Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 19

‫مدیحہ وحید (رولنمبر‪)٣١:‬‬

‫( رولنمبر‪)٣٠:‬‬ ‫روبینہ نذیر‬


‫بی ایس اسالمک سٹڈیز‬
‫سمسٹر‪٨ :‬‬
‫اسائمنٹ ‪ :‬قرآن ‪٣‬‬
‫عنوان ‪ :‬تصور مہر‬
‫‪:‬مہر کے معنی‬
‫مرد عورت سے فائدہ اٹھانے کے عوض جو مال اسکو دیتا ہے یا عورت کو حالل‬
‫بنانے کے لیے جو مال دیتا ہے۔‬

‫فقہی تعریف‬
‫مہر اس مالی منفعت کا نام ہے جو شرعا ً عورت مرد سے بعوض نکاح پانے کی‬
‫مستحق ہوتی ہے‬
‫مہر میں مال کا تصور بنیادی حیثیث رکھتا ہے کیوںکہ مہر سے اصل مقصود مال‬
‫ہے۔‬
‫ارشاد ربانی ہے‬
‫آء ٰذلِ ُك ْم اَ ْن َت ْبَتغُ ْوا بِاَ ْم َوالِ ُك ْم‬ ‫ِ‬
‫َواُح َّل لَ ُك ْم َّما َو َر َ‬
‫اور ان کے سوا تم پر سب عورتیں حالل ہیں بشرطیکہ انہیں اپنے مال‬
‫( سورہ النسا‪)٢٤: ۶‬‬ ‫کے بدلے میں طلب کرو‬

‫‪ :‬شرعی اصطالح میں مہر‬


‫شرعی اصطالح میں مہر وہ مال ہے جس کے عوض شوہرکو بیوی پرحق زوجیت‬
‫حاصل ہونا ہے۔اس کا ادا کرنا شوہر کے لیے ضروری ہوتا ہے۔‬
‫تشریح‬
‫مرد کا ایک اہم فرض مہر ہے۔مہر کے لیے کوی خاص رقم مقرر نہیں بلکہ مرد‬
‫کی استطاعت کے لحاظ سے ہے جو نکاح کے وقت اسے ادا کرنی چاہیے۔مہر کا‬
‫تقرر اور اسکی ادائيگی ضروری ہے اسمیں کوئی رعایت نہیں۔قرآن مجید میں‬
‫مختلف جگہوں پر مہر کی ادائيگی کا حکم دیا گیا ہے۔‬
‫‪:‬عربی زبان میں لفظ مہر‬
‫عربی زبان میں مہر کے لیے النحلۃ‪ ،‬الصداق‪ ،‬العقر‪ ،‬األجرۃ‪ ،‬الصدقۃ‪ ،‬العطیۃ‪ ،‬العالئق‪،‬‬
‫الحباء کے الفاظ بھی استعمال ہوتے ہیں۔ نکاح کے موقع پر مہر کا تقرر ضروری ہے۔‬

‫‪:‬قرآن مجید میں لفظ مہر‬


‫مہر کے لیے قرآن مجید میں دوسرے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔‬

‫ص ُدقَاتِـ ِه َّن نِ ْحلَـةً‬


‫آء َ‬ ‫َو ٰاتُوا الن َ‬
‫ِّس َ‬
‫اور عورتوں کو ان کے مہر خوشدلی سے ادا کرو (سورہ النسا‪)٤: ۶‬‬

‫ص ُدقَہ کی‬‫ص ُدقَات َ‬


‫اس معنی میں فریضہ کا لفظ بھی کالم الہی میں استعمال ہوا ہے۔ َ‬
‫جمع ہے مہر کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اُجُور (واحد اجر) بھی مہر کے ہم‬
‫معنی ہے۔ حدیث شریف میں مہر کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مہر کا مصدر ہے َمھَ َر‬
‫“یَمۡ ھَ ۡر َس ۡھرا یعنی ”مہر ادا کرنا۔‬

‫دور عمر میں مہر‬


‫حضرت عمر نے اپنے عہد میں ایک دفعہ مہر کی انتہائی حد مقرر کرنی چاہی مگر‬
‫جب ایک عورت نے کہا ”امیرالمومنین قرآن کی رو سے آپ ایسا نہیں کر سکتے‬
‫کیونکہ سورہ النسا‪ ۶‬میں ارشاد باری تعالی ہے‬

‫ارشاد ربانی ہے‬

‫ش ْیــٴ ًؕـا‬ ‫( سورہ النسا‪-۶‬وَّ ‪ٰ  ‬ا َت ْی ُت ْم‪  ‬ا ِْح ٰدى ُهنَّ ‪  ‬قِ ْن َط ً‬
‫ارا‪َ  ‬فاَل ‪َ  ‬تاْ ُخ ُذ ْوا‪ِ  ‬م ْن ُ‪%‬ه‪َ  ‬‬ ‫‪: ) ٢٠‬‬
‫‪ ‬اُسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو کیا‬

‫حضرت عمر نے یہ دلیل سن کرفرمایا ایک عورت نے ٹھیک بات کہی اور مرد‬
‫غلطی کر گیا۔ایک جگہ حضرت عمر نے یہ نصیحت کی کہ عورت کا مہر باندھنے‬
‫میں حد سے نہ بڑھو اگر یہ دنیا میں کوئی قابل عزت اور آخرت میں تقوی کی بات‬
‫ہوتی تو تم سے زیادہ رسولﷺ مستحق تھے‬
‫مجھے معلوم ہے کہ آپ نے کسی بیوی یا بیٹی کا مہر‪ ١٢‬اوقیہ سے زیادہ نہیں رکھا۔‬
‫(احمد‪ ،‬ترمذی‪ ،‬نساٸ‬

