Download as txt, pdf, or txt
Download as txt, pdf, or txt
You are on page 1of 50

‫*🛑رد الحاد کورس🛑* ‪[11/26, 9:59 AM] +92 332 9407835:‬‬

‫*الحاد_اسباب وحل‪*📌 12:‬‬


‫ِبْس ِم الّٰل ِِه الَّرْح َمِن الَّر ِح ْيم‬
‫*باب نمبر‪*🛑12:‬‬
‫*سبق نمبر‪:1‬اسالم دین فطرت ہے تو لوگ کیوں ملحد ہو رہے ہیں؟*‬

‫سوال‪ :‬ہم نے یہ کتابوں میں پڑھا کہ اسالم ایک فطری مذہب ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ وہ ہر زمانے کے تقاضوں کو پورا‬
‫کرنے کی صالحیت رکھتا ہے مگر اس کے برعکس ہم یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ دور میں انسان کی جو فطرت ہے وہ اسالم‬
‫سے ہٹ اور لوگ اسالم سے ہٹ گئے ہیں۔‬
‫جواب‪ :‬دیکھئے! جس چیز کا نام انسان کی فطرت ہے وہ زمانے کے بدلنے سے بدال نہیں کرتی وہ ہمیشہ ایک ہی ہے۔ ٓاپ کے‬
‫ذہن میں جو ُالجھن ہے وہ دراصل فطرت کا صحیح مفہوم واضح نہ ہونے کی بناء پر ہے اس لئے پہلے یہ سمجھ لیجئے کہ‬
‫’’فطرت‘‘ کسے کہتے ہیں؟ یہ دراصل عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ہیں‪ :‬پیدائش‪ ،‬پیدا کرنا‪ ،‬اور انسان کی کسی‬
‫چیز کے فطری ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب اﷲ تعالٰی نے انسان کو پیدا کیا تو جو جو چیزیں اس کی سرشت میں اس‬
‫طرح داخل فرمادیں کہ وہ کسی بھی حالت میں اس سے الگ نہ ہوسکیں وہ اس کے فطری ُامور ہیں اور اسالم کے فطری دین‬
‫ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے جتنے عقائد ہیں‪ ،‬جتنی تعلیمات ہیں جتنے احکام ہیں وہ سارے کے سارے انسانی فطرت کے‬
‫مطابق ہیں اور کوئی حکم بھی ایسا نہیں جو انسان کے فطری تقاضوں کی بالکلیہ نفی کرتا ہو۔ بلکہ اس کے تمام احکام میں‬
‫انسانی فطرت کی پوری رعایت موجود ہے۔ مثًال یہ انسان کی فطرت کا تقاضا ہے کہ اسے بھوک لگتی ہے‪ ،‬پیاس لگتی ہے وہ‬
‫فطرتًا دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہتا ہے اور خاندانی نظام سے مربوط رہ کر زندگی گزارنا اس کا فطری تقاضا ہے‪،‬‬
‫چنانچہ اسالم نے جتنے احکام دیئے وہ اس کے ان فطری ُامور کو مدنظر رکھ کر دیئے اور کوئی حکم ایسا نہیں دیا جو اس کے‬
‫فطری تقاضوں کو بالکلیہ دبا کر رکھ دے۔‬
‫اس کے برعکس عیسائیت کو دیکھئے کہ اس میں ’’رہبانیت‘‘ کو قرب خداوندی کا ذریعہ بتایا گیا‪ ،‬جس کا مطلب یہ ہے کہ‬
‫جب تک بیوی بچوں‪ ،‬گھر بار اور معاشی کاروبار کو چھوڑ کر جنگل میں نہ جا بیٹھوگے اس وقت تک خدا کی خوشنودی نہیں‬
‫مل سکتی اس حکم پر انسان اس وقت تک عمل نہیں کرسکتا جب تک وہ اپنے فطری تقاضوں کو بالکل کچل کر نہ رکھ دے۔‬
‫اسالم نے ایسا کوئی حکم نہیں دیا۔‬
‫سوال‪ :‬موالنا! لیکن موجودہ دور کے انسان کی فطرت تو بظاہر اسالم کے بہت سے احکام سے ہٹی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔‬
‫جواب‪ :‬میں اسی بات کو واضح کرنا چاہتا ہوں اور ابھی میری بات پوری نہیں ہوئی کہ فطرت تو زمانے کے بدلنے سے بدل ہی‬
‫نہیں سکتی ٓاپ کسی چیز کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ پہلے زمانے میں تو انسانی فطرت تھی‪ ،‬مگر ٓاج نہیں رہی۔‬
‫کیونکہ انسانی طبیعت کا جو تقاضا زمانے کے بدلنے سے بدل جائے وہ اس کا فطری تقاضا ہوہی نہیں سکتا۔ بلکہ دراصل دو قسم‬
‫کی غلط فہمیاں ہوتی ہیں جن سے انسان فطرت کو بدال ہوا محسوس کرتا ہے‪ ،‬بعض اوقات تو وہ فطرت کے غلط معنی سمجھ کر‬
‫اپنی بعض عادتوں کو فطرت قرار دے لیتا ہے‪ ،‬حاالنکہ عادت اور فطرت میں بڑا فرق ہے‪ ،‬دوسرے بعض اوقات انسان کا فطری‬
‫تقاضا تو ایک ہوتا ہے لیکن جب انسان اپنے ماحول سے یا فطرت کے خالف متواتر عمل سے بری طرح متاثر ہوجاتا ہے تو اس‬
‫کا وہ فطری تقاضا مغلوب ہوجاتا ہے اور اس کو یہ غلط فہمی لگ جاتی ہے کہ وہ فطرت کا تقاضا نہیں۔ چنانچہ حدیث میں ہے‬
‫کہ ہر بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو وہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے والدین (یعنی ماحول) اسے یہودی‪ ،‬نصرانی یا‬
‫مجوسی بنادیتا ہے۔‬
‫اس کی مثال یوں سمجھئے جیسے کوئی انسان پیدا ہوتے ہیں کسی جنگل میں چھوڑ دیا جائے اور وہ جانوروں ہی کی سی عادتیں‬
‫سیکھ لے اور انہی کے طور طریق اپنالے تو وہ انسانوں سے متنفر اور جانورں سے مانوس ہوجائے گا‪ ،‬اور تاریخ میں ایسے‬
‫انسانوں کی مثالیں موجود ہیں کہ وہ جنگل کی زندگی کے اتنے عادی ہوگئے کہ انسانوں اور ان کی بستیوں سے بھاگتے تھے۔‬
‫ظاہر ہے کہ اس کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ان کی فطرت بدل گئی اور بستی کے بجائے جنگل اور انسانوں کے بجائے‬
‫جانوروں سے محبت ان کی فطرت بن گئی‪ ،‬بلکہ درحقیقت انسان ہونے کی حیثیت سے ان کی فطرت اب بھی وہی ہے البتہ ماحول‬
‫کے متواتر اثرات نے فطرت کو مغلوب کرکے رکھ دیا۔‬
‫ایک اور مثال لیجئے! انسان کی فطرت یہ ہے کہ وہ رات کو سوئے اور صبح سویرے بیدار ہو‪ ،‬چنانچہ عام طور سے نومولود‬
‫بچوں کو ٓاپ نے دیکھا ہوگا کہ وہ کسی تربیت کے بغیر صبح سویرے بیدار ہوتے ہیں۔ لیکن اگر ماحول سے عادت اس کے‬
‫خالف پڑی ہوئی ہو تو رفتہ رفتہ ان کی عادت بدل جاتی ہے اور فطری تقاضا مغلوب ہوجاتا ہے‪ ،‬وہ بھی دیر سے ُاٹھنے لگتے‬
‫ہیں۔‬
‫سوال‪ :‬موالنا! یہاں ایک سوال یہ ہوسکتا ہے کہ اگر ایک شخص کی باڈی کنڈیشن اس قسم کی ہو کہ وہ رات کو دو بجے‬
‫سوئے اور دن کے ٓاٹھ بجے ُاٹھے‪ ،‬اب اس عمل کے دوران اس کی نماز المحالہ قضا ہوگی‪ ،‬وہ کیا کرے؟‬
‫جواب‪ :‬یہ سوال قدرے غیر متعلق ہے اور میں نہیں سمجھتا کہ کسی شخص کی باڈی کنڈیشن مستقل طور اس قسم کی ہوسکتی‬
‫ہے ہاں اگر کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے وہ معذور ہو اور اپنی تمام ممکنہ کوششوں کے باوجود وہ صبح کو سویرے نہیں‬
‫ُاٹھ سکتا تو جب تک یہ معذوری باقی ہے اسالم کا حکم یہ ہوگا کہ جب بھی بیدار ہوجائو اسی وقت نماز پڑھ لو‪ ،‬لیکن تمام‬
‫حاالت میں سویرے ُاٹھنے کی عادت ڈالو۔‬
‫سوال‪ :‬مگر موالنا سوال یہ تھا کہ ایک شخص کی فطرت ہی یہ ہوگئی کہ وہ دیر سے ُاٹھے پھر اسے جلدی بیدار ہونے کا حکم‬
‫دینا خالِف فطرت کیوں نہیں ہوا؟‬
‫جواب‪ :‬یہاں ٓاپ پھر ’’فطرت‘‘ اور ’’عادت‘‘ کو خلط ملط کر رہے ہیں میں اس کو دوسری طرح واضح کردوں۔ فطرت‬
‫اس کی سرشت میں داخل ہوئی‪ ،‬یہ تقاضے تمام )‪ (Human Race‬انسان کے ان تقاضوں کو کہتے ہیں جو بحیثیت نسل انسانی‬
‫)‪ (Habit‬انسان میں یکساں ہوتے ہیں بدلتے نہیں۔ دوسری ایک چیز ہے جسے عادت کہتے ہیں اور جسے ٓاپ انگریزی میں‬
‫کہتے ہیں وہ مختلف انسانوں کی مختلف ہوسکتی ہے اور اس میں تبدیلی بھی ممکن ہے اور اسالم نے یہ دعوٰی کبھی نہیں کیا کہ‬
‫وہ ہر انسان کی ہر عادت کے مطابق ہوگا لٰہ ذا جو شخص دیر سے ُاٹھنے کا عادی ہے اگر وہ کسی ناگزیر مجبوری کی وجہ‬
‫سے ایسا کررہا ہے تو اس کی عادت فطرت انسانی کے خالف ہے جسے بدلنا چاہیے۔‬
‫سوال‪ :‬موالنا! یہ بات تو سمجھ میں ٓاگئی لیکن اب ایک سوال ذہن میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اسالم فطری دین ہے تو اس کے‬
‫بعض احکام پر عمل کرنے میں دشواری کیوں معلوم ہوتی ہے؟‬
‫جواب‪ :‬دیکھئے! کسی فطری کام کے لئے یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ اس میں ذرہ برابر کوئی دشواری نہ ہو۔ مثال کے طور‬
‫پر کمانا جو ہے وہ بھی انسان کی فطرت کا ایک تقاضا ہے کہ وہ اپنی مادی ضروریات کو حاصل کرے مگر اس مادی ضرورت‬
‫کو حاصل کرنے کے لئے کچھ محنت کرنا پڑے گی‪ ،‬کچھ مشقت ُاٹھانا پڑے گی۔ تو اس تکلیف اور مشقت کی وجہ سے یہ نہیں‬
‫کہا جائے گا کہ یہ عمل فطرت کے خالف ہے تو جو چیز فطرت کے مطابق ہوتی ہے خود اس کے حصول کے لئے بعض‬
‫اوقات کچھ محنت اور مشقت کرنا پڑتی ہے تو اس کی پریکٹس کرنے میں متعلقہ دشواری بھی ہوتی ہے یہ دشواری فطرت کے‬
‫خالف نہیں‪ ،‬ہاں ایسی دشواری جو انسان کے لئے ناقابل برداشت ہو اور جس کو انسان اختیار نہ کرسکے اس کی طاقت سے باہر‬
‫ہو تو اگر ایسی دشواری ہو تو کہا جائے گا کہ یہ اس کی فطرت کے خالف دشواری ہے تو ایسی دشواری اسالم کے اندر‬
‫دیکھنے میں نہیں ٓاتی۔ اسالم نے جو احکام دیئے ہیں ان میں بعض اوقات تھوڑی بہت تکلیف بھی ہوگی‪ ،‬تھوڑی بہت محنت اور‬
‫مشقت بھی برداشت کرنا پڑے گی۔ لیکن وہ محنت بذاِت خود فطرت کا ایک جزء ہے اور اگر اس محنت کو انسان کی فطرت سے‬
‫نکال دیا جائے تو انسان کچھ رہے گا ہی نہیں۔ البتہ محنت برداشت سے باہر نہیں ہوتی اور معمولی توجہ اور عادت ڈالنے سے‬
‫ٓاسان ہوجاتی ہے اس کے عالوہ غلطی کرنا بھی انسان کی فطرت میں ہے چنانچہ اسالم نے اس کی رعایت کی ہے کہ جب غلطی‬
‫ہوجائے توبہ کرلو کوئی گرفت نہ ہوگی۔‬
‫سوال‪ :‬ایک چیز ہے موالنا صاحب! اگر ٓاپ نے جو تعلیم حاصل کی ریسرچ کیا اور خود بھی عمل کیا‪ ،‬اسالم کو فطری مذہب‬
‫کے لحاظ سے پرکھا۔ اگر ٓاپ کے فطرے تقاضوں کو سامنے رکھا جائے اور باقی تمام مذاہب کو سامنے رکھا جائے تو کیا ٓاپ‬
‫کے لحاظ سے جو چیزیں فطرت کے عین مطابق ہیں وہ چیزیں دوسرے مذاہب میں نہیں پائی جاتیں اگر پائی جاتی ہیں تو وہ بھی‬
‫فطری مذہب ہوئے۔‬
‫جواب‪ :‬یہ بڑا اچھا سوال ٓاپ نے کیا۔ اصل میں فطری مذہب ہونے کا مطلب میں ٓاپ کو پہلے بتا چکا ہوں کہ اس کا کوئی حکم‬
‫ایسا نہ ہو اس کا کوئی عقیدہ ایسا نہ ہو جو انسان کی فطری تقاضوں کے خالف ہو اور انسان کے فطری تقاضوں کو ختم کرتا‬
‫ہو۔ اب اگر فرض کیجئے کہ کوئی مذہب اپنایا جاتا ہے کہ جس کے بعض احکام ایسے ہیں جو انسان کی فطرت کے مطابق ہیں‬
‫لیکن بعض احکام ایسے ہیں جو انسان کی فطرت کے خالف ہیں تو پھر اس مذہب کو فطری نہیں کہا جائے گا مثال کے طور پر‬
‫عیسائیت کے لے لیجئے کہ اس کے بہت سے احکام ایسے ہیں جو انسان کی فطرت کے مطابق ہیں۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ اس کا‬
‫ہر حکم انسان کی فطرت کے خالف ہے لیکن بعض احکام ایسے ہیں جو فطرت کے خالف ہیں مثًال یہی کہ جتنا دنیا سے کٹ‬
‫کر رہو گے جنگل میں جاکر بیٹھ جائو‪ ،‬کھانا کمانا چھوڑ دو‪ ،‬رہبانیت اختیار کرو تو اس کے بغیر خدا کا قرب حاصل نہیں‬
‫ہوسکتا۔ تو یہ انسان کی فطرت کے خالف ہے۔ (قطع کالمی معاف) عیسائی مذہب تو ویسے بھی ابھی نامکمل ہے۔ کیوں کہ انھوں‬
‫نے دوسری دفعہ تشریف النا ہے اس لیے ابھی تک مکمل نہیں ہوا؟‬
‫جواب‪ :‬اس کے عالوہ یہ کہ انسان کا یہ فطری حق ہے کہ جس بات پر وہ عقیدہ رکھے وہ عقل کے خالف نہیںہونا چاہیے لیکن‬
‫عیسائیت ٓاپ دیکھیں کہ ان کا سب سے بنیادی عقیدہ یہ ہے تین ایک کا اس پر اگر کہا جائے کہ عقل سے سمجھا جائے کہ تین‬
‫اور ایک کیسے ایک ہوسکتے ہیں تین تو تین اور ایک تو ایک ہے تو وہ اس کا جواب نہیں دیتے کہ یہ ایک سربستہ راز ہے‬
‫خدائی راز ہے اس کے اندر ہمیں سوچنے کی گنجایش نہیں عقل کا دروازہ وہاں پر بند ہے میں یہ نہیں کہتا کہ انسان کو اپنی‬
‫زندگی کے ہر معاملے میں عقل سے رہنمائی مل سکتی ہے۔ میں اس کے بہت خالف ہوں کہ ہر انسان کو ہر معاملہ میں عقل‬
‫سے رہنمائی مل سکتی ہے لیکن یہ کہ اس کے جو بنیادی عقائد ہیں جس کے اوپراس کی زندگی کی عمارت کھڑی ہوگی ان‬
‫بنیادی عقائد کے بارے میں اس کا فطری حق ہیکہ وہ اپنی عقل سے اس کو صحیح سمجھے اور اس کو عقل کے مطابق ثابت‬
‫کرسکے۔‬
‫سوال‪ :‬ایک چیز ہے موالنا صاحب ٓاپ نے یہ جو کہا کہ عقل کی رہنمائی کوئی ضروری نہیں کہ ہر معاملہ میں ملے تو اگر‬
‫عقل کی رہنمائی نہیں مل سکتی تو معلوم ہوا کہ وہ غیر فطری چیز ہے۔ کیوں کہ عقل اور فطرت میرے خیال سے دونوں الزم و‬
‫ملزم چیز ہیں۔‬
‫جواب‪ :‬نہیں یہ بہت اچھا سوال ہے میں اس کو ذرا تفصیل سے بیان کروں گا اور اس کو ذرا سمجھنے کی ضرورت ہے اور‬
‫بہت ٹھنڈے دل سے کہ عقل اور فطرت دونوں ایک نہیں ہیں دونوں میں زمین و ٓاسمان کا فرق ہے۔ بلکہ انسان کی فطرت یہ‬
‫چاہتی ہے کہ وہ ہر معاملہ میں عقل کی پیروی نہ کرے ہر معاملے میں عقل کے پیچھے نہ پڑے یہ بات ٓاپ کو شاید ہی معلوم‬
‫ہو۔ مگر میں اس کی تشریح کرتا ہوں۔ دیکھئے ان کے پاس علم کے جتنے بھی ذرایع ہیں وہ مختلف قسم کے ہیں۔ مثًال ایک علم‬
‫کا ذریعہ جو اس خمسہ میں پانچ حواس ٓانکھ سیکان ہے ناک ہے ہاتھ ہے وغیرہ اس کے ذریعہ ہم معلوم کرلیتے ہیں ٓانکھ سے‬
‫دیکھ کر کان سے سن کر ناک سے سونگھ کر ہاتھ سے چھو کر معلوم کرلی۔ حواس خمسہ کا ایک مخصوص دایرہ ہے اور اس‬
‫میں ہر ایک کی تقسیم کار ہے۔ اور ہر ایک کے کام بھی دوسرے سے مختلف ہیں۔ ٓانکھ دیکھ سکتی ہے سن نہیں سکتی۔ کان سن‬
‫سکتا ہے دیکھ نہیں سکتا ۔ ہاتھ چھو سکتا ہے مگر اس سے چل نہیں سکتے۔ تو ان حواس کے مخصوص دائرے ہیں کہ جس‬
‫کے اندر وہ کام کرتے ہیں۔ اس دائرے سے باہر وہ کام نہیں کرتے۔ پھر ان حواس خمسہ مجموعہ کا بھی ایک دائرہ ہے کہ اس‬
‫سے ٓاگے چل کر وہ خواس خمسہ کام نہیں دیں گے مثًال یہ کہ اب میں ٓانکھ سے دیوار تک دیکھ سکتا ہوں دیوار کے پار میں‬
‫ان حواس خمسہ کام نہیںلے سکتا۔ لیکن ان حواس خمسہ کے دائرے سے ٓاگے کیے ہمیں ایک ذریعہ علم دیا گیا۔ اور وہ ہے عقل‬
‫کہ جب ہمیں یہ دروازہ نظر ٓارہا ہے تو الزم ہماری عقل یہ رہنمائی کرے گی کہ اس دیوار کے ادھر کوئی جگہ موجود ہے‬
‫کوئی زمین ہے کوئی کمرہ ہے کوئی صحن ہے اگرچہ ہم حواس سے وہ چیز معلوم نہیں کرسکتے۔ تو جہاں حواس خمسہ کا دائرہ‬
‫ختم ہوتا ہے وہاں سے عقل کا دائر شروع ہوتا ہے۔‬
‫سوال‪ :‬نہیں موالنا صاحب! ایک بات سنیں ٓاپ نے ابھی کہا کہ ہمیں کسی چیز کو سمجھنے کے لیے عقل کی ضرورت نہیں۔‬
‫جواب‪ :‬نہیں میں نے یہ بھی نہیں کہا۔ میں اپنی پوری بات واضح کردوں پھر ٓاپ کہیں یعنی میں نے یہ عرض نہیں کیا کہ انسان‬
‫کو سمجھنے کے لیے عقل کی ضرورت نہیں۔ نہ میں نے یہ کہا کہ حواس خمسہ کی ان سب میں سے کوئی بات نہیں ہیں یہ‬
‫کہنا چاہتا ہوں کہ علم جو انسان کو حاصل ہوتا ہے علم نہ صرف حواس خمسہ سے حاصل ہوتا ہے نہ صرف عقل سے حاصل‬
‫ہوسکتا ہے یعنی اگر کوئی شخص یہ دعوٰی کرلے جتنا بھی علم مجھے حاصل ہوگا وہ سارا عقل کی بنیاد پر ہوگا۔ تو وہ بھی‬
‫غلط ہے اگر کوئی شخص یہ دعوٰی کرے کہ جتنا بھی علم مجھے حاصل ہوگا وہ صرف حواس خمسہ کی بناء پر حاصل ہوگا۔ تو‬
‫یہ بھی غلط ہے بلکہ علم کے مختلف ذرایع انسان کے پاس ہیں۔ ایک ذریعہ حواس خمسہ ہیں کچھ باتیں ہمیں حواس خمسہ سے‬
‫حاصل ہو تیہیں لیکن یہ حواس خمسہ سے جو باتیں حاصل ہوتی ہیں ان کا ایک محدود دائرہ ہے اس کے اندر وہ ہماری رہنمائی‬
‫کرتے ہیں۔ اور ہمیں علم بخشتے ہیں۔ اس دائرے سے باہر جاکر حواس خمسہ ہمیں کام نہیں دیتے وہاں ہمیں ضرورت پڑتی ہے‬
‫عقل کی۔ جہاں حواس خمسہ ختم ہوجاتے ہیں وہاں ہمیں عقل کی ضرورت پڑتی ہے۔ اور ہم عقل سے بہت سی چیزیں معلوم کرتے‬
‫ہیں۔ جو حواس خمسہ سے نہیںمعلوم کرسکتے تو عقل اس جگہ پر کام دیتی ہے جہاں حواس خمسہ کام کرتاچھوڑ دیتے ہیں‪ ،‬لیکن‬
‫اب عقل کے ذریعہ ٓاپ حواس خمسہ کی چیزیں معلوم کرنا چاہیں تو یہ نہیں ہوسکتا۔‬
‫سوال‪ :‬یہ بات واضح نہ ہوسکی؟‬
‫جواب‪ :‬مثًال میں بتأوں! یہ شربت ہے یہ سرخ رنگ کا ہے یہ علم ہمیں حاصل ہوا تو کس چیز سے حاصل ہوا ٓانکھ کے ذریعہ‬
‫شربت کی سرخی کا علم ہوا۔ اب اگر کوئی شخص کہے کہ ٓانکھ تو کرلو بند اور اب عقل سے بتأو کہ اس کا رنگ سرخ ہے یا‬
‫سبز ہے‪ٓ ،‬انکھ تو بند کرلیں اور صرف عقل سے اس کا رنگ معلوم کرنا چاہیں تو کبھی معلوم نہیں ہوسکتا۔‬
‫تو اس سے معلوم ہوا کہ ہر چیز کا علم عقل سے نہیں ہوسکتا بلکہ سب سے قریب ترین ذریعہ حواس ہے اس کے بعد دوسرا‬
‫ذریعہ انسان کے پاس عقل ہے۔ جہاں عقل اور حواس خمسہ میں تضاد ہوجائے کہ حواس خمسہ ایک بات کہہ رہے ہیں اور عقل‬
‫دوسری بات تو اس وقت ٓاپ کیا کریں گے؟‬
‫سوال‪ :‬یہ غیر فطری عمل ہے۔‬
‫جواب‪ :‬تو ظاہر ہے کہ عقل نے جو نتیجہ نکاال وہ صحیح نہیں کیوں کہ حواس خمسہ جو علم دے رہے ہیں۔ وہ زیادہ یقینی ہے‬
‫تو جہاں پر عقلوں میں لوگوں کے درمیان تفاوت ہوجاتا ہے کہ ایک شخص نے ایک نتیجہ نکاال اور دوسرے نے دوسرا نتیجہ تو‬
‫اب جس نتیجہ کی حواس خمسہ تائید کرتے ہوں گے اس کو قبول کرلیا جائے گا۔ اور جس کی مخالفت کرتے ہوں گے اس کو رّد‬
‫کردیا جائے گا‪ ،‬لیکن حواس خمسہ کی رہنمائی جس طرح محدود ہے اسی طرح عقل کی رہنمائی بھی محدود ہے کہ وہ بھی ایک‬
‫جگہ پر جاکر رک جاتی ہے۔ اور اس کا دائرہ ختم ہوجاتا ہے۔ وہاں دائرہ شروع ہوتا ہے وحی کا یعنی اللہ تعالٰی کی طرف سے‬
‫دی ہوئی ہدایت کا۔ جو کہ انبیاء کرام کے ذریعہ دی جاتی ہے تو یہ دائرہ جو شروع ہوتا ہے وہاں سے جہاں سے عقل کی‬
‫پرواز ختم ہوجاتی ہے اور عقل کی پرواز ختم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہم نری اور صرف عقل کی بنیاد پر اس چیز کا ادراک‬
‫نہیں کرسکتے۔ وہ ہمیں وحی کے ذریعہ بتائی جاتی ہے۔‬
‫سوال‪ :‬اگر وہ حکم عقل کی سوچ کی بناء پر واضح ہو مگر وحی کا حکم اس سے بالکل متضاد ہو۔ اس وقت کیا کریں گے؟‬
‫جواب‪ :‬وہ وحی نہیں ہوگی بلکہ کچھ اور ہوگا جس طرح میں نے بتایا کہ حواس خمسہ کے خالف عقل کہہ رہی ہو تو ٓاپ عقل‬
‫کو چھوڑ دیں گے۔ کہیں گے کہ یہ عقل کا تقاضہ نہیں ہے۔ غلط نتیجہ نکاال۔ اسی طرح کوئی وحی کے نام سے ایسی بات پیش‬
‫کرتا ہے جو عقل کے خالف ہے تو عقل کے خالف ہونے کی وجہ سے کہا جائے گا کہ وہ وحی ہے ہی نہیں وہ تو کچھ اور‬
‫ہوگا جیسے کہ ابھی میں نے پہلے عرض کیا کہ تین ایک اور ایک تین گویا معمہ ہے کہ کہا جائے کہ تین کو ایک مان لیا اور‬
‫ایک کو تین مانے کھلی ہوئی عقل کے خالف ہے کوئی بھی عقل قبول نہیں کرسکتی۔ اس لیے کوئی یہ کہے کہ یہ وحی ہے تو‬
‫وہ غلط کہتا ہے۔‬
‫لیکن ایک بات یاد رکھیے اور وہ یہ کہ وحی عقل کے خالف تو نہیں ہوسکتی مگر یہی چیزوں پر مشتمل ہوسکتی ہے جو عقل‬
‫کی پرواز سے باہر ہو وہ دو چیزوں میں فرق ہوتا ہے۔ ایک تو ہوتا ہے عقل کے خالف ہونا اور ایک ہوتا ہے ماورائے عقل۔‬
‫دراصل دونوں میں خلط ملط کرنے سے ایک بہت بڑی غلط فہمی ہوتی ہے‪ ،‬عقل کے خالف اس چیز کو کہیں گے کہ اس کے‬
‫اتنے سے کوئی عقلی محال الزم ٓاجائے اور عقل اس کے باطل ہونے پر دلیل دیتی ہو۔ اس کو خالف عقل کہتے ہیں انگریزی میں‬
‫کہتے ہیں اور ایک ہوتا ہے‪ ،‬ماورائے عقل یعنی عقل کے پاس اس کے باطل کرنے کی کوئی دلیل نہیں ہے‪Impossible ،‬‬
‫لیکن اس کو ثابت کرنے کے لیے بھی کوئی دلیل نہیں ہے اور اس کو اس کی نظیر نہیں ملتی‪ ،‬اس لیے اس کووہ اجنبی چیز‬
‫کہہ سکتے ہیں‪ ،‬چوں کہ عقل کو اس بات پر تجربہ ‪ Improbable‬محسوس ہوتی ہے اور حیرت انگیر بات لگتی ہے جسے ٓاپ‬
‫نہیں ہوتا۔ اس واسطہ اس کو عجیب سے معلوم ہوتی ہے‪ ،‬اس لیے نہ اس کے پاس اس کے اثبات کا ذریعہ تو دونوں میں بہت‬
‫الگ۔ اب یہ ہوتا ہے کہ وحی کی طرف سے کوئی ایسی بات تو نہیں کہہ ‪ Improbable‬الگ اور ‪ Impossible‬فرق ہے‬
‫ہو یعنی عقل کی دلیل کے خالف لیکن ایسا ہوسکتا ہے کہ وحی مبین کوئی ایسی بات ہو جو ‪ Impossible‬جاسکتی جو کہ‬
‫یعنی عقل کی پرواز سے اوپر ہو اور وہ بالکل عین فطری بات ہے جس طرح پر کہ میں نے کہا کہ حواس ‪Improbable‬کہ‬
‫خمسہ کے دائرہ کے بعد عقل کا دائرہ شروع ہوتا ہے کہ جس چیز کا حواس خمسہ ادراک نہیں کرسکتے‪ ،‬عقل اس کا ادراک‬
‫کرسکتی ہے تو اسی طرح جس چیز کا عقل ادراک نہیں کرسکتی‪ ،‬اور اس کا دائرہ وہاں تک نہیں پہنچ سکتا‪ ،‬وہاں عقل سے نہیں‬
‫پہنچا جاسکتا ہے اور وحی اس کا علم عطا کرتی ہے‪ ،‬اگرچہ وہ بعض اوقات اچنبھی معلوم ہوتی ہے‪ ،‬بعض اوقات حیرت انگیز‬
‫معلوم ہوتی ہے اور بعض اوقات اجنبی سی لگتی ہے۔‬
‫مثال کے طور پر وحی نے ہمیں بتایا کہ اوپر ٓاسمان ہے اب ہمارے حواس خمسہ تو ٓاسمان کو نہیں دیکھتے اور عقل اس تک‬
‫نہیں پہنچتی‪ ،‬ہمیں جو نظر ٓارہا ہے یہ تو ٓاسمان نہیں ہے۔ ظاہر ہے یہ جدنگاہ ہے جو ہمیں نیال نیال نظر ٓاتا ہے تو اس واسطے‬
‫موجودہ بہت سے سائنس دان یہ کہتے ہیں کہ ٓاسمان ہے ہی نہیں جو یہ کہہ دیتے ہیں کہ ٓاسمان کا وجود نہیں ہے تو یہ بات‬
‫نہیں ہے کہ ٓاسمان کے نہ ہونے کے وجود پر کوئی دلیل قائم ہوگئی ہے کہ یعنی دلیل ان کو مل گئی ہے جس کی بناء پر وہ‬
‫ثابت نہیں ہوا یا یہ کہ اس کی نفی پر کوئی دلیل قائم کردی ہو‪ ،‬ایسا نہیں ہوا تو اس واسطے اگر وحی یہ کہتی ہے کہ ٓاسمان‬
‫ہے اور لوگ کہتے ہیں کہ صاحب ہمیں نظر نہیں ٓارہا‪ ،‬نہ ٓانکھوں سے نظر ٓاتا ہے‪ ،‬نہ ہماری عقل کہتی ہے کہ یہ کوئی‬
‫ضروری چیز ہے کہ ٓاسمان ہو‪ ،‬لیکن ساتھ ہی عقل کے اعتبار سے وہ کوئی دلیل بھی ایسی قائم نہیں کرسکتے جس کی بناء پر‬
‫ہے ٓاسمان کا وجود نہیں ہے۔ ہاں یہ کہ ‪ Impossible‬یہ کہا جائے کہ ٓاسمان موجود نہیں ہوسکتا‪ ،‬ممکن نہیںاور ٓاسمان کا وجود‬
‫ہماری اپروچ (پہنچ) وہاں نہیں ہوسکتی‪ ،‬ہوسکتا ہے کہ بعد میں اپروچ ہوجائے یہاں پر اس قسم کی کوئی بات ہے تو وہ حواس‬
‫خمسہ یا عقل کے ماورا کوئی بات ہے‪ ،‬لیکن عقل اس کے عدم وجود پر کوئی دلیل نہ پیش کرسکی۔‬

‫مفتی تقی عثمانی‬


‫ملحدین کے ذات باری تعاٰل ی اور قبر و حشر کے متعلق سخت سوالوں کے منطقی و فلسفی جوبات اثبات باری تعالٰی ‪ ،‬توحید‪ ،‬تنزیہ*‬
‫و تقدیس‪ ،‬مسئلہ خیر و شر‪ ،‬مسئلہ رؤیت باری تعالٰی ‪ ،‬جبر و قدر(تقدیر)‪ ،‬نبوت‪ ،‬عام اعترضات‪ ،‬محمد رسول اللہ کی نبوت‪ ،‬خاتم‬
‫النبیین کی تفسیر‪ ،‬وجود باری تعالٰی ‪ ،‬جنت و جہنم کا وجود‪ ،‬قبر و برزخ کی زندگی‪ ،‬موت کے بعد زندہ ہونا اور قیامت کا وجود‪،‬‬
‫خدا کا وجود یہ اور ان جیسے سیکنڑوں ملحدین کے مشرکانہ سوالوں کے جامع و عقلی جوابات پر مشتمل بہترین وٹس ائپ‬
‫*گروپ‬
‫*گروپ نمبر‪ 1️⃣:‬لنک*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/Ke2feylEHdG6lVzArFtVoG‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 2️⃣:‬لنک*‬


‫‪https://chat.whatsapp.com/Fe4WnvQclaN91i5oql58EX‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 3️⃣:‬لنک‪/‬نوٹ‪ :‬تیسرا گروپ پشتو زبان والوں کیلئے ہے پوسٹنگ پشتو میں ہوتی ہے*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/EZxJ6qmgGpQ2zFxqAeV5uH‬‬
‫‪♡ ㅤ‬‬ ‫‪❍ㅤ‬‬ ‫⎙‬ ‫⌲‬
‫‪ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ‬‬ ‫‪ˢᵃᵛᵉ‬‬ ‫‪ˢʰᵃʳᵉ‬‬
‫*🛑رد الحاد کورس🛑* ‪[11/26, 9:59 AM] +92 332 9407835:‬‬
‫*الحاد_اسباب وحل‪*📌 12:‬‬
‫ِبْس ِم الّٰل ِِه الَّرْح َمِن الَّر ِح ْيم‬
‫*باب نمبر‪*🛑12:‬‬
‫*سبق نمبر‪:2‬مغرب میں الحاد کی ابتداء کیسے ہوئی؟*‬
‫‪ilhaad ki ibtida‬‬
‫اسالم کی پوری تاریخ کے اندر‪ ،‬اسالم کو ان دشواریوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا جو یورپ کو انکے غلط عقیدے کی وجہ سے کرنا‬
‫پڑیں۔ بہت اہم مشکالت میں سے ایک مذہب اور سائنس کے درمیان خوفناک اختالفات تھے۔ مذہب اس بےرحمی کیساتھ سائنس سے‬
‫جا ٹکرایا کہ کلیسا نے بہت سے سائنسدانوں کو زندہ جال دیا اس بنا پر کہ وہ انکی کتاب کے خالف چل رہے تھے۔‬
‫اہِل کلیسا کے ان لرزہ خیز مظالم اور چیرہ دستیوں نے پورے یورپ میں ایک ہلچل مچا دی۔ ان لوگوں کو چھوڑ کر جن کے‬
‫مفادات کلیسا سے وابستہ تھے‪ ،‬سب کے سب کلیسا سے نفرت کرنے لگے اور نفرت و عداوت کے اس جوش میں بدقسمتی سے‬
‫انھوں نے مذہب کے پورے نظام کو تہ و باال کردینے کا تہیہ کرلیا… چنانچہ غصے میں آکر وہ ہدایِت اٰل ہی کے باغی ہوگئے ۔‬
‫گویا اہِل کلیسا کی حماقت کی وجہ سے پندرھویں اور سولھویں صدیوں میں ایک ایسی جذباتی کش مکش شروع ہوئی‪ ،‬جس میں چڑ‬
‫اور ضد سے بہک کر ’تبدیلی‘ کے جذبات خالص الحاد کے راستے پر پڑگئے۔ اور اس طویل کش مکش کے بعد مغرب میں‬
‫کا دور دورہ شروع ہوا۔ )‪ (Secular‬تہذیب الحاد‬
‫اس تحریک کے عَلم برداروں نے کائنات کی بدیہی شہادتوں کے باوجود زندگی کی ساری عمارت کو اس بنیاد پر کھڑا کیا کہ دنیا‬
‫میں جو کچھ ہے‪ ،‬وہ صرف مادہ ہے۔ نمو‪ ،‬حرکِت ارادی‪ ،‬احساس‪ ،‬شعور اور فکر سب اسی ترقی یافتہ مادہ کے خواص ہیں۔‬
‫تہذیِب جدید کے معماروں نے اسی فلسفے کو سامنے رکھ کر اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی عمارت تعمیر کی۔ ہرتحریک‬
‫جس کا آغاز اس مفروضے پر کیا گیا کہ کوئی خدا نہیں‪ ،‬کوئی الہامی ہدایت نہیں‪ ،‬کوئی واجب االطاعت نظاِم اخالق نہیں‪ ،‬کوئی‬
‫حشر نہیں اور کوئی جواب دہی نہیں‪ ،‬ترقی پسند تحریک کہالئی۔ اس طرح یورپ کا ُرخ ایک مکمل اور وسیع مادیت کی طرف‬
‫پھر گیا۔ خیاالت‪ ،‬نقطۂ نظر‪ ،‬نفسیات و ذہنیت‪ ،‬اخالق و اجتماع‪ ،‬علم و ادب‪ ،‬حکومت و سیاست‪ ،‬غرض زندگی کے تمام شعبوں میں‬
‫الحاد اس پر پوری طرح غالب آگیا۔ اگرچہ یہ سب کچھ تدریجی طور پر ہوا اور ابتدا میں تو اس کی رفتار بہت ُسست تھی لیکن‬
‫آہستہ آہستہ اس طوفان نے سارے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔دوسری طرف اسالم کی تاریخ میں آپکو ایسا کچھ نہیں ملتا۔ اسالم‬
‫نے ہمیشہ سائنسی تحقیقات کیلئے دروازے کھلے رکھے ہیں اور دنشوارانہ سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ سائنسدان عمومًا‬
‫بہت سے خلفاء کے دربار اور اسمبلیوں میں خصوصی مہمان ہوتے اور انکی سرپرستی میں شاہی تحائف اور مراعات کا ایک‬
‫منصفانہ حصہ وصول کرتے۔‬
‫مسلم دنیا کی اپنی طویل تاریخ میں کبھی بھی سائنسدانوں کو اس ظلم و ستم‪ ،‬پابندیوں اور جانچ‪-‬پڑتال کا سامنا نہیں کرنا پڑا جیسا‬
‫کہ یورپ میں انکے ساتھ ہوا۔ چرچ نے مذہب کے نام پر لوگوں کیساتھ جو برا برتاؤ کیا‪ ،‬انکے مال کا ایک بڑا حصہ ان سے‬
‫چھین لینا‪ ،‬انکی دانشورانہ زندگیوں کو محدود کردیا‪ ،‬مفکروں اور سائنسدانوں کو زندہ جال دیا‪ ،‬اسالم کو کبھی ان خرابیوں سے نہیں‬
‫گزرنا پڑا۔ اسکے برعکس‪ ،‬مسلمان تاریخ میں سائنس اور مذہب کے درمیان دوستی دیکھنے کو ملتی ہے کہ پہلی وحی ہی “پڑھ‬
‫اپنے رب کے نام سے جس نے تمہیں پیدا کیا” ہے۔ سائنس اسالم ہی کے دئے گئے ثمرات میں سے ایک ہے۔‬
‫آج کی سائنس الله کے حکم؛ پڑھنے‪ ،‬سیکھنے سکھانے اور غور و فکر‪ ،‬بجا النے کا ہی نتیجہ ہے۔ وہ لوگ جو سیکولرزم کو‬
‫مسلم دنیا میں النے کے خواہاں ہیں‪ ،‬اسالمی دنیا کی مذہبی تاریخ اور یورپ کی مذہبی تاریخ کے اس بڑے فرق کو نظرانداز‬
‫کرتے ہیں جہاں سے سیکولرزم نے جنم لیا۔‬
‫‪:‬مستفاد‬
‫شیخ سلمان بن فہد العودہ کی ایک انگریزی تحریر سے اقتباس‬
‫‪،‬انسانیت کی تعمیرنو اور اسالم‘‪ ،‬عبدالحمید ایم اے’‬
‫ملحدین کے ذات باری تعاٰل ی اور قبر و حشر کے متعلق سخت سوالوں کے منطقی و فلسفی جوبات اثبات باری تعالٰی ‪ ،‬توحید‪ ،‬تنزیہ*‬
‫و تقدیس‪ ،‬مسئلہ خیر و شر‪ ،‬مسئلہ رؤیت باری تعالٰی ‪ ،‬جبر و قدر(تقدیر)‪ ،‬نبوت‪ ،‬عام اعترضات‪ ،‬محمد رسول اللہ کی نبوت‪ ،‬خاتم‬
‫النبیین کی تفسیر‪ ،‬وجود باری تعالٰی ‪ ،‬جنت و جہنم کا وجود‪ ،‬قبر و برزخ کی زندگی‪ ،‬موت کے بعد زندہ ہونا اور قیامت کا وجود‪،‬‬
‫خدا کا وجود یہ اور ان جیسے سیکنڑوں ملحدین کے مشرکانہ سوالوں کے جامع و عقلی جوابات پر مشتمل بہترین وٹس ائپ‬
‫*گروپ‬
‫*گروپ نمبر‪ 1️⃣:‬لنک*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/Ke2feylEHdG6lVzArFtVoG‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 2️⃣:‬لنک*‬


‫‪https://chat.whatsapp.com/Fe4WnvQclaN91i5oql58EX‬‬
‫*گروپ نمبر‪ 3️⃣:‬لنک‪/‬نوٹ‪ :‬تیسرا گروپ پشتو زبان والوں کیلئے ہے پوسٹنگ پشتو میں ہوتی ہے*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/EZxJ6qmgGpQ2zFxqAeV5uH‬‬

‫‪♡ ㅤ‬‬ ‫‪❍ㅤ‬‬ ‫⎙‬ ‫⌲‬


‫‪ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ‬‬ ‫‪ˢᵃᵛᵉ‬‬ ‫‪ˢʰᵃʳᵉ‬‬
‫*🛑رد الحاد کورس🛑* ‪[11/27, 9:59 AM] +92 332 9407835:‬‬
‫*الحاد_اسباب وحل‪*📌 12:‬‬
‫ِبْس ِم الّٰل ِِه الَّرْح َمِن الَّر ِح ْيم‬
‫*باب نمبر‪*🛑12:‬‬
‫*سبق نمبر‪:3‬مغربی دنیا میں الحاد کی بنیادی اسباب*‬

‫عصر حاضر میں الحاد کا دقت نظر سے تجزیاتی و تحلیلی مطالعہ کرنے کی بہت ضرورت ہے ‪،‬اس سلسلے میں ملحدین کے‬
‫پھیالئے ہوئے جزوی شبہات و اعتراضآت(جو اگرچہ بذات خود ایک اہم کام ہے) کی بجائے الحاد کی اساسیات اور اس کے متنوع‬
‫اسباب پر نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے ۔ یعنی سب سے پہلے یہ بات کہ وہ کونسے اسباب ہیں جن کی بنا پر ایک شخص یا‬
‫گروہ الحاد اختیار کرتا ہے ۔الحاد کے اسباب ایک تو جغرافیہ بدلنے سے بدل جاتے ہیں ‪،‬مغربی دنیا میں الحاد میں مبتالء ہونے‬
‫کے اسباب الگ ہیں جبکہ اسالمی دنیا میں اسالم کو چھوڑ کر الحاد اپنانے کی وجوہات بالکل علیحدہ ہیں ۔اس کے عالوہ خود‬
‫شخصیات کی علمی ‪،‬ذہنی ‪،‬نفسیاتی اور عقلی سطح کے اعتبار سے بھی الحاد کے مختلف اسباب بن جاتے ہیں ۔اسی طرح الحاد کی‬
‫اساسیات کا تجزیہ بھی ضروری ہے‪،‬کہ وہ کونسے بنیادی امور و دعاوی ہیں ‪،‬جن پر ملحدین کی دعوت الحاد کھڑی ہے ‪،‬ان امور‬
‫کا ماخذو مصدر کیا ہے ‪،‬نیز الحاد کی ان “ایمانیات “کے بارے میں معاصر جملہ ملحدین کا نقطہ نظر ایک ہے یا الگ الگ ۔‬

‫اس وقت پوری دنیا میں نت نئے نظریات و افکار کا ماخذ و منبع “خطہ مغرب”ہے ‪،‬اور فکر و نظر کے حوالے سے مغرب و‬
‫ہ شجرہ خبیثہ ہے ‪،‬جس کی شاخیں پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں ۔(“مغربی دوست”اس پر چیں بہ جبیں نہ ہوں ‪،‬مغرب کی‬
‫انسانیت بخش ایجادات کا ہمیں بھی اقرار ہے ‪،‬البتہ یہ ایک الگ بحث ہے کہ ان ایجادات پر لگنے والے سرمایہ کے لیے “سونے‬
‫کی کس کس چڑیا”کو شکار کیا گیا ) ‪”.‬جدید الحاد”(دنیا میں دہریوں کا وجود ہر معاشرے میں کچھ نہ کچھ رہا ہے ‪،‬پر یہاں‬
‫معاصر نظریہ الحاد کی بات ہورہی ہے ) بھی مغرب کی دین ہے ‪،‬اور وہاں سے یہ نظریہ پوری دنیا میں کاپی کیا گیا ۔اس لیے‬
‫ہم اولین مغربی دنیا میں الحاد کے پھیلنے کے بنیادی اسباب و علل پر مختصرا بات کریں گے ۔اس سے بقیہ دنیا خصؤصا اسالمی‬
‫دنیا میں الحاد کی وجوہ جاننے میں معاونت ملے گی ۔‬
‫‪ :‬مغربی الحاد کا اگر تجزیہ کیا جائے تو اس کے تین بڑے سبب سامنے آتے ہیں‬
‫۔مغرب میں عیسایئت کی بطور مذہب کے شکست کے بعد جدید فلسفیانہ افکار جدیدیت ‪،‬مابعد جدیدیت اور سوشل سائنسز کی کھوکھ‪۱‬‬
‫سے الحاد نے جنم لیا ۔ان ملحدین کا ایک طویل تاریخی پس منظر ہے ۔ اسالم کی پوری تاریخ کے اندر‪ ،‬اسالم کو ان دشواریوں‬
‫کا سامنا نہیں کرنا پڑا جو یورپ کو انکے غلط عقیدے کی وجہ سے کرنا پڑیں۔ بہت اہم مشکالت میں سے ایک مذہب اور سائنس‬
‫کے درمیان خوفناک اختالفات تھے۔ مذہب اس بےرحمی کیساتھ سائنس سے جا ٹکرایا کہ کلیسا نے بہت سے سائنسدانوں کو زندہ جال‬
‫دیا اس بنا پر کہ وہ انکی کتاب کے خالف چل رہے تھے۔اہِل کلیسا کے ان لرزہ خیز مظالم اور چیرہ دستیوں نے پورے یورپ‬
‫میں ایک ہلچل مچا دی۔ ان لوگوں کو چھوڑ کر جن کے مفادات کلیسا سے وابستہ تھے‪ ،‬سب کے سب کلیسا سے نفرت کرنے‬
‫لگے اور نفرت و عداوت کے اس جوش میں بدقسمتی سے انھوں نے مذہب کے پورے نظام کو تہ و باال کردینے کا تہیہ کرلیا…‬
‫چنانچہ غصے میں آکر وہ ہدایِت اٰل ہی کے باغی ہوگئے ۔‬
‫گویا اہِل کلیسا کی حماقت کی وجہ سے پندرھویں اور سولھویں صدیوں میں ایک ایسی جذباتی کش مکش شروع ہوئی‪ ،‬جس میں چڑ‬
‫اور ضد سے بہک کر ’تبدیلی‘ کے جذبات خالص الحاد کے راستے پر پڑگئے۔ اور اس طویل کش مکش کے بعد مغرب میں‬
‫کا دور دورہ شروع ہوا۔اس تحریک کے عَلم برداروں نے کائنات کی بدیہی شہادتوں کے باوجود زندگی )‪ (Secular‬تہذیب الحاد‬
‫کی ساری عمارت کو اس بنیاد پر کھڑا کیا کہ دنیا میں جو کچھ ہے‪ ،‬وہ صرف مادہ ہے۔ نمو‪ ،‬حرکِت ارادی‪ ،‬احساس‪ ،‬شعور اور‬
‫فکر سب اسی ترقی یافتہ مادہ کے خواص ہیں۔ تہذیِب جدید کے معماروں نے اسی فلسفے کو سامنے رکھ کر اپنی انفرادی اور‬
‫اجتماعی زندگی کی عمارت تعمیر کی۔ ہرتحریک جس کا آغاز اس مفروضے پر کیا گیا کہ کوئی خدا نہیں‪ ،‬کوئی الہامی ہدایت نہیں‪،‬‬
‫کوئی واجب االطاعت نظاِم اخالق نہیں‪ ،‬کوئی حشر نہیں اور کوئی جواب دہی نہیں‪ ،‬ترقی پسند تحریک کہالئی۔ اس طرح یورپ کا‬
‫ُرخ ایک مکمل اور وسیع مادیت کی طرف پھر گیا۔ خیاالت‪ ،‬نقطۂ نظر‪ ،‬نفسیات و ذہنیت‪ ،‬اخالق و اجتماع‪ ،‬علم و ادب‪ ،‬حکومت و‬
‫سیاست‪ ،‬غرض زندگی کے تمام شعبوں میں الحاد اس پر پوری طرح غالب آگیا۔ اگرچہ یہ سب کچھ تدریجی طور پر ہوا اور ابتدا‬
‫میں تو اس کی رفتار بہت ُسست تھی لیکن آہستہ آہستہ اس طوفان نے سارے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔( شیخ سلمان بن فہد‬
‫العودہ)‬
‫مغرب میں صدیوں مذہب کو حکمرانی حاصل تھی ‪،‬لیکن اس حکمرانی نے انہیں اس دور کے پسماندہ ترین قوموں کی صف میں ال‬
‫یعنی “تاریک زمانہ”کہتا ہے ۔ سولہویں صدی سے جب ”‪ “dark ages‬کھڑا کیا تھا ‪،‬اسی لیے خود مغرب اپنے اس دور کو‬
‫مذہب سے آزادی کی تحریک “اصالح مذہب”کی شکل میں شروع ہوئی ‪،‬جو آہستہ آہستہ مذہب کے کلی انخال پر منتج ہوئی ‪،‬اس‬
‫وقت سے مغرب ترقی کی شاہراہ پر چڑھ گیا ‪،‬اور اب تک تسلسل کے ساتھ روز بروز آگے بڑھ رہا ہے ۔اس پور ے تاریخی‬
‫عمل سے مغربی اہل علم نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ مذہب ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوتا ہے ۔اور یوں مذہب و خدا دنیا کا کلی‬
‫انکار سامنے آیا ۔اس راستے پر چل کر جو لوگ الحاد کا شکار ہوئے ‪،‬ان کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ایک تو انہوں نے عیسائیت‬
‫کی شکست کو “مذہب”کی شکست کے مترادف سمجھا ‪،‬حاالنکہ کسی خاص مذہب کی ناکامی کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ مذہب نام‬
‫کی ہر قسم ناکام ہوگئی ۔دوسرا دنیا کے دیگر مذاہب خصوصا اسالم کا گہرا مطالعہ اور اسالم کی ہزار سال کی تاریخ سے مکمل‬
‫واقفیت نہیں تھی ۔اور اگر کوئی واقفیت تھی بھی ‪،‬تو مستشرقین کے واسطے سے تھی ‪،‬اور مسترقین کا “اسالمی سرمایہ ” اسالم‬
‫کی بجائے اینٹی اسالم کو اپنے پہلو میں لیے ہوئے ہے ‪ ،‬اس لیے محض عیسائیت کی شکست سے انہوں نے یہ سمجھا کہ اب‬
‫مذہب اور خدا کا دور ختم ہوگیا ۔‬
‫اس الحاد کے شکار لوگوں نے جب بھی بالغ نظری سے اسالم کا مطالعہ کیا ‪،‬تو انہوں نے اسالم کو گلے لگایا ۔آج جو مغربی‬
‫دنیا میں اسالم جوق در جوق پھیل رہا ہے ‪،‬ان میں سے بڑی تعداد “سابق ملحدین”کی ہیں ۔کہ جب ان کے سامنے اسالم کی‬
‫صحیح شکل سامنے آئی ‪،‬تو بال جھجک اسے قبول کیا ۔یاد رہے کہ عموما لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید “عیسائی مذہب کے‬
‫پیروکار”نے اسالم قبول کیا ‪،‬حاالنکہ وہاں کے صحیح “مذہبی آدمی “کو اسالم سے اتنی ہی نفرت ہے ‪،‬جیسے کہ ایک کٹر اور‬
‫بنیاد پرست مسلمان کو عیسایئت سے ۔۔۔مغرب میں اسالم کے تیزی سے پھیلنے کا سبب وہاں کا “الحاد”ہی ہے ۔آج بھی اگر مغرب‬
‫کے ایک “ملحد”کے سامنے سنجیدہ ‪،‬شستہ ‪،‬علمی و عقلی انداز سے اسالم کو پیش کیا جائے ‪،‬تو وہ اسے فورا قبول کرنے پر‬
‫آمادہ ہوتا ہے ۔پر مسئلہ یہ ہے کہ آج کی علمی زبان اور اصطالحات میں اسالم کو مغربی دنیا کے سامنے کتنا پیش کیا گیا‬
‫ہے ۔یہ ایک المیہ ہے ‪،‬امت مسلمہ کے تمام طبقات کا المیہ ‪،‬جملہ مکاتب فکر کا المیہ ۔۔‬

‫۔مغربی دنیا میں الحاد کے پھیلنے کا دوسرا بڑا سبب علوم فلسفہ سے حد سے زیادہ اعتناء اور وسیع پیمانے پر فلسفیانہ افکار کی‪2‬‬
‫بازگشت ہے ۔کلیسا سے آزادی حاصل کرتے ہی مغربی اداروں میں”علمی سیالب “آیااور خآص طور پر “اندلس مرحوم” کے‬
‫اسالمی علمی ذخیرے کی مغربی زبانوں میں منتقلی اس کا سبب بنی ‪ ،‬اندلس کے “مکتب ابن رشد” کا سارا فلسفیانہ لٹریچر مغربی‬
‫دنیا میں پھیال ۔ اس کے عالوہ خود بھی مغربی دنیا میں متنوع علوم خصوصا فلسفیانہ علوم سے شغف کی ایک فضا پیدا‬
‫ہوئی ‪،‬اور فلسفے کی ایک خآصیت ہے کہ یہ حاضر و محسوس کا گرویدہ اور “غائب و مستور”سے بیگانہ کرتی ہے ۔اسالمی‬
‫تاریخ کے بڑے اور ٹھیٹھ فالسفہ کے افکار کا اگر دقت نظر سے جائزہ لیا جائے تو بہت کم خوش قسمت ایسے ملیں گے ‪،‬جن‬
‫کے افکار میں “الحاد ی جراثیم “نہ ہوں‪،‬اسالم کے زمانہ عروج میں “تہافت الفلسفہ”جیسی کاوشوں کا سبب یہی “جراثیم”ہی بنے ۔‬
‫خالص فلسفیوں کو ایک طرف رکھ دیں ‪،‬اصولی و دینی علوم کے ماہرین میں سے جس نے فلسفہ کو زیادہ پڑھا ‪،‬وہاں بھی اس‬
‫کے اثرات محسوس کیے جاسکتے ہیں ۔اس کی مثال ہماری تاریخ میں”اعتزال کا مکتب”ہے ۔۔حق شاید ان دونوں کے درمیان ہے‬
‫کہ نہ تو علوم عقلیہ پر کلیسا کی طرح مکمل پابندی سے مسئلہ حل ہوگا اور نہ جدید ذہن کی طرح اساسیات مذہب کو بھی‬
‫تشکیک کی بھٹی سے گزارنے سے فائدہ ہوگا‪ ..‬ماضی میں ماتریدی مکتب عقل و نقل کے حسین امتزاج کے حوالے سے بہترین‬
‫مثال ہے۔‬
‫اس قسم کے شکار ملحدین کا حل “غزالی کی روش”ہے ۔ان ملحدین کا فلسفہ پر ایمان اسی وقت متزلزل ہوگا جب کوئی “غزالی‬
‫وقت”فلسفہ کے محل پر “تہافت الفلسفہ”کے مجنیقوں سے “سنگ باری” کرے گا ۔ اس لیے ہمارے راسخ العقیدہ لوگوں کو فلسفہ‬
‫مغرب سے واقفیت حاصل کرنا ہوگی ۔ اس حوالے سے “انصاری سکول آف تھاٹ”( ڈاکٹر جاوید اکبر انصاری صاحب اور ان کے‬
‫تالمذہ و متوسلین سید خالد جامعی ‪،‬عبد الوہاب سوری‪،‬علی محمد رضوی‪،‬موالنا ظفر اقبال اور زاہد مغل صاحب)یہ کام کر سکتا ہے‬
‫‪،‬اگر ان کی توجہ “اسالمی مفکرین کی ٹھوکروں کی نشاندہی “(جو بذات خود ایک اہم کام ہے )سے ذارا آگے بڑھ کر براہ‬
‫راست مغربی فلسفہ کی “نارسائی “پر مرکوز ہو جائے۔اس سلسلے مین مغرب کی ریاستی قوت کا غیر معمولی جبر بھی ایک چیلنج‬
‫ہے۔ جب تک یہ ختم نہیں ہوتا‪ ،‬محض فکری کام اس ساری مہم کا ایک جز ہوگا۔ یونانی فکر کی طرف سے ہمیں کوئی تہذیبی‬
‫چیلنج نہیں تھا جب کہ آج اس تہذیبی چلینچ کے ریلے میں ہر خاص وعام بہ رہا ہے‪ ،‬حتی کے ہم میں سے بہت سے وہ لوگ‬
‫بھی “مغربی” ہیں جو “مشرقی” کہالتے ہیں اور یہ مزاجی سانچے کسی فلسفے نے نہیں بنائے بلکہ تہذیبی باالدستی نے بنائے‬
‫ہیں۔‬

‫۔مغربی دنیا میں الحاد کا تیسرا سبب چند دہائیوں سے نہایت تیزی سے مقبول ہوتا” فلسفہ مابعد جدیدیت”ہے ۔مابعد جدیدیت کا ‪3‬‬
‫فلسفہ “جدیدیت”کے رد عمل کے طور پر وجود میں آیا ۔ جدیدیت انسان کے کبر جبکہ مابعد جدیدیت اس پر ڈھٹائی کا اظہار ہے۔‬
‫جدیدیت میں انسان کو یہ غرور ہوچال تھا کہ میں حقیقت وغیرہ خود اپنے بل بوتے پر تالش کرلوں گا۔ مابعد جدیدیت نے عاجزی‬
‫کا اظہار کرکے یہ نہیں کہا کہ ہم حقیقت نھیں جان سکتے (جس سے چلو نبی کی گنجائش پیدا ہوجائے) بلکہ وہ یہ کہتی ہے کہ‬
‫یہ حقیقت‪ ،‬سچ‪ ،‬اقدار وغیرہ سب ٹوپی ڈرامہ ہے‪ ،‬ایسا کچھ ہے ہی نھیں۔ یہ سرکشی سے بھی آگے کی ڈھٹائی ہے۔‬
‫ما بعد جدیدیت کی تعریف ایک فلسفی لیوٹارڈ کے الفاظ میں “مابعد جدیدیت عظیم بیانات پر عدم یقین “ہے ۔مابعد جدیدیت کے‬
‫علمبرادروں کے نزدیک اس دنیا میں اصول ‪،‬نظریات ‪،‬روایات ‪،‬اقدار‪،‬افکار ‪،‬آدرشوں اور سچائی و حقیقت نام کی کوئی چیز موجود‬
‫نہیں ہے ‪،‬اور نہ ہی دنیا میں آفاقی سچائی اور حقیقت مطلقہ کا کوئی وجود ہے ‪،‬یہ سب چیزیں اضافی ہیں ‪،‬اضافی ہونے کا مطلب‬
‫یہ ہے کہ سچائی ‪،‬حقیقت اور حق و خیر کا تعلق محض انفرادی پسند و ناپسند کے ساتھ ہے ۔ہر شخص کی سچائی ‪،‬ہر شخص کا‬
‫خیر اور ہر شخص کا حق الگ الگ ہے ۔اس لئے آفاقی سچائی کا تصور محض ایک دعوی اوردیو ماالئی داستان ہے ۔مابعد‬
‫جدیدیت کے فلسفے کا اثر یہ ہے کہ آج کے انسان کی دلچسپی محض اپنے احساسات ‪،‬جذبات اور عملی مسائل کے ساتھ محدود ہو‬
‫کر رہ گئی ہے ‪،‬آج کے انسان کے نزدیک زندگی کی تمام بحثیں مسئلہ اور حل کانام ہیں ‪،‬افکار ‪،‬نظریات اور آیئڈیالوجی کے‬
‫مباحث محض نظری ہیں ۔جن کا عملی زندگی کی تشکیل اور مسائل کے حل میں کوئی کردار نہیں ہیں ۔آج کے انسان کے نزدیک‬
‫اصول ‪،‬نظریات ‪،‬اقدار ‪،‬روایات و افکار ماضی کی باتیں ہیں ۔اس لئے بعض مفکرین نے مووجودہ دور کو “عدم نظریہ کا عہد”کہا‬
‫ہے۔جبکہ مذہب( خواہ جو بھی ہو ) کی بنیاد ہی مخصوص نظریات ‪،‬خآص افکار ‪،‬متعین آدرشوں اور محدود خیاالت و تصورات پر‬
‫ہوتی ہے ۔اس لیے مسئلہ اور حل کے خوگر آج کے انسان کے نزدیک مذہب کے عقائد و نظریات “دیوماالئی داستانیں “ہیں ۔مابعد‬
‫جدیدیت کا فلسفہ بعض وجوہ سے تحریک تنویر ‪،‬تحریک رومانیت اور مغرب سے پھوٹنے والی پچھلی دو صدیوں کی دیگر فلسفیانہ‬
‫تحریکوں کی بنیاد پر قائم “جدیدیت”سے زیادہ خطرناک ہے ۔ما بعد جدیدیت کاا ثر صرف مذہب پر نہیں پڑا ‪،‬ادب ‪،‬ثقافت ‪،‬صحافت‬
‫‪،‬سیاست حتی کے تعلیم تک پر اس کے اثرات پڑے ۔آج اگر ریٹنگ کے چکر میں ہمارے ٹی وی چینل اقدار ‪،‬روایات ‪،‬اخالق بلکہ‬
‫بسا اوقات ملکی قانون کو پامال کرتے ہیں ‪،‬ہمارے سیاستدان “چڑھتے سورج کے پجاری “بن گئے ہیں ‪،‬اور سال میں دو دو‬
‫پارٹیاں بدلتے ہیں ‪،‬ہمارے صحافی و کالم نگار ایک سال میں بسا اوقات تمام اخباروں کا چکر کاٹ کر واپس پہلے اخبار تک پہنچ‬
‫جاتے ہیں ‪،‬ہمارے ہاں تعلیم کی “خرید و فروخت”کا بازار گرم ہے ‪،‬اور حالت یہ ہوگئی ہے کہ معاشرہ ایک دیانت دار‬
‫صحافی ‪،‬کھرے سیاستدان ‪،‬نظریاتی کالم نگار اور ایک مخلص ٹیچر و پروفیسر کو اس حوالےسے “احمق” سمجھتا ہے کہ اس نے‬
‫اصولوں ‪،‬نظریات اور ذہن میں موجود خیاالت و تصورات کی بنا پر مال ‪،‬دولت اور عزت کو ٹھکرایا ۔آج بھی اچھے خآصے‬
‫پڑھے لکھے ہوئے لوگوں کا ذہن یہ ہے کہ معاشرے کا کامیاب فرد وہی ہے ‪،‬جس نے دو چار روپیہ کمایا ‪،‬ایکا اچھی سی کوٹھی‬
‫کھڑی کی ‪،‬اونچے عہدوں تک پہنچ گیا ‪،‬اور زندگی میں لذت کے زیادہ سے زیادہ مواقع حاصل کیے ‪،‬تو وہ “کامیاب”شخص‬
‫ہے ‪،‬خوواہ اس کے لیے اس نے نظریات ‪،‬اصولوں اور اپنے رسوم و روایات کو مکمل طور پر ہی ذبح کیؤں نہ کیا ہو ۔ یہ سب‬
‫فلسفہ ما بعد جدیدیت کا تباہ کن اثرات ہیں ۔‬
‫استفادہ تحریر ‪ :‬سمیع اللہ سعدی‬
‫ملحدین کے ذات باری تعاٰل ی اور قبر و حشر کے متعلق سخت سوالوں کے منطقی و فلسفی جوبات اثبات باری تعالٰی ‪ ،‬توحید‪ ،‬تنزیہ*‬
‫و تقدیس‪ ،‬مسئلہ خیر و شر‪ ،‬مسئلہ رؤیت باری تعالٰی ‪ ،‬جبر و قدر(تقدیر)‪ ،‬نبوت‪ ،‬عام اعترضات‪ ،‬محمد رسول اللہ کی نبوت‪ ،‬خاتم‬
‫النبیین کی تفسیر‪ ،‬وجود باری تعالٰی ‪ ،‬جنت و جہنم کا وجود‪ ،‬قبر و برزخ کی زندگی‪ ،‬موت کے بعد زندہ ہونا اور قیامت کا وجود‪،‬‬
‫خدا کا وجود یہ اور ان جیسے سیکنڑوں ملحدین کے مشرکانہ سوالوں کے جامع و عقلی جوابات پر مشتمل بہترین وٹس ائپ‬
‫*گروپ‬
‫*گروپ نمبر‪ 1️⃣:‬لنک*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/Ke2feylEHdG6lVzArFtVoG‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 2️⃣:‬لنک*‬


