Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 45

Name:.

Shaista Hassni
User id:. 21bbk00129
Program : B.Ed
Course Code: 6479
Assignment No: 1
Semester : Spring 2022
‫‪ANS 01‬‬

‫تقسیم ہندوستان سے قبل حسرت ‪،‬فانی‪،‬جگر‪،‬اصغر اور ان سے قدرے بعد یگانہ اور فراق کی ٓاوازیں اپنی تخلیقی‬ ‫ِ‬
‫انفرادیت کے ساتھ اردو غزل کی فضا میں اپنے نمایاں اثرات پیدا کر چکی تھیں بلکہ یگانہ کی غزل نےکہنہ و پامال‬
‫مضامین کو ترک کرکے خارجی عناصر کو اپنےداخلی مگر اثر انگیزپیرایےسے ہم ٓاہنگ کرتےہوئے غزل کے لیے‬
‫ایک نئی تخلیقی فضا ہموار کر دی تھی اور اس فضا کے اثرات فراق کی غزل میں بھی جھلکتے دکھائی دیتے ہیں۔‬
‫دوسری جانب جوش ملیح ٓابادی غزل اوربالخصوص نظم کے ذریعے اپنی بھاری بھرکم ٓاواز میں انقالب کے نعرے‬
‫ب روایت غزل کو ذریعٔہ اظہار بنایا مگر کسی حد تک انقالبی مزاج‪ ،‬جسے اُن‬
‫االپ رہے تھے۔ جوش نے اگرچہ حس ِ‬
‫کی بوقلموں طبیعت کا حصہ بھی قرار دیا جا سکتا ہے‪ ،‬انھیں نظم گوئی پر نہ صرف ٓامادہ رکھا بلکہ صنفِ غزل کی‬
‫مخالفت میں بھی پیش پیش رہے‪،‬تاہم یاس یگانہ چنگیزی اور فراق نے غزل کو جدید نظم نگاری کے مقابل تازگی و‬
‫جہان معنی ترتیب دیا۔ یہی وہ دور تھا جب حفیظ نظم گوئی کے‬
‫ِ‬ ‫توانائی عطا کرکے اپنے تخلیقی عناصر سے ایک نیا‬
‫ساتھ ساتھ غزل میں بھی دا ِد سخن دیتے ہوئے اس کے صوتی و معنوی دروبست کے ساتھ ایک اثر انگیز پیرایٔہ اظہار‬
‫ترتیب دے رہے تھے‪ ،‬البتہ اُن کی ابتدائی غزل گوئی میں داغ دہلوی اور شادعظیم ٓابادی کے شعری عناصر بھی تالش‬
‫کیے جا سکتے ہیں اور یہی وہ عناصر ہیں جو ان کی غزل میں بقول اُن کے نالے کو ’’پابن ِد َنے‘‘ کرتے ہوئے اُن کی‬
‫’’طرزخاص‘‘ کا باعث بنے۔‬
‫ِ‬

‫یہ وہ شعرا ہیں جو غزل کی شدید مخالفت کے باوجود نہ صرف صنفِ غزل کو زندہ رکھے ہوئے تھے بلکہ انھوں نے‬
‫اشجار نودمیدہ بھی تنومند ہو‬
‫ِ‬ ‫اردو غزل کی زمین میں اپنے فکر و فن اور تخلیقی صداقت سے ایسی ٓابیاری کی کہ‬
‫کھالنے لگے۔ یگانہ‪ ،‬فراق اور حفیظ کےجونیئر معاصرین میں فیض احمد فیض اور معین احسن‬
‫کرنئے برگ و بار ِ‬
‫ت ٓاہنگ کے ساتھ اپنے ابتدائی اثرات مرتب کر رہی تھی کہ ملک دو‬
‫جذبی کی غزل اپنی تخلیقی انفرادیت اور جد ِ‬
‫حصوں میں بٹ گیا‪ ،‬تاریخ دو دھاروں میں تقسیم ہو گئی۔ یہ ترقی پسند تحریک کے عروج کا بھی زمانہ‬
‫ت پاکستان کا قیام … ترقی پسندوں کی فہم سے باال‬
‫تھا‪......‬دوسرے معنوں میں نظم کے عروج کا زمانہ‪ ،‬لیکن مملک ِ‬
‫تھا‪ ،‬اشتراکیت پسندی میں غرق ٓانکھیں اس معجزے کو سانحہ قرار دینے پر تل گئیں۔ کسی نے تقسیم کے مضمرات کو‬
‫وابستگان‬
‫ِ‬ ‫موضوع بنایا تو کسی نے سرے سے اس تقسیم ہی کو غلط قرار دے دیا۔ یہ سوچ ترقی پسند تحریک اور‬
‫تحریک کے تخلیق کاروں کے لیے جاں لیوا ثابت ہوئی۔ خود ترقی پسند تحریک کے سیکرٹری جنرل احمد ندیم قاسمی‬
‫نے اس سوچ اور رجحان کو انتہا پسندی کا باعث قرار دے دیا۔ ‪1952‬ء میں مولوی عبدالحق کی صدارت میں ترقی‬
‫پسند مصنفین کی کانفرنس میں تحریک کے غیر سیاسی ہونے کا اعالن کیا گیا۔ لیکن‪1953‬ء میں حکومت پاکستان نے‬
‫کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگائی تو ترقی پسند مصنفین بھی اس پابندی کی زد میں ٓا گئے۔اس سارے میں ایک تو ادب‬
‫میں نعرے بازی کا رواج کم پڑا‪ ،‬دوسرے غزل ایک بار پھر اوپر اٹھتی دکھائی دی۔ ماحول کو غیر موافق جان کر‬
‫فیض‪ ،‬احمد ندیم قاسمی‪ ،‬ظہور نظر‪ ،‬عارف عبدالمتین اور ظہیر کاشمیری جیسے شاعروں نے عالمتی پیرایہ اختیار‬
‫کرتے ہوئے ماحول سے ہم ٓاہنگی اختیارکرنے کی کوشش کی‪ ،‬جس میں نمایاں کامیابی صرف فیض ‪ ،‬احمد ندیم قاسمی‬
‫اور ظہور نظر کے حصہ میں ٓائی جنھوں نے انسانی زندگی کو موضوع بناتے ہوئے دل کش پیرایہ میں معاشرتی و‬
‫معاشی اورسیاسی مسائل کا احاطہ کیا۔ پاکستان میں ترقی پسند تحریک کو دور تک سرگرم عمل رکھنے میں فیض ‪،‬‬
‫ناقابل فراموش ہیں۔‬
‫ِ‬ ‫ندیم‪ ،‬ظہیر‪ ،‬ظہور نظر اور عارف عبدالمتین کی خدمات‬

‫ہم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے‬

‫بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا‬

‫فیض احمد فیض‬

‫جب سے ٓانکھوں میں کھٹکنے لگی ریت‬

‫میرے صحرأوں میں وُ سعت نہ رہی‬

‫احمد ندیم قاسمی‬

‫ٓاثار سفر معدوم ہیں‬


‫راستے روشن ہیں‪ِ ،‬‬

‫بستیاں موجود ہیں‪ ،‬دیوار و در ملتے نہیں‬

‫ظہیر کاشمیری‬

‫رات بھر اِک چاپ سی ِپھرتی رہی چاروں طرف‬


‫جان لیوا خوف تھا لیکن ہُوا کچھ بھی نہیں‬

‫ظہور نظر‬

‫مجھے ہے شب خوں کی فکر لیکن انھیں ہالکت کا ڈر نہیں ہے‬

‫مرے قبیلے کے لوگ سوتے ہیں اور شب بھر میں جاگتا ہوں‬

‫عارف عبدالمتین‬

‫قیام پاکستان کے بعد ملک کے غیر مستحکم اور متزلزل سیاسی‪ ،‬سماجی اور معاشی حاالت نے اردو شعر و داب پر‬
‫جو اثرات مرتب کیے اور اُن کے نتیجے میں جن نئی تحریکوں نے جنم لیا‪ ،‬اُن سے ادب میں کیا کیا متحارب نظریات‬
‫ت احوال‬
‫سامنے ٓائے‪ ،‬ایک الگ سلسلٔہ بحث ہے۔ کسی بھی ملک کی معیشت اور اس کےنتائج میں ادب کی صور ِ‬
‫ہمیشہ سیاسی استحکام یا عدم استحکام کی تابع رہی ہے۔ ملک کا حکومتی اور سیاسی نظام اگر درست ہے تو اس‬
‫درستی کے نتیجے میں معاشرے کے خد و خال بھی روشن رہتے ہیں مگر بدقسمتی سے تقسیم کے جلد بعد بلکہ تقسیم‬
‫کے نتیجے میں ہونے والے فسادات ‪ ،‬قائداعظم کی رحلت اور پھر ایک مسلسل سیاسی عدم استحکام پاکستان کا مقدر‬
‫بن گیا۔ان تمام حاالت نے شعر و ادب پر بھی گہرا اثر ڈاال۔ ‪1956‬ء میں ٓائین پاکستان کے لیے ایک ٓائینی مسودہ مرتب‬
‫ہوا اور پھر نافذ بھی ہوا مگر جمہوری حکومت کو استحکام حاصل نہ ہو سکا‪ ،‬اور پھر دو سال کے قلیل عرصہ میں‬
‫اوپر تلے تین وزرائے اعظم کی ٓامد اور ‪1958‬ء کے مارشل الء نے تو جمہوریت کی بساط ہی لپیٹ دی ۔ جنرل ایوب‬
‫کے مارشل الء ‪27‬اکتوبر‪1958‬ء سے تاحال کیا کیا حادثات رونما ہوئے‪ ،‬یہاں اس تفصیل کی گنجایش نہیں مگر اس‬
‫ت خداداد کا بھی دو‬
‫تقسیم ہندوستان سے حاصل ہونے والی مملک ِ‬
‫ِ‬ ‫دوران میں جس بڑے المیے نے جنم لیا اُس نے تو‬
‫حصوں میں بٹوارا کر دیا۔ بعد ازاں ‪1977‬ء کے انتخابات اور پھر جنرل ضیا کے مارشل ال کے نتیجے میں بھٹو کی‬
‫پھانسی‪ ،‬یہ سب وہ الم ناک واقعات ہیں جو ٓاج تک ملک کے سیاسی عدم استحکام کا باعث بن چکے ہیں۔ بار بار کے‬
‫مارشل الء نے غزل میں کہیں قنوطیت کو رواج دیا تو کہیں احتجاج کی روش نے زور پکڑا‪ ،‬کہیں جالب کی شعری‬
‫انداز نظر اختیار کرتے ہوئے کھل کر اور کہیں وسیع تر تناظر میں عالمتی پیرایٔہ اظہار کے ساتھ‬
‫ِ‬ ‫فضا میں مزاحمتی‬
‫غزل اپنا تخلیقی سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔‬

‫اس مجموعی سیاسی فضا میں ادبی تحریکوں کی بات کی جائے توترقی پسند تحریک‪ ،‬حلقٔہ ارباب ذوق‪ ،‬تحریکِ ادب‬
‫اسالمی‪ ،‬پاکستانی ادب‪ ،‬اور ادبی ثقافتی تحریک اہمیت کی حامل رہی ہیں۔ ترقی پسند تحریک کو رومانیت اور حقیقت‬
‫نسل انسانی کی بہبود کے بنیادی مقصد کے طور پر تخلیق کاروں‬
‫نگاری کا امتزاج کہا جا سکتا ہے۔ اس تحریک میں ِ‬
‫کو داخل کی جگہ خارج کی راہ دکھائی گئی۔ یہ تحریک ادب کے راستے ملک میں انقالب کی خواہش مندتھی ‪ ،‬لیکن‬
‫ب ذوق میں ادیبوں شاعروں پرموضوعات کے حوالہ سے‬
‫کمیونزم اور اشتراکیت اس کی اساس بن گئے۔ حلقٔہ اربا ِ‬
‫ب ذوق‬
‫ایسی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ ترقی پسند تحریک میں روایت کو یک سر مسترد کر دیا گیا لیکن حلقٔہ اربا ِ‬
‫میں روایت کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا۔ ان دونوں تحریکوں کو ایک دوسرے کی ضد بھی کہا جا سکتا ہے۔ اسالم کی‬
‫اساس اور اس کی روح سے مطابقت پیدا کرنے کےلیے تحریک ِادب اسالمی کی بنیاد رکھی گئی۔ تحریک ادب اسالمی‬
‫کو بھی ترقی پسند تحریک کا ردِعمل کہا جاتا ہے‪ ،‬لیکن موضوعات و منشورات کی قید نے اس تحریک کو بھی زیادہ‬
‫عرصہ فعال نہیں رہنے دیا ۔ ترقی پسند تحریک ہی کے ردعمل کے طورپر پاکستانی ادب کی تحریک اور ارضی‬
‫ثقافتی تحریک وجود میں ٓائیں۔ مذکورہ تحریکوں نے اپنی اپنی جگہ اردو غزل کو متاثر کیا۔‬

‫قیام پاکستان کے بعد سب سے پہال واقعہ تو یہ ہوا کہ شعرا کی بڑی تعداد غزل ہی کی جانب متوجہ ہوئی۔ وہ لوگ جو‬
‫ِ‬
‫قیام پاکستان کے بعد غزل گو‬
‫نظم کے حامی تھے اور نظم کہہ رہے تھے‪ ،‬وہ بھی غزل کی جانب راغب ہوئے۔ یو ں ِ‬
‫شعرا کی پہلی کھیپ زیادہ تر انھی لوگوں پر مشتمل ہے۔ ان میں سے زیادہ تر شعرا وہ ہیں کہ جن کا شعری مقام و‬
‫قیام پاکستان کے ٓاس پاس منظر پر ٓائے۔ جوش نے غزل کم‬
‫مرتبہ تقسیم سے پہلے ہی متعین ہو چکا تھا اور کچھ وہ جو ِ‬
‫کہی‪ ،‬غزل کی مخالفت میں بھی سرگرم رہےلیکن دل چسپ پہلو یہ ہےکہ اس مخالفت میں بھی ان کا تخلیقی مزاج‬
‫غزل نما رہا‪ ،‬یعنی ان کی نظمیں بھی غزلیہ ٓاہنگ کے ساتھ مرتب ہیں اگرچہ اُن کے پیرایٔہ اظہار کی نمایاں ترین‬
‫سطح ان کی لفظی مرصّع کاری سے ہویدا ہےتاہم ان کی غزلیں تغزل و رعنائی کا پہلو بھی رکھتی ہیں۔ حفیظ‬
‫جالندھری نے غزل میں سلیس زبان اور غنائیت کو رواج دیتے ہوئے گرد و پیش کے واقعات کو اپنی غزل میں جگہ‬
‫دی۔ سلیم احمد قمر جاللوی کو ایک بڑی روایت کا ٓاخری شاعر قرار دیتے ہیں۔ صبا اکبر ٓابادی کی غزل ایک باشعور‬
‫روح عصر کا پرتو جھلمالتا نظر ٓاتا ہے۔ حفیظ ہوشیارپوری کے ہاں غزل کی پوری‬‫ِ‬ ‫شاعر کی غزل ہے جس پر‬
‫روایت داخلیت و خارجیت کے مکمل امتزاج کے ساتھ عہ ِد موجود کی شکستگی و خستگی کا احاطہ کرتی ہے۔ انسانی‬
‫ناقابل گرفت پہلو ان کے خاص موضوعات ہیں۔‬
‫ِ‬ ‫نفسیات کے پیچیدہ و‬

‫دور اندیش مریضوں کی یہ عادت دیکھی‬

‫ہر طرف دیکھ لیا جب تری صورت دیکھی‬

‫جوش ملیح ٓابادی‬

‫جس طرح لکڑی کو کھا جاتا ہے گھن‬

‫رفتہ رفتہ غم مجھے کھا جائے گا‬

‫حفیظ جالندھری‬

‫ب غم اور تنہائی‬
‫ابھی تک یاد ہے کل کی ش ِ‬
‫پھر اس پر چاند کا ڈھلنا قمر ٓاہستہ ٓاہستہ‬