‫مہر کی شرعی حیثیت‬


‫مہر ادا کرنا بعض کے نزدیک فرض اور بعض کے نزدیک واجب ہے۔اس سلسلے‬
‫میں ارشاد باری ہے۔‬
‫علی کو حکم دیا۔‬
‫نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے اس پر زور دیتے ہوئے حضرت ؓ‬
‫علی نے فرمایا‬
‫فاطمہ کو کچھ دو۔ حضرت ؓ‬‫ؓ‬ ‫‪:‬مجامعت سے پہلے‬
‫علی‬
‫میرے پاس کچھ نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا۔ تیری زرہ کہاں ہے؟چنانچہ حضرت ؓ‬
‫نے اپنی زرہ ان کو دی۔(سنن ابی داؤد ‪،‬سنن نساٸ)‬
‫‪:‬آپﷺ نے فرمایا‬
‫اِ ٘لتَ ِم ۡ‬
‫س َولَ ۡو َخاتَمۡ ا ً ِم ۡن َح ٍد ۡی ٍد(صحیح مسلم‪،‬صحیح بخاری)‬

‫“مہر کے لیے تالش کر چاہے لوہے کی انگوٹھی ہو۔‬


‫‪:‬نبی صلی ہللا علیہ وسلم نے مہر کی پر تشدد تاکید فرمائی اور فرمایا‬
‫جس شخص نے کسی عورت سے کم یا زیادہ مہر پر نکاح کیا اور اس”‬
‫کے دل میں اس حق مہر کی ادائيگی کا ارادہ ہی نہیں ہے تو قیامت میں‬
‫ہللا کے حضور زنا کار کی حیثیت سے پیش ہوگا۔“ (معجم الصغیر‪،‬معجم‬
‫اوسط طبرانی)‬

‫مہر کے احکامات ازروے قرآن‬


‫مہر چونکہ عورت کے بضع کا بدلہ ہے اس لیے اسکی ادائيگی الزمی ہے۔عورت‬
‫نکاح کے بعد مرد کے لیے حالل ہی حق مہر کی ادائيگی پر ہوتی ہے اس لیے‬
‫اسکی اہمیت ایک تسلیم شدہ امر ہے۔‬
‫قرآن کریم میں ارشاد ہے‬

‫سافِ ِح ْي َن‬ ‫صنِ ْي َن َغ ْي َ‬


‫ـر ُم َ‬ ‫اَنْ تَ ْبتَ ُغ ْوا بِا َ ْم َوالِ ُك ْم ُّم ْح ِ‬
‫تم عورتوں کو اپنے مالوں کے عوض طلب کرو نکاح میں ال کر‪،‬نہ کہ”‬
‫شہوت رانی کے لیے“ ( سورہ النسا‪) ٢٤: ۶‬‬

‫ستَ ْمتَ ْعتُـ ْم بِ ٖه ِم ْنـ ُهنَّ فَ ٰاتُ ْوهُنَّ اُ ُج ْو َرهُنَّ فَ ِر ْي َ‬


‫ضة ً‬ ‫ۚ فَ َما ا ْ‬
‫پس تم نے جوان سے تمتع حاصل کیا ہے اس کے عوض انہیں ان کے‬
‫(النسا‪٢٤(: ۶‬‬ ‫طے شدہ مہر ادا کرو‬

‫سا فَ ُكلُوهُ َهنِيًئا‬ ‫ص ُدقَاتِ ِهنَّ نِ ْحلَةً ۚ فَِإنْ ِط ْب َن لَ ُك ْم عَنْ ش ْ‬


‫َي ٍء ِم ْنهُ نَ ْف ً‬ ‫َوآتُوا النِّ َ‬
‫سا َء َ‬
‫َم ِريًئا‬
‫اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دو پھر اگر وہ خوش دلی سے‬
‫مہر میں سے تمہیں کچھ دے دیں تو اسے پاکیزہ‪ ،‬خوشگوار (سمجھ کر)‬
‫کھاؤ۔ (سورہ النسا‪) ٤ :۶‬‬

‫ف‬‫ک ُح ۡوہُنَّ بِاِ ۡذ ِن اَ ۡہلِ ِہنَّ َو ٰاتُ ۡوہُنَّ اُ ُج ۡو َرہُنَّ بِ ۡال َم ۡع ُر ۡو ِ‬


‫فَ ۡان ِ‬
‫پس ان (کنیزوں) سے ان کے مالکوں کی اجازت کے ساتھ نکاح کرو‬
‫(سورہ النسا‪)٢٥ : ۶‬‬ ‫ب دستور ادا کرو‬
‫اور انہیں ان کے َمہر حس ِ‬

‫ک ۡی ًما‬ ‫ض ِۃ ؕ اِنَّ ہّٰللا َ َک َ‬


‫ان َعلِ ۡی ًما َح ِ‬ ‫ض ۡیتُمۡ بِ ٖہ ِم ۡۢن بَ ۡع ِد ۡالفَ ِر ۡی َ‬ ‫اح َعلَ ۡی ُ‬
‫کمۡ فِ ۡی َما ت َٰر َ‬ ‫َو اَل ُجنَ َ‬
‫اور‪ ‬تم پر اس مال کے بارے میں کوئی گناہ نہیں جس پر تم َمہر مقرر کرنے کے‬
‫بعد باہم رضا مند ہو جاؤ‪(  ،‬سورہ النسا‪٢٤ : ۶‬‬

‫مہر کے احکامات ازروے احادیث نبوی ﷺ‬

‫‪:‬حضورﷺ کا ارشاد ہے‬


‫یعنی عورتوں کو مردوں کے پلے باندھنے کی کوشش کرو اور مہروں‬
‫میں حد سے نہ بڑھو‬
‫حضورﷺ کا ارشاد ہے‬
‫یعنی جس نے مہر کے عوض جس سے نکاح کیا اور نیت یہ رکھی کہ‬
‫مہر ادا نہ کرے گا تو وہ دراصل زانی ہے‬

