Professional Documents
Culture Documents
6479 Shaista
6479 Shaista
Shaista Hassni
User id:. 21bbk00129
Program : B.Ed
Course Code: 6479
Assignment No: 1
Semester : Spring 2022
ANS 01
تقسیم ہندوستان سے قبل حسرت ،فانی،جگر،اصغر اور ان سے قدرے بعد یگانہ اور فراق کی ٓاوازیں اپنی تخلیقی ِ
انفرادیت کے ساتھ اردو غزل کی فضا میں اپنے نمایاں اثرات پیدا کر چکی تھیں بلکہ یگانہ کی غزل نےکہنہ و پامال
مضامین کو ترک کرکے خارجی عناصر کو اپنےداخلی مگر اثر انگیزپیرایےسے ہم ٓاہنگ کرتےہوئے غزل کے لیے
ایک نئی تخلیقی فضا ہموار کر دی تھی اور اس فضا کے اثرات فراق کی غزل میں بھی جھلکتے دکھائی دیتے ہیں۔
دوسری جانب جوش ملیح ٓابادی غزل اوربالخصوص نظم کے ذریعے اپنی بھاری بھرکم ٓاواز میں انقالب کے نعرے
ب روایت غزل کو ذریعٔہ اظہار بنایا مگر کسی حد تک انقالبی مزاج ،جسے اُن
االپ رہے تھے۔ جوش نے اگرچہ حس ِ
کی بوقلموں طبیعت کا حصہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے ،انھیں نظم گوئی پر نہ صرف ٓامادہ رکھا بلکہ صنفِ غزل کی
مخالفت میں بھی پیش پیش رہے،تاہم یاس یگانہ چنگیزی اور فراق نے غزل کو جدید نظم نگاری کے مقابل تازگی و
جہان معنی ترتیب دیا۔ یہی وہ دور تھا جب حفیظ نظم گوئی کے
ِ توانائی عطا کرکے اپنے تخلیقی عناصر سے ایک نیا
ساتھ ساتھ غزل میں بھی دا ِد سخن دیتے ہوئے اس کے صوتی و معنوی دروبست کے ساتھ ایک اثر انگیز پیرایٔہ اظہار
ترتیب دے رہے تھے ،البتہ اُن کی ابتدائی غزل گوئی میں داغ دہلوی اور شادعظیم ٓابادی کے شعری عناصر بھی تالش
کیے جا سکتے ہیں اور یہی وہ عناصر ہیں جو ان کی غزل میں بقول اُن کے نالے کو ’’پابن ِد َنے‘‘ کرتے ہوئے اُن کی
’’طرزخاص‘‘ کا باعث بنے۔
ِ
یہ وہ شعرا ہیں جو غزل کی شدید مخالفت کے باوجود نہ صرف صنفِ غزل کو زندہ رکھے ہوئے تھے بلکہ انھوں نے
اشجار نودمیدہ بھی تنومند ہو
ِ اردو غزل کی زمین میں اپنے فکر و فن اور تخلیقی صداقت سے ایسی ٓابیاری کی کہ
کھالنے لگے۔ یگانہ ،فراق اور حفیظ کےجونیئر معاصرین میں فیض احمد فیض اور معین احسن
کرنئے برگ و بار ِ
ت ٓاہنگ کے ساتھ اپنے ابتدائی اثرات مرتب کر رہی تھی کہ ملک دو
جذبی کی غزل اپنی تخلیقی انفرادیت اور جد ِ
حصوں میں بٹ گیا ،تاریخ دو دھاروں میں تقسیم ہو گئی۔ یہ ترقی پسند تحریک کے عروج کا بھی زمانہ
ت پاکستان کا قیام … ترقی پسندوں کی فہم سے باال
تھا......دوسرے معنوں میں نظم کے عروج کا زمانہ ،لیکن مملک ِ
تھا ،اشتراکیت پسندی میں غرق ٓانکھیں اس معجزے کو سانحہ قرار دینے پر تل گئیں۔ کسی نے تقسیم کے مضمرات کو
وابستگان
ِ موضوع بنایا تو کسی نے سرے سے اس تقسیم ہی کو غلط قرار دے دیا۔ یہ سوچ ترقی پسند تحریک اور
تحریک کے تخلیق کاروں کے لیے جاں لیوا ثابت ہوئی۔ خود ترقی پسند تحریک کے سیکرٹری جنرل احمد ندیم قاسمی
نے اس سوچ اور رجحان کو انتہا پسندی کا باعث قرار دے دیا۔ 1952ء میں مولوی عبدالحق کی صدارت میں ترقی
پسند مصنفین کی کانفرنس میں تحریک کے غیر سیاسی ہونے کا اعالن کیا گیا۔ لیکن1953ء میں حکومت پاکستان نے
کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگائی تو ترقی پسند مصنفین بھی اس پابندی کی زد میں ٓا گئے۔اس سارے میں ایک تو ادب
میں نعرے بازی کا رواج کم پڑا ،دوسرے غزل ایک بار پھر اوپر اٹھتی دکھائی دی۔ ماحول کو غیر موافق جان کر
فیض ،احمد ندیم قاسمی ،ظہور نظر ،عارف عبدالمتین اور ظہیر کاشمیری جیسے شاعروں نے عالمتی پیرایہ اختیار
کرتے ہوئے ماحول سے ہم ٓاہنگی اختیارکرنے کی کوشش کی ،جس میں نمایاں کامیابی صرف فیض ،احمد ندیم قاسمی
اور ظہور نظر کے حصہ میں ٓائی جنھوں نے انسانی زندگی کو موضوع بناتے ہوئے دل کش پیرایہ میں معاشرتی و
معاشی اورسیاسی مسائل کا احاطہ کیا۔ پاکستان میں ترقی پسند تحریک کو دور تک سرگرم عمل رکھنے میں فیض ،
ناقابل فراموش ہیں۔
ِ ندیم ،ظہیر ،ظہور نظر اور عارف عبدالمتین کی خدمات
ظہیر کاشمیری
ظہور نظر
مرے قبیلے کے لوگ سوتے ہیں اور شب بھر میں جاگتا ہوں
عارف عبدالمتین
قیام پاکستان کے بعد ملک کے غیر مستحکم اور متزلزل سیاسی ،سماجی اور معاشی حاالت نے اردو شعر و داب پر
جو اثرات مرتب کیے اور اُن کے نتیجے میں جن نئی تحریکوں نے جنم لیا ،اُن سے ادب میں کیا کیا متحارب نظریات
ت احوال
سامنے ٓائے ،ایک الگ سلسلٔہ بحث ہے۔ کسی بھی ملک کی معیشت اور اس کےنتائج میں ادب کی صور ِ
ہمیشہ سیاسی استحکام یا عدم استحکام کی تابع رہی ہے۔ ملک کا حکومتی اور سیاسی نظام اگر درست ہے تو اس
درستی کے نتیجے میں معاشرے کے خد و خال بھی روشن رہتے ہیں مگر بدقسمتی سے تقسیم کے جلد بعد بلکہ تقسیم
کے نتیجے میں ہونے والے فسادات ،قائداعظم کی رحلت اور پھر ایک مسلسل سیاسی عدم استحکام پاکستان کا مقدر
بن گیا۔ان تمام حاالت نے شعر و ادب پر بھی گہرا اثر ڈاال۔ 1956ء میں ٓائین پاکستان کے لیے ایک ٓائینی مسودہ مرتب
ہوا اور پھر نافذ بھی ہوا مگر جمہوری حکومت کو استحکام حاصل نہ ہو سکا ،اور پھر دو سال کے قلیل عرصہ میں
اوپر تلے تین وزرائے اعظم کی ٓامد اور 1958ء کے مارشل الء نے تو جمہوریت کی بساط ہی لپیٹ دی ۔ جنرل ایوب
کے مارشل الء 27اکتوبر1958ء سے تاحال کیا کیا حادثات رونما ہوئے ،یہاں اس تفصیل کی گنجایش نہیں مگر اس
ت خداداد کا بھی دو
تقسیم ہندوستان سے حاصل ہونے والی مملک ِ
ِ دوران میں جس بڑے المیے نے جنم لیا اُس نے تو
حصوں میں بٹوارا کر دیا۔ بعد ازاں 1977ء کے انتخابات اور پھر جنرل ضیا کے مارشل ال کے نتیجے میں بھٹو کی
پھانسی ،یہ سب وہ الم ناک واقعات ہیں جو ٓاج تک ملک کے سیاسی عدم استحکام کا باعث بن چکے ہیں۔ بار بار کے
مارشل الء نے غزل میں کہیں قنوطیت کو رواج دیا تو کہیں احتجاج کی روش نے زور پکڑا ،کہیں جالب کی شعری
انداز نظر اختیار کرتے ہوئے کھل کر اور کہیں وسیع تر تناظر میں عالمتی پیرایٔہ اظہار کے ساتھ
ِ فضا میں مزاحمتی
غزل اپنا تخلیقی سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔
اس مجموعی سیاسی فضا میں ادبی تحریکوں کی بات کی جائے توترقی پسند تحریک ،حلقٔہ ارباب ذوق ،تحریکِ ادب
اسالمی ،پاکستانی ادب ،اور ادبی ثقافتی تحریک اہمیت کی حامل رہی ہیں۔ ترقی پسند تحریک کو رومانیت اور حقیقت
نسل انسانی کی بہبود کے بنیادی مقصد کے طور پر تخلیق کاروں
نگاری کا امتزاج کہا جا سکتا ہے۔ اس تحریک میں ِ
کو داخل کی جگہ خارج کی راہ دکھائی گئی۔ یہ تحریک ادب کے راستے ملک میں انقالب کی خواہش مندتھی ،لیکن
ب ذوق میں ادیبوں شاعروں پرموضوعات کے حوالہ سے
کمیونزم اور اشتراکیت اس کی اساس بن گئے۔ حلقٔہ اربا ِ
ب ذوق
ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ ترقی پسند تحریک میں روایت کو یک سر مسترد کر دیا گیا لیکن حلقٔہ اربا ِ
میں روایت کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا۔ ان دونوں تحریکوں کو ایک دوسرے کی ضد بھی کہا جا سکتا ہے۔ اسالم کی
اساس اور اس کی روح سے مطابقت پیدا کرنے کےلیے تحریک ِادب اسالمی کی بنیاد رکھی گئی۔ تحریک ادب اسالمی
کو بھی ترقی پسند تحریک کا ردِعمل کہا جاتا ہے ،لیکن موضوعات و منشورات کی قید نے اس تحریک کو بھی زیادہ
عرصہ فعال نہیں رہنے دیا ۔ ترقی پسند تحریک ہی کے ردعمل کے طورپر پاکستانی ادب کی تحریک اور ارضی
ثقافتی تحریک وجود میں ٓائیں۔ مذکورہ تحریکوں نے اپنی اپنی جگہ اردو غزل کو متاثر کیا۔
قیام پاکستان کے بعد سب سے پہال واقعہ تو یہ ہوا کہ شعرا کی بڑی تعداد غزل ہی کی جانب متوجہ ہوئی۔ وہ لوگ جو
ِ
قیام پاکستان کے بعد غزل گو
نظم کے حامی تھے اور نظم کہہ رہے تھے ،وہ بھی غزل کی جانب راغب ہوئے۔ یو ں ِ
شعرا کی پہلی کھیپ زیادہ تر انھی لوگوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے زیادہ تر شعرا وہ ہیں کہ جن کا شعری مقام و
قیام پاکستان کے ٓاس پاس منظر پر ٓائے۔ جوش نے غزل کم
مرتبہ تقسیم سے پہلے ہی متعین ہو چکا تھا اور کچھ وہ جو ِ
کہی ،غزل کی مخالفت میں بھی سرگرم رہےلیکن دل چسپ پہلو یہ ہےکہ اس مخالفت میں بھی ان کا تخلیقی مزاج
غزل نما رہا ،یعنی ان کی نظمیں بھی غزلیہ ٓاہنگ کے ساتھ مرتب ہیں اگرچہ اُن کے پیرایٔہ اظہار کی نمایاں ترین
سطح ان کی لفظی مرصّع کاری سے ہویدا ہےتاہم ان کی غزلیں تغزل و رعنائی کا پہلو بھی رکھتی ہیں۔ حفیظ
جالندھری نے غزل میں سلیس زبان اور غنائیت کو رواج دیتے ہوئے گرد و پیش کے واقعات کو اپنی غزل میں جگہ
دی۔ سلیم احمد قمر جاللوی کو ایک بڑی روایت کا ٓاخری شاعر قرار دیتے ہیں۔ صبا اکبر ٓابادی کی غزل ایک باشعور
روح عصر کا پرتو جھلمالتا نظر ٓاتا ہے۔ حفیظ ہوشیارپوری کے ہاں غزل کی پوریِ شاعر کی غزل ہے جس پر
روایت داخلیت و خارجیت کے مکمل امتزاج کے ساتھ عہ ِد موجود کی شکستگی و خستگی کا احاطہ کرتی ہے۔ انسانی
ناقابل گرفت پہلو ان کے خاص موضوعات ہیں۔
ِ نفسیات کے پیچیدہ و
حفیظ جالندھری
ب غم اور تنہائی
ابھی تک یاد ہے کل کی ش ِ
پھر اس پر چاند کا ڈھلنا قمر ٓاہستہ ٓاہستہ
قمر جاللوی
حفیظ ہوشیارپوری
فیض نے اردو غزل کی وسیع روایت سے استفادہ کرتے ہوئے غزل کو ایک نئی شائستگی اور جمالیاتی ٓاگہی سے ہم