‫‪https://chat.whatsapp.com/Fe4WnvQclaN91i5oql58EX‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 3️⃣:‬لنک‪/‬نوٹ‪ :‬تیسرا گروپ پشتو زبان والوں کیلئے ہے پوسٹنگ پشتو میں ہوتی ہے*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/EZxJ6qmgGpQ2zFxqAeV5uH‬‬
‫‪♡ ㅤ‬‬ ‫‪❍ㅤ‬‬ ‫⎙‬ ‫⌲‬
‫‪ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ‬‬ ‫‪ˢᵃᵛᵉ‬‬ ‫‪ˢʰᵃʳᵉ‬‬
‫*🛑رد الحاد کورس🛑* ‪[11/27, 9:59 AM] +92 332 9407835:‬‬
‫*الحاد_اسباب وحل‪*📌 12:‬‬
‫ِبْس ِم الّٰل ِِه الَّرْح َمِن الَّر ِح ْيم‬
‫*باب نمبر‪*🛑12:‬‬
‫*سبق نمبر‪:4‬الحاد کے اقسام‪،‬اسباب‪،‬ردوعالج*‬

‫الحاد کو سمجھنے کی غرض سے ہم اسے کئی قسموں میں بانٹ سکتے ہیں‪ ،‬جیسا کہ علمی الحاد ‪ ،‬نفسانی الحاد ‪ ،‬نفسیاتی الحاد‪،‬‬
‫معاشرتی الحاد‪ ،‬وغیرہ۔‬
‫علمی الحاد بہت ہی نادر ہے کہ جس میں کسی شخص کو علمی طور پر خدا کے وجود کے بارے میں شکوک وشبہات الحق‬
‫ہوجائیں۔ اور یہ لوگ دنیا میں گنے چنے ہیں جیسا کہ فالسفہ اور نظریاتی سائنسدانوں کی جماعت۔ خدا کے بارے میں علمی وسوسہ‬
‫پیدا ہونا تو عام ہے ‪ ،‬جیسا کہ روایات میں ملتا ہے کہ صحابؓہ کو بھی وسوسہ پیدا ہوجاتاتھا اور اس وسوسے کے پیدا ہونے کو‬
‫اللہ کے رسولﷺ نے عین ایمان قرار دیا ہے۔ (سنن ابی داؤد‪،‬ابواب النوم‪ ،‬باب رد الوسوسۃ‪ ،‬المکتبۃ العصریۃ صیدا‪ ،‬بیروت‬
‫‪)4/329‬۔ لیکن دل میں شک کا گھر کرجانا تو یہ ایمان کے منافی ہے اور یہ عین الحاد ہے اور یہ بہت کم لوگوں کو ہوتاہے۔‬
‫کیونکہ یہ فطرت کے خالف ہے۔ لٰہ ذا اس کا سارا شرف اسی کو جاتا ہے کہ جو اس خلجان آمیز شک کی آگ میں اپنے آپ کو‬
‫ڈالنے کا سبب بنتا ہے۔ اس کے سبب پر کچھ روشنی ہم آگے چل کر ڈالیں گے۔‬
‫الحاد ہمارے معاشروں میں بڑے پیمانے پر موجود ہے کہ جس میں ایک شخص کو خدا کے وجود کے بارے ‪ sensual‬نفسانی‬
‫میں شکوک وشبہات علمی طور پر تو الحق نہیں ہوتے‪ ،‬بلکہ وہ اپنی خواہش نفس کے سبب خدا کے بارے میں شکوک وشبہات کا‬
‫اظہار کرتاہے ۔ اس قسم کا ملحد عمومًا اپنے آپ کو بھی دھوکا دے رہا ہوتاہے اور اپنی خواہش کو علم سمجھ رہا ہوتاہے۔ دیسی‬
‫ملحدوں کی بڑی تعداد ایسے ہی لوگوں پر مشتمل ہے۔ خواہش پرست انسان کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی خواہشات کی تکمیل‬
‫میں موجود ہر رکاوٹ کو ختم کرنا چاہتاہے‪ ،‬لٰہ ذا جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ خدا ‪ ،‬مذہب او رآخرت کے تصورات اس کی خواہشات‬
‫کی تکمیل میں اس طرح رکاوٹ بنتے ہیں کہ اس کا ضمیر اسے کچوکے لگا لگا کر تنگ کرتارہتاہے تو وہ ضمیر کی اس مالمت‬
‫سے بچنے کے لیے اپنے زبانی لعن طعن سے اپنے شعور کو اس بات پر قائل کرنے کی ناکام کوشش میں لگ جاتا ہے کہ کوئی‬
‫خدا‪ ،‬سچا مذہب اور آخرت موجود نہیں ہے۔‬
‫نفسیاتی الحاد وہ ہے کہ جس کا سبب انسان کے نفسیاتی مسائل ہوں۔ ہمارے ایک دوست نے الحاد اور دہریت کی طرف مائل ہونے‬
‫والے لوگوں سے یہ جاننے کی لیے انٹرویوز کیے کہ وہ کس وجہ سے دہریت کی طرف مائل ہوئے۔ اس سروے کے مطابق الحاد‬
‫کی طرف مائل ہونے کا ایک بڑا سبب مذہبی لوگوں کے غلط رویے بھی ہیں کہ جن کے رد عمل میں بعض لوگ ملحد بن جاتے‬
‫ہیں ۔‬
‫علمی الحاد کا سبب صرف ایک ہے اور وہ ہے فلسفہ‪ ،‬چاہے فلسفہ برائے فلسفہ ہو یا “فالسفی آف سائنس” ہو‪ ،‬قدیم دور اور‬
‫میں الحاد کا سب سے بڑا سبب فلسفہ و منطق تھا‪ ،‬لٰہ ذا ُاس دور میں فلسفہ ومنطق کا رد وقت ‪ middle ages‬قرون وسٰط ی‬
‫کی ایک اہم ضرورت تھی۔ عصر حاضر میں الحاد کا سب سے بڑا سبب نظریاتی سائنس ہے۔لٰہ ذا اس دور میں فلسفے کا رد بے‬
‫معنی اور “فالسفی آف سائنس” کا رد وقت کی ایک اہم ضرورت ہے۔ اسٹیون ہاکنگ‪ ،‬رچرڈ ڈاکنز اور کارل ساگاں کے دور میں‬
‫کانٹ اور نطشے کو جواب دینا عقلمندی کی بات نہیں ہے۔ ہم ذرا اس پر غور کرلیں کہ ہمارے اردگرد کتنے ملحد ایسے ہیں جو‬
‫ہمیں ارسطو کی منطق یا کانٹ کی عقل محض سے دلیل دیتے نظر آتے ہیں؟ دو چار بھی نہیں ۔ آج کے ملحد وہ ہیں جن کی‬
‫کل دلیل بگ بینگ یا ارتقاء وغیرہ کے نظریات ہیں۔ آج اگر ایک ارب سے زائد کسی کتاب کے نسخے فروخت ہوتے ہیں تو وہ‬
‫کے مقدمے میں یہ اعالِن عام کرچکا ہے کہ فلسفہ ‪ The Grand Design‬اسٹیون ہاکنگ کی کتاب ہے کہ جو اپنی آخری کتاب‬
‫)‪ (The Grand Design: p.10‬مرچکا ہے اور اب ہم سائنسدانوں کے دور میں سانس لے رہے ہیں۔‬
‫الحاد کے رد کے بارے میں ایک بات تو یہ ہے کہ الحاد اصًال ہماری تہذیب کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ مغربی تہذیب سے درآمد شدہ‬
‫ہے ‪ ،‬لٰہ ذا الحاد کا رد مسلم تہذیبوں میں کوئی مستقل کام نہیں بلکہ ایک عارضی اور وقتی ضرورت ہے۔ آپ کوکوئی دیسی ملحد‬
‫ایسا نہیں ملے گا کہ جس پر مغرب کا ٹھپہ نہ ہو۔ یہ لوگ اپنی سوچ سے ملحد نہیں بنے بلکہ الحاد ان میں باہر سے انڈیال‬
‫گیاہے‪ ،‬چاہے فالسفی آف سائنس کے مباحث کے مطالعے کے راستے‪ ،‬چاہے انگریزی ادب کے مطالعے کے راستے‪ ،‬چاہے ہالی وڈ‬
‫کی فلموں اور موویوں کے راستے‪ ،‬چاہے فلسفہ اور سائنس کی درسی کتابوں کے ذریعے‪ ،‬چاہے معاشرے میں موجود الحاد سے‬
‫متاثر افراد سے میل جول کے راستے‪ ،‬وغیرہ۔‬
‫ہمیں ذہنی اور نفسانی الحاد کا نفسیاتی تجزیہ بھی کرنا چاہیے۔ ذہنی الحاد کا نفسیاتی جائزہ لیں تو اس بات کی وجوہات میں سے‬
‫ایک بڑی وجہ کثرت سے فلسفیانہ مباحث کا مطالعہ ہے۔ انسان کی ذہنی ساخت کچھ ایسی ہے کہ اگر سارا دن مرغیوں کے بارے‬
‫میں پڑھے گا تو خواب میں بھی اس کو مرغیاں ہی نظرآئیں گی۔ تو اگر ایک شخص تسلسل سے خدا کے وجود کے بارے میں‬
‫شکوک وشبہات پر مبنی لٹریچر کا مطالعہ کرے گا یا ٹیلی ویژن سیریز دیکھے گا تو اسے بیداری تو کیا‪ ،‬خواب میں بھی‬
‫اعتراضات ہی سوجھیں گے۔ تو الحاد انسان کا فطری مسئلہ کبھی بھی نہیں رہا ہے‪ ،‬نہ علمی الحاد اور نہ نفسانی ‪ ،‬سب خارجی‬
‫اسباب کی وجہ سے ہے۔ آپ اس سبب کو تالش کرکے دور کردیں‪ ،‬الحاد ختم ہوجائے گا۔عمومًا یہ کہا جاتاہے ہ وجود اور علم‬
‫کے بارے میں سواالت کا سبب انسان کا فطری تجسس ہے۔ یہ تجسس بھی بڑا سمجھدار ہے کہ انہی کو پیدا ہوا کہ جو فلسفیانہ‬
‫مباحث کا مطالعہ کرچکے اور فلسفیانہ مجالس میں زندگی کا ایک حصہ گزار چکے تھے‪ ،‬یہ کسی ڈھورڈنگر چرانے والے دیہاتی‬
‫کو پیدا نہیں ہوا۔ ایک خاص فلسفیانہ ماحول میں رہنے کے بعد آپ پر جب اس کے اثرات ظاہر ہوں اور آپ کچھ سواالت پر‬
‫سوچنا شروع کردیں تو آپ اسے فطرت قرار دے دیں‪ ،‬یہ کہاں کا انصاف ہے؟‬
‫قرآن مجید الحاد کو علم کے مقابلے میں ظن وتخمین سے زیادہ مقام نہیں دیتا اور فالسفی کل کی کل ظن وتخمین ہی ہے۔‬
‫کیا”فالسفی آف سائنس” ظن وتخمین نہیں ہے؟ ارشاد باری تعالٰی ہے۔” َو َقاُلوا َم اِھَی ِااَّل َحَیاُتَنا الُّدنَیا َنُم وُت َو َنحَیا َوَم ا ُیھِلُک َنَا ِااَّل الَّد ھُر‬
‫‪َ ،‬وَم اَلُھم ِبٰذ ِلَک ِم ن ِع لٍم ‪ِ ،‬ان ُھم ِااَّل َیُظُّنوَن ۔ ترجمہ‪”:‬اور ان کا کہنا یہ ہے کہ زندگی تو بس یہی دنیا کی زندگی ہی ہے‪ ،‬ہم زندہ‬
‫ہوتے ہیں اور مرتے ہیں اورہمیں تو زمانہ ہی مارتا ہے‪ ،‬حاالنکہ انہیں اس بارے کچھ علم نہیں ہے‪ ،‬وہ صرف ظن وتخمین سے‬
‫کام لیتے ہیں۔” (‪24‬الجاثیہ)‬
‫پھر الحاد کے رد اور اس کے عالج میں بھی فرق ہے۔ الحاد کے رد سے لوگ مسلمان نہیں ہوتے ہیں‪ ،‬بلکہ ملحدوں کا شر کم‬
‫ہوجاتاہے۔ الحاد کے عالج سے مراد یہ ہے کہ ہمارا مقصد ملحدوں کے الجواب کرنے کی بجائے دین کی طرف راغب کرنا ہے‬
‫اور عالج میں عقلی ومنطقی دلیلیں کم ہی مفید ہوتی ہیں ۔ الحاد کا اصل عالج قلبی اور اخالقی ہے کہ جو نبیوں اور رسولوں کا‬
‫طریق کار تھا‪ ،‬یعنی صحبت صالحین یا قرآن مجید کی صحبت اختیار کرنا‪ ،‬وغیرہ۔ قرآن مجید کی صحبت سے مراد قرآن مجید سے‬
‫تعلق کا وہ درجہ کہ جس کے اہل کو حدیث میں “صاحِب قرآن ” کہا گیاہے۔ یا ملحدوں کو اعلٰی اخالق سے قائل کرنا‪ ،‬وغیرہ۔‬
‫الہامی کتابوں اور رسولوں کی دعوت میں الحاد کے عالج کا طریقہ کار عقلی ومنطقی نہیں بلکہ فطری وقلبی ہے۔ ہماری رائے‬
‫میں اصولی بات یہی ہے کہ دل پہلے اپنے رب کی طرف جھکتاہے‪ ،‬ذہن بعد میں اس سے اطمینان حاصل کرتاہے ۔ دل کے‬
‫جھکنے کے بعد آپ کا ذہن خدا کے انکار کی دلیل کو اس کے وجود کی دلیل بنا کر دکھادے گا۔ ذہن کا کیا ہے‪ ،‬وہ تو کرائے‬
‫کا ٹٹو ہے‪ ،‬کسی طرف بھی چل پڑے تو اس کے دالئل سمجھنا تو کجا ان کے انبار لگانا شروع کردیتاہے۔ اگر محض عقل ومنطق‬
‫سے کسی کو خدا سمجھ میں آتا تو آدھے سے زیادہ فلسفی مسلمان ہوتے‪ ،‬لیکن نصف تو کجا ہمیں تو پچھلی اڑھائی ہزار سالہ‬
‫تاریخ فلسفہ میں دو چار بھی نہیں ملتے۔ الہامی کتابوں اور رسولوں کا خدا تک پہنچانے کا طریقہ بہت مختلف ہے‪ ،‬اور وہ یہ ہے‬
‫کہ خدا باہر سے تمہارے ذہن میں نہیں ڈاال جاسکتا‪ ،‬بلکہ تمہارے اندر سے ُاگلوایا جائے گا‪ ،‬اور یہ سب صحبت سے ہی نصیب‬
‫ہوتاہے۔ اور جو لوگ معاشرے ‪ ،‬مدرسے‪ ،‬مذہبی عناصر کے غلط رویوں کے رِّدعمل میں ملحد بن جاتے ہیں تو ان کا عالج اسی‬
‫صورت ممکن ہے کہ آپ ان سے دوستی کریں‪ ،‬انہیں دالسہ دیں‪ ،‬ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کریں‪ ،‬اعلٰی اخالقیات کا مظاہرہ‬
‫کریں‪ ،‬اور انہیں یہ واضح کریں کہ اسالم اور مسلمان میں بہت فرق ہے۔ اگر کچھ لوگ مذہبی حلیہ اختیار کر کے کسی ناروا‬
‫حرکت کا ارتکاب کرتے ہیں تو یہ ان کا ذاتی فعل ہے اور اس کا سبب ان کا مذہب ہرگز نہیں ہے۔‬
‫الحاد کا سبب بعض اوقات آزمائش بھی بتالیا جاتاہے۔ ایک خاتون پر کوئی آزمائش آئی جو کہ چار سال جاری رہی اور وہ اس‬
‫دوران اللہ سے اس کے ٹلنے کی دعا کرتی رہیں اور جب وہ آزمائش ختم نہ ہوئی تو انہوں نے باآلخر خدا کا ہی انکار کردیا‬
‫اور ملحدہ بن گئیں۔ پس جو لوگ کسی آزمائش کے سبب الحاد کی طرف مائل ہوجاتے ہیں تو انہیں یہ بتالنے کی ضرورت ہے کہ‬
‫خدا کے انکار سے تمہاری آزمائش ختم ہونے والی نہیں ہے۔ اور اگر اس آزمائش کے ختم کرنے میں ہم سے کوئی تعاون بن‬
‫پڑے تو الزمًا کرنا چاہیے کہ ایسے واقعات بھی سامنے آئے ہیں کہ ملحدین کی دنیاوی مدد کی صورت میں خدا سے ان کا شکوہ‬
‫وشکایت جاتی رہی اور وہ دوبارہ ایمان لے آئے۔ اس میں یہ بھی اہم ہے کہ عمومًا آزمائش میں دعا نہ سننے کا الزام دے کر‬
‫خدا کا انکار کرکے انسان بظاہر تو ملحد بن جاتاہے لیکن اس کا دل اندر سے خدا کا قائل ہی رہتاہے کہ اس کے انکار کی بنیاد‬
‫یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ خدا منصف اور عادل نہیں ہے۔ تو وہ خدا کا انکار نہیں بلکہ اس خدا کا انکار کررہا ہوتاہے کہ جو‬
‫اس کے ذہن میں ہوتا ہے۔ اور جو خدا اس کے ذہن میں ہوتاہے‪ ،‬وہ اس کی اپنی شخصیت کا عکس ہوتا ہے کہ جسے وہ خدا‬
‫سمجھ لیتاہے۔ خدا دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جس کو انسان کو پیدا کیا ہے اور دوسرا وہ کہ جسے انسان نے بنایاہے۔ یہ بہت اہم‬
‫نکتہ ہے۔ اور جس خدا کو انسان اپنے تخیل اور تصور میں پیدا کرتاہے‪ ،‬وہ دراصل اس کی اپنی شخصیت کا عکس ہوتاہے۔‬
‫)‪(Alif Shafak , The Forty Rules of Love, USA: Penguin Books Ltd, 2010, p.27‬‬
‫لٰہ ذا یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اس خدا کو مانیں کہ جس کا بیان کتاب وسنت میں موجود ہے‪ ،‬نہ کہ وہ جو کہ ہمارے تخیل‬
‫اور تصور کی پیداوار ہے۔‬
‫راقم کی ایک ایسے ملحد سے بھی بحث ہوئی جو کہ دارالعلوم کے فارغ التحصیل ہیں۔ ہم عمومًا ایسے ملحدین کے اعتراضات کو‬
‫علمی سمجھ کر انہیں علمی جواب دینا شروع کردیتے ہیں جبکہ اس بارے میں سب سے پہال کام جو ہونا چاہیے وہ یہ کہ اس‬
‫ملحد سے دوستی کرکے یہ معلوم کیا جائے کہ اس کے مدرسے کی زندگی میں اس کے ساتھ کوئی جسمانی یا جنسی تشدد تو‬
‫نہیں ہوا؟ مذہبی لوگ اس قسم کے اسباب پر کوئی بات کرنے سے اس لیے بھی گھبراتے ہیں کہ مذہبیوں کی بدنامی ہوگی۔ نہیں‪،‬‬
‫یہ مذہبیوں کی بدنامی نہیں بلکہ اصالح ہے۔ حضرت موالنا اشرف علی تھانوؒی سے کسی نے کہا کہ حضرت داڑھی والوں نے‬
‫چوریاں شروع کردی ہیں۔ انہوں نے جواب میں کہا کہ یوں نہ کہو بلکہ یوں کہو کہ چوروں نے داڑھی رکھ لی ہے۔ لٰہ ذا اگر‬
‫کچھ بدفطرت لوگوں نے مذہبی بھیس اوڑھ لیا ہے تو ان کی نشاندہی مذہب پر نقد نہیں بلکہ مذہب کی خیرخواہی ہے۔‬
‫کچھ دن پہلے انجینئرنگ کے ایک طالب علم میرے پاس آئے اور بات کا آغاز اس طرح سے کیا کہ سر‪ ،‬میں مذہبی ہوں‪ ،‬میرا‬
‫تعلق ایک مذہبی گھرانے سے ہے‪ ،‬میں نے مسجد میں چار سال اذان دی ہے‪ ،‬میں اب بھی مسجد سے ظہر کی نماز پڑھ کر‬
‫آرہاہوں‪ ،‬لیکن مجھے کائنات کے بارے میں جاننے کا شوق ہوا تو میں نے “کوسموس” کے نام سے ایک ٹی وی سیریز دیکھی‬
‫کہ جس نے خدا کے بارے میں کچھ تشویش میرے ذہن میں پیدا کردی ہے۔ (کوسموس” ایک ملحد سائنس دان کارل ساگاں کی‬
‫تیار کردہ ایک ٹی وی سیریز ہے کہ جس میں کائنات کے آغاز سے لے کر آج تک کے بارے میں نظریاتی سائنس اور سائنس‬
‫کی روشنی میں بحث کی گئی ہے۔ )‬
‫اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بعض اوقات ایک مخلص مؤمن بھی خدا کے بارے میں کسی شیطانی وسوسے کے سبب یا کسی‬
‫ملحد کی مغالطہ آمیز گفتگو کے وجہ سے تشویش کا شکار ہوسکتاہے۔ اس بارے میں ہمیں کچھ بہت ہی بنیادی باتیں کرنی ہیں۔‬
‫پہ لی بات تو یہ ےہ کہ خدا کا خالق ہونا انسان کی فطرت میں خود خدا نے ر کھ دیاےہ ۔( َو ِا ْذ َا َخ َذ َر ُّب َک ْن َب ْی آَد َم ْن ُظ ُھ و ْم‬
‫ِر ِھ‬ ‫ِم‬ ‫ِن‬ ‫ِم‬
‫ُذ ِّرَّیَتُھْم َو َاْش َھَد ُھْم َع ٰل ی َاْنُفِسِھْم ‪َ ،‬اَلْس ُت ِبَر ِّبُک ْم ‪َ ،‬قاُلْو اَبٰل ی‪َ ،‬ش ِھْد َنا‪َ ،‬اْن َتُقْو ُلْو ا َیْو َم اْلِقٰی َم ِۃ ِاَّناُکَّنا َع ْن ٰھ َذ اٰغ ِفِلْیَن (‪()173‬االعراف) لٰہ ذا خدا کے‬
‫بارے میں شبہہ پیدا ہونا آسانی سے ممکن نہیں ہے بلکہ اس کے لیے شیطان اور ملحد کو بہت زیادہ اور مسلسل محنت درکار‬
‫ہے۔ زیادہ تر ہوتا یہ ہے کہ ایک مخلص مؤمن اپنے مسئلے کا صحیح تجزیہ نہیں کرپاتا کہ جس تشویش کو وہ خدا کے بارے‬
‫میں شک سمجھ رہاہوتاہے وہی دراصل اس کا ایمان ہوتاہے۔‬
‫مثًال بعض اوقات کائنات اور کوسمولوجی کے بارے میں سائنسدانوں کے نظریات پڑھ سن کر یہ تشویش الحق ہوسکتی ہے کہ اس‬
‫بارے میں مذہب اور قرآن مجید جو کچھ بیان کررہا ہے‪ ،‬سائنس کا علم تو اس کی تائید نہیں کررہا ہے۔ اب یہ بے چینی اس‬
‫وجہ س ے پیدا نہ یں ہوتی کہ خدا کے وجود کے بار ے میں شک ہوگیا ےہ بلکہ اس لیے پیدا ہوتی ےہ کہ یہ سمجھ نہ یں آر ہی‬
‫ہوتی ہے کہ مذہب اور سائنس‪،‬کوسمولوجی کے حاضر علم اور قرآن مجید میں مطابقت کیسے پیدا کی جائے؟ اس کی تشویش کا‬
‫سبب مذہب اور سائنس میں مطابقت پیدا کرنے کی خواہش رکھنا لیکن اس کی اہلیت نہ ہونا ہے‪ ،‬نہ کہ یہ کہ مؤمن کا دل ملحد‬
‫کے دالئل سے اطمینان حاصل کررہاہے۔ یہ تو پہلی بات ہوئی کہ جس شخص کو خدا کے بارے میں کوئی تشویش الحق ہوتو وہ‬
‫پہلے اپنی تشویش کی نوعیت کا گہرائی میں تجزیہ کرے اور پھر عالج کی طرف متوجہ ہو۔‬
‫دوسری بات یہ ہے کہ جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں کہ خدا پرایمان انسان کی فطرت میں پیدائشی طور پر موجود ہے۔‬
‫(حدیث‪:‬اّن اباھریرۃ رضی اللہ عنہ قال‪ :‬قال رسول اللہﷺ ‪ :‬مامن مولود االیولد علی الفطرۃ ‪ ،‬فابواہ یھودانہ‪ ،‬وینصرانہ‪ ،‬او یمّج سانہ‪،‬‬
‫کما تنتج البھیمۃ جمعاء‪ ،‬ھل تحّسون فیھامن جدعاء ثم یقول ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ‪ :‬فطرت اللہ اّلتی فطر الّناس علیھا‪ ،‬التبدیل لخلق‬
‫اللہ‪ٰ ،‬ذ ِلک الّد ین القّیم (الروم ‪ )30‬صحیح البخاری‪ ،‬کتاب الجنائز‪ ،‬باب اذ اسلم الصبی فمات ‪2/95‬۔)‬
‫لٰہ ذا اس میں شک پیدا کرنا آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے ملحد کی حکمت عملی پر غور کریں کہ وہ سادہ لوح مسلمانوں کو‬
‫۔ جب آپ ان کی اس تصوراتی دنیا میں)‪(imaginary world‬شک میں مبتال کرنے کے لیے ایک دنیا بناتے ہیں‪ ،‬خیاالتی دنیا‬
‫داخل ہوجاتے ہیں کہ جس کے بننے‪ ،‬بگڑنے اور قائم رہنے کے تمام اصول وضوابط بھی انہی کے ہوتے ہیں تو یہ دنیا بظاہر‬
‫خوبصورت لیکن جھوٹی ہوتی ہے۔ آپ اس دنیا سے مسلسل تعلق رکھنے کی وجہ سے اس کا یقین کرنے لگ جاتے ہیں حاالنکہ‬
‫وہ دنیا صرف آپ کے ذہن میں ہوتی ہے‪ ،‬خارج میں اس کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ یہ کمال سب سے پہلے قدیم دور میں‬
‫سوفسطائیوں نے دکھایا‪ ،‬پھر قروِن وسطٰی میں وجودیوں نے اور اب عصرحاضر میں ملحد دکھا رہے ہیں۔‬
‫ہوتایہ ہے کہ جب آپ الحاد اور دہریت پر مسلسل کتابیں پڑھتے ہیں یا ٹیلی ویژن سیریز دیکھتے ہیں تو آپ اس دنیا میں داخل‬
‫ہوجاتے ہیں اور یہاں سے ہی آپ کی تشویش کا آغاز ہوجاتا ہے۔ اس تشویش کا آسان اور ابتدائی عالج یہی ہے کہ سب سے‬
‫پہ لے الح اد اور دہریت کا مسلسل مطالعہ یا شب ور وز ان کی ٹیلی ویژن سیر یز دیک ھنا ترک کریں اور حقیقی دنیا میں واپس آنا‬
‫شروع کریں۔ آپ چاہے اس دوران مذہب کا مطالعہ نہ بھی کریں‪ ،‬صرف آپ دہریت کا مطالعہ یا اس کی سیریز دیکھنا بند کردیں‬
‫تو چند دنوں میں آپ بھلے چنگے ہوجائیں گے‪ ،‬کیونکہ آپ ان کی بنائی ہوئی جھوٹی دنیا سے باہر نکل آئیں گے جو انہوں نے‬
‫صرف اپنی چرب زبانی اور قوِت فعالیت کے غیر معمولی استعمال سے آپ کے خیاالت میں پیدا کررکھی ہے‪ ،‬لٰہ ذا آپ کی توجہ‬
‫بٹی نہیں‪ ،‬آپ ان کے سحر سے نکل گئے اور ان کی بنائی ہوئی دنیا بھی غائب ہوگئی۔ انسان کس طرح جانتے بوجھتے جھوٹ کو‬
‫بھی حقیقت سمجھ کر قبول کرنا شروع کردیتاہے‪ ،‬اس کا تھوڑا سا اندازہ کسی ایسے جھولے میں بیٹھ کر ہوسکتاہے کہ جو آپ کو‬
‫حرکت کرنے والی کرسی ‪ ،‬سامنے لگے پردہ اسکرین اور ساؤنڈ سسٹم کی مدد سے پانچ منٹ میں دیوار چین اور چاند کی سیر‬
‫کراالتے ہیں۔‬
‫تیسری بات یہ ہے کہ الحاد اور دہریت کوئی علمی مسئلہ نہیں ہے کہ ہم اس کا علمی جواب تالش کرنے لگ پڑیں۔ خدا کا اس‬
‫سے بڑا احسان کیا ہے کہ اس نے اپنے وجود کی دلیل میرے اندر رکھ کر مجھے دنیا میں بھیجا ہے۔ خدا پر ایمان کوئی تصور‬
‫تھوڑا ہی ہے کہ جسے ہم اپنے منطقی دالئل یا جامع ومانع تعریفوں سے مکمل کرلیں۔ خدا کو پالینا تو ایک واقعہ ہے جو کسی‬
‫بھی وقت ہوسکتاہے۔ تو خدا کے بارے میں تشویش کا مؤثر ترین عالج خدا کا کالم ہے۔خدا کے وجود کی دلیل بھی وجودی‪ ،‬حالی‬
‫اور شعوری ہوتی ہے نہ کہ عقلی ومنطقی اور فکری۔ ہم کسی تشویش کے الحق ہونے کی صورت میں تفسیریں پڑھنے کا مشورہ‬
‫نہیں دے رہے بلکہ یہ کہ فراغت کے لمحات میں‪ ،‬تنہائی میں ‪ ،‬اکیلے میں ‪ ،‬مکمل خاموشی میں‪ ،‬کسی مکی سورت کے دو چار‬
‫رکوعوں کا لفظی ترجمہ اردو میں پڑھیں‪ ،‬اور پھر وہی سورت خوبصورت لب ولہجے میں قرآن مجید کی تالوت کرنے والے کسی‬
‫عربی قاری کی آواز میں اونچی آواز میں سنیں‪ ،‬آپ مخلص ہیں تو خدا کو پالینے کے لیے ایک دفعہ ہی ایسا کرلینا کافی ہے۔ اب‬
‫آپ کو خدا کے وجود کے لیے کسی عقلی ومنطقی دلیل کی ض رور ت نہ یں ےہ کہ آپ کی آنک ھوں س ے جار ی ہونے والے آنسو‬
‫خدا کے وجود کی دلیل بن کر گررہے ہیں اور آپ کادل خدا کی محبت میں لپک رہاہے۔( َو ِاَذ اَسِم ُعوا َم آ ُاْنِز َل ِاَلی الَّرُسْو ِل َتٰر ی‬
‫َاْع ُیَنُھْم َتِفْیُض ِم َن الَّد ْم ِع ِمَّم اَعَر ُفْو ا ِم َن اْلَح ِّق‪َ ،‬یُقْو ُلْو َن َر َّبَنآ َاَم َّنا َفاْک ُتْبَنا َم َع الّٰش ِھِد ْیَن (‪83‬المائدۃ )‬
‫)جاری ہے(‬
‫تحریر ڈاکٹر زبیر‬
‫ملحدین کے ذات باری تعاٰل ی اور قبر و حشر کے متعلق سخت سوالوں کے منطقی و فلسفی جوبات اثبات باری تعالٰی ‪ ،‬توحید‪ ،‬تنزیہ*‬
‫و تقدیس‪ ،‬مسئلہ خیر و شر‪ ،‬مسئلہ رؤیت باری تعالٰی ‪ ،‬جبر و قدر(تقدیر)‪ ،‬نبوت‪ ،‬عام اعترضات‪ ،‬محمد رسول اللہ کی نبوت‪ ،‬خاتم‬
‫النبیین کی تفسیر‪ ،‬وجود باری تعالٰی ‪ ،‬جنت و جہنم کا وجود‪ ،‬قبر و برزخ کی زندگی‪ ،‬موت کے بعد زندہ ہونا اور قیامت کا وجود‪،‬‬
‫خدا کا وجود یہ اور ان جیسے سیکنڑوں ملحدین کے مشرکانہ سوالوں کے جامع و عقلی جوابات پر مشتمل بہترین وٹس ائپ‬
‫*گروپ‬
‫*گروپ نمبر‪ 1️⃣:‬لنک*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/Ke2feylEHdG6lVzArFtVoG‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 2️⃣:‬لنک*‬


‫‪https://chat.whatsapp.com/Fe4WnvQclaN91i5oql58EX‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 3️⃣:‬لنک‪/‬نوٹ‪ :‬تیسرا گروپ پشتو زبان والوں کیلئے ہے پوسٹنگ پشتو میں ہوتی ہے*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/EZxJ6qmgGpQ2zFxqAeV5uH‬‬
‫‪♡ ㅤ‬‬ ‫‪❍ㅤ‬‬ ‫⎙‬ ‫⌲‬
‫‪ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ‬‬ ‫‪ˢᵃᵛᵉ‬‬ ‫‪ˢʰᵃʳᵉ‬‬
‫*🛑رد الحاد کورس🛑* ‪[11/28, 9:27 AM] +92 332 9407835:‬‬
‫*الحاد_اسباب وحل‪*📌 12:‬‬
‫ِبْس ِم الّٰل ِِه الَّرْح َمِن الَّر ِح ْيم‬
‫*باب نمبر‪*🛑12:‬‬
‫*سبق نمبر‪:5‬الحاد کو اس قدر فروغ کیوں مل رہا ہے؟*‬

‫چونکہ الحاد سے مراد انکا ِر خدا ہے‪ ،‬اس لیے اس کے فروغ کا روحانی زندگی کی موت و انحطاط کے ساتھ گہرا تعلق ہے‪،‬‬
‫تاہم اس کے پھیلنے کے اس کے سوا اور بھی اسباب ہیں۔ فکری سطح پر الحاد خدا کے وجود سے انکار اور اسے قبول نہ‬
‫کرنے سے عبارت ہے۔ نظری طور پر یہ مادر پدر آزادی کا نام ہے اور عملی طور پر یہ اباحیت کا علمبردار ہے۔ فکری سطح‬
‫پر الحاد کے پھیلنے کا سبب نوجوان نسل کی تربیت میں غفلت اور علمی اداروں میں غلط پالیسیوں کی عملداری ہے‪ ،‬عالوہ ازیں‬
‫اسے بعض دیگراقدامات سے بھی تیزی اور تقویت ملی ہے ۔‬
‫الحاد کو سب سے زیادہ فروغ ایسے معاشرے میں ملتا ہے‪ ،‬جہاں (دینی)جہالت کی حکمرانی ہوتی ہے اور روحانیت نام کی کوئی‬
‫چیز نہیں ہوتی۔ روحانی اور قلبی تربیت سے محروم عوام جلد یا بدیر الحاد کا شکا ر ہو جاتے ہیں اور عنایت خداوندی کے بغیر‬
‫اپنے آپ کوالحاد کے چنگل سے نہیں نکال سکتے۔ جب امت مسلمہ بے پروائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے افراد کی ایمانی‬
‫ضروریات پوری کرنے کا خصوصی اہتمام نہیں کرتی اور انہیں جہالت کی تاریکی میں بے یار و مددگار چھوڑ دیتی ہے تو ایسے‬
‫افراد کسی بھی قسم کے افکار کو قبول کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار ہوتے ہیں۔‬
‫شروع شروع میں الحاد کا اظہار ایمان کے بنیادی اصولوں کے بارے میں الپروائی برتنے اور عدم اہتمام کا اظہار کرنے کی‬
‫صورت میں ہوتا ہے۔ آزادئ فکر کا لبادہ اوڑھے ہوئے یہ طرزعمل جیسے ہی انکا ِر خدا اور الحاد کے حق میں کوئی چھوٹی سی‬
‫نشانی پاتا ہے‪ ،‬الحاد میں اضافہ ہوتا ہے۔ اگرچہ الحاد کی کوئی علمی بنیاد نہیں ہوتی‪ ،‬لیکن بعض اوقات غفلت ‪ ،‬الپروائی اور غلط‬
‫اندازہ الحاد کے پیدا ہونے کا باعث بن جاتا ہے۔دوِر حاضرمیں بہت سے لوگ اس قسم کے اسباب کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں ۔‬
‫لیکن دوسری طرف خوش قسمتی سے بعض ایسی کتابیں لکھی جا چکی ہیں‪ ،‬جو ہمارے فکر و احساس کو مجروح کرنے والے اس‬
‫قسم کے سواالت کا جواب دے کر ہماری روحانی بیماریوں کا عالج کرتی ہیں۔ آج مشرق ومغرب میں مختلف زبانوں میں فطرت‬
‫اور اسباب کے حقیقی چہرے سے پردہ اٹھانے والی سینکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں۔‬
‫جہاں ہمیں اپنے ہاں بعض مغرب زدہ لوگوں کی لکھی ہوئی گمراہ کن کتابوں پر تعجب ہوتا ہے‪ ،‬وہیں یہ بات باعث اطمینان بھی‬
‫ہے کہ مغرب میں ‘‘ہم خدا پر ایمان کیوں رکھتے ہیں؟’’جس کی تصنیف میں متعدد مغربی سائنسدانوں نے حصہ لیا ہے‪ ،‬ایسی‬
‫متعدد کتابیں لکھی جا چکی ہیں جو ِان مغرب زدہ لوگوں کے اعتراضات کا جواب فراہم کرتی ہیں۔(گزشتہ دنوں ہمارے پیج سے‬
‫مشہور مسلم فلسفی حمزہ اینڈرئیس کی کتاب ڈیوائن رئیلٹی کا ترجمہ بھی پیش کیا جاچکا ہے۔ اسکے عالوہ بہت سے عیسائی‬
‫سائنسدانوں کی اس موضوع پر نادر تحقیقات کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے۔)‬
‫علمی حلقوں میں اس موضوع پراس قدر وضاحت کے پائے جانے کے بعد اب الحاد کو محض نفسیاتی بگاڑ‪ ،‬ہٹ دھرمی‪ ،‬بغیر‬
‫دالئل کے تسلیم کیا جانے واال فکر اور بچگانہ خیال سمجھا جاتا ہے‪ ،‬لیکن اس کے باوجود ہمارے بعض نوجوان زمانے بھر سے‬
‫مسترد شدہ بعض افکا ر کے منفی اثرات سے پوری طرح محفوظ نہیں ہیں‪ ،‬بلکہ انہیں علمی حقائق سمجھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ‬
‫ہے کہ انہوں نے صحیح علمی اور روحانی تربیت نہیں پائی۔‬
‫یہی وجہ ہے کہ صحیح علوم کی اشاعت کے لیے علمی اور تربیتی تیاری وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ اس مقدس فریضے کی‬
‫ادائیگی میں کوتاہی معاشرے کے لیے ناقابل تالفی نقصان کا باعث بنے گی۔ شاید سالہا سال سے معاشرہ جن مصائب کا شکا ر‬
‫ہے‪ ،‬ان کی بنیادی وجہ یہی غفلت و کوتاہی ہے‪ ،‬کیونکہ ہم تعلیم کے عشق سے سرشار‪ ،‬علم وروح اور دل و دماغ کے جامع‬
‫اور دونوں اعتبار سے ممتاز مرشدوں سے محروم ہیں۔ ہم حقیقی مرشدوں سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس اہم ترین بنیادی انسانی‬
‫فریضے کی ادائیگی کی ذمہ داری اٹھائیں گے اور ہمیں ان مصائب سے نجات دالئیں گے‪ ،‬جن میں ہم ایک زمانے سے مبتال ہیں‪،‬‬
‫تب جدید نسل کے افکار و خیاالت اور احساسات میں ٹھہراؤ پیدا ہو گا‪ ،‬وہ غلط افکار کے سیالب میں بہنے اور تذبذب کا شکا ر‬
‫ہونے سے محفوظ ر ہے گی اور الحاد کے خالف اس کے ہاتھ میں ہتھیار آئے گا۔‬
‫حاصل یہ کہ فکری الحاد جہالت‪ ،‬تجزیہ وتحلیل کی صالحیت سے محرومی اور روحانی وقلبی تربیت کے فقدان کا نتیجہ ہے‪،‬‬
‫کیونکہ انسان جس چیزسے آشنا ہوتا ہے اس سے محبت کرتا ہے اور جس چیزسے ناواقف ہوتا ہے اس سے عداوت رکھتا ہے۔ہمیں‬
‫کتب خانوں میں رکھی کتابوں پر ایک نظرڈالنی چاہیے اور ان افکار و شخصیات کا جائزہ لیناچاہیے‪ ،‬جنہیں یہ کتابیں پیش کرتی‬
‫سے اور نوجوان )‪‘‘(Zorro‬ہیں‪ ،‬تب ہمیں پتا چلے گا کہ گلیوں میں پھرتے بچے اپنے لباس میں‘‘ریڈ انڈینز’’ اور ‘‘زورو‬
‫سے کیوں مشابہت اختیارکرتے ہیں۔ جس حقیقت کی ہم وضاحت کرنا چاہتے ہیں یہ اس کی صرف )‪‘‘’’ (Don Juon‬ڈان جان‬
‫دو ایک مثالیں ہیں۔ اگرہم اپنے معاشرے کو معاشرتی اور اقتصادی لحاط سے تباہ کرنے والے دیگر عناصر کا جائزہ لیں تو‬
‫صورت حال کی ہولناکی سے ساراجسم کا نپ اٹھتا ہے۔ ہمارے ہم وطن ایک عرصے سے ان لوگوں کے پیچھے چل ر ہے ہیں‪،‬‬
‫جن سے انہیں محبت ہے اور جنہیں ان کے سامنے آئیڈیل کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے‪ ،‬لیکن جنہیں وہ نہیں جانتے ان سے نہ‬
‫صرف وہ نامانوس ہیں‪ ،‬بلکہ وہ ان کے بارے میں معاندانہ جذبات رکھتے ہیں۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان امورکے بارے میں‬
‫سوچیں‪ ،‬جنہیں ہمیں ان کے سامنے پیش کرنا چاہیے۔ ہماری یہ بھی ذمہ داری ہے کہ ہم انہیں فارغ اور بے مہار نہ چھوڑیں‪،‬‬
‫بلکہ ان کی روشنی کے راستے کی طرف راہنمائی کریں۔‬
‫نوجوان نسل کے الحادکی طرف مائل ہونے اور انکار خداکے فروغ پانے کا دوسراسبب نوجوانوں کی فطرت ہے۔ یہ بات تیس‬
‫چالیس سال پہلے کے (ملک)ترکی کے لحاظ سے درست ہے‪ ،‬کیونکہ اس دورمیں نوجوان نسل دینی تعلیم کے بغیر پروان چڑھی‬
‫تھی۔ ان نوجوانوں کی المتناہی خواہشات مادر پدر آزادی چاہتی ہیں۔ اس قسم کے غیرمعتدل رجحانات الحاد سے بہت قریب ہوتے‬
‫ہیں۔ ایسے لوگ کہتے ہیں‪‘‘:‬ہم معمولی سی فوری لذت کی خاطر مستقبل میں آنے والی بہت سی تکالیف برداشت کرنے کے لیے‬
‫تیار ہیں۔ ’’اس طرح وہ اپنے لیے دردناک انجام کا سامان فراہم کرتے ہیں اور شیطان کی پیش کردہ موہومہ لذات سے دھوکا کھا‬
‫کر الحاد کے جال میں ایسے پھنستے ہیں‪ ،‬جیسے آگ کے گرد گردش کرتے پتنگے اس میں جا گرتے ہیں۔‬
‫جس قدرجہالت اور روحانی وقلبی انحطاط بڑھتا ہے‪ ،‬اسی قدر جسمانی لذتیں آسانی سے روحانی جذبات پر قابو پا لیتی ہیں اور جس‬
‫نے اپنی روح شیطان کے سپرد کر دی تھی‪ ،‬اسی طرح نوجوان اپنے دل شیطان کو )‪‘‘ (Dr Faustus‬طرح ڈاکٹر ‘‘فوسٹس‬
‫دے بیٹھتے ہیں۔ جب روح مردہ‪ ،‬دل تہی دامن اور عقل پراگندہ ہوجاتی ہے توالحاد کی راہ ہموار ہوجاتی ہے‪ ،‬جبکہ دوسری طرف‬
‫عقیدہ‪ ،‬احساِس ذمہ داری اور تہذیب و تربیت سے آراستہ دل وجان نوجوانوں کی بیداری کی ضمانت فراہم کرتے ہیں‪ ،‬بصورِت دیگر‬
‫جس معاشرے میں شیطان کو دلوں پر کنٹرول حاصل ہو جائے‪ ،‬وہ معاشرہ ایک بے بنیاد بات سے دوسری بے بنیاد بات کی طرف‬
‫منتقل ہوتا رہتا ہے‪ ،‬اپنے ہی منبر و محراب کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے‪ ،‬ہر نئے فلسفے کو نجات دہندہ سمجھ کر اس کے پیچھے‬
‫چل پڑتا ہے اور اس سے فکری غذا حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو اس کی آغوش میں ڈال دیتا ہے۔ جب وہ صبح بیدار‬
‫ہوتا ہے تو بدامنی اور افراتفری پھیال دیتا ہے‪ ،‬دوپہرکے وقت سوشلزم کے سامنے مؤدبانہ کھڑا ہو جاتا ہے‪ ،‬شام ڈھلے‘‘فلسفہ‬
‫وجودیت’’کا احیا کرتا ہے اور رات کو ہٹلر کے گن گاتا ہے‪ ،‬لیکن اسے اپنی روح کے سوتوں‪ ،‬اپنی قوم کے برگ و بار‪ ،‬تہذیب‬
‫و ثقافت اور روح کی طرف دیکھنا نصیب نہیں ہوتا۔‬
‫جس نسل کا فکری بگاڑ اس حد تک پہنچ چکا ہو‪ ،‬اس کے لیے خواہشات و لذات کے چنگل سے آزاد ہونا مشکل ہوتا ہے اور‬
‫اس کے ذہن اور فکر کو صحیح رخ پر ڈالنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہوتا ہے‪ ،‬لٰہ ذا نئی نسل میں درست انداز سے سوچنے‬
‫کی صالحیت پیدا کرنے کے لئے آج تک ہماری بقا اور معاشرے کے لیے بنیادی حیثیت رکھنے والے افکا ر کی اصطالحات کو‬
‫منظم انداز میں اس تک پہنچانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے‪ ،‬بصورت دیگرہم جسمانی لذتوں میں ڈوبے رہیں گے اور ہماری‬
‫‪:‬حالت وہی ہو گی‪ ،‬جوشاعرمحمدعاکف نے بیان کی ہے‬
‫اگر وہ کہیں کہ معاشرہ مردہ جذبات کے ساتھ اپنے وجود کو برقرار رکھ سکتا ہے تو ان کی تصدیق نہ کرنا۔ مجھے کوئی ’’‬
‫‘‘ ایک ایسامعاشرہ تو دکھاؤ جو مردہ جذبات کے ساتھ قائم رہ سکا ہوا۔‬
‫الحاد کے فروغ کا ایک اور سبب اباحی(سیکولر) فکر ہے‪ ،‬جس میں ہرچیزکو مباح اور قابل استفادہ سمجھاجاتا ہے۔ یہ فکرموقع و‬
‫لذت پرستی پر مبنی ہے۔ آج اس فکر کو ایک منظم فکری اور فلسفیانہ قالب میں ڈھالنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ ہمارے ہاں یہ‬
‫کا لبادہ اوڑھ کرآئی اور مسلمانوں کی شرم وحیا کے مفہوم کو بگاڑ )‪‘‘ (Libido‬فکرسب سے پہلے فرائیڈ کے ’’نظریہ لبیڈو‬
‫کے وجودی فلسفے نے ہمارے ہاں زور پکڑا اور شرم و )‪ (Albert Camus‬دیا۔ اس کے بعد جان پال سارتراور البیخ کامیو‬
‫حیا کی عمارت کو مسمار کر کے رہے سہے اثرات کو بھی مٹا دیا۔‬
‫انسانیت کے لیے باعث ننگ و عار اس فلسفے میں انسانیت کی حیثیت ردی کی سی ہے‪ ،‬لیکن اس کے باوجود اسے انسان کا‬
‫حقیقی ُرخ ظاہر کرنے والے فلسفے کی حیثیت سے نئی نسل کے سامنے پیش کیا گیا ہے۔ یورپ اور اس کی تقلید کرنے والے‬
‫کر دیا گیا ہو۔ انسانیت یہ سمجھے )‪(Hypnotized‬ممالک کے نوجوان اس فلسفے کی طرف ایسے دوڑے جیسے انہیں ہپناٹائیزڈ‬
‫بیٹھی تھی کہ اشتراکی فلسفے کے نتیجے میں فرد کی جو قدرومنزلت کم ہوئی ہے‪ ،‬وجودی فلسفہ اسے اس کی کھوئی ہوئی قدر و‬
‫منزلت واپس دالئے گا‪ ،‬جس کے نتیجے میں انسانیت کا درخت ازسرنو پھلنے پھولنے لگے گا‪ ،‬لیکن ہائے افسوس! انسانیت نہ جان‬
‫سکی کہ وہ ایک بار پھر دھوکے کا شکا ر ہو گئی ہے۔‬
‫چونکہ ایمان باللہ اور حالل و حرام کے مفاہیم اس قدربگڑی ہوئی نسل کے لذت پرستانہ فلسفے کے ساتھ میل نہیں کھاتے‪ ،‬اس‬
‫لیے ہم دیکھتے ہیں کہ حشاشین کے سربراہ حسن الصباح کی پرفریب جنت میں رہنے کی خواہش مند یہ نسل اپنے آپ کوالحاد کی‬
‫آغوش میں دے دیتی ہے۔ ہم نے یہ خیاالت مستقبل کے صاحب بصیرت منتظمین‪ ،‬مرشدین اور اساتذہ کے غوروفکر کے لیے بیان‬
‫کیے ہیں‪ ،‬تاکہ وہ الحاد کے سیالب پر بند باندھ سکیں‪ ،‬تاہم ہمارا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ بے راہ روی اور گمراہی کے صرف‬
‫یہی اسباب ہیں‪ ،‬نیز الحاد کی روک تھام کے لیے اختیار کی جانے والی تدابیر بھی ان میں محصور نہیں۔ ہماری آرزو ہے کہ امت‬
‫مسلمہ دور حاض ر میں خواِب غفلت س ے بیدار ہو کر ر شدوہدایت کی طرف لوٹ آئے ۔‬
‫تحریر فتح اللہ گولن‬
‫ملحدین کے ذات باری تعاٰل ی اور قبر و حشر کے متعلق سخت سوالوں کے منطقی و فلسفی جوبات اثبات باری تعالٰی ‪ ،‬توحید‪ ،‬تنزیہ*‬
‫و تقدیس‪ ،‬مسئلہ خیر و شر‪ ،‬مسئلہ رؤیت باری تعالٰی ‪ ،‬جبر و قدر(تقدیر)‪ ،‬نبوت‪ ،‬عام اعترضات‪ ،‬محمد رسول اللہ کی نبوت‪ ،‬خاتم‬
‫النبیین کی تفسیر‪ ،‬وجود باری تعالٰی ‪ ،‬جنت و جہنم کا وجود‪ ،‬قبر و برزخ کی زندگی‪ ،‬موت کے بعد زندہ ہونا اور قیامت کا وجود‪،‬‬
‫خدا کا وجود یہ اور ان جیسے سیکنڑوں ملحدین کے مشرکانہ سوالوں کے جامع و عقلی جوابات پر مشتمل بہترین وٹس ائپ‬
‫*گروپ‬
‫*گروپ نمبر‪ 1️⃣:‬لنک*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/Ke2feylEHdG6lVzArFtVoG‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 2️⃣:‬لنک*‬


‫‪https://chat.whatsapp.com/Fe4WnvQclaN91i5oql58EX‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 3️⃣:‬لنک‪/‬نوٹ‪ :‬تیسرا گروپ پشتو زبان والوں کیلئے ہے پوسٹنگ پشتو میں ہوتی ہے*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/EZxJ6qmgGpQ2zFxqAeV5uH‬‬
‫‪♡ ㅤ‬‬ ‫‪❍ㅤ‬‬ ‫⎙‬ ‫⌲‬
‫‪ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ‬‬ ‫‪ˢᵃᵛᵉ‬‬ ‫‪ˢʰᵃʳᵉ‬‬
‫*🛑رد الحاد کورس🛑* ‪[11/28, 9:27 AM] +92 332 9407835:‬‬
‫*الحاد_اسباب وحل‪*📌 12:‬‬
‫ِبْس ِم الّٰل ِِه الَّرْح َمِن الَّر ِح ْيم‬
‫*باب نمبر‪*🛑12:‬‬
‫*سبق نمبر‪:6‬دور حاضر کا الحادی منظر نامہ*‬

‫مغربی الحادی فکر نے ہماری عوام بلکہ پوری اقوام دنیا پر یلغار کی ۔ ہمارے نوجوانوں کے سینوں کو ان کے خالق کے خالف‬
‫ٓالودہ اور پراگندہ کیا ۔ دینِ اسالم کے مخالف ان کے دلوں کو کینہ سے بھر دیا ۔ انہیں ان کی نرم و مالئم فطرت سے بیگانہ‬
‫کردیا۔ اسالم ‪ ،‬مسلمان اور قرٓان کریم کے ساتھ ملحدوں کی شدید عداوت کی وجہ سے تمام مادہ پرست گروہوں اور ان کے ہم نوا‬
‫دوستوں نے ہمارے عقیدہ کو عبث اور بیکار قرار دینا شروع کردیا ۔ اس سب کے پیچھے ان کا اصل ہدف اس دینِ حنیف کے‬
‫ارکان میں ارتعاش و ضعف پیدا کرنا ‪ ،‬اسے بد نما و بد شکل قرار دینا اور اس کے نشاناتِ راہ کو مسخ کرنا ‘ہے ۔ یہ‬
‫ملحدین اور بے دین اپنے مقصد و ہدف کو پانے کے لیے مختلف طریقوں کو بطور منہج اپناتے ہیں ۔ کبھی مکر و فریب کے‬
‫لبادہ میں ‪ ،‬کبھی دھوکہ و تدلیس کے پردہ میں اور بیشتر تو یہ اللچ اور دھمکی کے ساتھ اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی‬
‫کوشش کرتے ہیں ۔ جن لوگوں کے دلوں میں مرض ہوتا ہے وہ ان ملحدوں کے تابع بن جاتے ہیں ۔ دراصل یہی لوگ مغربی‬
‫تہذیب اور اس کی بے حقیقت اور دھوکہ بازچمک دمک سے حیران و ششدر ہوجاتے ہیں ۔ کیونکہ الحاد زندگی میں امرِ واقع بن‬
‫گیا ہے جسے ٹی وی چینلز پھیالتے ہیں اور انٹرنیٹ کے صفحات فروغ دیتے ہیں ‘ اسی لیے براِہ راست اس کی حقیقت کو عیاں‬
‫کرنا ‪ ،‬اس سے برتأو اور عالج کے طریقوں پر خصوصی توجہ کی اشد ضرورت ہے ۔‬
‫٭الحاد کا مطلب‬
‫درست راستے سے ہٹ کر ظلم ‪ ،‬جور اور جدال کی جانب میالن کا نام ہے ۔مثال عربی میں َلَح َد ‪ (Atheism) ،‬درا صل الحاد‬
‫َٔاْلَح َد ِإْلَح اًدا کے الفاظ اس شخص کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں جو ظلم ‪ ،‬زیادتی اور جدال کے جانب جائے ۔ملحدین‬
‫سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس کائنات کے خالق اور رّب کا انکار کیا ۔ جو اس کائنات میں تصرف کرنے)‪(Atheists‬‬
‫واال ہے ؛جس کے علم اور حکمت سے اس کائنات کا نظام چل رہاہے ؛ جس کے ارادہ و قدرت کے ساتھ اس کائنات کے واقعات‬
‫و حادثات پیش ٓاتے ہیں ۔ ملحدین سمجھتے ہیں ‪:‬کہ کائنات یا اس کامادہ ازلی ہے ؛ کائنات کے تغیرات امرِ اتفاقی کے تحت طے‬
‫پاتے ہیں یا مادہ کی طبیعت اوراس کے قوانین کے تقاضوں کے تحت پورے ہوتے ہیں ؛ زندگی اور زندگی کے تابع فکر وشعور‬
‫ایسی سب چیزیں مادہ کی ذاتی ترقی کا نتیجہ ہیں ۔ (‪)۱‬‬
‫٭معاصر الحاد کی تاریخ ‪،‬ابتداء و ارتقاء‬
‫در حقیقت کوئی متعین تاریخ نہیں ملتی جس سے الحاد و بے دینی کی اساس کے بارے میں معلوم ہوسکے کہ اس کی ابتدا ء‬
‫فالں تاریخ سے ہو ئی۔ یہ تاریخ میں دیگر امورکے روبرو اپنے طورپر نمودار ہوجانے واال ایک طفیلی فتنہ ہے ۔ جس کی کوئی‬
‫پائیدارجڑیں اور اساسیات نہیں پائی جاتیں حتی کہ نہ قدیم یونانی سوفسطائیوں کے ہاں؛ نہ ابیقورکے ہاں اور نہ والٹیر کے ہاں ۔‬
‫الحاد ایک مستقل فلسفہ کی طرح ہے ۔ جس کی پوری تاریخ میں کوئی بنیاد نہیں ملتی ۔ اس لیے یونانی مٔوّر خ کہتا ہے ‪:‬‬
‫’’تاریخ میں قلعے‪ ،‬محالت اور درس گاہوں کے بغیر شہر وں کے وجود پائے گئے ہیں مگر تاریخ میں عبادت گاہوں سے خالی‬
‫‘‘شہرکبھی نہیں پائے گئے ۔‬
‫ہمارے جدید زمانہ میں معاصر الحاد کے ظہور کے لیے متعین تاریخ مکمل ضبط کے ساتھ بتانا ‘ مشکل ہے ۔ لیکن مغربی‬
‫مٔورخین میں سے اغلب بتاتے ہیں کہ معاصر الحاد کی ابتداء ‪1789‬ء میں باسٹل قلعہ کی قید ڈھانے کے بعد انقالِب فرانس کے‬
‫ٓاغاز کے ساتھ ہوئی ۔ البتہ یہ الحاد عالمی سطح پر بالفعل‪1917‬ء کے انقالب کے پیچھے پیچھے نمودار ہوا‘جب روس میں قانون‬
‫سازی کے لیے بالشفہ (اکثریت ) کوپہنچ حاصل ہوگئی ۔ لیکن معمولی انصاف کے ساتھ ہی یہ بات ہم پر عیاں ہوجاتی ہے کہ‬
‫بالشفہ (اکثریت ) بھی عماًل ملحدین ہی تھے جنہوں نے دین سے چومکھی لڑائی لڑی ۔ یکم جنوری ‪1956‬ء کو ٹائم اخبار کے‬
‫نشر کردہ پرچہ میں یہ رپورٹ شائع ہوئی کہ سویت یونین میں ‪1917‬ء میں گرجا گھروں کی تعداد ‪46‬ہزار تھی ۔ جبکہ یہ تعداد‬
‫‪1956‬ء تک کم ہو کر ‪4‬ہزار رہ گئی ۔ ہاں البتہ کمیونسٹ بالشفہ (اکثریت )کا الحاد جتنا سیاسی تھا اتنا علمی ‪ ،‬فلسفیانہ اور‬
‫فکری نہ تھا ۔ کیونکہ مارکس کے نظریہ کے مطابق دین ایک باالئی عمارت کا نام ہے ۔ جس میں فکر ‪ ،‬معاشرت ‪ ،‬سیاست ‪،‬‬
‫رسوم و رواج اور اخالقی اقدار موجود ہوتے ہیں ۔ جبکہ مارکسی معاشرہ کے لیے معیشت و اقتصاد ایک نچلی عمارت ہوتی ہے ۔‬
‫تمام باالئی عمارتیں دراصل اس نچلی عمارت کا عکس ہوتی ہیں۔ نچلی عمارت کے بغیر اکیلی باالئی عمارت کبھی وجود نہیں‬
‫رکھتی۔ مارکس کی مراد یہ ہے کہ دین ایک عارضی عامل اور باعث ہے ۔ جو ٓائندہ مرحلہ میں مکمل طور پر زائل ہو جائے گا‬
‫۔حتی کہ مارکس کے لوگوں کی ادارت میں اقتصادی عامل باقی رہ جائیگا ۔ اس لیے پوری دنیا میں ملحدین کی تعداد کے اکثر‬
‫اعداد و شمار بالکل بکواس اور سطحی ہیں۔ کیونکہ کوئی بھی مملکت جب اشتراکی حکومت ہونے کا اعالن کرتی ہے ‘ تو گراف‬
‫کے جداول میں اس مملکت کے شہریوں کی تعداد دین کے خانہ سے بے دینی اور الحاد کی طرف خود بخودتبدیل ہوجاتی ہےیہی‬
‫چیز ہے جس کی جانب صامویل نے اشارہ کیا ہے۔وہ اپنی کتاب (صدام الحضارات)’’تہذیوں کا ٹکرائو‘‘ کے صفحہ ‪108‬پر‬
‫لکھتاہے ‪ ’’:‬پوری دنیا کے ملحدین میں سے تقریبا ‪92‬فیصد چینی بنتے ہیں ۔ کیونکہ جب کمیونزم چین میں ٓایا تو پوری دنیا‬
‫میں اہلِ دین کے لیے کیے گیے اعداد و شمار کے سروے میں تمام غیرسامی اصحابِ ادیان ملحدوں اور الدینوں کی جانب خود‬
‫بخود منتقل ہو گئے۔‘‘ یہ ایک جبری اور نامناسب تبدیلی و منتقلی ہے ۔ (‪)۲‬‬

