پاکستان سٹڈیز اینڈ جیوگرافی کے نئے ٹاپک کے ساتھ خوش امدید میں ہوں افتاب عالم اور ہسٹوریکو
پرسپیکٹو میں ہم اج پڑھیں
گے ایڈوینٹ اف اسالم سب کٹ یعنی برصغیر پاک و ہند میں اسالم کی امد نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی امد نے نہ صرف عرب بلکہ پوری دنیا کے نقشے کو اکثر بدل کر رکھ دیا تھا اپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم تربیت اور تبلیغ نے 23سال کے مختصر سے عرصے میں ایم پی ایس اور باربیرس عربز کو ایک سویالئزڈ اور ریلیجس نیشن میں تبدیل کر دیا تھا یہ عرب اسالم کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک لے کر پہنچے اور مسلمان بطور سپر پار اس دنیا میں بن کر اب ربوں کا اور برصغیر کے لوگوں کا تجارتی تعلق صدیوں پرانا ہے جو اسالم کی امد سے پہلے بچ جاتا ہے عرب کے لوگ بہت سا سامان تجارت جیسے کھجور زیتون وغیرہ بر صغیر لے کر اتے اور یہاں سے بیچ کر لوکل پروڈکٹس جیسے سپائسز یعنی مصالحے حاجات گندم چاول کپاس وغیرہ عرب کے عالقوں میں لے کر جاتے اور وہاں بیچ کر منافہ کماتے تھے اربوں کے برصغیر کے لوگوں کے ساتھ نہ صرف تجارتی تعلقات تھے بلکہ سوشلی بھی کہ ان کے ساتھ مکس اپ ہو چکے تھے بہت سے عربوں کی برصغیر میں شادیاں بھی تھیں اور ان کے بچے بھی یہاں پر رہتے تھے یہ تھا عرب کے لوگوں کا برصغیر کے ساتھ ابتدائی اور بنیادی تعلق جیسے ہی اسالم فاتحانہ طور پر برشیا یعنی ایران میں داخل ہوا تو بر صغیر اور اس کے ملحقہ عالقوں جیسے کرمان اور مکران وغیرہ میں بھی ان کی حمایتی حکمران یہاں پر ا گئے بنو امیہ کے خلیفہ عبدالملک کے دور میں حجاج بن یوسف کو عراق کا گورنر بنایا گیا جو کہ برصغیر کے ساحلی عالقے تھے ساتھ لگتا تھا سندھ میں اس وقت راجہ طاہر کی حکومت ہوا کرتی تھی جو کہ ایک ظالم اور جابر حکمران تھا اور یہاں کی رعایا اس سے تنگ تھی اس تنگی کی بہت ساری وجوہات تھیں جن میں اس کا ظلم جبر اور بے پناہ ناجائز ٹیکسز یہاں پر رات بات کا نظام تھا اور غریب لوگوں کو نفرت کی اور حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ایون کہ جو نچلی ذات کے ہندو تھے ان کو گھڑ سواری کی اجازت نہ تھی وہ پگڑیاں نہیں پہن سکتے تھے اور جوتے نہیں پہن سکتے یہی وجہ تھی کہ لوگوں کے دلوں میں راجہ طاہر کی محبت بہت کم تھی اور لوگ اس سے نفرت کیا کرتے تھے انہی دنوں کا ایک واقعہ ہے کہ سیلون میں ایک عرب کے تاجر رہا کرتے تھے ان کی ڈیتھ ہوئی تو سیلون کے حکمران نے اس کی اس تاجر کی بیواؤں بچوں اور دوسرے مالزموں کو بہت سارے تہم تہائف اور سامان تجارت کے ساتھ اٹھ بحری جہازوں میں عرب کی طرف روانہ بر صغیر میں اور سندھ کے اس پاس کے عالقوں میں بحری قضاق یعنی سمندری ڈاکوؤں کا راج تھا جن پر کسی کا بس نہ چلتا تھا جیسے ہی یہ قافلہ سیلون سے دیبل کے قریب بندرگاہ اور اس کے سمندر عالقوں میں پہنچا تو سمندری ڈاکوؤں نے اس قافلہ کو لوٹ لیا اور تمام سامان تجارت تحفے تحائف اور دوسری چیز نے لوٹ کر اپنے قبضہ میں لے لی نہ صرف یہ سامان لوٹا بلکہ بیواؤں بچوں اور عورتوں کو غالم بنا لیا اور قیدی انہی خواتین میں سے ایک لڑکی نے حجاج بن یوسف کے نام میں خط لکھا جس میں اپنی روداد اور لوٹ مار کی کہانی بیان کی گئی حجاج بن یوسف کو جیسے ہی یہ خط مال اس نے راجہ طاہر کو پیغام بھجوایا کہ بچوں اور عورتوں کو رہا کر کے خیر و عافیت اور حفاظت کے ساتھ عرب بھیجا جائے اور سامان تجارت اور تحفے تحائف ان کے ساتھ ایسے ہی بھجوائے لیکن راجہ طہار کی طرف سے ایک جواب حجاج بن یوسف کو مال کہ ان بحری ڈاکوؤں اور قضاکوں پر میرا کوئی کنٹرول نہیں ہے لہذا میں کچھ نہیں کر سکتا حجاج بن یوسف نے یہ جواب پا کر خود