‫قمر جاللوی‬

‫تعین منزل کوئی نہیں‬


‫ِ‬ ‫اپنے لیے‬

‫جو بھیڑ جس طرف کو چلی ساتھ ہو لیے‬

‫صبا اکبر ٓابادی‬

‫ٹوٹتے جاتے ہیں رشتے جوڑتا جاتا ہوں میں‬

‫ایک مشکل کم ہوئی اور ایک مشکل ٓا گئ‬

‫حفیظ ہوشیارپوری‬

‫فیض نے اردو غزل کی وسیع روایت سے استفادہ کرتے ہوئے غزل کو ایک نئی شائستگی اور جمالیاتی ٓاگہی سے ہم‬
‫ت‬
‫ت تعمیر کے کرب کے ساتھ ساتھ مستقبل کے خواب نمایاں ہیں۔ ایم ڈی تاثیر معامال ِ‬
‫کنار کیا۔ فیض کے ہاں حسر ِ‬
‫فراق و وصال کو عصری ٓاگہی کے راستے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی کے ہاں انسانی عظمت‬
‫کا برمال اظہار ہے۔ انھوں نے اردو غزل کو موضوعاتی تنوع سے ماال مال کیا۔ سراج الدین ظفر اردو غزل کی تاریخ‬
‫میں ایک منفرد اور جداگانہ اسلوب کے حامل غزل گو ہیں۔ سراج الدین ظفر کو جدید کالسیک کہا جائے تو غلط نہ ہو‬
‫حسن تراکیب کو مضمون ٓافرینی پر فوقیت دیتے ہیں۔ صوفی تبسم معامال ِ‬
‫ت حسن و‬ ‫ِ‬ ‫حسن الفاظ و‬
‫ِ‬ ‫گا۔ سید عابد علی عابد‬
‫ہیں۔ابن انشا نے طویل‬
‫ِ‬ ‫طرز بیان میں سادگی اور سالست نمایاں‬
‫ِ‬ ‫عشق کے روایتی مضامین کے شاعر ہیں۔ ان کے‬
‫بحروں میں ہندی ڈکشن سے مملو غزلیں کہیں۔ان کی غزلوں کا ٓاہنگ کہیں کہیں گیت سے بہت قریب ہو جاتا ہے۔ زبان‬
‫و بیان اور غزل کے تہذیبی پہلو سے مکمل ٓاگاہی اوراپنے عہد کی نباضی شان الحق حقی کی غزل کو ان کے ہم‬
‫عصروں میں ممتاز رکھتی ہے‪:‬‬

‫ربط ہے حسن و عشق میں باہم‬

‫ایک دریا کے دو کنارے ہیں‬

‫ایم ڈی تاثیر‬

‫جانیے کیا کیا مدارج اور بھی کرنے ہیں طے‬


‫ذہن خداوندی میں اک اندیشہ ہیں‬
‫ہم ابھی ِ‬

‫سراج الدین ظفر‬

‫بوئے خوں ٓاتی ہے صحرائے تمنا سے مجھے‬

‫دل وحشی کا شکار ٓاج کی رات‬


‫کھیلتا ہوں ِ‬

‫سید عابد علی عابد‬

‫کھل کے رونے کی تمنا تھی ہمیں‬

‫ایک دو ٓانسو نکل کر رہ گئے‬

‫صوفی تبسم‬

‫ہم جنگل کے جوگی ہم کو ایک جگہ ٓارام کہاں‬

‫ٓاج یہاں کل اور نگر میں صبح کہاں اور شام کہاں‬

‫ابن انشا‬
‫ِ‬

‫یہ نگاہوں کے اندھیرے نہیں چھٹنے پاتے‬

‫صبح کا ذکر نہیں صبح تو ہو جاتی ہے‬

‫شان الحق حقی‬

‫طرز فکر سے ٓاشنا کیا۔ روایتی فلسفہ کی جگہ سائنسی دریافتوں پر استوار‬
‫ِ‬ ‫محب عارفی نے اردو غزل کو سائنسی‬
‫فلسفہ کو اہمیت دی۔ انھوں نے شاعری میں زندگی کے بنیادی مسائل کی گتھیاں سلجھانے کی کوشش کی۔عزیز حامد‬
‫مدنی کی غزل جدید معاصر علوم سے ٓاگہی اور ایک سلجھے ہوئے ناسٹلجیائی کرب کی ترجمان ہے۔ مدنی کی‬
‫شاعری میں موجود کرب ان کے عہد کا کرب ہے۔ وہ اپنے عہد کی جملہ سچائیوں کو اپنی غزل میں جگہ دیتے ہوئے‬
‫ایک توانا روایت کو تو سیع دیتے نظر ٓاتے ہیں۔ مدنی کی غزل اپنے وقت کی جدید ترین غزل ہے جس کی جانب‬
‫ناقدین تاحال متوجہ نہیں ہوئے۔‬

‫خوش ہے کہ جو ٹوٹی ہے ٓاخر کوئی شے ہو گی‬


‫خود میں نظر ٓاتا ہے شیشے کو جو بال اپنا‬

‫محب عارفی‬

‫لکھی ہوئی جو تباہی تھی اُس سے کیا جاتا‬

‫ہوا کے رُخ پہ مگر کچھ تو ناخدا جاتا‬

‫عزیز حامد مدنی‬

‫سادگی بیان‪ ،‬رواں دواں بحریں اور کھنکھناتی ردیفیں‪ ،‬برجستگی و بے ساختگی عبدالحمید عدم کی غزل کی بنیادی‬
‫خصوصیات ہیں۔ مجید امجد نے نسبتا ً کم لیکن متنوع موضوعات کا احاطہ کرتی پختہ غزلیں کہیں۔ احسان دانش اگرچہ‬
‫تقسیم ہندوستان سے‬
‫ِ‬ ‫نظم کے ذریعے بندٔہ مزور کے تلخ روز و شب کی عکاسی کے باعث شاعر مزدور کہالئے اور‬
‫قبل اپنا شعری تشخص قائم کر چکے تھے ۔ اپنی منفرد نظم گوئی کے ساتھ ساتھ غزل میں وہ اپنے ہم عصروں کے‬
‫رنگ و ٓاہنگ کے ساتھ سفر کرتے دکھائی دیتے ہیں‪ ،‬البتہ تقسیم کے بعد اُن کی غزل میں جد ِ‬
‫ت ٓاہنگ کے تیور بھی‬
‫دکھائی دیتے ہیں۔ تاہم ان کی غزل کو بجا طور پر رومانی غزل کہا جا سکتا ہے۔ میرا جی نے یوں تو بہت کم غزلیں‬
‫متاثرین میر میں گنے جاتے ہیں۔ انھوں‬
‫ِ‬ ‫ت غزل میں‬
‫کہیں لیکن ان میں گیتوں کی سی چاشنی ہے۔ مختار صدیقی معامال ِ‬
‫نے اردو غزل میں ہندی ڈکشن اور طویل بحروں کے استعمال کو رواج دینے کی کوشش کی ۔ لیکن بے جا تصنع اور‬
‫جذبات کے اظہار میں پینترے بازی کے شوق نے ان کے اشعار کو تاثیر و تغزل جیسے اوصاف سے محروم کر دیا۔‬
‫بیدل حیدری ایک قادرلکالم شاعر ہیں‪ ،‬ان کے ہاں معاشی و سماجی ناہمواریوں کے شکار لوگوں کے احساسات کی‬
‫ترجمانی نمایاں ہے ۔ قیوم نظرنے بھی کم لیکن معیاری غزلیں کہیں۔ باقی صدیقی نے مختصر بحروں میں گہرائی و‬
‫طرز بیان میں طنزیہ روپ دھارتی ہیں‪:‬‬
‫ِ‬ ‫گیرائی کے حامل شعر کہے۔ ان کی ذاتی زندگی کی تلخیاں‬

‫اے غم زندگی نہ ہو ناراض‬

‫مجھ کو عادت ہے مسکرانے کی‬

‫عبدالحمید عدم‬

‫جب ٓاسماں پہ خداوں کے لفظ ٹکراتے‬

‫میں اپنی سوچ کی بے حرف لو جال رکھتا‬

‫مجید امجد‬
‫رقصاں تھے رند جیسے بھنور میں شفق کے پھول‬

‫جو پاوں پڑ رہا تھا بڑے قاعدے میں تھا‬

‫احسان دانش‬

‫ایک ٹھکانہ ٓاگے ٓاگے پیچھے ایک مسافر ہے‬

‫چلتے چلتے سانس جو ٹوٹے منزل کا اعالن کریں‬

‫میرا جی‬

‫ہاں شائبہ گریز کا بھی پیش و پس میں ہے‬

‫وہ بے رخی کہ ناز کا تھی جو بھرم‪ ،‬گئی‬

‫مختار صدیقی‬

‫لباس زیست بڑا دیدہ زیب تھا‬


‫ِ‬ ‫بیدل‬

‫اور ہم نے اس لباس کو الٹا پہن لیا‬

‫بیدل حیدری‬

‫تو بھی کہہ دے جو تیرے دل میں ہے‬

‫سن رہا ہوں میں ہر اناپ شناپ‬

‫قیوم نظر‬

‫پہلے ہر بات پہ ہم سوچتے تھے‬

‫اب فقط ہاتھ اٹھا دیتے ہیں‬

‫باقی صدیقی‬

‫شیر افضل جعفری کے شعری اسلوب کی تشکیل لہندا‪ ،‬پنجابی ‪ ،‬سرائیکی اور اردو الفاظ کی باہمی ٓامیزش سے تشکیل‬
‫پاتی ہے۔ یہ روش نہ تو ٓاگے بڑھ سکی اور نہ ہی پذیرائی حاصل کر سکی کہ ایسا قاری کہاں سے دستیاب ہو جو ان‬
‫تمام زبانوں پر دسترس رکھتا ہو۔ پھر مختلف زبانوں کے الفاظ کی زبردستی بھرتی سے غزل کا اصل رس کہیں‬
‫راستے ہی میں رہ گیا۔ یوں اسے بھی اردو غزل میں ایک ناکام تجربہ کے طور پر لیا جا سکتا ہے ۔ البتہ مختلف‬
‫انداز فکر سے عبدالعزیز خالد کی غزل بھی ظہور‬
‫ِ‬ ‫زبانوں کی ٓامیزش کے باوجود اُن سے کہیں موثر اپنے نابغانہ‬
‫کرتی نظر ٓاتی ہے۔ اُن کی غزلیں زیادہ تر غیر مقفع ہیں جو قاری پر قدرے بوجھل پن کا احساس لیے ہوئے ہیں مگر‬
‫ان کا فکری معیار اپنے بہت سے ہم عصروں سے منفرد و ممتاز ہے جو اُن کے معدودے چند پڑھنے والوں پر لطاف ِ‬
‫ت‬
‫ت معنوی کا باعث ہے‪:‬‬
‫طبع سے زیادہ بالغ ِ‬

‫گوری چٹی دھوپ نہ جوبن پر اترائے‬

‫دن کے پیچھے کالی کالی رات لگی ہے‬

‫شیر افضل جعفری‬

‫ہر بات ہے خالد کی زمانے سے نرالی‬

‫باشندہ ہے شاید کسی دنیائے دگر کا‬

‫عبدالعزیز خالد‬

‫قتیل شفائی کو اپنے وقت میں بہت اہمیت دی گئی‪ ،‬ان کے ہاں موضوعات کے تنوع کے حوالہ سے کیا کیا کچھ نہیں‬
‫گیا‪ ،‬لیکن ان کی غزلیہ شاعری کا مطالعہ ان تمام دعووں کی کلیتا ً نفی کرتا نظر ٓاتا ہے۔ روایتی پیرایہ میں معامالت‬
‫حسن و عشق کا گھسا پٹا انداز بیان اور سطحی پن ان کی غزل کو ان کے گیت سے اوپر نہیں اٹھنے دیتا۔ اسی طرح‬
‫طفیل ہوشیارپوری کی غزل سراسر روایتی ہے اور محض نغمگی کا تاثر پیدا کرتی ہے‪:‬‬

‫کچھ کہہ رہی ہیں ٓاپ کے سینے کی دھڑکنیں‬

‫میرا نہیں تو دل کا کہا مان جائیے‬

‫قتیل شفائی‬

‫ہم اپنے ٓانسووں کا صلہ کس سے مانگتے‬

‫دنیا تھی اشک بار‪ ،‬ہمیں کون پوچھتا‬

‫طفیل ہوشیارپوری‬
‫محاسن شعری کا مرقع ہے۔ ظہیر کاشمیری کی غزل ان کے سماجی شعور‬
‫ِ‬ ‫سیف الدین سیف کی غزل کم و بیش تمام‬
‫صورت حال کا ردِعمل کہا جا سکتا ہے۔ کہیں کہیں فلسفیانہ‬
‫کی عکاس ہے۔انجم رومانی کی غزل کو دگرگوں عصری ِ‬
‫انداز فکر بھی ملتا ہے۔ جعفر شیرازی نے بہت غزلیں کہیں‪ ،‬مجید امجد جیسے بڑے شاعر نے بھی غالبا ً تعلق خاطر‬
‫ِ‬
‫نبھاتے ہوئے ان کے شعری محاسن کی طرف توجہ دالنے کی کوشش کی لیکن مجال ہے جو ضخیم کلیات میں سے‬
‫کوئی شعر اس قابل نکل ٓائے کہ اسے مثال کے طور پر پیش کیا جا سکے۔البتہ اُن کے معاصر اور ہم شہر غزل گو‬
‫شاعر گوہر ہوشیارپوری اور بشیر احمد بشیر کی غزل کو عصری تناظر میں خاص اہمیت کے ساتھ پرکھا جا سکتا‬
‫ہے۔ شہاب دہلوی کے ہاں کہیں کہیں روزمرہ کی چاشنی اور زبان وبیان کا احسن استعمال انھیں غزل کی وسیع روایت‬
‫سے جوڑتا ہے۔عارف عبدالمتین کی غزل کی اساس رومانویت اور حقیقت کے امتزاج پر ہے‪:‬‬

‫موت دشوار‪ ،‬زندگی مشکل‬

‫اب کوئی کام اپنے بس میں نہیں‬

‫سیف الدین سیف‬

‫نہیں نام و نشاں سائے کا لیکن یار بیٹھے ہیں‬

‫اُگے شاید زمیں سے خود بہ خود دیوار‪ ،‬بیٹھے ہیں‬

‫انجم رومانی‬

‫مال تو سارے سفر کی تکان اتار گیا‬

‫وہ اجنبی وہ مسافر نواز کیسا ہے‬

‫گوہر ہوشیارپوری‬

‫ہر ایک سمت صحیفے کھلے پڑے تھے یہاں‬

‫ترا نصیب کہ تو حرف ٓاشنا نہ ہوا‬

‫بشیر احمد بشیر‬

‫ہللا ری بے بسی مرے عہ ِد زوال کی‬

‫گھر جل کے راکھ ہو گیا‪ ،‬میں دیکھتا رہا‬


‫شہاب دہلوی‬

‫صرف ایک ثبوت اپنی وفا کا ہے مرے پاس‬

‫میں اپنی نگاہوں میں گنہگار نہیں ہوں‬

‫عارف عبدالمتین‬

‫عصر حاضر کے مصروف انسان کی ذہنی و جذباتی زندگی کی ترجمانی کی بات کی جائے تو ظہور نظر کی غزل‬
‫ِ‬
‫انفرادیت کی حامل ہے۔ رسا چغتائی کی غزل ایک ایسے فرد کی شاعری ہے جس میں فرد بیک وقت اپنے ٓاپ کو‬
‫اقدار‬
‫ِ‬ ‫معاشرے سے منسلک اور جدا محسوس کرتا ہے۔ یہ رویہ ایک نفسیاتی کش مکش کو جنم دیتا ہے۔ اسی طرح‬
‫عناصر ترکیبی ٹھیرتے‬
‫ِ‬ ‫ماضی و حال پر تجزیاتی نظر اور مستقبل کے دھندلے خاکے محشر بدایونی کی غزل کے‬
‫ہیں۔ روایت کے ساتھ ساتھ جدیدیت سے مملو رضا ہمدانی کی غزل ان کے اندرونی رومانی اضطراب کی عکاس ہے۔‬
‫خاطر غزنوی کی غزل میں رومانویت اور انقالبی فکر کا متوازن امتزاج ملتا ہے ۔ محبوب خزاں کے ہاں مشاہدات و‬
‫تجربات کی سچائی نئی عالمتوں کے ساتھ شعر کا روپ دھارتی نظر ٓاتی ہے۔ نسائی احساسات و جذبات کے اظہار‬
‫کے سلسلے میں اولیت کے باعث ادا جعفری کا نام اہم ہے۔ تاہم فہمیدہ ریاض نے اپنی نمایاں شاعری میں جس بے‬
‫باکی اور کھلی عالمتوں کے ساتھ غزل میں صنفِ نسواں پر مردانہ معاشرے کے جبر و تشد کو اپنے احتجاج کی بنیاد‬
‫بنایا اس کی دوسری مثال کشور ناہید کی غزل میں پہلی بار نظر ٓاتی ہے‪:‬‬