‫٭حالیہ الحاد و بے دینی کے اسباب‬


‫۔یورپی گرجا اور تحریف شدہ عیسائیت کی دینداری ‪ :‬جس نے خرافات کو پھیالیا اور تجرباتی علم اور سائنسی ایجادات سے جنگ‪1‬‬
‫مول لی۔‬
‫۔ سرمایہ دارانہ معیشت کی یلغار ‪:‬جس نے اخالقِ حسنہ کا جنازہ نکاال اورحرص ‪،‬طمع ‪ ،‬مفاد پرستی اور استعمار کو رواج دیا۔‪2‬‬
‫۔ اشتراکی فکر کی ترویج ‪ :‬جو بزعمِ خویش فقراء ‪ ،‬محروموں اور مظلوموں کے دفاع کی دعویدار ہے لیکن اس نے ِان پسے ‪3‬‬
‫ہوئے طبقہ کو مزید محرومی اور فقر میں مبتال کردیا۔ (‪)۳‬‬
‫۔دورِ جدید کی زندگی اور تہذیبِ نو کے چکا چوند مظاہر‪ :‬مادی سائنس نے انسان کے لیے پرتعیش اور ٓاسائشات سے لبریز ‪۴‬‬
‫زندگی کے دروازے کھول دیے ۔ کار‪ ،‬ہوائی جہاز اور ریلوے ایسی لگژری سواریاں ؛ مواصالت‪ ،‬راحت و سکون کے وسائل ؛‬
‫ُپرفخر مشروبات اور کھانے ؛ بیش قیمت ملبوسات؛زندگی میں لذات کے حصول کے لیے عجیب و غریب تنوع اور شہوات اور‬
‫اشتیاق انگیز اشیاء کے لیے دوڑ ودھوپ۔ایسی تمام چیزوں نے انسان پر زندگی سے تمتع کے کچھ ایسے رنگ عیاں کیے جن سے‬
‫انسان نا ٓاشنا تھا ۔ شہوات اور لذات میں انسان کا انہماک بڑھ گیا ۔ جبکہ دین انسان کو بالعموم اسراف سے روکتاہے اور اسے‬
‫اعتدال و میانہ روی کا حکم دیتا ہے ۔ دین ‘شراب ‪ ،‬زنا اور عریانی ایسی اشیاء کو حرام قرار دیتا ہے کیونکہ جو لوگ دین‬
‫کے اس راز سے ناواقف ہوتے ہیں۔ وہ یہ گمان کر بیٹھتے ہیں کہ دین کی جانب سے یہ پابندیاں ان کی ٓازادی پر قدغن ہیں اور‬
‫ان شہوات و لذات کی راہ کا پتھر۔یہ چیز لوگوں کے لیے دین سے مزید دوری کا باعث ہے اور ٓاخرت کی یاد دھانی کرانے‬
‫والوں ‪ٓ ،‬اگ سے ڈرانے والوں اور جنت کا شوق دالنے والوں سے کراہت کا سبب ہے ۔ نتیجًۃ دینی عقائد سے اجنبیت و غرابت‬
‫بڑھ گئی ہے اور الحاد و زندقہ کے افکار فروغ پاگئے ہیں ۔‬
‫۔الحادکو مادی قوت کا تعاون‪:‬جس چیز نے انسان کو اللہ عّز وجّل کے ساتھ کامل الحاد کی جانب بڑھنے پر دلیر اور بہادر کر ‪5‬‬
‫دیا ‘ وہ ہے الحاد کو مادی قوت کا تعاون حاصل ہونا اس کا باعث یہ تھا کہ لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ یورپ ‘گرجا کے افکار‬
‫اور عقائد کو ترک کرنے کے بعد ہی مادی قوتوں کی جانب پیش قدمی کر سکا اور اسرارِ زندگی کو عیاں کر سکا ۔ روس‬
‫جیسی ریاست الحادی مملکت ہونے کے اعالن کے بعد ہی مملکت عظمی بن سکی ۔ مزید لوگوں نے یہ غور کیا کہ جب تک‬
‫مملکتیں دین سے جڑی رہتی ہیں ‘ وہ قوت ‪،‬صنعت اور ٹیکنالوجی میں پسماندہ رہتی ہیں ۔ لہذا لوگ یہ گمان کربیٹھے کہ کہ‬
‫الحاد‘ قوت اور علم کا ذریعہ ہے ۔‬
‫۔یورپی یلغار کے مقابل عالم اسالمی کی ہزیمت‪ :‬یورپ کے لیے مادی قوت پر قدرت ‪ٓ ،‬االِت صنعت کا استعمال اور فیکٹریوں کی‪6‬‬
‫تعمیر و ترقی ممکن نہ تھی ۔ حتی کہ اس نے اپنی فیکٹری کی مصنوعات کو فروخت کرنے اور صنعت و حرفت کے لیے‬
‫ضروری خام مواد کے حصول کی خاطر اپنی منڈیوں سے ماوراء دیگر ممالک کا رخ کیا ۔ فیکٹریوں کے لیے خام مال کے‬
‫متالشی یہ ممالک اپنی مطلوبہ چیزوں کو کم ترین بلکہ درحقیقت بالقیمت پانے کے خواہاں تھے اسی لیے ان ممالک نے اپنی زائد‬
‫عسکری قوت کو استعمال کیا ۔ جبکہ ِادھر عالمِ اسالم پسماندگی ‪ ،‬فقر عسکری ضعف اور سیاسی کمزوری میں انتھاء کو پہنچ چکا‬
‫تھا۔ اسی وجہ سے عالمِ اسالم یورپی استعماری یلغار کے سامنے زیادہ دیر تاب نہ ال سکا ۔ اس عسکری ہزیمت کا جس میں‬
‫یورپی معرکہ کے مقابل مسلمان مبتال تھے مسلمانوں کے عقائد کو متزلزل کرنے میں بہت بڑا اثرہے اور یورپی استعمار کے الئے‬
‫ہوئے الحادی ریلے اور بہائو کے سامنے عقائدِ اسالمیہ کا بند نہ باندھ سکنے میں بے حد بڑا کردار ہے ۔ مسلمان عوام یورپی‬
‫استعمار کی تقلید کرنے ‪ ،‬اس کے اخالق و عادات کی مشابہت کرنے اور اس کے الحادی عقیدہ میں شامل ہونے لگے یہ گمان‬
‫کرکے کہ اہل یورپ دین کا انکار کرکے ہی قوت کو پہنچ پائے ہیں ۔ یہ ایک نئی غلطی تھی اور عالمی الحادی فنامنا و فتنہ میں‬
‫حصہ دار ایک دوسرا سبب تھا۔(‪)۴‬‬

‫٭ الحاد و بے دینی کی اشاعت و ترویج اور اسکے ذرائع‬


‫‪:‬۔الحاد کی دعوت کے لیے میڈیا کا استعمال‪۱‬‬
‫‪ :‬اس کام کے لیے کئی شکلیں اور صورتیں اختیار کی گئیں ۔ چنداہم ترین صورتیں یہ ہیں‬
‫ٰل‬ ‫ًال‬
‫۔تالیفات و کتب مث ‪:‬وھم اإل ہ(معبود کا وہم‪ /‬دی گاڈ ڈیلوین )مص نف ‪:‬ر چرڈ ڈیوکنز ‪ ،‬نھایۃ اإلیمان (ایمان کا اختتام‪/‬اینڈ آف ‪1‬‬
‫فیتھ )مصنف‪:‬سام ہارس۔ الّٰل ہ لیس عظیًم ا (اللہ عظیم نہیں‪/‬گاڈ از ناٹ گریٹ) مصنف‪ :‬کریستوفرہیتشنزوغیرہ‬
‫۔ٹی وی اور ریڈیو کے پروگرامز ‪:‬مثًال ‪:‬رچرڈ ڈیوکنز کا ڈاکومنٹری فلموں کا سلسلہ جوکہ ’’شر کی کلی اساسیات ‘‘ کے ‪2‬‬
‫عنوان سے نشر ہوا۔کچھ تکنیکی و فنی طریقہ سے ملحدین ان فلموں میں بھی داخل ہوئے اور بہت سے الحادی و الدینی پیغامات‬
‫کو پاس کرانے کے ذمہ دار بنے ۔ جس کی مثالیں ویڈیواور گانوں کے کلپس ہیں ۔ مشہور ترین گانوں میں سے جان لینن کا‬
‫’’تخّیل خیال ‘‘ واال گانا‪ ’’،‬عزیزی الرب پیارے خدا‘‘واال گانا اور ’’ ٔانا لست خائًفامیں خائف نہیں ‘‘ واال گانا۔‬
‫)‪ (Atheist Alliance International‬۔عالمی الحادی ادارے‪:‬مثًال ‪:‬ملحدین کا بین االقوامی باہمی تعاون و اتحاد‪3‬‬
‫‪ (Richard Dawkins Foundation‬ادارٔہ رچرڈڈیوکنزبرائے فروغِ عقل و سائنس )‪(Atheist Nexus‬ملحدین کی کمیٹی‬
‫)‪for Reason and Science‬‬
‫بین االقوامی اتحاد انسانی و اخالقی توجہ کے لیے بین االقوامی کمیٹی برائے بے دین و ملحدین‬
‫۔انٹر نیٹ پر الحادی ویب سائٹس‪4‬‬
‫‪:‬مثًال‬
‫‪Friendlyatheit.com – Ffrf.org‬‬
‫‪Reddit.com/r/atheism‬‬
‫شبکۃ الملحدین العرب(عرب بے دینوں کانیٹ ورک)‪ ،‬قناۃ الملحدین بالعربی(عربی میں ملحدین کا چینل)‪ ،‬شبکۃ اإللحاد العربی(عربی‬
‫الحاد کا نیٹ ورک)‪ ،‬مزید یہ کہ فیس بک اور ٹویٹرپر عربی اور انگریزی دونوں زبانوں میں ملحدین کے بعض صفحات پر فّعال‬
‫ممبر موجود ہیں۔‬
‫مواصالت اور خصوصا سوشل میڈیا کے انقالبات سے قبل ملحدوں اور الدینوں نے کسی ایسے دن کا خواب ہی نہ دیکھا تھا ۔ جس‬
‫میں وہ اپنے خیاالت و افکار کو جرٔات کے ساتھ بیان کرنے کی طاقت رکھیں گے ۔ ان ملحدین کے پاس متروکہ ٹوٹے پھوٹے‬
‫تجزیات کو ’حریت ‘سے تعبیر کرنے کے لیے مکالماتی ویب سائٹس(جینے کے لیے) سانس لینے کا واحد راستہ تھیں ۔ اب ان‬
‫کی کوشش کے ذریعے فیس بک اور دیگر مواصالتی ویب سائٹس کی وساطت سے ملحدین کا باہمی نظم و نسق قائم ہو گیا ہے ۔‬
‫کا شمار بے)‪ (Followers‬کا شمار یا ان کے پیروکاروں)‪ (Groups‬اور مجموعوں )‪(Pages‬فیس بک پرعرب الدین صفحات‬
‫حد مشکل ہوگیا ہے ۔ شاید کم از کم بھی ان کی تعداد الکھوں میں پہنچ چکی ہے ۔ یہ صفحات اپنی افکار کو پیش کرنے اور ان‬
‫کی ترویج میں مختلف نوعیت کے ہیں ۔ کچھ ناقدانہ طنز ٓامیز ہیں ۔جبکہ کچھ دیگر صفحات علمی فکری منصوبہ بندی کے حامل‬
‫کو ہدف بناتے ) ‪( Enlightenment‬ہیں ۔ جو اپنے عمومی پیروکاروں کے لیے ثقافت اور کلچر کی ترویج اور روشن خیالی‬
‫ہیں ۔‬

‫۔ادیان کی جنگ میں دہشت گردی کا بطورِ ٓالہ استعمال‪۲‬‬


‫۔دینِ اسالم پر تند وتیزیلغار‪۳‬‬
‫۔تجربی و طبیعی علوم کی بابت شدید ترین غلو(‪۴)۵‬‬
‫۔ تمام شعائرِ دینی کا مذاق ۔ ملحدین کا ان اصحابِ شعائر کو پسماندگی‪،‬رجعّیت اور قدامت پرستی کا طعنہ دینا۔ دینداری یا مظاہرِ ‪۵‬‬
‫دین کے ساتھ زندگی کو ٓاراستہ کی جانب بالنے والی کسی دعوت سے ملحدین کی جنگ‬
‫تحریک کے ساتھ ملحدین کا بے حد مضبوط تعاون اور یہود یوں )‪ (Freemasonry‬اور فری میسن)‪ (Zionism‬۔صیہونیت‪۶‬‬
‫اور صیہونیوں کے لیے ان کی بے انتہاء مدح و ستائش(‪)۶‬‬

‫٭معاصر الحاد کے منفی اور برے اثرات‬


‫موجودہ الحادنے انسان کے رویوں اور مختلف اقوام کے اخالق پر بہت واضح اثرات چھوڑے ہیں ۔ ہم ذیل میں انہیں اجمالی طور‬
‫پر بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔‬
‫‪:‬۔بے چینی اور ذہنی خلفشاری‪۱‬‬
‫الحاد سب سے پہال اثر جو لوگوں کے نفوس میں چھوڑتا ہے ‘ وہ ہے قلق ‪ ،‬حیرانی ‪ ،‬اضطراب‪ ،‬نفسیاتی ٹوٹ پھوٹ اور مستقبل‬
‫کا خوف۔‬
‫‪:‬۔ انانیت اور خودغرضی‪۲‬‬
‫ذہنی قلق اور خوف کا حتمی نتیجہ یہ نکلتاہے کہ انسان کی توجہ فقط اپنے ٓاپ پرمرکوز ہوکر رہ جاتی ہے ۔ دوسروں کی فکر‬
‫چھوڑ کر انسان فقط اپنی مخصوص مصالح کے حصول تک محدود ہوکررہ جائے ‘ یہی انانیت اور خودغرضی ہے ۔ جبکہ دین‬
‫انسان کو اپنی ذات سے ہٹ کر رضائے اٰل ہی کی خاطر دوسروں سے نیکی اور احسان کرنے کی ترغیب دیتاہے ۔ اس کی بجائے‬
‫فقط اپنی ذات کی فکر کا رویہ پروان چڑھ چکا ہے ۔ اسی لیے الحاد اور بے دینی کے ظلمت سے اّٹے ہوئے زمانوں میں لوگوں‬
‫نے دوسروں کی پرواہ کرنا ‘ چھوڑ دیا ۔ ٓاہستہ ٓاہستہ فقراء و مساکین سے توجہ کم ہوئی پھر اہلِ خانہ و اقراء سے توجہ کم‬
‫ہوئی پھر والدین سے توجہ کم ہوئی اوربآالخربیوی بچوں سے بھی توجہ جاتی رہی ۔‬
‫‪:‬۔ مجرم بننے پر دبائو‪۳‬‬
‫کیونکہ الحاد ضمیرِ انسانی کی تربیت نہیں کرتا اور نہ اسے اس زمین میں اپنے تصرفات و اعمال پر نگہبان کسی قادر و قوی‬
‫معبود کا خوف دالتا ہے ‘ اسی لیے ملحد سخت دل اور احساس سے عاری ہوکر نشوونما پاتاہے ۔ ڈانٹنے اور منع کرنے والی‬
‫کوئی ہستی تو ہے نہیں ‘جو اسے ظلم سے روکے اور اسے احسان و شفقت کا حکم دے ۔‬
‫‪ :‬۔ خاندانی نظام کا انہدام‪۴‬‬
‫الحاد میں انسان کی اجتماعی زندگی کو توڑ پھوڑ دینے والے اثرات بھی موجود ہیں ۔ اللہ عّز وجّل سے دوری کا فقط یہی نتیجہ‬
‫نہیں کہ نفسِ انسانی اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتاہےبلکہ اس کے الزمی نتائج میں سے انسانی معاشرے کااجڑ جانا‬
‫اور ٹکڑے ٹکڑے ہوجانا‘بھی ہے ۔ وہ اس طرح سے کہ انسانی معاشرہ اس وقت تک صالح اور سلیم نہیں ہوسکتا جب تک اس‬
‫معاشرے کی اکائیاں صالح اور سلیم نہ ہوجائیں ۔ جب یہ اکائیاں ہی بگڑ جائیں ‘ تو اس کے تابع خاندانوں کی وجہ سے اجتماعی‬
‫نظام بھی بگڑ جاتاہے ۔ اس لیے الحاد کے نتائج میں سے ایک خطر ناک نتیجہ خاندانی نظام کا انہدام واختتام بھی ہے ۔‬
‫‪:‬۔ معاشروں کا فساداوراجاڑ‪۵‬‬
‫خاندان ‘معاشرتی عمارت کی پہلی اکائی یا خلیہ ہے ۔ کوئی شک نہیں کہ اس کے فساد کی وجہ سے مکمل نظام ہی فساد زدہ‬
‫ہوجائے ۔ کیونکہ خاندان انسان کے لیے نگہداشت کا پہال مرکز ہے ۔ جب انسان فساد کا شکار ہو جائے ‘ تو اس عمارت کی‬
‫تعمیر میں کام ٓانے والی اینٹیں ہی فساد زدہ ہوگئیں ۔‬
‫‪:‬۔سیاسی سطح پر مجرم بننا‪۶‬‬
‫شاید الحاد کے سب سے بڑے ٓاثار عالمی سیاست اور بین االقوامی تعلقات کے نظام میں نمودار ہوتے ہیں ۔ وہ اس طرح سے کہ‬
‫مادیت پرست الحادی اخالق ‘ انسان کے دل کو سخت اور انانیت پسند بنادیتے ہیں ۔ جو انسان کو اس جانب دھکیلتاہے کہ وہ‬
‫عالمی سیاسی تعلقات میں بھی اسی انانیت کا مظاہرہ کرے ۔ اسی خاطر ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے استعماری ممالک کمزور اقوام‬
‫کو غالمی میں جکڑنے‪ ،‬ان کے مصالح و فوائد کو ہتھیانے اور ان کے انقالبات کو دبانے _ایسے گٹھیاترین وسائل کی جانب بے‬
‫بس اور مجبور ہو جاتے ہیں ۔ (‪)۷‬‬
‫۔الحاد کے سوشل اور سماجی نتائج‪۷‬‬
‫ملحدوں کے معاشرہ کو ٓاپ ایسے خیال کیجیے کہ جو نہ کسی حالل کو حالل جانتاہے اور نہ کسی حرام کو حرام ۔ توہالکت خیز‬
‫چیزوں میں سے جوٓاپ چاہیں ‘وہ ٓاپ اس معاشرہ میں بٓاسانی دیکھ سکتے ہیں ۔ بے دین ان ہالکت خیز اشیاء سے کسی صورت‬
‫اجتناب نہیں کرتا۔ جب تک کہ اسے کسی انجامِ بد میں مبتال ہوجانے کا خوف نہیں ہو جاتا ۔‬
‫معاصر الحادی تحریک کے مسلمانوں پر اثرات*‬
‫شروع سے پوری دنیا کے اکثرو بیشتر مسلمان اپنے دین ‪ ،‬ایمان بالغیب اور جنت وجہنم پر ایمان سے جڑے ہوئے ہیں اور شرعی‬
‫عبادات پر قائم و دائم ہیں ۔ولّٰل ہ الحمد۔ مگر الحاد و بے دینی کی لہر مسلمانوں کی زندگی کے بیشتر جوانب خصوصا معامالت ‪،‬‬
‫اخالق اور تعلقاتِ عامہ پرحاوی ہورہی ہے ۔ اور دشمنوں کی جانب سے بھی مسلمانوں کے دین ‪ ،‬عقیدہ اور قوتوں کے بارے میں‬
‫شک پیدا کرنے کے لیے بڑی بڑی کوششیں کی جارہی ہیں ۔‬
‫ٓاج مسلمان معاشرے اپنے مسّلمات و ثوابت پر طعن و تشنیع کے مسلسل حملوں کا سامنا کرر ہے ہیں۔ وہ اس چیز کا بھی مقابلہ‬
‫کررہے ہیں کہ انہیں اپنے مستقبل کی تعمیر سے غافل رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔بلکہ ان مسلم معاشروں کو اس چیز کا‬
‫بھی سامنا ہے کہ انہیں شناخت ‪ ،‬فکر اور فلسفیانہ تصادم کی مشکال ت میں ہی الجھاکررکھاجائے ۔ یہ سب کچھ اسالم کے ’‬
‫فرزندان ‘ کے ہاتھوں داخلی سطح پر اسالم کو گرادینے کے نظریہ کی خاطر مسلسل کیا جارہا ہے ۔‬
‫ٓاج مسلمانوں کے نوجوانوں میں جس قدر فکری شبہات اور بوہیمی(مطلق ٓازادانہ) خواہشات پھیالئی جارہی ہیں ‘ یہ اعدائے اسالم‬
‫کی جانب سے کوئی نئی بات ہے نہ اجنبی ۔ بلکہ حق و باطل کے معرکہ میں یہ اٰل ہی سنت ہے اور ربانی طریقہ ۔ لیکن ایک‬
‫کے لبادہ میں ہے )‪ (Modrenism‬چیز نئی ہے جسے ِاس الحادی حملہ نے اوڑھ رکھا ہے ۔یعنی بے دینی کا یہ حملہ جدیدیت‬
‫اور ٹیکنالوجی ‪ ،‬مال ودولت اور میڈیا کے وسائل سے لیس اور مسلح ہے۔‬
‫عربی تحریر ‪:‬ایمان بنت ابراہیم الرشید ترجمہ ‪ :‬محمد عدنان‬

‫حواشی و حوالہ جات‬


‫‪:‬ویب ایڈریس‬
‫‪http://www.alukah.net/library/0/103101/‬‬
‫دیکھیے‪:‬کواشف زیوف المذاھب المعاصرۃ مصنف ‪ :‬عبدالرحمن المیدانی ص‪(۱)۴۳۳‬‬
‫العودۃ الٰی االیمان مصنف ‪ :‬ھیثم طلعت ص ‪(۲) ۱۱:۱۲‬‬
‫دیکھیے ‪:‬االلحاد اسبابہ وعالجہ مصنف‪:‬ابو سعید الجزائری )‪(۳‬‬
‫دیکھیے ‪ :‬االلحاد اسباب ٰھ ذہ الظاھرۃ وطرق عالجھا مصنف‪ :‬عبد الرحمن عبد الخالق)‪(۴‬‬
‫دیکھیے‪ :‬ملیشیا اإللحاد مصنف‪:‬عبد اللہ العجیری‪ ،‬خالصہ (‪(۵))۸۳-۲۱‬‬
‫دیکھیے ‪:‬ظاھرۃ االلحاد ماحقیقتھا فی مجتمعاتنا العربیۃ و االسالمیۃ)‪(۶‬‬
‫ملحدین کے ذات باری تعاٰل ی اور قبر و حشر کے متعلق سخت سوالوں کے منطقی و فلسفی جوبات اثبات باری تعالٰی ‪ ،‬توحید‪ ،‬تنزیہ*‬
‫و تقدیس‪ ،‬مسئلہ خیر و شر‪ ،‬مسئلہ رؤیت باری تعالٰی ‪ ،‬جبر و قدر(تقدیر)‪ ،‬نبوت‪ ،‬عام اعترضات‪ ،‬محمد رسول اللہ کی نبوت‪ ،‬خاتم‬
‫النبیین کی تفسیر‪ ،‬وجود باری تعالٰی ‪ ،‬جنت و جہنم کا وجود‪ ،‬قبر و برزخ کی زندگی‪ ،‬موت کے بعد زندہ ہونا اور قیامت کا وجود‪،‬‬
‫خدا کا وجود یہ اور ان جیسے سیکنڑوں ملحدین کے مشرکانہ سوالوں کے جامع و عقلی جوابات پر مشتمل بہترین وٹس ائپ‬
‫*گروپ‬
‫*گروپ نمبر‪ 1️⃣:‬لنک*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/Ke2feylEHdG6lVzArFtVoG‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 2️⃣:‬لنک*‬


‫‪https://chat.whatsapp.com/Fe4WnvQclaN91i5oql58EX‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 3️⃣:‬لنک‪/‬نوٹ‪ :‬تیسرا گروپ پشتو زبان والوں کیلئے ہے پوسٹنگ پشتو میں ہوتی ہے*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/EZxJ6qmgGpQ2zFxqAeV5uH‬‬
‫‪♡ ㅤ‬‬ ‫‪❍ㅤ‬‬ ‫⎙‬ ‫⌲‬
‫‪ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ‬‬ ‫‪ˢᵃᵛᵉ‬‬ ‫‪ˢʰᵃʳᵉ‬‬
‫*🛑رد الحاد کورس🛑* ‪[11/29, 10:35 AM] +92 332 9407835:‬‬
‫*الحاد_اسباب وحل‪*📌 12:‬‬
‫ِبْس ِم الّٰل ِِه الَّرْح َمِن الَّر ِح ْيم‬
‫*باب نمبر‪*🛑12:‬‬
‫*سبق نمبر‪:7‬الحاد کے روک تھام اور بچاو کیلئے کرنے کے کام*‬

‫مروِر زمانہ کے ساتھ ساتھ کثیر رجالِ کاراور علمائے صدق نے مسلمانوں کے’ فرزندان ‘کی جانب سے جھگڑوں سے لبریز ِان‬
‫پے در پے حملوں کا خوب مقابلہ شروع کیا ہے۔ انہوں نے اپنی زندگیاں اسالم کی نصرت کے لیے خرچ کر دیں اور دعوت ‪،‬‬
‫مکالمہ ‪ ،‬تنقیداور ملحدوں کے شبہات کا لبادہ چاک کرنے کے ذریعے ِان ’فرزندانِ مسلمین ‘ کی جانب سے ِاس الحادی گھٹا کے‬
‫خاتمہ کے لیے اپنے اوقاتِ کارنذر کررہے ہیں۔‬

‫*‪:‬دوِر حاضر میں الحادی فتنہ سےبچاؤ کیلئے مجوزہ حکمتِ عملی*‬
‫‪:‬پہال قاعدہ ‪:‬اسالم کے اصولوں پر یقین کو تقویت دینے کے چند وسائل‬
‫۔ اللہ عز وجل کی کائناتی ٓایات اورنشانیوں پر تفکر کی عبادت کااحیاء اور فروغ‪:‬اللہ سبحانہ و تعالٰی کی کتاب میں اس بات کی‪۱‬‬
‫خوب وضاحت ہے کہ تفکر اور بڑے بڑے حقائق کے ادراک کے مابین بڑاگہرا تعلق اور ربط ہے۔ عبادالرحما ن کی نشانیوں کے‬
‫متعلق فرمان باری تعالی ہے ‪’’ :‬جو اللہ تعالٰی کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی پہلؤوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور ٓاسمانوں‬
‫اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں اے ہمارے پرودگار تو نے یہ بے فائدہ نہیں بنایا ۔تو پاک ہے ۔‬
‫پس ہمیں ٓاگ کے عذاب سے بچا لے ۔‘‘(ٓال عمران‪)191 :3‬‬
‫عبادتِ تفکر کے احیاء کے چند وسائل‪:‬وڈیو اور قابلِ مطالعہ ایسے مواد کی نشر و اشاعت جو تفکر و تٔامل کے میدان کی‬
‫ضروریات پوری کر سکے۔‬
‫اس میدان میں لکھی گئی مباحث یا وڈیو مواد میں سب سے اچھی تصدیر پر مقابلہ جات کی داغ بیل۔‬
‫۔ مخصوص کتب پر باالہتمام توجہ‪:‬ایسی کتب کو خصوصی توجہ دی جائے جن میں اصوِل اسالم کی صحت کے دالئل کو بیان ‪۲‬‬
‫کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ۔ اس میدان میں قدیم و جدیددور کے علماء نے کتب تحریر فرمائی ہیں ۔ ہمیں متقدمین میں بہتیرے‬
‫علماء کرام ملتے ہیں جنہوں نے ’’اعجاز القرٓان ‘‘ کی بابت لکھا۔ مثًال خطابیؒ ‪ ،‬رمانیؒ ‪،‬باقالنؒی ‪،‬جرجانؒی وغیرہ ۔ البتہ اس حوالے‬
‫‪:‬سے دورِ حاضر کی کچھ کتب یہ ہیں‬
‫کتاب النبٔا العظیم اور کتاب مدخل الٰی القرٓان الکریم از محمد عبد اللہ دراز‬
‫کتاب براھین ؤادّلۃ ایمانیۃ از عبد الرحمن حسن حبنکۃ المیدانی‬
‫کتاب نبّوۃ محمد ﷺ (من الشک الٰی الیقین) از فاضل السامرانی‬
‫کتاب أال دّلۃ العقلیۃ النقلیۃ علٰی ٔاصول االعتقاداز سعود العریفی‬
‫کتاب کامل الصورۃ از ٔاحمد یوسف السید‬
‫۔ دعوت ‪ ،‬تعلیم اور عمل میں قلوب کی عبادت کا اہتمام‪:‬بال شبہ سیدناابراہیم علیہ الصلٰو ۃ و السالم اللہ عز وجل کی جانب انابت ‪۳‬‬
‫کرنے ‪،‬اسی پر توکل کرنے اور اسی کے سامنے خشوع کرنے والے تھے۔ لہذا جب قوم اللہ تبارک و تعالٰی کی بابت ٓاپ علیہ‬
‫‪:‬السالم سے جھگڑی ‘ ٓاپؑ نے قوم سے کہا‬
‫ٓاپ نے فرمایا کہ کیا تم اللہ کے معاملے میں مجھ سے حجت کرتے ہو حاالنکہ کہ اس نے مجھے طریقہ بتالیاہے ‘‘(االنعام ’’‬
‫‪) ۶:۸۰‬‬
‫۔ نومسلموں کے قصوں کی نشر و اشاعت‪:‬اس میں کچھ شک نہیں کہ ایمانی راحت کے حصول میں ِان قصوں کی بے حد تاثیر ‪۴‬‬
‫ہے ۔ خصوصا اس وقت جب ٓاپ ان نومسلموںکی خصوصیات کے تنوع اور عالقوں کے فرق کو بغور دیکھتے ہیں ۔‬
‫دوسرا قاعدہ ‪:‬ناقدانہ عقل کی افزائش‪ :‬اعتراضات وشکوک و شبہات کی منطقی و عقلی جانچ پرکھ کو رواج دینا۔‬
‫تیسرا قاعدہ ‪:‬شرعی اصولوں کا استحکام ‪:‬عقیدہ ‪ ،‬فقہ ‪ ،‬اصول فقہ ‪ ،‬اصطالحاتِ حدیث ‪ ،‬زبان اور علومِ قرٓان وغیرہ وغیرہ‬
‫ایسے سب شرعی علوم کی تعلیم سے یہ چیز حاصل ہوسکتی ہے ۔‬
‫کی حد بندی اور تعین)‪ (Sources‬چوتھا قاعدہ ‪:‬استدالل ‪ ،‬معرفت اور موقفات کے لیے مصادر‬
‫لوگوں سے احتیاط)‪ (Non-specialist‬پانچواں قاعدہ ‪ :‬شبہات پربات چیت کے لیے ماہرانہ صالحیت سے عاری‬
‫چھٹا قاعدہ ‪ :‬رّد ِ شبہات کی محتاط تعلیم‪:‬شبہات اور اشکاالت کی تردید میں لکھی گئی کتب کی چند شروط کے تحت محتاط تعلیم‬
‫‪:‬دینی چاہیے ۔ یہ شروط ہیں‬
‫۔یہ کہ شبہات تازہ اور عام پھیلے ہوئے ہوں اوریہ کتب سر عام پیش ٓامدہ خطرات کی متعلق ہوں ۔‪1‬‬
‫۔یہ کہ کتب کا اسلوبِ نگارش کچھ اس طرح ہوکہ شبہہ کو بیان کرنے میں وہ مجمل ہو۔ لیکن شبہہ کی تردید میں وہ تفصیلی ‪2‬‬
‫گفتگو کرے۔ کیونکہ بعض لکھاری شبہہ کو پیش کرنے میں تفصیل برتتے ہیں اور اس شبہہ کے حوالہ جات اور اصولوں تک کا‬
‫ذکر کرتے ہیں ۔ اگرچہ یہ اسلوب خصوصی لوگوں کے لیے مناسب ہے ۔ لیکن ہم سِر دست عمومی طبقہ کی حفاظت اور بچأو‬
‫کی بابت گفتگو کر رہے ہیں ۔ ان عمومی لوگوں کو تفصیل در تفصیل کے ساتھ شبہات پڑھوانے کی چنداں ضرورت نہیں ۔‬
‫۔یہ کہ شبہہ کی تردید محکم اور مضبوط ہو۔ جو ماہرانہ صالحیتوں کے حامل لوگوں سے ہی ملنا ‘ متوقع ہوتی ہے ۔ حالیہ ‪3‬‬
‫‪ :‬شبہات کی تردید کے میدان میں کچھ مناسب کتب درج ذیل ہیں جن کو شبہات سے تحفظ کے طور پر پڑھا جاسکتا ہے‬
‫کتاب السّنۃ و مکانتھا فی التشریع االسالمی از مصطفی السباعی‬
‫کتاب کامل الصورۃ (دونوں جزء)‬
‫ساتواں قاعدہ ‪:‬فکری اور پراثرہونے کے اعتبار سے مفید اجتماعی پروگرامز کی حوصلہ افزائی اورتقویت‬
‫ٓاٹھواں قاعدہ ‪:‬دعا اور ٓاہ و زاری (‪)۶‬‬
‫نواں قاعدہ ‪:‬د عوتی منصوبہ جا ت کے لیے مالی معاونت‪:‬باطل شبہات و اشکاالت کی تردید میں لکھی گئی کتب اور عقیدہ کی‬
‫کتب کی طباعت اور سٹیالئٹ چینلز پر علمی پروگرامز کی تقویت کے ضمن میں دعوتی منصوبہ جا ت کے لیے مالی معاونت‬
‫خصوصی توجہ کا مرکز رہے ۔ یہ کتب اور پروگرامز عظمتِ اٰل ہی کے حامل ہوں اور محاسنِ اسالم اور توحیدِ ربوبیت پر‬
‫خصوصی روشنی ڈالیں ۔‬
‫دسواں قاعدہ ‪ :‬شبہات کی تردیدکی باقاعدہ تعلیم اور ٹریننگ ‪:‬شبہات کی تردید اور اللہ کے دین کے دفاع پر اپنے نوجوانوں کی‬
‫خصوصی ٹریننگ اور مشق کرائی جائے ۔ یہ چیز نوجوانوں کو عقیدہ کی صحیح کتب کی تعلیم دے کر حاصل کی جاسکتی ہے ۔‬
‫جولوگ الزمی کتب کی خریدی نہیں کر سکتے ‘ کتب کی فراہمی کی خاطر ان کے لیے الئبریریوں کے قیام کو عمل میں‬
‫الیاجائے ۔‬
‫گیارھواں قاعدہ‪:‬علمائے امت کی خصوصی ذمہ داری ‪:‬اہل علم اور علمائے امت نوجوان بچوں اور بچیوں کو ہولناک خطرات سے‬
‫متنبہ کریں ۔ دنیا کے زوال اور دنیا پر عدمِ انحصار کی یاد دہانی اصحابِ تربیت کا شغل ہونا چاہیے ۔ یہاں تک وہ اپنا کردار‬
‫ادا کردیں اور توحید و ایمان کا پیغام پہنچادیں۔ (‪)۷‬‬

‫٭شبہات میں گھر جانے کے بعد بچاؤکے قواعد‬


‫۔پہال قاعدہ ‪:‬ناقدانہ سوچ و فکر کا استعمال اور معلومات و افکار کو بروئے کار النے میں علمی ثقاہت و پختگی‪:‬یہ ضروری ہے‪1‬‬
‫کہ کسی قابلِ نظر اور الئقِ مناقشہ قیمتی معلومات کو استعمال میں نہ الیا جائے ۔ جب تک کہ اس میں علمی توثیق کا ادنٰی‬
‫ترین درجہ میسر نہ ٓاجائے ۔‬
‫۔دوسرا قاعدہ ‪:‬ماہرانہ صالحیتوں کے حاملین سے سوال اور استفادہ‪2‬‬
‫تیسرا قاعدہ ‪:‬مشکل مسئلہ کی تردید کے بارے میں سابقہ کاموں اور جہود کی جانب مراجعت‪3‬‬
‫چوتھا قاعدہ ‪:‬متشابہ کو محکم پر پیش کرنا ‪:‬بالشبہ محکم و متشابہ کا مسئلہ قرٓان فہمی کے اہم منہجی امور میں سے ہے ۔ ‪4‬‬
‫یہی مسئلہ راسخین فی العلم اور بھٹکنے والوں کے مابین فرق کرنے واال ہے ۔ اللہ تبارک و تعالٰی فرما چکے ہیں ‪’’ :‬وہی اللہ‬
‫تعالٰی ہے جس نے تجھ پر کتاب ُاتاری جس میں واضح مضبوط ٓایتیں ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ ٓایتیں ہیں۔ پس جن‬
‫کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ ٓایتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں ‪ ،‬فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے‬
‫لئے ‘‘ (ٓال عمران ‪)۷ :۳‬‬
‫امام ابن کثیرؒ اس ٓایت کے معنی کا خالصہ قیمتی اورواضح کالم میں یوں پیش کرتے ہیں ‪ ’’ :‬اللہ عز وجل نے قرٓان کریم‬
‫کے بارے میں خبر دی ہے کہ وہ {ٰا ٰی ٌت ُّم ْح َک ٰم ٌت ُھَّن ُاُّم اْلِکٰت ِب}ہے ۔ یعنی اپنی داللت میں ایسے واضح دالئل کہ کسی ایک‬
‫شخص کو ان کی بابت التباس نہیں ۔ اسی قرٓان کی کچھ دیگر ٓایات ہیں جن کی داللت کی بابت کثیر یا چند لوگوںکو کچھ اشتباہ‬
‫ہوجاتا ہے ۔ جس شخص نے قرٓان کے متشابہ حصہ کو واضح حصہ کی جانب پیش کردیا اوراپنے ہاں قرٓان کے محکم کو متشابہ‬
‫پر حاکم بنا دیا ‘ وہ ہدایت پا گیا ۔ جس نے برعکس کیا تو وہ برعکس نتیجہ پائے گا ۔ اسی لیے اللہ عز وجل نے { ُھَّن ُاُّم‬
‫اْلِکٰت ِب } کے لفظ ارشاد فرمائے ہیں ۔ یعنی یہ قرٓان کا اصل ہیں جن کی جانب اشتباہ کے وقت رجوع کیا جائے۔ {َو ُاَخ ُر‬
‫ُم َتٰش ِبٰھ ٌت }یعنی ایسی ٓایات جن کی داللت اور مفہوم محکم کی موافقت کا احتمال رکھتی ہیں ۔ البتہ کبھی کبھی یہ ٓایات اپنے الفاظ اور‬
‫ترکیب کی حیثیت سے کسی دوسری شے کا احتمال رکھتی ہیں لیکن مراد کے حیثیت سے یہ قطعا کسی دوسری شے کا احتمال‬
‫‘‘ نہیں رکھتی ہیں ۔‬
‫مثًال ‪ :‬ایک عیسائی ٓاکر کہتاہے ‪ :‬تمہارا قرٓان کریم متعدد معبودوں کی خبر دیتا ہے ۔ جس کی دلیل اللہ عز وجل کا یہ فرمان‬
‫ہے ‪ِ :‬ا َّنا َنْح ُن َنَّز ْلَنا الِّذ ْک َر َو ِا َّنا َلٗہ َلٰح ِفُظْو َن ’’ ہم نے ہی اس قرٓان کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ‬
‫ہیں‘‘( النحل‪)۹:‬‬
‫اس ٓایت میں وجٔہ داللت یہ الفاظ و کلمات ہیں ‪ِ :‬اَّنا (ہم) ‪َ،‬نْح ُن (ہم )‪َ ،‬نا (ہم ) اور َح اِفُظْو َن میں جمع کی وأو۔ یہ سب کلمات‬
‫جیسے جمع کا مفہوم دیتی ہیں ‘ ویسے ہی یہ تعظیم)‪ (Pronouns‬جمع پر داللت کرتے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ یہ سب ضمائر‬
‫کامفہوم دیتی ہیں ۔ جیساکہ بادشاہ اپنے بارے میں تعظیم کے طور پر جمع کے کلمات بولتے ہیں ۔ لیکن جب ہم قرٓان کریم میں‬
‫‪ :‬محکم اور بّین حکم کو دیکھتے ہیں تو وہ توحید ہے ۔ فرمانِ خداوندی ہے‬
‫اور نہ کہو کہ اللہ تین ہیں اس سے باز ٓاجائو کہ تمہارے لئے بہتری ہے‪،‬اللہ عبادت کے الئق تو صرف ایک ہی ہے اور ’’‬
‫وہ اس سے پاک ہے (النساء‪)171:‬‬
‫ٓاپ کہہ دیجئے کہ وہ اللہ تعالٰی ایک(ہی) ہے‘‘(االخالص ‪)۱ :‬‬
‫متشابہہ کو محکم واضح آیات پر پیش کرنے سے جھگڑا اور فساد باطل ہو گیا ۔‬
‫پانچواں قاعدہ ‪:‬ایسے شبہہ سے توقف جس کا جواب جانا پہچانااور معروف نہ ہو۔‪5‬‬
‫چھٹا قاعدہ ‪:‬الدینی فکر یا جسے جھوٹ کے طور پر قرٓانی فکر وغیرہ کا نام دیاجاتا ہے ‘ اس کی جانب منتقلی کے منفی نتائج‪6‬‬
‫سے ٓاگہی اور واقفیت‬
‫ساتواں قاعدہ ‪ :‬شبہات اور وسوسات سے نمٹنے میں فرق‪:‬بالشبہ وسوسات ‘ شبہات سے قدرے مختلف ہوتے ہیں ۔ شبہات کا ‪7‬‬
‫جواب حاصل کرلینے سے شبہات کا عالج ہوجاتاہے ۔جب جواب محکم اور مضبوط ہو‘ تو شبہات زائل اور نابود ہو جاتے ہیں ۔‬
‫البتہ وسوسات کا حل جواب میں نہیں ہوتا ہے ۔ یہ جواب سے ختم نہیں ہوتے ۔اگرچہ سو مرتبہ جواب کا تکرار کر لیا جائے ۔‬
‫ان کا حل فقط یہ ہے کہ ان سے اعراض کرکے رہا جائے ۔‬
‫شبہہ کے عالمات میں سے ایک عالمت یہ ہے کہ شبہہ کامنبع و مصدر اکثر و بیشتر محدود ہوتا ہے ۔ یاتو کوئی وڈیوکلپ ہوتا‬
‫ہے یا کتاب یا کوئی دوست وغیرہ ۔ جبکہ وسوسات میں اصول یہ ہے کہ یہ انسانی خیاالت کے ذریعے ٓاتے ہیں ۔ جن کو انسان‬
‫اپنے اندر محسوس کرتاہے ۔ اکثر و بیشتر اوقاتِ عباد ت میں ٓاتے ہیں ۔‬

‫شبہات میں مبتال لوگوں سے مکالمہ کے قواعد‬


‫پہالقاعدہ –مکالمہ سے قبل مقابل مکالمہ کرنے والے کے مذہب کا استیعاب اور اس کے میسر ٓاڈیوزووڈیوزمواد کا جائزہ —‬
‫دوسرا قاعدہ –مکالمہ میں مشترکہ نکتہ پر اتفاق —‬
‫تیسرا قاعدہ –محلِ نزاع نکتہ کی لکھت—‬
‫بعض مباحثوں میں مکالمہ کرنے والوں کو کچھ وقت کے بعد جا کر ادراک ہوتا ہے کہ وہ ایک ایسے نکتہ پر بات کرتے رہے‬
‫جس پر وہ متفق تھے اور وہ ٓاپس میں ایک دوسرے کو غلط سمجھتے رہے ۔ انٹرنیٹ کے بیشتر نیٹ ورکس پریہ بہتیرا ہوتا ہے‬
‫کہ دلی کینہ کے باعث فضا بے حد پراگندا رہتی ہے ۔ لہذا دونوں مکالمہ کرنے والوں کے لیے یہ نہایت اچھا ہوگا کہ وہ ایک‬
‫دوسرے کی بات بحسن وخوبی سمجھیں‪ ،‬محلِ نزاع نکتہ کو متعین کریں اور واضح ہدف کی جانب گامزن رہیں ۔‬
‫چوتھا قاعدہ –فریق مخالف کے کالم میں خوب دقتِ نظری اور ناقدانہ جائزہ نیز کالم میں درج اشکاالت کی گہری خبرگیری —‬
‫پانچواں قاعدہ –صرف دفاع پر ہی اکتفاء نہ کیاجائے ۔—‬
‫چھٹاقاعدہ‪--‬باطل مقدمات کو تسلیم نہ کیا جائے۔باطل مقدمات یا مبادیات کو تسلیم کرنے کا مطلب ہی یہ ہے کہ فریقِ مخالف بہت—‬
‫جلد ٓاپ پر باطل نتائج الزم ٹھہرا لے گا ۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم باطل مقدمات کو ابتداء سے ہی قبول نہ کریں ۔ اس طرح سے‬
‫دراصل ٓاپ نے صاحبِ شبہہ کا راستہ ہی ُادھیڑاور ُاکھیڑ دیا ہے ۔ مثًالبعض ملحدین بحث و مباحثے میں ( ٓا پ کو پھانسنے کے‬
‫لیے )سیڑھی چڑھاتے ہوئے یہ کہتے ہیں ‪ :‬ہر موجود شے کا کوئی نہ کوئی ُم وِج د (بنانے واال ) ہوتا ہے ۔ کیا ایسانہیں ہے؟‬
‫اگر ٓاپ کہہ دیتے ہیں ‪ :‬ہاں ‪ ،‬کیوں نہیں ‪ ،‬ایسے ہی ہے ۔ تو وہ ٓاپ سے کہے گا ‪ :‬اللہ موجود ہے لہذا اس کا موجد کون‬
‫ہے ؟ حاالنکہ اس بابت درست طریقہ یہ ہے کہ ٓاپ بنیادی طور پر قاعدہ اور مقدمہ کو تسلیم نہ کریں ۔ کیونکہ یہ مقدمہ درست‬
‫ہی نہیں ہے ۔ صحیح مقدمہ اس بابت یوں ہے ‪ :‬ہر حادث (فنا ہونے والی شے ) کا کوئی نہ کوئی محدث(بانی)ہے ۔ البتہ اللہ‬
‫عز وجل حادث نہیں ہے ۔ لہذا اللہ عز وجل کے احداث ‪ ،‬خلق اور ایجاد کا سوال ہی ختم ہوگیا ۔‬
‫ساتواں قاعدہ — اگر ٓاپ دعویدار ہیں تو دلیل ٓاپ کے ذمہ ہے ۔ اور اگر کہیں سے نقل کرکے پیش کررہے ہیں ‘ تو اس نقل —‬
‫کی صحت کی ذمہ داری ٓاپ پر ہے ۔‬
‫ٓاٹھواں قاعدہ –‪-‬نصوص شرعی سے اخذ شدہ استدالل کی خبر داری اور متعلقہ باب کی جمیع نصوص کے احاطہ کی ضرورت —‬
‫پر ہوشمندی‬
‫‪:‬حواشی و حوالہ جات‬
‫دیکھیے ‪ :‬مالذ الملحدین و الالدینیین العرب از عادل قلقیلی)‪(1‬‬
‫)‪:http://rsif.me/of375‬ایڈریس(‬
‫دیکھیے االلحاد فی العالم العربی ‪ :‬لما ذا تخلی البعض عن الدین ؟ (قسم المتابعۃ االعالمیۃ ۔ بی بی سی )از ٔاحمد نور)‪(2‬‬
‫دیکھیے االلحاد (اسبابہ‪ ،‬طبائعہ ‪ ،‬مفاسدہ ‪ ،‬اسباب ظھورہ ‪ ،‬عالجہ ) از محمد الخضر حسین)‪(3‬‬
‫دیکھیے االلحاد (اسبابہ و عالجہ)از ابو سعید الجزائری)‪(4‬‬
‫دیکھیے االلحاد (اسبابہ‪ ،‬طبائعہ ‪ ،‬مفاسدہ ‪ ،‬اسباب ظھورہ ‪ ،‬عالجہ ) از محمد الخضر حسین)‪(5‬‬
‫دیکھیے ‪ :‬باسغات از ٔاحمدالسید)‪(6‬‬

‫دیکھیے ‪ :‬منظمات عالمیۃ تنشر االلحاد بیننا از قاری عبد الباسط)‪(7‬‬


‫عربی تحریر ‪:‬ایمان بنت ابراہیم الرشید ترجمہ ‪ :‬محمد عدنان‬
‫ملحدین کے ذات باری تعاٰل ی اور قبر و حشر کے متعلق سخت سوالوں کے منطقی و فلسفی جوبات اثبات باری تعالٰی ‪ ،‬توحید‪ ،‬تنزیہ*‬
‫و تقدیس‪ ،‬مسئلہ خیر و شر‪ ،‬مسئلہ رؤیت باری تعالٰی ‪ ،‬جبر و قدر(تقدیر)‪ ،‬نبوت‪ ،‬عام اعترضات‪ ،‬محمد رسول اللہ کی نبوت‪ ،‬خاتم‬
‫النبیین کی تفسیر‪ ،‬وجود باری تعالٰی ‪ ،‬جنت و جہنم کا وجود‪ ،‬قبر و برزخ کی زندگی‪ ،‬موت کے بعد زندہ ہونا اور قیامت کا وجود‪،‬‬
‫خدا کا وجود یہ اور ان جیسے سیکنڑوں ملحدین کے مشرکانہ سوالوں کے جامع و عقلی جوابات پر مشتمل بہترین وٹس ائپ‬
‫*گروپ‬
‫*گروپ نمبر‪ 1️⃣:‬لنک*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/Ke2feylEHdG6lVzArFtVoG‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 2️⃣:‬لنک*‬


‫‪https://chat.whatsapp.com/Fe4WnvQclaN91i5oql58EX‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 3️⃣:‬لنک‪/‬نوٹ‪ :‬تیسرا گروپ پشتو زبان والوں کیلئے ہے پوسٹنگ پشتو میں ہوتی ہے*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/EZxJ6qmgGpQ2zFxqAeV5uH‬‬
‫‪♡ ㅤ‬‬ ‫‪❍ㅤ‬‬ ‫⎙‬ ‫⌲‬
‫‪ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ‬‬ ‫‪ˢᵃᵛᵉ‬‬ ‫‪ˢʰᵃʳᵉ‬‬
‫*🛑رد الحاد کورس🛑* ‪[11/29, 10:35 AM] +92 332 9407835:‬‬
‫*الحاد_اسباب وحل‪*📌 12:‬‬
‫ِبْس ِم الّٰل ِِه الَّرْح َمِن الَّر ِح ْيم‬
‫*باب نمبر‪*🛑12:‬‬
‫*سبق نمبر‪:8‬نوجوانوں کے انحراف کے اسباب اور ان کا حل*‬

‫اگر بغور جائزہ لیا جائے تو نوجوانوں کی گمراہی و ِانحراف کے کئی َاسباب سامنےآتے ہیں کیونکہ نوجوانی کی عمر ہی ایک‬
‫ایسی عمر ہے جس میں انسان پر جسمانی‪ ،‬فکری اور عقلی حیثیت سے بڑی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہوتی ہیں۔ ِانسانی جسم‬
‫نشوونما اور ِارتقا کی طرف گامزن ہوتا ہے۔ ہر لمحہ نئے تجربات اور تازہ احساسات عقل و فکر کے دریچے کھولتے جاتے ہیں۔‬
‫پھر اس کے ساتھ ساتھ شعور وادراک کی نت نئی منازل بھی طے ہونا شروع ہوجاتی ہے جس کی بنا پر انسان سوچ و فکر کی‬
‫نئی راہیں متعین کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دوسری طرف جذبات کی شدت فیصلوں میں عجلت پر مجبور کرتی ہے۔ ان احوال میں‬
‫نوجوانوں کو ایسے مربیوں کی ضرورت ہوتی ہے جو حکمت و بصیرت کے ساتھ ان کی تربیت کریں۔ بڑے احتیاط اور صبر و‬
‫تحمل کے ساتھ صراِط مستقیم کی طرف لے چلیں۔ اب ہم ان پانچ اہم اسباب کا ذکر کرتے ہیں جو آج کل کے نوجوانوں کے بگاڑ‬
‫میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں تاکہ بعد میں حسِب حال اصالح ممکن ہوسکے۔‬
‫۔ فراغت‪1‬‬
‫نوجوانوں کی تباہی و ہالکت کا اہم ترین سبب فراغت ہے۔جسم انسانی کو اللہ تعالٰی نے اصًال متحرک و فعال بنایا ہے۔لٰہ ذا اس کی‬
‫ساخت اور کیفیت تقاضا کرتی ہیں کہ یہ ہر دم حرکت میں رہے۔ حرکت کا تعطل اس کے لیے فکری‪ ،‬عقلی بلکہ ظاہری اعتبار‬
‫سے بھی زہر قاتل ہے۔ فکری پراگندگی و انتشار‪،‬ذہنی رذالت و سطحیت‪ ،‬مجاہدانہ اولوالعزمی کی بجائے کم حوصلگی‪ ،‬خواہشاِت‬
‫نفسانی اور وساوس شیطانی فراغت کے ہی کرشمے ہیں‪ ،‬کیونکہ جسم کو تو اپنے تقاضے کے مطابق حرکت میں رہنا ہی ہے۔ اب‬
‫وہ حرکت بالخصوص اس وقت جب اسے شدِت جذبات کی پشتیبانی بھی حاصل ہو تو بجائے مثبت اور تعمیری کاموں پر لگنے کے‬
‫وہ منفی اور تخریبی امور سرانجام دیتی ہے ۔ جس سے معاشرتی بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور مسّلمہ اقدار کی بے حرمتی ہونا شروع‬
‫ہوجاتی ہے۔اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ ایسے نوجوانوں کو ذہنی یا عملی طور پر ان کی صالحیت کے مطابق مصروف رکھا‬
‫جائے۔ تعلیمی ‪ ،‬فنی‪ ،‬تجارتی‪ ،‬انتظامی یا دیگر سرگرمیوں میں سے کسی کی طرف لگا دیا جائے۔‬
‫۔ بڑوں اور چھوٹوں کے درمیان دوری‪2‬‬
‫نوجوانوں کی بے راہ روی میں اس فاصلے اور ُبعد کا بھی بڑا حصہ کار فرما ہے جو ہمارے معاشرے میں بڑی عمر کے لوگ‬
‫چھوٹی عمر والوں کے درمیان حائل رکھتے ہیں۔ چاہے وہ نوجوان ان کے اپنے خاندان سے تعلق رکھتے ہوں یا دوسروں سے۔ وہ‬
‫بالتفریق ان سے ُبعد اور دوری ہی اختیار کرتے ہیں۔ آپ بوڑھوں کو دیکھیں کہ وہ نوجوانوں کی اصالح سے مایوس و ناُاّم ید نظر‬
‫آئیں گے۔بڑوں کے ایسے رویے سے پھر نوجوان بھی ان سےدوری کو ہی عافیت محسوس کرتے ہیں۔ پھر وہ خواہ کوئی بھی‬
‫حاالت چاہے بہتری یا بدتری کے ‪ ،‬ان معامالت میں بڑوں کو اپنے ساتھ شامل نہیں کرتے اور اپنے تئیں ان کا سامنا کرنا شروع‬
‫کردیتے ہیں۔ پھر اکثر تو حاالت کی رومیں بہہ جاتے ہیں اور جن چند ایک کو پاے ثبات نصیب ہوتا ہے‪ ،‬وہ بھی گرتے گرتے‬
‫سنبھلتے ہیں اور بوڑھوں نے تو ُان سب کی خرابی کے بارے میں ایک نفسیاتی ساکلیہ بنا لیا ہوتا ہےجس سے معاشرتی دوریاں‬
‫جنم لیتی ہیں‪ ،‬منفی رویے تشکیل پانا شروع ہوجاتے ہیں‪ ،‬نوجوان بوڑھوں کو اور بوڑھے نوجوانوں کو بنظر حقارت دیکھنا شروع‬
‫کردیتے ہیں۔ دونوں گروہوں کے انہی رویوں کی وجہ سے کئی طرح کے خطرات معاشرےکے دروازے پر دستک دینا شروع‬
‫کردیتے ہیں۔‬
‫ِاس مشکل کا حل یہ ہے کہ دونوں گروہوں کے رویوں میں حسِب ضرورت تبدیلیاں پیداہوں۔ بجائے فراق و بعد کے قربت و اتحاد‬
‫ہو ۔پورا معاشرہ جسِد واحد کی طرح اپنے اندر یگانگت کوجنم دے اور یہ شعور معاشرے کے ہر فرد میں رچ بس جائے کہ تمام‬
‫افراد معاشرہ ایک ہی جسِد واحد کے مختلف اعضا ہیں۔ ایک کی خرابی و فساد تمام کی بربادی کا سبب بنے گی۔ بوڑھوں کو‬
‫چاہیے کہ وہ اپنے دلوں میں نوجوانوں کی اصالح کا درد پیدا کریں‪ ،‬ان کے بارے میں حسرت و یاس ترک کریں کیونکہ اللہ‬
‫تعالٰی تو ہر چیز پر قدرِت تاّم ہ رکھتا ہے۔کتنےہی وہ لوگ ہیں جو ضاللت و گمراہی کے قعر مذلت میں گرے ہوئے تھے‪،‬اللہ تعالٰی‬
‫نے انہیں منارۂ نور اور شمع ہدایت بنا دیا۔‬
‫دوسری طرف نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ بوڑھوں کے بارےمیں اپنے روّیوں میں تبدیلی الئیں ‪،‬ان کی آراءکا احترام کریں۔ ان کی‬
‫طرف سے پیش کردہ مسائل و معامالت کی توجیہات کو قبول کریں کیونکہ وہ بڑے تجربات کا ما حصل ہوتی ہیں۔ وہ زندگی کے‬
‫ان تلخ حقائق سے گزرے ہوتے ہیں جن سے ابھی تک نوجوان دوچار نہیں ہوتے۔ اس طرح جب بوڑھوں کی فکر اور حکمت و‬
‫دانائی نوجوانوں کی رہبر و رہنما بنے گی تو معاشرہ ترقی او رعروج میں آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگے گا۔‬
‫۔ گمراہ لوگوں کی صحبت‪3‬‬
‫نوجوانوں کی گمراہی کا تیسرا سبب ان کی ایسے لوگوں کے ساتھ صحبت اور میل جول رکھنا ہے جو گمراہ ہیں۔ صحبت ان‬
‫عوامل میں سے سب سے زیادہ مؤثر ترین عامل ہے جس سےنوجوان متاثر ہوتے ہیں۔ یہ چیز ان کی عقل و فکر اور رویوں کو‬
‫بدل کررکھ دیتی ہے۔ آں حضرتﷺ نے ارشاد فرمایا‪ :‬المرء على دین خلیلہ فلينظر أحدکم من یخالل ”یعنی آدمی اپنے ہم نشین‬
‫ساطرِز زندگی اپناتا ہے چنانچہ کسی کی ہم نشینی سے پہلے اس کے بارے میں غور کرلو کہ وہ کیسا ہے؟“ اور آپﷺ نے ایک‬
‫‪:‬جگہ فرمایا‬
‫مثل الجلیس السوء کنافخ الکیر إما أن یحرق ثیابک واما أن تجد منه رائحة کریھة ”برے ہمنشیں کی مثال لوہار کی بھٹی کی طرح‬
‫ہے یا تو وہ تیرے کپڑے جال دے گی یا پھر تو اس کے دھوئیں کو چکھ لے گا“۔‬
‫صحبِت صالح ترا صالح کند‬
‫صحبِت طالح تراطالح کند‬
‫اس مسئلے کا حل یہ ہےکہ نوجوانوں کو چاہیےکہ ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کریں جو نیکی اور بھالئی کا سرچشمہ ہوں اور‬
‫عقل و دانش کاپیکر ہوں تاکہ ان سے کسِب خیر ‪،‬اصالح احوال اورعقل کوجال بخشی جائے۔ اس لیے کسی کی صحبت سے پہلے‬
‫ان معامالت اور رویوں کوخود بھی پرکھنا اور دوسرے لوگوں سےبھی سن لینا چاہئے۔اگر وہ صاحِب اخالق‪ ،‬صاحِب دین اور اعلٰی‬
‫کردار کا مالک ہو اور لوگ بھی اسے اچھا کہیں یعنی دید وشنید دونوں ہی بہتر ہوں تو اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاؤ‪،‬‬
‫تعلقات استوار کرو۔ اس کے برعکس اگر وہ بداخالق اور بدکردار ہے تو اس سے دوری اختیارکرجاؤ۔ چاہے وہ اپنی صورت میں‬
‫چاند سے زیادہ خوبصورت ہو‪ ،‬اپنی باتوں میں شہد سے زیادہ شیرینی رکھتا ہو‪ ،‬اپنی شخصّیت اور ظاہری وضع قطع کے لحاظ‬
‫سے کمال کو پہنچا ہواہو پھر بھی اس سے اجتناب کرو۔ کیونکہ یہ تمام ظاہری خوبیاں شیطان‪ ،‬بندگاِن اٰل ہ کو گمراہ کرنے کے‬
‫لیےاستعمال کرتا ہے۔ کیونکہ اس کی ظاہری چمک دمک نظروں کو خیرہ کردیتی ہے۔ سو اس وجہ سے لوگ اس کی طرف‬
‫؎ کھینچے چلے آتے ہیں لیکن درحقیقت وہ بدقسمت شیطان کے لیے آلہ گمراہی اور فسق و فجور ہوتا ہے‬
‫اب کسی پوشاک میں کردار کی خوشبو نہیں رہی‬
‫!چھپ گئی ہے انسان کی پہچان ملبوسات میں‬
‫۔ منفی کتابوں کا مطالعہ اور انٹرنیٹ کا غلط استعمال‪4‬‬
‫نوجوانوں کی گمراہی کا چوتھاسبب ایسے رسائل و مجاّل ت ‪ ،‬اخبارات اور کتابیں وغیرہ پڑھنا ہے‪ ،‬جو ایک نوجوان کے دل میں‬
‫اس کے عقائد و نظریات کےبارے میں ترّد د و شک کی راہ ہموارکرتے ہیں۔ اسےاخالِق رذیلہ پر آمادہ کرتےاورکفر و فسق میں‬
‫مبتال کردیتے ہیں۔ بالخصوص اس وقت جب کسی فرد کی تربیت پر ثقافت اسالمیہ کے اثرات اچھی طرح مرتب نہ ہوں‪ ،‬اور وہ‬
‫اپنے دین کے فہم کے حوالے سے ایسی بصیرت سے محروم ہو جو حق و باطل کے درمیان اچھی طرح خِط امتیاز کھینچ سکے‬
‫اور اپنے لیے نافع و ضرر رساں کا گہرے شعور کےساتھ ادراک کرسکے۔اس طرح کی کتابوں کا مطالعہ نوجوان کو ایڑیوں سے‬
‫پھیر دیتی ہے اوروہ اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے ان گمراہوں کو نہ چاہتے ہوئے قبول کر بیٹھتا ہے۔‬
‫اس مشکل کا حل یہ ہے کہ نوجوان ایسی تخریبی کتابوں کے مطالعہ سے گریز کرے اور ان کتابوں کے مطالعے میں غرق ہو‬
‫جو اس کےدل کو محبِت اٰل ہی اور محبِت رسولﷺ کا سرچشمہ بنا دے اور اس کے ایمان و عمل صالح کی جڑیں مضبوط‬
‫کردے‪،‬پھر صرف ایسی ہی کتابیں پڑھنے پراکتفا کرے۔ دوسری قسم کی منفی رجحانات پیدا کرنے والی کتابوں سے گریز کرےتو‬
‫پھر آہستہ آہستہ وہ محسوس کرے گاکہ پہلے منفی اثرات مرتب کرنے والی کتب پڑھنے کی وجہ سے اس کےدل و دماغ میں‬
‫تشکیک و ترّد د کے جو کانٹے چبھ گئے تھے‪ ،‬وہ نکل رہے ہیں۔ اسے اندازہ ہوتا جائے گا کہ وہ شک و اضطراب کی دنیا سے‬
‫باہر آرہا ہے۔ اس کا سرکش نفس اللہ‪ ،‬رسولﷺ کی اطاعت پر آمادہ ہورہا ہے‪ ،‬اس کا دل لہو و لعب کی دنیا سے ُاچاٹ ہورہاہے۔‬
‫اس سلسلے میں سب سے اہم ترین کتاب’کتاب اللہ’ ہے اور جو ان کی تفسیر وبیان پر مشتمل ہیں‪ ،‬چاہے وہ تفسیر بالمنقول ہو‬
‫یاتفسیر بالرائے المحمود ہو۔ اسی طرح سنت رسولﷺ کا مطالعہ بھی انتہائی ضروری‪ ،‬نفع بخش اور مفید ہے‪ ،‬پھر وہ کتابیں جو‬
‫ایسے استدالل و استنباط اور فقہی مسائل پرمشتمل ہوں جوعلماے ربانیین نے ان دونوں مصادِر اساسیہ سے نکالے ہیں۔‬
‫عر بی تحرير‪ :‬شيخ محمد بن صالح العثيمين‪ ،‬ترجمہ‪ :‬عبدالحنان الکیالنی‬
‫ملحدین کے ذات باری تعاٰل ی اور قبر و حشر کے متعلق سخت سوالوں کے منطقی و فلسفی جوبات اثبات باری تعالٰی ‪ ،‬توحید‪ ،‬تنزیہ*‬
‫و تقدیس‪ ،‬مسئلہ خیر و شر‪ ،‬مسئلہ رؤیت باری تعالٰی ‪ ،‬جبر و قدر(تقدیر)‪ ،‬نبوت‪ ،‬عام اعترضات‪ ،‬محمد رسول اللہ کی نبوت‪ ،‬خاتم‬
‫النبیین کی تفسیر‪ ،‬وجود باری تعالٰی ‪ ،‬جنت و جہنم کا وجود‪ ،‬قبر و برزخ کی زندگی‪ ،‬موت کے بعد زندہ ہونا اور قیامت کا وجود‪،‬‬
‫خدا کا وجود یہ اور ان جیسے سیکنڑوں ملحدین کے مشرکانہ سوالوں کے جامع و عقلی جوابات پر مشتمل بہترین وٹس ائپ‬
‫*گروپ‬
‫*گروپ نمبر‪ 1️⃣:‬لنک*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/Ke2feylEHdG6lVzArFtVoG‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 2️⃣:‬لنک*‬