ت
ت تعمیر کے کرب کے ساتھ ساتھ مستقبل کے خواب نمایاں ہیں۔ ایم ڈی تاثیر معامال ِ
کنار کیا۔ فیض کے ہاں حسر ِ
فراق و وصال کو عصری ٓاگہی کے راستے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی کے ہاں انسانی عظمت
کا برمال اظہار ہے۔ انھوں نے اردو غزل کو موضوعاتی تنوع سے ماال مال کیا۔ سراج الدین ظفر اردو غزل کی تاریخ
میں ایک منفرد اور جداگانہ اسلوب کے حامل غزل گو ہیں۔ سراج الدین ظفر کو جدید کالسیک کہا جائے تو غلط نہ ہو
حسن تراکیب کو مضمون ٓافرینی پر فوقیت دیتے ہیں۔ صوفی تبسم معامال ِ
ت حسن و ِ حسن الفاظ و
ِ گا۔ سید عابد علی عابد
ہیں۔ابن انشا نے طویل
ِ طرز بیان میں سادگی اور سالست نمایاں
ِ عشق کے روایتی مضامین کے شاعر ہیں۔ ان کے
بحروں میں ہندی ڈکشن سے مملو غزلیں کہیں۔ان کی غزلوں کا ٓاہنگ کہیں کہیں گیت سے بہت قریب ہو جاتا ہے۔ زبان
و بیان اور غزل کے تہذیبی پہلو سے مکمل ٓاگاہی اوراپنے عہد کی نباضی شان الحق حقی کی غزل کو ان کے ہم
عصروں میں ممتاز رکھتی ہے:
ایم ڈی تاثیر
صوفی تبسم
ٓاج یہاں کل اور نگر میں صبح کہاں اور شام کہاں
ابن انشا
ِ
طرز فکر سے ٓاشنا کیا۔ روایتی فلسفہ کی جگہ سائنسی دریافتوں پر استوار
ِ محب عارفی نے اردو غزل کو سائنسی
فلسفہ کو اہمیت دی۔ انھوں نے شاعری میں زندگی کے بنیادی مسائل کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کی۔عزیز حامد
مدنی کی غزل جدید معاصر علوم سے ٓاگہی اور ایک سلجھے ہوئے ناسٹلجیائی کرب کی ترجمان ہے۔ مدنی کی
شاعری میں موجود کرب ان کے عہد کا کرب ہے۔ وہ اپنے عہد کی جملہ سچائیوں کو اپنی غزل میں جگہ دیتے ہوئے
ایک توانا روایت کو تو سیع دیتے نظر ٓاتے ہیں۔ مدنی کی غزل اپنے وقت کی جدید ترین غزل ہے جس کی جانب
ناقدین تاحال متوجہ نہیں ہوئے۔
محب عارفی
سادگی بیان ،رواں دواں بحریں اور کھنکھناتی ردیفیں ،برجستگی و بے ساختگی عبدالحمید عدم کی غزل کی بنیادی
خصوصیات ہیں۔ مجید امجد نے نسبتا ً کم لیکن متنوع موضوعات کا احاطہ کرتی پختہ غزلیں کہیں۔ احسان دانش اگرچہ
تقسیم ہندوستان سے
ِ نظم کے ذریعے بندٔہ مزور کے تلخ روز و شب کی عکاسی کے باعث شاعر مزدور کہالئے اور
قبل اپنا شعری تشخص قائم کر چکے تھے ۔ اپنی منفرد نظم گوئی کے ساتھ ساتھ غزل میں وہ اپنے ہم عصروں کے
رنگ و ٓاہنگ کے ساتھ سفر کرتے دکھائی دیتے ہیں ،البتہ تقسیم کے بعد اُن کی غزل میں جد ِ
ت ٓاہنگ کے تیور بھی
دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم ان کی غزل کو بجا طور پر رومانی غزل کہا جا سکتا ہے۔ میرا جی نے یوں تو بہت کم غزلیں
متاثرین میر میں گنے جاتے ہیں۔ انھوں
ِ ت غزل میں
کہیں لیکن ان میں گیتوں کی سی چاشنی ہے۔ مختار صدیقی معامال ِ
نے اردو غزل میں ہندی ڈکشن اور طویل بحروں کے استعمال کو رواج دینے کی کوشش کی ۔ لیکن بے جا تصنع اور
جذبات کے اظہار میں پینترے بازی کے شوق نے ان کے اشعار کو تاثیر و تغزل جیسے اوصاف سے محروم کر دیا۔
بیدل حیدری ایک قادرلکالم شاعر ہیں ،ان کے ہاں معاشی و سماجی ناہمواریوں کے شکار لوگوں کے احساسات کی
ترجمانی نمایاں ہے ۔ قیوم نظرنے بھی کم لیکن معیاری غزلیں کہیں۔ باقی صدیقی نے مختصر بحروں میں گہرائی و
طرز بیان میں طنزیہ روپ دھارتی ہیں:
ِ گیرائی کے حامل شعر کہے۔ ان کی ذاتی زندگی کی تلخیاں
عبدالحمید عدم
مجید امجد
رقصاں تھے رند جیسے بھنور میں شفق کے پھول
احسان دانش
میرا جی
مختار صدیقی
بیدل حیدری
قیوم نظر
باقی صدیقی
شیر افضل جعفری کے شعری اسلوب کی تشکیل لہندا ،پنجابی ،سرائیکی اور اردو الفاظ کی باہمی ٓامیزش سے تشکیل
پاتی ہے۔ یہ روش نہ تو ٓاگے بڑھ سکی اور نہ ہی پذیرائی حاصل کر سکی کہ ایسا قاری کہاں سے دستیاب ہو جو ان
تمام زبانوں پر دسترس رکھتا ہو۔ پھر مختلف زبانوں کے الفاظ کی زبردستی بھرتی سے غزل کا اصل رس کہیں
راستے ہی میں رہ گیا۔ یوں اسے بھی اردو غزل میں ایک ناکام تجربہ کے طور پر لیا جا سکتا ہے ۔ البتہ مختلف
انداز فکر سے عبدالعزیز خالد کی غزل بھی ظہور
ِ زبانوں کی ٓامیزش کے باوجود اُن سے کہیں موثر اپنے نابغانہ
کرتی نظر ٓاتی ہے۔ اُن کی غزلیں زیادہ تر غیر مقفع ہیں جو قاری پر قدرے بوجھل پن کا احساس لیے ہوئے ہیں مگر
ان کا فکری معیار اپنے بہت سے ہم عصروں سے منفرد و ممتاز ہے جو اُن کے معدودے چند پڑھنے والوں پر لطاف ِ
ت
ت معنوی کا باعث ہے:
طبع سے زیادہ بالغ ِ
عبدالعزیز خالد
قتیل شفائی کو اپنے وقت میں بہت اہمیت دی گئی ،ان کے ہاں موضوعات کے تنوع کے حوالہ سے کیا کیا کچھ نہیں
گیا ،لیکن ان کی غزلیہ شاعری کا مطالعہ ان تمام دعووں کی کلیتا ً نفی کرتا نظر ٓاتا ہے۔ روایتی پیرایہ میں معامالت
حسن و عشق کا گھسا پٹا انداز بیان اور سطحی پن ان کی غزل کو ان کے گیت سے اوپر نہیں اٹھنے دیتا۔ اسی طرح
طفیل ہوشیارپوری کی غزل سراسر روایتی ہے اور محض نغمگی کا تاثر پیدا کرتی ہے:
قتیل شفائی
طفیل ہوشیارپوری
محاسن شعری کا مرقع ہے۔ ظہیر کاشمیری کی غزل ان کے سماجی شعور
ِ سیف الدین سیف کی غزل کم و بیش تمام
صورت حال کا ردِعمل کہا جا سکتا ہے۔ کہیں کہیں فلسفیانہ
کی عکاس ہے۔انجم رومانی کی غزل کو دگرگوں عصری ِ
انداز فکر بھی ملتا ہے۔ جعفر شیرازی نے بہت غزلیں کہیں ،مجید امجد جیسے بڑے شاعر نے بھی غالبا ً تعلق خاطر
ِ
نبھاتے ہوئے ان کے شعری محاسن کی طرف توجہ دالنے کی کوشش کی لیکن مجال ہے جو ضخیم کلیات میں سے
کوئی شعر اس قابل نکل ٓائے کہ اسے مثال کے طور پر پیش کیا جا سکے۔البتہ اُن کے معاصر اور ہم شہر غزل گو
شاعر گوہر ہوشیارپوری اور بشیر احمد بشیر کی غزل کو عصری تناظر میں خاص اہمیت کے ساتھ پرکھا جا سکتا
ہے۔ شہاب دہلوی کے ہاں کہیں کہیں روزمرہ کی چاشنی اور زبان وبیان کا احسن استعمال انھیں غزل کی وسیع روایت
سے جوڑتا ہے۔عارف عبدالمتین کی غزل کی اساس رومانویت اور حقیقت کے امتزاج پر ہے:
انجم رومانی
گوہر ہوشیارپوری
عارف عبدالمتین
عصر حاضر کے مصروف انسان کی ذہنی و جذباتی زندگی کی ترجمانی کی بات کی جائے تو ظہور نظر کی غزل
ِ
انفرادیت کی حامل ہے۔ رسا چغتائی کی غزل ایک ایسے فرد کی شاعری ہے جس میں فرد بیک وقت اپنے ٓاپ کو
اقدار
ِ معاشرے سے منسلک اور جدا محسوس کرتا ہے۔ یہ رویہ ایک نفسیاتی کش مکش کو جنم دیتا ہے۔ اسی طرح
عناصر ترکیبی ٹھیرتے
ِ ماضی و حال پر تجزیاتی نظر اور مستقبل کے دھندلے خاکے محشر بدایونی کی غزل کے
ہیں۔ روایت کے ساتھ ساتھ جدیدیت سے مملو رضا ہمدانی کی غزل ان کے اندرونی رومانی اضطراب کی عکاس ہے۔
خاطر غزنوی کی غزل میں رومانویت اور انقالبی فکر کا متوازن امتزاج ملتا ہے ۔ محبوب خزاں کے ہاں مشاہدات و
تجربات کی سچائی نئی عالمتوں کے ساتھ شعر کا روپ دھارتی نظر ٓاتی ہے۔ نسائی احساسات و جذبات کے اظہار
کے سلسلے میں اولیت کے باعث ادا جعفری کا نام اہم ہے۔ تاہم فہمیدہ ریاض نے اپنی نمایاں شاعری میں جس بے
باکی اور کھلی عالمتوں کے ساتھ غزل میں صنفِ نسواں پر مردانہ معاشرے کے جبر و تشد کو اپنے احتجاج کی بنیاد
بنایا اس کی دوسری مثال کشور ناہید کی غزل میں پہلی بار نظر ٓاتی ہے:
رسا چغتائی
محشر بدایونی
خاطر غزنوی
محبوب خزاں
وہ میری ٓانکھ میں بستا ہے ،جو خواب کبھی دیکھا ہی نہیں
فہمیدہ ریاض
سجاد باقر رضوی کے ہاں اردو غزل کی پوری روایت اپنی پوری جوالنی کے ساتھ نظر ٓاتی ہے۔ ان کے ہاں
معاشرتی اقدار کا شعور بہت نمایاں ہے۔ وزیر ٓاغا کی غزل عالمتی پیرایٔہ بیان کی حامل ہے۔عرش صدیقی کی غزل
فرد اور معاشرہ کے حوالے سے عصری شعور کی ٓائینہ دار ہے۔ حبیب جالب کی غزل ماضی کی حسین یادوں کی
عکاس ہونے کے ساتھ ساتھ جبر کے خالف جمہور کی احتجاجی ٓاواز ہے:
ت پر میں تھا
سارا لہو بدن کا رواں مش ِ
وزیر ٓاغا
دل ہے کہیں ،دماغ کہیں ،اور ہم کہیں
عرش صدیقی
حبیب جالب
قیام پاکستان کے بعد اردو غزل کے خد و خال سنوارنے والے شعرا میں منیر نیازی کا نام خصوصی اہمیت کا حامل
ہے۔ منیرنیازی کی شاعری رنگا رنگ خیاالت اور انوکھے امیجز سے عبارت ہے۔ وہ موضوعات کہ ایک عام شاعر
کے قلم کے بس کے نہیں ہوتے ،منیرنیازی کے ہاں گہرے مشاہدے ،شب و روز کے تفکر ،عمیق تجربے اور زبان و
بیان کی خوبیوں کے باعث قاری پر ایک سحر کی صورت طاری ہو جاتے ہیں۔ ان کے مشاہدہ کا انداز بالکل اس بچے
کا سا ہے جو پہلی بار کائنات پر نظر ڈالتا ہے۔ اس وقت اس کی ٓانکھوں سے عیاں حیرت دیدنی ہوتی ہے۔ تجسس کا
ت
انداز بھی اس بچے سا ہے جس نے ابھی ابھی اس کائنات میں ٓانکھیں کھولی ہیں۔ منیر نیازی اپنے عصر کی صور ِ
حال کی تصویر کشی کچھ اس انداز سے کرتے ہیں کہ ان کا کہا ،ان کا لکھا قاری اور سامع کو اپنے دل کی ٓاواز
محسوس ہوتا ہے۔ وہ بھرے پُرے شہروں میں انسان کی تنہائی پر نوحہ خواں ہیں:
منیر نیازی
اسی سلسلے کا ایک اہم نام ناصر کاظمی ہے جنھوں نے پاکستان میں اردو غزل کو فکری و جذباتی سطح پر جدت
سے ہم کنار کیا۔ ان کی غزل کا خمیر روایت سے ہے۔ انھوں نے تقسیم کے اثرات کو نہ صرف شدت سے محسوس کیا
بلکہ اس کی داخلی کیفیات کو اپنے اشعار کی زینت بنایا۔ ان کا ذاتی سوز و گداز اجتماع کا کرب بنتا نظر ٓاتا ہے۔