‫نضرہ نے ایک‬
‫ؓ‬ ‫حدیث شریف میں ہے کہ حضرت محمد ﷺ کےصحابی حضرت‬
‫کنواری لڑکی سےنکاح کیا۔ جب اس کے پاس گئے تو دیکھا کہ اسے حمل ہے۔‬
‫نضرہ نے اسکا ذکر آپ سے کیا تو آپ نے دونوں میں علیحدگی کرا دی‬‫ؓ‬ ‫حضرت‬
‫اور اس عورت کا مہر اس کو دلوایا اور فرمایا کہ مہر کے سبب ہی وہ اس کے‬
‫لیے حالل ہوئی تھی۔ ( تفسیر ابن کثیر)‬

‫مہر کی ادائی فرض ہے لیکن اسالم نے اس بات کی ترغیب دی ہے کہ مہر کی رقم میں‬
‫مبالغہ آرائی سے پرہیز کیا جائے اور اسے کم سے کم رکھا جائے تاکہ مردوں کے لیے یہ‬
‫چیز باعث مشقت نہ بن جائے۔ حضور صلی ہللا علیہ وسلم ‪ ‬کا ارشاد ہے۔‬

‫"أكثرهن بركة أقلهن صداقًا"‬

‫عورتوں میں سب سے بابرکت وہ ہیں جن کا مہر سب سے کم ہے"سے یہی"‬


‫“ثابت ہوتا ہے۔‬

‫مہر کی حکمتیں‬

‫ہللا تعالی کی جانب سے مہر مقرر کرنے میں بہت حکمتیں ہیں‬
‫اسکا مقصد عورت کے مقام و مرتبہ میں اضافہ کرتا ہے تا کہ وہ‬
‫باعزت زندگی بسر کر سکے۔‬
‫اس کی ایک حکمت یہ بھی کہ عورت سے فائدہ اٹھانے کی اہمیت کو‬
‫تسلیم کیا جائے ۔اس سے عورت کی قدر میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کا‬
‫وقار بڑھ جاتا ہے‬
‫یہ ایک لحاظ سے عورت کے لیے ایک تحفہ بھی ہے تا کہ زوجین کے‬
‫درمیان محبت پیدا ہو۔ زندگی کے نئے سفر کا آغاز محبت اوراعتماد کی‬
‫فضا سے ہو تو بہتر ہے۔‬
‫اس کی حکمت یہ بھی ہے کہ مرد عورت کے ساتھ بدسلوکی نہ کرے تا‬
‫کہ طالق کی صورت میں مہر کی ادائيگی اسکو اس برائی سے روکے‬
‫رکھے اور تعلقات باہمی خوشگوار رہیں۔‬
‫مہر طالق کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ یوں عورت کے تحفظ کا‬
‫ذریعہ ہے۔‬
‫اس سے عورت کی معاشرتی حیثیث میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہ اپے آپکو‬
‫باوقار محسوس کرتی ہے۔‬
‫اسکی ایک حکمت عورت کی مظلومیت کا خاتمہ بھی ہے اور وہ پر‬
‫اعتماد طور پر زندگی گزار سکتی ہے۔‬
‫اسکا ایک مقصد عورت کو نفسياتی طور پر احساس کمتری سے نکال کر‬
‫خود اعتمادی کی طرف گامزن کرنا ہے۔‬
‫تعالی نے شوہر کو گھر کا نگہبان اور ذمہ‬
‫ٰ‬ ‫چونکہ فیملی کی سطح پر ہللا‬
‫دار مقرر کیا ہے اور بیوی پر اسے ایک درجہ فضیلت عطا کی ہے اس‬
‫لیے مرد کے لیے ضروری قراردیا گیا کہ گھر کے نان و نفقہ کا ذمے‬
‫دار بھی وہی ہو اور اپنی دولت کا ایک حصہ مہر کے طور پر اپنی بیوی‬
‫کو عطا کرے کیوں کہ اس شادی کی وجہ سے بیوی پر اسے فضیلت‬
‫عطا کی گئی ہے۔‬

‫مہر کے اغراض و مقاصد‬


‫بیوی کے شرف اور اعزاز کی عالمت ہے‬
‫کفالتی ذمہ داریوں کا احساس اور شعور‬
‫مہر سے نکاح کی عظمت اور سنجیدگی کا اظہار ہوتا ہے‬
‫مہر میاں بیوی میں باہمی محبت و مودت کی عالمت ہے‬
‫عورت کو معاشی ‪،‬نفسیاتی‪ ،‬اخالقی تحفظ فراہم کرتا ہے۔‬