‫عجب میرا قبیلہ ہے کہ جس میں‬

‫کوئی میرے قبیلے کا نہیں ہے‬

‫رسا چغتائی‬

‫اس سفر میں کچھ نشاں ایسے بھی ہوں جو یہ بتائیں‬

‫دھوپ ہی دھوپ اُس طرف ہے یا کہیں سایہ بھی ہے‬

‫محشر بدایونی‬

‫صحرائے خیال کا دیا ہوں‬

‫ویرانہ شب میں جل رہا ہوں‬


‫رضا ہمدانی‬

‫پہلی محبتوں کے زمانے گزر گئے‬

‫ساحل پہ ریت چھوڑ کے دریا اتر گئے‬

‫خاطر غزنوی‬

‫کیسے ٓا جاتی ہے کونپل پہ یہ جادو کی لکیر‬

‫دن گزر جاتے ہیں محسوس کرو یا نہ کرو‬

‫محبوب خزاں‬

‫وہ میرے ہونٹ پہ لکھا ہے‪ ،‬جو حرف مکمل ہو نہ سکا‬

‫وہ میری ٓانکھ میں بستا ہے‪ ،‬جو خواب کبھی دیکھا ہی نہیں‬

‫فہمیدہ ریاض‬

‫سجاد باقر رضوی کے ہاں اردو غزل کی پوری روایت اپنی پوری جوالنی کے ساتھ نظر ٓاتی ہے۔ ان کے ہاں‬
‫معاشرتی اقدار کا شعور بہت نمایاں ہے۔ وزیر ٓاغا کی غزل عالمتی پیرایٔہ بیان کی حامل ہے۔عرش صدیقی کی غزل‬
‫فرد اور معاشرہ کے حوالے سے عصری شعور کی ٓائینہ دار ہے۔ حبیب جالب کی غزل ماضی کی حسین یادوں کی‬
‫عکاس ہونے کے ساتھ ساتھ جبر کے خالف جمہور کی احتجاجی ٓاواز ہے‪:‬‬

‫سیاہی دل کی پھوٹے گی تو پھر نس نس سے پھوٹے گی‬

‫داغ رُسوائی جبیں تک ہے‬


‫غالمو! یہ نہ سمجھو ِ‬

‫سجاد باقر رضوی‬

‫دن ڈھل چکا تھا اور پرندہ سفر میں تھا‬

‫ت پر میں تھا‬
‫سارا لہو بدن کا رواں مش ِ‬

‫وزیر ٓاغا‬
‫دل ہے کہیں‪ ،‬دماغ کہیں‪ ،‬اور ہم کہیں‬

‫شیرازہ حیات بہم ہو تو کس طرح‬

‫عرش صدیقی‬

‫خامشی سے ہزار غم سہنا‬

‫کتنا دشوار ہے غزل کہنا‬

‫حبیب جالب‬

‫قیام پاکستان کے بعد اردو غزل کے خد و خال سنوارنے والے شعرا میں منیر نیازی کا نام خصوصی اہمیت کا حامل‬
‫ہے۔ منیرنیازی کی شاعری رنگا رنگ خیاالت اور انوکھے امیجز سے عبارت ہے۔ وہ موضوعات کہ ایک عام شاعر‬
‫کے قلم کے بس کے نہیں ہوتے‪ ،‬منیرنیازی کے ہاں گہرے مشاہدے‪ ،‬شب و روز کے تفکر‪ ،‬عمیق تجربے اور زبان و‬
‫بیان کی خوبیوں کے باعث قاری پر ایک سحر کی صورت طاری ہو جاتے ہیں۔ ان کے مشاہدہ کا انداز بالکل اس بچے‬
‫کا سا ہے جو پہلی بار کائنات پر نظر ڈالتا ہے۔ اس وقت اس کی ٓانکھوں سے عیاں حیرت دیدنی ہوتی ہے۔ تجسس کا‬
‫ت‬
‫انداز بھی اس بچے سا ہے جس نے ابھی ابھی اس کائنات میں ٓانکھیں کھولی ہیں۔ منیر نیازی اپنے عصر کی صور ِ‬
‫حال کی تصویر کشی کچھ اس انداز سے کرتے ہیں کہ ان کا کہا‪ ،‬ان کا لکھا قاری اور سامع کو اپنے دل کی ٓاواز‬
‫محسوس ہوتا ہے۔ وہ بھرے پُرے شہروں میں انسان کی تنہائی پر نوحہ خواں ہیں‪:‬‬

‫منیر اک کمرے کی کھڑکی کے پاس سے گزرا‬


‫میں جو ؔ‬

‫اس کی چک کی تیلیوں سے ریشم کے شگوفے پھوٹے‬

‫مہک عجب سی ہو گئی پڑے پڑے صندوق میں‬

‫رنگت پھیکی پڑ گئی ریشم کے رومال کی‬

‫منیر اس شام کی تنہائیاں‬


‫یاد بھی ہیں اے ؔ‬

‫ایک میداں‪ ،‬اک درخت اور تو خدا کے سامنے‬

‫چار چپ چیزیں ہیں‪ :‬بحر و بر ‪ ،‬فلک اور کوہسار‬

‫دل دہل جاتا ہے ان خالی جگہوں کے سامنے‬


‫اک چیل ایک ممٹی پہ بیٹھی ہے دھوپ میں‬

‫گلیاں اجڑ گئی ہیں مگر پاسباں تو ہے‬

‫منیر نیازی‬

‫اسی سلسلے کا ایک اہم نام ناصر کاظمی ہے جنھوں نے پاکستان میں اردو غزل کو فکری و جذباتی سطح پر جدت‬
‫سے ہم کنار کیا۔ ان کی غزل کا خمیر روایت سے ہے۔ انھوں نے تقسیم کے اثرات کو نہ صرف شدت سے محسوس کیا‬
‫بلکہ اس کی داخلی کیفیات کو اپنے اشعار کی زینت بنایا۔ ان کا ذاتی سوز و گداز اجتماع کا کرب بنتا نظر ٓاتا ہے۔‬
‫ماضی کی یادیں اس پر مستزاد ہیں۔ ناصر کے ہاں عالمات و استعارات کے سلسلہ میں بھی جدت طرازی نمایاں ہے‪:‬‬

‫یوں ترے دھیان سے لرزتا ہوں‬

‫جیسے پتے ہوا سے ڈر جائیں‬

‫ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر‬

‫اداسی بال کھولے سو رہی ہے‬

‫پتھر کا وہ شہر بھی کیا تھا‬

‫شہر کے نیچے شہر بسا تھا‬

‫تیرے سائے کی لہروں کو‬

‫میرا سایہ کاٹ رہا تھا‬

‫ناصر کاظمی‬

‫شہزاد احمد محبت کی نفسیات کے شاعر ہیں۔ شہزاد احمدکی غزل میں عہ ِد جدید کے فالسفہ کے اٹھائے فکری سواالت‬
‫خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ اپنے عصر پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ معاشرے اور فرد کے باہمی تعلقات کی‬
‫تجزیاتی پیش کش شہزاد احمد کی غزل کا اختصاص ہے۔ان کے تجربات و مشاہدات کی دنیا وسیع اور فکر انگیز ہے‪:‬‬

‫شہزاد‬
‫ؔ‬ ‫فلک سروں پہ اچانک ہی ٓا پڑا‬

‫نجومیوں نے بہت زائچے بنائے تھے‬


‫بیٹھے بیٹھے میں بہت دور نکل جاتا ہوں‬

‫در و دیوار کو دن بھر نہیں دیکھا جاتا‬

‫جو تھا عزیز اسی سے گریز کرتے رہے‬

‫گلی گلی میں پھرے اپنا راستہ نہ لیا‬

‫شہزاد احمد‬

‫معاملہ حسن و عشق کا ہو کہ اداسی و تنہائی کا‪ ،‬جنسی الجھنیں ہوں کہ معاشرتی و سماجی مسائل۔۔۔۔۔۔۔۔ رئیس فروغ‬
‫پیش نظر فر ِد واحد کے احساسات بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ قمر جمیل اپنی تخیلی صالحیتوں کی مدد سے‬
‫ِ‬ ‫کے‬
‫انداز بیان کی حامل غزلیں کہیں لیکن ان کی توجہ نثری‬
‫ِ‬ ‫تصویر کشی میں طاق ہیں۔انھوں نے خوب صورت اور منفرد‬
‫نظم کی طرف زیادہ رہی۔ احمد فراز ہمارے عہد کے مقبول غزل گو ہیں۔ ان کی غزل بنیادی طور پر عشقیہ غزل ہے‪،‬‬
‫لیکن سیاسی و سماجی موضوعات کی بھی کمی نہیں۔ موضوع جیسا بھی ہو‪ ،‬فراز روایت کے گہرے شعور کے باعث‬
‫تغزل کو مجروح نہیں ہونے دیتے۔ دھیمے لہجے میں غزل کہنے والے اطہر نفیس کی غزلیں ان کے ذاتی احساسات‬
‫طرز احساس کی حامل ہے۔ محسن بھوپالی اپنی غزل میں سیاسی‬
‫ِ‬ ‫کی نمائندگی کرتی ہیں۔ محسن احسان کی غزل جدید‬
‫ت حال پر نکتہ چیں ہیں ‪:‬‬
‫و معاشرتی صور ِ‬

‫سڑکوں پہ گھومنے کو نکلتے ہیں شام سے‬

‫ٓاسیب اپنے کام سے ہم اپنے کام سے‬

‫رئیس فروغ‬

‫میں نے کچھ لوگوں کی تصویر اتاری ہے جمیل‬

‫اور کچھ لوگ چھپا رکھے ہیں ٓائینے میں‬

‫قمر جمیل‬

‫دل کے ٹکڑوں کو کہاں جوڑ سکا ہے کوئی‬

‫پھر بھی ٓاوازہ ٓائینہ گراں کھینچتا ہے‬

‫احمد فراز‬
‫مری ٓانکھوں کے خشک و تر میں جھانکو‬

‫کبھی صحرا‪ ،‬کبھی دریا ہوں میں‬

‫اطہر نفیس‬

‫امیر شہرنے کاغذ کی کشتیاں دے کر‬


‫ِ‬

‫سمندروں کے سفر پر کیا روانہ ہمیں‬

‫محسن احسان‬

‫ت دوراں تو دیکھیے‬
‫نیرنگئی سیاس ِ‬

‫منزل انھیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے‬

‫محسن بھوپالی‬

‫احمد مشتاق اِس دور کے اہم ترین شاعر ہیں جن کی غزل کے بارے میں یہ تک کہا گیا کہ ناصر کاظمی کا ان پر بہت‬
‫اثر ہےلیکن حقیقت اس کے منافی ہے کہ احمد مشتاق کی غزل ناصر کی غزل سے محض سادگی بیان کی حد تک‬
‫مماثل ہے۔ احمد مشتاق اپنے شعر کا تانا بانا اپنے اردگرد کےماحول سے بنتے ہیں۔وہ بظاہر معمولی اشیا اور واقعات‬
‫کے بیان سے معانی کا ایک جہان اپنے شعروں میں سمو دیتے ہیں۔ رام ریاض کی غزل میں حرکی پیکر بہت نمایاں‬
‫ہیں۔ انھیں تجسیم کا شہنشاہ بھی کہا جاتا ہے۔ ان کے ہاں قدرے ذاتی محرومیوں اور اپنے اردگرد معاشرتی ناانصافیوں‬
‫ی تخیل سید ِ‬
‫ٓال احمد کی غزل کے نمایاں‬ ‫ت فکر اور بلند ِ‬
‫اور ناہمواریوں کی خوب صورت پیکر تراشی ملتی ہے۔ جد ِ‬
‫ٓال احمد‬
‫اوصاف ہیں۔ انسانی رشتوں میں شکست و ریخت اور ان سے روزافزوں ترویج پاتی نفسیاتی پیچیدگیاں سید ِ‬
‫کے خاص موضوعات ہیں۔ اپنی ذات کو مرکزیت کے درجہ پر فائز کر کے گرد و پیش کی دنیا سے موضوعات اخذ‬
‫کرنے والے رضی اختر شوق اپنے عم عصروں سے منفرد نظر ٓاتے ہیں۔ شعری جمالیات کے شاعر انجم خیالی پرانی‬
‫عالمات کو نئے مفاہیم دینے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں ‪:‬‬

‫کیسے مکاں اُجاڑ ہوا‪ ،‬کس سے پوچھتے‬

‫چولھے میں روشنی تھی نہ پانی گھڑے میں تھا‬

‫احمد مشتاق‬
‫میں رام سب سے بڑا ہوں اور اس زمانے میں‬

‫بڑوں کو لوگ گھروں سے نکال دیتے ہیں‬

‫رام ریاض‬

‫یہ کیسی رات ڈھلی‪ ،‬مصلحت کا دن نکال‬

‫سکون روح و بدن کو ترس گئے ہم تم‬


‫ِ‬

‫ٓال احمد‬
‫سید ِ‬

‫اور کیا مجھ سے تری کوزہ گری چاہتی ہے‬

‫میں یہاں تک تو چال ٓایا ہوں گردش کرتا‬

‫رضی اختر شوق‬

‫ہر گھر میں ایک ایسا کونا ہوتا ہے‬

‫جہاں کسی کو چھپ کر رونا ہوتا ہے‬

‫انجم خیالی‬

‫۔‪ 1960‬کے بعد پاکستان میں اردو غزل کے حوالے سے انحراف کے دور کا ٓاغاز ہوتا ہے۔ سیاسی عدم استحکام‪،‬‬
‫معاشرتی ناانصافیوں اور سب سے بڑھ کر ایک نئی سلطنت۔۔۔۔۔۔۔ مسلم سلطنت کے قیام سے وابستہ امیدوں کے دم توڑ‬
‫جانے سے ادب میں بھی شکست و ریخت کا عمل دکھائی دینے لگا۔ بڑوں کے اعمال پر تنقید نے قطعی تردید کے لیے‬
‫راستے ہموار کیے۔ غزل میں ایک جھنجھالہٹ در ٓائی۔ روایت سے کلیتا ً انکار‪ ،‬غزل میں اجنبی یا یوں کہیے کہ غیر‬
‫مانوس قسم کے تجربات سامنے ٓانا شروع ہوئے۔ مختصراً یہ کہاجا سکتا ہے کہ ساٹھ کی دہائی میں کہی جانے والی‬
‫غزل ہماری تب تک کی اردو غزل کے ردِعمل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس دور کا سب سے اہم نام سلیم احمد کا ہے۔ ان‬
‫کے شعری مجموعہ ’’بیاض‘‘ کی اشاعت مروجہ شعری اسلوب سے بغاوت کا اعالن تھا۔ بقول سلیم احمد یہ ایک‬
‫شعوری کاوش تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ نئےراستے تالش کرنے کی کاوش‪ ،‬کم یا غیر مستعمل الفاظ اوراپنے عصر ی مسائل کے‬
‫اظہار کو غزل میں کھپانے کی کوشش۔ سلیم احمد کی غزل جدید انسان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خصوصا ً شہری زندگی کی عکاسی‬
‫کرتی ہے ۔ جنسی معامالت کا بے دھڑک بیان سلیم احمد کی شاعری کی ایک اور جہت ہے‪:‬‬
‫ٓاکے اب جنگل میں یہ عقدہ کھال‬

‫بھیڑیے پڑھتے نہیں ہیں فلسفہ‬

‫نہ پوچھو عقل کی‪ ،‬چربی چڑھی ہے اس کی بوٹی پر‬

‫کسی شے کا اثر ہوتا نہیں کم بخت موٹی پر‬

‫بلندی کی طلب ہے اور اندر انتشار اتنا‬

‫سو اپنے شہر کی سڑکوں پہ فوارے بناتا ہوں‬

‫وہ ہاتھ ہاتھ میں ٓایا ہے ٓادھی رات کے بعد‬

‫دیا دیے سے جالیا ہے ٓادھی رات کے بعد‬

‫سلیم احمد‬

‫’’ٓاب رواں ‘‘ کے شاعر ظفر اقبال نے تجرید کے راستے دل کش مصوری کے بعد لسانی تشکیالت کی ٹھان لی جس‬
‫کی پہلی قسط ’’گالفتاب‘‘ کی شکل میں بقول خود اُردو زبان کی تھکن اور پژمردگی دور کرنے کے لیے سامنے الئی‬
‫شایان شان پیرایہ کی مسلسل تالش میں مگن ظفر اقبال کبھی قدم ٓاگے بڑھاتے ہیں تو کبھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان‬
‫ِ‬ ‫گئی۔ شاعری کے‬
‫روز روشن کی طرح عیاں‬
‫ِ‬ ‫کے تجربات نے خود انھیں اور اردو غزل کو کیا دیا‪ ،‬ایک لمبی بحث ہےلیکن ایک بات‬
‫اشعارقبول عام کی سند حاصل کر سکے‪ ،‬جہاں انھوں نے ان لسانی تجربات کے حوالہ سے‬
‫ِ‬ ‫ہے کہ ان کے وہی‬
‫انتہاپسندانہ رویے سے گریز کیا‪:‬‬

