Professional Documents
Culture Documents
سبق'' امتحان کا تندیدی جائزہ‘‘
سبق'' امتحان کا تندیدی جائزہ‘‘
مرزا فرحت ہللا بیگ کی طنزو مزاح سے بھرپور تحریر ہے ۔جس میں آپ
موضوع تحریر بنایا ہے ۔جن کی زندگی مکمل طور پر
ِ نے طالب علموں کو اپنا
الپرواہی اور غیر سنجیدگی پر مبنی ہے ۔ا ُ ن کی زندگی کا نہ تو کوئی مقصد ہے
نہ ہی کوئی منزل ۔اُنکے غیر سنجیدہ پن کا یہ عالم ہے کہ وہ امتحان کی اصل
روح سے ہی ناواقف ہیں ۔ایسے طالب علم وقت کی اہمیت سے بھی ناآشنا ہیں وہ
اپنے سادہ لوح والدین کی سادگی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُن کو دھوکہ دے کر یہ
سمجھ بیٹھے ہیں کہ وہ کامیاب ہو گئے ہیں ۔لیکن کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر
لینے سے حملے کا خطرہ ٹل نہیں سکتا۔
مرزا صاحب نے اپنی مزاح نگاری کو مقصدیت کے تابع رکھا ۔وہ واقعات کاتذکرہ
کرتے ہوئے ان کی ظرافت اور شگفتہ بیانی ان میں میں بھی دلکش رنگ بھر
دیتی ہے۔وہ معامالت پہ گہری نظر ڈالتے ہوئے اس طرح اظہار خیال کرتے ہیں
کہ موضوع کی ثقالت ختم ہو جاتی ہے اور ایک زندگی کی اُمنگ پیدا ہو جاتی
ہے ۔
۔انداز بیان افسانوی
ِ مرزا صاحب کے اکثر مضامین کہانی کا رنگ لئے ہوئے ہیں
ہے جس کی وجہ سے قاری کی دلچسپی آخر تک برقرار رہتی ہے ۔انہیں داستان
سرائی کا بھی بہت شوق ہے ۔امتحان بھی ایک ایسا ہی مضمون ہے جو ایک کہانی
کے تقاضوں کو بہت عمدگی سے پورا کرتا ہے ۔اس میں والدین کو دھوکا دینے
والے طلبہ کا خوب مضحکہ اُڑایا گیا ہے ۔
یہ الفاظ دیکھئے :
سنیے کہ دو سال میں ’’ ال کالس‘‘ کا کورس پورا کیا مگر کس طرح؟ میری ُ
والد صاحب قبلہ خوش تھے کہ بیٹے کو قانون کا شوق ہو چال ہے‘‘
طلبہ کے فریب اور ریاکاری سے بیان سے وہ ایک طرف تو اپنےتجربے
اور مشاہدے کو سامنے التے ہیں ۔تو دوسری طرف والدین اور طلبہ کو آئینہ
دکھاتے ہیں ۔کہ کیسے نااہل ،کام چور اور نکمے افراد فرار کا راستہ نکالتے ہیں
۔والدین کو بھی احساس ہوتا ہے کہ کہاں ہماری طرف سے الپرواہی ہوتی ہے یا
کیسے پڑھنے والے بچوں پر نظر رکھی جا سکتی ہے ۔مرزافرحت ہللا بیگ اپنی
مضمون نویس اور مقصدیت کے تعلق پر خود بیان کرتے ہیں :
’’ مضامین لکھنے میں میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ پرانے مضمون جو
بزرگوں کی زبانی ہم تک پہنچے ہیں تحریر کی صورت میں آجائیں تاکہ فراموش
اصالح معاشرت کا پرچار کیا
ِ نہ کئے جا سکیں اور خوش مذاقی کے ساتھ ساتھ
جائے ‘‘۔
ہنسی ایک ذہنی کیفیت کا نام ہے ۔اگر دل و دماغ پر ایک انبساط کی کیفیت
چھا جائے اور کبھی کبھی لبوں پر ایک ہلکی سی مسکراہٹ کھل جائے ،ایک آدھ
بار قارئین پھول کی طرح کھل کر ہنس پڑیں تو ایسا مضمون خوش مذاقی کا
