر آؤ مہمانوں کے سونے کا بندوبست‬
‫کر دیں تو مہرو چلی گئ تب شبو کے پاس‬
‫شاہد آ گیا وہ کب سے‪  ‬اسی مو قع کی تاک‬
‫میں تھا‪  ‬مہرو نے جاتے وقت دیکھ لیا تھا کہ‬
‫شاہد اور شبو ایک دوسرے کی قربت حاصل‬
‫کرنا چاھتے ھیں شاہد نے شبو کو کہا جناب‬
‫لفٹ ھی نہیں کس بات کی ناراضگی ھے‬
‫مجھ سے تو شبو شرماتے ھوۓ بولی اسی‬
‫دن کی ناراضگی ھے کس دن کی میری جان‬
‫تو شبو پھر شرارت سے بولی جس دن گلی‬
‫میں دھند تھی تب تم نے کیا شرارت کی‬
‫تھی یادکرو شاہد مسکراتے ھوۓ شبو کے‬
‫کان کے پاس اپنے ھونٹ ال کر بوال جان آپ‬
‫چیزھی ایسی ھو کہ بار بار آپکے ساتھ‬
‫شرارت کرنے کو دل کرتا ھے‬

‫ایسی کیا بات ھے مجھ میں شبو نے شاہد کا‬


‫دل لبھاتے ھوۓ کہا تو بوال جان آپ کا جلوہ‬
‫ایک نظر اگر آج عنائیت ھو تو پیار آج‬
‫‪......‬گہرائیوں میں اتر جاۓ‬

‫‪‎‎‬جاری ہے ‪ ....‬‏‬

‫ایک مکمل انٹرٹینمنٹ میری نئی کہانی جو‬


‫صرف وٹس ایپ پر حاصل کرسکیں گے‬
‫کیونکہ یہ کہانی اب مکمل کر دی گئی ھے‬
‫اسکے عالوہ‪  ‬اناڑی دولہا بھی چند دنوں بعد‬
‫‪#‬اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن

‫‪#‬صفحہ_‪
6‬‬
‫‪#‬رائیٹر_نواب_شاہد‬

‫ہلکی ہلکی سرد‪  ‬ھوا چل رھی تھی مہرو‬


‫اپنی ماں کیساتھ بستر لگانے میں مصروف‬
‫تھی اور شبنم نے اس مو قعے کا فائدہ اٹھایا‬
‫اور شاہد کے پاس جا کر کرسی پر بیٹھ گئ‬
‫اور شاہد سے بولی کیا بات ھے جب سے میں‬
‫آئی ھو تم مجھ پرالئن مار رھے ھو خیر تو‬
‫ھے؟‬
‫شاہد نے شبو کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر‬
‫کہا کہ حسن سامنے ھو تو اس کو دیکھنے‬
‫سے اور نکھر جاتا ھے آپ جیسی پری کو‬
‫آپکی ماں نے میاں جیسے بوڑھے کیساتھ بیاہ‬
‫دیا بہت زیادتی کی میرے حساب سے شاہد‬
‫نے اپنی طرف سے ایک نفسیاتی حربہ آزمایا‬
‫جس کا مقصد شبو کو اپنے ساتھ سیکس‬
‫کرنے پر اکسانا تھا‬

‫شبو بولی تو جناب کو میرا میاں پسند نہیں‬


‫ھے تو شاہد نے کہا وہ کیا جانے آپ جیسی‬
‫کشمیری مٹیار کو کیسے پیار کیا جاتا ھے تو‬
‫وہ شرما کر بولی مطلب آپ سکھائیں گے کہ‬
‫پیار کیسے کیا جاتا ھے تو شاہد بوال کہ اگر‬
‫آپکو اعتراض نہ ھو تو میں ایک دلچسپ‬
‫کھیل سے آپ کی تھکاوٹ دور کرسکتا ھوں‬
‫جو آپکے چہرے پر موجود ھے شبو بولی میں‬
‫ایک پردے دار گھر کی لڑکی ھوں اور اپنی‬
‫عزت کسی غیر مرد سے نہیں گنوا سکتی‬

‫آپ شاید غلط جگہ ہاتھ مار بیٹھے تو شاہد‬


‫نے سوچا بہت تیز ھے اسکو قابو کرنا بہت‬
‫مشکل ھوگا تو اس نے آخری تیر چھوڑا شاہد‬
‫بوال دیکھو شبو میں سمجھتا ھوں آپ پردے‬
‫دار ھوں مگر ہم پردے میں ھی کرینگے کیا‬
‫مطلب تمہارا شبو چونک کر بولی تو شاہد‬
‫بوال کہ ھم یہ سب اندھیرے میں کرینگے تو‬
‫پھر آپکا پردہ بھی رہ جاۓ گا اور ھم اپنی‬
‫پیاس بھی بجھالیں گے دیکھو میں سامنے‬
‫اس سٹور میں جارہا ھوں وہاں اندھیرا ھے‬
‫آپ بھی وہاں آجاؤ اور ھم پیار کرینگے پر‬
‫شاہد میں نہیں کر سکتی تجھے بہت پیار‬
‫کروں گا جان ڈرو مت اور جلدی کرو شاہد‬
‫اسے کہہ کر اٹھ کھڑا ھوا تو شبو ادھر ادھر‬
‫دیکھنے لگی اور‬

‫اسے سارے لوگ اپنے کام میں مگن نظر آۓ‬


‫اور وہ سوچ میں پڑ گئ کہ جاؤں کہ نہ‬
‫جاؤں پھر اسکی چوت نے خوشی کے آنسو‬
‫بہا کر اپنی رضا مندی کا اعالن کردیا تو وہ‬
‫سٹور کے اندھیرے میں داخل ھوگئ اور‬
‫شاہد کو بولی تم بہت ضدی ھو مجھے غلط‬
‫کام پر اکسایا تو شاہد نے اسکے ھونٹوں پر‬
‫اپنے ھونٹ رکھ دئیے اور اسے چپ کروا دیا‬

‫وہ بولی جلدی کرو شاہد کوئی آ نہ جاۓ‬


‫مہرو میرے پیچھے آئیگی الزمی‪.‬آنکھیں بند‬
‫کی ُہ وئ ِت ھیں اور تیز تیز ِس سکیاں لے رہی‬
‫تھی جو کہ ُر وم کا ماحول سیکسی کررہی‬
‫ِت ھیں ُا فففففف

‫شاہد نے کافی دیر اسطرح سے ‪.‬شبو کو‬
‫مست کیا اور اب شاہد نے ‪.‬شبوکے نپلز کو‬
‫چھوڑ کر ‪.‬شبو کو اتارا اور اپنے پیروں کے‬
‫درمیان زمین پر ِب ٹھال ِد یا‬

‫شبوشاہد کی پینٹ کی ِز پ کھولنے لگی"



‫اوووو ‪ WOW‬زبردست یہ وہ الفاظ تھے جو‬
‫شاہد کا ‪ِ +8‬ا نچ لمبا اور موٹا توانا لنڈ دیکھ‬
‫کر ‪.‬شبو کے ُم ونہہ سے ِن کلے

‫‪.‬شبو للچائ نظروں سے شاہد کے لنڈ کو دیکھ‬
‫رہی ِت ھی اور اب اپنی زبان شاہد کے لنڈ پر‬
‫پھیر رہی ِت ھی ‪.‬شبو لنڈ بڑی مہارت سے‬
‫ُچ وستی ہے)

‫اب شبو نے شاہد کے لنڈ کا ُکچھ ِح ّص ہ ٹوپی‬
‫سمیت ُم ونہہ میں لیکر ُچ وسنا شروع کردیا

‫شاہد اب ‪.‬شبو کے سر کو نیچے کی طرف‬
‫کررہا تھا

‫ُکچھ ہی دیر میں ‪.‬شبوشاہد کا لنڈ جڑ تک‬
‫ُپ ورا ُم ونہہ میں لے ُچ کی ِت ھی اور سلو سلو‬
‫اندر باہر کررہی ِت ھی اب شاہد آنکھیں بند‬
‫کرکےمزہ کررہا تھا‬

‫شبو بڑی مہارت سے شاہد کا لنڈ ُچ وس رہی‬


‫ِت ھی اور‪.‬شاہد کی تیز سیکس آوازیں جاری‬
‫ِت ھی‬

‫‪.‬شبودیر تک شاہد کا لنڈ اس ہی طرح‬


‫ُچ وستی رہی

‫اب‪  ‬شاہد کا لنڈ اپنے ُم ونہہ سے ِن کال لیا اور‬
‫نشہ کے سے لہجہ میں بولی شاہد صاحب بیڈ‬
‫روم میں چلیں شاہد گردن ِہ ال کر کھڑا ہو گیا‬
‫اور دونوں بیڈ روم کی طرف چل ِد ئیے

‫میں ِب ھی تیزی سے کنکٹنگ روم میں ُگھس‬
‫گیا اور ِک ھڑکی کے ساتھ ُکرسی پر بیٹھکر‬
‫پردے کی اوٹ سے دیکھنے لگا بیڈ ُر وم میں‬
‫پہنچ کر ‪.‬شاہد لوئر ُا تار کر بیڈ کے کارنر پر‬
‫بیٹھ گئ اور شاہد ِب ھی اپنے کپڑے ُا تارنے لگا‬

‫اب دونوں ُم کمل ننگے تھے اور شاہد نے ‪.‬شاہد‬


‫کو وہیں بیڈ پر ِل ٹال کر ‪.‬شاہدشبوکی ٹانگیں‬
‫پھیال کر اوپر کیں اور‪ُ  ‬چ وت چاٹنے لگا‬
‫‪.‬شبوکی میِٹ ھی میٹھی اور تیز ِس سکیاں‬
‫کمرے میں ُس نائ دینے لگیں اور‪.‬شبو اپنا سر‬
‫دائیں بائیں ِہ النے لگی

‫شاہد اپنی زبان ‪.‬شبو کی ُچ وت میں ُگھسیڑ‬
‫کر اندر باہر کرتے ُہ وئے ُگھما رہا تھا اور‬
‫‪.‬شبوکی سسکیاں مزید تیز تر ہوتی گئیں‬
‫شاہد ُکچھ دیر ِا س ہی طرح ‪.‬شبوکی ُچ وت‬
‫چاٹتا رہا ُگڑیا مسمساتے ُہ وئے‪.‬شبو نشیلی‬
‫آواز میں للچائ ُہ وئ آواز میں بولی شاہد‬
‫صاحب اب ڈالدیں پلیز ڈالدیں برداشت نہیں‬
‫ہو رہا

‫شاہد نے ُچ وت چاٹنا بند کی اور ‪.‬شبوکو بیڈ‬
‫پر سیدھا ِل ٹال کر ‪.‬شبو کے ُچ وتڑوں کے نیچے‬
‫دو تِک یے رکھکر ‪.‬شبو کی ٹانگیں سیدھی‬
‫کرکے پھیالئیں اور ُخ ود ‪.‬شبو کی ٹانگوں کے‬
‫درمیان بیٹھکر اپنے لنڈ کی ٹوپی ‪.‬شبو کی‬
‫ُچ وت پر سیٹ کرنے لگا ‪.‬شبو نے آنکھیں بند‬
‫کی ُہ وئ ِت ھیں اور دونوں ہاتھوں کی ُم ِٹ ھی‬
‫بنا کر سختی سے چادر پکڑی ُہ وئ ِت ھی‬

‫شبو کے چہرے پر خوف سا تھا اور شبو ہلکے‬


‫ہلکے کانپ رہی ِت ھی ‪.‬شبو کانپتی آواز میں‬
‫بولی شاہد صاحب بہت بڑا ہے ڈر لگ رہا ہے‬
‫پلیز آرام سے ڈالنا شاہد۔۔۔۔۔ نے اچھا کہتے‬
‫ُہ وئے لنڈ کی ٹوپی شبوکی ُچ وت پر ِف ٹ کی‬
‫اور شبو کو اپنی ٹانگیں بند کرنے کا کہا ‪.‬شبو‬
‫نے اپنی ٹانگیں قینچی ڈالکر بند کرلیں اور‬
‫شاہد نے اپنی ٹانگوں کی قینچی سے شبو‬
‫ٹانگوں ٹائٹ ہولڈ کرکے اپنے ہاتھ پیچھے سے‬
‫لیجا کر ‪.‬شبو کے کندھوں کو مضُب وطی سے‬
‫پکڑ لیا اب شاہد دباؤ بڑھانے لگا"‬

‫اب شاہد نے دباؤ مزید بڑھایا اور آہہہہہہ‬


‫ُا وئییییییییییییی مار ِد یا شاہد صاحب‬
‫ُر وم‪.‬شبو ُگڑیا کی تیز اور طویل چیخ سے‬
‫ُگونج ُا ٹھا کیونکہ شاہد نے ایک زوردار دھّکے‬
‫سے پورا لنڈ ‪.‬شبو کی ُچ وت میں ُگھسیڑ دیا‬
‫تھا ‪
Ufffffffff‬‬
‫شاہد نے مزید تین چار ایسے ہی زوردار دھّکے‬
‫لگائے ‪.‬شبو مچلتے ُہ وئے ُخ ود کو شاہد کی‬
‫ُگرفت سے ُچ ھڑانے لگی لیکن شاہد نے اپنی‬
‫گرفت اور مضُب وط کردی

‫اب شاہد نے دھّکے لگانے بند کرِد ئیے اور ‪.‬شبو‬
‫کے ِن پلز کو ُچ وستے ُہ وئے اپنا لنڈ ُگڑیا کی‬
‫ُچ وت میں آہستہ آہستہ اندر باہر کرنا ُش روع‬
‫کردیا اور ‪.‬شبو نے سرشاری کے عالم میں‬
‫سختی سے شاہ کو جکڑ لیا

‫اففففففففففففففف ہاہاہاہاہاہاہاہ‪  ‬شاہہہہ شا‬
‫ششششش شاہد‪.‬شبومستی میں‪  ‬کراتے ُہ وئے‬
‫زور زور سے چیخ رہی ِت ھی شاہد صاحب‬
‫ایسے ہی کریں پلیز بہت مزہ آرہا ہے پلیز‬
‫ایسے ہی کریں پلیز

‫اور شاہد ِب ھی زبردست رسپونڈ کررہا تھا

‫اب شاہد آہستہ آہستہ دھکوں کی طاقت‬
‫بڑھانے لگا اور ‪.‬شبو کی سسکیاں اب ہلکی‬
‫ہلکی اور ِم یٹھی ِم یٹھی چیخوں میں ڈھل‬
‫گئیں جن سے ُر وم کا ماحول سیکسی ہوگیا

‫زبردست‪.‬شاہد جی وااااااہ‪  ‬ایسے ہی‬
‫چودیں‪.‬شاہد جی شبو آپکی ہے ُپ وری‬
‫اففففففففففف آہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہاہا‬
‫افففففففف‬

‫شاہد صاحب۔۔۔۔۔۔۔ پہلی دفعہ کوئ مرد ‪.‬شبو‬


‫کو چود رہا ہے پہلی دفعہ ‪.‬شبو کو لنڈ کا پتا‬
‫چال ہے ایسے ہی اور زور سے ٹھونکو اپنی‬
‫‪.‬شبو کو شبو بڑی سرشاری سے کر رہی ِت ھی‬
‫اور شاہد کو بڑی سختی سے ِب ھینچ رکھا تھا‬
‫شاہد ُم ستِق ل ‪.‬شبو کے ِن پلز ُچ وس و ُکتر رہا‬
‫تھا اور دھّکوں کو تیز کرتا جا رہا تھا

‫اب شاہ بار بار اپنے لنڈ کو ‪.‬شبو کی ُچ وت‬
‫سے باہر ِن کال کر درمیانی طاقت کے دھّکے‬
‫سے ‪.‬شبو کی چوت میں ُگھسیڑ رہا تھا ِج س‬
‫سے ‪.‬شبو ُکلبال جاتی اور مدہوشی سے شاہد‬
‫کو جکڑتے ُہ وئے کہتی ‪Ufffffffff‬‬
‫‪. Oooooohhhhh aaaaaahhhh neehammmmm‬شاہد‬
‫جڑیں تک ہال رہے ہیں ‪Ufffffff Oooooohhhhh‬‬
‫‪ aaaaaahhhh mmmmmm‬بڑا مزہ آرہا ہے ایسے‬
‫ہی شاہد صاحب ایسے ہی پلیز ایسے ہی کریں‬
‫بڑا مزہ آرہا ہے ‪.‬شبو کی مدہوش آوازوں نے‬
‫کمرے کا ماحول سیکسی کردیا تھا اور اب‬
‫ُم جھے ِب ھی اس الئیو شو میں مزہ آنے لگا‬
‫تھا‬

‫شاہد نے ‪.‬شبو کو بڑی مضُب وطی سے جکڑا ُہ وا‬


‫تھا اور ‪.‬شبو ُم کمل طور شاہد کی کمانڈ میں‪ ‬‬
‫شاہد نے ‪.‬شبو کے ِن پلز کو ُچ وس ُچ وس کر‬
‫سنہرا کردیا تھا اب شاہد کے دھّکے مزید زور‬
‫پکڑ گئے تھے جبکہ ‪.‬شبو کی مدہوشی میں‬
‫ہلکی ہلکی اور ِم یٹھی ِم یٹھی چیخوں میں‬
‫ِب ھی بھاری پن آُچ کا تھا‬
‫‪ahhhhhhhh ohhhhhhhhhhh Ufffffff‬‬
‫‪Oooooohhhhh ummmmmmaaaaahhhhh‬‬
‫شاہد‪
 ‬‬
‫‪.‬شبو ِب ھی مدہوشی میں نشہ سے بھرُپ ور آواز‬
‫میں بولی شاہد صاحب چودو بچی کو مزے‬
‫لو جتنے چاہے اس بچی سے یہ‪.‬شبو آپکی‬
‫ہے‪.‬شبو پوری آپکی کی ہے اور ِش دِت ُلطف‬
‫سے نیچے سے ُا وپر کو دھّکے لگانی لگی شاہد‬
‫نے ِب ھی دھّکے تیز کرِد ئیے اب کمرے میں‬
‫دونوں کی نشہ آور اور ُلطف اندوز آوازیں‬
‫ُگونج رہی اب ‪.‬شبونیچے سے شاہد کے دھّکوں‬
‫کا برابر جواب دے رہی تھی

‫شاہد کافی دیر سے ‪.‬شبو کو ایک ہی پوزیشن‬
‫میں کِب ھی ہلکے کِب ھی تیز دھّکے لگا کر چود‬
‫رہا تھا لیکن ‪.‬شبو کو لگائ گئ چاروں ہاتھ‬
‫پیروں کی قینچی کمزور نہیں ہونے دی اور‬
‫‪.‬شبو ِب ھی کافی ‪ relax feel‬کررہی ِت ھی

‫اب دھّکوں کی رفتار قدرے دھیمی ہو گئ‬
‫ِت ھی

‫شاہد ‪.‬شبو پر ُم کمل کمانڈ رکھے ُہ وئے تھا اور‬
‫اپنی مرضی سے ‪.‬شبو کو چود رہا تھا شبو‬
‫کی ِس سکیاں‪ُ  ‬م ستِق ل جاری ِت ھی‬

‫شاہد نے شبو کو گھوڑی بنایا تو وہ شرم سے‬


‫جھک گئ اور شاہد نے اسکی شلوار سرکا دی‬
‫اور اپنا لنڈ شبو کو پکڑا دیا تو شبو نے لنڈ‬
‫نشانے پررکھا تو اندھیرے میں‪  ‬نرم جگہ‬
‫محسوس کرکے شاہد نے ہلکا سا دھکا مارا تو‬
‫اسکی‪  ‬ٹوپی کا سرا جاتے ہی شبو درد سے‬
‫تڑپ اٹھی‪ ،‬درد بہت زیادہ تھا‪ ،‬ٹوپی کی‬
‫موٹائی سے چوت کی دیواریں کھل رہی‬
‫تھیں۔

‫شبو نے بستر کی چادر جکڑ لی‪. ،‬شاھدنے اس‬
‫کی گوری کمر کو پکڑ اور کندھے پکڑ کر‬
‫زوردار جھٹکا دیا تو ‪.‬شبو کی چیخ نکل‬
‫گئی۔ خاموشی میں چیخ زور سے سنائی دی۔‬

‫شاھد سہم گیا اور کچھ وقت انتظار کیا۔‬


‫کسی کو نہ پا کر دوبارہ ‪.‬شبو کی طرف‬
‫متوجہ ہوا۔

‫لن اندر چال گیا تھا مگر تنگ چوت میں لن‬
‫پھنس گیا تھا

‫شبو کی آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔ایک زور‬
‫دار جھٹکا شاھد نے مارا اور لنڈ شبو کی‬
‫چوت کے پردے توڑتے ھوئے ندر تک گھس‬
‫گئیا

‫شبو اور شاھد دونوں کو اپنی رانوں پر‬
‫چوت کا گرم گرم خون محسوس ہونے لگا۔‬
‫شاید اسکو

‫شبو کے شدید درد کے باوجود کسی طور پر‬
‫چدائی سے دستبردار ہونا نہیں چاہتی تھی‬
‫کیو نکہ وہ پسند کرتی تھی شاھد کو ‪. ،‬وہ‬
‫بھی کنواری اور کم عمر لڑکی کو چود کر‬
‫خوش تھا اور مزے لے کر لن کو ہالنے لگا۔‬

‫‪.‬شاھدتیزی سے شبو کی چوت میں لن اندر‬


‫باہر کرنے لگا۔ شبو شدید درد سے بےحال‬
‫ہوئی جا رہی تھی مگر پورا لن اندر لئے‬
‫برداشت کر رہی تھی۔شاھد نے پوچھا اب‬
‫کروں اندر باھر کر لو گئی برداشت شبو نے‬
‫کہا اسکی چھاتی پر ہاتھ پھیرتے ھوئے کہا‪ ‬‬
‫نوابزادے اب تو تم رکو مت ھو

‫ااااہ فک می ہارڈ اااااہ بہت ارمان تھا تم نے‬
‫جو چھیڑ چھاڑ اس دن کی تھی وہ لمس اج‬
‫بھی مجھے بے چین کر رہا اااااہ ااااہ شاہد‬
‫امممم اااہ‬

‫اب رکو مت چڑھ جاو اپنی گھوڑی پر شاہد‬


‫نے کہا ویسے گھوڑی ھے بہت خوبصورت‬
‫شبو بولی گھوڑا بھی کسی سے کم نہیں اگر‬
‫رفتار بھی رکھتا ھو‬

‫اسے معلوم تھا کہ یہ درد جلد ختم ہو جائے‬


‫گا پھر یہی کام مزا دے گا۔

‫‪...‬شاھدشبو‪..‬کو تکلیف مزہ دینے کے لئے اس‬
‫کی ٹانگیں اٹھا کر چودنے لگا۔

‫خون اور ‪.‬شبو کی چوت کا پانی مل کر ہر‬
‫جھٹکے سے باہر بہتا جا رہا تھا اور ٹانگیں‬
‫اٹھانے کی وجہ سے گانڈ کے سوراخ کی‬
‫طرف جانے لگا۔ شبو شاید شاہد کے لن کے‬
‫اگے ہار چکی تھی اسکی تنک چوت نے لن کے‬
‫سامنے جلد پانی‪  ‬چھوڑ کر شکست تسلیم کر‬
‫لی تھی

‫شاھد‪.‬نے ‪.‬شبو کے مموں کو مٹھی میں پکڑا‬
‫اور انھیں کے سہارے چوت مارنے لگا۔‬

‫‪.‬شاھدکے ھاتھوں میں ‪.‬شبو کے ممے پورے آ‬


‫گئے تھے‪ ،‬اور اس طرح نوچنے سے‪  ‬شبو کو‬
‫بہت تکلیف ہونے لگی۔‬

‫شاھد اس کی تکلیف محسوس کر کے بوال‪!  :‬‬


‫آہ مڑا آرہا‬

‫شبو‪  ‬جو درد اور تکلیف سے رونے والی ہو‬


‫چکی تھی پھنسی ہوئی آواز میں بولی‪:‬شاہد‬
‫بہت درد ھورہا ھے جلد ہی رو پڑتی اور لن‬
‫نکالنے کا کہتی۔

‫‪.‬شاھدنے تکیہ رکھ کر اس کے کولہے اونچے‬
‫کئے چوت کپڑے سے صاف کی اور چوت کا‬
‫رخ اوپر کر لن گہرائی تک پہنچانے لگا۔

‫پہلے دو تین جھٹکوں پر‪. .......‬شبو درد سے‬
‫چالئی مگر پھر اتنے لمبے لن نے چوت کو‬
‫آخری حد تک کھول دیا۔

‫جتنا درد ہونا تھا ہو چکا تھا‪. ،‬شبو‪..‬کی‬
‫چوت اب سن ہو گئی تھی اور اسے اب اچھا‬
‫لگنے لگا۔

‫تنگ چوت اور زوردار چدائی سے ‪.‬شاھد بھی‬
‫کسی حد تک فارغ ہونے کی کنڈیشن میں‬
‫تھا۔

‫‪.‬شاھد کو اب لن گہرائی میں اچھا لگنے‬
‫لگا‪.،‬شبو تیری چوت تو بہت تنگ ھے تو وہ‬
‫پھر سے مزے سے چدوانے لگی‪ ،‬اسنے اپنے‬
‫ناخن شاہد کی کمر پر گاڑ دیئے اور اسے‬
‫رفتار بڑھانے کا سگنل دیا جبکہ ‪...‬شاھداب‬
‫چھوٹنے واال تھا۔‬

‫شبو‪.‬کو مزا آنے لگا تو اس نے چوت کو‬


‫سکیڑنا شروع کر دیا‪ ،‬جس سے‪...‬شاھدکی‬
‫ٹوپی زیادہ رگڑ کھانے لگی‪ ،‬وہ ذرا سا رکا تو‬
‫‪..‬شبو نے نیچے لیٹے لیٹے چوت آگے پیچھے‬
‫ہالئی‪
،‬‬
‫اس سے پہلے کہ ‪..‬شاھد روکتا‪.. ،‬شبو‪ .‬لن‬
‫چوت میں زور سے بھینچا اور چوت آگے‬
‫پیچھے کی‪ ،‬معصوم سی مگر کڑا وار کر‬
‫گئی‪ ..‬شبو کی چوت نے لنڈ کو ایسی رگڑ‬
‫لگائی کہ ‪.‬شاھدکا لن ایک جھٹکے سے چھوٹ‬
‫گیا۔‬
‫شبو نے جلدی سے شاہد کو اپنے نرم و نازک‬
‫بازووں میں بھینچ لیا اور اپنے جسم کی‬
‫ساری حرارت شاہد کے جسم میں منتقل کر‬
‫دی اور اسکا سپرم اپنی چوت میں جذب‬
‫کرلیا‪
.........‬‬

‫جاری ہے ‪.....‬‬

‫ایک مکمل انٹرٹینمنٹ میری نئی کہانی جو‬


‫صرف وٹس ایپ پر حاصل کرسکیں گے‬
‫کیونکہ یہ کہانی اب مکمل کر دی گئی ھے‬
‫اسکے عالوہ‪  ‬اناڑی دولہا بھی چند دنوں بعد‬
‫اس گروپ میں شامل کی جائے گی انسیسٹ‬
‫کہانیوں کے پڑھنے والے اسکو وٹس ایپ پر‬
‫خرید کر پڑھ رہے ہیں‬
‫اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‪#‬‬

‫صفحہ_‪#7‬‬

‫رائیٹر_نواب_شاہد‪#‬‬

‫شاہد مست ہو کے‬

‫شبو کی چودائی کر رہا تھا۔۔‪.‬شاہدنےشبو کو‬


‫کھڑا کرکے اپنے لنڈ پر بٹھا دیا اور اسکی‬
‫ٹانگیں‪  ‬کھول دیں جسے ‪..‬شاہد نے اپنا گرم‬
‫لوڑا ‪.‬شبو کی مست چوت میں رکھا تو پھر‬
‫سے تڑپ کے اہہہہہہہہ اففففففففف اوہ شٹ‬
‫کرنے لگی مزے اور شہوت سے چور شبو نے‬
‫سٹور میں پڑے صوفے پر لیٹے ھوۓ شاہد کے‬
‫لوڑے پر اپنی چوت رکھ دی‪  ‬اور پھر شاہد‬
‫اسکے جھٹکا دیتے ہوئے ممے دبانے لگا دونوں‬
‫ہاتھوں سے‪.‬شبو آوووو نوووووووو آہ آؤ چ‬
‫تیز مسلوں اآاااااا اففففففففف مار‪  ‬دے آج‬
‫پلیز شاہد تیز اور مجھے سکوں دو ‪.‬شاہد نے‬
‫‪.‬شبو کے ہاتھ پیچھے کر کے پکڑ کے جم کے‬
‫چودنے لگا اور کافی تیز ہوا شاہد اور شبو‬
‫اب فل مستی میں آ چکے تھے شاہد نے شبو‬
‫کو اور بھی جھکا دیا اور لوڑا باہر نکاال ۔۔۔‬

‫اور شبو کی گانڈ پہ مسلنے لگا ہلکا سا تھوک‬


‫لگا کے شبو کی مست نرم اور موٹی گانڈ میں‬
‫جسے اندر کیا وہ درد سے تڑپی اااااااآااا‬
‫ننننننہہہہہہہیییییی اففففففففف درد ہو رہا‬
‫ہےےےےےےےے پلیزززززز شاہد رکو آؤچ‬
‫کو اور مزہ دینے لگا شاہد نے گالی دے کے کہا‬
‫کے چپ سالی ٹھنڈا کردوں گا آج تیری‬
‫جوانی کو۔۔۔شبو کہنے لگی نوووووووو‬
‫چوت مارو شاہد پلیز میری پلیز بہت درد ہو‬
‫رہا ہے اور شاہد نے گانڈ پہ جسے تھپڑ مارا تو‬
‫ہلنے لگا اور شاہد نے لنڈ نکال کر پھر اسکی‬
‫گوری چوت میں ڈال دیا تھا اور آرام آرام‬
‫سے اندر باہر کرنے لگا اور شبو اب درد سے‬
‫تڑپ رہی تھی اور اسے‪  ‬مزہ بھی آرہا تھا‬
‫شبو نے اک ہاتھ سے ممے دبانا شروع کیے اور‬
‫اک انگلی چوت کے دانے پر رکھی اور تیز‬
‫جسے ہوا شبوکو درد اور شروع ہوا اآاااااا‬
‫بسسسسسسسس پلیزززززز اآاااا شٹ شاہد‬
‫امممم‪  ‬سسسسسسسس بسسسسسسسس‬
‫کرو ظالمممممم اور شاہد اور تیز ہو کے چود‬
‫رہا تھا شاہداور شبو نے آج کی رات فل‬
‫رنگیں بنائ شاہد پلیزززززز بسسسسسسسس‬
‫شاہد اور تیز ہوا ٹپ ٹپ ٹپ کی آواز آرہی‬
‫تھی شاہد بسسسسسسسس نہہہہہہہ شاہد‬
‫بھی فارغ ہونے واال تھا اس نے کوئ پرواہ‬
‫نہیں کی اور فل تیز جھٹکے دینے لگا‬
‫اففففففففف شبوااا بہت مست ہو میری جان‬
‫شبو کی سسکیاں اور بڑھ رہی تھا‬
‫اففففففففف شاہد جلدی کریں اور‬
‫تیززززززززززز اآاااااا اففففففففف اہہہہہ‬
‫ننننننہہہہہہہیییییی آوووو شاہد اور تیز ہوا‬
‫اور چند منٹ بعد شاہد بوال جان میں فارغ‬
‫ھونے واال ھوں شبو بولی اندر ھی ھو جاؤ‬
‫میری جاں اور مجھے پریگنٹ کردو شبو کی‬
‫گوری چوت پہ پھر شاہد نے اپنے لوڑے کا‬
‫گرما گرم پانی اک تیز دھار کی طرح چھوڑا‬
‫اور بے حال ہوکے لیٹ گیا اور شبو بھی لیٹ‬
‫گی چند منٹ تک ایسے ہی لیٹے تھے پھر شبو‬
‫نے کہا کہ شاہد بہت ظالم ھو تم سارا ڈال‪ ‬‬
‫دیا آپ نے تو شاہد ہنسنے لگا کے یہی تو تم‬
‫بھی چاہتی تھی شبو شرما کے ایسا بھی‬
‫نہیں چاہا تھا شبو آپ نے تو ایسے چودا آج‬
‫تک اتنا مزہ میرے شوہر نے بھی نہیں دیا‬
‫شاہد شبو کو کیس کر کے کہنے لگا اب تو ہر‬
‫وقت یہ مزہ دونگا بس مہرو کو یہ پتہ نہ‬
‫چلے شبو نے بھی کس کیا اور کہا کے بیفکر‬
‫رہو جناب آپ پریشان نہ ہو۔۔شاہد ہمممم‬
‫کرتے ہوئے کیونکہ شاہد شبو کو بھی ٹیسٹ‬
‫کرنا چاہتا تھا اس لیے شبو کو تو کھول کے‬
‫بتا نہیں سکتا اس لیے اس نے شبو کو کہا کے‬
‫اب مجھے اجازت دیں کیونکہ کافی دیر ہوئ‬
‫شبو بھی مان گی دونوں نے کپڑے پہنے اور‪ ‬‬
‫نے جا کےسٹور کا دروازہ آرام سے کھول کے‬
‫شاہد کو کہا کے اب آپ چلے جائے اور‬
‫احتیاط کرنا کے کوئ دیکھ نہ لیں شاہد‬
‫سیدھا چال گیا اور اپنی کار میں بیٹھ کے‬
‫گھر کی طرف روانہ ہوا آج شاہد کی خوشی‬
‫کی انتہا نہ تھی کیونکہ شاہد نے آج جم کے‬
‫اپنی پہلی محبوبہ شبو کی چودائی کی اور‬
‫شبو کو بھی اک سکون مال کیونکہ شبو کی‬
‫پیاس بجھ گئ۔۔شبو بھی سکون سے لیٹ‬
‫گئ اور شاہد بھی گھر آ کے چین سے سو گیا‬
‫۔۔۔۔‬

‫اگلے دن شاہد کافی دیر سے جاگا کیونکہ‬


‫ساری رات مستی میں گزری اور بارات‪  ‬بھی‬
‫لیٹ تھی تو اب شاہد شبو سے کھولنے کی‬
‫کوشش میں تھا شبو تو جال میں پھنس گئ‬
‫تھی اب مہرو‪  ‬کا اس نے مزہ لینا تھا‪  ..‬جاتے‬
‫ہی جب اپنے روم میں آیا تو شبو کو دیکھ‬
‫کے مسکرانے لگا اور کہا‬

‫شاھد‪ -‬ارے یار آج بارات ھے کر لیتی تیاری‪ ‬‬


‫۔۔۔‬

‫شبو نو سر اس کی ضرورت نہیں۔۔‬

‫شاہد ‪ -:‬ہمممم چلیں یہ بتائے کل مزہ آیا تھا‬


‫کے نہیں۔۔‬

‫جی یار تمہاری‪  ‬باتوں سے انجوائے کیا تھا ۔‪ ‬‬

‫ہاں شاہد میرے لیے یہ عام بات نہیں ہے یار‬


‫لیکن کل یہ ہے کے بہت انجوائے کیا تھا میں‬
‫نے۔۔‬
‫آپی بھی بہت خوش تھی۔۔‪ ‬‬

‫شاہد ‪ -:‬اچھا بہت خوب ویسے ڈانس نہیں‬


‫‪..‬کیا تم‪  ‬نے میرے ساتھ شاہد بوال ہاہاہاہا‬

‫شبو نو نو نومیں کیسے کرتی اکیلے آپ تو‬


‫مہرو کیساتھ‪  ‬کر رھی تھے سر ویسے ایک‬
‫بات کہوں تو شاہد بوال کہو تو شبو بولی کہ‬
‫مہرو نساء کی چوت بھی لے لی ھے تم نے کہ‬
‫نہیں تو شاہد نے شبو سے کہا وہ ابھی تک‬
‫ہاتھ میں نہیں آرھی تم کچھ کرو یار اس‬
‫کا۔۔‬

‫شبو ہاہاہاہا ‪ -:‬ہمممم یہ تو ہے ۔۔‬

‫جی کرتی ھوں ہم دوست ہے نہ پھر کیوں ‪-‬‬


‫سر ہاں ۔۔‬
‫شبو آنکھوں کو جھکا کے اچھا جی اب میں‬
‫بارات کی تیاری کرلوں مہرو پتہ نئیں کہاں‬
‫چلی گئ ھے۔۔‬

‫ہاشم حرا سے گپ شپ کرنے لگا پسند نہ‬


‫پسند پوچھا کافی باتیں کی آپس میں اور‬
‫گپ شپ کھولنے لگی اور وہاں سے حنا بھی‬
‫میسج پہ بات کرنے لگی۔۔‬

‫فیصل کی بارات بڑی دھوم دھام سے‪  ‬آزاد‬


‫کشمیر کے منگال میرج ہال میں قرار پائی‬
‫پہلی بار علیشاہ کو اس نے دلہن کے سرخ‬
‫جوڑے میں دیکھا تو وہ علیشاہ سے بوال یار‬
‫آج بہت پیاری لگ رھی ھو قسم سے تو‬
‫علیشاہ نے شرما کر کہا سب دیکھ رھے ھیں‬
‫شرم کرو‬
‫میں کونسا ننگا بیٹھا ھوں شرم کس بات کی‬
‫سب جانتے ھیں کہ تم میری بیوی ھو کونسا‬
‫تم کوئی غیر ھو تو علیشاہ نے کہا مہرو پلیز‬
‫اسے چپ کروادیں تو مولوی صاحب نے نکاح‬
‫‪.........‬کی اجازت لی اور نکاح شروع ھوگیا‬

‫‪ ‬جاری ہے‪.......‬‬

‫ایک مکمل انٹرٹینمنٹ میری نئی کہانی جو‬


‫صرف وٹس ایپ پر حاصل کرسکیں گے‬
‫کیونکہ یہ کہانی اب مکمل کر دی گئی ھے‬
‫اسکے عالوہ‪  ‬اناڑی دولہا بھی چند دنوں بعد‬
‫اس گروپ میں شامل کی جائے گی انسیسٹ‬
‫‪#‬اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن

‫‪#‬صفحہ_‪8‬‬

‫فیصل کا‪  ‬نکاح شروع ھوگیا تو اسکا باپ‬


‫کہنے لگا کہ دعا کرو بیگم‪  ‬تیرا شہزادۂ صیح‬
‫سالمت نکاح پڑھ لے کیا مطلب ھے تمہارا‬
‫رضوی صاحب تو اس نے کہا‪  ‬اگر ادھر‬
‫فیصل نے کوئی بونگی مار دی تو عالی نے‬
‫نکاح پڑھنے سے انکار کر دینا ھے فیصل کے‬
‫باپ نے خدشہ ظاہر کرتے ھوۓ کہا تو بیگم‬
‫صاحبہ بولیں چوہدری صاحب بات تو آپکی‬
‫صیح ھے آپ اس کے دوست شاہد کو کہو کہ‬
‫اس کھوتے کو اکیال مت چھوڑے اور اسکے‬
‫ساتھ ساتھ ھی رھے‪  ‬ادھر مہرو اور شبو کو‬
‫میں سمجھا دیتی ھوں وہ علیشاہ کو‬
‫کنٹرول کرینگی ھمیں سنبھل کر چلنا پڑیگا‪ ‬‬
‫ہاں بات تو تیری ٹھیک اے بیگم اس کمینے‬
‫نے اگر آج کچھ بیغرتی کر دی تو پھر ساری‬
‫عمر روتا رھے گا‬

‫بابا جانی آپ کن سوچوں میں گم ھو کیا‬


‫پریشانی ھے تو اسکی ماں بولی مہرو بیٹا‬
‫آپکو تو معلوم ھے ھماری پریشانی تمہارے‬
‫اس نکمے بھائی فیصل کی بہت پریشانی ھے‬
‫اگر آج اس نے اپنا بچگانہ ذہن نہ بدال تو بہت‬
‫بڑی مصیبت ھوگی ہمارے خاندان کے لئیے تو‬
‫مہرو اپنی ماں کا ہاتھ سہالتے ھوۓ بولی‬
‫امی جان اگر حاالت کو درست سمت لیکر‬
‫جانا ھے تو پندرہ دن کا چارج مجھے دے دو‬
‫پھر دیکھنا علیشاہ کیسے نہیں رہیگی اس‬
‫گھر کی بہو بن کر نکاح کی رسم شروع تھی‬
‫سٹیج پر مولوی صاحب موجود تھے اور‬
‫سارے دوست اور خاص مہمان آزاد کشمیر‬
‫کے وسیع و عریض عالیشاں میرج ہال میں‬
‫ایک ایسا دولہا جسے صرف دولت مند ھونے‬
‫کی وجہ سے ھی مرد کہا جاتا ھو سارے‬
‫معامالت فیصل صاحب کے ساتھ ان کے امیر‬
‫زادہ ھونے کی وجہ سے الگ سے دیکھے جاتے‬

‫مولوی صاحب نے کہا فیصل رضوی ولد‬


‫رضوی صاحب کا نکاح آپکو قبول ھے تو‬
‫علیشاہ ایک دم سوچ میں پڑگئ تو مولوی‬
‫صاحب نے کہا بچی آپکو پھر سے پوچھتا‬
‫ھوں آپکو فیصل رضوی سے نکاح قبول ھے‬
‫تو علیشاہ نے مہرو کی طرف دیکھا مہرو نے‬
‫اشارے سے اسے کہا کہ سب دیکھ رھے ھیں‬
‫تو علیشاہ جسے پیار سے عالیہ عالی کہا جاتا‬
‫تھا اس نے اپنے سرخ ھونٹوں پر لگی چپ‬
‫کی مہر کو توڑتے ھوۓ کہا جی مجھے قبول‬
‫ھے‬

‫بیٹی میں دوسری بار پھر سے آپ سے پوچھ‬


‫رہا ھوں کہ آپکا نکاح فیصل رضوی کیساتھ‬
‫کیا جاتا ھے کیا یہ نکاح آپکو قبول ھے تو‬
‫علیشاہ نے ایک بار پھر سے کہا مجھے قبول‬
‫ھے اور یہی عمل علیشاہ نے جب تیسری بار‬
‫دہرایا تو وہ تیسری بار بھی قبول کرکے اپنی‬
‫خوشیوں کا سہرا ایک ایسے مرد کے سر‬
‫باندھ کر بہت بڑی آزمائش میں ڈال گئ‬
‫شاید لڑکی کی طرف سے نکاح پر رضامندی‬
‫ظاہر کرکے فیصل کو اپنانے پر سارے ہال‬
‫میں مبارک ھو مبارک ھو کی صدائیں گونج‬
‫اٹھیں اور علشاہ کی آنکھوں میں خوشی کے‬
‫آنسو آ گۓ‪  ‬وہ یہ سوچ کر رونے لگی کہ کیا‬
‫ساری عمر اس الپروا انسان کی بیوی بن کر‬
‫رہا جاسکتا ھے کیا میں نے اپنے ارمانوں کا‬
‫سہرا فیصل کے سر پر باندھ کر کچھ غلط‬
‫تو نہیں کیا مگر اسکے دل کی بات ایک‬
‫عورت ھی سمجھ سکتی تھی اور حاالت کا‬
‫اگر جائزہ لیا جاتا تو ایک مہرو ھی تھی جو‬
‫علیشاہ کا یہ درد سمجھ سکتی تھی‬

‫مہرو نساء نے آ گے بڑھ کی نئ نویلی دلہن‬


‫کو حوصلۂ دیا اور اسکے آنسو پونچھتے‬
‫ھوۓ بولی کہ پاگل رو کیوں رھی ھو ھم‬
‫ھیں نہ آپکے دکھ سکھ کے ساتھی آپ کونسا‬
‫کسی غیر کی دلہن بنی ھو خیر سے آپ اپنی‬
‫دوسری ماں کی بہو بنی ھو آپکو تو خوش‬
‫ھونا چاھئیے اور دیکھو نہ علیشاہ جوڑے‬
‫آسمانوں پر بنتے ھیں تمہارا اور بھائی کا‬
‫جوڑا بھی اس مالک نے بنایا ھے وہی تم پر‬
‫نظرکرم کرے گا‬

‫مہرو کے اس طرح کے تسلی دینے سے علیشاہ‬


‫کو حوصلہ ھوا تو مو قعے کی نزاکت کو‬
‫دیکھتے ھوۓ علیشاہ کا بھائی اور مہرو کا‬
‫خالہ زاد کزن سمیر جو ایک نامور لکھاری‬
‫تھا اور کالم لکھتا تھا مہرو سے بوال آپی‬
‫ھمارا جوڑا کب بنے کا تو مہرو بولی جب‬
‫سری نگر آزاد ھوگا‪.‬‬

‫مہرو کی بات سن کر سب سہیلیاں کھل کر‬


‫ہنس پڑیں اور شبو بولی کہ سمیر بھائی آپ‬
‫سری نگر کی آزادی تک صبر کرو اور باڈر پر‬
‫موجود فورسز کا منت ماجرہ کرو تاکہ‬
‫فیصلہ کن جیت ھو اور آپکی شادی مہرو‬
‫کیساتھ پکی ھو جاۓ ساری لڑکیاں سمیرکا‬
‫مذاق اڑا رھی تھیں اور ہنس ہنس کرلوٹ‬
‫پوٹ ھورھی تھی سمیر کے پرپوز کرنے کا‬
‫انداز غلط تھا وہ جانتا بھی تھا کہ مہرو‬
‫جیسی اتھر ی گھوڑی کو زین ڈالنا آسان کام‬
‫نہیں ھے پھر بھی اس‪  ‬نے اکیلے میں پرپوز‬
‫کرنے کی بجاۓ دس سہیلیوں میں اسے‬
‫پرپوز کر دیا‬

‫دراصل سمیر چاہتا تھا کہ سب کو معلوم ھو‬


‫جاۓ کہ مہرو سمیر کو بہت پسند ھے اور‬
‫کوئی مہرو کی طرف دوستی کا ہاتھ نہ‬
‫بڑھاۓ خود مہرو بھی سمیر شاہ کو بہت‬
‫پسند کرتی تھی مگر اسکو بہت مزہ آتا تھا‬
‫جب وہ اپنے سامنے والے کو الجواب کردیتی‬
‫اور اسکا مزہ دوباال ھوجاتا جب الجواب‬
‫ھوجانے واال کوئی مرد ھوتا‬

‫اس پر بہت ساروں نے ڈورے ڈالے جسمیں‬


‫فیصل کا جگری یار نوابزادہ شاہد سمیر شاہ‬
‫اور مہرو کا کالس فیلوکزن عثمان حیدر بھی‬
‫شامل تھا پر مہرو صرف تھوڑا بہت اگر‬
‫پسند کرتی تھی تو وہ سمیر ھی تھا جسے‬
‫آج اس نے بہت تنگ کیا تھا‬

‫دوسری طرف سارے مہمان فیصل رضوی‬


‫صاحب کو نکاح کی مبارکباد دے رھے تھے‬
‫مولوی صاحب نے سٹیج پر ھی بیٹھ کر‬
‫دولہے میاں کیساتھ کھانا کھانے کا حتمی‬
‫فیصلہ کیا اور فیصل کو تو زور کی بھوک‬
‫لگی ھوئی تھی‬

‫تو شاہد نے اسے پلیٹ میں کھانا ڈال کر دیا‬


‫تو فیصل نے کھانا شروع کردیا اسے کھاتا‬
‫دیکھ کر مولوی صاحب ہنسنے لگے اور نکاح‬
‫واال رجسٹرڈ ایک طرف رکھ کر کھانا ڈالنے‬
‫لگے مولوی صاحب نے دیکھا کہ ایک لیگ‬
‫پیس انکی طرف پڑا ھوا ھے انہوں نے وہ‬
‫اٹھایا اور ایک نان پکڑا اور کھانا شرو ع‬
‫کردیا‬

‫مولوی صاحب کی مختصر سی چوائس‬


‫دیکھ کر فیصل کو شرارت سوجھ مولوی‬
‫صاحب کی مختصر سی چوائس دیکھ کر‬
‫فیصل کو شرارت سوجھی‪
......‬‬
‫جاری ہے ‪.......‬‬

‫ایک مکمل انٹرٹینمنٹ میری نئی کہانی جو‬


‫صرف وٹس ایپ پر حاصل کرسکیں گے‬
‫کیونکہ یہ کہانی اب مکمل کر دی گئی ھے‬
‫اسکے عالوہ‪  ‬اناڑی دولہا بھی چند دنوں بعد‬
‫اس گروپ میں شامل کی جائے گی انسیسٹ‬
‫کہانیوں کے پڑھنے والے اسکو وٹس ایپ پر‬
‫خرید کر پڑھ رہے ہیں‬

‫پڑھیں انسیسٹ کہانیاں سہاگن۔۔مالئیکہ کی‬


‫شرارتیں۔۔ہماکی شرارتیں۔۔ساگر کی بہنیں۔۔‬
‫پشتون گھوڑیاں۔۔شوہر کون۔۔بھٹکتے قدم۔۔‬
‫عاقب اور اسکی بہنیں۔۔بڑی حویلی کی بہو۔۔‬
‫بے شرم باپ۔۔سوتیلی۔۔۔گھرکا بھیدی۔۔۔‬
‫ساس کا داماد۔۔بیوی سے وفادار بہن۔۔فہد‬
‫اور مہرین۔۔خاندانی مستیاں۔۔۔سگہ بھائی۔۔۔‬
‫‪ ‬اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‪#‬‬

‫صفحہ_‪#9‬‬

‫‪ ‬‬

‫فیصل نے مولوی صاحب سے کہا کہ جو ملتا‬


‫ھے کھالو حلوہ آپکو نہیں ملے گا مولوی‬
‫صاحب ہاہاہا بیٹا سارے مولوی حلوہ ہی‪ ‬‬
‫نہیں کھاتے باقی چیزیں بھی شوق سے‬
‫کھاتے ھیں میں تو بس آپکا انتظار کررہاتھا‬
‫کہ پہلے دولہے میاں کھالیں ھم بعد میں‬
‫کھالینگے ویسے نوابزادہ شاہد صاحب آپ تو‬
‫کہہ رھے تھے کہ دولہے میاں بہت سیدھے‬
‫سادھے ھیں مگر ادھر تو الٹی گنگا بہہ رھی‬
‫ھے تو شاہد بوال کہ استاد جی میرا دوست‬
‫تھوڑا مزاحیہ ھے دل کا برا نہیں ھے‪  ‬چلو‬
‫اچھا ھے بھائی ہنسی مذاق سب چلتا ھے‬
‫ایسے موقعوں پر مولوی صاحب گاجر کا‬
‫حلوہ کھارھے تھے تو فیصل نے پھر کہا کہ‬
‫چلو مل ھی گیا حلوہ بیشک گاجر کا ھی مال‬
‫ہاہاہا بچے ارادے نیک ہوں تو منزلیں قریب تر‬
‫ھو جایا کرتی ھیں تو شاہد بولے استاد جی‬
‫ھم نے دیکھا ھے اکثر‪  ‬حلوے والی منزل جلد‬
‫‪ ‬ھی آسان ھوجایا کرتی ھے‬
‫شبو بولی دیکھو مہرو شاہد بھی آپکی طرف‬
‫دیکھ کر ہنس رھے ھیں ضرور وہ تمہارے‬
‫نکاح کی بات کر رھے ھونگے اب تمہاری باری‬
‫ھے اور اب تیرے چاہنے والے بہت زیادہ ھیں‬
‫مہرو نے چٹکی کاٹتے ھوۓ بولی کہ کمینی‬
‫تم خود کانام بھی کیوں نہیں لیتی آپ کے‬
‫اوپر الئن نہیں مارتا وہ ہاہاہاہا بہت‬
‫اچھامذاق ھے کیونکہ‪  ‬ھم صرف چھیڑ چھاڑ‬
‫تک ھی رہتے ھیں اور تم تو ہروقت بھائی‬
‫بناکر اسکا ناک‪  ‬کھینچتی رہتی ھیں تمہیں‬
‫تو بہت شرارتیں سوجھتی ھیں اسے دیکھ‬
‫کر‬

‫سالی تم میرا منہ‪  ‬مت کھالواؤ آپ میری‬


‫بہن ھو پر تم مجھ سے ھی بہت جھوٹ‬
‫بولنے لگی ھو مہرو نے اسکا کان کھینچا اور‬
‫کہا کہ سارے مہمان بیٹھے ھیں رات کو‬
‫بتاؤنگی کہ تم کیا کررھو آج کل اور جھوٹ‬
‫بھی بہت بولنے لگی ھو تم بھال میں نے کب‬
‫جھوٹ بوال یار جو تم چڑ رھی ھو‬

‫ہاں تم تو بچی ھو تجھے تو کچھ معلو م‬


‫ھی‪  ‬نہیں میسنی چداۓ اور چارپائی نہ‬
‫ہالۓ‪  ‬وہ حساب ھے آپکا مہرو نے سوالیہ‬
‫انداز سے شبو سے کہا تو شبو بولی یار مہرو‬
‫کیا پہیلیاں بجھوا رھی ھو کھل کر بتاؤ ھوا‬
‫‪ ‬کیا ھے‬
‫نکاح کے پیکٹ تقسیم ھورھے تھے مہرو کے‬
‫بھائی فیصل کی ازواجی‪  ‬زندگی کا سفر اب‬
‫شروع ھو گیا تھا بہت ساری مشکالت اب‬
‫بھی باقی تھیں مگر رضوی صاحب آج بہت‬
‫خوش تھے وہ خوش گپیوں میں مصروف‬
‫تھے‬

‫ادھر مہرو اور شبو آمنے سامنے نشست جما‬


‫کر بیٹھی تھیںاور وہ بھی انہی خوش گپیوں‬
‫میں مصروف تھیں مہرو بولی چل شاباش‬
‫اب بتا مہندی والی رات تم کدھر تھی جب‬
‫میں امی کی بات سننے چلی گئ تھی شبو‬
‫بولی کہ ہاں یار اس رات جب فیصل کی‬
‫مہندی تھی اس دن شاہد نے مجھے سٹور‬
‫میں بالیا‪  ‬اسی کو بات‪  ‬سننے گئ تھی شبو‬
‫نے اپنی جھوٹی سی دلیل دی تو مہرو بولی‬
‫سالی اس رات تم نے بہت مزے کیساتھ‬
‫شاہد کو قینچی ماری ھوئی تھی اور وہ‬
‫تجھے تیری مرضی سے چود رہاتھا اور تیری‬
‫کمر بھی اچھل رھی تھی شبو بولی یار مہرو‬
‫تم نے کب دیکھا ھمیں اور مجھے تو بتایا‬
‫‪ .........‬ھوتا‬

‫جاری ہے‪.......‬‬

‫ایک مکمل انٹرٹینمنٹ میری نئی کہانی جو‬


‫صرف وٹس ایپ پر حاصل کرسکیں گے‬
‫کیونکہ یہ کہانی اب مکمل کر دی گئی ھے‬
‫اسکے عالوہ‪  ‬اناڑی دولہا بھی چند دنوں بعد‬
‫اس گروپ میں شامل کی جائے گی انسیسٹ‬
‫کہانیوں کے پڑھنے والے اسکو وٹس ایپ پر‬
‫خرید کر پڑھ رہے ہیں‬

‫پڑھیں انسیسٹ کہانیاں سہاگن۔۔مالئیکہ کی‬


‫شرارتیں۔۔ہماکی شرارتیں۔۔ساگر کی بہنیں۔۔‬
‫پشتون گھوڑیاں۔۔شوہر کون۔۔بھٹکتے قدم۔۔‬
‫عاقب اور اسکی بہنیں۔۔بڑی حویلی کی بہو۔۔‬
‫بے شرم باپ۔۔سوتیلی۔۔۔گھرکا بھیدی۔۔۔‬
‫ساس کا داماد۔۔بیوی سے وفادار بہن۔۔فہد‬
‫اور مہرین۔۔خاندانی مستیاں۔۔۔سگہ بھائی۔۔۔‬
‫عروسہ بہن۔۔۔فرزانہ اور ریحانہ۔۔۔دو بھابھی‬
‫دو دیور۔۔۔کہاں کہاں سے گزر گیا۔۔ہمارے‬
‫برادر۔۔چاچی کمینی۔۔۔چاچی کا دیونہ۔۔۔سا‬
‫‪ ‬اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‪#‬‬

‫صفحہ_‪#10‬‬

‫‪ ‬‬

‫فیصل نے مولوی صاحب سے کہا کہ جو ملتا‬


‫ھے کھالو حلوہ آپکو نہیں ملے گا مولوی‬
‫صاحب ہاہاہا بیٹا سارے مولوی حلوہ ہی‪ ‬‬
‫نہیں کھاتے باقی چیزیں بھی شوق سے‬
‫کھاتے ھیں میں تو بس آپکا انتظار کررہاتھا‬
‫کہ پہلے دولہے میاں کھالیں ھم بعد میں‬
‫کھالینگے ویسے نوابزادہ شاہد صاحب آپ تو‬
‫کہہ رھے تھے کہ دولہے‬

‫میاں بہت سیدھے سادھے ھیں مگر ادھر تو‪ ‬‬


‫الٹی گنگا بہہ رھی ھے تو شاہد بوال کہ استاد‬
‫جی میرا دوست تھوڑا مزاحیہ ھے دل کا برا‬
‫نہیں ھے‪  ‬چلو اچھا ھے بھائی ہنسی مذاق‬
‫سب چلتا ھے ایسے موقعوں پر مولوی‬
‫صاحب گاجر کا حلوہ کھارھے تھے تو فیصل‬
‫نے پھر کہا کہ چلو مل ھی گیا حلوہ بیشک‬
‫گاجر کا ھی مال ہاہاہا بچے ارادے نیک ہوں تو‬
‫منزلیں قریب تر ھو جایا کرتی ھیں تو شاہد‬
‫بولے استاد جی ھم نے دیکھا ھے اکثر‪  ‬حلوے‬
‫‪ ‬والی منزل جلد ھی آسان ھوجایا کرتی ھے‬

‫شبو بولی دیکھو مہرو شاہد بھی آپکی طرف‬


‫دیکھ کر ہنس رھے ھیں ضرور وہ تمہارے‬
‫نکاح کی بات کر رھے ھونگے اب تمہاری باری‬
‫ھے اور اب تیرے چاہنے والے بہت زیادہ ھیں‬
‫مہرو نے چٹکی کاٹتے ھوۓ بولی کہ کمینی‬
‫تم خود کانام بھی کیوں نہیں لیتی آپ کے‬
‫اوپر الئن نہیں مارتا وہ ہاہاہاہا بہت‬
‫اچھامذاق ھے کیونکہ‪  ‬ھم صرف چھیڑ چھاڑ‬
‫تک ھی رہتے ھیں اور تم تو ہروقت بھائی‬
‫بناکر اسکا ناک‪  ‬کھینچتی رہتی ھیں تمہیں‬
‫تو بہت شرارتیں سوجھتی ھیں اسے دیکھ‬
‫کر‬
‫سالی تم میرا منہ‪  ‬مت کھالواؤ آپ میری‬
‫بہن ھو پر تم مجھ سے ھی بہت جھوٹ‬
‫بولنے لگی ھو مہرو نے اسکا کان کھینچا اور‬
‫کہا کہ سارے مہمان بیٹھے ھیں رات کو‬
‫بتاؤنگی کہ تم کیا کررھو آج کل اور جھوٹ‬
‫بھی بہت بولنے لگی ھو تم بھال میں نے کب‬
‫جھوٹ بوال یار جو تم چڑ رھی ھو‬

‫ہاں تم تو بچی ھو تجھے تو کچھ معلو م‬


‫ھی‪  ‬نہیں میسنی چداۓ اور چارپائی نہ‬
‫ہالۓ‪  ‬وہ حساب ھے آپکا مہرو نے سوالیہ‬
‫انداز سے شبو سے کہا تو شبو بولی یار مہرو‬
‫کیا پہیلیاں بجھوا رھی ھو کھل کر بتاؤ ھوا‬
‫‪ ‬کیا ھے‬
‫نکاح کے پیکٹ تقسیم ھورھے تھے مہرو کے‬
‫بھائی فیصل کی ازواجی‪  ‬زندگی کا سفر اب‬
‫شروع ھو گیا تھا بہت ساری مشکالت اب‬
‫بھی باقی تھیں مگر رضوی صاحب آج بہت‬
‫خوش تھے وہ خوش گپیوں میں مصروف‬
‫تھے‬

‫ادھر مہرو اور شبو آمنے سامنے نشست جما‬


‫کر بیٹھی تھیںاور وہ بھی انہی خوش گپیوں‬
‫میں مصروف تھیں مہرو بولی چل شاباش‬
‫اب بتا مہندی والی رات تم کدھر تھی جب‬
‫میں امی کی بات سننے چلی گئ تھی شبو‬
‫بولی کہ ہاں یار اس رات جب فیصل کی‬
‫مہندی تھی اس دن شاہد نے مجھے سٹور‬
‫میں بالیا‪  ‬اسی کو بات‪  ‬سننے گئ تھی شبو‬
‫نے اپنی جھوٹی سی دلیل دی تو مہرو بولی‬
‫سالی اس رات تم نے بہت مزے کیساتھ‬
‫شاہد کو قینچی ماری ھوئی تھی اور وہ‬
‫تجھے تیری مرضی سے چود رہاتھا اور تیری‬
‫کمر بھی اچھل رھی تھی شبو بولی یار مہرو‬
‫تم نے کب دیکھا ھمیں اور مجھے تو بتایا‬
‫ھوتا اچھا خیر یار غصہ مت کرو میں بہک‬
‫‪ ‬گئ تھی‬

‫مجھ سے غلطی ھوگئ اب تم کسی اور سے‬


‫اس کا ذکرمت کرنا شبو نے التجائیہ لہجے‬
‫سے آ کر کہا مہرو سے کہا تو مہرو بناوٹی‬
‫غصہ دکھاتے ھوۓ کہنے لگی کہ مجھے تم پر‬
‫پہلے ھی شک تھا کہ آج تم نے دینی ھی دینی‬
‫ھے اچھا آپکو بھال کیسے پتہ تھا کہ میں‬
‫شاہد کو آج الزمی دونگی شبو نے مسکراتے‬
‫ھوۓ کہا مہرو تم نجومی ھو جو آپکو پتہ‬
‫چل گیا کہ آج میں نے دینی ھے‬

‫مہرو بولی تم جو بار بار شاہد کو اشارے کر‬


‫رھی تھی اور وہ بھی تم پر الئن مار رہا تھا‬
‫ساری دنیا مہندی میں انجواۓ کر رھے تھے‬
‫اور تم دونوں اپنے کام میں لگے ھوۓ تھے‬
‫شبو‪....‬ہاۓ میری جان بہت مزہ آیا اس رات‬
‫‪...‬کیا جادو تھا یار شاہد کے ہاتھوں میں‬

‫اچھا ایسا کیا ھے جو تمہارے شوہر نے تجھے‬


‫نہیں دیا اور تم ایک غیر مرد کے نیچے لیٹ‬
‫‪‎‎‬گئ‏‬

‫شبو بولی مہرو یار میاں کے بس کی بات‬


‫نہیں کہ مجھے شانت کرسکے بہت دنوں کے‬
‫بعد تن کا سکھ مال سچ پوچھو تو مجھے‬
‫ایسا لگا کہ میں نے پہلی بار کسی مرد کو دی‬
‫جیسے سہاگ رات کل ھی منائی میں نے‬
‫مہرو بولی‪  ‬کہ تم بھی پاگل ھو‬

‫مہرودیکھو شبو سارے مرد ھی تو ھوتے ھیں‬


‫اب اسمیں کیافرق ھوسکتا ھے مہرو اب‬
‫کھلنے لگی تھی اسے اب ان باتوں سے مزہ‬
‫آنے لگا تھا وہ کریدنے لگی تھی شبو بولی‬
‫پیار اور رومانس ایک آرٹ ھے دیکھو مہرو‬
‫ہرکوئی ایسے انجواۓ نہیں کرسکتا میرے‬
‫میاں بس اندر ڈالتے ھیں اور بس چودنے لگ‬
‫جاتے ھیں‪ .‬پیار کرنا اسکو نہیں آت اسی لئیے‬
‫آج رات شاہد نے ان لذتوں سے روشناس‬
‫کروادیا ‪...‬اچھا تو تم اب روز دو گی اس کو‬
‫مہرو نے سوالیہ انداز سے شبو کو کہا تو شبو‬
‫بولی ہاں اب اسکے ساتھ ریلشن بنانا چاھتی‬
‫ھوں شاہد دل کا بہت اچھا ھے‬

‫ی‪‎‬وہ تو تمہاری بھی لینا چاہتا ھے‬


‫‏ تم بھ ‪‎‬‬
‫اسکے ساتھ‪  ‬دوستی کرلو تو تجھے بہت مزہ‬
‫آۓ گا تجھے آپ بھی کرلو اس کیساتھ آپکو‬
‫بھی پتہ چل جاۓ کہ رومانس میں دھڑکنیں‬
‫کیسے بیتاب ھوتی ھیں‪....‬مہرو بولی میں‬
‫پاگل ھوں جو گندے کام کروں میں نے جب‬
‫سے تجھے اس رات کرتے دیکھا تھا میں بہت‬
‫ڈر گئ تھی اف اتنا موٹا اور لمبا تم نے لیا‬
‫کیسے اپنے اندر صرف تیرا ھی حوصلہ ھے‬

‫وہ دونوں یہ باتیں کر رہیں تھیں کہ رخصتی‬


‫کا موقع آ گیا علیشاہ اپنے باپ سے الوداعی‬
‫بوسہ لیکر چوہدری فیصل کی پراڈو گاڑی‬
‫میں بیٹھ گئ اور اسکے ساتھ شبو اور‬
‫دوسری طرف مہرو نساء بیٹھ گئ فیصل‬
‫صاحب‪  ‬فرنٹ سیٹ پر بیٹھے بہت پیارے لگ‬
‫رھے جی سہی سمجھے جناب آپ یہ دن ھوتا‬
‫ھی ایسا ھے کہ انسان اس دن بہت خوش‬
‫ھوتا ھے اور سب کی توجہ کا مرکز ھوتا ھے‬
‫رات کے تقریبا دس بجے تھے فیصل صاحب‬
‫کو میرج ہال کے گارڈ نے سیلوٹ مارا اور‬
‫ایک دبال پتال وردی نما شخص گاڑی روک کر‬
‫کھڑا ھوگیا فیصل نے ڈرائیور سے پوچھا‬
‫اسے کھانا نہیں مال جو یہ گاڑی روک کر‬
‫کھڑا ھو گیا ھے تو ڈرائیور بوال ہاہاہاہا نہیں‬
‫جناب یہ اپنا انعام مانگ رہا ھے آپکو اسے‬
‫کچھ پیسے دینے ھونگے اوہ اچھا فیصل نے‬
‫ہڑبڑاتے ھوۓ کہا‬

‫اس نے پراڈو کا سائیڈ شیشہ نیچے کیا اور‬


‫گارڈ سے بوال جی جناب کیا چاھئیے سرکار‬
‫ھمارا انعام چاھئیے ھمارا‪  ‬فیصل بوال ایک‬
‫بات تو بتا چاچا تو گارڈ بوال جی‬
‫‪..... ‬پوچھئیے‬