کاروائی کا اور حملے کا فیصلہ کیا اور ایک قافلہ مجاہدین کا سپہ ساالروں کے ساتھ تیار کر کے جنگی ساز و سامان کے ساتھ سندھ کی طرف روانہ کیا جو ناکام اور نامراد ٹھہرا اس کے بعد ایک اور قافلہ حجاج بن یوسف نے بھیجا سندھ پر حملے کے لیے تو یہ بھی ناکام ہوا تیسرے حملے کے لیے حجاج بن یوسف نے اپنے نوجوان بھتیجے عماد الدین محمد بن قاسم کو تیار کیا جس کی عمر اس وقت تقریبا 17سال کی تھی اور یہ حجاج بن یوسف کی طرف سے محمد بن قاسم تقریبا 6ہزار مجاہدین عراقی شامی اور دوسرے تربیت یافتہ مجاہدین کے ساتھ سندھ کی طرف روانہ ہوئے جن کے پاس اونٹ جنگی ساز و سامان اور دوسری بہت سی جدید اشیاء تھی جن میں من جو میں نے دیکھا تھا وہ محمد بن قاسم کی سربراہی میں سندھ میں پہنچے یہ تقریبا 712کا قصہ ہے اور محمد بن قاسم نے پہلے دیبل کو فتح کیا چھوٹا اس کو بنایا اس کے بعد ہیرا ان کی طرف بڑھیں جو کہ ماڈل حیدراباد کے قریب ہے محمد بن قاسم نے داہر کی فوجوں کو روڈ کے قریب شکست دی خوفناک اور خطرناک مقابلہ ہوا جس میں راجہ داہر مارا گیا اس کے درباری اور مجاہد یہاں کے جو فوجی ہندو تھے غالم بنا لیا گیا اور مسلمانوں نے اس عالقے کو فتح کر لیا مسلمان اس عالقے کو فتح کرتے ہوئے الور کچھ اور ملتان تک اگے بڑھتے چلے گئے گئے کچھ ایک بہت بڑا عالقہ ہوا کرتا تھا جو مسلمانوں نے فتح کیا ملتان کی طرف بڑھے جہاں پر بہت زیادہ اس وقت ملتان کے کلے میں جو حکمران تھے انہوں نے شکست ہے تو اخر کار مقامی تھا کس میں تیری کا لی لوگوں سے مل کر کچھ یہاں سے جاسوسوں کی مدد حاصل کر کے پانی کی سپالئی اور خوراک کی رسد روکی گئی اور ملتان کا جو قبضہ تھا مسلمانوں کے ہاتھ میں اگیا مسلمانوں کی حکومت جیسے ہی ان عالقوں میں ائی سندھ اور برصغیر کے اندرونی عالقوں کچھ اور ملتان وغیرہ میں تو محمد بن قاسم نے یہاں کے لوگوں کے ساتھ بہت اچھا برتاؤ کیا ایکول اور ہیومن جو ان کا بیہیویئر تھا وہ یہاں کے لوگوں کو بہت پسند ایا کیونکہ یہاں پر پہلے ذات پاک کا نظام تھا اور لوگ مختلف طبقوں میں بٹے ہوئے تھے جن کو بنیادی سہولیات تک میسر نہ تھی اور ٹیکس اور ناجائز مختلف چیزوں سے وہ لوگ تنگ تھے جب انہوں نے محمد قاسم اسالم کے ایکول نظام کو دیکھا تو یہ لوگ بہت خوش ہوئے اور بہت سارے لوگ جاب در جوق اسالم میں داخل ہونا شروع ہو گئے مسلمانوں نے ان کے اوپر تمام ناجائز ٹیکسز ختم کر دیے ما سوائے جزیہ کے جو کہ غیر مسلموں سے ان کی جان مال کی حفاظت کے بدلے میں لیا جاتا ہے تمام ایڈمنسٹریشن اور مقامی انتظامات انہی لوکل لوگوں کے ہاتھ میں دے دیے یہاں تک کہ مذہبی اور تبلیغی جو ان کے پیشوا تھے اور مبلغین تھے ان کو بھی تبدیل نہ کیا گیا اور حکومتی خزانے سے ان کو تنخواہیں دی گئی بہت ساری مساجد مدارس اور الئبریریز کا قیام عمل میں الیا گیا مسلمانوں نے ہندوؤں کے اور برصغیر کے جو سائنس ورکس تھے جیسے میڈیسن اسٹرونومی میتھمیٹکس وغیرہ ان سے فائدہ اٹھایا بہت ساری کتابیں ان ترجمہ کر کے عربی میں الئبریریز میں رکھی گئی بہت سے ریسرچرز کو اور ہندو علماء کو ہندو مفسرین کو بغداد لے کر جایا گیا وہاں پر بہت ساری کتابوں کا ترجمہ کیا گیا اور مسلمانوں نے اس سے استفادہ حاصل کیا یہ موسٹلی ہارون الرشید کے دور میں ہوا جب مسلمان یہاں پردہ ہو گئے اور اس طرح اسالم یہاں پر برصغیر میں پھیلتا ہوا چال گیا اس کے بعد مسلمان صوفیا کرام علماء کرام اور مبلغین نے اسالم کے اشاعت تدریج اور پھیالؤ کے لیے بہت زیادہ کام کیا اور یوں صدیوں پہلے فاتحانہ طور پر انے واال اسالم اج ہماری زندگیوں میں نظر اتا ہے اور کروڑوں مسلمان انڈیا پاکستان بنگلہ دیش اور سری لنکا کے اس پاس کے عالقوں میں نظر اتا ہے یہ تھا