‫‪https://chat.whatsapp.com/Fe4WnvQclaN91i5oql58EX‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 3️⃣:‬لنک‪/‬نوٹ‪ :‬تیسرا گروپ پشتو زبان والوں کیلئے ہے پوسٹنگ پشتو میں ہوتی ہے*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/EZxJ6qmgGpQ2zFxqAeV5uH‬‬
‫‪♡ ㅤ‬‬ ‫‪❍ㅤ‬‬ ‫⎙‬ ‫⌲‬
‫‪ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ‬‬ ‫‪ˢᵃᵛᵉ‬‬ ‫‪ˢʰᵃʳᵉ‬‬
‫*🛑رد الحاد کورس🛑* ‪[11/30, 3:44 PM] +92 332 9407835:‬‬
‫*الحاد_اسباب وحل‪*📌 12:‬‬
‫ِبْس ِم الّٰل ِِه الَّرْح َمِن الَّر ِح ْيم‬
‫*باب نمبر‪*🛑12:‬‬
‫*سبق نمبر‪:9‬ریسرچ کا میکینزم اور الحاد کا فکری ُسقم*‬

‫حقیقت کی تالش انسان کی جبّلت ہے‪ ،‬اسی لیے انسان کا تجّسس ہر مظہرکا جواز طلب کرتا ہے۔ ہر مظہر اپنے اندر ایک سسٹم‬
‫اور وہ سسٹم اپنے علمی پیرائے رکھتا ہے۔ اسی جوازکی تالش حصول علم بنتا ہے۔ علم کیا ہے؟ کسی چیز یا مظہر یا موضوع‬
‫کی علمی وضاحت یا عملی جانکاری۔گویا ریسرچ یا تحقیق پوشیدہ علوم کی دریافت کی کاوش ہے۔‬
‫کبھی ٓاپ نے سوچا کہ ٓاخر انسان ہی کیوں ہر مظہر کے جواز کا متالشی ہوتا ہے جبکہ دنیا میں زندگی بے شمار شکلوں میں‬
‫موجود ہے؟ اسی لیے نا کہ انسان تجّسس‪ ،‬عقل اور دانش رکھتا ہے جو کسی اور زندگی میں اس پیمانے کی نہیں کہ وہ فکر و‬
‫دانش سے کام لیکر اپنے اطراف کے ماحول اور نیچر کی ہیئت تبدیل کر نے کی سعی کرے۔ گویا علم اور انسان میں ایک خاص‬
‫تعّلق ہے۔ تجّسس کا تقاضا ہے کہ ہر بات کی تہہ تک پہنچا جائے‪ ،‬اسی لیے کسی بھی حاضر مظہر کی ابتدا یا پیدائش کی توجیہ‬
‫کی تالش بھی منطقی بات ہے۔ کائنات کی پیدائش کے ساتھ علوم کی پیدائش بھی ایک معّم ہ ہے۔ مغرب اپنی دریافتوں پر بجا طور‬
‫پر فخر کرتا ہے کیونکہ وہاں غور و فکر اور ریسرچ کا دور دورہ ہے‪ ،‬لیکن عجیب بات یہ ہے کہ علمیت کی معراج پر‬
‫پہنچنے والے یہ احباب خاص طور پر اہلِ فالسفہ اور اسکالرز اس بہت اہم سوال کو نظر انداز کر تے ہیں۔‬
‫اس مضمون کی بنیاد یہ اہم نکتہ ہے کہ انسان کائنات سے جو کچھ علمی اور عملی طور پرحاصل کر رہا ہے‪ ،‬وہ دو طرفہ‬
‫سسٹم کی بنیاد پر منحصر ہے۔ وضاحت اس کی یہ ہے کہ انسان کا دیکھنا‪ ،‬سننا کھانا پینا اور چلنا پھرنا اپنے پیچھے سسٹم رکھتا‬
‫ہے۔ اس سسٹم کے دو حصے ہوتے ہیں‪ ،‬ایک انسان کے اندر جبکہ دوسرا باہر۔ جب ہم کچھ دیکھتے ہیں تو نّظارہ باہر ہوتا ہے‬
‫لیکن ہمارا بصری نظام ٓانکھ کے پیچھے‪ ،‬ہم سنتے ہیں تو ٓاواز باہر پیدا ہوتی ہے اور سمعی نظام ہمارے دماغ میں‪ ،‬اسی طرح ہم‬
‫چلتے ہیں تو ارادہ اور پاؤں ہمارا ہوتا ہے لیکن ہمارے قدم پر زمینی رّد عمل ہمیں حرکت میں التا ہے۔ گویا حواس خمسہ اور‬
‫ہمارا جسم دنیا سے رابطہ میں ہمارے معاون ہیں۔ اگر انسان کا ہر فعل داخلی و خارجی دنیا سے تعّلق کے پیرائے رکھتا ہے تو‬
‫غور و فکر اور تحقیق کا بھی اندرونی اور بیرونی نظم رکھنا فطری ہوگا۔ مثًال ایٹم پر ریسرچ میں انسان جب اس کا مشاہدہ کرتا‬
‫ہے تو نامعلوم علوم ایٹم کے اندر مقّید ہوتے ہیں جبکہ کوئی ہم ٓاہنگ مگر نامعلوم پیرایہ انسان کے دماغ میں بھی انسان کے‬
‫تصّر ف میں فّعال ہوتا ہے تبھی انسانی شعور کی گرفت میں نئی معلومات ٓاتی ہیں۔ فی الوقت اس پیرائے کو ہم عقل مان تو لیتے‬
‫ہیں مگر یہ عقل کے عالوہ کچھ اور بھی ہوسکتا ہے کیونکہ عقل اور بیرونی علوم میں کسی ہم ٓاہنگ نظم کا کوئی ثبوت یا‬
‫ٹھوس دلیل ہمارے پاس نہیں‪ ،‬جبکہ حواس کے دو طرفہ نظم کے بموجب اس سسٹم کا بھی ہونا عین فطری ہے۔ کسی بھی تسخیِر‬
‫علم میں عقل و دانش ایک بنیادی نہیں بلکہ سطحی توجیہ ہے کیونکہ عقل بھی بذات خود علم دریافت نہیں کرتی بلکہ کسی نظم کا‬
‫جزو اور معاون ہی ہے۔ ہم عقل کو ایک مفرد یا واحد مظہر سمجھتے ہیں‪ ،‬مگر یہ ہماری کم علمی بھی ہوسکتی ہے کیونکہ عقل‬
‫“کیسے کام کرتی ہے” ہم نہیں جانتے۔ اسی لیے یہاں پر ہم فرض کرتے ہیں کہ عقل ایک مرّک ب یا ملٹی ڈائمنشن مظہر ہے اور‬
‫اس میں کوئی عنصر یا خاصیت ہے جو بیرونی علوم کے پیرایوں سے کوئی انسیت رکھتی ہے۔ ہمیں کسی ایسے داخلی مظہر کی‬
‫تالش کرنی ہوگی جو خارج میں موجود علم سے کوئی عقلی و منطقی ہم ٓاہنگی رکھتا ہو۔ گویاتحقیق و دریافت اہم عمل ہے جو‬
‫انسان کے تجّسس سے متعّلق توہے مگرجس کے کسی اندرونی و بیرونی دورخے پیرائے سے ہم ٓاشنا نہیں ہیں۔ اسی تجّسس کی بنا‬
‫‪:‬پر یہ سوال فطری ہے کہ‬
‫انسانی تجّسس اور کسی اسرار کے علمی پیرائے کی دریافت یعنی ریسرچ کے حاصل نتائج کے پیچھے کیا کوئی مِکینزم‬
‫نہیں؟ ‪mechanism‬‬
‫رکھتا ہے؟ ‪ compatibility‬وہ کیا میکینزم ہے جو انسانی ذہن اور کائنات میں پھیلے علوم میں کوئی فطری ہم ٓاہنگی‬
‫ٓائیں غور کرتے ہیں کہ حصول علم کے اس میکینزم کے پیرائے کیا ہیں یا کیا ہو سکتے ہیں؟‬
‫لیکن اس سے قبل اس بات پر بھی غور کرلیں کہ اتنے بنیادی سواالت اسکالر اور محّقق حضرات کی صرفِ نظر کا شکار کیوں‬
‫رہتے ہیں۔‬
‫مشاہدہ یہی ہے کہ انسان بہت سے پراسرار کائناتی مظاہر میں گھرا ہوا تو ہے مگر ُان کی حقیقت جانے بغیر بھی زندہ ہے‪،‬‬
‫کیونکہ اس کا بہت سے رموز سے براِہ راست تعّلق نہیں اور جن سے سابقہ ہے ان مظاہر میں ایسی مقناطیسیت ہوتی ہے کہ‬
‫عاقل ترین انسان بھی ُان بھول بھلّیوں کے اندر ہی بھٹکتا رہتا ہے‪ ،‬مثًال ہمارے شعور کی مقناطیسیت‪ ،‬عقل و دانش کا معّم ہ اور‬
‫نیند کی جاذبیت‪ ،‬کہ جن کا جواز دینے سے ماہرین عاجز ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ انسان کی توّج ہ روزمّر ہ کے فوری رّد عمل کے‬
‫معامالت پر ہی مرکوز رہتی ہے اور اسی لیے مسلسل رّد عمل کے جبر کے تئیں انسان ان عوامل کے جواز کی العلمی سے‬
‫صرف نظر کیے رہتا ہے‪ ،‬یعنی انسان بہت سے مظاہر کی حقیقت جانے بغیر بھی انہیں الزم فطری وصف سمجھ کر ان کے‬
‫اوصاف سے مستفیض ہوتا رہتا ہے۔گویا یہ کہا جاسکتا ہے کہ انسان کسی طاقتور انجانے مقناطیسی بھنور کے اندر زندگی گزارتا‬
‫ہے جو اس کو بہت سے حقائق سے بےبہرہ کیے رکھتا ہے۔ مزید وضاحت اس کی یہ ہے کہ ہم بحیثیت انسان ایک مغلوب‬
‫کردینے والے سسٹم میں مشغول رہتے ہیں جس میں ہم کسی خاص بھول جانے والی ذہنی کیفیت میں ہی رہتے ہیں۔ ہم ایسے حال‬
‫میں رہتے ہیں جس میں ہمارے فکری زاویے ہی ہمارے روّیے متعین کرتے ہیں خواہ وہ افکار کتنے ہی غیر مستند ہوں۔ مثًال‬
‫کائنات کی ابتدا یا پیدائش کا معّم ہ ایک چکرا دینے واال واقعہ ہے جس کی حقیقت کی بےداغ جانکاری پر جب سائنسدان بےبس‬
‫ہوگئے تو اپنے تجّسس کی مصنوعی تسکین کے لیے تشریح طلب ادھورے علم کی بنا پر ہی ایمان کا ایک محور تخلیق کر لیا‬
‫جس کے تئیں سائنسدانوں نے یقین کر لیا کہ کائنات خود بنی حاالنکہ یہ نظریہ ابھی بھی علمی اور تجرباتی طور پر ثابت شدہ‬
‫نہیں۔ بہت سے فلسفی اور اسکالر ایسے ہی نیم یقین کے محور سے منسلک فکری دائرے میں فلسفیانہ کاوشیں کرتے ہیں۔ یقین کے‬
‫کی طرح اکثر انسانوں کے ذہن پر مسّلط ہیں جو فکر کی انمٹ راہداریاں تخلیق ‪ constants‬یہ علمی و غیر علمی تاثر التغّیر‬
‫کر دیتے ہیں کہ انسان انھی میں سے کسی فکری پگڈنڈی پر سفر کرتا ہے۔ انسان ایسے فکر کے خول کو توڑ نہیں پاتا کیونکہ‬
‫الشعوری طور پر (یا جبرًا) اس کو قبول کر چکا ہوتا ہے جیسا کہ الحاد کے حلقے میں کائنات اور حیات کا خود پیدا ہونا ایک‬
‫مستند خیال جانا جاتا ہے یا بہت سے عقیدے۔‬
‫یہی حال ماخِذ علوم کی جانکاری جیسے انتہائی اہم سوال کا ہے۔ انسان تحقیق کے انہماک میں غرق تو ہوجاتا ہے لیکن اسی تحقیق‬
‫کے حقیقی اجزائے ترکیبی جیسے عقل و دانش کے خارجی علوم سے کسی تعّلق کو نظر انداز کیے رہتا ہے! انسان کو اس سے‬
‫بھی غرض نہیں کہ وہ جاننے کی کوشش کرے کہ انسان علم کی تسخیر پر قادر ہی کیوں ہوا؟ ہم اپنے تجّسس اور شوق کے‬
‫بموجب ریسرچ میں منہمک ہو کر نئے قوانین اور علوم دریافت تو کرتے ہیں مگر ریسرچ کے عمل کی عّلت اور گہرائی پر غور‬
‫اس لیے نہیں کرتے کہ یہ ہمارے روزمّر ہ کے طرزعمل میں ایک فطری عطا کی طرح ہے جو ذہن میں کسی گہری چھاپ کی‬
‫!طرح کندہ ہے۔ یعنی انسان نیا علم حاصل کرتا ہے کیونکہ تجّسس کے تئیں اپنا فطری حق سمجھتا ہے اور بس‬
‫اب ایک قدم ٓاگے بڑھتے ہیں۔ تحقیق یا ریسرچ کے تئیں منطقی بات یہ ہے کہ انسان کسی فطری اسرار کو جاننے کے لیے‬
‫باریک بینی سے متوّج ہ ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ کوئی علمی پیرایہ وہاں پہلے سے موجود ہے۔ اس امر کی کوئی‬
‫اور وضاحت نہیں کیونکہ ہر انسانی وضع کردہ سسٹم بھی اپنے پیچھے ایک فالسفی‪ ،‬پالننگ اور ترتیب رکھتا ہے جو کائناتی‬
‫حقیقت بھی ہے۔ جب علوم موجود ہیں اور ظاہر بھی ہو رہے ہیں تو یہ سوال منطقی ہیں کہ‪ :‬علم کی تخلیق کیوں‪ ،‬کہاں اور‬
‫کیسے ہوئی؟ علوم انسان تک کس سسٹم کے تحت پہنچ رہے ہیں؟ فطری معّم وں کی کلید کہاں سے عقل میں ٓاتی ہے؟‬
‫خدا کو ماننے والے گروہ کے لیے تو یہ سوال کوئی مسئلہ نہیں کہ وہ خود کو مطمئن کرنے والے ایمانی جواب رکھتے ہیں‪ ،‬ہاں‬
‫مگر خدا کو نہ ماننے والے اور سائنسی ذہن رکھنے والے فلسفیوں کے لیے یہ چیلنج سوال ہیں۔ اسی تناظر میں اب ہم ان سواالت‬
‫کے جوابات کا جائزہ الحادی سائنس یا جدیدیت اور مذہب دونوں کے زاویوں سے لیتے ہیں کہ کون ان کی زیادہ مناسب توجیہ‬
‫رکھتا ہے۔‬
‫کیا فکِر الحاد علوم کے کسی مخزن و ماخذ کے معّم ے کو حل کرنے کی پوزیشن میں ہے؟‬
‫جب انسان علم کے سہارے خدا کا انکار کرنے پر ُم صر ہوا اور حیات و کائنات کے جواز کی تالش کی تواپنی عقل پر بھروسہ‬
‫کیا اور کائنات کے تمام مظاہر کو کسی وحدانی نقطے سے “اچانک ظاہر ہونے والے” بےانتہا یا ال محدود طاقتور پھیالؤ کا نتیجہ‬
‫‪ natural-‬قرار دیا جسے عرف عام میں بگ بینگ کہا جاتا ہے۔ اسی کے بموجب اچانک تخلیق‪ ،‬ارتقاء اور فطری چناؤ‬
‫کے نظریات وضع کیے اور حواس و عقل کی بنا پر اپنے علم کی بنیاد کو وسیع کرتے ہوئے ہر ہر مظہر ‪selection‬‬
‫کے پس پردہ سسٹم کی تشریح تجربات کے ذریعے کی اور اس کو سائنس کا نام دیا۔ اگر ہم یہ درست مان لیں ‪phenomenon‬‬
‫کہ ہمارے اطراف سب کچھ خود ہی بنا اور زندگی خود ہی ارتقاء پذیر ہے تو پھر اسی نظریے کے بموجب ہمارے سوال یعنی‬
‫علوم کے احیاء اور مخرج کا جواب اور منطقی تشریح یہی ہوگی کہ ہماری کائنات کے مظاہر اور ان سے متعلقہ علوم ایک ترتیب‬
‫کے تحت عیاں ہوتے گئے۔ مثًال ایٹم کے بنتے ہی پارٹیکلز کا انتہائی پیچیدہ سسٹم متعّلقہ علوم کے جَلو میں وجود میں ٓاگیا‪ ،‬یعنی‬
‫ایک علم مستند ہوا اور اسی بنیاد پر فزکس‪ ،‬کیمسٹری‪ ،‬میتھ‪ ،‬الجبرا اور بےشمار علوم متعّین ہوئے‪ ،‬پھر جب حیات بیدار ہوئی تو‬
‫اس سے متعّلق زولوجی اور بوٹنی کے علوم پیدا ہو گئے۔ گویا الحادی مؤقف کے مطابق علوم اپنے اپنے وقت پر متعلقہ مظاہر‬
‫!کے تئیں پیدا ہوئے اور مزید ہورہے ہیں‬
‫کیا یہ بات عقلی اور منطقی لگتی ہے کہ تمام کائناتی سسٹم اپنی توجیہ اور و ضاحت کے علمی پیرائے کے ساتھ خود پیدا ہوئے‬
‫اور ہو رہے ہیں؟‬
‫بات وہی ہے کہ انسان تحقیق کے دوران کچھ عوامل کو الشعوری طور پر فرض کیے ایک ذہنی شکنجے کے زیر اثر غور و‬
‫فکر کرتا ہے کہ اسے کسی مسٹری کا سبب معلوم کرنا ہے یا کوئی حل نکالنا ہے‪ ،‬اور اسی ِبنا پر‪“ :‬علم کیوں ہے” کے‬
‫بجائے “علم کیا ہے” پر ہی توّج ہ مبذول رکھتا ہے جبکہ ہمارے زیرِ غور یہ ہے کہ‪ :‬علم کیوں ہے؟‬
‫ہے جس میں علم کی نوعیت کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ اس میں بھی اصل مّد عا ‪ epistimology‬فلسفے کی ایک شاخ نظریہ علم‬
‫ان مستند ذرائع کی چھان بین ہے جن کے ذریعے علم حاصل ہوتا ہے۔ مثًال تجربہ‪ ،‬حواس‪ ،‬دلیل‪ ،‬تجزیہ‪ ،‬عقلیت اور منطق وغیرہ‬
‫سے نتائج کا اخذ کرنا۔ مختصرًا حصول علم کے حوالے سے حتمی سائنسی نظریَہ یہ ہے کہ انسان اپنے مشاہدے‪ ،‬تجربات‪ ،‬خیال‪،‬‬
‫یادداشت‪ ،‬شعور اور دالئل وغیرہ سے علم حاصل کرتا ہے۔ اس پر غور کریں تو علم کے ماخذ کے حوالے سے یہ ایک نہایت‬
‫سطحی توجیہ ہے جس میں ریسرچ یا تحقیق میں معاون عوامل کا تذکرہ ہے نہ کہ ماخذ کا! اس کو کچھ جو سمجھا وہ ایک‬
‫مغربی فلسفی پالٹو کہ جس کا قول ہے کہ “علم ہماری روح میں دفن ٓائیڈیاز کو سمجھنا ہے” مگر مشکل یہ ہے کہ سائنس اور‬
‫الحاد روح کو نہیں مانتے۔ اس سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ جدیدیت یا الحاد علم کے ماخذ کے حوالے سے بالکل اندھیرے میں ہے۔‬
‫یہ تو تھا مغربی اور الحادی سوچ میں موجود مخمصے اور جمود کا ایک جائزہ‪ ،‬اب دیکھتے ہیں کہ کیا مذہب ماخِذ علوم اور‬
‫ریسرچ کے پیچھے کسی سسٹم کا عقلی بیانیہ رکھتا ہے؟‬
‫یہاں ہم اسالم کے حوالے سے بات کریں گے۔ کیونکہ قرٓان اللہ کا کالم یا انسانوں سے خطاب ہے اس لیے عمومًا یہ بھی خیال‬
‫کیا جاتا ہے کہ تمام کائناتی علوم کا ماخذ وحی اور عقل ہے‪ ،‬جبکہ قرٓان کچھ اور کہہ رہا ہے۔ قرٓان ذات باری تعالٰی سے‬
‫انسانوں کی طرف علوم کی منتقلی کو اس طرح بیان کرتا ہے۔ ”و عّلم ٓادم االسماء کّلھا”‪ٓ ،‬ادم کو تمام چیزوں کے نام سکھائے۔‬
‫البقرہ۔ ٓایت ‪۳۱‬‬
‫اس ٓایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کو علوم وحی سے پہلے براہ راست ودیعت ہوئے کیونکہ تخلیق کے بعد ٓادمؑ کو تمام اشیاء‬
‫کے نام بتائےگئے جس میں ظاہر ہے کہ پارٹیکل سے لیکر کہکشائوں تک ہر ہر معلوم و نامعلوم چیز کے نام شامل ہوئے اور جو‬
‫بظاہر علومِ کائنات کی”العلیم” سے خلیفہ االرض یعنی انسان کی طرف منتقلی تھی‪ ،‬جبکہ ٓائندہ ادوار میں وحی کے ذریعے انسان کی‬
‫تربیت و ہدایت کی گئی۔ گویا وحی انتقال علوم نہیں بلکہ غالبًا ہدایات اور ان ودیعت شدہ علوم کی یاد دہانی یا بازگشت بھی ہو‬
‫سکتی ہے! واللہ اعلم‬
‫لیکن یہاں ہمارے سامنے سوال صرف اس سسٹم یا کسی پنہاں میکینزم کو سمجھنا ہے جو ان علوم کو انسان کے لیے عیاں کرتا‬
‫ہے۔‬
‫یہ بات واضح ہوگئی کہ انسان کی تخلیق سے پہلے علم موجود تھا کیونکہ کائنات موجود تھی‪ ،‬ہم اپنی محدود عقل سے یہ قیاس‬
‫کر سکتے ہیں کہ غالبًا ہوا یہ تھا کہ ٓادمؑ کی تخلیق کے ساتھ کائنات کے چّپے چّپے اور ذّرے ذّرے کے علوم کے پاسورڈ یا‬
‫محفوظ ہوئے )میں ‪ DNA‬کسی( کنجی یا کسی غیر مرئی ساخت کے ڈی کوڈر نام کی شکل میں ٓادمؑ کے دماغ میں منتقل ہو کر‬
‫جو نسًال ٓاگے منتقل ہو رہے ہیں۔ اس حوالے سے جو وضاحت عقلی اور منطقی استدالل رکھتی ہے‪ ،‬وہ یہ ہے کہ کائناتی علوم دو‬
‫حّصوں میں تقسیم کیے گئے‪ ،‬طبعی حّصے کو مظاہر کائنات میں اور دوسرے حّصے یعنی علمی پیرایوں کو انسان کے دماغ میں‬
‫بیرونی علوم کے پاس ورڈز کے ساتھ محفوظ کر دیا گیا۔ یعنی انسان علوم سے ُپر کائنات میں ان علوم کے ڈی کوڈر لیکر داخل‬
‫ہوا۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ انسان کو غور وفکر یعنی ریسرچ کی طرف مائل کیا گیا اور بتایا گیا کہ زمین و ٓاسمان میں جو‬
‫کچھ ہے وہ تمہارے لیے مسخر و مغلوب کردیا گیا ہے‪َ :‬و َس َّخ َر َلْک مّ َم ا ِفی الَّسٰم ٰو ِت َو َم ا ِفی اَالرِض َجِم یًعا ِّم نْہ ِاَّن ِفی ٰذ ِلَک ٰاَل ٰی ٍت‬
‫ِّلَقوٍم َّیَتَفَّک ْر وَن ۔ (قرٓان سورۃ ‪۴۵‬۔ٓایت‪“ )۱۳‬اس نے زمین اور ٓاسمانوں کی ساری ہی چیزوں کو تمہارے لیے مسخر کر دیا‪ ،‬سب کچھ‬
‫”اپنے پاس سے ۔ اس میں بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرنے والے ہیں‬
‫گویا ایک طرف کائنات میں مظاہر ہیں جو اسرار لیے ہیں جن میں سسٹم پوشیدہ ہیں۔ دوسری طرف ان مظاہِر کائنات میں پنہاں‬
‫علوم تک رسائی کے کوڈ ہر انسان کے دماغ میں ڈی این اے کی کسی نامعلوم ڈائمنشن میں محفوظ ہیں۔ عملی زندگی میں غالبًا‬
‫ہوتا یہ ہے کہ کوئی شخص جب اپنی ُاپچ کے تئیں کسی شعبے میں دلچسپی لیتا ہے اور کسی اسرار کی گتّھی سلجھانا چاہتا ہے‬
‫تو اس مخصوص مظہر میں عمل یا غور و فکرسے اس کے دماغ میں محفوظ اس اسرار سے متعّلقہ پاس ورڈز بیدار ہو کر ذہن‬
‫میں اس سے منسلک نئے خیاالت کو مہمیز دیتے ہیں جن کی روشنی میں انسان اس مظہر میں مزید غور اور تحقیق کرتا ہے‬
‫جس سے وہاں موجود اسرار کی گتھی سلجھ کر کسی نئی دریافت‪ ،‬معلومات یا علم کی شکل میں عیاں ہو جاتی ہے‪ ،‬اس طرح‬
‫کائناتی راز انسان کی عقلی دسترس میں ٓاتے ہیں۔ یہاں یہ وضاحت بر محل ہوگی کہ جدید سائنس خیاالت کے دماغ میں پیدا ہونے‬
‫کے سسٹم سے بھی پوری طرح واقف نہیں کہ خیال کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ لٰہ ذا انسانی تجّسس اور انہماک کا خیاالت کی کسی نئی‬
‫ٓابشار کے سوتے بن جانا بعید از قیاس بھی نہیں۔ یوں بھی سمجھیں کہ انسان کے تجّسس اور استغراق کی بنا پر پیدا ہونے والے‬
‫ہیں جن کے تعاقب میں انسان ان کائناتی رازوں تک جا ‪ indicator‬تصّو رات دراصل بیرونی علوم کے کسی اسرار کے رہنما‬
‫پہنچتا ہے جو ابھی مخفی ہیں۔ انسان کے عالوہ کوئی اور مخلوق طبعی و غیر طبعی علوم پر غالب نہیں ٓاپاتی کیونکہ انسان کے‬
‫عالوہ کوئی اور ذی حیات بہترین عقل اور کائنات کے طبعی و غیر طبعی علوم کے پاس ورڈ نہیں رکھتا۔ دوسری دلیل قرٓان کا یہ‬
‫فرمان ہے کہ ہر چیز کے جوڑے بنائے گئے ہیں‪ ،‬اس حوالے سے بھی ہر پنہاں علم ایک تاال ہے جو انسانی دماغ میں اپنی‬
‫چابی رکھتا ہے۔‬
‫ریسرچ اور تفّک رحقیقتًًا تجّسس اور نیابت کا کرشمہ ہے کہ جس کے بموجب انسان کو کائنات میں موجود ہر ہر مظہر‬
‫کی تہہ تک پہنچنا اور اس پر غلبہ پانا ہے۔ لیکن تفّک ر کے اس کھیل میں جب انسان اپنے خالق کی طرف ‪phenomenon‬‬
‫متوّج ہ ہوتا ہے اور کسی عام اسرار کی طرح اپنے خالق کو سمجھنے کی سعی کرتا ہے تو الجھن میں مبتال ہوتا ہے کیونکہ اس‬
‫کے دماغ میں اس اسرار سے متعّلق کوئی پاس ورڈ یا کوڈ موجود نہیں! انسان وجودیت کے حصار میں رہ کر عمِل تخلیق اور‬
‫خالق کے پیرایوں کو اپنی عقل سے نہیں سمجھ سکتا کیونکہ عقل بظاہر دماغ کے ماّد ی واسطے میں ہی عمل انگیز ہوتی ہے اور‬
‫ماّد ے کی کسی صالحّیت کی وسعت اپنے بنیادی عنصر کی جبّلت پر منحصر ہوتی ہے جو ظاہر ہے کہ مابعد الطبعیات سے کم تر‬
‫ہے۔ تو ایک کم تر چیز کسی برتر پیرائے کو نامکّم ل ہی سمجھ پائے گی۔ لٰہ ذا خالق کو جاننے اور رابطے کے لیے انسان کو‬
‫اپنی روح کی کسی ڈائمینشن سے رابطہ کرنا ہوتا ہے کہ روح انسان کی تخلیق کے ماحول سے فطری تعّلق رکھتی ہے۔‬
‫جدید انسان نے کائنات کے رازوں کو عقل کے کوزے میں قید تو کیا لیکن علم و تحقیق کی تعریف‪ ،‬توجیہ یا وضاحت کسی حقیقی‬
‫عقلی پیرائے کے بجائے محض سطحی پیرائے میں ہی کر پایا۔ منکرِ خدا اسکالر کے لیے علوم کی پیدائش یا علوم کا مخزن و‬
‫ماخذبھی کائنات کی پیدائش کی طرح ایک پہیلی ہے جو وہ اب تک بوجھ نہیں پایا۔ اس دائرٔہ سوچ پر تبصرہ اس طرح کر سکتے‬
‫ہیں کہ کسی جاندار کے شعور کا ارتقاء اس کے مشاہدے کی صالحیت پر منحصر ہوتا ہے۔ ایک رینگنے واال جاندار جو زمین‬
‫سے چمٹا رہتا ہے‪ ،‬اس کی کائنات کی ٓاگہی محدود ہوتی ہے۔ اس کی بہ نسبت زمین پر چلنے والے اور ُاڑنے والے کائنات سے‬
‫ٓاگاہ تر ہوتے ہیں۔ انسانوں میں بھی عقل کی درجہ بندی سوچ اور فلسفے کی مضبوط بنیاد کی متقاضی ہوتی ہے۔ الحاد کی رینگتی‬
‫‪ knowledge‬سوچ جو روشن خیالی‪ ،‬جدیدیت و ترّقی پسندی کی پروردہ ہونے کی دعویدار تو ہے مگر بد قسمتی سے نہ علم‬
‫سامنے ‪ narrative‬کے ماخذ کی نشان دہی کر سکی اور نہ ہی حصول علم اور تحقیق کے میکینزم کا کوئی منطقی بیانیہ‬
‫السکی ہے۔ اگر ایسا کوئی بیانیہ ہے تو سامنے الیا جائے۔ یہ اسالم ہی ہے جو علوم کے منبع و ماخذ اور علوم کی انسانوں کو‬
‫منتقلی اور انسانی تحقیقات و دریافتوں کی منطقی‪ ،‬عقلی اور سائنسی وضاحت رکھتا ہے۔ اسالم یہ بھی وضاحت رکھتا ہے کہ علوم‬
‫کیوں ہیں۔‬
‫تحریر مجیب الحق حقی‬
‫ملحدین کے ذات باری تعاٰل ی اور قبر و حشر کے متعلق سخت سوالوں کے منطقی و فلسفی جوبات اثبات باری تعالٰی ‪ ،‬توحید‪ ،‬تنزیہ*‬
‫و تقدیس‪ ،‬مسئلہ خیر و شر‪ ،‬مسئلہ رؤیت باری تعالٰی ‪ ،‬جبر و قدر(تقدیر)‪ ،‬نبوت‪ ،‬عام اعترضات‪ ،‬محمد رسول اللہ کی نبوت‪ ،‬خاتم‬
‫النبیین کی تفسیر‪ ،‬وجود باری تعالٰی ‪ ،‬جنت و جہنم کا وجود‪ ،‬قبر و برزخ کی زندگی‪ ،‬موت کے بعد زندہ ہونا اور قیامت کا وجود‪،‬‬
‫خدا کا وجود یہ اور ان جیسے سیکنڑوں ملحدین کے مشرکانہ سوالوں کے جامع و عقلی جوابات پر مشتمل بہترین وٹس ائپ‬
‫*گروپ‬
‫*گروپ نمبر‪ 1️⃣:‬لنک*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/Ke2feylEHdG6lVzArFtVoG‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 2️⃣:‬لنک*‬


‫‪https://chat.whatsapp.com/Fe4WnvQclaN91i5oql58EX‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 3️⃣:‬لنک‪/‬نوٹ‪ :‬تیسرا گروپ پشتو زبان والوں کیلئے ہے پوسٹنگ پشتو میں ہوتی ہے*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/EZxJ6qmgGpQ2zFxqAeV5uH‬‬
‫‪♡ ㅤ‬‬ ‫‪❍ㅤ‬‬ ‫⎙‬ ‫⌲‬
‫‪ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ‬‬ ‫‪ˢᵃᵛᵉ‬‬ ‫‪ˢʰᵃʳᵉ‬‬
‫*🛑رد الحاد کورس🛑* ‪[11/30, 3:44 PM] +92 332 9407835:‬‬
‫*الحاد_اسباب وحل‪*📌 12:‬‬
‫ِبْس ِم الّٰل ِِه الَّرْح َمِن الَّر ِح ْيم‬
‫*باب نمبر‪*🛑12:‬‬
‫*سبق نمبر‪:10‬شک کا مرض اور اس کا عالج*‬

‫) موالنا ابوالکالم آزاد کے تجربات کی روشنی میں(‬


‫یہ نقطہ نظر بھی پیش نظر رہے کہ انسانی معلومات کے عدم سےحقیقت معدوم نہیں ہوسکتی۔اگر کسی دوا کا خاصہ ابوبکررازی‬
‫اور ابن بیطار سے پہلے لوگوں کو معلوم نہ تھا تو اس کا یہ معنی نہیں کہ دنیامیں اس سے پہلے وہ دواموجودبھی نہ تھی۔کونین‬
‫ہمیشہ سے موجود‪،‬اور جب سے موجود ہے‪،‬اسی وقت سے دافع تپ ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ اس کا خاصہ تمہیں کل معلوم ہوا۔‬
‫بہر حال یہ مثال بعینہ امراض معنویہ از قبیل شکوک و شبہات و انکار جحود اور ان کے عالج کی بھی ہے۔شک و شبہ کفر‬
‫وانکار کا مرض ایک ہی ہے اور اس کا عالج بھی ایک ہی ہےہمیشہ سے یکساں مرض‪ ،‬اور ہمیشہ سے یکساں عالج‪،‬یہ بات نہیں‬
‫ہے کہ معلومات و مکشوفات کے بدلنے سے وہ بھی بدل جائے۔(تذکرہ‪،‬صفحہ‪۳۷‬۔‪)۲۳۶‬‬

‫‪:‬شک اور غفلت کا روگ اور کامیابی کی توقع‬


‫کیا دنیا میں کوئی کامیابی بال ایمان مل سکتی ہے۔کیا تم شک کا روگ اپنے پہلو میں لے کر دنیا کی چھوٹی سی چھوٹی کامیابی‬
‫پاسکتے ہو۔کیا تم دنیا میں ایک مٹھی بھر جو اور چاول بھی پاسکتے ہو جب تک تمہارے اندر طلب کے لیئے حق نہ ہو۔کیا ایک‬
‫لمحہ کیلئے دنیا کی کوئی کامیابی اپنا چہرہ تمھیں دیکھا سکتی ہے۔جب تک کہ تم حق کی راہ میں قربانیاں دینےکیلئے تیار نہ ہو۔‬
‫خدا کی اس کائنات کے ایک ایک ذرے کے اندر اس حقیقت کی عالمگیر تصدیق موجود ہے۔اور اس دنیا میں کامیابی کا کوئی‬
‫چہرہ نہیں دیکھ سکتا جب تک وہ ایمان‪،‬حق اور صبر کی منزل سے نہ گزرے۔اللہ کا ہر قانون ہر اڑنے والے پرندے کیلئے ہے۔‬
‫کیا اللہ اپنا قانون تمہارے لیئے بدل دے گاکیا خدا تمہاری غفلتوں کا ساتھ دے گااگر تم اپنی غفلت کی وجہ سے اس دھوکے میں‬
‫پڑے ہوئے ہو توتم س ے بڑھ کر اپنی موت کی طرف جانے واال کوئی نہ یں ےہ ۔(خطبات آز اد‪،‬ص فحہ ‪)۶۱‬۔‬

‫‪:‬شک کا عار ض ہ اور ہدایت کا ظہور‬


‫اصل یہ ہے کہ انسان کاعارضہ شک و شبہات اور موت انکار حجود کا اصلی سرچشمہ خوف اس کی فکرونظر کی ایک طبیعت‬
‫ثانیہ ہے جو انسان کی ہدایت اصلی و اصلی کے بعد ہی اسباب مذکورہ قرآن و سنت کی بنا پر پیدا ہوگئی تھی‪ ،‬اور جس طرح‬
‫ظہور ہدایت و دعوت الی الیقین میں حقیقت کا ظہور یکساں رہا ہے‪ ،‬ٹھیک اسی طرح اس طبیعت ثانیہ و عارضہ کا ظہور بھی‬
‫ایک ہی صورت ایک ہی رنگ روپ‪ ،‬ایک ہی لب و لہجہ بلکہ ایک ہی طرح کی آوازوں اور بولیوں میں ہمیشہ ہوتا رہا۔(تذکرہ‪،‬‬
‫صفحہ ‪۲۵‬۔‪ )۲۲۴‬۔‬

‫‪:‬خالف عقل یا ماورائے عقل‬


‫وہ ساری باتیں جن کا امکان انسانی دماغ میں آسکتا ہے‪،‬عقل کے مطابق ہیں۔اس میں سے کوئی بات بھی عقل کے خالف نہیں‪،‬البتہ‬
‫اس کا عالج ہے کہ خود تمہاری ہی عقل راِہ خالف میں گم ہے۔تم نے آج تک یہ موٹی سی بات بھی نہ سمجھی کہ کسی بات‬
‫کے ماور ائے عقل ہونے س ے یہ الز م نہ یں آتا کہ خالف عقل بھی ہو۔(افک ار آز اد‪،‬ص ‪)۱۲۶‬۔‬
‫اگر تم غور کرو گے تو معلوم ہوجائے گا کہ انسان کی ساری فکری گمراہیوں کا اصلی سرچشمہ یہی بات ہے یا تو وہ عقل و‬
‫بینش سے اس قدر کورا ہو جاتا ہے کہ ہر بات بے سمجھے بوجھے مان لیتاہے اور ہرراہ میں آنکھیں بند کیے چلتا رہتا ہے یا‬
‫سمجھ بوجھ کا اس طرح غلط استعمال کرتا ہے کہ جہاں کوئی حقیقت اس کی شخصی سمجھ سے باالترہوئی۔ُاسنے فوٌر ا جھٹال دی۔‬
‫گویا حقیقت کے اثبات و وجود کا سارا دارومدار صرف اسی بات پر ہے کہ ایک خاص شخص کی سمجھ ادراک کرسکتی ہے یا‬
‫نہیں۔‬
‫دونوں حالتیں علم و بصیرت کے خالف ہیں اور دونوں کا نتیجہ عقل و بینش سے محرومی اور عقلی ترقی کا فقدان ہے۔جس عقل‬
‫و بصیرت کا تقاضہ یہ ہوا ہو کہ حقیقت و وہم میں امتیاز کریں۔وہی متقاضی ہوں کہ کوئی بات محض اس لیئے نہ جھٹالدیں کہ‬
‫ہماری سمجھ سے باالتر ہے۔ عقل کا پہال تقاضہ ہمیں وہم پرستی و جہل سے روکتا ہےدوسرا شک و الحاد سے۔‬
‫قرآن کہتا ہے دونوں حالتیں یکساں طور پر َج ہل و َکوری کی حالتیں ہیں اور اہل علم و عرفان دونوں راہوں سے دور ہیں۔ جو نہ‬
‫تو جہل و وہم کی راہ چلتے ہیں نہ شک و الحاد کی۔‬
‫۔)افکارآزاد۔ص ‪۷۵‬۔‪(۱۴۷‬‬
‫قرآن نے بیک وقت دونوں باتوں کی مذمت کی ہے‪:‬اس کی بھی کہ بغیر علم و بصیرت کے کوئی بات مان لی جائے اور…اس‬
‫کی بھی کہ محض عدم ادراک(کسی بات کے دائرہ عقل میں ناسمانے) کی بناپر کوئی بات جھٹالدی جائے۔بل کذبوابمالم‬
‫یحیطوابعلمہ(ترجمان القرآن‪ ،‬جلد سوم‪ ،‬صفحہ ‪)۵۸۹‬۔‬

‫‪:‬امراض قلب و روح اور دارالشفائے وحی‬


‫قلب و روح کی جتنی بیماریاں ہیں اصل مبدء ان کا دو قسموں سے باہر نہیں۔ایک مرض کا نام الحاد و انکار ہے۔دوسری کا توہم‬
‫و سو فسطائیت۔ باقی تمام بیماریاں اسی کی اتباع و عوارض و فروع ہیں۔ اور دونوں قسموں میں ظہور مرض کے عالئم و آثار و‬
‫عواقب مشترک ہیں۔یعنی دونوں کا نتیجہ شک و جہل و اضطراب اور فطرت کی طمانیت اور سرور و راحت قلبی کا ازالہ یعنی‬
‫باصطالح قرآن حکیم نفس مطمئنہ کا فقدان۔‬
‫پس مرض بلحاظ علت و ظہور ہر حال میں صرف یہی ہوا کہ شک و ظلمت‪،‬اور اس عالم میں وحی الہی اور حکمت نبوت اور‬
‫ان سے ماخوذ و مکتب کے عالوہ جو کچھ ہے ’’یقین’’ ’’برھان’’ ’’بصیرت‘‘ اور ’’فرقان‘‘ نہیں ہے‪ ،‬اور اسی لیئے‬
‫دعوت خاتم االدیان و مکمل الشرائع کی نسبت اکثر خطبات نبویہ میں یہ اعالن پاتے ہوکہ اس کا ظہور کرہ ارض کے کمال جہل‬
‫و فقدان علم کے وقتوں میں ہوا۔ یعنی اس لیئے ہوا تاکہ علم و نور سے دنیا کو بھر پور کردے‪،‬اور علم و نور نہیں ہے مگر‬
‫‪:‬یقین زوال شک و ریب۔ علی الخصوص اولین خطبہ جمعہ بالمدینہ میں فرمایا‬
‫پس ظاہر ہے کہ جن نام نہاد علوم کا ماحاصل خود ظلمت ظن و شک اور کوری وہم و رائے سے زیادہ نہیں‪،‬وہ مریضان یقین و‬
‫اعتقاد کےلئے کیونکر نقطہ شفاء ہوسکتے ہیں اور جو خود سر گشتہ راہ اور داماندہ ہے وہ دوسرے گم کردہ راہوں کی کیا‬
‫رہنمائی کرسکتاہے‬

‫مرض کا ازالہ دوا سے ہوسکتا ہے‪ ،‬نہ کہ خود تولید مرض سے۔‬
‫اگر دنیا کا اصلی مرض ’’یقین‘‘ اور ’’بصیرت‘‘ سے محرومی ہے‪ ،‬اور شک و گمان کی ہالکت تو اس کا عالج وہ کیوں‬
‫کرسکتے ہیں جن کا خود اعالن یہ ہے کہ ہمارا انتہائے فکر و ادراک اس سے زیادہ نہیں کہ ہم نہیں جانتے اور نہیں کہ سکتے‬
‫!کہ کیا ہے اور کس کے لیئے ہے۔‬
‫اس کا عالج اور نسخہ” شفاء لمافی الصدور۔ ”تو صرف اسی” اعلم الخالئق و اعرف العباد ”کے دار الشفائے وحی میں مل سکتا‬
‫ہے جو شک کی جگہ یقین کا‪ ،‬ظلمت کی جگہ نور کا‪،‬عدم علم کی جگہ علم و بصیرت کا ظن و قیاس و گمان کی جگہ بینۃ و‬
‫حجت کا‪ ،‬برہان و فرقان کا دعوی اور اعالن کررہا ہو۔ پھر تمہارے پاس بھی کوئی ’’یقین‘‘ اور ’’علم و بصیرت‘‘ ہے جس‬
‫کو دنیا کے آگے پیش کرسکتے ہو۔(تذکرہ‪ ،‬صفحہ‪۹۲‬۔‪)۱۸۵۵‬۔‬
‫ملحدین کے ذات باری تعاٰل ی اور قبر و حشر کے متعلق سخت سوالوں کے منطقی و فلسفی جوبات اثبات باری تعالٰی ‪ ،‬توحید‪ ،‬تنزیہ*‬
‫و تقدیس‪ ،‬مسئلہ خیر و شر‪ ،‬مسئلہ رؤیت باری تعالٰی ‪ ،‬جبر و قدر(تقدیر)‪ ،‬نبوت‪ ،‬عام اعترضات‪ ،‬محمد رسول اللہ کی نبوت‪ ،‬خاتم‬
‫النبیین کی تفسیر‪ ،‬وجود باری تعالٰی ‪ ،‬جنت و جہنم کا وجود‪ ،‬قبر و برزخ کی زندگی‪ ،‬موت کے بعد زندہ ہونا اور قیامت کا وجود‪،‬‬
‫خدا کا وجود یہ اور ان جیسے سیکنڑوں ملحدین کے مشرکانہ سوالوں کے جامع و عقلی جوابات پر مشتمل بہترین وٹس ائپ‬
‫*گروپ‬
‫*گروپ نمبر‪ 1️⃣:‬لنک*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/Ke2feylEHdG6lVzArFtVoG‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 2️⃣:‬لنک*‬


‫‪https://chat.whatsapp.com/Fe4WnvQclaN91i5oql58EX‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 3️⃣:‬لنک‪/‬نوٹ‪ :‬تیسرا گروپ پشتو زبان والوں کیلئے ہے پوسٹنگ پشتو میں ہوتی ہے*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/EZxJ6qmgGpQ2zFxqAeV5uH‬‬
‫‪♡ ㅤ‬‬ ‫‪❍ㅤ‬‬ ‫⎙‬ ‫⌲‬
‫‪ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ‬‬ ‫‪ˢᵃᵛᵉ‬‬ ‫‪ˢʰᵃʳᵉ‬‬
‫*🛑رد الحاد کورس🛑* ‪[12/2, 9:29 AM] +92 332 9407835:‬‬
‫*الحاد_اسباب وحل‪*📌 12:‬‬
‫ِبْس ِم الّٰل ِِه الَّرْح َمِن الَّر ِح ْيم‬
‫*باب نمبر‪*🛑12:‬‬
‫*سبق نمبر‪:11‬ملحدین اور عقل کا غلط استعمال*‬