‫تعالی ہے‪:‬‬ ‫ٰ‬ ‫ارشا ِد باری‬


‫صنِیْنَ َغ ْی َر ُم ٰسفِ ِحیْنَ ‪.‬‬ ‫ک ْم َّما َو َرآ َء ٰذلِ ُ‬
‫ک ْم اَنْ تَ ْبتَ ُغ ْوا بِا َ ْم َوالِ ُ‬
‫ک ْم ُّم ْح ِ‬ ‫َواُ ِح َّل لَ ُ‬
‫النساء‪24 :4 ،‬‬
‫اور ان کے سوا (سب عورتیں) تمہارے لیے حالل کر دی گئی ہیں تاکہ تم اپنے اموال کے‬
‫ب نکاح کرو پاک دامن رہتے ہوئے نہ کہ شہوت رانی کرتے ہوئے۔‬ ‫ذریعے طل ِ‬
‫مہر کی اقسام‬
‫ادائیگی کے اعتبار سے مہر کی اقسام‬
‫یہ ایک اہم مسئلہ ہے ہے اس لئے اسالم میں مہر کی ادائیگی ممکن حد تک سہولتیں بہم‬
‫پہنچائی ہیں اس سلسلے میں مہر کی درج ذیل اقسام ہیں۔‬
‫‪.۱‬مہر معجل‪ :‬اگر مہر جماع سے پہلے ادا کر دیا جائے تو مہر معجل یعنی جلدی ادا کرنے‬
‫واال مہر کہالئے گا ۔اگر تصویر میں نکاح ہوا ہے تو مرد پر ہلو سے قبل اس کی ادائیگی‬
‫الزمی ہے ورنہ وہ گناہگار ہوگا یہی سب سے پسندیدہ صورت ہے ۔‬
‫‪ .۲‬مہر مؤجل‪ :‬اگر خاوند خلوت کے وقت مہر ادا کرنے پر قادر نہیں ہوتا اور عورت‬
‫سے ادائیگی کی معیاد مقرر کرلیتا ہے تو اس کو میرے موعجل کہتے ہیں اگر ہاں میں آج‬
‫کے اندر اندر ادائیگی نہیں کرتا تو گناہ گار ہوتا ہے اور عورت اپنے نفس کو ہاتھ سے‬
‫روکنے کی حق دار ہے اس متعلقہ کے اندر کی گئی ہو جانی چاہیے۔‬
‫‪.۳‬مہر مطلق‪ :‬ایسا محل جس کی ادائیگی میں خاوند کو اس کی بیوی مطلق آزادی دے غیر‬
‫مطلق کہالتا ہے اس کے تحت ہو جانے کے بعد عورت کو مباشرت سے نہیں روک سکتی‬
‫اور وہ جب چاہیں ادا کرے وہ پابند نہیں رہتا لیکن پھر بھی مرد کو جلدی کرنا چاہیے۔‬
‫‪۴‬۔مہرمنجم‪ :‬اگر زوجین اتفاق رائے سے مہر کی یکشمت ادائیگی کے بجائے باالقساط‬
‫ادائیگی پر راضی ہوجائیں تو ایسا مہر منجم کہالتا ہے اسے خاوند کے لیے سہولت پیدا کی‬
‫گئی ہے۔‬
‫‪.۵‬مہر مثل‪ :‬نکاح کے وقت مہر مقرر نہ کیا گیا ہو اور حلوۃ صحیحہ کے بعد طالق کی‬
‫نوبت آجائے تو اس میں صورت میں مہر مثل واجب االدا ہو گا میں نے نسل سے مراد‬
‫روپے کی وہ مقدار ہے جو عورت کے خاوند میں رائج ہو اور خاندان کے مرد عورت کی‬
‫حقیقی بہن کی رضاعی بہنیں پھوپھیاں اور پھوپھیوں کی بیٹیوں کا محل دیکھا جائے گا اس‬
‫کے ساتھ ہی ساتھ ہم عصر‪ ،‬حسن وجمال ‪ ،‬عقلمندی‪،‬دینداری و دولت‪ ،‬ہم شہریت اور ہم‬
‫عصریت کو بھی معتبر سمجھا جائے گا۔‬
‫‪.۶‬مہر مسمی ‪ :‬مہر مسمی اس مہر کا نام ہے جو نقد رقم کی صورت میں نہ ہو بلکہ ایسی‬
‫چیز مقرر کی گئی ہو جو مہر بننے کی صالحیت رکھتی ہوں مثال مکان‪ ،‬باغ‪،‬جانور‪،‬جائیداد‬
‫وغیرہ۔‬

‫عورتوں کی حالت کے اعتبار سے سے مہر کی اقسام‪:‬‬


‫اس سے مراد یہ ہے کہ عورت کی خاوند کے ساتھ تعلق کی شکل تبدیل ہوتی رہتی ہیں‬
‫کبھی وہ بھی وہ بھی وہ متعلق ہو جاتی ہے اس لیے لوگوں کی آسانی کے لیے شریعت نے‬
‫طالق کے بارے میں کیا کام کرتی ہیں جو درج ذیل ہیں‬
‫‪.۱‬بیوی کا مہر مقررہ‪:‬‬
‫بیوی کا جو مہر مق ّرر ہو چکا ہے وہ ادا کرنا ضروری ہے ارشاد ربانی ہے‪:‬‬
‫ص ُدقَاتِـ ِهنَّ نِ ْحلَـةً ۚ‬ ‫َو ٰاتُوا النِّ َ‬
‫سآ َء َ‬
‫"اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی دلی سے ادا کرو"‬
‫‪۲‬۔مہر غیر مقررہ‪:‬‬
‫اگر بیوی کا مہر مقرر نہ کیا گیا تو اس کو اس کی رشتہ دار خواتین کے مثل مہر ادا کیا‬
‫جائے۔‬
‫‪ .۳‬مدخولہ مطلقہ مقررہ کا مہر‪:‬‬
‫اگر مدخولہ کا مہر مقرر ہو چکا ہے تو طالق کے بعد اس کو پورا مہر ادا کیا جائے گا‬
‫ارشاد خداوندی ہے‪:‬‬
‫ج َو ٰاتَ ْيتُـ ْم اِ ْحدَاهُنَّ قِ ْنطَا ًرا فَاَل تَاْ ُخ ُذ ْوا ِم ْنهُ َ‬
‫ش ْيًئا ۚ اَتَاْ ُخ ُذ ْونَ ‪ٝ‬ه‬ ‫زَو ۙ ٍ‬
‫ج َّم َكانَ ْ‬
‫زَو ٍ‬
‫ستِ ْبدَا َل ْ‬ ‫َواِنْ اَ َر ْدتُّـ ُم ا ْ‬
‫بُـ ْهتَانًا َّواِ ْث ًما ُّمبِ ْينًا (‪)20‬‬
‫"اور اگر تم ایک عورت کو دوسری عورت سے بدلنا چاہو‪ ،‬اور ایک کو بہت سا مال دے‬
‫چکے ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو‪ ،‬کیا تم اسے بہتان لگا کر اور صریح ظلم کر‬
‫کے واپس لو گے"‬
‫‪ .۴‬مدخولہ مطلقہ غیر مقررہ کا مہر‪:‬‬
‫مگر مدخولہ کا نکاح کے وقت مہر مقرر نہ ہو سکے تو طالق ہو جائے تو اس عورت کو‬
‫مہر مثل یعنی دوسرے رشتہ دار خواتین کے مہر کے حساب سےمہردیا جائے گا۔‬
‫‪ .۵‬غیر مدخولہ مطلقہ مقررہ کا مہر‪:‬‬
‫جماع سے پہلے اگر کسی عورت کو طالق دے دی جائے اور اس کا مہر بھی مقرر ہو تو‬
‫اس کو مقررہ مہر کا نسخہ دیا جائے گا ارشاد باری ہے‪:‬‬
‫ف َما فَ َر ْ‬
‫ضتُـ ْم‬ ‫ضةًـ فَنِ ْ‬
‫ص ُـ‬ ‫ضتُـ ْم لَـ ُهنَّ فَ ِر ْي َ‬
‫س ْوهُنَّ َوقَ ْد فَ َر ْ‬
‫َواِنْ طَلَّ ْقتُ ُم ْوهُنَّ ِمنْ قَ ْب ِل اَنْ تَ َم ُّ‬

