Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 11

Subject: Urdu

Module: 15
Paper: Urdu Afsana
Topic: Manto Ki Afsana Nigari Aur “Tho Ba Thek
Shingh” Ka Tajziyati Mutaleya
Content writer: Professer Sagheer Afraheim
Aligarh Muslim University, Aligarh (UP)
PI: Professor Mazhar Mehdi Hussain
Jawaharlal Nehru University, New Delhi

‫منٹو کی افسانہ نگاری اور"ٹو بہ ٹیک سنگھ"کا تجزیاتی مطالعہ‬


‫تمہید‬
‫تقسیم ملک کے المیہ نے ہمارے ادب کو مواد کی سطح پر ایک ایسا موضوع فراہم کیا‬
ِ
‫مرکز نگاہ بنایاہے۔ انسانی تاریخ کے الم ناک ترین سانحہ‬
ِ ‫جس کو متعدد تخلیق کاروں نے‬
‫تقسیم وطن سے متعلق‬ ‫ِ‬ ‫سے زمانی قربت اکثر ترسیل کی راہ میں حجاب بن جاتی ہے اور‬
‫بیشتر تخلیقات میں تجزیہ کا فوری پن )‪(Immediacy‬تو نظر آتا ہے مگر اس دلدوز‬
‫واقعہ کی تنزیہہ کا سراغ نہیں ملتا۔ اس ضمن میں استثنائی مثال سعادت حسن منٹو کی ہے‬
‫تقسیم ملک ہے۔ منٹو کی انفرادی فطانت نے اس‬ ‫ِ‬ ‫جس کے افسانوں کا ایک اہم موضوع‬
‫موضوع کو ایک ال زمانی جہت عطا کردی ہے۔ تقسیم کا خارجی واقعہ منٹو کے لیے زیادہ‬
‫سرمایہ اقدار کا خاک‬
‫ٴ‬ ‫اہم نہیں ہے۔ اس کے لیے سب سے زیادہ لرزہ خیز عمل صدیوں کے‬
‫تقسیم وطن کو انسانی سائیکی کی تفتیش کااساسی حوالہ بنایا ہے‬
‫ِ‬ ‫میں مل جانا ہے۔منٹو نے‬
‫دعوی کرنے واال اشرف المخلوقات کس طرح دیوانگی اور جنون میں‬ ‫ٰ‬ ‫کہ مہذب زندگی کا‬
‫حیوانی سطح کو بھی پار کر جاتا ہے مگر پھر بھی اس کی انسانی فطرت برقرار رہتی ہے۔‬
‫تقسیم ہند اور اس‬
‫ِ‬ ‫منٹو ایسے ہی انسان دشمن معاشرے کا عکاس ہے۔ خاص طور سے‬
‫سے وابستہ واقعات اور حادثات پر اُس کے افسانوں کا بنیادی رمز یہی ہے۔‬