‫جاری ہے‪.....‬‬

‫ایک مکمل انٹرٹینمنٹ میری نئی کہانی جو‬


‫صرف وٹس ایپ پر حاصل کرسکیں گے‬
‫کیونکہ یہ کہانی اب مکمل کر دی گئی ھے‬
‫اسکے عالوہ‪  ‬اناڑی دولہا بھی چند دنوں بعد‬
‫اس گروپ میں شامل کی جائے گی انسیسٹ‬
‫کہانیوں کے پڑھنے والے اسکو وٹس ایپ پر‬
‫خرید کر پڑھ رہے ہیں‬
‫پڑھیں انسیسٹ کہانیاں سہاگن۔۔مالئیکہ کی‬
‫شرارتیں۔۔ہماکی شرارتیں۔۔ساگر کی بہنیں۔۔‬
‫پشتون گھوڑیاں۔۔شوہر کون۔۔بھٹکتے قدم۔۔‬
‫عاقب اور اسکی بہنیں۔۔بڑی حویلی کی بہو۔۔‬
‫بے شرم باپ۔۔سوتیلی۔۔۔گھرکا بھیدی۔۔۔‬
‫ساس کا داماد۔۔بیوی سے وفادار بہن۔۔فہد‬
‫اور مہرین۔۔خاندانی مستیاں۔۔۔سگہ بھائی۔۔۔‬
‫عروسہ بہن۔۔۔فرزانہ اور ریحانہ۔۔۔دو بھابھی‬
‫دو دیور۔۔۔کہاں کہاں سے گزر گیا۔۔ہمارے‬
‫برادر۔۔چاچی کمینی۔۔۔چاچی کا دیونہ۔۔۔سا‬
‫لیوں کی پینٹی۔ ۔۔۔ گونگی بہن۔۔۔اک گرم‬
‫فیملی۔۔شہوت زادی ۔۔۔۔‬

‫میرے پاس مختلف رائیٹرز کی لکھی ھوئی‬


‫انسیسٹ کہانیاں موجود ہیں جسے بیرون‬
‫‪ ‬اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‪#‬‬

‫صفحہ_‪#11‬‬

‫‪ ‬‬

‫گارڈ سے بوال فیصل بھالشادی تمہاری ھوئی‬


‫ھے یا پھر میری تو گارڈ ایک دم چوکس‬
‫ھوکر بوال جناب شادی تو آپکی ہی ھوئی ھے‬
‫تو پھر آپکو انعام کس بات کا دوں فیصل‬
‫کی بات سن کر گارڈ بے چارہ سو چ میں‬
‫پڑگیا فیصل کا ڈرائیور بوال جی او چوہدری‬
‫بڑے حاضر جواب ھو آپ گارڈ کو آپ نے‬
‫الجواب کر دیا‪  ‬ہاہاہاہا فیصل نے ایک زور دار‬
‫قہقہا لگایا اور بوال پہلے ھی سالے ویٹر نے‬
‫مجھ سے سارے کھلے پیسے بطور انعام لے‬
‫لئیے تھے اور اب یہ ساال گارڈ آن پہنچا‬

‫رضوی صاحب نے گارڈ کو چند نوٹ پکڑے تو‬


‫اس نے ہال کا گیٹ اوپن کر دیا گاڑی آزاد‬
‫کشمیر کے منگال روڑ پر دوڑ رھی تھی فیصل‬
‫اپنی دلہن کو سائیڈ شیشے سے دیکھ رہا تھا‬
‫علیشاہ گھونگھٹ ڈالے سر نیچے کرکے بیٹھی‬
‫ھوئی تھی اسے بہت شرم آ رھی تھی در‬
‫اصل‪  ‬علیشاہ کو معلوم تھا کہ فیصل اسے‬
‫دیکھ رہا ھے ڈرائیور نے کالسیکل میوزک‬
‫سونگ پلے کردیا خدا کرے کہ محبت میں یہ‬
‫مقام آۓ کسی کا نام لوں لب پر تمہارا نام‬
‫آۓ‬

‫اب ماحول مزید رومانٹک ھوگیا تھا فیصل‬


‫نے کہا مہرو‪  ‬جی بھائی جان تو فیصل بوال‬
‫اپنی بھابھی کو بولو کہ سامنے دیکھے‬
‫ایسانہ ھو کہ گردن تھک جاۓ اسکی ہی ہی‬
‫ہی ہی ھنستے ھوۓ اس نے کہا بھائی گھر‬
‫جاکر دیکھ لینا شبو بولی ابھی تو آپ نے‬
‫بھابھی کو منہ دکھائی بھی دینا ھے کوئی‬
‫‪ ‬انگھوٹھی یا سونے کا نیکلس دینا ھوتا ھے‬
‫دے دینگے جناب ویسے منہ تو ھم نے دیکھا‬
‫ھوا ھے جناب کا ابھی بھی تو دیکھ رھے‬
‫ھیں ڈرائیور نے گاڑی ایک ٹک شاپ پر روکی‬
‫تو فیصل نے اسے بوال جاؤ کچھ نمکو اور‬
‫کولڈ ڈرنک لے آؤ بھابھی کوک نہیں پیتی‬
‫مہرو نساء نے کہا تو ڈرائیو بوال کیوں بی بی‬
‫جی کوک تو بہت اچھی ھوتی ھے تو مہرو‬
‫بولی یہ یہودیوں کی مصنوعات ھم نے اپنے‬
‫طور پر بند کر رکھی ھیں آپ جاؤ ڈیو لے آؤ‬
‫یا مینگو‪  ‬کی لے آؤ‬

‫ڈرائیور نے کولڈ ڈرنک دلہن کو پیش کی تو‬


‫اس نے گھونگھٹ سے اپنا چاند سا مکھڑا‬
‫نکاال اور ایک سپ لیا اور فیصل کی طرف‬
‫دیکھنے لگی فیصل بوال دیکھ رو رو کر اپنا‬
‫کیا حال کرلیا ھے اب خوش ھو جاؤ اپنی‬
‫خالہ کے گھر ھی آئی ھو‬

‫ہاہاہاہا چوہدری صاحب سب لڑکیاں روتی‬


‫ھیں اپنے ماں باپ کی جدائی کو برداشت‬
‫نہیں کر سکتیں نہ اس لئیے روتی ھیں‪....‬‬
‫فیصل اچھا میں سمجھا کہ مجھ‪  ‬جیسے‬
‫نکمے سے شادی کر کے پچھتا رھی ھیں‬
‫ے‪‎‬ہاہاہاہاہا واہ نہیں بھائی ایسی‏‬
‫بات نہیں ھ ‪‎‬‬
‫بھابھی جان اپنی ماں باپ کو مس کر رہیں‬
‫‪...‬تھیں اس لئیے رو رہیں تھیں‬

‫علیشاہ سہاگ کی سیج پر بیٹھی تھی سرخ‬


‫لہنگا اور لبوں پر سرخی پلکیں جھکا کر‬
‫گھونگھٹ گرا کر بیڈ پر بیٹھی تھی گاؤں‬
‫کی عورتیں اس نئ نویلی دلہن کو دیکھنے آ‬
‫رھی تھیں مہرو اور شبو بھی علیشاہ‬
‫کیساتھ بیٹھیں تھیں بہت خوبصورت ھے‬
‫شاالنظر نہ لگے علیشاہ گاؤں کی عورتوں کی‬
‫باتیں سن سن کر لطف اندوز ھو رھی تھی‬

‫گاؤں کی سب عورتیں علیشاہ کی تعریف کر‬


‫رھی تھیں کہ لڑکی بہت زیادہ معصوم ھے‬
‫کوئی اسے چاند کا ٹکڑا کہتی تو کوئی اسے‬
‫برفی کی ڈھیلی کہتی سب عورتوں کو‬
‫چوہدری فیصل کی قسمت پر رشک ھو رہا‬
‫تھا باہرکھڑا فیصل گاؤں کی عورتوں کے منہ‬
‫سے اپنی تعریف سن کر بہت خوش تھا‬
‫مگراسکی خوشی اس وقت رفو چکر ھو گئ‬
‫جب اس نے مائی نوری کواپنی گلی کی‬
‫طرف آتے دیکھا تو اسکو معلوم تھا کہ نوری‬
‫نے سب الٹا ھی تو بولنا ھے‬

‫مائی نوری کا تعلق پنجاب سے تھا اور مادری‬


‫زبان پنجابی تھی اسکا خاندان منگال کے‬
‫عالقے میں آباد ھوۓ کافی عرصہ ھوگیا‬
‫تھاجیسا کہ اوپر بتایا گیا کہ شبوکی ماں‬
‫نوری کی بالکل بھی نہیں بنتی تھی مائی‬
‫‪ ‬نوری کیساتھ‬

‫نوری نے آتے ھی کہا چوہدری صاحب کیا ھوا‬


‫باہر کھڑے ھو دلہن نے باہرنکال دیا یا آج‬
‫رات کا پریشر لے رھے ھو تیری ماں دی پھدی‬
‫نوری بوری بکواس کرنے آ گئ چوہدری نے بڑ‬
‫بڑاتے ھوۓ ایک بڑی سی گالی نکالی اور‬
‫پاس آتی ھوئی نوری کو بوال خالہ میں کسی‬
‫رات سے پریشر کیوں لوں وہ میری خالہ زاد‬
‫ھے کوئی چڑیل تو نہیں ھے جو کھا جائیگی‬
‫فیصل کا غصہ دیکھ کر نوری بولی یہی امید‬
‫تھی بیٹا تم سے تم نہ سچ میں گالبو‬
‫کھسرے پر ھی گئے ھو خالہ وہ تو ناچتا ھے‬
‫میں کب ڈانس کرتا ھوں میں نے دو تین دن‬
‫پہلے بھی آپ سے کہا تھا کہ تم‪  ‬میری شادی‬
‫پر ڈانس کروگی نورئیے پر تم چکن کھانے آ‬
‫ئی تھی اور ہماری خوشیوں میں شامل ھونے‬
‫نہیں آئی نوری جل بجھ کر بولی حرامی میں‬
‫شوگر کی مریض ھوں زیادہ کھا نہیں‬
‫سکتی‪  ‬تم بال وجہ الزام دے رھے‬
‫نوری اندر چلی گئ اور علیشاہ کو دیکھ کر‬
‫بولی اوہ ماں صدقے اپنی بہوں پر قربان‬
‫شاال نظر نہ لگے میں اپ چاند کا ٹوٹا ھی ھے‬
‫ھماری عالی نوری کی بات سن کر شبو بولی‬
‫ماں قسمت بھی چاند جیسی ھو تو پھر مزا‬
‫ج بھی چاند جیسا ھی ھے‬

‫نوری بیگم رضوی کے پاس بیٹھ گئ اور‬


‫بولی بیگم صاحبہ مجھے تو بس ایک ھی فکر‬
‫کھاۓ جارھی ھے وہ کونسی فکر نورئیے تو‬
‫چولہے پر بیٹھی چاۓ بناتے ھوۓ بیگم‬
‫رضوی نے پریشان ھوتے ھوۓ کہا ایسی کیا‬
‫بات ھے نورئ تو اس کو تو کچھ بھی معلوم‪ ‬‬
‫‪ .......‬نہیں سہاگ رات کیا ھوتی ھے‬
‫جاری ہے‪....‬‬

‫ایک مکمل انٹرٹینمنٹ میری نئی کہانی جو‬


‫صرف وٹس ایپ پر حاصل کرسکیں گے‬
‫کیونکہ یہ کہانی اب مکمل کر دی گئی ھے‬
‫اسکے عالوہ‪  ‬اناڑی دولہا بھی چند دنوں بعد‬
‫اس گروپ میں شامل کی جائے گی انسیسٹ‬
‫کہانیوں کے پڑھنے والے اسکو وٹس ایپ پر‬
‫خرید کر پڑھ رہے ہیں‬

‫پڑھیں انسیسٹ کہانیاں سہاگن۔۔مالئیکہ کی‬


‫شرارتیں۔۔ہماکی شرارتیں۔۔ساگر کی بہنیں۔۔‬
‫پشتون گھوڑیاں۔۔شوہر کون۔۔بھٹکتے قدم۔۔‬
‫عاقب اور اسکی بہنیں۔۔بڑی حویلی کی بہو۔۔‬
‫بے شرم باپ۔۔سوتیلی۔۔۔گھرکا بھیدی۔۔۔‬
‫ساس کا داماد۔۔بیوی سے وفادار بہن۔۔فہد‬
‫اور مہرین۔۔خاندانی مستیاں۔۔۔سگہ بھائی۔۔۔‬
‫عروسہ بہن۔۔۔فرزانہ اور ریحانہ۔۔۔دو بھابھی‬
‫دو دیور۔۔۔کہاں کہاں سے گزر گیا۔۔ہمارے‬
‫برادر۔۔چاچی کمینی۔۔۔چاچی کا دیونہ۔۔۔سا‬
‫لیوں کی پینٹی۔ ۔۔۔ گونگی بہن۔۔۔اک گرم‬
‫فیملی۔۔شہوت زادی ۔۔۔۔‬

‫میرے پاس مختلف رائیٹرز کی لکھی ھوئی‬


‫انسیسٹ کہانیاں موجود ہیں جسے بیرون‬
‫ملک پاکستانی بھی پڑھ رہے ہیں اور اپنی‬
‫من پسند کہانیاں بھی لکھوا سکتے ھیں اور‬
‫‪ ‬اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‪#‬‬

‫صفحہ_‪#12‬‬

‫‪ ‬‬

‫بیگم صاحبہ میں تو اس وجہ سے پریشان‬


‫ھوں کے پتہ نہیں فیصل کو سہاگ رات کا‬
‫کچھ معلوم بھی ھے کہ نہیں نوری نے‬
‫کریدتے ھوۓ کہا تو فیصل کی ماں بولی‬
‫نوری آپا سہاگ رات کا پتہ بھی چل جاۓ گا‬
‫ابھی تو مہمان ھیں کافی سارے جب سارے‬
‫مہمان چلے جائینگے تو پھر دیکھ لیں گے‬

‫ہاۓ ہاۓ ولیمہ حالل نئیں کرنا نوراں بولی تو‬


‫فیصل کی ماں بولی نور آپکو پتہ ھے جب‬
‫طوفان آتا ھے نہ تو اونچے درختوں کے پتے‬
‫اور نیچے پڑے گلیوں کے تنکے جپھیاں ڈال‬
‫لیتے ھیں جب دونوں کا دل مل جاۓ گا تو ہو‬
‫جاۓ گا ولیمہ حالل آپ اس بات کی فکر نہ‬
‫‪‎  ‎‬ھی کریں‬

‫ولیمے کا دن تھی مہمانوں کی ایک طویل‬


‫فہرست بنائی گئ تھی اور فیصل رضوی کے‬
‫سارے کے سارے مہمان ہال میں موجو د تھے‬
‫بہت ساری لذیز ڈشز بنائی گئ تھی لوجئی‬
‫اج سیدا کھیڑا وی گھر واال ھو گیا اے‬
‫فیصل کے ماموں نے مذاق اڑاتے ھوۓ کہا تو‬
‫اس کے سارے کزن ہنسنے لگے تو اسکے‬
‫ماموں نے کہا بیٹا ایک بات تو بتاؤ جی‬
‫ماموں جی پوچھو‬

‫جی ماموں بولے بیٹے آج ولیمہ ھے یہ تو بتاؤ‬


‫کہ بلی ماری کہ نہیں ہاہاہاہا سارے لوگ‬
‫ہنسنے لگے تو فیصل بوال کہ سمجھا نہیں‬
‫ماموں جی بھال میں بلی کیوں ماروں گا‬
‫بھال اس کا کیا قصور معصوم فیصل نے‬
‫جواب دیا اب بھال سیکس کے کوڈ ورلڈ اسے‬
‫کیا معلوم ماموں بولے لوجی کرلو گل آہ‬
‫تیری کھوتیا تجھے تو پتہ ھی نہیں اب کیا‬
‫کریں‬

‫چل یہ بتا کہ ولیمہ حالل کیتاای یا نئیں تو‬


‫وہ پھر حیران ھوتے ھوۓ بوال کہ ماموں جی‬
‫سب حال ل چیزیں بنائی ھیں حرام تو انگریز‬
‫کھاتے ھیں اوہ تیری ہاۓ میرے ربا اب اسکو‬
‫یہ بھی بتانا پڑیگا ماموں نے سوچا تو پھر‬
‫کہنے لگےبیٹا تجھے کچھ معلوم نہیں آپ‬
‫بہت بھولے ھو میرا چن آپ ایسا کرو کسی‬
‫دوست سے پوچھ لینا اور آج رات ھی بلی‬
‫پکڑلینا آج سارے مہمان چلے جائینگے تو آج‬
‫اپنا کام کرلینا بچہ‬
‫فیصل سٹیج پر بیٹھا سب سن رہاتھا سارے‬
‫اسکے دوست پنڈال میں صوفوں پر براجمان‬
‫تھے ویٹر کھانا لگارھے تھے ولیمے کی‬
‫تیاریاں اپنے عروج پر تھیں اور ہرطرف چہ‬
‫مگوئیاں جاری تھیں سارے کہہ رھے تھے کہ‬
‫چوہدری پر یہ دلہن بہت بھاری رھے گی‬
‫سیدھابندہ بھی نہ ھو کوئی‬

‫چونکہ سب اپنے ھی مہمان تھے اس لئیے‬


‫مردوں اور عورتوں کی گیدرنگ یعنی سیٹنگ‬
‫ایک ھی جگہ پر لگائی گئ تھی سارے‬
‫مہمان‪  ‬کھانا کھارھے تھے کھانے کی مین‬
‫ڈش کشمیری بکرے کا گوشت تھا جس کی‬
‫خاصیت ایک کم چربی واال گوشت ھے لوگ‬
‫پہاڑی بکرے کا گوشت بہت شوق سے کھاتے‬
‫ھیں اسمیں چربی بہت کم ھوتی ھے فیصل‬
‫کو بھی یہ بہت پسند تھا اس نے خوب ہاتھ‬
‫صاف کئیے تھے اور سیر ھوکر کھایا تھا‬

‫دوسری طرف علیشاہ کو بھی اسکی شاطر‬


‫سہیلیاں چھیڑ رھی تھیں کہ رات کو کریم‬
‫رول کھایا کہ نہیں تو علیشاہ بے چاری ایک‬
‫گھریلو سگھڑ کشمیری چھوری تھی اسے ان‬
‫چیزوں کا بھال کدھر پتہ تھاوہ شرما کر ہاں‬
‫ہاں بولتی رھی اور سب چسکے خور عورتیں‬
‫اس سے جو بھی پوچھ رھی تھیں وہ اسکا‬
‫جواب ہاں میں دیتی گئ اور چہ مگوئیاں‬
‫کرنے والی اب سمجھ گئیں کہ فیصل‬
‫چوہدری نے خوب باجا بجایا ھوگا علیشاہ‬
‫جیسی خوبرو دلہن کا جو اسکی آواز نہیں‬
‫نکل رھی تھی‬

‫ولیمے میں اب لڑکی کے گھروالوں کے مہمان‬


‫آنا شروع ھوگئے تھے ویٹرز اب انکو سروس‬
‫فراہم کر رھے تھے اسی لئیے علیشاہ کیساتھ‬
‫بیٹھی شبو اور الل مرچی مہرو نساء اٹھ‪ ‬‬
‫کر گیدرنگ میں بیٹھ گئیں چوہدری فیصل‬
‫آئسکریم کھارھے تھے اسکے ساتھ اسکا‬
‫دوست نوابزادہ شاہد بیٹھا ھوا تھا جس کی‬
‫نظریں صرف شبو عرف شبنم کو تالش کر‬
‫رھی تھیں‬
‫شبنم جس طرف بیٹھی تھی وہ سائیڈ پر‬
‫مہرو اسکے سامنے تھی اور شاہد کی طرف‬
‫اسکی کمر تھی الل مرچی مہرو نے یہ بات‬
‫نوٹ کرلی تھی وہ شبو کو بولی شبو تیرا‬
‫عاشق تجھے ڈھونڈ رہا ھے جاؤ واش روم‬
‫جاکر سالم دعا کر آؤ اسکے ساتھ‬

‫شبو نے مسکراتے ھوۓ کہا شاہد سٹیج پر‬


‫بیٹھا ھے میں نے اسی لئیے تو اسکی طرف‬
‫منہ نہیں کیا ورنہ اس نے آج پھر مجھے‬
‫چھیڑنا تھا مہرو بولی کیا بات ھے کمینی‪ ‬‬
‫بہت چالو ھے تو بس آ گ برابر لگی ھوئی‬
‫ھے‪  ‬کولڈ ڈرنک اپنے اندر انڈیل کر بڑے انداز‬
‫سے شبو بولی کیا بتاؤں یار لنڈ کا نشہ ھی‬
‫ایسا ھے تجھے لگا نہیں اسی لئیے تم کو‬
‫شاید اندازہ نہیں ھے‪ ...‬مہرو مطلب اب تم‬
‫ایک بار پھر دو گی شاہد کو تو وہ بولی اب‬
‫یہ قربت بہت دیر تک چلے گی کل رات یا پھر‬
‫پرسوں رات شاہد کو اپنے گھر بالؤں گی بس‬
‫پھر موجیں ھی موجیں‬

‫مہرو نے شبو کو ڈانٹتے ھوۓ کہا کہ ایسا نہ‬


‫ھو آپکا میاں تم دونوں کو پکڑ لے اور پھر‬
‫ایک پراۓ لنڈ کے چکر میں تم خوار ھو جاؤ‬
‫شبو بولی جوقسمت میں ھوگا مل جاۓ گا‬
‫فی الحال تو بس مزے لو دونوں سہیلیاں‬
‫گپ شپ کر رھی تھیں دوسری طرف شاہد‬
‫نے کولڈ ڈرنک پیتے ھوۓ شاہد نے مہرو کو‬
‫اشارہ کیا کہ کولڈ ڈرنک پیوگی تو اس نے‬
‫غصے سے شاہد کو مکا دکھایا اور کہا کہ‬
‫چداکڑ تیری رکھیل ادھر بیٹھی ھے‬

‫شاہد مہرو کو چھیڑ کر بہت لطف اندوز ھوتا‬


‫تھا اسکو مزہ آتا تھا مہرو کو چھیڑکر بیشک‬
‫مہرو نے اسے ابھی نہیں دی تھی پر مہرو‬
‫نساء کی چوت مارنے کا خواب بہت دیر سے‬
‫اس نے اپنی آنکھوں میں سجایا ھوا تھا‬
‫مہرو اب بھی شاہد کی طرف دیکھ رھی‬
‫تھی شاہد نے اسے آنکھ ماری تو مہرو نے‬
‫زبان نکال کر اسے چڑایا اور اسے میسج کر‬
‫دیا کہ کیا بات ھے سب دیکھ رھے ھیں کچھ‬
‫شرم کرو تو شاہد نے جوابی میسج کیا کہ‬
‫ھم واش روم چلے جاتے ھیں‬
‫مہرو واش روم میں کیا کرنا ھے تو شاہد نے‪ ‬‬
‫میسج کیا کہ دے دو نہ یار تھوڑی سی مہرو‬
‫شاہد کا میسج پڑھ کر مسکرانے لگی تو شبو‬
‫اسے بولی کس کا میسج ھے بہت ہنسی آ‬
‫رھی ھے مہرو نے کہا یار سمیر ھے وہ دیکھو‬
‫‪ ‬وہی تنگ کر رہا ھے تو شبو بولی بے‬

‫چارے کو کل والی بات کا بہت غصہ ھے اسے‬


‫موقع مت دینا مہرو نے جوابی میسج کیا کہ‬
‫کیا لینا ھے کولڈ ڈرنک‪  ‬شاہد ہاہاہاہاہا نہیں‬
‫میڈم آپکی چوت لینی ھے جو سات پردوں‬
‫میں چھپا کر رکھی ھوئی ھے‪..‬مہرو بولی‬
‫میں تو نہیں دوں گی شاہد کا پھر میسج آیا‬
‫کہ دے دو آپ نے کونسا اچار ڈالنا ھے اس کا‬
‫تو مہرو نے کہا پاگل اسکا اچارکون ڈالتاھے‬
‫تم الٹی باتیں ھی کرتے ھو شاہد ہنسنے لگا‬

‫شبو نے کہا مہرو فیصل بھائی سہاگ رات‬


‫کیسے منائینگے ان کو تو کچھ بھی معلوم‬
‫‪........‬نہیں ھے‬

‫جاری ہے‪.......‬‬

‫ایک مکمل انٹرٹینمنٹ میری نئی کہانی جو‬


‫صرف وٹس ایپ پر حاصل کرسکیں گے‬
‫کیونکہ یہ کہانی اب مکمل کر دی گئی ھے‬
‫اسکے عالوہ‪  ‬اناڑی دولہا بھی چند دنوں بعد‬
‫اس گروپ میں شامل کی جائے گی انسیسٹ‬
‫کہانیوں کے پڑھنے والے اسکو وٹس ایپ پر‬
‫خرید کر پڑھ رہے ہیں‬

‫پڑھیں انسیسٹ کہانیاں سہاگن۔۔مالئیکہ کی‬


‫شرارتیں۔۔ہماکی شرارتیں۔۔ساگر کی بہنیں۔۔‬
‫پشتون گھوڑیاں۔۔شوہر کون۔۔بھٹکتے قدم۔۔‬
‫عاقب اور اسکی بہنیں۔۔بڑی حویلی کی بہو۔۔‬
‫بے شرم باپ۔۔سوتیلی۔۔۔گھرکا بھیدی۔۔۔‬
‫ساس کا داماد۔۔بیوی سے وفادار بہن۔۔فہد‬
‫اور مہرین۔۔خاندانی مستیاں۔۔۔سگہ بھائی۔۔۔‬
‫عروسہ بہن۔۔۔فرزانہ اور ریحانہ۔۔۔دو بھابھی‬
‫دو دیور۔۔۔کہاں کہاں سے گزر گیا۔۔ہمارے‬
‫برادر۔۔چاچی کمینی۔۔۔چاچی کا دیونہ۔۔۔سا‬
‫لیوں کی پینٹی۔ ۔۔۔ گونگی بہن۔۔۔اک گرم‬
‫فیملی۔۔شہوت زادی ۔۔۔۔‬
‫‪ ‬اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‪#‬‬

‫صفحہ_‪#13‬‬

‫رائیٹر_نوابزادہ_شاہد‪#‬‬

‫شبو نے کہا یار مہرو رات کو سہاگ رات‬


‫منائی فیصل بھیا نے کہ‪  ‬نہیں تو مہرو کہنے‬
‫لگی رات کو بہت مہمان تھے اسی لئیے یہ‬
‫دونوں اکٹھے نہیں ھوسکے مہرو میری‪  ‬جان‬
‫فیصل بھیا بھال کیا کرینگے سیدھے سادھے‬
‫تو ھیں ان کو کیا معلوم سہاگ رات کا اور‬
‫ایک عام رات کا فرق کیا ھوتا ھے‬

‫ہاں شبو کہہ تو تم ٹھیک رھی ھو اب انکا‬


‫کوئی بھائی ھوتا تو سب کچھ سکھا دیتا‬
‫مہرو وارفتگی سے بولی‪  ‬تو شبو بولی تم‬
‫سکھا دو نہ اسے تم اپنے دونوں رشتے نبھاؤ‬
‫اپنی بھائی کی بہن اور بھائی دونوں بن جاؤ‬
‫تو مہرو بولی کمینی ہماری سوسائٹی میں یہ‬
‫سب آسان نہیں ھےیہ ساال اسے کیوں نہیں‬
‫سکھاتا مہرو نے شاہد کی طرف اشارہ کرکے‬
‫کہا جو فیصل کیساتھ بیٹھ کر آئسکریم کھا‬
‫رہا تھا باقی مہمان بھی کھانے سے فارغ‬
‫ھوگئے تھےاور الوداعی سالم دعا کی بعد‬
‫رخصت ھونا شرو ع ھوگئے‬
‫‪ ‬‬

‫ادھر دو سہیلیاں اپنی ھی گپ شپ کر رھی‬


‫تھیں مہرو کا دل بھی کر رہا تھا کہ وہ کسی‬
‫کیساتھ رومانس کرے مگر وہ ڈرتی تھی وہ‬
‫شبو سے بولی شاہد بھال کیوں نہیں سکھاتا‬
‫فیصل بھائی کو سب کچھ تو شبو بولی‬
‫مہرو آپکو شاہد کم لگتا ھے پورا لونڈا اور‪ ‬‬
‫ٹھرکی انسان ھے مہرو ہاں ہاں اس دن تو تم‬
‫‪ ‬بھی شبو کیا ہاہاہاہا مہرو‬

‫اس نے الزمی فیصل کو بتایا ھوگا مگر اسے‪ ‬‬


‫یہ سب کرکے دکھانا ھوگا تب جاکر اسے پتہ‬
‫چلے گا مہرو‪  ‬میں تو کہتی ھوں آج رات تم‬
‫اور شاہد کرو فیصل کے سامنے تاکہ اسے‬
‫بھی پتہ چل جاۓ عورت کے اندر کیسے ڈاال‬
‫جاتا ھے شبو سبز چاۓ پی رہی تھی چاۓ‬
‫اس کے ناک کو چڑھ گئی وہ جھٹ سے بولی‬
‫واؤ کیا بات کہی تم نے مجھے مروانے کی‬
‫پوری پالننگ کر رہی ھو تم‬

‫مطلب تم سب کو میں ھی سکھاؤں اور‪ ‬‬


‫فیصل مجھے بدنام کردے بھائی مجھ سے‬
‫نہیں ھوگا اس دن تم نے ہمارا شو دیکھا تھا‬
‫اب تم بچی نہیں رھی تم ھی سکھاؤ اپنے‬
‫بھائی ادھر دو سہیلیاں اپنی ھی گپ شپ کر‬
‫رھی تھیں مہرو کا دل بھی کر رہا تھا کہ وہ‬
‫کسی کیساتھ رومانس کرے مگر وہ ڈرتی‬
‫تھی وہ شبو سے بولی شاہد بھال کیوں نہیں‬
‫سکھاتا فیصل بھائی کو سب کچھ تو‬

‫شبو بولی مہرو آپکو شاہد کم لگتا ھے پورا‪ ‬‬


‫ٹھرکی انسان ھے تم ٹینشن مت لو اس نے‬
‫‪ ‬الزمی فیصل کو بتایا ھوگا‬

‫مہرو بولی میں بھال کیسے سکھاؤں تو شبو‬


‫نے کہا پھر شاہد کو بالؤ اور وہ کرکے بتادے‬
‫گا اور فیصل سیکھ جاۓ گا مہرو مطلب‬
‫شاہد بھابھی علیشاہ کی سیل توڑے گا اور‬
‫فیصل کو پھر اسکی طرف دیکھ کر شہوت‬
‫آئیگی اور وہ سب سیکھ جاۓ گاشبو بولی‬
‫ہاں صیح سمجھی آپ اس نے ایک کپ سبز‬
‫چاۓ کا مہرو کی طرف بڑھا دیا اور بولی‬
‫اس دن چاچارضوی سے بھال تم نے کیا کہا‬
‫تھا بارات والے دن شبو بولی یاد ھے کہ نہیں‬
‫تو مہرو چاۓ کے بڑے سے سپ لیتی ھوئی‬
‫‪ ‬بولی یاد نہیں تم بتاؤ‬

‫شبو‪..‬اس دن تم نے کہا تھا کہ پندرہ دن کا‬


‫چارج مجھے دے دومیں سب کچھ ٹھیک‬
‫کردوں گی‪...‬مہرو بولی ہاں کہا تو تھا ابو نے‬
‫بوال میری بچی آپ جو چاہوکرو مگر اس‬
‫بدھو کو سمجھاؤ ‪.....‬شبو بولی بس اسی‬
‫پاور کا درست استعمال کرو اور شاہد سے‬
‫کروادو‪  ‬اس اناڑی کو ٹرینڈ تو مہرو بولی‬
‫اگر علیشاہ نہ مانی تو پھر کیاکرینگے شبو تو‬
‫پھر تم کر لینا شاہد کیساتھ ویسے بھی وہ‬
‫تجھے چودنا چاہتاھے کمینی تجھے تو بس‬
‫گندی باتیں ھی آتی ھیں میری سیل توڑے‬
‫دے گا وہ اپنے گھوڑے جیسے لنڈ سے پھاڑ‬
‫دے گا میری تم تو اس دن سارا لے کر‬
‫انجواۓ کر رھی تھی پر میں تو مر جاؤنگی‬

‫شبو نے کہا کبھی سنا ھے تم نے کہ اس طرح‬


‫کوئی لڑکی مری ھے بس ہلکا سادرد ھوتاھے‬
‫پھر دوسرے‪  ‬ٹرپ‪  ‬میں لڑکی خود انجواۓ‬
‫کرتی ھے اب تو پین ریلیز کریم بھی مارکیٹ‬
‫میں موجود ھے جسے لگا کر اس درد سے بچا‬
‫جا سکتا ھے اور پھر مزہ لیا جاسکتاھے تو‬
‫مہرو آپکو سوچنا پڑے گا ورنہ بہت بدنامی‬
‫ھوگی ھم سب کی مہرو بولی کہہ تو آپ‬
‫ٹھیک رھی ھو‏فیصل کا ولیمہ شروع ھو گیا‬
‫تھا‬

‫شاہد سناؤ فیصل بھائی پھر سہاگ رات‬


‫منائی کہ نہیں کہ‪  ‬لوگ بس دعوت ھی کھا‬
‫کرگئے ھیں فیصل بوال شاہد یار مجھے اسکا‬
‫پتانہیں کیسے کرتے ھیں بھائی آج ماموں‬
‫بھی یہی پوچھ رھے تھے شاہدکیاپوچھ رھے‬
‫تھے ماموں تو فیصل بوال یار ماموں کہہ‬
‫رھے تھے کہ تم نے بلی پکڑی کۂ نہیں اب تم‬
‫ھی بتاؤ شادی پر بلی کا کیا قصور وہ بے‬
‫چاری بھی تو گوشت ادھر سے ھی کھائیگی‬
‫اسے پکڑ کر مارنے کا کیا فائدہ نوری بھی تو‬
‫فری میں کھا کر چلی گئ ھے بلی کھا جاۓ‬
‫گی تو پھر کیا ھوا‬
‫شاہد ہاہاہاہا کھوتیا بلی وہ نہیں جو تم‬
‫سمجھ رھے ھو پاگل وہ کہہ رھے تھے کہ تم‬
‫نے اپنی بیوی علیشاہ کی چوت ماری کہ‬
‫نہیں اسکے ساتھ پیار کیا یا نہیں تو فیصل‬
‫بوال یار چوت کیسے مارتے ھیں مجھے تو‬
‫بہت شرم آتی ھے علیشاہ سے میں تو رات کو‬
‫اسکے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے سے بھی‬
‫شرما رہا تھا‬

‫‏‏‬

‫رات کو ھم نے کھانا کھایا تھا مل کر تب‬


‫مہرو بہن کہہ رھی تھی کہ فیصل آج رات‬
‫تم باہر ھی سو جانا گھرمیں مہمان بہت‬
‫زیادہ ھیں تو میں پھر باہر ھی سو گیا آدھی‬
‫رات کو جب میں نے دیکھا مہرو اور علیشاہ‬
‫بے سدھ ھوکر لیٹی ھوئی ھیں تو ان کا ننگا‬
‫پیٹ دیکھ کر بہت مزہ آیا مجھے‬

‫شاہد بوال تم نے پہلے کس کا پیٹ دیکھا تھا‬


‫تو فیصل بوال جناب میں نے تو مہرو کا گورا‬
‫سے ھی دیکھا مگر کی ‪‎‬ا‪‎‬پیٹ دیکھا تھادور‬
‫ساری لڑکیوں کی چوت اور پیٹ سفید ھے‬
‫ھوتا ھے تو شاہد بوال جی ہاں لڑکیاں اکثر‬
‫گوری ھی ھوتی ہیں‬

‫شاہد نے چسکے لیتے ھوۓ کہابتاؤ کہ مہرو‬


‫کا پیٹ گورا ھے یا پھرعلیشاہ بھابھی کا تو‬
‫فیصل سوچتے ھوۓ بوال مہرو بہن کا پیٹ‬
‫گورا تھا اسکی ناف کیساتھ چھوٹا سا تل‬
‫تھا جو بہت اچھا لگ رہا تھا مگر علیشاہ کا‬
‫تو میں نے ابھی نئیں دیکھا‬

‫مہرو کا گورا پیٹ اور ناف کیساتھ کاال تل‬


‫شاہد کا لنڈ اسکی پینٹ میں پورا تن گیا تو‬
‫اسکے محبوبہ کا ذکر ھورہا تھا اور وہ بھی‬
‫بہت پیارسے ھورہا تھا وہ سامنے بیٹھی‬
‫مہرو کو دیکھ کر سوچنے لگا کہ شبو نے‬
‫اپنی چوت پلیٹ میں رکھ کر پیش کر دی‬
‫تھی مگر مہرو ایک اتھری گھوڑی ھے اسے پر‬
‫بڑی محنت سے سواری کرنا پڑیگی‬
‫فیصل۔۔۔مہرو چائے ملیگی مہرو کچن میں‪ ‬‬
‫موجود تھی علیشاہ شرما کر اپنے روم میں‬
‫چلی گئی‪  ‬مہرو اپنے بھائی سے بولی کہ‬
‫بھائی آج کی رات آپ دونوں کی زندگی کی‬
‫بڑی سپیشل رات ھے جسے سہاگ رات کہتے‬
‫ھیں اور آپ بھابھی کیساتھ سہاگ رات‬
‫منائینگے آجاؤ اندر اور بھابھی کو پیار کرنا‬
‫سکھاؤ۔۔۔۔فیصل بوال مجھے‪  ‬بہت شرم‬
‫محسوس ھوتی ھے تم بھی اندر او نہ میں‬
‫‪ ‬اکیلے یہ سب کیسے کر پاوں گا‬

‫مہرو اس کے ناک پر چٹکی کاٹتے ھوئے بولی‬


‫دنیا کے سارے مرد اس رات سب کچھ اکیلے‬
‫ہی کرتے ہیں تم بھی بھابھی کو سہاگ کی‬
‫سیج پر لے جا کر پیار کرو مہرو وہ ماموں‬
‫اور شاہد بھال کیا کہہ رہے تھے مہرو چائے‬
‫بناتے ھوئے بولی جی کیا کہہ رہے تھے تو وہ‬
‫بوال کہ شاہد کہہ رہا تھا کہ میں اج رات‬
‫جاگتا رہوں شادی کی پہلی رات ایک مور‬
‫دولہے کے روم میں اتا ھے جو اسے دیکھ لے‬
‫وہ قسمت واال ھوتا ھے مہرو فیصل کی‬
‫بونگی باتیں سن کر ہنسنے لگی اور فیصل کو‬
‫کچن میں سٹول پر بیٹھنے کو کہا وہ اپنی‬
‫باجی کے سامنے حیرت زدہ ھو کر بیٹھ گیا‬
‫‪ ‬اور اسکا منہ دیکھنے لگا‬

‫مہرو بولی بھائی کوئی مور شور نہیں انا‬


‫بس ایسے ہی بکواس ھے تم ھوگے اور‬
‫تمہاری بیوی ھوگی مور کی ماں کی سری‬
‫اس کا کیا کام ھے اس مبارک رات میں‬
‫فیصل تو پھر وہ کیوں بول رہے تھے یہ سب‬
‫مہرو بولی بھائی وہ سب مذاق کر رہے تھے‬
‫تمہارے ساتھ کہ تم ‪.......‬سو مت جانا اور‬
‫اپنا کام کر لینا‬

‫جاری ہے‪.....‬‬

‫ایک مکمل انٹرٹینمنٹ میری نئی کہانی جو‬


‫صرف وٹس ایپ پر حاصل کرسکیں گے‬
‫کیونکہ یہ کہانی اب مکمل کر دی گئی ھے‬
‫اسکے عالوہ‪  ‬اناڑی دولہا بھی چند دنوں بعد‬
‫اس گروپ میں شامل کی جائے گی انسیسٹ‬
‫کہانیوں کے پڑھنے والے اسکو وٹس ایپ پر‬
‫خرید کر پڑھ رہے ہیں‬
‫‪ ‬اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‪#‬‬

‫صفحہ_‪#14‬‬

‫‪ ‬‬

‫فیصل بھائی آپ رکو آپ بعد میں آنا اور‬


‫میں پہلے اندر جاتی ھوں پھر آپ آجانا تو‬
‫فیصل بوال اچھا ٹھیک ھے فیصل اپنی ماں‬
‫کیساتھ گپ شپ کرنے لگ جاتا ھے اور‬
‫علیشاہ کو کمپنی دینے مہرو اسکے روم میں‬
‫چلی جاتی ھے‬

‫علیشاہ نے بلیک شارٹ شرٹ اور سفید شلوار‬


‫پہن رکھی تھی پاؤں میں پائل اور گورے‬
‫گورے ہاتھوں کی کالئیوں میں سرخ رنگ کی‬
‫سہاگ رات کی سر خ چوڑیاں پہن کر وہ‬
‫لیٹی ھوئی تھی ایک پری سی لگ رھی تھی‬
‫جسے دیکھیں تو شاید پھول اور کلیاں بھی‬
‫شرما جائیں مخملی مخروطی نرو نازک‬
‫ہاتھوں میں علیشاہ ریموڈ پکڑ کر سامنے ایل‬
‫سی ڈی پر ہمارے پاکستان کے نامور اداکار‬
‫شان کی پنجابی مووی مجاجن دیکھ رھی‬
‫تھی اور صائمہ کی پرفامنس دیکھ کر‬
‫علیشاہ بہت لطف اندوز ھو رھی علیشاہ نے‬
‫بلیک شارٹ شرٹ اور سفید شلوار پہن‬
‫رکھی تھی پاؤں میں پائل اور گورے گورے‬
‫ہاتھوں کی کالئیوں میں سرخ رنگ کی سہاگ‬
‫رات کی سر خ چوڑیاں پہن کر وہ لیٹی ھوئی‬
‫تھی ایک پری سی لگ رھی تھی جسے‬
‫دیکھیں تو شاید پھول اور کلیاں بھی شرما‬
‫جائیں مخملی مخروطی نرم و نازک ہاتھوں‬
‫میں علیشاہ ریموڈ پکڑ کر سامنے ایل سی ڈی‬
‫پر ہمارے پاکستان کے نامور اداکار شان کی‬
‫پنجابی مووی مجاجن دیکھ رھی تھی اور‬
‫صائمہ کی پرفامنس دیکھ کر علیشاہ بہت‬
‫لطف اندوز ھو رھی تھی‬

‫ٹک ٹک ٹک ہاۓ بھابھی کیسی ھو کیا دیکھ‬


‫رھی ھو تو علیشاہ بولی یار سید نور کی‬
‫لکھی ھوئی ایک مووی ھے مجاجن وہ دیکھ‬
‫رھی ھوں مہرو بولی ہاں بھابھی میں نے‬
‫بھی دیکھی ھے بہت اچھا پرفارم کیا شان‬
‫اور صائمہ کی جوڑی بہت اچھی ھے دونوں‬
‫کی ایک اور سپر ہٹ مووی ھے وہ بھی‬
‫پنجابی زبان میں ھے ووہٹی لے کے جانا اس‬
‫کا نام ھے اور بہت دلچسپ ھے اسکا ڈرائیکٹر‬
‫بھی سید نور صاحب ھی ھیں بھابھی آپ‬
‫کو میوزک بھی پسند ھے یا پھر مووی ھی‬
‫پسندھیں‬

‫علیشاہ بولی مجھے صرف میوزک پسند ھے‬


‫باقی کہانی اگر جاندار ھو تو پھر مووی بھی‬
‫دیکھ لیتی ھوں مہرو بولی بھابھی آج آپکی‬
‫سہاگ رات ھے آپ نے آج پرفارم کرنا ھے‬
‫بھائی فیصل کیساتھ‪  ‬آج آپ دونوں ایک‬
‫جسم اور جان ھو جاؤ گے‬

‫علیشاہ بے چاری حیران ھوتے ھوۓ بولی کہ‬


‫سہاگ رات کیا ھوتی ھے مہرو تو شرما گئ‬
‫وہ بھال کیا بتاتی اسے ڈر تھا کہ علیشاہ اگر‬
‫اسے بولے کہ تجھے یہ سب کیسے پتہ ھے تو‬
‫پھر وہ علیشاہ پر رعب جمانے میں بری طر‬
‫ح ناکام ھو جاۓ گی مگر رسک تو لینا ھی‬
‫تھا مہرو کو‬

‫مہرو بولی بھابھی کیا سچ مچ آپکو نہیں‬


‫معلوم میاں بیوی سہاگ رات کیسے مناتے‬
‫ھیں نہیں یار ہمیں کس نے بتانا تھا اگر‬
‫مجھے یہ سب پتہ ھوتا تو اب تک‪  ‬ہم اکٹھے‬
‫لیٹے ھوتے مہرو بولی دیکھو علیشاہ اب‪  ‬ہم‬
‫دوست ھیں اور سب کچھ زیر بحث السکتے‬
‫ھیں‬

‫دیکھوسب سے پہلے میاں بیوی پورے ننگے‬


‫ھوتے ھیں اور پھر ایک دوسرے کے ھونٹ‬
‫چوستے ھیں پھر بہت مزہ آتا ھے ہاۓ میں‬
‫مرجاؤں کتنے گندے کام ھیں میں تو یہ نہیں‬
‫کر سکتی‪...‬مہرو بولی ایسے کیسے نہیں‬
‫کرسکتی تمہاری شادی ھوئی ھے اگر نہیں‬
‫کرو گی تو بچہ کیسے ھوگا پاگل‬
‫مہرو کی بات سن کر شرم سے پانی پانی‬
‫ھوگئ اور بولی میرے لئیے یہ سب بہت‬
‫مشکل ھےاور تجھے یہ سب کس نے بتایا ھے‬
‫آپکو شرم نہیں آتی آپکو گندی باتیں کرتی‬
‫ھو تم تو مہرو اسکے ساتھ بیڈ پر بیٹھ‪  ‬گئ‬
‫اور علیشاہ سے بولی ایل سی ڈی کی آواز‬
‫اوپن کرو‪  ‬تاکہ ھماری آواز باہر نہ سن سکے‬
‫علیشاہ نے والیم تھوڑا الؤڈ کر دیا اور بولی‬
‫بتاؤ اب کیا ھوتی ھے سہاگ رات‏‬

‫مہرو بولی آپ نے اپنے سارے کپڑے بھائی کے‬


‫سامنے ہی اتارنے ھیں اور پھر فیصل نے بھی‬
‫اپنے کپڑے اتارنے ھیں اچھا مہرو آپی ھمیں‬
‫شرم نہیں آۓ گی ڈرتے ڈرتے علیشاہ بولی‬
‫ل ‪‎ ‬مہرو بولی اف تیری تو‬
‫‏ تم تو ھی ھی پاگ ‪‎‬‬
‫بھال اپنے مرد سے کون شرماتا ھے یہ تو تمام‬
‫‪‎‎‬عمرکا ساتھ ھوتا ھے‬

‫ہم آپ کہہ تو سچ رھی و علیشاہ بولی پر آپ‬


‫نے کس سے سیکھا ھے اور آپکو یہ سب کس‬
‫نے بتایا ھے علیشاہ نے شرارت سے مہرو کے‬
‫گورے گورے بوبز دباتے ھوۓ کہا آہ اف پاگل‬
‫انہیں کیوں دباتی ہو ان کا کیا قصور ھے تو‬
‫علیشاہ نے ایک بار پھر شرارت سے کہا آپ نے‬
‫بریزر کیوں نہیں پہنا آج تو مہرو بولی آج‬
‫مجھے الجھن سی ھورہی تھی اسی لئیے آج‬
‫برا اتار دی ھے‬
‫علیشاہ جہاں تک سوال ھے کہ‪  ‬مجھے یہ‬
‫سب کیسے پتہ چال تو سنو جس رات فیصل‬
‫بھیا کی سہاگ رات تھی اس رات وہ اپنی‬
‫شبو نئیں خالہ نوری کی بیٹی علیشاہ نے بیڈ‬
‫سے ٹیک لگاتے ھوۓ کہا جی جی جانتی ھوں‬
‫اس کو کیا کیا اس نے تو مہرو بولی بھابھی‬
‫آپکو ہماری دوستی کی قسم کسی کو بتانا‬
‫نہیں ھے‏‬

‫ارے پاگل نہیں بتاتی میں کسی کو آپ بس‬


‫مجاجن مووی بند کردو اور اپنی آنکھوں‬
‫دیکھا حال بیان کرو تو مہرو نے اپنے ہاتھ‬
‫علیشاہ‪  ‬کی شرٹ میں گھسا دئیے اور اسکے‬
‫بوبز پریس کرتے ھوۓ بولی مہندی والی رات‬
‫جب سارے لوگ سو چکے تھے چاند اپنی‬
‫پوری آب وتاب کیساتھ چمک رہا تھا میں‬
‫مہمانوں کے سونے کا امی جان‪  ‬کیساتھ‬
‫بندوبست کررھی تھی اور ہم مہمانوں کو‬
‫سال کر جب فارغ ھوۓ تو‪  ‬میری دوست ھے‬
‫نہ وہ شبو وہ اور شاہد مجھے پوری حویلی‬
‫میں نظر نہیں آۓ اور مجھے تو رسم حنا کے‬
‫دوران ھی ان پر شک تھا دونوں ایک‬
‫دوسرے پر الئن مار رہے تھے‬

‫مہرو سسپنس بڑھاتے ھوۓ بولی ساتھ ہی‪ ‬‬


‫اس نے علیشاہ کی شرٹ اوپر کردی اور اب‬
‫کالی برا میں سرخ مالٹے مہرو کے سامنے تھے‬
‫وہ‪  ‬بولی مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے پھر‬
‫ان دونوں کی سرچنگ جاری رکھی پھر جب‬
‫میں نے اپنے سٹور روم میں دیکھا تو میں‬
‫دنگ رہ گئ علیشاہ مجھے بہت شرم آرھی‬
‫تھی اف کیا دیکھا تم نے مہرو‪  ‬علیشاہ نے‬
‫بڑے تعجب سے مہرو سے پوچھا جس کا‬
‫رنگ افق کی اللی کی طر ح پورا سر خ ھو‬
‫چکا تھا مہرو کی چوت آج اس واقعے کو‬
‫یاد کرکے خوشی کے آنسو بہانے لگی تھی اور‬
‫اس نے اپنی سہاگ کی سیج پر بیٹھی دلہن‬
‫بھابھی کی برا کی سٹریپ کھول کر اسکے‬
‫شباب پر سے پردہ ہٹا دیا اور بولی علیشاہ‬
‫اف مرجانیئے کیا کر رہی اور اگے کا سین‬
‫ارے پاگل نہیں بتاتی تم بھی نہ نہیں رہ‬
‫سکی کرنے تو دیتی ان کو اور تم ارام سے‬
‫دیکھتی رہتی‬
‫مہرو بولی بھابھی مجھ سے نہیں رہا گیا‬
‫شاہد میرا دوست بھی تھا اور شبو میری‬
‫سہیلی تھی دونوں کا اچانک محفل سے گم‬
‫‪.....‬ھو جانا میرے لیئے تشویش ناک تھا‬

‫‪‎‎‬جاری ہے‪ .....‬‏‬

‫ایک مکمل انٹرٹینمنٹ میری نئی کہانی جو‬


‫صرف وٹس ایپ پر حاصل کرسکیں گے‬
‫کیونکہ یہ کہانی اب مکمل کر دی گئی ھے‬
‫اسکے عالوہ‪  ‬اناڑی دولہا بھی چند دنوں بعد‬
‫اس گروپ میں شامل کی جائے گی انسیسٹ‬
‫کہانیوں کے پڑھنے والے اسکو وٹس ایپ پر‬
‫خرید کر پڑھ رہے ہیں‬
‫‪ ‬اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‪#‬‬

‫صفحہ_‪#15‬‬

‫رائیٹر_نوابزادہ_شاہد‪#‬‬

‫مہرو نے اب اپنی بھابھی کے نپل مسلنا‬


‫شروع کر دیئے تھے علیشاہ کا کسی بھی‬
‫طرح سے پہال لمس تھا اپنے گورے بدن پر‬
‫جو اس نے اپنی نند کیساتھ مستی کرتے‬
‫ھوۓ پایا تھا مہرو نے‪  ‬اپنے لبوں سے علیشاہ‬
‫کے براؤن نپل چھوا اور دانتوں‪  ‬سے تھوڑا‬
‫‪ ‬سا کاٹ لیا تو‬

‫مزے اور درسے کا مال جال رد عمل ایک چیخ‬


‫کی صورت مہرو کو موصول ھوا علیشاہ نے‬
‫بھی اب‪  ‬دو قدم آگے بڑھتے ھوۓ اپنی نند‬
‫کے گورے بدن سے برا کی صورت حیا کا‬
‫پردہ ہٹا دیا اور اسکے ٹینس بال کے سائز‬
‫جیسے گورے گورے مالٹے مسلنا شروع کر‬
‫دئیے دونوں گھریلو لڑکیاں تھیں دونوں کا یہ‬
‫پہال پہال رومانس تھا‬

‫جسے دیکھ کر لگ یہی رہا تھا کہ آج برسات‪ ‬‬


‫بھی ھوگی اور پیاس بھی بڑھے گی دونوں‬
‫کشمیری گوریاںاب ٹاپ لیس ھوچکی تھی‬
‫دونوں اب کالی اور سرخ پینٹی میں ملبوس‬
‫تھیں ان ساری حدوں کو توڑنے والی مہرو‬
‫نساء تھی جسے شبو کی شاہد سے چدائی‬
‫‪ ‬واال سین دیکھ کر برداشت نہیں ھورہا تھا‬

‫‪ِ !! ‬ا نتظار یار بھی ___ ُلطف کمال ھے‬

‫!! آنکھیں ِک تاب پر اور سوچیں َج ناب پر‬

‫علیشاہ بولی کہ آپ نے پھر کیا دیکھا شبو‬


‫کیا کر رھی تھی شاہد کیساتھ‪  ‬مہندی والی‬
‫رات تو مہرو بولی شبو کی آنکھیں بند تھیں‬
‫اور وہ شاہد کی بانہوں میں تھی اور دونوں‬
‫ایک دوسرے کے لب چوس رھے تھے علیشاہ‬
‫اف کیا یار اتنی بے شرم ھے وہ یہ تو شادی‬
‫شدہ ھے اور ضرور اس نے شاہد کو خود‬
‫موقع دیا ھوگا‪...‬‏‬

‫مہرو بولی نہیں بھابھی دونوں کو برابر آ گ‬


‫لگی ھوئی تھی وہ تو بس مجھے ایک گھنٹہ‬
‫بس کام کے لئیے شبو سے دور ھونا پڑا تو‬
‫بس دونوں کو بھرپور موقع مل گیا شاہد نے‬
‫نے شبو کو پورا ننگا کیا اور اپنی شرٹ بھی‬
‫اتار دی اور دونوں ایک دوسرے سے چمٹ‬
‫گئے اور شاہد نے شبو کے گورے گورے وجود‬
‫پر موجود بوبز مسلنا شرو ع کر دئیے اور‬
‫شبو نے شاہد کا نچال ھونٹ چوسنا شروع کر‬
‫دیا علیشاہ ہاۓ میں مر جاواں اگر کوئی اس‬
‫وقت آجاتا تو پھر کیا ھوتا بہت رسوا ھونا‬
‫تھا شبو نے‪...‬‏‬

‫مہرو بولی عشق اور حوس جب انسان‬


‫کوگھیر لیتی ھے تو عقل پر پردہ پڑ جاتا ھے‬
‫اور علیشاہ شبو نے ھی بتایا ھے کہ لنڈ کا‬
‫نشہ ھی بہت برا نشہ ھے عورت کا مرد کی‬
‫طرف محبت کا پہال قدم ھی جسم کی پیاس‬
‫بجھانا ھوتا پیار ویار سب ختم ھو جاتا ھے‬
‫جب دونوں کی جسمانی ضرورت پوری‬
‫ھوجاتی ھے تو پھر سب کچھ اچھا اور‬
‫خوبصورت لگتا ھے‬
‫شبو بولی شاہد اب جوکرنا ھے جلدی سے‬
‫کرلو کہیں مہرو نہ آجاۓ ورنہ سارا مزہ‬
‫خراب ھوجانا ھے تو شاہد نے اپنی زپ کھول‬
‫دی اور اپنالنڈ باہر نکال لیا شبو نے ایک بار‬
‫دروازے کی طرف دیکھا اور میں تو پردے‬
‫کی اوٹ میں چھپ کر دیکھ رھی تھی اور‬
‫سن بھی رھی تب شبو نیچے بیٹھ گئ اور‬
‫اس نے شاہد کے لنڈ کو اپنے ہاتھوں میں لیکر‬
‫مسلنا شرو ع کردیا اور شاہد کا لنڈ پورا تن‬
‫گیا تو شبو نے لنڈ کی سر خ ٹوپی پر اپنی‬
‫‪ ‬زبان پھیرنا شرو ع کردی‬

‫شاہد نے اپنی آنکھیں بند کرلیں شبو نے شاہد‬


‫کا لنڈ اپنے منہ میں لیکر چوسنا شرو ع کر‬
‫دیا‪....‬واؤ کیا سین ھوگا علیشاہ بولی‪.....‬بڑی‬
‫کمینی ھے شبو پھر تو سالی تو سارے فن‬
‫جانتی ھے ویسے کتنا تھا شاہد کا لنڈ علیشاہ‬
‫بولی تو مہرو بولی موٹا اور لمبا تھا میں تو‬
‫سو چ رھی تھی کہ شبو سالی کے اندر‪  ‬جب‬
‫یہ پورا جاۓ گا تو پھر پتہ چلے گا اسکو تو‬
‫علیشاہ پتہ ھے پھر کیا ھوا تو علیشاہ بولی‬
‫یار مہرو میری چوت تو پانی چھوڑنا شرو ع‬
‫ھوگئ ھے‬

‫پتہ نہیں کیوں تو مہرو نے اپنی پینٹی نکال‪ ‬‬


‫دئ اور بولۂ یہ دیکھو میری چوت خود گیلی‬
‫ھوگئ ھے جب میں نے پوری سیریل دیکھی‬
‫ھے تو خود سو چ میرا کیا حال ھوا ھوگا تو‬
‫علیشاہ بولی تم بھی شامل ھو جاتی ان‬
‫دونوں کیساھ مہرو بولی بھابھی سچ‬
‫پوچھو تو میری چوت بھی لنڈ مانگ رھی‬
‫تھی وہ بڑی مشکل سے کنٹرول کیا تھا میں‬
‫نے میں ایک پردے دار گھرانے سے ھوں اتنی‬
‫جلدی کیسے بہک جاتی میں انکے ساتھ‏‬

‫مہرو بولی کہ شبو اٹھی اور صوفے پر جھک‬


‫گئ اور اسکی گوری گانڈ باہر کی طرف آ گئ‬
‫اور شاہد اسکے پیچھے آ گیا اور اس نے اپنے‬
‫دونوں ہاتھوں سے شبو کی گوری سی کمرکو‬
‫پکڑا اور اپنے لنڈ کو شبو کی چوت کے لبوں‬
‫پر مسلنا شرو ع کردیا اف بس کرو مہرو‬
‫علیشاہ کا رنگ الل ھوگیا اور اسکا ہاتھ‬
‫مہرو کی چوت کی طرف بڑھ گیا وہ بھی کم‬
‫نہ تھی مہرو نے اپنے بھابھی کی چڈی‬
‫کھینچ کر نکال دی اور دیکھا کہ علیشاہ کی‬
‫گوری پنک چوت خوشی کے آنسو بہارھی‬
‫‪  ‬تھی‬

‫مہرو نے کہا بہت اچھے مطلب میری بھابھی‬


‫ورجن ھے‪  ‬علیشاہ بولی کیا مطلب مہرو تو‬
‫مہرو بولی کہ میرا مطلب ھے کہ تم بھی‬
‫میری طر ح سیل پیک ھی ھو جی جی مہرو‬
‫میں سیل پیک ھوں تمہاری چوت کی طر ح‬
‫میری چوت بھی ابھی تک کنواری ھے‪  ‬تو‬
‫مہرو بولی آج میرا بھائی آپکی سیل توڑ دے‬
‫گا اور آپ ایک کلی سے پھول بن جاؤگی تو‬
‫علیشاہ بولی ہاۓ میں مر جاواں مجھے بہت‬
‫شرم آ رھی ھے تو مہرو بولی پتہ ھے‬
‫شاہد نے پھر کیا کام کیا اس نے اپنالنڈ ایک‪ ‬‬
‫ھی شارٹ مار کر شبو کی چوت میں اتار دیا‬
‫شاہد کا دوسرا شارٹ اتنا زور دار تھا کہ‬
‫شبو کا منہ صوفے کو جالگا اور شاہد کا‬
‫سارا‪  ‬لنڈ شبو کی چوت میں گھس گیا‬

‫شاہد نے اپنا لنڈ شبو کی چوت سے نکال اور‬


‫پھر ایک جھٹکے کیساتھ پورا بے چاری شبو‬
‫‪.......‎‎‬کے اندر ڈال دیا‬

‫جاری ہے‪…..‬‬

‫ایک مکمل انٹرٹینمنٹ میری نئی کہانی جو‬


‫صرف وٹس ایپ پر حاصل کرسکیں گے‬
‫کیونکہ یہ کہانی اب مکمل کر دی گئی ھے‬
‫اسکے عالوہ‪  ‬اناڑی دولہا بھی چند دنوں بعد‬
‫اس گروپ میں شامل کی جائے گی انسیسٹ‬
‫کہانیوں کے پڑھنے والے اسکو وٹس ایپ پر‬
‫خرید کر پڑھ رہے ہیں‬

‫پڑھیں انسیسٹ کہانیاں سہاگن۔۔مالئیکہ کی‬


‫شرارتیں۔۔ہماکی شرارتیں۔۔ساگر کی بہنیں۔۔‬
‫پشتون گھوڑیاں۔۔شوہر کون۔۔بھٹکتے قدم۔۔‬
‫عاقب اور اسکی بہنیں۔۔بڑی حویلی کی بہو۔۔‬
‫بے شرم باپ۔۔سوتیلی۔۔۔گھرکا بھیدی۔۔۔‬
‫ساس کا داماد۔۔بیوی سے وفادار بہن۔۔فہد‬
‫اور مہرین۔۔خاندانی مستیاں۔۔۔سگہ بھائی۔۔۔‬
‫عروسہ بہن۔۔۔فرزانہ اور ریحانہ۔۔۔دو بھابھی‬
‫دو دیور۔۔۔کہاں کہاں سے گزر گیا۔۔ہمارے‬
‫‪ ‬اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‪#‬‬

‫صفحہ_‪#16‬‬

‫رائیٹر_نوابزادہ_شاہد‪#‬‬

‫مہرو نے علیشاہ کی کنواری چمکتی ھو چوت‬


‫پر ہاتھ پھیرتے ھوۓ کہا واہ آپ نے تو اپنی‬
‫ٹانگوں پر بھی مہندی لگائی ھوئی ھے تمہارا‬
‫مخروطی جسم بہت مزہ دے گا میرے بھائی‬
‫کو علیشاہ نے شرماتے ھوۓ کہا کہ مہرو یار‬
‫‪ ‬وہ پارلر والی نے لگا دی تھی‬

‫میں نے بہت منع کیا پر وہ بولی کہ میڈم آج‬


‫آپکی کی چوت کا باجا بجایا جاۓ گا اسی‬
‫لیئے اپنے گورے وجود کو تیار کرلو‪  ‬یار آپ‬
‫چھوڑو ان باتوں کو آپ بتاؤ پھر شاہد نے‬
‫شبو کو کیا کردیا کہ وہ شاہد کیساتھ مان‬
‫‪....‬گئ یہ سب کچھ کرنے کو‬

‫مہرو اب علیشاہ کی چوت میں مڈل فنگر‬


‫ڈال کر‪  ‬بولی بھابھی آپ کی چوت‪  ‬تو گیلی‬
‫ھوگئ ھے واؤ کتنی پیاری چوت ھے بھابھی‬
‫آپکی سیل پیک چوت آج بھائی اس کا بند‬
‫کھول دینگے اور تمہیں سہاگن بنا دینگے‬
‫علیشاہ مسکرا کر بولی میں بھال کیسے‬
‫سہاگن بنوگی تو مہرو بولی آج آپکی اس‬
‫کنواری چوت میں میرے بھائی کا لنڈ جاۓ‬
‫‪ ‬گا‬

‫مہرو یار نہ کرو پلیز مجھے کچھ ھورہا ھے‬


‫آپ مت ڈالو میری چوت میں کچھ بھی‬
‫گندی جگہ ھے یہ اور تم اسمیں انگلی ڈالی‬
‫جارھی ھو تو علیشاہ نے شرماتے ھوۓ کہا‬
‫اس بے چاری کا رنگ فق ھوگیا تھا کہ نہ‬
‫جانے کیا ھوگا اب اگر کوئی باہر سے آ گیا‬
‫توپھر کیا ھوگا مہرو بولی کمینی دیکھ تیری‬
‫چوت کتنی خوش ھے آج اور خوشی کے‬
‫‪.....‬آنسو بہارھی ھے اور گیلی ھو چکی ھے‬
‫علیشاہ بولی آپ بات ھی اتنی گندی سنا‬
‫رھی تھی پھریہ حال تو ھونا ھی تھا مہرو‬
‫بولی اوہ سوری یار میں بھول ھی گئ تھی‬
‫کہ وہ شبو والی کہانی آپکو سنا رھی تھی‬
‫تو کہاں تھی ہماری شبو‪  ‬تو علیشاہ‪  ‬بولی‬
‫جب شاہد نے شبو کو لٹا دیا تھا اور پھر آپ‬
‫بتاؤ‬

‫‪ ‬‏‬

‫مہرو نے کھڑکی کے باہر سے دیکھا اور بولی‬


‫شبو لیٹ گئ اور شاہد نے شبو کی ٹانگیں‬
‫اٹھائیں اور اپنا لنڈ شبو کی چوت پر رکھا‬
‫اور رگڑنا شروع کردیا تھا وہ شہوت سے‬
‫تڑپ رھی تھی اور کہہ رھی تھی اب مت‬
‫تڑپاؤ اور ڈال دو نہ بہت درد ھورہا ھے‬

‫مہرو کتنا لمبا ھوتا ھے شاہد کالنڈعلیشاہ نے‬


‫تعجب سے پوچھا تو مہرو نے ریموڈ پکڑ کر‬
‫اپنے ہاتھ میں پکڑ کر بولی اس کے جتنا لمبا‬
‫اور موٹا تھا علیشاہ بولی اف اتنا بڑا کیسے‬
‫لمبا کیسے لیا شبو نے دیکھنے میں تو پتلی‬
‫سی لگتی ھےاوراتنا بڑا لیکر منجھی نہیں‬
‫ہالئی اس نے ہاہاہاہاہا مرجانئیے چارپائی پر‬
‫نہیں لیٹی تھی وہ صوفے پر لیٹی تھی اور‬
‫‪ ‬شاہد اس کے اوپر تھا‬
‫علیشاہ تم بولتی ھونہ کہ اتنالمبا کیسے جاتا‬
‫ھے اندر ضرور کوئی تو لذت ھے اسمیں جو‬
‫شبو شاہد کو بار بار بول رھی تھی کہ جان‬
‫ڈال دو اندر مت تڑپاؤ میں مرجاؤنگی اف آہ‬
‫آؤ چ آہ ڈال دو نہ میں پردے کی اوٹ سے‬
‫دیکھ رھی تھی شبو کی چوت مجھے صاف‬
‫نظر آرھی تھی‏‬

‫‪‎ ‬‬

‫مہرو نے اپنی فنگر اندر باہر کرتے ھوۓ کہا‬


‫کہ شاہد نے اپنا لنڈ شبو کی چوت کے یہاں‬
‫رکھا اور ایک زور دار جھٹکا مارا اور اپنالنڈ‬
‫شبو کی ناف تک اس کے اندر کر دیا شبو کی‬
‫ایک سسکاری نکلی آہ ممم مرگئ بہت موٹا‬
‫ھے تمہارا‪  ‬میرے شوہرکا تو اتنا بڑا نہیں ھے‬
‫آہ گدھے جتنالنڈ اندرگھسادیا شاہد نے پھر‬
‫‪...‬شبو کی ایک نہ سنی‬