ماضی کی یادیں اس پر مستزاد ہیں۔ ناصر کے ہاں عالمات و استعارات کے سلسلہ میں بھی جدت طرازی نمایاں ہے:
ناصر کاظمی
شہزاد احمد محبت کی نفسیات کے شاعر ہیں۔ شہزاد احمدکی غزل میں عہ ِد جدید کے فالسفہ کے اٹھائے فکری سواالت
خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ اپنے عصر پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ معاشرے اور فرد کے باہمی تعلقات کی
تجزیاتی پیش کش شہزاد احمد کی غزل کا اختصاص ہے۔ان کے تجربات و مشاہدات کی دنیا وسیع اور فکر انگیز ہے:
شہزاد
ؔ فلک سروں پہ اچانک ہی ٓا پڑا
شہزاد احمد
معاملہ حسن و عشق کا ہو کہ اداسی و تنہائی کا ،جنسی الجھنیں ہوں کہ معاشرتی و سماجی مسائل۔۔۔۔۔۔۔۔ رئیس فروغ
پیش نظر فر ِد واحد کے احساسات بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ قمر جمیل اپنی تخیلی صالحیتوں کی مدد سے
ِ کے
انداز بیان کی حامل غزلیں کہیں لیکن ان کی توجہ نثری
ِ تصویر کشی میں طاق ہیں۔انھوں نے خوب صورت اور منفرد
نظم کی طرف زیادہ رہی۔ احمد فراز ہمارے عہد کے مقبول غزل گو ہیں۔ ان کی غزل بنیادی طور پر عشقیہ غزل ہے،
لیکن سیاسی و سماجی موضوعات کی بھی کمی نہیں۔ موضوع جیسا بھی ہو ،فراز روایت کے گہرے شعور کے باعث
تغزل کو مجروح نہیں ہونے دیتے۔ دھیمے لہجے میں غزل کہنے والے اطہر نفیس کی غزلیں ان کے ذاتی احساسات
طرز احساس کی حامل ہے۔ محسن بھوپالی اپنی غزل میں سیاسی
ِ کی نمائندگی کرتی ہیں۔ محسن احسان کی غزل جدید
ت حال پر نکتہ چیں ہیں :
و معاشرتی صور ِ
رئیس فروغ
قمر جمیل
احمد فراز
مری ٓانکھوں کے خشک و تر میں جھانکو
اطہر نفیس
محسن احسان
ت دوراں تو دیکھیے
نیرنگئی سیاس ِ
محسن بھوپالی
احمد مشتاق اِس دور کے اہم ترین شاعر ہیں جن کی غزل کے بارے میں یہ تک کہا گیا کہ ناصر کاظمی کا ان پر بہت
اثر ہےلیکن حقیقت اس کے منافی ہے کہ احمد مشتاق کی غزل ناصر کی غزل سے محض سادگی بیان کی حد تک
مماثل ہے۔ احمد مشتاق اپنے شعر کا تانا بانا اپنے اردگرد کےماحول سے بنتے ہیں۔وہ بظاہر معمولی اشیا اور واقعات
کے بیان سے معانی کا ایک جہان اپنے شعروں میں سمو دیتے ہیں۔ رام ریاض کی غزل میں حرکی پیکر بہت نمایاں
ہیں۔ انھیں تجسیم کا شہنشاہ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے ہاں قدرے ذاتی محرومیوں اور اپنے اردگرد معاشرتی ناانصافیوں
ی تخیل سید ِ
ٓال احمد کی غزل کے نمایاں ت فکر اور بلند ِ
اور ناہمواریوں کی خوب صورت پیکر تراشی ملتی ہے۔ جد ِ
ٓال احمد
اوصاف ہیں۔ انسانی رشتوں میں شکست و ریخت اور ان سے روزافزوں ترویج پاتی نفسیاتی پیچیدگیاں سید ِ
کے خاص موضوعات ہیں۔ اپنی ذات کو مرکزیت کے درجہ پر فائز کر کے گرد و پیش کی دنیا سے موضوعات اخذ
کرنے والے رضی اختر شوق اپنے عم عصروں سے منفرد نظر ٓاتے ہیں۔ شعری جمالیات کے شاعر انجم خیالی پرانی
عالمات کو نئے مفاہیم دینے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں :
احمد مشتاق
میں رام سب سے بڑا ہوں اور اس زمانے میں
رام ریاض
ٓال احمد
سید ِ
انجم خیالی
۔ 1960کے بعد پاکستان میں اردو غزل کے حوالے سے انحراف کے دور کا ٓاغاز ہوتا ہے۔ سیاسی عدم استحکام،
معاشرتی ناانصافیوں اور سب سے بڑھ کر ایک نئی سلطنت۔۔۔۔۔۔۔ مسلم سلطنت کے قیام سے وابستہ امیدوں کے دم توڑ
جانے سے ادب میں بھی شکست و ریخت کا عمل دکھائی دینے لگا۔ بڑوں کے اعمال پر تنقید نے قطعی تردید کے لیے
راستے ہموار کیے۔ غزل میں ایک جھنجھالہٹ در ٓائی۔ روایت سے کلیتا ً انکار ،غزل میں اجنبی یا یوں کہیے کہ غیر
مانوس قسم کے تجربات سامنے ٓانا شروع ہوئے۔ مختصراً یہ کہاجا سکتا ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں کہی جانے والی
غزل ہماری تب تک کی اردو غزل کے ردِعمل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس دور کا سب سے اہم نام سلیم احمد کا ہے۔ ان
کے شعری مجموعہ ’’بیاض‘‘ کی اشاعت مروجہ شعری اسلوب سے بغاوت کا اعالن تھا۔ بقول سلیم احمد یہ ایک
شعوری کاوش تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ نئےراستے تالش کرنے کی کاوش ،کم یا غیر مستعمل الفاظ اوراپنے عصر ی مسائل کے
اظہار کو غزل میں کھپانے کی کوشش۔ سلیم احمد کی غزل جدید انسان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خصوصا ً شہری زندگی کی عکاسی
کرتی ہے ۔ جنسی معامالت کا بے دھڑک بیان سلیم احمد کی شاعری کی ایک اور جہت ہے:
ٓاکے اب جنگل میں یہ عقدہ کھال
سلیم احمد
’’ٓاب رواں ‘‘ کے شاعر ظفر اقبال نے تجرید کے راستے دل کش مصوری کے بعد لسانی تشکیالت کی ٹھان لی جس
کی پہلی قسط ’’گالفتاب‘‘ کی شکل میں بقول خود اُردو زبان کی تھکن اور پژمردگی دور کرنے کے لیے سامنے الئی
شایان شان پیرایہ کی مسلسل تالش میں مگن ظفر اقبال کبھی قدم ٓاگے بڑھاتے ہیں تو کبھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان
ِ گئی۔ شاعری کے
روز روشن کی طرح عیاں
ِ کے تجربات نے خود انھیں اور اردو غزل کو کیا دیا ،ایک لمبی بحث ہےلیکن ایک بات
اشعارقبول عام کی سند حاصل کر سکے ،جہاں انھوں نے ان لسانی تجربات کے حوالہ سے
ِ ہے کہ ان کے وہی
انتہاپسندانہ رویے سے گریز کیا:
ANS 02
اردو میں نئی نظم کا تجربہ اردو شاعری کی کالسیکی روایت سے پھوٹا ہے ۔ آریاﺅں اور دراوڑوں کے تہذیبی تصادم
نے گیت کو جنم دیا پھر قدیم ہندی تہذیب اور اسالمی تہذیب کے تصادم نے ___ہند اسالمی تہذیب کی صورت اختیار
معرض وجود میں آئی۔ نظم کی روایت قدیم مثنویوں تک اپنی جڑیں
ِ کی اور غزل جیسی بھر پور اظہار والی صنف
رکھتی ہے تاہم اس کا انفرادی تشخص اول اول اس وقت ظاہر ہوا جب ہند اسالمی تہذیب اور انگریزی تہذیب کے
تصادم سے اردو شاعری میں نیچر پسندی کے رجحان کو فروغ حاصل ہو ا۔ موالنا محمد حسین آزاد جو اس رحجان
کے بڑے علمبردار تھے۔ انہوںنے تب اردو شعراءکو نظم کی طرف یوں متوجہ کیا:
”اب رنگ زمانہ کچھ اور ہے ۔ذراآنکھیں کھولیں گے تو دیکھیں گے کہ صناعت و بالغت کا عجائب خانہ کھال ہے
جس میں یوروپ کی زبانیں اپنی اپنی تصانیف کے گلدستے ،ہار ،طرّ ے ،ہاتھوں میں لئے حاضر ہیں اور ہماری نظم
خالی ہاتھ الگ کھڑی منہ دیکھ رہی ہے لیکن اب وہ بھی منتظر ہے کہ کوئی باہمت ہو جو میرا ہاتھ پکڑ کر آگے
بڑھائے“
موالنا محمد حسین آزاد کے زیر اثر ٰ
اسمعیل میرٹھی ،چکبست ،نادر کا کرروی اور حالی جیسے شعراءنے نظم میں
اپنے اپنے تجربات کئے۔ تقریبا ً اسی حوالے سے ان رویوں سے ہٹ کر کچھ عرصہ پہلے نظیر اکبر آبادی ایک
مخصوص انداز کی عوامی شاعری شروع کرچکے تھے جسے نظم کے ارتقاءمیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ب وطن“یہ سب
موالنا محمدحسین آزاد کی مثنویاں فی ذاتہ نظمیں تھیں۔”مثنوی ابرکرم“ ،مثنوی صبح امید“ ،مثنوی ح ِ
بنیادی طور پر نظمیں تھیں۔حالی کو چھوڑ کر آزاد کے زیر اثر لکھنے والے تمام شعراءکے ہاں نظم کے تقاضوں کی
کاوشیں زیادہ تر مصنوعی نظر آتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے ہاں تخلیقی جوہر کی کمی محسوس ہوتی ہے ۔ ان
کے بر عکس نظیر اکبر آبادی اپنی عوامی نظموں میں اور موالنا حالی اپنی ملی نظموں میں تخلیقی لحاظ سے بے حد
زرخیز دکھائی دیتے ہیں۔ حالی اور نظیر کی روایتیں اقبال کے ہاں یک جا ہوئیں تو پابند نظموں کے تمام ممکنات کھل
کر سامنے آگئے اور پھر پابند نظم سے آزاد نظم کا سفر شروع ہوا۔تصدیق حسین خالد ،میر اجی ،ن،م راشد اور مختار
صدیقی اس نئے سفر کے اہم شعراءتھے۔ا سی اثنا میںترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا۔ تحریک میں بڑی گھن گرج تھی۔
اس لئے آزاد نظم والوں کی آواز قدرے دَ ب گئی۔ترقی پسندوں نے زیادہ تر قافیے کی پابندی والی نظمیں کہیں۔یہ نظمیں
عمومی طور پر نعرے بازی کا شکار ہو کر رہ گئیں۔یوں بھی پابند نظموں میں اقبال کے بڑے تجربے کے بعد عام
ترقی پسندوں کے لئے اس مقام تک پہنچنا نا ممکن تھا۔ چنانچہ پابند نظموں کے شائق ترقی پسندوں نے بھی مجبوراً
آزاد نظمیں کہیں۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ اہم شعراءمیں فارغ بخاری کی نظم ”دائرے“ ،ظہور نظر کی ”شہر
سبا“ اور ”اس پار“ اور عارف عبدالمتین کی ”گمشدہ کڑی“ کو ترقی پسند نظم کے ارتقا میں بنیادی اہمیت دی جا سکتی
ہے ۔ فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی ترقی پسندوں کے بے حد اہم اور بڑے شعراءمیں شمار ہوتے ہیں ۔ ان کے
ہاں پابند نظم سے آزاد نظم کا سفر بڑا حیران کن اور مسرت انگیز ہے۔ فیض کی آخری چند بڑی نظموں میں سے ایک
نظم”مرے دل مرے مسافر“ کا ایک حصہ مالحظہ فرمائیں:
سر کوئے ناشناساں ،ہمیں دن سے رات کرنا
ِ
کبھی اس سے بات کرنا ،کبھی اس سے بات کرنا
جو ملے نہ کوئی پرساں ،بہم التفات کرنا
ب غم بُری بُال ہے
تمہیں کیا کہوں کہ کیا ہے ،ش ِ
ہمیں یہ بھی تھا غنیمت جو کوئی شمار ہوتا
ہمیں کیا بُرا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
اس نظم میں میراور غالب کی واضح گونج کے باوجود فیض نے پُرانے لفظوں میں نئی معنویت پیدا کردی ہے۔
”تکمیل کائنات“ میں کہتے ہیں۔
ِ احمد ندیم قاسمی اپنی نظم
” اور خدا
(جو فقط ایک ہے)
ان تضادات پر
اس تنوع پہ
آسودہ!