‫مقصد‬
‫اس اکائی کا مقصد اُس دور کو اجاگر کرنا ہے جب ترقی پسندی کا زور تھا۔ رومانیت‬
‫حلقہارباب ذوق بھی اپنی محفلیں جما‬
‫ٴ‬ ‫ایک طرح سے حقیقت پسندی میں ضم ہو چکی تھی۔‬
‫رہا تھا مگر منٹو کسی تحریک سے منسلک نہ ہوکر آزادانہ طور پر نت نئی تخلیقات خلق‬
‫کر رہے تھے۔ یہاں اس نکتہ کو بھی اجاگر کرنا ہے کہ سعادت حسن منٹو اپنی انفرادی‬
‫شناخت کو قائم رکھنے کے کیا جتن کرتے ہیں اور وہ کس حد تک کامیاب رہتے ہیں۔ ان کا‬
‫ماننا تھا کہ کوئی بھی ادیب فن پارے کو خلق کرتے وقت قید و بند کے دائرے میں نہیں رہ‬
‫سکتا ۔ کیوں کہ حصار میں رہ کر ادب فروغ نہیں پا سکتا ہے۔منٹو نے اپنی ذات کو حد‬
‫بندیوں سے آزاد رکھ کر فن پارے خلق کیے ہیں۔ مذکورہ اکائی سے یہ بھی پتہ چلے گا کہ‬
‫انھوں نے موٹے طور پر تین طرح کے نظریوں کی پیروی کی یعنی سیاست‪ ،‬رومانیت اور‬
‫جنسیت۔ لیکن حقیقتا ً یہ تینوں راستے فرد اور سماج کی عکاسی کے لیے منتخب کیے گئے‬
‫ہیں۔ جنھیں اُجاگر کرنے میں وہ پوری طرح کامیاب رہے ہیں۔ اسی لیے وہ ترقی پسند ہوتے‬
‫ہوئے بھی تحریک سے وابستہ نظر نہیں آتے بلکہ ان کا نام تحریک سے ُجڑ کر تحریک‬
‫کی افادیت کو بڑھاتا ہے۔ اس اکائی میں منٹو کے افسانوں کی انھیں خصوصیات پر روشنی‬
‫ڈالی جائے گی۔ اس سبق کے تحت آپ منٹو کی زندگی ‪ ،‬ان کی افسانہ نگاری اور خاص طور‬
‫پر ان کے افسانے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے بارے میں جان پائیں گے۔‬

‫مصنف کا تعارف‬
‫سعادت حسن منٹو‪11‬مئی‪1912‬کو سمرالہ ضلع لدھیانہ میں پیدا ہوئے‬
‫اور‪18‬جنوری ‪1955‬کو دن کے ساڑھے دس بجے الہور میں ان کا انتقال ہوا۔ ان کے والد‬
‫اعلی تعلیم یافتہ اور سرکاری مالزم تھے۔ انھوں نے دو‬
‫ٰ‬ ‫ب حیثیت‪،‬‬‫مولوی غالم حسن صاح ِ‬
‫شادیاں کیں جن سے بارہ بچے ہوئے۔ چار لڑکے اور آٹھ لڑکیاں۔ منٹو ان کی دوسری بیوی‬
‫سے تھے۔ ان کے تین سوتیلے بھائی نہ صرف عمر میں ان سے کافی بڑے بلکہ تعلیم یافتہ‬
‫بھی تھے۔جبکہ منٹو نے‪1931‬میں تین سال فیل ہونے کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے‬
‫میٹرک کا امتحان پاس کیا اور انٹر میں اسی زبان کے پرچے میں فیل ہوئے جس زبان کے‬
‫وہ آج مقبول ترین افسانہ نگار ہیں۔‬
‫منٹو نے اپنی بیالیس سال آٹھ ماہ اور نو دن کی زندگی میں دو سو سے زائد افسانے‪،‬‬
‫سو ریڈیائی ڈرامے اور لگ بھگ اتنے ہی خاکے اور مضامین لکھے۔ اس کے عالوہ انھوں‬
‫نے دو درجن روسی افسانوں کے ترجمے بھی کیے۔ وہ امرتسر‪ ،‬الہور اور بمبئی کے کئی‬
‫اخباروں اور رسالوں کے ایڈیٹر رہے۔ بہت سی فلموں کی کہانیاں‪ ،‬اسکرین پلے اور‬
‫مکالمے تحریر کیے۔ "مرزا غالب" ان کی مقبول ترین فلم تھی۔ انھوں نے اشوک کمار کے‬
‫ساتھ فلم"آٹھ دن " میں ایک پاگل ملٹری آفیسر ‪،‬کرپا رام کا کردار بھی ادا کیا تھا۔ ذاتی‬
‫زندگی میں ان پر دو بار پاگل پن کا دورہ پڑا۔ ان کی پانچ کہانیوں ("کالی شلوار"‪،‬‬
‫"دھواں"‪ " ،‬بُو"‪" ،‬ٹھنڈا گوشت" اور"اوپر نیچے اور درمیان")پر فحش نگاری کے‬
‫ت ہند کی دفعہ‪ 292‬کے تحت مقدمات چالئے گئے۔ ان مقدمات کی پیروی‬ ‫سلسلے میں تعذیرا ِ‬
‫کرتے ہوئے وہ اس حد تک تھک چکے تھے کہ آخری بار جب انھیں جرمانے کی سزا‬
‫سنائی گئی تو انھوں نے مقدمہ لڑنے کے بجائے جرمانہ ادا کرنا ہی بہتر سمجھا۔‬

