Professional Documents
Culture Documents
حق مہر
حق مہر
فقہی تعریف
مہر اس مالی منفعت کا نام ہے جو شرعا ً عورت مرد سے بعوض نکاح پانے کی
مستحق ہوتی ہے
مہر میں مال کا تصور بنیادی حیثیث رکھتا ہے کیوںکہ مہر سے اصل مقصود مال
ہے۔
ارشاد ربانی ہے
آء ٰذلِ ُك ْم اَ ْن َت ْبَتغُ ْوا بِاَ ْم َوالِ ُك ْم ِ
َواُح َّل لَ ُك ْم َّما َو َر َ
اور ان کے سوا تم پر سب عورتیں حالل ہیں بشرطیکہ انہیں اپنے مال
( سورہ النسا)٢٤: ۶ کے بدلے میں طلب کرو
ش ْیــٴ ًؕـا ( سورہ النسا-۶وَّ ٰ ا َت ْی ُت ْم ا ِْح ٰدى ُهنَّ قِ ْن َط ً
اراَ فاَل َ تاْ ُخ ُذ ْواِ م ْن ُ%هَ : ) ٢٠
اُسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو کیا
حضرت عمر نے یہ دلیل سن کرفرمایا ایک عورت نے ٹھیک بات کہی اور مرد
غلطی کر گیا۔ایک جگہ حضرت عمر نے یہ نصیحت کی کہ عورت کا مہر باندھنے
میں حد سے نہ بڑھو اگر یہ دنیا میں کوئی قابل عزت اور آخرت میں تقوی کی بات
ہوتی تو تم سے زیادہ رسولﷺ مستحق تھے
مجھے معلوم ہے کہ آپ نے کسی بیوی یا بیٹی کا مہر ١٢اوقیہ سے زیادہ نہیں رکھا۔
(احمد ،ترمذی ،نساٸ
نضرہ نے ایک
ؓ حدیث شریف میں ہے کہ حضرت محمد ﷺ کےصحابی حضرت
کنواری لڑکی سےنکاح کیا۔ جب اس کے پاس گئے تو دیکھا کہ اسے حمل ہے۔
نضرہ نے اسکا ذکر آپ سے کیا تو آپ نے دونوں میں علیحدگی کرا دیؓ حضرت
اور اس عورت کا مہر اس کو دلوایا اور فرمایا کہ مہر کے سبب ہی وہ اس کے
لیے حالل ہوئی تھی۔ ( تفسیر ابن کثیر)
مہر کی ادائی فرض ہے لیکن اسالم نے اس بات کی ترغیب دی ہے کہ مہر کی رقم میں
مبالغہ آرائی سے پرہیز کیا جائے اور اسے کم سے کم رکھا جائے تاکہ مردوں کے لیے یہ
چیز باعث مشقت نہ بن جائے۔ حضور صلی ہللا علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
مہر کی حکمتیں
ہللا تعالی کی جانب سے مہر مقرر کرنے میں بہت حکمتیں ہیں
اسکا مقصد عورت کے مقام و مرتبہ میں اضافہ کرتا ہے تا کہ وہ
باعزت زندگی بسر کر سکے۔
اس کی ایک حکمت یہ بھی کہ عورت سے فائدہ اٹھانے کی اہمیت کو
تسلیم کیا جائے ۔اس سے عورت کی قدر میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کا
وقار بڑھ جاتا ہے
یہ ایک لحاظ سے عورت کے لیے ایک تحفہ بھی ہے تا کہ زوجین کے
درمیان محبت پیدا ہو۔ زندگی کے نئے سفر کا آغاز محبت اوراعتماد کی
فضا سے ہو تو بہتر ہے۔
اس کی حکمت یہ بھی ہے کہ مرد عورت کے ساتھ بدسلوکی نہ کرے تا
کہ طالق کی صورت میں مہر کی ادائيگی اسکو اس برائی سے روکے
رکھے اور تعلقات باہمی خوشگوار رہیں۔
مہر طالق کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ یوں عورت کے تحفظ کا
ذریعہ ہے۔
اس سے عورت کی معاشرتی حیثیث میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہ اپے آپکو
باوقار محسوس کرتی ہے۔
اسکی ایک حکمت عورت کی مظلومیت کا خاتمہ بھی ہے اور وہ پر
اعتماد طور پر زندگی گزار سکتی ہے۔
اسکا ایک مقصد عورت کو نفسياتی طور پر احساس کمتری سے نکال کر
خود اعتمادی کی طرف گامزن کرنا ہے۔
تعالی نے شوہر کو گھر کا نگہبان اور ذمہ