‫بس ایک بار کسی نے گلے لگایا تھا‬

‫پھر اس کے بعد نہ میں تھا نہ میرا سایہ تھا‬

‫کیا ریت کا اک پھول سا کھل اٹھتا ہے دل میں‬

‫موج ہوا ٓاتی ہے صحرا کی طرف سے‬


‫ِ‬ ‫جب‬

‫سر صبح کسی درد کے در وا کرنے‬


‫پھر ِ‬

‫موج ہوا ٓائی ہے‬


‫ِ‬ ‫دھان کے کھیت سے اک‬
‫نہ کوئی پھول کِھال ہے نہ کوئی داغ پڑا ہے‬

‫یہ گھر بہار کی راتوں میں بے چراغ پڑا ہے‬

‫شاعر وہی شاعروں میں اچھا‬

‫کھا جائے جو شاعری کو کچا‬

‫‪ANS 02‬‬

‫اردو میں نئی نظم کا تجربہ اردو شاعری کی کالسیکی روایت سے پھوٹا ہے ۔ آریاﺅں اور دراوڑوں کے تہذیبی تصادم‬
‫نے گیت کو جنم دیا پھر قدیم ہندی تہذیب اور اسالمی تہذیب کے تصادم نے ___ہند اسالمی تہذیب کی صورت اختیار‬
‫معرض وجود میں آئی۔ نظم کی روایت قدیم مثنویوں تک اپنی جڑیں‬
‫ِ‬ ‫کی اور غزل جیسی بھر پور اظہار والی صنف‬
‫رکھتی ہے تاہم اس کا انفرادی تشخص اول اول اس وقت ظاہر ہوا جب ہند اسالمی تہذیب اور انگریزی تہذیب کے‬
‫تصادم سے اردو شاعری میں نیچر پسندی کے رجحان کو فروغ حاصل ہو ا۔ موالنا محمد حسین آزاد جو اس رحجان‬
‫کے بڑے علمبردار تھے۔ انہوںنے تب اردو شعراءکو نظم کی طرف یوں متوجہ کیا‪:‬‬
‫”اب رنگ زمانہ کچھ اور ہے ۔ذراآنکھیں کھولیں گے تو دیکھیں گے کہ صناعت و بالغت کا عجائب خانہ کھال ہے‬
‫جس میں یوروپ کی زبانیں اپنی اپنی تصانیف کے گلدستے ‪ ،‬ہار‪ ،‬طرّ ے‪ ،‬ہاتھوں میں لئے حاضر ہیں اور ہماری نظم‬
‫خالی ہاتھ الگ کھڑی منہ دیکھ رہی ہے لیکن اب وہ بھی منتظر ہے کہ کوئی باہمت ہو جو میرا ہاتھ پکڑ کر آگے‬
‫بڑھائے“‬
‫موالنا محمد حسین آزاد کے زیر اثر ٰ‬
‫اسمعیل میرٹھی‪ ،‬چکبست‪ ،‬نادر کا کرروی اور حالی جیسے شعراءنے نظم میں‬
‫اپنے اپنے تجربات کئے۔ تقریبا ً اسی حوالے سے ان رویوں سے ہٹ کر کچھ عرصہ پہلے نظیر اکبر آبادی ایک‬
‫مخصوص انداز کی عوامی شاعری شروع کرچکے تھے جسے نظم کے ارتقاءمیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔‬
‫ب وطن“یہ سب‬
‫موالنا محمدحسین آزاد کی مثنویاں فی ذاتہ نظمیں تھیں۔”مثنوی ابرکرم“ ‪ ،‬مثنوی صبح امید“ ‪ ،‬مثنوی ح ِ‬
‫بنیادی طور پر نظمیں تھیں۔حالی کو چھوڑ کر آزاد کے زیر اثر لکھنے والے تمام شعراءکے ہاں نظم کے تقاضوں کی‬
‫کاوشیں زیادہ تر مصنوعی نظر آتی ہیں جس کی وجہ سے ان کے ہاں تخلیقی جوہر کی کمی محسوس ہوتی ہے ۔ ان‬
‫کے بر عکس نظیر اکبر آبادی اپنی عوامی نظموں میں اور موالنا حالی اپنی ملی نظموں میں تخلیقی لحاظ سے بے حد‬
‫زرخیز دکھائی دیتے ہیں۔ حالی اور نظیر کی روایتیں اقبال کے ہاں یک جا ہوئیں تو پابند نظموں کے تمام ممکنات کھل‬
‫کر سامنے آگئے اور پھر پابند نظم سے آزاد نظم کا سفر شروع ہوا۔تصدیق حسین خالد‪ ،‬میر اجی‪ ،‬ن‪،‬م راشد اور مختار‬
‫صدیقی اس نئے سفر کے اہم شعراءتھے۔ا سی اثنا میںترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا۔ تحریک میں بڑی گھن گرج تھی۔‬
‫اس لئے آزاد نظم والوں کی آواز قدرے دَ ب گئی۔ترقی پسندوں نے زیادہ تر قافیے کی پابندی والی نظمیں کہیں۔یہ نظمیں‬
‫عمومی طور پر نعرے بازی کا شکار ہو کر رہ گئیں۔یوں بھی پابند نظموں میں اقبال کے بڑے تجربے کے بعد عام‬
‫ترقی پسندوں کے لئے اس مقام تک پہنچنا نا ممکن تھا۔ چنانچہ پابند نظموں کے شائق ترقی پسندوں نے بھی مجبوراً‬
‫آزاد نظمیں کہیں۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ اہم شعراءمیں فارغ بخاری کی نظم ”دائرے“‪ ،‬ظہور نظر کی ”شہر‬
‫سبا“ اور ”اس پار“ اور عارف عبدالمتین کی ”گمشدہ کڑی“ کو ترقی پسند نظم کے ارتقا میں بنیادی اہمیت دی جا سکتی‬
‫ہے ۔ فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی ترقی پسندوں کے بے حد اہم اور بڑے شعراءمیں شمار ہوتے ہیں ۔ ان کے‬
‫ہاں پابند نظم سے آزاد نظم کا سفر بڑا حیران کن اور مسرت انگیز ہے۔ فیض کی آخری چند بڑی نظموں میں سے ایک‬
‫نظم”مرے دل مرے مسافر“ کا ایک حصہ مالحظہ فرمائیں‪:‬‬
‫سر کوئے ناشناساں ‪ ،‬ہمیں دن سے رات کرنا‬
‫ِ‬
‫کبھی اس سے بات کرنا‪ ،‬کبھی اس سے بات کرنا‬
‫جو ملے نہ کوئی پرساں‪ ،‬بہم التفات کرنا‬
‫ب غم بُری بُال ہے‬
‫تمہیں کیا کہوں کہ کیا ہے‪ ،‬ش ِ‬
‫ہمیں یہ بھی تھا غنیمت جو کوئی شمار ہوتا‬
‫ہمیں کیا بُرا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا‬
‫اس نظم میں میراور غالب کی واضح گونج کے باوجود فیض نے پُرانے لفظوں میں نئی معنویت پیدا کردی ہے۔‬
‫”تکمیل کائنات“ میں کہتے ہیں۔‬
‫ِ‬ ‫احمد ندیم قاسمی اپنی نظم‬
‫” اور خدا‬
‫(جو فقط ایک ہے)‬
‫ان تضادات پر‬
‫اس تنوع پہ‬
‫آسودہ!‬
‫ہر دائرے سے نیا دائرہ‬
‫اس طرح پیدا کرتا چال جا رہا ہے‬
‫کہ جیسے ابھی کائنات‬
‫اپنی تکمیل کے سلسلے میں‬
‫تگ ودو میں مصروف ہے“‬
‫اس نظم کو پڑھتے ہی اقبال کا یہ شعر یاد آتا ہے‪:‬‬
‫یہ کائنات ابھی نا تمام ہے شاید‬
‫کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکون‬
‫تاہم احمد ندیم قاسمی کا کمال ہے کہ وہ پرانی معنویت کو نئی لفظیات میں سمیٹ لیتے ہیں اور یہ کوئی معمولی بات‬
‫نہیں۔ ترقی پسند شعراءکی نظموں سے نعرے بازی خارج کر دی جائے تو باقی بچنے والی نظموں کا بیشتر حصہ‬
‫تخلیقی سے زیادہ اکتسابی نظر آتا ہے اس کے برعکس داخلیت پسندوں کے ہاں ترجمے کا عمل بھی تخلیقی محسوس‬
‫ہوتا ہے۔‬
‫تصدق حسین خالدنے جاپانی شاعری کو آزاد نظم کے روپ میں یوں پیش کیا ہے۔‬
‫”نہیں‪ ،‬کچھ نہیں‬
‫یونہی گرمی کی شدت سے‬
‫کمزور سی‪ ،‬ہو گئی ہوں‬
‫یہی کہنے پائی کہ‬
‫اک آنسوﺅں کی‬
‫جھڑی بندھ گئی (جھڑی)‬
‫میرا جی کے ہاں جنسی جذبے جن نا آسودہ صورتوں میں ظاہر ہوئے اس کی صرف ایک چھوٹی سی مثال ‪:‬‬
‫ہاتھ آلودہ ہے ‪ ،‬نمدار ہے‪ ،‬دھندلی ہے نظر‬
‫ہاتھ سے آنکھوں کے آنسو نہیں پونچھے تھے‬
‫ب جو ئبار)‬
‫(ل ِ‬
‫میرا جی کی جنسیت کی تقلید جب خواتین نے کی تو ایک تہلکہ سا مچ گیا ۔ فہمیدہ ریاض کی نظمیں ”مقابلہ حسن“‪،‬‬
‫”زبانوں کا بوسہ“‪’ ،‬ابد“‪”،‬الﺅ ہاتھ اپنا الﺅ ذرا“ اور کشور ناہید کی نظمیں ”کلیرنس سیل“‪” ،‬تم سے “ وغیرہ نے نو آموز‬
‫شاعرات پر شدیداثرات مرتب کئے۔پروین شاکر اس لحاظ سے منفرد اور اہم شاعرہ ہے کہ اس نے فہمیدہ ریاض اور‬
‫کشور ناہید کے ”کھلے ُڈلے“شعری احساسات کو ایک لطیف پیرایہءاظہار دے دیا۔‬
‫زیر سطح رکھتے ہوئے اپنی واردات کو بیان کیا ہو لیکن‬
‫بہت کم شاعرات ایسی ہیں جنہوںنے جنس کے جذبے کو ِ‬
‫ایسی شائستہ مثالیں بھی مل سکتی ہیں۔مثال کے طور پر ادا جعفری کی یہ نظم دیکھیں‪:‬‬
‫”مرے بچے‬
‫مجھے جب دیکھنا چاہو‬
‫تو بس اپنی طرف دیکھو‬
‫تمہارے لب پہ جو حرفِ صداقت ہے‬
‫یہی میں ہوں‬
‫ناز جسارت ہے‬
‫تمہارے دل میں جو ِ‬
‫یہی میں ہوں‬
‫طرز عبادت ہے‬
‫ِ‬ ‫نگاہوں میں جو اک‬
‫یہی میں ہوں‬
‫محبت کی طرح بھی ہوں بے پایاں‬
‫کبھی ظاہر کبھی پنہاں‬
‫جہاں تم ہو وہاں تک میری خوشبو ہے‬
‫وہاں میں ہوں۔“‬
‫فرحت نواز کی نظم ”وصیت “ بھی ایسی ہی شائستگی سے عبارت ہے‪:‬‬
‫”جیون بھر میری سانسوں نے‬
‫نام نسب کا بوجھ اٹھایا‬
‫مر جاﺅں تو مجھ پر سے یہ سارا بوجھ اٹھا دینا‬
‫میرا کتبہ بھی لکھنا تو اس کے اوپر‬
‫میرا نام محبت لکھنا‬
‫پیشہ لکھنا قلم کی محنت‬
‫عمر رواں کے آگے لکھنا‬
‫ِ‬
‫الحاصل خوابوں کی گنتی‬
‫یہ سب گر نہ لکھ پاﺅں تو‬
‫بے شک میری تربت کو گمنام ہی رکھنا“‬
‫فیض احمد فیض اور میرا جی کے اثرات سے انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن یہ حقیقت ہے کہ جدیدنظم پر سب سے زیادہ‬
‫اثرات ن۔م۔راشد نے مرتب کئے ۔ راشد نے” ایران میں اجنبی“ کی فارسیت سے جہاں نظم کا اس کی قدیم شعری ‪،‬‬
‫روایت سے تعلق کا تخلیقی سطح پر اقرار کیا وہیں ”ال= انسان“ میں انسان کی نا معلوم قیمت کو کائناتی اسرارو رموز‬
‫کے حوالے سے دریافت کرنے کی کاوش کی۔ یوسف ظفر ‪ ،‬مجید امجد‪ ،‬اور وزیر آغا کی نظمیں دراصل راشد کی‬
‫نظمیہ شاعری سے آگے کا سفر ہیں ۔جیالنی کامران‪ ،‬منیر نیازی ‪ ،‬ایوب خاور‪ ،‬اختر حسین جعفری‪ ،‬سلیم احمد‪ ،‬ساقی‬
‫فاروقی‪ ،‬ضیا جالندھری‪ ،‬غالب احمد‪ ،‬اعجاز فاروقی‪ ،‬غالم جیالنی اصغر‪ ،‬اظہر جاوید اور عبید ہللا علیم ‪ ،‬جیسے‬
‫شعراءکے ہاں نظم کا وہ روپ سامنے آتا ہے جو راشد‪ ،‬میرا جی‪ ،‬اور فیض کے ملے جلے اثرات سے ابھرا ہے اور‬
‫جو دن بدن اپنی الگ شناخت قائم کرتا جا رہا ہے۔‬
‫چند اہم شعراءکی اہم نظموں کے اقتباس مالحظہ کیجئے‪:‬‬
‫”نہ جانے کون سا کوہ گراں ہے تیرے ہاتھوں پر‬
‫کہ اب تک تیرے ہاتھوں کے لئے چہر ہ ترستا ہے‬
‫تجھے دیکھوں تو جی یہ چاہتا ہے تجھ سے پوچھوں‬
‫…‪.‬ماں…‪ .‬یہ کن روگی زمانوں کے بھروسوں پر ابھی تک جی رہی ہو‬
‫…‪ .‬کچھ تو بول!“‬
‫(ماں۔ ایوب خاور)‬
‫”تمہیں کیا یاد ہے‬
‫تم نے کہا تھاوصل کے سرشار لمحوں میں‬
‫کہ دل کی بات‬
‫میں اس سے کہہ بھی سکتی گر تو کہہ دیتی‬
‫کہ میرے جسم میں دو دل دھڑکتے ہیں‬
‫تمہارے واسطے بھی اور اس کے واسطے بھی جو تمہارا دشمن ِ جاں ہے۔“‬
‫(سلیم احمد)‬
‫اے خدا! مجھ کو نیا روز دکھا‬
‫اے خدا! مجھ کو دکھا راہ کہ گمراہ ہوں میں‬
‫روشنی میری لوٹ! میں تاریکی ہوں۔“‬
‫(استانزے۔ جیالنی کامران)‬
‫”وہ دیکھو کہ‬
‫رحم مادر سے نکال ہوا طفل نوزائیدہ‬
‫ِ‬ ‫پھر‬
‫وقت کو کہہ رہا ہے‬
‫زمیں سے ضمانت نہ مانگو‬
‫رگ جسم و جاں کی شہادت نہ مانگو‬
‫کہ ضامن ہو تم اس طرح کے‬
‫زمانے کے تم خودا میں ہوں‬
‫جہان ہنرمیں نئی زندگی کی طلب کے‪ ،‬طرب کے‬
‫نئے آشیانے بساﺅ‪ ،‬نیا گھر بناﺅ‬
‫کہ یہ نفس کا ”نقطہءآسماں “ہے‬
‫کنار یقیں ہے نئی سر زمیں ہے‬
‫دو‪،‬ابن آدم بالﺅ‬
‫ِ‬ ‫زمانے کو آواز‬
‫کہو سب کو آﺅ نیا گھر ہمارا کھال ہے‬
‫یہ وقت دعا ہے!‬
‫(نظم کی ابتدائی نظم۔غالب احمد)‬
‫کاغذوں پر لکھے لفظ تھے‪ُ ،‬دھل گئے‬
‫وہ بھی کیا وقت تھا‬
‫دعوے داروں کا‪ ،‬یاروں کا میلہ رہا‬
‫یہ بھی کیا وقت ہے‬
‫چھوڑ کر سب گئے میں اکیال رہا‬
‫زندگی مہرباںتھی‪ ،‬پریشاں ہوئی‬
‫موت بھی اب تو مجھ سے گریزاں ہوئی‬
‫اے خدا!‬
‫(کاغذوں پرلکھے لفظ۔ اظہر جاوید)‬
‫”یہ صہبائے امروز‪ ،‬جو صبح کی شاہ زادی کی مست انکھڑیوں سے ٹپک کر جو دور حیات آگئی ہے۔ یہ ننھی سی‬
‫چڑیاں جو چھت پر چہکنے لگی ہیں ہوا کا یہ جھونکا جو میرے دریچے میں تلسی کی ٹہنی کو لرزا گیا ہے پڑوسن‬
‫کے آنگن میں پانی کے نلکے پہ یہ چوڑیاں‬
‫جو چھنکنے لگی ہیں‬
‫دل زار کی دھڑکنوںکی امیں ہے“‬
‫یہ دنیائے امروز میری ہے‪ ،‬میرے ِ‬
‫(امروز۔ مجید امجد)‬
‫”بیاض شب و روز پر دستخط تیرے قدموں کے ہوں‬
‫ِ‬
‫چہکتے ہوئے تینوں نٹ کھٹ زمانے‬
‫ترے گردناچیں‬
‫تو بنسی کی تانوں سے ہر شے کو پاگل کرے‪ ،‬نذر آتش کرے‪،‬‬
‫توڑ ڈالے‬
‫مگر خود نہ ٹوٹے‬
‫کبھی تو نہ ٹوٹے!“‬
‫(دعا۔ وزیر آغا)‬
‫”زمانہ خدا ہے‪ ،‬اسے تم برا مت کہو“‬
‫ریسمان خیال‬
‫ِ‬ ‫مگر تم نہیں دیکھتے ۔ زمانہ فقط‬
‫سبک مایہ ‪ ،‬ناز ک طویل‬
‫جدائی کی ارزاں سبیل‬
‫وہ صبح‪ ،‬جو الکھوں برس پیشتر تھیں‬
‫وہ شامیں جو الکھوں برس بعد ہو ں گی‬
‫انہیں تم نہیں دیکھتے‪ ،‬دیکھ سکتے نہیں‬
‫کہ موجود ہیں‪ ،‬اب بھی‪ ،‬موجود ہیں وہ کہیں‬
‫مگر یہ نگاہوں کے آگے جو رسی تنی ہے‬
‫اسے دیکھ سکتے ہو اور دیکھتے ہو‬
‫کہ یہ وہ عدم ہے‬
‫جسے ہست ہونے میں مدت لگے گی‬
‫ستاروں کے لمحے ستاروں کے سال!“‬
‫(زمانہ خدا ہے۔ ن۔م۔ راشد)‬
‫نئی نظم کے ارتقاءمیں اس لحاظ سے ترقی پسند تحریک کے شعراءکا بڑا حصہ ہے کہ اگر وہ کمٹ منٹ پر اتنا‬
‫اصرار نہ کرتے تو ہمارے داخلیت پسند شعراءکے ہاتھوں نظم کی تمام عالمتیں اور تمثالیں سراسر ذاتی ہو کر عدم‬
‫ابالغ کا مسئلہ پیدا کردیتیں یوں ترقی پسندوں کے اصرار نے داخلیت پسند شعراءکو اعتدال پر رکھنے میں غیر ارادی‬
‫طور پر بڑا اہم کردار ادا کیا اور اب کہا جا سکتا ہے کہ نئی نظم ایک طرف زندگی اور اس کے مسائل سے باخبر ہے‬
‫تو دوسری طرف کائنات اور اس کے ان گنت اسرار کی دریافت کے روحانی عمل سے بھی گزر رہی ہے ۔ڈاکٹر وزیر‬
‫آغا کی طویل نظم”آدھی صدی کے بعد“نے نظم کو ایک نئے تخلیقی ذائقے سے روشناس کر دیا ہے اور اب طویل‬
‫نظموں کا رواج بھی چل نکال ہے۔جیالنی کامران‪ ،‬سلیم احمد اور غالب احمد جیسے شعراءکی طویل نظمیں اب نظم‬
‫کے ایک نئے دور کے امکانات کی خبر دے رہی ہیں۔‬