‫منٹو کی مطبوعہ کتب‪:‬‬


‫)‪ (1‬آتش پارے (آٹھ افسانے)‪ 1936‬۔(‪ )2‬منٹو کے افسانے(چھبّیس افسانے) ‪1940‬۔ (‪)3‬‬
‫دھواں (بائیس افسانے ‪ ،‬دو ڈرامے)‪1941‬۔(‪ )4‬افسانے اور ڈرامے (سات افسانے‪ ،‬چھ‬
‫ت سنگ (تین طویل افسانے) ‪1947‬۔(‪ُ )6‬چغد (نو افسانے) ‪1948‬۔(‪)7‬‬ ‫ڈرامے) ‪1942‬۔(‪ )5‬لذ ِ‬
‫ٹھنڈا گوشت(آٹھ افسانے) ‪1950‬۔(‪ )8‬خالی بوتلیں خالی ڈبّے (تیرہ افسانے) ‪1950‬۔(‪)9‬‬
‫نمرود کی خدائی (بارہ افسانے) ‪1950‬۔(‪ )10‬بادشاہت کا خاتمہ (گیارہ افسانے) ‪1951‬۔(‪)11‬‬
‫یزید (نوافسانے)‪1951‬۔(‪ )12‬سڑک کے کنارے (گیارہ افسانے)‪1953‬۔ (‪ )13‬سرکنڈوں کے‬
‫پیچھے (تیرہ افسانے) ‪1954‬۔(‪ )14‬پ ُھندنے (گیارہ افسانے ‪ ،‬ایک ڈرامہ) ‪1955‬۔(‪ )15‬بغیر‬
‫اجازت (گیارہ افسانے)‪1955‬۔(‪ )16‬برقعے (گیارہ افسانے)‪1955‬۔ (‪ )17‬شکاری عورتیں‬
‫(بارہ افسانے) ‪1955‬۔(‪ )18‬رتّی ماشہ اور تولہ (دس افسانے ‪ ،‬ایک ڈرامہ) ‪1955‬۔ان کے‬
‫عالوہ منٹو کے بارہ افسانوی مجموعے اور بھی دستیاب ہیں مگر ان میں بیشتر وہی‬
‫پرانے افسانے ملتے ہیں جو پہلے شایع ہو چکے تھے۔‬