ٰ چونکہ فیملی کی سطح پر ہللا
دار مقرر کیا ہے اور بیوی پر اسے ایک درجہ فضیلت عطا کی ہے اس
لیے مرد کے لیے ضروری قراردیا گیا کہ گھر کے نان و نفقہ کا ذمے
دار بھی وہی ہو اور اپنی دولت کا ایک حصہ مہر کے طور پر اپنی بیوی
کو عطا کرے کیوں کہ اس شادی کی وجہ سے بیوی پر اسے فضیلت
عطا کی گئی ہے۔
”اور اگر تم انہیں طالق دو اس سے پہلے کہ انہیں ہاتھ لگاؤ حاالنکہ تم ان کے لیے مہر
مقرر کر چکے ہو تو نصف اس کا (دے دو) جو تم نے مقرر کیا تھا "
.۶غیر مدخولہ مطلقہ غیر مقررہ کا مہر:
ایسی عورت جس کا مہر نہ کیا گیا اور اس کو جمعہ سے پہلے طالق ہو جائے تو اس
کو مہر نہیں ملے گا البتہ حثیت کچھ اشیاء بطور تحفہ دے دی جائیگی ارشاد ربانی ہے:
ضةً ۚ َّو َمتِّ ُع ْوهُنَّ َعلَى
ض ْوا لَـ ُهنَّ فَ ِر ْي َ
س ْوهُنَّ اَ ْو تَ ْف ِر ُ
سآ َء َما لَ ْم تَ َم ُّ اح َعلَ ْي ُك ْم اِنْ َ
طلَّ ْقتُ ُم النِّ َ ال ُجنَ َ
س ِع قَ َد ُر ٝه َو َعلَى ا ْل ُم ْقتِ ِر قَ َد ُر ٝها ْل ُم ْو ِ
”تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم عورتوں کو طالق دے دو جب کہ انہیں ہاتھ بھی نہ لگایا ہو
اور ان کے لیے کچھ مہر بھی مقرر نہ کیا ہو ،اور انہیں کچھ سامان دے دو وسعت والے پر
اپنے قدر کے مطابق اور مفلس پر اپنے قدر کے مطابق فایدہ پہنچائے"
لونڈی کا مہر:
لونڈی کا مہر آزاد عورت کے مقابلے میں نصف ہوتا ہے۔
مہر کی نوعیت
مہر کی مقدار
اسالم میں مہر کی مقدارمتعین نہیں ہے بلکہ اس کو لوگوں کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا
ہے۔
:نبیﷺ نے اسکی مقدار کے بارے میں فرمایا
"مہر کی تالش کرو خواہ وہ لوہے کی انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو
مثال
سہل بن سعد ساعدی رضی هللا عنہ کہتے ہیں کہ رســول ہللا صــلی ہللا علیہ وســلم کے پــاس
ایک عورت نے ٓاکر عــرض کیـا کہ میں نے اپــنے آپ کــو آپ کے لــیے ہبہ کــر دیــا۔ پھر وہ
کافی دیر کھڑی رہی (اور آپ صلی ہللا علیہ و سلم نے اسے کوئی جواب نہیں دیا) تــو ایــک
شخص نے عرض کیــا :اے ہللا کے رســول! اگــر آپ کــو اس کی حـاجت نہ ہــو تــو اس ســے
میری شادی کر دیجئیے۔ آپ نے فرمایا‘‘ :کیا تمہارے پاس مہــر ادا کــرنے کے لــیے کــوئی
چــیز ہے؟’’ ،اس نے عــرض کیــا :مــیرے پــاس مــیرے اس تہبنــد کے ســوا کچھ نہیں ہے۔
رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا‘‘ :اگر تم اپنا تہبنــد اســے دے دو گے تــو تم بغــیر
تہبند کے رہ جأو گے ،لہذا تم کوئی اور چیز تالش کــرو’’ ،اس نے عــرض کیــا :میں کــوئی
چیز نہیں پا رہا ہوں۔ آپ نے (پھر) فرمایا‘‘ :تم تالش کرو ،بھلے لوہے کی ایــک انگــوٹھی
ہی کیوں نہ ہو’’۔ چناں چہ اس نے تالش کیا لیکن اسے کوئی چیز نہیں ملی۔ تو رســول ہللا
صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا‘‘ :کیا تمہیں کچھ قرٓان یاد ہے؟’’ ،اس نے کہا :جی ہاں۔ تــو
رسول ہللا صــلی ہللا علیہ وســلم نے فرمایــا‘‘ :میں نے تمہــاری شـادی اس عــورت ســے ان