‫مہرو بولی کہ علیشاہ پہلے تو بہت درد ھورہا‬


‫تھا شبو کو اور پھر شاہد کا ساتھ دینے لگی‬
‫وہ شاہد اپنا لنڈ جھٹکا مار کر اندر کرتا اور‬
‫شبو اپنی کمر اچھال کر اس کے ہر شارٹ کا‬
‫جواب دینے لگی دونوں شہوت کی لمحوں کو‬
‫بہت انجواۓ‪  ‬کر رہے تھے لنڈ شبو کی چوت‬
‫کے اندر باہر ھورہا تھا اسکی چوت کے لب‬
‫رگڑ فراہم کر رھے تھے دونوں اپنے لب ایک‬
‫دوسرے کے لبوں میں ڈال کر چوس رھے تھے‬
‫پھر میں نے دیکھا کہ سفید سفید گاڑھا پانی‬
‫شبو کی چوت سے باہر آنے لگا اور شاہد‬
‫نڈھال ھوکر اسکے اوپر گرگیا‬
‫علیشاہ بولی بس ایک بار ھی کیا ان لوگوں‬
‫نے تو مہرو بولی نہیں میں نے پھر چند منٹ‬
‫بعد دیکھا تو شبو شاہد کے لنڈ پر چڑھ کر‬
‫بیٹھی تھی اور شاہد لیٹا ھوا تھا شبو اسکا‬
‫سارالنڈ اپنی چوت میں اتار چکی تھی اور‬
‫اوپر نیچے ھورھی تھی‬

‫مہرو نے اپنی لب اب علیشاہ کی چوت پر‬


‫رکھ دئیے اور اسکی کنواری چوت کو چاٹنے‬
‫لگی اپنی چوت پرپہلی بار‪  ‬پرایا لمس پا کر‬
‫علیشاہ کے پورے جسم میں کرنٹ سادوڑ گیا‬
‫اور وہ تو اس حسین داستان کو سن کر پہلے‬
‫ھی گرم ھوچکی تھی اب اس نے اپنی‬
‫آنکھیں پوری طر ح سے بند کرلیں تھیں ایک‬
‫پہیلی اب سلجھ چگی تھی علیشاہ کو پتہ‬
‫چل گیا تھا کہ اس چوت میں الزمی کوئی‬
‫کمال ھے جویہ مزے کی دنیا میں لے جارھی‬
‫ھے‬

‫مہرو نے اپنی گوری چوت اپنی بھابھی کے‬


‫منہ پر رکھ دی اور اسے اپنی زبان کا جادو‬
‫چالنے کا اشارہ دینے لگی اور خود ایک بار‬
‫پھر اپنی زبان سے علیشاہ کی چوت کے لبوں‬
‫کو چوم کر بولی کہ دل تو کرتا ھے کہ‪  ‬دو‬
‫فنگر تیری چوت میں ڈال کر تیری سیل توڑ‬
‫دوں مگر یہ رسم تو بھائی فیصل ھی ادا‬
‫کرینگے جب آپ کے اندر پورا ڈالیں گے مہرو‬
‫نے بیڈ پر لیٹی اپنی بھابھی کو شہوت اور‬
‫حوس کا چورن تو کھال دیا تھا پر فیصل ڈر‬
‫کے مارے اندر نہیں آ رھا تھا‬

‫فیصل ڈر رہا تھا کہ پتہ نہیں سب کر پاۓگا‬


‫بھی کہ نہیں مگر اسکی ماں اسے تسلیاں‬
‫دے رھی تھی اور گرم دودھ کا جگ‪  ‬اسکے‬
‫ہاتھ میں دیکر فیصل کی ماں بولی جاؤ بچہ‬
‫اپنی دلہن کے پاس اور آدھا دودھ خود پینا‬
‫ھے اور آدھا اپنی بیوی کو پالنا ھے‪  ‬مگر ماں‬
‫جی بھال وہ کونسا کشتی کرنے والی ھے جو‬
‫‪ ‬آدھا دودھ پیئے گی‬

‫فیصل کچن میں بیٹھا اپنی ماں سے تکرار‬


‫کر رہا تھا تو اسکی ماں نے کہا بچے محبت‬
‫تو کرو گے نہ تم اسکے ساتھ بس یوں‬
‫سمجھ لو کہ سہاگ رات کو میٹھی چیز‬
‫الزمی کھائی جاتی ھے اسکی ماں نے کہا تو‬
‫فیصل‬

‫ہاہاہاہاہا ماں آپ لوگوں کی بھی سمجھ‪ ‬‬


‫نہیں آتی ماموں کہہ رھے تھے کہ بلی پکڑنی‬
‫ھے اور آپ کہتی ھو کہ محبت کرنی ھے‬

‫فیصل کی ماں غصے سے بولی در فٹے منہ‬


‫تیرا پتہ نہیں کب عقل آۓ گئ تمہیں چل اب‬
‫دفع ھو جاؤ تو فیصل دودھ کا جگ پکڑ کر‬
‫‪.......‬جب اندر آیا تو اس نے دیکھا‬

‫جاری ہے‪......‬‬

‫ایک مکمل انٹرٹینمنٹ میری نئی کہانی جو‬


‫صرف وٹس ایپ پر حاصل کرسکیں گے‬
‫کیونکہ یہ کہانی اب مکمل کر دی گئی ھے‬
‫اسکے عالوہ‪  ‬اناڑی دولہا بھی چند دنوں بعد‬
‫اس گروپ میں شامل کی جائے گی انسیسٹ‬
‫کہانیوں کے پڑھنے والے اسکو وٹس ایپ پر‬
‫خرید کر پڑھ رہے ہیں‬

‫پڑھیں انسیسٹ کہانیاں سہاگن۔۔مالئیکہ کی‬


‫شرارتیں۔۔ہماکی شرارتیں۔۔ساگر کی بہنیں۔۔‬
‫پشتون گھوڑیاں۔۔شوہر کون۔۔بھٹکتے قدم۔۔‬
‫عاقب اور اسکی بہنیں۔۔بڑی حویلی کی بہو۔۔‬
‫بے شرم باپ۔۔سوتیلی۔۔۔گھرکا بھیدی۔۔۔‬
‫ساس کا داماد۔۔بیوی سے وفادار بہن۔۔فہد‬
‫‪ ‬اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‪#‬‬

‫صفحہ_‪#17‬‬

‫رائیٹر_نوابزادہ_شاہد‪#‬‬

‫تم تو ھو ہی نکمے پتہ نہیں کب تم انسان‬


‫بنوگے چل دفع ھو اندر چال جا اور جیسے‬
‫مہرو کہے گی تم ویسے ھی کرنا اور مہرو کے‬
‫سامنے اپنے اور علیشاہ کے کپڑے مت اتارنا‬
‫اچھا میں جارھی ھوں اپنے کمرے میں اور‬
‫تم علیشاہ کیساتھ زور زبر دستی مت کرنا‬
‫بے چاری معصوم ھے اسکو ستانا مت‪  ‬فیصل‬
‫کی ماں نے اسے پیار سے سمجھاتے ھوۓ کہا‬

‫فیصل بوال‪ ....‬ماں میں کونسا ڈاکہ مارنے‬


‫جارہا ھوں جو عالی کو ستاؤں گا اور‬
‫زبردستی کروں گاوہ بڑ بڑاتے ھوۓ دودھ کا‬
‫جگ اٹھا کر اپنے حجلہ عروسی والے روم‬
‫میں ڈرتے ڈرتے روم کے ڈور کے ڈور کو چیک‬
‫کیا وہ اوپن تھا فیصل ڈرتے ڈرتے کانپتے‬
‫ہاتھوں سے ڈور اوپن کیا اور دودھ واال جگ‬
‫میز پر رکھ دیا اور پردے کی اوٹ میں‬
‫چھپ کر علیشاہ کو ڈرانے کے انداز میں آ گے‬
‫بڑھا اور‪  ‬حیران ھوتے ھوۓ پھر چھپ گیا‬
‫اس نے جو منظر دیکھا اسکے اوسان خطا‬
‫ھو گئے اسکے سامنے مہرو پوری ننگی لیٹی‬
‫ھوئی تھی اورمہرو کی سیل بند سرخ سورا‬
‫خ پر علیشاہ اپنی زبان پھیر رھی تھی اور‪ ‬‬
‫علیشاہ کی چوت پر مہرو اپنی زبان کا جادو‬
‫چال رھی تھی‬

‫فیصل کے اوسان خطا ھوگئے تھے وہ تو اس‬


‫حساب سے اپنے روم میں داخل ھوا تھا کہ‬
‫وہ اپنی دلہن سے باتیں کریگا اور الڈ پیار‬
‫کرے گا مہرو اسے نئ زندگی کے ساری گر‬
‫بتاۓ گی مگر ساری چال الٹ ھو چکی تھی‬
‫مہرو تو خود پریکٹیکل کرنے لگ پڑی تھی‬
‫اس نےکبھی کسی لڑکی کا ننگا وجود نہیں‬
‫دیکھا تھا مگر آج شاید قسمت کو ترس آ گیا‬
‫تھا مگر اس کی بہن اسکے سامنے‪  ‬ننگی پڑی‬
‫تھی اسے یقین نہیں ھورہا تھا کہ ایسا بھی‬
‫ھوسکتا ھے‬

‫وہ سوچنے لگا مہرو تو بہت‪  ‬حیا والی تھی‬


‫تو آج یہ حرکت کیوں کررھی ھے اسے یاد آیا‬
‫کہ میرپور میں اسکے فارم ہاؤس میں ایک‬
‫بکرا جب بکری کو چودنے لگتا ھے تو وہ پہلے‬
‫بکری کی گالبی چوت کو چاٹ کر گیال کرتا‬
‫ھے اور پھر اپنا لنڈ بکری کی چوت میں ڈال‬
‫دیتا ھے اور پھر شاید اندر ڈالنا آسان ھو‬
‫جاتا ھےھو سکتا ھے کہ مہرو بھی علیشاہ کو‬
‫تیار کر رھی تھی مہرو کو دیکھتے ھوۓ وہ‬
‫‪ ‬بوال شاباش میری بہن تم واقعی ٹیلنٹڈ ھو‬
‫مہرو نے اپنی زبان اب علیشاہ کی چوت کے‬
‫چھید کے اندر ڈال کر ابنی زبان کی نوک سے‬
‫اس کی چوت کے سر تال چھیڑنا شرو ع کر‬
‫دئیے تھے علیشاہ کے منہ سے سسکاریاں نکل‬
‫رھیں تھیں اور وہ اب پوری طر ح سے گرم‬
‫ھو چکی تھی حالیہ چھیڑ چھاڑ نے اسے‬
‫مزید گرما دیا تھا اس نے یہ تو اپنی‬
‫سہیلیوں سے سن رکھا تھا کہ جب مرد کا‬
‫لنڈ اندر جاتا ھے تو بہت درد ھوتا ھے اسے یہ‬
‫امریکن گوریوں والی چوما چاٹی اور گول‬
‫میز مذاکرات کا قطعی طور علم نہیں تھا‬
‫اس نے پہلی بار اس احساس‪  ‬کو اپنی چوت‬
‫پر محسوس کیا اسے بہت لذت مل رھی تھی‬
‫اور یہی شرف پہلی بار حاصل ھوا تھا‬
‫کشیمری اتھری گھوڑی مہرو نساء کو وہ‬
‫بھی جب اپنی چوت پر اپنی بھابھی کے‬
‫زبان کی نوک کا موازنہ ایک مرد کے لنڈ سے‬
‫کرتی تو اس کے پورے جسم میں کرنٹ سا‬
‫‪......‬دوڑ جاتا‬

‫اورل سیکس میں‪ 69‬کا یہ اینگل بہت پاپولر‬


‫ھے پر اگر پاٹنر برابر کا ھو تو دو زبانوں کا‬
‫جادو خوب چلتا ھے اسی لئیے دو خوبرو‬
‫جوان کشمیری گھوڑیاں ایک دوسرے کی‬
‫چوت چاٹ کر پیار کی پہلی سکھ‪  ‬شانتی‬
‫حاصل کرنا چاھتی تھیں اور اناڑی پن کے‬
‫باوجو بھی ایک دوسرے کو بہت اچھا‬
‫رسپانس دے رھی تھیں‬
‫فیشن کے اس دور میں بہت پاپولر محاورہ‬
‫ھے کہ قینچی کی طر ح چلتی ھے زبان تیری‬
‫مگر یہ محاورہ بھی جس نے بنایا اس کو یہ‬
‫پتہ نہیں ھوگا کہ جب دونوں طرف شلواریں‬
‫اتری ھوئی ھوں تو یہ زبانیں تلوار کی طر ح‬
‫بھی چل سکتی ھیں اور سامنے والے کو اس‬
‫وار سے پانی پانی بھی کر سکتیں ھیں جی‬
‫ہاں نوابزادہ کے دوستو آپ صیح سمجھے ھو‬
‫دونوں کشمیری حسینائیں اب پوری طر ح‬
‫‪ ‬سے گرم ھو چکیں تھیں‬

‫مہرو کے براؤن نپل اب تن کر کھڑے ھوگئے‬


‫تھے بالکل سفید چونسے مینگو کی طر ح سے‬
‫اسکے ممے اب شہوت سے اکڑنا شرو ع ھو‬
‫گئے تھے‪  ‬مہرو کی چوت نے خوشی کے آنسو‬
‫بہانا شرو ع کردئیے تھے علیشاہ نے جب‬
‫مہرو کی کمر کو اپنی طرف اچھلتے دیکھا‬
‫تو اس نے مہرو کی چوت کے تاج پر اپنی‬
‫ناک اور چوت کی اندام نہانی میں اپنی گرم‬
‫زبان کا جادو چالنا شرو ع کردیا تو اتنی گرم‬
‫زبان کالمس مہرو کی چوت برداشت نہ‬
‫کرسکی تو اس نے اپنی کمر کو علیشاہ کے‬
‫منہ پر اچھال دی اور محبت کی پہلی فوار‬
‫علیشاہ کے منہ پر کردی آہ آہ زور سے ع ع آہ‬
‫عالی جلدی چوسو اور زیادہ بہت مزۂ آرہاہے‬

‫مہرو نے اپنی چوت کی برسات سے علیشاہ‬


‫کا منہ بھر دیا وہ پیار سے پی گئ بہت گرم‬
‫اور نمکین جوس پی کر علیشاہ مہرو کے‬
‫رسپانس کا انتظار کرنے لگی کہ میری طر ح‬
‫مہرو بھی اپنی زبان کا ایسا جادو چالۓ اور‬
‫میری چوت کو خوشی سے نہال کردے‬

‫مہرو نے بھی علیشاہ کو اسکا پورا حق دیتے‬


‫ھوۓ اسکی پنک چوت پر اپنی زبان کا رعب‬
‫ڈالنا شروع کر دیا وہ چوت کی کلت میں‬
‫اپنی نوکدار کھردری زبان کو گھمارھی تھی‬
‫علیشاہ کی تو جیسے جان جا رھی تھی اس‬
‫نے اپنی گوری گوری ٹانگوں میں مہرو کا سر‬
‫جکڑ لیا اور محبت کا تالہ لگا دیا‬

‫دولہے میاں فیصل اس کھیل کو دیکھ ھی‬


‫رہا تھا وہ نہ صرف یہ سب دیکھ رہا تھا بلکہ‬
‫اپنے موبائل پر ویڈیو بھی بنا رہا تھا اس نے‬
‫تین چار چھوٹے چھوٹے ویڈیو کلپس بناۓ‬
‫اور اپنے دوست نوابزادہ شاہد کو وٹس ایپ‬
‫کر دئیے اور اس سے پو چھنے لگا کہ یار کیا‬
‫بلی پکڑنا اسے کہتے ھیں جو ماموں اس دن‬
‫مجھے کہہ رھے تھے‪  ‬دوسری طرف شاہد‬
‫اپنے موبائل پر کلپس سین کر چکا تھا اور‬
‫ٹائپنگ میں جواب نہیں دے رہا تھا‬

‫مہرو اس بات سے بے خبر تھی کہ اسکی‬


‫ویڈیو شوٹ ھورھی اور اسکا سگا بھائی‬
‫اسے شیئر بھی کر چکا ھے‪  ‬علیشاہ کی منی‬
‫اب اس کی چوت کے کناروں سے ٹپک رھی‬
‫تھی اور اسے مہرو چاٹ کر صاف کر رھی‬
‫تھی دونوں گرم جسم اب ٹھنڈے پڑ چکے‬
‫تھے پر انکی دھڑکنیں بے ترتیب ھو چکی‬
‫تھیں‬

‫دوسری طرف فیصل کو شاہد کاوٹس ایپ پر‬


‫میسج موصول ھوا تو اسکی رنگ ٹون نے‬
‫پردے کی اوٹ میں چھپے فیصل کا سارا‬
‫پردہ فاش کردیا دونوں کشمیری گھوڑیاں‬
‫ننگی لیٹی ھوئی تھیں ان کو خود کو‬
‫سنبھالنا مشکل ھو جاتا ھے مہرو بولی بھائی‬
‫‪‎‎‬آپ کب آۓ‪.......‬‏‬

‫جاری ہے‪......‬‬

‫ایک مکمل انٹرٹینمنٹ میری نئی کہانی جو‬


‫صرف وٹس ایپ پر حاصل کرسکیں گے‬
‫‪ ‬اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‪#‬‬

‫‪Epi 18‬‬

‫رائیٹر_نوابزادہ_شاہد‪#‬‬

‫بھائی آپ کب آۓ اور‪ ............‬آپ نے ڈور ناک‬


‫تو کیا ھوتا مہرو نے اپنے بھائی سے شرماتے‬
‫ھوۓ اپنے ننگے بدن پر اپنے ہاتھ رکھ کر اپنے‬
‫مینگو چھپانے کی ایک ناکام کوشش کی اس‬
‫نے فیصل سے بارعب آواز میں کہا‬
‫آپ کو معلوم ھونا چاھئیے کہ جب اندر آتے‪ ‬‬
‫ھیں تو ڈور نا ک کرکے آتے ھیں اور تم نکمے‬
‫ایسے ھی چلے آۓ مہرو نے اپنے بدن پر شرٹ‬
‫پہنتے ھوۓ فیصل کو ڈانٹنا جاری رکھا اور‬
‫‪ ‬اپنا ڈریس پہن لیا‬

‫منگال کی اس کشمیری گھوڑی نے جھٹ سے‬


‫اپنے گورے جسم کو چھپالیا کپڑوں میں مگر‬
‫دوسری طرف علیشاہ بے چاری اپنی چوری‬
‫پکڑے جانے پر بت بن کر افسردہ سی ھو کر‬
‫کھڑی تھی‬

‫فیصل کالنڈ اب اپنی بہن اور بیوی کو دیکھ‬


‫کر لوہے کی طر ح اکڑ چکا تھا شہوت سے‬
‫اسکی سانس بحال نہیں ھو پارھیں تھیں‬
‫اس نے کہا آپ مجھے ڈانٹ رھی ھومہرو کہ‬
‫میں اندر کیوں آیا اور باھر مجھے امی ڈانٹ‬
‫رھی کہ جاؤ اندر اور مہرو کو اپنے روم میں‬
‫بھیج دو تم اب بتاؤ میں کس کی بات مانوں‬
‫تو مہرو نے اپنے بھائی کے معصوم دالئل کو‬
‫مانتے ھوۓ سوچا‪  ‬کہ یہ نہ ھو کہ یہ سب‬
‫کچھ مما کو بتا دے تو اس نے بگڑتی‪ ‬‬
‫صورتحال کو سنبھالتے ھوۓ کہا کہ بھائی‬
‫ادھر آؤ‬

‫فیصل ڈرتے ڈرتے آ گے بڑھا تو مہرو نے اسے‬


‫علیشاہ کے سینے سے لگا کر کہا کہ بھائی جو‬
‫کچھ آپ نے دیکھا ھے آپ وہ سب اب‬
‫بھابھی کیساتھ کرو تاکہ آپ دونوں کی‬
‫جھجک ختم ھوسکے مہرو اپنے بھائی کے‬
‫پیچھے کھڑی تھی اور فیصل اپنی بہن کے‬
‫سامنے علیشاہ کے گورے گورے سڈول ممے‬
‫‪ ‬پکڑ کر مسلنے لگا‬

‫اس نے اب مہرو کی طرف دیکھا تو مہرو‬


‫بولی میں باہر چلی جاتی ھوں بھائی اور آپ‬
‫دونوں اپنی سہاگ رات منانا شرو ع کر دو‬
‫اگر آپکو سمجھ نہ آ ۓ تو پھر مجھے بال لینا‬
‫اور میں آپ دونوں کی مدد کردونگی‬

‫مہرو اپنی جان بچاتے ھوۓ علیشاہ کو آنکھ‬


‫مارتے ھوۓ باہر نکل گئ اور پھر علیشاہ اور‬
‫فیصل ایک دوسرے کے لب چوسنا شرو ع ھو‬
‫گئے‬

‫علیشاہ اپنےشوہر فیصل کے ہاتھوں کو اپنے‬


‫مموں پر محسوس کرتے ہی‪.‬علیشاہ کی‬
‫شہوت اس قدر بڑھ گئی کہ اس کا ہاتھ فل‬
‫تیز رفتار کے ساتھ اس کی پھدی کو رگڑنے‬
‫لگا اور اس کے جسم نے ہلکے ہلکے جھٹکے‬
‫کھانا شروع کر دیے ۔۔۔‬

‫علیشاہ جو کل رات کو پالن بنا رہی تھی کہ‬


‫کس طرح ‪.‬فیصل کو پٹا کر اس سے چدوائے‬
‫صبح کو اس کا‪.‬فیصل اس کے مموں کو رگڑ‬
‫رہا تھا اور وہ ‪.‬فیصل سے اپنے ممے مسلواتے‬
‫ہوئے پھدی کو رگڑ رہی تھی ۔۔۔ اسے لگا‬
‫جیسے اسے کچھ کرنے کی ضرورت ہی نہیں‬
‫پڑی اور اس کی قسمت اس کی خواہش کے‬
‫مطابق چمک اٹھی ہے ۔۔۔‬

‫۔‬

‫۔‬

‫علیشاہ اپنا آپ مکمل طور پر اپنے شوہر کو‬


‫سونپ چکی تھی ۔۔۔ اور اس کے پیچھے‬
‫کھڑا ‪.‬فیصل اپنی ‪.‬بیوی کے مموں کو مکمل‬
‫آزادی کے ساتھ مزے سے رگڑ رہا تھا ۔۔۔ جب‬
‫کہ کھڑکی کے باہر کھڑی ‪.‬مہرو شہوت بھری‬
‫داستان اپنی آنکھوں کے سامنے رقم ہوتے‬
‫دیکھ کر اپنی پھدی کو رگڑ کر خود بھی‬
‫اپنی گرمی کم کرنے کی کوشش کر رہی تھی‬
‫‪ ‬۔۔۔‬

‫‪ .‬علیشاہ کے ممے رگڑتے ہوئے‬

‫فیصل نیچے جھکا اور اپنے ہونٹ اپنی ‪.‬بیوی‬


‫کی گردن پر پیوست کر دئیے اور چومنے لگا‬
‫۔۔۔ جیسے ہی ‪.‬علیشاہ نے اپنی گردن پر‬
‫‪.‬فیصل کے ہونٹ محسوس کیے تو وہ ایک دم‬
‫جیسے پگھلنے ہی لگی ۔۔۔ کیونکہ گردن پر‬
‫چومنا ہمیشہ سے ہی اس کی کمزوری رہی‬
‫تھی ۔۔۔‪.‬فیصل اپنی ‪.‬بیوی کے ممے دباتے ہوئے‬
‫اس کی گردن کو فل محبت اور شہوت کے‬
‫‪ ‬ساتھ چوم رہا تھا جب کہ‬
‫فیصل فل مستی میں اپنی پھدی کر رگڑتے‬
‫ہوئے فارغ ہونے لگی تھی ۔۔۔ جب کہ کھڑکی‬
‫کے باہر کھڑی ‪.‬مہرو‪.‬اپنی پھدی کو تیزی کے‬
‫ساتھ رگڑتے ہوئے پہلے ہی فارغ ہو رہی تھی‬
‫‪ ‬۔۔۔‬

‫علیشاہ جیسے ہی فارغ ہونے کے قریب ہوئی‬


‫اس کے جسم نے اس قدر شدید جھٹکے‬
‫کھانے شروع کر دیے کہ ‪.‬فیصل سمجھ گیا‬
‫کہ اس کی ‪.‬بیوی فارغ ہونے کے قریب ہے ۔۔۔‬

‫علیشاہ شہوت میں ڈوبی اپنا ایک ہاتھ اوپر‬


‫الکر ‪.‬فیصل کے سر کو دبانے لگی ۔۔۔‪.‬فیصل‬
‫سمجھ گیا اور اس نے اپنی ‪.‬بیوی کی گردن‬
‫‪ ‬چومنے کی رفتار مزید تیز اور شدید کردی‬
‫جبکہ بہت تیزی کے ساتھ وہ اپنی ‪.‬بیوی کے‬
‫ممے بھی دبانے لگا ۔۔۔علیشاہ مزے کی انتہا‬
‫گہرائیوں میں ڈوبی ہوئی فارغ ہو رہی تھی‬
‫پہلی بار اس کا شہوت بھرا آرگیزم ھورہا‬
‫تھا وہ حیا سے اپنے شوہر کے وجود میں‬
‫سمٹ رھی تھی اور اسے لگ رہا تھا جیسے‬
‫وہ اپنی زندگی میں کبھی بھی اس قدر‬
‫شدت کے ساتھ فارغ نہیں ہوئی تھی فیصل‬
‫نے جب علیشاہ کی چوت پر پانی دیکھا تو‬
‫بوال اف گندی تم نے تو پیشاب کر دیا اس‬
‫سے پہلے علیشاہ کچھ بولتی کھڑکی سے‬
‫دیکھتی ھوئی فیصل کی بہن مہرو اندر‬
‫داخل ھوتے ھوۓ بولی واؤ میرا بھائی بہت‬
‫تو کمال کی چیز‪  ‬نکال مہرو نے دو انجان‪ ‬‬
‫پرندوں کو گھیرتے ھوئے کہا فیصل بے چارہ‬
‫شرما کر رہ گیا وہ اپنی بہن کے سامنے ننگا‬
‫تھا مہرو نے دیکھا تو فیصل کے لنڈ نے اپنا‬
‫‪ ‬سر جھکا لیا تھا شاید ڈر کی وجہ سے تھا‬

‫مہرو نے علیشاہ سے کہا بھابھی آپ بھی‬


‫بھائی سے پیار کرو نہ وہ حیا سے سمٹ کر‬
‫رہ گئ تھی شاید اسکی وجہ یہ تھی کہ‬
‫انجانے میں سہی پر فیصل کیساتھ بوس‬
‫وکنار ھوکر اسکا پانی نکل چکا تھا اور اب‬
‫اس کا گورا وجود پوری طر ح سے ٹھنڈ پڑ‬
‫چکا تھا‬

‫روم میں دھیمی طرز پر سونگ چل رہا تھا‬


‫مادھوری ڈکشٹ کا‪ .....‬دھک کرنے لگا‪...‬میرا‬
‫جیا را جلنے لگا اس رومانٹک سونگ نے مہرو‬
‫اور اسکی بھابھی علیشاہ کا موڈ بھی‬
‫رومانٹک کر دیا تھا شاید اس لئیے مہرو نے‬
‫اپنے بھابھی علیشاہ کو کہا کہ وہ میرے‬
‫دولہے بھائی کے لنڈ کو سہالۓ اور اگر ھو‬
‫سکے تو ایک دو چوپے بھی لگاۓ‬

‫مہرو نے بیڈ پر پڑے ریموڈ کو اپنے منہ کی‬


‫سامنے ال کر بوسہ لیا اور علیشاہ کو اشارے‬
‫‪.....‬سے سمجھاتے ھوۓ کہا‬

‫جاری ہے‪......‬‬

‫ایک مکمل انٹرٹینمنٹ میری نئی کہانی جو‬


‫صرف وٹس ایپ پر حاصل کرسکیں گے‬
‫‪ ‬اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‪#‬‬

‫صفحہ_‪#19‬‬

‫رائیٹر_نوابزادہ_شاہد‪#‬‬

‫اس نے فیصل کے مرجھاۓ ھوۓ لنڈ کو‬


‫سہالیا اور مہرو دور کھڑی اس نظارے کو‬
‫دیکھنے لگی فیصل بے چارہ شرما گیا اور‬
‫اپنی بیوی سے بوال ھم گندے کام کر رھے‬
‫ھیں کہیں مہرو آپی امی جان کو ھی نا بتا‬
‫دے وہ پہلے ہی بولتی ھے کہ فیصل تم نکمے‬
‫‪ ‬ھو‬

‫علیشاہ بولی اوہ میرے بھولے بادشاہ کوئی‬


‫کچھ نہیں کہے گا کسی کو بھی دیکھو میں‪ ‬‬
‫تمہاری منکوحہ ھوں تم ڈرو مت اور ایسے‪ ‬‬
‫پیار کرتے رھو مجھے مہرو بولی جی جناب‬
‫میں اپنے بھائی کا ڈر ھی تو نکالنے آئی ھوں‬
‫محبت کے اس انوکھے امتحان میں اپنے‬
‫بھائی کو میں کامیاب کرواؤنگی‬

‫مہرو نے اپنا رعب جماتے ھوۓ کہا اور‪ ‬‬


‫علیشاہ کو بولی کیوں میری بنو سچ کہا نہ‬
‫میں نے تو علیشاہ بولی جی اس کام میں آپ‬
‫ہماری استانی بنوگی مہرو بولی چلیں شروع‬
‫کرتے ھیں مہرو ایک اتھری کشمیری گھوڑی‬
‫تھی پر‬

‫اس نے جب سے شبو کو شاہد کے پیار بھرے‪ ‬‬


‫جھٹکوں پر آہیں بھرتے دیکھا تھا تب سے‬
‫اس کی چوت کا سمندر بال وجہ جوش مارنے‬
‫شرو ع ھوگیا تھا اس نے پہل کرنے سوچ لیا‬
‫تھا اسے لنڈ چاھئیے تھا پر موقع دیکھ کروہ‬
‫اپنا وار کرنا چاھتی تھی علیشاہ بولی مہرو‬
‫آپی آپ ہمیں بتاتی جاؤ اور ھم کرتے‬
‫جائینگے مہرو نے گرمجوشی سے کہا ہاں‬
‫‪ ‬ضرور‬
‫مہرو نے حیرت سے اپنی نظریں جھکا کر‬
‫اپنے بھائی کے ٹروزر کی طرف دیکھا تو اسے‬
‫حیرت ہوئی کیونکہ اس کے بھائی کا لن پہلے‬
‫کی نسبت مزید بڑا اور سخت اکڑا ہوا لگ رہا‬
‫تھا ۔۔۔ مہرو کو اپنے بھائی پر ترس آنے لگا‬
‫مگر اس نے کچھ بولنے کے بجائے اپنے بھائی‬
‫کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور روم سے‬
‫‪ ‬باہر نکل گئی ۔۔۔‬

‫باہر اپنے روم میں جا کر اس نے‪  ‬کو صوفے‬


‫پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود اپنی بھابھی‬
‫کا جائزہ لینے لگی ۔۔۔ جب اسے اس بات کا‬
‫یقین ہو گیا کہ اس کی ماں سوگئ‪  ‬ہے ہر‬
‫طرف سناٹا ھے‪  ‬کوئی بھی جلدی باہر نہیں‬
‫نکلے گی تو وہ تسلی سے آ کر اپنے بھائی کے‬
‫ساتھ‪  ‬اپنے روم میں صوفے پر بیٹھ گئی ۔۔۔‬
‫مہرو کو ہمیشہ سے ہی کسی مرد کا لن اپنے‬
‫ہاتھ میں لینے کی شدید خواہش تھی اور‬
‫اس سے بھی بڑی خواہش یہ تھی کہ اگر وہ‬
‫لن اس کے بھائی یا اس کے کسی دوست کا‬
‫ہوتا ۔۔۔ کیونکہ وہ ہمیشہ سے ہی منفرد کرنے‬
‫کی شوقین تھی اور آج اس کا یہ شوق‬
‫کچھ حد تک پورا ہونے لگا تھا ۔۔۔‬

‫۔‬

‫۔‬

‫مہرو نے صوفے پر بیٹھتے ہیں اپنے بھائی کا‬


‫ٹروزر نیچے کھینچا اور اس کا لن ایک دم‬
‫جھٹکا کھا کر باہر نکل کر لہرانے لگا ۔۔۔‬
‫فیصل اپنی بہن کے سامنے بے حد شرمانے لگا‬
‫۔۔۔ مہرو‪  ‬نے اس کی اس شرم کو محسوس‬
‫کر لیا ۔۔۔ وہ خود بھی محسوس کرنا چاہتی‬
‫تھی کہ کیسا لگتا ہے جب ایک عورت کے ممے‬
‫کوئی مرد دباتا ہے تو ۔۔۔ اس لئے مہرو نے‬
‫اپنی قمیض کا دامن آگے سے اوپر اٹھایا‬
‫اورفیصل کا ہاتھ پکڑ کے اپنی قمیض کے‬
‫نیچے سے اندر گھسا دیا اور بولی پہلے‬
‫‪...‬علیشاہ کو ایسے گرم کرنا ھے بھائی‬

‫علیشاہ تم بھی دیکھو پھر تم دونوں ایسے ‪ ‬‬


‫ہی کر نا‪  ‬۔۔۔ فیصل سمجھ گیا کہ اسے کیا‬
‫کرنا ہے اور وہ اپنا ہاتھ اوپر لے جا کر سیدھا‬
‫اپنی بہن کے ممے کو پکڑ کر دبانے لگا ۔۔۔‬
‫مہرو کے گورے براؤن نپل والے کنوارے‪  ‬ممے‬
‫شبو‪  ‬کی نسبت کافی چھوٹے تھے مگر پھر‬
‫بھی اتنے سیکسی انار جیسے تھے کہ فیصل‬
‫کے ہاتھ میں آتے ہی اسکے‪  ‬جسم میں مزے‬
‫کی شدید لہر دوڑنے لگی اور وہ بہت محبت‬
‫کے ساتھ اپنی بہن مہرو کے ممے کو دبانے لگا‬
‫اور اسکی بیوی علیشاہ بڑے اشتیاق سے‬
‫اسے دیکھنے لگی‬

‫مہرو نے اپنے بھائی کے لنڈ کو باہر نکال لیا‬


‫اور علیشاہ کو بولی کہ آ ادھر بیٹھ اور اپنے‬
‫شوہر کے لنڈ کے کیپ پر کس کرو اور بڑے‬
‫پیار سے اپنی زبان اس پر پھیرو تو علیشاہ‬
‫نے اپنا منہ کھوال اور فیصل کے کنوارے لنڈ‬
‫کے سپاڑے پر اپنے لب رکھ دئیے اور اسکو‬
‫چوسنا شرو ع کر دیا‬
‫پہلی بار فیصل‪  ‬کا لنڈ کسی لڑکی کے لبوں نے‬
‫اپنی دلکش گرفت میں لیا تھا تو اسکی تو‬
‫سسکاریاں نکلنا شرو ع ھوگئیں مہرو بولی‪ ‬‬
‫بھائی آپکو مزۂ آرہا ھے کیا تو فیصل بوال آہ‬
‫آہ مہرو مجھے بہت مزہ آ رہا ھے اور کرو نہ‬
‫مہرو آپی‬

‫فیصل کے لنڈ سے ایک سفید موتی نکال جسے‬


‫مہرو نے چاٹ لیا نمکین سا ٹیسٹ تھا اس کا‬
‫مہرو نے اپنے بھائی کا لنڈ اپنے منہ سے‬
‫نکالتے ھوۓ علیشاہ سے کہا اب تم بھی‬
‫فیصل بھائی کے لنڈ پر کس کرو علیشاہ نے‬
‫مہرو کے ہاتھ سے لنڈ پکڑا اور اپنے لب اس‬
‫پر جما دئیے مہرو بولی پہلے بھائی کے لنڈ‬
‫کی ٹوپی پر زبان پھیرو اور پھر اسے تھوڑا‬
‫تھوڑا نیچے کی طرف لے جاؤ‬

‫علیشاہ نے اپنی پیاری نند مہرو کے حکم کو‬


‫بجا التے ھوۓ اب آدھے سے زیادہ لنڈ اپنے‬
‫منہ میں لے لیا تھا مہرو نے اپنی بھابھی کو‬
‫چوپے لگاتے دیکھا تو اسے امریکن گوریوں‬
‫کی یاد آ گئ جو کالج میں اسکی دوست‬
‫ثمرہ جعفری نے اپنے موبائل میں دکھایا تھا‬
‫جو اسے اسکے دوست نے بھیجا تھا‬

‫اسے یاد آیا کہ ثمرہ نے جب اسے پورا ویڈیو‬


‫کلپس دکھایا تھا تب اسکی کنواری چوت نے‬
‫پہلی بار خوشی کے سفید آنسو بہاۓ تھے آج‬
‫ٹھیک اسی طر ح اسکی بھابھی اپنے انجان‬
‫دولہے فیصل کے لنڈ پر اپنا قبضہ جما رھی‬
‫تھی‬

‫مہرو کی چوت کی آ گ اب دہک چکی تھی‬


‫وہ لنڈ مانگ رھی تھی چاہے جس کا بھی ھو‬
‫مگر اس وقت سب سے قریبی لنڈ اسکے سگے‬
‫بھائی کا ھی تھا یا پھر فیصل کے دوست‬
‫شاہد کا جو مہرو پر الئن مارتا رہا ھے‬

‫مہرو نے سوچا کہ ھوسکتا ھے وہ شاہد کو‬


‫چانس دے چوت مارنے کا تو وہ اسے بدنام‬
‫نہ کردے اسی لئیے بہتر یہی ھوگا کہ فیصل‬
‫کے لنڈ سے آ گ بجھائی جاۓ مگر اس لنڈ پر‬
‫پہال حق علیشاہ کا تھا وہ کبھی بھی مہرو‬
‫کو پہال چانس نہیں دینے والی جس انداز‬
‫سے وہ لگی ھوئی ھے‬

‫مہرو نے اپنی بھابھی سے کہا کہ بھابھی‬


‫چلیں اب لیٹ‪  ‬جائیںاور بھائی کو‪  ‬اپنالنڈ‬
‫ڈالنے دیں بھائی کتنے بیتاب ھیں دیکھو تو‬
‫سہی مہرو کی بات سن کر علیشاہ بولی‬
‫مہرو یار یہ بہت لمبا ھے مجھے تو ڈر لگ رہا‬
‫ھے آپ مجھ سے بہادر ھو تو آپ تھوڑا‬
‫‪.....‬سالیکر دکھاؤ پھر میں کرونگی‬

‫جاری ہے‪.....‬‬
‫‪ ‬اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‪#‬‬

‫صفحہ_‪#20‬‬

‫علیشاہ نے ڈرتے ھوۓ کہا یار مجھے تو اتنا‬


‫لمبا لنڈ دیکھ کر بہت ڈر لگ رہا ھے اتنی‬
‫چھوٹی سی چوت میں کیسے جاۓ گا آپ‬
‫پہلے مجھے کر کے دکھاؤ تو پھر میں بھی‬
‫کوشش کر لیتی ھوں‬
‫مہرو آنکھ مارتے ھوۓ علیشاہ کو بولی بھال‬
‫میں اپنے بھائی کیساتھ کیسے کر سکتی ھو‬
‫یہ آپ ھی کو کرنا ھوگا یہ سب فیصل پر آپ‬
‫‪ ‬کا ھی حق ھے‬

‫علیشاہ بولی دیکھ مہرو ہم دونون انجان‬


‫ھیں آپ کم ازکم میرا نہیں تو اپنے بھائی کا‬
‫ھی خیال کرلو پلیز مہرو‪  ‬آجاؤ یار صرف‬
‫ایک بار ہمیں سب کچھ سکھا دو ھم پھر‬
‫سب کچھ خود کر لیا کرینگے‬

‫علیشاہ کی بات سن کر فیصل بوال مہرو آپی‬


‫آپ بتادو پلیز کیسے کرتے ھیں تو مہرو نے‬
‫اپنے بھائی فیصل‪  ‬لنڈ پر ہاتھ پھیرتے ھوۓ‬
‫کہا کہ آپ لوگ اگر ضد کرتے ھو تو میں‬
‫کرلیتی ھوں پر میری ایک شرط ھے علیشاہ‬
‫‪.....‬بولی بتاؤ کونسی شرط ھے‬

‫فیصل بوال آپی ہمیں تمہاری ہر شرط منظور‬


‫ھے پلیز آپ حکم کریں تو نازوں پلی بڑھی‬
‫مہرو جھٹ سے بولی کہ میری شرط یہ ھے‬
‫کہ آج سے ھم جو بھی کرینگے وہ سب ہم‬
‫کسی کیساتھ شئیر نہیں کرینگے فیصل اور‬
‫علیشاہ بولے ہمیں یہ سب منظور ھے‪  ...‬مہرو‬
‫اور دوسری بات ھم ایک دوسرے کی خواہش‬
‫کا احترام کرینگے اور فیصل بھائی جب نیلم‬
‫ویلی میں اپنے فارم ہاؤس میں ہنی مون‬
‫منانے جائینگے تو میں آپ لوگ لوگوں‬
‫کیساتھ اپنا فارم ہاؤس دیکھنے جاؤنگی‬
‫فیصل بوال لو بھئی کرلو بات اتنی سی بات‬
‫ھے میری پیاری بہن دیکھو جب ہم جائینگے‬
‫تو آپ بھی اس وقت ہمارے ساتھ جاؤگی‬
‫اور کوئی حکم میری بہن کا تو مہرو بولی‬
‫وقت آنے پر سب بتا دونگی آپ بتاؤ کہ اب‬
‫‪.......‬کیا سیکھنا ھے میرے پیارے بھائی نے‬

‫فیصل اپنے لنڈ کو سہالتے ھوۓ بوال کہ آپی‬


‫ماموں اس دن کہہ رھے تھے کہ بلی پکڑی تم‬
‫کہ نہیں تو آپ بتائیں بلی کیسی پکڑی جاتی‬
‫ھے تو مہرو ہنس ہنس کرلوٹ پوٹ ھوگئ‬
‫مہرو کو ہنستے دیکھ کر فیصل گھبرا گیا کہ‬
‫اس نے کچھ غلط تو نہیں کہہ دیا‬
‫مہرو نے کہا میں بتاتی ھوں اپنے بھائی کو‬
‫آپ میرا پاجامہ اتارو وہ بیڈ پر لیٹ گئ اور‬
‫اپنی ٹانگیں ھوا میں اٹھادیں اور فیصل بیڈ‬
‫کے قریب آیا اس نے اپنی بہن مہرو کا‬
‫پاجامہ اسکی ٹانگوں سے نکال دیا اب مہرو‬
‫پینٹی پہن کرلیٹی ھوئی تھی‬

‫کالے رنگ کی پینٹی میں لیٹی مہرو نساء‬


‫غضب ڈھارھی تھی وہ لیٹی تھی آج اسکا‬
‫بھائی اسکا ننگا جسم دیکھ کر وحشی ھوتا‬
‫جار ہا تھا علیشاہ نے مہرو کی شرٹ بھی‬
‫نکال دی تھی اب وہ صرف پینٹی پہنے اپنے‬
‫بھائی کے سامنے لیٹی ھوئی تھی اسکا‬
‫گورے گورے ممے علیشاہ سہال رہی تھی‬
‫مہرو نے ایک بار پھر اپنی کمر کو اٹھایا اور‬
‫فیصل نے جھٹ سے اپنی بہن کی ٹانگوں‬
‫میں سے کالی پینٹی نکال دی اور مہرو کی‬
‫چمکتی دمکتی چوت فیصل کے سامنے آ گئ‬
‫فیصل نے پہلی بار اتنے قریب سے چوت‬
‫دیکھی تھی‬

‫گوری اور باریک لبوں والی چوت جس پر بال‬


‫نہیں تھے اور مہرو کی پنک چوت کے لب‬
‫آپس میں ملے ھوۓ تھے درمیان میں ایک‬
‫چھوٹا سا سورا خ تھا جس کے اندر باریک‬
‫سی جھلی تھی اتنی خوبصورت چوت کوئی‬
‫جوان مرد دیکھتا تو اس خزانے کو جلد ھی‬
‫لوڑے کی نوک پر لوٹ لیتا پر کہتے ھیں ہر‬
‫ے‪‎‬آرزو اچھے وقت پر ہی پوری ھوتی‬
‫ھ‪‎‬‬
‫مہرو کی چوت کو اناڑی دولہا حیرت سے تک‬
‫رہا تھا مہرو سمجھ گئ کہ میری ماں واقعی‬
‫اس کو صیح نکما کہتی ھے وہ کچھ‬
‫سمجھتا ھی نہیں تو اس نے خود پہل کرنے‬
‫کا سوچا دوستو اکثر لڑکیاں اس کام میں‬
‫پہلے نہیں کرتیں یہ کام مرد ہی انجام دیتے‬
‫ھیں‬

‫مہرو اپنی مٹھی میں بند کرتے ھوۓ کہا‬


‫بھائی آپ پوچھ‪  ‬رھے تھے نہ بلی کا تو‬
‫بھائی یہ بلی ھے اور اسمیں آپ اپنا لنڈ ڈالو‬
‫گے میرے بلی آپکا سارا لنڈ کھا جاۓ گی اور‬
‫آپ کو بہت مزہ آۓ گا‬
‫فیصل بوال نہ بھئی میں نہیں ڈالوں گا جب‬
‫آپکی بلی میرا لنڈ کھا جاۓ گی تو پھر میں‬
‫اپنے لنڈ کے بغیر کیسے جی سکوں گا مہرو‬
‫غصے سے بولی اف کھوتے یہ بلی کونسا‬
‫اصلی والی بلی ھے جو آپکا لنڈ کھا جاۓ گی‬
‫آپ ڈال دو اندر کچھ نہیں ھوتا آپ میری‬
‫ٹانگیں اٹھاؤ اور اپنا لنڈ میری چوت کے‬
‫سوراخ میں ڈال دو اور اندر باہر کرنا شرو ع‬
‫کر دو‬

‫فیصل کانپتے ھوۓ بوال آپی کچھ ہوگا تو‬


‫نہیں نہ مجھے بہت ڈر لگتا ھے ھم ایسا نہ‬
‫کریں کہ شاہد کو بال لیں وہ آپ سے بھی‬
‫زیادہ بہادر ھے وہ کرلے گا آپ کے ساتھ اور‬
‫ھم دیکھ کر سیکھ جائینگے تو مہرو بولی‬
‫کمینے بہن چود اپنی بہن اپنی دوست سے‬
‫‪......‬چدواۓ گا شرم نہیں آتی تمہیں‬

‫آپ مرد بنو اور توڑ دو میری سیل اور اپنے‬


‫بہن کو اپنے دوست کے نیچے لیٹنے سے بچالو‬
‫تو فیصل نے آ خرکار اپنی بہن کی بات کو‬
‫مانتے ھوۓ اپنی بہن کی ٹانگیں اٹھائیں اور‬
‫اپنے کاندھے پر رکھ لیں اور علیشاہ نے اپنی‬
‫نند کی گوری کمر کے نیچے تکیہ رکھ دیا‬
‫جس سے مہرو کی چوت اب فیصل کے لنڈ‬
‫کے عین نشانے پر تھی‬

‫مہرو سے اب برداشت نہیں ھو پارہا تھا اس‬


‫نے اپنے بھائی کا لنڈ پکڑ کر اپنی چوت کی‬
‫چھوٹے سے سوراخ پر رکھا اور تھوڑا سا‬
‫ہالیا تاکہ چوت کے پانی سے لنڈ کا ٹوپا‬
‫تھوڑا گیال ھو جاۓ اور اندر جانے میں‬
‫آسانی پیدا ھو‬

‫مہرو کے گورے وجود نے لوڑے کا لمس پاتے‬


‫ھی جھٹکے لینا شروع کر دئیے تھے آج اس‬
‫کا لڑکی سے عورت بننے کا سفر طے ھونے‬
‫جارہا تھا اسکی پیاس بجھنے جارھی تھی‬

‫مہرو نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے بھائی فیصل‬


‫کی کمر میں گاڈ دئیے تھے اور اپنے ناخن‬
‫اسکی کمر میں پیوست کر دئیے اور اسکو آ‬
‫گے بڑھنے کو کہا مہر و کے نوکیلے ناخن جب‬
‫فیصل کی کمر میں پیوست ھوۓ تو درد کے‬
‫مارے اس نے ایک جھٹکا مارا اور اس کا لنڈ‬
‫مہرو کی چوت کے لب کھول کر اندر داخل‬
‫‪.....‬ھو گیا‬

‫مہرو فیصل کا ٹوپا اپنی چوت میں جاتے‬


‫ھی خوشی سے چال اٹھی اف بھائی ماردو‬
‫بلی اور آج پورے مرد بن جاؤ اور اپنی بہن‬
‫کو لڑکی سے عورت بنا دو پلیز آہ بہت بڑا لنڈ‬
‫ھے آپکا اب پورا ھی ایک شارٹ میں ڈال‬
‫‪.....‬دو‬

‫ابھی تو بھائی صرف آپکا ٹوپا گیا ھے میری‬


‫چوت میں ابھی تو آپ نے میری سیل توڑنا‬
‫ھے فیصل نے دوسرا شارٹ مارنا چاہا مگر‬
‫اس کے لنڈ نے پچکاری مار کر ہار مان‬
‫‪....‬لی‪.....‬مہرو غصے بھری‬

‫جاری ہے‪....‬‬

‫ایک مکمل انٹرٹینمنٹ میری نئی کہانی جو‬


‫صرف وٹس ایپ پر حاصل کرسکیں گے‬
‫کیونکہ یہ کہانی اب مکمل کر دی گئی ھے‬
‫اسکے عالوہ‪  ‬اناڑی دولہا بھی چند دنوں بعد‬
‫اس گروپ میں شامل کی جائے گی انسیسٹ‬
‫کہانیوں کے پڑھنے والے اسکو وٹس ایپ پر‬
‫خرید کر پڑھ رہے ہیں‬
‫اناڑی دولہا کھالڑی بہن‬

‫صفحہ ‪21‬‬

‫مہرو غصے سے بولی ویسے تو تم ھو ھی‬


‫نکمے اور اب ڈر کی وجہ سے میری سیل بھی‬
‫نہیں توڑ سکے تم مہرو کی غصہ دیکھ کر‬
‫فیصل بے چارہ کانپنے لگ گیا اور بوال کہ‬
‫سوری آپی میرا نکل گیا پتہ ھی نہیں چال‬
‫پلیز آپ مجھے معاف کر دیں فیصل نے‬
‫محبت کا پہال امتحان پاس نہیں کیا تھا اس‬
‫لئیے وہ نروس تھا‬

‫اس کا لنڈ سکڑ گیا تھا اور واپس اپنی مردہ‬


‫حالت میں آ گیا تھا مہرو کی کنواری چوت‪ ‬‬
‫سیراب نہ ھوسکی تھی بلکہ اسکی پیاس‬
‫اور بڑھ گئ تھی وہ آج سہاگن بننا چاہتی‬
‫تھی پر اسکا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ھو‬
‫سکا تھا اس نے اپنی چوت صاف کی اور‬
‫کپڑے پہن کر اٹھ کھڑی ھوئی اور شکستہ‬
‫لہجے میں فیصل سے بولی بھیا سچ سچ‬
‫‪....‬بتاؤ‬
‫آپکا ڈر کی وجہ سے نکل گیا ھے نہ‪  ‬اب تو‬
‫فیصل بوال جی آپی مجھے ڈر تھا کہ نجانے‬
‫یہ چھوٹے سے سوراخ میں کیسے جاۓ گا‬
‫اور اگرکسی نے یہ سب دیکھ لیا تو طوفان آ‬
‫جاۓ گامہرو بولی چلو ایک کوشش اور‬
‫کرلیتے ھیں علیشاہ بولی جی میرا بھی یہی‬
‫خیال ھے ہمیں فیصل میاں کو ایک موقع اور‬
‫دینا چاھئیے ہمیں ایک بار پھرسے تیار کرنا‬
‫چاھئیے تو مہرو نے فیصلو کو بوال جاؤ تم‬
‫خودکو صاف کرکے آؤ ھم کچھ کرتی ھیں‬
‫فیصل نے اپنی آپی مہرو کا حکم مانتے ھوۓ‬
‫واش روم جانا ہی مناسب سمجھا‬

‫مہرو علیشاہ سے بولی کہ بھائی ڈر گیا ھے‬


‫اس کو‪  ‬اعتماد دینا پڑے گا نند بھابھی کا‬
‫باتیں جاری تھیں کہ شبو کا فون آیا وہ شبو‬
‫کا نام اپنے مو بائل کے انٹرفیس پر دیکھ کر‬
‫گھبرا گئ اور علیشاہ کی طرف دیکھنے لگی‬
‫جیسے کچھ چھپا رھی ھو‬

‫مہرو کی پریشانی کو بھانپتے ھوۓ علیشاہ‬


‫بولی کس کا فون ھے اور آپ اسے رسیو‬
‫کیوں نہیں کر رھی تو مہرو بولی یار شبو کا‬
‫فون ھے کمینی رات گئے پتہ نہیں کیا گیم‬
‫کریگی آپ رسیو تو کرو کال اور سپیکر‬
‫کھول دو سنیں تو سہی کیا کہتی ھے‬

‫شبو ہیلو کیسی ھو تو مہرو میں ٹھیک ھوں‬


‫جی فرمائیے کیا مصیبت پڑ گئ اس وقت تو‬
‫شبو بولی یار مجھے ایک کام تھامہرو تم سے‬
‫اگر کروگی تو مہرو بولی کہ بولو اگر کرنے‬
‫واال ھوگا تو پھر کردوں گی شبو یار کل رات‬
‫میں گھرمیں اکیلی ھو یار تم آجاؤ میری‬
‫طرف دونوں مل کر خوب باتیں کرینگی‬
‫مہرو بولی تم اپنے بواۓ فرینڈ کو بال لو نہ‬
‫اپنی چوت کی آ گ بھی بجھالینا اور باتیں‬
‫‪.......‬بھی کرتی رہنا تم اس سے‬

‫شبو بولی یار اسکو بھی بالیا ھے یار وہ بھی‬


‫آ جاۓ گا ھم مل کر انجواۓ کرینگی تو مہرو‬
‫بولی اچھا میں کل بارہ بجے دن تک پروگرام‬
‫بنا کر آپکو بتادوں گی کہ آسکوں گی یا نہیں‬
‫شبو بولی یار میری امی میرپور جارھی ھے‬
‫دو دنوں کے لئیے اور میرے شوہر میاں صلیح‬
‫صاحب کو آفس سے چھٹی نہیں مل رھی‬
‫آپ ڈرو مت اگرتمہارا دل کرے تو تم بھی‬
‫چدوا لینا اور اگر تمہارا دل نہ کرے تو وہ‬
‫تمہارے ساتھ زبر دستی نہیں کر ے گا‬

‫شبو کی بات سن کر مہرو سوچ میں پڑ گئ‬


‫اور علیشاہ اسے دیکھتے ھوۓ بولی یارمہرو‬
‫چپ کیوں ھوگئ ھو شبو کی بات سن کر آپ‬
‫گم سم سی ھو گئ ھو خیریت تو ھے تو‬
‫مہرو بولی سو چ رہی ھوں کہ مجھے شبو‬
‫کی بات مان لینا چاھئیے یا پھر انکار کر دینا‬
‫‪....‬چاھئیے‬
‫علیشاہ بولی تجھے جانا چاھئیے وہ کیوں‬
‫بھال مہرو چونک کربولی تو علیشاہ نے کہا‬
‫دیکھ مہرو مجھے لگتا ھے ھم دونوں پیاسی‬
‫رہ جائینگی فیصل کا حال تم نے تو دیکھ لیا‬
‫ھے وہ ھوسکتا ھے ھمیشہ ڈرتا ھی رھے تب‬
‫ھمیں ایک قابل اعتماد دوست کی ضرورت‬
‫پڑسکتی ھے مہروبولی ہاں مجھے بھی ایسا‬
‫‪....‬ھی لگتا ھے‬

‫علیشاہ نے مہرو کی چوت پر ہاتھ پھیرتے‬


‫ھوۓ کہا کہ کتنا تڑپاؤگی اس پھدیارانی کو‬
‫بہتریہی ھوگا تم اپنا اور میرا بندوبست‬
‫کرتے ھوۓ شاہد کو شبو سے چھین لو اور‬
‫اپنے حسن کے جال میں پھنساؤ تم کونسا‬
‫شبو سے کم ھو جو اتنا نہیں کرسکی ابھی‬
‫تک اور ایک خوبرو جوان لڑکا وہ پھنساکر لے‬
‫گئ اور تم نے ایک آسان شکار اپنے ہاتھ سے‬
‫نکال دیا تمہیں تو اسی رات دونوں کو پکڑنا‬
‫چاھئیے تھا تاکہ جب چاھتی جہان چاہتی‪ ‬‬
‫اپنامطلب نکال سکتی‬

‫فیصل ایک بار پھر واش روم سے واپس آ‬


‫گیا اور دونوں کشمیری حسیناؤں نے ایک بار‬
‫پھر اس تھکے ھوۓ گھوڑے کو پھر سے تیار‬
‫کرنے کا سوچا مہرو نے کہا سنو بھائی اب‬
‫ڈرنا نہیں ھے اور آپ نے‪  ‬اپنی مردانگی ثابت‬
‫کرنی ھے ھم دونوں کو چود کر آپ نے وہ‬
‫سکھ دینا ھے جو پہلے نہیں دے سکے‪..‬فیصل‬
‫بوال اچھامہرو باجی اب شکایت کا مو قع‬
‫نہیں دوں گا آپ کریں شرو ع میں بھی آپکا‬
‫‪......‬ساتھ دوں گا‬

‫فیصل بیڈ پر لیٹ گیا اور مہرو نے اسکا‬


‫پاجامے سے لنڈ نکال کر اپنے گورے ہاتھ کی‬
‫مٹھی میں لے لیا اور علیشاہ کو قریب کرتے‬
‫ھوۓ بولی اب تم چوسو گی یا پھرمجھے‬
‫ھی یہ سب کرنا پڑے گا تو علیشاۂ بولی میں‬
‫بھی کوشش کروں گی اپنی سوئی ھوئی‬
‫قسمت کو جگانے کی واہ کیا بات ھے مہرو‬
‫نے شبو کی بات سن کر کہا اور آنکھ مارتے‬
‫ھوۓ اپنا منہ کھوال اس نے فیصل کے لنڈ‬
‫کاسپاڑہ اپنے لبوں میں جکڑ لیا اف بہت‬
‫مست لوڑا ھے فیصل بھائی آپکا قسم سے آج‬
‫یہ مجھے مار ھی ڈالے گا‪  ‬علیشاہ نے ایک‬
‫زبردست چوپا لگاتے ھوۓ فیصل کا لنڈ اپنی‬
‫منہ سے نکال کر مہرو کی طرف بڑھا دیا اس‬
‫کی چمکتی ٹوپی پر مہرو نے اپنے لبوں کے‬
‫حصار میں لے لی اور چوسنا شرو ع کر دیا‬
‫مہرو نے اپنی زبان گول گول فیصل کے لوڑے‬
‫پر گھمانا شرو ع کردی‬

‫دونوں کی شدید محنت رنگ الئی اور فیصل‬


‫کا لنڈ اب پورے جوبن پر کھڑا ھوگیامہرو نے‬
‫ایک بار پھر پیار سے اسے سہالیا اور لیٹ گئ‬
‫اور اپنے بھائی کو بوال کہ چلو کوشش کرو‬
‫اور اپنا لنڈ میری چوت میں ڈال دو فیصل‬
‫نے اپنالنڈ مہرو کی چوت کے سوراخ پر رکھا‬
‫اور علیشاہ نے پوچھا جی مہرو تیار ھو آپ‬
‫تو مہرو نے شرماتے ھوۓ اپنا سر ہاں میں‬
‫ہالدیا‬

‫فیصل نے اپنےلنڈ کو اپنی بہن مہرو کی‬


‫چوت پر دبایا تو مہرو کی مدھ بھر آواز‬
‫گونجی آؤ چ آہ آہ آرام سے پلیز ابھی تو‬
‫صرف لنڈ کا کیپ ھی اندرگیا تھامگر فیصل‬
‫کو شاید مزہ آیا اس نے رکنا مناسب نہ‬
‫سمجھا اس نے ایک زور دار جھٹکا مارا اور‬
‫اسکالنڈ مہرو کی سیل توڑتا ھوا اندر چال‬
‫‪.......   ‬گیا‬

‫جاری ہے‪....‬‬
‫‪    ‬‬
‫خوبصورت_فیملی_انسیسٹ_ناول_خوفناک_ن ‪‎‬‬
‫‪#‬‬
‫اول_محبت_بھری_داستانیں اورکہانیاں‬
‫پڑھیں وٹس ایپ پر محدود چارجز ادا کرکے‬
‫فری والے لوگ دور رھیں ایسے لوگ جو ناول‬
‫لکھنا چاہتے ھیں تو ھم سے رابطہ کریں آپ‬
‫اپنی زندگی پر مبنی داستان بھی لکھوا‬
‫سکتے ھیں بیرون ملک پاکستانی بھی وٹس‬
‫ایپ پر اپنے پسندیدہ‪  ‬ناول اور کہانیاں پڑھ‬
‫رہے ھیں‬

‫اب_اپنا_پسندیدہ_ناول سلیکٹ کریں اور‪#‬‬


‫وٹس ایپ کے ذریعے حاصل کریں کچھ‬
‫چارجز ادا کرکے پہلے اپنے پسندیدہ ناول کا‬
‫نام بتائیں پھر‪  ‬حاصل کریں‬ ‫🔥🔥🔥‬
‫بالی وڈ کی گھوڑیاں۔۔۔۔براہ والی‪#‬‬
‫شاپ۔۔۔۔۔۔۔استانی جی۔۔کوچنگ والی‬
‫مس۔۔۔۔۔۔۔دو بہنیں اور میں۔۔۔۔۔یاسر میں اور‬
‫وہ ۔۔۔۔ندا اور حنا۔۔۔۔سوتن میری سہیلی۔۔۔‬
‫انتقام اسکی بہنوں سے۔۔۔۔بھولی داستان‬
‫ابتک۔۔‪..‬میجر کی رنڈیاں۔۔سالیوں کی‬
‫پینٹی۔۔۔سہاگن۔۔۔فروا دیدی۔۔۔۔۔دو بھابیاں۔۔‬
‫بے شرم باپ۔۔۔بڑی ماں کا گھر ۔۔۔بھٹکتے‬
‫قدم۔۔۔پدو ماوتی۔۔۔۔چاندیمال حلوائی کی‬
‫بیویاں۔۔۔۔سپنوں کے سوداگر۔۔۔۔۔تنگ‬
‫پجامی۔۔چاچی کمینی۔۔جن زادی سے‬
‫زیارتی۔۔۔۔۔گوری لڑکی۔محلے داریاں۔۔گاؤں‪ ‬‬
‫کا ننگا پن۔۔۔خدمت گار۔۔۔۔گھر کا بھیدی۔۔۔۔‬
‫گوشت کی دکان۔۔۔۔اک عام سی لڑکی ۔۔۔وفا‬
‫دار بیوی۔۔چاندیمال حلوائی کی بیوی۔۔داماد‬
‫اور ساس۔۔حنا کا ٹویشن۔۔۔ٹک ٹاک سٹارز‬
‫کی مستیاں۔۔۔۔زمیندار کی بیٹی۔۔بھابھی‬
‫گرم مزاج۔۔سگہ بھائی۔۔خاندانی مستیاں۔۔۔‬
‫چار راتیں۔۔فقیر بچہ۔۔۔۔۔بچپن کا کھیل۔۔۔‬
‫بیوی سے بہن وفادار۔۔۔۔۔۔ شہوت زادی۔۔۔‬
‫ہوش ربا۔۔۔بھابھی اور اسکی امی۔۔۔۔باجی‬
‫اور میں۔۔۔بدلہ۔۔اے بہار بن کر۔۔۔شرارتی‬
‫ساس۔۔۔پیاری سسٹر۔۔۔۔مالئکہ بہن کی‬
‫شرارتیں۔۔‬

‫بادشاہ۔۔۔۔۔۔کسی کو نہیں چھوڑا۔۔۔۔۔۔مساج‬


‫سینٹر۔۔۔۔زمیندار کی بیٹی ۔۔۔جن زادی‬
‫پاروتی۔۔۔۔۔گوپی شرما کا ڈاکٹر ۔۔۔مریم نواز‬
‫کی رنگین زندگی۔۔۔پشتون گھوڑیاں‪..‬غرور‪...‬‬
‫محبت ایک سزا۔۔۔۔۔۔۔۔ دوگھوڑیوں کے‬
‫سوار‪....‬چوہدرائن‪.‬۔۔۔۔۔نمبر دارنی‪...‬استانی‬
‫جی‪...‬چھوٹا چوہدری‪......‬بھولی داستان‪....‬بڑی‬
‫حویلی کی بہو‪....‬حویلی مکمل‪...‬فہد اور‬
‫مہرین‪...‬ہاسٹل کی لڑکیاں۔۔۔۔۔۔۔گرم‬
‫فیملی‪..‬۔۔۔۔‪.‬ارتغل غازی‪..‬شاہدآفریدی کی‬
‫بک‪....‬عروسہ بہن‪...‬محبت کےبعد۔۔۔صندوری‬
‫چوت۔۔کال بوائے۔۔کہاں کہاں سے گزر گیا۔۔۔۔۔‬
‫امی کا شوہر۔۔۔چنگاری۔۔مجھے بچہ چاھئیے‬
‫تھا۔۔گوری میم۔۔۔۔۔امتحان ۔۔۔مالں پور کا‬
‫سائیں۔۔۔‬

‫استانی جی۔۔۔کالو کا پیار۔۔۔ہوش ربا۔۔۔۔‬


‫چنگاری۔۔۔سات گھنٹے۔۔۔۔مارننگ‬
‫شوکانواب‪...‬داماد اور ساس‪....‬پرانی‬
‫حویلی‪ ...‬ساس کبھی بہو تھی‪..‬شاہدتیرے‬
‫نکاح میں‪..‬کوچنگ والی مس‪..‬کلثوم کی‬
‫بہنیں‪..‬میل کرا دے ربا‪...‬ماڈل کا ہنی‬
‫مون‪...‬میری کزن ندا‪..‬میراشہسوار‪....‬خالہ‬
‫جمیلہ‪...‬سوتیلی‪...‬فریدہ‬
‫خالہ‪....‬وارث‪....‬سینچری‪...‬ساگرکی‬
‫بہنیں‪....‬بدلتے رشتے‪....‬بڑی مالکن‪....‬عشق‬
‫آوارہ‪......‬سات گھنٹے‪....‬رکھیل‪...‬تیرا ھی‬
‫جلوہ‪.......‬دیوداس‪...‬گینگسٹر‪.......‬سچی‬
‫کہانی‪..‬کراچی کی لڑکیاں‪...‬ڈاکٹرہما‪...‬ہما کی‬
‫شرارتیں‪..‬پنڈ دا ڈاکٹر‪.....‬میجر کی‬
‫رنڈیاں‪....‬میری زندگی‪....‬اجنبی آشنا‪...‬مالں‬
‫پور کاسائیں‪....‬تراش اور تشنگی‪ ..‬محبت ایک‬
‫سزا دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔گھوڑیوں کے سوار‪...‬بھولی‬
‫داستان‪..‬کہاں کہاں سے گزر گیا‪...‬بڑی حویلی‬
‫کی بہو‪....‬حویلی مکمل‪...‬فہد اور‬
‫مہرین‪...‬ہاسٹل کی لڑکیاں‪..‬گرم فیملی۔۔۔لبرل‬
‫فیملی‪..‬سالیوں کی‪....‬شاہدآفریدی کی گیم‬
‫چینجر‪....‬عروسہ بہن‪...‬محبت کےبعد‪..‬مارننگ‬
‫شوکانواب‪..‬۔۔۔۔‪.‬پدوماوتی‪..‬لکشمی اور شاہد‬
‫‪....‬پرانی حویلی‪ ...‬ساس کبھی بہو‬
‫تھی‪..‬شاہدتیرے نکاح میں‪..‬کوچنگ والی‬
‫مس‪..‬کلثوم کی بہنیں‪..‬میل کرا دے ربا‪...‬ماڈل‬
‫کا ہنی مون‪...‬میری کزن‬
‫ندا‪..‬میراشہسوار‪....‬خالہ‬
‫جمیلہ‪...‬سوتیلی‪...‬فریدہ‬
‫ساگرکی‪...‎‬خالہ‪....‬وارث‪....‬سینچری‬
‫بہنیں‪....‬بدلتے رشتے‪....‬بڑی مالکن‪....‬عشق‬
‫آوارہ‪......‬سات گھنٹے‪....‬رکھیل‪..‬برا والی‬
‫شاپ۔۔۔۔بھٹکتے قدم۔۔۔۔عاقب کی بہنیں۔۔۔‬
‫ڈاکٹر چیک اپ۔۔۔۔۔‪..‬دیوداس‪...‬گوری کا گاؤں‬
‫‪....‬سچی کہانی‪..‬کراچی کی‬
‫ڈاکٹرہما‪.‬۔۔ڈاکٹر سونیا۔۔اناڑی دولہا‪..‎.‬لڑکیاں‬
‫کھالڑی بہن۔‪..‬ہما کی شرارتیں‪..‬پنڈ دا‬
‫اناڑی دولہا کھالڑی بہن‬