‫‪ANS 03‬‬
‫ذوق کی قصیدہ نگاری کی خصوصیات‬

‫قصیدہ نگار کے لیے ضروری ہے کہ اس کا مطالعہ وسیع اور گہرا ہو‪ ،‬زبان پر قدرت حاصل ہو‪ ،‬ایک سے زیادہ‬
‫زبانوں پر عبور ہو‪ ،‬خیاالت میں بلندی‪ ،‬فکر میں ندرت ہو‪ ،‬جس سے قصیدہ کا ہر حصہ شاعر کے کمال فن کا مظہر‬
‫ہوتا ہے ۔‬
‫ذوق کی تشبیبیں‬

‫‪    ‬قصیدے کا آغاز تشبب سے ہوتا ہے جسے نسیب اور مطلع بھی کہتے ہیں۔ یہ قصیدے کی جان ہوتی ہے۔ تشبب کا‬
‫موضوع جتنا اچھوتا ہوتا ہے قصیدہ بھی اتنا ہی دلکش ہوتا ہے ۔ تشبیب کے مضامین میں ممدوح کی حیثیت و مرتبے‬
‫کی مناسبت بھی اہمیت رکھتی ہے ۔ ذوق کے قصائد کا سب سے دلکش حصہ ان کی تشبیوں کا ہے جن سے ذوق کے‬
‫کمال فن اور علم و فضل کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ تشبب میں ان کے موضوعات مختلف اور متنوع ہیں۔ بہادر شاہ‬
‫ظفر کے جشن صحت کے موقع پر کہے گئے قصیدے میں تشبیب کے ستائیس (‪ ) 27‬اشعار ہیں ۔ ہوائے بہار کی‬
‫مسیحا نفسی کی مختلف انداز سے توضیح و تعبیر کی ہے۔ عیدین کی تقریبات پر کہے ہوۓ قصائد کی تشبیبیں عیش و‬
‫نشاط سے معمور ہیں ۔ بعض تشبیبوں میں اخالقی‪ ،‬حکیمانہ و ناصحانہ مضامین ہیں تو بعض میں زمانے کی نا اہلی کا‬
‫شکوہ ہے۔‬

‫ذوق کے قصیدوں کا اسلوب‬


‫ذوق کے قصیدوں میں گریز‬

‫‪     ‬ذوق نے جتنا زور تشبیب پر صرف کیا ہے اتنا ہی زور انھوں نے دوسرے اجزا پر بھی صرف کیا ہے ۔ گریز‬
‫قصیدے کی ایک اہم کڑی ہے جو تشبیب اور مدح کو جوڑتی ہے ۔ تشبیب کا مزاج مدح سے مختلف ہوتا ہے ۔ شاعر‬
‫تشبیب کو مدح سے مربوط کرنے کے لیے بات میں سے بات اس طرح پیدا کرتا ہے کہ کہیں تسلسل میں خلل پیدا‬
‫ہونے نہیں پاتا ۔اس مقام پر ہمیں شاعر کے کمال کا اندازہ ہوتا ہے۔ ذوق نے گریز میں اپنی فن کاری اور قوت تخیل‬
‫اور پرواز فکر کا ثبوت دیا ہے ۔ ایک قصیدہ جو عید کے موقع پر کہا گیا ہے اس کا مطلع ہے ‪:‬‬
‫ہے وہ جاں دار دیے نافع اعضا و حواس‪ ‬‬
‫کہ دل مردہ ہو زندہ تن بے حس حساس‬
‫‪     ‬اس قصیدے کے ابتدائی ‪ 16‬اشعار میں شراب کی مدح و ستائش کا سلسلہ جاری ہے ۔ اس کے بعد شاعر کو بادشاہ‬
‫کی دین داری اور پرہیز گاری کا خیال آ تا ہے اور وہ بڑے فن کارانہ انداز میں پہلو بدل کر گریز کرتا ہے ۔‬
‫میں یہ کہتا ہی تھا جو دل نے مرے مجھ سے کہا‬
‫توبہ کر توبہ ‪ ،‬نہ کر اتنی زیادہ بکواس‬
‫‪     ‬پھر بادشاہ کی مدح کی طرف رجوع ہو جاتا ہے ۔ بعض قصائد میں گریز سیدھی سادی ہے ۔ ایک قصیدے میں‬
‫خوشی کی تجسیم کرتے ہوئے اسکی سراپا نگاری کرتے ہیں ۔ پھر اپنی ہمہ دانی اور علمی تبحر کا تذکرہ کرتے ہیں ۔‬
‫اتنے میں انھیں نیند آ جاتی ہے ۔ اس طرح گریز کرتے ہیں ‪:‬‬
‫لگ گئی آ نکھ مری دیکھتا کیا خواب میں ہوں‬
‫کہ مجسم نظر آتی ہے نوید بہجت‬
‫کبھی کبھی گریز میں مکالماتی انداز اختیار کر لیتے ہیں ۔‬
‫مدح‬
‫مدح قصیدے کا اصل مقصد ہوتا ہے ۔ مدح کا ممدوح کی حیثیت و مرتبہ سے مناسبت رکھنا ضروری ہوتا ہے یعنی‬
‫مدح میں حفظ مراتب پر زور دیا جاتا ہے ۔ شاعر کے لیے ضروری ہے کہ وہ ممدوح کی نفسیات سے آ گاہ ہو‪ ،‬مزاج‬
‫آشنا ہو ذوق نے مدح میں ممدوح کے جود و سخا‪ ،‬علم دوستی‪ ،‬عدل و انصاف‪ ،‬مذہبی رجحان‪ ،‬خدا ترسی‪ ،‬شجاعت اور‬
‫عقل و حکمت کی تعریف کی ہے ۔ ممدوح کے ساتھ اس کی فوج‪ ،‬ساز و سامان تیر و تلوار گھوڑے‪ ،‬ہاتھی‪ ،‬مطبخ‪ ،‬در‬
‫لبار کی رونق جاہ و حشمت کی تعریف تقریبا ہر قصیدے میں نہایت پر شکوہ انداز سے کی ہے۔ مدح میں عموما ً‬
‫مبالغے کا پہلو شامل رہتا ہے ۔ ذوق کی مدح بھی اس سے خالی نہیں ۔ بادشاہ کی مدح میں دو شعر دیکھیے ‪:‬‬
‫ٰ‬
‫اعلی والی واال‬ ‫اے شہہ عالم ‪ ،‬در ہمہ عالم ‪ ،‬عالی‬
‫لب پہ ستائش ‪ ،‬ول بہ نیائش جلوه طراز عرش معلی‬
‫روح مجسم ‪ ،‬عقل مکرم ‪ ،‬نفس مقدس ‪ ،‬جسم مطہر‬
‫جان موافی ‪ ،‬پرده بہ دنیا جلوه بہ عقبی‬
‫باتن صافی ‪ِ ،‬‬

‫ذوق کے قصائد‬
‫‪     ‬قصیدے میں عرض مدعا اور دعا کا حصہ مختصر ہوتا ہے ۔ یہ بھی قصیدہ نگار کے لیے ایک دشوار مرحلہ ہے۔‬
‫شاعر کو یہ خیال رکھنا پڑتا ہے کہ عرض مدعا ممدوح کی طبیعت پر گراں نہ گزرے ۔ ذوق نے یہاں بڑا روایتی انداز‬
‫اختیار کیا ہے ۔ ذوق نے کسی بھی قصیدے میں عرض مدعا نہیں کیا ہے۔ ان کا یہ مقصد بھی نہیں ہوتا تھا جیسا کہ‬
‫غالب نے روا رکھا ہے۔ غالب کے یہاں حسن طلب قصیدے کا اصل مقصد ہوتا ہے ۔ وہ مانگتے ہیں اور اور نت نئے‬
‫طریقے سے مانگتے ہیں ۔ ذوق نے اپنے قصائد میں ٰ‬
‫تعلی کبھی نہیں کی جیسا کہ اکثر قصیدہ نگار اپنا قصیدہ تعلی پر‬
‫ختم کرتے ہیں۔‪ ‬‬

‫‪ANS 04‬‬

‫جب قیامت کا ذکر چھڑ جاتا ہے تو بات محبوب کی جوانی تک پہنچتی ہے اور جب مثنوی کا ذکر چھڑ جاتا ہے تو‬
‫بات ”سحرالبیان “ تک پہنچتی ہے یہ حقیقت ہے کہ جس قدر نشہ ‪ ،‬خمار ‪ ،‬کشش اور ساحری محبوب کی جوانی میں‬
‫ہوتی ہے اسی قدر یہ خصوصیت دوسری اشیاءمیں نہیں ہوتی۔ اسی طرح سے اردو میں کافی تعداد میں مثنویاں کہی‬
‫گئی ہیں مگر جو دلکشی اور ساحری مثنوی ”سحر البیان“ میں موجود ہے دوسری دوسری مثنویاں ان خوبیوں سے‬
‫محروم ہیں اس لیے ہم بال تکلف یہ بات َکہ سکتے ہیں کہ سحرالبیان اردو کی بہترین مثنوی ہے۔‬

‫”سحر البیان “ اردو کی ان زندہ جاوید مثنویوں میں سے ہے جو ہر زمانہ میں عوام اور خواص میں یکساں طور پر‬
‫مقبول رہی ہیں اس مثنوی کی مقبولیت پر غور کیجئے تو بہت فنی محاسن ایسے نظر آتے ہیں جو دوسری مثنویوں‬
‫میں نہیں ملتے ہیں۔ اس لیے ” سحرالبیان “ ایک مقبول عام مثنوی ہے۔”سحر البیان“ کے فنی محاسن کے سلسلے میں‬
‫اس کی کردار نگاری پالٹ ‪ ،‬جذبات نگاری ‪ ،‬مکالمہ نگاری ‪ ،‬مرقع نگاری ‪ ،‬منظر نگاری اور سراپا نگاری کے‬
‫عالوہ ایک مربوط معاشرت کے ثقافتی کوائف کی تصویر بے حد کامیاب کھینچی گئی ہے۔‬
‫اس مثنوی سے میرحسن اور ان کی سوسائٹی کے مذہبی افکار اور اخالقی اقدار پر روشنی پڑتی ہے جو اس معاشرت‬
‫تصور زندگی کا جزو بن چکے ہیں ۔ ”سحرالبیان“ اس دور کے مذہبی معتقدات ‪ ،‬ذہنی امور‬
‫ِ‬ ‫کے روائتی طرز فکر اور‬
‫اور اخالقی تصورات کی عکاس ہے۔ یہ مثنوی دراصل اس طرز زندگی کی بہترین نمائندگی کرتی ہے ۔اودھ کی اس‬
‫فضا میں جہاں تکلف و تصنع کا دور دورہ تھا ۔ ایک تہذیب بن رہی تھی۔ ”سحرالبیان“ میں اس تہذیب کی تصویریں‬
‫بھی محفوط ہیں۔ میر حسن چونکہ دلی سے آئے تھے اور مغل تہذیب کے دلدادہ تھے اسی لیے اس مثنوی ” گلزار‬
‫نسیم“ کے مقابلے میں لکھنوی عناصر کم ہیں۔ اس مثنوی کا اسلوب و لہجہ دہلوی ہے۔ تکلفات و تصنعات کا وہ زور‬
‫نہیں جو بعد میں گلزار ِ نسیم کی صورت میں نمودار ہوا۔پروفیسر احتشام حسین اپنے ایک مضمون ”سحر البیان پر‬
‫ایک نظر“ میں یوں لکھتے ہیں‪،‬‬

‫” اگر کوئی شخص اختالف کرنے پر آئے تو اختالف ہر بات سے ہوسکتا ہے اس لیے اگر کہا جائے کہ میر حسن کی‬
‫مثنوی سحرالبیان (جس کا پورا نام کبھی کبھی مثنوی سحرالبیان یعنی مثنوی میر حسن معروف بے نظیر و بدر منیر‬
‫لکھا جاتا ہے) اردو زبان کی سب سے اچھی مثنوی ہے تو کہیں کہیں سے یہ آواز ضرور آئے گی کہ یہ رائے درست‬
‫نہیں ہے لیکن اگر یہ کہا جائے کہ یہ مثنوی اردو کی بہترین مثنویوں میں شمار کی جاتی ہے تو شاید کسی کو شدت‬
‫کے ساتھ اختالف نہ ہوگا۔ کہانی اور انداز ِ بیان میں ضرور کچھ ایسے عناصر ہیں جس کا مطالعہ اس کی عظمت کا‬
‫پتا دیتا ہے۔‬