‫”اور اگر تم انہیں طالق دو اس سے پہلے کہ انہیں ہاتھ لگاؤ حاالنکہ تم ان کے لیے مہر‬
‫مقرر کر چکے ہو تو نصف اس کا (دے دو) جو تم نے مقرر کیا تھا "‬
‫‪ .۶‬غیر مدخولہ مطلقہ غیر مقررہ کا مہر‪:‬‬
‫ایسی عورت جس کا مہر نہ کیا گیا اور اس کو جمعہ سے پہلے طالق ہو جائے تو اس‬
‫کو مہر نہیں ملے گا البتہ حثیت کچھ اشیاء بطور تحفہ دے دی جائیگی ارشاد ربانی ہے‪:‬‬
‫ضةً ۚ َّو َمتِّ ُع ْوهُنَّ َعلَى‬
‫ض ْوا لَـ ُهنَّ فَ ِر ْي َ‬
‫س ْوهُنَّ اَ ْو تَ ْف ِر ُ‬
‫سآ َء َما لَ ْم تَ َم ُّ‬ ‫اح َعلَ ْي ُك ْم اِنْ َ‬
‫طلَّ ْقتُ ُم النِّ َ‬ ‫ال ُجنَ َ‬
‫س ِع قَ َد ُر ‪ٝ‬ه َو َعلَى ا ْل ُم ْقتِ ِر قَ َد ُر ‪ٝ‬ه‬‫ا ْل ُم ْو ِ‬
‫”تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم عورتوں کو طالق دے دو جب کہ انہیں ہاتھ بھی نہ لگایا ہو‬
‫اور ان کے لیے کچھ مہر بھی مقرر نہ کیا ہو‪ ،‬اور انہیں کچھ سامان دے دو وسعت والے پر‬
‫اپنے قدر کے مطابق اور مفلس پر اپنے قدر کے مطابق فایدہ پہنچائے"‬
‫لونڈی کا مہر‪:‬‬
‫لونڈی کا مہر آزاد عورت کے مقابلے میں نصف ہوتا ہے۔‬

‫مہر کے دیگر مسائل ‪:‬‬


‫معافی‪ :‬عورت کو مہر معاف کرنے کا بھی اختیار ہے ارشاد ربانی ہے ہے‬ ‫اختیار‬
‫ال اَنْ يَّ ْعفُ ْونَ‬
‫" مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں"‬
‫خوش دلی سے ادائیگی‪:‬‬
‫مہر شادی کا تحفہ ہوتا ہے اس لئے عورت کو خوشی کے ساتھ ادا کرنا چاہیے تاکہ ابتداء‬
‫ہیں نا خوشگوار نہ ہو ارشاد ربانی ہے‪:‬‬
‫ص ُدقَاتِـ ِهنَّ نِ ْحلَـةً‬ ‫َو ٰاتُوا النِّ َ‬
‫سآ َء َ‬
‫” اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی کے ساتھ ادا کرو "‬
‫واپس لینے کی ممانعت‪:‬‬
‫مہر عورت سے سے فائدہ اٹھانے کا معاوضہ ہے ہے اس لیے یہ کسی بھی صورت میں‬
‫واپس نہیں لیا جائے گا ارشاد ربانی ہے‪:‬‬
‫َو ٰاتَ ْيتُـ ْم اِ ْحدَاهُنَّ قِ ْنطَا ًرا فَاَل تَاْ ُخ ُذ ْوا ِم ْنهُ َ‬
‫ش ْيًئا‬
‫“اور تم نے ان میں سے کسی کو خزانہ بھی دے رکھا ہے تو بھی ان سے کچھ نہ لو"‬
‫زبردستی معاف کروانے کی ممانعت‪:‬‬
‫قرآن و حدیث میں مہر کے بارے میں میں زبردستی کرنے کی ممانعت کی گئی ہے مثال‬
‫زبردستی مہر معاف کروانا۔ اسالم نے اس کو ناپسند کیا ہے ۔ یہ زبردستی حق مارنے کے‬
‫مترادف ہے۔‬
‫مہر میں کمی بیشی ہو سکتی ہے‪:‬‬
‫اگر مہر مقرر ہو جائے جائے تو بھی میاں بیوی کی رضامندی سے کس میں کمی بیشی ہو‬
‫سکتی ہے ارشاد ربانی ہے‪:‬‬
‫ض ْيتُـ ْم بِ ٖه ِمنْ بَ ْع ِد ا ْلفَ ِر ْي َ‬
‫ض ِـة ۚ‬ ‫اح َعلَ ْي ُك ْم فِ ْي َما تَـ َرا َ‬
‫َواَل ُجنَ َ‬
‫”اور تم پر کوئی گناہ نہیں نہیں اگر آپس میں رضا مندی سے مہر مقرر ہونے کے بعد‬
‫کمی بیشی کرلو"‬
‫کونسی چیز مہر ہو سکتی ہے؟‬
‫کرنسی یا ہر وہ چیز چیز جو مال میں تبدیل ہو سکتی ہے مثال زمین جانور سونا وغیرہ‬
‫سورہ مہر مقرر کی جا سکتی ہے ہے اس کے عالوہ وہ جو چیز بھی مال بننے کی‬
‫صالحیت رکھتی ہو ہو وہ مہر بن سکتی ہے۔اس کے عالوہ مفید چیز بھی ہو سکتی ہے ہے‬
‫مثال آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے نے چند صورتیں سکھانے کو مہر قرار دیا تھا اور‬
‫حضرت علی رضی ہللا تعالی عنہ کو اپنی ذرہ مہر میں دینے کا حکم ارشاد فرمایا تھا یہ‬
‫زندگی میں اہم کردار ادا کرتا ہے اس لئے مہر کو خوش دلی سےاور بروقت ادا کرنا‬
‫چاہیے آئے سوائے خلع اور بے حیائی کے مہر واپس نہیں لیا جاسکتا۔‬