ہر دائرے سے نیا دائرہ
اس طرح پیدا کرتا چال جا رہا ہے
کہ جیسے ابھی کائنات
اپنی تکمیل کے سلسلے میں
تگ ودو میں مصروف ہے“
اس نظم کو پڑھتے ہی اقبال کا یہ شعر یاد آتا ہے:
یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
تاہم احمد ندیم قاسمی کا کمال ہے کہ وہ پرانی معنویت کو نئی لفظیات میں سمیٹ لیتے ہیں اور یہ کوئی معمولی بات
نہیں۔ ترقی پسند شعراءکی نظموں سے نعرے بازی خارج کر دی جائے تو باقی بچنے والی نظموں کا بیشتر حصہ
تخلیقی سے زیادہ اکتسابی نظر آتا ہے اس کے برعکس داخلیت پسندوں کے ہاں ترجمے کا عمل بھی تخلیقی محسوس
ہوتا ہے۔
تصدق حسین خالدنے جاپانی شاعری کو آزاد نظم کے روپ میں یوں پیش کیا ہے۔
”نہیں ،کچھ نہیں
یونہی گرمی کی شدت سے
کمزور سی ،ہو گئی ہوں
یہی کہنے پائی کہ
اک آنسوﺅں کی
جھڑی بندھ گئی (جھڑی)
میرا جی کے ہاں جنسی جذبے جن نا آسودہ صورتوں میں ظاہر ہوئے اس کی صرف ایک چھوٹی سی مثال :
ہاتھ آلودہ ہے ،نمدار ہے ،دھندلی ہے نظر
ہاتھ سے آنکھوں کے آنسو نہیں پونچھے تھے
ب جو ئبار)
(ل ِ
میرا جی کی جنسیت کی تقلید جب خواتین نے کی تو ایک تہلکہ سا مچ گیا ۔ فہمیدہ ریاض کی نظمیں ”مقابلہ حسن“،
”زبانوں کا بوسہ“’ ،ابد“”،الﺅ ہاتھ اپنا الﺅ ذرا“ اور کشور ناہید کی نظمیں ”کلیرنس سیل“” ،تم سے “ وغیرہ نے نو آموز
شاعرات پر شدیداثرات مرتب کئے۔پروین شاکر اس لحاظ سے منفرد اور اہم شاعرہ ہے کہ اس نے فہمیدہ ریاض اور
کشور ناہید کے ”کھلے ُڈلے“شعری احساسات کو ایک لطیف پیرایہءاظہار دے دیا۔
زیر سطح رکھتے ہوئے اپنی واردات کو بیان کیا ہو لیکن
بہت کم شاعرات ایسی ہیں جنہوںنے جنس کے جذبے کو ِ
ایسی شائستہ مثالیں بھی مل سکتی ہیں۔مثال کے طور پر ادا جعفری کی یہ نظم دیکھیں:
”مرے بچے
مجھے جب دیکھنا چاہو
تو بس اپنی طرف دیکھو
تمہارے لب پہ جو حرفِ صداقت ہے
یہی میں ہوں
ناز جسارت ہے
تمہارے دل میں جو ِ
یہی میں ہوں
طرز عبادت ہے
ِ نگاہوں میں جو اک
یہی میں ہوں
محبت کی طرح بھی ہوں بے پایاں
کبھی ظاہر کبھی پنہاں
جہاں تم ہو وہاں تک میری خوشبو ہے
وہاں میں ہوں۔“
فرحت نواز کی نظم ”وصیت “ بھی ایسی ہی شائستگی سے عبارت ہے:
”جیون بھر میری سانسوں نے
نام نسب کا بوجھ اٹھایا
مر جاﺅں تو مجھ پر سے یہ سارا بوجھ اٹھا دینا
میرا کتبہ بھی لکھنا تو اس کے اوپر
میرا نام محبت لکھنا
پیشہ لکھنا قلم کی محنت
عمر رواں کے آگے لکھنا
ِ
الحاصل خوابوں کی گنتی
یہ سب گر نہ لکھ پاﺅں تو
بے شک میری تربت کو گمنام ہی رکھنا“
فیض احمد فیض اور میرا جی کے اثرات سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ حقیقت ہے کہ جدیدنظم پر سب سے زیادہ
اثرات ن۔م۔راشد نے مرتب کئے ۔ راشد نے” ایران میں اجنبی“ کی فارسیت سے جہاں نظم کا اس کی قدیم شعری ،
روایت سے تعلق کا تخلیقی سطح پر اقرار کیا وہیں ”ال= انسان“ میں انسان کی نا معلوم قیمت کو کائناتی اسرارو رموز
کے حوالے سے دریافت کرنے کی کاوش کی۔ یوسف ظفر ،مجید امجد ،اور وزیر آغا کی نظمیں دراصل راشد کی
نظمیہ شاعری سے آگے کا سفر ہیں ۔جیالنی کامران ،منیر نیازی ،ایوب خاور ،اختر حسین جعفری ،سلیم احمد ،ساقی
فاروقی ،ضیا جالندھری ،غالب احمد ،اعجاز فاروقی ،غالم جیالنی اصغر ،اظہر جاوید اور عبید ہللا علیم ،جیسے
شعراءکے ہاں نظم کا وہ روپ سامنے آتا ہے جو راشد ،میرا جی ،اور فیض کے ملے جلے اثرات سے ابھرا ہے اور
جو دن بدن اپنی الگ شناخت قائم کرتا جا رہا ہے۔
چند اہم شعراءکی اہم نظموں کے اقتباس مالحظہ کیجئے:
”نہ جانے کون سا کوہ گراں ہے تیرے ہاتھوں پر
کہ اب تک تیرے ہاتھوں کے لئے چہر ہ ترستا ہے
تجھے دیکھوں تو جی یہ چاہتا ہے تجھ سے پوچھوں
….ماں… .یہ کن روگی زمانوں کے بھروسوں پر ابھی تک جی رہی ہو
… .کچھ تو بول!“
(ماں۔ ایوب خاور)
”تمہیں کیا یاد ہے
تم نے کہا تھاوصل کے سرشار لمحوں میں
کہ دل کی بات
میں اس سے کہہ بھی سکتی گر تو کہہ دیتی
کہ میرے جسم میں دو دل دھڑکتے ہیں
تمہارے واسطے بھی اور اس کے واسطے بھی جو تمہارا دشمن ِ جاں ہے۔“
(سلیم احمد)
اے خدا! مجھ کو نیا روز دکھا
اے خدا! مجھ کو دکھا راہ کہ گمراہ ہوں میں
روشنی میری لوٹ! میں تاریکی ہوں۔“
(استانزے۔ جیالنی کامران)
”وہ دیکھو کہ
رحم مادر سے نکال ہوا طفل نوزائیدہ
ِ پھر
وقت کو کہہ رہا ہے
زمیں سے ضمانت نہ مانگو
رگ جسم و جاں کی شہادت نہ مانگو
کہ ضامن ہو تم اس طرح کے
زمانے کے تم خودا میں ہوں
جہان ہنرمیں نئی زندگی کی طلب کے ،طرب کے
نئے آشیانے بساﺅ ،نیا گھر بناﺅ
کہ یہ نفس کا ”نقطہءآسماں “ہے
کنار یقیں ہے نئی سر زمیں ہے
دو،ابن آدم بالﺅ
ِ زمانے کو آواز
کہو سب کو آﺅ نیا گھر ہمارا کھال ہے
یہ وقت دعا ہے!
(نظم کی ابتدائی نظم۔غالب احمد)
کاغذوں پر لکھے لفظ تھےُ ،دھل گئے
وہ بھی کیا وقت تھا
دعوے داروں کا ،یاروں کا میلہ رہا
یہ بھی کیا وقت ہے
چھوڑ کر سب گئے میں اکیال رہا
زندگی مہرباںتھی ،پریشاں ہوئی
موت بھی اب تو مجھ سے گریزاں ہوئی
اے خدا!