‫جب سے انسان پیدا ہوا ہے تب سے اس میں ایک صالحیت پائی جاتی ہے جس کو ہم شک و شبہ‪ ،‬حیرت یا سوال کرنے کی‬
‫صالحیت کہتے ہیں۔ لیکن انسانوں کے ایک بڑے ہجوم میں جس کی تعداد کم و بیش ‪ 7‬ارب سے بھی زیادہ ہے اور ہر انسان‬
‫کے پاس اپنا دماغ‪ ،‬اپنی سوچنے کی صالحیت موجود ہے‪ ،‬یہ کیسے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ کون سا انسان عقل و فہم میں بہتر‬
‫اور خیر واال ہے‪ ،‬اور کون سا انسان عقل و فہم میں برائی واال یا شر واال ہے؟ یہاں پر الزم آئے گا کہ اختالف جنم لے۔ لیکن‬
‫یہ اختالف ایک ایسے شخص کے سامنے پیش کر دیا جائے۔ جو عقل و فہم کا بے دریغ استعمال کرتا ہے‪ ،‬اور خود کو نمایاں‬
‫رکھنے کی کوشش میں لوگوں کے سامنے ایسے سواالت رکھتا ہے جس کا کوئی سر ہو نہ پاؤں تو آپ کبھی بھی اس شخص کو‬
‫کسی نتیجہ پر نہیں پائیں گے۔ اس کی چند مثالیں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔‬
‫ملحد آپ سے سوال کر سکتا ہے کہ اگر ’’اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے‘‘؟ تو انسان کو ’’ آنکھیں‘‘ سامنے کی جانب کیوں‬
‫عطا کیں؟ ایک آنکھ آگے اور ایک پیچھے کیوں نہ عطا کیں؟ تاکہ وہ آ گے اور پیچھے دونوں جانب دیکھ سکتا؟ اب اہل منطق‬
‫یہ سوال اٹھائیں گے کہ یہ فیصلہ کون کرے گا کہ انسان کا آگے واال حصہ کون سا ہے اور پیچھے واال حصہ کون سا؟ پھر یہ‬
‫سوال بھی کیا جائے گا کہ اگر انسان کی ایک آنکھ آگے اور ایک پیچھے ہوگی تو الزم بات ہے کہ انسان کے ناک کا ایک‬
‫سوراخ بھی پیچھے ہونا چاہیے تھا؟ تا کہ وہ جس طرف سے بھی کسی بدبو دار چیز کو دیکھتا تو اس کی طرف اسی سمت میں‬
‫متوجہ ہوتَا؟ پھر یہ سوال کیا جائے گا کہ الزم آتا ہے کہ ’’انسان کے آگے اور پیچھے ‪ 2‬منہ بھی ہونے چاہیے تھے؟‘‘ تاکہ‬
‫وہ اپنی خوراک کو جس طرف کی آنکھ سے بھی دیکھتا اسی طرف سے اس کے خیر و شر یعنی وہ خوراک اس کے کھانے‬
‫کے لیے درست ہے یا نہیں سمجھ کر کھانا دونوں جانب سے کھا سکتا؟ پھر یہ سوال بھی تو کیا جا سکتا ہے؟ گردن کیوں دی‬
‫گئی؟ کیا صرف کھانا نگل لینے کے لیے دی گئی؟ نہیں بلکہ اس کو اردگرد کے ماحول کو دیکھنے کے لیے حرکت کی طاقت‬
‫عطا کی گئی؟ کیا وجہ ہے کہ انسان کو ایک کان کے ساتھ ساتھ دائیں اور بائیں بھی دو آنکھیں دی جاتیں تا کہ گردن کی حرکت‬
‫کی حجت و علت ختم ہو جاتی۔ اور انسان کی یہ محتاجی ختم ہو جاتی؟‬
‫نوٹ‪ :‬آپ اندازہ کریں کہ ملحد کے ایک سوال نے کیسے کیسے سواالت کو جنم دیا۔ اور پھر تصوراتی طور پر اگر ان سواالت‬
‫کو حقیقی تجزیہ سے عمل میں الیا جائے تو سوچیں کہ انسان اگر مندرجہ باال خصوصیات کا مالک ہوتا تو کتنا بےڈھنگا اور بد‬
‫ص ور ت تص ور ہوتا۔ ملح د اس بات کے قطع نظر کہ انسانی آنک ھیں ‪ 180‬ڈگری میں اپنے سامنے کی طرف سے دیکھ سکتی ہیں‬
‫اور گردن کے مڑنے سے انسان اپنے اردگرد ‪ 180‬ڈگری اینگل کے وژن سے دیکھ سکتا ہے۔ انسان کا ’’نظام انہضام‪ ،‬نظام‬
‫دماغ‪ ،‬نظام پیشاب‘‘ فطری طور پر آنکھوں والی جانب اس لیے رکھا گیا ہے کہ وہ اپنے اندر پائی جانے والی تبدیلیوں کو‬
‫محسوس کر سکے۔ پیٹ کا درد‪ ،‬گردوں کا درد‪ ،‬دل کا درد سب کچھ سامنے کی طرف ہی انسان کو محسوس ہوتا ہے۔ ہندؤں کے‬
‫بگھوان کی مورتی کو دیکھیں جس کے ‪ 6‬منہ یا ‪ 4‬ہاتھ ہیں؟ کیا وہ ایک کامل تخلیق ہے؟ یا ہم یہ کیسے مان لیں کہ جو‬
‫مورتی خدا ہونے کا دعوٰی کرتی ہو وہ اتنی بد صورت ہواور اس میں اتنی قدرت موجود نہ ہو کہ وہ دو ہاتھوں‪ ،‬ایک منہ‪ ،‬اور‬
‫دو ٹانگوں کے ساتھ ہوتے ہوئے ہر کام کو بجا الئے؟ کیا خدا بدصورت بھی ہوتا ہے؟ معاذ اللہ‪ ،‬کیا دنیا میں ایسے انسان نہیں‬
‫پائے جاتے جن کو ایک دکھائی دینے والی چیز اچھی اور دوسروں کو بری لگتی ہے؟ اس بات سے قطع نظر کہ وہ یہ بات مانتا‬
‫ہے کہ انسان ایک حادثاتی کرشمہ ہے۔ لیکن یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اس قدر پیچیدہ انتظام کسی خالق کے بنائے بغیر تخلیق پا‬
‫ہی نہیں سکتا۔‬
‫اہل مذہب یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ جو اعتر اض آپ نے اہل مذہب اور خدا کے ماننے والوں پر کیا اسی کا اطالق ہم آپ‬
‫پر کرتے ہیں کہ انسان نے ارتقائی مراحل طے کرتے کرتے بے شمار تبدیلیاں اپنے اندر دیکھیں‪ .‬آخر کیا وجہ ہے کہ انسانی‬
‫شعور ان تبدیلیوں پر قابو نہ پا سکا؟ یعنی ماحول سے اخذ شدہ تبدیلیوں کا محتاج نہ رہتا؟ اور اپنی مرضی سے اپنے جسم کو‬
‫ڈھال لیتا؟ اور جو سوال آج کے جدت پسند انسان کے ذہن میں پائے جا رہے ہیں وہی سوالوں کا حل انسانیت کے لیے خود پیش‬
‫کرتا؟ ملحدین اس کا جواب کبھی بھی نہیں دے سکتے۔ حتٰی کے قیامت آ جائے گی لیکن یہ لوگ شکوک و شبہات کی ایسی دلدل‬
‫میں پھنسے رہیں گے اور موت کا سامنا کرنا پڑ جائے گا۔‬
‫یعنی سواالت کا ایسا سلسلہ شروع کر دیا جائے جس سے نفس مسئلہ کی خوب اکھاڑ بچھاڑ ہو‪ ،‬اور ہر سوال سے کئی نقطے اور‬
‫پہلو کھلتے چلے جائیں۔ پیچیدہ در پیچیدہ علم اس شخص کے حصے میں آئے جو دوسری جانب فریق مخالف کے پاس موجود نہ‬
‫ہو۔ یہ وہ طریق کار ہے جو صدیوں سے چال آ رہا ہے‪ ،‬اور اس نے دہریت کے پھیالؤ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ قارئین کرام!‬
‫اگر انسان واقعی میں ماحول سے اخذ شدہ تبدیلیوں کا حامل ہے تو آگ اس ماحول کا حصہ ہے‪ ،‬کیا وجہ ہے کہ ہندو ہزاروں‬
‫سالوں سے انسان کو جال رہے ہیں اور انسان جلتا جا رہا ہے؟ اگر واقعی جینیاتی تبدیلیاں انسان کی جسمانی تبدیلیوں کا باعث بنتی‬
‫ہیں‪ ،‬اور ابتدائی طور پر مادہ نے انسان کی پہلی حالت ہونے کا شرف حاصل کیا ہے اور ماحول سے چھپکلی‪ ،‬پھر ڈائینو‬
‫سارس ‪ ،‬پھر بڑے دیوقامت بن مانس اور پھر بندروں کی شکل اختیار کر کے موجودہ انسانی شکل تک پہنچا ہے؟ تو الزم طور‬
‫پر ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وقت کی رفتار انسان کو ایسا کرنے سے روک رہی ہے ورنہ ان تبدیلیوں پر اربوں سال نہ‬
‫لگتے۔ ہم ان سے سوال کر سکتے ہیں کہ انسان کو دوڑنے سے سانس کیوں چڑھ جاتا ہے کیا یہ خامی نہیں؟ یا پھر یہ پوچھ‬
‫سکتے ہیں کہ انسانی آنکھ بھی تو اسی ماحول کی عطا کردہ ہے‪ ،‬پھر کیا وجہ ہے کہ انسانی آنکھ سورج کے نیچے یا سامنے‬
‫کھڑے ہو کر اسے دیکھنے سے قاصر ہے؟ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ سوال کر دیا جائے کہ انسان یا مادہ کی میل اور فی میل‬
‫سیکس کیوں تشکیل پائے؟ کیا وجہ ہے کہ جو ملحدین انسانیت کا نام لے لے کر عورت کو مرد کے برابر حقوق دینے کی بات‬
‫کرتے ہیں‪ ،‬یہ ماحول انسان کو صرف مرد رہنے دیتا یا پھر صرف عورت یعنی فی میل‪ ،‬آج کی یہ ہل چل جس میں عورت کے‬
‫حقوق کے نام پر عورت کو جگہ جگہ ذلیل کیا جاتا ہے وہ نہ ہوتی؟ کیا آپ یہ بات سمجھنے کو تیار ہیں کہ اگر دنیا میں‬
‫صرف مرد ہی مرد پیدا ہوتے اور مرد ہی میں بچہ جننے کی طاقت ہوتی تو جنگوں میں لڑنے والے حاملہ مردوں کو تلواروں‪،‬‬
‫گولیوں اور دوسرے ہتھیاروں سے جب قتل کیا جاتا تو کتنے مرد اوالد سے محروم ہو جاتے؟ کیا ملحد بتا سکتے ہیں کہ مردوں‬
‫کو کیا کہا جاتا؟ ماں یا باپ؟ ملحدین اگر بیس سوال کر سکتے ہیں تو یقین مانیں کہ ان کے خالف بیس ہزار سوال کیے جا‬
‫سکتے ہیں۔ یہ صرف اس لیے ہے کہ ان کے دماغ کو منتشر کر دیا جاتا ہے۔‬
‫ملحد کا کوئی سوال آپ کو کسی نتیجہ پر نہیں پہنچا سکتا جبکہ مذہب آپ کو کسی نہ کسی نتیجہ پر پہنچا دیتا ہے۔ مثًال‪ :‬ملحدین‬
‫آپ سے سوال کرتے ہیں کہ ’’ہم آپ کے نبی محمد ﷺ کو نہیں مانتے کیونکہ یہ سب قصے کہانیاں ہیں (معاذاللہ )‪ ،‬تاریخ میں‬
‫کسی محمد ﷺ کا یا عیسی علیہ السالم کا کوئی وجود نہ تھا۔ تو اہل مذہب جواب دیں گے کہ اللہ کے انبیاء کو دیکھنے والی ایک‬
‫بہت بڑی جماعت موجود تھی۔ محمد ﷺ کو دیکھنے والے ایک الکھ سے زائد مسلمان صحابہ رضی اللہ عنھم موجود تھے‪ ،‬جن‬
‫سے ان کے الکھوں تابعین اور تبع تابعین نے نقل کیا کہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ نے نبی بنایا۔ ان کے خاندانوں اور ان کا سلسلہ‬
‫نسب موجود ہے۔ آج بھی ان کی اوالدیں موجود ہیں۔ جن سے تاریخ کی ضمانت لی جاتی ہے‪.‬جبکہ ملحدین کے پاس اپنی تاریخ کا‬
‫کوئی بھی پہلو محفوظ نہیں۔ وہ نہیں بتا سکتے کہ انسان نے سب سے پہلے کیا الفاظ بولے ؟ وہ نہیں بتا سکتے کہ ان الفاظ کو‬
‫سننے والے کتنے تھے؟ یا تھے بھی یا نہیں؟ ان کے پاس اس سوال کا جواب نہیں کہ ان میں کتنے میل اور کتنے فی میل تھے؟‬
‫انہوں نے علم کی ترسیل کس طرح کی‪ ،‬کوئی حتمی جواب موجود نہیں؟ سب سے پہلے جس انسان نے لباس پہنا اس کا کیا نام‬
‫تھا؟ سب سے پہلے جس انسان نے آگ جالئی وہ کون تھا؟ یا کس انسان نے کس انسان کا نام رکھا؟‬
‫نوٹ ‪ :‬یہ موازنہ نہیں ہے بلکہ تاریخ کے خیر و شر کو سمجھنے کی ایک مثال ہے۔ یعنی کوئی بھی ملحد جو دین کو نہیں‬
‫مانتا وہ آپ کو کسی نتیجہ تک نہیں پہنچا سکتا۔ لیکن مذاہب نتیجہ خیز ہوتے ہیں اور دین اسالم نے مسلمانوں کو جن نتائج سے‬
‫آگاہ کر دیا ہے اس کی مثال کسی مذہب میں موجود نہیں۔ مسلمان جانتے ہیں کہ اللہ نے کائنات کی تخلیق سے ‪ 50‬ہزار سال‬
‫پہلے تقدیر یعنی پالن مرتب کیا۔ پھر کائنات اور اس میں موجود اشیاء کی تخلیق کی۔ پہال انسان آدم تھا‪ ،‬وہ ایک مرد تھا‪ ،‬اس کی‬
‫پسلی سے حوا کو پیدا کیا گیا۔ آدم علیہ السالم کے ذریعے شیطان اور شیطان کے ذریعے آدم علیہ السالم کو آزمایا گیا۔ پھر ان کو‬
‫جنت میں رکھا گیا۔ جنت میں اللہ نے ان کو ایک ابتالء یا آزمائش میں مبتال کیا۔ آدم سب سے پہلے بولے۔ آدم علیہ السالم کو علم‬
‫دیا گیا۔ آدم علیہ السالم کو کثیر اوالد حوا علیھا السالم کے ذر یعے عطا کی گئی ۔ آدم علیہ السالم کو مٹی س ے پیدا کیا گیا۔ آدم‬
‫علیہ السالم کو زمین میں موجود تین رنگوں کی مٹی سے پیدا کیا گیا۔ یعنی سرخ‪ ،‬سیاہ اور سفید ۔ آدم علیہ السالم سے اب تک‬
‫کے لوگ سب اسی ابتالء میں مبتال ہیں۔ موت اس لیے دی جاتی ہے کہ انسان کے اعمال کا محاسبہ آخرت میں دیا جا سکے۔‬
‫قیامت قائم ہو۔ سب سے پہلی موت آدم کی اوالد کو ہی آئی۔ سب سے پہلے آدم کی اوالد ہی کو دفنایا گیا۔ انسان کو اس امتحان‬
‫کا نصاب دیا گیا۔ وہ دین اسالم ہے۔ انسان کو اسی پر عمل پیرا ہو کر اللہ سے اپنے گناہوں سے نجات حاصل کرنی ہے۔ یہ ہے‬
‫وہ نتیجہ جس تک دین رہنمائی کرتا ہے۔‬
‫ملح د یہ سوال بھی کرتا ےہ کہ انسان کو آگ میں کیوں ڈاال جائے گا‪ ،‬اگر آگ ہی میں ڈالنا تھا تو پیدا کیوں کیا۔ جبکہ اگر آپ‬
‫بغور جائزہ لیں تو وہ یہ سوال تب کرتے ہیں جب انہوں نے دین کی طرف سے پیش کردہ فلسفہ آزمائش کو پس پشت ڈال دیا‬
‫ہوتا ہے اور اس کے بارے میں کوئی ملحد کچھ بھی علم نہیں رکھتا۔ ملحد آپ سے یہ سوال کر سکتا ہے کہ اللہ نے عورت کے‬
‫حیض کو پلید قرار دیا ہے‪ ،‬وہ عورت کو اس کے بغیر بھی تو پیدا کر سکتا تھا جبکہ یہی سوال ہم ماحول کو خدا ماننے والوں‬
‫سے کر سکتے ہیں کہ آپ کا نظریہ حقیقت پر مبنی ہے تو اس مسئلہ پر انسان نے اپنے ارتقاء میں جن بری تبدیلیوں سے اپنے‬
‫جسم میں اچھی تبدیلیاں پیدا کیں‪ ،‬اس میں عورت بھی حیض سے نجات حاصل کر لیتی۔ آج کا ملحد سائنس کا ڈنکا بجانے میں‬
‫مگن ہے‪ ،‬میڈیکل سائنس پر فخر کرتا ہے لیکن اربوں سالوں سے موت جیسی بیماری پر آج تک قابو نہ پا سکا؟ آپ جانتے ہیں‬
‫کہ اگر انسان واقعی ماحول کا بیٹا ہوتا اور اپنے اندر کی تبدیلیوں کا مالک خود ہوتا تو آج یہ دنیا جس کے ‪ 7‬براعظم ہیں‪،‬‬
‫انسانوں کے جم غ فیر کے لیے تھوڑ ی پڑ جاتی ۔ جو انسان آج ‪5‬یا ‪10‬مرلہ کی زمین کے لیے ایک دوسرے کو قتل کر دیتا ہے‪،‬‬
‫وہ کتنا جھگڑالو ہوتا۔ افزائش نسل کے لیے جانوروں کی حد تک اپنی طاقت کا استعمال کرتا۔ ممکن ہے ماں ‪ ،‬باپ ‪ ،‬بیٹی اور‬
‫بہن بھائی جیسے مقدس رشتے وجود میں نہ ہوتے۔ جو توازن موت نے انسان اور اس کی زندگی اور اس کے معاشرے میں پائی‬
‫جانے والی بے شمار تبدیلیوں کی وجہ سے قائم رکھا ہے‪ ،‬وہ زندہ انسانوں کا وہ ہجوم جو شاید ایک کے اوپر ایک رہتا۔ اور‬
‫کائنات کتنی غیر متوازی ہوتی۔‬
‫ملحدین کا طریقہ واردات علوم فالسفہ کی بنیاد پر ہے۔ ’’فلسفہ‘‘ کا معنی ’’عقل و دانش‘‘ سے محبت ہے‪ ،‬لیکن فلسفہ کی‬
‫کوئی جامع تعریف موجود نہیں ۔مسائل کی تحقیق کے نام پر دوسرے علوم کے ’’قوانین‘‘ اور ’’اصول و ضوابط‘‘ کا ناقدانہ‬
‫انداز میں جائزہ لے کر اپنی مرضی کی تردید کر دینے کا نام ’’فلسفہ‘‘ ہے۔ فلسفہ کا مسئلہ یہ ہے کہ ’’دلیل‘‘ کسی چیز‬
‫کو نہیں مانتے۔ اگر آپ کسی فلسفی کو دلیل کے طور پر قرآن کی آیت یا رسول اللہ ﷺ کے فرمان کو پیش کریں گے تو فوری‬
‫طور پر دلیل کو ایک مغالطہ کہے گا۔ لیکن جب آپ سائنسی حوالے سے کسی بھی اصول پر دلیل مانگیں گے‪ ،‬وہ تجربہ کو مثال‬
‫بنا کر دلیل مانے گا۔ فلسفیوں کا یہ انداز فکر ان پر کڑی تنقید کرتا ہے جیسے ’’تجزیاتی فلسفہ‘‘ جس میں اشیاء کے اجزاء کو‬
‫سمجھ کر کل کی تعریف کی جاتی ہے۔ اس میں بے شمار خامیاں ہیں‪ ،‬اور اس کو مندرجہ ذیل مثال سے بیان کیا جا سکتا ہے۔‬
‫آپ کے سامنے قرآن کا ایک جز لکھ دیا جائے گا۔ ومکرو مکر اللہ واللہ خیر الماکرین ملحداس آیت پر اعتراض کرے گا کہ اللہ‬
‫قرآن میں خود کہہ رہا ہے کہ ’’ اور جو مکر کرے گا اللہ اس کے ساتھ مکر کرے گا اور اللہ بہتر مکر کرنے واال ہے‪‘‘.‬‬
‫اس سے تو ثابت ہوا کہ اللہ مکر کر سکتا ہے بلکہ کرتا ہے‪ ،‬اس لیے اس قرآن میں جو بھی ہوگا اس کو ہم مکر بھی تسلیم‬
‫کریں گے۔ اب ایک اہل دین’’اصول ترجمہ اور تفسیر‘‘ کو مدنظر رکھ کر سورۃ آل عمرآن کی اس آیت کا ’’سیاق و سباق‘‘‬
‫دیکھے گا۔ اس کے بعد لغوی اعتبار پر ’’مدعی معترض‘‘ کے پیش کردہ لفظ کا اصطالحی معنی پیش کرے گا کہ عربی زبان‬
‫میں ’’مکر‘‘ سے مراد تدبیر کرنا بھی ہے۔ پھر وہ اس آیت کے شان نزول کو بیان کرے گا۔ اس کے بعد سمجھائے گا کہ بنی‬
‫اسرائیل کے مکر کو واضح کرنے کے لیے اللہ نے قرآن میں اس آیت کو نازل کیا۔ اس کے بعد وہ اس آیت سے قبل اور بعد‬
‫والی آیات پیش کر کے معاملہ ص اف کر دے گا کہ بھائی یہ آیت تو سیدنا عیسٰی علیہ السالم کے ر فع آسمانی پر داللت والی آیت‬
‫سے قبل اللہ نے نازل فرمائی‪ ،‬اور معاملہ صاف ہو جائے گا۔ اب یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے۔ آپ ملحدین سے ایسا سوال کر‬
‫سکتے ہیں کہ ’’تجزیاتی فلسفی‘‘ کے پاس ’’دین‘‘ کے علم میں ’’دین کی تاریخ‘‘ کا علم بھی موجود ہے؟ کیا اس کے‬
‫پاس ’’اصول حدیث اور اصول تفسیر‘‘ کا علم بھی موجود ہے؟ اور کیا اس کے پاس ’’عربی ادب اور گرامر‘‘ کا علم بھی‬
‫موجود ہے؟ جس سے یہ بات ثابت کی جا سکے کہ ’’تجزیاتی فلسفی‘‘ کسی بھی مذہب یا دین جس کو ’’فلسفی‘‘ ایک کل‬
‫کے طور پر مانتے ہیں اور اجزائے دین سے اپنی عقل کے تحت ’’کل‘‘ پر جو تجزیہ کرے گا وہ بالکل درست کرے گا؟ یہ‬
‫ایک نہایت احمقانہ اور جاہالنہ بات ہے۔ فلسفی یا ملحدین دین کے ماننے والوں کے بد اعمال کو بنیاد بنا کر بطور حجت پیش‬
‫کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر بد قسمتی سے ایک عالم دین شراب پیتا ہے تو وہ کسی بھی دیندار کے‬
‫سامنے یہ اعتراض رکھ سکتے ہیں کہ شراب کے حالل و حرام کا تصور بالکل غلط ہے۔ (معاذ اللہ ) کیونکہ میں نے ایک عالم‬
‫کو شراب پیتے دیکھا ہے۔ لیکن جب اس سے سوال کیا جائے گا کہ بھائی یہ بتاؤ؟ کیا اللہ نے دین اسالم میں شراب کو کسی‬
‫جگہ بھی حالل کہا ہے تو وہ اس کا جواب دینے سے قاصر ہوگا۔ اسی طرح اگر کوئی زنا کرتا ہے‪ ،‬ڈاکہ ڈالتا ہے‪ ،‬اور وہ‬
‫نمازی بھی ہے تو شریعت نے کبھی اس کو نہ زنا کرنے کا حکم دیا ہے نہ ہی ڈاکہ ڈالنے کا۔ وہ اس کے اپنے نفس کی بد‬
‫اعمالی ہے۔ اس کا تعلق کسی صورت دین سے نہیں ہے۔‬
‫آج کے دور میں’’ملحدین‘‘ کے کام میں جتنی جدت موجود ہے‪ ،‬پہلے موجود نہ تھی۔ ملحدین عیسائیوں‪ ،‬قادیانیوں‪ ،‬منکرین حدیث‪،‬‬
‫ہندوؤں‪ ،‬بدھ مت‪ ،‬یہودیوں اور دیگر مذاہب کے کیے گئے اعتراضات کو جمع کرتے ہیں اور اس کو انٹرنیٹ‪ ،‬سوشل میڈیا کے‬
‫ذریعے عوام زد عام کرتے ہیں۔ ان نظریات کو پھیالنے سے ملحدین کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ کالج‪ ،‬یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات‬
‫جو دین سے کوسوں دور ہوتے ہیں‪ ،‬وہ ان کے ورغالوے میں آ جاتے ہیں‪ ،‬اور آہستہ آہستہ دین سے مکمل دور ہو کر دہریے ہو‬
‫جاتے ہیں۔‬
‫آج کی دہریت کو کیمونزم‪ ،‬سوشلزم‪ ،‬مارکس ازم‪ ،‬بدھ ازم‪ ،‬ہندو ازم جیسے نظریات کی بہت سپورٹ حاصل ہے۔ ایسے دہریوں کو‬
‫’’سیاسی فلسفی‘‘ کہتے ہیں۔ ان کا کام صرف اور صرف اسالم کو نشانہ بنانا ہے۔ دینی ریاستوں میں رائج نظام کو بنیاد بنا کر‬
‫اس کو بےجا ’’اسالم‘‘ پر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں مثًال ’’ کرنل قذافی‘‘ نے اپنے ساتھ ’’خواتین گارڈ ز‘‘ رکھی‬
‫تھیں۔ اب اس کو بنیاد بنا کر اسالم کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ ’’داعش‘‘ جیسی تنظیموں کو خود پروان‬
‫چڑھاتے ہیں‪ ،‬اور ان سے مسلمانوں کا ہی قتل عام کروا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اسالم ایک عدم برداشت اور‬
‫دہشت گردی واال مذہب ہے۔ اسالم قتل و غارت کا درس دیتا ہے۔ میڈیا میں اربوں روپیہ انویسٹ کرتے ہیں‪ ،‬طالبان سے خود کش‬
‫حملہ کی قبولیت کا ڈھونگ رچاتے ہیں اور اسالم کو بدنام کرتے ہیں۔ اسالم نے کبھی کسی مسجد‪ ،‬کسی جلسہ یا جلوس یا کسی‬
‫دوسری عبادت گاہ کو تباہ کرنے سے گریز کا حکم دیا ہے۔ لیکن اگر آپ ان ملحدین سے پوچھیں تو وہ تاریخ کی من گھڑت‬
‫روایات بیان کرنے کے عالوہ کچھ جواب نہیں دے پاتے۔‬
‫آج کے الحاد کو ’’تعلیمی فلسفہ‘‘ کی بہت سپورٹ حاصل ہے۔ کچھ عرصہ قبل ہی یہ دیکھنے میں آیا کہ امریکہ اور کینیڈا کی‬
‫یونیورسٹیوں میں ’’الحاد کیا ہے یا دہریت کیا ہے‘‘ کے عنوان سے کتب شامل کی گئی ہیں۔ اور یہ نچلی سطح پر سکولوں میں‬
‫بھی رائج کی گئی ہیں۔ ایشیائی ممالک میں ان کتب کو صرف روس اور چائنہ کے چند اداروں میں ہی مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔‬
‫اس کا ایک انداز یہ دیکھنے کو مال کہ افغانستان‪ ،‬پاکستان اور ہندوستان کے تعلیمی بورڈ میں اسالم سے پھیلنے والی تعلیمات کو‬
‫متشدد ثابت کیا گیا ہے۔ اور ایسی شخصیات جن کا تعلق صرف دین سے ہو اور خاص دین کی تعلیم دینا ان سے منسوب ہو ان‬
‫شخصیات کے نام کتب نصاب سے نکال دیے گئے ہیں۔ جیسے پاکستان کی مثال لی جائے ’’خالدبن ولید‘‘ کا نام کتب نصاب‬
‫سے نکاال گیا ’’ماللہ یوسفزئی‘‘ کا نام ڈال کر‪ ،‬اور ’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا یا سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا‘‘ کا نام‬
‫نصاب سے نکاال گیا۔ ’’نیلسن منڈیال‘‘ کا نام نصاب میں ڈال دیا گیا۔ سورۃ االنفال‪ ،‬سورۃ االحزاب جیسی سورتیں نصاب سے‬
‫نکالی گئیں جس کا مقصد یہ بتایا گیا کہ اس سے بچوں میں انتہا پسندی اور دہشتگردی پھیلنے کا خطرہ ہے۔ لیکن اس طرف توجہ‬
‫نہیں دی گئی کہ اس نصاب کو پڑھانے والے کیا یہ قابلیت رکھتے ہیں کہ ساتھ ساتھ بچوں کی مثبت تربیت کو بھی مد نظر‬
‫رکھیں کہ کل کو ان کے دلوں میں اسالم کے متعلق کوئی منفی خیال نہ آئے۔ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے‬
‫لیکن یہ تمام چھوٹی چھوٹی چیزیں بہت بڑے بڑے مسائل پیدا کرتی ہیں۔ ایمانیات اور دینیات نفس میں نتیجہ اخذ کرنے کی‬
‫صالحیت پیدا کرتے ہیں۔ الحاد بندے میں تشکیک‪ ،‬شبہات اور غیرسنجیدگی‪ ،‬جلد بازی اور عدم ٹھہراؤ پیدا کرتا ہے۔ اس بات سے‬
‫قطع نظر کہ کوئی ملحد اللہ کو نہیں مانتا‪ ،‬یہ بات سمجھ لیں کہ آپ جب بھی کسی ملحد سے بات کریں گے تو آپ کو اس میں‬
‫خود پسندی سے زیادہ کچھ نظر نہیں آئے گا۔ اللہ مجھے اور آپ کو دین پر زندہ رکھے اور خاتمہ باالیمان فرمائے۔ آمین ۔‬
‫عبدالسالم فیصل‬
‫ملحدین کے ذات باری تعاٰل ی اور قبر و حشر کے متعلق سخت سوالوں کے منطقی و فلسفی جوبات اثبات باری تعالٰی ‪ ،‬توحید‪ ،‬تنزیہ*‬
‫و تقدیس‪ ،‬مسئلہ خیر و شر‪ ،‬مسئلہ رؤیت باری تعالٰی ‪ ،‬جبر و قدر(تقدیر)‪ ،‬نبوت‪ ،‬عام اعترضات‪ ،‬محمد رسول اللہ کی نبوت‪ ،‬خاتم‬
‫النبیین کی تفسیر‪ ،‬وجود باری تعالٰی ‪ ،‬جنت و جہنم کا وجود‪ ،‬قبر و برزخ کی زندگی‪ ،‬موت کے بعد زندہ ہونا اور قیامت کا وجود‪،‬‬
‫خدا کا وجود یہ اور ان جیسے سیکنڑوں ملحدین کے مشرکانہ سوالوں کے جامع و عقلی جوابات پر مشتمل بہترین وٹس ائپ‬
‫*گروپ‬
‫*گروپ نمبر‪ 1️⃣:‬لنک*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/Ke2feylEHdG6lVzArFtVoG‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 2️⃣:‬لنک*‬


‫‪https://chat.whatsapp.com/Fe4WnvQclaN91i5oql58EX‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 3️⃣:‬لنک‪/‬نوٹ‪ :‬تیسرا گروپ پشتو زبان والوں کیلئے ہے پوسٹنگ پشتو میں ہوتی ہے*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/EZxJ6qmgGpQ2zFxqAeV5uH‬‬
‫‪♡ ㅤ‬‬ ‫‪❍ㅤ‬‬ ‫⎙‬ ‫⌲‬
‫‪ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ‬‬ ‫‪ˢᵃᵛᵉ‬‬ ‫‪ˢʰᵃʳᵉ‬‬
‫*🛑رد الحاد کورس🛑* ‪[12/2, 9:29 AM] +92 332 9407835:‬‬
‫*الحاد_اسباب وحل‪*📌 12:‬‬
‫ِبْس ِم الّٰل ِِه الَّرْح َمِن الَّر ِح ْيم‬
‫*باب نمبر‪*🛑12:‬‬
‫*سبق نمبر‪:12‬کالجزز اور یونیوسٹیوں کے سٹوڈنٹس سے ایک درخواست*‬
‫‪.‬‬

‫آج سے دو سو برس پیشتر ایک آدمی اچھا مسلمان ہو سکتا تھا اور رہ سکتا تھا خواہ اس نے کبھی امام غزالی اور ابن عربی کا‬
‫نام بھی نہ سنا ہوتا۔ اس وقت نرا ایمان کافی تھا کیونکہ اس کی حفاظت ہوتی رہتی تھی۔ آج کا مسلمان اگر ان عقائد کے بارے‬
‫میں تفصیلی اور نظری علم نہیں رکھتا جن پر اس کا ایمان ہے تو اس کے ایمان کی سالمتی ہر دم خطرے میں ہے۔ ہاں کسی‬
‫شخص کو فطرتًا سادگی کا ایک ناقابِل تسخیر حصار میسر ہو تو اور بات ہے۔آج علم کا کوئی بھی شعبہ چاہے وہ سماجی ہو یا‬
‫سائنسی ‪ ،‬اسکی ہر قسم کو مغرب نے دین کے لیے اجنبی بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے‪ ،‬آج دنیا کو چالنے واال‪،‬‬
‫انسانی ذہن کی تربیت کرنے واال‪ ،‬انسان کے عملی مقاصد پورا کرنے واال کوئی بھی جدید علم یا ڈسپلن ایسا نہیں ہے جو‬
‫مذہبی ذہن و دینی شعور کو اپنے اندر داخل ہونے کا راستہ فراہم کرتا ہوں ‪ ،‬آج کا ہر علم بالاستثنا دینی شعور کے مسلمامات‬
‫و متعقدات سے یا تو براہ راست اپنی قوت انکار کے ساتھ متصادم ہے یا اس سے ایک تحقیر کے ساتھ التعلق ہے۔اس جدید‬
‫علمی ماحول نے اپنے سے تربیت پانے والے اذہان میں بھی یہ مذہب بیزار رویے اور مزاج پوری طرح انجیکٹ کردیے ہیں۔‬
‫یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کوئی بھی مغربی علم اس علم کے اوریجنل مقدمات و مقاصد کے ساتھ اس علم کی منطق کی‬
‫مطابقت کرتے ہوئے حاصل کیا جائے اور اس علم کے حصول کے نتیجے میں وہ آپ کو اپنے دینی شعور کے لیے معاون نظام‬
‫سب سے بڑی تبدیلی یونیورسٹی کالجوں میں رونما ہونی یقینی تھی ۔‬ ‫استددال ل فراہم کرسکتا ہو۔ تو ایسی صورتحال میں‬

‫وہ لوگ جن کوکسی متمدن شہر کی یونیورسٹی یا کالج کے شعبہ انگریزی‪ ،‬فلسفہ‪ ،‬نفسیات یا سماجیات کے آتش کدے سے گزرنے‬
‫کا اتفاق ہواہے وہ بخوبی جانتے ہیں کہ مغربی امداد اور مغربی ایجاد کے جلو میں نظریات کس طرح آئے ہیں اور ان کی چوٹ‬
‫کا‬ ‫جارحانہ اور سرگرم ملحدین نے علمی چیلنجز‬ ‫کہاں کہاں پڑتی ہے۔ الحاد ی لٹریچر کی تشہیر اور سوشل میڈیا پر‬
‫ماحول اور ذہنی تبدیلی کے لیے اثر انگیز حاالت پیدا کردیے ہیں ۔ایک مسلمان جس کا گزر ان ریگ زاروں سے ہے ‪،‬‬
‫لیکن ان چیلنجز سے نمٹنے کے لئے مناسب ذہنی ‪،‬روحانی اور مذہبی آگاہی نہیں‬ ‫ان اداروں میں یا اس مواد کو پڑھ رہا ہے‬
‫رکھتا ‘ اسکا پھسلنا بہت آسان ہے۔ اس ریگ زار سے گزرنے والےکی اسی دینی و علمی پیاس اور کرب کو دور کرنے کا‬
‫سامان کرنا اس دور کی سب سے بڑی دینی خدمت ہے۔‬

‫افسوس کہ آج کے دور میں علماء سے تعلق نا ہونے کے برابر ہے‪ ،‬پھر ایسے علماء جو جدید ذہن کے اشکاالت کو پوری‬
‫طرح سمجھ کے انکو دور کرنے کی صالحیت رکھتے ہوں’ کا ملنا بہت مشکل ہے۔ ایک بڑا مسئلہ ہمارے نوجوانوں کے لیے‬
‫ان اشکاالت کو کسی کے سامنے زبان پر النے کا بھی ہے۔ ان مسائل سے نبٹے اور اس علمی خال کو پر کرنے کے لیے‬
‫سب سے آسان اور موثر طریقہ یہ تھا کہ ایک آن الئن ریسورس تشکیل دیا جائے جس میں ہر جدید و قدیم اشکال کو بالکل‬
‫جدیدو علمی انداز میں ہر پہلو سے زیر بحث الیا جائے اور تشکیک کا شکار ہونے والے مسلم نوجوان بغیر کسی بڑی‬
‫اس سے استفادہ کرسکیں ۔ مذہب فلسفہ اور سائنس پیج اور الحاد ڈاٹ کام سائیٹ اسی سلسلے کی ایک کوشش‬ ‫جدوجہد کے‬
‫ہے جنکا قیام دو سال پہلے میں عمل میں الیا گیا ۔ اس پیج اور سائیٹ کے قیام کا سب سے بڑا مقصد اپنی عوام کو وہ‬
‫معلومات فراہم کرنا ہے جس سے یہ واضح ہو کہ اسالم پرستی مربوط اور حقیقی و ریشنل ہے اور الحاد پرستی محض ایک‬
‫ہماری سائیٹ پر تقریبا تمام اہم موضوعات زیربحث آچکے ہیں ‪ ،‬گزشتہ سال کے مڈ‬ ‫دو سالوں میں‬ ‫عقلی سراب ہے ۔ ان‬
‫مذہب متعلقہ اہم موضوعات کو گہرائی میں زیر بحث النے پر رہا‪ ،‬اس میں قرآن‪ ،‬حدیث‪ ،‬سیرت‪ ،‬تاریخ‪،‬‬ ‫سے ہمارا فوکس‬
‫مذہب ‪،‬‬ ‫زیر بحث آئے ‪ ،‬آجکل پیج پر‬ ‫ریاست‪ ،‬جہاد‪ ،‬اقلیتیں وغیرہ کے تعلق سے تقریبا تمام اہم اشکاالت موضوع وائز‬
‫فلسفہ اور سائنس کے تعلق سے اٹھائے گئے اشکاالت زیربحث ہیں۔‬

‫قارئین! الحاد ڈاٹ کام جس فکری محاذ پر یہاں پہرہ داری کا فریضہ انجام دینے کےلیے کوشاں ہے اس کا پایہ تکمیل کو پہنچنا‬
‫آپ کے تعاون بغیر ممکن نہیں۔ جو خصوصی تعاون اس سلسلہ میں آپ سے درکار ہے وہ یہ کہ الحاد ڈاٹ کام کی تحریرات کو‬
‫اس کے مخاطب طبقے تک زیادہ سے زیادہ پہنچانے میں آپ ہمارا ہاتھ بٹائیں۔ یہ سب تحریری محنت اگر اس کے ضروت مند‬
‫طبقے تک پہنچ ہی نہیں پاتی یا اپنے مخاَطب طبقے کی پوری توجہ ہی نہیں لے پاتی تو عمًال بےفائدہ رہتی ہے۔ ہمارے قارئین‬
‫جانتے ہیں کہ یہ سب تحریری محنت کسی گروہی یا فروعی چیز کو کھڑا کرنے کےلیے نہیں ہو رہی بلکہ امت کی کچھ محکم‬
‫بنیادوں کو اذہان میں پختہ کرنے کےلیے ہے۔ آپ پر یہ بھی مخفی نہ ہوگا‪ ،‬الحاد ڈاٹ کام کو لوگوں تک پہنچنے کےلیے‬
‫آپ‬ ‫کسی مسلک ی نفری یا تنظیمی نیٹ ور ک کی سہولت حاص ل نہ یں ےہ ۔ ہمار ے پاس اپنے مخاطب طبقے تک پہ نچنے کے لیے‬
‫قارئین کے سوا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ ہماری درخواست ہے کہ پیج اور سائیٹ کا حلقہ بڑھانے میں آپ ہماراساتھ دیں۔ اس کے‬
‫حلقے میں تحاریر کی شئیرنگ‪،‬‬ ‫اپنے سوشل میڈیا‬ ‫اختیار کی جاتی رہی ہیں مثال‬ ‫لیے ابھی تک کئی صورتیں‬
‫لیکن اب چونکہ چیلنج صرف سوشل میڈیا تک محدود‬ ‫گروپس و پیجز پر ہماری تحاریر کی تشہیر وغیرہ۔اسکا فائدہ بھی ہوا‬
‫نہیں رہا ہے اس لیے ضرورت اس بات کی ہے اس مصنوعی دنیا سے باہر بھی اس ریسورس کا تعارف کروایا جائے ۔ اپنی‬
‫نجی محفلوں میں اسکا تذکرہ کیا جائے ۔ جیسا کہ اوپر لکھا کہ اس فتنے سے سب سے ذیادہ کالج ‪ ،‬یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ‬
‫متاثر ہورہے ہیں اس لیے ان حلقوں میں آواز لگانے کی ضرورت ذیادہ ہے۔ ہمارے وہ قارئین جو خود یا انکے دوست احباب‬
‫کسی کالج ‪ ،‬یونیورسٹی سے منسلک ہیں‪ ،‬وہ خود یا انکے ذریعے ان کالجز یونیورسٹیز میں اسکی پروموشن کے لیے ایک‬
‫تحریکی انداز میں کوشش کرسکتے ہیں۔ایک آسان اور سمپل طریقہ یہ ہے کہ پیج اور سائیٹ کے تعارفی پوسٹرز جنکا لنک‬
‫پر یا دوسرے ایسے‬ ‫نیچے دیا جارہا ہے ‘ کا پرنٹ لے کے اپنے کالج ‪/‬یونیورسٹی کے مختلف ڈیپارٹمنٹس کے نوٹس بورڈ‬
‫ذیادہ نوٹس ہونے والے مقامات پر چسپاں کردیا جائے۔‬ ‫اہم یا‬

‫استفادہ مضمون ‪:‬حامد کمال الدین‬

‫ڈاؤنلوڈنگ لنک‬ ‫ان پوسٹر کی ہائی کوالٹی فائلز کا ڈائریکٹ‬

‫‪Total pages 7‬‬

‫‪File size 1.8MB‬‬


‫ملحدین کے ذات باری تعاٰل ی اور قبر و حشر کے متعلق سخت سوالوں کے منطقی و فلسفی جوبات اثبات باری تعالٰی ‪ ،‬توحید‪ ،‬تنزیہ*‬
‫و تقدیس‪ ،‬مسئلہ خیر و شر‪ ،‬مسئلہ رؤیت باری تعالٰی ‪ ،‬جبر و قدر(تقدیر)‪ ،‬نبوت‪ ،‬عام اعترضات‪ ،‬محمد رسول اللہ کی نبوت‪ ،‬خاتم‬
‫النبیین کی تفسیر‪ ،‬وجود باری تعالٰی ‪ ،‬جنت و جہنم کا وجود‪ ،‬قبر و برزخ کی زندگی‪ ،‬موت کے بعد زندہ ہونا اور قیامت کا وجود‪،‬‬
‫خدا کا وجود یہ اور ان جیسے سیکنڑوں ملحدین کے مشرکانہ سوالوں کے جامع و عقلی جوابات پر مشتمل بہترین وٹس ائپ‬
‫*گروپ‬
‫*گروپ نمبر‪ 1️⃣:‬لنک*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/Ke2feylEHdG6lVzArFtVoG‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 2️⃣:‬لنک*‬


‫‪https://chat.whatsapp.com/Fe4WnvQclaN91i5oql58EX‬‬
‫*گروپ نمبر‪ 3️⃣:‬لنک‪/‬نوٹ‪ :‬تیسرا گروپ پشتو زبان والوں کیلئے ہے پوسٹنگ پشتو میں ہوتی ہے*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/EZxJ6qmgGpQ2zFxqAeV5uH‬‬
‫‪♡ ㅤ‬‬ ‫‪❍ㅤ‬‬ ‫⎙‬ ‫⌲‬
‫‪ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ‬‬ ‫‪ˢᵃᵛᵉ‬‬ ‫‪ˢʰᵃʳᵉ‬‬
‫*🛑رد الحاد کورس🛑* ‪[12/3, 10:23 AM] +92 332 9407835:‬‬
‫*الحاد_اسباب وحل‪*📌 12:‬‬
‫ِبْس ِم الّٰل ِِه الَّرْح َمِن الَّر ِح ْيم‬
‫*باب نمبر‪*🛑12:‬‬
‫*سبق نمبر‪:13‬دہریت کا سفر*‬

‫”‬ ‫دہریت ایک نظریہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نفسیاتی کیفیت بھی ہے ‪.‬ایک ملحد نرگسیت کا شکار ہوتا ہے ماہرین نفسیات کے‬
‫نزدیک نرگسیت ایک ایسی بیماری ہے جس میں انسان خود سے محبت میں مبتال ہو جاتا ہے اور بعض اوقات نرگسیت عجیب‬
‫تماشے دکھاتی ہے۔امریکہ میں تو ایک خاتون نے حد ہی کر دی ‪،‬بتایا گیا ہے کہ ‪36‬سالہ ندینہ شیوگرٹ کو خود سے ا تنی محبت‬
‫تھی کہ اس نے خود سے ہی شادی کر لی‪،‬اس سلسلے میں شادی کی باقاعدہ تقریب منعقد کی گئی جس میں ندینہ نے نیلے رنگ‬
‫کا لباس پہنا اور ہاتھوں میں روایتی گلدستہ بھی اٹھایا تاہم اس شادی میں کوئی دولہا موجود نہیں تھااور ‪ 45‬کے قریب مہمانوں‬
‫کے سامنے کھڑے ہو کر ندینہ نے کہا کہ برسوں کسی موزوں انسان کے انتظارکے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ وہ تنہائی‬
‫میں اور اپنے ساتھ رہنا پسند کرتی ہے ‪ ،‬اسے خود سے محبت ہے اور وہ خود سے شادی کر رہی ہے ‪ ،‬ندینہ نے اپنے آپ کو‬
‫خود ہی‬
‫انگوٹھی پہنائی اور شادی کے بعد اکیلے ہی ہنی مون پر بھی روانہ ہو گئی۔‬
‫دہریت کا یہ سفر شروع کیسے ہوتا اگر اسکو ابتدا سے دیکھا جائے تو داستان کچھ اسطرح بنتی ہے۔۔‬
‫یہ ایک موروثی مسلمان ہیں (مسیحی ‪،‬سکھ یا ہندو بھی ہو سکتے ہیں ) لیکن دینی تعلیمات سے نابلد‪،‬کمزور یقین کا شکار ہیں‬
‫انکے نزدیک حقائق صرف وہ ہیں جو ان کی عقل شریف میں سما جائیں۔۔۔ابتدا مجہول قسم کے سواالت سے ہوتی ہے بنیادی دینی‬
‫…… تعلیمات سے ناواقف ہونے کے باوجود یہ خود کو ایک عظیم عالم سمجھتے ہیں ‪ ،‬رہتے یہ طالب علم کے بھیس میں ہیں‬
‫کسی کی ذہنی اور فکری تشنگی دور کرنا ان کے بس کی بات نہیں ہاں یہ سواالت اٹھائینگے اور بیشمار اٹھائینگے لیکن ان تمام‬
‫‪ …..‬سواالت کے جوابات صرف وہی ہونگے جو انکو قبول ہوں‬
‫یہ سائل کے بھیس میں چھپے ممتحن ہیں جوخود باقاعدہ تعلیم حاصل کیے بغیر آپ کا امتحان لے رہے ہیں اور نتیجہ صرف اور‬
‫صرف آپ کی ناکامی ہے۔۔۔‬
‫ابتدا میں یہ ایک چھوٹی بیماری ہوتی ہے یہ مذہب کی تعلیمات میں اہل علم اور اکابرین کی چھوڑ کر حریت فکر کا نعرہ بلند‬
‫کرینگے‪ ،‬پچھلے آثار و قرائن اور اور نظائر سے باالتر ہوکر مذہب کے بنیادی ماخذ سے لینے کے دعویدار ہونگے ……سلف کی‬
‫تحقیق کو پِر کاہ کی اہمیت نہیں بلکہ سلف ان کی عدالت میں سر جھکانے کھڑے ہیں اور یہ فیصلے پر فیصلے سنا رہے ہیں‬
‫‪…….‬‬
‫…… لیکن یہ صرف ابتدا ہے‬
‫اب انکو بنیادی ماخذات پر ہی اشکال ہوگا‪ ،‬اعترضات اٹھاۓ جائینگے‪ ،‬کہیں مذہبی قانون (فقہ ) پر سوال اٹھے گا اور پھر براہ‬
‫راست شارح(حدیث ) پر انگلیاں اٹھ جائینگی …گو ابھی تقدس باقی ہے اسلئے براہ راست پیغمبر پر انگلی نہیں اٹھائی گئی مگر‬
‫کتنی دیر پہلے تعلیمات پیغمبر کے واسطوں کو غلط قرار دیا جاۓ گا تاکہ (کتاب ) سے من مانی تعبیرات نکالی جا سکیں اور‬
‫‪ …..‬اپنی ضرورت اور نفسانی خواہشات کو دین کا نام دیا جا سکے‬
‫لیکن کتنی ہی تاویل کیوں نہ کرلی جاۓ انکی جدید و عجیب تعبیرات مقبول نہیں انکو ہر جگہ ذلت کا سامنے ہے انکی ہر جگہ‬
‫سبکی ہوتی ہے …‪.‬یہاں سے رد عمل کی نفسیات کا آغاز ہوگا‪ ،‬کتاب کی صحت پر شک ہوگا‪ ،‬صاحب کتاب کی شخصیت پر‬
‫‪…..‬الزامات لگیں گے‬
‫‪ …..‬لیجئے ایک پکا پکایا ملحد تیار ہے‬
‫ہم کون ہیں ؟کہاں سے آے؟کس لئیے آے ؟ہماری ابتدا کیا ہے ؟اور انتہا کیا ہے ؟ان تمام سواالت کا جواب داستان دہریت میں کہیں‬
‫نہیں ملتا ………‪.‬اسکی ابتدا شک ہے ۔۔اسکی انتہا ریب ہے۔۔اور یہ انجام ہے ایسے شخص کا جو الریب کا منکر ہے۔۔یہ سواالت‬
‫اٹھاتا ہے جواب کوئی نہیں ۔یہ مسائل کھڑے کرتا ہے حل کوئی نہیں ۔یہ ایک ایسی مادی مشین ہے جو حواس خمسہ میں مقید ہو‬
‫‪ ..‬کر کائناتی حقائق کو کھولنے کا دعوے دار ہے‬
‫کہتے ہیں ۔ اس )‪ (Obsessive-compulsive disorder‬ایک بیماری جسے علم نفسیات میں وسواسی اجباری اضطراب‬
‫و اجبار )‪ (obsession‬سے مراد ایسے خلل الدماغ یا مرِض نفسی کی ہوتی ہے جس میں خصوصیاِت وسواس‬
‫دونوں پائی جاتی ہوں۔ یہ مرض فی الحقیقت دماغ میں موجود فطرتی افعال کے میانہ روی سے تجاوز کر )‪(compulsion‬‬
‫جانے کے باعث واقع ہوتا ہے؛ انسانی فطرت کے مطابق جب اسے کسی بات پر شک و شبہ محسوس ہو تو وہ اس کی یقین‬
‫دہانی کے ليے اس کو ایک بار لوٹ کر اپنی تسلی کرتا ہے کہ کوئی غلطی تو نہیں رہ گئی؟ مثال کے طور پر رات سوتے وقت‬
‫اگر کسی کو شبہ ہو کہ اس نے دورازہ اندر سے مقفل نہیں کیا تو وہ بستر پر لیٹنے سے قبل ایک بار جاکر دروازہ دیکھ کر‬
‫اسکے بند ہونے کا یقین کرتا ہے؛ یہ ایک فطری عمل ہے۔ لیکن اگر یہی شک و شبہ کی کیفیت حد سے تجاوز کر جائے اور‬
‫ایک بار دیکھ کر واپس بستر تک آنے کے بعد وہ شخص دوبارہ مشکوک ہو جائے کہ ؛ آیا دروازہ واقعی بند تھا یا اندھیرے کی‬
‫وجہ سے وہ درست دیکھ نہیں پایا؟ اور پھر دوبارہ دروازہ بند ہونے کی تصدیق کرنے جائے ‪ ،‬واپس آئے اور پھر شبے میں مبتال‬
‫ہو جائے کہ؛ آیا دروازہ میں کنڈی درست بند ہوئی تھی یا ڈھیلی رہ گئی؟ اور پھر دوبارہ تصدیق کرنے کو جائے تو اس قسم کے‬
‫کہا جاتا ہے۔ چونکہ اس وسواس یا وسوسے کی وجہ )‪ (obsession‬بیجا اور حد سے بڑھے ہوئے شک و شبہ کو وسوسہ‬
‫سے وہ شخص بار بار اسی کام کی تکرار پر نفسیاتی طور پر مجبور ہو جاتا ہے ‪ ،‬حتٰی کہ اگر وہ خود بھی اس بار بار‬
‫دہرانے کے عمل سے پریشان ہو جائے مگر اسکے باوجود وہ اس تکرار پر خود کو مجبور پاتا ہے اور وسوسے کی وجہ سے‬
‫کہا جاتا ہے یعنی وسوسہ اور پھر اس )‪ (compulsive‬پیدا ہونے والی اسی مجبوری کی کیفیت کی وجہ سے اسے اجباری‬
‫وسوسے سے ہونے والی مجبوری (جبر ‪ ،‬اجبار) کے باھم پائے جانے کی وجہ سے ان اضطرابات کو وسواسی اجباری اضطرابات‬
‫کہا جاتا ہے۔ایسی ہی مثال ایک ملحد کی ہے ۔ہم کہہ سکتے ہیں کہ دہریت کوئی علمی یا فکری چیز نہیں بلکہ ایک نفسیاتی‬
‫‪ …….‬عارضہ ہے ۔اور یہ لوگ فتوی کے نہیں عالج کے مستحق ہیں‬
‫حسیب احمد حسیب‬
‫ملحدین کے ذات باری تعاٰل ی اور قبر و حشر کے متعلق سخت سوالوں کے منطقی و فلسفی جوبات اثبات باری تعالٰی ‪ ،‬توحید‪ ،‬تنزیہ*‬
‫و تقدیس‪ ،‬مسئلہ خیر و شر‪ ،‬مسئلہ رؤیت باری تعالٰی ‪ ،‬جبر و قدر(تقدیر)‪ ،‬نبوت‪ ،‬عام اعترضات‪ ،‬محمد رسول اللہ کی نبوت‪ ،‬خاتم‬
‫النبیین کی تفسیر‪ ،‬وجود باری تعالٰی ‪ ،‬جنت و جہنم کا وجود‪ ،‬قبر و برزخ کی زندگی‪ ،‬موت کے بعد زندہ ہونا اور قیامت کا وجود‪،‬‬
‫خدا کا وجود یہ اور ان جیسے سیکنڑوں ملحدین کے مشرکانہ سوالوں کے جامع و عقلی جوابات پر مشتمل بہترین وٹس ائپ‬
‫*گروپ‬
‫*گروپ نمبر‪ 1️⃣:‬لنک*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/Ke2feylEHdG6lVzArFtVoG‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 2️⃣:‬لنک*‬


‫‪https://chat.whatsapp.com/Fe4WnvQclaN91i5oql58EX‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 3️⃣:‬لنک‪/‬نوٹ‪ :‬تیسرا گروپ پشتو زبان والوں کیلئے ہے پوسٹنگ پشتو میں ہوتی ہے*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/EZxJ6qmgGpQ2zFxqAeV5uH‬‬
‫‪♡ ㅤ‬‬ ‫‪❍ㅤ‬‬ ‫⎙‬ ‫⌲‬
‫‪ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ‬‬ ‫‪ˢᵃᵛᵉ‬‬ ‫‪ˢʰᵃʳᵉ‬‬
‫*🛑رد الحاد کورس🛑* ‪[12/3, 10:23 AM] +92 332 9407835:‬‬
‫*الحاد_اسباب وحل‪*📌 12:‬‬
‫ِبْس ِم الّٰل ِِه الَّرْح َمِن الَّر ِح ْيم‬
‫*باب نمبر‪*🛑12:‬‬
‫*سبق نمبر‪:14‬موالنا ابو الکالم آزاد اور دہریت سے ایمان کی طرف واپسی کا سفر*‬

‫ہم جیل میں تھے اور یہ خیال پیدا نہیں ہوا تھا کہ موالنا اپنے مفصل حاالت مجھے لکھا دیں ‪ ،‬ان میں جو مذہبی انقالب ہو چکا‬
‫تھا اس کی تفصیل جاننے کی فکر تھی ایک دن عرض کیا “آپ نے پیر گھرانے میں آنکھ کھولی پھر آپ کے مذہبی خیاالت میں‬
‫یہ حیرت انگیز انقالب کیونکر ہو گیا۔۔؟ کہنے لگے” لکھ کر جواب دوں گا “چند دن بعد ذیل کی تحریر میرے ہاتھ میں دے دی‬
‫‪ :‬جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہے‬
‫آپ کا یہ سوال میرے لئے سب سے زیادہ اہم ہے‪ .‬میں پیدائشی طور پر مسلمان ہوں لیکن آپ یہ سن کر تعجب کریں گے کہ‬
‫پیدائشی اور خاندانی ورثے میں مجھے جو مذہب مال تھا میں اس پر قانع نہیں رہا اور جوں ہی مجھ میں اتنی طاقت پیدا ہوئی کہ‬
‫کسی چیز کو اپنے سےالگ کر سکوں میں نےاسے الگ کر دیا اور پھر ایک خالی دل و دماغ لے کر طلب و جستجو میں نکال‬
‫اس جستجو میں مجھے بہت سی منزلوں سے گزرنا پڑا اور پے در پے کئی ذہنی انقالب میرے دماغ پر طاری ہوئے باآلخر میں‬
‫نے اپنا مقصود حاصل کر لیا اور یہ وہی مقام ہے جہاں اپنے آپ کو اب پاتا ہوں بالشبہ یہ اسالم ہے لیکن وہ اسالم نہیں ہے‬
‫جو محض رسم و تقلید کا مجموعہ تھا اور مجھے پیدائشی ورثے میں مال تھا میں ایسا اس لئے مسلمان نہیں ہوں کہ مجھے‬
‫خاندانی طور پر ایسا ہی ہونا چاہئے‪ ،‬بلکہ اس لیے ہوں کہ میں نے اپنی طلب و جستجو سے اس کا سراغ پایا ہے مجھے یقین‬
‫اور اطمینان کی تالش تھی اور وہ مجھے یہی مال ۔۔۔۔‬
‫انسانی دماغ‪ ،‬خاندان‪ ،‬تعلیم‪ ،‬سوسائٹی‪ ،‬اور گردوپیش کے مؤثرات (اثر انداز ہونے والی اشیا) کی مخلوق ہوتا ہے علی الخصوص‬
‫مذہب کےبارے میں خاندانی تقلید کا اثر اس درجہ قوی ہے کہ اس سے باہر نکلنے کا کبھی ہمیں وہم و گمان بھی نہیں گزرتا ۔۔۔۔۔‬
‫کتنے ہی انسان ہیں جو اپنی شہ زوری میں بڑی بڑی آہنی زنجیروں کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالیں گے لیکن وہ اس رشتے کو چھو‬
‫بھی نہیں سکتے جو آبائی تقلید کا ان کی گردن میں پڑا ہے فی الحقیقت انسان کی تمام غفلت و گمراہی کی اصلی بنیاد یہی ہے‪،‬‬
‫اور میں یقین کی گھاٹیوں میں سرگرداں رہا ۔۔۔۔ عرصے تک میٹیریلزم(مادہ پرستی) اور ریشنلزم(قوم پرستی) کے جلوہ سراب کو‬
‫آب حیات سمجھتا رہا ‪ .‬اس راہ کی جتنی بیماریاں ہیں‪ ،‬وہ بھی مجھے لگیں اور جتنے نسخے ہیں‪ ،‬وہ بھی میں نے استعمال‬
‫کیے‪ .‬باآلخر جب قدم جستجو سے تھک گئے‪ ،‬اور ہمت نے جواب دے دیا‪ ،‬تو اچانک پردہ ظلمت چاک ہوا اور نظر ُاٹھائی تو‬
‫‪ .‬حقیقت گم گشتہ کا چہرہ بے نقاب سامنے موجود تھا‬
‫اس منزل پر پہنچ کر یہ سب سے بڑی بنیادی سچائی مجھ پر کھل گئی کہ مذہب کی راہ عقل و ادراک سے نہیں بلکہ خالص‬
‫اور بے میل جذبات سے طے کی جا سکتی ہے‪ .‬اورمذہبی سچائی کا پا لینا اس لیے کٹھن نہیں ہے کہ وہ مشکل ہے‪ ،‬بلکہ اس‬
‫لئے کہ وہ بہت ہی آسان ہے‪ ،‬اور انسان کی سب سے بڑی گمراہی یہ ہے کہ وہ سامنے کی آسان اور عام چیزوں کو ہمیشہ نظر‬
‫!انداز کر دیتا ہے۔‬
‫ایک راہ گم کردہ مسافر برسوں تک کوہ و صحرا کی خاک چھان کر بالکل مایوس ہو گیا ہو‪ ،‬اور عالِم مایوسی میں کسی درخت‬
‫کے نیچے گر کے بے ہوش ہو گیا ہو‪ ،‬لیکن جب بے ہوشی سے بیمار ہو‪ ،‬تو دیکھے کہ اپنے وطن میں خاص اپنے محبوب گھر‬
‫کی چھت کے نیچے پڑا آرام کر رہا ہے! یہ دیکھ کر اس کا کیا حال ہوگا؟ یقین کرنا چاہیے‪ .‬میرا یہی حال ہوا ۔۔‬
‫میری پیدائش ایک ایسےخاندان میں ہوئی تھی‪ ،‬جو صدیوں سے مذہبی بزرگی اور پیشوائی رکھتا تھا‪ ،‬اور ہزاروں الکھوں آدمی اس‬
‫کے سامنے اطاعت اور تعظیم کا سر جھکاتے تھے‪ .‬میں نے جب ہوش سنبھاال تو اپنے چاروں طرف بزرگی اور تقدس کا جلوہ‬
‫دیکھا‪ ،‬اور ایک بت کی طرح اپنے خاندان کو معظم و محترم پایا ۔ میں ابھی بچہ ہی تھا کہ ہزاروں آدمی آتے تھے اور بوجہ‬
‫پیرزادہ ہونے کے میرے ہاتھ پاؤں چومتے تھے‪ .‬اپنے بزرگوں کے سوا جس آدمی کو دیکھتا تھا‪ ،‬اپنے آگے جھکا ہوا اور ادب و‬
‫تعظیم سے مرعوب پاتا تھا‪ .‬بڑے بڑے قابل اور معمر آدمی آتے تھے اور وہ میرے سامنے (جب کہ میری عمر آٹھ نو برس‬
‫سے زیادہ نہ تھی) اس ادب و احترام سے بیٹھتے تھے‪ ،‬گویا میں سچ مچ کو ان کا بت ہوں میرے منہ سے جو بات نکلتی‪ ،‬خواہ‬
‫وہ کتنی ہی فضول اور بے معنی ہوتی‪ ،‬لیکن وہ بڑے ہی اعتقاد اور احترام کے ساتھ سر جھکائے ہوئے سنتے اور ہر بات پر‬
‫! آمّنا اور صّد قنا کرتے۔۔۔۔‬
‫ظاہر ہے ایسی فضا میں پرورش پانے کا قدرتی اثر میرے دماغ میں کیا پڑ سکتا تھا۔ سب سے پہلے تو یہ کہ میں اپنا خاندانی‬
‫شان و شکوہ دیکھ کر اسی میں سرشار رہ جاتا اور تحصیل علم کے لیے میرے اندر کوئی طلب و کاوش پیدا ہی نہ ہوئی جیسا‬
‫کہ بڑے بڑے پیروں اور پیشواؤں کی اوالد اپنے موروثی عزت و احترام کی وجہ سے عمومًا بے پرواہ ہوجاتی ہے‪ ،‬اور اکثر‬
‫صورتوں میں جاہل و اپاہج بن کر رہ گئی ہے‪ .‬پھر اگر والد مرحوم کی کوشش‪ ،‬خاندانی روایات کا اثر اور ذاتی شوق و طلب‬
‫کی وجہ سے ایسا نہ ہونے پاتا‪ ،‬جب بھی ظاہر ہے کہ ایسی موروثی اور گہری مذہبی فضا میں کسی نئ فکر اور جستجوؤں کی‬
‫راہ کا کھلنا‪ ،‬تقریبا محال تھا ۔‬
‫اپنی موجودہ حالت سے بلند تر حالت کی طلب جبھی پیدا ہو سکتی ہے‪ ،‬جب کوئی نہایت ہی قوی خارجی محّر ک موجود ہو‪ ،‬لیکن‬
‫یہاں نہ صرف یہ بات تھی کہ کوئی ایسا محّر ک موجود نہ تھا بلکہ ایسے محرکات کے لیے اس کی آب و ہوا موافق ہی نہ تھی‬
‫۔ میرے خاندان کی تمام پرانی روایات نہایت سخت راسخ االعتقادی کی چلی آتی تھیں‪ .‬گھر میں شب و روز ان باتوں کا چرچا‬
‫اور اعتقاد رہتا تھا‪ ،‬جو ایسے اعتقاد کا الزمی نتیجہ ہیں ۔ والد مرحوم بھی نہایت سخت راسخ الخیال شخص تھے‪ .‬۔‬
‫کیوں؟” اور “کس لئے؟” کی ُان کے اعتقاد میں گنجائش ہی نہ تھی ۔ مسلمانوں میں جو مذہبی عقائد کے اسکول آزاد خیال اور “‬
‫اعتقادی امور کو فکرو اجتہاد کے ساتھ قبول کرنے والے ہیں‪ ،‬وہ ُان کے بھی سخت مخالف تھے‪ ،‬اور تمام عمران کے رد میں قلم‬
‫و زبان سے کام لیتے رہے تھے ۔ ان کی دو تہائی تصنیفات انھی کے رد میں ہیں ۔ میرے تمام استاد جن سے میں نے ابتدا سے‬
‫لے کر آخر تک تعلیم حاصل کی‪ ،‬ایسے ہی خیاالت کے تھے‪ ،‬اور اب میں سوچتا ہوں‪ ،‬تو ان میں سے بعض کی سختی یہاں تک‬
‫بڑھی ہوئی تھی کہ ایک خفیف سے اختالف رائے پر بھی بالکل کافر‪ ،‬یعنی اسالم سے خارج ہو جانے کا فتوی دے دیتے تھے‪.‬‬
‫جو نصاب تعلیم میں مجھے پڑھایا گیا اور مذہبی علوم کی جن کتابوں کی تعلیم دی گئی‪ ،‬وہ بھی سر تا سر اسی مسلک پر مشتمل‬
‫تھیں ۔‬
‫پس ایسی حالت میں کیونکر امید کی جا سکتی ہے کہ ایک لمحے کے لئے بھی میرا دماغ اس دائرے سے باہر کا کوئی تخّیل کر‬
‫سکتا‪ ،‬یا کسی مزید طلب اور جستجو کی خلش میرے اندر پیدا ہو سکتی؟ قدرتی طور پر میری بڑی سے بڑی ترقی بھی اس سے‬
‫زیادہ نہیں ہو سکتی تھی کہ میں اپنی خاندانی روایات کے مطابق ایک اچھا کامیاب پیر اور مولوی ہوتا‪ ،‬جس کے ہاتھ چومنے‬
‫والوں کا حلقہ بہت دور تک پھیال ہوا نظر آتا ۔۔‬
‫لیکن یہ بات نہایت عجیب سمجھی جائے گی کہ نتیجہ بالکل اس کے برعکس نکال۔ اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ کیوں۔ تو میں‬
‫ِاس وقت بھی ِاس کا جواب نہیں دے سکتا ۔ لیکن یہ واقعہ ہے کہ ابھی میری تعلیم ختم نہیں ہوئی تھی اور زیادہ سے زیادہ‬
‫میری تیرہ برس کی عمر تھی کہ میرا دل اچانک اپنی موجودہ حالت اور اردگرد کے منظر سے ُاچاٹ ہو گیا اور ایسا محسوس‬
‫ہونے لگا کہ میں کسی اچھی حالت میں مبتال نہیں ہوں‪ .‬یہ بے اطمینانی بڑھتی گئی‪ ،‬حتی کہ مجھے ُان ساری باتوں سے‪ ،‬جو‬
‫لوگوں کی نظروں میں انتہا درجہ عزت و احترام کی باتیں تھیں‪ ،‬ایک طرح کی نفرت ہو گئی‪ ،‬اور میں اندر ہی اندر ُان باتوں پر‬
‫شرم اور ذلت محسوس کرنے لگا‪ .‬اب جو لوگ میرا ہاتھ پاؤں چومتے‪ ،‬تو مجھے محسوس ہوتا کہ گویا ایک بہت ہی سخت ُبرائی‬
‫کا کام ہو رہا ہے۔ چند دن پہلے یہی منظر میرے لئے نہایت ہی فخر و غرور کا باعث تھا۔‬
‫چند دنوں کے بعد یہ جذبہ ایک دوسرے رخ پر بہنے لگا‪ .‬اپنی حالت کے احتساب نے اپنے عقائد و افکار کے احتساب پر توجہ‬
‫دالئی‪ ،‬اور اب جو میں نے اپنے مذہبی عقائد کا جائزہ لیا‪ ،‬تو ُاس بجز آبائی تقلید‪ ،‬دیرینہ رسم پرستی‪ ،‬اور موروثی اعتقاد کے اور‬
‫” کچھ نہ تھا “میں ایسا کیوں یقین کرتا ہوں۔۔۔۔؟‬
‫ِاس کا جواب مجھے اس کے سوا کچھ نہیں ملتا تھا کہ “چونکہ ایسا ہی مجھے بتایا گیا ہے” یا “چونکہ ایسا ہی میرے باپ دادا‬
‫کو اعتقاد تھا” یہ جواب میرے دل میں شک اور اضطراب کا ایک طوفان برپا کر دیتا اور میں اپنے تمام پر شکوہ عقیدوں اور‬
‫سارے طلسم نما خیاالت کے ساتھ بے اختیار بہنے لگتا ۔‬
‫کیا فی الحقیقت خدا کا وجود ہے۔؟ اور کیا واقعی مذہب کے تمام بتائے ہوئے عقائد حقیقت رکھتے ہیں۔؟ اگر ایسا ہی ہے تو اتنی‬
‫بڑی حقیقت اور سچائی میں اتنا اختالف کیوں ہے؟ مذہب اگر ہدایت اور امن کے لئے ہے‪ ،‬تو پھر وہی انسان کے تمام اختالفوں‬
‫اور جھگڑوں بلکہ انتہا درجہ خونریزیوں کا سبب کیوں بن گیا ہے؟ حقیقت ایک ہی ہو سکتی ہے‪ .‬ایک سے جو زیادہ ہے وہ تو‬
‫حقیقت نہیں ہے۔‬
‫پھر اگر دنیا کے اتنے بے شمار مذہبوں میں سے کسی ایک مذہب کو مان بھی لیا جائے‪ ،‬تو بھی مشکل کہاں ختم ہوتی ہے؟ہر‬
‫مذہب کے اندر بھی تو بے شمار اختالفات پائے جاتے ہیں‪ ،‬اور بہت سی جماعتوں میں اس کے ماننے والے بٹ گئے ہیں؟ ایک‬
‫” کیوں حق پر ہے اور دوسرا کیوں حق پر نہیں؟‬
‫یہ تین سوال تھے‪ ،‬جو ‪ 14‬برس کی عمر میں مجھ پر اس طرح چھا گئے تھے کہ خون اور گوشت کی جگہ میرے اندر صرف‬
‫انہی کی گونج بھری ہوئی محسوس ہوتی تھی‪ .‬گرہ کو جس قدر کھینچا جائے ُاتنا ہی اور زیادہ الجھ جاتی ہے ۔اسی طرح میں‬
‫جس قدر حل کرنے کی کوشش کرتا تھا اتنا ہی زیادہ الجھاؤ بڑھتا جاتا تھا ۔‬
‫میں نے ہر طرح کی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا‪ .‬مختلف مذہبوں کی کتابیں بار بار دیکھ ڈالیں‪ .‬میں اس وقت بمبئی میں تھا‪.‬‬
‫وہاں مجھے متعدد عیسائی‪ ،‬یہودی‪ ،‬پارسی‪ ،‬بہائی‪ ،‬ناستک(دہریہ) اور ہندو عالموں سے ملنے اور بحث و مباحثہ کا موقعہ مال‪ ،‬لیکن‬
‫ان کی باتیں میری الجھن کو اورزیادہ کرتی تھیں‪ .‬ان کے جوابات اور مباحث سن کر مجھے معلوم ہوتا تھا کہ میری پریشانی اس‬
‫سے کہیں زیادہ ہونی چاہیئے‪ .‬جس قدر میں سمجھے ہوا تھا‪ .‬باآلخر یہ اندرونی تکلیف یہاں تک بڑھی کہ میں بیمار ہو گیا ۔۔‬
‫غذا بند ہو گئی نیند ُاچاٹ ہو گئی اس اثنا میں میں نے ماڈرن فالسفی اور سائنس کی مختلف شاخوں کا مطالعہ کیا‪ ،‬جس قدر‬
‫مطالعہ مشرقی زبانوں کے تراجم سے کر سکتا تھا‪ .‬اس کا نتیجہ یہ نکال کہ مذہب کی طرف سے میری بے اطمینانی اور زیادہ‬
‫گہری ہو گئی‪ .‬اب مجھ پر وہ دروازہ کھال‪ ،‬جو اس راہ میں ہمیشہ کھال کرتا ہے‪ ،‬یعنی مذہب اور عقل کی تطبیق و اتحاد کا‬
‫طریقہ‪ .‬اس کے بھی متعدد اسکول ہیں‪ .‬میں نے سب کا مطالعہ کیا‪ ،‬اور اس سے اتنا ضرور ہوا کہ ایک عارضی سکون مجھے‬
‫ہو گیا‪ .‬اسی زمانے میں میں نے سر سید احمد خان مرحوم کی کتابوں کا مطالعہ کیا جس کی نسبت سمجھا جاتا ہے کہ انھوں‬
‫نے موجودہ زمانے میں مذہب اور ماڈرن سائنس کو مالنے کے لئے ایک نئے اسکول کی بنیاد ڈالی‪ ،‬مجھ پر ان کی تصنیفات کا‬
‫بہت اثر پڑا‪ ،‬حتی کہ کچھ دن تک میرا یہ حال رہا کہ میں بالکل ان کا مقلد اور پیرو ہو گیا تھا ۔‬
‫مگر یہ واقعہ عارضی تھا بہت جلد ہی مجھے معلوم ہو گیا کہ یہ منزل مذہب کی طرف لے جانے والی نہیں ہے بلکہ مذہب سے‬
‫انکار کی ایک نرم اور مالئم صورت ہے‪ .‬آخری نتیجہ میرے دل و دماغ پر حاوی ہو گیا تھا ۔ یعنی گو میں زبان سے صاف‬
‫صاف اقرار نہیں کرتا تھا‪ ،‬لیکن میرے اندر قطعی انکار و الحاد کی آواز گونج رہی تھی‪ .‬میں اب ایک پکا دہریہ ہو گیا تھا‪.‬‬
‫میٹیر یلزم اور ر یشنلزم کے اعتقاد پر میر ے اندر فخر و غرور تھا‪ .‬اور مذہب کے نام میں جہل و توہم کے سوا کچھ نظر نہ یں آتا‬
‫تھا‪ ،‬تاہم وہ چیز کہاں تھی جس کی ڈھونڈھ میں نکال تھا؟ یعنی دل کا اطمینان؟ وہ تو اب اور زیادہ دور ہو گئی تھی‪ .‬میرے‬
‫!اضطراب کی اندھیاری میں تسلی کی ایک ہلکی کرن بھی دکھائی نہیں دیتی تھی‬
‫برس سے لے کر ‪ 22‬برس کی عمر تک میرا یہی حال رہا‪ .‬میرا ظاہری روپ ایک ایسے مذہبی آدمی کا تھا جو مذہب کو ‪14‬‬
‫عقل و علم کے ساتھ ساتھ چالتا ہے‪ .‬لیکن میرے اندر اعتقاد میں قطعی الحاد تھا اور عمل میں قطعی فسق ۔‬
‫یہی منزل میری آخری مایوسی کی منزل تھی‪ ،‬اور اسی کے بعد اچانک امید کی روشنی میرے سامنے چمکی‪ .‬میں جس طرح اس‬
‫ہاتھ کو نہیں بتال سکتا‪ ،‬جس نے مجھے اندھیری میں ڈھکیال‪ ،‬اسی طرح میں اس ہاتھ کے لیے بھی کچھ نہیں کہہ سکتا‪ ،‬جس نے‬
‫اچانک مجھے اجالے میں پہنچا دیا‪ ،‬تاہم یہ حقیقت ہے کہ روشنی نمودار ہوئی اور نو برس خاک چھاننے کے بعد میں نے اپنی‬
‫منزِل مقصود خود اپنے ہی پاس موجود پائی‪ .‬تمام شکوک دور ہو گئے‪ .‬تمام دھوکے مٹ گئے جس یقین اور اطمینان کی تالش‬
‫تھی‪ ،‬وہ مجھے حاصل ہو گیا ۔‬
‫اب مجھے معلوم ہوا کہ مذہب اور عقل کے میدان بالکل الگ الگ ہیں‪ ،‬اور دونوں کی ایسی پوزیشن نہیں ہے کہ ان کو باہم‬
‫مخالف سمجھ کر توڑنے یا جوڑنے کی کوشش کی جائے‪ .‬مادہ اور محسوسات کی راہ ہم ادراک سے طے کر سکتے ہیں‪ ،‬مگر‬
‫مذہب جس حکم کا پیام التا ہے‪ ،‬اس کے لیے ہمارے پاس صرف جذبہ ہے‪ ،‬اور یہ بڑی بھول ہے کہ چاندی سونا تولنے کے‬
‫کانٹے سے ہوا اور روشنی کا بھی وزن معلوم کرنا چاہیں‪ .‬مجھے معلوم ہوا کہ جس مذہب کو دنیا اسالم کے نام سے پہچانتی‬
‫ہے‪ ،‬فی الحقیقت وہی مذہبی اختالفات کے سوال کااصلی جواب ہے۔ اسالم دنیا میں کوئی نیا مذہب قائم نہیں کرتا چاہتا‪ ،‬بلکہ اس کا‬
‫مشن خود اس کے بیان کے مطابق صرف یہ ہے کہ دنیا میں تمام مذہبوں کے ماننے والے اپنی اصلی اور بے میل سچائی پر قائم‬
‫ہو جائیں‪ ،‬اور باہر سے مالئی ہوئی جھوٹی باتوں کو چھوڑ دیں‪ .‬اگر وہ ایسا کریں‪ ،‬تو جو اعتقاد ان کے پاس ہوگا‪ ،‬اس کا نام‬
‫قرآن کی بولی میں اسالم ہے ۔‬
‫قرآن کہتا ہے کہ خدا کی سچائی ایک ہے ابتدا سے موجود ہے‪ ،‬اور تمام انسانوں اور قوموں کے لیے یکساں طور پر آتی رہی‬
‫ہے‪ .‬دنیا کا کوئی ملک‪ ،‬کوئی گوشہ نہیں‪ ،‬جہاں خدا کے سچے بندے نہ پیدا ہوئے ہوں اور انھوں نے سچائی کی تعلیم نہ دی‬
‫ہو‪ ،‬لیکن ہمیشہ ایسا ہوا کہ لوگ کچھ دنوں تک اس پر قائم رہے‪ ،‬پھر اپنے خیال اور وہم سے طرح طرح کی نئی اور جھوٹی‬
‫باتیں نکال کر اس طرح پھیال دیں کہ وہ خدا کی سچائی انسانی مالوٹ کے اندر گم ہو گئی ۔اب ضرورت تھی کہ سب کو جگانے‬
‫کے لئے ایک عالمگیر صدا بلند کی جائے ۔۔‬
‫یہ اسالم ہے وہ عیسائی سے کہتا ہے کہ سچا عیسائی بنے ۔یہودی سے کہتا ہے کہ سچا یہ ودی بنے‪ ،‬پارسی سے کہتا ہے کہ‬
‫سچا پارسی بنے ۔۔ اسی طرح ہندوؤں سے کہتا ہے کہ اپنی اصلی سچائی کو دوبارہ قائم کر لیں‪ .‬یہ سب اگر ایسا کر لیں‪ ،‬تو وہ‬
‫وہی ایک ہو سچائی ہوگی جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ سب کو دی گئی ہے‪ .‬کوئی قوم نہیں کہہ سکتی کہ وہ صرف اسی کی‬
‫میراث ہے‪ .‬اسی کا نام “اسالم” ہے اور وہی “دین الفطرۃ” ہے‪ ،‬یعنی خدا کا بنایا ہوا نیچر‪ ،‬اسی پر یہ تمام کارخانۂ ہستی چل‬
‫رہا ہے‪ .‬سورج کا بھی وہی دھرم ہے‪ .‬زمین بھی اسی کو مانے ہوئے ہر آن گھوم رہی ہے‪ ،‬اور کون کہہ سکتا ہے کہ ایسی‬
‫!!ہی اور کتنی زمینیں اور دنیائیں ہیں‪ ،‬اور ایک خدا کے ٹھرائے ہوئے ایک ہی قانون پر عمل کر رہی ہیں ۔۔‬
‫پس قرآن لوگوں کو ان کے مذہب سے چھڑانا نہیں چاہتا‪ ،‬بلکہ ان کے اصلی مذہب پر ان کو دوبارہ قائم کر دینا چاہتا ہے ۔ دنیا‬
‫میں بے شمار مذہب ہیں ۔ ہر مذہب کا پیرو سمجھتا ہے کہ سچائی صرف اسی کے حصے میں آئی ہے‪ ،‬اور باقی سب باطل پر‬
‫ہیں‪ ،‬گویا قوم اور نسل کی طرح سچائی کی بھی میراث ہے اب اگر فیصلہ ہو تو کیونکر ہو ۔۔؟؟اختالف دور ہو تو کس طرح ہو؟‬
‫اس کی صرف تین ہی صورتیں ہو سکتی ہیں۔‬
‫ایک یہ کہ سب حق پر ہیں‪ ،‬یہ ہو نہیں سکتا‪ .‬دوسری یہ کہ سب باطل پر ہیں‪ .‬اس سے بھی فیصلہ نہیں ہوتا‪ .‬کیونکہ پھر حق‬
‫کہاں ہے؟ اور سب کا دعٰو ی کیوں ہے؟ اب تیسری ایک صورت رہ گئی‪ ،‬یعنی سب حق پر بھی ہیں اور سب ناحق پر بھی‪ .‬یعنی‬
‫اصل ایک ہے اور سب کے پاس ہے‪ .‬مالوٹ باطل ہے‪ .‬مؤجب اختالف ہے‪ ،‬اور سب اسی میں مبتال ہو گئے ہیں ۔اگر مالوٹ‬
‫!چھوڑ دیں اور اصلیت کو پرکھ کے صاف کر لیں‪ ،‬تو وہ ایک ہی ہوگی اور سب کی جھولی میں نکلے گی ۔‬
‫‪.‬قرآن “یہی کہتا ہے‪ ،‬اور اس کی بولی میں اسی مشترک اور عالمگیر اصلیت کا نام اسالم ہے‬
‫شک اور انکار کے بعد یقین اور اعتقاد کے حصول میں میرے نظر و فکر کا کیا عالم رہا اور میرے تمام الینحل (ناقابل‬
‫”حل )سوالوں کے کیا کیا جواب ملے؟ یہ بہت لمبی داستان ہے اور میری موجودہ تصنیفات انہیں کی شرح ہیں‬
‫حوالہ کتاب ‘ذکر آزاد از عبدالرزاق ملیح آبادی ‘ ‪ ،‬کمپوزنگ سالم فریادی‬
‫ملحدین کے ذات باری تعاٰل ی اور قبر و حشر کے متعلق سخت سوالوں کے منطقی و فلسفی جوبات اثبات باری تعالٰی ‪ ،‬توحید‪ ،‬تنزیہ*‬
‫و تقدیس‪ ،‬مسئلہ خیر و شر‪ ،‬مسئلہ رؤیت باری تعالٰی ‪ ،‬جبر و قدر(تقدیر)‪ ،‬نبوت‪ ،‬عام اعترضات‪ ،‬محمد رسول اللہ کی نبوت‪ ،‬خاتم‬
‫النبیین کی تفسیر‪ ،‬وجود باری تعالٰی ‪ ،‬جنت و جہنم کا وجود‪ ،‬قبر و برزخ کی زندگی‪ ،‬موت کے بعد زندہ ہونا اور قیامت کا وجود‪،‬‬
‫خدا کا وجود یہ اور ان جیسے سیکنڑوں ملحدین کے مشرکانہ سوالوں کے جامع و عقلی جوابات پر مشتمل بہترین وٹس ائپ‬
‫*گروپ‬
‫*گروپ نمبر‪ 1️⃣:‬لنک*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/Ke2feylEHdG6lVzArFtVoG‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 2️⃣:‬لنک*‬