‫منٹو کی افسانہ نگاری‬


‫منٹو نے تمام عمر سماج کے گھناؤنے جسم پر نشتر زنی کی اور اس کے کھوکھلے‬
‫پن کا مذاق اُڑایا ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں زندگی کے مختلف رنگوں کو پیش کیا‬
‫ہے خصوصا ً اُن شکلوں کو جو ٹھکرائی اور روندی ہوئی ہیں۔ ان کے یہاں حقیقی کردار‬
‫اپنی تمام انسانی صفات کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ کوچوان‪ ،‬کلرک‪ ،‬مزدور‪ ،‬پہلوان‪ ،‬مولوی‪،‬‬
‫دالل‪ ،‬طوائف یہ وہ کردار ہیں جو اپنی تمام پریشانیوں کے ساتھ ہم رکاب ہیں‪ ،‬دوست کی‬
‫طرح۔ وہ قاری سے ان کی پہچان کراتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔‬
‫افسانہ نگار اپنے عہد کی جو عکاسی کرتا ہے وہ ان معنوں میں اہم ہے کہ وقت گزر‬
‫جاتا ہے مگر فن پارے مذکورہ عہد کے چشم دید گواہ بن کر قائم رہتے ہیں اور بعض اوقات‬
‫ت واقعہ کے ساتھ رقم کرتے ہیں کہ تاریخ داں بھی‬ ‫یہ معاشرتی تاریخ اس صداقت اور صور ِ‬
‫اس کا تصور نہیں کر سکتے کہ یہ محض واقعے کا ریکارڈ نہیں ہوتا ہے۔ بعد میں ناقدین‬
‫ان کو اپنے اپنے طریقے سے دیکھتے اور پرکھتے ہیں۔‬
‫سیماب صفت‪ ،‬جدت پسند منٹو کا اپنے عہد کے مسائل کو دیکھنے اور افسانوں میں‬
‫ڈھالنے کا بالکل الگ انداز تھا۔ اس کے ناقدین بھی شروع سے الگ الگ حلقوں میں بٹے‬
‫ہوئے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو اس کو اور اس کے افسانوں کو جنسی بے راہ روی کی ترویج‬
‫و اشاعت کا آلہ سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق منٹو پر جنسیت کا غلبہ تھا اور اس نوع کے‬
‫افسانے لکھ کر وہ اپنی محرومی کا ازالہ کرتا تھا۔ دوسرا گروہ یہ کہتا ہے کہ منٹو فرائڈ‬
‫ب اخالق کہانیاں لکھ کر ہماری تہذیبی شائستگی کو مسمار‬ ‫سے متاثر ہوکر فحش اور مخر ِ‬
‫کرنا چاہتا تھا لیکن دانشوروں کا تیسرا حلقہ منٹو کے افسانوں کو فنّی تناظر میں دیکھتے‬
‫ہوئے ان کی اہمیت کو سمجھنے کی ایک متوازن کوشش کرتا ہے۔اس باب میں خود منٹو کا‬
‫یہ بیان بڑی اہمیت کا حامل ہے ‪:‬‬
‫"لوگ اسے بُرا‪ ،‬غیر مذہبی اور فحش انسان سمجھتے ہیں اور میرا بھی خیال ہے کہ‬
‫وہ کسی حد تک اس درجے میں آتا ہے‪ ،‬اس لیے کہ اکثر اوقات وہ بڑے گندے موضوعات‬
‫پر قلم اٹھاتا ہے اور ایسے الفاظ اپنی تحریر میں استعمال کرتا ہے جن پر اعتراض کی‬