‫میر حسن نے کئی اور مثنویاں بھی لکھیں لیکن کسی مثنوی میں یہ نہیں کہا ہے کہ‪،‬‬

‫ذرا منصفو! داد کی ہے یہ جا‬

‫کہ دریا سخن کا دیا ہے بہا‬

‫زبس عمر کی اس کہانی میں صرف‬

‫تب ایسے یہ نکلے ہیں موتی سے حرف‬

‫جوانی میں جب ہوگیا ہوں میں پیر‬

‫تب ایسے ہوئے ہیں سخن بے نظیر‬

‫نہیں مثنوی ہے یہ ایک پھلجھڑی !‬

‫مسلسل ہے موتی کی گویا لڑی‬


‫نئی طرز ہے اور نئی ہے زبان‬

‫نہیں مثنوی ہے یہ سحر البیان‬

‫یہ میر حسن کی تعلی ہو یا روایتی شاعرانہ پیرایہ بیان لیکن ہم اس کو تنقید کی بنیاد بنا کر ”سحر البیان“ پڑھیں تو‬
‫بعض دلکش نتائج ضرور برآمد ہوں گے۔ ”سحرالبیان “ کا مطالعہ ہم مندرجہ زیل عنوانات کے تحت کرتے ہیں ہر‬
‫عنوان میں اس کی خوبیوں اور فنی محاسن پر تنقید و تبصرہ کرکے اس کی قدر و قیمت نمایاں کی جائے گی۔‬

‫سحرالبیان کا پالٹ‪:‬۔‬

‫جہاں تک اس مثنوی کے پالٹ کا تعلق ہے ‪ ،‬اس میں کوئی نیا پن نہیں اس کہانی کے اجزا ءمختلف منشور اور منظوم‬
‫‪ ،‬قدیم داستانوں میں بکھرے پڑے ہیں اور اس کی کہانی سیدھے سادھے انداز میں یوں ہے‪،‬‬

‫کسی ملک میں ایک بادشاہ تھا جو اپنی منصف مزاجی کی وجہ سے رعایا میں ہر دلعزیز تھا ۔ بادشاہ کو تمام نعمتیں‬
‫میسر تھیں مگر اوالد جیسی نعمت سے محرومی اس کی زندگی کی سب سے بڑی محرومی تھی۔ اس محرومی و‬
‫مایوسی کے عالم میں بادشاہ دنیا ترک کر دینے کا ارادہ کر لیتا ہے۔ وزیروں کے مشورے پر وہ سردست اس فیصلے‬
‫پر عمل درآمد روک دیتا ہے۔ شاہی نجومی بادشاہ کے ہاں چاند سے بچے کی پیدائش کی خوشخبری دیتے ہیں ۔ اس کی‬
‫سالمتی و زندگی میں چند خطروں کی نشان دہی کرتے ہوئے اس احتیاط کی تلقین کرتے ہیں کہ بارہ سال کی عمر تک‬
‫اسے محل کے اندر رکھا جائے اور رات کھلے آسما ن تلے سونے نہ دیا جائے کچھ عرصے بعد واقعی بادشاہ کے ہاں‬
‫لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ اس کا نام اس کی خوبصورتی اور مردانہ وجاہت کے پیش نظر ” بے نظیر “ رکھا جاتا ہے۔ تمام‬
‫شاہی تکلفات اور ناز و نعم کے ساتھ ‪ ۱۲‬سال تک اسے محل کے اندر رکھا جاتا ہے۔ مگر سال کے آخری دن جب اس‬
‫کی عمر بادشاہ کے حساب سے پورے بارہ سال ہوگئی تھی (حاالنکہ اتفاق سے ایک دن کم تھا) وہ رات کو ضد کرکے‬
‫چھت پر سو جاتا ہے ۔ آدھی رات کے قریب ماہ رخ پری کا گزر وہاں سے ہوا ۔ اسے سوتے میں دیکھ کر اس پر‬
‫عاشق ہوئی او ر اپنے ساتھ پرستان میں لے گئی۔ شہزادے کی گم شدگی پر صبح محل میں قیامت کا منظر پربا ہو گیا۔‬
‫بڑی تالش کی گئی مگر شہزادے کو نہ ملنا تھا نہ مال۔ ماہ رخ پری طرح طرح سے شہزادے کو اپنی طرف مائل‬
‫کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ شہزادہ اپنی صغیر سنی کے باعث اداس ‪ ،‬ملول اور پریشان رہتا ہے۔ اس پریشانی کو دور‬
‫کرنے کے لیے ماہ رخ پری اسے کل کا گھوڑا دیتی ہے۔ اس گھوڑے پر سیر کرتا پھرتا شہزادہ ”بدر منیر شہزادی “‬
‫کے باغ میں اترتا ہے دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر عاشق ہوجاتے ہیں۔ اچانک ایک دن ایک دیوان دونوں کووصل‬
‫کی حالت میں دیکھ لیتا ہے۔ اس کی اطال ع ما ہ رخ پری کو ہوتی ہے تو وہ انتہائی غضبناک ہو کر شہزادے کو واپس‬
‫آنے پر کوہ قاف کے اندھے کنوئیں میں ڈلوا دیتی ہے ۔ بدر منیر کا عجیب حال ہے اس کی راز دار سہیلی وزیر زاد ی‬
‫نجم النساءبے نظیر کی تالش میں نکلتی ہے۔ اور آخر کار بڑی مشکلوں سے جنوں کے بادشاہ کے بیٹے فیروز شاہ کی‬
‫مدد سے بے نظیر کو رہائی دالتی ہے۔ دونوں کی شادی ہوجاتی ہے خود نجم النساءفیروز شاہ کے ساتھ بیاہ کر لیتی‬
‫ہے۔ اور یوں یہ مثنوی طرب ناک انجام کو پہنچتی ہے۔‬

‫ڈاکٹر وحید قریشی پالٹ کا تجزیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ‪،‬‬

‫” فنی لحاظ سے ”سحرالبیان“ کا جائزہ لیا جائے تو اس ضمن میں میر حسن کی ذہانت ‪ ،‬پالٹ کی تشکیل میں بروئے‬
‫کار نظرآتی ہے ”سحرالبیان“ اردو کی چند عظیم مثنویوں میں سے ہے اس میں اگرچہ محدود زندگی کی تصویر کشی‬
‫کی گئی ہے لیکن اپنی محدودیت کے باوجود میر حسن نے جس زندگی کو پیش کیا ہے وہ ہمارے لیے دلچسپی کا وافر‬
‫ٰ‬
‫اعلی صالحیت میں مضمر ہے۔“‬ ‫سامان مہیا کرتی ہے۔ مثنوی کی شہرت اور مقبولیت کا راز میر حسن کی‬

‫تہذیب و ثقافت کی عکاسی‪:‬۔‬

‫”سحر البیان“ کی فنی خوبیوں میں اس کی نمایاں خوبی تہذیب و ثقافت کی عکاسی ہے۔ سید عابد علی عابد اس کی‬
‫تہذیبی و معاشرتی خوبیوں کا بیان یوں کرتے ہیں‪:‬‬

‫نوابان اودھ و لکھن‍‍ٶ سے متعلق ہے رعایا خوشحال ‪ ،‬پرجا‬


‫ِ‬ ‫”میر حسن نے جس معاشرت کی تصویر کھینچی ہے وہ‬
‫فارغ البال ‪ ،‬ہر ہفتے کوئی نہ کوئی تقریب ‪ ،‬میلے ٹھیلے ‪ ،‬ڈیرے دار طوائفیں ‪ ،‬شوخ و شنگ اور چست و چاالک‬
‫ناچنے والیاں ‪ ،‬لوگ موسیقی کے رسیا‪ ،‬ٹھمریوں کے بولوں کے شیدائی ‪ ،‬فرمانروا‪ ،‬داستان گوئی اور داستان طرازی‬
‫کی طرف مائل ‪ ،‬خوبصورت باغ لگوانے کے مشتاق ‪ ،‬شہزادیاں اور ناز و نعمت میں پلی ہوئیں ‪ ،‬سات محل کی‬
‫خواصیں کہ جن کا نام سن کر آنکھوں میں نور ‪ ،‬دل میں سرور آجائے۔“‬

‫میر حسن نے درحقیقت اس تہذیب و معاشرت کا گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا ۔ اور وہ اس سے خوب واقف تھے‬
‫یہاں ہم موسیقی کی ایک محفل کی تصویر پیش کرتے ہیں جسے میر حسن کے فنی شعور نے تخلیق کیا ہے۔‬

‫موسیقی‪:‬۔‬

‫جبکہ اس دور کے فرماں رواٶں کے نجوم کے قائل اور رسموں کے گھائل ہونے کا منظر تو مثنوی کی ابتداہی میں‬
‫نظر آتا ہے۔ جبکہ مختلف موقعوں پر چند رسوما ت کا بیاں بھی آیا ہے۔ اگر ان کا جائزہ لیا جائے تو معاشرت و تمدن‬
‫کی بڑی واضح اور جاندار تصویریں ہمارے سامنے آجاتی ہیں۔ مثالً شہزادے کی پیدائش پر جس طرح مال اسباب لٹایا‬
‫جاتا ہے۔ علماو شیوخ کو جاگیریں عطا کی جاتی ہیں۔ سپاہیوں کو گھوڑے دیے جاتے ہیں ۔ ان سب سے اس معاشرے‬
‫اور حکومت کی تصویر ہمارے سامنے آتی ہے۔‬

‫اس شعر میں تو آصف الدولہ کا عہد خو د بخود جھلک رہا ہے۔ جو کہ مثنوی کے آخر میں کہا گیا ہے۔‬
‫رہے شاد نواب ِ عالی جناب‬

‫کہ آصف الدولہ جس کا خطاب‬

‫ڈاکٹر وحید قریشی مثنوی ”سحر البیان “ کے اس پہلو پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں‪،‬‬

‫” دراصل ”سحرالبیان “ ایسے معاشرے کی تصویر کشی ہے جسے فراغت حاصل ہے قصے کے تمام افراد اسی آسودہ‬
‫حالی اور فارغ البالی کے مظہر ہیں ۔‬

‫منظر نگاری‪:‬۔‬

‫ت نظر کا ثبوت دیا ہے وہ ان کی بھرپور فن کاری کی دلیل ہے واقعات کے‬


‫میر حسن نے منظر نگاری میں جس دق ِ‬
‫ضمن میں مناظر کی جزئیات کی تفصیل ان کے ہاں اتنی گہری اور وسیع ہے کہ پورا منظر متحرک ہو کر ہمارے‬
‫سامنے آجاتا ہے۔ میر حسن کی منظر نگاری دکھانے کے لیے ہم نے ”باغ کی تیاری“ کا نقشہ منتخب کیاہے۔ اس باغ‬
‫کے منظر کو دیکھئیے آخری مغل عہد کا یہ باغ ہے اس کی تعمیر ‪ ،‬عمارات اور ترتیب کابیان ہو بہو مغل باغات کے‬
‫مطابق ہے باغ کا نقشہ اور عمارتوں کا بیان ‪ ،‬بے جان تصویریں نہیں بلکہ ایک ایسا نگار خانہ ہے جس کی ہر شے‬
‫متحرک ہے اور اس میں ایک ایسی تہذیب کے چہرے سے نقاب اُٹھائی جا رہی ہے جس کی تصویر کو میر حسن نے‬
‫اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا تاکہ وہ اپنے عہد کی تہذیب اور زندگی کی رونقوں کی تصویر پیش کر سکیں ۔ میر حسن‬
‫فطری مناظر میں دلچسپی رکھتے تھے۔ سید عابد علی عابد لکھتے ہیں ۔‬

‫” میر حسن اس معاملہ میں یکتا ہیں کہ انھوں نے فطری مناظر کی دلکشی اور رعنائی کو اپنی روح میں جذب کیا اور‬
‫پھر اس رعنائی کو پڑھنے والوں تک اس طرح منتقل کیا کہ ان کی صنعت گری کا عالم دیکھ کر بڑے سے بڑا نقاد‬
‫ت بدنداں ہے۔“‬
‫انگش ِ‬

‫باغ کی تیاری‪:‬۔‬

‫اب باغ کی تیاری کا منظر دیکھئیے مختلف پھولوں ‪ ،‬درختوں کے نام ہی سنیے ان کی خوشبو بھی محسوس کیجئے ۔‬
‫میر حسن نے باغ کی فضا بناتے وقت پھل ‪ ،‬پھول‪ ،‬درخت ‪ ،‬خوشبو‪ ،‬روشنی ہوا کا حسین امتزاج تیار کر دیاہے جس‬
‫میں پڑھنے واال کھو کر رہ جاتا ہے۔‬

‫غسل کا منظر‪:‬۔‬
‫رقص و موسیقی اور باغات و عمارات کے تہذیبی نقشے دیکھنے کے بعد ایک روایتی غسل کا منظر بھی دیکھیے‬
‫شہزادہ بے نظیر غسل کے لیے آتا ہے ۔ اس مقام پر کیا اہتمام ہوتا ہے کیسے کیسے لوازمات برتے جاتے ہیں یہ منظر‬
‫دیکھیے‬

‫جلوس کی تیاری‪:‬۔‬

‫میر حسن نے یہاں جلوس کی تیاری میں اس دور کے روایتی جلوس کی بھر پور عکاسی کر دی ۔ مختلف سواریوں کا‬
‫حال لکھا ہے ۔ سنہری روپہلی سواریوں کا جلوس ہے ساتھ پالکیاں ہیں اور کہار ‪ ،‬زربفت کی کرتیاں پہنے دبے پاٶں‬
‫آگے بڑھ رہے ہیں اب جلوس میں شہنائیوں کی صدا آتی ہے اور نوبت کی دھیمی دھیمی صدا کانوں کو بھلی لگتی‬
‫ہے۔ اس منظر میں نقارچی بھی نظرآتے ہیں اس میں ہاتھیوں کی قطاریں بھی ہیں‪،‬جلوس کے آگے آگے نقیب ‪ ،‬چوبدار‬
‫اور جلوہ دار دکھائے گئے ہیں چونکہ شہزادے کا پہال پہال جلوس ہے اس لیے اس کو دیکھنے خلقت کثرت سے اُمنڈ‬
‫آئی ہے۔‬

‫بجاتے ہوئے شادیانے تمام‬

‫چلے آگے آگے ملے شاد کام‬

‫سوار اور پیادہ صغیر و کبیر‬

‫جلو میں تمامی امیر و وزیر‬

‫شادی کا منظر‪:‬۔‬

‫یہ منظربے نظیر کی شادی کا ہے اس تہذیبی مرقع میں شہزادوں کی روایتی شادی کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ اس نقشہ‬
‫میں سواریاں ‪ ،‬آالت ‪ ،‬موسیقی اور شان و شوکت کے خطوط بہت روشن ہیں۔ آالت موسیقی دیکھیے یہ دھولنے رعد‬
‫کی طرح گرج رہے ہیں شہنائی کی سہانی دھنیں مست کررہی ہیں ۔ طبل بج رہے ہیں سواریاں دیکھیے تو تمامی کے‬
‫تخت رواں ‪ ،‬ہاتھی ‪ ،‬گھوڑے وغیرہ ملتے ہیں سامان ِ آرائش کا بیان سب سے بہتر ہے ۔ فانوس ‪ ،‬چراغوں کے‬
‫ترپولیے‪ ،‬ابرک کی ٹٹی‪ ،‬مینے کا جھاڑ‪ ،‬شمعدان‪ ،‬آتش بازی اس تہذیبی نقشہ کی ہر شے حرکت و حرارت رکھتی ہے‬
‫۔ میر حسن کی نظر پورے جلوس شادی پر ہے وہ ایک ایک شے کو نظر میں رکھ کر اس کا حال لکھتے ہیں‪،‬‬

‫وہ شہنائیوں کی سہانی دھنیں‬

‫جنھیں گو ش زہرہ مفصل سنیں‬


‫وہ طبلوں کا بجنا اور ان کی صدا‬

‫یہ گانا کہ ”اچھا بنا الڈال!“‬

‫شادی کے اس منظرمیں رشتہ داروں کی چھیڑ چھاڑ ‪ ،‬شہزادہ کا محل میں بالیا جانا ۔ آرسی مصحف کی رسم ‪ ،‬دولھا‬
‫و دلھن سے ہنسی مذاق کی باتیں رنگ رلیاں اور رخصتی کی رسم ‪ ،‬کو میر حسن نے بڑی چابک دستی و صناعی‬
‫سے پیش کیا ہے۔‬