البتہ مہر کی آخری حد کی کوئی مقدار نہیں ہے جس قدر بھی فریقین کے مابین طے ہو
عمر کے عہد میں جب لوگوں نے زیادہ مہر مقرر کرنا شروع
جائے وہ جائز ہے۔ حضرت ؓ
عمر منبر نبویﷺ پر چڑھے اور تین مرتبہ فرمایا
:کیے تو حضرت ؓ
َاق النِّ َ
سٓا۶ صد ِِ اَل تُ َغالُ ۡوا فِ ۡی ِ
عورتوں کے مہر میں غلو سے کام نہ لو
پھر فرمایا کہ ”آج کے بعد میں نہ سنوں کہ کسی نے چار سو درہم سے زیادہ مہر مقرر
“کیا ہے
جب منبر سے اترے تو قریش کی ایک خاتون نے ان سے کہا آپ نے ہللا کا کالم جو اسنے
نازل کیا ہےنہیں پڑھا؟انہوں نے کہا وہ کیا؟ خاتون نے کہا۔ ہللا فرماتے ہیں
ش ْیــٴ ًؕـا ( سورہ النساَّ -۶وٰ ا َت ْی ُت ْم ا ِْح ٰدى ُهنَّ قِ ْن َط ً
اراَ فاَل َ تاْ ُخ ُذ ْواِ م ْن ُ%هَ : ) ٢٠
اُسے ڈھیروں مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو کیا
جب ہللا نےمہر میں خزانہ دینے کا ذکر کیا ہے تو آپ اسکو محدود کیسے کر سکتے ہیں؟
جب حضرت عمر نے یہ سنا تو دوبارہ منبر پر چڑھ کر اعالن کیا
لوگو ! میں نے حق مہر کے متعلق چار سو درہم مقرر کرنے کا حکم دیا تھا لیکن اب”
"میں کہتا ہوں کہ جو شخص جتنا مہر مقرر کرنا چاہے میں اسےنہیں روکتا
لہذا مہر زیادہ مقرر کرنے کی اجازت تو ہے لیکن مہر مقرر کرتے وقت احتیاط سے کام
لینا ضروری ہے ایسا نہ ہو کہ مہر الکھو روپے مقرر کرلیا جائے اور اسے ادا کرنے کی
نیت ہی نہ ہو ۔کیونکہ اگر نیت میں فتور ہو تو ایسا نکاحاہلل کےنزدیک فاسد ہو گا۔
جس نے مہر کے عوض کسی عورت سے نکاح کیا اور نیت یہ رکھی کہ اسے ادا نہیں
کرے گا تو وہ زانی ہے
:حرف آخر
مہر کا تعین اسالم کی منفرد خصوصیت ہے یہ عورت کا استحقاق ہے۔وہ اسکی مالک ہے۔
اسکے شرف و اعزاز کا اظہار ہے وہ اس سے کسی طور پر محروم نہیں کی جا سکتی
خواہ اسے ڈھیروں مال سونا اور چاندی دے دی جائے ۔اسالم نے اسکی مکمل تفصیل بیان
کی ہے۔
مختصر سواالت
مہر سے کیا مراد ہے؟
قرآن میں مہر کے لیے کیا لفظ استعمال ہوا ہے؟
مہر سے متعلق کوئی قرآنی آیت لکھیں۔
مہر کی اہمیت کے متعلق کوئی حدیث مبارکہ لکھیں۔
مہر کی دو حکمتیں درج کریں۔
مہر مقرر کرنے کے کوئی سے دو مقاصد تحریر کریں۔
ادائيگی کے اعتبار سے مہر کی کتنی اقسام ہیں؟
عورت کی حالت کے اعتبار سے مہر کی اقسام کے نام لکھیں۔
مہرمقررـ کرنے سے متعلق عہد نبوی کا کوئی واقعہ بیان کریں۔
مہر کی مقدار کے متعلق حدیث مبارکہ تحریر کریں۔
آپﷺ اپنی ازواج کا حق مہر کتنا مقرر کرتے تھے؟
حق مہر کے صحیح ہونے کی کوئی سی دو شرائط درج کریں۔
فاطمہ کا حق مہر کتنا مقرر ہوا تھا؟
ؓ حضرت
حق مہر کی شرعی حیثیث کیا ہے؟
تفصیلی سواالت
حق مہر کی تعریف کریں نیز اسکی اقسام پر تفصیلی
تبصرہ کریں۔
حق مہر سے کیا مراد ہے؟ حق مہر کی نوعیت کیا ہے؟
حق مہر کے احکامات ازروے قرآن و حدیث واضح کریں
نیز حق مہر کی حکمتوں پر نوٹ لکھیں۔
حوالہ جات
توضیح القرآن
از ڈاکٹر محمد خلیل
افہام القرآن
از محمد نواز چوہدری
مجموعہ قوانین اسالم
از تنزیل الرحمن
تسھیل الفقہ
از عالمہ ابن رشد