‫گنجائش بھی ہو سکتی ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ جب بھی اس نے کوئی مضمون لکھا‪،‬‬
‫پہلے صفحہ کی پیشانی پر ‪ 786‬ضرور لکھا‪ ،‬جس کا مطلب ہے بسم ہللا اور یہ شخص جو‬
‫اکثر خدا سے منکر نظر آتا ہے ‪ ،‬کاغذ پر مومن بن جاتا ہے میں آپ کو پورے وثوق کے‬
‫ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ منٹو جس پر فحش نگاری کے سلسلے میں کئی مقدمے چل چکے‬
‫ہیں‪ ،‬بہت طہارت پسند ہے لیکن میں یہ بھی کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ وہ ایک ایسا انداز‬
‫ہے جو خود کو جھاڑتا پھٹکتا رہتا ہے"‬
‫مختلف تنازعات کا شکار‪ ،‬منٹو زرخیز اور توانا تخلیقی صالحیتوں کا مالک تھا ۔ اس‬
‫نے افسانوں کے عالوہ بہت کچھ لکھا اور ہر ایک کو منفرد انداز سے پیش کرنے کی‬
‫کوشش کی۔ وہ اپنے معاصرین کے برعکس سماجی اور معاشی نظام کی اصالح کے جتن‬
‫سے ُگریز کرتا ہے۔اسی لیے وہ انسانی سرشت‪ ،‬فطرت و جبلت کا ذکر نہیں کرتا‪ ،‬عورت کی‬
‫ایثار نفسی کو موضوعِ بحث نہیں بناتا‪ ،‬شریف و رذیل کی تخصیص و‬ ‫ِ‬ ‫خدمت گزاری اور‬
‫تمیز قائم نہیں کرتا‪ ،‬ایسا اس لیے کہ اس کا انداز سب سے ُجدا‪ ،‬سب سے الگ ہے۔اس نے‬
‫کسی بھی نوعیت کے افسانے لکھے ہوں‪ ،‬اپنی بُنت‪ ،‬پیش کش‪ ،‬برتاؤ اور تاثیر کی بنا پر‬
‫تقسیم ہند‪ ،‬عورت اور طوائف کے موضوع پر خلق‬‫ِ‬ ‫الگ سے پہچانے جاتے ہیں۔ خصوصا ً‬
‫کیے گئے افسانے اپنی تہہ داری اور تازہ کاری کے سبب آج بھی ممتاز و منفرد ہیں۔ اس‬
‫نے پالٹ کی تعمیر‪ ،‬کردار کی تخلیق اور بیان کے اسلوب میں جس فن کاری کا ثبوت دیا‬
‫ہے اس کی مثال کم یاب ہے۔ سادگی میں پُر کاری کی ہنرمندی قاری کو حیرت میں ڈال دیتی‬
‫ہے۔اکیسویں صدی کا بدال ہواادبی منظر نامہ جو بہت حد تک ادبی سماجیات کا حصہ ہے‪،‬‬
‫اس میں کئی نئی تھیوریاں ‪ ،‬مطالعات کے نئے طریقے ہمارے سامنے آئے ہیں جن میں ما‬
‫زیر بحث ہیں ضرورت اس بات‬ ‫طریق کار ِ‬
‫ِ‬ ‫پس ساختیاتی نیز اسلوبیاتی‬‫بعد جدید‪ ،‬ساختیاتی‪ِ ،‬‬
‫کی ہے کہ ان جدید تصورات کی روشنی میں منٹو کے فن پاروں کو بھی ان کسوٹیوں پر‬
‫اس طرح کسا جائے کہ اس کے فن اور تکنیک کے تمام نرم و نازک پہلوؤں تک قاری کی‬
‫بھرپور رسائی ممکن ہو سکے۔ایسا منٹو کے ہی ساتھ ممکن ہے‪ ،‬دوسرا کوئی افسانہ نگار‬
‫اس پرکھ میں ان کا ہم پلہ نہیں ہے۔‬