(کاغذوں پرلکھے لفظ۔ اظہر جاوید)
”یہ صہبائے امروز ،جو صبح کی شاہ زادی کی مست انکھڑیوں سے ٹپک کر جو دور حیات آگئی ہے۔ یہ ننھی سی
چڑیاں جو چھت پر چہکنے لگی ہیں ہوا کا یہ جھونکا جو میرے دریچے میں تلسی کی ٹہنی کو لرزا گیا ہے پڑوسن
کے آنگن میں پانی کے نلکے پہ یہ چوڑیاں
جو چھنکنے لگی ہیں
دل زار کی دھڑکنوںکی امیں ہے“
یہ دنیائے امروز میری ہے ،میرے ِ
(امروز۔ مجید امجد)
”بیاض شب و روز پر دستخط تیرے قدموں کے ہوں
ِ
چہکتے ہوئے تینوں نٹ کھٹ زمانے
ترے گردناچیں
تو بنسی کی تانوں سے ہر شے کو پاگل کرے ،نذر آتش کرے،
توڑ ڈالے
مگر خود نہ ٹوٹے
کبھی تو نہ ٹوٹے!“
(دعا۔ وزیر آغا)
”زمانہ خدا ہے ،اسے تم برا مت کہو“
ریسمان خیال
ِ مگر تم نہیں دیکھتے ۔ زمانہ فقط
سبک مایہ ،ناز ک طویل
جدائی کی ارزاں سبیل
وہ صبح ،جو الکھوں برس پیشتر تھیں
وہ شامیں جو الکھوں برس بعد ہو ں گی
انہیں تم نہیں دیکھتے ،دیکھ سکتے نہیں
کہ موجود ہیں ،اب بھی ،موجود ہیں وہ کہیں
مگر یہ نگاہوں کے آگے جو رسی تنی ہے
اسے دیکھ سکتے ہو اور دیکھتے ہو
کہ یہ وہ عدم ہے
جسے ہست ہونے میں مدت لگے گی
ستاروں کے لمحے ستاروں کے سال!“
(زمانہ خدا ہے۔ ن۔م۔ راشد)
نئی نظم کے ارتقاءمیں اس لحاظ سے ترقی پسند تحریک کے شعراءکا بڑا حصہ ہے کہ اگر وہ کمٹ منٹ پر اتنا
اصرار نہ کرتے تو ہمارے داخلیت پسند شعراءکے ہاتھوں نظم کی تمام عالمتیں اور تمثالیں سراسر ذاتی ہو کر عدم
ابالغ کا مسئلہ پیدا کردیتیں یوں ترقی پسندوں کے اصرار نے داخلیت پسند شعراءکو اعتدال پر رکھنے میں غیر ارادی
طور پر بڑا اہم کردار ادا کیا اور اب کہا جا سکتا ہے کہ نئی نظم ایک طرف زندگی اور اس کے مسائل سے باخبر ہے
تو دوسری طرف کائنات اور اس کے ان گنت اسرار کی دریافت کے روحانی عمل سے بھی گزر رہی ہے ۔ڈاکٹر وزیر
آغا کی طویل نظم”آدھی صدی کے بعد“نے نظم کو ایک نئے تخلیقی ذائقے سے روشناس کر دیا ہے اور اب طویل
نظموں کا رواج بھی چل نکال ہے۔جیالنی کامران ،سلیم احمد اور غالب احمد جیسے شعراءکی طویل نظمیں اب نظم
کے ایک نئے دور کے امکانات کی خبر دے رہی ہیں۔
ANS 03
ذوق کی قصیدہ نگاری کی خصوصیات
قصیدہ نگار کے لیے ضروری ہے کہ اس کا مطالعہ وسیع اور گہرا ہو ،زبان پر قدرت حاصل ہو ،ایک سے زیادہ
زبانوں پر عبور ہو ،خیاالت میں بلندی ،فکر میں ندرت ہو ،جس سے قصیدہ کا ہر حصہ شاعر کے کمال فن کا مظہر
ہوتا ہے ۔
ذوق کی تشبیبیں
قصیدے کا آغاز تشبب سے ہوتا ہے جسے نسیب اور مطلع بھی کہتے ہیں۔ یہ قصیدے کی جان ہوتی ہے۔ تشبب کا
موضوع جتنا اچھوتا ہوتا ہے قصیدہ بھی اتنا ہی دلکش ہوتا ہے ۔ تشبیب کے مضامین میں ممدوح کی حیثیت و مرتبے
کی مناسبت بھی اہمیت رکھتی ہے ۔ ذوق کے قصائد کا سب سے دلکش حصہ ان کی تشبیوں کا ہے جن سے ذوق کے
کمال فن اور علم و فضل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ تشبب میں ان کے موضوعات مختلف اور متنوع ہیں۔ بہادر شاہ
ظفر کے جشن صحت کے موقع پر کہے گئے قصیدے میں تشبیب کے ستائیس ( ) 27اشعار ہیں ۔ ہوائے بہار کی
مسیحا نفسی کی مختلف انداز سے توضیح و تعبیر کی ہے۔ عیدین کی تقریبات پر کہے ہوۓ قصائد کی تشبیبیں عیش و
نشاط سے معمور ہیں ۔ بعض تشبیبوں میں اخالقی ،حکیمانہ و ناصحانہ مضامین ہیں تو بعض میں زمانے کی نا اہلی کا
شکوہ ہے۔
ذوق نے جتنا زور تشبیب پر صرف کیا ہے اتنا ہی زور انھوں نے دوسرے اجزا پر بھی صرف کیا ہے ۔ گریز
قصیدے کی ایک اہم کڑی ہے جو تشبیب اور مدح کو جوڑتی ہے ۔ تشبیب کا مزاج مدح سے مختلف ہوتا ہے ۔ شاعر
تشبیب کو مدح سے مربوط کرنے کے لیے بات میں سے بات اس طرح پیدا کرتا ہے کہ کہیں تسلسل میں خلل پیدا
ہونے نہیں پاتا ۔اس مقام پر ہمیں شاعر کے کمال کا اندازہ ہوتا ہے۔ ذوق نے گریز میں اپنی فن کاری اور قوت تخیل
اور پرواز فکر کا ثبوت دیا ہے ۔ ایک قصیدہ جو عید کے موقع پر کہا گیا ہے اس کا مطلع ہے :
ہے وہ جاں دار دیے نافع اعضا و حواس
کہ دل مردہ ہو زندہ تن بے حس حساس
اس قصیدے کے ابتدائی 16اشعار میں شراب کی مدح و ستائش کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس کے بعد شاعر کو بادشاہ
کی دین داری اور پرہیز گاری کا خیال آ تا ہے اور وہ بڑے فن کارانہ انداز میں پہلو بدل کر گریز کرتا ہے ۔
میں یہ کہتا ہی تھا جو دل نے مرے مجھ سے کہا
توبہ کر توبہ ،نہ کر اتنی زیادہ بکواس
پھر بادشاہ کی مدح کی طرف رجوع ہو جاتا ہے ۔ بعض قصائد میں گریز سیدھی سادی ہے ۔ ایک قصیدے میں
خوشی کی تجسیم کرتے ہوئے اسکی سراپا نگاری کرتے ہیں ۔ پھر اپنی ہمہ دانی اور علمی تبحر کا تذکرہ کرتے ہیں ۔
اتنے میں انھیں نیند آ جاتی ہے ۔ اس طرح گریز کرتے ہیں :
لگ گئی آ نکھ مری دیکھتا کیا خواب میں ہوں
کہ مجسم نظر آتی ہے نوید بہجت
کبھی کبھی گریز میں مکالماتی انداز اختیار کر لیتے ہیں ۔
مدح
مدح قصیدے کا اصل مقصد ہوتا ہے ۔ مدح کا ممدوح کی حیثیت و مرتبہ سے مناسبت رکھنا ضروری ہوتا ہے یعنی
مدح میں حفظ مراتب پر زور دیا جاتا ہے ۔ شاعر کے لیے ضروری ہے کہ وہ ممدوح کی نفسیات سے آ گاہ ہو ،مزاج
آشنا ہو ذوق نے مدح میں ممدوح کے جود و سخا ،علم دوستی ،عدل و انصاف ،مذہبی رجحان ،خدا ترسی ،شجاعت اور
عقل و حکمت کی تعریف کی ہے ۔ ممدوح کے ساتھ اس کی فوج ،ساز و سامان تیر و تلوار گھوڑے ،ہاتھی ،مطبخ ،در
لبار کی رونق جاہ و حشمت کی تعریف تقریبا ہر قصیدے میں نہایت پر شکوہ انداز سے کی ہے۔ مدح میں عموما ً
مبالغے کا پہلو شامل رہتا ہے ۔ ذوق کی مدح بھی اس سے خالی نہیں ۔ بادشاہ کی مدح میں دو شعر دیکھیے :
ٰ
اعلی والی واال اے شہہ عالم ،در ہمہ عالم ،عالی
لب پہ ستائش ،ول بہ نیائش جلوه طراز عرش معلی
روح مجسم ،عقل مکرم ،نفس مقدس ،جسم مطہر
جان موافی ،پرده بہ دنیا جلوه بہ عقبی
باتن صافی ِ ،
ذوق کے قصائد
قصیدے میں عرض مدعا اور دعا کا حصہ مختصر ہوتا ہے ۔ یہ بھی قصیدہ نگار کے لیے ایک دشوار مرحلہ ہے۔
شاعر کو یہ خیال رکھنا پڑتا ہے کہ عرض مدعا ممدوح کی طبیعت پر گراں نہ گزرے ۔ ذوق نے یہاں بڑا روایتی انداز
اختیار کیا ہے ۔ ذوق نے کسی بھی قصیدے میں عرض مدعا نہیں کیا ہے۔ ان کا یہ مقصد بھی نہیں ہوتا تھا جیسا کہ
غالب نے روا رکھا ہے۔ غالب کے یہاں حسن طلب قصیدے کا اصل مقصد ہوتا ہے ۔ وہ مانگتے ہیں اور اور نت نئے
طریقے سے مانگتے ہیں ۔ ذوق نے اپنے قصائد میں ٰ
تعلی کبھی نہیں کی جیسا کہ اکثر قصیدہ نگار اپنا قصیدہ تعلی پر
ختم کرتے ہیں۔
ANS 04
جب قیامت کا ذکر چھڑ جاتا ہے تو بات محبوب کی جوانی تک پہنچتی ہے اور جب مثنوی کا ذکر چھڑ جاتا ہے تو
بات ”سحرالبیان “ تک پہنچتی ہے یہ حقیقت ہے کہ جس قدر نشہ ،خمار ،کشش اور ساحری محبوب کی جوانی میں
ہوتی ہے اسی قدر یہ خصوصیت دوسری اشیاءمیں نہیں ہوتی۔ اسی طرح سے اردو میں کافی تعداد میں مثنویاں کہی
گئی ہیں مگر جو دلکشی اور ساحری مثنوی ”سحر البیان“ میں موجود ہے دوسری دوسری مثنویاں ان خوبیوں سے
محروم ہیں اس لیے ہم بال تکلف یہ بات َکہ سکتے ہیں کہ سحرالبیان اردو کی بہترین مثنوی ہے۔
”سحر البیان “ اردو کی ان زندہ جاوید مثنویوں میں سے ہے جو ہر زمانہ میں عوام اور خواص میں یکساں طور پر
مقبول رہی ہیں اس مثنوی کی مقبولیت پر غور کیجئے تو بہت فنی محاسن ایسے نظر آتے ہیں جو دوسری مثنویوں
میں نہیں ملتے ہیں۔ اس لیے ” سحرالبیان “ ایک مقبول عام مثنوی ہے۔”سحر البیان“ کے فنی محاسن کے سلسلے میں
اس کی کردار نگاری پالٹ ،جذبات نگاری ،مکالمہ نگاری ،مرقع نگاری ،منظر نگاری اور سراپا نگاری کے
عالوہ ایک مربوط معاشرت کے ثقافتی کوائف کی تصویر بے حد کامیاب کھینچی گئی ہے۔
اس مثنوی سے میرحسن اور ان کی سوسائٹی کے مذہبی افکار اور اخالقی اقدار پر روشنی پڑتی ہے جو اس معاشرت
تصور زندگی کا جزو بن چکے ہیں ۔ ”سحرالبیان“ اس دور کے مذہبی معتقدات ،ذہنی امور
ِ کے روائتی طرز فکر اور
اور اخالقی تصورات کی عکاس ہے۔ یہ مثنوی دراصل اس طرز زندگی کی بہترین نمائندگی کرتی ہے ۔اودھ کی اس
فضا میں جہاں تکلف و تصنع کا دور دورہ تھا ۔ ایک تہذیب بن رہی تھی۔ ”سحرالبیان“ میں اس تہذیب کی تصویریں
بھی محفوط ہیں۔ میر حسن چونکہ دلی سے آئے تھے اور مغل تہذیب کے دلدادہ تھے اسی لیے اس مثنوی ” گلزار
نسیم“ کے مقابلے میں لکھنوی عناصر کم ہیں۔ اس مثنوی کا اسلوب و لہجہ دہلوی ہے۔ تکلفات و تصنعات کا وہ زور