‫صفحہ ‪22‬‬

‫فیصل نے جب اپنی بہن مہرو کے اندر ڈاال تو‬


‫ایک بار پھر مہرو کی تنگ چوت نے فیصل‬
‫کے لنڈ کو اپنی گرفت میں لے لیا اور چوت‬
‫کے بے تحاشہ گرمی نے فیصل کے لنڈ کو جلد‬
‫‪..‬پانی چھوڑنے پر مجبور کردیا‬
‫مہرو بے چاری ایک بار پھر بنا چدائی کے ہی‬
‫پیاسی نظروں سے فیصل کو کوستی رھی‬
‫بہر حال اس کا پہال اور دوسرے فیصلے اب‬
‫دونوں بری طر ح سے ناکام‪  ‬ھوچکے تھے‬
‫تجربات کی اب مزید گنجائش نہیں رھی‬
‫تھی فیصل کی مردانگی پر نہ صرف اسکی‬
‫بہن شک کر رھی تھی بلکہ علیشاہ کو بھی‬
‫شدید مایوسی ھوئی تھی۔۔اناڑی دولہا اب‬
‫‪ ‬شرمسار تھا‬

‫فیصل بے چارہ اپنی ناکامی کو لیکر بہت‬


‫پریشان تھا وہ اپنے روم سے باہرنکل گیا‬
‫مہرو اور علیشاہ اب ایک دوسرے کا منہ‬
‫دیکھنے لگیں رات کافی ھو چکی تھی اس‬
‫لئیے مہرو اپنے روم میں چلی گئ اور جلد‬
‫ھی خواب خرگوش کے مزے لوٹنے لگی‬
‫دوسری طرف علیشاہ بھی سوگئ تھکن سے‬
‫چورفیصل بھی ہارے ھوۓ جواری کی طرح‪ ‬‬
‫سہاگ کی سیج پر علیشاہ کی بغل میں آ کر‬
‫‪....  ‬لیٹ گیا‬

‫صبح کی روشنی پھیل چکی تھی ٹھنڈی‬


‫ٹھنڈی ھوا چل رھی تھی آج کسی نے بھی‬
‫جلد کسی کام پر نہیں جانا تھا اسی لئیے‬
‫سب سوۓ ھوۓ تھے مگرگھر کی مالکن بیگم‬
‫کومل رضوی صبح سویرے ھی جاگ گئ‬
‫تھی وہ سو چ رھی تھی کہ پتہ نہیں رات کو‬
‫‪ ‬فیصل کی جیت ھوئی یا پھر ہار‬
‫بیگم رضوی رزلٹ دیکھنا چاہتی تھی اپنے‬
‫بیٹے کا مگر ابھی تک سارے سوۓ ھوۓ تھے‬
‫اس لئیے کومل رضوی نے بے چین ھوتے ھوۓ‬
‫کالک پر وقت دیکھا تو صبح کے سات بج‬
‫چکے تھےاس نے اپنے شوہر فیصل کےباپ‬
‫رضوی صاحب کو دیکھا تو وہ ابھی تک‬
‫خراٹے بھر رھے تھے جیسے اکثر لوگ سوتے‬
‫وقت خراٹے بھرتے ھیں تو بیگم رضوی نے ہر‬
‫طرف جب سناٹا دیکھا تو وہ ٹھیک اسی طر‬
‫ح چیک اٹھی جیسے کرکٹ کے دیوانے‬
‫پاکستان کے ڈے اینڈ نائٹ میچ کا رزلٹ‬
‫چیک کرنے صبح صبح فیس بک پیج اوپن‬
‫کرنے کے لئیے اٹھتے ھیں پھر پی ٹی وی کا‬
‫پیج اوپن کرکے دیکھتے ھیں کہ رات کو کون‬
‫جیتا ٹھیک اسی طرح فیصل کی ماں نے ڈور‬
‫اوپن کیا‬
‫اس نے کھڑکی کو اوپن کیا اور دیکھا کہ‬
‫‪‎   ‎‬دونوں ابھی تک سورھے ھیں‬

‫اس نے کچن میں جا کر ناشتہ بنانا شرو ع کر‬


‫دیا آج اس نے فیصل کے پسند کا آملیٹ بنایا‬
‫دودھ گرم کیا اور اپنے شوہر رضوی صاحب‬
‫کے لئیے‪  ‬اورنج کا جوس بنایا اور ڈائنگ ٹیبل‬
‫پر سجایا تب تک سب لوگ فریش ھوکر اپنی‬
‫اپنی جگہ پر ناشتہ کرنے بیٹھ گئے مہرو کا‬
‫موڈ کچھ بدال بدال سا تھا جبکہ اسکی‬
‫بھابھی ناشتے سے خوب سیر ھو کر کھارھی‬
‫تھی‬
‫فیصل بھی کسی سے نظریں نہیں مال‬
‫پارھاتھا اور اس پراسرار خاموشی کا جمود‬
‫توڑتے ھوۓ رضوی صاحب نے کہا کیا بات‬
‫ھے مہرو تم آج‪  ‬صبح صبح تمہارا چہرہ اترا‬
‫اترا سا ھے بیٹا تمہاری صحت تو ٹھیک ھے‬
‫رضوی صاحب نے پریشانی کو بھانپتے ھوۓ‬
‫‪....‬مہرو کو کریدنا چاہا‬

‫مہرو بولی پاپا میں ٹھیک ھوں آپ فکرمت‬


‫کریں ابھی سو کر اٹھی ھوں اس لئیے آپکو‬
‫لگ رہا ھے ایسا کچھ نہیں ھے مہرو نے اپنے‬
‫حصے کا بریڈ اور دودھ کا کپ لیا اور کھانا‬
‫شرو ع کر دیاتب بیگم رضوی فیصل کے‬
‫کمرے میں جا پہنچی اور بیڈ کی چادر کو‬
‫‪.....‬غور سے دیکھنے لگی‬
‫بیگم رضوی نے جب بیڈ پر نظر دوڑائی تو‬
‫بیڈ کی نئ چادر پر ایک طرف خون کے‬
‫نشانات اسکو فیصل کی کامیابی کی نوید‬
‫سنانے لگے وہ خوشی سے شاد باد ھوکر ان‬
‫نشانات پر ہاتھ پھیر کر بہت خوش ھوئی‬
‫اور سوچنے لگی فیصل کو رات جب میں نے‬
‫سمجھایا تھا یہ سب اسی کا اثر ھے کشمیر‬
‫کا بیٹا ھے ایسے کیسےہار جاتا علیشاہ سے‬
‫اس نے بیڈ پر لگے نشانات پر ہاتھ پھیرا اور‬
‫اپنی ناک کو لگایا خون کو خوشبو اس کو‬
‫خوشی سے سرشار کرگئ اس سے پہلے کوئی‬
‫آجاۓ روم میں وہ روم سے نکل کر جلد کچن‬
‫‪....‬کی طرف دوڑ گئ‬
‫وہ کچن میں جاکر اپنے کشمیری چاۓ تیار‬
‫کرنے لگی پراٹھا اس نے پہلے ھی کھا لیا‬
‫تھااور اب کشمیری چاۓ پیتے ھوۓ وہ‬
‫سوچنے لگی کہ ہاۓ کیاسین ھوگا جب‬
‫فیصل کے لنڈ نے علیشاہ کی چوت کو چیرا‬
‫ھوگا اور اسکی چیخیں فضامیں شور کرتی‬
‫ھونگی ہاۓ بہت عرصے کے بعد اس گھر میں‬
‫سہاگ رات منائی گئ ھے وہ رات بھی کیا‬
‫رات تھی جب فیصل کے ابا نے میری ساری‬
‫منتیں روندتے ھوۓ میری سیل توڑ کر میرا‬
‫خون بہایا تھامیں تڑپ گئ تھی پر میری‬
‫رحم کی اپیلیں چیخیں بن کر پورے گھر‬
‫میں گونج گئ تھیںاب فیصل کی ماں کو کیا‬
‫معلوم تھا کہ سہاگ کی سیج پر خون کے‬
‫نشانات اسکی بیٹی مہرو کی چوت کا پردہ‬
‫بکارت ثوٹ جانے کا تھا جو ہارے ھوۓ‬
‫‪ ‬جواری کی طر ح صبح سے گھوم رھی تھی‬
‫‪...‬‬

‫ی‪‎‬‏‪  ‬مہرو نساء ناشتہ کرکے اپنے‏‬


‫روم میں چل ‪‎‬‬
‫گئ اور لیٹ گئ تب ادھر ادھر اپنا ذھن‬
‫گھمانے کے بعد اپنا موبائل دیکھنے لگی جو‬
‫کل رات سے اس کے کمرے میں پڑا ھوا‬
‫تھااس نے ہلکی سی آواز میں لتا کا ایک گانا‬
‫پلے کر دیا میرے نیناں ساون بھادوں پھر‬
‫بھی میرا من پیاسا پھر بھی میر ا من پیاسا‬
‫لتا کی درد بھری آواز نے مہرو کے روم کا‬
‫ماحول اور غمگین کر دیا تھا اس نے آنسو‬
‫بہانا شروع کردئیے ایک تو اسکا پیارا بھائی‬
‫ناکام ھوگیا اور دوسرا بڑا دکھ یہ تھا کہ‬
‫سب کچھ گنوا کر بھی وہ کچھ حاصل نہ کر‬
‫‪ ....‬سکی‬

‫کوئی اگر دکھ سکھ کا ساتھی ھوتا تو اسکو‬


‫گلے لگا کر یہ دکھ سنایا جاتا مگر یہ دکھ‬
‫ایساتھا کہ اسکو کسی سے بیان کرنا ناممکن‬
‫تھا وہ نہ جانے کن سوچوں میں گم تھی تب‬
‫اس کے میسج کی ٹون بجی اس نے سوچا‬
‫کہ شاید کمپنی والوں کا ھوگا سونگ کامزہ‬
‫‪...‬خراب کردیا‬

‫لتا کا سونگ سر بکھیرتے ھوۓ جب اختتام‬


‫پذیر ھوا تو تب پھر دو میسج آۓ تو اس نے‬
‫چیک کیا موبائل کی سکرین پر اس کے‬
‫عاشق فیصل کے جگری دوست شاہد‬
‫کامیسج تھا سالم دعا کے بعد اس نے پوچھا‬
‫جناب ناراض ھو مجھ سے کونسی غلطی‬
‫ھوئی جو آپ جواب نہیں دے رھی ھو‬

‫مہرو کے چہرے پر سمائل پھیل گئ اس نے‬


‫جواب میں لکھا کہ تمہیں شبو سے فرصت‬
‫ملے تو پھر کسی کے بارے میں سوچو‬
‫دوسری طرف شاہد کا ریپالئی آیا اگر تم مل‬
‫جاؤ شبو چھوڑ دینگے ھم مہرو کہاں گم ھو‬
‫اپنے بھائی کو ملنے بھی نہیں آۓ شاہد‪ ..‬ارے‬
‫ان کے انجواۓ کرنے کے دن ھیں ابھی رنگ‬
‫‪...‬میں بھنگ ڈالنے میں تھوڑی آؤں گا‬
‫شاہد یار مہرو وہ تم سے ایک بات کرنا تھی‬
‫تم آج رات شبو کے گھر آؤگی نہ مہرو بولی‬
‫‪ ... ‬اگر میں نہ‬

‫جاری ہے‪.....‬‬

‫خوبصورت_فیملی_انسیسٹ_ناول_خوفنا‪#‬‬
‫ک_ناول_محبت_بھری_داستانیں اورکہانیاں‬
‫پڑھیں وٹس ایپ پر محدود چارجز ادا کرکے‬
‫فری والے لوگ دور رھیں ایسے لوگ جو ناول‬
‫لکھنا چاہتے ھیں تو ھم سے رابطہ کریں آپ‬
‫اپنی زندگی پر مبنی داستان بھی لکھوا‬
‫سکتے ھیں بیرون ملک پاکستانی بھی وٹس‬
‫ایپ پر اپنے پسندیدہ‪  ‬ناول اور کہانیاں پڑھ‬
‫رہے ھیں‬
‫‪ ‬اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‪#‬‬

‫‪ ‬صفحہ_‪#23‬‬

‫شاہد بوال ‪....‬میں آپکو پھر اٹھاکر لے جاؤنگا‬


‫‪.‬تم ایسے ھی مانوں گی‬

‫‪...‬مہرو بولی‬
‫مجھے اٹھانا اتنا آسان نہیں ھے خاص کرکے‪ ‬‬
‫شاہد تمہارے لیئے‪ .‬تو شاہد بوال سچ کہہ رہی‬
‫ھو تم مجھے فیصل بھائی کا منہ مار جاتا‬
‫ھے ورنہ تم جیسی گھوڑا بڑے اچھے طریقے‬
‫سے دوڑاتا ھوں میں اور اتھری گھوڑی پر‬
‫‪...‬سواری کا اپنا ھی مزہ‪  ‬ھوتا ھے‬

‫آپ شاید جانتے نہیں ھو نوابزادے اتھری‬


‫گھوڑیاں اکثر اپنے سوار کو گرا دیتی ھیں‬
‫بحث سمیٹتے ھوۓ شاہد نے کہا کہ مطلب تم‬
‫نہیں آؤگی اور تمہارا صاف انکار ھے مہرو‬
‫نساء شاہد کو ستارھی تھی وہ جلد ھی بولی‬
‫مجھے آپ سے ایک پرامس لینا ھے اگر آپ‬
‫‪..‬وعدہ کروگے تو پھر میں آسکتی ھوں‬
‫شاہد مہرو کی‪  ‬بات کو ٹوکتے ھوۓ بوال بتاؤ‬
‫اب کیا کروانا چاھتی ھو کیسا وعدہ لینا‬
‫چاھتی ھو مجھ سے تو مہرو نےکہا کہ آپ‬
‫شبو کیساتھ سب کچھ میرے سامنے ھی‬
‫کروگے پر مجھے کچھ نہیں کہوگے بولو‬
‫‪...‬اگرمنظور ھے تو پھر میں آ جاؤں گی‬

‫اگر آپ مجھے تھوڑی سی دے دوگی تو‬


‫کونسا آپکا کچھ جاتا ھے بلکہ تجھے ایک نئ‬
‫لذت سے روشناس کروادوں گا شاہد نے کہا‬
‫‪....‬تو‬

‫مہرو بولی میں ایک باحیا اور پردے دار‪ ‬‬


‫لڑکی ھوں اور میرا حسب نسب اس چیز کی‬
‫اجازت نہیں دیتا کہ میں تمہارے نیچے لیٹ‬
‫کر تمہیں اپنی ٹانگیں اٹھانے کا موقع دوں‬
‫میرا جسم پاک ھے اس پر‪  ‬تمہارا حق نہیں‬
‫ھے ھمارے خاندان میں لڑکیاں یہ حق صرف‬
‫اپنے ھم منصب کو ھی دیتی ھیں نہ کہ ہر‬
‫‪..‬کسی کے نیچے لیٹ جاتی ھیں‬

‫مہرو نساء کا صاف انکار سن کر شاہد کو‬


‫ویڈیوکلپ یاد آ گیا جو اسے فیصل نے وٹس‬
‫ایپ کیا تھا مہرو اس بات سے بے خبر تھی‬
‫شاہد نے بھی سرپرائز دینے کا سوچا اور اس‬
‫نے بھاگتی ھوئی اس ہرن کی رفتار کو بریک‬
‫لگاتے ھوۓ کہا جناب میں نے آپ کے جسم کا‬
‫ہر ایک حصہ دیکھا ھوا ھے اور آپ تو‬
‫سٹرنگ کی وہ بوتل ھو جسے میں ایک‬
‫‪...‬سانس میں ھی پی جانا چاھتا ھوں‬

‫مہرو نے شاہد کی بات کو مذاق سمجھتے‬


‫ھوۓ کہا کہ اچھامذاق کرلیتے ھیں آپ سنو‬
‫تم کوئی جادوگر نہیں ھو جو میرا جسم‬
‫جادوئی طاقت سے یہ کرشمہ دکھا سکو‬
‫‪ ‬شاہد نے مہرو کا نمبر مال دیا‬

‫جسے اس نے ادھر ادھر دیکھا سارے گھر‬


‫والے‪  ‬اپنی اپنی مصروفیت میں تھے اس نے‬
‫کال‪  ‬کو رسیو کرلیا اور سالم دعا کے بعد‬
‫شاہد نے کہا مہرو جان تجھے پانے کی‬
‫حسرت کب سے میرے دل میں ھے بات جادو‬
‫کی نہیں میں نے تمہارا سارا جسم دیکھا ھوا‬
‫ھے چاھو تو کوئی نشانی مجھ سے پوچھ لو‬
‫‪...‬تم‬

‫مہرو بولی اچھا جناب تو بتائیے کچھ‬


‫نشانیاں کہ میرا جسم کیساھے اور اگر آپ‬
‫کی بتائی ھوئی نشانیاں میچ کرگئیں تو پھر‬
‫میرا شاید موڈ بدل جاۓ تمہارے ساتھ‬
‫‪..‬مالپ کرنے کا دل مان جاۓ‬

‫شاہد بوال تم وعدہ کرو کہ ساری نشانیاں‬


‫سچ ھونے پر آپ مجھے اپنا آپ سونپ دوگی‬
‫تو مہرو کا رنگ شرم سے الل سرخ ھوگیا وہ‬
‫شرماتے ھوۓ بولی مجھے منظور ھے اب بتاؤ‬
‫سب نشانیاںتو شاہد نے کہا مہرو تمہارا جسم‬
‫بہت گورا ھے مہرو خوب مسکرائی شاہد کی‬
‫بات سن کر اور بولی بڑی اعلی پیشگوئی‬
‫‪...‬کی‬

‫آپ نے تو شاہد بوال‪ ...‬آپ کے دائیں بوبز پر‪ ‬‬


‫تل کا نشان ھے مہرو نے ہڑبڑاتے ھوۓ کہا آپ‬
‫نے دیکھ لیا ھوگا آپ تو شکاری ھو آپ کی‬
‫نظر میرے مموں پر ھی تو تھی تو عقاب‬
‫جیسی نظر نے دیکھ لیا ھوگا جب فیصل کی‬
‫بارات والے دن کو صبح تم میرے ساتھ بستر‬
‫اکٹھے کروا رھے تھے تب میرا پلو گرگیا تھا‬
‫تب آپ نے دیکھ لیا ھوگا تو شاہد بوال جی‬
‫نہیں مہرو آپ تو بین والے گلے استعمال‬
‫کرتی ھو آپکے ممے نظر آنے کا سوال ھی‬
‫‪...‬پیدا نہیں ھوتا‬

‫‪ ......‬شاہد نے ایک اور سرپرائز دینے کا سوچا‬

‫اور اس نے کہا کہ آپکی ناف اندرکو گہری ھے‬


‫اور ناف کے پاس بھی ایک تل ھے وہ بائیں‬
‫جانب ھے اور آپکی چوت کے لب پنک ھیں‬
‫اور تمہارے چوت پر ایک تل ھے دائیں سائیڈ‬
‫کی ٹانگ کی طرف شاہد کی باتیں سن‬
‫‪...‬کرمہرو شرم سے الل ھوگیا تھا‬

‫وہ شرماتے ھوۓ بولی ہاۓ چپ کر جاؤ شاہد‬


‫آپکو شرم نہیں آتی میرے ساتھ ایسی باتیں‬
‫کرتے ھو تو شاہد بوال اسکامطلب یہ سب‬
‫نشانیاں سچ ھیں جو میں نے ابھی بتائی‬
‫ھیں تو مہرو نے کہا‪  ‬ھوسکتا ھے سب‬
‫نشانیاں سچی ھوں اور اس نے مسکرا کر‬
‫کال کو کٹ کر دیا تو شاہد نے پھر میسج کر‬
‫دیا‪  ‬کہ مہرو یہ چیٹنگ ھے‪  ‬آپ اب شرط سے‬
‫‪...‬بھاگ‪  ‬رھی ھو‬

‫‪....‬مہرو نے ریپالئی دیتے ھوۓ کہا‬

‫کہ آپ نے یہ سب کیسے دیکھا تو شاھد بوال‪ ‬‬


‫مہرو جی آپ میرے خواب میں آئی تھی‬
‫اسی لئیے سب کچھ دیکھ لیا خواب میں‬
‫رات کو میں نے خواب میں تجھے چودا بھی‬
‫تھا مہرو بولی سچ تو شاہد بوال جی سچ‬
‫مچ آپکو چودا تھا میں نے خواب میں اور‬
‫صبح جب دیکھا تو میری پینٹ تم گیلی‬
‫‪...‬کرکے بھاگ گئ تھی‬

‫‪.....‬شاہد بوال کہ‬

‫اس رات خوب ہاتھا پائی ھوئی تھی تمہاری‪ ‬‬


‫اور میری مہرو بولی کہ میں نے خواب میں‬
‫بھی نہیں دی ھوگی آپکو‪  ‬تو شاہد بوال کہ‬
‫میں نے تو زبردستی لے لی تھی آپکی بھال‬
‫میں آپکو ایسے ھی جانے دیتا مہرو نے‬
‫ریپالئی دیا کہ آپکو ترس نہیں آیا اپنے‬
‫دوست کی معصوم بہن کو اس طر ح چودتے‬
‫ھوۓ یہ بھی نہ سوچا کہ کتنا درد ھوا ھوگا‬
‫مجھے شاہد بوال کب درد ھوا ھوگا آپکو‬
‫جناب تو مہرو بولی جب آپ نے میری سیل‬
‫‪...‬توڑی ھوگی‬

‫شاہد بوال پھرمزہ بھی تو آیا ھوگا آپکو جب‬


‫سارا اندرگیاھوگا تب آپ نے مجھے بہت پیار‬
‫دیا اور آپ لپٹ گئ تھی مجھ سے مہرو‬
‫بولی جھوٹ مت بولو کیوں جھوٹ بولوں گا‬
‫میں اس نے ہڑبڑاتے ھوۓ کہا تو مہرو بولی‬
‫کہ میں اتنا بڑا نہیں لے سکتی نہ ھی مجھ‬
‫میں اتنی ہمت نہیں ھے‬

‫مہرو نساء نے نوٹ کیا کہ اسکی چوت اب‬


‫پوری طرح سے گیلی ھو چکی تھی اور اسے‬
‫اب مزہ آنے لگا تھا شاہد کیساتھ رومانٹک‬
‫سیکس چیٹ کرنے میں شاہد نے بوال کہ ایک‬
‫بات پوچھوں مہرو بھال آپکو کیسے پتہ کہ‪ ‬‬
‫مہرو بولی ہاں ہاں بولو کیا پوچھنا ھے اب‬
‫آپ شرمارھے ھو‬

‫شاہد بوالمہرو آپکو کیسے پتہ کہ میرا اتنا‬


‫بڑا ھے تو مہرو کھل کھال کر ہنس پڑی اور‬
‫مسکراتے ھوۓ بولی جیسے خواب میں آپکو‬
‫میری چوت پر تل کا نشان نظر آیا تھا اسی‬
‫طر ح سے مجھے بھی آپ کا بڑا لنڈ نظر آ گیا‬

‫مہرو کی ھنسی کی شورکرتی آوازسن کر‬


‫بیگم رضوی باہر سے بولی مہرو کس کیساتھ‬
‫لگی ھو تم خیر تو ھے تو مہرو بولی ماں‬
‫خیریت ہی ھے وہ وہ ۔۔۔۔وہ میری سہیلی‬
‫ثمرہ جعفری کی کال ھے اسکے ساتھ بات کر‬
‫رہی ھوں تو بیگم کومل رضوی بولی اچھا‬
‫‪ ...‬بیٹی‬

‫مہرو نے شاہد سے کہا میں فون‪  ‬بند کر رہی‬


‫اب شبو کے گھر مالقات‪  ‬ھوگی اس نے فون‬
‫چارجنگ پر لگایا اور علیشاہ کے پاس چلی‬
‫گئی جو پنجرے میں اسٹریلین طوطوں‬
‫کو‪ ‬دانہ ڈال رہی تھی‬

‫جاری ہے‪....‬‬
‫اناڑی دولہا کھالڑی بہن‬

‫صفحہ ‪24‬‬

‫فیصل اپنے دل ھی دل میں خود کو کوس‬


‫رہا تھا اس نے سو چ لیا تھا کہ وہ ثابت‬
‫کرکے رھے گا کہ وہ ایک کامیاب مرد ھے‬
‫کیونکہ اس نے اپنے دوست شاہد کیساتھ‬
‫مشورہ کرکے پھر اس ساری صورتحال پر‬
‫ایک حکیم‪  ‬کی مدد حاصل کی اور حکیم‬
‫صاحب نے چیک اپ کے بعد فیصل کو کچھ‬
‫میڈیسن دی اور شاہد نے کہا کہ حکیم‬
‫صاحب مجھے لگتا ھے کہ یہ سب نروس‬
‫ھونے کی وجہ سے ھوا ھوگا تو حکیم‬
‫صاحب بولے یہ بچہ بہت زیادہ گرم اور مرغن‬
‫اشیاء کا استعمال کرتا رھا ھے جسکی وجہ‬
‫سے اسکا سپرم بہت پتال ھو گیا ھے یہ‬
‫میڈیسن ایک ھفتے تک استعمال کریں پھر‬
‫‪ ...‬دیکھنا آپ لوگ خود آئینگے میرا انعام لیکر‬

‫‏‪#‬شاہد_بوال حکیم صاحب بچے نے تو سہاگ‬


‫رات بھی نہیں منائی جب یہ بیڈشیٹ پر‬
‫اپنی محبت کے سر خ رنگ بکھیرے گا تب‬
‫آپکو آپکا انعام مل جاۓگاحکیم صاحب نے‬
‫مسکرا کرکہاجلد ھی آپ اس مبارک گھڑی‬
‫کو دیکھ سکیں گے‪  ‬صرف ڈر کو اس کے دل‬
‫سے نکال دیں بس‪  ‬دونوں نے حکیم صاحب‬
‫سے اجازت چاھی اور گھر واپس چل دئیے‬
‫اور فیصل نے شہر سے مٹھائی کا ایک ڈبہ‬
‫پیک کروایا اور شادی کی خوشی میں شاہد‬
‫‪ ‬کے گھردینے چال گیا‬

‫ویسے تو دونوں دوست اکٹھے ھی تھے پر‬


‫گاؤں میں آ کر فیصل نے بتایا کہ شاہد یار‬
‫آنٹی اور انکل کو شادی کی مٹھائی دینا‬
‫باقی ھے اور آج اسی بہانے آپ سے کچھ دیر‬
‫گپ شپ بھی ھو جاۓ گی اور دل کا بوجھ‬
‫بھی ہلکا ھو جاۓ گا‬
‫فیصل نے شاہد کو بوال یار آپ کو پتہ ھے‬
‫اس دن‪  ‬میں کیوں ڈر گیا تھا تو شاہد بوال‬
‫جی بتاؤ میرے بھائی اس دن کیا ھوا تھا‬
‫اس سے پہلے کہ فیصل کچھ بولتا چاۓلیکر‬
‫شاہد کی ماں حاضر ھوئی اور فیصل کے سر‬
‫پر پیار دیتے ھوۓ بولی مبارک ھو فیصل بیٹا‬
‫‪ ‬تو فیصل بوال خیر مبارک‬

‫خالہ جی پر ہمیں افسوس ھے کہ آپ میری‪ ‬‬


‫شادی پر نہیں آئیں تو شاہد کی والدہ بولی‬
‫ب بیٹا ھم معذرٹ‬
‫خواہ ھیں در اصل ھم س ‪‎‬‬
‫اس دن اسالم آباد چلے گئے تھے فیض آباد‬
‫میں ہمارا ایک عزیز بیمار‪  ‬تھا جسکی‬
‫تیمارداری بہت ضروری تھی اور ہماری‬
‫نمائندگی آپکا بھائی شاہد کر چکا ھے تو‬
‫فیصل بوال آنٹی سارے جہان نے خوب چکن‬
‫کھایا میری شادی پر آپ نے نہیں کھایا اسی‬
‫لئیے میں آپکا منہ میٹھا کروانے آیا ھوں تو‬
‫فیصل کی مزاحیہ بات کو سن ہال میں‬
‫بیٹھے تینوں کھل کر ہنسنے فیصل نے شاہد‬
‫کو بوال یار آپ کو پتہ ھے اس دن‪  ‬میں کیوں‬
‫ڈر گیا تھا‬

‫تو شاہد بوال جی بتاؤ میرے بھائی اس دن‪ ‬‬


‫کیا ھوا تھا اس سے پہلے کہ فیصل کچھ‬
‫بولتا چاۓلیکر شاہد کی ماں حاضر ھوئی اور‬
‫فیصل کے سر پر پیار دیتے ھوۓ بولی مبارک‬
‫ھو فیصل بیٹا تو فیصل بوال خیر مبارک‪ ‬‬
‫خالہ جی پر ہمیں افسوس ھے کہ آپ میری‬
‫شادی پر نہیں آئیں تو شاہد کی والدہ بولی‬
‫ب بیٹا ھم معذرٹ‬
‫خواہ ھیں در اصل ھم س ‪‎‬‬
‫اس دن اسالم آباد چلے گئے تھے فیض آباد‬
‫میں ہمارا ایک عزیز بیمار‪  ‬تھا جسکی‬
‫تیمارداری بہت ضروری تھی اور ہماری‬
‫نمائندگی آپکا بھائی شاہد کر چکا ھے تو‬
‫فیصل بوال آنٹی سارے جہان نے خوب چکن‬
‫کھایا میری شادی پر آپ نے نہیں کھایا اسی‬
‫لئیے میں آپکا منہ میٹھا کروانے آیا ھوں تو‬
‫فیصل کی مزاحیہ بات کو سن ہال میں‬
‫بیٹھے تینوں کھل کر ہنسنے لگے‪..‬‏‬

‫دونوں چاۓپی کر شاہد کے روم میں چلے‬


‫گئے اور آمنے سامنے صوفےپر بیٹھ گئے تب‬
‫شاہد نے فیصل کو اعتماد میں لیتے ھوۓ‬
‫پوچھا فیصل اب بتاؤ کہ وجہ کیا ھے جو تم‬
‫سہاگ رات کو ہماری بھابھی کو شاد باد‬
‫نہیں کرسکے تھے اور ڈرگئے تھے تو فیصل‬
‫بوال شاہد یار میں صرف تجھے ھی بتانے لگا‬
‫ھوں ساری کہانی مگر تم وعدہ کرو یہ بات‬
‫ھمارے درمیان ھی رھیگی‏‬

‫فیصل کی پریشانی سمجھتے ھوۓ شاہد نے‬


‫اپنا سر ہاں میں ہالدیا اور پھر فیصل نے‬
‫بھی یہ پہیلی کو سلجھانے کا فیصلہ کرلیا‬
‫تھا وہ بوال سہاگ رات کو جب میں اور‬
‫علیشاہ ننگے تھے تب‪  ‬ہماری مدد کرنے میری‬
‫آپی مہرو ھمارے روم میں آ گئ اور جسے‬
‫دیکھ کر میں شدید قسم کے خطرات کو‬
‫دیکھتے ھوۓ ڈرگیا تھافیصل کی بات سن‬
‫کر شاہد حیران رہ گیااسے یقین نہیں ھو رہا‬
‫تھا کہ مہرو نساء جیسی لڑکی بھی انسیسٹ‬
‫لورز یا لیزبیئن ھو سکتی ھے وہ فیصل کو‬
‫بوال ایسے کیسے کر سکتی ھے وہ تو فیصل‬
‫بوال میں نے تو اسکی چوت میں بھی ڈاال تھا‬
‫شاھد بوال اس نے تجھے کچھ نہیں کہا اور‬
‫اس ٹائم علیشاہ کہاں تھی تو فیصل نے الف‬
‫سے لیکر یہ تک سارا قصہ شاھد کو سنا دیا‬

‫شاہد بوال مہرو کو آپ دونوں کے درمیان‪ ‬‬


‫نہیں آنا چاھئیے تھا تو فیصل بوال‏‬

‫مہرو آپی نے مجھے ڈرتے ھوۓ دیکھ کر کہا‬


‫کہ فیصل تم علیشاہ کو نہیں چود سکو گے‬
‫آؤ میں تمہیں سب سکھاتی ھوں فیصل نے‬
‫ساری بات اپنے دوست شاہد کے سامنے گوش‬
‫گزار کردی اور شاہد کو فیصل پر بہت ترس‬
‫آیا اس نے فیصل کو گلے لگاتے ھوۓ کہا تم‬
‫اپنی بہن کا لحاظ مت کرو وہ بھی ایک‬
‫عورت ھے آپ اسے بغیر کسی ڈر کے چود‬
‫ڈالو ورنہ نہ بہن محبت کریگی تمہاری اور نہ‬
‫ھی بیوی پر کنٹرول رھے کا تمہارا فیصل‬
‫بوال بھائی کہہ تو آب صیح رھے ھو اس رات‬
‫میں ڈرگیا کہ اگر امی کو پتہ لگ گیا کہ میں‬
‫نے مہرو کو ننگا کیا ھے یا پھر دیکھا ھے تو‬
‫پھر اس نے میری ہڈی پسلی ایک کردینی ھے‬

‫شاہد نے فیصل سے کہا کہ میری بات مانو‬


‫اور تم علیشاہ سے پہلے مہرو کو اس کے روم‬
‫میں اپنی مردانگی کا ثبوت دو اور پھر‬
‫بھابھی علیشاہ کے ساتھ کرو اور یہ سلسلہ‬
‫دونوں کے ساتھ‪  ‬الگ الگ کرو اور بعد میں‬
‫بھلے ھی گروپ سیکس کرو مگر ایک بار ان‬
‫دونوں کو الگ الگ چودو اور اپنے گھر کی‬
‫گھوڑیوں کو کنٹرول کرو ورنہ کوئی اور‬
‫انکی عزت تار تار کر دے گا یا پھر یہ‬
‫‪ ‬گھوڑیاں اپنا سوار خود چن لیں گی‬

‫شاہد کی بات سن کر فیصل بوال یار تمہاری‬


‫بات تو سچ ھے میری بات مانو تو علیشاہ پر‬
‫تم سوار ھو جاؤ اور مہرو۔۔۔پر میں سوار ھو‬
‫جاتا ھوں فیصل کی پیشکش سن کر شاہد‬
‫بوال‪  ‬وہ ھم جب وادی نیلم جائینگے تب‬
‫کرلینگے ابھی‪  ‬تمہاری باری ھے‬
‫دوسری طرف آج رات کی تیاریاں کی‬
‫جارھیں تھیں شبو نےآج مہرون کلرکا ٹراؤزر‬
‫اور شارٹ کے اوپر اپر پہنا ھوا تھا اور آج‬
‫وہ پہلی بار اپنے محبوب شاہد کیساتھ رات‬
‫گزارنے والی تھی دونوں پہلی بار تنہائی میں‬
‫ایک دوست کی پیاس بجھانے کا فیصلہ‬
‫کرلیا تھا‪  ‬آج شبو نے شاہد کو ڈنر بھی‬
‫آفرکیا تھا جو اس نے قبول کرلیا تھا‪....‬‏‬

‫شبو نے ڈورکھوال تو سامنے شاہد کھڑا تھا‬


‫جو پیدل ھی آیا تھابائیک پر آتا تو ہمسائیوں‬
‫کو شک پر جانی تھی شبو نے شاہد کو اشارہ‬
‫کیا کہ سامنے بیڈ روم میں چلے جاؤ تو شاہد‬
‫جاکر شبو کے روم میں جاکر بیٹھ گیا تو‬
‫شبو کھانا لیکر آ گئ اور آج اس نے رہو فش‬
‫روسٹ کی تھی اور ساتھ میں بریانی تیار‬
‫کی تھی‬

‫خاص مہمان کی خوب آؤ بھگت ھونا شرو‪ ‬‬


‫ع ھوگئ تھی شبو نے شاہد کو بوال کہ کھانا‬
‫شرو ع کریں تو وہ بوال کہ شبو یار میں نے‬
‫مہرو کو بھی مدعو کیا تھا ھو سکتا ھے وہ‬
‫بھی آجاۓ شاہد کی بات سن کر شبو شکستہ‬
‫لہجے میں بولی کہ شاہد مہرو انسیسٹ لور‬
‫ھے وہ ھماری محفل کا حصہ نہیں بنے گی‬
‫دونوں ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار‬
‫مسکرا دئیے تب‪  ‬شاہد بوال شبو جی آپکو یہ‬
‫کس نے بتایا تو شبو بولی شاہد وہ میری‬
‫بچپن کی دوست ھے اور میں اس کی رگ رگ‬
‫سے واقف ھوں‬
‫دونوں نے کھانا کھا لیا تھا اور شبو کچن‬
‫میں چاۓ بنانے چلی گئ اورشاہد ایل سی‬
‫ڈی پر سونگ لگا کر سننے لگا آج جدھر وہ‬
‫بیٹھا تھا وہ جگہ شبو کی سہاگ کی سیج‬
‫تھی جس پر وہ ایک دن میاں صلیح کی‬
‫دلہن بن کر لڑکی سے عورت بنی تھی‬

‫شبو نے اپنے کمرے کو بہت نفاست سے‬


‫سجایا ھوا تھا بیڈ پر سرخ رنگ کی بیڈ‬
‫شیٹ بچھائی تھی اور دلہن کے جیسے اس‬
‫نے سہاگ رات کی فراک اور زیورات پہنے‬
‫ھوۓ تھے رات پھیل چکی تھی اور مہرو کے‬
‫آنے کی امید دم توڑ چکی تھی شاہد نے جب‬
‫فون کیا تو مہرو کا نمبر بند جارہا تھا‬
‫شبو نے سہاگن بن کر سیج پر بیٹھ کر اپنے‬
‫گھونگھٹ کو گرا دیا شاہد بوال میری جان تم‬
‫‪ ‬تو گھونگھٹ ڈال کر بیٹھ گئیں‬

‫جیسے نئ دلہن ھو کوئی تو شبو نے‬


‫سرگوشی کرتےھوئے کہا اج تم میرے دولہا‬
‫ھو ھم اج سہاگ رات منائینگے شبو بولی‬
‫پہلے منہ دکھائی تو دو‬

‫شاہد نے اسکے ہاتھ کو پکڑا اور سہالنا شرو‪ ‬‬


‫ع کردیا اور اسکا گھونگھٹ اٹھادیا‬

‫اور_اس نے شبو کے منہ کو اوپر کرکے‪#‬‬


‫اسکی ماتھے پر ایک بوسہ لے لیا‪...‬‏اور بوال یہ‬
‫……میری شبو کا پیارا سا تحفہ ھے‬

‫‪‎ ‬‬

‫جاری ہے‪.....‬‬

‫دو_گھوڑیوں_کے_سوار‪‎#‬‬

‫ایک مکمل انٹرٹینمنٹ میری نئی کہانی جو‬


‫صرف وٹس ایپ پر حاصل کرسکیں گے‬
‫کیونکہ یہ کہانی اب مکمل کر دی گئی ھے‬
‫اسکے عالوہ‪  ‬اناڑی دولہا بھی چند دنوں بعد‬
‫اس گروپ میں شامل کی جائے گی انسیسٹ‬
‫کہانیوں کے پڑھنے والے اسکو وٹس ایپ پر‬
‫خرید کر پڑھ رہے ہیں‬
‫اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‬

‫صفحہ_‪#25‬‬

‫رائیٹر_نواب_شاہد‪#‬‬

‫شاہدشبو ؛ چل جلدی سے اپنی ٹانگیں کھول‬


‫‪ ‬دے۔۔۔‬

‫شبو نہیں۔۔۔ پلیززززز۔۔۔ نہیں۔۔۔‪.‬شبوکے منہ‬


‫سے نکال لیکن اسکا جسم تو اسکے کنٹرول‬
‫میں نہیں تھا نا۔۔۔ اسکے الفاظ پورے ہونے‬
‫سے پہلے ہی اسکی دونوں رانیں کھل چکی‬
‫ہوئی تھیں۔۔۔ ‪.‬شبو نے بنا کچھ بولے اپنی‬
‫ٹانگوں کو پھیال دیا۔۔۔ اسکی ٹائیٹ گالبی‬
‫چوت ‪.‬شاہد کی آنکھوں کے سامنے تھی۔۔۔‬
‫گرم چوت۔۔۔ پانی چھوڑتی ہوئی۔۔۔ تڑپتی‬
‫ہوئی۔۔۔ پھڑکتی ہوئی۔۔۔ چوت کے اوپر کے‬
‫‪ ‬حصے پر ہلکے ہلکے بال تھے‬

‫بہت ہی خوبصورتی سے تراشے ہوئے‪..‬شاہد‬


‫نے اسکی پیاری سی چوت کو دیکھا اور پھر‬
‫دوبارہ سے اپنی انگلی سے اسکی چوت کو‬
‫سہالنا شروع کر دیا آہستہ آہستہ۔۔۔ اور‬
‫اسکی چوت کے دانے کو رگڑنے لگا۔۔۔‬
‫شاہد نے آنکھیں بند کیں اور اپنی چوت کو‬
‫اوپر کو اچھالنے لگی۔۔۔ منہ سے سسکاریاں‬
‫نکالنے لگی۔۔۔ لیکن ہونٹوں سے کوئی بھی‬
‫لفظ نہیں نکال‪..‬شاہد بھی صوفہ پر چڑھ کر‬
‫سیدھا ہو گیا‪..‬شبو کی ٹانگوں کے درمیان‬
‫میں اور اسکا لن اسکی پھدی کے بالکل‬
‫سامنے آگیا۔۔۔ بالکل قریب‪...‬شبو کی آنکھیں‬
‫‪ ‬یہی منظر دیکھ رہی تھیں۔۔۔‬

‫شاہد نے ‪.‬شبو کا ایک ہاتھ پکڑا اور اسے‬


‫کھینچ کر اپنے اکڑے ہوئے لن کے اوپر رکھ‬
‫دیا۔۔۔ افف ف ف ف ف ف۔۔۔ لوہے کی گرم‬
‫موٹی راڈ جیسے اسکے ہاتھ میں پکڑا دی‬
‫تھی ‪.‬شاہد نے۔۔۔ جس پر ہاتھ پڑتے ہی ‪.‬شبو‬
‫کی آنکھیں کھل گیں۔۔۔ دیکھا تو ‪.‬شاہد کے‬
‫لن پر اسکا ہاتھ تھا‪..‬شاہدکی آنکھوں میں‬
‫دیکھتے ہوئے‪.‬شبو نے اپنا ہاتھ ہٹانا چاہا لیکن‬
‫ہلکی سی مزاحمت کے ساتھ ‪.‬شاہد نے اپنا‬
‫سر ہال کر جیسے ‪.‬شاہد کا ہاتھ وہیں کا وہیں‬
‫روک دیا‪..‬شاہد کے موٹے گرم لن پر۔۔۔ اپنے‬
‫نازک سے گورے نرم مالئم ہاتھ میں ‪..‬شاہد کا‬
‫کاال موٹا لن دیکھ کر ‪.‬شبو نے اپنی نظریں‬
‫جھکا لیں‪.‬شاہد کے لن پر ٹکا لیں۔۔۔ اسکا‬
‫ہاتھ آہستہ آہستہ ‪.‬شاہد کے لن کو سہالنے‬
‫لگا۔۔۔ اسے محسوس کرنے لگا۔۔۔ افف ف ف‬
‫ف ف ف ف ۔۔۔ کس قدر موٹا ہے اسکا۔۔۔ اور‬
‫کا تو ایسا نہیں ہے۔۔۔ کتنا ‪main ‬سخت بھی۔۔۔‬
‫کا ۔۔۔ نازک سا جیسے ‪ main‬نرم سا لگتا ہے‬
‫ابھی کھینچا تو ٹوٹ جائے گا اور یہ۔۔۔ پتہ‬
‫نہیں پتھر کا بنا ہوا ہے اس کمینے کا لن۔۔۔‬
‫چودتا بھی تو اتنی بری طرح سے ہے نا۔‬
‫جان ہی نکال لیتا ہے۔۔۔ ابھی دوبارہ سے‬
‫نکالے گا میری چوت کی جان‪...‬شبوکے دل‬
‫میں خواہش دوبارہ سے جاگی‪..‬شاہد کے لن‬
‫کو سہالتے سہالتے‪.‬شبو نے آہستہ سےاسکے‬
‫لن کو کھینچا اپنی پھدی کی طرف۔۔۔ بالکل‬
‫ہی بے خیالی میں۔۔۔ کچھ بھی نہیں سوچتے‬
‫ہوئے۔۔۔ جیسے خود بخود ہی سب کچھ ہو رہا‬
‫تھا‪..‬شبو نےشاہد کا لن اپنی چوت کی طرف‬
‫کھینچا۔۔۔ اپنی چوت کے اندر لینے کیلئے۔۔۔‬
‫اپنے جلتے ہوئے جسم کی آگ کو بجھانے‬
‫کیلئے۔۔۔ اپنے پیاسے بدن کی پیاس بجھانے‬
‫‪ ‬کیلئے۔۔۔‬
‫شاہد مسکرایا اور ‪.‬شبوکا ہاتھ اپنے لن پر‬
‫سے ہٹا دیا۔۔۔ اور پھر اپنے لن کو اپنے ہاتھ‬
‫میں پکڑے بنا ہی آہستہ سے اسکی پھدی پر‬
‫ٹچ کر دیا‪..‬شبو تو تڑپ ہی اٹھی۔۔۔ اچھال‬
‫دیا اپنی پھدی کو اوپر کی طرف۔۔۔ لیکن لن‬
‫‪ ‬کو اندر نہیں لے سکی۔۔۔‬

‫شاہد نے اسکی دونوں ننگی چکنی رانوں پر‬


‫اپنے دونوں ہاتھ رکھے اور ان کو نیچے کو‬
‫دباتے ہوئے آہستہ آہستہ اپنا لن ‪.‬شبو کی‬
‫پھدی پر رگڑنا شروع کر دیا۔۔۔ بہت ہی‬
‫دھیرے دھیرے اسکی پھدی کے اوپر پھیرنے‬
‫لگا۔۔۔ اوپر سے نیچے۔۔۔ نیچے سے اوپر۔۔۔‬
‫اسکی پھدی کے سوراخ پر ۔۔۔ اسکی چوت‬
‫کے دانے پر۔۔۔ لن کو اسکی چوت سے ہٹایا تو‬
‫اس پراسکی پھدی کا گاڑھا پانی لگ گیا ہوا‬
‫تھا ایک تار سی جیسے اسکی پھدی سے‬
‫کھینچی آئی تھی‪..‬شبو کی چوت کے پانی‬
‫نے‪.‬شاہدکے لن کا رشتہ اپنے ساتھ جوڑ لیا‬
‫تھا۔۔۔ جیسے اسی پانی کی باریک سی تار کے‬
‫ساتھ ہی‪.‬شاہد کے لن کو جکڑنا چاہتی ہو۔۔۔‬
‫اپنی طرف کھینچنا چاہتی ہو۔۔۔ بالکل‬
‫سپائیڈرمین کے ہاتھ سے نکلنے والے باریک‬
‫تاروں کی طرح۔۔۔ شبو کی آنکھیں بند تھیں‬
‫اور وہ مچل رہی تھی۔۔۔ تڑپ رہی تھی۔‬

‫اسکے منہ سے نکال۔۔۔ پلیززززززز ۔۔۔‪.‬شاہد۔۔۔‬


‫پلیززززززز۔۔۔ بسس س س س س س‪...‬شاہد‬
‫‪ ‬مسکرایا۔۔۔ اسکا مطلب سمجھ چکا تھا۔۔۔‬
‫شبوشاہد کیا پلیزززز۔۔۔ چھوڑ دوں کیا تم‬
‫کو۔۔۔؟؟؟؟؟؟‬

‫جیسے ہی ‪.‬شاہد نے اپنا لن اسکی پھدی پر‬


‫سے ہٹایا تو ‪.‬شبو نے بڑی ہی بے چینی سے‬
‫‪ ‬اپنا سر نہیں میں ہال دیا۔۔۔‬

‫شاہد ہنسا ؛ کیا کہتی ہے ڈال دوں اسے تیری‬


‫‪ ‬چوت میں۔۔۔؟؟؟‬

‫شبو نے اپنے دونوں ہونٹ کھولتے ہوئے۔۔۔ زور‬


‫کی سسکیاں لیں۔۔۔ جیسے ہاں کہہ رہی‬
‫ہو‪.‬شاہد نے اپنے لن کی موٹی ٹوپی اسکی‬
‫پھدی کے سوراخ پر رکھی اور آہستہ آہستہ‬
‫وہیں پر رگڑنے لگا اور اگر تیرا شوہر آگیا‬
‫‪ ‬تو۔۔۔‬

‫شبو نے تھوڑا سا اپنی پھدی کو اوپر کو‬


‫اچھالتے ہوئے اپنی رضامندی دے دی کہ اسے‬
‫اسکی پرواہ نہیں ہے‪..‬شاہد نے تھوڑا سا دباؤ‬
‫ڈاال اور اسکے لن کی ٹوپی‪.‬شبو کی پھدی‬
‫میں داخل ہو گئی۔۔۔ اگر تیرے شوہر نے دیکھ‬
‫لیا تم کو چودتے تو مجھے جان سے ہی مار‬
‫‪ ‬دے گا۔۔۔ ہے نا۔۔۔‬

‫شبونے آنکھیں بند کر کے نہیں میں سر ہال‬


‫دیا۔۔۔ وہ تو اب کچھ بھی نہیں سوچ رہی‬
‫تھی۔۔۔ صرف اسکے موٹے لن کی موٹی ٹوپی‬
‫کو اپنی پھدی کے اندر محسوس کر رہی‬
‫‪ ‬تھی۔۔۔‬

‫اپنی چوت کواوپر کو اچھال رہی تھی تاکہ‬


‫اسکا لن اور بھی اسکے اندر اتر سکے۔۔۔ سب‬
‫کچھ بھول چکی تھی۔۔۔ اپنا شوہر۔۔۔ اپنا‬
‫گھر۔۔۔ اپنا پیار۔۔۔ اپنی تعلیم۔۔۔ اپنی‬
‫تربیت۔۔۔ اپنی ٹریننگ اپنی فیملی اور شوہر‬
‫کی عزت۔۔۔ سب کچھ۔۔۔ یہ بھی بھول چکی‬
‫تھی کہ آج بھی ‪.‬شاہد نے اسے مجبور کردیا‬
‫ہے یہ سب کرنے کیلئے۔۔۔ بلیک میل کر کے۔۔۔‬
‫ڈرا کر۔۔۔ لیکن اب تو اسے کچھ بھی یاد‬
‫نہیں تھا۔۔۔ یاد تھا اور خیال تھا تو بس‬
‫‪.‬شاہد کے لن کا جس کی ٹوپی اسکی پھدی‬
‫کے اندر پھنسی ہوئی تھی۔۔۔شبوکو اپنی‬
‫پھدی میں طوفان اٹھتا ہوا محسوس ہوا۔۔۔‬
‫اسکی چوت دوبارہ سے اپنی منزل کی طرف‬
‫بڑھ رہی تھی۔۔۔ اپنے ادھورے آرگزم کو پورا‬
‫کرنے کیلئے۔۔۔ اسکے چہرے کے تصورات بدلنے‬
‫لگے۔۔۔ چوت کی گرفت ٹائیٹ ہونے لگی‬
‫شاہدکے لن پر۔۔۔ جیسے ہی ‪.‬شاہد کو‬
‫محسوس ہوا۔۔۔ اسنے فورًا سے پہلے اپنا لن‬
‫اسکی پھدی سے نکال لیا‪..‬شبو تو جیسے جل‬
‫اٹھی۔۔۔ تڑپ اٹھی۔۔۔ اپنی بے چینی پر۔۔۔‬
‫اپنی تذلیل پر۔۔۔ فورًا سے اپنا ہاتھ آگے‬
‫بڑھایا اورشاہد کے لن کو پکڑنا چاہا لیکن‬
‫اسکا ہاتھ ‪.‬شاہد کے لن پر لگے ہوئے اپنی ہی‬
‫پھدی کے چکنے پانی سے پھسل گیا اور‬
‫‪.‬شاہد‬
‫کا لن پھسل کر اسکی گرفت سے نکل‬
‫گیا‪..‬شاہد اسکی چوت سے لن ہٹا کر صوفہ‬
‫سے نیچے کھڑا ہو چکا تھا‪.‬شبو اسکی طرف‬
‫سوالیہ نظروں اے دیکھ رہی تھی جیسے‬
‫پوچھ رہی ہو کیا ہوا۔۔۔؟؟ کیوں مجھے‬
‫ادھورا چھوڑ کر جا رہے ہو۔۔۔؟ دونوں بار‬
‫پہلے اسنے میری مرضی کے بغیر ہی مجھے‬
‫چودا۔۔۔ میں نہیں چاہتی تھی لیکن اسنے‬
‫چود دیا مجھے آج جب میں خود اس سے‬
‫چودوانا چاہ رہی تھی ۔۔۔ جب خود میری‬
‫‪ ‬پھدی اسکا لن مانگ رہی‬

‫تھی تو اس طرح مجھے ادھورا اور پیاسا‬


‫چھوڑے جا رہا ہے کمینہ‪...‬شاہداسکی یہ‬
‫حالت دیکھ کر مسکرارہا تھا۔۔۔‬
‫جاری ہے……‬

‫دو_گھوڑیوں_کے_سوار‪#‬‬

‫ایک مکمل انٹرٹینمنٹ میری نئی کہانی جو‬


‫صرف وٹس ایپ پر حاصل کرسکیں گے‬
‫کیونکہ یہ کہانی اب مکمل کر دی گئی ھے‬
‫اسکے عالوہ‪  ‬اناڑی دولہا بھی چند دنوں بعد‬
‫اس گروپ میں شامل کی جائے گی انسیسٹ‬
‫کہانیوں کے پڑھنے والے اسکو وٹس ایپ پر‬
‫خرید کر پڑھ رہے ہیں‬

‫پڑھیں انسیسٹ کہانیاں سہاگن۔۔مالئیکہ کی‬


‫شرارتیں۔۔ہماکی شرارتیں۔۔ساگر کی بہنیں۔۔‬
‫اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‪#‬‬

‫صفحہ_‪#26‬‬

‫رائیٹر_نواب_شاہد‪#‬‬

‫فیصل جب‪  ‬گھر‪  ‬آیا تو اس نے کہا مما‬


‫مجھے بہت بھوک لگی ھے کچھ کھانے کو‬
‫ملے گا تو کچن میں بیٹھی اسکی ماں نے کہا‬
‫بیٹا ابھی کھانے میں کچھ دیر ھے تم تھوڑا‬
‫صبر کر مہرو آتی ھے تو پھر روٹیاں پکاتی‬
‫ھے تب تک انتظار کرو فیصل بوال مما مہرو‬
‫اکیلی روٹیاں بناۓ گی اور علیشاہ کدھر گئ‬
‫ھے تو فیصل کی ماں بولی بیٹا بہورانی کا‬
‫بھائی سمیر آیا تھا وہ کچھ دنوں کے لئیے‬
‫اپنی بہن کو لے گیا ھے جلد واپس آ جاۓ‬
‫‪...‬گی‬

‫مہرو کھانا کھا کر فیصل کے روم میں گئ تو‬


‫بیڈ پر لیٹا ھوا اپنے موبائل پر ببل شوٹر گیم‬
‫کھیل رہا تھا تو مہرو اسکے پاس بیٹھ گئ‬
‫اور بولی فیصل بھائی تم اپنے دوست شاہد‬
‫سے اپنی پروبلم شیئر کیوں نہیں کر لیتے‬
‫ھوسکتا ھے وہ کوئی حل نکال دے تو فیصل‬
‫کچھ دیر اپنی پیاری بہن مہرو نساء کی‬
‫طرف دیکھتارہا اور پھر بوال بھال میں کب‬
‫چین سے بیٹھا ھوں اس دن سے میڈیسن‬
‫کھا رہا ھوں مہرو نساء بولی سچ تو‪  ‬فیصل‬
‫بوال ایک دم سچ‪  ‬اور اگر علیشاہ ھوتی تو‬
‫اج اس کیساتھ سہاگ رات منالیتا میں اب‬
‫‪...‬مکمل فٹ ھوں‬

‫مہرو فیصل کے بالوں میں اپنی انگلیاں‬


‫پھیرتے ھوۓ بولی افسوس میرے بھائی کے‬
‫ارمانوں پر جدائی کی اوس پڑ گئ ھے تو‬
‫فیصل بے چارہ شرما سا گیا اس کو بھی‬
‫بہت ارمان تھا اپنی بہن مہرو‪  ‬کو چودنے کا‬
‫تو اس نے اپنے جذبات کو زبان پر التے ھوۓ‬
‫کہا مہرو تو مہرو بولی جی بھائی بولو تو‬
‫فیصل ایک دم چپ کر گیا شرم سے اسکے‬
‫گال الل ھو گئے تھے جسکا اندازہ شربتی‬
‫آنکھوں والی مہرو لگا چکی تھی اور اندر‬
‫ھی اندر سے وہ اپنے اناڑی بھائی کو پورا‬
‫کھالڑی بنانے کی سوچ کر بیٹھی تھی بیشک‬
‫وہ دونوں ایک بار شرم حیاء کی حد پار کر‬
‫چکی تھی پر پھر بھی دونوں نے اپنے اپنے‬
‫جذبات کو اب دبا دیا تھا پر نفرت ھو یا‬
‫محبت دبادینے سے اکثر بڑھ جاتی ھے مہرو‬
‫اپنے بھائی کے آنکھوں میں شہوت کے ڈورے‬
‫دیکھ چکی تھی اور فیصل بیشک شرمیال‬
‫اور موٹے دماغ کا انسان تھا پر پھر بھی‬
‫اپنی بہن کی آرزو پوری کرنے کو بیتاب تھا‪...‬‏‬

‫مہرو کی آنکھوں میں دیکھتے ھوۓ فیصل‬


‫بوال مہرو آپی اس دن کے لئیے مجھے معاف‬
‫کر دو میں بہت ڈر گیا تھا اور اپنے پہلے‬
‫امتحان میں بری طرح فیل ھوگیا تھا مہرو‬
‫نے اپنے بھائی کے اوپر لٹ گئ اور بولی تم‬
‫چاھو تو اپنے امتحان کی دوبارہ تیاری کرکے‬
‫اپنی پرفامنس دکھا سکتے ھو مہرو کی‬
‫ٹانگیں بیڈ سے نیچے تھیں اور اس کا بیڈ پر‬
‫لیٹے ھوۓ فیصل کے منہ کے سامنے‪  ‬قمیض‬
‫کا کھال ھوا گال بتارہا تھا کہ اسکی بہن اپنے‬
‫دودھ کے بھرے‪  ‬پیالے بڑے پیار سے اسے‬
‫پالنا چاھتی ھے مہرو اپنے گورے بدن کا‬
‫دیدار اپنے بھائی کو کرواتے ھوۓ بولی‬
‫جتنی جلد پرفامنس دو گے‪  ‬کامیابی کے‬
‫چانس اتنے ھی زیادہ ھونگے مہرو نے اپنے‬
‫کنوارے بھائی کے جسم میں شہوانی جذبے‬
‫ابھار دئیے تھے بس پہل کرنا باقی تھی اور‬
‫جنگ ھو یا محبت پہل ہمیشہ مرد ھی کرتا‬
‫ھے‪....‬‏‬
‫فیصل بوال آپی میں کارکردگی دکھانے کو بڑا‬
‫بیتاب ھوں کیا تم بھی میرے ساتھ ایک بار‬
‫پھر پیار کرنے کو تیار ھو تو مہرو بولی‬
‫بھائی میں پوری طر ح سے تیار ھوں میں تو‬
‫بڑے دنوں سے صبر کئیے بیٹھی تھی بھائی‬
‫آپکا دوست شاہدکب سے میری لینے کے چکر‬
‫میں ھے اور کل رات کو شبو کے گھر پر میں‬
‫اس سے چدوانے کو تیار بھی ھوگئ تھی‬
‫مگر میں صرف اپنے بھائی کو ہی دوں گی‬
‫اور یا پھر میں اپنے شوہر کو دوں گی فیصل‬
‫نے مہرو کو اپنے اوپر گراتے ھوۓ کہا کہ‬
‫مہرو مجھے تم پر فخر ھے تم نے بہت اچھا‬
‫کیا‪  ‬جو شبو کے سامنے اپنی عزت نیالم نہیں‬
‫کی تم مجھے بتانا جب دل کرے تجھے شاہد‬
‫سے چدوا دوں گا دونوں بہن بھائی اب پوری‬
‫طر ح سے گرم ھو چکے تھے رات کافی ھو‬
‫چکی تھی اور باہر ہلکی ہلکی بارش ھو رھی‬
‫تھی جسکی وجہ سے روم میں سردی بڑھ‬
‫گئ تھی پر دو جسم ایک آ گ میں جل رھے‬
‫تھے‏‬

‫مہرو بولی میں پہلے اپنے پیارے بھائی کو‬


‫دوں گی اور علیشاہ کو اس سے چدوا دیتے‬
‫ھیں اس سے آپکا اور میرا دونوں کا فائدہ‬
‫ھو جاۓ گا فیصل اپنی بہن مہرو کی بریسٹ‬
‫سہالتا ھوا بوال کہ علیشاہ کو شاہد سے‬
‫چدوانے میں ہم دونوں کا کس طر ح فائدہ‬
‫ھوگا تومہرو‪  ‬نے اپنا ہاتھ اپنے بھائی فیصل‬
‫کی شلوار میں ڈالتے ھوۓ بولی ایک تو‬
‫علیشاہ ہمارے زیر ھو جاۓ گی اور دوسرا‬
‫شاہد کے بڑے لنڈ سے چد کر اس کے دل میں‬
‫لنڈ کا ڈر بیٹھ جاۓ گا اور تیسرا وہ تمہارے‬
‫بچے کو جنم دیکر تمہارے سب ناکامیوں پر‬
‫پردہ ڈال دے گی‪....‬واہ میری بہن کیا سوچ‬
‫ھے آپکی کیا چال چلی آپ نے‪  ‬بھال علیشاہ‬
‫مان جاۓ گی تو مہرو بولی وہ سب پروگرام‬
‫میں بناؤں گی ایسا پروگرام ھوگا کہ علیشاہ‬
‫کے فرشتوں کو بھی پتہ نہیں چلے گا فیصل‬
‫مہرو کی بات سن کر بوال اب کریں شرو ع‬
‫اپنی ادھوری مالقات کا پورا کام تو مہرو‬
‫بولی پہلے میں باہر دیکھ کر آتی ھوں اگر‬
‫ے‪‎‬حاالت نارمل ھیں تو پھر کرتے ھیں‬
‫ویس ‪‎‬‬
‫بھی تمہارا سانپ میری بل میں جانے کو‬
‫بیتاب ھے فیصل تو اس سانپ کو اپنی‬
‫پٹاری‪  ‬میں قید کرلو نہ اس نے بڑے التجائیہ‬
‫لہجے میں کہا تو مہرو بولی اپنے جذبات پر‬
‫کنٹرول کرنا سیکھو بھائی میں نے کب انکار‬
‫کیا ھے آج رات جتنی بار تمہارا دل کرے‬
‫میری لے لینا ھے کوئی ہمیں روکنے واال فیصل‬
‫نے مہرو کےگال پر اپنے دانت گاڑتے ھوۓ بوال‬
‫تم خود روک رھی ھو دیکھو میرے لنڈ کی‬
‫کیا حالت ھوگئ ھے مہر و نے فیصل کے لنڈ‬
‫پر اپنا ہاتھ پھیرتے ھوۓ کہا یہ لنڈ آج سے‬
‫میرا ھے نہ تمہارا ھے اور نہ علیشاہ بھابھی‬
‫کا میں ابھی آئی تم سو مت جانا اوکے بس‬
‫چند منٹ اور انتظار کرلینا مہرو فیصل کے‬
‫روم سے باہر نکل گئ اور سیدھا کچن میں‬
‫گئ اور سوس پین میں دودھ ڈال کر اسے‬
‫گرم کرنے لگی ‪...‬‏‬

‫باہر ہر طرف سناٹا تھا گھرمیں سب کمروں‪ ‬‬


‫ی‪‎‬کی الئٹ‬
‫آف تھی مہرو نے دیکھا کہ اسک ‪‎‬‬
‫ماں کا روم بھی نائٹ بلب کی روشنی میں‬
‫پراسرار خاموشی نمایاں کررہا تھا اور مہرو‬
‫کے باپ‪  ‬اپنے بیڈ پر لیٹے ھوۓ خراٹے مار‬
‫رھے باہر ہر طرف سناٹا تھا گھرمیں سب‬
‫آف تھی مہرو نے دیکھا ک ‪‎‬ہ‪‎‬کمروں‪  ‬کی الئٹ‬
‫اسکی ماں کا روم بھی نائٹ بلب کی روشنی‬
‫میں پراسرار خاموشی نمایاں کررہا تھا اور‬
‫مہرو کے باپ‪  ‬اپنے بیڈ پر لیٹے ھوۓ خراٹے‬
‫‪...‬مار رھے تھے‬

‫مہرو نے سوس پین سے دودھ نکاال اور گرما‬


‫گرم دو کپ دودھ کے لیکر اپنی تخیل کی‬
‫دنیا کے شوہر‪  ‬فیصل کی خدمت میں حاضر‬
‫ھوئی اس نے ایک کپ خود پکڑا اور دوسرا‬
‫اپنے بھائی فیصل کو دے دیا اب دونوں بہن‬
‫‪ ‬بھائی دودھ کے گھونٹ بھر نے لگے‬

‫جو اس بال کی سردی میں تازگی کا احساس‬


‫مہرو نے سوس پین سے دودھ نکاال اور گرما‬
‫گرم دو کپ دودھ کے لیکر اپنی تخیل کی‬
‫دنیا کے شوہر‪  ‬فیصل کی خدمت میں حاضر‬
‫ھوئی اس نے ایک کپ خود پکڑا اور دوسرا‬
‫اپنے بھائی فیصل کو دے دیا اب دونوں بہن‬
‫بھائی دودھ کے گھونٹ بھر نے لگے جو اس‬
‫‪..‬بال کی سردی میں تازگی کا احساس تھا‬

‫فیصل بوال‪ ....‬آپی بھال دودھ کی اس وقت‬


‫کیا ضرورت تھی تو مہرو بولی بھائی جسم‬
‫تو گرم کرنا تھا نہ اور ویسے بھی سہاگ رات‬
‫کو دولہا اور دلہن دودھ پیتے ھیں یہ رواج‬
‫ھے تو فیصل بوال‪....‬مہرو آپی دلہن کہاں ھے‬
‫وہ تو اپنے گھرگئ ھے تو مہرو بڑی بیتاب‬
‫ھوۓ بولی آج کی رات میں آپکی دلہن ھوں‬
‫‪..‬جیسے دل کرے کرو اپنی دلہن سے‬

‫فیصل شاید پھر اناڑی پن پر آ گیا اور بوال‬


‫آپکی اور میری شادی تو نہیں ھوئی پھر آپ‬
‫میری دلہن کیسے ھوئی تو اس اناڑی دولہے‬
‫کی کھالڑی بہن شاید آج اسکا بھوالپن دور‬
‫کرنے کے موڈ میں تھی مہرو بولی‪ .....‬جب آپ‬
‫کا لنڈ میری چوت میں جاۓ گا تو پھر‬
‫ہماری‪ ‬شادی بھی ھو جاۓ‬
‫اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‪#‬‬