‫"ٹوبہ ٹیک سنگھ"کا تجزیاتی مطالعہ‬


‫"ٹو بہ ٹیک سنگھ" کئی معنوں میں منٹو کی انفرادیت کا مظہر ہے۔ یہاں اس تفصیل‬
‫کا موقع نہیں تاہم عام نہج سے ہٹے ہوئے اس افسانے کا مطالعہ کریں توسب سے پہلے‬
‫مرکزی کردار بشن سنگھ سامنے آتا ہے جو کسی بھی شرط پر زمین کے اس حصے سے‬
‫ُجدا نہیں ہونا چاہتا جہاں صدیوں سے اس کے بزرگ رہتے چلے آئے ہیں‪ ،‬جہاں وہ پیدا‬
‫ہوا‪ ،‬پروان چڑھا ہے۔ جہاں اس کے کھیت کھلیان ‪ ،‬پندرہ برس کی جوان بیٹی اور ان سے‬
‫وابستہ کھٹّی میٹھی یادیں ہیں۔انتخاب کے وقت وہ‪ No man's land‬کو پسند کرتا ہے اور‬
‫خطہزمین کو خاطر میں نہیں التا ہے۔‬
‫سرحدوں کے دائرے میں جکڑے ہوئے ٴ‬
‫سیاسی دانشمندوں کے برعکس نام نہاد پاگل اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہے کہ‬
‫جس نے اپنی دھرتی سے ناتہ توڑا اسے زمین کا کوئی بھی حصہ پوری طرح قبول نہیں‬
‫کرتا ہے۔لہٰ ذا جب دھرتی کے اس سپوت کو زبردستی ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ‬
‫"دانش مندوں " کی بنائی ہوئی سرحدوں میں داخل ہونے کے بجائے آزاد حصے میں دم‬
‫توڑ دیتا ہے۔ دیوانے کی اس وطن دوستی ‪ ،‬زمین سے وابستگی اور آزادی کی تڑپ کو‬
‫دیکھ کر فرزانے بھی رشک کرنے لگتے ہیں۔ جائے پیدائش سے جذباتی وابستگی ایک‬
‫فطری بات ہے اور جب یہ وابستگی شدت اختیار کرکے سر شاری میں تبدیل ہو جاتی ہے تو‬
‫بشن سنگھ کا نام ٹوبہ ٹیک سنگھ ہو جاتا ہے۔ مقام کو انسان کی پہچان بنا دینا منٹو کا فنّی‬
‫کمال ہے۔‬
‫افسانہ" ٹوبہ ٹیک سنگھ" انسانی فطرت کے بنیادی جوہر تک رسائی اور ثقافتی‬
‫تشخص کی اہمیت کی بہترین مثال ہے۔ مردم شناسی کی بنا پر ہی افسانہ نگار بے باکانہ‬
‫طور پر یہ باور کراتا ہے کہ بات معقول ہو یا غیر معقول ٹوبہ ٹیک سنگھ کو دانش مندوں‬
‫کے فیصلے قبول نہیں اس کے نزدیک یہ تقسیم پاگل پن کا عمل ہے اور یہی کہانی کا‬
‫کالئمکس ہے۔ کہانی کا خاتمہ المیاتی طنز کی اردو ادب میں شاید سب سے زبردست مثال‬
‫ہے۔ انسان دشمن سیاسی عمل کی نفی کا اس سے موثر اظہار اور کہیں دیکھنے میں نہیں‬
‫آتا۔‬
‫گہری معنویت سے مملو اس افسانے میں انسانیت‪ ،‬بھائی چارے اور دنیا داری کی‬
‫بات کرنے والے کو منٹو نے پاگل کی حیثیت سے متعارف کرایا ہے جو پندرہ سال سے‬
‫جسمانی تکلیف کے باوجود سویا نہیں ہے‪ ،‬لیٹا بھی نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آرام اس پر‬
‫حرام ہے لیکن جب دونوں ملکوں کے بیچ پاگلوں کے تبادلے کی کارروائی شروع ہوتی ہے‬
‫تو وہ نہایت فعال اور متحرک بن جاتا ہے اور اپنے آبائی شہر ٹو بہ ٹیک سنگھ کے بارے‬
‫میں دریافت کرتا پھرتا ہے کہ وہ کہاں ہے؟‬
‫تضاد‪ ،‬ابہام اور عالمت کے توسط سے قاری بین السطور میں پڑھتا چال جاتا ہے کہ‬
‫کس طرح ِبر صغیر کے نقشے پر کھینچی گئی لکیر نے صدیوں کے رشتوں کو بھی تقسیم‬
‫کر دیا ہے۔ بھائی بہن سے‪ ،‬باپ بیٹے سے‪ ،‬بیوی شوہرسے اور ماں بچوں سے ُجدا ہو‬
‫گئی۔ انتہا یہ ہوئی کہ انسان سے انسانیت چھن گئی اور اس پر وحشت غالب آگئی۔ اس‬
‫خطہزمین پر ہوا جو تہذیب و تمدن کا گہوارہ کہالتا تھا‪،‬‬
‫بربریت اور درندگی کا ننگا ناچ اس ٴ‬
‫اور جس میں پروان چڑھنے والے میل مالپ کو صوفی سنتوں اور گروؤں نے باہمی‬
‫اشتراک عمل سے قائم کیا تھا لیکن دیکھتے ہی دیکھتے ناقاب ِل تنسیخ سمجھی جانے والی‬ ‫ِ‬
‫تہذیب پارہ پارہ ہو گئی۔ در و دیوار‪ ،‬کھیت کھلیان‪ ،‬زمین جائداد سے بھی ناتے ٹوٹ گئے۔‬
‫سانحہعظیم پر سبھی فنکار تلمال اُٹھے اور تقسیم کے سلگتے اور جان لیوا موضوع پر‬ ‫ٴ‬ ‫اس‬
‫تخلیقات کے انبار لگا دیے۔‬
‫منٹو جسے بات کو سلیقے سے کہنے اور کہانی بننے کا ہنرآتاہے‪ ،‬اسے انسان سے‬
‫ہی نہیں‪ ،‬زمین اور اس سے وابستہ یادوں سے بھی پیار ہے۔ اس کے اظہار کے لیے اس‬
‫نے منظر اور پس منظر دونوں کی آمیزش سے مذکورہ کہانی کے لیے انوکھی تکنیک کا‬
‫استعمال کیا ہے۔ اس تکنیک میں منطقی استدالل اور ربط و ضبط بھی ہے اور روایت سے‬
‫انحراف بھی۔ رمزیت‪ ،‬اشاریت اور عالمت بھی۔ چھوٹے چھوٹے جملوں میں حقیقت کی‬
‫اعلی درجے‬‫ٰ‬ ‫سنگالخی ‪ ،‬طنز کی تلخی اور مزاح کی چاشنی ہے۔ مکالمہ نگاری فطری اور‬
‫کی ہے۔اس کی جدت طرازی قاری کے ذہن کو طنزیہ اور استہزائیہ انداز میں جھنجھوڑ‬
‫دیتی ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ مذکورہ کہانی کو امتیازی حیثیت بھی بخش دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے‬
‫کہ آدھی صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود "ٹو بہ ٹیک سنگھ " کا سحر آج‬
‫بھی بر قرار ہے۔‬