‫‪https://chat.whatsapp.com/Fe4WnvQclaN91i5oql58EX‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 3️⃣:‬لنک‪/‬نوٹ‪ :‬تیسرا گروپ پشتو زبان والوں کیلئے ہے پوسٹنگ پشتو میں ہوتی ہے*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/EZxJ6qmgGpQ2zFxqAeV5uH‬‬
‫‪♡ ㅤ‬‬ ‫‪❍ㅤ‬‬ ‫⎙‬ ‫⌲‬
‫‪ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ‬‬ ‫‪ˢᵃᵛᵉ‬‬ ‫‪ˢʰᵃʳᵉ‬‬
‫*🛑رد الحاد کورس🛑* ‪[12/4, 10:09 AM] +92 332 9407835:‬‬
‫*الحاد_اسباب وحل‪*📌 12:‬‬
‫ِبْس ِم الّٰل ِِه الَّرْح َمِن الَّر ِح ْيم‬
‫*باب نمبر‪*🛑12:‬‬
‫*سبق نمبر‪:16‬الحاد فتنوں سے بچاو کیسے؟؟*‬
‫۔‬

‫تمام مذاہب کو اس وقت فکری محاذ پر سب سے بڑا چیلنج المذہبیت کا درپیش ہے۔ پرنٹ‪ ،‬الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے‬
‫ایک منظم انداز میں مذاہب کے خالف شکوک و شبہات کی یلغار کی گئی ہے۔ ملحدین وجود باری تعالٰی ‪ ،‬تصوررسالت‪ ،‬عقیدٔہ‬
‫ٓاخرت‪ ،‬کتاب اللہ اور انبیائے کرام علیہم السالم کی تاریخی حیثیت کو جھٹالتے اور طرح طرح کے سواالت کے ذریعہ ذہنوں کو‬
‫پراگندہ کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ جو مذاہب ان عقائد و مسائل میں پہلے ہی تضاد کا شکار اور کمزور بنیادوں پر‬
‫کھڑے تھے ‪ ،‬وہ ان کے فلسفیانہ وساوس کی یلغار کے سامنے ز یادہ دیر نہ ٹھہر سک ے اور الح اد ان کے معاشروں میں بہ ت آسانی‬
‫سے جڑ پکڑتا چال گیا۔ یہودیت‪ ،‬عیسائیت‪ ،‬ہندومت کا دہریت کے سامنے اتنی آسانی سے سجدہ ریز ہوجانا دہریوں کو اعتماد بھی‬
‫دال گیا‪ ،‬وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ شاید تمام مذاہب ہی ایسے خودساختہ اور متضاد نظریات کی بنیاد پر کھڑے اور مکر و فریب کے‬
‫ذریعے پیروکار جمع کیے ہوئے ہیں‪ ،‬لیکن الحادی نظریات کو مسلم معاشروں میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور پڑ رہا ہے۔‬
‫ملحدین کے لیے قرٓان اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخی حیثیت کو چیلنج کرنا علمی‪ ،‬عقلی اور تاریخی طور پر‬
‫ممکن نہیں تھا ۔ باقی عقائد توحید‪ ،‬آخرت وغیرہ کا تعلق مابعد الطبیعات سے ہے جنہیں مشاہداتی اور تجرباتی علم کی روشنی میں‬
‫مکمل طور پر ثابت یا رد نہیں کیا جاسکتا‪ ،‬اور اسالم ان مسائل میں دوسرے مذاہب کی نسبت بہت واضح اور محکم دالئل و‬
‫براہین بھی رکھتا ہے‪ ،‬اس لیے انہوں نے اسالم پر حملہ کرنے کی دوسری راہ نکالی مثال کمزور اور من گھڑت روایات کا سہارا‬
‫لے کر اکابرین اسالم کی کردار کشی‪ ،‬اسالم کا تمسخر‪ ،‬اسالمی سزاؤں کے خالف پراپیگنڈہ‪ ،‬عقائد میں فلسفیانہ انداز میں شکوک و‬
‫شبہات پیدا کرنا‪ ،‬مسلمانوں کے اختالفات کو ہوا دینا‪ ،‬مسلمان علماء کی کردار کشی کرنا وغیرہ۔ یہ ہر ملحد کے خاص موضوعات‬
‫ہیں۔ یہ اسالم اور مسلمانوں کی بدنامی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور ان کی دل آزاری کے لیے انتہائی گری ہوئی‬
‫حرکات کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ پرنٹ میڈیا میں یہ تجزیہ نگاروں‪ ،‬کالم نگاروں‪ ،‬صحافیوں اور شاعروں کی شکل میں موجود‬
‫ہیں جو مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے اسالم کے متعلق شکوک و شبہات میں ڈالتے‪ ،‬زہریلے مضامین‪ ،‬جھوٹی کہانیاں پیش کرتے‬
‫اور معمولی قص ے کو بڑھاچڑھا کر مذہبی منافرت پھیال تے ہیں‪ ،‬سوشل میڈیا دیک ھیں تو اسالم کے خالف ایک پور ا محاذ نظر آتا‬
‫ہے۔ مختلف پیجز اور عجیب و غریب ناموں کی فیک آئی ڈیز سے اسالم اور مسلمانوں کے خالف جھوٹا پراپیگنڈہ‪ ،‬فریبی اور‬
‫گمراہ کن تحاریر اور ان سے بھی بڑھ کر گستاخانہ جملے‪ ،‬تصاویر تقریبا روز دیکھنے کو ملتی ہیں۔‬
‫گزشتہ دو سال سے میری دلچسپی کا محور یہی لوگ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے پیجز الئک کیے‪ ،‬ان کے گروپس میں‬
‫شمولیت اختیار کی‪ ،‬ان سے دوستیاں لگا کے ان کے رویوں‪ ،‬نفسیات کا مطالعہ کیا۔ الحاد کے فروغ کے لیے کام کرنے والوں میں‬
‫سیکولر‪ ،‬لبرل فاسشٹ‪ ،‬عیسائی‪ ،‬قادیانی لوگوں کے عالوہ کچھ ایسے مسلم جوان بھی نظر آئے جو اپنے دینی عقائد و نظریات کے‬
‫علمی دالئل سے ناواقفیت اور ان کے خالف جھوٹے پراپیگنڈے کی وجہ سے دین سے بدظن اور بےزار ہوئے یا سہل پسندی اور‬
‫عیاشی کے حصول میں دین سے دور نکلتے چلے گئے اور چند ایسے بھی دیکھے جو تعلیم یافتہ اور منصف مزاج ہیں اور جن‬
‫شکوک و شبہات کا وہ شکار ہیں‪ ،‬ان موضوعات پر غیرجانبداری سے لکھنے کی کوشش کرتے ہیں‪ ،‬ان کا انداز بھی باقیوں سے‬
‫کافی بہتر اور علمی ہے۔ مجھے دینی راستے سے ان کے بھٹک جانے کی جو سب سے بڑی وجہ یا وہ کمی جس کی وجہ سے‬
‫یہ مطالعہ اور تحقیق کے باوجود حق تک نہیں پہنچ سکے یا کنفیوژن کا شکار ہوئے‪ ،‬نظر آئی‪ ،‬وہ ایک صالح‪ ،‬علم و عمل والے‬
‫شخص کی صحبت‪ ،‬ایک امین ناصح کے مشورے اور راہنمائی کا نہ ہونا تھی۔ بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے سینکڑوں بڑی اچھی‬
‫اور تحقیقی کتابوں کا مطالعہ کیا‪ ،‬لیکن ہدایت نہیں پاسکے بلکہ الٹا مزید گمراہ ہوتے چلےگئے۔ ایک ایسے ماحول میں جہاں ایک‬
‫طرف الحاد کی محنتیں عروج پر ہوں اور جدید سیکولر تہذیب کی چمک دھمک آنکھیں خیرہ کر رہی ہو اور دوسری طرف خود‬
‫مذہب کا یہ حال ہو کہ کئی قسم کے مسالک و مکاتب فکر پیدا ہوگئے ہوں‪ ،‬بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہوں اور کتابیں‬
‫تصنیف کی جا رہی ہوں‪ ،‬اس افراتفری کے ماحول میں اپنی مرضی سے چند اچھے برے رائٹرز کی اہم دینی موضوعات پر کتابیں‬
‫منتخب کر کے ان کا مطالعہ شروع کر دینا‪ ،‬ہرگری پڑی کتاب کو پڑھ لینا‪ ،‬کتاب کا محض ٹائٹل اور پرنٹنگ خوبصورت دیکھ کر‬
‫اسے پڑھنے بیٹھ جانا‪ ،‬نہ کتاب کے انتخاب میں کسی مربی اصالح‪ ،‬اچھے علم والے سے مشورہ کرنا اور نہ شکوک و شبہات پیدا‬
‫ہونے کی صورت میں کسی مصلح کی رہنمائی کی سعی کرنا‪ ،‬ایسی خشکی اور بوریت ہی پیدا کرسکتا ہے جو مذہب سے ہی بد‬
‫دل یا بےزار کردے۔‬
‫یہ بےلگام مطالعہ کی عادت ہمارے معاشرے میں بہت عام ہے حاالنکہ غور کیا جائے تو یہی فتنوں کی اصل جڑ ہے۔ ایک بزرگ‬
‫عالم لکھتے ہیں ”جتنے گمراہ فرقے پیدا ہوئے‪ ،‬ان کے بانی سب اہل علم ہیں‪ ،‬لیکن سب کے سب بغیر استاد اور رہبر والے‪ ،‬پس‬
‫شروع شروع میں تو ٹھیک چلتے ہیں‪ ،‬لیکن جب موڑ یا چوراہا آتا ہے‪ ،‬وہیں بھٹک جاتے ہیں اور عجب و کبر میں مبتال ہو کر‬
‫کسی کی سنتے بھی نہیں ہیں۔“ (مجالس ابرار ج‪،۱:‬ص‪ )۴۷:‬ایک اور جگہ لکھتے ہیں” ہر فتنے کے بانی پر غور کیجیے تو‬
‫یہی معلوم ہوگا کہ یہ کسی بڑے کے زیر تربیت نہیں رہا ہے۔ جب آدمی بے لگام ہوتا ہے اور کوئی اس کا مربی اور بڑا نہیں‬
‫ہوتا تو بگاڑ شروع ہوجا تا ہے اور وہ جاہ اور مال کے فتنے میں مبتال ہوجاتا ہے۔“ (مجالس ابرار ج‪،۲:‬ص‪)۲۵:‬‬
‫موالنا عبدالماجد دریابادی رحمہ اللہ کی مثال سب کے سامنے ہے۔ موالنا ایک ایسی نابغہ روزگار شخصیت کے مالک جنھوں نے‬
‫جس موضوع پر قلم ُاٹھایا حق ادا کردیا‪،‬ایک جید عالم دین‪ ،‬بے مثل ادیب‪ ،‬مرثیہ نگار‪ٓ ،‬اب بیتی نگار‪ ،‬عظیم کالم نویس‪ ،‬صحافی‬
‫اور مفسر قرٓان تھے۔ کالج کے زمانے میں اسی آزاد اور بےلگام مطالعہ کی عادت میں کسی الئبریری میں موجود مستشرقین کی‬
‫چند مشہور کتابیں پڑھ بیٹھے‪ ،‬پھر ایسے ملحد بنے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بھی گستاخیاں کرتے رہے‪ ،‬قابل‬
‫گردن زنی قرار پائے‪ ،‬سالوں مذہب کے خالف لکھا اور کھل کر لکھا۔ پھر عالمہ شبلی نعمانی‪ ،‬سید سلیمان ندوی جیسے علم و‬
‫عمل والے دوستوں کی صحبت اور کتابوں سے روشنی ملنی شروع ہوئی۔ اسالمی تصوف کی طرف آئے موالنا اشرف علی تھانوی‬
‫رحمہ اللہ سے اصالحی تعلق شروع ہوا شروع ہوا‪ ،‬موالنا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کے ہاتھ پر بیعت ہوئے۔ نوٹ فرمائیں کہ‬
‫ایک جید عالم کو اپنی روحانی اصالح کے لیے مستقل بیعت ہونا پڑا‪ ،‬عوام کو اس کی کتنی ضرورت ہوگی‪ ،‬پھر یہ تو آج سے‬
‫ستر اسی سال پہلے کی مثال ہے۔ اب تو حاالت مزید بدتر ہوچکے ہیں۔ اس دور میں اتنی آزاد خیالی اور فتنے نہیں تھے‪ ،‬مطالعہ‬
‫اور دینی تعلیم و تربیت کا رواج تھا جبکہ آج کے دور میں نہ دینی تربیت کا کوئی نظام ہے اور نہ مطالعے کا کوئی رجحان‪،‬‬
‫لوگ علمی لحاظ سے بالکل کورے اور کھوکھلے ہیں‪ ،‬دوسری طرف کتابوں اور میڈیا کے ذریعے ایسے فتنے سامنے آ رہے ہیں‬
‫جو علماء کو بھی پریشان کر دیں‪ ،‬ایسے ماحول میں تو عوام کو خصوصی طور پر پڑھنے‪ ،‬سننے میں بہت احتیاط اور بڑوں سے‬
‫مشورے کی ضرورت تھی‪ ،‬لیکن افسوس پہلے سے بھی زیادہ بےاحتیاطی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ ایک عالم شیخ جمال زرابوزو‬
‫لکھتے ہیں کہ ” آج کے دور میں بہت سے مسلمان ایسے ہیں جنہوں نے مغرب میں پرورش پائی یا پھر اپنی تعلیم مغرب سے‬
‫حاصل کی۔ یہ لوگ جو لٹریچر پڑھتے ہیں وہ زیادہ تر غیر مسلم مصنفین کا ہوتا ہے۔ اس لٹریچر میں بہت سے ایسے افکار بیان‬
‫کیے جاتے ہیں جو بظاہر تو بہت مفید‪ ،‬بےضرر اور اسالمی تعلیمات کے عین مطابق نہ سہی تو اسالمی اصولوں سے زیادہ دور‬
‫بھی نظر نہیں آتے۔ لیکن اگر ان افکار کا بغور جائزہ لیا جائے اور ان کے پِس پشت فلسفہ کو سمجھا جائے تو کسی بھی سلیم‬
‫فطرت انسان پر یہ بات واضح ہو جائے کہ ان کا اسالمی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں بلکہ بسا اوقات یہ آپ کو گمراہی اور‬
‫“الحاد کی طرف لے جاتے ہیں۔‬
‫اس دور میں علم و عمل والوں کی صحبت کی اہمیت اور ضرورت پہلے سےزیادہ ہے لیکن بہت سے لوگوں کو ہم دیکھتے ہیں‬
‫کہ انہیں بیعت‪ ،‬اصالح‪ ،‬تصوف کے الفاظ سے ہی سخت چڑ ہے‪ ،‬وہ صوفیاء کی کرامات‪ ،‬شطحیات‪ ،‬جعلی صوفیاء کے واقعات اور‬
‫تصوف کی مخصوص اصطالحات کو اپنی مرضی کے مطالب اور معانی کے ساتھ پیش کرکے تصوف کا رد کرتے نظر آتے ہیں۔‬
‫ہم مانتے ہیں کہ اسالمی تصوف میں غیر اسالمی عقائد و نظریات کی آمیزش ہوئی اور جعلی خانقاہوں اور پیروں کی آمد سے بہت‬
‫نقصان ہوا‪ ،‬بہت سی خانقاہیں جہاں مسلمانوں کو ایزد پرستی کا درس دیا جاتا تھا‪ ،‬ان کی روحانی اصالح ہوتی تھی‪ ،‬آج شخصیت‬
‫پرستی بلکہ قبر پرستی کا مرکز بنی ہوئی ہیں اور جہاں ہر طرف اتباع ر سول ص لی اللہ علیہ وسلم کے جلوے نظر آتے تھے ‪ ،‬آج‬
‫وہ خانقاہیں قوالی کی محفلوں میں تبدیل ہوگئی ہیں بلکہ شرک و بدعت کا مرکز بن گئی ہیں‪ ،‬شاید اقبال نے بھی اسی حالت کو‬
‫دیکھ کر فرمایا تھا۔‬
‫یہ معاملے ہیں نازک جو تری رضا ہو تو کر کہ مجھے تو خوش نہ آیا یہ طریق خانقاہی‬
‫لیکن دوسری طرف ہمیں یہی اقبال موالنا اشرف علی تھانوی اور موالنا روم کے متعقد بھی نظر آتے ہیں اور ان کی شاعری میں‬
‫بھی تصوفانہ رنگ نظر آتا ہے۔ اصل میں ضرورت افراط و تفریط سے بچنے کی ہے۔ ہمارے خیال میں اسالمی تصوف کو گمراہی‬
‫سمجھنے والے بھی اصالح کے معاملے پر متفق ہیں صرف انہیں مروجہ تصوف پر اعتراض ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا‬
‫جعلی ڈاکٹر وں کی وجہ سے کسی نے ڈاکٹروں کے پاس جانا اور عالج کروانا چھوڑا؟ جس طرح روحانی عالج کے شعبے میں‬
‫ہزاروں جعلی ڈاکٹر موجود ہیں‪ ،‬اسی طرح جسمانی عالج کے شعبے میں بھی ہیں‪ ،‬جنہیں عالج یا اصالح کی طلب ہوتی ہے‪ ،‬انہیں‬
‫کوئی مسئلہ نہیں ہوتا‪ ،‬وہ اپنامعالج ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ مزید جب دین کے کسی دوسرے شعبہ پر غلط لوگوں کے قبضےاور کمیوں‬
‫کوتاہیوں کی وجہ سے اس شعبے کو نہیں چھوڑا جاسکتا‪ ،‬تزکیہ و احسان یا تصوف و سلوک تو دین اسالم کی روح اور جان ہے‪،‬‬
‫اس کو کیسے چھوڑا جاسکتا ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ تو اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ایک ایسا رکن ہے جس کی‬
‫تکمیل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے مقاصد میں شامل تھی‪ ،‬اس کا انکار کیسے کیا جاسکتا ہے؟ اس گئے گزرے دور‬
‫میں بھی ایسی خانقاہیں اور مراکز موجود ہیں جہاں اہل علم وعمل بالکل اسالمی طریقہ پر لوگوں کی اصالح فرما رہے ہیں۔ یہ اللہ‬
‫کی سنت بھی ہے کہ جب بھی کوئی کتاب بھیجی ساتھ ایک رسول الزمی بھیجا جو لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا اور ان کا تزکیہ‬
‫کرتا۔ اسی طرح لوگ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہے تو صحابہ بن گئے اور جو صحابہ کی صحبت‬
‫میں رہے تابعین بن گئے‪ ،‬تابعین کی صحبت میں رہے توتبع تابعین بن گئے‪ ،‬یہ سلسلہ علم و دین ابھی تک چل رہا ہے۔موالنا‬
‫‪:‬تھانوی رحمہ اللہ کی کتاب سے ایک اقتباس پیش کرکے بات ختم کرتا ہوں۔ لکھتے ہیں‬
‫ہر شبہ کا جواب دینے سے شبہات رفع نہیں ہوسکتے‪ ،‬تم منشاء کا عالج کرو‪ ،‬جیسے ایک گھر کے اندر رات کو اندھیرے میں “‬
‫چوہے‪ ،‬چھچھوندر کودتے پھرتے تھے‪،‬گھر واال ایک ایک کو پکڑ کر نکالتا مگر پھر وہ سب کے سب دوبارہ اندر آجاتے۔ ایک‬
‫عاقل نے کہا کہ میاں! یہ سب اندھیرے کی وجہ سے کودتے پھرتے ہیں‪ ،‬تم لیمپ روشن کر دو‪ ،‬یہ سب خود ہی بھاگ جائیں‬
‫گے‪ ،‬چنانچہ لیمپ روشن کیا گیا تو وہ سب اپنے اپنے بلوں میں گھس گئے۔ اسی طرح یہاں بھی سمجھو کہ یہ وساوس و شبہات‬
‫جو آپ کو پیش آتے ہیں‪ ،‬ان کا منشاء ظلمت قلب ہے‪ ،‬جس کا عالج یہ ہے کہ قلب میں نور پیدا کر لو۔ وہ نور نورمحبت ہے۔‬
‫یہ محبت و عشق وہ چیز ہے کہ جب یہ دل میں گھس جاتی ہے تو پھر محبوب کے کسی حکم اور کسی قول و فعل میں کوئی‬
‫شبہ وسوسہ نہیں پیدا ہوتا۔ اگر ایک فلسفی پروفیسر کسی عورت پر عاشق ہو جائے اور وہ عورت اس سے یوں کہے کہ سر‬
‫بازار کپڑے اتار کر آئو تو میں تم سے بات کروں گی‪ ،‬ورنہ نہیں! تو فلسفی صاحب اس کے لیے بھی تیار ہوجائیں اور یہ بھی‬
‫نہ پوچھیں گے کہ بی بی! اس میں تیری مصلحت کیا ہے؟ اب کوئی اس سے پوچھے کہ آپ کی وہ عقل اور فلسفیت اس عورت‬
‫کے سامنے کہاں چلی گئی؟ عشق مولی کے کم از لیلی بود گوئے گشتن بہر او اولی بود میں نہایت پختگی سے دعوے کے ساتھ‬
‫کہتا ہوں کہ جن مسلمانوں کو آج کل مذہب میں شکوک و اوہام پیدا ہوتے ہیں‪ ،‬ان کے اس مرض کا منشاء قلت محبت مع اللہ‬
‫ہے‪ ،‬ان کو اللہ و رسول کے ساتھ محبت نہیں اور محض برائے نام تعلق کو تعلق کہا جاتا ہے۔ تعلق مع اللہ کے حاصل ہونے کا‬
‫واحد طریق صرف یہ ہے کہ اہل اللہ کی صحبت حاصل کی جائے‪ ،‬اہل محبت کی صحبت میں یہ خاصیت ہے کہ ا س سے بہت‬
‫جلد محبت پیدا ہوجاتی ہے جیسا کہ اہل غفلت کی صحبت سے غفلت پیدا ہوتی ہے‪ ،‬پھر جب محبت اور تعلق مع اللہ حاصل‬
‫ہوجائے گا‪ ،‬یہ لم و کیف باطل اور وساوس و شبہات سب جاتے رہیں گے۔“ (اشرف الجواب از موالنا اشرف علی تھانوی صفحہ‬
‫‪)562 ،561‬‬
‫تحریر محمد سعد‬
‫ملحدین کے ذات باری تعاٰل ی اور قبر و حشر کے متعلق سخت سوالوں کے منطقی و فلسفی جوبات اثبات باری تعالٰی ‪ ،‬توحید‪ ،‬تنزیہ*‬
‫و تقدیس‪ ،‬مسئلہ خیر و شر‪ ،‬مسئلہ رؤیت باری تعالٰی ‪ ،‬جبر و قدر(تقدیر)‪ ،‬نبوت‪ ،‬عام اعترضات‪ ،‬محمد رسول اللہ کی نبوت‪ ،‬خاتم‬
‫النبیین کی تفسیر‪ ،‬وجود باری تعالٰی ‪ ،‬جنت و جہنم کا وجود‪ ،‬قبر و برزخ کی زندگی‪ ،‬موت کے بعد زندہ ہونا اور قیامت کا وجود‪،‬‬
‫خدا کا وجود یہ اور ان جیسے سیکنڑوں ملحدین کے مشرکانہ سوالوں کے جامع و عقلی جوابات پر مشتمل بہترین وٹس ائپ‬
‫*گروپ‬
‫*گروپ نمبر‪ 1️⃣:‬لنک*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/Ke2feylEHdG6lVzArFtVoG‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 2️⃣:‬لنک*‬


‫‪https://chat.whatsapp.com/Fe4WnvQclaN91i5oql58EX‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 3️⃣:‬لنک‪/‬نوٹ‪ :‬تیسرا گروپ پشتو زبان والوں کیلئے ہے پوسٹنگ پشتو میں ہوتی ہے*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/EZxJ6qmgGpQ2zFxqAeV5uH‬‬
‫‪♡ ㅤ‬‬ ‫‪❍ㅤ‬‬ ‫⎙‬ ‫⌲‬
‫‪ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ‬‬ ‫‪ˢᵃᵛᵉ‬‬ ‫‪ˢʰᵃʳᵉ‬‬
‫*🛑رد الحاد کورس🛑* ‪[12/4, 10:09 AM] +92 332 9407835:‬‬
‫*الحاد_اسباب وحل‪*📌 12:‬‬
‫ِبْس ِم الّٰل ِِه الَّرْح َمِن الَّر ِح ْيم‬
‫*باب نمبر‪*🛑12:‬‬
‫*سبق نمبر‪:15‬علمی گمراہی کا سفر*‬

‫یہ کوئی طے شدہ ضابطہ تو نہیں ہے مگر موجودہ دنیا میں اکثر ایک مسلمان کی علمی گمراہی کا سفر ان مراحل سے ہو کر‬
‫‪.‬گزرتا ہے‬
‫٭منطق‪ ،‬فلسفے اور سائنس سے شدید ترین مرعوبیت‬
‫اس پہلے مرحلے پر وہ مذہب بیزار مغربی اقوام کی مادی ترقی سے آخری درجے میں مرعوب ہونے لگتا ہے‪ .‬وہ اس ترقی کے‬
‫پیچھے مختلف فلسفوں‪ ،‬منطق اور سائنس کو کھڑا پاتا ہے‪ .‬مغربی اقوام سے اس کے لگاؤ کا یہ حال ہوتا ہے کہ ان کا برا بھی‬
‫اسے اچھا لگنے لگتا ہے‪ .‬امور غیب جیسے مالئکہ‪ ،‬حیات بعد الموت وغیرہ کو بھی یہ سائنس کی لیبارٹری میں لے آنے کے‬
‫متمنی ہوجاتے ہیں‪ .‬انہیں ہر شے کے لئے اب فقط دلیل نہیں بلکہ ‘امپیرئیکل ایویڈینس’ درکار ہوتا ہے‪ .‬گویا یہ سمجھ کر نہیں‬
‫‪.‬بلکہ دیکھ کر ایمان النا چاہتے ہیں‪ .‬انہیں ‘ریشنلسٹ’ کہا جاتا ہے‬
‫٭مذہبی طبقے سے نفرت‬
‫اس کی نظر موجودہ عالم اسالم کی علمی پستی اور معاشی بدحالی کی جانب جاتی ہے تو اسے اس کے بڑے ذمہ دار مذہبی‬
‫ٹھیکے دار محسوس ہوتے ہیں‪ .‬لٰہ ذا اسے مولوی حضرات سے بناء تفریق نفرت ہونے لگتی ہے‪ .‬وہ انہیں ہر اس معاشرتی‪ ،‬سماجی‬
‫یا معاشی مسائل کا بھی مجرم گرداننے لگتا ہے جن سے ان کا دور کا بھی کوئی تعلق نہ ہو‪ .‬انہیں ہر اس شخص سے الجھن‬
‫ہونے لگتی ہے جس کی شرعی داڑھی ہو یا جو مسواک کرتا ہو یا ٹوپی پہنتا ہو‪ .‬انہیں ‘ناراض باغی طبقہ’ یا پھر ‘نیولیفٹسٹ’‬
‫‪.‬بھی کہہ سکتے ہیں‬
‫٭احادیث کا انکار‬
‫اس میں شک نہیں ہیں کہ اسالمی تاریخ اور احادیث کے ذخیرے میں بہت سی ایسی مثالیں موجود ہیں جو ایک انسان کو چکرا‬
‫دیتی ہیں‪ .‬مگر مسلمانوں نے ہمیشہ احادیث کے ذخیرے کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے اور ان کا انکار یا اقرار بعد از تحقیق اپنایا‬
‫ہے‪ .‬یہ شخص تحقیقی معیارات کو اپنانے کی بجائے مختلف احادیث (اخبار احاد) کا انکار اپنی ناقص سمجھ یا عقل کی بنیاد پر‬
‫کرنے لگتا ہے‪ .‬گویا ایسا نہیں ہے کہ وہ قطعی ثبوت کی بنیاد پر کسی ظنی حدیث کو ماننے سے انکار کررہا ہو بلکہ اس کے‬
‫قبول و رد کا واحد معیار اسکی محدود عقل یا سمجھ ہوتی ہے‪ .‬انہیں غلط طور پر لبرل کہا جاتا ہے‪ .‬ہمارے نزدیک اگر انہیں‬
‫‪.‬نام دینا ہی ہے تو ‘نیولبرل’ کہہ لیجیئے‬
‫٭قران حکیم کی من مانی تفسیر‬
‫اس مقام پر ایک شخص قران حکیم میں درج آیات کی من مانی تفسیر کرنے لگتا ہے‪ .‬ایسی تفسیر جو اس کے حساب سے‬
‫موجودہ سائنس‪ ،‬فلسفے اور منطق سے مطابقت رکھتی ہو‪ .‬گویا وہ قرآن حکیم کے اپنے پیغام کو سمجھنے کی بجائے‪ ،‬اس میں‬
‫سے اپنے من پسند فلسفے برآمد کرنے میں جت جاتا ہے‪ .‬اس مقام پر وہ مسلمانوں کی پوری تاریخ اور علمی ورثے کو ایک‬
‫سازش سمجھتا ہے‪ .‬لٰہ ذا نہ تواتر کی پرواہ کرتا ہے اور نہ ہی اجماع کا خیال کرتا ہے بلکہ لغت سے کھیل کر قرانی الفاظ کو‬
‫وہ وہ معنی فراہم کرتا ہے کہ انسان دنگ رہ جائے‪ .‬دوسرے الفاظ میں وہ پہلے اپنی ناقص عقل سے قران کی ایک غلط تفسیر‬
‫کرتا ہے اور پھر اسی غلط تفسیر کو قران کا اصل مقصود سمجھنے کی غلط فہمی پال لیتا ہے‪ .‬اس سمجھ کی راہ میں کوئی‬
‫قوی سے قوی حدیث بھی آجائے تو اسے یکسر مسترد کردیتا ہے اور اگر کوئی آیت رکاوٹ بنے تو اسے اصطالحی مفہوم دے‬
‫‪.‬دیتا ہے‪ .‬انہیں ‘منکرین حدیث’ کہا جاتا ہے‪ .‬گو یہ اکثر خود کو ‘قرانسٹ’ کہالنا پسند کرتے ہیں‬
‫٭مذہب کا انکار‬
‫یہ طبقہ مذہب سے اس درجے بدظن ہوچکا ہوتا ہے کہ اسے تمام مذاہب جعلی محسوس ہوتے ہیں‪ .‬یہ خدا کے وجود کو تسلیم‬
‫کرتا ہے‪ ،‬اسے خالق مانتا ہے‪ ،‬حیات بعد الموت تک کو تسلیم کرتا ہے مگر کسی بھی قسم کی شریعت کا منکر ہوجاتا ہے‪ .‬اس‬
‫کے نزدیک مذاہب لوگوں کےاپنے بنائے ہوئے ہیں جنہوں نے انسانیت کو فساد اور خون خرابے کے سوا کچھ نہیں دیا ہے‪ .‬یہ‬
‫خدا تک پہنچنے کے اپنے طریق بناتے ہیں جس کے لئے مختلف مراقبے اور طریقے اختیار کرتے ہیں‪ .‬یہ مغرب اور ہند میں‬
‫یکساں مقبولیت حاصل کررہے ہیں‪ .‬لفظ خدا کا استعمال یہ کم ہی کرتے ہیں‪ .‬اسکی جگہ یہ ایسی اصطالحات خدا کیلئے استعمال‬
‫کرتے ہیں جو جدید ذہن کیلئے زیادہ قابل قبول ہیں جیسے ‘سپریم کانشیسس نیس’ یا ‘کاسمک انٹلینجینس’ وغیرہ‪ .‬اوشو سے لے‬
‫‪.‬کر سدھ گرو تک یہی سلسلہ چل رہا ہے‪ .‬انہیں ‘اسپریچولسٹ’ کہا جاتا ہے‬
‫٭خالق کا اقرار مگر رب کا انکار‬
‫یہ افراد اس حقیقت کو تو تسلیم کرتے ہیں کہ اس کائنات کو الزمی بنانے والی ایک ذات موجود ہے‪ .‬وہی ذات ہر شے کی خالق‬
‫ہے مگر اس کائنات کو تخلیق کرنے کے بعد وہ ہم سے التعلق ہوگئی ہے‪ .‬جس طرح ایک گھڑی ساز کوئی زبردست گھڑی‬
‫تخلیق کرتا ہے‪ ،‬اس میں بہترین مشینری لگاتا ہے مگر پھر اسے چھوڑ دیتا ہے‪ .‬جب تک مشینری چلتی رہتی ہے‪ ،‬گھڑی بھی‬
‫چلتی رہتی ہے‪ .‬جس دب اس کی مشینری میں ٹوٹ پھوٹ ہونے لگتی ہے اسی دن گھڑی بھی ختم ہوجاتی ہے‪ .‬ٹھیک اسی طرح‬
‫شائد خالق نے اس کائنات کو تخلیق کر کے اس میں بہترین نظم تو رکھ دیا مگر اسکے بعد وہ اس سے التعلق ہوگیا‪ .‬اب جب‬
‫تک یہ ستاروں سیاروں کا نظم خودبخود چل رہا ہے تب تک کائنات قائم ہے‪ .‬ایک دن یہ نظم خود ہی تباہ ہو جائے گا اور ہم‬
‫سب مٹ جائیں گے‪ .‬نہ کوئی دوسری زندگی ہوگی اور نہ ہی کسی کے سامنے جواب دہی‪ .‬یہ آسان الفاظ میں روز جزاء کے‬
‫منکر ہیں اور انہیں اس طرح کے مفروضات بہت بھاتے ہیں کہ کسی خالئی مخلوق نے ہزاروں سال پہلے زمین پر آکر کلوننگ‬
‫‪.‬کے ذریعے ہماری نسل کو بنادیا‪ .‬ان افراد کو انگریزی زبان میں ‘ڈیسٹ’ کہا جاتا ہے‬
‫٭ہم نہیں جانتے‬
‫یہ افراد کہتے ہیں کہ خدا کے وجود اور خدا کے انکار دونوں کیلئے آج تک جو استدالل اور شہادتیں ہم تک پہنچی ہیں‪ .‬وہ اس‬
‫امر کیلئے ناکافی ہیں کہ ہم خدا کے وجود کو حتمی طور پر تسلیم کرسکیں یا پھر حتمی طور پر اس کا انکار کرسکیں‪ .‬لٰہ ذا یہ‬
‫اس بحث میں ہی نہیں پڑنا چاہتے کہ کائنات کو بنانے واال کوئی خدا ہے یا اسکی کوئی اور سائنسی توجیح ممکن ہے؟ ایسے‬
‫احباب کو ہم ‘ایگنوسٹک’ کے نام سے موسوم کرتے ہیں‪ .‬ایک سچا ایگنوسٹک پیغام اور دلیل کو لپک کر قبول کرتا ہے‪ .‬افسوس‬
‫کے ایسے ایگنوسٹک تعداد میں کم ہیں‪ .‬اکثر ہمیشہ ایگنوسٹک ہی بنے رہنا چاہتے ہیں‪ ،‬چاہے ان پر بات کتنی ہی واضح کیوں نہ‬
‫‪.‬ہوجائے‬
‫٭خدا کا انکار‬
‫یہ وہ افراد ہیں جو کسی بھی خالق کے وجود کا انکار کرتے ہیں‪ .‬یہ دراصل اپنی حقیقت میں ایگنوسٹک ہی ہوتے ہیں مگر مذہب‬
‫دشمنی یا مذہب کے نام پر کی گئی خونریزی و زیادتی سے اتنے زیادہ ناالں ہوتے ہیں کہ خدا کے ہونے کا کوئی بھی امکان‬
‫ماننے سے انکار کردیتے ہیں‪ .‬ان کا ایک طبقہ خاموش رہتا ہے مگر ایک بڑا طبقہ خدا کے انکار تک محدود نہیں ہے بلکہ‬
‫‪.‬تصور خدا سے دشمنی پر اتر آیا ہے‪ .‬انہیں ‘ایتھیسٹ’ یعنی ملحد کہا جاتا ہے‬
‫٭خالصہ‬
‫جیسا کے ابتداء میں ہم نے عرض کیا کہ بیان کردہ مراحل کوئی حتمی ضابطہ یا اصول یا فارموال نہیں ہیں‪ .‬آپ ان مراحل کو‬
‫ان بڑے فلسفوں کا ایک مختصر جائزہ کہہ سکتے ہیں جن سے آج کا ایک مسلم ذہن گزرتا ہے یا گزر سکتا ہے‪ .‬گمراہی کا یہ‬
‫سفر موجودہ دنیا میں اس قدر مزین کرکے پیش کیا جارہا ہے کہ مسافر اسے گمراہی نہیں بلکہ شعوری ارتقاء سمجھ بیٹھتا ہے‪.‬‬
‫اچھی بات یہ ہے کہ یہ سفر صرف اپر سے نیچے نہیں آتا بلکہ نیچے سے اپر بھی جاتا ہے‪ .‬یعنی بیان کردہ مراحل کی ترتیب‬
‫کو اگر الٹ دیں تو ایسے بیشمار انسان موجود ہیں جو الحاد کی دلدل سے نکل کر خدا کی بھرپور معرفت کا سفر کرتے ہیں‪.‬‬
‫یہی وجہ ہے کہ دعوت دین کیلئے انتہائی نامساعد حاالت کے باوجود امریکہ ہو‪ ،‬کوئی بھی یورپی ملک ہو یا پھر کوئی افریقی‬
‫‪.‬ریاست‪ .‬ہر جگہ اسالم سب سے زیادہ قبول کیا جانے واال مذہب ہے‬
‫تحریر عظیم الرحمان عثمانی‬
‫ملحدین کے ذات باری تعاٰل ی اور قبر و حشر کے متعلق سخت سوالوں کے منطقی و فلسفی جوبات اثبات باری تعالٰی ‪ ،‬توحید‪ ،‬تنزیہ*‬
‫و تقدیس‪ ،‬مسئلہ خیر و شر‪ ،‬مسئلہ رؤیت باری تعالٰی ‪ ،‬جبر و قدر(تقدیر)‪ ،‬نبوت‪ ،‬عام اعترضات‪ ،‬محمد رسول اللہ کی نبوت‪ ،‬خاتم‬
‫النبیین کی تفسیر‪ ،‬وجود باری تعالٰی ‪ ،‬جنت و جہنم کا وجود‪ ،‬قبر و برزخ کی زندگی‪ ،‬موت کے بعد زندہ ہونا اور قیامت کا وجود‪،‬‬
‫خدا کا وجود یہ اور ان جیسے سیکنڑوں ملحدین کے مشرکانہ سوالوں کے جامع و عقلی جوابات پر مشتمل بہترین وٹس ائپ‬
‫*گروپ‬
‫*گروپ نمبر‪ 1️⃣:‬لنک*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/Ke2feylEHdG6lVzArFtVoG‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 2️⃣:‬لنک*‬


‫‪https://chat.whatsapp.com/Fe4WnvQclaN91i5oql58EX‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 3️⃣:‬لنک‪/‬نوٹ‪ :‬تیسرا گروپ پشتو زبان والوں کیلئے ہے پوسٹنگ پشتو میں ہوتی ہے*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/EZxJ6qmgGpQ2zFxqAeV5uH‬‬
‫‪♡ ㅤ‬‬ ‫‪❍ㅤ‬‬ ‫⎙‬ ‫⌲‬
‫‪ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ‬‬ ‫‪ˢᵃᵛᵉ‬‬ ‫‪ˢʰᵃʳᵉ‬‬
‫*🛑رد الحاد کورس🛑* ‪[12/5, 9:56 AM] +92 332 9407835:‬‬
‫*الحاد_اسباب وحل‪*📌 12:‬‬
‫ِبْس ِم الّٰل ِِه الَّرْح َمِن الَّر ِح ْيم‬
‫*باب نمبر‪*🛑12:‬‬
‫*سبق نمبر‪:17‬موالنا دریا بادی کے سفر دہریت کی داستان*‬
‫۔‬

‫پیدائش مذہبی گھرانے میں ہوئی ‪ ،‬ماں اور بڑی بہن تہجد گزار‪ ،‬والد صوم صالۃ کے پابند‪ ،‬دادا مفتی اورنانا ایک مشہور عالم ‪،‬‬
‫دینی تربیت کا ماحول تھااس کے عالوہ ایک مولوی صاحب بھی پڑھانے آتے ‪ ،‬بارہ تیرہ سال کی عمر میں تو‬ ‫گھر میں‬
‫گویا پورے مال بن گئے تھے‪ ،‬نویں جماعت میں تھے قرآن کے موضوع پر ایک مضمون تیار کر کے صوبے کے سب سے‬
‫بڑے اخبار”اودھ اخبار”میں بھیج دیا ۔ مضمون پرچہ کی زینت بنا اور یہاں سے ان کی ادبی زندگی کا آغاز ہو گیا ۔کالج کے‬
‫لئے انہیں کیتگ کالج لکھنؤ میں داخل کرایا گیا۔ اختیاری مضامین کے طور پر منطق ‪ ،‬تاریخ اور عربی لئے۔یہ وہ مضامین تھے‬
‫جن میں ان کی اہلیت کالج کے معیار سے کہیں زیادہ تھی۔انگریزی الزمی مضمون تھا لیکن اس مضمون میں بھی کوئی‬
‫پریشانی نہ ہوئی ایک تو اس سے طبعی مناسبت تھی دوسرا انگریزی اخبار و جرائد مطالعے میں بھی رہا کرتے تھے ۔‬

‫ایک روز شام کی سیر کے دوران نگاہ “رفاہ عام الئبریری “پر پڑی ‪ ،‬قدم الئبریری کی جانب اٹھ گئے ۔اندر کتابو ں کا بازار‬
‫نظر آیا‪ ،‬ایک کتاب نکلوائی اور پڑھنے بیٹھ گئے ‪ ،‬اس دن کے بعد جب بھی سیر کو نکلتے تو یہیں کتابوں کی سیر‬
‫کرتے رہتے۔مطالعہ کی کثرت نے ان کے اندر کے ادیب کو بیدار کرنا شروع کر دیا تھا ۔کالج کے ابتدائی سال تھے عمر نا پختہ‬
‫تھی مگر کتابوں کے شغف نے اتنی معلومات فراہم کر دی تھی کہ تصنیف و تالیف کی جانب مائل ہو گئے۔ “محمود غزنوی ” پر‬
‫مفصل مقالہ لکھ ڈاال ‪،‬اس مقالہ میں تاریخ یمنی سے استفادہ کرتے ہوئے یہ بتایا کہ غزنوی پر بخل کا الزام لغو ہیں یہی کام‬
‫موالنا شبلی بھی انہی دنوں کر رہے تھے کہ فرزندان اسالم پر مغرب کے لگائے گئے الزامات کی تردید تاریخی حوالوں سے‬
‫کر رہے تھے۔ کتاب ایک پبلشر نے شائع کر کے ان کا نام بھی مصنفوں کی فہرست میں ڈال دیا‪ ،‬وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ‬
‫ان کے تعلقات دیگر اہم ادیبوں سے بھی استوار ہوتے چلے گئے۔‬

‫دیکھنے میں آئی ‪ ،‬ہر چیز کے پڑھنے اور پڑھ ڈالنے کا مرض‬ ‫محض اتفاقا‬ ‫اک عزیز کے پاس ا یک انگلش کتاب‬ ‫ایک دن‬
‫تو شروع ہی سے تھا‪ ،‬بے تکان اس کتاب کو بھی پڑھنا شروع کردیا‪ ،‬جوں جوں آگے بڑھتے گئے ‪ ،‬گویا اک نیا عالم عقلیات کا‬
‫‪Element of Social Science‬کھلتا گیا اور عقائد و اخالق کی پوری پرانی دنیا جیسے زیروزبر ہوتی چلی گئی!۔۔‬
‫کتاب کا نام تھااور مصنف ڈاکٹر ڈریسیڈیل جس کے بارے میں بعد میں پتا چال کہ یہ اپنے وقت کا ایک کٹر ملحد تھا۔ کتاب‬
‫مذہب پر نہ تھی اور نہ بظاہر اسکا کوئی تعلق ابطال مذہب سے تھا ‪ ،‬اصول معاشرت اور آداب معاشرت پر تھی ‪ ،‬لیکن ایک‬
‫بارود بچھی ہوئی سرنگ تھی ۔اس کا اصل حدف وہ اخالقی بندشیں تھیں جنہیں مذہب اب تک علوم متعارفہ کے طو ر پر پکڑے‬
‫ہوئے تھااور ان پر اپنے احکام کی بنیاد رکھے ہوئے تھا۔مثًال عفت و عصمت‪ ،‬کتاب کا اصل حملہ انہی بنیادی اخالقی عقائد پر‬
‫تھا۔۔کتاب کے مطابق یہ جنسی خواہش تو جسم کا ایک طبعی مطالبہ ہے اسے مٹاتے رہنا اور اس کے لئے باضابطہ عقد کا منتظر‬
‫رہنا ایک فعل عبث ہے‪،‬بلکہ صحت اور جنسی قوتوں کی بالیدگی کے لئے سخت مضر ہے۔اس لئے ایسی پابندیوں کو توڑ ڈالو اور‬
‫مذہب و اخالق کے گڑھے ہوئے ضابطہ زندگی کو اپنے پیروں سے روند ڈالو۔ایسے ہی کتاب کی زد ہر ایسی قدر پر پڑتی جو‬
‫مذہب اور اخالق کو ہمیشہ عزیز رہے ۔ کوئی پختہ کار مرد ہوتا تو وہ ان باتوں کو محض باتیں سمجھ کر نظر انداز کر دیتا‬
‫مگر یہ سولہ سال کا نوجوان طفل نادان تھا اس سیالب کی تاب نہ ال سکا۔ مذہب کی حمایت و نصرت میں اب تک جو قوت‬
‫جمع تھی ‪ ،‬وہ اتنی شدید بمباری کی تاب نہ السکی اور شک و بدگمانی کی تخم ریزی مذہب و اخالقیات کے خالف خاصی ہوگئی۔‬
‫یہ سوچنے لگ گئے کہ اب تک کس دھوکے میں پڑے رہے‪ ،‬تقلیدا ابتک جن چیزوں کو جزو ایمان بنائے ہوئے تھے وہ عقل‬
‫و تنقید کی روشنی میں کیسی بودی ‪ ،‬کمزور اور بے حقیقت نکلیں‪،‬اس کتاب میں “ایمان” پر براہ راست حملہ نہیں کیا گیا تھا‬
‫کوشش کی جاتی ہے کہ براہ‬ ‫مگر ان چیزوں کو کمزور بنا دیا گیا تھا جو ایمان کو قائم رکھتی ہیں۔پروپیگنڈے میں یہی‬
‫راست حملہ نہ ہو بلکہ اطراف و جوانب سے گولہ باری کرکے قلعے کی حالت مخدوش کردی جائے ۔ عبد الماجدا بھی اس کتاب‬
‫کو پڑھ کر پوری طرح گرے نہیں تھے مگر سنبھل بھی نہ سکے تھے ۔‬

‫یہ ایک نیا موضوع تھا جو اب تک ان کی نظر سے نہیں گذرا تھا ۔ شک وراتباب کی تخم ریزی ہوہی چکی تھی اور ملحد‬
‫اور نیم ملحد فلسفیوں کی انگریزی میں کمی نہیں تھی ۔ لکھنؤ کی “ورما الئبریری “ قریب ہی تھی ‪ ،‬وہاں سے چارلس بریڈال‪،‬‬
‫بوشنر‪ ،‬انگرسول‪ ،‬ہیوم‪ ،‬اسپنر کی کتابیں پڑھنے کو ملتی رہیں اور تشکیک کو غذا اور الحاد کو خوب تقویت پہنچتی رہی ۔‬
‫جو کئی جلدوں پر مشتمل تھی‬ ‫ایک ضخیم کتاب‬ ‫‪International Library of Famous Literature‬‬ ‫کے‬
‫نام سے دکھائی ‪ ،‬یہ کتاب بھی مذہبیات کی نہیں ادب محاضرہ کی تھی ‪ ،‬ساری دنیا کے ادبیات کے بہترین انتخابات کو اس‬
‫جلد قرآن اور اسالم کےذکر پر مشتمل تھی ۔اس میں ایک پورے صفحے کا فوٹو‬ ‫میں جمع کیا گیا تھا‪ ،‬اس کی ایک پوری‬
‫“بانی اسالم” کے نام سے شامل کیا گیا تھا اور نیچے مستند حوالہ کہ فالں قلمی تصویر کا عکس ہے ‘درج کیا گیا تھا‪ ،‬گویا‬
‫ہر طرح سے صحیح و معتبر ۔ جسم پر عبا‪ ،‬سرپر عمامہ اور چہرہ مہرہ پر بجائے کسی قسم کی نرمی کے غصیلہ پن‪،‬‬
‫تیوروں پر خشونت کے بل پڑے ہوئے‪ ،‬ہاتھ میں کمان‪ ،‬شانہ پر ترکش ‪ ،‬کمر میں تلوار۔ ۔ گویا تمام تر ایک ہیبت ناک و جالد‬
‫قسم کے بدوی سردار قبیلہ کی شبیہ ۔ ۔ نوجوانی میں فرنگیت سے مرعوب ذہنیت اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی کہ خود‬
‫اس فوٹو میں کوئی جلعسازی بھی ہوسکتی ہے اور انکی کوئی بات غلط بھی ہوسکتی ہے ۔۔ جو رہی سہی کسر تھی وہ‬
‫اس تصویر نے نکال دی ‪ ،‬ذات رسالت سے اعتقاد دیکھتے دیکھتے دل سے مٹ گیا۔رئیسانہ ٹھاٹ کے باوجود ان کی تربیت دینی‬
‫خطوط پر ہوئی تھی ‪،‬آباؤ اجداد سے ایک دینی روایت ساتھ چلی آرہی تھی‪ ،‬لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا دین کی آغوش میں پال بڑھا یہ‬
‫نوجوان پہلے ‪ ،‬دوسرے حملے میں ہی چت ہوگیا‪ ،‬گمراہی کے کتنے دروازے ہیں اور شیطان کی آمد کے لئے کتنے راستے‬
‫کھلے ہوئے ہیں‪ ،‬یہ کون جانتا ہے۔۔؟! نماز اب بھال کہاں باقی رہ سکتی تھی‪ ،‬پہلے وقت سے بے وقت ہوئی‪ ،‬پابندی گئی‪ ،‬پھر‬
‫ناغے اور کئی کئی ناغے ہونے لگے‪ ،‬یہاں تک کہ بالکل غائب ہوگئی‪ ،‬وضو‪ ،‬تالوت‪ ،‬روزہ وغیرہ سے کوئی واسطہ ہی نہ رہا‪،‬‬
‫شروع شروع میں کچھ خوف اور لحاظ والد کا رہا لیکن یہ کب تک کام دیتا‪ ،‬جو اسوقت اللہ اور اسکے رسول سے بغاوت‬
‫پر آمادہ تھا وہ باپ بیچارے کو کیا خاطر میں التا۔‬

‫مذہبی مطالعہ اس وقت بھی کچھ ایسا کم نہ تھا لیکن فرنگی الحاد کے جس سیالب عظیم سے ٹکراؤ تھااس سے مقابلے کے لئے‬
‫وہ مطالعہ ہرگز کافی نہ تھا‪،‬کفر کے اندھیروں میں اترنا ہی تھا کہ ایسے ہی دوستوں کی تالش بھی شروع ہوگئی ۔کالج کے ایک‬
‫ساتھی طالب علم محمد حفیظ سید سے یارانہ بڑھا ۔وہ بھی ملحد ہو چکا تھا اور ہندوانہ تصوف و فلسفے کا گردیدہ تھا۔فرق صرف‬
‫اتنا تھا کہ عبدالماجد ملحد یا منکر اور حفیظ تین چوتھائی ہندو ۔مالقاتیں بڑھتی گئیں اور ملحدانہ رنگ چڑھتا گیا۔ دبے دینی کی لے‬
‫بڑھ رہی تھی ‪،‬عبدالماجد نے کسی کے پاس لنکن کی ریشنلسٹ پریس ایسوسی ایشن کی ارزاں قیمت مطبوعات کی فہرست‬
‫دیکھی ‪ ،‬مسلک عقلیت (ریشنلزم ) کے پرچار کے نام سے یہ سب کتابیں رد مذہب و تبلیغ الحاد کے لئے تھیں ‪ ،‬پہلے یہ‬
‫کتابیں مانگ مانگ کر پڑھیں ‪ ،‬پھر جب لت پڑگئی اور نشہ اور تیز ہوگیا تو فیس ادا کرکے انجمن کا باضابطہ ممبر بن گئے‪،‬‬
‫فخر سے اپنے آپ کو ریشنلسٹ کہتے اور اپنے اس ننے منے کتب خانے کو دیکھ کر خوش ہوتے۔ہندوستان میں اس ایسوسی‬
‫کو قیمت بھیج کر اسکے خریدار بن گئے۔ رفتہ‬ ‫ایشن کی کو ئی شاخ نہیں تھی اس کے پندرہ روزہ نقیب ‘ ریشنلسٹ ریویو’‬
‫رفتہ اب اسالم کے نام سے بھی شرم آنے لگی۔‬