‫صفحہ_‪#27‬‬

‫رائیٹر_نواب_شاہد‪#‬‬

‫فیصل نے مہرو کو اپنے بازوؤں کے حصار‬


‫میں جکڑلیا اور اپنے نرم نرم ھونٹ اپنی بہن‬
‫مہرو نساء کے شربتی ھونٹوں پر رکھ دئیے‬
‫مہرو نے بھی اپنے بھائی سے لپٹ کر محبت‬
‫کی پہلی جپھی ڈال دی اور اپنے ھونٹوں کا‬
‫جام اپنے بھائی کو پیش کر دیا‬

‫مہرو بولی بھائی تجھے تو کس کرنا بھی‬


‫نہیں آتا چلو میں تمہیں سکھاتی ھو چلو‬
‫اپنی آنکھیں بند کرو اور اپنے ھونٹ میرے‬
‫ھونٹوں کیساتھ جوڑ‪  ‬دو فیصل نے اپنی‬
‫آنکھیں بند کیں اور پھر اپنی بہن کے‬
‫ھونٹوں کیساتھ اپنے ھونٹ مال دئیے آہ ام ام‬
‫ام واؤ امیزنگ آپکے لپس آہ بھائی مہرو نے‬
‫اپنی زبان اپنے بھائی کے منہ میں داخل کر‬
‫دی جسے تحفہ سمجھ کر فیصل نے چوسنا‬
‫شرو ع کر دیا یوں اس اناڑی دولہا کو اسکی‬
‫گوری بہن نے کھالڑی بنادیا اور احساس‬
‫دالیا کہ مرد کو عورت کے سب نخرے ٹانگوں‬
‫‪...‬کی طرح شوق سے اٹھانے چاھئیے‬

‫‏ فیصل کا لوڑا اسکی پیاری بہن مہرو کی‬


‫ٹانگوں کے درمیان رگڑ کھا رہا تھا فیصل کے‬
‫ذہن سے اب پوری طر ح سے نکل گیا تھا کہ‬
‫سامنے اسکی بہن ھے جو اسے اپنا سب کچھ‬
‫اسے سونپ چکی ھے‬

‫لنڈ مہاراج جب کسی چیز سے رگڑ کھاتا ھے‬


‫تو پھر کھڑا ھو جاتا ھے اور پھر اس کے لئیے‬
‫ہر سوراخ چوت ھی ھوتی ھے چاھے جس‬
‫کی بھی وہ کسی عہدے اور مقام کا لحاظ‬
‫نہیں کیا کرتا اور سرحدوں میں قید رہنے‬
‫والی دنیا کو روندتے ھوۓ اپنی جگہ پر‬
‫قابض ھو جاتا ھے‬

‫دونوں بہن بھائی ایک دوسرے کو کس کر‬


‫رھے تھے اور اپنی زبانیں آپس میں لڑا رھے‬
‫تھے تب مہرو ہانپتے ھوۓ بولی بھائی آپکو‬
‫یہ سب اچھا لگا نہ تو فیصل اپنی بہن کی‬
‫آنکھوں میں دیکھتے ھوۓ بوال آپی مجھے‬
‫بہت مزہ آیا شاید اس سے بھی زیادہ مزہ‬
‫میں آپکو واپس دوں گا مہرو نے فیصل کے‬
‫سینے پر ہاتھ پھیرتے ھوۓ کہا وہ کب تو‬
‫فیصل اپنا ہاتھ اپنی بہن کی قمیض کے اندر‬
‫سے اس کے گورے مموں کو پکڑتے ھوۓ بوال‬
‫جب میں آپکی لوں گا مہرو نشے سے چور‬
‫ھوکر بولی ھوں اگر میں نہ دوں تو پھر‪...‬‏‬
‫فیصل اپنی بہن کو مما دباتے ھوۓ بوال جب‬
‫لنڈ اور چوت آمنے سامنے آ جاتے ھیں تو پھر‬
‫دنیا کی کوئی طاقت انہیں نہیں روک سکتی‬
‫ملنے سے مہرو بولی ارے بھائی یہ سب‬
‫فلسفے ھیں میری چیز ھے اور میں نہ دوں تو‬
‫پھر فیصل آپی آپکی چیز تو خوشی کے‬
‫آنسو بہا کر پوری طر ح سے گیلی ھو چکی‬
‫ھے‬

‫مہرو بہت بدمعاش ھو تم اور تمہارا یہ لنڈ‬


‫دیکھو میری چوت کو چھیڑ خانی کر رہا ھے‬
‫فیصل‪ ...‬اس کا پورا حق ھے کہ یہ چھیڑ‬
‫خانی کرے بلکہ چوت کے اندر اتنی سردی‬
‫میں سر چھپا کر آرام کرے ام آؤ چ بھائی‬
‫آرام سے دباؤ نہ میر ا مما کیا کھا ھی جاؤگے‬
‫مہرو نے تڑپتے ھوۓ کہا مگر فیصل نے اپنا‬
‫کام جاری رکھا‏‬

‫ہم اپنی ریاست کے نواب لوگ‬

‫صاحب‬

‫‪‎‎‬تیرے معیار کے محتاج نہیں‬

‫مہرو نساء نے اپنا منہ کھولتے ہوئے اپنی زبان‬


‫اور باہر نکال دی‪.‬فیصل نے آہستہ سے اپنا‬
‫انگوٹھا‪.‬مہرو نساءکی باہر نکلی ہوئی زبان پر‬
‫رکھا اور اس کی زبان پر پھیرنے لگا۔۔۔‬
‫جیسے ہی ‪.‬فیصل کا انگوٹھا اپنی بہن مہرو‬
‫نساء کی زبان سے ٹچ ہوا تواس کا کڑوا‬
‫ذائقہ‪.‬مہرو نساء کےمنہ میں پھیل گیااور‬
‫‪.‬مہرو نساء کا چہرہ بگڑ سا گیا مگر ‪.‬فیصل‬
‫نے اس کی پرواہ کیے بنا ہی اس کی زبان‬
‫کواپنے انگوٹھے اور انگلی میں پکڑا اور‬
‫دھیرے دھیرے اسےمحسوس کرنے لگا۔‬

‫ساتھ ہی ساتھ ُا س کےہونٹوں پر انگلی‪ ‬‬


‫پھیرتا‪.‬مہرو آپی بے بس تھی۔۔۔ ِپ ھر‪.‬فیصل‬
‫آگے کو بڑھا اوراپنے‪  ‬ہونٹ ‪.‬مہرو نساءکے‬
‫گرم ‪،‬گالبی ‪،‬رسیلے ہونٹوں پر ر کھ دیے۔۔۔‬
‫اسے چومنے لگا۔۔۔ ُا س کے ہونٹوں کو‬
‫اپنےہونٹوں میں دبوچ لیا اور ان کو چوسنے‬
‫‪ ‬لگا۔۔۔‬
‫مہرو نساء کی زبان کو اچانک سےاپنے گرم‬
‫گرم ہونٹوں کی گرفت میں لے لیا اور اسے‬
‫چوسنے لگا۔۔۔ بری طرح کسی جانور کی طرح‬
‫سے ِپ ھر اپنی زبان باہر نکال کر ‪.‬مہرو‬
‫نساءکے ہونٹوں کو چاٹنے لگا۔۔۔ اپنی موٹی‬
‫زبان کو ُا س کےچہرے اور ہونٹوں پر پھیرنے‬
‫لگااپنے تھوک سے ‪.‬مہرو نساء کےچہرے کو‬
‫گیال کرنے لگا۔‬

‫مہرو نساء کو بہت ہی عجیب سالگ رہا‬


‫تھاُا س کے منہ کی گندی بدبوسے اس کا دم‬
‫گھٹ رہا تھادوبارہ سے ُا س کے ہونٹوں‬
‫کوچومتے ہوئے ِا س بار ‪.‬فیصل نےاپنی زبان‬
‫‪.‬اپنی بہن کے منہ میں ڈال دیاس کی‬
‫‪ ‬مزاحمت کے باوجود بھی۔۔۔‬
‫مہرو نساء کو عجیب سا احساس ہونے‬
‫لگا‪.‬فیصل نے اپنے دونوں ہاتھ ‪.‬اپنی بہن‬
‫مہرو نساء کی کمر پر رکھتے ہوئے اسے اپنے‬
‫سینے سے لگایا ہواتھا اور ‪.‬مہرو نساء نے اپنے‬
‫ہاتھ پہلے ُا س کے کندھوں پررکھے تاکہ اسے‬
‫روک سکےلیکن ِپ ھر وہ بھی ‪.‬فیصل کوُپ ش‬
‫کرنا بھول گئی بس‪.‬مہرو نساء اپنے ہونٹوں‬
‫کو بچانےکی کوشش کرنے لگی۔۔۔ بہت ہی‬
‫عجیب انداز تھا ‪.‬فیصل کے چومنے کا۔۔‬

‫فیصل بہت ہی گندے طریقے سےاسے چوم‬


‫رہا تھا۔۔۔لیکن پتہ نہیں کیوں ‪.‬مہرو نساء‬
‫کواس کا ایسے چومنا اچھا لگ رہا تھا۔ایک‬
‫سوفٹ کس سے ہٹ کر۔۔۔ کسی جانور کی‬
‫طرح سےوحشیانہ ِک سنگ‪.‬مہرو نساء کی‬
‫سانسیں بھی تیز ہورہی تھیں۔ُا س کے ِج َس م‬
‫میں بھی عجیب سی بے چینی پیدا ہورہی‬
‫تھی‪.‬مہرو آپی کی پھدی گیلی ہوناشروع ہو‬
‫رہی تھی‪.‬فیصل کا ڈر ختم ہو رہا‬
‫تھا‪.‬فیصل‪.‬مہرو آپی کے ممے اس کی‬
‫سانسوں کے ساتھ ُا وپر نیچےکو ہوتے ہوئے‬
‫‪.‬فیصل کے سینےسے رگڑ کھا رہے تھے۔‬

‫فیصل کا جادو دوبارہ سے اس پر چلنا‬


‫شروع ہو رہا تھا‪.‬مہرو نساءکی جو تھوڑی‬
‫بہت مزاحمت تھی وہ بھی ختم ہوتی جا‬
‫رہی تھی‪.‬مہرو آپی یہ مجھے کیا ہو رہا ہے۔۔۔‬
‫میں کیوں خود ہی ُا س کےساتھ شامل ہو‬
‫رہی ہوں۔۔۔کیا میں اپنی مرضی سےسب‬
‫کچھ کررہی ہوں۔۔۔؟‬

‫فیصل بوال۔۔۔ مہرو باجی کیا تمہیں مزہ ارہا‬


‫ھے مہرو کی انکھیں بند تھیں وہ سس سس‬
‫سسکاریاں لیتی ھوئی اپنا سر ہاں میں ہالنے‬
‫لگی ففف ففف فیصل بہت مزہ ارہا ھے‬
‫بھائی میں تو اس دن کے لئیے کب سے تڑپ‬
‫رہی ھوں۔۔مہرو نے اپنا ہاتھ بڑھا کر فیصل‬
‫کے انڈر وئیر‪  ‬میں ڈال دیا اف بھائی‪  ‬تمہارا‪ ‬‬
‫لنڈ تو بڑا بیتاب ھے فیصل بوال مہرو کیوں‬
‫بیتاب ھے یہ لنڈ تو مہرو بولی تمہیں نہیں‬
‫معلوم کیوں بیتاب ھے یہ فیصل مہرو قسم‬
‫سے مجھے سمجھ نہیں ارہا کہ یہ کیوں‬
‫بیتاب ھے مہرو تم بتاو نہ‬
‫مہرو فیصل کے لنڈ پکڑ کر سہالتے ھوئے‬
‫بولی فیصل بھائی یہ اندر جانے کو بیتاب‬
‫ھورہا ھے فیصل اندر کہاں مہرو باجی تو‬
‫مہرو۔۔میری چوت میں تمہارا لنڈ اندر جانے‬
‫کو بیتاب‪  ‬ھے بھائی‪  ‬پلیز اب مجھے سہاگن‬
‫کردو میری ‪...‬چوت کو اپنے لنڈ سے بھر دے‬

‫جاری ہے‪....‬‬

‫دو_گھوڑیوں_کے_سوار‪#‬‬

‫ایک مکمل انٹرٹینمنٹ میری نئی کہانی جو‬


‫صرف وٹس ایپ پر حاصل کرسکیں گے‬
‫‪ ‬اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‪#‬‬

‫صفحہ_‪#28‬‬

‫‪ ‬‬

‫پھدی‪ :‬مہرو تو کب سے ہمیں ملوانا چاہتی‬


‫ہے‪ ,‬آج تم کو کچھ کرنا پڑیگا ورنہ اس سے‬
‫‪ ‬اچھا موقع دوبارہ نہیں ملنے واال بھائی‬
‫یہ تمہارا لن‪ :‬ہاں تم صحیح کہہ رہی ہو‪ ,‬تم‬
‫کیوں رو کے بھیگ رہی ہو؟‬

‫پھدی‪ :‬یہ آنسو مجھے بھگو رہے ہیں‪ ,‬اگر تم‬


‫سے مالقات ہو گئی تو آنسوؤں کے سیالب‬
‫سے بھیگ جاؤں گی‪ ,‬بس تم فیصل اس‪  ‬کو‬
‫مناو‬

‫لن اور پھدی کی یہ گفتگو کتنے سالوں سے‬


‫چلتی آ رہی تھی‪ ,‬اور آج دونوں کے‬
‫مخصوص اعضاء کا جوش اپنے جوبن پہ‬
‫تھا‪ ,‬خصوصًا فیصل کے لن کا جوش‪ .‬اس کا‬
‫اور مہرو برابر لیٹے ایک ہی بات سوچ رہے‬
‫تھے‪ ,‬فیصل اپنے لن کی بات کو ٹالتا ٹالتا‬
‫تھک چکا تھا اور مہرو اور فیصل کے صبر کا‬
‫پہاڑ ریزہ ریزہ ہونے کا انتظار کر رہی تھی‪,‬‬
‫مہرو ذہنی طور پہ اپنے سادھو بھائی‪  ‬کو‬
‫سکون دینے کیلیے تیار ہو چکی تھی‪,‬اسکی‬
‫ادھوری چدائی اب پوری ھونے جارہی تھی‬

‫فیصل نے اپنی سرخ آنکھوں سے مہرو کی‪ ‬‬


‫طرف دیکھا اور فیصل کی اس لمحے مہرو‬
‫پہ نظر اسکے صبر کے اختتام کی عالمت کے‬
‫طور پہ مہرو کو ایک اشارہ تھی‪ ,‬مہرو جس‬
‫کی ایک چھاتی ابھی بھی کسی لمس کے‬
‫انتظار میں قمیض سے باہر تھی‪ .‬فیصل نے‬
‫تکیہ کو بنا قابو کیے مہرو کی طرف اپنی‪ ‬‬
‫طرف سرکا لیا‪ ,‬تکیہ ایک سمت میں جا گرا‬
‫اور لن اس وزن سے آزاد ہو گیا‪ ,‬مہرو نے‬
‫بھی فیصل کی طرف اپنا آپ سرکا لیا‪,‬‬
‫فیصل نے مہرو کو بانہوں میں لے کہ مہرو‬
‫کو گردن سے چومنا شروع کیا تو اسکی گرم‬
‫سانسسیں مہرو کو لبھانے لگیں‪ ,‬فیصل‪  ‬اپنی‬
‫بہن مہرو کو گردن اور سینے سے چومتے‬
‫ہوئے مہرین کی کمر اور چھاتیوں کو مسلنے‬
‫‪,‬لگا‬

‫مہرو اپنے بھائی فیصل کے لن کو اپنی‪ ‬‬


‫ٹانگوں سے رگڑ کھاتا ہوا محسوس کر رہی‬
‫تھی‪ ,‬وہ اپنی بہن مہرو کی قمیض کو اوپر‬
‫کر کہ چھاتیوں کو ننگا کر چکا تھا مہرو نے‬
‫ایک لمحے کی اجازت لے کہ اپنی برا‪  ‬کو اتار‬
‫دیا اور فیصل کو چومتے چومتے اسکی‬
‫شرٹ کو بھی اتار دیا‪ ,‬دونوں بہن بھائی‬
‫ننگے دھڑوں کیساتھ ایک دوسرے کو ہونٹوں‬
‫سے چومتے جا رہے تھے‪ ,‬دونوں اسوقت ایک‬
‫بیچینی اور شدت کیساتھ اپنا آپ ایک‬
‫دوسرے سے چٹوا رہے تھے‪ ,‬انکی گرم اور بے‬
‫ہنگم سانسیں اور آہیں ماحول میں ایک‬
‫خماری بھر رہی تھی‪ ,‬وہ دونوں وحشیانہ‬
‫انداز سے ایک دوسرے پہ چڑھ کہ زبانوں کو‬
‫‪,‬ایک دوسرے کا ذائقہ دے رہے تھے‬

‫مہرو اور فیصل ہر طرح کے سوال سے آزاد‪ ‬‬


‫ہو کہ جذبات کے تیز دھارے میں بہہ چکے‬
‫تھے‪ ,‬مہرو نے فیصل کے لن کو انڈر وئیر کے‬
‫اندر ہاتھ ڈال کہ لنڈ پکڑ‪  ‬کر پھر سے سہالیا‬
‫تو فیصل کو ایک سکون بھری بیچینی نےآ‬
‫‪, ‬لیا‬
‫فیصل نے بنا آنکھیں کھولیں اپنی بہن کو‬
‫چوم کہ اپنا پاجامہ ٹانگوں سے نیچے کر دیا‬
‫اور محبت کی اس لہروں میں چومتے چاٹتے‬
‫سارا پاجامہ اتار کہ اپنا جسم مکمل ننگا کر‬
‫دیا‪ ,‬مہرو کی پھدی گیلی ہو چکی تھی‪ ,‬اپنے‬
‫ننگے بھائی کے جسم سے چپک چپک کہ مہرو‬
‫نے بھی اپنے پاجامے کو اتار دیا اور فیصل‬
‫اپنی بہن‪  ‬کو چومتا چومتا مہرو کے اوپر آ‬
‫کر ٹانگوں میں اپنا لن لگائے بس چومتا ہی‬
‫جا رہا تھا‪ ,‬فیصل کا لن اپنی بہن مہرو کی‬
‫پھدی سے رگڑ کھا رہا تھا‪ ,‬مہرو نے اپنی‬
‫ٹانگوں کو ہوا میں بلند کر کہ فیصل کے لن‬
‫کو اپنے ایک ہاتھ سے پکڑ کہ پھدی پہ سیٹ‬
‫کیا‪ ,‬فیصل جو کہ بہت زوروشور سے مہرو‬
‫کے اور اسکے ہونٹوں اور چھاتیوں کو کاٹنے‬
‫کی حد تک چوم رہا تھا فیصل بوال مہرو‬
‫مجھے کچھ ھو رھا ھے تو مہرو بولی اپنا لنڈ‬
‫میری چوت کی گہرائی میں اتار دو سب‬
‫کچھ صیح ھو جائے گا جلدی کرو اور میرا‬
‫انتظار ختم کردو‬

‫فیصل اب‪  ‬اپنی کمر کو مہروکی پھدی کے‬


‫حساب سے ایڈجسٹ کرنے لگا‪ ,‬جیسے ہی‬
‫مہرو کے ہاتھ کی ہدایات کے حساب سے‬
‫فیصل کا لن پھدی کے سوراخ سے مال تو‬
‫فیصل نے بنا وقفہ ڈالے اپنا وزن لن پہ ڈال‬
‫کر‪  ‬اسے مہرو کی پھدی میں دھکیلنا چاہا‪,‬‬
‫مگر گیلی پھدی کی دیواروں سے پھسل کہ‬
‫‪, ‬لن ہل گیا‬
‫مہرو نے اپنے ہونٹ فیصل کے ہونٹوں سے‬
‫آزاد کروا کہ چوما چاٹی روک کہ دوبارہ سے‬
‫پھدی کو ایڈجسٹ کر کہ لن کو پھدی پہ‬
‫رکھ کہ اپنی گرفت سے ہی لن کو دبا کہ اندر‬
‫ڈالنے کا اشارہ دیا تو فیصل نے اپنی کہنیوں‬
‫پہ اپنا وزن ڈال کہ کمر کو اندر دبایا مگر‬
‫اس بار آرام سے آرام سے اپنا وزن لن پہ ڈاال‬
‫تو لن کی ٹوپی مہرو کی تنگ پھدی میں گئی‬
‫تو مہرو کی اوسط درجے کی اونچی آہ نکل‬
‫‪,‬گئی‬

‫ااااااہ ففف ففففف فیصل بببببب بھائی‬


‫ممممم ممممم میں مرررر گئی ننننن نننن‬
‫نکالو اسے مممم میری پھٹ گئ ۔‬
‫فیصل آہستہ آہستہ اپنا لن کو اندر دھکیلتا‪ ‬‬
‫جا رہا تھا اور مہرو کی مزے سے بھرپور‬
‫چیخیں بلند ہوتی جا رہی تھی‪,‬فیصل کو مزہ‬
‫ایا اس نے ایک زور دار گھسا مارا تو اسکی‬
‫لنڈ مہرو کی چوت پھاڑتا ھوا پورا اندر چال‬
‫گیاااااااہ اااااف مم۔۔۔۔ممممم ممممم میں‬
‫مررر گئی ببببب بھائی فیصل کا لنڈ‪  ‬جب‬
‫‪....‬مکمل لن اندر چال گیا تو‬

‫مہرو کی پھدی میں درد ہونے لگا اسلیے‪ ‬‬


‫مہرو نے فیصل کو زور سے پکڑ لیا‪,‬فیصل کا‬
‫گھسا اتنا شاندار تھا کہ مہرو کی چوت کب‬
‫سے اس درد کو برداشت کرنے کو تڑپ رہی‬
‫تھی اج اسکا دیرینہ خواب‪  ‬اب پورا ھو چکا‬
‫‪  ‬تھا‬
‫فیصل نے اپنی بہن کو ایک بار دیکھا اور‬
‫ہونٹوں سے چوم کہ لن کو باہر کھینچ کہ‬
‫دوبارہ اندر کیا‪ ,‬اسکا کا لن اندر گرم اور نرم‬
‫جگہ میں بہت زور سے پھنس کر اندر باہر ہو‬
‫رہا تھا جس سے فیصل کو مزہ آنے لگا‪,‬مہرو‬
‫کی انکھیں درد کی وجہ سے نم ھو گئیں‬
‫مہرو بہن زیادہ درد تو نہیں ھو رہا تمہیں تو‬
‫مہرو اپنے بھائی‪  ‬کی انکھوں میں دیکھتے‬
‫ھوئے بولی میں سہہ لونگی بھائی تم اپنی‬
‫ارمان پورے کرو اور مجھے مکمل کر دو‬

‫اب فیصل اپنی رفتار کو بڑھا کہ مہرو کو‪ ‬‬


‫چودنے لگا‪ ,‬رفتار بڑھتی جا رہی تھی اور‬
‫دونوں کی سسکاریاں بلند ہوتی جا رہی‬
‫تھی‪ ,‬مہرو ہونٹوں کو بھینچ کہ اس پر لطف‬
‫چدائی کا مزہ لے رہی تھی جس کیلیے وہ‬
‫برسوں تڑپی تھی‪ ,‬فیصل اپنی بہن کی‬
‫پھدی میں لن ڈالے چودتا ہوا اپنے آپ کو‬
‫کوس رہا تھا کہ کتنا خوبصورت احساس ہے‬
‫اس شاندار‪  ‬دھکم پیل چدائی میں دونوں‬
‫اب راحت محسوس کر رہے تھے وہ بہار‬

‫جس کو وہ برسوں سے ترک کرتا آ رہا ہے‪ ,‬‬


‫فیصل چودتا جا رہا تھا اور اب اسکی رفتار‬
‫مزے کی انتہا کی وجہ سے بہت بڑھ چکی‬
‫تھی تو مہرو کی پھدی سے فوارہ چھوٹ‬
‫گیا‬
‫اااااااہ بھائ ززز زور سے پپپپپ پورا ہی ڈال‬
‫دو بہت مزہ ارہا اااااہ مممم مممم میں ممم‬
‫مرر گئی مہرو نے ایک بار اپنی کمر اچھال کر‬
‫فیصل کے پرزور گھسے کا جواب دیا اور‬
‫اسکی چوت نے پانی چھوڑتے ھوئے ہار مان‬
‫لی مہرو کی چوت نے اپنے بھائی کی چوت‬
‫پر اپنا پانی چھوڑ دیا جبکہ فیصل کی پیاس‬
‫شاید ابھی باقی تھی وہ اب بھی مہرو کی‬
‫‪ ..... ‬کو شاد باد کرنے پر لگا ھوا‬

‫جاری ہے‪....‬‬
‫‪ ‬اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‪#‬‬

‫‪ ‬صفحہ_‪#29‬‬

‫مہرونساء نے شرما کر اپنا ہاتھ بڑھایا اور‬


‫اپنے بھائی‪  ‬فیصل کا موٹا لن اپنے نازک سے‬
‫سفید ہاتھ میں پکڑ لیا اور اسے اپنی پھدی‬
‫پر رگڑنے لگی۔۔۔اوپر سے نیچے کو اور‬
‫نیچےسے ُا وپر کو۔۔۔ِا س میں بھی‪.‬مہرونساء‬
‫کو مزہ آرہا تھاِپ ھر مہرونساء نے فیصل کے‬
‫لن کی موٹی‪  ‬ٹوپی کو اپنی پھدی کے‬
‫سوراخ پر رکھا توفیصل نےاپنی بہن‬
‫مہرونساءکو‪  ‬آہستہ آہستہ نیچے کو دھکا‬
‫لگانا شروع کردیا۔۔۔دھکا کیا لگانا تھا۔۔۔بس‬
‫ہلکے سے پریشر کے ساتھ ہی ‪.‬فیصل کا لن‬
‫پھسلتا ہوا‪.‬مہرونساء کی تنگ چوت میں‬
‫جانے لگا۔۔۔جیسے ہی ‪.‬فیصل نے اپنے لن کو‬
‫تھوڑا باہر کو کھینچا تواس کے اوپر‬
‫‪.‬مہرونساء کی چوت کا سفید سفید گاڑھا‬
‫گاڑھاپانی لگا ہوا تھا۔۔۔جیسے چپکا ہوا ہو‬

‫فیصل نے اپنی انگلی سےاس گاڑھے پانی کو‬


‫اپنے لن پر سے صاف کیا اور‪.‬فیصل اپنی بہن‬
‫مہرونساءکی آنكھوں کے سامنے ہی اسے‬
‫اپنی زبان سے چاٹ گیا‬
‫فیصل نے شرم سے آنکھیں پھیر لیں‪.‬فیصل‬
‫نے اب آہستہ آہستہ اپنے لن کو ‪.‬مہرونساء کی‬
‫چوت کے اندر باہر کرنا شروع کردیا۔۔۔آہستہ‬
‫آہستہ ُا سکے دھکوں میں تیزی آنے لگی۔۔۔‬
‫پورے کا ُپ ورا لن مہرونساء کی پھدی میں‬
‫ُا َت ر جاتا اور اسکی چوت کے آخری حصے‬
‫کوچھو کر واپس آتا‪.‬فیصل کی آنکھیں بند‬
‫تھیں اور وہ بس ‪.‬فیصل کے لن کامزہ لے رہی‬
‫تھی۔۔۔ُا س کے منہ سے ہلکی ہلکی سسکاریاں‬
‫نکل رہی تھیں۔۔۔لذت کے مارے‬

‫اااااہ ببب بھائی‪  ‬اب مار ہی ڈالوگے اپنی بہن‬


‫کو میری چوت اب سوزش سے تنگ ھو گئی‬
‫ھے فیصل نے کہا مہرو باجی تم نے بھی‬
‫مجھے نامرد کہا تھا اب اپنے بھائی کو پورا‬
‫ٹائم دو اور برداشت کرو‬

‫فیصل نے اپنا لن مہرونساء کی چوت سے‪ ‬‬


‫نکال لیاتو فورًا ہی ‪.‬مہرونساء نے اپنی‬
‫آنکھیں کھول دیں اور ‪.‬فیصل کی طرف‬
‫دیکھنے لگی‪.‬فیصل نے اپنی بہن مہرونساء کا‬
‫ہاتھ پکڑ کراسے اوپر اٹھایا اور خود نیچے‬
‫‪..‬بیڈپر لیٹ گیا اور‬

‫فیصل بوال چل اب تو ُا وپر آ کے چوداپنی‬


‫چوت میرے لن سے اور اپنی مرضی سے کرو‬
‫میرے لنڈ کی سواری فیصل لیکن میں نے‬
‫کبھی پہلے ایسے نہیں کیا‪.‬فیصل ارے آ تو‬
‫سہی ُا وپرمیرے‪.‬مہرونساء آہستہ سے بیڈ پر‬
‫کھڑی ہوئی اور اپنی دونوں ٹانگیں فیصل‬
‫کی دونوں رانوں کےگرد کھول کر کھڑی‬
‫ہوگئی۔۔۔اس کی پھدی بالکل اپنے بھائی‬
‫فیصل کےلن کے ُا وپر تھی لیکن کھڑی ہونے‬
‫کی وجہ سے کافی فاصلے پر تھی اور ڈر رہی‬
‫تھی۔۔۔فیصل نے اپنا ہاتھ مہرو کی چوت پر‬
‫رکھا اوراسے سہالتے ہوئے بوال۔۔۔ چل ا ب‬
‫نیچے لیکر او اپنی ِا س پھدی کو۔۔۔‬

‫مہرو آہستہ آہستہ نیچے بیٹھنے لگی اپنے‬


‫پیروں کے بل نیچے بیٹھ کر مہرو اپنے بھائی‪ ‬‬
‫فیصل کے لن کودیکھنے لگی۔۔۔جوکہ اکڑ کر‬
‫اس کی چوت سے ٹکرا رہا تھا۔شاہد نے اپنا‬
‫لن اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اسے مہرو کی‬
‫پھدی کے سوراخ پر رکھ دیا۔۔۔‬

‫چل مہرو اب نیچے بیٹھ اس کو اپنی پھدی‬


‫کےاندر لیتے ہوئے مہرو آہستہ آہستہ نیچے‬
‫کوآنے لگی فیصل کا لن مہرو کی چوت کے‬
‫اندر داخل ہونے لگا۔۔۔‬

‫آہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔مم م م م م م۔۔۔بب بھائی اتنا بڑا‬


‫ھے تمہارا میری ناف تک گیا ھے بھال علیشاہ‬
‫بھابھی اسے کیسے برداشت کرینگی فیصل‬
‫مسکراتے ھوئے جیسے تم نے کر لیا ھے‬
‫برداشت ویسے ہی اسکی چیخیں نکالوں گا‬
‫تو اس کے اندر ڈر پیدا ھوگا مہرو کو اب‬
‫ِا س پوزیشن میں پہلی بار چدوانے کی وجہ‬
‫سے زیادہ تکلیف ہو رہی تھی۔۔۔ابھی دھیرے‬
‫دھیرے مہرو نیچے کو ہو رہی تھی کہ اچانک‬
‫سے اس‪  ‬نے اپنےدونوں ہاتھ اپنی بہن کے‬
‫کندھوں پر رکھے اور زور سے اسےنیچے کو‬
‫کھینچ لیا۔۔۔‬

‫آہ ہ ہ ہ۔۔۔ووئی ی ی ی ی۔۔۔‬

‫مہرو کے منہ سے زور کی چیخ نکل گئی‬


‫فیصل کا موٹا لن ایک ہی جھٹکے سے پھر‪ ‬‬
‫اس کی چوت کے اندر تک اتر گیا تھا۔مہرو‬
‫اب فیصل کی رانوں پر بیٹھ چکی تھی اور‬
‫اس کا پورے کا ُپ ورا لن مہرو کی چوت کے‬
‫اندر تھا۔مہرو نے زور سے اپنے بھائی‪ ‬‬
‫کےسینے پر مکا مارتے ہوئے کہا۔۔۔‬

‫کیا کرتے ہو۔۔۔ایسے کرتے ہیں کیالوگ اپنی‬


‫بہن سے اگر مجھے کچھ ہو جاتا تو۔۔اندر تک‬
‫جیسے زخم کر دیا ہے تم نے۔۔۔نکالو اندر‬
‫سے۔۔۔چھوڑو مجھے۔۔اٹھنے دو۔۔مجھے نہیں‬
‫کرنا تمہارےساتھ کچھ وہ ہنستا جا رہا‬
‫تھا۔۔۔مہرو کے دونوں ہاتھوں کوپکڑ کر اس‬
‫نے جھٹکا دیا اوراسے اپنی طرف کھینچ‬
‫لیااور اپنے ہونٹوں کو ُا س کےہونٹوں پر رکھ‬
‫کر اسےچومنے لگا۔۔۔‬
‫بس میری پیاری بہن۔۔۔تکلیف ختم اب تو‬
‫مزے لےمیرے لن کے اپنی چوت کے اندر۔۔۔‬
‫سالی کیا کروں میں۔۔۔میرا لن پہلے کی طرح‬
‫مریل اور ڈھیال تو ہےنہیں کے آرام آرام سے‬
‫چودے۔۔۔یہ تو ایسے ہی چودے گاتجھے جب‬
‫بھی چدوائے گی۔۔۔‬

‫یہ کہتے ہوئے پیچھے سے فیصل نے آہستہ‬


‫آہستہ اپنےلن کو اوپر کو اچھالتے ہوئے مہرو‬
‫کی چوت کے اندر باہرکرنا شروع کر دیا۔۔۔‬
‫آہستہ آہستہ دونوں کو بھی مزہ آنے لگا۔۔۔وہ‬
‫بھی انجوئے کر رہی تھی۔۔۔مہرو‪  ‬اپنے بھائی‬
‫کے لن کو اپنی چوت کے اندر محسوس کر‬
‫رہی تھی۔۔۔اتنا موٹا لن ۔۔۔اف ف ف ف ف۔۔۔‬
‫کتنا مزہ دیتا ہے۔۔۔سچ میں ہی یہ ہر لحاظ‬
‫سےبھرپور مرد بن چکا ہے۔۔۔سیکس کرنا کتنے‬
‫اچھے سےآگیا ہے۔۔۔کیسے مجھے پوری طرح‬
‫سےمطمئن کر دیا ہے۔۔۔فیصل کے لن کو‬
‫محسوس کرتے ہوئے اس کی چوت ایک بار‬
‫ِپ ھر سے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی‬
‫تھی۔۔۔‬

‫مہرو خود حیران تھی کہ آخر یہ سب کیسے‬


‫ہو رہا ہے۔۔۔ایک ہی بار میں اتنی بارکیسے اس‬
‫کی چوت کا پانی نکل سکتا ہے۔۔۔کیسے وہ‬
‫اتنی بھرپور اورمکمل اور اسٹرونگ آرگزم‬
‫حاصل کر سکتی ہے اسکی کی آنکھیں بند‬
‫تھیں اور اسے صرف یہی احساس تھا کہ یہ‬
‫سب کچھ صرف اور صرف اس میڈیسن‬
‫کورس‪  ‬کی وجہ سےہو رہا ہے۔۔۔ورنہ وہ اپنے‬
‫بھائی‪  ‬کے ساتھ تو کبھی کبھی ہی مکمل کر‬
‫پائی تھی اپنا آرگزم مہرو نڈھال ہو کر اپنے‬
‫بھائی کےُا وپر پڑی ہوئی تھی۔۔۔جب ُا س کے‬
‫ِج َس م میں کوئی حرکت محسوس نہ کی‬
‫توفیصل نے اسے الٹا دیا اورخود مہرو کے‬
‫ُا وپر آیا اورایک بار ِپ ھر دھانہ دھان اسے‬
‫چودنے لگا۔۔۔لیکن اب تو مہرو جیسےصرف‬
‫بے ہوش پڑی ہوئی تھی۔۔۔بس اپنی آنکھیں‬
‫کھولے اپنے فیصل کی آنكھوں میں دیکھے‬
‫جارہی تھی۔۔۔کچھ دیر میں فیصل کا لن‬
‫پانی چھوڑنے واال ہوا تو اس نے پوچھا کہاں‬
‫نکالوں میرا نکلنے کو ھے تو مہرو بولی بھائی‬
‫اندر مت نکالنا ورنہ تمہاری بہن پریگنٹ ھو‬
‫جائے گی تم میرے پیٹ پر اپنا پانی نکال‬
‫دو۔۔۔‬
‫اس نے اپنا لن باہر نکال لیااور ُا س کے لن سے‬
‫منی کی دھار مہرو کے پیٹ اور سینےپر گرنے‬
‫لگی۔۔۔‬

‫آہ ہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔آہاں ں ں ں ں بہت اچھے اج‬


‫ایک اناڑی بہن کا بھائی‪  ‬کھالڑی‪  ‬بن گیا ھے‬
‫اااہ‪  ‬ڈارلنگ امیزنگ مہرو کے منہ سے بھی‬
‫آوازیں نکل رہی تھیں۔۔۔اور وہ فیصل کے لن‬
‫سے منی نکل کر مہرو نساء کے ِج َس م پر گر‬
‫رہی تھی۔۔۔جیسے ہی فیصل فارغ ہوا تووہ‬
‫بھی اپنی بہن مہرو کے ساتھ ہی بستر پر گر‬
‫پڑا۔۔۔مہرو کا چہرہ اپنی طرف موڑا تو مہرو‬
‫نے فیصل کی آنكھوں میں دیکھ کر شرماکر‬
‫اپنی آنکھیں بند کر لیں اور بولی بھائی‪ ‬‬
‫جیت مبارک ھو اب تم نے اپنی بہن کی اگلی‬
‫پچھلی شکایتیں دور کر دیں ھیں تم اچھی‬
‫بھلی عورت کے بھی اب چھکے چھڑا سکتے‬
‫ھو جتنی جان اب تمہارے لنڈ میں اگئی ھے‬
‫فیصل بوال شکریہ ادا کرنا ھے تو میرے‬
‫دوست شاہد کا کرو جس نے سب کچھ‬
‫جانتے ھوئے مجھے تمہارے قابل بنایا‪  ‬مہرو‬
‫اوہ‪  ‬فففف فیصل بھائی‪  ‬تم نے شاہد کو بھی‬
‫سب کچھ بتادیا تو وہ بوال شاہد میرا بچپن‬
‫‪ ‬کا یار ھے اور ہمراز بھی‬

‫فیصل نے اپنا ہاتھ مہرو کےپیٹ پر رکھا اور‬


‫اپنے ہاتھ سے اپنی منی مہرو کے ِج َس م پر‬
‫ملنے لگا۔۔۔‬

‫مہر و یہ یہ کیا کر رہے ہو۔۔۔؟‬


‫وہ ہنسنے لگا۔۔۔ارے تیرے ِا س چکنے ِج َس م کو‬
‫اپنی منی سے اور بھی چکنا کر رہا ہوں۔۔۔‬
‫تھوڑی دیر َبْع د وہ اٹھا اورکمرے سے باہر‬
‫نکل گیا۔۔۔مہرو کے تھکے ہوئےاور چودے‬
‫ہوئے ِج َس م میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ‬
‫اٹھ کر ُا س کے پیچھے جاتی۔۔۔اسی لیے وہیں‬
‫بستر پر ہی پڑی رہی اج اسکا اناڑی بھائ‬
‫کھالڑی بن گیا تھا مہرو سوچ رہی تھی کہ‬
‫فیصل نے میری چوت کا نشہ چکھے بغیر اب‬
‫رہ نہیں پایئگا وہ اٹھ کر اپنے بھائی کے پاس‬
‫واش روم چلی گئی اور دونوں شرارتیں‬
‫کرتے ھوئے نہانے لگے فیصل نے مہرو کے‬
‫گورے بدن پر صابن لگانا شروع کر دیا اور‬
‫مہرو حیا سے سمٹ کر بولی بھائی مت کرو‬
‫ایسا تم اب بھی باز نہیں ا رہے۔۔۔۔‬
‫جاری ہے……‬

‫دو_گھوڑیوں_کے_سوار‪#‬‬

‫ایک مکمل انٹرٹینمنٹ میری نئی کہانی جو‬


‫صرف وٹس ایپ پر حاصل کرسکیں گے‬
‫کیونکہ یہ کہانی اب مکمل کر دی گئی ھے‬
‫اسکے عالوہ‪  ‬اناڑی دولہا بھی چند دنوں بعد‬
‫اس گروپ میں شامل کی جائے گی انسیسٹ‬
‫کہانیوں کے پڑھنے والے اسکو وٹس ایپ پر‬
‫خرید کر پڑھ رہے ہیں‬
‫‪ ‬اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‪#‬‬

‫صفحہ_‪#30‬‬

‫فیصل اج صبح صبح واک کرنے گیا تو مہرو‬


‫نے اسے دیکھتے ھوئے کہا بھائی کدھر جارھے‬
‫ھو تو فیصل بوال مہرو تمہیں معلوم ھے کہ‬
‫میں صبح سویرے واک کرنے جاتا ھوں بندہ‬
‫فٹ رہتا ھے مہرو اس وقت ٹی شرٹ میں‬
‫‪ ‬ملبوس تھی وہ بولی میں چینج کر لوں‬
‫فیصل۔۔۔مہرو اسی طرح ہی اجاو میں‬
‫کونسا دور تک جاتا ھوں بس ھمارے بوائز‬
‫سکول میں جو فٹ بال گراونڈ ھے صرف‬
‫اسی کا چکر لگاتا ھوں دونوں بہن بھائی‪ ‬‬
‫گھر کا ڈور الک کرکے باہر کی طرف چل پڑے‬
‫مہرو نے دیکھا اس وقت‪  ‬باہر بہت کم لوگ‬
‫ھیں اور واک کرنے فیملی بھی بہت ھیں اپنی‬
‫گلی مڑکر ہی وہ گراونڈ میں داخل ھو گئے‬
‫گراونڈ میں ہر طرف لوگ صبح کی واک کر‬
‫رہے تھے اور یہ گراونڈ بہت بڑا تھا سرسبز و‬
‫شاداب اس میدان میں گاؤں کے لوگ بہت‬
‫شوق سے واک کرتے تھے‪  ‬اور مہرو اپنے‬
‫بھائی‪  ‬فیصل کے ساتھ ساتھ دوڑنے لگی‬
‫اس وقت فیصل بہت اہستہ اہستہ دوڑ رہے‬
‫تھے ۔۔۔‬
‫مہرو نے بھی دوڑنا شروع کر دیا تھا‬
‫اسےصبح کی ٹھنڈی ٹھنڈی سرد ھوا بہت‬
‫اچھی لگ رہی تھی اسکا یہ پہال تجربہ تھا‬
‫کہ وہ اس طرح سے اوپن دوڑ رہی تھی اسے‬
‫بہت عجیب سا محسوس ھورہا تھا وہ دیکھ‬
‫رہی تھی کہ اسے کوئی دیکھ تو نہیں رہا پر‬
‫اس میدان میں صبح صبح سارے اپنی اپنی‬
‫ایکسر سائز کر رہے تھے مہرو بھی بہت جلد‬
‫نارمل ھو گئی اور اپنے بھائی‪  ‬کی رفتار کو‬
‫ماپتے ھوئے اسکے ساتھ ساتھ دوڑنے لگی‬
‫مہرو کے گورے ممے بھی اچھلنے لگے کیونکہ‬
‫اس نے برا نہیں پہنی تھی۔۔اسکی چھاتی‬
‫اس شرٹ میں نمایاں ھو رہی تھی شرٹ‬
‫میں سے نپل صاف نظر ارہے تھے‬
‫دونوں بہن بھائیوں نے جب ایک طرف کا‪ ‬‬
‫چکر مکمل کرلیا تھا وہ اب میدان کی‬
‫دوسری طرف دوڑنے کو مڑے ہی تھے تب‬
‫مہرو اور فیصل کو سامنے سے شاہد دوڑتا‬
‫ھوا نظر ایا مہرو اسے دیکھ کر ایک دم‬
‫گھبرا گئی کیونکہ وہ شاہد کے سامنے کبھی‬
‫اس طرح ایسے لباس میں نہیں گئی تھی نہ‬
‫اس طرح کی ڈریسنگ میں دونوں ایک‬
‫دوسرے کے روبرو ھوئے تھے وہ بھاگتے‬
‫بھاگتے شاہد کے قریب پہنچ چکے تھے شاھد‬
‫نے مہرو کو دیکھ کر کہا بچنا اے حسینوں‬
‫لو میں اگیا ہائے بھائی کیسے ھو صبح‪  ‬و‬
‫بخیر دوسری طرف فیصل بھی بوال صبح‪  ‬و‬
‫‪ ‬بخیر شاہد بھائی‬
‫شاہد۔۔جو پہلے ہی مہرو کا پرانا عاشق تھا‬
‫اپنے سامنے مہرو کو دیکھ کر رک گیا ساتھ‬
‫ساتھ مہرو کی تیز چلتی ھوئی سانسیں‬
‫بھی رک سی گئیں کیسی ھو مہرو میں‬
‫ٹھیک ھوں تم سناو اج کل نظر نہیں ارھے‬
‫سوری میں بس ایگزام کی تیاری کر رہا ھوں‬
‫مہرو ویری گڈ گڈلک دل لگا کر پڑھو‬

‫شاہد بوال اوہ‪  ‬ھو‪  ‬اج تو صبح و صبح‪  ‬ہی‪ ‬‬


‫بہار اگئی میرا بھائی‪  ‬اج اپنی بہن کو بھی‬
‫ساتھ لے ایا ھے اس سے پہلے مہرو کچھ‬
‫بولتی وہ خود ھی بوال اچھی بات ھے مہرو‬
‫فٹ رہنا چاہیے پر بہت سانس چڑھا ھے جناب‬
‫کو کچھ کھایا پیا کرو ابھی بہت سارے‬
‫امتحان‪  ‬باقی ھیں تو مہرو بولی میں تم سے‬
‫تیز دوڑ سکتی ھوں جناب کسی غلط فہمی‬
‫میں مت رہنا میں سکول میں‪  ‬جب ریس‬
‫لگاتی تھی تو سو میٹر کی ریس میں‬
‫چیمپئن‪  ‬تھی۔۔‬

‫شاہد واہ میڈم سکول میں تمہارے ساتھ‬


‫لڑکیاں دوڑتی تھیں اوراب ایک گھبرو جوان‬
‫ھے میں بھی روز دو سو میٹر تک دوڑتا ھوں‬
‫تم مجھے ہرا نہیں سکتی اور ویسے بھی یہ‬
‫بلی بڑی دیر بعد باہر ائی ھے اب پہلے واال دم‬
‫خم نہیں رہا تم میں فیصل ان دونوں کی‬
‫باتیں سن کر پاس کھڑا ہنس رہا تھا ان‬
‫دونوں کی نوک جھوک بڑی پرانی تھی‬
‫دونوں ایک دوسرے کے دوست بھی تھے پر‬
‫جب بھی ملتے تو خوب لڑتے اور ایک‬
‫دوسرے سے ہار نہیں مانتے تھےاس بار بھی‬
‫کچھ نیا نہیں ھونے واال تھا۔۔‬

‫مہرو بولی چلو دیکھ لیتے ھیں کون ہارتا ھے‬


‫اور کون لمبی ریس کا گھوڑا ثابت ھوگا‬
‫فیصل ہاہاہاہاہا مہرو تم لڑکی ھو میری بہن‬
‫پھر تو تم گھوڑی ھو گی تم تو گرائمر ھی‬
‫بھول گئی مہرو غصے سے تم میری طرف ھو‬
‫یا اسکی طرف تو وہ بوال مہرو میں تو اپکی‬
‫طرف ھی ھوں پر سچ بول رہا ھوں تو مہرو‬
‫بولی چلو جو زیادہ دیر تک دوڑے گا وہی‬
‫جیت جائے گا فیصل بوال جو ہارے گا اسے‬
‫ٹریٹ دینا پڑیگی مہرو بولی کیا ٹریٹ ھے‬
‫بھائی تو فیصل بوال اس کا فیصلہ جیتنے‬
‫واال خود کریگا‬

‫مہرو بولی بھائی مجھے منظور ھے میں تیار‬


‫ھوں فیصل بوال‪  ‬شاہد کیا تم بھی تیار ھو تو‬
‫وہ بوالمیں تو مذاق کر رہا تھا فیصل بھائی‪ ‬‬
‫تم خود سوچو بھال مرد اور عورت کا کیا‬
‫مقابلہ میں اسکے ساتھ ریس لگاوں گا بھال۔۔‬

‫‪ ‬مہرو ہنسنے‬

‫لگی اور شاہد کو انکھ مارتے ھوئے بولی‬


‫سیدھا بولو کہ مجھے ہار سے ڈر لگتا ھے‪  ‬تو‬
‫شاہد بوال میں ہارنے سےنہیں ڈرتا تم کہتی‬
‫ھو تو میں اعتراض نہیں ھے تم پہلے ایک‬
‫وعدہ توڑ چکی ھو اور اب تم یہ شرط ہار کر‬
‫مکر جاؤ گی ہونہہ میں ننن نہیں مکرتی‬
‫دراصل وہ ایک کچا پکا سا وعدہ تھا جو‬
‫شبو کی بلیک میلنگ سے ڈرتے ھوئے میں نے‬
‫توڑ دیا اور اب تو اس شرط کا گواہ فیصل‬
‫بھائی بھی ھیں اب کسی کا مکر جانا‬
‫ناممکن ھے۔۔‬

‫فیصل بوال بھائی کچھ نہیں ھوتا اپ لوگ‬


‫کونسا اجنبی ھو جو ڈر رھے ھو ھم دوست‬
‫ھی تو ھیں مہرو میری بہن ھے تو اپکی بھی‬
‫بہن ھی ھے مہرو اپنے بھائی‪  ‬کے بھولے پن‬
‫کی دلیل پر ہنستے ھوئے شاہد کو چڑاتے‬
‫ھوئے بولی تو شاھد بھائی چلیں سو میٹر‬
‫کی ریس لگا لیتے ھیں ہار گئے تو ہار گئے‬
‫جیت گئے تو جیت گئے شاہد مہرو کے بدلے‬
‫ھوئے تیور دیکھ چکا تھا اور اسے مہرو کے‬
‫دل میں چھپی کسی بات کو کریدنے کا‬
‫اشتیاق پیدا ھوا تو وہ مہرو کی شرٹ میں‬
‫تنے ھوئے نپل دیکھتے ھوئے بوال جیت اس‬
‫بار میری ھوگی اور میں مکرنے نہیں دوں گا‬
‫تو مہرو بولی ڈن لٹ گو فاسٹ فیصل ان‬
‫دونوں کو دیکھتے ھوئے بوال ون ٹٹٹٹ ٹو‪ ‬‬
‫تھری اور دونوں بھاگھنے لگے شاہد مہرو‬
‫کیساتھ ساتھ دوڑنے لگا اور وہ کالی شرٹ‬
‫اور ٹراؤزر میں ملبوس مہرو کو گھورتا ھوا‬
‫بوال بھال کیا ضرورت پڑی تھی مہرو تمہیں‬
‫فیصل کے سامنے ریس لگانے کی اگر اس نے‬
‫تمہارے پاپا کو جا کر بتا دیا تو تیری خیر‬
‫‪ ‬نہیں ھے‬
‫مہرو ہانپتے ھوئے‪  ‬بولی ککک کک کچھ نہیں‬
‫ھوتا فیصل بھائی اب بدل گئے ھیں ھم بہن‬
‫بھائی اب دوست ھیں اور ایک دوسرے کی‬
‫بات لیک اوٹ نہیں کرتے شاہد وہ تو میں نے‬
‫دیکھ ہی لیا ھے کیا دیکھ لیا ھے مہرو بولی‬
‫تو وہ بوال دیکھو مہرو مجھے فیصل بھائی‪ ‬‬
‫نے سب کچھ بتا دیا تھا اور جو تم نے‬
‫علیشاہ کیساتھ کیا تھا۔۔۔۔‬

‫مہرو ہڑ بڑاتے ھوئے کککک ککک ککک کیا کیا‬


‫تھا ممم ممم میں نن ننن نے بب ببب بھابی‬
‫کیساتھ تو وہ بوال چھوڑو اس‪  ‬بات کو تو‬
‫مہرو بولی تم مجھے اپنی دوست نہیں‬
‫سمجھتے بھال میں نے تمہاری اور شبو کے‬
‫افئیر والی بات کسی کو بتائی ھے تو وہ بوال‬
‫کہ بتا بھی دو گی تو کیا ھوگا تم نہیں بتا‬
‫سکتی‬

‫مہرو کیوں میں کیوں نہیں بتا سکتی بہت‬


‫اعتبار ھے مجھ پر تو شاہد بوال مہرو میں‬
‫جانتا ھوں شبو تمہاری دوست ھے اور تم‬
‫اسکا گلہ کبھی نہیں کروگی مہرو بولی واہ‬
‫کیا بات ھے مطلب تم دونوں مجھ پر بہت‬
‫بھروسہ کرتے ھو مہرو بھاگتے بھاگتے شاہد‬
‫سے اگے نکل گئی اور وہ پیچھے سے مہرو‬
‫کی گانڈ دیکھنے لگاجس کا مہرو نساء کو‬
‫بھی شک پڑ گیا اور وہ بولی اب میرا گھوڑا‬
‫تھک گیا لگتا ھے جو پیچھے رہ گیا ھے تو وہ‬
‫اسکے برابر جاکر بوال ایسی ہار کا بھی بہت‬
‫مزہ ھے مہرو بولی دیکھو شاہد مجھے تم‬
‫سے ایک کام ھے جو تم نے بڑی راز داری‬
‫کیساتھ کرنا ھے بولو کروگے نہ تو وہ بوال‬
‫کام بول پھر دیکھتا ھوں کیا کرنا ھے مہرو‬
‫بولی رات کو فون پر بات کرونگی اور اس‬
‫وقت بس یہی کام ھے کہ ھم یہ ریس برابر‬
‫کرینگے اور میرا کام تم کروگے تو میں تمہیں‬
‫ہر وہ چیز سونپ دونگی جس کی تالش تم‬
‫کو بڑی دیر سے ھے‬

‫شاہد بوال ٹھیک ھے دونوں کی ریس جاری‬


‫تھی شاہد مہرو کی شرٹ میں اوپر نیچے‬
‫ھوتے ھوئے ممے دیکھ کر بوال پاگل براہ‪  ‬تو‬
‫پہن لیتی تمہارے نپل صاف نظر ارہے ہیں تو‬
‫مہرو بولی تم بہت شرارتی ھو بڑی تیز نظر‬
‫ھے تمہاری‪  ‬دونوں باتیں کر تے کرتے سو میٹر‬
‫کے پوائنٹ پر جا کر رک گئے ان کے پیچھے‬
‫پیچھے فیصل بھی ارہا تھا وہ زور زور سے‬
‫چالتے ھوئے بوال تم دونوں جیت گئے ھو‬
‫دیکھو مہرو میری بہن ہاری نہیں ھے تو مہرو‬
‫اپنے بھائی‪  ‬کو دیکھتے ھوئے بولی کہا تھا نہ‬
‫میں چیمپئن رہی ھوں اب اگئیا یقین اس نے‬
‫شاہد کو انکھ مار دی اور اسے چپ رہنے کا‬
‫اشارہ کیا‬

‫شاھد چپ کر گیا شاید مہرو اپنی انکھوں‬


‫کی زبان میں اسے کچھ سمجھانا چاہ رہی‬
‫تھی کیونکہ مہرو بھی شاید اب شاہد کی‬
‫طرف مائل ھونے لگی تھی کیونکہ محبت‬
‫میں پہال درد تو اس نے محسوس کر لیا تھا‬
‫اب لڑکوں سے لگنے واال ڈر بہت حد تک کم‬
‫ھو گیا تھا۔۔۔وہ اب مستقل مزاجی کیساتھ‬
‫شاہد کا‪  ‬سامنا‪ ‬کرنے لگی تھی‬

‫جاری ہے……‬


‫دو_گھوڑیوں_کے_سوار‪#‬‬

‫ایک مکمل انٹرٹینمنٹ میری نئی کہانی جو‬


‫صرف وٹس ایپ پر حاصل کرسکیں گے‬
‫کیونکہ یہ کہانی اب مکمل کر دی گئی ھے‬
‫اسکے عالوہ‪  ‬اناڑی دولہا بھی چند دنوں بعد‬
‫اس گروپ میں شامل کی جائے گی انسیسٹ‬
‫کہانیوں کے پڑھنے والے اسکو وٹس ایپ پر‬
‫خرید کر پڑھ رہے ہیں‬
‫‪ ‬اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‪#‬‬

‫صفحہ_‪#31‬‬

‫ترِک وفا کی ساری قسمیں ُا ن کو دیکھ کے‬


‫ُٹ وٹ گئیں‬

‫ُا ن کا ناز سالمت ٹھہرا ‪ ،‬ہم ہی ذرا مجُب ور‪   ‬‬


‫ہوئے‬
‫مہرو واہ واہ تو جناب شاعری بھی کرنے لگے‬
‫ھیں تو وہ بوال جی ذرا عشق سے پنگا پڑ‬
‫جائے تو شاعری خود بخود ا جاتی ھے‪  ‬مہرو‬
‫اوہ اچھا تو کس سے ھوا ھے عشق ہمارے‬
‫‪ ‬اس رانجھے کو‬

‫شاھد۔۔ جس سے ھوا ھے وہ انجان بن کر‬


‫کھڑی ھے مہرو میں سب سمجھتی ھو بچو‬
‫جو تم سوچتے ھو ایسا نہیں ھو سکتا دیکھو‬
‫اب کچھ نہیں ھو سکتا ریس تو برابر رہی‬
‫ہماری‬

‫شاہد نے مہرو کی اس اداکاری کو دیکھ کر‬


‫یہ خوبصورت شعر پڑھا تو مہرو بولی بھیا‬
‫میں تمہارے دوست سے ریس برابر کر کے‬
‫بہت خوش ھوں فیصل بوال مجھے فخر ھے‬
‫اپنی بہن پر کیا ہرنی کی طرح دوڑتی ھے‬
‫تینوں گراونڈ کی گھاس پر بیٹھ گئے اور‬
‫باتیں کرنے لگے مہرو شاہد کی طرف دیکھ‬
‫رہی تھی جیسے کچھ کہنا چاہ رہی ھو۔۔۔‬

‫شاہد مہرو اس بار بھی دھوکہ ھوگا یا ہماری‬


‫ٹریٹ پکی ھوگی تو مہرو بولی اب ھم‬
‫دوستی کی نئی راہوں پر چلیں گےاور ایک‬
‫دوسرے کے ہمراز بنیں گے بس تم نے اپنی‬
‫کوئی بھی بات شبو کو نہیں بتانی تاکہ وہ‬
‫مجھے بلیک میل نہ کر سکے اوکے تو شاھد‬
‫بوال ڈن میں تمہاری کوئی بھی بات شبو کو‬
‫نہیں بتاوں گا تم حکم کرو کس دن اپنی پچ‬
‫پر بیٹنگ کرنے دو گی تو مہرو بولی مرشد تم‬
‫اس بچی کو چھوڑ دو ھم بدلے میں تجھے‬
‫ایک زیرو میٹر پچ پر بیٹنگ کرنے کا موقع‬
‫فراہم کرینگے اس سیل بند بوتل کو جس طر‬
‫ح چاہو پیو اور اپنا رس اسے پالؤ ۔۔‬

‫فیصل بوال یار تجھے معلوم ھے مہرو کس‬


‫لڑکی کی بات کر رہی ھے تو شاہد نے حیرت‬
‫سے فیصل کی طرف دیکھا اور بوال کون ھے‬
‫وہ یار مجھے بھی بتاو کون ھے وہ مہرو کس‬
‫پری کا نام لے رہی ھے جو اب تک اپنا حسن‬
‫سنبھالے میری سیج پر لیٹنے کو تیار ھے‬
‫فیصل بوال وہ وہ تو مہرو اسکے منہ پر ہاتھ‬
‫رکھ کر بولی فیصل تم ابھی اسکا نام ابھی‬
‫نہیں بتاو گے۔۔‬
‫شاید وہ اس بات کو وقت ملنے پر بتانا‬
‫چاہتی تھی اپنے ہاتھ سے مہرو کو نکلتے‬
‫دیکھ کر شاہد نے پھر ایک تیر چھوڑا وہ بوال‬
‫فیصل یار تم اپنے امتحان میں پاس ھوگئے‬
‫ھو تو پھر اپ نے حکیم صاحب‪  ‬کا منہ کب‬
‫میٹھا کروانے جانا ھے اب تم بھی حکیم‬
‫صاحب‪  ‬کی میڈیسن ادھوری مت چھوڑ دینا‬
‫ورنہ علیشاہ بھابھی کے انے پرتم پھر‬
‫شرمندہ ھونگے تو فیصل بوال یار ھم چلینگے‬
‫کچھ دنوں تک بس ابو کی طبیعت ٹھیک‬
‫نہیں رہتی اور بس کچھ کام اپنے نمٹا لوں‬
‫پھر چلتے ھیں اپکی بات صیح ھے میں اب‬
‫مکمل طور پر فٹ ھوں شاہد بوال میں تو‬
‫دیکھ رہا ھوں تم فٹ ھو اس جس نے ٹرائی‬
‫لی ھے وہ بھی مکمل خوش ھے چہرے کی‬
‫طمانیت بتا رہی ھے کہ رات کافی اچھی‬
‫گزری ھے ۔۔۔‬

‫مہرو بولی ککک کک کیا مطلب ششش شاہد‬


‫بھابھی تو اپنے میکے میں ھے تو بھائی نے‬
‫ٹرائی کس کو‪  ‬دینی ھے تم بھی نہ خوب‬
‫مذاق کرتے ھیں اچھی بات ھے کہ بھابھی‬
‫کے انے سے پہلے اسکا کورس پورا ھو جائے‬
‫تو بہت اچھا ھے شاہد بوال مہرو جی اپ کیا‬
‫سمجھتی ھو مجھے کچھ معلوم نہیں ھے کہ‬
‫تم مجھے بیوقوف بنادوگی اور میں بن‬
‫جاؤں گا دیکھو یہ ویڈیو تمہاری ہی ھے نہ‬
‫اس نے اپنے موبائل کے ڈسپلے پر مہرو کی‬
‫وہ ویڈیو پلے کر کے دکھا دی جسمیں مہرو‬
‫اور علیشاہ ننگی ھوکر مستیاں کر رہیں تھیں‬
‫مہرو کا اوپر کا سانس اوپر رہ گیا اور نیچے‬
‫کا سانس نیچے رہ گیا وہ ہڑبڑاتے ھوئے بولی‬
‫تت تتت تم نے یہ ویڈیو کیسے لی اور یہ‬
‫سب صیح نہیں ھے شاہد اسے ڈلیٹ کر دو وہ‬
‫مہرو کے چہرے پر اڑتی ھوئی ھوائیاں دیکھ‬
‫کر سمجھ گیا تھا کہ مہرو اب میرے ساتھ‬
‫میرے جال میں پھنس چکی ھے تو اس نے‬
‫مہرو کو بوال میرے پاس ایک ماہ پہلے سے‬
‫یہ‪  ‬موجود ھے پر میں نے تمہیں بلیک میل‬
‫نہیں کیا اور نہ کرونگا کیونکہ فیصل میرا‬
‫بھائی ھے اور میں تجھے بھی اپنی دوست‬
‫سمجھتا ھوں یہ لو تم اس ویڈیو کو خود‬
‫ڈلیٹ کردو تاکہ میری اور فیصل بھائی کی‬
‫دوستی پر حرف نہ ائے۔۔۔۔‬
‫‪ ‬‬

‫مہرو نےاسکا موبائل پکڑا اور جھٹ سے وہ‬


‫ویڈیو ڈلیٹ کردی اور باقی کی ویڈیو‬
‫دیکھنے لگی تو شاھد بوال کہ اچھی طرح‬
‫چیک کر لو اپکی ایک ھی ویڈیو تھی جو اب‬
‫تم نے ڈلیٹ کر دی ھے مہرو شرمندہ ھوتے‬
‫ھوئے بولی کہ سوری شاہد میں اپ کو مس‬
‫ہینڈل کیا جبکہ تم تو سب جانتے ھو مہرو‬
‫کی اواز بھر ائی اسکی اواز میں جذبوں کی‬
‫حرارت تھی جسے شاھد نے بھی محسوس‬
‫کیا تھا مہرو اس سارے معامالت کو سلجھا‬
‫لیتی۔۔‬
‫مگر فیصل بوال چلو گھر چلتے ھیں مما‪ ‬‬
‫انتظار کرتی ھونگی گراونڈ میں اب لوگ‬
‫چہل قدمی کرتے ھوئے واپس جا رھے تھے‬
‫اسی لیے مہرو اور فیصل بھی اٹھ کر گھر‬
‫کو چل دئیےجاتے ھوئے مہرو نے شاہد کو‬
‫اشارہ کیا کہ وہ اسے فون کریگی جس پر‬
‫اس نے کان پکڑ نارضگی کا اظہار کیا اور منہ‬
‫پھیر کر چل دیا‬

‫مہرو جب گھر ائی تو ڈائیننگ ٹیبل پر اسکی‬


‫ماں اور باپ ناشتہ کر رہے تھے سورج کی‬
‫کرنیں زمین پر پڑنا شروع ھو گئیں تھیں اور‬
‫ایک نئے دن کی شروعات بہت اچھی لگ رہی‬
‫تھی اج اسکے باپ نے جلد اٹھ کر ناشتہ کیا‬
‫ورنہ کچھ دنوں سے مہرو اپنے باپ کی‬
‫ناساز طبیعت دیکھ کر بہت پریشان تھی‬
‫مہرو نے اپنے باپ کو ناشتہ کرتے دیکھا تو‬
‫بھاگ کر اپنے باپ کے گال پر چما لیتے ھوئے‬
‫بولی واہ ابا جان اج تو ناشتہ کرنے کا مزہ‬
‫ائے گا۔۔۔‬

‫رضوی صاحب‪  ‬ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھے ناشتہ‬


‫کرتے ھوئے بولی‪  ‬اگئی میری پری بیٹا میں نے‬
‫سوچا جب تک میری بیٹی نہیں کھائے گی‬
‫تب تک میں بھی نہیں کھاونگا بیٹھو ذرا‬
‫اور‪  ‬وہ دودھ کا جگ پی کر دکھادو اپنی‬
‫ماں کو مہرو ہی ہی ہی ہی ہی پاپا میں کوئی‬
‫بلی ھوں جو پورا جگ ہی پی جاؤنگی بیگم‬
‫رضوی اور فیصل مہرو کی اس بات پر‬
‫کھلکھال کر ہنس پڑے‬
‫مہرو نے گرم گرم انڈا اور پراٹھا پلیٹ میں‬
‫ڈاال اور کھانے لگی تو رضوی صاحب فیصل‬
‫کی طرف متوجہ ھو کر بولے فیصل بیٹا‬
‫ہماری بہو رانی کا فون ایا تھا تمہاری امی‬
‫سے کہہ رہی تھی کہ وہ مجھے لینے اجائیں‬
‫‪ ‬تو بیٹا کیا تم بھی ساتھ جانا چاھوگے‬

‫فیصل بوال جیسے‪  ‬مرضی ابا جان میں تو‬


‫کہتا ھوں مما ہی چلی جائیں رضوی صاحب‬
‫بولے بیٹا وہ اب تمہارا سسرال ھے اب‬
‫تمہاری ذمے داریوں میں اضافہ ھو گیا ھے تم‬
‫اب ان سب کاموں کو خود کیا کروگے فیصل‬
‫بھی املیٹ اور پراٹھا بہت شوق سے کھاتا‬
‫تھا وہ کھانا کھاتے کھاتے ہی بوال ابا جان وہ‬
‫سمیر مجھے وہاں بہت چیھڑتا ھے میں اس‬
‫لئیے وہاں‪  ‬نہیں جاتا سمیر کا نام سن کر‬
‫مہرو بولی اسے تو میں دیکھ لونگی وہ بھال‬
‫تجھے کیوں چھیڑے گا‬