‫کن صورتوں میں مہر واپس ہو سکتا ہے‪:‬‬


‫الف) خلع کی صورت میں کیوں کہ اس میں عورت خود طالق لیتی ہے نبی کریم صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم نے ثابت بن قیس کی بیوی سے مہر میں دیا ہوا باغ خلع کی صورت میں واپس‬
‫دلوا دیا تھا۔‬
‫ب) اگر عورت بے حیائی کرے تو بھی اس سے مہر واپس لیا جا سکتا ہے ارشاد ربانی ہے‬
‫"انہیں اس لیے نہ روک رکھو کہ جو تم نے نہیں دے رکھا ہے اس میں سے سے کچھ لے‬
‫لو سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کرے کریں کریں"‬

‫مہر کے صحیح ہونے کی شرائط‬

‫مہر کے صحیح ہونے کی شرائط درج ذیل ہیں‪:‬‬


‫مال متقوم ہو یعنی جس کی قیمت لگائی جا سکے۔ ایسی معمولی شے جس کی کوئی‬‫‪1‬۔ مہر ِ‬
‫قیمت نہ ہو جیسے گندم کا ایک دانہ وغیرہ مہر نہیں ہو سکتا۔‬
‫‪2‬۔ مہر پاک شے (حالل) ہو جسے استعمال میں النا درست ہو۔ لہٰ ذا مہر میں شراب‪ ،‬سور‪،‬‬
‫خون یا مردار دینا جائز نہیں کیونکہ شریعت اسالمیہ کی نگاہ میں ان اشیاء کی کوئی مالیت‬
‫نہیں۔‬
‫‪3‬۔ مغصوب نہ ہو یعنی غصب کردہ مال نہ ہو۔ اگر غصب شدہ مال کو مہر قرار دیا تو یہ‬
‫درست نہ ہوگا‪ ،‬تاہم عقد نکاح درست ہوگا اور حقیقی مالک کی اجازت سے عورت اس کی‬
‫حق دار ٹھہرے گی ورنہ متعین مال کی قیمت کے برابر مال مہر کی حق دار ہوگی۔‬
‫ت مہر کے لیے ضروری ہے کہ وہ مہر واضح ہو کہ کتنا مہر مقرر ہوا ہے۔‬
‫‪4‬۔ صح ِ‬
‫ازدواج مطہرات کا مہر‬
‫حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن رضی ہللا عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی‬
‫اکرم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی ہللا عنہا سے سوال کیا کہ رسول‬
‫ہللا ﷺ اپنی ازواج کا حق مہر کتنا رکھتے تھے؟ آپ رضی ہللا عنہا نے فرمایا‪:‬‬
‫رسول ہللا ﷺ اپنی ازواج کا حق مہر بارہ اوقیہ اور ایک نَش رکھتے تھے۔ پھر‬
‫فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو کہ نَش کتنی مقدار کو کہتے ہیں؟ میں نے عرض کیا‪:‬‬
‫نہیں! فرمایا‪ :‬نصف اوقیہ اور یہ (کل مقدار) پانچ سو درہم ہیں اور یہی رسول ہللا‬
‫ﷺ کی اَزواج کا مہر ہے۔ یہ ‪١٥٩ /١٥٨‬‬
‫تولے چاندی کے برابرہے جسکی قیمت ‪ 16590‬روپے بنتی ہے لیکن قیمت حاالت کے‬
‫ساتھ بڑھتی رہتی ہے۔‬
‫حضرت صفیہ رضی ہللا عنہا کا حق مہر ان کا آزاد کرنا مقرر کیا گیا تھا۔ حضرت انس‬
‫رضی ہللا عنہ سے مروی ہے‪:‬‬
‫حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت صفیہ رضی ہللا عنہا کو آزاد کیا اور ان کے آزاد کرنے‬
‫ہی کو ان کا مہر قرار دیا۔‬

‫مہر کی نوعیت‬
‫مہر کی مقدار‬
‫اسالم میں مہر کی مقدارمتعین نہیں ہے بلکہ اس کو لوگوں کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا‬
‫ہے۔‬
‫‪:‬نبیﷺ نے اسکی مقدار کے بارے میں فرمایا‬
‫"مہر کی تالش کرو خواہ وہ لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو‬