‫اسی دوران عالمہ شبلی کی کتاب “الکالم”منظر پر آئی‪ ،‬عبدالماجد نے مطالعہ کیا ۔ان کے مطابق کچھ خامیاں تھیں سو تنقید کے‬
‫لئے قلم اٹھا لیا ۔ ایک رسالہ”الناظر”جو لکھنؤ سے شائع ہوا کرتا تھااس کے ایڈیٹر ظفر الملک کو شبلی سے کد تھی ‪،‬‬
‫عبدالماجدکو اس سے بہتر دوسرا کوئی رسالہ دکھائی نہ دیا ۔رسالے نے بھی خوش آمدید کہا۔ عبدالماجدکا ایک طویل مقالہ چھے‬
‫اقساط میں شائع ہوا۔یہ قسطیں ایک طالب علم کے نام سے شائع کروائیں۔(شبلی سمجھتے رہے کہ یہ کام مولوی عبدالحق کا ہے‪،‬مگر‬
‫یہ راز بعد میں کھل گیا)۔ مختلف مضامین کی ترتیب و تسوید جاری رہی اور اس میں عبدالماجد کی عقل ہی ان کی امام اور‬
‫رہبر تھی۔ جو بھی مذہبی عقیدہ ان کی عقل کے معیا ر پر پورا نہ اترتا وہ بقول عبدالماجد ناقص تھا۔ مضامین میں عبدالماجد کا‬
‫لہجہ کڑوااور مسموم ہوتا حتی کہ مذہب و سائنس کے اختالفات کی تفصیل درج کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکال الئے کہ مذہب اب‬
‫چند روزہ مہمان ہے۔ جوں جوں سائنس کی تعلیم عام ہوتی جائے گی اسی نسبت سے مذہب کا اثر بھی زائل ہوتا جائے گا۔ان تمام‬
‫مضامین کا مقصود دراصل مذہب کو مجموعہ توہمات ظاہر کرنا تھا۔ان کا خیال تھا کہ اکثر مسائل میں بانیان مذہب غلطیوں اور غلط‬
‫فہمیوں کا شکار رہے۔ وہ تعلیمات مذاہب کو اللہ کی نہیں بلکہ انبیاء کی خودساختہ سمجھتے تھے ۔عبدالماجد کےان مضامین کا‬
‫رّد عمل بھی ہوا۔جن کا خالصہ یہ تھا کہ استدالل نہایت سطحی ہے‪ ،‬قرآن کریم کی بعض آیات کو سمجھنےمیں ٹھوکر کھائی ہیں۔‬
‫مصنف کا قلم اندھے کی لکڑی کی طرح ہے جو چاروں طرف گھوم رہی ہے کسی کے بھی لگ جائے۔‬

‫عبدالماجدکا الحاد اپنی جگہ لیکن “الکالم” پر تنقیدی اقساط اور دوسرے کئی مضامین کے ذریعے وہ اپنے آپ کو ایک ادیب تسلیم‬
‫کروا چکے تھے۔بعض ادیبوں سے ان کے تعلقات بھی استوار ہو چکے تھے جو ان کے خاندان سے واقف تھے انہیں دکھ ہوا کرتا‬
‫تھا کہ کیسے اشرف خاندان کا چراغ کن ہواؤں کے سامنے ہے۔ان کی تہجد گزار ماں کو جب علم ہوا تو دل پر قیامت گذر گئی۔‬
‫وہ جو دوسروں کو نماز و روزے کی تلقین کیا کرتی تھیں ان کا اپنا بیٹا منکر نماز و روزہ تھا۔ والد عبدالقادر صاحب وقت سے‬
‫پہلے بوڑھے ہو چکے تھے۔سب نے خوب سمجھایا ‪،‬پر سب بے سود۔ عبدالماجدکا مطالعہ وسیع تھا ‪ ،‬الحاد بھی استدالل پر مبنی‬
‫تھا‪،‬منطق و فلسفہ ان کے خاص مضامین تھے ‪،‬کوئی ان سے نہ جیت سکا‪،‬کوئی قائل نہ کر سکا۔سب نے انہیں ان کے حال پر‬
‫‪ :‬چھوڑ کر دعاؤں کا سہارا پکڑ لیااور معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں‬

‫”‬ ‫ذہنی ‪،‬فکری‪ ،‬عقلی اعتبار سے تو تماتر ایک فرنگی تھا‪ ،‬مسلمانوں سے میل جول بہت کم ہوگیا تھالیکن ابھی بھی جذباتی حیثیت‬
‫سے ایک مسلمان ہی تھا‪ ،‬ایک روشن خیال مسلمان ‪ ،‬مسلم قومیت سے میری جڑیں کٹنے نہ پائی تھیں‪ ،‬مسلم قومیت دین اسالم‬
‫کے بعد ایک بڑی نعمت ہے ‪ ،‬کوئی صاحب اسے بے وقعت وبے قیمت نہ سمجھیں‪ ،‬مجھے آگے چل کر اس کی بڑی قدر معلوم‬
‫ہوئی۔ حالت یہ تھی کہ کوئی غیر مسلم جب کبھی اسالم پر معترض ہوا‪ ،‬ارتداد کامل کے باوجود اپنا دل اسکی تائید کے‬
‫بجائے اسکو جواب دینے پر ہی آمادہ کرتا۔ اکتوبر ‪ 1911‬کا ذکر ہے‪ ،‬ایک بڑی مسیحی کانفرنس میں شرکت کے لیے مشہور‬
‫معاند اسالم پادری زویمر بھی بحرین سے آئے ‪ ،‬انکی شہرت عداوت اسالم کی ‪ ،‬ان سے قبل یہاں پہنچ چکی تھی۔ میں بی اے‬
‫کا طالب علم تھا اور عقیدۃ تما م تر منکر اسالم۔ اپنے ایک دوست مولوی عبدالباری ندوی کو ساتھ لے ‘ جھٹ ان سے ملنے‬
‫پہنچا‪ ،‬پادری صاحب اخالق سے پیش آئے لیکن حسب عادت چوٹیں اسالم پر کرنا شروع کردین۔ آپ یقین کیجیے کہ جوابات جس‬
‫طرح ندوی صاحب نے عربی میں دینا شروع کئے اسی طرح میں نے بھی انگریزی میں ۔ پادری صاحب پر یہ کسی طرح کھلنے‬
‫نہ پایا کہ میں تو خود ہی اسالم سے برگشتہ و مرتد ہوں‪ ،‬کسی پادری یا آریہ سماجی یا کسی اور کھلے ہوئے دشمن اسالم کا‬
‫اثر مطلق مجھ پر نہ تھا۔ متاثر جو کچھ بھی میں ہوا تھا‪ ،‬وہ تمام تر اسالم کے مخفی دشمنوں سے اور انکی تحقیقات سے ہوا‬
‫تھا ‪ ،‬جو زبان پر دعوی کمال بے تعصبی کا رکھتے تھے ‪ ،‬لیکن اند ر ہی اندر زہر کے انجکشن دیتے جاتے۔”(آپ بیتی صفحہ‬
‫‪)243 ،‬‬

‫دوسری طرف اپنی سوچ میں شدت پسند ی کا یہ حال تھا کہ کالج کے ساالنہ امتحان کے فارم میں مذہب کے فارم میں اسالم‬
‫کے بجائے “ریشنلسٹ”لکھنا باعث فخر سمجھتے۔انٹر کے بعد اسی کالج میں بی اے میں داخلہ لیا‪،‬مضامین بھی وہی خاص‬
‫تھے‪،‬عربی اور فلسفہ ۔مذہب کی مخالفت کے لئےفلسفہ ہی بڑا سہارا ہو سکتا ہےکیونکہ تمام تر تکیہ “عقل”پر کرتا ہے۔کالج کی‬
‫الئبر یری میں جتنی کتابیں فلسفے کی تھیں سب پڑھ ڈالیں۔ملح د وں و نیم ملح دوں کی کتابوں کے ساتھ وہ کتابیں بھی سامنے آئیں‬
‫‪:‬جنکا موضوع نفسیات تھا ان سے الحاد کو مزید تقویت ملی۔ آب بیتی میں لکھتے ہیں‬

‫اسالم اور ایمان سے برگشتہ کرنے اور صاف و صریح ارتداد کی طرف النے میں ملحدوں اور نیم ملحدوں کی تحریریں ”‬
‫ہرگز اس درجہ موثر نہیں ہوئیں جتنی وہ فنی کتابیں ثابت ہوئی جو نفسیات کے موضوع پر اہل فن کے قلم سے نکلی ہوئی‬
‫اصلی زہر انہی بظاہر بے ضرر کتابوں کے اندر‬ ‫تھیں۔ بظاہر مذہب سے کوئی تعلق نہیں رکھتی تھیں‪ ،‬نہ نفیا نہ اثباتا‪ ،‬لیکن‬
‫گھال ہوا مال۔ مثال ایک شخص گزرا ہے ڈاکٹر ماڈسلی اسکی دو موٹی موٹی کتابیں اس زمانہ میں خوب شہرت پائے ہوئے تھیں‪،‬‬
‫ایک مینٹل فزیالوجی (عضویات دماغی) اور دوسری مینٹل پیتھالوجی ( مرضیات دماغی)۔ اس دوسری کتاب میں اختالل‬
‫دماغی اور امراض نفسیاتی کو بیان کرتے کرتے یک بیک وہ بدبخت مثال میں وحی محمدی کو لے آیا اور اسم مبارک کی‬
‫صراحت کے ساتھ ظالم لکھ گیا کہ مصروع شخص کے لیے یہ بالکل ممکن ہے کہ وہ اپنا کوئی بڑا کارنامہ دنیا کے لئے‬
‫چھوڑ جائے۔۔! ایمان کی بنیادیں کھوکھلی تو پہلے ہی ہوچکی تھیں اب ان کم بخت ‘ ماہرین فن’ کی زبان سے اس قسم کی‬
‫!تحقیقات عالیہ سن کر رہا سہا ایمان بھی رخصت ہوگیا اور الحاد و ارتداد کی منزل تکمیل کو پہنچ گئی۔‬

‫صفحہ ‪)240‬‬ ‫ایمان کو عزیز رکھنے والے خدا کے لئے ان تصریحات کو غور سے پڑھیں ۔”(آب بیتی‬

‫اس دوران ایک آنریری مجسٹریٹ جو عبدالقادر صاحب کے قرابت دار بھی تھے ‘کی صاحبزادی عفت النساء سے عبدالماجد‬
‫مالقات ہوئی اور اس سے محبت کرنے لگے ۔آتش عشق بڑھی تو شاعر بھی بن گئے ‪،‬غزلوں پر غزلیں ہونے لگیں ۔ان‬ ‫کی‬
‫کچھ دنوں کے لئے وہ نہ مسلمان تھے نہ ملحد بس عاشق بن گئے تھے ۔کچھ غزلیں جمع ہوئیں تو سوچا کہ اکبر اٰل ہ آبادی کو‬
‫‪:‬دکھا دیں ۔اکبر کی جانب سے حوصلہ افزا جواب آیا تو دوسری غزل روانہ کی جس کا شعر تھا‬

‫جانبازیوں کو خبط سے تعبیر کر چلے‬

‫تم یہ تو خوب عشق کی توقیر کر چلے‬

‫اکبر نے خوب داد دی اور خوشی اور تعجب کا اظہار کیا ۔محبت میں دیوانگی کی حد عبدالماجد ضرور چھو رہے تھے مگر اپنے‬
‫علمی مرتبے سے بھی غافل نہ تھے ۔ ان کی دو کتابیں ۔”سائیکالوجی آف لیڈر شپ “اور “فلسفہ اجتماع “آگے پیچھے شائع ہوئیں۔‬
‫انہوں نے ان کتابوں میں پیغمبران عظام پر تعریضات کی تھیں اور ان پر خود غرضی کے الزامات لگائے تھے۔ یہ ایسی جسارت‬
‫تھی کہ اخبارات و رسائل خاموش نہ رہ سکے۔ایک ہنگامہ برپا ہو گیا۔مخالفانہ تبصرے شائع ہوتے چلے گئے۔سب سے اہم فتوٰی وہ‬
‫تھا جو احمد رضا خان بریلوی کی جانب سے شائع ہوا اور عبدالماجدکو کافر قرار دیا گیا۔اس کے ساتھ بہت سے فتوے ان کی عدم‬
‫تکفیر میں بھی شائع ہوئے۔جن میں موالنا عبدالباری فرنگی محلی ‪ ،‬سید سلمان ندوی اور موالنا شیر علی جیسے جید نام بھی تھے۔یہ‬
‫حضرات سمجھتے تھے کہ عبدالماجد غلط راستے پر پڑ گیا ہے اگر نرمی کا برتاؤ کیا جائے تو جلد ہی راستے پر آجائے گا‬
‫اگر سختی کی گئی تو مزید ضد پر آجائے گا ۔علما کا یہ برتاؤ اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ عبدالماجد کی علمی وقعت کے قائل‬
‫تھے۔وہ دھیرے دھیرے نرمی کے ساتھ انہیں اسالم کی طرف النا چاہ رہے تھے۔ ان کتابوں کی وجہ سے انکے خاندان میں بھی‬
‫چہ مگویاں بڑھ گئی تھیں ماں نے یہ حل سمجھا کہ اس کی شادی کر دی جائے ۔چنانچہ ‪2‬جون؁‪ 1916‬کو اس کا نکاح لکھنؤ‬
‫میں انجام پا گیا۔ممتاز شعرانے تاریخیں نکالیں اور سہرے لکھے۔‬

‫منکر ہو نہ کوئی اپنی ہمتائی کا‬

‫یہ کام کبھی نہیں ہے دانائی کا‬

‫اللہ نے اب غرور ان کا توڑا‬

‫دعوی تھا مرے دوست کو یکتائی کا‬

‫)سید سلیمان ندوی(‬

‫انہی دنوں عبدالماجد سخت معاشی پریشانیوں کا شکار بھی ہوئے ‪ ،‬والد فوت ہوچکے تھے ‪ ،‬پیسہ جس بنک میں تھا وہ دیوالیہ‬
‫ہوگیا۔ آخر دار المصنفین اعظم گڑھ ان کے کام آگیا۔ دارالمصنفین کی فرمائش پر جارج برکلے کی مشہور انگریزی کتاب کا‬
‫ترجمہ”مکالمات برکلے”کے نام سے کیا جو اس خوبی سے ہوا کہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہو گیا۔اس کے ساتھ ہی “معارف”کے لئے‬
‫معاوضے پر لکھنا شروع کر دیا اور گزر بسر ہوتی رہی۔؁‪ 1919‬کے اوائل میں نظام حیدر آباد سے ان شرائط پر وظیفہ کی‬
‫منظوری ہوئی کہ وہ سال میں ‪1‬تصنیف پیش کیا کریں گےاور اسکے خاکے کا مسودہ محکمہ احتساب کی نظر سے گزارنا‬
‫ہوگا ‪،‬محکمے کی منظوری کے بعد وہ کتاب مکمل کریں گے۔شرائط شائد اسی لئے لگائی گئی تھی کہ عبدالماجدکے الحادی‬
‫نظریات کو جانچ سکیں ۔‪125‬روپے ماہانا تا حیات منظور ہوگئےجو گھر بیٹھے انہیں ہر ماہ ملنے لگے۔اس دور میں متعدد ترجمے‬
‫ان کے قلم سے نکلے جن میں “تاریخ ‪،‬تمّد ن ‪ ،‬تاریخ اخالق یورپ”اور ناموران سائنس”بڑی اہم ثابت ہوئیں۔‬

‫مد کے بعد جزر‬

‫نظریات و افکار کی جنگ جو دس سال سے ان کے باطن میں چھڑی ہوئی تھی اس کے خاتمے کا دور آنے ہی واال تھا ۔ایک‬
‫ہلچل جو مچی تھی اس کو قرار ملنے ہی واال تھا۔تشکیک و الحاد کے اس حملے سے جس سے وہ مغلوب ہوئے تھے اب‬
‫اس سے نجات کا دن قریب آرہا تھا۔ان کی عقل پر ابر جہالت پھاڑ کر ایک نیا سورج طلوع ہونے اور ان کے اندر ایک نیا‬
‫انسان بیدار ہونے واال تھا۔ اور اس نئے انسان کی بیداری میں ان مسلمان دوستوں کا بڑا ہاتھ تھا جو ان کے دور الحاد میں‬
‫” بھی ان کے ساتھ ہی رہے۔ اپنی آپ بیتی میں لکھتے ہیں‬

‫اگر تھوڑی بہت کسی کی چپکے چپکے کارگر ہوتی رہیں ان دو ہستیوں کی‪ :‬ایک نامور ظریف شاعر اکبر “‬ ‫مخلصانہ کوششیں‬
‫الہ آبادی‪ ،‬بحث و مناظرہ کی انہوں نے کبھی چھاؤں بھی نہیں پڑنے دی اور نہ کبھی پندو موعظت ہی کی طرح ڈالی۔ بس موقع‬
‫بہ موقع اپنے میٹھے انداز میں کوئی بات چپکے سے ایسی کہہ گزرتے‪ ،‬جو دل میں اتر جاتی اور ذہن کو جیسے ٹھوکے دے‬
‫دیتے کہ قبول حق کی گنجائش کچھ تو بحرحال پیدا ہو کر رہتی۔ ایک روز بولے’ کیوں صاحب ‪ ،‬آپ نے تو کالج میں عربی‬
‫لی تھی‪ ،‬پھر اب بھی اس سے کچھ مناسبت قائم ہے؟ علم و زبان کوئی بھی ہو ‪ ،‬بحرحال اسکی قدر تو کرنی ہی چاہیے’۔ میں‬
‫نے کہا’ اب اس کے لکھنے پڑھنے کا وقت کہاں ملتا ہے’۔ بولے’ نہیں کچھ ایسا مشکل تو نہیں‪ ،‬قرآن کی بے مثل ادبیت کے‬
‫قرآن کے آخری پندرہ پارے عربی ادب کے کورس میں‬ ‫تو اہل یورپ بھی قائل ہیں‪ ،‬اور سناہے کہ جرمن یونیورسٹیوں میں‬
‫داخل ہیں‪ ،‬آپ عقائد نہیں‪ ،‬زبان ہی کے اعتبار سے قرآن سے ربط قائم رکھئے اور جتنے منٹ بھی روزانہ نکال سکتے ہوں اسے‬
‫پڑھ لیا کریں‪ ،‬جتنے حصے آپ کی سمجھ میں نہ آئیں‪ ،‬انہیں چھوڑتے جائیے اور یہ سمجھ لیجیئے کہ وہ آپ کے لیے نہیں‬
‫لیکن آخر کہیں تو کچھ فقرے آپ کو پسند آہی جائیں گے‪ ،‬بس انہی فقروں کو دو چار بار پڑھ لیا کیجیے ‪ ،‬آپ کے لیے کوئی‬
‫قید باوضو ہونے کی بھی نہیں”۔ یہ ایک نمونہ تھا انکی تبلیغ کا ۔ دوسری ہستی موالنا محمد علی جوہر تھے‪ ،‬بڑی زور دار‬
‫شخصیت تھی انکی ۔۔ کبھی خط میں اور کبھی زبانی‪ ،‬جہاں ذرا بھی موقع پاتے‪ ،‬ابل پڑتے اور جوش خروش کے ساتھ‪ ،‬کبھی‬
‫ہنستے ہوئے‪ ،‬کبھی گرجتے ہوئے اور کبھی آنسو بہاتے ہوئے تبلیغ کرڈالتے ۔ انکی عالی دماغی ‪ ،‬ذہانت‪ ،‬علم اور اخالص کا پوری‬
‫طرح قائل تھا اس لیے کبھی کوئی گرانی دونوں کی تبلیغ سے نہ ہوئی ۔ ایک تیسرا نام اور سن لیجیے ‪ ،‬یہ اپنے ایک ساتھی‬
‫”مولوی عبد الباری ندوی تھے ۔ دھیما دھیما انکا اچھا ہی اثر پڑتا رہا۔‬

‫اس تبدیلی میں کافی حصہ ان کتابوں کا بھی تھا جو ان کے مطالعے میں رہتی تھیں ۔کتابوں ہی نے انہیں بھٹکایا اور اب‬
‫کو‬ ‫کتابیں ہی انہیں راہ راست پر ال رہی تھیں۔ مذہبی یا نیم مذہبی قسم کے فلسفیوں کا مطالعہ شروع ہو ا ‪،‬حکیم کنفیو شس‬
‫بدھ مت ‪ ،‬پھر تھیاسوفی جو ہندو فلسفہ تصوف پر مشتمل کتاب ہے اوراس میں سارا زور روح اور اسکے‬ ‫پڑھا ‪ ،‬پھر‬
‫تقلبات پر اور رنگ کچھ حاضرات و عملیات سے ملتا ہے’ پڑھی ‪ ،‬اسکے عالوہ ہندو فلسفہ کے بڑے شارح و ترجمان ڈاکٹر‬
‫بھگوان داس کی ساری تحریریں پڑھ گئے ‪ ،‬کرشن جی کی بھگوت گیتا کے بھی جتنے نسخے انگریزی میں مل سکے سب پڑھ‬
‫ڈالے۔۔ ان کتابوں نے جیسے آنکھیں کھول دیں اور ایک بالکل ہی نیا عالم روحانیات یا مارواء مادیات کا نظر آنے لگا۔ خود‬
‫‪ :‬لکھتے ہیں‬

‫ڈیڑھ دو سال کے اس مسلسل مطالعہ کا حاصل یہ نکال کہ فرنگی اور مادی فلسفہ کا جو بت دل میں بیٹھا ہوا تھا‪ ،‬وہ شکست ”‬
‫ہوگیا اور ذہن کو یہ صاف نظر آنے لگا کہ اسرار کائنات سے متعلق آخری توجیہہ اور قطعی تعبیران فرنگی مادیین کی نہیں بلکہ‬
‫دنیا میں ایک سے ایک اعلی و دل نشین توجہیں اور تعبیریں اور بھی موجود ہیں اور روحانیات کی دنیا سراسر وہم وجہل اور‬
‫قابل مضحکہ و تحقیر نہیں ‪ ،‬بلکہ حقیقی اور ٹھوس دنیا ہے ‪ ،‬عزت و توقیر ‪ ،‬عمق اور تحقیق و تدقیق کے اعتبار سے گوتم‬
‫اور سری کرشن کی تعلیمات ہرگز کسی مل‪ ،‬کسی اسپنسر سے کم نہیں‪ ،‬بلکہ کہیں بڑھی ہوئی ہیں اور حکمائے فرنگ‬ ‫بدھ‬
‫انکے مقابلے میں بہت پست و سطحی نظر آنے لگے۔ اسالم سے ان تعلیمات کو بھی خاصہ بعد تھا لیکن بحرحال اب مسائل‬
‫حیات ‪ ،‬اسرار کائنات سے متعلق نظر کے سامنے ایک بالکل نیا رخ آگیا اور مادیت ‪ ،‬الادریت و تشکیک کی جو سربفلک‬
‫عمارت برسوں میں تعمیر ہوئی تھی‪ ،‬وہ دھڑام سے زمین پر آرہی۔ دل اب اس عقیدہ پر آگیا کہ مادیت کے عالوہ اور اس سے‬
‫کہیں ماورا و مافوق ایک دوسرا عالم روحانیت کا بھی ہے ‪ ،‬حواس مادی محسوسات ‪ ،‬مغیبات و مشہودات ہی سب کچھ نہیں ‪،‬‬
‫”انکی تہہ میں اور ان سے باال تر ‘ غیب’ اور مغیبات کا بھی ایک مستقل عالم اپنا وجود رکھتا ہے۔‬

‫الحاد و اتداد کا یہ دور دس سال تک رہا ‪ ،‬پھر ان تدریجی تبدیلیوں کے ساتھ آہستہ آہستہ اسالم کی طرف آنا شروع ہوئے۔‬
‫ابھی ابتداء ہی تھی کہ موالنا شبلی کی سیرۃ النبی کی جلد اول پریس سے باہر آگئی‪ ،‬دل کا اصلی چور تو یہیں تھا اورنفس شوم‬
‫کو جو سب سے بڑی ٹھوکر لگی تھی وہ سیرت اقدس کی ہی تو تھی اور خاص طور پر غزوات و محاربات کا سلسلہ۔ظالموں‬
‫‪ :‬نے نجانے کیا کچھ ان کے دل میں بٹھا دیا تھا اور ذات مبارک کو نعوذباللہ ایک ظالم فاتح دکھایا تھا۔ خود لکھتے ہیں‬

‫شبلی نے اصل دوا اسی دردکی کی‪ ،‬مرہم اسی زخم پر رکھا ۔ کتاب جب بند کی تو چشم تصور کے سامنے رسول عربی ”‬
‫صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر ایک بڑے مصلح ملک و قوم اور ایک رحم دل و فیاض حاکم کی تھی‪ ،‬جس کو اگر جدال و قتال‬
‫سے کام لینا پڑا تھا تو پھر بالکل آخری درجہ میں ‪ ،‬ہر طرح پر مجبور ہو کر‪ ،‬یہ مرتبہ یقیناآج ہر مسلمان کو رسول و نبی کے‬
‫درجہ سے کہیں فروتر نظر آئے اور شبلی کی کوئی قدروقیمت نظر نا آئے گی لیکن اس کا حال ذرا اسکے دل سے پوچھئے‬
‫جس کے دل میں نعوذبااللہ پورا بغض و عناد اس ذات اقدس کی طرف جما ہوا تھا ۔ شبلی کی کتاب کا یہ احسان میں کبھی‬
‫بھولنے واال نہیں”۔(آپ بیتی)‬

‫اسکے بعد مثنوی موالنا روم مطالعہ میں آئی ‪ ،‬پڑھنا شروع کی تو ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے جادو کردیا ہو‪،‬‬
‫کتاب چھوڑنا چاہیں بھی تو کتاب نہیں چھوڑ رہی ‪ ،‬ایسی کشش و جاذبیت کہ دیوانوں کی طرح ایک مستی کا عالم طاری ہے ‪،‬‬
‫نہ کھانے کا ہوش نہ پینے کا ‪ ،‬بس کمرہ بند کرکے خلوت میں کتاب پڑھے جارہے ہیں کہیں آنسو نکلے اور کہیں چینخ بھی‬
‫ادھر کتاب ختم ہوئی ادھرشکوک و شبہات بغیر کسی ردو قدح میں پڑے اب دل سے کافور تھے‪،‬پھر یہی حال‬ ‫پڑے ‪،‬‬
‫مکتوبات مجدد سرہندی کو پڑھ کر ہوا ۔الحاد کی گرہ کھل چکی تھی۔ مدتوں بعد وضو کر کے مصلے پر آئےاور خدا کے حضور‬
‫کھڑے ہو گئے کہ جسے وہ بھول چکے تھے۔گناہوں کا خیال آیا تو چینخیں نکل گئیں۔ عفت کی آنکھ کھلی شوہر کو اس حال میں‬
‫دیکھا تو شکر ادا کیا ‪ ،‬شوہر کے آنسوؤں میں پھر اس کے آنسو بھی شامل ہو گئے‪،‬رات بھر یہی حالت رہی اور فجر کی‬
‫نماز مسجد میں جاکر پڑی۔ایک دن گھر پر بیٹھے بیٹھے اپنے نکاح کا خیال آگیا کہ میں تو اس وقت کسی اسالمی رسم کا قائل‬
‫ہی نہ تھا جب نکاح ہو رہا تھا تو میں دل میں ہنس رہا تھا‪ ،‬بس نمائش میں بیٹھا تھا ۔دل سے تو قبول نہیں کیا تھا ۔بس تجدید‬
‫نکاح کی ٹھان لی بیوی سے ذکر کیا توً بولیں یعنی آپ مجھے بیوی بنانے پر آمادہ نہ تھے؟ کہا بالکل تھا ‪،‬مگر ایسے جیسے کہ‬
‫ایک ہندو ہوتا ہے ‪،‬نکاح کے وقت جب آیات پڑھی جارہی تھیں تب میں یہی سوچ رہا تھا کہ یہ کالم الہی نہیں ہے۔ ایک مولوی‬
‫صاحب کو بلوایا اور دوبارہ نکاح پڑھوایا ۔‬

‫تجدید اسالمی کے بعد جوش اٹھا تو آستانہ اجمیری پر حاضری دی۔ قوالیوں کی آوازیں چہار سو تھیں ‪ ،‬عرس کا زمانہ تھا‪ ،‬ہر‬
‫جانب لوگ ہی لوگ تھے ۔عبدالماجد کھدر کا لباس پہنے ہوئے تھے ‪ ،‬گورا رنگ‪،‬داڑھی سفید گول اور نورانی‪ ،‬نکلتا ہوا قد‪،‬آنکھوں‬
‫پر چشمہ‪ ،‬سر پر ٹوپی۔عارفانہ کالم پڑھا جانے لگا تو عبدالماجد بھی جھوم اٹھے۔لوگ حیران تھے مگر ان کے قلب کی کیفیت‬
‫کو کوئی سمجھ نہیں پا رہا تھا۔پھر چشم فلک نے انہیں درگاہ خواجہ بختیار کاکی رحمتہ اللہ علیہ ‪ ،‬شاہ مینا ‪ ،‬خواجہ نظام الدین‬
‫اولیاء کے چکر کاٹتے دیکھا۔ دولت ایمان تو اب بال شبہ نصیب ہوگئی تھی لیکن ابھی تک رواجی تصوف و خانقاہی مشیخیت میں‬
‫ٹھوکریں کھارہے تھے ۔ اپنی اصالح کے لیے کسی سے باقاعدہ بیعت ہونے کی ضرورت محسوس کررہے تھے لیکن عام‬
‫آدمی تو نہ تھے کہ آنکھ بند کر کے کسی کے بھی مرید ہو جائیں ان کا مرشد بھی انہی کے معیار کا ہونا چاہیئے تھا۔کبھی‬
‫‪ :‬سوچا کہ موالنا محمد علی جوہر سے بیعت کریں تو کبھی کسی دوسرے کا خیال آتا۔ خود لکھتے ہیں‬

‫مرشد کی تالش ایک عرصہ سے جاری تھی‪ ،‬تصوف اور سلوک کا ذخیرہ جتنا کچھ بھی فارسی ‪ ،‬اردو اور ایک حد تک ”‬
‫عربی میں ہاتھ لگ سکا تھا‪ ،‬پڑھ لیا گیا تھا‪ ،‬اتنی کتابیں پڑھ ڈالنے اور اتنے ملفوظات چاٹ جانے کے بعد اب آرزو اگر تھی تو‬
‫ایک زندہ بزرگ کی۔ حیدر آباد اور دہلی اور لکھنو جیسے مرکزی شہر اور اجمیراورکلیر‪ ،‬دیوہ اور بانسہ‪ ،‬رودلی اور صفی پور‬
‫‪ ،‬چھوٹے بڑے ‘ آستانے ‘ خدا معلوم کتنے دیکھ ڈالے اور سن گن جہاں کہیں کسی بزرگ کی بھی پائی‪ ،‬حاضری میں دیر نہ‬
‫لگائی ‪ ،‬حال والے بھی دیکھنے میں آگئے اور قال والے بھی‪ ،‬اچھے اچھے عابد ‪ ،‬زاہد ‪ ،‬مرتاض بھی اور بعض دوکاندار قسم‬
‫کے گیسو دراز بھی‪ ،‬آخر فیصلہ یہ کیا کہ انتخاب کے دائرے کو محدود کرکے حلقہ دیوبند کا تفصیلی جائزہ لیجیے۔ ۔ وصل‬
‫بلگرامی بولے کہ’ بہت دوڑ دھوپ آپ کرچکے ‪ ،‬ذرا ہمارے موالنا (موالنا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ)کا بھی تجربہ‬
‫کیجیے‪ ،‬سب کو بھو ل جائیے گا‪ ،‬تھانہ بھون اگر دور ہے تو قصد السبیل اور تربیت السالک وغیرہ تو میرے پاس ہی ہیں‪ ،‬ا‬
‫نہیں تو دیکھ ڈالیے’۔اچھا ! ان خشک مولوی صاحب نے تصوف پر بھی کچھ لکھا لکھایا ہے؟ خیر‪ ،‬دیکھ ڈالنے میں کیا مضائقہ‬
‫ہے۔ دوسری صبح کتابوں کے ساتھ وصل میرے ہاں لکھنو میں موجود۔ کتابیں پڑھ کر جب بند کیں تو عالم ہی دوسرا تھا ؛‬

‫اب نہ کہیں نگاہ ہے اب نہ کوئی نگاہ میں‬

‫جانا تھا‪ ،‬وہ بس جھک ماری تھی‪،‬‬ ‫اپنا جہل اپنے سامنے آئینہ معلوم ہوا کہ اب تک جو کچھ اس سلسلہ میں پڑھا تھا‪ ،‬سنا تھا‪،‬‬
‫پڑھتا جاتا تھا اور سطر سطر پر‪،‬‬ ‫تصوف کی حقیقت‪ ،‬طریق کی تعریف ‪ ،‬آج پہلی بار دل و دماغ کے سامنے آئی‪ ،‬قصد السبیل‬
‫تک کیوں نہ پڑھا تھا ‪ ،‬بارہ برس‬ ‫پردے نگاہوں سے ہٹتے جاتے تھے‪ ،‬رہ رہ کر طبیعت اپنے ہی اوپر جھنجھالئی تھی کہ اب‬
‫(حکیم االمت‪،‬صفحہ نمبر ‪)11 ،10‬‬ ‫کی مدت کوئی تھوڑی ہوتی ہے “۔‬
‫سال تک مراسالت پر دلوں کا حال بیان ہوتا رہا پھر خود تھانہ بھون‬ ‫تھانوی رحمہ اللہ سے مراسالت شروع ہوئے ‪ ،‬ایک‬
‫اتنے متاثر ہوئے کہ ایک جگہ لکھا کہ اگر میں عقیدہ تناسخ کا قائل ہوتا تو کہہ اٹھتا کہ‬ ‫پہنچ گئے۔ طویل نشستیں رہیں ‪،‬‬
‫امام غزالی رحمۃ اللہ دوبارہ تشریف لے آئے ہیں۔ بیعت کی بات کی تو حضرت تھانوی نے ان کا سیاسی میالن دیکھتے‬
‫ہوئےموالنا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کو کہا کہ وہ عبدالماجد کو بیعت کر لیں۔ عبدالماجددیوبند گئے اور حضرت مدنی کے ہاتھ‬
‫تھانوی رحمہ اللہ سے ہی رہا ۔ شیخ کی‬ ‫پر بیعت فرمائی۔بیعت مدنی رحمہ اللہ سے ہوئی مگر عقیدت اور اصالح کا تعلق‬
‫وفات کے بعد انکی سوانح عمری ‘حکیم االمت نقوش و تاثرات ‘ لکھی جو پانچ سو سے زائد صفحات پر مشتمل ہے‬
‫کے ساتھ بیتے لمحات‪ ،‬مالقاتوں کے احوال اور عقیدت و عشق‬ ‫کتاب کیا ہے ایک فلسفی مرید کے اپنے مرشد و مصلح‬
‫میں ڈوبے ہوئے تاثرات کا مجموعہ ہے ۔ اس کے عالوہ حضرت تھانوی کی ایک مشہور کتاب مناجات مقبول جو قرآ نی‬
‫قاری دعائیں پڑھنے‬ ‫و حدیثی دعاؤں کا خوبصورت گلدستہ ہے ۔ اسکی عام فہم زبان میں شرح لکھی ‪ ،‬شرح ایسی ہے کہ‬
‫کے بجائے دعائیں مانگنے پر مجبور ہوجاتا ہے ‪ ،‬دعاؤں میں مزا آنے لگتا اورالفاظ کی چاشنی اور عاجزانہ انداز قلب کی کیفیت‬
‫بدلت دیتا ہے۔‬

‫کچھ عرصہ بعد دریا باد منتقل ہوئے اور اس کی خاموشی میں کام کرنے کا خوب موقع مال۔ کئی ایسے ادبی مضامین قلم‬
‫سے نکلے کہ جو ہمیشہ یاد رکھے گئے ‪،‬غالب کا ایک فرنگی شاگرد‪،‬مررزا رسوا کےقّص ے‪،‬اردو کا واعظ شاعر‪ ،‬پیام اکبر‪ ،‬اردو‬
‫کا ایک بدنام شاعر‪،‬گل بکاؤلی ‪ ،‬مسائل تصوف اور موت میں زندگی وغیرہ ان مضامین نے تنقید کی دنیا میں ایک نئی جہت کا‬
‫آغاز کیا۔ تجدید اسالم کے بعد ایسے دور سے گذر رہے تھے کہ ان کا میالن زیادہ تر قرآن اور متعلقات قرآن ہی پر وقف‬
‫ہو گیا تھا ‪،‬تصوف بھی انکا خاص موضوع رہا ‪ ،‬سو ایک کتاب “تصوف اسالم ” لکھ ڈالی اور رومی کے ملفوطات کو‬
‫بھی ترتیب دیااورقرآن کے انگریزی ترجمے اور تفسیر جیسے بلیغ کام کا بھی آغاز کیا ۔‬

‫بیسویں صدی کا ہندوستان “اخبارات ” کا ہندوستان تھا ‪،‬کئی اکابرین نے صحافت کے نئے باب رقم کئے تھے‪ ،‬ہندوستان کی سیاسی‬
‫و مذہبی لہروں کی گونج اخبارات میں سنائی دے رہی تھی۔خود عبدالماجد ایک عرصہ اخبارات ورسائل سے وابستہ رہے تھے‪ ،‬سو‬
‫جانتے تھے کہ ہنگامی اور اہم موضوعات کو عوام تک پہنچانے کے لئے اخبارات سے بہتر کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔سوچا‬
‫کیوں نہ اپنا ایک اخبار ہی نکاال جائے‪ ،‬ادیب دوستوں سے مشاورت کے بعد اخبار کا نام “سچ” تجویز کیاگیا۔ تیاریاں مکمل ہوئیں‬
‫وقت ردبدعات ‪ ،‬معاشرے میں پھیلی فکری غلط‬ ‫اور عبدالماجد کی زیر ادارت ہفتہ وار اخبار پابندی سے نکلنا شروع ہوگیا۔ اس‬
‫تجدد اور ترقی پسندی کے پردے میں مغرب نقالی کا رد اخبار کے خاص موضوعات تھے۔ یہ دور‬ ‫کی اصالح‪،‬‬ ‫فہمیوں‬
‫کئی قسم کے فرقوں کی پیدائش‪ ،‬سیاسی افراتفری اور انتشار کا دور تھا‪ ،‬اس لیے سچ کو اپنی زندگی میں بڑی بڑی لڑائیاں‬
‫بھی لڑنا پڑیں‪ ،‬آج اس سے جنگ ہے تو کل اس سے۔شروع میں توجہ اصالح رسوم و ردبدعات پر ذیادہ تھی اس لیے قدرۃ اہل‬
‫اور وہابیت کا ترجمان ہونے کے القاب ملے‪ ،‬پھر جب سعودی شریفی آویزش پر نکتہ چینی شروع‬ ‫بدعات بھی ناراض رہے‬
‫تو بدعتیوں کا پشت پنا کہا گیا ‪ ،‬بعض ہم خیال طبقات کی دشمنی بھی مول لینی پڑی لیکن سچ لکھنے کے لئے عبدالماجد نے‬
‫کبھی مصلحت کو آڑے آنے نہ دیا۔ تنقید کی تو ہمیشہ ذاتیات کا پہلو بچا کر ‪ ،‬حق کو حق اور باطل کو باطل بال کسی‬
‫اور بغیر کسی تعصب کے کہا ۔ اپنے سابقہ تجربہ کی وجہ سے الحاد کی طرف جانے والے‬ ‫مسلک ‪ ،‬جماعت کے خیال‬
‫بالوجہ کی تجدد پسندی‪ ،‬روشن خیالی ‪ ،‬مذہب بیزاری اور فلسفیانہ مغالطے پھیالنے والوں‬ ‫تمام راستوں سے واقف تھے اس لیے‬
‫ہر محاذ پر رہا ‪،‬اسی طرح الحاد براستہ انکار حدیث سے تو مدتوں جنگ رہی ۔ نیاز فتح پوری کے الحاد و‬ ‫سے مقابلہ‬
‫فتنہ نگار کے علمی رد کے لیے مہینوں اپنے کو وقف رکھا ۔‬

‫سچ کی ہنگامہ آرائیوں میں مصروف رہ کر عبدالماجد اپنے خاص علمی کاموں سے دور ہوتے جا رہے تھے‪،‬قرآن مجید کے‬
‫“سچ”کو اس کارنامہ عظیم کی خاطر بند‬ ‫انگریزی اور اردو ترجمے و تفسیر کے لئے کافی وقت درکار تھا اس کے لیے آخر‬
‫کرکے پوری جانفشانی سے تفسیر کا کام شروع کیااور دریا باد کی تنہائیوں میں وہ کارنامہ سرانجام دینے لگے جو علوم دینی‬
‫میں ایک اہم باب کا اضافہ کرنے واال تھا۔ عبدالماجد مغربی علوم کے ماہر اور قدیم اور جدید تاریخ پر گہری نظر رکھنے والے‬
‫کی علمی یلغار کا مقابلہ بھی کرتے رہے‬ ‫تھے ‪،‬بائبل کے تمام ادوار انکی نظر میں تھے اور شروع میں پادریوں‬
‫تھا‪،‬ایک عرصہ تک مغربی فلسفہ سے متاثر ہوکر الحاد و‬ ‫تھے ۔اس کے عالوہ فلسفہ شروع سے انکا خاص موضوع رہا‬
‫تشکیک کا شکار رہے تھے اس لیے اسکی حقیقت کو بھی دوسروں سےذیادہ سمجھتےتھے ‪ ،‬شروع کی زندگی تو گزری ہی‬
‫ہمہ وقت فرنگی علوم و فنون ‪ ،‬فلسفہ و نظریات کی فتنہ سامانیوں اور معاشرے میں پھیلی فکری گمراہیوں کے علمی رد میں‬
‫مغربی‬ ‫تفسیر میں‬ ‫کیا‪،‬‬ ‫اس تفسیر میں پیش‬ ‫تھی ۔ اپنی گزری عمر کے اس سارے علم اور تجربے کا نچور‬
‫مفکرین‪ ،‬فلسفیوں‪ ،‬مبلغین کے اعتراضات اور پروپیگنڈے کے علمی جوابات بھی موجود ہیں اور اسکے اثرات سے پیدا ہونے‬
‫والے الدینیت الح اد و تشک یک کے امراض کا شافی عالج بھی ۔ مغربی فلسفہ ز دہ یور پ پلٹ معاشرہ کے لیے یہ تفسیر آب‬
‫موالنا نے اس میں رسمی تعبیرات اور اختالف اقوال کے بجائے عصر حاضر کے انسان کے ذہن کے‬ ‫حیات سے کم نہیں ۔‬
‫مطابق قرآنیات کی تفہیم و تشریح پر توجہ مرکوز رکھی اور قرآنی آیات والفاظ کی جو عصری تطبیق پیش کی اس میں‬
‫تفسیر بالرائے سے بچنے کی کوشش میں اکابر علمائے تفسیر کی تحقیق کو بھی مدنظر رکھا اس لیے جہاں تفسیر میں‬
‫بائبل‪ ،‬تور ات‪ ،‬وید‪ ،‬گیتا ‪ ،‬بدھ تعلیمات ‪ ،‬مجوسی مفک رین‪ ،‬قدیم و جدید فلسفیوں کے حوالہ جات اور انک ے مدلل جوابات نظر آتے‬
‫ہیں وہاں عظیم مفسرین کرام کی تفاسیر کے اقتباسات کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ آپ کو موالنا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کی‬
‫مستند ہیں ۔ مزید‬ ‫قرآن کے فقہی اور قانونی پہلو بھی‬ ‫اس لیے‬ ‫چونکہ ہر قدم پر ہدایات اور مشاورت میسر رہی‬
‫محض خشک علمی ابحاث پر مشتمل‬ ‫تفسیر‬ ‫چونکہ اردو کے بہت بڑے ادیب اور انشاپرداز بھی تھے اس لیے‬ ‫موالنا‬
‫نہیں بلکہ یہ اردو تفسیری ادب میں بھی بلند مقام رکھتی ہے‪ ،‬اس میں علم و ادب اور لفظ دانی و معنی شناسی کے حسین‬
‫امتزاج نے ادب سے لگاؤ رکھنے والے کی تشنگی بھی دور کی ہے۔‬

‫تفسیر ماجدی لکھتے لکھتے کئی اور کتابیں بھی ظہور میں آئیں جو بعد میں”اعالم القرآن‪ ،‬ارض القرآن‪ ،‬مشکالت القرآن”وغیرہ‬
‫کے نام سے شائع ہوئیں۔ یہ کام مکمل ہوا تو خاکے لکھنا شروع کر دیئے جنہیں کتاب کی صورت ملنے لگی۔ کسی عالم دین‬
‫سے کب توقع تھی کہ وہ سوانح نگاری ‪،‬خاکہ نگاری اور انشائی تحریروں میں بھی دماغ کھپائے گا لیکن عبد الماجدنے تو جیسے‬
‫تہہ کر لیا تھا کہ وہ ادب کے ہر گھر میں جھانکے بنا نہیں رہیں گے۔شاعری بھی کی اور غزل کو ہاتھ لگایا‪ ،‬تنقید بھی کی اور‬
‫تحقیق تو ان کا خیر میدان ہی تھا ۔ یوں مسائل القصص‪ ،‬الحیوانات فی القرآن‪ ،‬ارض القرآن‪،‬اعالم القرآن‪ ،‬بشریت انبیاء‪ ،‬سیرت نبوی‬
‫قرآنی ‪،‬اور مشک الت القرآن جیسی کتب پڑھنے والوں کے سامنے آئیں۔‬

‫عبد الماجد کی صحت ہمیشہ سے ہی ناساز رہی تھی ۔ ملیریا کے ساالنہ حملوں اور مسلسل نزلے کے باعث بینائی متاثر ہو چکی‬
‫تھی ۔ ‪80‬سال پار کرنے کے بعد قوت ارادی بھی جواب دینے لگی۔ایک دن اپنی بیٹیوں کو پاس بال کر اپنی کتابوں کی تقسیم‬
‫بھی کر وادی کہ انگریزی کی کتابیں ندوہ کے دارالمطالعے کو اور اردو‪،‬عربی اور فارسی کی کتب مسلم یورنیورسٹی کو دے دیں۔‬
‫دسمبر کا مہینے کا آخر تھا کہ نیا حملہ فالج کا ہو ا‪ ،‬حواس قائم نہ رہے تھے‪،‬بار بار غفلت طاری ہو جاتی تھی لیکن اس عالم‬
‫میں بھی بار بار ہاتھ کان تک اٹھاتے اور اس کے بعد نیچے ال کر نماز کے انداز میں باندھ لیتے تھے۔ایک روز اپنی منجھلی‬
‫بیٹی کو بال کر کہنے لگے کہ “وہ جو آتا ہے ف۔۔۔”بیٹی نے جملہ مکمل کیا کہ”فرشتہ؟”بولے ۔”ہاں”اور داہنی جانب اشارہ کیا‬
‫اور کہا “آگیا ہے۔”اس واقعے کےچار دن بعد ہی ‪6‬جنوری‪1977‬صبح ساڑھےچار بجےخاتون منزل (لکھنؤ)میں خالق حقیقی سےجا‬
‫ملے۔نماز جنازہ وصیت کے مطابق نماز ظہر کے بعد ندوۃالعلماء کے میدان میں موالنا ابو الحسن ندوی رحمہ اللہ نے پڑھائی۔‬
‫دریا باد میں آپ کی تدفین ہوئی۔‬

‫‪ :‬مستفاد‬

‫جناب ڈاکٹر تحسین فراقی کی تص نیف “عبد الماجد در یا بادی ‪،‬احوال و آثار ‪1-‬‬

‫عبدالماجد دریا بادی کی سوانح” آپ بیتی‪2-‬‬

‫حکیم االمت از موالنا دریابادی ‪3-‬‬


‫ملحدین کے ذات باری تعاٰل ی اور قبر و حشر کے متعلق سخت سوالوں کے منطقی و فلسفی جوبات اثبات باری تعالٰی ‪ ،‬توحید‪ ،‬تنزیہ*‬
‫و تقدیس‪ ،‬مسئلہ خیر و شر‪ ،‬مسئلہ رؤیت باری تعالٰی ‪ ،‬جبر و قدر(تقدیر)‪ ،‬نبوت‪ ،‬عام اعترضات‪ ،‬محمد رسول اللہ کی نبوت‪ ،‬خاتم‬
‫النبیین کی تفسیر‪ ،‬وجود باری تعالٰی ‪ ،‬جنت و جہنم کا وجود‪ ،‬قبر و برزخ کی زندگی‪ ،‬موت کے بعد زندہ ہونا اور قیامت کا وجود‪،‬‬
‫خدا کا وجود یہ اور ان جیسے سیکنڑوں ملحدین کے مشرکانہ سوالوں کے جامع و عقلی جوابات پر مشتمل بہترین وٹس ائپ‬
‫*گروپ‬
‫*گروپ نمبر‪ 1️⃣:‬لنک*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/Ke2feylEHdG6lVzArFtVoG‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 2️⃣:‬لنک*‬


‫‪https://chat.whatsapp.com/Fe4WnvQclaN91i5oql58EX‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 3️⃣:‬لنک‪/‬نوٹ‪ :‬تیسرا گروپ پشتو زبان والوں کیلئے ہے پوسٹنگ پشتو میں ہوتی ہے*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/EZxJ6qmgGpQ2zFxqAeV5uH‬‬
‫‪♡ ㅤ‬‬ ‫‪❍ㅤ‬‬ ‫⎙‬ ‫⌲‬
‫‪ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ‬‬ ‫‪ˢᵃᵛᵉ‬‬ ‫‪ˢʰᵃʳᵉ‬‬
‫*🛑رد الحاد کورس🛑* ‪[12/5, 9:56 AM] +92 332 9407835:‬‬
‫*الحاد_اسباب وحل‪*📌 12:‬‬
‫ِبْس ِم الّٰل ِِه الَّرْح َمِن الَّر ِح ْيم‬
‫*باب نمبر‪*🛑12:‬‬
‫*سبق نمبر‪:18‬مقدمہ دہریت*‬
‫‪44‬‬
‫دہریت مغالطوں کا نام ہے اور ایسے مغالطوں کی بنیادی وجہ کم فہمی کم عقلی اور معلومات کا صحیح اور مکمل نہ ہونا ہے‬
‫دہریت کہتی ہے‬

‫”‬ ‫مذہبی لوگوں کا خدا یا خالق یہ دعوٰی کرتا ہے کہ وہ بہت منصف اور رحمدل ہے اور اپنی مخلوق سے بہت محبت کرتا ہے‬
‫– اس پوسٹ میں اصل میں تخلیق کار کے اس دعوے کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایسا نہیں ہے – یہ‬
‫کائناتی نظام ظلم ‪ ،‬بربریت اور ناانصافی کی وجہ سے قائم ہے اگر ظلم اور ناانصافی نہ ہو تو یہ نظام قائم نہیں رہ سکتا –‬
‫مذہبی کا نقطۂ نظر یہ ماننا ہے کہ تخلیق کار انصاف پسند اور رحم کرنے واال ہے اور ملحد اس نظام کو ایک بےرحم اور‬
‫سنگدالنہ نظام سمجھتا ہے مثال کے طور پر ایک انسان کو خدا نبی منتخب کر لیتا ہے اور ایک کو طوائف کے گھر میں دالل بنا‬
‫دیتا ہے وغیرہ وغیرہ – اس بغیر کسی مشقت کے بناے ہوے نبی کو حوض کوثر کا ساقی بنا دیتا ہے یا ایک انسان کو جنت‬
‫کے نوجوانوں کا سردار بنا دیتا ہے – جس طرح کی قربانی حسین نے دی تھی اس سے زیادہ قربانی تو اور مسلم لوگوں نے‬
‫فلسطین ‪ ،‬کشمیر یا بوسنیا وغیرہ میں دی ہوگی – حسین کی اہل بیت عورتوں کی تو عزت محفوظ رہی مگر اور لوگوں کی‬
‫”عورتوں کی تو عزت بھی محفوظ نہ رہی – پھر حسین کو سردار ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟‬

‫آپ کا بنیادی مقدمہ جو کسی اور مقدمے کا ابتدایۂ ہے یعنی اسکی حیثیت کسی بنیادی گفتگو کی تمہید سے زیادہ کچھ نہیں ہے اب‬
‫”‪ ….‬اسکو اور اختصار سے پیش کرتے ہیں‬

‫‪…..‬اہل مذہب کا خدا اپنے دعوٰی کے مطابق منصف و عادل نہیں ہے ” ایک الحادی دعوٰی‬
‫اب اگر یہ دعوٰی ثابت ہوجاوے تو پھر اس مقدمے کی بنیاد رکھنا آسان ہوگی کہ اصل میں سرے سے کوئی خدا موجود ہی نہیں‬
‫‪ …..‬ہے‬

‫اب یہاں ایک پیراڈوکس پیدا ہوگایعنی اگر یہ تسلیم کر لیا جاوے کہ کوئی خدا نہیں ہے تو پھر اس غیر مبدل حقیقت جو ہمارے‬
‫مابین تسلیم شدہ ہے کہ یہ کائنات تضادات کا مجموعہ ہے اسکی کیا توجیہ ممکن ہوگی……؟یعنی کائنات میں تضادات ہونا ایک مستقل‬
‫… حقیقت ہے مذہب کہتا ہے یہ خالق کی منشاء ہے لیکن الحاد اسکی کوئی بھی توجیہ کرنے سے قاصر ہے یعنی بلکل الجواب‬

‫‪ ….‬ایک اور لطیفہ اسوقت پیدا ہوگا کہ اگر آپ یہ تسلیم کرلیں کہ خدا ہے تو مگر منصف نہیں ہے‬

‫لیجئے اب جب آپ نے یہ تسلیم کرلیا کہ خدا ہے تو منصف یا غیر منصف کی بحث ہی ختم …‪.‬اب انصاف کی وضاحت ہو‬
‫کیونکہ خالق و مخلوق کا ہونا بھی انصاف نہیں یعنی ایک رب اور دوسرا بندہ اور اگر رب دوسرا رب تخلیق کرلے تو پھر وہ‬
‫…… رب ہی کہاں رہا وہاں تو شراکت ہو گئی‬

‫‪ ..‬یہاں اگر بنیادی تصور انصاف کی وضاحت ہو جاۓ تو حقیقت کھل کر سامنے آ جاۓ گی‬

‫اب ” انصاف ” کس چیز کو کہا جاۓ گا یعنی وہ بنیادی مصدر جو انصاف کو بیان کر سکے اور جس پر ہم اور آپ ایک پیج‬
‫‪ .‬پر آ سکیں‬
‫‪ ١‬مذہب‬
‫‪ ٢‬فلسفہ‬
‫‪ ٣‬مشاہدہ‬
‫‪ ٤‬تجربہ (سائنس )‬
‫‪ ٥‬عقل محض‬

‫انصاف تو ایک طرف رہا انسان کے لیے مصیبت یہ ہے کہ وہ کسی بھی ایک لفظ کی تعریف کرنے سے قاصر ہے – ہم کسی‬
‫بھی واقعہ کو علیحدہ سے اس کے تناظر میں دیکھ سکتے ہیں کہ یہ انصاف ہے کہ نہیں مگر اور دوسرے لفظوں کی طرح‬
‫انصاف کی بھی ایک جامع تعریف کرنے سے قاصر ہیں اور یہی حقیقت ہے – مثال کے طور پر اگر ایک آدمی ڈکیتی کرتے‬
‫ہوے کسی آدمی کو قتل کر دیتا ہے تو ہم کہہ دیتے ہیں کہ یہ بے انصافی ہے لیکن ہم یہ نہیں کہ سکتے کہ قتل کرنا بے‬
‫انصافی ہے کیونکہ جب ایک قاتل کو قانون کے رکھوالے قتل کرتے ہیں تو وہ انصاف ہوتا ہے – میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ‬
‫کوئی ایک جیسا فعل انصاف بھی ہو سکتا ہے اور بے انصافی بھی – اس لیے ہم ہر ایک واقعہ کو اس کے اپنے تناظر میں‬
‫دیک ھ کر فیص لہ کر سک تے ہیں کہ یہ واقعہ انص اف ےہ یا نہ یں – اس سلسلے میں آپ س ے گزار ش کروں گا کہ ہو سک ے تو آئین‬
‫کو پڑھ لیں۔ ‪ theory of relativity‬سٹائن کی‬

‫جب انصاف و نا انصافی کی کسی بھی مصدر سے جامع تعریف ممکن ہی نہیں تو پھر کسی کے منصف و غیر منصف ہونے کا‬
‫‪ …….‬مقدمہ ہی کیسے قائم کیا جا سکتا ہے‬
‫ہر شے کو اس کائنات میں یکساں مواقع فراہم کر دینا انصاف نہیں ہو سکتا بلکہ انصاف تو یہ ہوگا کہ لوگوں سے انکے دئیے‬
‫‪ ….‬گئے اختیارات کے مطابق سوال ہو‬
‫خدا نے کہیں بھی یہ دعوٰی نہیں کیا کہ میں نے کائنات میں سب کو یکساں مواقع فراہم کئے ہیں بلکہ ہر کسی سے اسکو فراہم‬
‫‪ .‬کردہ مواقع کے مطابق سوال ہوگا اس بات کا اعالن کیا ہے‬

‫ایک عجیب واقعہ مالحظہ کیجئے‬


‫ایک بچے نے دہریہ انکل سے سوال کیا انکل یہ ہاتھی اتنا بڑا اور چوہا اتنا چھوٹا کیوں ہوتا ہےانکل نے متانت سے جواب‬
‫دیا ‪ :‬دیکھو بیٹا یہ فطری نظام ہے کچھ چیزیں بڑی اور کچھ چیزیں چھوٹی ہوتی ہیں‬
‫لیکن انکل چوہا بڑا اور ہاتھی چھوٹا کیوں نہیں ہوتا ہاتھی اتنا سارا کھانا کھا جاتا ہے اور چوہے کو تھوڑا سا ہی ملتا ہے یہ‬
‫فطرت کون بناتا ہے‬
‫انکل تھوڑا جھنجالۓ دیکھو فطرت کوئی نہیں بناتا یہ تو بس ہوتی ہے اور اسمیں چوہا چھوٹا ہی ہوتا ہے اور ہاتھی بڑا ہی ہوتا‬
‫ہے ہاتھی کو زیادہ کھانے کی ضرورت ہوتی ہے اور چوہے کو کم …‪..‬بچے نے کچھ سمجھنے اور نہ سمجھنے کے انداز میں‬
‫سر ہالیا پھر اسکی آنکھوں میں شرارت ابھری اور اس نے سوال کیا انکل ایک بات تو بتائیں۔ کیا ؟ دہریہ انکل نے تحمل سے‬
‫‪….‬پوچھاآپ کی دم کیوں نہیں ہے …………‪.‬؟دہریہ انکل خاموشی سے دیکھتے رہ گئے‬
‫‪ ….‬کیونکہ یہ مسلہ فلسفیانہ ہے اسلئے اسکا جواب طریق فلسفہ پر ہی فراہم کیا جا سکتا ہے‬
‫اس کائنات کا مرکز اگر سورج کو تصور کیا جاوے تو ال محالہ اس بات کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ سورج کو دوسرے اجسام‬
‫سماوی پر فوقیت حاصل ہے اب اگر انتظامی اعتبار سے یہ سوال اٹھایا جاۓ کہ سورج ہی سورج کیوں ہے سورج چاند کیوں نہیں‬
‫یا سورج زمین کیوں نہیں تو یہ سوال اپنی اصل میں ہی لغو ہے کیونکہ کسی بھی دائرہ میں مرکز صرف ایک ہو سکتا ہے دو‬
‫‪ ……..‬نہیں ورنہ مرکز کو ہی توڑنا پڑے گا اگر ایک نظام شمسی میں دو سورج داخل کر دئیے جاویں تو نتیجہ مکمل تباہی ہوگا‬
‫جب بھی نظام زندگی کی بات ہوگی طبقاتی مدارج کا قائم ہونا امر الزم ہے ورنہ امور دنیوی کا قائم رہنا چلنا ممکن نہیں یہ ایسا‬
‫ہی ہے کہ آپ اس گروپ میں رہتے ہوے یہ سوال اٹھائیں کہ اسکا ہر ممبر ایڈمن کیوں نہیں یہ تو نہ انصافی ہے تو جناب کیا‬
‫کوئی گروپ ممبر یا اڈمنز آپکے موقف کو تسلیم کرتے ہوے اپنی ایڈمن شپ سے دستبردار ہوکر تمام ممبران کو یکساں اختیارات‬
‫‪ ……..‬فراہم کر دینگے ۔۔ہو سکتا ہے ایسے کسی سوال کی پاداش میں آپکو گروپ بدری کا پروانہ فراہم کر دیا جاوے‬
‫غور کیجئے سوچیے کسی بھی معاشرتی نظم کو چالنے کے لیے ناظمین اور کارکنان کی اختیاراتی تخصیص الزم ہے جسے کسی‬
‫کی نفسیاتی گرہ کشائی کیلئے پس پشت نہیں ڈاال جا سکتا۔‬
‫یہ عجیب بات ہے چلیے آپ کہتے ہیں کوئی خدا نہیں ہے تو پھر بھی دنیا میں موجود غیر متوازن و متعارض اشیاء تو موجود‬
‫ہیں …‪.‬اب اگر یہ سوال ہو درد زہ عورت کو کیوں ہوتا ہے مرد کو کیوں نہیں؟ عورت بچے کیوں دیتی ہے انڈے کیوں نہیں ؟‬
‫‪ ………….‬سانپ کے پاؤں کیوں نہیں ہوتے؟ آدمی پانی میں سانس کیوں نہیں لے سکتا؟ انسان مر کیوں جاتا ہے؟؟؟‬

‫‪ …..‬کیا جواب ہے ان تمام باتوں کے عقل کے پاس‬

‫اشیاء کی پہچان انکے تضاد میں ہے۔ رات کی پہچان دن سے ہے‪،‬ہر دو میں سے ایک کو ختم کر دیجئے دوسرا اپنی پہچان کھو‬
‫بیٹھے گا ۔ٹھنڈا گرم سے ہے‪ ،‬سخت نرم سے‪ ،‬کاال گورے سے‪ ،‬غم خوشی سے‪ ،‬دولت غربت سے …‪..‬اگر دنیا کی ہر چیز کو‬
‫یکساں کر دیا جاوے تو دنیا مشین بن جاۓ گی اسی لیے خالق نے تضادات سے تخلیق کی خوبی کو واضح کیا کیونکہ وہ حقیقی‬
‫‪ …..‬آرٹسٹ ہے‬
‫بنایا جاتا اب ہر شخص ایک ہی رنگ )‪ (module‬ویسے عجیب تو یہ ہے ذرا غور کیجئے دنیا کے تمام افراد کا ایک سانچہ‬
‫قد کاٹھ عمر صالحیت کا مالک ہو یعنی ہر ایک دوسرے کی یکساں نقل ہو تو کیا کوئی بھی معاشرتی یا انسانی نظام قائم رہ‬
‫…… سکے گا‬
‫اگر ایک موڈل انسان بنایا جائے جسکی آنکھ ناک کان ہر چیز پرفیکٹ ہو۔ جسکی رنگت جسمانی ساخت زبردست ہو اور جسمیں‬
‫‪ ….‬کوئی کمی موجود نہ ہو وہ ایک مکمل سپر مین ہو‬
‫……… اب تمام انسانوں کو اسی سانچے پر ڈھال دیا جاوے جیسے ہم کوپی پیسٹ کرتے ہیں لیجئے کنٹرول سی کنٹرول وی‬

‫اب یہ ہی اصول کائنات کی ہر شے پر الگو کردیجئے ۔ہر شے دوسرے کی ڈیٹو کوپی۔ اس شدید بیزار کن یکسانیت کا کائنات پر‬
‫کیا اثر ہوگا؟؟‬