‫فیصل۔۔۔۔مہرو باجی وہ مجھے جیجا جی‬


‫جیجا جی کہہ کر چھڑتا ھے‪  ‬مہرو اپنے‬
‫بھائی اس ادا پر ہنستے ھوئے بولی تو تم ھو‬
‫ہی اسکے جیجا تو پھر اسمیں کیا حرج ھے‬
‫فیصل بوال ایک بار کہہ دے وہ تو ساال راگ‬
‫ہی االپنے لگ جاتا ھے‪  ‬تینوں‪  ‬فیصل کی اس‬
‫معصومیت سے لطف اندوز‪  ‬ھوتے ھوئے‬
‫ہنسنے لگےتب بیگم رضوی بولی مہرو میری‬
‫بچی ھم نے تم سے ایک بات کرنی تھی تو‬
‫‪ ‬مہرو بولی جی امی اپ حکم کریں‬
‫مہرو کی ماں بولی کہ بیٹا تم تو جانتی ھو‬
‫کہ سمیر کے لئیے تمہارا رشتہ مانگ رہے ہیں‬
‫تمہاری خالہ لوگ تو کیا تم کو یہ رشتہ‬
‫منظور ھے تو مہرو اپنے بھائی فیصل کی‬
‫طرف دیکھتے ھوئے بولی مما اپ لوگوں کو‬
‫جیسا اچھا لگے تو اپ لوگ بس وہی کریں‬
‫بیٹا تمہاری کوئی پسند ھو تو تم ہمیں بتا دو‬
‫ھم اس پر غور کرینگے۔۔۔۔۔‬

‫مہرو‪  ‬اپنی ماں سے لپٹ گئی اور بولی ماں‬


‫میں نے ابھی تک کسی کو پسند نہیں کیا نہ‬
‫ھی کسی کی کسی کی اتنی مجال ھے کہ وہ‬
‫مہرو کو کچھ کہ سکے میرا بھائی جیسے‬
‫خوش ھے میں ویسے ھی خوش ھوں فیصل‬
‫بوال کہ سمیر بہت اچھا لڑکا ھے ابھی اس نے‬
‫پاک فوج بھی جوائن کر لی ھے سرکاری‬
‫نوکری ھے اسکی اس سے اچھا رشتہ مہرو‬
‫باجی کو پھر نہیں ملے گا‬

‫رضوی صاحب بولے لو بھئی اب تو فیصل نے‬


‫بھی ہاں کر دی ھے بیگم تم ہماری طرف سے‬
‫اس رشتے کو پکا کردو میری بچی اب اپنا‬
‫فیصلہ سنا چکی ھے مہرو اٹھ کر روم میں‬
‫چلی گئی اور باقی سب گھر والے گپ شپ‬
‫کرنے لگے مہرو اپنے روم میں صفائی‪  ‬کر رہی‬
‫تھی تب اسکے موبائل کی رنگ ٹون بجی‬
‫مہرو نے اپنا موبائل‪  ‬چارجر سے اتارا تو اس‬
‫نے دیکھا موبائل کے ڈسپلے پر اسکی سہیلی‬
‫مریم جعفری کی کال تھی ہیلو مہرو یار‬
‫کیسی ھو تم‬

‫مہرو میں ٹھیک تم سناو یار ھمیں اپ کا‬


‫گھر نہیں مل رہا اپ فیصل بھائی کو بھیج‬
‫دیں وہ ہمیں اکر پک کر لے ھم سکول کے‬
‫سامنے‪  ‬کھڑے‪  ‬ھیں میں اور ثمرہ جعفری اپ‬
‫کو ملنے ائی ھیں مہرو بولی بھائی کہاں ھو‬
‫تم فیصل جو اپنے موبائل پر گیم کھیل رہا‬
‫تھا بوال جی مہرو باجی کیا ھو تو مہرو اسے‬
‫بولی تم سکول کے سامنے سے میری فرینڈ کو‬
‫پک کر لو انہیں ھمارا گھر نہیں مل رہا‬
‫بیچاری پہلی بار ائی ھیں‬
‫فیصل بوال جی باجی میں انہیں ابھی لیکر‬
‫اتا ھوں اور تم چائے پانی کا بندوبست کرلو‬
‫فیصل اپنی ماں سے کچھ پیسے لیکر باہر‬
‫گلی ……کی طرف چل دیا‬

‫‪ ‬جاری ہے‪.....‬‬

‫دو_گھوڑیوں_کے_سوار‬

‫ایک مکمل انٹرٹینمنٹ میری نئی کہانی جو‬


‫صرف وٹس ایپ پر حاصل کرسکیں گے‬
‫کیونکہ یہ کہانی اب مکمل کر دی گئی ھے‬
‫اسکے عالوہ‪  ‬اناڑی دولہا بھی چند دنوں بعد‬
‫‪ ‬اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‪#‬‬

‫صفحہ_‪#32‬‬

‫ثمرہ اور مریم مہرو کی کالس فیلو تھیں‬


‫ثمرہ تو بہت شرارتی تھی پر مریم بہت پردہ‬
‫کرتی تھی اور اسکی طبیعت میں شرارت کا‬
‫عنصر موجود نہیں تھا وہ سیرس رہتی تھی‬
‫مہرو نے اپنی سہیلیوں کو کولڈ ڈرنک پیش‬
‫کی اور انکے کیساتھ بیٹھ کر گپ شپ کرنے‬
‫لگی‬
‫مہرو ہائے ثمرہ کیا چل رہا ھے اج کل اور‬
‫الئف کیسی جارہی ھے ثمرہ جو مہرو کے روم‬
‫میں صوفے پر اپنی کزن مریم کے ساتھ‬
‫براجمان تھی وہ بولی کچھ خاص نہیں یار‬
‫ھم شہر جارہیں تھیں میری شادی ھے اس‬
‫لئیے کچھ شاپنگ کرنی تھی مہرو واہ دن‬
‫رکھ لئیے اور مجھے بتایا بھی نہیں تو ثمرہ‬
‫بولی یار تجھے کیسے بھول سکتی ھوں یہ‬
‫دیکھ تمہارا‪  ‬انویٹیشن کارڈ میرے ہاتھ میں‬
‫ھے‬

‫ثمرہ نے ربن بندھا ایک کارڈ مہرو کو تھماتے‬


‫ھوئے کہا میری شادی پر تم نے ضرور انا ھے‬
‫مہرو نے کارڈ کھوال تو اس پر لکھا تھا ثمرہ‬
‫جعفری کا نکاح حیدر شاہ کیساتھ قرار پائے‬
‫گا‬

‫مہرو بولی واہ میڈم تجھے تو تمہاری محبت‬


‫مل گئ تمہاری تو موجیں ھیں پھر تو وہ‬
‫بولی موجیں ایسے ھی نہیں لگیں بہت کچھ‬
‫کرنا پڑا اسکے لیئےتینوں سہیلیاں ہنسنے لگیں‬
‫تو مریم بولی اس نے سارے گھر والوں کو‬
‫اگے لگا رکھا تھا ماننا تو پڑے گا سب ثمرہ‬
‫کے چہرے پر شرم کی اللی نمایاں ھونے لگی‬
‫تھی وہ شرماتے ھوئے بولی ایک عورت کو‬
‫اپنا حق مانگنے کے لئیے بہت تگ دو کرنا‬
‫پڑتی ھے ایسے ہی نہیں مانے میرے گھر والے‬
‫میری ماں نے میرا ساتھ نہ دیا ھوتا تو حیدر‬
‫کو میں تو کھو دیتی ثمرہ ویسے حیدر بھائی‬
‫کرتے کیا ھیں مہرو نے استفار کرتے ھوئے‬
‫اسے پوچھا۔۔۔‬

‫ثمرہ بولی انہوں نے پاک فوج میں اپالئ کیا‬


‫ھوا ھے ان کو جاب بھی مل گئ ھے تین ماہ‬
‫پورے ھونے کو ھیں اور جب وہ واپس‬
‫ائینگے تب نکاح کی رسم ادا کر دی جائیگی‬
‫مہرو کو چھیڑتے ھوئے مریم بولی تم شادی‬
‫کب کر رہی ھو تو وہ بولی یار میرا خالہ زاد‬
‫کزن ھے سمیر‪  ‬میری اسکے ساتھ شادی چند‬
‫دنوں تک طے پا جائے گی اسی دوران مہرو‬
‫کو شاھد نے ایک رومانٹک میسج کیا جسے‬
‫‪ ‬پڑھ کر مہرو ہنسنے لگی‬
‫‏نومبر‪  ‬کی‪  ‬سرد‪  ‬صبح‪  ‬ہے‬

‫‏شال تو ُا س نے اوڑھی ہوگی‬

‫‏آدھی چائے پی لی ہو گی‬

‫‏آدھی عادتًا چھوڑی ہو گی‬

‫‏میری یاد اور ُا سے۔۔۔۔۔‬

‫‪! ‬‏ارے نہیں نہیں‬

‫!!‏اتنی فرصت تھوڑی ہوگی۔۔‬

‫مہرو نے اسے ویری گڈ کا ریپالئ دیتے ھوئے‬


‫کہا کہ میں واقعی چائے پی رہی ھوں میری‬
‫سہیلیاں ائی ھوئی ھیں ان کیساتھ بیٹھی‬
‫ھوں شاھد تو پھر میں بھی اجاوں مہرو‬
‫بولی وہ کیوں تو وہ بوال کہ دیکھنا ھے‬
‫تمہاری سہیلیاں کتنی خوبصورت ھیں مہرو‬
‫نئیں وہ پردہ کرتی ھیں تمہیں لفٹ نہیں‬
‫دینگی تو وہ بوال میں لے لوں گا لفٹ تم‬
‫صرف اجازت دو چل تیری مرضی ھے جیسے‬
‫چاہو اس نے نے ثمرہ کو کہا یہ میرا اور‬
‫بھائی‪  ‬فیصل کا دوست ھے شاھد جان‬
‫بوجھ کر تنگ کر رہا ھے‬

‫تو وہ دونوں ہی ہنس پڑیں اور ثمرہ بولی‬


‫صرف دوست ھی ھے یا پھر وہ سب کچھ‬
‫جو لڑکی لڑکا کرتے ھیں تو مہرو شرماتے‬
‫ھوئے بولی کمینی کیا مطلب ھے تمہارا میں‬
‫ایسی نہیں ھوں ثمرہ بولی تم نے ضرور کچھ‬
‫کیا ھوگا اسکے ساتھ کیونکہ تم چیز ھی‬
‫ایسی ھو ہاہاہاہاہاہا مریم بھی ان دونوں کی‬
‫باتیں سن کر ہنس رہی تھی ثمرہ بولی تم نے‬
‫دی نہیں اسکو مہرو بولی نئیں ھم صرف‬
‫دوست ھیں۔۔‬

‫ثمرہ اج کل تو سب سے پہال لنڈ دوست کا‪ ‬‬


‫ہی جاتا ھے لڑکیوں کے اندر شوہر کی باری تو‬
‫بعد میں اتی ھے سالی تمہاری‪  ‬چوت چوت‬
‫پر کونسا چاندی کا ورک‪  ‬چڑھا ھوا ھے جو‬
‫تمہاری کوئی لے نہیں سکتا تینوں دوست‬
‫مستیاں کر رہیں تھیں تب فیصل بریانی لیکر‬
‫اگیا اور مہرو کو بوال کہ دو پلیٹ ادھر میرے‬
‫روم میں بھیج دیں میرا دوست بھی میرے‬
‫ساتھ روم میں بیٹھا ھے مہرو نے بریانی‬
‫پلیٹوں میں ڈال دی اور جاکر فیصل کو پکڑا‬
‫کر واپس اپنی سہیلیوں کی‪  ‬محفل میں‬
‫براجمان ھو گئی۔۔‬

‫مہرو بولی شکر ھے میں تو اب تک ورجن‬


‫ھوں اور سب کچھ سہاگ رات کو ہی ھوگا‬
‫تو مریم بولی میں بھی ابھی تک سیل پیک‬
‫ھوں سب کچھ اپنے شوہر کو ہی گفٹ‬
‫دونگی ثمرہ کیا بات ھے تم دونوں کے ارادے‬
‫تو بڑے نیک ھیں ہی ہی ہی ہی ہی ہی تینوں‬
‫پھر سے ہنس پڑیں مہرو نے شرارت سے ثمرہ‬
‫کا مما دبا دیا اور بولی جتنی تم باتیں کرتی‬
‫ھو حیدر بھائ نے تجھے چود دیا ھوگا‬
‫ثمرہ ہاں یار تم ٹھیک کہتی ھو اس نے اپنی‬
‫سہاگ رات ایڈوانس میں ہی منا لی ھے اب‬
‫تو نکاح کی رسم کرنی ھے میاں بیوی تو ھم‬
‫کب کے خود کو مان چکے ھیں مریم جو چپ‬
‫کرکے بریانی کھا رہی تھی اسنے مہرو کی‬
‫گانڈ پر چٹکی کاٹتے ھوئے کہا تم‪  ‬دونوں نے‬
‫یہاں کس طرح کی باتیں شروع‪  ‬کر دی ھیں‬
‫کچھ شرم کریں تم دونوں تو مہرو نے اسکے‬
‫ممے کو دبا دیا زور سے درد کی شدت سے‬
‫مریم کی اہ نکل گئی اور اسکے ہاتھ سے‬
‫چمچ نیچے جاگری مہرو بولی تم اب تک‬
‫کسی کیساتھ سیٹ نہیں ھوئی میرا خیال‬
‫ھے‪  ‬مریم بولی تم سچ کہ رہی ھو میں تو‬
‫مارے شرم کے کسی کے سامنے بھی نہیں اتی‬
‫میں نے اب تک کسی غیر مرد کو مخاطب تک‬
‫نہیں کیا‬
‫دونوں بولیں تم کہو تو اج تمہارا یہ ڈر نکال‬
‫دیتے ھیں مہرو اور ثمرہ نے مسکرا کر ایک‪ ‬‬
‫دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر مریم کو‬
‫بولیں تم کہو تو ھم تمہاری فرینڈ شپ کروا‬
‫دیتے ھیں پھر تم اسکے ساتھ اپنا حال دل‬
‫بیان کردیا کریں جسٹ ٹائم پاس مریم بولی‬
‫کون ھے وہ تو مہرو بولی وہ میرا دوست‬
‫شاہد ھے اس نے بنک میں جاب کے لئیے‬
‫اپالئی کیا ھوا ھے ابھی تک کنوارہ ہی ھے‬
‫تمہاری طرح‬

‫مریم بولی نہیں میں پردے دار ھوں یوں‬


‫کسی ایرے غیرے کے قدموں اپنا دل نہیں‬
‫رکھ سکتی اور بدنام ہونا نہیں چاہتی مہرو‬
‫بولی اسے بھی ایک اچھی دوست کی‬
‫ضرورت ھے اور تم بھی فرسٹ ائیر کلئیر‬
‫ھونے تک کسی سی اپنے جذبات شیئر کر‬
‫سکتی ھو مریم بولی کیسا ھے وہ تو مہرو‬
‫بولی اجاو تمہیں دکھا دیتی ھوں ثمرہ اور‬
‫مہرو مریم کو فیصل کے روم میں لے گئیں‬
‫اور وہاں پر فیصل اور اس کا دوست شاہد‬
‫‪ ‬بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے‬

‫وہ دونوں ان تینوں لڑکیوں کی اس طرح‬


‫فیصل کے روم میں‪  ‬امد سے تھوڑا نروس‬
‫ھوئے تھے وہاں تیز کشمیری گھوڑی‪  ‬مہرو‬
‫نساء نے سب کچھ سمجھتے ھوئے مریم اور‬
‫ثمرہ سے کہا کہ تم دونوں بیٹھو یہاں صوفے‬
‫پر اور اپنے بھائی فیصل اور شاھد کو بولی‬
‫کہ تم لوگ بیڈ پر بیٹھ جاؤ مہرو اپنی‬
‫سہیلیوں کا تعارف کرواتے ھوئے‪  ‬بولی شاھد‬
‫یہ میری دوست ثمرہ جعفری ھے اور یہ‬
‫اسکی کزن ھے مریم دونوں میری بہت اچھی‬
‫دوست ھیں اور مریم میں تو شاہد کے بارے‬
‫میں اپ کو بتا ہی چکی کہ وہ میرا دوست‬
‫‪ ‬ھے‬

‫شاہد نے مہرو کی سہیلیوں کو سالم کیا اور‬


‫ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ کر گپ شپ‬
‫کرنے لگے مہرو بولی شاھد یہ مریم ھے نہ‬
‫میں اس سے تمہاری دوستی کروانا چاہتی‬
‫ھوں اور اسی لئیے میں ان کو ادھر بھائی کے‬
‫روم میں الئی ھوں مریم نے شرماتے ھوئے‬
‫اپنے سامنے بیٹھے لڑکے کو دیکھا کلین شیو‬
‫سمارٹ جسم دارز قد چوڑی چھاتی جو‬
‫کشیمیر نوجوان بیٹھا ھوا تھا مریم کی اور‬
‫شاھد کی نظریں ملیں پھر مریم نے شرم سے‬
‫اپنی نظریں جھکا لیں اور شاہد نے بھی اپنے‬
‫سامنے بال کا حسن دیکھ کر اس سے ہمکالم‬
‫‪   ‬ھونا چاہا مگر مریم شاید شرمارہی تھی‬

‫شاھد ہائے مریم کیسی ھو اور کیا کر رہی ھو‬


‫اس وقت مریم۔میں سٹڈی کر رہی ھوں اور‬
‫اپ تو وہ بوال میں بھی سٹڈیز کر رہا ھوں‬
‫اور ساتھ ساتھ‪  ‬کورس کر رہا ھوں بینک‬
‫میں جاب کرنا چاہتا ھوں مہرو نے مریم کا‬
‫موبائل‪  ‬شاہد کو پکڑا کر کہا اسمیں تم اپنا‬
‫نمبر محفوظ کردو تو اس نے مہرو کے ہاتھ‬
‫سے موبائل پکڑ لیا تب مہرو بولی بھائی‪ ‬‬
‫کچھ دیر کیلیے ان دونوں کو روم میں اکیلے‬
‫چھوڑ دیں اور ھم دوسرے روم میں چلے‬
‫جاتے ھیں فیصل اور مہرو وہاں سے نکل کر‬
‫اپنے روم میں چلے گئے اور ان کے پیچھے‬
‫پیچھے ثمرہ بھی چل پڑی‬

‫باہر جاتے ہی مہرو نے دونوں کو گڈ لک کہا‬


‫اور پردہ گرا کر روم سے باہر نکل گئی شاہد‬
‫بیڈ سے اٹھ کر مریم کے قریب صوفے پر‬
‫بیٹھ گیا اور مریم سے باتیں کرنے لگا شاہد‬
‫مریم کچھ بولو بھی تم تو چپ کر گئی مریم‬
‫شرما کر بولی جی میں کیا بولوں شاہد کچھ‬
‫‪ ‬بھی‬
‫مریم جی مجھے زیادہ باتیں نہیں اتیں تو وہ‬
‫بوال پڑھائی کہاں تک کرنے کا ارادہ ھے تو وہ‬
‫بولی بس میں ایگزام دیکر‪  ‬پھر بس کر دینی‬
‫ھے اپ نے کہاں تک پڑھنا ھے تو شاہد مریم‬
‫کا ہاتھ پکڑ کر بوال سمجھو میرا بھی یہی‬
‫ارادہ ھے مجھے اپوائمنٹ لیٹر مل گیا ھے‬
‫جاب کے بعد میں تعلیم جاری نہیں رکھ‬
‫سکوں گا شاہد نےبات کرتے کرتے مریم‪  ‬کا‬
‫ہاتھ سہال دیا مریم کے جسم میں جیسے‬
‫کرنٹ سا دوڑ گیا وہ صوفے کی ایک کنارے‬
‫پر سمٹ گئی اور حیا کی اللی اس کے چہرے‬
‫پر دیکھی جاسکتی تھی وہ اسے روکنا چاہ‬
‫رہی تھی پر مریم کو کچھ خاص برا نہیں لگا‬
‫اور اس نے کہا اپ شادی کب کر رہے ھو‬
‫‪ ‬شاہد‬
‫وہ بوال پہلے جاب پھر شادی‪  ‬اور وہ بھی‬
‫تب کروں گا جب میرے دل کو کوئی لڑکی‬
‫پسند ائے گی مریم اپ کو کیسی لڑکی پسند‬
‫ھے شاہد بس زبان لڑانے والی نہ ھو اور حیا‬
‫شرم اس کی پہچان ھو مریم بولی اپ کی‬
‫پسند تو سہی ھے مجھے بھی وہ لڑکا پسند‬
‫ھوگا جو میرے ارمانوں کا سہرا اپنے سر پر‬
‫سجا کر ‪.......‬مجھے عزت دے‬


‫جاری ہے‪.....‬‬


‫دو_گھوڑیوں_کے_سوار‪#‬‬
‫‪ ‬اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‪#‬‬

‫صفحہ_‪#33‬‬

‫مریم اور ثمرہ بولیں مہرو اب ہمیں دو‬


‫اجازت دو ھم نے شہر جاکر شاپنگ بھی‬
‫کرنی ھے مریم جب روم سے باہر نکلی تو اس‬
‫کے چہرے کا رنگ سرخ ھو چکا تھا اور وہ‬
‫اپنی دونوں سہیلیوں سے نظریں چرا رہی‬
‫تھی حاالنکہ انہوں نے الٹا مریم کی حوصلہ‬
‫افزائی‪  ‬ہی کی تھی مہرو نے دھیرے سے‬
‫مریم کے کان میں سرگوشی کرتے ھوئے کہا‬
‫کیسا لگا میرا دوست تجھے میری مریم بی‬
‫بی مریم بھی سرگوشی کرنے کے انداز میں‬
‫مہرو سے بولی وہ بہت شرارتی ھے‬

‫مہرو اسے کندھا مارتے ھوئے بولی وہ تو میں‬


‫دیکھ ہی رہی ھوں ثمرہ بولی تم دونوں‬
‫مجھے بھی کچھ بتاو گی یا پھر اپس میں‬
‫ہی کھسر پسر کرتی رہوگی مہرو بولی تم‬
‫راستے میں اس سے پوچھتی رہنا ثمرہ اچھا‬
‫پھر ملینگے‬

‫چاروں طرف اندھیرے نے رات کی امد کا پتہ‬


‫دینا شروع‪  ‬کر دیا تھا سرد شامیں اکثر‬
‫مختصر ھوا کرتی ھیں اور راتیں لمبی ھوا‬
‫کرتی ھیں مہرو نوابزادہ کا لکھا ھوا ناول‬
‫میل کروادے ربا پڑھ رہی تھی اسے ناول‬
‫پڑھنا بہت پسند تھا پدوماوتی بڑی حویلی‬
‫کی بہو اس نے بہت سارے ناول وہ پڑھ‬
‫چکی تھی وہ اکثر رات کو ناول شوق سے‬
‫پڑھتی تھی اج وہ بہت تھک گئی تھی اس‬
‫لئیے بستر پر کچھ دیر تک پڑھتے پڑھتے‬
‫اسکو نیند انے لگی اور وہ سونے کے لیئے‬
‫انکھیں موند کر لیٹ گئی پر اس نے جو ہلچل‬
‫اپنے بھائی‪  ‬فیصل کے سینے میں لگائی تھی‬
‫اس کی تپش شاید مہرو کو‪  ‬چین‪  ‬سے‪  ‬کب‬
‫سونے دیتی۔۔۔‬
‫مہرو نرم و مالئم بستر پر دنیا سے بے نیاز‬
‫سوئی ہوئی تھی کمبل کی اوٹ سے اس کی‬
‫ایک برہنہ ٹانگ رانوں تک باہر تھی اچانک‬
‫اسے اپنی ٹانگ پر ہونٹوں کا لمس محسوس‬
‫ہوا‪ ......‬آمہم سونے دیں ناں‪  ‬بھائی ‪ ....‬وہ‬
‫آنکھیں بند کئے ہی بڑبڑا دی تھی‬

‫فیصل نے ایک جھٹکے سے کمبل کھینچ کر‬


‫بدن سے الگ کیا اور پرکشش ترین بدن کا‬
‫نظارہ فیصل کی آنکھوں کو معطر کرنے لگا‬
‫یہ کمبل اس کے جسم پر موجود واحد اوٹ‬
‫تھی جس کے اندر وہ خود کو چھپائے لیٹی‬
‫تھی‪.....‬بھائی سو جاؤ ناں یار کیوں تنگ کر‬
‫رہے ہو‪.....‬اس بدن کے عقب میں سونا یقینًا‬
‫‪.....‬ناشکری کی انتہا ہو گی‬
‫فیصل نے اپنے ہاتھ کو اس کے چہرے پر اس‬
‫انداز سے رکھا کہ فیصل کی دو انگلیاں اس‬
‫کے ہونٹوں پر تھی اور پھر ہاتھ کو حرکت‬
‫دیتا ہوا گردن تک آیا‪....‬اس بدن کے عقب میں‬
‫اس بدن سے بے نیاز ہو کر سونے واال شخص‬
‫دنیا کا سب سے بدبخت اور ناشکرا ہو گا اور‬
‫اس کے ساتھ ہی فیصل اپنی بہن کی رانوں‬
‫پر ہاتھ پھرنے لگا اور وہ پڑپڑانے لگی‬
‫مدہوش ہوکر فیصل کے ساتھ اپنا بدن مالکر‬
‫اس کے کان کی لو کو اپنی ہونٹوں میں‬
‫تھوڑا سا دبا کر فیصل کو اور گرمی چھڑ‬
‫گئ ۔ اور وہ مہرو کی‪  ‬دونوں چھاتیوں کو‬
‫ایک ساتھ زور سے دبایا برا کے اوپر سے‬
‫جس سے اسکی سسکی نکل گئ۔ااااہ بب‬
‫بھائی مت دباؤ‪  ‬اور مدہوشی کے ساتھ مہرو‬
‫اسکو‪  ‬بول رہی تھی پلیز مجھے چھوڑ دو‬
‫پر۔۔‬

‫فیصل نے اس موقع کا پورا فائدہ اٹھا کر‪ ‬‬


‫اپنی بہن کی‪  ‬برا کا ہوک کھول کر دونوں‬
‫بوبز جو باہر نکلنے کیلئے بیتاب تھے ازاد‬
‫کردئے اور‪  ‬اسکی اوپر اکر فیصل نے اسکے‬
‫دائیں طرف والی چھاتی کے نپل کے ارد گرد‬
‫زبان پھرنا شروع کیا تھا ۔ اور ادھر وہ‬
‫بیچاری مہرو‪  ‬مچھلی کی طرح تڑپ رہی‬
‫تھی۔اسکی چوت مزید درد سہنے کو تیار‬
‫نہیں تھی مگر پھر بھی مزے کی خاطر‪ ‬‬
‫دونوں بلکل تیار تھے فیصل کچھ زیادہ ہی‬
‫اسکو تڑپانا چاہتا تھا۔ اور ایک دم اس نے‬
‫پورا نپلز منہ میں لیکر چوسنا شروع کیا ۔‬
‫اااااہ ممممم مممم سسس سسس بھائی‬
‫تمہارے ان ہاتھوں میں جادو ھے جو میری‬
‫جان لے رہا ھے مہرو نئی نئی اس لذت سے‬
‫اشنا ھوئی تھی‬

‫جس‪  ‬سے اسکی سسکی پورے کمرے میں‬


‫گونج رہی تھی۔ اور فیصل کا سر اپنے بوبز‬
‫میں دبانے لگی ۔‬

‫ادھر فیصل کا لنڈ اب پوری طرح کھڑا تھا ۔‬


‫سات انچ کا لنڈ مہرو ٹانگون کے درمیان‬
‫پھنسا کر رگڑ رہا تھا ۔ جسکی وجہ سے مہرو‬
‫کی حالت اب کنٹرول سے باہر تھی اور‬
‫فیصل اپنی بہن مہرو کا‪  ‬ٹراوزر اتارنے لگا۔۔‬
‫شاید وہ اب سمجھ چھکا تھا کہ اب لوہا فل‬
‫گرم ہے ۔ اور اسکی ننگی رانوں کے درمیان‬
‫ننگا لنڈ جو کہ چوت کے ساتھ مس ہوکر‬
‫رگڑنے لگا ۔ اور اسکی چوت کی چکناہٹ اتنی‬
‫زیادہ ہوگئ تھی کہ فیصل کا راڈ گیال ہونے‬
‫کیوجہ سے بہت اسانی کے ساتھ دونوں‬
‫رانوں کے درمیان اندر باہر ہورہا تھا۔ جو‬
‫کبھی چوت کے ساتھ ٹچ ہوتا ۔ تو اس‬
‫بیچاری کی سسکی نکل جاتی تھی۔۔‬

‫اس دوران فیصل کو لگ رہا تھا کہ یہ تو‬


‫انزال ہونے والی ہے ۔۔۔‬

‫اور اسطرح ان دونوں کا انزال شروع ہوتے‬


‫ہئ فیصل کی بہن نے اس کو ان خیالوں سے‬
‫‪ ‬باہر نکال دیا اور یہ گانا شروع تھا‬
‫آج پھر تم پے پیار آیا ہے‬

‫آج پھر تم پے پیار آیا ہے‬

‫بے حد اور بے شمار آیا ہے‬

‫آج پھر تم پے پیار آیا ہے‬

‫بڑی ایل سی ڈی سکرین پر رومانوی سین‬


‫دیکھتے ہوئے اس نے جام کا گالس ہونٹوں‬
‫کو لگایا اور پھر گھونٹ بھرتے ہوئے آنکھیں‬
‫بند کر کے جھومنے لگا‪ .......‬کب تک تم یہ‬
‫رومانوی گانوں پر اپنی بیوی کو یاد کرکے‬
‫‪ ‬جھومتے رہوگے بھائی‬
‫مہرو جانتی تھی کہ فیصل کو پھر سے ردھم‬
‫‪..‬میں انے کے لیئے کچھ وقت لگنا تھا‬

‫مہرواپنے بھائی فیصل کا لنڈ آہستہ آہستہ‬


‫اپنی مٹھی میں دبانے لگی اور خود اپنے‬
‫ہاتھ سے اپنی چوت پر اسے رگڑنے لگی۔‬
‫فیصل کو بھی اپنالن مہرو کے نازک ہاتھوں‬
‫میں محسوس کر کے اچھالگ رہا تھا۔۔۔ِپ ھر‬
‫مہرو نے اپنے بھائی‪  ‬کا لن‪  ‬اپنے ہاتھ سے‬
‫چھوڑااور ان کی شلوار کے ناڑےکو ڈھونڈنے‬
‫لگی۔۔۔ادھر ُا دھر۔۔۔ُا وپر نیچے کوہاتھ چالتے‬
‫ہوئے۔۔۔بڑی ہی بےصبری سے ڈھونڈرہی تھی‬
‫اور ِپ ھر جیسے ہی ناڑے کا‬
‫ایک سرا ہاتھ میں آیا تو اسےکھینچ دیااور‬
‫فیصل کی شلوارکھل گئی۔۔۔فورًا ہی اس نے‬
‫اپنا ہاتھ فیصل کی شلوار کےاندر ڈال دیا۔۔۔‬
‫اور فیصل کے ننگےلن‪  ‬کو اپنے ہاتھ میں لے‬
‫لیا۔فیصل نے اپنا منہ مہرو کے ہونٹوں پر سے‬
‫ہٹایااور اس کی آنكھوں میں دیکھتے ہوئے‬
‫‪ ‬بوال مہرو‬

‫بہت جلدی ہے کیا۔۔۔جیسے ہی اس نے یہ فقرہ‬


‫سنا تو شرما کر فورًا ہی فیصل کالن‪  ‬ہاتھ‬
‫سے چھوڑ کر ان کی شلوار سے باہر کھینچ‬
‫لیا۔۔۔فیصل بوال میں بہت پیار کرنا چاہتا‬
‫ھوں تم بھی اسے پیار کروگے‬
‫فیصل ارے ارے چھوڑ کیوں دیااسے۔۔۔پکڑے‬
‫رکھو نہ تمہارے‪  ‬ہی لیے تو ہے یہ۔۔۔مہرو‬
‫شرمندگی سے مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔بہت‬
‫گندے ہو آپ تم فیصل ۔۔۔ہٹو آپ میرے ُا وپر‬
‫سے۔۔۔مجھے نہیں کچھ بھی کرناآپ کے‬
‫ساتھ اور نہ مجھے آپ کاوہ نہیں‪  ‬چاہیے ہے‬
‫بھائی‪  ‬مہرو بنوٹی غصے سے بولی۔‬

‫فیصل مسکراہٹ‪  ‬کیساتھ بوال۔۔۔تم کو میرا‬


‫وہ نہیں چاہیے توکیا ہوا میری رانی مجھے‬
‫تو تمہاری یہ چاہیے ہے نہ۔۔۔ یہ کہتے ہوئے‬
‫فیصل نے اپنا ہاتھ مہرو کی چوت پر رکھ‬
‫دیا۔۔۔اس کی نائٹی کو ُا وپر کھینچ کر۔۔۔اس‬
‫کی ٹانگوں کو بالکل ننگاکر کے۔۔۔اپنا ہاتھ‬
‫اس کی ننگی چوت پر رکھ دیا۔۔۔کیونکہ‪  ‬نہا‬
‫کر مہرو نے نائٹی کے نیچے سے کچھ بھی‬
‫تونہیں پہنا تھا نہ۔۔۔جیسے ہی فیصل‬
‫نےفیصل کی نازک سی۔۔۔گالبی چوت کو‬
‫اپنی مٹھی میں لیا تو مہرو تو اچھل ہی‬
‫پڑی۔۔۔تڑپ گئی اور فیصل‬

‫کے ہاتھ کے ساتھ ہی اس کی چوت ُا وپر کو‪ ‬‬


‫اٹھتی چلی گئی مہرو تڑپی۔۔۔نہیں کریں نہ‬
‫پلیز۔۔۔چھوڑ دیں۔۔۔بھائی‬

‫مہرو لیٹی ھوئی تھی فیصل نے مہرو کی‬


‫ٹانگیں اٹھا لیں اور اپنا لنڈ مہرو کی تنگ‬
‫چوت پر رکھا اور مہرو سے کہا تم تیار ھو‬
‫مہرو نے اپنا منہ تکیے میں چھپا لیا اور‬
‫فیصل نے اپنے لنڈ کو ہلکا سا دھکا مارا اسکا‬
‫لنڈ مہرو کی چوت کے لب کھولتا ھوا اندر‬
‫چال گیا اف ااااہ ممم ممممم میں مررررگئ‬
‫اف اااہ اپکا کتنا موٹا ھے مجھے تو یہ مار‬
‫‪ ‬ڈالے گا ااااہ اف‬

‫فیصل نے مہرو کی ایک نہ سنی اور ایک‬


‫فائنل شارٹ مار کر مہرو کی چوت میں اتار‬
‫دیا مہرو کی سسکاری نکل گئی اوہ ااااااہ‬
‫اف ففففففف فففففف فیصل بببب بھائی‬
‫مممم مممم مار ڈاال تم نے تو فیصل نے اپنے‬
‫ہاتھ‪  ‬مہرو کے بوبز پر چالنا شروع کر دیا اج‬
‫فیصل وحشی ھوگیا اور اس نے اپنا لنڈ‬
‫مہرو کی تنگ چوت کےاندر باہر کرنا شروع‬
‫کر دیا‬
‫مہرو کی تنگ چوت نے فیصل کے لنڈ کو‬
‫پوری طرح سے جکڑ لیا تھا پھر بھی مہرو‬
‫کی گیلی چوت لنڈ کو اندر باہر ھونےمیں‬
‫مددگار ثابت ھو رہی تھی لنڈ اور چوت میں‬
‫اب تال میل بن چکی تھی مہرو بھی اب‬
‫اپنی بھائی کو اپنی چوت اٹھا اٹھا کر‬
‫‪...‬شاندار گھسوں کا جواب دینے لگی‬

‫مہرو اپنے بھائی کو بولی بھیا پہلے تم کو‬


‫میں نظر نہیں اتی تھی اب شادی کے بعد تم‬
‫مجھے چھوڑتے ہی نہیں فیصل اپ بھی تو‬
‫بتاتی نہیں تھی کتنی بار میں تمہارے نام کا‬
‫پپپ پانی ننن نکال چکا ھے خوابوں میں‬
‫بھیا ایک بات پوچھوں‪  ‬تو فیصل نے گھسے‬
‫مارتے‪  ‬ھوئے اثبات میں اپنا سر ہال دیا مہرو‬
‫بولی کیسی لگی میری چوت اپ کو پسند تو‬
‫ھے نہ کیسا محسوس کیا تھا اپ نےمیری‬
‫سیل توڑ کے‬

‫فیصل میں بہت خوش ھوں جو مجھے اتنا‬


‫پیار کرنے والی بہن ملی تم نے اپنےاس اناڑی‬
‫بھائی کو کھالڑی بنا دیا ھے فیصل کی سپیڈ‬
‫بڑھ چکی تھی اور وہ بڑی تیزی کیساتھ اپنا‪ ‬‬
‫‪ ........‬کی چوت کے اندر باہر کرنے لگا‬

‫جاری ہے‪.....‬‬
‫‪ ‬اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‪#‬‬

‫صفحہ_‪#34‬‬

‫وہ اپنی جوان اورخوبصورت لڑکی کی چوت‬


‫مار رہا تھا۔۔۔ایسے جون لنڈ کو پہلی بار‬
‫چوت ملی تھی تو لن‪  ‬سے صبر ِپ ھر کہاں‬
‫ہوناتھا۔۔۔برداشت کہاں ہونا تھا۔۔۔جیسے ہی‬
‫لن کا رول‪  ‬اندر داخل ہوا تو۔۔۔فیصل نے ایک‬
‫ہی گھسے میں پورا لن‪  ‬ہی اندر پیل‬
‫دیااورمہرو کی تو چیخ ہی نکل گئی۔۔۔فیصل‬
‫کو ترس تو ارہا تھا مگر شاید محبت کے اس‬
‫مقام پر جارحیت الزم ھوتی ھے‬

‫ِا س سیکس کی ہوس میں۔۔ ِج َس م کی ‪ ‬‬


‫گرمی میں اسےکوئی بھی‪  ‬وزن محسوس‬
‫نہیں ہو رہا تھااور ہوتا بھی تو ایسا ہی ہےنہ‬
‫نازک سی عورت سیکس کے دوران بھاری‬
‫سے بھاری اور موٹے ِج َس م والے مرد کابوجھ‬
‫اپنے نازک سے وجود پربرداشت کر لیتی ہے‬
‫کیونکہ لذت میں اسے کچھ بھی محسوس‬
‫نہیں ہو رہا ہوتا‬

‫جب تک کے اس کی چوت آرگزم تک نہ پہنچ‬


‫جائے۔۔۔اپنا پانی نہ چھوڑ دے یہی حال‬
‫مہرو‪  ‬کا تھا وہ تو بس اب اپنے بھائی‪  ‬سے‬
‫لپٹی پڑی ہوئی تھی اپنی کھلی ہوئی ٹانگوں‬
‫کو اسکی کمر کےگرد لپیٹنے کی کوشش کرتی‬
‫رہی کہ فیصل زیادہ زور نہ لگائیں مگر فیصل‬
‫کا بھی توایسا کوئی ارادہ نہیں تھا نہ وہ‬
‫بھی آہستہ آہستہ ہل رہےتھے اپنے لن‪  ‬کو‬
‫مہرو کی چوت میں آگے پیچھے کر رہے تھے۔۔‬
‫بڑی تگ و دو‪  ‬کے بعد ملی ہوئی ِا س نازک‬
‫سی جواں چوت کابھرپور مزا لینے کی‬
‫‪ ‬کوشش کر رہے تھے۔‬

‫ان کا لن مہرو کی چوت میں َپیوْس ت تھااور‬


‫نظریں مہرو کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں‬
‫اپنے دونوں ہاتھوں سے انہوں نے مہرو‪  ‬کے‬
‫کندھوں کو پکڑااور اسے کندھوں سے‬
‫نیچےکو کھینچتے ہوئے اپنے لن سے ُا وپر کی‬
‫طرف دھکےمارنے لگے۔پورے کا ُپ ورا لن اندر‬
‫تک مہرو کی چوت میں اترا ہوا تھااور کمرے‬
‫میں مہرو کی سسکاریاں‪  ‬گونج رہی تھیں۔۔۔‬
‫دونوں کی سانسیں تیز تیزچل رہی تھیں‬

‫اف اف اااہ ااااااہ مممممم مممممم مم میں‬


‫‪ ‬مرررگئ‬

‫دونوں ہی پسینے سے شرابور ہو رہےتھے۔۔۔‬


‫فیصل کے ِج َس م سےخوشبو سے بھری ہوئی‬
‫پسینے کی خوشبو آ رہی تھی مہرو بھی اپنی‬
‫چوت کوُا وپر کی طرف اچھال رہی تھی اور‬
‫فیصل کے گھسوں کی رفتار میں بھی تیزی‬
‫آتی جا رہی تھی دونوں ہی اپنی اپنی منزل‬
‫کوپہنچ جانا چاہتے تھے مگر ایک دوسرے کو‬
‫ساتھ لےکرایک دوسرے کے پیاس کو بجھانے‬
‫کا خیال کرتےہوئےکوشش کرتے ہوئےکہ کہیں‬
‫دوسرا ِپ ھر سےپیاسا نہ رہ جائے مہرو کی‬
‫چوت اندر ہی اندر اپنے بھائی‪  ‬کے لن‪ ‬‬
‫کوبھینچ رہی تھی دبا رہی تھی ہلتے ہوئے‬
‫رگڑ رہی تھی اور فیصل کے منہ سے بھی‬
‫سسکاریاں‪  ‬سی نکل رہی تھیں اور ِپ ھر پہلے‬
‫مہرو کی چوت نے پانی چھوڑ دیا اسکی‬

‫آنکھیں ُا وپر کو چڑھ کر بندہوگیں تھیں منہ‬


‫کھلے کا کھال رہ گیاماتھے پر سو سو بل پڑ‬
‫گئےِج َس م اکڑ گیاٹانگیں کھینچ گیں اور چوت‬
‫نے سکڑتے اور پھیلتے ہوئےپانی چھوڑنا‬
‫شروع کر دیااور زور زور سے اپنے‬
‫اندرموجود لن‪  ‬کو دبانے لگی۔۔۔اتنی زور زور‬
‫کا دباؤ تھا جو سب کچھ بہا کر لے گیا‬
‫ااااااہ ممممم مہرو مممم میں تو نکل گیا‬

‫فیصل بھی زیادہ دیرتک خود کو نہ روک‬


‫سکا نہ سنبھال سکا اپنے دونوں ہاتھ اسکی‬
‫کی کمر کے نیچے ُپ ش کیےاور ُا س کے ِج َس م‬
‫کو اپنی بانہوں میں بھر کر۔۔۔زور زورکے‬
‫دھکے لگانے شروع کر دیے‬

‫جیسے آخری دم پر ہوں اور ِپ ھران کے چمکتے‬


‫لن‪  ‬نے مہر کی جواں اور کمسن چوت کےآگے‬
‫اپنی ہار مان ہی لی اور اپنی منی کا فوارہ‬
‫مہرو کی چوت میں ہی‪  ‬چھوڑ دیا پچکاریوں‬
‫کی صورت میں منی نکل کر مہرو کی چوت‬
‫کے اندر ہی اندر پتہ نہیں کہاں تک جا رہی‬
‫تھی دونوں کا پوری طرح سے ارگیزم ھو‬
‫چکا تھا‬

‫مہرو نے جب دیکھا کہ اسکی چوت اب پانی‬


‫سے بھر چکی ھے تو اس‪  ‬نے فیصل کی طرف‬
‫دیکھتے ھوئے بڑے پیار سے کہا بھائی‪  ‬اب‬
‫کیا ھوگیا تمہارے لنڈ کو پہلے یہ سر نہیں‬
‫اتھاتا تھا اور اب سر جھکاتا نہیں ھے وہ‬
‫ہنستے ھوئے بوال اس کو تمہاری چاہت نے یہ‬
‫جال بخشی ھے دونوں بہن بھائی‪  ‬اب واش‬
‫روم کی طرف چل دئیے اور یہ انکی روٹین‬
‫بن گئ تھی کہ وہ اکٹھے ہی نہاتے اور شاور‬
‫کے نیچے بھی مستیاں کرتے تھے‬
‫بیگم رضوی اپنے بہو کو لیکر اچکی تھی‬
‫فیصل نے اپنی بیوی کو سج سنور کر کچن‬
‫میں بیٹھے دیکھا تو سیدھا اپنی ماں کے‬
‫پاس جو شاید کچن میں بیٹھی مہرو‬
‫کیساتھ بیٹھی‪  ‬تھیں شام کا وقت تھا اس‬
‫لئیے مہرو اور اسکی بھابھی کھانا‪  ‬بنا رہیں‬
‫تھیں اج کشمیری حلوہ تیار ھو رہا تھا‬
‫کیونکہ کشمیری روایت ھے کہ جب بھی‬
‫کوئی دلہن گھر کا کام کاج سنبھالتی ھے تو‬
‫سب سے پہلے وہ کشمیری میوہ جات سے بنا‬
‫ھوا حلوہ تیار کرتی ھے جسے چھوٹےبڑے‬
‫سب شوق سے کھاتے ھیں اور اس دن گھر‬
‫میں خاص مہمانوں کو بھی بالیا جاتا ھے‬
‫اور میٹھی یادیں بھی اپس میں سانجھی‬
‫کی جاتی ھیں‬
‫فیصل بوال علیشاہ کیسی ھو تم اور کب ائی‬
‫تم تو وہ شرماتی ھوئی بولی میں تو چار‬
‫بجے کی ادھر ھوں تم نظر نہیں ارھے تھے‬
‫خیریت تو تھی تو وہ بوال میں شہر گیا تھا‬
‫مجھے وہاں کچھ کام تھا مہرو فیصل کے‬
‫اتے ہی وہاں سے کھسک گئی شاید وہ ان‬
‫دونوں کو‪  ‬کچھ دیر اکیلے میں موقع‪  ‬دینا‬
‫چاہتی تھی اور یہ شاید ان دونوں کا حق‬
‫بھی تھا مہرو کے باہر جاتے ھی علیشاہ بولی‬
‫فیصل تم مجھے لینے نہیں ائے میرے بغیر‪ ‬‬
‫تمہارا دل تو لگ گیا تھا نا علیشاہ کے لہجے‬
‫میں شکایت‪  ‬تھی‬
‫جسے شاید فیصل نے بھی محسوس کر لیا‪ ‬‬
‫تھا اور وہ بات کو ٹالتے ھوئے بوال کہ مجھے‬
‫پتہ تھا کہ ہر لڑکی اپنی‪  ‬ماں کو ملنے کچھ‬
‫دن جاتی ھے اس لئیے میں نے تمہیں تنگ‬
‫کرنا مناسب‪  ‬نہیں سمجھا‬

‫علیشاہ بولی میرا مطلب تم میرے بغیر‬


‫اداس تو نہیں تھے تو وہ بوال میں تو‪  ‬بہت‬
‫اداس تھا پر کچھ کر نہیں سکتا تھا تو میں‬
‫نے بس صبر کیا ورنہ میں تجھے ہر روز یاد‬
‫کرتا رہا شکر ھے اب تم اگئی ھو اب تم مت‬
‫جایا کرو علیشاہ ہنستے ھوئے اپنے شوہر کے‬
‫واری واری جا رہی تھی اور فیصل بھی بہت‬
‫خوش تھا کہ اج اس کی رونقیں بحال ھو‬
‫گئیں تھیں‬
‫فیصل نے علیشاہ کو بوال مجھے تھوڑا سا‬
‫حلوہ پلیٹ میں دے دو قسم سے بہت بھوک‬
‫لگی ھے مجھے تو علیشاہ کو فیصل کی‬
‫معصومیت پر‪  ‬بہت اچھا محسوس ھو رہا‬
‫تھا اسے یہ معلوم تھا کہ اسکا نیا نویال‬
‫گھبرو جوان شوہر لنڈ کے معامالت‪  ‬میں جلد‬
‫ہار مان جاتا ھے اس لیئے‪  ‬وہ اپنے جذبات پر‬
‫قابو پانا سیکھ چکی تھی اس نے پلیٹ میں‬
‫حلوہ ڈاال اور اپنے شوہر فیصل کو پیش کیا‬
‫اور بولی میں نے کب روکا ھے جناب کو تم‬
‫کھانے‪  ‬والے بنو میں نے بنایا ہی تمہارے لئیے‬
‫ھے‬
‫دروازے پر کھڑی مہرو اپنے بھائی‪  ‬اور‬
‫بھابھی کی پیار بھری باتیں سن رہی تھی‬
‫اسکی چھٹی حس اسے یہ کہہ رہی تھی کہ‬
‫اگر میری بھابھی اسی طرح پیار سے میرے‬
‫بھائی‪  ‬سے پیش اتی رہی تو یہ بہت جلد‬
‫علیشاہ بھابھی کی طرف‪  ‬مائل‪  ‬ھو جائیگا‬
‫تب میری جگہ میری بھابھی لے جائیگی اس‬
‫نے اپنے پالن پر عمل کروانے کی سوچی کہتے‬
‫ہیں نہ محبت اور انا میں انسان نفع نقصان‬
‫نہیں دیکھتا ادھر مہرو نساء کے دل میں‬
‫بھی وہی الوا بھڑک رہا تھا۔‬

‫علیشاہ حلوہ تیار کر چکی تھی اس نے‬


‫ڈائینگ ٹیبل پر تمام لوزمات کو بڑے سلیقے‬
‫کیساتھ سجا دیا تھا اج نئی نویلی دلہن کی‬
‫پہلی کوکنگ تھی سارے گھر والے پرجوش‬
‫تھے کہ دیکھتے ہیں کہ بہو رانی نے کونسا‬
‫تیر مارا ھے ماں نے علیشاہ کو گھر کے سب‬
‫کام بروقت سکھائے تھے تاکہ اسکی بچی‬
‫سسرال جا کر مار نہ کھائے جیسا کہ‬
‫خاندانی مائیں ایسا ہی کرتی‪  ‬ھیں اور‬
‫سکھاتی ھیں جس ماں نے اپنی بچی کو‬
‫اٹھنا بیٹھنا سکھا دیا غیر مرد کے سامنے‬
‫کیسے جانا ھے غیر مرد سے فاصلے پر بیٹھنا‬
‫ھے اپنی چھاتی کو کیسے ڈھانپ کر کیسے‬
‫رکھنا ھے سکھا دیا وہ بچی پھر پوری زندگی‬
‫مار نہیں کھاتی۔۔‬

‫رضوی صاحب اپنی کرسی پر بیٹھ گئے ان‬


‫کے ساتھ بیگم رضوی بیٹھ گئیں اور مہرو‬
‫اپنے بھائی فیصل کیساتھ والی کرسی پر‬
‫براجمان ھو گئیں علیشاہ اپنی خالہ کے پاس‬
‫بیٹھ گئ اور‪  ‬سب کی پلیٹ میں حلوہ ڈالنے‬
‫لگیں مہرو اپنی ماں کی طرف دیکھتے ہوئے‬
‫بولی مما اپ جانتی بھی ہو پاپا کو شوگر ھے‬
‫پھر بھی انہیں اتنا زیادہ میٹھا کھانے کو‬
‫دے رہی ھو اس پر بیگم رضوی بولیں بیٹا‬
‫میری مانتے کب ہیں اگر پرہیز کرینگے تو بچے‬
‫رہیں گے‬

‫رضوی صاحب‪  ‬بولے تم لوگ شاید قسمت‬


‫والے ھو دیکھو بہو رانی کتنے پیار سے حلوہ‬
‫بنا کر کھال رہی ہیں اسمیں چینی نہیں صرف‬
‫پیار کی مٹھاس ھے۔اور اس مٹھاس کا‬
‫سائیڈ افیکٹ نہیں ھوتا بیگم رضوی واہ واہ‬
‫واہ کیا بات ھے کیا فلسفہ‪  ‬جھاڑا ھے بلکہ‬
‫پوری پلیٹ کو تاڑہ ھے اپ نے تو خوب بہانہ‬
‫سوچا ھے‬

‫ہاہاہاہاہاہا سب کھانے کی میز پر ہنسنے لگے‬


‫تب بیگم صاحبہ بولیں دیکھا میری بہو نے‬
‫کیا کمال کا حلوہ بنایا ھے انگلیاں چاٹنے کو‬
‫دل کرتا ھے میرا میری بیٹی ایک دن کچن کا‬
‫سب کام سنبھال لے گی اسکے ہاتھوں میں‬
‫جادو ھے کسی دور میں ایسا جادو میرے‬
‫ہاتھوں میں تھا اب اسی طرح میری بہو ھے‬
‫علیشاہ اپنے ساسو ماں کے منہ سے اپنی‬
‫تعریف سن کر بہت خوش ھوئی اور بولی‬
‫اماں جان میرے حلوے کو کھا کر بہت‬
‫تعریفیں کر رہے ہیں انہیں بھی یہ بہت پسند‬
‫ایا ھے مہرو اپنی پلیٹ میں چمچ ہالتے ھوئے‬
‫بولی بھائی تو ھوگیا نہ شیدائ تیری اس‬
‫ڈش پر مگر انہیں پہلے زیادہ طور پر میٹھی‬
‫چیزیں پسند نہیں تھیں مگر اب حاالت بدل‬
‫رہے ھیں مہرو کی ذومعنی بات سن کر‬
‫فیصل بوال میری علیشاہ ایک دن سب کی‬
‫پسندیدہ ڈشز تیار کیا کریگی اور مہرو اپنی‬
‫انگلیاں چاٹتے ھوئے مزید کھانے کو مانگا‬
‫کریگی مہرو نے اپنی ہاتھ غصے کیساتھ‬
‫ٹیبل پر مارا اور اٹھ کر اپنے روم میں چلی‬
‫گئی۔۔۔۔۔‬

‫جاری ہے……‬
‫‪ ‬اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‪#‬‬

‫صفحہ_‪#35‬‬

‫ہم اپنی ریاست کے نواب لوگ‬

‫صاحب‬

‫تیرے معیار کے محتاج نہیں‬


‫فیصل بوال ماں اسے کیا ہوا ھے تو اسکی‬
‫ماں فیصل کی طرف دیکھتے ھوئے بولی بیٹا‬
‫وہ تم سے ناراض ھو کر گئی ھے جاؤ مناو‬
‫اسے علیشاہ نے چونکہ ابھی کھانا اپنی پلیٹ‬
‫میں ڈاال ہی تھا اس لئیے وہ ڈائننگ ٹیبل پر‬
‫ہی بیٹھی رہی اور اشارے کیساتھ فیصل کو‬
‫بولی جاؤ مناو اس کو علیشاہ کا اشارہ پاتے‬
‫ہی فیصل اٹھ کر مہرو کے روم میں چال‬
‫گیا۔۔‬

‫مہرو کی ماں ہنس رہی تھی اور علیشاہ سے‬


‫بولی بہت پیار ھے ان دونوں بہن بھائی میں‬
‫مہرو بھی نہ جب دل کرے روٹھ جاتی ھے‬
‫ماں جی تو مہرو کی ماں نے کہا ہاں میری‬
‫بیٹی بہت حساس ھے اپنے حق پر ذرا سا‬
‫بھی ڈاکہ نہیں ڈالنے دیتی۔علیشاہ ہاہاہاہاہاہا‬
‫مما اپ نے سہی کہا جب اپنے گھر جائے گی‬
‫تب سب سمجھ جائے گی‬

‫علیشاہ بولی ماں جی ایک بات کہوں تو‬


‫اسکی ساس نے کہا جی بیٹی کہو کیا کہنا‬
‫چاہ رہی ہو تم میں کب سے تمہاری طرف‬
‫دیکھ رہی ھوں‪  ‬میری بچی تم اب اس گھر‬
‫کی اہم ممبر بن گئ ھو اپنا موقف کھل کر‬
‫بیان کیا کرو علیشاہ بولی مما اصل میں‬
‫میرے انے سے جو گھر میں خال پیدا ھوا ھے‬
‫مما کہتی ھے اسے مہرو کی صورت پورا کیا‬
‫جائے اور مما نے کل پرسوں تک منگنی کرنے‬
‫انا ھے تاکہ سمیر کی جاب کیساتھ ہی اسکی‬
‫شادی کر دی جائے بیگم رضوی بولیں نہیں‬
‫بیٹا ھم نے تمہاری ماں کو تو ہاں کردی ھے‬
‫اور گھر کی بات ھے منگنی نہیں کرتے سیدھا‬
‫شادی کر دیتے ھیں۔۔۔‬

‫جی جیسے ٹھیک لگے مما ھم اپ کے حکم کے‬


‫تابع رہینگے تو مہرو کی ماں بولیں ھم نے‬
‫ویسے بھی کل شہر جانا ھے تو بیٹھ کر‬
‫سارے معامالت ترتیب دے دیں گے کیونکہ‬
‫ھماری مہرو کی طرف سے تو یہ رشتہ منظور‬
‫‪ ‬ھے‬

‫اتنی دیر میں دروازے پر دستک ھوئی تو‬


‫فیصل کی ماں نے فیصل کو بالیا بیٹا‬
‫دروازے پر دیکھو کون ایا ھے فیصل نے‬
‫دروازہ کھوال تو اسکے سامنے شبو اور اسکی‬
‫ماں تھیں سالم دعا کے بعد دونوں نے بیگم‬
‫رضوی کو مبارکباد دی کہ شادی کے بعد تو‬
‫ان کا ٹائم ہی مال کہ انکے گھر کا چکر لگاتے‬
‫شبو کی ماں مہرو کی ماں کے پاس بیٹھ گئ‬
‫اور دونوں کی گپ شپ شروع ھو گئ مائی‬
‫نوری کو دیکھ کر فیصل کو شرارت‪ ‬‬
‫سوجھی جب اسکی ماں کچن سے چائے لینے‬
‫گئی تو فیصل نے ایک زور دار پد مارا تو‬
‫مائی نوری فیصل کو گالیاں نکالنے لگی مر‬
‫جانے نے ہر طرف بدبو پھیال دی ھے تمہارا‬
‫معدہ کچھ زیادہ ہی سڑ گیا ھے شادی کے‬
‫‪ ‬بعد‬
‫فیصل ہاہاہاہاہاہا نئیں خالہ جان میں نے یہ‬
‫پد تمہارے انے کی خوشی میں مارا ھے‬
‫سوچا مائی نوری یہ نہ سوچے کہ مجھے‬
‫خوشی نہیں ھوئی اپ کے انے کی تو مائی‬
‫نوری بھڑک گئ اور بڑبڑاتے ھوئے بولی تیری‬
‫بنڈ وچ کیڑے پین سالیا تیرے اینی گندی ھوا‬
‫اے بیٹھنا محال ھو گیا مائی نوری گالیاں‬
‫مکالتے ھوئے کچن کی طرف چلی گئ اور‬
‫شبو مہرو کیساتھ‪  ‬اسکے روم میں بیٹھ گئی‬

‫مہرو یار تم تو ہمارے گھر پر نہیں اتی کہاں‬


‫پیر پھنس گیا ھے تمہارا اج کل تو مہرو بولی‬
‫بھابھی اپنے میکے گئی تھی اس لئیے میں‬
‫گھر کے کاموں میں مصروف ھو گئ تھی اپ‬
‫لوگ اس وقت یہاں تو شبو بولی میرے میاں‬
‫نے گھر پر کنٹرکشن کا کام شروع کرویا ھے‬
‫اس لئیے پینٹ کا کام بھی مکمل کرنا ھے‬
‫کیونکہ کل ان کی چھٹی ختم ھو جانی ھے‬
‫اس لئیے ھم اج کی رات اپ لوگوں کے مہمان‬
‫ہیں امید ھے کہ اج کی رات گھر کا سارا کام‬
‫مکمل ھو جائے گا۔۔‬

‫مہرو بولی کوئی بات نہیں تم لوگوں کا اپنا‬


‫گھر ھے جب دل کرے ایا کرو اب بتاو کہ‬
‫کھانا کھا کر ائے ھو یا میں لیکر اوں‬

‫تو شبو بولی ھم کھانا تو کھا کر ائے ھیں تم‬


‫لوگ بے فکرھو جاؤ اور ھم مل کر باتیں کرتے‬
‫ھیں وہ دونوں سہیلیاں باتیں کر رہیں تھیں‬
‫جب علیشاہ بھی ان دونوں کے درمیاں اکر‬
‫بیٹھ گئ تب شبو اسے چھیڑتے ھوئے بولی‬
‫بھابھی بتاو الئف کیسی جارہی ھے فیصل‬
‫بھائی‪  ‬ٹھیک تو ہیں نہ تمہارے ساتھ تو‬
‫علیشاہ بولی جی میں ٹھیک ھوں اور ہماری‬
‫الئف بھی صیح جارہی ھے‬

‫مہرو اورشبو صوفے پر بیٹھیں تھیں جبکہ‬


‫علیشاہ بیڈ پر بیٹھی ان دونوں کی باتوں کا‬
‫شرما کر جواب دے رہی تھی شبو بولی‬
‫بھابھی پھر کب خوشخبری سنا رہی ھو تم‬
‫تو وہ بولی کس بات کی خوشخبری شبنم‬
‫بہن تو شبو اسے گدگدی کرتے ھوئے بولی‬
‫بچہ کب پیدا کر رہی ھو تم‪  ‬تو مہرو اور‬
‫شبو دونوں ہنس پڑیں تب علیشاہ بولی شبو‬
‫پہلے شادی تمہاری باری ھے شادی پہلے‬
‫تمہاری ھوئی ھے۔۔۔‬
‫شبو بولی میں تو امید سے ھوں مجھے تو‬
‫پریگنسی رپورٹ مل گئی ھے میں تو اب‬
‫پریگنٹ ھوں تم بتاو کب یہ خوشخبری‬
‫سنارہی ھو مہرو شبو کا کان کھینچتے ھوئے‬
‫بولی دعا کرو تمہارا بچہ اپنی باپ کی طرح‬
‫سمارٹ پیدا ھو مہرو کی ذومعنی بات سن‬
‫کر شبو مسکراتے ھوئے بولی تم جس کی بات‬
‫کر رہی ھو شاید اسی طرح کا بچہ ھو میرا‬
‫پانی لگانے والے نے لگا دیا اب پھل پھول‬
‫بھی لگ جائیں گے مہرو اور علیشاہ کھل‬
‫کھال کر ہنس پڑیں‬

‫شبو‪  ‬بولی کہ سناو تجھے سہاگن بنایا فیصل‬


‫نےکے نہیں علیشاہ شرماتے ھوئے جی میں تو‬
‫سہاگن ہی ھوں اس دن پاکستان اور انڈیا کا‬
‫میچ لگا ھوا تھا اور مہرو نساء اپنے روم‬
‫میں پی ٹی وی پر براہ راست میچ دیکھ رہی‬
‫تھی پاکستان کی اس میچ میں کافی‬
‫مستحکم پوزیشن‪  ‬تھی بابر اعظم اور‬
‫رضوان کی اوپنر جوڑی نے بھارت کے سب‬
‫باولرز کی دھالئی جاری رکھی ھوئی تھی‬
‫منگال میں اس وقت ڈھول کی تھاپ پر لوگ‪ ‬‬
‫بھنگڑا ڈال ڈال رہے تھے کوئی لوگ ھوائی‬
‫فائرنگ کر رہے تھے اس رات ہر طرف جشن‬
‫کا سماں تھا علیشاہ کو نیند ارہی تھی وہ‬
‫اپنی ساس کیساتھ بستر پر لیٹ گئی جہاں‬
‫مائی نوری لیٹی ھوئی تھی یہ بیگم رضوی‬
‫کا کمرہ تھا جس میں ڈبل بیڈ تھا جس پر یہ‬
‫تینوں سکون کیساتھ سو گئیں سونا ہی بنتا‬
‫تھا کیونکہ مہرو اور شبو پاکستان‪  ‬کی‬
‫طرف سے لگنے‪  ‬والے ہر چوکے اور چھکے پر‬
‫خوب شور مچا رہے تھے جبکہ انکی اس‬
‫رونق کو جال بخشنے کے لئیے فیصل بھی‬
‫شامل ھو گیا‬

‫فیصل بوال اس بار پاکستان‪  ‬کو ورلڈ کپ‬


‫جیتنے سے کوئی نہیں روک سکتا یہ ٹرافی‪ ‬‬
‫اس بار پاکستان کی ھے دونوں بہن بھائی‬
‫میچ دیکھ رہے تھے تب شبو مہرو کے بیڈ پر‬
‫ہی سو گئی کیونکہ بے چاری دن بھر کی‬
‫تھکی ھوئی تھی رات کے گیارہ بج گئے تھے‬
‫منگال کے عالقہ میں اس وقت سردی پوری‬
‫اب و تاب کیساتھ پڑھ رہی تھی مہرو نے‬
‫کمرے کا ہیٹر چال دیا اور اپنا کمبل شبو پر‬
‫ڈال دیا دونوں بہن بھائی وننگ شارٹ لگتے‬
‫ہی ایک دوسرے کے گلے لگ گئے پاکستان نے‬
‫تاریخی فتح حاصل کر لی تھی۔۔‬

‫دونوں بہن بھائی پاکستان کی اس جیت پر‬


‫بہت خوش تھے مہرو نے فیصل کی طرف‬
‫دیکھتے ھوئے کہا بھائی اج تو پاکستان نے‬
‫کمال کر دیا بابر اعظم نے پاکستان‪  ‬کو‬
‫اوپننگ میں میچ جتوا دیا تو فیصل بوال‬
‫اچھا ہوا کہ بھارت کا غرور خاک میں مل گیا‬
‫فیصل نے ایک بار پھر مہرو کو اپنے گلے سے‬
‫لگا لیا وہ مہرو کے کان میں بوال ساری‬
‫دنیاسیلی بریشن کر رہی ھے تمہارا کیا موڈ‬
‫ھے تو مہرو بولی اج رہنے دیتے ھیں اج سب‬
‫ہیں کہیں پکڑے ہی نہ جائیں‬
‫فیصل نے مہرو کی گانڈ پر اپنا ہاتھ پھیرتے‬
‫ھوئے کہا کہ امی‪  ‬کے روم سے تو کوئی نہیں‬
‫ائے گا کیونکہ ادھر کی چٹکی میں چڑھا کر‬
‫ایا ھوں باقی رہ گئی شبو یہ تو سو گئی ھے‬
‫اجاو مسہری والے بیڈ پر کرتے ھیں سہاگ‬
‫رات جیسی فیلنگ ائے گی مہرو نے شبو کی‬
‫طرف دیکھا تو وہ گہری نیند میں سو رہی‬
‫تھی مہرو کو بھی شہوت نے بے چین کر دیا‬
‫تھا وہ روم سے باہر نکل گئ اور ادھر ادھر کا‬
‫جائزہ لینے لگی گھر کے سب کمروں میں‬
‫‪ ‬سکھ شانتی تھا‬

‫مہرو نے پہلے اشارے سے فیصل کو بوال کہ‬


‫تم اپنے روم میں جاؤ میں بھی ائی تو فیصل‬
‫اپنی بہن کے حکم کو بجا التے ھوئے اپنے روم‬
‫کی طرف چل دیا کچھ ہی دیر میں مہرو‬
‫بھی اس کے روم میں چلی گئی اور اپنے‬
‫بھائی‪  ‬کو بولی فیصل تم مروا دو گے کسی‬
‫دن مجھے ہم روز روز نہیں کر سکتے‬

‫فیصل نے مہرو کو اپنی بانہوں میں لے لیا‬


‫اور اسکے ہونٹ چوم کر بوال تیری چوت میں‬
‫بہت نشہ ھے جتنی لیتا ھوں اتنا ہی سرور‬
‫ملتا ھے مہرو ہنس پڑی اور فیصل کا لنڈ‬
‫سہال کر بولی بھائی‪  ‬میری چوت میں تو نشہ‬
‫ھے تو تمہارے اس لنڈ میں کیا ھے تو وہ‬
‫مسکراتے ھوئے بوال اسی کی وجہ سے ہماری‬
‫دوستی ھوئی ھے مہرو یہ تمہاری ضرورت‬
‫ھے مہرو بولی اپنی بہن کی پھدی مارتے‬
‫ھوئے شرم نہیں اتی تجھے تو فیصل نے کہا‬
‫تم نے خود مجھے اپنی چوت افر کی تھی‬
‫‪ ‬اب ڈرتی کیوں‬