بہترین نمونہ ہو گا ۔ ’’ امتحان ‘‘میں یہ بھی خوبی موجود ہے ۔
یہ اقتباس دیکھئے :
’’میں ایک ذات شریف ہوں ،ایک بڑھیا اور ایک بوڑھے کو دھوکا دینا کیا
بڑی بات ہے،،
یوں فرحت مزاحیہ صورت حال کی ایسی خوبصورت عکاسی کرتے ہیں
کہ قاری کے ہونٹوں پر پہلے سی مسکان آتی ہے اور پڑھتے پڑھتے وہ
مسکرانا شروع کر دیتا ہے ۔
مرزا صاحب کی زبان میں ایک مخصوص چٹخارا ،ایک مخصوص چاشنی
ہے ۔ان کی بے ارادہ ظرافت کی آمیزش بھی ایک نمایاں خوبی ہے جو اس طرز
میں خود بخودپیدا ہو جاتی ہے ۔
’’گو یاد نہیں کیا تھا لیکن دو وجہ سے کامیابی کی اُمید تھی :اول تو ’’
امدادغیبی‘‘
اسی طرح یہ فقرے دیکھئے :
کی ’’ میں نے اپنے برابر والے سے پوچھنے کو کوشش
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔’’ جناب اپنے پرچے پر نظر رکھئے‘‘۔
امتحان میں کامیابی کے لئے محنت اور پڑھائی کے عالوہ طلبہ ناالئق طلبہ
ہر حربہ آزماتے ہیں ۔چاہے گارڈ سے مدد لینی ہو ،چاہے اردگرد کے طلبہ سے
اور یہاں تک کہ ممتحن سے بھی توقع لگائی جاتی ہے ،آدھے گھنٹے میں فارغ
ہو کر والد کو دکھانے کے لئے آخر تک بیٹھنا اور پھر سفارش کروانا ،یہ سب
پہلو فرحت ہللا بیگ نے نہایت دل پذیر انداز میں پیش کئے ہیں ۔ایسے لوگوں کے
پاس کوئی نہ کوئی بہانہ اور حیلہ ضرور ہوتا ہے جسے پیش کر کے یہ نجات
پاتے ہیں ،فرحت نے وہ بہانہ بھی بتایا ہے کہ چپڑاسی نے پرچے بدل دئیے ۔اتنے
گہرے مشاہدے پر حیرت بھی ہوتی ہے اور فرحت کی مہارت پر ہنسی کے ساتھ
ساتھ دل سے تعریف بھی نکلتی ہے ۔
مرزا صاحب کی ایک اور خوبی جزئیات نگاری بھی ہے۔ وہ جس موضوع
پر بھی قلم اٹھاتے ہیں اس کی چھوٹی چھوٹی جزئیات بھی قاری کے سامنے
رکھ دیتے ہیں۔ اس سے مضمون دلچسپ اور مفہوم واضح ہوجاتا ہے۔ ‘ ان
کی تحریر میں منفرد قسم کا لطیف مکالماتی تصادم دکھائی دیتا ہے۔
۔انداز بیان
ِ مرزا صاحب کے اکثر مضامین کہانی کا رنگ لئے ہوئے ہیں
افسانوی ہے جس کی وجہ سے قاری کی دلچسپی آخر تک برقرار رہتی ہے ۔انہیں
داستان سرا ئی کا بھی بہت شوق ہے ۔امتحان بھی ایک ایسا ہی مضمون ہے جو
ایک کہانی کے تقاضوں کو بہت عمدگی سے پورا کرتا ہے ۔اس میں والدین کو
دھوکا دینے والے طلبہ کا خوب مضحکہ اُڑایا گیا ہے ۔
یہ الفاظ دیکھئے :
سنیے کہ دو سال میں ’’ ال کالس‘‘ کا کورس پورا کیا مگر کس طرح ؛میری ُ
؟ شام کو یاروں کے ساتھ ٹہلنے نکلتا ۔واپسی کے وقت ’’ ال کالس‘‘ میں بھی
جھانک آتا ،،
مختلف تنقید نگاروں نےمرزا صاحب کی عظمت کا اعتراف کیا ہے ۔
مرزا صاحب کی ایک اور خوبی ُجزئیات نگاری ہے ۔وہ جس موضوع پر
بھی قلم اُٹھاتے ہیں اس کی چھوٹی چھوٹی ُجزئیات بھی قاری کے سامنے رکھ
دیتے ہیں ۔اس سے مضمون دلچسپ اور مفہوم واضح ہو جاتا ہے ۔’’ امتحان ‘‘ میں