‫خالصہ‬
‫"ٹو بہ ٹیک سنگھ " کا مطالعہ نہ صرف افسانہ نگار کی مضبوط فنّی گرفت کا پتہ دیتا‬
‫ہے بلکہ راوی کی نظری ترجیحات مثالً انسان دوستی اور سیاست سے باال تر زندگی کی‬
‫تفہیم کو بھی واضح کرتا ہے۔ اس افسانے میں منٹو نے مقام (جس کی نشان دہی افسانے‬
‫کے عنوان ٹو بہ ٹیک سنگھ ہی سے ہو جاتی ہے) کے حوالے سے انسان کی تہذیب‪،‬‬
‫شخصیت کی شکست و ریخت کی تجسیم کی ہے۔منٹو نے اس افسانے میں مقام کو نام‪ ،‬جو‬
‫ثقافتی تشخص کا عالمیہ ہوتا ہے‪ ،‬کہ موٹف کے طور پر استعمال کیا ہے۔ اس نوع کی‬
‫کار عمل کی حدوں سے‬ ‫تجزیہ ِ‬
‫ٴ‬ ‫مثالیں اردو افسانے میں شاذ ہی ملتی ہیں۔ پاگل آدمی‬
‫ماوراءہوتے ہیں مگر تقسیم کے سانحے نے اہ ِل دانش و بینش سے بھی ہوش و حواس‬
‫چھین لیے اور انھوں نے سیاسی قیدیوں کی طرح پاگلوں کے "جو مذہبی قیود سے آزاد‬
‫ہوتے ہیں" تبادلے کا منصوبہ بنایا۔ جائے واردات پاگل خانے کی وساطت سے منٹو نے‬
‫بٹوارے کی تاریخ کو نہایت سلیقے اور کما ِل ہُنر مندی سے پیش کیا ہے۔ واقعات کی پیش‬
‫کش اس قدر پُر کشش ہے کہ قاری کی توجہ آخر تک قائم رہتی ہے۔افسانہ نگار مکالموں‬
‫اور عمل کے توسط سے یہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ کون سا جنون تھا جس‬
‫کے باعث سیاست دانوں کی شاطرانہ چال کامیاب ہو گئی اور ملک ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔‬
‫ت لفظی سے کام لیتا ہے اور یہ‬ ‫منٹو کا یہ امتیازی وصف ہے کہ وہ تفصیل کے بجائے کفای ِ‬
‫نقطہعروج پر نظر آتی ہے۔‬
‫ٴ‬ ‫تکنیک" ٹو بہ ٹیک سنگھ "میں‬

You might also like