نہیں جو بعد میں گلزار ِ نسیم کی صورت میں نمودار ہوا۔پروفیسر احتشام حسین اپنے ایک مضمون ”سحر البیان پر
ایک نظر“ میں یوں لکھتے ہیں،
” اگر کوئی شخص اختالف کرنے پر آئے تو اختالف ہر بات سے ہوسکتا ہے اس لیے اگر کہا جائے کہ میر حسن کی
مثنوی سحرالبیان (جس کا پورا نام کبھی کبھی مثنوی سحرالبیان یعنی مثنوی میر حسن معروف بے نظیر و بدر منیر
لکھا جاتا ہے) اردو زبان کی سب سے اچھی مثنوی ہے تو کہیں کہیں سے یہ آواز ضرور آئے گی کہ یہ رائے درست
نہیں ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ یہ مثنوی اردو کی بہترین مثنویوں میں شمار کی جاتی ہے تو شاید کسی کو شدت
کے ساتھ اختالف نہ ہوگا۔ کہانی اور انداز ِ بیان میں ضرور کچھ ایسے عناصر ہیں جس کا مطالعہ اس کی عظمت کا
پتا دیتا ہے۔
میر حسن نے کئی اور مثنویاں بھی لکھیں لیکن کسی مثنوی میں یہ نہیں کہا ہے کہ،
یہ میر حسن کی تعلی ہو یا روایتی شاعرانہ پیرایہ بیان لیکن ہم اس کو تنقید کی بنیاد بنا کر ”سحر البیان“ پڑھیں تو
بعض دلکش نتائج ضرور برآمد ہوں گے۔ ”سحرالبیان “ کا مطالعہ ہم مندرجہ زیل عنوانات کے تحت کرتے ہیں ہر
عنوان میں اس کی خوبیوں اور فنی محاسن پر تنقید و تبصرہ کرکے اس کی قدر و قیمت نمایاں کی جائے گی۔
سحرالبیان کا پالٹ:۔
جہاں تک اس مثنوی کے پالٹ کا تعلق ہے ،اس میں کوئی نیا پن نہیں اس کہانی کے اجزا ءمختلف منشور اور منظوم
،قدیم داستانوں میں بکھرے پڑے ہیں اور اس کی کہانی سیدھے سادھے انداز میں یوں ہے،
کسی ملک میں ایک بادشاہ تھا جو اپنی منصف مزاجی کی وجہ سے رعایا میں ہر دلعزیز تھا ۔ بادشاہ کو تمام نعمتیں
میسر تھیں مگر اوالد جیسی نعمت سے محرومی اس کی زندگی کی سب سے بڑی محرومی تھی۔ اس محرومی و
مایوسی کے عالم میں بادشاہ دنیا ترک کر دینے کا ارادہ کر لیتا ہے۔ وزیروں کے مشورے پر وہ سردست اس فیصلے
پر عمل درآمد روک دیتا ہے۔ شاہی نجومی بادشاہ کے ہاں چاند سے بچے کی پیدائش کی خوشخبری دیتے ہیں ۔ اس کی
سالمتی و زندگی میں چند خطروں کی نشان دہی کرتے ہوئے اس احتیاط کی تلقین کرتے ہیں کہ بارہ سال کی عمر تک
اسے محل کے اندر رکھا جائے اور رات کھلے آسما ن تلے سونے نہ دیا جائے کچھ عرصے بعد واقعی بادشاہ کے ہاں
لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ اس کا نام اس کی خوبصورتی اور مردانہ وجاہت کے پیش نظر ” بے نظیر “ رکھا جاتا ہے۔ تمام
شاہی تکلفات اور ناز و نعم کے ساتھ ۱۲سال تک اسے محل کے اندر رکھا جاتا ہے۔ مگر سال کے آخری دن جب اس
کی عمر بادشاہ کے حساب سے پورے بارہ سال ہوگئی تھی (حاالنکہ اتفاق سے ایک دن کم تھا) وہ رات کو ضد کرکے
چھت پر سو جاتا ہے ۔ آدھی رات کے قریب ماہ رخ پری کا گزر وہاں سے ہوا ۔ اسے سوتے میں دیکھ کر اس پر
عاشق ہوئی او ر اپنے ساتھ پرستان میں لے گئی۔ شہزادے کی گم شدگی پر صبح محل میں قیامت کا منظر پربا ہو گیا۔
بڑی تالش کی گئی مگر شہزادے کو نہ ملنا تھا نہ مال۔ ماہ رخ پری طرح طرح سے شہزادے کو اپنی طرف مائل
کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ شہزادہ اپنی صغیر سنی کے باعث اداس ،ملول اور پریشان رہتا ہے۔ اس پریشانی کو دور
کرنے کے لیے ماہ رخ پری اسے کل کا گھوڑا دیتی ہے۔ اس گھوڑے پر سیر کرتا پھرتا شہزادہ ”بدر منیر شہزادی “
کے باغ میں اترتا ہے دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر عاشق ہوجاتے ہیں۔ اچانک ایک دن ایک دیوان دونوں کووصل
کی حالت میں دیکھ لیتا ہے۔ اس کی اطال ع ما ہ رخ پری کو ہوتی ہے تو وہ انتہائی غضبناک ہو کر شہزادے کو واپس
آنے پر کوہ قاف کے اندھے کنوئیں میں ڈلوا دیتی ہے ۔ بدر منیر کا عجیب حال ہے اس کی راز دار سہیلی وزیر زاد ی
نجم النساءبے نظیر کی تالش میں نکلتی ہے۔ اور آخر کار بڑی مشکلوں سے جنوں کے بادشاہ کے بیٹے فیروز شاہ کی
مدد سے بے نظیر کو رہائی دالتی ہے۔ دونوں کی شادی ہوجاتی ہے خود نجم النساءفیروز شاہ کے ساتھ بیاہ کر لیتی
ہے۔ اور یوں یہ مثنوی طرب ناک انجام کو پہنچتی ہے۔
ڈاکٹر وحید قریشی پالٹ کا تجزیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ،
” فنی لحاظ سے ”سحرالبیان“ کا جائزہ لیا جائے تو اس ضمن میں میر حسن کی ذہانت ،پالٹ کی تشکیل میں بروئے
کار نظرآتی ہے ”سحرالبیان“ اردو کی چند عظیم مثنویوں میں سے ہے اس میں اگرچہ محدود زندگی کی تصویر کشی
کی گئی ہے لیکن اپنی محدودیت کے باوجود میر حسن نے جس زندگی کو پیش کیا ہے وہ ہمارے لیے دلچسپی کا وافر
ٰ
اعلی صالحیت میں مضمر ہے۔“ سامان مہیا کرتی ہے۔ مثنوی کی شہرت اور مقبولیت کا راز میر حسن کی
”سحر البیان“ کی فنی خوبیوں میں اس کی نمایاں خوبی تہذیب و ثقافت کی عکاسی ہے۔ سید عابد علی عابد اس کی
تہذیبی و معاشرتی خوبیوں کا بیان یوں کرتے ہیں:
میر حسن نے درحقیقت اس تہذیب و معاشرت کا گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا ۔ اور وہ اس سے خوب واقف تھے
یہاں ہم موسیقی کی ایک محفل کی تصویر پیش کرتے ہیں جسے میر حسن کے فنی شعور نے تخلیق کیا ہے۔
موسیقی:۔
جبکہ اس دور کے فرماں رواٶں کے نجوم کے قائل اور رسموں کے گھائل ہونے کا منظر تو مثنوی کی ابتداہی میں
نظر آتا ہے۔ جبکہ مختلف موقعوں پر چند رسوما ت کا بیاں بھی آیا ہے۔ اگر ان کا جائزہ لیا جائے تو معاشرت و تمدن
کی بڑی واضح اور جاندار تصویریں ہمارے سامنے آجاتی ہیں۔ مثالً شہزادے کی پیدائش پر جس طرح مال اسباب لٹایا
جاتا ہے۔ علماو شیوخ کو جاگیریں عطا کی جاتی ہیں۔ سپاہیوں کو گھوڑے دیے جاتے ہیں ۔ ان سب سے اس معاشرے
اور حکومت کی تصویر ہمارے سامنے آتی ہے۔
اس شعر میں تو آصف الدولہ کا عہد خو د بخود جھلک رہا ہے۔ جو کہ مثنوی کے آخر میں کہا گیا ہے۔
رہے شاد نواب ِ عالی جناب
ڈاکٹر وحید قریشی مثنوی ”سحر البیان “ کے اس پہلو پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں،
” دراصل ”سحرالبیان “ ایسے معاشرے کی تصویر کشی ہے جسے فراغت حاصل ہے قصے کے تمام افراد اسی آسودہ
حالی اور فارغ البالی کے مظہر ہیں ۔
منظر نگاری:۔
” میر حسن اس معاملہ میں یکتا ہیں کہ انھوں نے فطری مناظر کی دلکشی اور رعنائی کو اپنی روح میں جذب کیا اور
پھر اس رعنائی کو پڑھنے والوں تک اس طرح منتقل کیا کہ ان کی صنعت گری کا عالم دیکھ کر بڑے سے بڑا نقاد
ت بدنداں ہے۔“
انگش ِ
باغ کی تیاری:۔
اب باغ کی تیاری کا منظر دیکھئیے مختلف پھولوں ،درختوں کے نام ہی سنیے ان کی خوشبو بھی محسوس کیجئے ۔
میر حسن نے باغ کی فضا بناتے وقت پھل ،پھول ،درخت ،خوشبو ،روشنی ہوا کا حسین امتزاج تیار کر دیاہے جس
میں پڑھنے واال کھو کر رہ جاتا ہے۔
غسل کا منظر:۔
رقص و موسیقی اور باغات و عمارات کے تہذیبی نقشے دیکھنے کے بعد ایک روایتی غسل کا منظر بھی دیکھیے
شہزادہ بے نظیر غسل کے لیے آتا ہے ۔ اس مقام پر کیا اہتمام ہوتا ہے کیسے کیسے لوازمات برتے جاتے ہیں یہ منظر
دیکھیے
جلوس کی تیاری:۔
میر حسن نے یہاں جلوس کی تیاری میں اس دور کے روایتی جلوس کی بھر پور عکاسی کر دی ۔ مختلف سواریوں کا
حال لکھا ہے ۔ سنہری روپہلی سواریوں کا جلوس ہے ساتھ پالکیاں ہیں اور کہار ،زربفت کی کرتیاں پہنے دبے پاٶں
آگے بڑھ رہے ہیں اب جلوس میں شہنائیوں کی صدا آتی ہے اور نوبت کی دھیمی دھیمی صدا کانوں کو بھلی لگتی
ہے۔ اس منظر میں نقارچی بھی نظرآتے ہیں اس میں ہاتھیوں کی قطاریں بھی ہیں،جلوس کے آگے آگے نقیب ،چوبدار
اور جلوہ دار دکھائے گئے ہیں چونکہ شہزادے کا پہال پہال جلوس ہے اس لیے اس کو دیکھنے خلقت کثرت سے اُمنڈ
آئی ہے۔
شادی کا منظر:۔
یہ منظربے نظیر کی شادی کا ہے اس تہذیبی مرقع میں شہزادوں کی روایتی شادی کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ اس نقشہ
میں سواریاں ،آالت ،موسیقی اور شان و شوکت کے خطوط بہت روشن ہیں۔ آالت موسیقی دیکھیے یہ دھولنے رعد
کی طرح گرج رہے ہیں شہنائی کی سہانی دھنیں مست کررہی ہیں ۔ طبل بج رہے ہیں سواریاں دیکھیے تو تمامی کے
تخت رواں ،ہاتھی ،گھوڑے وغیرہ ملتے ہیں سامان ِ آرائش کا بیان سب سے بہتر ہے ۔ فانوس ،چراغوں کے
ترپولیے ،ابرک کی ٹٹی ،مینے کا جھاڑ ،شمعدان ،آتش بازی اس تہذیبی نقشہ کی ہر شے حرکت و حرارت رکھتی ہے
۔ میر حسن کی نظر پورے جلوس شادی پر ہے وہ ایک ایک شے کو نظر میں رکھ کر اس کا حال لکھتے ہیں،