‫مثال‬
‫سہل بن سعد ساعدی رضی هللا عنہ کہتے ہیں کہ رســول ہللا صــلی ہللا علیہ وســلم کے پــاس‬

‫ایک عورت نے ٓاکر عــرض کیـا کہ میں نے اپــنے آپ کــو آپ کے لــیے ہبہ کــر دیــا۔ پھر وہ‬

‫کافی دیر کھڑی رہی (اور آپ صلی ہللا علیہ و سلم نے اسے کوئی جواب نہیں دیا) تــو ایــک‬
‫شخص نے عرض کیــا‪ :‬اے ہللا کے رســول! اگــر آپ کــو اس کی حـاجت نہ ہــو تــو اس ســے‬

‫میری شادی کر دیجئیے۔ آپ نے فرمایا‪‘‘ :‬کیا تمہارے پاس مہــر ادا کــرنے کے لــیے کــوئی‬

‫چــیز ہے؟’’‪ ،‬اس نے عــرض کیــا‪ :‬مــیرے پــاس مــیرے اس تہبنــد کے ســوا کچھ نہیں ہے۔‬

‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا‪‘‘ :‬اگر تم اپنا تہبنــد اســے دے دو گے تــو تم بغــیر‬

‫تہبند کے رہ جأو گے‪ ،‬لہذا تم کوئی اور چیز تالش کــرو’’‪ ،‬اس نے عــرض کیــا‪ :‬میں کــوئی‬

‫چیز نہیں پا رہا ہوں۔ آپ نے (پھر) فرمایا‪‘‘ :‬تم تالش کرو‪ ،‬بھلے لوہے کی ایــک انگــوٹھی‬

‫ہی کیوں نہ ہو’’۔ چناں چہ اس نے تالش کیا لیکن اسے کوئی چیز نہیں ملی۔ تو رســول ہللا‬

‫صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا‪‘‘ :‬کیا تمہیں کچھ قرٓان یاد ہے؟’’‪ ،‬اس نے کہا‪ :‬جی ہاں۔ تــو‬

‫رسول ہللا صــلی ہللا علیہ وســلم نے فرمایــا‪‘‘ :‬میں نے تمہــاری شـادی اس عــورت ســے ان‬

‫سورتوں کے بدلے کر دی جو تمہیں یاد ہے۔‘‘ ‪ ‬‬

‫‪:‬امام ترمذی کہتے ہیں‬


‫یہ حدیث حسن صحیح ہے‪۱- ‬‬

‫البتہ مہر کی آخری حد کی کوئی مقدار نہیں ہے جس قدر بھی فریقین کے مابین طے ہو‬
‫عمر کے عہد میں جب لوگوں نے زیادہ مہر مقرر کرنا شروع‬
‫جائے وہ جائز ہے۔ حضرت ؓ‬
‫عمر منبر نبویﷺ پر چڑھے اور تین مرتبہ فرمایا‬
‫‪:‬کیے تو حضرت ؓ‬
‫َاق النِّ َ‬
‫سٓا‪۶‬‬ ‫صد ِ‬‫ِ اَل تُ َغالُ ۡوا فِ ۡی ِ‬
‫عورتوں کے مہر میں غلو سے کام نہ لو‬
‫پھر فرمایا کہ ”آج کے بعد میں نہ سنوں کہ کسی نے چار سو درہم سے زیادہ مہر مقرر‬
‫“کیا ہے‬
‫جب منبر سے اترے تو قریش کی ایک خاتون نے ان سے کہا آپ نے ہللا کا کالم جو اسنے‬
‫نازل کیا ہےنہیں پڑھا؟انہوں نے کہا وہ کیا؟ خاتون نے کہا۔ ہللا فرماتے ہیں‬
‫ش ْیــٴ ًؕـا‬ ‫( سورہ النسا‪َّ -۶‬و‪ٰ  ‬ا َت ْی ُت ْم‪  ‬ا ِْح ٰدى ُهنَّ ‪  ‬قِ ْن َط ً‬
‫ارا‪َ  ‬فاَل ‪َ  ‬تاْ ُخ ُذ ْوا‪ِ  ‬م ْن ُ‪%‬ه‪َ  ‬‬ ‫‪: ) ٢٠‬‬
‫‪ ‬اُسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو کیا‬
‫جب ہللا نےمہر میں خزانہ دینے کا ذکر کیا ہے تو آپ اسکو محدود کیسے کر سکتے ہیں؟‬
‫جب حضرت عمر نے یہ سنا تو دوبارہ منبر پر چڑھ کر اعالن کیا‬
‫لوگو ! میں نے حق مہر کے متعلق چار سو درہم مقرر کرنے کا حکم دیا تھا لیکن اب”‬
‫"میں کہتا ہوں کہ جو شخص جتنا مہر مقرر کرنا چاہے میں اسےنہیں روکتا‬

‫فقہا‪ ۶‬کے نزدیک مہر کی مقدار‬


‫امام ابو حنیفہ اور امام شافعی کے نزدیک کم از کم حق مہر کی مقدار دس درہم یا اسکی‬
‫مساوی مالیت کی کوئی شے ہو سکتی ہے۔ اس سے کم مالیت کا مہر نہیں مقرر کیا جا‬
‫سکتا۔‬
‫امام مالک کے نزدیک مہر کی کم از کم مقدار تین درہم ہے۔‬
‫بعض کے نزدیک پانچ درہم ہے۔ کچھ فقہا‪ ۶‬کے نزدیک جس چیز پر لفظ مال کا اطالق ہو‬
‫سکتا ہےوہ چیز مہر مقرر کی جا سکتی ہے۔مثال لوہے کی انگوٹھی۔‪š‬‬