بھی وہ چھوٹی چھوٹی تفصیالت کے ذریعے ایک تصویر کشی بھی کرتے ہیں
۔اور مزاح نگاری بھی ۔ ایسے میں صورت ھال نہایت دلکش ہو جاتی ہے ۔
یہ اقتباس دیکھے:
’’پونے دس بجے گھنٹی بجی اور ہم بسم ہللا کہہ کر کمرے میں داخل ہو ئے
۔یہاں ایک بہت ہی خلیق اور ہنس مکھ نگران کار تھے ۔ ُمجھے جگہ نہ ملتی تھی
،میں نے ان سے کہا وہ میرے ساتھ ہو لئے ۔جگہ بتائی اور بڑی دیر تک ہنس
ہنس کر باتیں کرتے رہے ۔
دہلی سے دیرینہ تعلق کی بناء پر ان کی زبان میں ٹکسالی زبان کا چٹخارا
آگیا ۔ مزاح نگاری میں فرحت کی کامیابی کا ضامن ان کی دلکش زبان ہے ۔فرحت
کی زبان نرم و نازک تھی جیسے ریشم ۔لطیف تھی ۔جیسے شبنم ،سبک تھی
،جیسے پھول کی کلی ۔جیسے مصری کی ڈلی۔مختصر جملے ۔موزوں الفاظ ،خوش
آہنگ لب ولہجہ ،محاورات کو بر محل استعمال ،نامانوس الفاظ سے گریز ۔
’’امداد غیبی ،سے مراد امیدواران امتحان کی اصطالح میں وہ مدد ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پرچہ بدل دیتے ہیں ‘‘۔
فرحت کا کوئی مضمون محاورہ بندی سے خالی نہیں ۔حد یہ کہ اُردو کے
ساتھ ساتھ فارسی کے محاورے بھی استعمال کر جاتے ہیں ۔لیکن سلیقے سے ۔نثر
میں محاورات کا استعمال عیب نہیں ۔یہ زبان کی دلکشی اور چاشنی کا باعث ہوتے
سبک محاورے استعمال کئے جائیں ہیں اور تہذیب کی عالمت ہیں ۔البتہ رکیک اور ُ
تو مضمون کا لطف ختم ہو جاتا ہے۔اور یہ خوبی کی بجائے عیب بن جاتا ہے ۔
یہاں فارسی کی مثالیں دیکھئے۔
مرزا صاحب کی ظرافت بہت ہی لطیف قسم کی ہوتی ہے ۔قہقے کا موقع کم
ملتا ہے ۔ البتہ زیر لب تبسم کی کیفیت ضرور ملتی ہے ۔فرحت واقعہ،کردار اور
موازنے وغیرہ سے تبسم کی تحریک دیتے ہیں ۔الفاظ و جملوں کو ایسی شگفتگی
و دلکشی سے پیش کرتے ہیں کہ دل و دماغ ایک انبساطی کیفیت میں ڈوب جاتا
۔اعلی مزاح نگاری کااصل کمال
ٰ ہےاور ہونٹوں پر تبسم خود ہی پھیلتا چال جاتا ہے
اور وصف یہی ہے ۔ ان کے ہاں طنز کا عنصر بہت کم ہے ۔وہ خوش مزاقی اور
لطیف ظرافت کے قائل تھے ۔ان کے مضامین میں سنجیدگی اور ظرافت کا
فنکارانہ امتزاج پایا جاتا ہے البتہ ان کے مضمون نئی اور پرانی تہذیب کی ٹکر
میں طنز کا پیرائیہ صاف نظر آتا ہے ۔ان کی ظرافت بناوٹ سے پاک ہوتی ہے ۔
’’ یہ عجیب درخواست ہے ان کا بیٹا تو امتحان دے اور کوشش میں کروں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باقی تو صفر ہی ڈاال ہے ‘‘۔
اسی لئے مولوی عبدا لحق کہتے ہیں کہ مرزا صاحب کا بیان بہت سادہ ودل
آویزہے جس میں تصنع نام کو نہیں ۔مرزا فرحت ہللا بیگ اپنے فن کے خود
بھی شناسا تھے ۔
اعلی
ٰ مختصر یہ کہ فرحت ہللا بیگ کی تحریروں میں شائستہ تہذیب اور
ظرافت کے نوادرات کو محفوظ کرنے کی پُر خلوص کا وشیں ہیں ۔ اور یہی ان
کا نئی نسل پر احسان عظیم ہے ۔