شادی کے اس منظرمیں رشتہ داروں کی چھیڑ چھاڑ ،شہزادہ کا محل میں بالیا جانا ۔ آرسی مصحف کی رسم ،دولھا
و دلھن سے ہنسی مذاق کی باتیں رنگ رلیاں اور رخصتی کی رسم ،کو میر حسن نے بڑی چابک دستی و صناعی
سے پیش کیا ہے۔
جذبات نگاری:۔
میر حسن کے ہاں جذبات نگاری کے بڑے ہی اچھے اور موثر مرقعے ملتے ہیں خوشی کے عالم میں خوشی اور غم
و الم اور دکھ کے مواقع پر رقت طاری ہو جاتی ہے ذرا وہ منظر دیکھیے جب بے نظیر چھت پر سے غائب ہو جاتا
ہے۔ محل میں کہرام مچ جاتا ہے۔ والدین کے لیے قیامت آجاتی ہے۔ اور ہر کوئی پریشان اور حیران کھڑا ہے۔
ایسی ہی دردناک تصویر اس موقعہ پر نظر آتی ہے جب شہزادی ”بد رمنیر “ شہزادہ ”بے نظیر “ کی جدائی میں بلکتی
سسکتی اور روتی دھوتی دکھائی دیتی ہے مالحظہ ہو،
جزئیات نگاری:۔
میرحسن نے جس واقعے کا بھی ذکر کیا اس کے ہر اک جزو کو مکمل بیان کردیا مثالً جب بادشاہ رمال کو بال کر
اوالد کے بارے میں ان سے دریافت کرتا ہے تو رمال نے اپنا کام یوں شروع کیا ۔
اس طرح میر حسن نے پوری تفصیل کے ساتھ نجومیوں کے حرکات و سکنات کو بیان کیا ہے۔ اس طرح جب بادشاہ
کا بیٹا ہوا تو رقص کا اہتمام ہوا ہے۔ میر حسن نے رقص کا منظر نہایت دلفریب انداز میں پیش کیا ہے انھوں نے ایسی
باریک باتوں کا ذکر کیا ہے جس پر ہر شاعر کی نظرنہیں پڑتی۔
تصویر کشی:۔
”سحر البیان“ کا ایک بڑا کما ل اس کی تصویر کشی ہے۔ میر حسن نے جس منظر اور جس حالت کا جہاں بھی نقشہ
کھینچا تصویر کشی کا حق ادا کردیا ۔ موالنا حالی مثنوی ” سحرالبیان“ کی اس خوبی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں،
” غرض کے جو کچھ اس مثنوی میں بیان کیا ہے اس کی آنکھوں کے سامنے تصویر کھینچ دی ہے۔ اور مسلمانوں
ٰ
بعینہ ان کا چربہ اتار کے اخیر دور میں سالطین امراءکے یہاں جو حالتیں تھیں اور جو جو معامالت پیش آتے تھے۔
دیا ہے۔“
میر حسن نے منظر نگاری کی تصویر کشی کی ہے اس میں ایسی محاکات کا ثبوت دیا ہے پورا منظر ہماری آنکھوں
کے سامنے پھر جاتا ہے۔ منظر دیکھئے،
ایک موقعہ پر شہزادی کی تصویر کشی کی ہے اور بہت جیتی جاگتی تصویر ہے،
”سحرالبیان “ میں مکالمہ نگاری نہایت فطری انداز میں موجود ہے۔ چونکہ میر حسن کے تجربات وسیع تھے اور
انھوں نے مختلف طبقے کے لوگوں میں زندگی بسر کی تھی اس لیے ان کو مختلف لوگوں کی زبان سمجھنے کا موقعہ
مال۔ جب بدر منیر سے مالقات کرکے بے نظیر رخصت ہونے لگا تو اس نے بدر منیر سے کہا۔
”سحر البیان“ میں میر حسن کی سیرت نگاری کے بارے میں یہ بات جان لینی چاہیے کہ قصے کے تمام کردار اس
آسودہ حا ل اور فارغ البال معاشرے کے افراد ہیں جہاں دولت عام ہے اور سوائے عشق و عاشقی اور رقص و سرور
کی محفلوں کے سوا کوئی کام نہیں یہی وجہ ہے کہ تقریبا ً تمام ہی کردار بے عملی کا نمونہ ہیں ۔ ڈاکٹر وحید قریشی
”سحرالبیان“ میں کرداروں کی اس بے عملی کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں،
” حقیقت یہ ہے کہ فراغت کی زندگی سے عیاشی پیداہوئی” سحرالبیان“ کے بے عمل کردار یہی عیاش لوگ ہیں وہ
واقعات کو آگے بڑھانے میں مدد نہیں کرتے بلکہ حاالت کے دھارے میں بے دست و پا ہیں۔ بے نظیر دنیا بھر کے
علم حاصل کرتا ہے بہادر ہے عقل مندبھی ہے لیکن اس کی زندگی میں جب بھی عمل اور پیش قدمی کی ضرورت
ہوتی ہے وہ ہماری توقعات کو پورا کرنے سے قاصر رہتا ہے اس کا باپ بھی قسمت پر شاکر ہے اور شہزادے کے
گم ہونے پر اسے واویال کرنے کے سوا کچھ کام نہیں ۔ شہزادی بدرمنیر عشق و محبت میں صرف رونا جانتی ہے
غشی کے مسلسل دورے اس کی بے بسی بے چارگی کو ظاہر کرتے ہیں۔“
”سحرالبیان“ میں کرداروں کی تعداد زیادہ نہیں بادشاہ ،بے نظیر ،ماہ رخ ،بدر منیر ،نجم النساء ،مسعود شاہ اور فیروز
شاہ ،ان کرداروں میں بے نظیر ،ماہ رخ ،بد منیر اور نجم النساءکے کردار اہم ہیں ۔
بے نظیر:۔
بے نظیرکا کردار روائتی شہزادوں کا سا ہے بے نظیر کا کردار فعال نہیں ہے وہ اپنے آپ کو حاالت کے رحم و کرم
پر چھوڑ دیتا ہے ۔ حاالت کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتا ۔ اگرچہ وہ کہانی کا مرکزی کردار ہے لیکن وہ فعال کردار
نہیں ہے۔ شہزادہ بے نظیر ملک شاہ بادشاہ کا بیٹا ہے اس کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں کہ وہ بہت خوبصورت ہے۔
اس کا ذکر میر حسن یوں کرتے ہیں،
ماہ رخ پری:۔
اس کردار میں خوبصورتی ،حیاداری اور عشق پسندی کے ساتھ ساتھ رقابت اور انتقام کا جذبہ اپنی انتہائوں پر
دکھائی دیتا ہے ۔ اس کا تعارف یوں ہوتا ہے پرستان میں بے نظیر کی آنکھ کھلتی ہے تو وہ ماہ رخ کو اپنے سرہانے
دیکھتا ہے۔
اس کے کردا ر کا جاللی پہلو دیکھیں ،شہزادہ بے نظیر ،بدر منیر کے باغ میں مئے عشق کا جام نوش کر رہا ہے
اسی عالم میں ایک جن یہ دیکھ کر ماہ رخ پری کے کان میں پورا منظر سنا دیتا ہے۔ ذرا اس غضبناکی کا یہ عالم
مالحظہ ہو۔
بدر منیر:۔
رشک و حسدکا یہ انداز دیکھیں شہزادہ اپنی مجبوریوں کا اظہار کرتا ہے پری کی قید سے رہائی نہیں ملتی تو اس کا
جواب یہ ہے کہ،
نجم النساء:۔
مثنوی”سحرالبیان “ کا سب سے زیادہ روشن ،رنگین ،شوخ اور متحرک کردار نجم النساءکا ہے۔ بقول عابد علی عابد
نجم النساءکی تخلیق میں میر حسن نے اپنی ساری صنعت گری صرف کر دی ہے۔ احتشام حسین کی رائے میں
سحرالبیان میں سب سے اہم کردار نجم النساءکا ہے۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ ”سحرالبیان“ ہی میں نہیں تمام مثنویوں میں
اپنی مثال آپ ہے۔ نجم النساءسحرالبیان کے کینوس پر پہلی مرتبہ اس وقت نظر آتی ہے جب شہزادہ بے نظیر ،بدر
منیر کے باغ میں آچکا ہے اور بدر منیر سہیلیوں کی جھرمٹ میں بیٹھی ہوئی ہے سب ہی شہزادے کے حسن سے
متاثر ہوتے ہیں ۔ بدر منیر شرما جاتی ہے اور مالقات کی ہمت نہیں رکھتی ۔ اس موقعہ پر کہانی میں نجم النساءحرکت
پیدا کرتی ہے۔ اور ،دونوں کو مالنے کی ترکیب کرتی ہے شہزادی کا اشتیاق بڑھاتی ہے اور حسن و جوانی سے
لطف اندوز ہونے کی دعوت دیتی ہے۔
قابل داد ہے وہ جانتی ہے کہ بدر منیر پر حجاب غالب ہے اسے توڑنے کے لئے وہ
اس مقام پر نجم النساءکی ذہانت ِ
دونوں کے درمیان شراب ال کر رکھ دیتی ہے پہلے شہزادہ پیتا ہے پھر بد منیر پیتی ہے اس طرح دونوں کھل کر راز
و نیاز کی باتیں کرتے ہیں۔
جب کہانی میں کوئی ہیچ پڑتا ہے تو نجم النساءفوراً سلجھا دیتی ہے۔ نجم النساءکے کردار میں وفاداری کا جذبہ سب
سے بڑا ہوا ہے وہ جب اپنی سہیلی کو سمجھا چکتی ہے کہ اب شہزادہ نہیں آئے گا اس لئے اس کا خیال چھوڑ دے
مگر وہ خیال ترک نہیں کرتی لہذا اپنی سہیلی پر جان وار کرنے کے لئے تیار ہوجاتی ہے۔ اور جوگن کا روپ اختیار
کرکے بے نظیر کی تالش میں نکلتی ہے۔ نجم النساءکا کردار مجموعی طور پر ایک جاندار کردار ہے۔
”سحرالبیان “ کے تمام کرداروں میں نجم النساءکے کردار کی اہمیت اس لئے زیادہ ہے کہ یہ کردار با عمل ہے ۔ اسی
کردار کے باعث”سحرالبیان“ کا پالٹ آگے چلتا ہے۔ نجم النساءاپنے مقصد میں آخر کار کامیاب ہو کر واپس آتی ہے۔
بے نظیر اور فیروز شاہ اس کے ہمرا ہ ہیں جب شہزادی سے ملتی ہے تو اس موقعہ پر اس کی گفتگو بے حد شوخ
ہے وہ کہتی ہے کہ تیرا قیدی چھڑاتے چھڑاتے ایک اور قیدی باندھ کے لے آئی ہوں پھر سب کی مالقات ہوتی ہے۔
”سحرالبیان “ کے اسلوب کی مختلف خصوصیات ہیں جن کا احاطہ کرنا مشکل ہے تاہم اس کی چند خصوصیات
مندرجہ ذیل ہیں،
میر حسن نے ہر داستان کا آغاز خمریہ اشعار سے کیا ہے مثالً ”داستان تولد ہونے شہزادہ بے نظیر کی کا آغاز یوں
ہوتا ہے۔
غرضیکہ ہر داستان کا آغاز میر حسن نے خمریہ انداز میں کیا ہے۔
زبان:۔
شاعری میں زبان کی اہمیت کو جھٹالیا نہیں جا سکتا ۔ میر حسن اس نکتے سے آگا ہ تھے۔ سحرالبیان کی نمایاں
خصوصیت اسکی زبان ہے۔ انہوں نے سبک شریں اور نرم الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ میر حسن کی اس سادگی اور
روزمرہ کو دیکھ کر محمد حسین آزاد حیرت سے پوچھتے ہیں،
” کیا اسے سو برس آگے والوں کی باتیں سنائی دیتی تھیں کہ جو کچھ کہا صاف وہی محاورہ اور وہی گفتگو جو اب ہم
تم بول رہے ہیں۔“
انہوں نے ہر دو چار اشعار کے بعد ایک لفظ ایسا ضرور رکھا ہے ۔ کہ ان سب شعروں کا مضمون اس ایک ہی لفظ
میں ادا ہو گیا ہے۔گویا اشتیاق بڑھانے کے لئے پہلے تصویر کا ایک حصہ دکھایا پھر کل تصویر سامنے رکھ دی۔
