جاڑے کی شام بام و در پہ اداس ی اور خاموش ی کے س خت پہ رے تھے۔
سرد ہ وا کے ٹھن ڈے جھ ونکے خش ک ش اخوں ک و ی وں جھنجھ وڑ رہے تھے جیسے کسی بڑے گناہ کے س رزد ہ و ج انے پہ ض میر انس ان ک و جھنجھوڑت ا ہے ۔تمام پتے خشک ہ و ک ر ذرد پ ڑ چکے تھے اور زار و قط ار ش اخوں س ے یوں جھڑ رہے تھے جیسے طواف کعبہ کی دوران گن اہ گ ار کے گن اہ جھ ڑتے ہیں۔ کشادہ صحن کے باالئی ج انب پیپ ل کے دراز ش جر کی داس تان بھی کت نی عجیب تھی۔ وہ جانے کتنی پیڑیوں کو اپ نے س ائے میں پ روان چڑھ ا چک ا تھ ا۔ لیکن ان درختوں ک ا دکھ ہم انس ان نہیں س مجھ س کتے۔ہمیں لگت ا ہے یہ ص رف درخت ہی تو ہیں۔۔انہیں کیا چاہیے ہوت ا ہے ہم انس انوں س ے بس پ انی اور زرا سی اور توجہ یا کچھ وقت اگر ہم دے سکیں ت و۔اس س ے ب ڑھ ک ر ان کے س اتھ کیا کیا جا سکتا ہے۔اس کے عالوہ بھی کوئی ضرورت ہو سکتی ہے ان کی؟.ان کے احساسات تو نہیں ہو سکتے کے یہ موسموں کے ساتھ ساتھ انسانوں ک ا تلخ رویہ بھی محسوس کر سکیں یا کسی انسان کے ساتھ ان کو لگاؤ بھی ہوا ہ و گ ا کبھی۔ ہ اں پرن دوں ک ا تعل ق ان کے س اتھ ال گ ہے۔وہ ص بح ش ام کیس ی رون ق بخش تے ہیں انہیں۔کیس ے چہچہ اتے ہ وئے ش ور مچ اتے ہ وئے ش اخوں س ے جھولتے ہیں۔ان کی باہوں میں اپنے آشیانے بنا لیتے ہیں۔اور پھ ر یہ اش جار بھی تو کتنے مخلص ہیں نا ان کے س اتھ۔ہ ر آن دھی ہ ر طوف ان ک و کیس ے ہمت کے ساتھ برداشت کرتے ہوئے ان پرندوں کے آشیانوں ک و اپ نی ب اہوں میں تھ امے رکھتے ہیں۔حاالنکہ طوفان تو ان کی جڑیں ت ک اکھ ڑنے میں ک وئی ک ثر ب اقی نہیں چھوڑتے ۔ اس لڑکی کے اجداد میں شاید کسی شخص کو اس درخت س ے اتن ا لگ اؤ رہا ہو شاید ہی کوئی شخص اس کے نیچے گھنٹوں بیٹھتا ہ و۔لیکن وہ ہ ر دوپہ ر س ے س پہر ہ ونے ت ک اس کی چھ اؤں میں کت ابیں بکھ یرے ج انے کت نی داستانیں،کتنے قصے ،کتنی کہانیاں پڑھ چکی تھی ۔کتنی پریوں ،ش ہزادیوں اور ملکاہوں کی داستانیں اس پیڑ کو سنا چکی تھی۔لیکن وہ خود بھی کسی ش ہزادی سے کم نہیں تھی۔اس کے خوبصورت خدوخال،شفاف دل۔کشادہ ذہن اور اس کی گہری آنکھیں کس قدر دلکش تھیں۔ایسی آنکھیں ج و کس ی جھی ل س ے ب ڑھ ک ر گہری ہوں۔اور اس گہرائی میں ج انے کت نے راز پوش یدہ تھے انگنت ادھ وری خواہشات کے باوجود کتنا سکون سمیٹے ہ وئے تھیں جیس ے خ دا نے جنت کے کسی مخصوص حصے میں رکھ کر تخلیق کیا ہو انہیں۔ چائے پکڑ لو آ کر! باورچی خانے سے اس کی ماں نے خاصی انچی آواز میں اسے پکارا۔ جانے کن خیالوں میں الجھی وہ کب سے پینسل دانتوں میں دبائے مسلسل پیڑ کی شاخوں کو تکے جا رہی تھی۔اس کے ہاتھوں سے کچھ صفحات گر کے زمیں پر خشک پتوں کے درمیان بکھرے پڑے تھے۔ م اں کی آواز نے اس ے ای ک دم س ے چونک ا دی ا۔ادھ ر ادھ ر بکھ رے صفحات کو جلدی سے سمیٹتے،بھاگتے ہوئے وہ باورچی جانے میں جا پہنچی ۔ ماں کا غصہ اس وقت چائے کی طرح ابل رہا تھا ۔ ان کتابوں نے آج دیا کیا ہے تمہیں؟؟ ہ وئی بہت ب ڑا عہ دہ؟ ی ا ک وئی اور س رکاری ن وکری جس کی تم خ واہش من د ہ و؟ ب وڑھی م اں س ارا دن ب اورچی جانے میں جھلستی ہے اور تم کتابوں س ے فیض ی اب ہ ونے میں مگن ہ و۔م یرا کسی کو خیال ہی نہیں ہے۔اب سنبھالو یہ خانہ خراب مجھ میں اور ہمت نہیں۔ چائے کے سپ کے ساتھ جانے کتنی تلخیاں وہ اپنے اندر انڈیل رہی تھی۔ دن پھ ر کی تھکن ک و جیس ے ای ک کپ چ اہے اڑانے میں م اہر ہے ویس ے ہی لہجوں کی تلخیاں اور سخت الفاظ اسی چائے کو کتنا کڑوا بنا دیتے ہیں۔ ماں کو غصہ کام کرنے پر نہیں آ رہا تھا اس کے پیچھے جو وجہ تھی وہ اچھی طرح جانتی تھی۔ اماں ایسی چ ائے مجھ س ے نہیں پی ج اتی ہ زار ب ار کہ ا ہے چ ائے میں دودھ اور پتی کے عالوہ بس چینی ہی ڈاال کریں۔لیکن آپ ہر بار اس میں اپ نے تلخ لہجے کا اتنا زہر انڈیل دیتی ہیں کے بس۔۔۔ میری کتابوں سے اتنا کیوں چ ڑتی ہیں آپ ؟یہی ن ا کے میں آپ س زی ادہ وقت ان کے ساتھ گزارتی ہوں۔ اماں یہ کتابیں اور وہ شجر یہی ت و دوس ت ہیں م یرے اور کت نے مخلص دوست ہیں نا۔۔ یہ ص دیوں پران ا درخت مجھے یقین ہے اس پ ر اب ض رور جن بھ وت رہتے ہوں گے۔اور اب تو مجھے لگتا ہے تم پر بھی کسی چیز کا اثر ہو گیا ہے تبھی تو یہ درخت تمہیں اتنا اپنی طرف کھینچتا ہے۔ بیٹ ا تم کم رے میں بیٹھ ک ر بھی تو پڑھ سکتی ہو ۔مجھے یہی ڈر لگا رہتا ہے۔۔نا تو تم اپنی ہم عم ر لڑکی وں کے پاس بیٹھتی ،ہو نا ان کی طرح ہنستی ہو،نا ان کی طرح فرمائشیں کرتی ہ و نا ضد کرتی ہو۔۔۔۔۔تم ایسے نہیں چھوڑو کی اس کا پیچھا میں آج ہی تمہارے اب ا سے کہ کر سب سے پہلے اس درخت کو کٹواتی ہوں۔خ زاں میں س ارا دن پ تے اڑتے ہیں صحن میں۔ شازیہ اسلم