‫ھو ابھی تو تجھے میرا دوست شاہد بھی‬


‫چودنے کو بیتاب ھے تم پھر کیا کروگی تو‬
‫مہرو بولی بھائی مجھے یاد ایا کل مما میری‬
‫منگنی کرنے جارہی ہیں شہر تو امی ابو کو‬
‫وہاں پر دو دن لگ جائینگے یہ ہمارے لئیے بڑا‬
‫اچھا موقع ھے کہ ھم اپنے بنائے ھوئے پالن‬
‫پر عمل کریں مہرو کی بات سن کر فیصل‬
‫بوال تو تم سمیر کی ھونے کو بیتاب ھو اور‬
‫مجھے چھوڑ کر چلی جاؤ گی تو مہرو بولی‬
‫بھائی ابھی تو نہیں جارہی ابھی تو میں‬
‫ادھر ھی ھوں‬
‫میں جب جب یہاں ایا کروں گی تب ھم مال‬
‫کرینگے اور تب تک شاید تم علیشاہ بی بی‬
‫کے ‪.......‬ھو چکے ھوگے‬

‫جاری ہے……‬

‫دو_گھوڑیوں_کے_سوار‪#‬‬

‫ایک مکمل انٹرٹینمنٹ میری نئی کہانی جو‬


‫صرف وٹس ایپ پر حاصل کرسکیں گے‬
‫کیونکہ یہ کہانی اب مکمل کر دی گئی ھے‬
‫اسکے عالوہ‪  ‬اناڑی دولہا بھی چند دنوں بعد‬
‫اس گروپ میں شامل کی جائے گی انسیسٹ‬
‫‪ ‬اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‪#‬‬

‫صفحہ_‪#36‬‬

‫فیصل نے مہرو‪  ‬کو اپنی بانہوں میں لے کہ‬


‫مہرو کو گردن سے چومنا شروع کیا تو‬
‫اسکی گرم سانسسیں مہرو کو لبھانے لگی‪,‬‬
‫وہ مہرو کو گردن اور سینے سے چومتے ہوئے‬
‫اس کی کمر اور چھاتیوں کو مسلنے لگا‪,‬‬
‫مہرو اپنے بھائی‪  ‬فیصل کے لن کو اپنی‬
‫ٹانگوں سے رگڑ کھاتا ہوا محسوس کر رہی‬
‫تھی‪ ,‬وہ مہرو کی قمیض کو اوپر کر کہ‬
‫چھاتیوں کو ننگا کر چکا تھا مہرو نے ایک‬
‫لمحے کی اجازت لے کہ اپنی قمیض کو اتار‬
‫دیا اور فیصل کو چومتے چومتے اسکی‬
‫شرٹ کو بھی اتار دیا‪ ,‬دونوں بہن بھائی‬
‫مادر زاد ننگے دھڑوں کیساتھ ایک دوسرے‬
‫‪, ‬کو ہونٹوں سے چومتے جا رہے تھے‬

‫دونوں اسوقت ایک بیچینی اور شدت‬


‫کیساتھ اپنا آپ ایک دوسرے سے چٹوا رہے‬
‫تھے‪ ,‬انکی گرم اور بے ہنگم سانسیں اور آہیں‬
‫ماحول میں ایک خماری بھر رہی تھی‪ ,‬وہ‬
‫دونوں وحشیانہ انداز سے ایک دوسرے پہ‬
‫چڑھ کہ زبانوں کو ایک دوسرے کا ذائقہ دے‬
‫رہے تھے‪ ,‬مہرو اور فیصل ہر طرح کی قید‬
‫سے آزاد ہو کہ جذبات کے تیز دھارے میں بہہ‬
‫چکے تھے‪ ,‬مہرونے فیصل کے لن کو پاجامے‬
‫کے اندر ہاتھ ڈال کہ پکڑ سے سہالیا تو‬
‫فیصل کو ایک سکون بھری بیچینی نےآ لیا‪,‬‬
‫اس نے بنا آنکھیں کھولے اپنی بہن کو چوم‬
‫کہ اپنا پاجامہ ٹانگوں سے نیچے کر دیا اور‬
‫محبت کی اس لہروں میں چومتے چاٹتے‬
‫مہرو کا سارا پاجامہ اتار کہ اپنا جسم مکمل‬
‫ننگا کر دیا‪ ,‬مہرو کی پھدی گیلی ہو چکی‬
‫تھی‪,‬وہ اپنے ننگے بھائی کے جسم سے چپک‬
‫چپک مزے لیکر اپنے بھائی کو چوم رہی تھی‬
‫مہرو نے بھی اپنے پاجامے کو اتار دیا اور‬
‫فیصل مہرو کو چومتا چومتا اس کے اوپر آ‬
‫کی ٹانگوں میں اپنا لن لگائے بس چومتا ہی‬
‫‪,‬جا رہا تھا‬
‫فیصل کا لن مہرین کی پھدی سے رگڑ کھا‪ ‬‬
‫رہا تھا‪ ,‬مہرو نے اپنی ٹانگوں کو ہوا میں بلند‬
‫کر کے فیصل‪  ‬کے لن کو اپنے ایک ہاتھ سے‬
‫پکڑ کر اپنی پھدی پہ سیٹ کیا‪ ,‬فیصل جو‬
‫کہ بہت زوروشور سے مہروکے اور اسکے‬
‫ہونٹوں اور چھاتیوں کو کاٹنے کی حد تک‬
‫چوم رہا تھا‪ ,‬اپنی کمر کو مہرو کی پھدی کے‬
‫حساب سے ایڈجسٹ کرنے لگا‪ ,‬جیسے ہی‬
‫مہرو کے ہاتھ کی ہدایات کے حساب سے‬
‫فیصل کا لن پھدی کے سوراخ سے مال تو‬
‫فیصل نے بنا وقفہ ڈالے اپنا وزن لن پہ ڈال‬
‫کہ اسے پھدی میں دھکیلنا چاہا‪ ,‬مگر گیلی‬
‫پھدی کی دیواروں سے پھسل کہ لن ہل گیا‪,‬‬
‫مہرو نے اپنے ہونٹ فیصل کے ہونٹوں سے‬
‫آزاد کروا کہ چوما چاٹی روک کہ دوبارہ سے‬
‫پھدی کو ایڈجسٹ کر کہ لن کو پھدی پہ‬
‫رکھ کہ اپنی گرفت سے ہی لن کو دبا کہ اندر‬
‫ڈالنے کا اشارہ دیا تو اس نے لن پر وزن ڈال‬
‫کہ کمر کو اندر دبایا مگر اس بار آرام سے‬
‫آرام سے اپنا وزن لن پہ ڈاال تو فیصل کے‪  ‬لن‬
‫کی ٹوپی پھدی میں گئی تو مہرو کی اوسط‬
‫‪,‬درجے کی اونچی آہ نکل گئی‬

‫اسسس سسسسسی ممممم میں مرررگئی‬


‫فففف فیص بھائی‪  ‬اسسس اہ اااہ ارام سے‬

‫فیصل اب آہستہ آہستہ لن کو اندر دھکیلتا‪ ‬‬


‫جا رہا تھا اور مہرو کی مزے سے بھرپور‬
‫چیخیں بلند ہوتی جا رہی تھی‪ ,‬جب مکمل لن‬
‫اند چال گیا تو مہرو کی پھدی میں درد ہونے‬
‫لگا اسلیے مہرو نے فیصل کو زور سے پکڑ لیا‪,‬‬
‫ان دونوں کو مستی میں اتنا بھی پتہ نہ چال‬
‫کہ شبو انہیں دیکھ رہی ھے‬

‫فیصل نے اپنی بہن کو ایک بار دیکھا اور‪ ‬‬


‫ہونٹوں سے چوم کہ لن کو باہر کھینچ کہ‬
‫دوبارہ اندر کیا‪ ,‬فیصل کا لن اندر گرم اور‬
‫نرم جگہ میں بہت زور سے پھنس کہ اندر‬
‫باہر ہو رہا تھا جس سے فیصل کو مزہ آنے‬
‫بڑھتی جا رہی تھی اور دونوں کی‬
‫‪,‬سسکاریاں بلند ہوتی جا رہی تھی‬
‫مہرو ہونٹوں کو بھینچ کہ اس لطف کا مزہ‪ ‬‬
‫لے رہی تھی جس کیلیے وہ برسوں تڑپی‬
‫تھی‪ ,‬فیصل اپنی بہن کی پھدی میں لن ڈالے‬
‫چودتا ہوا اپنے آپ کو کوس رہا تھا کہ کتنا‬
‫خوبصورت احساس ہے جس کو وہ برسوں‬
‫سے ترک کرتا آ رہا ہے‪ ,‬وہ چودتا جا رہا تھا‬
‫اور اب اسکی رفتار مزے کی انتہا کی وجہ‬
‫سے بہت بڑھ چکی تھی تو مہرو کی پھدی‬
‫سے فوارہ چھٹ گیا جب دونوں بہن بھائی‪ ‬‬
‫ایک دوسرے پر نڈھال ھو کر گر پڑے تب‬
‫شبو بولی کیا پیار ھے تم دونوں بہن بھائیوں‬
‫کا اور اج کی رات تو صبر کر لیتے۔۔۔‬

‫مہرو نے جب شبو کی اواز سنی تو وہ ڈر کے‬


‫مارے اٹھ کر بیٹھ گئی شبو نے اپنا ہاتھ‬
‫اپنی چوت پر رکھا تھا اور وہ اسے سہال رہی‬
‫تھی شبو بہت جلد گرم ھو جاتی تھی مہرو‬
‫نے جب شبو کو اس حالت میں دیکھا تو‬
‫اسکے سارے خدشات دور ھو گئے تھے اسے‬
‫ایک ترکیب سوجھی کہ کیوں نہ اپنے بھائی‬
‫فیصل کو کسی نئی چوت پر چانس دیا جائے‬

‫اس نے دیر نہ کرتے ھوئے شبو کو اپنے گلے‬


‫سے لگا لیا اور اسکے لبوں پر اپنے لب رکھ کر‬
‫شبو جیسی اتھری گھوڑی کو خاموش کر دیا‬
‫فیصل کا لنڈ ابھی کھڑا تھا ان دونوں کی‬
‫چدائی شبو مر جانی کی نظر ھو گئی تھی‬
‫وہ اپنی بہن مہرو کی کمال مہارت سے بہت‬
‫خوش ھوا کیونکہ مہرو نے شبو کے کپڑے‬
‫اتارنا شروع کر دیا تھا اپنے لئیے ماحول کو‬
‫سازگار بنتا دیکھ کر شبو نے ہار مان لی اور‬
‫اس نے مہرو کو وہ سب کرنے دیا جو وہ‬
‫نہیں کرنا چاہتی تھی‬

‫مہرو نے شبو کو کی شلوار بھی نکال دی اس‬


‫نے نیچے کچھ نہیں پہنا تھا اور گوری گوری‬
‫رانوں کے درمیاں چوت کا خزانہ چھپاتے‬
‫ھوئے اس نے کہا مہرو تم پلیز فیصل بھائی‬
‫کو اپنے روم سے جانے کا کہو میں اس‬
‫کیساتھ نہیں کر سکتی مہرو بولی سالی شبو‬
‫گشتی تم نہیں چاہتی ھم اس تھری سم کو‬
‫انجوائے کریں میں فیصل جیسے اناڑی کو تم‬
‫‪ ‬جیسی کھالڑی پر چیک کرنا چاہتی ھوں‬
‫شبو نہیں یار ھم دوست ھیں مان جاؤ میری‬
‫بات‪  ‬شبو نے ملتجانہ انداز میں کہا تو مہرو‬
‫نے اسکی گانڈ پر چٹکی کاٹی اور کہا کہ‬
‫سالی اٹھادو ہاتھ تم اپنی چوت سے اور‬
‫درشن کرنے دو تم اس رات شاہد کیساتھ تو‬
‫مزے سے چدوا رہی تھی اب میرے بھائی کو‬
‫بھی ٹرائی دو مہرو نے شبو کے سامنے بیڈ پر‬
‫بیٹھ کر اپنی چوت اس کے لبوں پر رکھ دی‬
‫شبو اب ڈوگی سٹائل میں ھو چکی تھی‬
‫کیونکہ وہ جھک کر مہرو کی قدرتی طور پر‬
‫چھوٹی‪  ‬سی چوت کو چاٹنے لگی تھی‬
‫جیسی ہی وہ جھکی تو مہرو نے اپنے بھائی‬
‫فیصل کو اشارے کیساتھ ڈوگی سٹائل میں‬
‫پوزیشن لینے کو کہا‪  ‬جس کا شبو کو پتہ نہ‬
‫چال وہ مہرو کی چوت چاٹنے میں مگن تھی‬
‫تب فیصل نے شبو کی پتلی گوری کمر پر‬
‫ہاتھ رکھا اور اپنے لنڈ کو شبو کی گیلی‬
‫چوت پر سیٹ کرلیا اس سے پہلے کہ شبو‬
‫کچھ سمجھتی فیصل نے ایک زور دار جھٹکا‬
‫مارا اور اپنا لنڈ جڑ تک شبو کی چوت میں‬
‫اتار دیا‬

‫ااااہ ااااہ ااہ اف ففف فیصل بھائی ممم مت‬


‫کرو دیکھو میں‪  ‬تمہاری بہن ھوں بھال تم‬
‫اپنی بہن کو چودو گے اف اتنا زور کا دھکا‬
‫بھی کوئی مارتا ھے مہرو سچ ہی کہتی ھے‬
‫اناڑی کا چودنا چوت کا ستیا ناس شبو نے‬
‫سسکاریاں لیتے ھوئے ٹوٹے پھوٹے جملے ادا‬
‫کئیے پر انکی باتوں سے بے خبر فیصل اپنا‬
‫لنڈ تیزی کیساتھ نئی چوت شبو کی چوت‬
‫میں اندر باہر کرنے لگا فیصل کا لنڈ شبو کی‬
‫گیلی چوت نے قبول کر لیا تھا اور شبو دو‬
‫چار شاندار گھسے لگنے کے بعد شہوانی فارم‬
‫میں مگن ھو گئ تھی مستی میں اس نے‬
‫فیصل کو دیکھا جیسے کہہ رہی ھو ڈفلی‬
‫والے ڈفلی بجا میں ناچوں تو نچا دونوں کی‬
‫پیاسی نظریں ملیں اور شبو نے اپنا سر‬
‫جھکا لیا جیسے شہوانی‪ ،‬شہوت انگیز‬
‫جذبوں میں کود گئ ھو اور محبت میں‬
‫شکست تسلیم کر لی ھو اور ویسے بھی‬
‫گھوڑی بنا کر چودنا مرد کے فاتح ھونے کا‬
‫اور لڑکی کے سر تسلیم خم کرنے کا اعالن‬
‫ھوتا ھے اج وہی ھوا فیصل نے شبو کی‬
‫چکنی چوت کو اپنے لنڈ کے برق رفتار‬
‫گھسوں سے چودنا شروع کردیا اور شبو‬
‫بڑے پیار سے اپنی سہیلی مہرونساء کی‬
‫چوت پر اپنی زبان پھیرنے لگی قیامت خیز‬
‫اس سردی میں تین جسم بے لباس ھو کر‬
‫محبت کی گہرائیوں کو ماپ رہے تھے۔۔۔‬

‫شبو درد سے کراہ رہی تھی وہ فیصل سے‬


‫بولی بہن چود سیدے کھیڑے دھیرے دھیرے‬
‫سے کرو شکر کرو مہرو کی وجہ سے تجھے‬
‫میری چوت مل گئی ھے فیصل مسکراتے‬
‫ھوئے بوال چپ کر گشتی اج تیری چوت کی‬
‫پیاس ختم کرکے ہی دم لوں گا شبو نے کبھی‬
‫سوچا ہی نہیں تھاکہ ایک دن اسکی چوت‬
‫فیصل لے گا وہ غصے سے بولی سالے شکر ھے‬
‫تم بھی اس قابل بنے ھو۔ھو۔ھو۔‬
‫شبو کی سانسیں اب تیز ھونے لگیں تھیں‬
‫اور وہ بھی اپنی چوت نذرانے کے طور پر‬
‫فیصل کو پیش کر رہی تھی اور اس چدائی‬
‫میں تعاون کر رہی تھی شبو کا شاندار‬
‫رسپانس دیکھ کر فیصل کو جوش چڑھ گیا‬
‫اور وہ شبو کی چوت سے پورا لن باہر نکال‬
‫کر پھر ڈال دیتا اسی طر ح سے شبو کی‬
‫چوت نے خوشی کے انسو بہانے شروع کر‬
‫دئیے اور شبو کے فارغ ھوتے ہی وہ سیدھی‬
‫ھو گئی اور اس نے اپنی جگہ پر مہرو کو‬
‫گھوڑی بنا کر کہا اب تم ہی اپنے بھائی کو‬
‫فارغ کر سکتی ھو یہ اناڑی نہیں رہا پورا‬
‫کھالڑی بن گیا ھے‬
‫پہلی بار مہرو گھوڑی بن کر اپنے بھائی کے‬
‫سامنے جھک گئی مگر اس بار فیصل نے‬
‫دہشت نہیں دکھائی بلکہ اس نے‪  ‬دھیرے‬
‫دھیرے مہرو کو چودنا شروع کر دیا اور‬
‫مہرو نے شبو کی گیلی چوت پر اپنی زبان‬
‫رکھ دی اور اسکی گیلی چوت کا رس پینے‬
‫لگی اور اپنی کمر ہال ہال کر اپنے بھائی‪  ‬کا‬
‫ساتھ دینے لگی‬

‫تھوڑی دیر چودنے کے بعد فیصل اور اسکی‬


‫بہن مہرو کا پانی نکل گیا فیصل نے اپنا لنڈ‬
‫باہر نکاال اور ایک تیز دہار فرش پر مار دی‬
‫شبو ان دونوں کی یہ حالت دیکھ کر‬
‫مسکراتے ھوئے واش روم میں گھس گئی اور‬
‫مہرو اپنے بھائی کو بو کمرے میں صفائی‬
‫کرکے ائیر فریشنر کا سپرے کر دو تب تک‬
‫میں نہا لوں کتنی سمیل‪  ‬ارہی ھے جسم سے‬
‫تمہاری منی کی‪  ‬شبو اور مہرو شاور کے‬
‫نیچے نہانے لگیں اور فیصل صفائی کرنے لگا‬
‫نہاتے ھوئے شبو بولی مہرو تمہاری چوت‬
‫بہت چھوٹی اور تنگ ھے تمہاری سیل ٹوٹی‬
‫ھوئی ھے اس کا کسی کو معلوم نہں ھوگا‬
‫بس تم شادی سے پہلے مجھے الزمی بتانا‬
‫میں تجھے ایک ٹائٹنس کا نسخہ دو نگی‬
‫مہرو شرما گئی اور شبو کے بوبز سہالتے‬
‫ھوئے بولی اچھا یہ بتاو کہ فیصل کا لنڈ بڑا‬
‫تھا یا شاہد کا بڑا تھا تو وہ بولی پاگل ایسی‬
‫باتیں نہیں کرتے میں نے شاہد کا لنڈ تو پوری‬
‫طرح سے دیکھا ھے پر فیصل کا نہیں دیکھا‬
‫فیصل سے بس چدوایا ہی ھے تو مہرو بولی‬
‫اندازہ تو ھوگیا ھوگا تجھے گشتی تم کونسا‬
‫اناڑی ھو مہرو شاید خود کو پرائے لنڈ کے‬
‫لئیے تیار کرنا چاہتی تھی اسی لئیے شاہد کا‬
‫پوچھ رہی تھی‬

‫شبو بولی مہرو شاہد کا سپاڑہ شاید فیصل‬


‫سے موٹا ھوگا باقی لمبائی اور موٹائی میں‬
‫کچھ زیادہ فرق نہیں ھے پر ایک بات ھے اگر‬
‫شاہد مجھے چودتا ھے تو اسکے لئیے وہ پہلے‬
‫مجھے پوری طرح تیار بھی کرتا ھے جادو ھے‬
‫اسکے ہاتھوں میں شبو نے مہرو کے جذبات‬
‫ابھارتے ھوئے کہا سیکس کا مزہ اور بھی‬
‫زیادہ ھو جاتا ھے جب چودنے والے کو سارے‬
‫ڈھنگ اتے ھوں مہرو شبو کی بات سن کر‬
‫ہنسنے لگی تب شبو اسکا سر شاور کے نیچے‬
‫کرتے ھوئے بولی کیا تم نے شاہد کو ابھی تک‬
‫نہیں دی تو مہرو نے کہا نہیں یار تو شبو‬
‫بولی وہ کیوں وہ تو تمہارا اور فیصل کا‬
‫دوست ھے‬

‫مہرو بولی بس یار میں پرائے مرد کے نیچے‬


‫لیٹنا پسند نہیں کرتی اور اس نے بھی مجھے‬
‫چیلنج کیا تھا کہ ایک دن وہ میری ٹانگیں‬
‫اٹھائے گا بس میں ہارنا نہیں چاہتی‪  ‬دونوں‬
‫کشمیری گھوڑیاں نہا کر اپنے جسم پر تولیہ‬
‫لپیٹ کر روم میں داخل ھوئیں تو فیصل نے‬
‫ان دونوں کا سراپا دیکھا‪  ‬اور وہ شرماتے‬
‫ھوئے اپنےکمبل میں چلی گئیں تب شبو نے‬
‫ایک بار پھر مہرو سے کہا دوستی میں ہار‬
‫‪...‬اور جیت نہیں ھوتی‬
‫تم اس دن میرے گھر اجاتی تو ھم دونوں‪ ‬‬
‫بڑے مزے کیساتھ شاہد سے سیکس کرتے‬
‫اس کو پندرہ کے قریب چودنے کے انداز اتے‬
‫ھیں مہرو بولی سچ تو شبو بولی ہاں اسمیں‬
‫سے بارہ ھم نے کر لئیے ھیں صرف تین باقی‬
‫ھیں۔۔۔‬

‫جاری ہے……‬

‫دو_گھوڑیوں_کے_سوار‪#‬‬

‫ایک مکمل انٹرٹینمنٹ میری نئی کہانی جو‬


‫صرف وٹس ایپ پر حاصل کرسکیں گے‬
‫‪ ‬اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‪#‬‬

‫صفحہ_‪#37‬‬

‫مہرو میری بیٹی اٹھ جاؤ‪  ‬بیٹا سورج سر پر‬


‫چڑھ ایا ھے تم ابھی تک سوئی ھوئی ھو‬
‫مہرو ام اونہہ مما تم بھی نہ چین سے سونے‬
‫نہیں دیتی ھو مما وہ شبو کدھر گئی تو‬
‫مہرو کی مما بولی جی وہ کب سے چلی گئی‬
‫ھے کہتی تھی انکے گھر مرمت کا کام چل رہا‬
‫ھے اس لئیے بہت کام ھے اسے اور بیٹا تم‬
‫اٹھو تمہارے پاپا نے تم کوئی بات کرنی ھے‬
‫وہ تو خود تجھے جگانے ارہے تھے مگر میں‬
‫انہیں چائے دیکر ائی ھوں اس لئیے تم جلدی‬
‫سے تیار ھو کر اجاو اور ناشتہ بھی کر لو‬

‫مہرو سوچ میں پڑ گئی کہ اس کے پاپا کیا‬


‫بات کرنا چاہ رہے ہیں وہ جلدی سے اٹھی اور‬
‫واش روم چلی گئی رضوی صاحب بولے بیگم‬
‫تم اپنی پیکنگ کر لو میں باہر کسی کام سے‬
‫جارہا ھوں پھر چلتے ھیں‬

‫دوسری طرف شاہد اپنے روم میں بیٹھا‬


‫سٹڈی کر رہا تھا اسکا السٹ پیپر تھا تب‬
‫اسکے موبائل کی رنگ ٹون بجی اس نے جب‬
‫دیکھا تو یہ مریم کا نمبر تھا سات بھائیوں‬
‫کی اکلوتی بہن مریم نے ڈرتے ڈرتے کہا ہیلو‬
‫کہا جی جی تمہاری اواز ارہی ھے تو مریم‬
‫‪ ‬بولی کیسے ھو‬

‫شاھد جی میں ٹھیک ھوں تم سناو مریم‬


‫‪ ‬میں بھی ٹھیک ھوں کیا کر رہے ھو تم‬

‫شاہد میں پیپر کی تیاری کر رہا تھا تم بتاو‬


‫کیا کر رہی ھو مریم میں اپنے روم میں ھوں‬
‫اس دن تم نے اچھا نہیں کیا میرے ساتھ‬
‫مریم نے شکایتی انداز سے اسے کہا تو شاہد‬
‫بوال کہ تم ھو ہی اتنی پیاری کہ میں خود پر‬
‫کنٹرول کھو بیٹھا اچھا میں دو چار منٹ‬
‫اور رک جاتی تو تم نے تو مجھے سہاگن بنا‬
‫دینا تھا‬

‫شاہد وہ تو میں بنادوں گا مریم اچھا وہ کب‬


‫شاھد جب میں تم سے ملوں گا مریم میں‬
‫نہیں دوں گی شاھد وہ کیوں ایک نہ ایک دن‬
‫تو دینی ھی پڑے گی مریم شادی کے بعد‬
‫دوں گی نہ اپنے شوہر کو شاہد اپنے شوہر کو‬
‫دو گی مجھے نہیں یہ تو ظلم ھے یار‬

‫مریم میرے شوہر تم بھی ھوسکتے ھو شاہد‬


‫بھال تمہارے گھر والے مان جائینگےتو مریم‬
‫بولی کیوں نہیں مانیں گے میں نے اپنی ماں‬
‫سے بات‪  ‬کی ھے وہ کہتی ھے لڑکا کس‬
‫خاندان سے ھے تو میں نے تمہارا بتادیا ھے‬
‫بلکہ تمہاری تصویر بھی مما کو دکھا دی ھے‬
‫ہی ہی ہی ہی ہی ہی کیا ھوا مریم تم اج بہت‬
‫مسکرا رہی ھے مریم وہ مما کہہ رہی تھی‬
‫تمہاری تصویر دیکھ کر کہ تم دونوں بہن‬
‫بھائی ھی لگتے ھو مطلب ہماری جوڑی کافی‬
‫فٹ لگتی ھے۔۔۔‬

‫شاھد۔۔اچھا مطلب تم نے بھی مجھے اپنا‬


‫بنانے کی ٹھان لی ھے مریم ارادے تو نیک‬
‫ھیں بس اگے دیکھیں کیا ھوتا ھے۔مجھے نہ‬
‫تم سے پیار ھوگیا ھے مریم اور میں بھی تم‬
‫سے اظہار نہیں کر پا رہا تھامریم مجھے بھی‬
‫تم سے پیار ھوگیا ھے اور میں تم سے شادی‬
‫کرنا چاہتی ھوں تم اپنے گھر والوں کو‬
‫ہمارے گھر بھیجو تاکہ ھم ایک ھو سکیں‬
‫شاھد جی یہ تو بہت خوشی کی بات ھے‬
‫میں جلد ھی بھیجوں گا‬

‫فیصل مہرو کدھر ھو یار مہرو بھیا میں‬


‫کچن میں ھوں ادھر ہی اجائیں فیصل جی‬
‫ذرا گرم گرم چائے کا کپ بنادو تاکہ سردی‬
‫کچھ کم ھوسکے بائیک پر ٹھنڈی ھوا پڑتی‬
‫ھے تو بہت سردی لگتی ھے مہرو جی بھیا‬
‫میں ابھی الئی بس تم کچھ دیر انتظار کرو‬
‫اور یہ بتاو کہ ممی پاپا کو بٹھا دیا تھابس‬
‫میں فیصل بوال جی میں نے ان کو بٹھا دیا‬
‫تھاوہ خالہ سے تمہاری بات پکی کرکے‬
‫سیدھا میر پور جائینگے ہماری زمینوں پر‬
‫کچھ حساب کتاب کرکے ہی ائینگے‬
‫مہرو بولی مطلب ممی پاپا دو چار راتیں رہ‬
‫کر ہی ائیں گے نہ جی فیصل نے اپنی بہن کے‬
‫مموں کو تاڑتے ھوئے کہا مہرو بولی بھابھی‬
‫بھابھی تو علیشاہ ٹی وی دیکھتے ھوئے‬
‫اٹھی اور کچن میں چلی گئی اور بولی جی‬
‫مہرو کیا بات ھے مہرو بولی یہ کپ دھو دو‬
‫میں چائے بنا رہی ھوں بھائی کو چائے کی‬
‫طلب ھو رہی ھے مہرو نے ایک کپ دھونے کو‬
‫دیا جسے علیشاہ نے دھو کر واپس کر دیا اور‬
‫مہرو نے چائے بنا کر اپنے بھائی کو پیش‬
‫کردی اور باقی کی چائے دو کپوں میں ڈال‬
‫کر مہرو اپنے روم میں چلی گئی تھوڑی دیر‬
‫بعد علیشاہ بھی مہرو کے پاس بیٹھ گئی اور‬
‫فیصل بھی روم میں صوفے پر بیٹھ گیا اور‬
‫‪ ‬مہرو اپنی بھابھی کی طرف دیکھتے ھوئے‬
‫بولی بھابھی تمہاری شادی کو اتنے دن ھو‬
‫گئے ھیں جب کہ تم دونوں نے ابھی تک اپنی‬
‫سہاگ رات نہیں منائی تو علیشاہ شرماتے‬
‫ھوئے بولی مجھے بہت ڈر لگتا ھے مہرو سنا‬
‫ھے بہت درد ھوتا ھے تو مہرو بولی تم‬
‫دونوں جب سہاگ رات نہیں مناوگے تو بچہ‬
‫کیسے ھوگا دیکھو تم ایک بار درد محسوس‬
‫کروگی پھر بعد میں تجھے سب کچھ اچھا‬
‫لگنے لگے گا چلو میں تجھے تیار کرتی ھوں‬
‫اور پھر سے دلہن بناتی ھوں اور تم اج اپنی‬
‫سہاگ رات مناو بھیا کے ساتھ علیشاہ بولی‬
‫کہ کیا فیصل اب فٹ ہیں کیا وہ میرے ساتھ‬
‫یہ سب کر پائینگے اسے تو یہ تجربہ بھی‬
‫نہیں ھے اور میں سیل پیک ھوں یہ بہت درد‬
‫دے گا مجھے‬
‫مہرو بولی تو تم کیا چاہتی ھو میں کسی‬
‫تجربہ کار کو پہلی بار تمہاری سیل توڑنے کے‬
‫لیے بالوں تو وہ بولی جیسے تجھے مناسب‬
‫لگے میں تیار ھوں تو مہرو بولی فیصل کو‬
‫تم سے شاید شرم اتی ھے اسی لئیے وہ‬
‫تمہارے ساتھ کر نہیں پایا تھا تم کہو میں‬
‫تمہارے لیئے شاہد کو بال لوں علیشاہ شرماتے‬
‫ھوئے بولی نہیں مجھے بھی شرم اتی ھے ھم‬
‫اپنا کام چال لینگے مہرو نے کہا جب بھیا‬
‫تجھے چودیں گے تو شرما جائینگے اس لئیے‬
‫ھم ایک گیم کھیلتے ھیں میں تمہاری انکھوں‬
‫‪..‬پر پٹی باندھ دیتی ھوں‬
‫اس سے تم دونوں کو بہت مزہ ائے گا فیصل‪ ‬‬
‫نے اپنی بہن کا اشارہ پاتے ہی علیشاہ کو‬
‫اپنے بازوں کے حصار میں لے لیا دونوں ایک‬
‫دوسرے کو کس کرنے لگے علیشاہ سرخ رنگ‬
‫کی شلوار قمیض پہنے ھوئے تھی اور اس کے‬
‫ھونٹ فیصل کے منہ میں تھے ان دونوں کو‬
‫مستی میں دیکھ کر مہرو نے فیصل کیساتھ‬
‫بنایا گیا اپنا پالن ترتیب دینا شروع کردیا‬
‫مہرو نے فیصل کو اشارے سے کہا کہ میں‬
‫شاہد کو بالتی ھوں تم تب تک اسکے ساتھ‬
‫کسنگ کرو فیصل نے اوکے کا اشارہ دیا‬

‫مہرو نے شاہد کو کال کی ہیلو جناب کیسے‬


‫ھو شاھد میں ٹھیک ھوں تم سناو مہروتم‬
‫کیسی ھو‬
‫مہرو میں ٹھیک ھوں تم ایک کام کرو‪   ‬یار‬
‫تم اسی وقت میرے گھر اجاو کہاں پر ھوتم‪ ‬‬
‫تو شاھد بوال کہ میں تو گھر پر ہی ہوں‬
‫خیریت تو ھے مہرو تمہارے لئیے ایک‬
‫سرپرائز ھے جلدی اجاو شاہد بوال اچھا میں‬
‫اتا ھوں کچھ ہی دیر میں مہرو بولی میں‬
‫دروازے میں کھڑی ھوں تمہارا‪  ‬انتظار کر‬
‫رہی ھوں شاہد میں بس نکل گیا ھوں گھر‬
‫سے تم وہیں رہو شاھد مہرو کے گھر پہنچ‬
‫گیا اور مہرو بلیک‪  ‬ٹائیٹ کیساتھ سفید‬
‫شرٹ پہنے اس وقت دروازے پر ہی کھڑی‬
‫تھی دل اس کا دھک دھک کر رہا تھا اگرچہ‬
‫گھر پر دو تین دن اس کی گورننس‪  ‬تھی پر‬
‫پھر بھی ایک غلط کام کرنے کا دباؤ اس پر‬
‫‪..‬پوری طرح سے موجود تھا‪  ‬خیر تو ھے‬
‫مہرو اس نے ہڑ بڑاتے ھوئے پوچھا ہاں ہاں‪ ‬‬
‫خیرت ہی ھے اس نے شاہد کا ہاتھ پکڑا اور‪ ‬‬
‫اس‪  ‬کو سیدھا اپنے باپ کے روم میں بٹھا‬
‫دیا اور بولی تم نے کسی کو شو نہیں کروانا‬
‫کہ تم بھی اسی گھر میں ھو میں کچھ ہی‬
‫دیر میں اتی ھو جب تک میں تجھے لینے‬
‫نہیں اوں تم‪  ‬روم سے باہر نہیں نکلنا شاہد نے‬
‫مہرو کا ہاتھ پکڑا اور کھینچ کر اسے‪  ‬اپنے‬
‫سینے سے لگا لیا اور بوال کیا بات ھے اج گھر‬
‫پر کوئی موجود‪  ‬نہیں ھے کیا میری ہیر‬
‫‪..‬سلیٹی‬

‫_ تیری ایک جھلک کو ترس جاتا ہے دل میرا‬


‫قسمت والے ہیں وہ لوگ جو روز تیرا دیدار‬
‫‪.....‬کرتے ہیں‬

‫مہرو اپنے چہرے کو شاھد کے سینے پر‬


‫چھپاتے ھوئے بولی جی اج میں اور بھابھی‬
‫اکیلی ھیں بھابھی اج میں گھر پر اکیلے ھیں‬
‫امی ابو میر پور گئے ھیں شاہد نے مہرو کی‬
‫گال پرکس کرتے ھوئے کہا تو اج دے دو نہ‬
‫تم مہرو شرماتے ھوئے بولی کیا دے دوں تو‬
‫شاھد اسکی ٹائیٹس میں ہاتھ ڈال کر بوال یہ‬
‫نرم جگہ دے دو نہ مجھے بہت تڑپایا ھے تم‬
‫نے مجھے مہرو بولی میں تو نہیں دونگی‬
‫تمہیں تم تو پورے لونڈے ھو پتہ نہیں میری‬
‫کیا حالت کروگے‬
‫شاہد بہت پیار سے لوں گا ایک بار دو تو‬
‫سہی‪  ‬تو مہرو بولی اج تمہاری ساری‬
‫حسرتیں پوری کرونگی بس ذرا انتظار‬
‫فرماو۔۔‬

‫مہرو شاھد کو اس روم میں بٹھا کر روم سے‬


‫باہر نکل گئی جب وہ فیصل کے روم میں‬
‫داخل ھوئی تو اس نے دیکھاکہ فیصل اور‬
‫علیشاہ مکمل طور پر ننگے تھے اور ایک‬
‫دوسرے کو کس کر رہے تھے مہرو نے دیکھا‬
‫اسکی بھابھی نئی نویلی دلہن کی طرح‬
‫فیصل کی بانہوں میں چھوئی موئی سی بن‬
‫رہی تھی بننا بھی چاہئیے تھا اس سوکھے‬
‫ھوئے کھیت نے اج سیراب ھونا تھا اور کسی‬
‫کو ہل چال کر بیج بونے کا موقع‪  ‬بھی دینا‬
‫تھا جوانوں کی زندگی میں ایسا تہوار‬
‫قسمت سے ملتا ھے جب نشے والی بوتل کا‬
‫ڈھکن بڑے پیار کیساتھ کھوال جاتا ھے اور‬
‫پھر اس کا جام پیا جاتا ھے‬

‫نئی نویلی دلہن علیشاہ اس وقت کالی بریزر‬


‫میں کالی پینٹی میں ملبوس اپنے اناڑی پیا‬
‫کی بانہوں میں خراج تحسین وصول کررہی‬
‫تھی اج وہ اپنے شوہر فیصل رضوی پر اپنے‬
‫شباب کی بجلیاں گرانے کی پوری تیاری‬
‫کیساتھ رقص پیا کر رہی تھی کالی بریزر‬
‫میں سے اسکے گورے گورے ممے فیصل پر‬
‫قہر برپا کر رہے تھے اور بریزر سے باہر نکلنے‬
‫کو بیتاب تھے علیشاہ نے اپنی زبان نکال کر‬
‫فیصل کے منہ میں ڈال دی بلکل ایسے جیسے‬
‫سانپ ایک بل سے نکل کر دوسری بل میں جا‬
‫گھسے مہرو اپنی بھابھی کی اس پھرتی کو‬
‫دیکھ کر بہت خوش ھوئی محبت میں ایسی‬
‫‪...‬تڑپ رکھنے والے جلد پگھل جاتے ھیں‬

‫مہرو اپنی بھابھی کی اس حرکت کو دیکھ‪ ‬‬


‫کر بہت گرم بھی ھوگئی تھی اور اس نے اپنا‬
‫ہاتھ اپنی چوت پر لیجا کر اپنی شکستہ‬
‫چوت کو سہالیا جیسے کہہ رہی ھو تمہارے‬
‫سیر ھونے کا وقت بہت قریب ھے مت تڑپو‬
‫‪ ......‬میری جان فیصل نے اپنے ہاتھ پیچھے لے‬

‫جاری ہے……‬
‫اﻧﺎڑی_دوﻟﮩﺎ_ﮐﮭﻼڑی_ﺑﮩﻦ‬

‫ﺻﻔﺤﮧ_‪38‬‬

‫ﻣﮩﺮو اﭘﻨﯽ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﮐﻨﻮاری ﭘﻨﮏ ﭼﻮت ﺳﮯﮐﮭﯿﻞ رﮨﯽ ﺗﮭﯽ‬


‫اور اﺳﮯ ﺳﮩﻼ رﮨﯽ ﺗﮭﯽ اﭘﻨﯽ زﺑﺎن ﺳﮯ ﭼﺎٹ رﮨﯽ ﺗﮭﯽ ُاس ﮐﮯ‬
‫ﮨﺎﺗﮫ ُاوﭘﺮ ﮐﻮﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﯽ ﺑﺮا ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯاور‬
‫ِﭘﮭﺮ ﻣﮩﺮو ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﯽ ﺑﺮا ﮐﮯ ُاوﭘﺮ ﺳﮯ ﮨﯽ ُاس ﮐﮯ‬
‫ﻣﻤﻮں ﭘﺮ ﺗﮭﮯ۔۔۔ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﮯ ﮐﻨﻮارے ﻣﻤﻮں ﮐﻮ ﺳﮩﻼﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ اب‬
‫ﻣﮩﺮو ﮐﯽ زﺑﺎن ﺗﯿﺰی ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ اس ﮐﯽ ﮐﻨﻮاری ﭼﻮت ﮐﻮﺳﮩﻼ‬
‫رﮨﯽ ﺗﮭﯽ اﺳﮯ ﭼﺎٹ رﮨﯽ ﺗﮭﯽ۔۔۔ ﻣﮩﺮو ﺑﻮﻟﯽ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ اف ف ف‬
‫ام ﻣﻤﻢ ﮐﺘﻨﯽ ﭘﯿﺎری ﮨﮯ ﺗﯿﺮی ﭼﻮت ﮐﺘﻨﯽ ﭨﺎﺋﯿﭧ ﮨﮯ۔۔۔ﮨﺎﺋﮯ ﭘﺘﮧ‬
‫ﻧﮩﯿﮟ ﮐﻮن ﺧﻮش ﻧﺼﯿﺐ ﮬﻮﮔﺎ وہ ﺟﺲ ﮐﺎ ﻟﻦ ﺗﻤﮩﺎرے ﻧﺼﯿﺐ‬
‫ﻣﯿﮟ ﮨﻮﮔﺎ ﺟﻮ ِاس ﮐﻨﻮاری ﭼﻮت ﮐﮯ اﻧﺪرﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ۔۔۔اف ف ف۔۔۔‬
‫ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﺑﻮﻟﯽ ﻣﮩﺮو ﻣﯿﺮی ﭼﻮت ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻼ ﻟﻨﮉ ﺗﻮ ﺗﯿﺮے ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﺎ‬
‫ﮨﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ﺑﮭﻼ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﮐﯿﺎ ﻣﺠﺎل ﮬﮯ ﻣﯿﺮی ﻟﮯ ﺳﮑﮯ ﻣﮩﺮو‬
‫ﺑﻮﻟﯽ ﺟﺐ ﭼﻮت ﻟﻦ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ا ﺟﺎﺗﯽ ﮬﮯ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ‬
‫ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﻠﺘﺎ ﺑﺲ ﭘﮭﺮ ﭘﯿﺎس ﺟﺎگ ﺟﺎﺗﯽ ﮬﮯ ﻣﮩﺮو ﮐﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ‬
‫اس ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺑﮯﭼﯿﻦ ﮐﺮ رﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ُاس ﮐﮯ اﻧﺪر ﻟﮕﯽ ﮨﻮﺋﯽ آگ‬
‫ﺗﯿﺰ ﮨﻮﺗﯽ ﺟﺎ رﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﭼﻮت ﮐﮯ اﻧﺪر ﺗﻮ ﺟﯿﺴﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻃﻮﻓﺎن‬
‫آﻧﮯ واﻻ ﮨﻮ رﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮩﺮو ﮐﯽ ﺑﺎت ﭘﺮ اس ﮐﯽ ﺑﻨﺪ آﻧﮑﮭﻮں ﮐﮯ‬
‫آﮔﮯ ﮐﺌﯽ ﭼﮩﺮے ﮔﮭﻮﻣﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻮﺷﺎﮨﺪ ﮐﺎ ﻟﯿﮑﻦ‬
‫ِﭘﮭﺮ ﺧﻮد ﭘﺮ ﮨﯽ ﺣﯿﺮت ﮨﻮﺋﯽ ﮐﮧ ﮐﯿﺴﮯ وہ اس اﺟﻨﺒﯽ ﮐﮯ ﺑﺎرے‬
‫ﻣﯿﮟ اﯾﺴﺎ ﺳﻮچ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﺟﺐ ﭼﻮت ﭘﺮ زﺑﺎن ﭼﻞ رﮨﯽ‬
‫ﮨﻮاور ﭼﻮت ﮐﮯ داﻧﮯ ﮐﻮ ﺳﮩﻼﯾﺎ ﺟﺎ رﮨﺎ ﮨﻮﺗﻮ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻏﻠﻂ ﯾﺎ‬
‫ﺳﮩﯽ ﮐﺎﻓﯿﺼﻠﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮ ﭘﺎﺗﺎاور ﺻﺮف ﯾﮩﯽ ﺧﯿﺎل آﺗﺎ ﮨﮯﮐﮧ ﺑﺲ‬
‫ِاس آگ ﮐﻮ ﮐﯿﺴﮯﭨﮭﻨﮉا ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ اور ﮐﺲ ﺳﮯﭨﮭﻨﮉا ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ۔۔‬
‫ﻣﮩﺮو اج ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎر اﭘﻨﯽ ﭘﻼﻧﻨﮓ ﮐﻮ ﺣﺘﻤﯽ ﺷﮑﻞ دﯾﻨﮯ ﺟﺎرﮨﯽ‬
‫اورﭘﮭﺮ‬
‫ِ‬ ‫ﺗﮭﯽ۔۔ ﺷﺎﮬﺪ ﮐﺎ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ اﭼﺎﻧﮏ اس ﮐﺎ ﭼﮩﺮہ ﺑﺪﻟﮧ‬
‫ﺳﺎﻣﻨﮯ دﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻓﯿﺼﻞ ﮐﺎ ﭼﮩﺮہ ﺗﮭﺎ وﮨﯽ ﺣﯿﺮان ﭼﮩﺮہ ﭘﮭﭩﻨﮯ‬
‫ﮐﯽ ﺣﺪ ﺗﮏ ﮐﮭﻠﯽ ﮨﻮﺋﯽ آﻧﮑﮭﯿﮟ اور ﮐﮭﻼ ﮨﻮا ﻣﻨﮧ ﺟﻮ ُاس وﻗﺖ‬
‫ﺗﮭﺎ ﺟﺐ اس ﻧﮯ اﭘﻨﯽ ﺷﻮﮨﺮ ﮐﻮ ُاس اس ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ اﭼﺎﻧﮏ ﺳﮯ‬
‫دﯾﮑﮫ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎاﯾﺴﯽ ﺑﺎﺗﻮں ﮐﻮ ﯾﺎد ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ‬
‫اور ﺑﮭﯽ ﺧﺮاب ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ اس ﮐﯽ دﮬﮍﮐﻦ ﺗﯿﺰ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﯽ اور‬
‫ﺳﺎﻧﺴﯿﮟ ﺗﻮ ﺟﯿﺴﮯﮐﺴﯽ دﮬﻮﮐﻨﯽ ﮐﯽ ﻃﺮح ﭼﻞ رﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ اور‬
‫ِﭘﮭﺮ ﮐﭽﮫ ﮨﯽ ﭘﻞ ﻣﯿﮟ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﯽ ﭼﻮت اﺑﻞ ﭘﮍی اس ﮐﯽ‬
‫ﭼﻮت ﻧﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﭼﮭﻮڑدﯾﺎ ﭘﮩﻠﮯ دن ﮨﯽ اﯾﮏ ﺑﺎر ﺻﺮف ﭼﻨﺪ‬
‫ﮔﮭﻨﭩﻮں ﮐﮯ وﻗﻔﮯ ﺳﮯ ﮨﯽ دوﺳﺮی ﺑﺎر ﺑﮭﯽ اس ﮐﻮ ﭘﺎﻧﯽ‬
‫ﭼﮭﻮڑﻧﺎ ﺗﮭﺎ ﺷﮩﻮت ﺳﮯ ﺑﺮی ﻃﺮح ﺳﮯ اس ﮐﺎ ﻧﭽﻼ ِﺟ َﺴﻢ ﮐﺎﻧﭗ‬
‫رﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔ اور ﻣﮩﺮو ﻧﮯ اﭘﻨﯽ زﺑﺎن اﭘﻨﯽ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﭼﻮت ﭘﺮ‬
‫ﮔﻮل ﮔﻮل ﮔﮭﻤﺎﻧﺎ ﺷﺮوع ﮐﺮ دی۔۔ ﻓﯿﺼﻞ اب ﺟﮭﭩﮑﮯ ﻟﮯ رﮨﺎ‬
‫ﺗﮭﺎاور اس ﮐﯽ ﭼﻮت ﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﻧﮑﻞ ﻧﮑﻞ ﮐﺮ اﺳﮑﯽ ﻧﻨﺪ ﻣﮩﺮو‬
‫ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ رﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺴﮯ وہ ﭼﺎﭨﺘﯽ ﺟﺎ رﮨﯽ ﺗﮭﯽ اور ِﭘﮭﺮ‬
‫دوﻧﻮں ﮨﯽ ﻧﮉﮬﺎل ﮨﻮﮐﺮ ﻟﯿﭧ ﮔﯿﮟ اﯾﮏ دوﺳﺮی ﮐﯽ ﺑﺎﻧﮩﻮں ﻣﯿﮟ‬
‫ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﯽ ﺗﻮ آﻧﮑﮭﯿﮟ ﮨﯽ ﺑﻨﺪ ﮨﻮرﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔۔۔ﮐﮭﻮﻟﻨﮯ ﮐﯽ ﺗﻮ‬
‫ﺗﮭﯽ۔۔۔ﺟ َﺴﻢ ﻣﯿﮟ ﺟﺎن ﮨﯽ ﻧﮧ ﮨﻮﺟﯿﺴﮯاور ﭘﺘﮧ‬
‫ِ‬ ‫ﻃﺎﻗﺖ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ‬
‫ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺐ ﻣﮩﺮو ﻧﮯ اﺳﮑﯽ ﭼﻮت اﭘﻨﮯ ﭨﺸﻮز ﺳﮯ ﺻﺎف ﮐﯽ اور‬
‫ﺑﻮﻟﯽ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ اب ﺳﮩﺎﮔﻦ ﺑﻨﻨﮯ ﮐﻮ ﺗﯿﺎر ﮬﻮ ﻧﮧ ﺗﻮ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﻧﮯ‬
‫ﺷﺮم ﮐﮯ ﻣﺎرے اﭘﻨﺎ ﺳﺮ ﮨﺎں ﻣﯿﮟ ﮨﻼ دﯾﺎ ﻣﮩﺮو ﺑﻮﻟﯽ دﯾﮑﮫ‬
‫ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﺗﻢ ﻣﯿﺮی ﻓﺮﯾﻨﮉ ﺑﮭﯽ ﮬﻮ اور ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﺟﻮ ﮐﺎم‬
‫ﭘﭽﮭﻠﮯ ﭘﻨﺪرہ دن ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮬﻮ ﭘﺎﯾﺎ ﺗﻮ ﺳﻤﺠﮭﻮ اس ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ‬
‫رﯾﺰن ﮬﮯ ﻣﻄﻠﺐ ﺗﻢ دوﻧﻮں اﯾﮏ دوﺳﺮے ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺧﻮد ﮐﻮ‬
‫ﻧﺮوس ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﺘﮯ ﮬﻮ ﺗﻮ ﻣﯿﺮی ﮔﺰارش ﯾﮧ ﮐﮧ ﺗﻢ دوﻧﻮں اﭘﻨﯽ‬
‫ﭘﮩﻠﯽ ﭼﺪاﺋﯽ ﮐﭽﮫ اس ﻃﺮح ﺳﮯ ﮐﺮو ﮐﮧ ﺗﻢ دوﻧﻮں ﺟﺴﻤﺎﻧﯽ‬
‫راﺣﺖ ﻣﺤﺴﻮس ﮐﺮ ﺳﮑﻮ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﺑﻮﻟﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ‬
‫ﻣﮩﺮو ﺗﻢ ﮐﯿﺎ ﮐﮩﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﮬﻮ ﺗﻢ ﺗﻮ ﻣﮩﺮو ﻧﮯ اﭘﻨﯽ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ‬
‫ﭼﻮت ﺳﮩﻼ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﺗﻢ اﭘﻨﯽ اﻧﮑﮭﻮں ﭘﺮ ﭘﭩﯽ ﺑﺎﻧﺪھ ﮐﮯ ﺑﮭﺎﺋﯽ‬
‫ﺳﮯ ﺳﯿﮑﺲ ﮐﺮوﮔﯽ اس ﻃﺮح ﺗﻢ دوﻧﻮں اﭘﻨﺎ ﭘﮩﻼ ﻣﺮﺣﻠﮯ‬
‫اﺳﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﻃﮯ ﮐﺮ ﺳﮑﻮ ﮔﮯ ﺑﻮﻟﻮ ﻣﻨﻈﻮر ﮨﮯ ﺗﻮ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﺑﻮﻟﯽ‬
‫ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻨﻈﻮر ﮨﮯ ﮐﯿﺎ ﻓﯿﺼﻞ ﺑﮭﯽ اﭘﻨﯽ اﻧﮑﮭﻮں ﭘﺮ ﭘﭩﯽ‬
‫ﺑﺎﻧﺪﮬﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ۔۔ ﻣﮩﺮو ﺑﻮﻟﯽ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﮐﻮ اس ﻃﺮح ﺳﮯ ﻧﻈﺮ ﻧﮩﯿﮟ‬
‫اﺋﮯ ﮔﺎ ﯾﮧ ﮐﺎم ﮐﭽﮫ دﯾﺮ ﺗﮏ ﺗﻢ ﮨﯽ ﮐﺮوﮔﯽ اور ﺟﺐ ﺗﮏ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ‬
‫ﺗﻤﮩﺎری ﭘﭩﯽ اﺗﺎروں ﺗﻢ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ دﯾﮑﮭﻨﺎ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﻧﮯ ﻓﯿﺼﻞ‬
‫ﮐﯽ اﻧﮑﮭﻮں ﻣﯿﮟ اﻧﮑﮭﯿﮟ ڈال ﮐﺮ دﯾﮑﮭﺎ اﺳﮑﯽ اﻧﮑﮭﻮں ﮐﯽ‬
‫ﻃﻤﺎﻧﯿﺖ ﺑﺘﺎرﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺳﺐ اﭼﮭﺎ ﮨﯽ ﮬﮯ اور ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﻧﮯ ﺟﺐ‬
‫ﻓﯿﺼﻞ ﮐﺎ ﻟﻨﮉ دﯾﮑﮭﺎ ﺟﻮ ﺷﺎﯾﺪ ﮔﯿﻼ ﮬﻮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﮭﺎوہ ﻧﺮوس ﺳﯽ‬
‫ﮬﻮﮔﺌﯽ اور ﭘﮭﺮ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﺑﻮﻟﯽ ﭼﻠﻮ ﺑﺎﻧﺪھ ﻟﻮ ﺗﻢ ﯾﮧ ﭘﭩﯽ ﺗﻮ ﻣﮩﺮو‬
‫ﻧﮯ اﯾﮏ ﮐﺎﻟﮯ رﻧﮓ ﮐﺎ ﮐﭙﮍا ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﻮ دﮐﮭﺎﯾﺎ اور ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ ﺑﮯ‬
‫ﻓﮑﺮ رﮨﻮ ﭘﮩﻠﮯ ﺟﺐ ﻓﯿﺼﻞ ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺗﻤﮩﺎری ﺳﯿﻞ ﺗﻮڑﯾﻨﮕﮯ ﺗﻮ‬
‫ﺗﮭﻮڑا ﺳﺎ درد ﮬﻮﮔﺎ اور ﭘﮭﺮ دﮬﯿﺮے دﮬﯿﺮے ﻣﺰا اﺋﮯ ﮔﺎ اور‬
‫ﻣﺠﮭﮯ اﻣﯿﺪ ﮬﮯ ﺗﻢ اﯾﮏ ﺑﮩﺎدر ﻟﮍﮐﯽ ﮬﻮ ﻣﺮد ﺳﮯ ﮨﺎر ﻣﺎﻧﺘﮯ ﮬﻮ‬
‫ﭼﻼﻧﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﻮ ﮔﯽ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﺊ ﻧﮧ ﺗﻮ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﻓﯿﺼﻞ ﮐﻮ‬
‫ﺑﻮﻟﻨﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ دﮬﯿﺮے دﮬﯿﺮے ڈاﻟﻨﺎ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺳﮩﮧ ﻟﻮں ﮔﯽ‬
‫ﻣﮩﺮو ﺑﻮﻟﯽ ﮨﺎں ﮨﺎں ﮐﯿﻮں ﻧﮩﯿﮟ دﮬﯿﺮے ﺳﮯ ﮨﯽ ڈاﻟﮯ ﮔﺎ ﺗﻤﮩﺎری‬
‫ﭼﻮت ﻣﯿﮟ ﺗﻢ ﭘﺮﯾﺸﺎن ﻣﺖ ﮬﻮ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﺎں ﮨﯽ ﮬﻮں ﺗﻤﮩﺎرے‬
‫ﭘﺎس اور ﻣﯿﮟ ﺗﻤﮩﺎری ﻣﺪد ﮐﺮوں ﮔﯽ۔۔ ﻣﮩﺮو ﻧﮯ ﮐﺎﻟﯽ رﻧﮓ ﮐﯽ‬
‫ﭘﭩﯽ اﭘﻨﯽ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ اﻧﮑﮭﻮں ﭘﺮ ﺑﺎﻧﺪھ دی ﺟﺲ ﺳﮯ ﻋﻠﯿﺸﺎہ‬
‫ﮐﻮ ﻧﻈﺮ اﻧﺎ ﺑﻨﺪ ﮬﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ وہ اﭘﻨﯽ زﻧﺪﮔﯽ ﮐﺎ ﭘﮩﻼ ﻟﻨﮉ ﻟﯿﻨﮯ ﮐﮯ‬
‫ﻟﺌﯿﮯ ﺑﮍی ﺑﯿﺘﺎب ﺗﮭﯽ اور اس ﮐﮯ ﻟﺌﯿﮯ ﮨﺮ ﺷﺮط اس ﮐﻮ ﻣﻨﻈﻮر‬
‫ﺗﮭﯽ ﻣﮩﺮو ﻧﮯ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﻮ ﺳﮩﺎگ ﮐﯽ ﺳﯿﺞ ﭘﺮ ﭘﯿﭧ ﮐﮯ ﺑﻞ ﻟﭩﺎ‬
‫دﯾﺎ اور ﻓﯿﺼﻞ ﮐﻮ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﯽ ﭼﻮت ﭼﺎﭨﻨﮯ ﮐﺎ ﮐﮩﮧ ﮐﺮ ﮐﻤﺮے‬
‫ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻞ ﮔﺊ اور ﺳﯿﺪﮬﺎ اﭘﻨﮯ ﺑﺎپ ﮐﮯ ﮐﻤﺮے ﻣﯿﮟ ﺑﯿﭩﮭﮯ‬
‫ﮬﻮﺋﮯ ﺷﺎﮨﺪ ﮐﮯ ﭘﺎس ﮔﺌﯽ اور اﺳﮯ ﺑﻮﻟﯽ ﮐﮧ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ‬
‫ﺳﯿﻞ ﺗﻮڑﻧﺎ ﮬﮯ اور اﺳﮑﯽ اﯾﺴﯽ دﮬﻮاں دار ﭼﺪاﺋﯽ ﮐﺮﻧﯽ ﮬﮯ‬
‫ﮐﮧ وہ ﭼﺪاﺋﯽ ﮐﺮواﺗﮯ ﮬﻮﺋﮯ ڈر ﻣﺤﺴﻮس ﮐﯿﺎ ﮐﺮے اور ﻟﻨﮉ‬
‫اﺳﮑﮯ ﻟﺌﯿﮯ دﮨﺸﺖ ﮐﯽ ﻋﻼﻣﺖ ﺑﻦ ﺟﺎﺋﮯ ﺷﺎﮨﺪ ﻧﮯ ﺟﯿﻨﺰ ﮐﯽ ﭘﯿﻨﭧ‬
‫ﭘﮩﻨﯽ ﮬﻮﺋﯽ ﮬﻮﺗﯽ ﮬﮯ اور ﺑﻠﯿﮏ ﺷﺮٹ ﭘﮩﻨﮯ ﮬﻮﺋﮯ ﺗﮭﺎ ﻣﮩﺮو ﻧﮯ‬
‫اﺳﮑﺎ ﺑﺎزو ﭘﮑﮍا اور ﺳﮩﺎگ ﮐﯽ ﺳﯿﺞ ﭘﺮ ﻟﯿﭩﯽ ﮬﻮﺋﯽ ﻣﮩﺮو ﮐﮯ‬
‫ﭘﺎس ﻟﮯ اﺋﯽ اور ﻓﯿﺼﻞ ﮐﻮ ﭼﻮت ﭼﺎﭨﻨﮯ ﺳﮯ ﮨﭩﺎ ﮐﺮ ﺷﺎﮨﺪ ﮐﻮ‬
‫اﺷﺎرے ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﯽ ﭨﺎﻧﮕﻮں ﻣﯿﮟ اﺟﺎو ﺷﺎﮨﺪ ﮐﯽ‬
‫ﺗﻮ ﺟﯿﺴﮯ ﻻﭨﺮی ﮨﯽ ﻟﮓ ﮔﺌﯽ اس ﮐﻮ اﯾﮏ ﭘﺮاﺋﯽ دﻟﮩﻦ ﮐﯿﺴﺎﺗﮫ‬
‫ﺳﮩﺎگ رات ﻣﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻊ ﻣﻞ رﮨﺎ ﺗﮭﺎ۔۔ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﯽ اﻧﮑﮭﻮں ﭘﺮ‬
‫ﮐﭙﮍا ﺑﻨﺪﮬﮯ ﮐﺎ ﻣﻄﻠﺐ ﺑﮭﯽ ﺳﻤﺠﮫ اﮔﯿﺎ ﺷﺎﮨﺪ ﻧﮯ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﯽ‬
‫ﺑﻨﺪ ﻟﺒﻮں واﻟﯽ ﭘﻨﮏ ﭼﻮت ﭘﺮ ﻧﻈﺮ ﻣﺎری ﺗﻮ اس ﮐﮯ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ‬
‫ﺟﯿﺴﮯ ﭘﺎﻧﯽ اﮔﯿﺎ اس ﻧﮯ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﯽ ﭨﺎﻧﮕﯿﮟ ﮐﮭﻮﻟﯿﮟ اور ﻣﮩﺮو‬
‫ﻧﮯ اﺳﮑﯽ ﮐﻤﺮ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺗﮑﯿﮧ رﮐﮭﺎ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﯽ ﭼﻮت‬
‫اوﭘﺮ اﭨﮫ ﮔﺊ اور ﺷﺎﮨﺪ ﻧﮯ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﯽ ﭼﻮت ﭘﺮ زپ ﮐﮭﻮل ﮐﺮ‬
‫اﭘﻨﺎ ﻟﻨﮉ رﮔﮍﻧﺎ ﺷﺮوع ﮐﺮدﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﻨﮉ ﮐﺎ ﻟﻤﺲ ﭘﺎﺗﮯ ﮨﯽ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﮯ‬
‫ﮔﻮرے وﺟﻮد ﻣﯿﮟ ﮐﺮﻧﭧ ﺳﺎ دوڑ ﮔﯿﺎ ﺷﺎﮨﺪ ﻧﮯ اﭘﻨﺎ ﻟﻨﮉ ﻋﻠﯿﺸﺎہ‬
‫ﮐﯽ ﭘﻨﮏ ﭼﻮت ﮐﯽ ﮐﻠﭧ ﭘﺮ رﮐﮭﺎ اور ﮨﻠﮑﺎ ﺳﺎ اﻧﺪرﮐﯽ ﻃﺮف‬
‫دﺑﺎﯾﺎ ﺗﻮ اﺳﮑﮯ ﻟﻨﮉ ﮐﯽ ﮐﯿﭗ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﯽ ﺗﻨﮓ ﭼﻮت ﻣﯿﮟ ﭼﻠﯽ‬
‫ﮔﺌﯽ اور وہ درد ﺳﮯ ﺳﻤﭧ ﮔﺊ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ااااااف ااااہ ﻣﻤﻤﻤﻢ‬
‫ﻓﻔﻔﻔﻒ ﻓﯿﺼﻞ ﺗﻤﮩﺎرا ﺳﭙﺎڑہ ﺑﮩﺖ ﻣﻮﭨﺎ ﮬﮯ دﮬﯿﺮے دﮬﯿﺮے ﮐﺮو‬
‫ﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﺎﮔﯽ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﺟﺎرﮨﯽ۔۔ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﻧﮯ ﭼﯿﺨﺘﮯ ﮬﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ‬
‫ﺗﻮ ﺷﺎﮨﺪ رک ﮔﯿﺎ اور ﮐﭽﮫ دﯾﺮ اﭘﻨﮯ اﮔﮯ ﻟﯿﭩﯽ ﮬﻮﺋﯽ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﮯ‬
‫ﮔﻮرے ﮔﻮرے ﻣﻤﮯ دﺑﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﮯ ﮔﻮرا ﺑﺪن اور ﺑﺮاؤن‬
‫ﻧﭙﻠﺰ اﭘﻨﯽ اﻧﮕﻠﯿﻮں ﺳﮯ ﭼﮭﯿﮍﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﯿﺎ ﺑﺪن ﺗﮭﺎ ﮬﮯ اس‬
‫ﻣﺮﺟﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ ﺧﻮاب ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻮﭼﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ‬
‫اس ﮔﻮری ﻣﯿﻢ ﮐﻮ ﭼﻮدوں ﮔﺎ اور اﺳﮑﮯ ﺟﺴﻢ ﺳﮯ راﺣﺖ‬
‫ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﺳﮑﻮں ﮔﺎ۔۔۔ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﻮ ﻣﮩﺮو ﻧﮯ اواز دی ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﺗﻢ‬
‫ﺗﯿﺎر ﮬﮯ اب اور ڈال دﯾﮟ ﺗﻮ وہ ﺑﻮﻟﯽ ﮨﺎں ﻓﯿﺼﻞ ﮐﻮ ﺑﻮﻟﻮ اب‬
‫ﻣﺖ رﮐﻮ اور ﻣﯿﺮی درد ﮐﯽ ﭘﺮواہ ﻣﺖ ﮐﺮﯾﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﻣﯿﺮی ﺳﯿﻞ‬
‫ﺗﻮڑ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺳﮩﺎﮔﻦ ﮐﺮ دﯾﮟ ﻣﮩﺮو ﻣﺴﮑﺮاﮨﭧ ﮐﯿﺴﺎﺗﮫ ﺑﻮﻟﯽ‬
‫اﭼﮭﺎ ﺟﯽ ﺑﺲ ﺗﮭﻮڑا ﮨﻤﺖ ﺳﮯ ﮐﺎم ﻟﯿﻨﺎ اور ﺗﻢ اﭘﻨﮯ اس ﻣﺮد‬
‫ﺳﮯ ﮨﺎر ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﻨﺎ ﺑﮭﺎﺋﯽ اب ڈاﻟﯿﮟ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﺗﯿﺎر ﮬﮯ ﺗﻮ ﺷﺎﮨﺪ‬
‫ﻧﮯ ﻣﮩﺮو ﮐﺎ اﺷﺎرہ ﭘﺎﺗﮯ ﮨﯽ اﭘﻨﮯ ﻟﻨﮉ ﮐﺎ دﺑﺎؤ اﺳﮑﯽ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ‬
‫ﭼﻮت ﭘﺮ دﺑﺎ دﯾﺎ ﺗﻮ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﯽ ﮐﻤﺮ درد ﮐﯽ وﺟﮧ ﺳﮯ اوﭘﺮ اﭨﮫ‬
‫ﮔﺌﯽ ﺟﺴﮯ ﺷﺎﮨﺪ ﻧﮯ اﯾﮏ زور دار ﮔﮭﺴﺎ ﻣﺎرا ﮐﺮ ﻧﯿﭽﮯ ﻣﯿﭩﺮس‬
‫ﭘﺮ ﻧﯿﻢ دراز ﮐﺮ دﯾﺎ اس ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮐﮧ ﭼﺪاﺋﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﺗﺠﺮﺑﮧ ﮐﺎر‬
‫دﻟﮩﻦ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﭽﮫ ﺳﻤﺠﮭﺘﯽ ﺗﻮ ﺷﺎﮨﺪ ﻧﮯ اﺳﮯ ﺳﻨﺒﮭﻠﻨﮯ ﮐﺎ‬
‫ﻣﻮﻗﻊ ﮨﯽ ﻧﮩﯿﮟ دﯾﺎ اور ﺗﯿﺴﺮا ﮔﮭﺴﺎ ﻣﺎر دﯾﺎ ﺟﺲ ﺳﮯ اﺳﮑﺎ ﻟﻨﮉ‬
‫ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﯽ ﺳﯿﻞ ﺗﻮڑﺗﺎ ﮬﻮا ﭼﺎر اﻧﭻ اﺳﮑﯽ ﭼﻮت ﻣﯿﮟ ﮔﮭﺲ‬
‫ﮔﯿﺎ وہ درد ﮐﯽ ﺷﺪت ﺳﮯ ﭼﯿﺦ ﭘﮍی ااااہ اف ﻣﻤﻤﻤﻢ ﻣﻤﻢ ﻣﺎں‬
‫ﻣﯿﮟ ﻣﺮﮔﺌﯽ ﯾﮧ ﻓﯿﺼﻞ ﺗﯿﺮا اﺗﻨﺎ ﻣﻮﭨﺎ ﮐﯿﺴﮯ ﮬﻮ ﮔﯿﺎ ﯾﮧ ﺗﻮ ﻣﯿﺮی‬
‫ﭼﻮت ﭘﮭﺎڑ دے ﮔﺎ ﻣﻤﻤﻢ ﻣﻤﻤﻢ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮬﻮﮔﺎ ﭘﺮ اﺳﮯ‬
‫ﮐﯿﺎ ﻣﻌﻠﻮم اس ﭘﺮ ﻓﯿﺼﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﺷﺎﮬﺪ ﭼﮍﮬﺎ ﮬﻮا ﮬﮯ اور اس‬
‫ﮐﯽ اﻧﮑﮭﻮں ﭘﺮ ﭘﭩﯽ ﺑﺎﻧﺪﮬﻨﮯ ﮐﺎ ﯾﮩﯽ ﻣﻘﺼﺪ ﮬﮯ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﯽ‬
‫ﺳﺴﮑﺎرﯾﺎں ﭘﻮرے روم ﻣﯿﮟ ﮔﻮﻧﺞ رﮨﯿﮟ رﮨﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ ﮐﻤﺮے ﻣﯿﮟ‬
‫ﺳﺮدی ﮐﯽ وﺟﮧ ﺳﮯ ﮨﯿﭩﺮ ﭼﻞ رﮨﺎ ﺗﮭﺎ اور ﺑﯿﮉ ﭘﺮ ﻟﯿﭩﯽ ﮬﻮﺋﯽ‬
‫ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﯽ ﭼﻮت ﺧﻮن ﺳﮯ ﻻل ﮬﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ اﺳﮑﯽ ﺟﮭﻠﯽ‬
‫ﭘﮭﭩﻨﮯ ﺳﮯ ﺟﻮ ﺧﻮن ﻧﮑﻼ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ اﺳﮯ دﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻣﮩﺮو ﮐﻮ اﭘﻨﯽ‬
‫ﭘﮩﻠﯽ ﭼﺪاﺋﯽ ﯾﺎد اﮔﺊ ﺗﮭﯽ ﺟﺐ ﻓﯿﺼﻞ ﻧﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎر اﺳﮑﯽ‬
‫ﭼﻮت ﮐﯽ ﭘﯿﺎس ﺑﺠﮭﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ۔۔ ﻣﮩﺮو ﻧﮯ ﺷﺎﮨﺪ ﮐﻮ اﺷﺎرے ﺳﮯ‬
‫ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ اب ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﻮ ﭘﻮرا ﮨﯽ ڈال دو ﺗﻤﮩﺎرا ﻟﻦ اب ﺟﮕﮧ‬
‫ﺑﻨﺎ ﭼﮑﺎ ﮬﮯ اور ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﺑﮭﯽ اب ﺳﻨﺒﮭﻞ ﭼﮑﯽ ﮬﮯ ﺷﺎﮬﺪ ﻧﮯ‬
‫ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﮯ ﮐﻨﺪﮬﮯ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ اﯾﮏ زور دار دﮬﮑﺎ ﻣﺎرا اور اﭘﻨﺎ ﻟﻨﮉ‬
‫ﺟﮍ ﺗﮏ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﯽ ﭼﻮت ﻣﯿﮟ اﺗﺎر دﯾﺎ اس ﺑﺎر ﭼﻮت ﮐﻮ ﺷﺎﯾﺪ‬
‫زور ﮐﯽ ﻟﮕﯽ ﺗﮭﯽ اﺳﯽ ﻟﯿﺌﮯ اﯾﮏ ﺑﺎر ﺗﻮ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﯽ اﯾﮏ زور‬
‫دار ﭼﯿﺦ ﻧﮑﻠﯽ ااااہ ہ ﺳﮉڈ ڈﺳﺴﺴﺴﺴﺲ ﺳﺴﺲ ﺳﺴﯽ‬
‫ﻣﻤﻤﻤﻢ ﻣﻤﻢ ﻣﻤﻤﻢ ﻣﯿﮟ ﻣﺮ ﺟﺎوﻧﮕﯽ ﺗﺘﺘﺖ ﺗﻢ اج ﮐﯿﺎ ﮐﮭﺎ ﮐﺮ اﺋﮯ‬
‫ﮬﻮ اﻣﻤﻢ اااہ ﺗﺖ ﺗﻢ ﺑﮩﺖ ﻇﺎﻟﻢ ﮬﻮ ﻓﯿﺼﻞ اس ﻧﮯ ﺳﺴﮑﺎرﯾﺎں‬
‫ﻟﯿﺘﮯ ﮬﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﻣﮕﺮ اﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﻣﻌﻠﻮم ﺗﮭﺎ اﺳﮯ ﭼﻮدﻧﮯ واﻻ ﻓﯿﺼﻞ‬
‫ﻧﮩﯿﮟ ﺷﺎﮨﺪ ﮬﮯ اور ﻣﮩﺮو اﺳﮑﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺘﻨﯽ ﺑﮍی ﮔﯿﻢ ﮐﺮ ﮔﺌﯽ‬
‫ﮬﮯ ﺷﺎﮨﺪ ﻧﮯ اﭘﻨﮯ ﮬﻮﻧﭧ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﮯ ﮨﻮﻧﭩﻮں ﭘﺮ رﮐﮫ دﺋﯿﮯ ﺟﺴﮯ‬
‫ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﻗﺒﻮل ﮐﺮﺗﮯ ﮬﻮﺋﮯ ﭼﻮﺳﻨﺎ ﺷﺮوع ﮐﺮ دﯾﺎ ﺗﮭﺎ وہ‬
‫اب ﭘﻮری ﻃﺮح ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﮯ اوﭘﺮ ﺳﻮار ﮬﻮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ﺟﺴﮑﯽ‬
‫وﺟﮧ ﺳﮯ دوﻧﻮں ﮐﮯ ﮔﺮم ﺟﺴﻢ ﻣﺲ ﮬﻮ رﮨﮯ ﺗﮭﮯ دوﺳﺮی ﻃﺮف‬
‫ﻟﻨﮉ اور ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﯽ ﭼﻮت ﮐﯽ ﺗﺎل ﻣﯿﻞ ﺑﻦ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﺷﺎﮨﺪ ﮐﻮ‬
‫اﺳﮑﺎ اﻧﺪازہ ﮬﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ اﺳﯽ ﻟﺌﯿﮯ اس ﻧﮯ اﭘﻨﺎ ﻟﻨﮉ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﯽ‬
‫ﺗﻨﮓ ﭼﻮت ﮐﮯ اﻧﺪر ﺑﺎﮨﺮ ﮐﺮﻧﺎ ﺷﺮوع ﮐﺮ دﯾﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﺰے اور ﻟﺬت‬
‫ﺳﮯ ﺳﺮﺷﺎر ﺷﺎﮬﺪ اﭘﻨﺎ ﭘﻮرا ﻟﻦ ﻧﮑﺎﻟﺘﺎ اور ﭘﮭﺮ اﻧﺪر ڈال دﯾﺘﺎ‬
‫ﺟﺲ ﺳﮯ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻣﺰہ اﻧﮯ ﻟﮕﺎ اور وہ ﺑﮭﯽ اﭘﻨﯽ ﮐﻤﺮ‬
‫اﭼﮭﺎل اﭼﮭﺎل ﮐﺮ ﺷﺎﮨﺪ ﮐﮯ دﮬﮑﻮں ﮐﺎ ﺟﻮاب دﯾﻨﮯ ﻟﮕﯽ ﻋﻠﯿﺸﺎہ‬
‫ﮐﯽ ﺗﻨﮓ ﭼﻮت ﻧﮯ ﺷﺎﮨﺪ ﮐﮯ ﻟﻨﮉ ﮐﻮ ﺟﮑﮍ رﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﻣﮩﺮو ﺑﮍے‬
‫ﻏﻮر ﺳﮯ اﭘﻨﯽ ﺑﮭﺎﺑﮭﯽ ﮐﯽ ﭼﻮت ﻣﯿﮟ ﻟﻨﮉ اﺗﺎ اور ﺟﺎﺗﺎ دﯾﮑﮭﯽ‬
‫ﺟﺎرﮨﯽ ﺗﮭﯽ اﺳﮯ ﺑﮭﯽ اب ﻣﺰہ ارﮨﺎ ﺗﮭﺎ اﺳﯽ دوران ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﻮ‬
‫اﭘﻨﯽ ﭼﻮت ﻣﯿﮟ ﺷﺎﮨﺪ ﮐﺎ ﮔﺮم ﮔﺮم ﭘﺎﻧﯽ ﮔﺮﺗﺎ ﮬﻮا ﻣﺤﺴﻮس‬
‫ﮬﻮﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺗﻮ اس ﮔﺮﻣﯽ ﮐﯽ وﺟﮧ ﺳﮯ اس ﻧﮯ ﺑﮭﯽ اﭘﻨﺎ ﭘﺎﻧﯽ‬
‫ﭼﮭﻮڑ دﯾﺎ اﺳﮯ ﻧﮯ زور ﺳﮯ ﺷﺎﮨﺪ ﮐﺮ اﭘﻨﮯ ﺳﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﻟﮕﺎ دﯾﺎاور‬
‫دوﻧﻮں ﻧﮉﮬﺎل ﮬﻮ ﮐﺮ اﯾﮏ دوﺳﺮے ﭘﺮ ﮔﺮ ﮔﺌﮯ اج ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎر‬
‫ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﻮ ﺗﻦ ﮐﺎ ﺳﮑﮫ ﻣﻼ ﺗﮭﺎ اور اس ﻧﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﺳﺐ‬
‫ﮔﮩﺮاﺋﯿﻮں ﮐﻮ ﻣﺎپ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ اﺳﮑﯽ اﻧﮑﮭﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﻞ رﮨﯿﮟ ﺗﮭﯿﮟ‬
‫ﺷﺎﮨﺪ ﺟﮭﭧ ﺳﮯ اﺳﮑﮯ اوﭘﺮ ﺳﮯ اﺗﺮ ﮔﯿﺎ اور اﺳﮑﯽ ﺟﮕﮧ اﭘﻨﺎ ﻟﻨﮉ‬
‫ﭘﮭﻨﺴﺎ ﮐﺮ ﻓﯿﺼﻞ ﻟﯿﭧ ﮔﯿﺎ اور ﻣﮩﺮو ﻧﮯ اﭘﻨﯽ ﭘﻼﻧﻨﮓ ﭘﻮری ﮬﻮﻧﮯ‬
‫ﭘﺮ ﻋﻠﯿﺸﺎہ ﮐﯽ ﭘﭩﯽ ﮐﮭﻮل دی ﺗﺐ اس ﻧﮯ دﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﻓﯿﺼﻞ‬
‫ﮨﺎﻧﭗ رﮨﺎ ﮬﮯ ﻣﯿﺮے ﭘﺎس ﻧﺎﻣﻮر ﻟﮑﮭﺎرﯾﻮں ﮐﯽ ﮨﺮ ﻃﺮح ﮐﯽ‬
‫ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮد ﮨﯿﮟ ﺟﺴﮯ اپ وﭨﺲ اﯾﭗ ﭘﺮ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﮯ‬
‫ﮨﯿﮟ‬
‫‪ ‬اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‪#‬‬