‫عشق ‪،‬محبت ‪،‬نفرت‪ ،‬دوستی‪ ،‬پہچان‪ ،‬رشتے ‪ ،‬تعلقات ‪ ،‬ہمدردی ‪ ،‬سچ ‪ ،‬جھوٹ ‪ ،‬اچھائی ‪ ،‬برائی ‪ ،‬برتری ‪ ،‬محرومیہر انسانی‬
‫رنگ و جذبے کا کلی خاتمہ کیونکہ چیزیں اپنے تضادات سے پہچانی جاتی ہیں جب انکی ضد کو ختم کر دیا جاوے تو انکی اپنی‬
‫اصل بھی ختم ہو جائے گی …‪..‬خیر کو دنیا سے مکمل ختم کر دیجئے اب شر ہی موجود ہوگا لیکن شر کو پہچانئے گا کیسے‬
‫جب خیر کا وجود ہی نہ ہوگا ……‪.‬؟؟‬
‫اس کائنات کی سب سے عظیم خوبی ہی یکسانیت کا نہ ہونا ہے کوئی امیر ہے اور کوئی غریب اب انسان کا معلوم ہوگا کہ وہ‬
‫کتنا انسان ہے …اپنی زندگی پر ہی غور کیجئے آپ کبھی امیر ہیں۔۔ کبھی غریب۔۔ کبھی خوش اور کبھی دکھی۔۔ اب اپنی زندگی‬
‫کے ہر متضاد جذبے کو ختم کر دیں تو زندگی کا لطف ہی کہاں باقی رہے گا ……‪.‬؟؟‬

‫آپ کا اشکال حقیقت میں علمی سے زیادہ نفسیاتی ہے یہ ایک خاص سنڈروم ہے جس میں انسان اپنی موجودہ کیفیت سے فراری‬
‫ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ انکار کے راستے پر چلتا ہوا اپنی ذات کا بھی انکاری ہو جاتا ہے میں ہمیشہ ایک سوال اٹھا تا ہوں‬
‫‪…..‬‬
‫مذہبیت کو ایک طرف رکھ دیجئے اپ کائنات میں موجود تضادات کی کوئی علمی توجیہ بیان کیجئے۔۔ ایسا کیوں ہے۔۔‬

‫ایک عورت ‪ ،‬عورت کیوں پیدا ہوئی مرد کیوں نہیں؟‬

‫ایک بچہ کمزور تو دوسرا صحت مند کیوں ہے؟‬

‫دنیا کا ہر شخص آئین سٹائن یا نیوٹن کیوں نہیں؟‬

‫ہر آدمی بل گیٹس کیوں نہیں بن سکا؟‬

‫کیا اس سوال کا کوئی معقول جواب ہے آپ کے پاس …‪.‬؟؟‬

‫دانتے ‪ ،‬ڈکنز ‪ ،‬ٹیگور ‪ ،‬منٹو ‪ ،‬غالب ‪،‬‬ ‫ہر شخص شاعری کیوں نہیں کر سکتا؟ مصنف کیوں نہیں ہو سکتا ؟ ہر آدمی گویٹے‪،‬‬
‫شریف مہدی حسن کی طرح کیوں ُسروں‬ ‫اقبال کیوں نہیں ہو سکتا …‪..‬؟؟ہر بندہ خوبصورت آواز کا مالک کیوں نہیں میاں نواز‬
‫ابتداء سے اسطرح جانتا ہوں جو کسی نہ‬ ‫سے نہیں بلکہ َس روں سے کھیلتے ہیں …‪..‬میں بطور شاعر بغیر سیکھے ہوے الفاظ کو‬
‫شاعر انکو ایسا کیوں نہیں دیکھتا ……‪..‬؟؟‬ ‫کسی بحر وزن ردیف قافیہ کے ماتحت دکھائی دیتے ہیں ایک غیر‬

‫ال مذہبوں کے پاس ان باتوں کی کیا توجیہ ہے‬


‫…… سیدھا کہ دیجئے ال ادری بہت آسان ہے بات کو گھما پھرا کر کہنے سے‬
‫ابتداء آفرینش سے اب تک کی انسانی تاریخ میں انسانی معلومات ہمیشہ ڈیڈ اینڈ پر کھڑی دکھائی دیتی ہیں اور پھر وہ کہتا ہے ال‬
‫‪ ..‬ادری‬
‫مذہب ہمیشہ ان سوالوں کا جواب فراہم کرتا ہے جنکو اٰل ہیات کہا جاتا ہے۔ فلسفہ جو سائنس کی ماں ہے اسنے اپنی سی کوشش‬
‫‪…..‬ضرور کی ہے ان سواالت کے جوابات ڈھونڈنے کی لیکن قاصر رہا ہے‬

‫وہ بنیادی موضوعات جن کی تحقیق میں انسان صدیوں سے سرگرداں وہ یہ ہیں‬


‫‪ ١‬۔ خدا و صفات خدا‬
‫‪ ٢‬۔ ٹائم اور سپیس کی حقیقت‬
‫‪٣‬۔ کائنات کی ابتدا‬
‫‪٤‬۔ کائنات کی ماہیت‬
‫‪٥‬۔ خیر و شر‬
‫‪٦‬۔ غم اور خوشی‬
‫‪٧‬۔ روح‬
‫‪٨‬۔ عقل‬
‫‪٩‬۔ حیات و ممات‬
‫‪١٠‬۔ مقصد حیات‬

‫اور ان تمام کی توجیہ کرنے سے سائنس کلی طور پر قاصر رہی ہے اگر کچھ جواب انکا فراہم کیا ہے تو مذہب نے ہی کیا ہے‬
‫‪….‬‬
‫یہ وہ مضمون ہے جسے قرآن بہت پہلے بیان کر آیا ہے ) ‪ (Diversity‬دور جدید کا ایک فلسفہ ہے‬
‫‪َo‬يا َأُّيَها الَّناُس ِإَّنا َخ َلْقَناُك م ِّم ن َذ َك ٍر َو ُأنَثى َو َجَع ْلَناُك ْم ُش ُعوًبا َو َقَباِئَل ِلَتَع اَر ُفوا ِإَّن َأْك َر َم ُك ْم ِع نَد الَّلِه َأْتَقاُك ْم ِإَّن الَّلَه َع ِليٌم َخ ِبيٌر‬
‫اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم‬
‫ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو‪ ،‬بیشک اﷲ خوب‬
‫جاننے واال خوب خبر رکھنے واال ہے‬

‫ِلَتَع اَر ُفوا پہچان سکو‬

‫لوگوں کا مختلف ہونا ذر یعہ ےہ پہچ ان کا اسی کو آج‬ ‫)‪ (Diversity‬غور کیجئے‬ ‫کے نام سے تسلیم کیا جا رہا ہے مالحظہ‬
‫کیجئے‬

‫‪(The concept of diversity encompasses acceptance and respect.It means understanding‬‬


‫‪that each individual is unique,and recognizing our individual differences. These‬‬
‫‪can be alongthe dimensions of race, ethnicity, gender, sexual orientation, socio-‬‬
‫‪economic status, age, physical abilities, religious beliefs,political beliefs, or‬‬
‫‪other ideologies. It is the explorationof these differences in a safe, positive,‬‬
‫‪and nurturing environment.It is about understanding each other and moving‬‬
‫‪beyondsimple tolerance to embracing and celebrating therich dimensions of diversity‬‬
‫‪contained within each individual.‬‬
‫)‬

‫اب اپنے اذہان کو کھولیے اور بڑی تصویر دیکھئے آپ کی ذاتی محرومیاں کچھ ہونے کی خواہش اور کچھ نہ ہو سکنے کی کڑ‬
‫‪……(Diversity is difference. It is a natural phenomenon, intimately‬ہن سے باال تر ہوکر‬
‫‪related to uniqueness and identity. There is a rich world of discovery awaiting us‬‬
‫‪when we are ready to fully encounter our diversity. But first we have to lift our‬‬
‫)‪heads above the bustle around us and look at the big picture‬‬

‫اسی کو اقبال نے کہا ہے‬

‫دیکھ‬ ‫کھول آنکھ زمیں دیکھ‪ ،‬فلک دیکھ‪ ،‬فضا‬


‫دیکھ‬ ‫مشرق سےُابھرتے ہوئے سورج کو ذرا‬
‫دیکھ‬ ‫اس جلوہ بے پردہ کو‪ ،‬پردوں میں چھپا‬
‫دیکھ‬ ‫آیاِِم جدائی کے ستم دیکھ‪ ،‬جفا‬
‫دیکھ‬ ‫بے تاب نہ ہو معرکہِء بیم و رجا‬

‫‪،‬ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل یہ گھٹائیںیہ گنبِد افالک‬


‫یہ خاموش فضائیں یہ کوہ‪ ،‬یہ صحرا‪ ،‬یہ سمندر‪ ،‬یہ ہوائیں‬
‫تھیں پیِش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں‬
‫آئینہِء اّیام میں آج اپنی ادا دیکھ‬

‫سمجھے گا زمانہ ِتری آنکھوں کے اشارے‬


‫دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے‬
‫ناپید ِترے بحِر تخّیل کے کنارے‬
‫پہنچیں گے فلک تک ِتری آہوں کے شرارے‬
‫تعمیِر خودی کر‪ ،‬اَثِر آِہ رسا دیکھ‬

‫خورشیِد جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں‬


‫آباد ہے ِاک تازہ جہاں تیرے ہنر میں‬
‫جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں‬
‫جنت ِتری پنہاں ہے ِترے خوِن جگر میں‬
‫اے پیکِر گل کوِش ِش پیہم کی جزا دیکھ‬

‫سے‬ ‫نالندہ ترے عود کا ہر تار ازل‬


‫سے‬ ‫تو جنِس محبت کا خریدار ازل‬
‫سے‬ ‫تو پیِر صنم خانِہ اسرار ازل‬
‫سے‬ ‫محنت کش و خوں ریز و کم آزار ازل‬
‫دیکھ‬ ‫ہے راکِب تقدیر جہاں تیری رضا‬

‫عالمہ اقبال بال جبرئیل‬

‫‪(Diversity is a fundamental property of the universe, along with matter, energy,‬‬


‫‪space, time, relationship, unity, and many other phenomena that are present‬‬
‫‪everywhere. Everything that you see (or don’t see) that is different from anything‬‬
‫‪else — and every difference between them — is an aspect of diversity.‬‬
‫)‪So diversity exists. Everywhere. It is a fact of life.‬‬

‫اصل میں اس مختلف ہونے اور متضاد ہونے کی وجہ سے ہی انسان کے اندر موجود تحقیق جستجو اور مشکالت کے ہمالیہ سر‬
‫کہا جاتا ہے )‪ (explore‬کرنے کی خواہش کی تسکین ہوتی ہے جسکو‬
‫اقبال نے اس طویل مضمون کو ایک شعر میں باندھ دیا ہے‬
‫یہ کائنات ابھی ناتمام ہے‬
‫”شایدکہ آ رہی ہے دما دم صدائے “کن فیکوں‬

‫حسیب احمد حسیب‬


‫ملحدین کے ذات باری تعاٰل ی اور قبر و حشر کے متعلق سخت سوالوں کے منطقی و فلسفی جوبات اثبات باری تعالٰی ‪ ،‬توحید‪ ،‬تنزیہ*‬
‫و تقدیس‪ ،‬مسئلہ خیر و شر‪ ،‬مسئلہ رؤیت باری تعالٰی ‪ ،‬جبر و قدر(تقدیر)‪ ،‬نبوت‪ ،‬عام اعترضات‪ ،‬محمد رسول اللہ کی نبوت‪ ،‬خاتم‬
‫النبیین کی تفسیر‪ ،‬وجود باری تعالٰی ‪ ،‬جنت و جہنم کا وجود‪ ،‬قبر و برزخ کی زندگی‪ ،‬موت کے بعد زندہ ہونا اور قیامت کا وجود‪،‬‬
‫خدا کا وجود یہ اور ان جیسے سیکنڑوں ملحدین کے مشرکانہ سوالوں کے جامع و عقلی جوابات پر مشتمل بہترین وٹس ائپ‬
‫*گروپ‬
‫*گروپ نمبر‪ 1️⃣:‬لنک*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/Ke2feylEHdG6lVzArFtVoG‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 2️⃣:‬لنک*‬


‫‪https://chat.whatsapp.com/Fe4WnvQclaN91i5oql58EX‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 3️⃣:‬لنک‪/‬نوٹ‪ :‬تیسرا گروپ پشتو زبان والوں کیلئے ہے پوسٹنگ پشتو میں ہوتی ہے*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/EZxJ6qmgGpQ2zFxqAeV5uH‬‬
‫‪♡ ㅤ‬‬ ‫‪❍ㅤ‬‬ ‫⎙‬ ‫⌲‬
‫‪ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ‬‬ ‫‪ˢᵃᵛᵉ‬‬ ‫‪ˢʰᵃʳᵉ‬‬
‫*🛑رد الحاد کورس🛑* ‪[12/6, 9:37 AM] +92 332 9407835:‬‬
‫*الحاد_اسباب وحل‪*📌 12:‬‬
‫ِبْس ِم الّٰل ِِه الَّرْح َمِن الَّر ِح ْيم‬
‫*باب نمبر‪*🛑12:‬‬
‫*سبق نمبر‪:19‬کیا الحاد کوئی علمی تحریک یا فکر ہے؟دیسی فری تھنکر اور ان کا علمی لیول*‬

‫الحاد کوئی “جدید فکر” نہیں ہے‪ ،‬بعض لوگوں کو الحق رہنے واال یہ نفسیاتی عارضہ بہت قدیم ہے اور خود رسول اللہﷺ کے‬
‫دور میں بھی ایسے خیاالت رکھنے واال گروہ موجود تھا جو زمانے ہی کو موثر مانتا اور مرنے کے بعد جی اٹھنے کو ناممکن‬
‫قرار دیتا تھا‪ ،‬قرآن میں ان پر تبصرہ موجود ہے۔ ہاں یہ بات درست ہے کہ نئے دور میں یہ عارضہ مذہب مخالفت میں “اپ ٹو‬
‫ڈیٹ” دکھنے کے “ایک فیشن” کے طور پر بھی متعارف ہوگیا ہے۔‬
‫جدید ملحدوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ انکی غالب بلکہ اغلب ترین اکثریت اندھی تقلید کرتی ہے مگر اس دھوکے کا شکار‬
‫ہے کہ وہ عقل کی بنیاد پر اور خوب سوچ سمجھ کر اپنے نظریات قائم کئے ہوئی ہے‪ ،‬انکی ‪ 95‬فیصد سے زیادہ اکثریت شوقیہ‬
‫و بطور فیشن ملحد ہوتی ہے جنہیں خود اپنی ہی فکر کے صغری کبری‪ ،‬مضمرات و حدود معلوم نہیں ہوتے۔ ان سے انکے اپنے‬
‫ہی ڈسکورس کے اصولوں کے مطابق سوال کیا جائے تو ‪ 95‬فیصد کو تو سوال ہی سمجھ نہیں آتا‪ ،‬جواب دینا تو درکنار۔ انکی‬
‫اکثریت اپنی فکر پر اٹھائے گئے علمی اعتراضات کا جواب دینے کے بجائے بس ایک ہی سٹریٹیجی پر عمل پیرا ہوتی ھے‪:‬‬
‫”مذھب کو کوسو”‪ ،‬کہ شاید لوگ اس پراپیگنڈے سے متاثر ہوکر اصل مدعے کو بھول جائیں (آپ کسی الحادی پیج‪/‬گروپ میں جا‬
‫کر ایک عدد علمی اعتراض کرکے دیکھ لیں آپ کو سبق مل جائے گا)۔‬
‫جن مسائل اور سواالت کے حل پیش کرنے سے خود انکے بڑے زعما قاصر آکر اب ان سواالت سے پیچھا چھڑانے کی کوشش‬
‫کرتے ہیں اور انہیں سنجیدہ نہیں لیتے (مثال اخالق یا وجود کی معنویت کا سوال‪ ،‬سائنس‪ ،‬ہیومن رائٹس یا جمہوریت کی آفاقیت کا‬
‫دعوی وغیرہ)‪ ،‬ہمارے دیسی ملحدین ہیں کہ ان مسائل کے جواب صادر کرنے کیلئے مضحکہ خیز بحثیں کرنے میں مصروف رہتے‬
‫ہیں وہ بھی متعلقہ مباحث سے واقفیت حاصل کئے بغیر ہی۔ یہ سب دیکھ کر ان ملحدوں کی عقلی کیفیت پر حیرانی ہوتی ہے کہ‬
‫ایک طرف عقل کا دعوی اور دوسری طرف ایسی عقل دشمنی۔‬
‫بینر میں دی گئی پکچر دیکھیے کیا اسی کو اندھا عقیدہ نہیں کہتے ہیں؟یعنی کسی دوسرے کی بات کو بال کسی تحقیق کے مان‬
‫لینا‪ ،‬اور اگر وقت پڑے تو اسے ثابت تک نہ کر پانا۔۔۔؟؟اگر یہی کام ایک مذہبی ذہن کرے تو دنیا لعن طعن کرے لیکن ایک ملحد‬
‫کرے تو وہ عقل مند‪ ،‬محقق اور سائنس دان ہوگیا ہے؟کیا یہی فری تھنکنگ ہے؟‬
‫میں نے ایسے بہت سے بے چارہ اور بے سہارہ ملحدین دیکھیں جن کی بے بسی پر ترس بھی آتا ہے اور ہنسی بھی۔ وہ اپنے‬
‫فائدے میں سائنس کےنظریات کا استعمال کرتے ہوئے اپنے موقف کو سائنسی موقف کا درجہ دیتے تھکتے نہیں ہیں۔ لیکن جب بحث‬
‫گوگل سے ہٹ کر اکیڈیمک سطح پر آتی ہے اور سائنس کے ایسے موقف‪ ،‬جو مذہبی نظریات کو مضبوط بنیاد فراہم کر رہے‬
‫ہوتے ہیں‪ ،‬سامنے آتے ہیں وہاں آکر وہ فورًا اپنی باتوں سے پھر جاتے ہیں۔‬
‫در اصل الحاد ایک ایسا جھوٹ ہے جس کی نہ تو ایک زبان ہے نہ ایک ادب۔ یہ صرف اپنی دماغی خلف شار کو سلجھانے کے‬
‫لیے مختلف اصطالحات کے جواب میں “نہیں‪ ،‬نہیں” کی رٹ لگانے کا ایک بھونڈا سلسلہ ہے۔‬
‫ڈاکٹر زاہد مغل و مزمل بسمل‬
‫ملحدین کے ذات باری تعاٰل ی اور قبر و حشر کے متعلق سخت سوالوں کے منطقی و فلسفی جوبات اثبات باری تعالٰی ‪ ،‬توحید‪ ،‬تنزیہ*‬
‫و تقدیس‪ ،‬مسئلہ خیر و شر‪ ،‬مسئلہ رؤیت باری تعالٰی ‪ ،‬جبر و قدر(تقدیر)‪ ،‬نبوت‪ ،‬عام اعترضات‪ ،‬محمد رسول اللہ کی نبوت‪ ،‬خاتم‬
‫النبیین کی تفسیر‪ ،‬وجود باری تعالٰی ‪ ،‬جنت و جہنم کا وجود‪ ،‬قبر و برزخ کی زندگی‪ ،‬موت کے بعد زندہ ہونا اور قیامت کا وجود‪،‬‬
‫خدا کا وجود یہ اور ان جیسے سیکنڑوں ملحدین کے مشرکانہ سوالوں کے جامع و عقلی جوابات پر مشتمل بہترین وٹس ائپ‬
‫*گروپ‬
‫*گروپ نمبر‪ 1️⃣:‬لنک*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/Ke2feylEHdG6lVzArFtVoG‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 2️⃣:‬لنک*‬


‫‪https://chat.whatsapp.com/Fe4WnvQclaN91i5oql58EX‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 3️⃣:‬لنک‪/‬نوٹ‪ :‬تیسرا گروپ پشتو زبان والوں کیلئے ہے پوسٹنگ پشتو میں ہوتی ہے*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/EZxJ6qmgGpQ2zFxqAeV5uH‬‬
‫‪♡ ㅤ‬‬ ‫‪❍ㅤ‬‬ ‫⎙‬ ‫⌲‬
‫‪ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ‬‬ ‫‪ˢᵃᵛᵉ‬‬ ‫‪ˢʰᵃʳᵉ‬‬
‫*🛑رد الحاد کورس🛑* ‪[12/6, 9:37 AM] +92 332 9407835:‬‬
‫*الحاد_اسباب وحل‪*📌 12:‬‬
‫ِبْس ِم الّٰل ِِه الَّرْح َمِن الَّر ِح ْيم‬
‫*باب نمبر‪*🛑12:‬‬
‫*سبق نمبر‪:20‬دیسی ملحدین اور ان کا الحاد*‬
‫اسالمی دنیا میں الحاد اور اس پر بحث ایک پیچیدہ ‪،‬گنجلک اور تہہ در تہہ ابہامات پر مبنی موضوع ہے ۔تفہیم کی خاطر مسلم دنیا‬
‫‪ :‬میں ملحدین کی درجہ ذیل دو بڑی قسمیں بنائی جاسکتی ہیں‬
‫۔پہلی قسم ان لوگوں کی ہے جو مذہب کے واضح طور پر منکر ہیں ‪،‬جن کے نزدیک مغربی ملحدین کی طرح اس جدید اور ‪۱‬‬
‫ترقی یافتہ دور میں مذہب کی کؤئی ضرورت نہیں ‪،‬اور دنیا اس سٹیج پر پہنچ چکی ہے کہ اب وہ مذہب و دین سے مستغنی ہو‬
‫چکی ہے ‪،‬اس قسم کے ملحدین کا الحاد یا تو دل میں مستور ہے یا پھر سوشل نیٹ ورکس پر فرضی ناموں کی صورت‬
‫میں ‪،‬مسلم معاشرے اور اسالمی ملک میں رہتے ہوئے کھلم کھال مذہب کا انکار ان حضرات کے لیے ناممکن سی بات ہے ۔‬
‫۔دوسری قسم ان حضرات کی ہیں ‪،‬جنہیں ہم “نیم ملحد”کہہ سکتے ہیں ‪،‬نیم ملحد سے مراد وہ حضرات جو داغ دہلوی کے الفاظ ‪۲‬‬
‫میں “صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں “والے فلسفے پر عمل پیرا ہیں ‪،‬یہ حضرات عموما ان عنوانات کے تحت‬
‫‪ :‬اپنے افکار کا اظہار کرتے ہیں‬
‫۔ وہ حضرات جو اپنی گفتگو میں مذہب اسالم سے وابستگی کا دم بھرتے ہیں ‪،‬لیکن ساتھ ہی سیکولرزم و لبرلزم کے پردے میں ‪۱‬‬
‫مذہب کو محض ایک نجی و ذاتی معاملہ قرار دے کر معاشرے ‪،‬سماج ‪،‬حکومت ‪،‬ریاست اور مسلمانوں کے اجتماعی معامالت میں‬
‫مذہب کی مداخلت کا انکار کرتے ہیں‪،‬انسانی زندگی کے ایک بڑے حصے پر مذہب کی باالدستی کا انکار در اصل مذہب کی‬
‫عمومی افادیت ‪،‬صداقت اور مذہب کی روشنی میں انسانی مسآئل کے اٹل حل کا ہی انکار ہے ۔اور مذہب خصوصا اسالم اس نظام‬
‫کا نام ہے جو اس تقسیم و دوئی کو کسی صورت قبول نہیں کرتا ۔یہاں تو صرف ایک حکم زکوۃ کے انکار کو بھی اسالم کے‬
‫انکار کے مترادف سمجھا گیا ہے ‪،‬چہ جائیکہ مذہبی تعلیمات کے ایک بڑے حصے کو انکار کیا جائے ۔‬
‫۔وہ حضرات جو مذہب اسالم کو بظاہر مانتے ہیں ‪،‬لیکن ساتھ ہی یہ کہتے ہیں کہ اب مذہب کی فتح نہیں ہو ‪۲‬‬
‫سکتی ‪،‬مشاہدے ‪،‬تجربے اور سائنس و ٹیکنالوجی کے اس دور میں مذہب نہیں چل سکتا ‪،‬مذہب کے نہ چل سکنے کا نظریہ بھی‬
‫در اصل اس کا ایک گونہ انکار ہے ۔مذہب کو ماننے کے بعد اسے ایک کھوٹے سکے کی طرح قرار دینے کا مطلب یہی ہے کہ‬
‫اب اپنے مسائل اور دنیا میں زندگی گزارنے کے حوالے سے مذہب کی بجائے دیگر نظاموں کی طرف دیکھا جائے ۔جبکہ مذہب‬
‫کی محض آثار قدیمہ کی طرح حفاظت تو جائے اور اس سے اپنی وابستگی ظاہر کی جائے ‪،‬لیکن ان “کھنڈرات” میں مستقل طور‬
‫پر رہنے سے گریز کیا جائے ۔‬
‫۔وہ حضرات جو “اسالم ہمارا دین ہے اور سوشلزم ہماری معیشت ہے”جیسے افکار کے حامل ہیں ‪،‬یعنی وہ حضرات جو ایک ‪۳‬‬
‫طرف اسالم کو مانتے ہیں ‪،‬لیکن پچھلی چند صدیوں میں خدا و مذہب کے منکرین نے سیاست ‪،‬معیشت ‪،‬اخالق ‪،‬حقوق انسانی اور‬
‫زندگی کے دیگر شعبوں میں جو فلسفے ترتیب دہیے ہیں ‪،‬جن کی بنیاد ہی مذہب کے انکار اور انسان کے کلی طور پر آزاد و‬
‫خود مختار ہونے پر رکھی گئی ہے ‪،‬ان فلسفوں پر عمل پیرا ہونے کے پر زور مدعی بھی ہیں ۔یہ حضرات کبھی سوشلزم کو‬
‫بطور نظام معیشت کے اپنانے کی باتیں کرتے ہیں ‪،‬کبھی خالص لبرل جمہوریت کو نظام حکومت کے طور پر لینے کی صدائیں‬
‫بلند کرتے ہیں ‪،‬کبھی مغربی سوشل سائنسز کی کھوکھ سے جنم لینے والے معاشرتی و سماجی اقدار و روایات کو ترقی یافتہ زندگی‬
‫کے لیے معیار سمجھتے ہیں ۔‬
‫۔وہ حضرات جو مذہب اسالم کی اساسی ‪،‬بنیادی اور قطعی واٹل احکامات میں مغربی فکر و فلسفے کے مطابق کانٹ چھانٹ اور ‪۴‬‬
‫قطع و برید کے قائل ہیں ۔یاد رہے اس سے مراد و اسالمی مفکرین نہیں ہیں ‪،‬جو اسالم کے مجتہد فیہ اور ایک سے زائد تشریح‬
‫کے حامل احکام میں عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق اجتہادی بصیرت کے ساتھ ایسی تبدیلیوں کے قائل ہیں ‪،‬جو اسالمی‬
‫شریعت کی روح اور اس کے اساسی مقاصد سے ہم آہنگ ہو ۔بلکہ یہاں مراد وہ لوگ ہیں ‪،‬جو اصال تو مغربی فکر وفلسفہ پر‬
‫ایمان رکھتے ہیں ‪،‬اور خواہش یہ رکھتے ہیں کہ اسالم کی کلی طور پر ایسی تشریح کر دی جائے ‪،‬جس سے یہ اسی فلسفے کی‬
‫ہی ایک شاخ اور فرع لگے ۔ظا ہر ہے کہ مذہب اسالم میں اساسی تغیررات اور تبدیلیوں کی خوہاش در اصل اس اسالم کا انکار‬
‫ہے ‪،‬جس پر عمومی طور پر لفظ اسالم کا اطالق ہوتا ہے ۔مغربی فکر و فلسفے سے کلی طور پر ہم آہنگ اسالم کے نام سے‬
‫جو بھی نظام بنایا جائے ‪،‬وہ انسانی عقل کی ایک سر گرمی ہے ۔اور اسے مذہب کہنا محض مجازا اور ماحول و سماج کا دباو‬
‫ہے ۔‬
‫سمیع اللہ سعدی‬
‫ملحدین کے ذات باری تعاٰل ی اور قبر و حشر کے متعلق سخت سوالوں کے منطقی و فلسفی جوبات اثبات باری تعالٰی ‪ ،‬توحید‪ ،‬تنزیہ*‬
‫و تقدیس‪ ،‬مسئلہ خیر و شر‪ ،‬مسئلہ رؤیت باری تعالٰی ‪ ،‬جبر و قدر(تقدیر)‪ ،‬نبوت‪ ،‬عام اعترضات‪ ،‬محمد رسول اللہ کی نبوت‪ ،‬خاتم‬
‫النبیین کی تفسیر‪ ،‬وجود باری تعالٰی ‪ ،‬جنت و جہنم کا وجود‪ ،‬قبر و برزخ کی زندگی‪ ،‬موت کے بعد زندہ ہونا اور قیامت کا وجود‪،‬‬
‫خدا کا وجود یہ اور ان جیسے سیکنڑوں ملحدین کے مشرکانہ سوالوں کے جامع و عقلی جوابات پر مشتمل بہترین وٹس ائپ‬
‫*گروپ‬
‫*گروپ نمبر‪ 1️⃣:‬لنک*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/Ke2feylEHdG6lVzArFtVoG‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 2️⃣:‬لنک*‬


‫‪https://chat.whatsapp.com/Fe4WnvQclaN91i5oql58EX‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 3️⃣:‬لنک‪/‬نوٹ‪ :‬تیسرا گروپ پشتو زبان والوں کیلئے ہے پوسٹنگ پشتو میں ہوتی ہے*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/EZxJ6qmgGpQ2zFxqAeV5uH‬‬
‫‪♡ ㅤ‬‬ ‫‪❍ㅤ‬‬ ‫⎙‬ ‫⌲‬
‫‪ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ‬‬ ‫‪ˢᵃᵛᵉ‬‬ ‫‪ˢʰᵃʳᵉ‬‬
‫*🛑رد الحاد کورس🛑* ‪[12/7, 10:09 AM] +92 332 9407835:‬‬
‫*الحاد_اسباب وحل‪*📌 12:‬‬
‫ِبْس ِم الّٰل ِِه الَّرْح َمِن الَّر ِح ْيم‬
‫*باب نمبر‪*🛑12:‬‬
‫*سبق نمبر‪:21‬منکرین کا وجود بھی ضروری ہے*‬

‫!انکار بھی ضروری ہے‬


‫)روایت سے انکار کا ایک مثبت پہلو(‬
‫)‪ (Purification‬خدا کے وجود پر فلسفیانہ نکتٔہ نگاہ سے بات کرنا مفید ہے کہ ِاس طرح انسان کے تصوِر خدا کی تخلیص‬
‫ہوتی رہتی ہے۔ عقل کے ذریعے تصوِر خدا کی تخلیص کرتے رہنا بے حد ضروری ہے کیونکہ ایسا وقت کوئی نہیں ہوتا جب ہم‬
‫کسی بھی خدا کو نہ ُپوج رہے ہوں۔ کرسی‪ ،‬عہدہ‪ ،‬دولت‪ ،‬بیٹے‪ ،‬گاڑیاں‪ ،‬بنگلے یہ سب بھی خدا ہی کی شکلیں ہیں جن کی اگر ہم‬
‫ایتھسٹ ہیں تو ضرور پوجا کرتے ہیں۔ دنیا سے بے پرواہ اور بے نیاز ایتھسٹ کا وجود زمین پر ممکن نہیں۔ ایسا کوئی بھی‬
‫شخص جو خدا کے وجود سے انکار کرتاہے اور دنیا سے بے پرواہ اور بے نیاز بھی رہتا ہے‪ ،‬صوفیا کے نزدیک ملحد نہیں ہوتا‬
‫بلکہ تصوف میں اسے مقامِ فنا پر فائز سمجھا جاتاہے۔‬
‫خیر! تو میں عرض کررہا تھا کہ فلسفیانہ طرزِ فکر کے مسلسل استعمال سے تصورِ خدا کی تخلیص ہوتے رہنا ضروری ہے‬
‫ورنہ معاشرے میں ُبری رسمیں رواج پاجاتی ہیں۔اور دلچسپ امر یہ ہے کہ تصوِر خدا کی تخلیص کا کام یاتو صوفیٔا اور فلسفی‬
‫انجام دیتےہیں اور یا یہ کام بہت بڑے پیمانے پر ملحدین سرانجام دیتے ہیں۔وہ خدا کے مختلف منفی ’’کرداروں‘‘ اور‬
‫’’عادات‘‘ پر انگلی ُاٹھاتے رہتے ہیں۔ ان کے سامنے مذہبی شرمندہ ہوتے ہیں اور اپنے تصوِر خدا کی فوری تخلیص کا سامان‬
‫کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے دیکھاجائے تو’’خدا کاانکار‘‘ بھی نہایت ضروری ہے اور ہرعہد میں الحاد اور دہریت کا وجود بھی‬
‫’’وجودِ خدا میں ُروح‘‘ جیسی اہمیت رکھتاہے۔ اگر ایسا نہ ہو ‪ ،‬خداؤں کا انکار کوئی نہ کرے تو دنیا ‪ ،‬الت و منات و عزٰی‬
‫و ہبل سے بھر جائے۔ ہرعہد میں ہمیشہ ایک وقت ٓاتاہے جب ’’انکار کے فرمان‘‘ کا ُاترنا الزم ہوجاتاہے۔جیسا کہ فیض نے کہا‬
‫تھا‬
‫پھر دل کو مصفا کرو‪ ،‬اس لوح پہ شاید‬
‫مابیِن من و ُتو‪ ،‬نیا پیماں کوئی ُاترے‬
‫اب رسِم ستم حکمِت خاصاِن زمیں ہے‬
‫تائیِد ستم مصلحِت مفتِی دیں ہے‬
‫اب صدیوں کے اقراِر اطاعت کو بدلنے‬
‫الزم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی ُاترے‬
‫صدیوں کے اقراِر اطاعت کو بدلنا ضروری ہوتاہے ورنہ معاشرے جمود کا شکار ہوکر مرجاتے ہیں۔‬
‫یہ وہ الحاد ہوتاہے جو تصوِر خدا کی تخلیص کے لیے ازبس ضروری ہے۔ اگر یہ نہ ہو تو خدا ‪ ،‬عادات میں انسان سے بھی‬
‫چھوٹا اور حقیر ہوجاتاہے۔ اور کم تر ہوتے ہوتے جانوروں اور پھر بے جان پتھروں کی سطح پر گرجاتاہے۔ایک زندہ و جاوید ‪،‬‬
‫حّی و قیوم اور جیتا جاگتا خدا ٓاہستہ ٓاہستہ مرنے لگتاہے اور پھر مرکر فقط اپنی ہی قبر کی لوِح مزار بن کر رہ جاتاہے جس پر‬
‫سب ٓا کر پھول چڑھاتے اور اس کا ُعرس مناتے ہیں۔چنانچہ خدا کی زندگی کے لیے باخدا لوگوں سے زیادہ ہمیشہ ملحدین کی‬
‫ضرورت رہتی ہے جو تصوِر خدا پر کاری ضربیں لگاتے اور ’’الال‘‘ کی تکرار کرتے ہوئے اپنے وقت میں موجود خدا کے‬
‫تمام تصورات کو جھٹالتے چلے جاتے ہیں۔ وہ چونکہ عقل سے جھٹالتے ہیں اس لیے تصورِ خدا کی تخلیص ہوتی چلی جاتی ہے۔‬
‫اگر کسی معاشرے میں ملحدین کی تعداد کم سے کم ہوتی چلی جائے تو اس معاشرے میں ُبری رسموں کا رواج زیادہ سے زیادہ‬
‫ہوتا چال جاتاہے۔میں اکثر کہا کرتاہوں کہ‪’’،‬اجتہاد کے دروازے جتنے زور سے بند کیے جائیں افترأ کے دروازے ُاتنے زور سے‬
‫کھل جاتے ہیں‘‘۔یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ اجتہاد صرف سمجھدار لوگ انجام دیتے ہیں۔ افترٔا ہرکوئی بلکہ پورا معاشرہ مل‬
‫کر انجام دیتاہے۔اجتہاد کو نوجوان نسل سے زیادہ اور پرانی نسل سے کم تائید اور قبولیت ملتی ہے۔ افترٔا کو پرانی اور نئی‬
‫ہردوطرح کی نسلوں کی تائید اور حمایت حاصل ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اجتہاد کی نسبت افترٔا کسی ٓاکاس بیل کی طرح پھیلتا‬
‫اور معاشرے کے‪ ،‬بوجہ اعلٰی اقداروروایات‪ ،‬پھل دار درخت کا خون ُچ وستا چال جاتا ہے۔ یہاں تک کہ درخت ُسوکھ جاتاہے۔ افترٔا‬
‫کی شدت سے جب کسی معاشرے میں ُبری رسمیں بڑھ جاتی ہیں تو اس معاشرے کی زندگی کے لیے الزمی ہوجاتاہے کہ کوئی‬
‫ریفارمر ٓائے۔ ریفارمیشن کا عمل ہی کسی معاشرے کو دوبارہ زندہ کرسکتاہے۔ ورنہ تو تہذیبوں کی تہذیبیں زمین ُبرد ہوجاتی ہیں‬
‫اور زمین ڈکار بھی نہیں مارتی۔‬
‫کوئی ریفارمر کب اور کیسے ٓاتاہے؟‬
‫جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ جب کسی معاشرے میں اجتہاد کا عمل ُرک جائے تو افترٔا کا عمل تیز ترہوجاتاہے۔افترٔا کے بڑھ‬
‫جانے س ے ُب ری ر سمیں بڑھ جاتی ہیں۔ ُب ری ر سموں کے بڑھ جانے س ے پست طبقات ز یادہ مظلوم اور غالب طبقات ز یادہ ظالم‬
‫ہوجاتے ہیں۔اگر ِاسی حال میں تین نسلیں اوپر تلے گزر جائیں تو ایک وقت ایسا ٓاتاہے جب تیسری نسل پہلی کی جگہ لے لیتی‬
‫ہے۔ گویا اب وہ ُبری عادات جو افترٔا کی وجہ سے رائج ہوئی تھیں بزرگوں کی اقدار کے طور پر نافذ ہوکرمذہبی تقدس حاصل‬
‫کرلیتی ہیں۔ جیسا رسول اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے عرب کا حال تھا۔ ابِن خلدون کے نزدیک کسی بھی‬
‫معاشرے میں تیسری نسل کے بچے (بڑے ہوکر) ہمیشہ پہلی نسل کے بزرگوں کی اقدار کے پاسدار بنتے ہیں۔‬
‫یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ نئی نسل ہمیشہ پرانی نسل کے مقابلے میں تھوڑی سی باغی ہوتی ہے۔ اور ہمیشہ نئی نسل کی‬
‫بغاوت میں پائی جانے والی قوت اور بزرگوں کی نافذ کردہ اقدار میں پائی جانے والی قوت کا تناسب ُاس تصادم کے نتائج مرتب‬
‫کرتاہے جو دونوں نسلوں کے درمیان پایا جاتاہے ۔‬
‫نئی نسل کے پاس صرف ’’جذبہ‘‘ جبکہ پرانی نسل کے پاس‪ ،‬عقل‪ ،‬علم اور تجربہ کی طاقت ہوتی ہے اس لیے یہ تصادم زیادہ‬
‫تر بزرگوں کی فتح کی صورت میں انجام پاتاہے۔ پرانی نسل کے پاس جذبے کی شدید کمی ہوتی ہے اس لیے وہ ویمپائرز کی‬
‫طرح تازہ ُخ ون کی تالش میں رہتے اور ِاس طرح اپنے خوفناک قدامت پسندانہ نظام اور اقدار کو زندہ رکھتے ہیں۔ جب ُبری‬
‫رسمیں تیسری نسل کے بزرگوں کو منتقل ہوجائیں تو ان میں شدت اور سختی بڑھ جاتی ہے‪ ،‬افترٔا کی رفتار مزید تیز ہوجاتی ہےا‬
‫ور معاشرہ اپنی زندگی کے ٓاخری دن گننے لگتاہے۔‬
‫ایسے میں اگر کوئی ریفارمر پیدا ہوجائے تو مرتاہوا معاشرہ پھر سے انگڑائی لیتاہے۔ کبھی دوبارہ زندہ ہوجاتاہے تو کبھی نہیں‬
‫ہوپاتا۔ اس کا تعلق ریفارمر کی اپنی شخصیت اور کردار کی قوت‪،‬اور اس کے ساتھ شامل ہوجانے والی نئی نسل کے تازہ لُہو کی‬
‫مقدار کے ساتھ ہے۔ کوئی ریفارمر جتنی ُپراثر شخصیت اور اعلٰی کردار کا مالک ہوتاہے ‪ ،‬نئی نسل اتنی زیادہ شدت کے ساتھ اس‬
‫کے پیچھے چلتی ہے۔ اگر وہ نئی نسل کےدلوں میں اپنے لیے محبت پیدا کرنے میں کامیاب ہوجائے تو نئی نسل اس کے لیے‬
‫جانوں کے نذرانے بصد شوق پیش کرنے کو تیار ہوجاتی ہے۔ کیونکہ نئی نسل ہمیشہ‪ ،‬ہرحال میں اپنے بزرگوں کی متشدد اقدار‬
‫سے دل ہی دل میں نفرت کرتی اور ان سے چھٹکارا پانا چاہتی ہے۔‬
‫ریفامر کون ہوتاہے؟‬
‫ریفارمر وہ شخص ہوسکتاہے جس پر ’’انکار کا فرمان‘‘ نازل ہوتاہے۔اپنے وقت کے الت و منات و عزی و ہبل سے انکارکا‬
‫فرمان۔ اپنے وقت کے بزرگوں کی اقدار سے انکار کا فرمان۔ مدتوں سے ُرکے اجتہاد کی وجہ سے بڑھ جانے والے افترٔا اور اس‬
‫کے نتیجے میں پیدا ہوجانے والی ُبری رسموں سے انکار کا فرمان۔ ویسے تو ہرنئی نسل میں ’’انکار کی وحی‘‘ موجود ہوتی‬
‫ہے لیکن ان میں سے کوئی ریفارمر ‪ ،‬جلد اس لیے پیدا نہیں ہوپاتا کہ تنہا جذبات ریفارمیشن کا عمل انجام نہیں دے سکتے۔ جذبات‬
‫کو کسی عقل کے اتباع کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور ہرکس و ناکس ‪ ،‬عاقل کی عقل نوجوانوں کو تحریکوں کے لیے ٓامادہ نہیں‬
‫کرسکتی۔ کسی بھی ریفارمر کے لیے پرکشش شخصیت‪ ،‬اعلٰی کردار اور دلنواز سخن کا مالک ہونا ضروری ہے۔‬
‫کسی معاشرے میں استحکام پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نئی نسل کی ’’قوِت انکار‘‘‪ ،‬پرانی نسل کی ’’قوِت اصرار‘‘‬
‫کے برابر ہو۔ تناسب یہ ہے کہ اگر کوئی معاشرہ زیادہ قدیم اقدار کا مارا ہوا ہوگا تو نئی نسل کو زیادہ قوِت انکار کی ضرورت‬
‫ہوگی ۔اگرکوئی معاشرہ زیادہ قدیم اور دقیانوسی نہ ہوگا تو نئی نسلوں کو کم ’’قوِت انکار‘‘ کی ضرورت ہوگی۔ غرض یہ الحاد‬
‫اور انکار کی روش ہی ہے جو کسی بھی معاشرے میں اجتہاد کے دروازے کھلے رکھ سکتی ہے۔‬
‫جب ہم کسی معاشرے میں بری رسموں کی بات کرتے ہیں تو دراصل ہم اس معاشرے کی ثقافت یعنی کلچر کی بات کرتے ہیں۔‬
‫اب چونکہ کسی بھی کلچر کا سب سے بڑا حصہ ُاس کا مذہب ہوتاہے سو ُبری رسمیں سب سے زیادہ مذہب کے راستے سے‬
‫داخل ہوتی ہیں۔ گزشتہ بارہ ربیع االول پرپاکستان کے کئی شہروں میں لوگوں نے رسولِ اطہر صلی اللہ علیہ وسلم کی سالگرہ کے‬
‫کیک کاٹے۔ ان میں سے بعض کیک کئی کئی من وزنی اور کئی ُفٹ لمبے چوڑے تیار کیے گئے تھے۔ تب مجھے نہ جانے کیوں‬
‫وہ یونانی ُبت یاد ٓاگیا جو َس ُتو کا بنا ہوا تھا۔ اور جب ُاس قوم پر قحط ٓایا تو وہ اپنے خدا کو ہی کھاگئے۔ ٹی وی چینلز پر باہر‬
‫سے درٓامد شدہ رسموں کا ُسونامی ہمہ وقت ہمارے معاشرے کے ’’ َبند‘‘ ڈھاتا رہتاہے۔‬
‫زندہ انسانوں کو بدلتے ہوئے حاالت کے ساتھ ارتقٔا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر اجتہاد ُرکا رہیگا تو افترٔا تو ہوگا۔ تبدیلی کو‬
‫کوئی نہیں روک سکتا۔اجتہاد نہ سہی تو افترٔا سہی۔ کیونکہ معاشرہ سانس لیتے ہوئے ‪ ،‬جیتے جاگتے ‪ ،‬زندہ جسموں کا مجموعہ‬
‫ہوتاہے۔اب چونکہ اجتہاد صرف سمجھدار لوگوں کا کام ہے اس لیے ضروری ہوجاتاہے کہ معاشرے میں سمجھدار لوگ موجود ہوں۔‬
‫جیسا کہ ہم نے اوپر دیکھا کہ تمام تر سمجھدار لوگ تیسری نسل سے پہلی نسل میں منتقل ہوچکے ہیں اور ان کے سامنے اقدار‬
‫کے تحفظ کے سوا کوئی مقصد موجود نہیں اس لیے وہ نئی نسل کی طرف سے سامنے ٓانے والی تبدیلیوں کو ناپسندیدگی سے‬
‫دیکھتے ہیں۔‬
‫وہ تبدیلیاں چونکہ کسی دانا اور سمجھدار کی طرف سے نہیں ہیں اس لیے ان پر عقلی اعتراضات بھی جلد وارد ہوسکتے ہیں ‪،‬‬
‫یہی وجہ ہے کہ نئی نسل کی ہر کھیپ جلد دوسری اور پھر پہلی نسل میں تبدیل ہوکر خود اسی کام پر مامور ہوجاتی ہے جس‬
‫کے‪ ،‬خالف ہوا کرتی تھی۔اور ِاس لیے نئی نسل کی طرف سے وارد ہونے والی تبدیلیوں کو کم قبولیت مل پاتی ہے بنسبت مذہب‬
‫کے راستے سے داخل ہونے والی ُبری رسموں کے۔ کیونکہ مذہب کے راستے سے داخل ہونے والی اکثر بری رسموں میں بزرگوں‬
‫کا کردار ہوتاہے ‪ ،‬اس لیے ان کے خالف صدائے احتجاج کم کم سنائی دیتی ہے۔‬
‫چنانچہ مذہب کے راستے سےکسی معاشرے میں داخل ہونے والی ُبری رسموں کا مقابلہ صرف کوئی ایسا شخص ہی کرسکتاہے جو‬
‫خود نئی نسل کا نمائندہ ہو۔ اس کے پاس اجتہاد کی طاقت ہو۔ وہ بری اور اچھی رسموں کا فرق پہنچانتاہو اور وہ پرانی نسل کی‬
‫رسوم بالخصوص مذہبی رسوم (اور خداؤں) کا انکار کرسکے۔ایسا کوئی شخص اگر کامیاب ہوجائے تو ایک بار پوری سوسائٹی بدل‬
‫جاتی ہے۔بہت سارے ُبت ٹوٹ جاتے ہیں۔ فضول چیزوں میں سے سے تقدس کا عنصر ختم ہوجاتاہے۔‬
‫‪،‬غالبًا جوش ملیح ٓابادی نے کہا تھا‬
‫اوہام کا رباب‪ ،‬قدامت کا ارغنوں‬
‫فرسودگی کا سحر‪ ،‬روایات کا فُسوں‬
‫اقوال کا مراق‪ ،‬حکایات کا جُنوں‬
‫رسم و رواج و صحبت و میراث و نسل و ُخ وں‬
‫افسوس یہ وہ حلقٔہ دامِ خیال ہے‬
‫جس سے بڑے بڑوں کا نکلنا محال ہے‬
‫‪،‬تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ قوموں میں ریفارمرز دو طرح کے وارد ہوتے رہے ہیں‬
‫۔ وہ لوگ جوکسی معاشرے میں ریفارمیشن کے لیے ُاٹھے اور انہوں نے دعوٰی کیا کہ ایک بڑی عقل (وحی) ہے جو ُان کی ‪۱‬‬
‫رہنمائی کررہی ہے۔‬
‫۔وہ لوگ ‪ ،‬جو کسی معاشرے میں ریفارمیشن کے لیے خود ُاٹھے اور انہوں نے کسی بھی قسم کی’خدائی نصیحت‘‘ یعنی ‪۲‬‬
‫’’وحی‘‘ کا دعوٰی نہ کیا۔‬
‫پہلی قسم کے لوگ ماضی میں زیادہ پائے جاتے تھےجبکہ دوسری قسم کے لوگ ابھی بھی کبھی کبھار نظر ٓاجاتے ہیں۔ پہلی قسم‬
‫کے لوگوں میں ٓانحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی ایسا ریفارمر نظر نہیں ٓاتا جس نے ’’ڈیوائن گائیڈینس ‘‘ کا دعوٰی‬
‫بھی کیاہو اور کسی معاشرے کو فی الواقعہ ریفارم بھی کیا ہو۔‬
‫ایران کی بعض تحریکیں مثًال اسماعیلیہ یا بہائی تحریک یا ہندوستان میں ُگ رونانک وغیرہ کی تحریک کو ہم ریفارمیشنز کی تحریکیں‬
‫تو کہہ سکتے ہیں۔لیکن ان تحریکوں کے بانیوں نے ’’ڈیوائن گائیڈینس‘‘ کا دعوٰی نہیں کیا بلکہ پہلے سے موجود ’’ڈیوائن‬
‫گائیڈینس‘‘ میں تبدیلی کو ترجیح دی۔ یعنی وہ کام کیا جو کسی مجتہد یا مجدد کو کرنا ہوتاہے ‪ ،‬یہ الگ بات ہے کہ کوئی مجتہد‬
‫یا مجدد ریفارمیشن کا کام ہی اس طرح انجام دے کہ بجائے معاشرے کو زندہ کرنے کے اسے ایک نئے معاشرے میں بدل دے‪،‬‬
‫جیسا گُرونانک نے کیا۔‬
‫البتہ مرزا غالم احمد صاحب نے ’’ڈیوائن گائیڈینس‘‘ کا دعوٰی تو کیا لیکن ُان کے دعوے کے عملی اطالق پر گواہ موجود نہیں‬
‫تھے یعنی وہ جس کمیونٹی کی ریفارمیشن کے لیے ڈیوائن گائیڈینس کا دعوٰی کررہےتھے وہ کمیونٹی ہی دستیاب نہ تھی۔ اس لیے‬
‫ان کا دعوٰی ’’وحی‘‘ کے تجربہ سے ُاس طرح نہ گزرسکا جس طرح ایک سائنسی مواد کےلیے گزرنا الزمی امر ہے۔ ہم ِاس‬
‫ُاصول کا ُاوپر تفصیلی جائزہ لے چکے ہیں‪ ،‬جسے میں ’’توّھم میں تکرار‘‘ کا اصول کہتاہوں۔غرض مرزا صاحب کچھ ریفارم نہ‬
‫کرپائے۔چونکہ کسی بھی ریفارمر کا اصل مقصد معاشرے سے بری رسوم کا خاتمہ ہوتاہے چاہے وہ ریفارمر کارل مارکس ہو یا‬
‫کوئی نبی‪ ،‬فلہذا ِاس اصول کے تحت مرزا صاحب ایک ریفارمر کے کرائیٹیریا پر پورے ُاترنے سے قاصر ہیں کیونکہ وہ اپنے‬
‫معاشرے کی ُبری رسموں کو ختم نہیں کرسکے اس کے برعکس ایک اور فرقے کا اضافہ ہوجانے سے ُامتِ مسلمہ مزید تقسیم‬
‫ہوگئی اور یوں گویا الٹا تفرقہ بازی کی رسم کو بڑھاوا مال۔‬
‫یہ تو تھا پہلی قسم کے ریفارمزز کا ذکر یعنی ُان لوگوں کا ذکر جو یہ دعوٰی کرتےہیں کہ ان کے پاس ڈیوائن گائیڈینش ہے اور‬
‫دوسری یہ شرط کہ وہ کسی معاشرے میں موجود ُبری رسموں کو ختم کرکے نئی اور شفاف روایات کا ٓاغاز کرتے ہیں۔‬
‫دوسری قسم کے ریفارمرز جو ’’ڈیوائن گائیڈینس‘‘ کا دعوٰی نہیں کرتے ان میں کئی نام ہیں لیکن سب سے بڑانام بالشبہ‬
‫’’کارل مارکس‘‘ کا ہے۔ کیونکہ بڑے پیمانے پر ریفارمیشن کا عمل مارکس کی کوششوں کے بعد ہی ممکن ہوا جبکہ مارکس‬
‫‪،‬کسی قسم کی ’’وحی‘‘ کا دعوے دار نہیں تھا۔مارکس کی ِاسی خصوصیت کی وجہ سے اقبال نے یہ شعر کہا تھا‬
‫وہ کلیمِ بے تجّلی‪ ،‬وہ مسیحِ بے صلیب‬
‫نیست پیغبر ولیکن دربغل دارد کتاب‬
‫یعنی اقبال کے بقول مارکس کی دعوت میں بھی پیغمبرانہ رمق پائی جاتی ہے۔ وہ پیغمبر نہیں ہے لیکن اس کے پاس کتاب ہے۔ ہم‬
‫سب جانتے ہیں کہ ’’مارکس‘‘ ملحد تھا۔ مارکس خدا کو نہیں مانتا تھا۔ وہ مذہب کو ’’عوام کے لیے افیون‘‘ کہتاتھا۔‬
‫خیر! بات لمبی ہوگئی۔ اس ساری گفتگوسے میری مراد فقط اتنا ثابت کرناہے کہ انکار کی روایت یعنی ملحدانہ نظریات‪ ،‬تصوِر خدا‬
‫کی تخلیص کے لیے نہایت ضروری ہوتے ہیں جو سب سے پہلے کسی نہ کسی ریفارمر کی بدولت معاشرے میں داخل ہوتے ہیں‬
‫اور ضرور معاشرے میں پہلے سے موجود خداؤں کے انکار پر منتج ہوتے ہیں۔پھر چاہے وہ خدا الت و منات و عزی و ہبل ہوں‬
‫یا بدترین مادیت پسندی۔ یہ ان خداؤں کے انکاری یعنی ملحدین ہی ہوتے ہیں جو بزرگوں کے خالف علمِ بغاوت بلند کرتے اور‬
‫بزرگوں کے خداؤں کا انکار کرتے ہیں۔متحرک اور زندہ معاشروں میں ‪ُ ،‬جوں ُجوں ملحدین تصورِ خدا پر اعتراض کرتے جاتے‬
‫ہیں‪’’ ،‬خدا کو ماننے والے‘‘اصل تصور خدا میں وقت کیساتھ در آنے والے فساد اور گمراہیوں کو اپنے تصوِر خدا سے نکالتے‬
‫چلے جاتے ہیں اور حقیقت نکھرتی چلی جاتی ہے۔‬
‫تحریر ادر یس آز اد‬
‫بتغیر قلیل‬
‫ملحدین کے ذات باری تعاٰل ی اور قبر و حشر کے متعلق سخت سوالوں کے منطقی و فلسفی جوبات اثبات باری تعالٰی ‪ ،‬توحید‪ ،‬تنزیہ*‬
‫و تقدیس‪ ،‬مسئلہ خیر و شر‪ ،‬مسئلہ رؤیت باری تعالٰی ‪ ،‬جبر و قدر(تقدیر)‪ ،‬نبوت‪ ،‬عام اعترضات‪ ،‬محمد رسول اللہ کی نبوت‪ ،‬خاتم‬
‫النبیین کی تفسیر‪ ،‬وجود باری تعالٰی ‪ ،‬جنت و جہنم کا وجود‪ ،‬قبر و برزخ کی زندگی‪ ،‬موت کے بعد زندہ ہونا اور قیامت کا وجود‪،‬‬
‫خدا کا وجود یہ اور ان جیسے سیکنڑوں ملحدین کے مشرکانہ سوالوں کے جامع و عقلی جوابات پر مشتمل بہترین وٹس ائپ‬
‫*گروپ‬
‫*گروپ نمبر‪ 1️⃣:‬لنک*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/Ke2feylEHdG6lVzArFtVoG‬‬
‫*گروپ نمبر‪ 2️⃣:‬لنک*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/Fe4WnvQclaN91i5oql58EX‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 3️⃣:‬لنک‪/‬نوٹ‪ :‬تیسرا گروپ پشتو زبان والوں کیلئے ہے پوسٹنگ پشتو میں ہوتی ہے*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/EZxJ6qmgGpQ2zFxqAeV5uH‬‬
‫‪♡ ㅤ‬‬ ‫‪❍ㅤ‬‬ ‫⎙‬ ‫⌲‬
‫‪ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ‬‬ ‫‪ˢᵃᵛᵉ‬‬ ‫‪ˢʰᵃʳᵉ‬‬
‫*🛑رد الحاد کورس🛑* ‪[12/7, 10:09 AM] +92 332 9407835:‬‬
‫*الحاد_اسباب وحل‪*📌 12:‬‬
‫ِبْس ِم الّٰل ِِه الَّرْح َمِن الَّر ِح ْيم‬
‫*باب نمبر‪*🛑12:‬‬
‫*سبق نمبر‪:22‬مسلم نوجوان فحش فکری وتہذیبی یلغار کی زد میں*‬
‫اسالم کے سب نقوش کو کھرچ کھرچ کر ان کی جگہ نئے تصورات اور جدید بدعات ہیں جو ”علمیت“ کی سند کے ساتھ ہماری‬
‫!پڑھی لکھی نوجوان نسل کیلئے پیش کیے جارہے ہیں‪ ،‬ان کے کانوں میں صبح شام اب انہی اشیاءکی گونج ہے۔۔‬
‫!نئے سے نئے ”اسباق“ ہیں اسالم کے نام پر آج ہمیں بڑی محنت کے ساتھ پڑھائے جا رہے ہیں‬
‫افکار“ کی ِاس یلغار سے جان نہیں چھوٹتی کہ ”شہوات“ کے لشکر ہم پر نہایت بے رحمی کے ساتھ چھوڑ دیے جاتے ہیں۔ ”‬
‫!کیسے کیسے خونیں چُھرے ہیں جو ہمارے ناپختہ بچوں اور بچیوں کیلئے ”میس پروڈکشن“ سے نکالے جاتے ہیں‬
‫غالظت کا ایسا سیالب بھی کیا کبھی ہم پر آیا ہو گا جس میں آج ہمارے یہ نونہال غرقاب کرا دیے گئے ہیں؟‬
‫مسلم ہاتھوں سے اسالمی شریعت کا دامن چھڑوا دینے کی یہ ایک اور سطح ہے جس پر نہایت گرمجوشی سے ”کام“ ہو رہا ہے۔‬
‫کچی عمر کے ہمارے الہڑ جوان‪ ،‬عالم اسالم کا یہ قیمتی ترین سرمایہ‪ ..‬یہودی قحبہ گر کے غلیظ پیروں میں رل رہا ہے۔‬
‫جذبات کی ہیجان انگیزی کے ہزاروں سائنٹفک حربے‪ ،‬جو انسانیت کو گندگی میں دفن کرانے کیلئے یہودی سگ منڈ فرائڈ کا دیا ہوا‬
‫تحفہ ہیں‪ ،‬ہمارے ِان معصوم بچوں اور بچیوں پر تیر بہ ہدف نسخہ کی صورت آزمائے جا رہے ہیں۔‬

‫ہمارے یہ بچے جن کو ہم ابھی نہ عقیدہ پڑھا پائے تھے اور نہ شریعت‪ ،‬نہ ان کو اپنی تاریخ کے اسباق پڑھا سکے تھے اور نہ‬
‫ان کو خود شناسی کے کسی عمل سے گزار سکے تھے اور نہ زمانے میں چلنے والی آندھیوں سے ان کو واقف کرا سکے تھے‬
‫اور نہ دشمن سے نمٹنے کا کوئی گر سکھا سکے تھے‪ ،‬آج مکمل طور پر مستشرقین اور ان کے تالمذہ کی دسترس میں ہیں۔‬
‫یہ منصوبہ کار خوب جانتے ہیں اسالم کی شریعت کو معاشرے کے اندر استوار ہونے کیلئے قلوب اور عقول کی جو سرزمین‬
‫درکار ہے‪ ،‬اس کیلئے طہارت اور پاکیزگی پہلی شرط ہے۔ جب یہاں پر صبح شام وہ اتنی غالظت پھینک جاتے رہیں گے‪ ،‬یہاں‬
‫ُا‬
‫تک کہ عالم اسالم ن کے پھینک ے ہوئے کوڑ ے کے ایک ڈھیر کی تص ویر پیش کرےہ گا‪ ،‬تو شریعت کو استوار ہونے کیلئے آخر‬
‫یہاں کونسی جگہ میسر آئے گی؟ غرض شریعت پر ہماری گرفت چھڑوا دینے کیلئے فحاشی اور فحش کاری کا نشر و احیاءبھی‬
‫ایک نہایت آزمودہ حربہ ہے اور پوری شدت کے ساتھ‪ ،‬اور اب تو خود ہمارے ہی قوم کے لوگوں کے ہاتھوں‪ ،‬ہم پر آزمایا جا‬
‫رہا ہے۔‬
‫سید قطب‬
‫بشکریہ ایقاظ‬
‫ملحدین کے ذات باری تعاٰل ی اور قبر و حشر کے متعلق سخت سوالوں کے منطقی و فلسفی جوبات اثبات باری تعالٰی ‪ ،‬توحید‪ ،‬تنزیہ*‬
‫و تقدیس‪ ،‬مسئلہ خیر و شر‪ ،‬مسئلہ رؤیت باری تعالٰی ‪ ،‬جبر و قدر(تقدیر)‪ ،‬نبوت‪ ،‬عام اعترضات‪ ،‬محمد رسول اللہ کی نبوت‪ ،‬خاتم‬
‫النبیین کی تفسیر‪ ،‬وجود باری تعالٰی ‪ ،‬جنت و جہنم کا وجود‪ ،‬قبر و برزخ کی زندگی‪ ،‬موت کے بعد زندہ ہونا اور قیامت کا وجود‪،‬‬
‫خدا کا وجود یہ اور ان جیسے سیکنڑوں ملحدین کے مشرکانہ سوالوں کے جامع و عقلی جوابات پر مشتمل بہترین وٹس ائپ‬
‫*گروپ‬
‫*گروپ نمبر‪ 1️⃣:‬لنک*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/Ke2feylEHdG6lVzArFtVoG‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 2️⃣:‬لنک*‬


‫‪https://chat.whatsapp.com/Fe4WnvQclaN91i5oql58EX‬‬

‫*گروپ نمبر‪ 3️⃣:‬لنک‪/‬نوٹ‪ :‬تیسرا گروپ پشتو زبان والوں کیلئے ہے پوسٹنگ پشتو میں ہوتی ہے*‬
‫‪https://chat.whatsapp.com/EZxJ6qmgGpQ2zFxqAeV5uH‬‬
‫‪♡ ㅤ‬‬ ‫‪❍ㅤ‬‬ ‫⎙‬ ‫⌲‬
‫‪ˡᶦᵏᵉ ᶜᵒᵐᵐᵉⁿᵗ‬‬ ‫‪ˢᵃᵛᵉ‬‬ ‫‪ˢʰᵃʳᵉ‬‬

You might also like