‫سراپا نگاری و سامان آرائش‪:‬۔‬

‫جذبات نگاری‪:‬۔‬

‫میر حسن کے ہاں جذبات نگاری کے بڑے ہی اچھے اور موثر مرقعے ملتے ہیں خوشی کے عالم میں خوشی اور غم‬
‫و الم اور دکھ کے مواقع پر رقت طاری ہو جاتی ہے ذرا وہ منظر دیکھیے جب بے نظیر چھت پر سے غائب ہو جاتا‬
‫ہے۔ محل میں کہرام مچ جاتا ہے۔ والدین کے لیے قیامت آجاتی ہے۔ اور ہر کوئی پریشان اور حیران کھڑا ہے۔‬

‫کوئی دیکھ یہ حال رونے لگی‬

‫کوئی غم سے جی اپنا کھونے لگی‬

‫رہی کوئی انگلی کو دانتوں میں داب‬

‫کسی نے کہا گھر ہوا یہ خراب‬

‫سنی شاہ نے جس گھڑی یہ خبر‬

‫گرا خاک پہ َکہ کے ہائے پسر‬

‫ایسی ہی دردناک تصویر اس موقعہ پر نظر آتی ہے جب شہزادی ”بد رمنیر “ شہزادہ ”بے نظیر “ کی جدائی میں بلکتی‬
‫سسکتی اور روتی دھوتی دکھائی دیتی ہے مالحظہ ہو‪،‬‬

‫گیا اس طرح جب مہینہ گزر‬

‫کہ وہ ماہ مطلق نہ آیا نظر‬

‫تو اس کا ادھر رنگ گھٹنے لگا‬


‫جگر خوں ہو مژگاں سے ٹپکنے لگا‬

‫جزئیات نگاری‪:‬۔‬

‫میرحسن نے جس واقعے کا بھی ذکر کیا اس کے ہر اک جزو کو مکمل بیان کردیا مثالً جب بادشاہ رمال کو بال کر‬
‫اوالد کے بارے میں ان سے دریافت کرتا ہے تو رمال نے اپنا کام یوں شروع کیا ۔‬

‫اس طرح میر حسن نے پوری تفصیل کے ساتھ نجومیوں کے حرکات و سکنات کو بیان کیا ہے۔ اس طرح جب بادشاہ‬
‫کا بیٹا ہوا تو رقص کا اہتمام ہوا ہے۔ میر حسن نے رقص کا منظر نہایت دلفریب انداز میں پیش کیا ہے انھوں نے ایسی‬
‫باریک باتوں کا ذکر کیا ہے جس پر ہر شاعر کی نظرنہیں پڑتی۔‬

‫وہ گھٹنا وہ بڑھنا ادائوں کے ساتھ‬

‫دکھانا وہ رکھ رکھ کے چھاتی پہ ہاتھ‬

‫تصویر کشی‪:‬۔‬

‫”سحر البیان“ کا ایک بڑا کما ل اس کی تصویر کشی ہے۔ میر حسن نے جس منظر اور جس حالت کا جہاں بھی نقشہ‬
‫کھینچا تصویر کشی کا حق ادا کردیا ۔ موالنا حالی مثنوی ” سحرالبیان“ کی اس خوبی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں‪،‬‬

‫” غرض کے جو کچھ اس مثنوی میں بیان کیا ہے اس کی آنکھوں کے سامنے تصویر کھینچ دی ہے۔ اور مسلمانوں‬
‫ٰ‬
‫بعینہ ان کا چربہ اتار‬ ‫کے اخیر دور میں سالطین امراءکے یہاں جو حالتیں تھیں اور جو جو معامالت پیش آتے تھے۔‬
‫دیا ہے۔“‬

‫میر حسن نے منظر نگاری کی تصویر کشی کی ہے اس میں ایسی محاکات کا ثبوت دیا ہے پورا منظر ہماری آنکھوں‬
‫کے سامنے پھر جاتا ہے۔ منظر دیکھئے‪،‬‬

‫ایک موقعہ پر شہزادی کی تصویر کشی کی ہے اور بہت جیتی جاگتی تصویر ہے‪،‬‬

‫وہ بیٹھی عجب اک انداز سے‬

‫بدن کو چرائے ہوئے ناز سے‬

‫منہ آنچل سے اپنا چھپائے ہوئے‬

‫مچاتے ہوئے شرم کھائے ہوئے‬


‫مکالمہ نگاری‪:‬۔‬

‫”سحرالبیان “ میں مکالمہ نگاری نہایت فطری انداز میں موجود ہے۔ چونکہ میر حسن کے تجربات وسیع تھے اور‬
‫انھوں نے مختلف طبقے کے لوگوں میں زندگی بسر کی تھی اس لیے ان کو مختلف لوگوں کی زبان سمجھنے کا موقعہ‬
‫مال۔ جب بدر منیر سے مالقات کرکے بے نظیر رخصت ہونے لگا تو اس نے بدر منیر سے کہا۔‬

‫سیرت کشی یا کردار نگاری‪:‬۔‬

‫”سحر البیان“ میں میر حسن کی سیرت نگاری کے بارے میں یہ بات جان لینی چاہیے کہ قصے کے تمام کردار اس‬
‫آسودہ حا ل اور فارغ البال معاشرے کے افراد ہیں جہاں دولت عام ہے اور سوائے عشق و عاشقی اور رقص و سرور‬
‫کی محفلوں کے سوا کوئی کام نہیں یہی وجہ ہے کہ تقریبا ً تمام ہی کردار بے عملی کا نمونہ ہیں ۔ ڈاکٹر وحید قریشی‬
‫”سحرالبیان“ میں کرداروں کی اس بے عملی کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں‪،‬‬

‫” حقیقت یہ ہے کہ فراغت کی زندگی سے عیاشی پیداہوئی” سحرالبیان“ کے بے عمل کردار یہی عیاش لوگ ہیں وہ‬
‫واقعات کو آگے بڑھانے میں مدد نہیں کرتے بلکہ حاالت کے دھارے میں بے دست و پا ہیں۔ بے نظیر دنیا بھر کے‬
‫علم حاصل کرتا ہے بہادر ہے عقل مندبھی ہے لیکن اس کی زندگی میں جب بھی عمل اور پیش قدمی کی ضرورت‬
‫ہوتی ہے وہ ہماری توقعات کو پورا کرنے سے قاصر رہتا ہے اس کا باپ بھی قسمت پر شاکر ہے اور شہزادے کے‬
‫گم ہونے پر اسے واویال کرنے کے سوا کچھ کام نہیں ۔ شہزادی بدرمنیر عشق و محبت میں صرف رونا جانتی ہے‬
‫غشی کے مسلسل دورے اس کی بے بسی بے چارگی کو ظاہر کرتے ہیں۔“‬

‫”سحرالبیان“ میں کرداروں کی تعداد زیادہ نہیں بادشاہ ‪ ،‬بے نظیر‪ ،‬ماہ رخ‪ ،‬بدر منیر‪ ،‬نجم النساء‪ ،‬مسعود شاہ اور فیروز‬
‫شاہ ‪ ،‬ان کرداروں میں بے نظیر ‪ ،‬ماہ رخ‪ ،‬بد منیر اور نجم النساءکے کردار اہم ہیں ۔‬

‫بے نظیر‪:‬۔‬

‫بے نظیرکا کردار روائتی شہزادوں کا سا ہے بے نظیر کا کردار فعال نہیں ہے وہ اپنے آپ کو حاالت کے رحم و کرم‬
‫پر چھوڑ دیتا ہے ۔ حاالت کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتا ۔ اگرچہ وہ کہانی کا مرکزی کردار ہے لیکن وہ فعال کردار‬
‫نہیں ہے۔ شہزادہ بے نظیر ملک شاہ بادشاہ کا بیٹا ہے اس کی نمایاں خصوصیات یہ ہیں کہ وہ بہت خوبصورت ہے۔‬
‫اس کا ذکر میر حسن یوں کرتے ہیں‪،‬‬

‫ب حسن پیدا ہوا‬


‫عجب صاح ِ‬

‫جسے مہر ومہ دیکھ شید ا ہوا‬


‫نظر کو نہ ہو حسن پر اسکے تاب‬

‫اسے دیکھ بے تاب ہو آفتاب‬

‫ماہ رخ پری‪:‬۔‬

‫اس کردار میں خوبصورتی ‪ ،‬حیاداری اور عشق پسندی کے ساتھ ساتھ رقابت اور انتقام کا جذبہ اپنی انتہائوں پر‬
‫دکھائی دیتا ہے ۔ اس کا تعارف یوں ہوتا ہے پرستان میں بے نظیر کی آنکھ کھلتی ہے تو وہ ماہ رخ کو اپنے سرہانے‬
‫دیکھتا ہے۔‬

‫اس کے کردا ر کا جاللی پہلو دیکھیں ‪ ،‬شہزادہ بے نظیر ‪ ،‬بدر منیر کے باغ میں مئے عشق کا جام نوش کر رہا ہے‬
‫اسی عالم میں ایک جن یہ دیکھ کر ماہ رخ پری کے کان میں پورا منظر سنا دیتا ہے۔ ذرا اس غضبناکی کا یہ عالم‬
‫مالحظہ ہو۔‬

‫بدر منیر‪:‬۔‬

‫رشک و حسدکا یہ انداز دیکھیں شہزادہ اپنی مجبوریوں کا اظہار کرتا ہے پری کی قید سے رہائی نہیں ملتی تو اس کا‬
‫جواب یہ ہے کہ‪،‬‬

‫مرو تم پری وہ تم پر مرے‬

‫بس اب تم ذرا مجھ سے بےٹھو پرے‬

‫میں اس طرح کا دل لگاتی نہیں‬

‫یہ شرکت تو بندی کو بھاتی نہیں‬

‫نجم النساء‪:‬۔‬

‫مثنوی”سحرالبیان “ کا سب سے زیادہ روشن ‪ ،‬رنگین ‪ ،‬شوخ اور متحرک کردار نجم النساءکا ہے۔ بقول عابد علی عابد‬
‫نجم النساءکی تخلیق میں میر حسن نے اپنی ساری صنعت گری صرف کر دی ہے۔ احتشام حسین کی رائے میں‬
‫سحرالبیان میں سب سے اہم کردار نجم النساءکا ہے۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ ”سحرالبیان“ ہی میں نہیں تمام مثنویوں میں‬
‫اپنی مثال آپ ہے۔ نجم النساءسحرالبیان کے کینوس پر پہلی مرتبہ اس وقت نظر آتی ہے جب شہزادہ بے نظیر ‪ ،‬بدر‬
‫منیر کے باغ میں آچکا ہے اور بدر منیر سہیلیوں کی جھرمٹ میں بیٹھی ہوئی ہے سب ہی شہزادے کے حسن سے‬
‫متاثر ہوتے ہیں ۔ بدر منیر شرما جاتی ہے اور مالقات کی ہمت نہیں رکھتی ۔ اس موقعہ پر کہانی میں نجم النساءحرکت‬
‫پیدا کرتی ہے۔ اور ‪ ،‬دونوں کو مالنے کی ترکیب کرتی ہے شہزادی کا اشتیاق بڑھاتی ہے اور حسن و جوانی سے‬
‫لطف اندوز ہونے کی دعوت دیتی ہے۔‬

‫قابل داد ہے وہ جانتی ہے کہ بدر منیر پر حجاب غالب ہے اسے توڑنے کے لئے وہ‬
‫اس مقام پر نجم النساءکی ذہانت ِ‬
‫دونوں کے درمیان شراب ال کر رکھ دیتی ہے پہلے شہزادہ پیتا ہے پھر بد منیر پیتی ہے اس طرح دونوں کھل کر راز‬
‫و نیاز کی باتیں کرتے ہیں۔‬

‫جب کہانی میں کوئی ہیچ پڑتا ہے تو نجم النساءفوراً سلجھا دیتی ہے۔ نجم النساءکے کردار میں وفاداری کا جذبہ سب‬
‫سے بڑا ہوا ہے وہ جب اپنی سہیلی کو سمجھا چکتی ہے کہ اب شہزادہ نہیں آئے گا اس لئے اس کا خیال چھوڑ دے‬
‫مگر وہ خیال ترک نہیں کرتی لہذا اپنی سہیلی پر جان وار کرنے کے لئے تیار ہوجاتی ہے۔ اور جوگن کا روپ اختیار‬
‫کرکے بے نظیر کی تالش میں نکلتی ہے۔ نجم النساءکا کردار مجموعی طور پر ایک جاندار کردار ہے۔‬

‫لگی کہنے وہ ”یوں نہ آنسو بہا“‬

‫ترے واسطے میں نے اب دکھ سہا‬

‫بس اب سر بصحرا نکلتی ہوں میں‬

‫اسے ڈھونڈالنے کو چلتی ہوں میں‬

‫”سحرالبیان “ کے تمام کرداروں میں نجم النساءکے کردار کی اہمیت اس لئے زیادہ ہے کہ یہ کردار با عمل ہے ۔ اسی‬
‫کردار کے باعث”سحرالبیان“ کا پالٹ آگے چلتا ہے۔ نجم النساءاپنے مقصد میں آخر کار کامیاب ہو کر واپس آتی ہے۔‬
‫بے نظیر اور فیروز شاہ اس کے ہمرا ہ ہیں جب شہزادی سے ملتی ہے تو اس موقعہ پر اس کی گفتگو بے حد شوخ‬
‫ہے وہ کہتی ہے کہ تیرا قیدی چھڑاتے چھڑاتے ایک اور قیدی باندھ کے لے آئی ہوں پھر سب کی مالقات ہوتی ہے۔‬

‫تیرا قیدی جا کر چھڑا الئی ہوں‬

‫اور اک اور بندھوا اُڑا الئی ہوں‬

‫مگر ایک یہ آپڑی بے بسی‬

‫کہ میں تیری خاطر بال میں پھنسی‬


‫یہ نجم النساءکی آخری تصویر ہے جو ”سحرالبیان“ میں نظر آتی ہے یہاں وہ جوگن نہیں رہتی بحیثیت ایک دوشیزہ‬
‫کے سامنے آتی ہے یہاں سے اس کی دوشیزگی نکھر آئی ہے۔ و ہ اپنے عاشق کو جالنا خوب جانتی ہے۔ اس نے سرخ‬
‫جوڑا پہن رکھا ہے اس کے تمام لباس اور جسم میں جنسی کشش عود کر آئی ہے۔‬

‫”سحرالبیان “ زبان و بیان (اسلوب)‪:‬۔‬

‫”سحرالبیان “ کے اسلوب کی مختلف خصوصیات ہیں جن کا احاطہ کرنا مشکل ہے تاہم اس کی چند خصوصیات‬
‫مندرجہ ذیل ہیں‪،‬‬

‫ہر داستان کی ابتداءخمریہ اشعار سے‪:‬۔‬

‫میر حسن نے ہر داستان کا آغاز خمریہ اشعار سے کیا ہے مثالً ”داستان تولد ہونے شہزادہ بے نظیر کی کا آغاز یوں‬
‫ہوتا ہے۔‬

‫خوشی سے پال مجھ کو ساقی شراب‬

‫کوئی دن میں بجتا ہے چنگ و رباب‬

‫”داستان تیاری میں باغ“ کی ابتدا دیکھئے‬

‫مئے ارغوانی پالساقیا‬

‫کہ تعمیر کو باغ کی دل چال!‬

‫غرضیکہ ہر داستان کا آغاز میر حسن نے خمریہ انداز میں کیا ہے۔‬

‫زبان‪:‬۔‬

‫شاعری میں زبان کی اہمیت کو جھٹالیا نہیں جا سکتا ۔ میر حسن اس نکتے سے آگا ہ تھے۔ سحرالبیان کی نمایاں‬
‫خصوصیت اسکی زبان ہے۔ انہوں نے سبک شریں اور نرم الفاظ کا استعمال کیا ہے۔ میر حسن کی اس سادگی اور‬
‫روزمرہ کو دیکھ کر محمد حسین آزاد حیرت سے پوچھتے ہیں‪،‬‬

‫” کیا اسے سو برس آگے والوں کی باتیں سنائی دیتی تھیں کہ جو کچھ کہا صاف وہی محاورہ اور وہی گفتگو جو اب ہم‬
‫تم بول رہے ہیں۔“‬
‫انہوں نے ہر دو چار اشعار کے بعد ایک لفظ ایسا ضرور رکھا ہے ۔ کہ ان سب شعروں کا مضمون اس ایک ہی لفظ‬
‫میں ادا ہو گیا ہے۔گویا اشتیاق بڑھانے کے لئے پہلے تصویر کا ایک حصہ دکھایا پھر کل تصویر سامنے رکھ دی۔‬