‫صفحہ_‪#39‬‬

‫تم مجھے پھنسانے کی ترکیب لڑاؤ‬

‫میں تمہاری ہونے کے یے راضی ہوں‬

‫شام کا یہ کتنا ہی حسین منظر تھا کہ فیصل‬


‫سامنے اس کی دلہن اپنے سیکسی جسم کے‬
‫ساتھ سہاگ کی سیج پر ننگی لیٹی ہوئی‬
‫تھی اور اس کے پیٹ پر اسکے شوہر کی منی‬
‫صاف نظر آ رہے تھی فیصل نے اپنی بیوی‬
‫علیشاہ کو چود کر منی اس کے پیٹ پر ہی‬
‫گرا دی تھی اس نے ایک بار نظر بھر کر اپنی‬
‫‪ ‬وائف کو دیکھا تو اسے بہت پیار آنے لگا‬

‫فیصل سے رہا نہ گیا اور اس نے اپنا لن ایک‪ ‬‬


‫بار پھر اپنی بیوی کی پھدی کے اندر ایک ہی‬
‫جھٹکے سے ڈاال اور اس کے اوپر لیٹ کر اس‬
‫کے ہونٹ چومنے لگا علیشاہ‪  ‬جو کہ اپنی‬
‫دوسری چدائی کے بعد سے بہت مست اور‬
‫سکون میں تھی شدت کے ساتھ اپنے شوہر‬
‫کے ہونٹوں کو چومنے لگی اور اسے اپنے گلے‬
‫سے لگا لیافیصل کچھ دیر اپنی بیوی کے‬
‫ہونٹ چومنے کے بعد اوپر اٹھا اور اس کے‬
‫مموں کے ساتھ کھیلتے ہوئے بوال ۔۔۔‬

‫فیصل‪  ‬کیسا لگا آپ کو مزا آیا‪  ‬آپ سوچ‬


‫بھی نہیں سکتی کہ مجھے کتنی محبت ہے‬
‫آپ سے اور میں کتنا تڑپتا رہا ہوں آپ کو‬
‫چھونے کے لئے آپ سے اپنی محبت کا اظہار‬
‫کرنے کے لیے میں اس لئے آج میں بہت خوش‬
‫ہوں کہ مجھے آخر کار آپ مل ہی گئیں ۔۔۔‬
‫میں جانتا ہوں آپ میری ہی ھو اور میں آپ‬
‫کا شوہر ہوں لیکن مجھے کسی قسم کی‬
‫کوئی اب جھجک نہیں اور شرم نہ ہی کسی‬
‫چیز کی کوئی پرواہ ہے مجھے جو چاہیے تھا‬
‫وہ مجھے مل گیا ہے اور علیشاہ اگر آپ نے‬
‫مجھے اپنا لیں تو یقین مانئیے میں آپ کو‬
‫خوش کر دیا کروں گا اور آپ کی ہر ضرورت‬
‫کیا پورا کروں گا اور آپ کو اتنا پیار دوں گا‬
‫کہ آپ کی زندگی میں کبھی کسی چیز کی‬
‫کمی نہیں ہونے دوں گا میں اب مکل فٹ ھو‬
‫گیا ھوں‬

‫علیشاہ اٹھی اور فیصل کے سامنے پیار سی‬


‫گھوڑی بن گئ اور فیصل نے خون سے گندہ‬
‫ھوا کپڑا کمرے میں موجودہ‪  ‬ڈسٹ بین میں‬
‫پھینک دیا اور علیشاہ کو بوال تم تیار ھو تو‬
‫وہ بولی پہلے تو تم نے مجھے تڑپا تڑپا کر‬
‫چودا ھے اب اجازتیں مانگ رہے ھیں فیصل‬
‫ایک پھیکی مسکراہٹ کیساتھ ہنسا جیسے‬
‫کہہ رہا ھو میں تو اس خزانے کو اب پانے لگا‬
‫ھوں تو تم طنز کر رہی ھو‬
‫فیصل نے اپنا ہاتھ علیشاہ کی کمرپر پھیرتے‬
‫ھوئے اسکے پیچھے سے اسکی گوری کمر کو‬
‫پکڑ کر ایک زور دار گھسا مارا اور اپنا سارا‬
‫لنڈ علیشاہ کی چوت میں دھکیل دیا وہ‬
‫صوفے پر گھوڑی بنی تھی اور جب فیل نے‬
‫دوسرا گھسا مارا تو درد سے صوفے پر جا‬
‫گری اور مگر فیصل نے علیشاہ کو ایک بار‬
‫پھر فیصل نے اسے اٹھایا اور صوفے پر اسکو‬
‫اپنے ہاتھ پکے کرکے جھکنے کو کہا اسے‬
‫گھوڑی بننا نہیں اتا تھا مگر اس کو مہرو نے‬
‫سکھایا تھا کہ مرد کے اگے گردن جھکا کر‬
‫اپنی گانڈ اوپر کرکے پرفارمنس دینے کو‬
‫گھوڑی بن جانا کہتے ھیں علیشاہ کی چوت‬
‫میں اب لنڈ اسانی سے اندر باہر ھونے لگا تھا‬
‫فیصل کو اپنی جوان بیوی کی چوت بہت‬
‫پسند ائی تھی‬

‫دوسری طرف شاہد نے مہرو کو کس کرنا‬


‫شروع کر دیا تھااور اسکی چھاتیوں کو پیار‬
‫سے سہالنا شروع کردیا تھا مہرو اپنے کمرے‬
‫میں موجود تھی کمرے میں روشنیوں سے‬
‫جگ مگ تھی تو دوسری طرف مہرو بھی‬
‫اپنی جوانی کا جلوہ بکھیرنے کوتیار تھی‬
‫اور مہرو کو شاھد بوال بہت سوفٹ ہیں‬
‫‪ ‬تمہارے بوبز کیا کھاتی ھو‬

‫مہرو ہنس کر شرماتے ہوئے وہی جو تم کھاتے‬


‫ھو شاہد مگر میرا تو بہت ہارڈ ھے مہرو وہ‬
‫تو میں نے دیکھ ہی لیا کیا حالت کردی میری‬
‫بھابھی کی شاہد پہلی بار تو ایسا ہی ھوتا‬
‫ھے تمہاری بھی تو فیصل نے ایسے ہی سیل‬
‫توڑی ھوگی مہرو شرم سے الل ھو گئ اور‬
‫بولی کہ تم بہت شرارتی ھو ہمیشہ میری‬
‫چوت لینے کے چکر میں رہے ھو شاہد تو تم‬
‫دیتی بھی تو نہیں ھو کتنی بار کہا ھے صرف‬
‫ایک بار دے دو پھر چاہے نہ دینا مہرو کیوں‬
‫ایسی کیا بات ھے میری چوت میں جو تم‬
‫اسکے لیئے باولے ھو رہے ھو مہرو کے منہ سے‬
‫چوت کالفظ سن کر شاہد کے لنڈ نے ایک بار‬
‫پھر انگڑائی لی اور وہ بوال میں بھی تو‬
‫دیکھوں کونسا ورک چڑھا ہے تیری چوت پر‬
‫جو تم دے نہیں رہی مہرو شاہد کا لنڈ پکڑ کر‬
‫اس پر چٹکی کاٹتے ھوئے بولی چاندی کا‬
‫ورک چڑھا ھے اس پر اور اب‪  ‬وہ ورک میرا‬
‫شوہر ہی اتارے گا اور وہ یہ کہہ کر فیصل‬
‫کے روم کی طرف بھاگ گئی۔‬

‫اس نے ڈور دھیرے سے اوپن کیا اور اندر‬


‫دیکھا تو اسکا تو فیصل صوفے پر لیٹا ھوا‬
‫تھا جبکہ اسکی بھابھی علیشاہ فیصل کے‬
‫لن پر اچھل کود کر رہی تھی مہرو ہنس کر‬
‫واپس اگئی اور سوچنے لگی کہ اس کا‪ ‬‬
‫اناڑی بھائی اب کھالڑی بن گیا ھےاب مہرو‬
‫کا مشن تو پورا ھوگیا تھا مگر جسم نے‬
‫پرائے مرد کی تپش مانگ لی تھی اور مہرو‬
‫بھی اس نئے پاٹنر سے خراج تحسین وصولنا‬
‫چاہتی تھی شاہد بھی شاید مہرو کی ان‬
‫اداوں سے روشناس ھونا چاہتا تھا‬
‫مہرو واپس اپنے روم میں داخل ھوئی اور‬
‫اس نے دیکھا کہ شاہد اسکے بیڈ پر بیٹھا‬
‫ترکی کا ایک ڈرامہ ارتغل دیکھ رہا تھا جو‬
‫اسے بہت پسند تھا مہرو نے اس کے پاس‬
‫بیٹھتے ھوئے ریموڈ چھین لیا اور بولی اوہ‬
‫تیری میں تو بھول ہی گئی یار اج پاکستان‬
‫اور افغانستان کا پول میچ ھے ورلڈ کپ ٹی‬
‫ٹوئنٹی مہرو‪  ‬کو کرکٹ سے بہت دلچسپی‬
‫رہی تھی اس نے پی ٹی وی پر میچ لگایا تو‬
‫پاکستان کو چوبیس رنز درکار تھے اور بارہ‬
‫بال باقی تھے مہرو تم اب میچ کو لگا کر‬
‫بیٹھ گئ میں نے گھر بھی جانا ھے شاھد نے‬
‫اسکی رانوں پر ہاتھ پھیرتے ھوئے کہا تو‬
‫مہرو بولی تم اب کہیں نہیں جاوگے میں‬
‫انٹی کو کال کر دوں گی کہ ھم گھر پر اکیلے‬
‫ھیں اس لئیے تم اج یہیں پر سوجاوگے‬
‫ھمارے ساتھ ابھی میچ دیکھنے دو پھر‬
‫‪ ‬کرتی ھوں تمہارا کچھ بندوبست‬

‫دبئی کرکٹ سٹیڈیم میں افغانستان کے‬


‫سپورٹرز اور بھارت کے سپورٹرز بہت خوش‬
‫تھے اور وہ افغان ٹیم کا حوصلہ افزائی کر‬
‫رہے تھے کہ پاکستان میچ ہار جائے اور ہمارا‬
‫بدلہ افغانستان لے لے تب پاکستان‪  ‬کے اصف‬
‫علی نے افغانستان کے باولر کر یم جنت کو‬
‫چار چھکے مارے تو پاکستان میچ جیت گیا‬
‫خوشی کے مارے مہرو شاہد کے گلے لگ گئ‬
‫اور بولی دیکھا کیسا مزا چکھایا پاکستان‬
‫نے‪ ‬ان کو۔۔۔‬
‫جاری ہے……‬

‫خوبصورت_فیملی_انسیسٹ_ناول_خوفنا‪#‬‬
‫ک_ناول_محبت_بھری_داستانیں اورکہانیاں‬
‫پڑھیں وٹس ایپ پر محدود چارجز ادا کرکے‬
‫فری والے لوگ دور رھیں ایسے لوگ جو ناول‬
‫لکھنا چاہتے ھیں تو ھم سے رابطہ کریں آپ‬
‫اپنی زندگی پر مبنی داستان بھی لکھوا‬
‫سکتے ھیں بیرون ملک پاکستانی بھی وٹس‬
‫ایپ پر اپنے پسندیدہ‪  ‬ناول اور کہانیاں پڑھ‬
‫رہے ھیں‬
‫‪ ‬اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‪#‬‬

‫صفحہ_‪#40‬‬

‫شاہدنے مہروسے کہا کہ تم اب مجھے بھی‬


‫مزہ چکھاو تو مہروبولی یار دیکھو میں نے‬
‫تجھے اسی لئیے تو بالیا ھے اج تمہارا جوش‬
‫بھی ٹھنڈا کردوں گی مہرو شاہد کے گلے لگ‬
‫گئی اور پھر دونوں نے اپنے ھونٹ ایک‬
‫دوسرے کے ھونٹوں پر رکھ دئیے اور کس‬
‫کرنے لگے شاھد نے مہرو کی شرٹ اتار دی‬
‫جسے اتارنے میں خود مہرو نے اسکی مدد‬
‫کی اور اپنے بازو اوپر کر دئیے‬

‫مہرو نے نیچے کالے رنگ کی برا پہنی ھوئی‬


‫تھی پتلی کمر اسکے ساتھ لگا ھوا چھوٹا سا‬
‫پیٹ اور گورابدن دیکھ کر شاہد کی انکھیں‬
‫چمک گئیں مہرو بولی ایسے کیا دیکھ رہے ھو‬
‫شاھد تو اس نے جواب دیتے ھوئے کہا‬
‫سوچتا ھوں یہ خزانہ نہ جانے کس کے مقدر‬
‫میں ھوگا تو مسکراہٹ کیساتھ مہرو بولی‬
‫ابھی تو یہ بکری تمہارے چھرے کے نیچے انے‬
‫والی ھے اور پھر یہ سمیر کے مقدر میں لکھ‬
‫دی جائے گی شاہد نے مہرو کی برا کی سٹرپ‬
‫کو کھول دیا اسی کے ساتھ اسکا گورا بدن‬
‫براؤن نپل قہر ڈھاتے ھوئے سامنے ا گئے مہرو‬
‫نے بھی گلے لگاتے ھوئے شاھد کی پینٹ نکال‬
‫دی اور اسکا انڈر وئیر نکال کر اس کا لن پکڑ‬
‫کر بڑے رومانٹک انداز میں بولی بہت مان‬
‫ھے تجھے اس لن پر دیکھو اج میری چوت‬
‫اس کو کیسے نچوڑتی ھے‪  ‬شاہد نے بوال‬
‫نچوڑنے سے پہلے تمہار ی چوت بھی سوج‬
‫چکی ھوگی‬

‫مہہرو نے شاھد کے لنڈ پر ایک کس کی اور‬


‫اسے سہالتے ھوئے بولی بہت سنبھاال ھے اسے‬
‫تم نے دیکھو سانپ کی طرح اپناپھن‬
‫پھیالئے تیار کھڑا ھے شاہد مہرو کا سر اپنے‬
‫لن پر دباتے ھوئے بوال کہ یہ تیار کس لئیے‬
‫کھڑا ھے تو مہرو بولی یہ ناگ میری چوت کو‬
‫ڈس کر اپنا زہر ادھر منتقل کرنا چاہتا ھے‬
‫شاہد تو تم بھی تو خوشی کے ساتھ اسے‬
‫ڈسنے دوگی مہرو شرماتے ھوئے بولی جی‬
‫میں تیار ھوں تم اسے راستہ دکھادو۔۔‬

‫شاھد نے مہرو کو اسکے بیڈ پر چت لٹاتے‬


‫ھوئے کہا مجھے اس دن کا بہت انتظار تھا‬
‫تو مہرو بولی دیکھ لو پھر یہ مبارک گھڑیاں‬
‫ا ہی گئیں جیسے ہی شاہد کی انگلیاں مہرو‬
‫کی ٹائٹس کے اندر پیٹ کے نچلے حصے پر‬
‫سرکنے لگیں تو اسے احساس ہونے لگا کہ‬
‫مہرو کی چوت پر ایک بھی بال نہیں ہے‪  ‬اور‬
‫اسکی چوت بلکل مالئم اور چکنی ہےشاہد نے‬
‫ایک ہی بار میں مہرو کی چوت کو اپنی‬
‫مٹھی میں بھر لیا۔۔ اور اسے زور سے بھینچ‬
‫دیا۔۔ تو مہرو تڑپ ُا ٹھی۔۔ سسک ُا ٹھی۔۔اوچ‬
‫ککک کک کیا کررر رہے ھو یہ بہت نازک ھوتی‬
‫ھے‬

‫شاھد بوال ُا ف کیا چکنی چوت ہے آپکی مہرو‬


‫جی۔۔۔‬

‫وہ اچانک سے شاہد کی بانہوں میں گھوم‬


‫گئی ۔۔ اور اپنی بانہیں شاہد کے گلے میں ڈال‬
‫کر اس سے لپٹ گئی اور اسکے ہونٹوں کو‬
‫چومنے لگی اسکو اپنی بانہوں میں بھینچتے‬
‫ہوئے۔۔ اب مہرو پر بھی ہوس سوار ہونے لگی‬
‫تھی اسے ایک جوان غیر جسم کا لمس اسے‬
‫سب کچھ بھالئے جا رہا تھا۔۔ وہ بھولتی جا‬
‫رہی تھی کہ شاہد نے اسے اسکی ٹانگیں‬
‫اٹھانے کا چیلنج کیا تھا۔ وہ بھول رہی تھی‬
‫کہ اسکا ایک بہت ہی خوبصورت اور بہت‬
‫پیار کرنے واال بھائی بھی ہے۔۔ وہ بھول رہی‬
‫تھی کہ وہ اپنی مرضی سے کیوں کر رہی ھے‬
‫وہ بھول رہی تھی کہ یاد تھا تو بس اس‬
‫مرد کا جسم جسکی وہ بانہوں میں تھی ۔۔‬
‫جس مرد کا لوڑا اسکی چوت کی کھڑکی پر‬
‫دستک دے رہا تھا۔۔ اس سے اندر داخلے‬
‫کیااجازت مانگ رہا تھا۔۔‬

‫شاھد نے مہرو کی کمر کو سہالتے ہوئے‬


‫اسکی برا کا ہک کھول دیا۔۔ اور مہرو کی‬
‫ٹائٹ برا اسکے جسم پر جھول گئی اس نے‬
‫اپنے جسم کو اس سے تھوڑا سا دور کرتے‬
‫ہوئے اسکی برا کو بھی اسکے جسم پر سے‬
‫الگ کر دیا ۔۔ اور مہرو کی ننگی چھاتیوں کو‬
‫اپنے سینے سے لگا لیا۔۔ اور اسکے ہونٹوں کو‬
‫چومنے لگا۔۔ مہرو کی تیز سسکاریاں اب‬
‫شاھد کے ہونٹوں میں دبتی جا رہی تھیں ۔۔۔۔‬
‫مہروکے تنے ہوئے نپل شاھد کے سینے میں‬
‫پیوست ہورہے تھے۔۔مہرو یہی ممے تھے جسے‬
‫میں چومنا چاہتا تھامہرو شرماتے ھوئے‬
‫جانتی ھوں میں اج کی رات میں تمہیں نہیں‬
‫روکوں گی اج میں تمہارے ساتھ سہاگ رات‬
‫مناوں گیکچھ دیر ایسے ہی کھڑے رہ کر ایک‬
‫دوسرے کو چومنے کے بعد شاہد نے مہرو کے‬
‫نڈھال ہوتے ہوئے جسم کو بیڈ پر دھکیال اور‬
‫خود بھی اس پر جھک کر اسکے ایک نپل کو‬
‫اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگا کبھی اپنے‬
‫دانتوں سے آہستہ آہستہ کاٹنے لگا‬
‫مہرو‪  ‬کا تو اب بے چینی سے برا حال ہو رہا‬
‫تھا اسکی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ‬
‫وہ کیا کرے۔‬

‫پھر شاھد نے ہی اسکی مشکل دور کی اور‬


‫نیچے کہ سرک کر اسکی ٹانگوں کے بیچ میں‬
‫آگیا اس نے مہرو کی ٹانگوں کو پورا چوڑا‬
‫کیا تو مہرو کی چوت پر سے اسکی ٹائیٹس‬
‫کھنچ گئیں۔۔ وہ نیچے جھکااپنے دانتوں کو‬
‫مہرو کی ٹائیٹس کے کپڑے پر رکھااور اس‬
‫سے پہلے کہ مہرو کچھ سمجھ سکتی اس نے‬
‫اپنے دانتون سے مہرو کی ٹائٹس کو اسکی‬
‫چوت کے اوپر سے پھاڑ لیااور پھر اپنی‬
‫انگلیا ں اندر ڈال کر اس سوراخ کو کافی بڑا‬
‫کر دیا جس سے مہرو کی گوری گوری‬
‫کنواری چکنی چوت شاہد کی آنکھوں کے‬
‫سامنے ننگی ہو گئی۔۔۔‬

‫شاھد کو مہرو‪  ‬کی پنک چوت میں سے پانی‬


‫رستا ہوا نظر آرہا تھا وہ نیچے جھکا اور‬
‫اپنے ہونٹ مہرو کی گرم گرم پانی چھوڑتی‬
‫ہوئی چوت پر رکھ دیئے۔۔ اور اپنی زبان کو‬
‫جیسے ہی اسکی چوت پر چالیا تو مہرو نے‬
‫تڑپ کر اپنا ہاتھ اسکے سر پر رکھا اور اسکے‬
‫سر کو اپنی چوت پر دبا لیاشاہد اب بنا رکے‬
‫بنا اپنا منہ اٹھائےلپالپ مہرو کی چوت کو‬
‫چاٹ رہا تھا اور۔مہرو کی چوت میں سے‬
‫بہتے ہوئے امرت کو پیتا جا رہا تھا‬
‫مہرو اپنی آنکھیں بند کر کے سسک رہی تھی‬
‫ااااااہ ششش ششش شاھد بہت مزہ ارہا ھے‬
‫اسکے ہاتھوں کے ناخن شاھد کے کاندھوں‬
‫میں پیوست ہو رہے تھےمگر شاہد کو تو‬
‫کسی قسم کے درد کا احساس نہیں ہو رہا‬
‫تھا۔۔۔‬

‫شاہد نے اسی حالت میں ہی اپنے ہاتھ نیچے‬


‫لے جاکر اپنی پینٹ کھولی اور اسے انڈرویئر‬
‫سمیت نیچے سرکا دیا اسکا اکڑا ہوا لوڑا آزاد‬
‫ہو گیا کچھ دیر اور مہرو نساءکی چوت کو‬
‫چاٹنے اور اپنے لوڑے کو سہالنے کے بعد وہ‬
‫اوپر کو سرکنے لگا اس نے اوپر آکر اپنے‬
‫ہونٹ مہرو کے ہونٹوں پر رکھے ۔۔ اور نیچے‬
‫سے اپنا لوڑا مہرو کی پھٹی ہوئی ٹائیٹس‬
‫میں سے گھسا کر مہرو کی چوت پر رکھا‬
‫اور اسے آہستہ آہستہ اسکی چوت پر گھسنے‬
‫لگا‪  ‬اسکا لنڈ مہرو کی چوت کے پانی کی‬
‫وجہ سے پھسلتا جا رہا تھا شاہد مہرو کی‬
‫انکھوں میں دیکھتے ھوئے بوال ڈال دوں تم‬
‫تیار ھو تو مہرو نے شرم سے اپنی انکھیں بند‬
‫کرلیں اور کہا مممم مممم میں تت تیار ھوں‬
‫تم سما جاو مجھ میں مجھ سے اب نہیں رہا‬
‫جاتا‬

‫شاہ نے اپنا لوڑا مہرو کی چوت کے سوراخ‬


‫پر ٹکایا اور اسے چوت کے اندر دھکیلنے لگا‬
‫بے چین مہرو نے بھی اچانک سے اپنی دونوں‬
‫ٹانگوں کو ُا ٹھا کر شاہد کی کمر کے گرد لپیٹا‬
‫اور اسے اپنی طرف کھینچا شاہد کا پورا‬
‫لوڑا ایک ہی جھٹکے کے ساتھ مہرو کی تنگ‬
‫چوت میں اتر گیا اور مہرو کے منہ سے ایسی‬
‫سسکاری نکلی اور جیسے اسے نجانے کتنا‬
‫‪ ‬سکون مل گیا ہو‬

‫مہرو کی کمر کے نیچے ہاتھ ڈال کر شاہد‬


‫آہستہ آہستہ حرکت کرتے ہوئے اپنے لوڑے کو‬
‫مہرو کی چوت کے اندر باہر کرنے لگا شاھد کا‬
‫پورا لوڑا مہرو کی چوت کی گہرائی تک جاتا‬
‫اور مہرو کا مزے سے برا حال ہو جاتا وہ بے‬
‫قابو ہو کر شاہد کو اپنی طرف کھینچ رہی‬
‫تھی اور شاہد بھی دھنا دھن اپنے لوڑے کو‬
‫مہرو کی چوت کے اندر باہر کرتے ہوئے اسکی‬
‫چوت کو چود رہا تھا۔ مہرو اتنی گرم ہو‬
‫چکی ہوئی تھی وہ بھی اپنی کمر اچھال‬
‫اچھال کر اسکا جواب دینے لگی شاہد کے‬
‫جسم کے لمس اور اسکی چدائی سے کہ وہ‬
‫تیزی سے اپنی منزل کی طرف بڑھنے لگی‬
‫تھی اور کچھ ہی دیر میں اسکی چوت نے‬
‫پانی چھوڑ دیاشاہد اب مہرو کی چوت‬
‫اسکے لوڑے کو دباتی اور بھینچتی ہوئی‬
‫محسوس ہوئی۔‬

‫وہ رک گیا اس نے گھسے مارنے بند کر دیئے‪ ‬‬


‫اور مہرو کو اپنی منزل اور لذت پوری طرح‬
‫سے پا لینے کا ٹائم دیا اور دھیرے دھیرے‬
‫اسکے ہونٹوں کو چومنے لگا۔مہرو کا جسم‬
‫آہستہ آہستہ ڈھیال ہونے لگااور اس پر جیسے‬
‫غنودگی سی چھانے لگی اب ایک بار پھر‬
‫شاہد نے اپنے لوڑے کو اندر باہر کرتے ہوئے‬
‫اپنا پانی بھی مہرو کی چوت میں نکالنا‬
‫شروع کر دیا اپنے اندر گرم گرم پانی‬
‫محسوس کرتے ھوئے‬

‫مہرو کو تو جیسے اور بھی سکون مل گیا ہو‬


‫وہ تو وہیں پر ہی ڈھے سی گئی۔۔ اور اسے‬
‫پتہ بھی نہیں لگا کہ اسی غنودگی کی حالت‬
‫میں اسکی آنکھ لگ گٸ دونوں اپنے‬
‫کالئمیکس کو پہنچ چکے تھےمہرو شاھد کی‬
‫اغوش میں لیٹی ھوئی بہت پیاری لگ رہی‬
‫تھی اس نے مہرو کو شکست خوردہ لہجے‬
‫میں ہی کچھ ‪........‬دیر لیٹا رہنے دیا‬

‫جاری ہے‪....‬‬
‫‪ ‬اناڑی_دولہا_کھالڑی_بہن‪#‬‬

‫صفحہ_‪#41‬‬

‫السٹ سین‬

‫آ تجھے لمس کی لذت سے شناسائی دوں‬

‫پھر کسی روز بتاؤں گا محبت کیا ہے‬


‫مہرو جب لیٹ گئی اور شاہد ِپ ھر ایک دفعہ‬
‫اس کی ٹانگوں کے درمیان آ‪  ‬گیا اور اس کی‬
‫ٹانگوں کو اپنے کندھوں پے رکھ لیا اور اپنا‬
‫لن اس کی گوری کلین شیو‪  ‬کنواری پھدی‬
‫پے سیٹ کر کے پہلے ٹوپی کو اندر گھسایا تو‬
‫مہرو کی نرم چوت کے لبوں نے لن کی کیپ‬
‫جکڑ لی اور ِپ ھر شاہدباقی لن مہرو کے اندر‬
‫کرنے لگا وہ نیچے سے تھوڑا کسمسا رہی تھی‬
‫آہ آؤ چ آؤ چ آرام سے آپکا لوڑا بہت بڑا ھے‬
‫دھیرے سے ڈالوگے تو پھر بھی آرام اور مزہ‬
‫مل سکتا ھے سالی تم نے اور اس چوت نے‬
‫‪ ‬بہت تڑپایا ھے مجھے‬

‫اس کی پھدی ایسے لگ رہی تھی کے جیسے‬


‫لوہے کی بھٹی میں اپنا لن ڈال دیا ہو اور‬
‫اس کی پھدی ٹائیٹ بھی کافی تھی شاہد‬
‫نے دیکھا وہ پرسکون ھوگئ ھے تو اس نے‬
‫ایک زور دار گھسا مارا اور لن مہرو کی کی‬
‫چوت کی نرم دیواروں کو رگڑتا ھوا چوت‬
‫کی‪  ‬گہرائیوں تک چال گیا اف میں مرگئ‬
‫نکالو باہر باسٹر میں تجھے ختم کردونگی‬
‫اور جیسے جیسے شاھد کا لن اندر جا رہا تھا‬

‫وہ شاہد کے لن پے اپنی پھدی کی گرفت اور‬


‫ٹائیٹ کرتی جا رہی تھی مہرو کی چوت‬
‫سوج کر الل ھو چکی تھی شاید اسکا ارادہ‬
‫تھا شاہد جلد میدان چھوڑ کر نالہ باندھ لے‬
‫گا‪  ‬مگر اس سے شاہد کوایک الگ ہی سرور‬
‫مل رہا تھا‪ .‬جب شاہد کا لن تقریبًا ‪ 5‬انچ تک‬
‫اندر ُا َت ر چکا تھا تو مہرو نے اپنے ہاتھ شاہد‬
‫کے سینے پے رکھ دیئے اور بولی شاہد بس‬
‫اب اور اندر نہیں لے سکوں گی میری چوت‬
‫سوج چکی ھے اب یہاں تک ہی اندر باہر کرو‬
‫‪ .‬شاہد نے کہا جان تقریبًا سارا تو اندر جا‬
‫چکا ہے بس ‪ 1‬انچ ہی رہ گیا ہے تھوڑا اور‬
‫برداشت کر لو جب پورا اندر ہو جائے گا تو‬
‫جب ہم دونوں کا جسم جھٹکے لگنے سے ایک‬
‫دوسرے سے ملے گا تو ہم دونوں کو بہت‬
‫زیادہ مزہ آئے گا اور ایک دوسرے کے‬
‫جسموں کی گرمائش سے اور لطف آئے گا‬
‫‪.‬مہرو بولی بولی ٹھیک ہے شاہد لیکن اب‬
‫باقی کا ایک ہی جھٹکے میں میرے اندر کر‬
‫دو میں بھی تمہاری طاقت ازمانا چاہتی‬
‫ھوں تم اپنا زور لگاو میں ہارنے والی نہیں‬
‫ھوں‬
‫میں اس دفعہ پورا برداشت کر لوں گی‪.‬اسے‬
‫کیامعلوم تھا کہ لنڈ آدھا باہر ھی ھے شاہد نے‬
‫شرمیلی اور اتھری گھوڑی کی چوت میں‬
‫آدھا لن ڈال کر فائنل شارٹ مارا اور اپنا لنڈ‬
‫مہرو کی ناف تک اسکے اندر پیل دیا اسکی‬
‫درد بھری چیخ آہ آؤچ اف مار ڈاال وہ اندر‪ ‬‬
‫باہر کرتا انجواۓ کرتا رہا شاید اپنے بچپن کو‬
‫یاد کرتا ھو جیسے ادھر‪ِ  ‬پ ھر شاہد نے پورا‬
‫اندر کر کے تھوڑی دیر بعد جھٹکے مارنا‬
‫شروع کردیا‬

‫شاہد نے آگے ہو کر اپنے ہونٹ مہرو کے نرم‬


‫ہونٹوں کے ساتھ الک کر دیئے اور ایک زور‬
‫دار جھٹکا مارا اور پورا لن اندر ُا َت ر گیا مہرو‬
‫کی ایک چیخ شاہد کے منہ میں ہی نکل کر‬
‫اندر ہی رہ گئی اور ِپ ھر شاہد اس کے اوپر‬
‫ہی تھوڑی دیر کے لیے لیٹ گیا‪ .‬اور ِپ ھر اس‬
‫نے کوئی ‪ 2‬سے ‪ 3‬منٹ کے بعد آہستہ آہستہ‬
‫اپنا لن اندر باہر کرنا شروع کر دیا ‪ .‬شاہد کی‬
‫کوشش یہ ہی تھی کے اس کو درد کم سے‬
‫کم ہو ِا س لیے شاہد نے پہلے پانچ منٹ تک‬
‫‪ . .‬آہستہ آہستہ اندر باہر کرنا شروع کر دیا‬

‫مہرو کی سسکیاں بڑھنے لگیں تھیں تبھی‬


‫اسکے روم کا ڈور اوپن ھوا تو اس نے‬
‫دیکھاعلیشاہ اور فیصل اندر داخل ھوئے‬
‫مہرو کو اس حالت میں دیکھ کر تو علیشاہ‬
‫نے اپنی چہرہ اپنے پلو میں چھپالیا اور مہرو‬
‫سے بولی ہماری سہاگ رات دیکھ کر تمہیں‬
‫بھی جوش چڑھ گیا جو تم نے شاہد کو یہاں‬
‫بال لیا تو مہرو بولی بھابھی تم سچ کہہ رہی‬
‫ھو مجھ سے برداشت نہیں ھوا اور میں نے‬
‫اب بھائی پر اپنا حق جتانا چھوڑ دینا ھے‬
‫کیونکہ وہ اب تمہاری امانت ھے اور تن کی‬
‫گرمی دور کرنے کے لئیے کسی کا سہارہ‬
‫ضروری تھا علیشاہ بولی چلیں مہرو تم کرو‬
‫انجوائے جیسے دل کرے ھم اپنے روم میں‬
‫چلے تو شاہد بوال علیشاہ بھابھی تم بھی‬
‫فیصل بھیا کیساتھ اسی کمرے میں ہی کرو‬
‫بہت مزہ ائے گا‬

‫علیشاہ نائٹی پہنے ھوئے تھی اور فیصل نے‬


‫نیکر شرٹ پہنی ھوئی تھی علیشاہ بولی‬
‫شاہد بھائی مجھے نہیں کرنا تم دونوں کرو‬
‫ھم نے جو کرنا تھا کر لیا ھے علیشاہ کی‬
‫نظریں فیصل پر تھیں جو مہرو کی چوت‬
‫میں شاھد کا لن اندر باہر ھوتا ھوا دیکھ رہا‬
‫تھا تبھی علیشاہ بولی کیسا لگا اپنی بہن کی‬
‫چوت میں اپنے دوست کا لن دیکھ کر فیصل‬
‫جو صوفے پر بیٹھ چکا تھا بوال مہرو‬
‫انجوائے کرنا چاہتی ھے تو بھال مجھے کیا‬
‫اعتراض‪  ‬ھوسکتا ھے جاو تم بھی انکی ہیلپ‬
‫کر دوعلیشاہ بولی وہ کیسے تو فیصل بوال‬
‫مہرو کی چوت سے لن نکال کر کپڑے سے‬
‫صاف کردو علیشاہ بولی نہیں مجھے شرم‬
‫اتی ھے فیصل کا لن اپنی بہن کو اس طرح‬
‫دیکھ کر بہت گرم ھو چکا تھا اس کا دل کر‬
‫رہا تھا کہ وہ اپنی بہن کو پکڑ کر اسکی‬
‫چوت میں اپنا لن ڈال دوں شاہد نیچے لیٹا‬
‫ھوا تھا اور مہرو اسکے لنڈ کی سواری کر‬
‫رہی تھی‬
‫دونوں بہن بھائی ایک دوسرے سے نظریں‬
‫مالتے ھوئے کچھ نیا کرنے کا سوچ رہے تھے‬
‫مگر دونوں کے دلوں میں شاید ڈر تھا تب‬
‫مہرو شاہد کے لن سے نیچے اتر گئ اور‬
‫علیشاہ کو بولی بھابھی کیا تم اک نیا کیال‬
‫کھانا چاہتی ھو تو وہ شاہد کے لن کی طرف‬
‫دیکھتی ھوئی بولی کک کیا ممم مطلب‬
‫تمہارا‪  ‬مہرو نے علیشاہ کی پاجامی نیچے‬
‫کرتے ھوئے کہا ھم اج اپنے پاٹنر بدل لیتے‬
‫ھیں مہرو نے علیشاہ کی پاجامی اسکی‬
‫ٹانگوں سے کھینچ کر نکال دی اور اسکی‬
‫چوت چاٹنے بیٹھ گئی مہرو نے اپنی بھابھی‬
‫کی چوت کو گیال کیا اور پھر اسے بولی‬
‫چلیں بھابھی اب لیٹ جائیں بیڈ کے کنارے‬
‫پر‪  ‬وہ کچھ سمجھتی مہرو نے اسے لٹاہی دیا‬
‫اور شاہد کو بولی چلو میری بھابھی کو بھی‬
‫وہ سکون دو۔۔‬

‫مہرو بولی بھابھی تم لیٹ جاو یہاں دیکھنا‬


‫کتنا مزہ ائے گامہرو نے اپنی بھابھی علیشاہ‬
‫کو بیڈ کے ایک کنارے پر ہی پیٹ کے بل لٹا‬
‫دیا اور اسکی کمر کے نیچے تکیہ رکھ دیا‬
‫جس سے علیشاہ کی چمکتی دمکتی چوت‬
‫تھوڑی اوپر کو اٹھ گئ اور اس نے سوالیہ‬
‫انداز میں اپنی نند مہروکو دیکھا تو‬
‫مسکراتے ھوئے اس نے بھابھی کو انکھ مار‬
‫دی اس سے پہلے کہ علیشاہ کچھ سمجھتی‬
‫مہرو نے شاہد کو بوال ادھر او اور بھابھی‬
‫کی ٹانگیں اپنے کندھے پر رکھو اور جیسا‬
‫سکون مجھے دیا ھے وہی سکون میری‬
‫بھابھی کو دے دو‬

‫علیشاہ بولی نہیں مہرو پلیز میں ایسا نہیں‬


‫کرسکتی تم کرلو میں کسی غیر مرد کے نیچے‬
‫نہیں لیٹ سکتی وہ چیخ کر اٹھنے ہی لگی‬
‫تھی کہ مہرو نے اپنی چوت اس کے منہ پر‬
‫رکھ دی اور شاہد نے علیشاہ کی ٹانگیں‬
‫اٹھالیں اور مہرو نے اپنی چوت علیشہ کے‬
‫منہ پر رکھ کر شاہد کی طرف گھوم گئ اور‬
‫اپنی بھابھی کی چوت چاٹنے لگی اس‬
‫اچانک رد عمل سے علیشاہ سنبھل نہیں پائی‬
‫اور تب شاہد کا لن پکڑ کر مہرو نے اپنی‬
‫بھابھی کی چوت پر رکھ دیا شاہد نے ایک‬
‫زور دار جھٹکا ماراجس سے اس کا لنڈ‬
‫علیشاہ کی چوت کھولتا ھوا جڑ تک اس کے‬
‫اندر چال گیا درد کے مارے اسکی چیخ نکل‬
‫گئ‬

‫ااااہ اف ننننن مممم نکالو مجھے درد ھو رہا‬


‫ھے اااااہ لن اندر جاتے ہی مہرو علیشاہ سے‬
‫اتر گئ اور اپنے بھائی فیصل کو لٹا کر اسکے‬
‫لنڈ پر بیٹھ گئ دھیرے دھیرے مہرو نے‬
‫فیصل کے لن کو اپنی چوت کی گہرائی میں‬
‫اتار لیا اور اوپر نیچے ھونے لگی‬

‫فیصل بھی اپنی بہن مہرو کی جسمانی‬


‫امنگوں کی ترجمانی کرتے ھوئے اسکی‬
‫چدائی کرنے لگا علیشاہ کی سسکیاں اب بڑھ‬
‫چکی تھیں اسکی چوت نے بھی شاید شاہد‬
‫کے لنڈ کو قبول کر ہی لیا تھا وہ اس کے‬
‫دھکے بڑی گرمجوشی کیساتھ برداشت کر‬
‫رہی تھی‬

‫مہرو نے فیصل کے لنڈ کو اپنی ٹائیٹ چوت‬


‫کو لنڈ کے گرد گرفت بنا کر رگڑ لگانے کا بھر‬
‫پور موقع دیادونوں بہن بھائی پسینےسے‬
‫بھیگ چکے تھے مہرو کی انکھیں بند ھونا‬
‫شروع ھو گئیں تھیں فیصل کے جھٹکوں نے‬
‫اپنا رنگ دکھانا شروع کر دیا تھا مہرو کی‬
‫ٹانگیں کانپنے لگیں تھیں اااااہ اااااہ اف‬
‫سسسس سسس بببب بب ببب بھائی مم‬
‫مممم میں نکلنے لگی مہرو نے اپنی چوت کو‬
‫فیصل کے لنڈ پر دبایا اور اپنا پانی چھوڑ دیا‬
‫فیصل بھی اب رفتار پکڑ چکا تھا وہ بھی‬
‫اپنا لنڈ مہرو کی ناف تک اندر پیل رہا تھا‬
‫اسکے لنڈ نے بھی مہرو کی چوت میں ہی اپنا‬
‫الوا چھوڑ دیا مہرو اوپر نیچے ھوتے ھوئے‬
‫نیچے اپنی چوت کی طرف دیکھنے لگی جس‬
‫سے دونوں بہن بھائیوں کا پانی مکس ھو کر‬
‫‪ ‬باہر کی طرف نکل رہا تھا‬

‫مہرو نے اپنی انکھیں کھولیں تو اس نے‬


‫حیرت سے علیشاہ کی طرف دیکھا جو مہرو‬
‫کی طرح شاہد کے لنڈپر اوپر نیچے ھونے لگی‬
‫تھی مہرو بولی واہ بھابھی تم تو پہلے ناں‬
‫ناں کر رہی تھی اب تو راولپنڈی ایکسپریس‬
‫بن چکی ھو علیشاہ بولی جب کیال اپنی جگہ‬
‫بنا چکا ھے تو خوش ھو کر کھالینا چاہیے‬
‫شاہد نے علیشاہ کے ممے اپنے ھاتھوں میں‬
‫پکڑ کر ایک زور کا گھسا مارا تو دونوں نے‬
‫اپنا پانی چھوڑ دیا اور ایک دوسرے کی‬
‫بانہوں میں سما گئے شاہد نے بھی علیشاہ کو‬
‫اپنی چھاتی پر ہی لٹا دیا مہرو بولی اب‬
‫فریش ھو کر کچھ کھا لیتے ھیں امی ابو نے‬
‫چار دن بعد ہی انا ھے تم لوگ یہی سمجھو‬
‫کہ ہمارا ٹیسٹ میچ شروع ھو گیا ھے چار‬
‫دن اپنا ہنی مون انجوائے کرو علیشاہ شاہد‬
‫کے سینے پر ہاتھ پھیرتے ھوئے بولی ہمارا ہنی‬
‫مون گھر پر ہی گزرے گا کیا تو شاہد نے اسے‬
‫گلےلگاتے ھوئےکہا جب گھر پرہی سب کچھ‬
‫میسر ھے تو باہر جانے کی کیا ضرورت ھے‬

‫‪ ‬چار ماہ بعد‪                                   ‬‬


‫مہرو کی مہندی کی رات‪  ‬تھی اس کی‬
‫شادی اسکے کزن سمیر کے ساتھ طے پا گئ‬
‫تھی مہرو نے پیلی کرتی پہن رکھی تھی‬
‫سکھیوں نے اسے ہلدی لگائی تھی جس سے‬
‫اسکی رنگت نکھر گئ تھی مہندی کی رسم‬
‫ھو گئ تھی اور مہرو بولی مما میں نے کدھر‬
‫سونا ھے اتنے مہمان ھیں میرے روم میں تو‬
‫شاہد بوال مہرو تم ہمارے گھر سو جاو اج‬
‫کی رات تو شبو بولی میں بھی جاونگی اپنی‬
‫سہیلی کیساتھ میں بھی اجاوں تو بیگم‬
‫رضوی بولیں مہرو تم اور شبو سو جاو ادھر‬
‫ہی اور ساتھ میں فیصل کو بھی لے جاو‬
‫فیصل اپنی ماں سے بوال کہ جب میں جاؤں‬
‫گاتو میری دلہن بھی میرے ساتھ جائیگی‬
‫تینوں فیصل کی بات پر کھلکھالکر ہنس‬
‫پڑے مہرو بھی ہنس پڑی اور بولی چلو چلتے‬
‫‪..‬ھیں‬

‫صبح اٹھ کر پارلر پر تیار ھونے بھی جانا ھے‪ ‬‬


‫شبو پہلی بار شاہد کے گھر ائی تھی سارے‬
‫لوگ ایک ہی کمرے میں سو گئے اور شبو‬
‫شاہد سے بولی ڈور تو الک کر لو اور ساتھ‬
‫میں انکھ بھی مار دی جیسے کہہ رہی ھو اج‬
‫رات کا سین بنالے ڈور الک کرتے ہی شبو‬
‫بولی ھم تینوں بہنیں بیڈ پر سو جاتے ہیں‬
‫اور تم دونوں چار پائیوں پر سو جاو مہرو‬
‫شبو کو مکا مارتے ھوئے بولی جب اتفاق سے‬
‫اکٹھے ھو ہی گئے ھیں تو کیوں نہ ایک‬
‫دسرے سے لپٹ کر سویا جائے تاکہ سردی کو‬
‫‪ ‬کم کیا جاسکے‬
‫مہرو بولی شاہد اب تم بھی مریم سے شادی‬
‫کر لو تو وہ مہرو کو اپنی گرفت میں لیتے‬
‫ھوئے بوال تم ادھر او مریم کو چھوڑو اسکی‬
‫ماں اب مان گئ ھے جلد ہی ہم تجھے‬
‫سرپرائز دینگے مہرو بولی میں تمہارا لینا‬
‫چاہتی ھوں شبو نے مہرو کی گانڈ پر چٹکی‬
‫کاٹی تو وہ بولی سالی شبو میں نے سرپرائز‬
‫کا بوال ھے تم غلط سمجھی ھو فیصل بوال‬
‫شبو میں بھی تیار ھوں تم میرا لے‪  ‬لو‬
‫سرپرائز مہرو اپنے بھائی کی بات سن کر‬
‫ہنس پڑی اسے خوشی اس بات کی تھی کہ‬
‫اس کا اناڑی بھائی اب کھالڑی بن گیا تھا‬
‫دوستو کہانی کے نام اور مقامات فرضی ہیں‬
‫غلط تاثر مت لیں کہانیاں اکثر جھوٹ ہوتی‬
‫ھیں بطور تفریح پڑھا کرو‬
‫ختم شد ‪                           ‬‬

‫خوبصورت_فیملی_انسیسٹ_ناول_خوفنا‪#‬‬
‫ک_ناول_محبت_بھری_داستانیں اورکہانیاں‬
‫پڑھیں وٹس ایپ پر محدود چارجز ادا کرکے‬
‫فری والے لوگ دور رھیں ایسے لوگ جو ناول‬
‫لکھنا چاہتے ھیں تو ھم سے رابطہ کریں آپ‬
‫اپنی زندگی پر مبنی داستان بھی لکھوا‬
‫سکتے ھیں بیرون ملک پاکستانی بھی وٹس‬
‫ایپ پر اپنے پسندیدہ‪  ‬ناول اور کہانیاں پڑھ‬
‫رہے ھیں‬
‫اب_اپنا_پسندیدہ_ناول سلیکٹ کریں اور‪#‬‬
‫وٹس ایپ کے ذریعے حاصل کریں کچھ‬
‫چارجز ادا کرکے پہلے اپنے پسندیدہ ناول کا‬
‫نام بتائیں پھر‪  ‬حاصل کریں‬ ‫🔥🔥🔥‬
‫بالی وڈ کی گھوڑیاں۔۔۔۔براہ والی‪#‬‬
‫شاپ۔۔۔۔۔۔۔استانی جی۔۔کوچنگ والی‬
‫مس۔۔۔۔۔۔۔دو بہنیں اور میں۔۔۔۔۔یاسر میں اور‬
‫وہ ۔۔۔۔ندا اور حنا۔۔۔۔سوتن میری سہیلی۔۔۔‬
‫انتقام اسکی بہنوں سے۔۔۔۔بھولی داستان‬
‫ابتک۔۔‪..‬میجر کی رنڈیاں۔۔سالیوں کی‬
‫پینٹی۔۔۔سہاگن۔۔۔فروا دیدی۔۔۔۔۔دو بھابیاں۔۔‬
‫بے شرم باپ۔۔۔بڑی ماں کا گھر ۔۔۔بھٹکتے‬
‫قدم۔۔۔پدو ماوتی۔۔۔۔چاندیمال حلوائی کی‬
‫بیویاں۔۔۔۔سپنوں کے سوداگر۔۔۔۔۔تنگ‬
‫پجامی۔۔چاچی کمینی۔۔جن زادی سے‬
‫زیارتی۔۔۔۔۔گوری لڑکی۔محلے داریاں۔۔گاؤں‪ ‬‬
‫کا ننگا پن۔۔۔خدمت گار۔۔۔۔گھر کا بھیدی۔۔۔۔‬
‫گوشت کی دکان۔۔۔۔اک عام سی لڑکی ۔۔۔وفا‬
‫دار بیوی۔۔چاندیمال حلوائی کی بیوی۔۔داماد‬
‫اور ساس۔۔حنا کا ٹویشن۔۔۔ٹک ٹاک سٹارز‬
‫کی مستیاں۔۔۔۔زمیندار کی بیٹی۔۔بھابھی‬
‫گرم مزاج۔۔سگہ بھائی۔۔خاندانی مستیاں۔۔۔‬
‫چار راتیں۔۔فقیر بچہ۔۔۔۔۔بچپن کا کھیل۔۔۔‬
‫بیوی سے بہن وفادار۔۔۔۔۔۔ شہوت زادی۔۔۔‬
‫ہوش ربا۔۔۔بھابھی اور اسکی امی۔۔۔۔باجی‬
‫اور میں۔۔۔بدلہ۔۔اے بہار بن کر۔۔۔شرارتی‬
‫ساس۔۔۔پیاری سسٹر۔۔۔۔مالئکہ بہن کی‬
‫شرارتیں۔۔‬
‫بادشاہ۔۔۔۔۔۔کسی کو نہیں چھوڑا۔۔۔۔۔۔مساج‬
‫سینٹر۔۔۔۔زمیندار کی بیٹی ۔۔۔جن زادی‬
‫پاروتی۔۔۔۔۔گوپی شرما کا ڈاکٹر ۔۔۔مریم نواز‬
‫کی رنگین زندگی۔۔۔پشتون گھوڑیاں‪..‬غرور‪...‬‬
‫محبت ایک سزا۔۔۔۔۔۔۔۔ دوگھوڑیوں کے‬
‫سوار‪....‬چوہدرائن‪.‬۔۔۔۔۔نمبر دارنی‪...‬استانی‬
‫جی‪...‬چھوٹا چوہدری‪......‬بھولی داستان‪....‬بڑی‬
‫حویلی کی بہو‪....‬حویلی مکمل‪...‬فہد اور‬
‫مہرین‪...‬ہاسٹل کی لڑکیاں۔۔۔۔۔۔۔گرم‬
‫فیملی‪..‬۔۔۔۔‪.‬ارتغل غازی‪..‬شاہدآفریدی کی‬
‫بک‪....‬عروسہ بہن‪...‬محبت کےبعد۔۔۔صندوری‬
‫چوت۔۔کال بوائے۔۔کہاں کہاں سے گزر گیا۔۔۔۔۔‬
‫امی کا شوہر۔۔۔چنگاری۔۔مجھے بچہ چاھئیے‬
‫تھا۔۔گوری میم۔۔۔۔۔امتحان ۔۔۔مالں پور کا‬
‫سائیں۔۔۔‬
‫استانی جی۔۔۔کالو کا پیار۔۔۔ہوش ربا۔۔۔۔‬
‫چنگاری۔۔۔سات گھنٹے۔۔۔۔مارننگ‬
‫شوکانواب‪...‬داماد اور ساس‪....‬پرانی‬
‫حویلی‪ ...‬ساس کبھی بہو تھی‪..‬شاہدتیرے‬
‫نکاح میں‪..‬کوچنگ والی مس‪..‬کلثوم کی‬
‫بہنیں‪..‬میل کرا دے ربا‪...‬ماڈل کا ہنی‬
‫مون‪...‬میری کزن ندا‪..‬میراشہسوار‪....‬خالہ‬
‫جمیلہ‪...‬سوتیلی‪...‬فریدہ‬
‫خالہ‪....‬وارث‪....‬سینچری‪...‬ساگرکی‬
‫بہنیں‪....‬بدلتے رشتے‪....‬بڑی مالکن‪....‬عشق‬
‫آوارہ‪......‬سات گھنٹے‪....‬رکھیل‪...‬تیرا ھی‬
‫جلوہ‪.......‬دیوداس‪...‬گینگسٹر‪.......‬سچی‬
‫کہانی‪..‬کراچی کی لڑکیاں‪...‬ڈاکٹرہما‪...‬ہما کی‬
‫شرارتیں‪..‬پنڈ دا ڈاکٹر‪.....‬میجر کی‬
‫رنڈیاں‪....‬میری زندگی‪....‬اجنبی آشنا‪...‬مالں‬
‫پور کاسائیں‪....‬تراش اور تشنگی‪ ..‬محبت ایک‬
‫سزا دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔گھوڑیوں کے سوار‪...‬بھولی‬
‫داستان‪..‬کہاں کہاں سے گزر گیا‪...‬بڑی حویلی‬
‫کی بہو‪....‬حویلی مکمل‪...‬فہد اور‬
‫مہرین‪...‬ہاسٹل کی لڑکیاں‪..‬گرم فیملی۔۔۔لبرل‬
‫فیملی‪..‬سالیوں کی‪....‬شاہدآفریدی کی گیم‬
‫چینجر‪....‬عروسہ بہن‪...‬محبت کےبعد‪..‬مارننگ‬
‫شوکانواب‪..‬۔۔۔۔‪.‬پدوماوتی‪..‬لکشمی اور شاہد‬
‫‪....‬پرانی حویلی‪ ...‬ساس کبھی بہو‬
‫تھی‪..‬شاہدتیرے نکاح میں‪..‬کوچنگ والی‬
‫مس‪..‬کلثوم کی بہنیں‪..‬میل کرا دے ربا‪...‬ماڈل‬
‫کا ہنی مون‪...‬میری کزن‬
‫ندا‪..‬میراشہسوار‪....‬خالہ‬
‫جمیلہ‪...‬سوتیلی‪...‬فریدہ‬
‫ساگرکی‪...‎‬خالہ‪....‬وارث‪....‬سینچری‬
‫بہنیں‪....‬بدلتے رشتے‪....‬بڑی مالکن‪....‬عشق‬
‫آوارہ‪......‬سات گھنٹے‪....‬رکھیل‪..‬برا والی‬
‫ﺷﺎپ۔۔۔۔ﺑﮭﭩﮑﺘﮯ ﻗﺪم۔۔۔۔ﻋﺎﻗﺐ ﮐﯽ ﺑﮩﻨﯿﮟ۔۔۔‬
‫ڈاﮐﭩﺮ ﭼﯿﮏ اپ۔۔۔۔۔‪..‬دﯾﻮداس‪...‬ﮔﻮری ﮐﺎ ﮔﺎؤں‬
‫‪....‬ﺳﭽﯽ ﮐﮩﺎﻧﯽ‪..‬ﮐﺮاﭼﯽ ﮐﯽ‬
‫ڈاﮐﭩﺮﮨﻤﺎ‪.‬۔۔ڈاﮐﭩﺮ ﺳﻮﻧﯿﺎ۔۔اﻧﺎڑی دوﻟﮩﺎ‪..‎.‬ﻟﮍﮐﯿﺎں‬
‫ﮐﮭﻼڑی ﺑﮩﻦ۔‪..‬ﮨﻤﺎ ﮐﯽ ﺷﺮارﺗﯿﮟ‪..‬ﭘﻨﮉ دا‬
‫ﻏﺮور‪..‬ﻣﯿﺮی‪.....‎‬ڈاﮐﭩﺮ‪.....‬ﻣﯿﺠﺮ ﮐﯽ رﻧﮉﯾﺎں‬
‫زﻧﺪﮔﯽ‪....‬اﺟﻨﺒﯽ آﺷﻨﺎ‪...‬ﻣﻼں ﭘﻮر ﮐﺎﺳﺎﺋﯿﮟ۔۔۔‬
‫اور ﺑﯿﺸﻤﺎر ﻧﺎول ﺑﻮﻟﮉ اور روﻣﺎﻧﻮی و‬
‫ﺗﺎرﯾﺨﯽ‪  ‬ﮐﺘﺎﺑﯿﮟ‪  ‬ﮐﮩﺎﻧﯿﺎں ﺷﺎﻣﻞ ﮨﯿﮟ۔۔۔‬

‫‪What's app number ‬‬


‫‪03067007824‬‬

‫اﺳﮑﮯ_ﻋﻼوہ_ﺑﯿﺸﻤﺎر ﺑﻮﻟﮉ ﻧﺎول ﺑﮏ ﻧﺎم‪#‬‬


‫ﺑﺘﺎﮐﺮﻃﻠﺐ ﮐﺮﯾﮟ ﺻﺮف ﭘﮍﮬﻨﮯ واﻟﮯﻗﺎرﺋﯿﻦ‬

You might also like