میرحسن کے یہا ں اگرچہ عام طور سے ساد ہ اور صاف ستھرے الفاظ نظر آتے ہیں جودور جدید کی لسانی
خصوصیات کی نمائندگی کرتے ہیں اس کے یہاں ایسے الفاظ پائے جاتے ہیں جو دور قدیم میں دکن اور شمالی ہند سے
بو لے جاتے تھے۔ مثالمیر حسن کئی جگہ نام کے بجائے ”ناوں“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔
تشبیہات:۔
میرحسن کے ہاں حسین تشبیہات کے خزانے موجود ہیں ان کی تشبیہات کو پڑھ کر دل کلی کی طرح شگفتہ ہو جاتا
ہے۔
محاکات:۔
میر حسن کے یہاں محاکات کی حسین مثالیں نظر آتی ہیں میر حسن نے ایک جگہ بدر منیر کے بیٹھنے کا انداز دکھایا
ہے
ضرب المثال:۔ ”سحرالبیان“ کے بعض اشعار اس قدر رواں ہیں کہ وہ ضر ب المثال بن گئے ہیں یہ مثنوی کی سادگی و
سالست کا ثبوت ہے مثالً
میرحسن کے ہاں تشبیہا ت کے سلسلے میں قوس قزح کے جو رنگ ملتے ہیں وہ ان کی رنگینی فکر اور حسن ِ نظر
کا ثبوت ہیں مگر ہم انہیں کلیتا ً ان کے معاشرہ اور ماحول کی رنگینیوں سے الگ کرکے نہیں دیکھ سکتے ۔ اس دور
کا مذاق ِ حسن بھی ان پر اپنے جمالیاتی تصورات کی شعائیں ڈال رہا تھا۔ میرحسن کے یہاں صنعتوں کا استعمال بھی
ہے خاص طورپر صنعت ایہام جس کے لئے میر حسن نے ”مگر بسیار بشتگی بستہ شود“ ،کی قید لگائی تھی۔ جس پر
میر حسن نے آزادی کے ساتھ کام کیا ہے۔
زبان کی صفائی:۔
”سحرالبیان“کی زبان میں صفائی شستگی اور روانی ہے یہ زبان میر و سودا کی زبان سے بہتر نظر آتی ہے۔ میرحسن
نے محاورے روزمرہ کا استعمال بڑی خوبی سے کیا ہے۔ صنعتیں موجود ہیں لیکن وہ کالم کا ایک جزو بن کر
سامنے آتی ہیں زبان کی صفائی اور شستگی کے لئے چند اشعار ،
بقو ل کلیم الدین احمد” ،اہم چیز ”سحرالبیان“ میں طرز ادا ہے عبارت صاف ،پاکیزہ اور با محاورہ ہے میر حسن نے
روزمرہ کا نچوڑ اس مثنوی میں رکھ دیا ہے۔
مجموعی جائزہ:۔
سحرالبیان میر حسن کی زندگی کے آخری دور کا کارنامہ ہے۔ انہوں نے اس کے لکھنے میں اپنی عمر کا ایک طویل
حصہ صرف کیا۔ چنا نچہ و ہ خود اعتراف کرتے ہیں
اس مثنوی کی سادگی پرکاری ،فن کارانہ نزاکت ،منظر کشی ،واقعہ نگاری ،کردار نگاری اور تفصیل نگاری کو
دیکھ کر عجیب کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ خاص طورپر میرحسن کے انداز بیان نے اس نظم کوحیات جاوید سے
ہمکنار کیا ۔ ان کی شاعرانہ انداز بیان ،طرز ادا اور زبان پرقدرت نے مثنوی کو کہیں غیر دلچسپ نہیں ہونے دیا۔بقول
خلیل الرحمن عظمی
” مثنوی سحرالبیان اسم با مسم ّٰی ہے کیونکہ اس کا ہر شعر اہل ذوق کے دلوں کو لبھانے کو موہنی منتر ہے اور ہر
داستان اس کی سحرسامری کا ایک دفتر ۔ کیونکہ فصاحت و بالغت کا اس میں ایک دریا بہا ہے۔“
ANS 05
پنڈت دیا شنکر کول جن کاتخلص نسیم تھا‘ پنڈت گنگا پر شاد کول کے بیٹے خواجہ حیدر علی آتش کے شاگرد اور لک
کے رہنے والے تھے ۔۱۱۸۱ءمیں پیدا ہوئے اور ۵۴۸۱ءمیں وفات پاگئے ۔پنڈت دیا شنکر نسیم نے دو تصانیف ضبط
دیوان نسیم بہت مختصر ہے ۔ اس میں مکمل ونا
ِ دیوان نسیم“ اور دوسری” گلزار نسیم“
ِ تحریر میں الئی ہیں۔ ایک ”
مکمل غزلوں کی تعداد کم و بیش ۴۸ہے ۔لیکن جس تصنیف نے بعداز مر گ نسیم کو اردو ادب میں زندہ رکھا وہ “
گلزارنسیم“ ہے۔
گلزار نسیم کے جائزے سے پہلے یہ دیکھتے چلیں کہ اس مثنوی کے مآخذ کیا ہیں؟کیونکہ مآخذ کے سلسلے میں
صاحبان علم نے جو بحثیں کی ہیں ان سے کئی پہلو سامنے آئے ہیں۔ خود نسیم نے اپنی مثنوی کے تین شعروں میں
مآخذ کی طرف اشارہ کر کے یہ بتایا ہے کہ :
گل بکاولی کا
افسانہ ِ
بہار عاشقی کا
افسوں ہو ِ
ہر چند سنا گیا ہے اس کو
اردو کی زبان میں سخن گو
وہ نثر ہے داد نظم دوں میں
اس مے کو دوآتشہ کروں میں
گل بکاولی کے اردو نثر میں اس ترجمے کی طرف ہے جسے منشی نہال چند الہوری نے
نسیم کا یہ اشارہ افسانہ ِ
ب عشق“ کے نام
فورٹ ولیم کالج کے ڈاکٹر گل کرسٹ کی فرمائش پر عزت ہللا بنگالی کے فارسی قصے کو ” مذہ ِ
گلزار نسیم کے
ِ ب ضرورت ڈھال کر
سے کیا تھا۔نسیم نے نہال چند الہوری کے اسی نثری قصے کو اردونظم میں حس ِ
ب عشق سے عزت ہللا بنگالی
ب عشق “ ہے اور خودمذہ ِ
گلزار نسیم کابنیادی مآخذ یہی نثری داستان ”مذہ ِ
ِ نام سے لکھا۔
کے فارسی قصہ افسانہ گل بکاولی پر مبنی ہے ۔ نسیم کے اتنے واضح اشاروں کے بعد مآخذ کی بحث ختم ہونی
منظر عام پر آئی تویہ بات سامنے آئی کہ نسیم نے ریحان الدین کی اردو مثنوی
ِ گلزار نسیم
ِ چاہیے تھی لیکن جب
”خیابان ریحان“ سے بھی استفادہ کیا تھا۔نسیم نے ریحان الدین کی مثنوی سے استفادہ کرنے کا کوئی ذکر نہیں کیا لیکن
ِ
گلزار نسیم“ سے ”خیابان ریحان“ کا مقابلہ کیا جاتاہے تو خیال اور اشعار سے یہ اندازہ پیدا ہوتاہے کہ نسیم نے
ِ جب ”
اس سے بھی استفادہ کیا ہے ۔
گلزار نسیم
ِ خیابان ریحان
ِ
اور کہنے لگا کہ واہ جی واہ
کہنے لگا کیا مزا ہے دل خواہ
یہ تو کوئی اور شے ہے وہللا
آدمی زاد واہ وا واہ
ِ اے
ہر جا اسے ڈھونڈتی چلی وہ
ہر باغ میں پھولتی پھری وہ
کوچہ کوچہ گلی گلی وہ
ہر شاخ پہ پھولتی پھری وہ
ان اشعار کے تقابلی مطالعے سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ نسیم نے ریحان کی مثنوی سے استفادہ کیا ہے ۔
گلزار نسیم کے قصے کاتعلق ہے تو ہ تین مرحلوں سے گزرتا ہے ۔ایک مرحلہ ایسا بھی آتاہے جب تاج
ِ جہاں تک
اورگل بکاولی کی شادی ہوتی ہے ۔یہاں ایک طرف قصہ ختم ہوجاتا ہے لیکن یہ نسیم کی فنی مہارت ہی تھی
ِ الملوک
کہ اسے فوراً بعد ہی دوسرا اور تیسرا قصہ شروع ہوجاتا ہے ۔پہلے دوسرے اور تیسرے مرحلے میں ظاہری طور کو
ئی ربط نہیں ہے لیکن اواگون کا ہندو عقیدہ اس میں ربط کا رنگ گھول دیتاہے ۔ کہتے ہیں کہ درےائے نربدا کے منبع
گل بکاولی کے قلعے اور باغیچے کے آثار آج بھی موجود
پر امر کنٹک نامی ہندووں کی ایک بڑی تیرتھ گاہ ہے وہاں ِ
ہیں ۔ڈاکٹر گیان چند کے مطابق گلزارنسیم کے قصے کا ترجمہ متعدد زبانوں میں ہوچکا ہے ۔فرانسیسی ادیب گارسیں
گلزار نسیم“ کا ترجمہ ”“Doctrine Del Amoorکے نام سے کیاہے ۔
ِ دتاسی نے بھی فرانسیسی زبان میں ”
جب نسیم نے مثنوی مکمل کرلی تو اپنے استاد آتش کو اصالح کے لیے بھیج دی۔اس وقت مثنوی بہت طویل تھی ۔آتش
نے مثنوی کو مختصر کرنے کے لیے صالح دی اور نسیم نے استاد کی بات مان کر مثنوی کو مختصر کرکے بے
بندش الفاظ کو نگوں کی طرح
ِ نظیر بنادیا۔آتش سے نسیم نے کچھ سیکھا ہویا نہ سیکھا ہو لیکن مرصع سازی اور
جڑنے کاسبق ضرور سیکھ لیا تھا۔اکثر نقاد یہ کہتے ہیں کہ اس مثنوی کے قصے کے مختلف اجزاءمیں باہمی ربط
نہیںہے ۔یہ بات درست نہیںہے ۔دوسری مثنویوں میں جذبات اور مناظر کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاتاہے لیکن نسیم
حسن ادا کی صورت برقرار رہتی ہے۔
ِ نے اختصار سے کام لیا ہے ۔منظر کشی میں بھی اختصار اور
جہان گرد
ِ کہ جنگلے میں جاپڑا
صحرائے عدم بھی تھا جہان گرد
سایے کو پتا نہ تھا ثمر کا
عنقا نام جانور کا
تیورا کے وہیں وہ بار بردوش
بیٹھا تو گرا‘ گرا تو بے ہوش
محو گل بکاولی کاپردہ اٹھاتا ہے تو
ِ اس مثنوی میں ادبی لحاظ سے ایک کمزوری یہ ہے کہ جب تاج الملوک نیند میں
گل بکاولی پر پڑتی ہے ۔اس منظر کو نسیم نے اپنے الفاظ میںیوںقید کرکے تھوڑی سی
اس کی نظر سوئی ہوئی ِ
فحاشیت کامظاہرہ کیا ہے ۔
پردہ جو حجاب سا اٹھایا
آرام میں اس پری کو پایا
چشم نرگسی تھی
ِ بند اس کی وہ
چھاتی کچھ کچھ کھلی ہوئی تھی
سمٹی تھی جو محرم اس قمر کی
برجوں پہ سے چاندنی تھی سر کی
لپٹے جو بال کروٹوں میں
بل کھاگئی تھی کمر‘ لٹوں میں
چاہا کہ بال گلے لگاتے
سوتے ہوئے فتنے کو جگاتے
سوچا کہ یہ زلف کف میں لینی
ہے سانپ کے منہ میں انگلی دینی
گل بکاولی کے گم ہو نے کا پتا بکاولی کو چلتا ہے ۔
گلزار نسیم کاوہ حصہ فنی اعتبار سے بہت عمدہ ہے جس میں ِ
ِ
گلزار نسیم میں تشبیہ اور استعار ات کا خوبصورت استعمال ہوا ہے ۔
ِ
گلزار نسیم کامطالعہ کرتے ہوئے محسوس ہوتاہے کہ نسیم کا زو ر قصہ بیان کرنے کے عالوہ لکھن¿ کے پُر تکلف
انداز بیان
ِ انداز میں ایک منفرد چیز تیار کرنا تھا۔ مثنوی کے پہلے شعر سے لے کر آخری شعر تک تواتر کے ساتھ یہ
گلزار نسیم لکھنوی تہذیب کی ترجمان بن جاتی ہے۔اس مثنوی کو لے کر ایک
ِ برقرار رہتا ہے اور اس طرح یہ
معرکہ”معرکہ چکبست و شرر“ وجود میں آیا۔