‫میرحسن کے یہا ں اگرچہ عام طور سے ساد ہ اور صاف ستھرے الفاظ نظر آتے ہیں جودور جدید کی لسانی‬
‫خصوصیات کی نمائندگی کرتے ہیں اس کے یہاں ایسے الفاظ پائے جاتے ہیں جو دور قدیم میں دکن اور شمالی ہند سے‬
‫بو لے جاتے تھے۔ مثالمیر حسن کئی جگہ نام کے بجائے ”ناوں“ کا لفظ استعمال کیا ہے۔‬

‫تشبیہات‪:‬۔‬

‫میرحسن کے ہاں حسین تشبیہات کے خزانے موجود ہیں ان کی تشبیہات کو پڑھ کر دل کلی کی طرح شگفتہ ہو جاتا‬
‫ہے۔‬

‫وہ گورا بدن اور بال اس کے تر‬

‫کہے تو کہ ساون کی شام و سحر‬

‫نہانے میں یوں تھی بدن کی چمک‬

‫برسنے میں بجلی کی جیسے چمک‬

‫محاکات‪:‬۔‬

‫میر حسن کے یہاں محاکات کی حسین مثالیں نظر آتی ہیں میر حسن نے ایک جگہ بدر منیر کے بیٹھنے کا انداز دکھایا‬
‫ہے‬

‫ضرب المثال‪:‬۔ ”سحرالبیان“ کے بعض اشعار اس قدر رواں ہیں کہ وہ ضر ب المثال بن گئے ہیں یہ مثنوی کی سادگی و‬
‫سالست کا ثبوت ہے مثالً‬

‫سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں‬

‫گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں‬

‫کسی پاس یہ دولت رہتی نہیں‬

‫سدا ناؤ کا غذ کی بہتی نہیں‬


‫صنعتوں کا استعمال‪:‬۔‬

‫میرحسن کے ہاں تشبیہا ت کے سلسلے میں قوس قزح کے جو رنگ ملتے ہیں وہ ان کی رنگینی فکر اور حسن ِ نظر‬
‫کا ثبوت ہیں مگر ہم انہیں کلیتا ً ان کے معاشرہ اور ماحول کی رنگینیوں سے الگ کرکے نہیں دیکھ سکتے ۔ اس دور‬
‫کا مذاق ِ حسن بھی ان پر اپنے جمالیاتی تصورات کی شعائیں ڈال رہا تھا۔ میرحسن کے یہاں صنعتوں کا استعمال بھی‬
‫ہے خاص طورپر صنعت ایہام جس کے لئے میر حسن نے ”مگر بسیار بشتگی بستہ شود“‪ ،‬کی قید لگائی تھی۔ جس پر‬
‫میر حسن نے آزادی کے ساتھ کام کیا ہے۔‬

‫رعایت لفظی) کہا چاہ وا‪ ،‬ہیں یوسف عزیز‬

‫اری باولی چاہ میں کر تمیز‬

‫تجنیس) نہا دھو کے اس روز ایسی بنی‬

‫کہ دو دن کی جیسے ہو سچ مچ بنی‬

‫زبان کی صفائی‪:‬۔‬

‫”سحرالبیان“کی زبان میں صفائی شستگی اور روانی ہے یہ زبان میر و سودا کی زبان سے بہتر نظر آتی ہے۔ میرحسن‬
‫نے محاورے روزمرہ کا استعمال بڑی خوبی سے کیا ہے۔ صنعتیں موجود ہیں لیکن وہ کالم کا ایک جزو بن کر‬
‫سامنے آتی ہیں زبان کی صفائی اور شستگی کے لئے چند اشعار ‪،‬‬

‫وہ بیٹھی عجب اک انداز سے‬

‫بدن کو چرائے ہوئے ناز سے‬

‫پسینہ پسینہ ہو ا سب بدن‬

‫کہ جوں شبنم آلود ہو یاسمن‬

‫بقو ل کلیم الدین احمد‪” ،‬اہم چیز ”سحرالبیان“ میں طرز ادا ہے عبارت صاف ‪ ،‬پاکیزہ اور با محاورہ ہے میر حسن نے‬
‫روزمرہ کا نچوڑ اس مثنوی میں رکھ دیا ہے۔‬

‫مجموعی جائزہ‪:‬۔‬
‫سحرالبیان میر حسن کی زندگی کے آخری دور کا کارنامہ ہے۔ انہوں نے اس کے لکھنے میں اپنی عمر کا ایک طویل‬
‫حصہ صرف کیا۔ چنا نچہ و ہ خود اعتراف کرتے ہیں‬

‫ہر اک بات پر دل کو میں خوں کیا‬

‫تب اس طرح رنگین مضموں کیا‬

‫اس مثنوی کی سادگی پرکاری ‪،‬فن کارانہ نزاکت ‪ ،‬منظر کشی ‪ ،‬واقعہ نگاری‪ ،‬کردار نگاری اور تفصیل نگاری کو‬
‫دیکھ کر عجیب کیفیت محسوس ہوتی ہے۔ خاص طورپر میرحسن کے انداز بیان نے اس نظم کوحیات جاوید سے‬
‫ہمکنار کیا ۔ ان کی شاعرانہ انداز بیان‪ ،‬طرز ادا اور زبان پرقدرت نے مثنوی کو کہیں غیر دلچسپ نہیں ہونے دیا۔بقول‬
‫خلیل الرحمن عظمی‬

‫خون جگر صرف کیا ہے اپنی زندگی کے تجربات کا نچوڑ پیش‬


‫ِ‬ ‫” واقعہ یہ ہے کہ اس تصنیف میں میر حسن نے اپنا‬
‫کر دیاہے اپنی ذہانت و فطانت فنی آگہی و لسانی شعور کا ثبوت اس مثنوی کے ہر مصرعے سے فراہم ہے یہ کہانی‬
‫نہیں تہذیبی دستاویز ہے یہ شعر نہیں صحیفہ حیات ہے۔“‬

‫میرشیرعلی افسوس مثنوی کے دیباچے میں لکھتے ہیں کہ‬

‫” مثنوی سحرالبیان اسم با مسم ّٰی ہے کیونکہ اس کا ہر شعر اہل ذوق کے دلوں کو لبھانے کو موہنی منتر ہے اور ہر‬
‫داستان اس کی سحرسامری کا ایک دفتر ۔ کیونکہ فصاحت و بالغت کا اس میں ایک دریا بہا ہے۔“‬

‫میر حسن خود کہتے ہیں‬

‫رہے گا جہاں میں میرا اس سے نام‬

‫یادگار جہاں یہ کالم‬


‫ِ‬ ‫کہ ہے‬

‫‪ANS 05‬‬

‫پنڈت دیا شنکر کول جن کاتخلص نسیم تھا‘ پنڈت گنگا پر شاد کول کے بیٹے خواجہ حیدر علی آتش کے شاگرد اور لک‬
‫کے رہنے والے تھے ۔‪۱۱۸۱‬ءمیں پیدا ہوئے اور ‪۵۴۸۱‬ءمیں وفات پاگئے ۔پنڈت دیا شنکر نسیم نے دو تصانیف ضبط‬
‫دیوان نسیم بہت مختصر ہے ۔ اس میں مکمل ونا‬
‫ِ‬ ‫دیوان نسیم“ اور دوسری” گلزار نسیم“‬
‫ِ‬ ‫تحریر میں الئی ہیں۔ ایک ”‬
‫مکمل غزلوں کی تعداد کم و بیش‪ ۴۸‬ہے ۔لیکن جس تصنیف نے بعداز مر گ نسیم کو اردو ادب میں زندہ رکھا وہ “‬
‫گلزارنسیم“ ہے۔‬
‫گلزار نسیم کے جائزے سے پہلے یہ دیکھتے چلیں کہ اس مثنوی کے مآخذ کیا ہیں؟کیونکہ مآخذ کے سلسلے میں‬
‫صاحبان علم نے جو بحثیں کی ہیں ان سے کئی پہلو سامنے آئے ہیں۔ خود نسیم نے اپنی مثنوی کے تین شعروں میں‬
‫مآخذ کی طرف اشارہ کر کے یہ بتایا ہے کہ ‪:‬‬
‫گل بکاولی کا‬
‫افسانہ ِ‬
‫بہار عاشقی کا‬
‫افسوں ہو ِ‬
‫ہر چند سنا گیا ہے اس کو‬
‫اردو کی زبان میں سخن گو‬
‫وہ نثر ہے داد نظم دوں میں‬
‫اس مے کو دوآتشہ کروں میں‬
‫گل بکاولی کے اردو نثر میں اس ترجمے کی طرف ہے جسے منشی نہال چند الہوری نے‬
‫نسیم کا یہ اشارہ افسانہ ِ‬
‫ب عشق“ کے نام‬
‫فورٹ ولیم کالج کے ڈاکٹر گل کرسٹ کی فرمائش پر عزت ہللا بنگالی کے فارسی قصے کو ” مذہ ِ‬
‫گلزار نسیم کے‬
‫ِ‬ ‫ب ضرورت ڈھال کر‬
‫سے کیا تھا۔نسیم نے نہال چند الہوری کے اسی نثری قصے کو اردونظم میں حس ِ‬
‫ب عشق سے عزت ہللا بنگالی‬
‫ب عشق “ ہے اور خودمذہ ِ‬
‫گلزار نسیم کابنیادی مآخذ یہی نثری داستان ”مذہ ِ‬
‫ِ‬ ‫نام سے لکھا۔‬
‫کے فارسی قصہ افسانہ گل بکاولی پر مبنی ہے ۔ نسیم کے اتنے واضح اشاروں کے بعد مآخذ کی بحث ختم ہونی‬
‫منظر عام پر آئی تویہ بات سامنے آئی کہ نسیم نے ریحان الدین کی اردو مثنوی‬
‫ِ‬ ‫گلزار نسیم‬
‫ِ‬ ‫چاہیے تھی لیکن جب‬
‫”خیابان ریحان“ سے بھی استفادہ کیا تھا۔نسیم نے ریحان الدین کی مثنوی سے استفادہ کرنے کا کوئی ذکر نہیں کیا لیکن‬
‫ِ‬
‫گلزار نسیم“ سے ”خیابان ریحان“ کا مقابلہ کیا جاتاہے تو خیال اور اشعار سے یہ اندازہ پیدا ہوتاہے کہ نسیم نے‬
‫ِ‬ ‫جب ”‬
‫اس سے بھی استفادہ کیا ہے ۔‬
‫گلزار نسیم‬
‫ِ‬ ‫خیابان ریحان‬
‫ِ‬
‫اور کہنے لگا کہ واہ جی واہ‬
‫کہنے لگا کیا مزا ہے دل خواہ‬
‫یہ تو کوئی اور شے ہے وہللا‬
‫آدمی زاد واہ وا واہ‬
‫ِ‬ ‫اے‬
‫ہر جا اسے ڈھونڈتی چلی وہ‬
‫ہر باغ میں پھولتی پھری وہ‬
‫کوچہ کوچہ گلی گلی وہ‬
‫ہر شاخ پہ پھولتی پھری وہ‬
‫ان اشعار کے تقابلی مطالعے سے معلوم کیا جاسکتا ہے کہ نسیم نے ریحان کی مثنوی سے استفادہ کیا ہے ۔‬
‫گلزار نسیم کے قصے کاتعلق ہے تو ہ تین مرحلوں سے گزرتا ہے ۔ایک مرحلہ ایسا بھی آتاہے جب تاج‬
‫ِ‬ ‫جہاں تک‬
‫اورگل بکاولی کی شادی ہوتی ہے ۔یہاں ایک طرف قصہ ختم ہوجاتا ہے لیکن یہ نسیم کی فنی مہارت ہی تھی‬
‫ِ‬ ‫الملوک‬
‫کہ اسے فوراً بعد ہی دوسرا اور تیسرا قصہ شروع ہوجاتا ہے ۔پہلے دوسرے اور تیسرے مرحلے میں ظاہری طور کو‬
‫ئی ربط نہیں ہے لیکن اواگون کا ہندو عقیدہ اس میں ربط کا رنگ گھول دیتاہے ۔ کہتے ہیں کہ درےائے نربدا کے منبع‬
‫گل بکاولی کے قلعے اور باغیچے کے آثار آج بھی موجود‬
‫پر امر کنٹک نامی ہندووں کی ایک بڑی تیرتھ گاہ ہے وہاں ِ‬
‫ہیں ۔ڈاکٹر گیان چند کے مطابق گلزارنسیم کے قصے کا ترجمہ متعدد زبانوں میں ہوچکا ہے ۔فرانسیسی ادیب گارسیں‬
‫گلزار نسیم“ کا ترجمہ ”‪“Doctrine Del Amoor‬کے نام سے کیاہے ۔‬
‫ِ‬ ‫دتاسی نے بھی فرانسیسی زبان میں ”‬
‫جب نسیم نے مثنوی مکمل کرلی تو اپنے استاد آتش کو اصالح کے لیے بھیج دی۔اس وقت مثنوی بہت طویل تھی ۔آتش‬
‫نے مثنوی کو مختصر کرنے کے لیے صالح دی اور نسیم نے استاد کی بات مان کر مثنوی کو مختصر کرکے بے‬
‫بندش الفاظ کو نگوں کی طرح‬
‫ِ‬ ‫نظیر بنادیا۔آتش سے نسیم نے کچھ سیکھا ہویا نہ سیکھا ہو لیکن مرصع سازی اور‬
‫جڑنے کاسبق ضرور سیکھ لیا تھا۔اکثر نقاد یہ کہتے ہیں کہ اس مثنوی کے قصے کے مختلف اجزاءمیں باہمی ربط‬
‫نہیںہے ۔یہ بات درست نہیںہے ۔دوسری مثنویوں میں جذبات اور مناظر کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا جاتاہے لیکن نسیم‬
‫حسن ادا کی صورت برقرار رہتی ہے۔‬
‫ِ‬ ‫نے اختصار سے کام لیا ہے ۔منظر کشی میں بھی اختصار اور‬
‫جہان گرد‬
‫ِ‬ ‫کہ جنگلے میں جاپڑا‬
‫صحرائے عدم بھی تھا جہان گرد‬
‫سایے کو پتا نہ تھا ثمر کا‬
‫عنقا نام جانور کا‬
‫تیورا کے وہیں وہ بار بردوش‬
‫بیٹھا تو گرا‘ گرا تو بے ہوش‬
‫محو گل بکاولی کاپردہ اٹھاتا ہے تو‬
‫ِ‬ ‫اس مثنوی میں ادبی لحاظ سے ایک کمزوری یہ ہے کہ جب تاج الملوک نیند میں‬
‫گل بکاولی پر پڑتی ہے ۔اس منظر کو نسیم نے اپنے الفاظ میںیوںقید کرکے تھوڑی سی‬
‫اس کی نظر سوئی ہوئی ِ‬
‫فحاشیت کامظاہرہ کیا ہے ۔‬
‫پردہ جو حجاب سا اٹھایا‬
‫آرام میں اس پری کو پایا‬
‫چشم نرگسی تھی‬
‫ِ‬ ‫بند اس کی وہ‬
‫چھاتی کچھ کچھ کھلی ہوئی تھی‬
‫سمٹی تھی جو محرم اس قمر کی‬
‫برجوں پہ سے چاندنی تھی سر کی‬
‫لپٹے جو بال کروٹوں میں‬
‫بل کھاگئی تھی کمر‘ لٹوں میں‬
‫چاہا کہ بال گلے لگاتے‬
‫سوتے ہوئے فتنے کو جگاتے‬
‫سوچا کہ یہ زلف کف میں لینی‬
‫ہے سانپ کے منہ میں انگلی دینی‬
‫گل بکاولی کے گم ہو نے کا پتا بکاولی کو چلتا ہے ۔‬
‫گلزار نسیم کاوہ حصہ فنی اعتبار سے بہت عمدہ ہے جس میں ِ‬
‫ِ‬
‫گلزار نسیم میں تشبیہ اور استعار ات کا خوبصورت استعمال ہوا ہے ۔‬
‫ِ‬
‫گلزار نسیم کامطالعہ کرتے ہوئے محسوس ہوتاہے کہ نسیم کا زو ر قصہ بیان کرنے کے عالوہ لکھن¿ کے پُر تکلف‬
‫انداز بیان‬
‫ِ‬ ‫انداز میں ایک منفرد چیز تیار کرنا تھا۔ مثنوی کے پہلے شعر سے لے کر آخری شعر تک تواتر کے ساتھ یہ‬
‫گلزار نسیم لکھنوی تہذیب کی ترجمان بن جاتی ہے۔اس مثنوی کو لے کر ایک‬
‫ِ‬ ‫برقرار رہتا ہے اور اس طرح یہ‬
‫معرکہ”معرکہ چکبست و شرر“ وجود میں آیا۔‬

You might also like