‫لہذا مہر زیادہ مقرر کرنے کی اجازت تو ہے لیکن مہر مقرر کرتے وقت احتیاط سے کام‬
‫لینا ضروری ہے ایسا نہ ہو کہ مہر الکھو روپے مقرر کرلیا جائے اور اسے ادا کرنے کی‬
‫نیت ہی نہ ہو ۔کیونکہ اگر نیت میں فتور ہو تو ایسا نکاحاہلل کےنزدیک فاسد ہو گا۔‬

‫‪:‬ارشاد نبویﷺ ہے‬

‫جس نے مہر کے عوض کسی عورت سے نکاح کیا اور نیت یہ رکھی کہ اسے ادا نہیں‬
‫کرے گا تو وہ زانی ہے‬

‫‪:‬مہر مقرر کرنے کا پسندیدہ وقت‬


‫نہر مقرر کرنے کا صحیح مسنون وقت خطبہ نکاح کا وقت ہے۔ اس لیے کہ یہ سنت بھی‬
‫ہے اور قرین عقل بھی ہے کیونکہ اس وقت تمام افراد موجود ہوتے ہیں۔ انمیں اعالن مہر‬
‫زیادہ مناسب ہے بعد میں قباحتیں جنم لیتی ہیں۔‬

‫‪:‬آج کا پاکستانی معاشرہ اورمہرـ‬


‫آج کا مسلمان پاکستانی معاشرہ مہر میں افراط و تفریط کا شکار ہے۔ یا تومہر شرعی کے‬
‫نام پر اتنا کم یعنی ‪ ٣٢.٥٠‬روپے مقرر کیا جاتا ہے کہ مہر کوبے وقعت بنا دیا جاتا ہے۔‬
‫یہ تفریط مہر کے مقصد کو فوت کرنے کے مترادف ہے۔ اس معمولی مقدار کیوجہ سے‬
‫عورت حقارت کا نشان بن جانی ہے۔‬
‫اسکی دوسری انتہا یہ ہے کہ لڑکےوالوں سے بہت زیادہ مہر کا مطالبہ کیا جاتا ہے جو‬
‫انکی پہنچ سے باہر ہوتا ہے۔گویا یہ بھاری تاوان ہے جو لڑکےوالوں سے وصول کیا جاتا‬
‫ہے۔ اسطرح یہ بھاری مہر شادیوں کی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے یا لڑکا ادا نہیں کر سکتا‬
‫اور گنہگار ٹھرتا ہے۔‬

‫‪:‬اسالم کا جادہ اعتدال‬


‫‪:‬ارشاد ربانی ہے‬
‫س ِع قَ َد ُر ٗه َو َعلَى ا ْل ُم ْقتِ ِر قَ َد ُر ٗه‬
‫‪ ۚ ‬ا ْل ُم ْو ِ‬
‫وسعت والے پر اسکی حیثیت کےمطاق اور تنگدست پر اسکی حیثیت کے مطابق مہر(‬
‫)مقرر کرنا الزم ہے۔‬
‫)سورہ البقرہ ‪(٢٣٦ :‬‬

‫‪:‬حرف آخر‬
‫مہر کا تعین اسالم کی منفرد خصوصیت ہے یہ عورت کا استحقاق ہے۔وہ اسکی مالک ہے۔‬
‫اسکے شرف و اعزاز کا اظہار ہے وہ اس سے کسی طور پر محروم نہیں کی جا سکتی‬
‫خواہ اسے ڈھیروں مال سونا اور چاندی دے دی جائے ۔اسالم نے اسکی مکمل تفصیل بیان‬
‫کی ہے۔‬

‫مختصر سواالت‬
‫مہر سے کیا مراد ہے؟‬
‫قرآن میں مہر کے لیے کیا لفظ استعمال ہوا ہے؟‬
‫مہر سے متعلق کوئی قرآنی آیت لکھیں۔‬
‫مہر کی اہمیت کے متعلق کوئی حدیث مبارکہ لکھیں۔‬
‫مہر کی دو حکمتیں درج کریں۔‬
‫مہر مقرر کرنے کے کوئی سے دو مقاصد تحریر کریں۔‬
‫ادائيگی کے اعتبار سے مہر کی کتنی اقسام ہیں؟‬
‫عورت کی حالت کے اعتبار سے مہر کی اقسام کے نام لکھیں۔‬
‫مہرمقررـ کرنے سے متعلق عہد نبوی کا کوئی واقعہ بیان کریں۔‬
‫مہر کی مقدار کے متعلق حدیث مبارکہ تحریر کریں۔‬
‫آپﷺ اپنی ازواج کا حق مہر کتنا مقرر کرتے تھے؟‬
‫حق مہر کے صحیح ہونے کی کوئی سی دو شرائط درج کریں۔‬
‫فاطمہ کا حق مہر کتنا مقرر ہوا تھا؟‬
‫ؓ‬ ‫حضرت‬
‫حق مہر کی شرعی حیثیث کیا ہے؟‬

‫تفصیلی سواالت‬
‫حق مہر کی تعریف کریں نیز اسکی اقسام پر تفصیلی‬
‫تبصرہ کریں۔‬
‫حق مہر سے کیا مراد ہے؟ حق مہر کی نوعیت کیا ہے؟‬
‫حق مہر کے احکامات ازروے قرآن و حدیث واضح کریں‬
‫نیز حق مہر کی حکمتوں پر نوٹ لکھیں۔‬

‫حوالہ جات‬

‫توضیح القرآن‬
‫از ڈاکٹر محمد خلیل‬
‫افہام القرآن‬
‫از محمد نواز چوہدری‬
‫مجموعہ قوانین اسالم‬
‫از تنزیل الرحمن‬
‫تسھیل الفقہ‬
‫از عالمہ ابن رشد‬

You might also like