تحویلِ قبلہ کا روایتی عقیدہ اور قرآنِ کریم کی رہنمائی

You might also like

Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 15

‫تحویِل قبلہ کا روایتی عقیدہ اور قرآِن کریم کی رہنمائی‬

‫====== =========‬

‫قبل اس کے کہ تحویِل قبلہ کےموضوع پر بات کی جائے ضروری ہے کہ اس کےمروجہ عقیدہ (یعنی ہماراقبلِہ اّول بیت‬

‫المقدس تھا جسے تبدیل کر کے بعد میں بیت ہللا مقررکردیا گیا) کی تفصیل اور اس میں تضادات واضح کئے جائیں ۔‬

‫۔۔۔‬

‫تحویِل قبلہ کے روایتی عقیدہ پر کچھ سواالت اٹھتے ہیں ‪ ،‬پہلے (بوجوہ) ہم انہیں تحریر کرتے ہیں کیونکہ ان کا ذکر اس‬

‫مضمون میں آئے گا۔۔۔‬

‫سوال نمبر‪۱‬۔ سورہ آل عمران آیت ‪ 96‬میں اول بیت کعبہ کو کہا گیا تو بیت المقدس کیسے قبلہ اول کہال سکتا ہے؟‬

‫۔‬

‫سوال نمبر ‪۲‬۔ بیت المقدس کو تبدیل کر کے کعبہ کو قبلہ مقرر کرنے کی ضرورت اور اس میں حکمت کیا تھی؟‬

‫۔‬

‫سوال نمبر ‪۳‬۔ قرآن میں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم کہاں ہے؟‬

‫۔‬

‫سوال نمبر ‪۴‬۔ اگر یہ حکم قرآن میں نہیں اور وحی خفی کے ذریعے حکم دیا گیا ہے تو وہ روایت پیش کی جائے؟‬

‫۔۔۔‬

‫قارئیِن کرام! تحویِل قبلہ کا روایتی عقیدہ ارتقائی منازل طے کرتا ہوا اب تک تین چار حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔‬

‫بنیادی روایتی عقیدہ تو یہ ہے کہ مسلمانوں کا پہلے دن سے قبلہ بیت المقدس چال آ رہا تھا‪ ،‬حتٰی کہ ہجرت کے بعد مدینہ‬

‫میں تقریبًا ڈیڑھ دو سال تک بیت المقدس ہی قبلہ رہا‪ ،‬اسے قبلہ اّو ل کہا جاتا ہے۔ اور یوں نبوت کے ‪ 23‬سال میں سے‬

‫تقریبًا ‪ 15‬سال تک جروسیلم مسلمانوں کا قبلہ رہا ‪ ،‬اور پھر ہللا تعالٰی نے قبلہ تبدیل کرنے کا حکم دیا اور کعبہ کو قبلہ‬

‫مقرر کر دیا ۔۔۔۔‬

‫۔۔‬
‫پھر اس پر سوال اٹھنا شروع ہوئے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مکی زندگی کے تیرہ سال نبیﷺ اور مومنین مکہ‬

‫میں خانہ کعبہ کے پاس رہتے ہوئے نماز میں اپنا رخ بیت المقدس کی طرف کر تے ہوں؟۔‬

‫موالنا مودودی‪:‬۔‬

‫چنانچہ اس کی توجیہہ یہ کہہ کر کی گئی (اور جسے موالنا مودودی صاحب نے شد و مد سے پیش کیا ) کہ مکی دوِر‬

‫نبوی میں جب کعبہ کی طرف منہ کر کے عبادت کی جاتی تھی تو بیت المقدس اور کعبہ دونوں ایک ہی سمت میں آ جاتے‬

‫تھے۔ اس لئے عبادت کے دوران گویا مسلمانوں کو احساس ہی نہیں ہوتا تھا کہ انہوں نے کعبہ کی طرف منہ کر رکھا ہے‬

‫یا بیت المقدس کی طرف‪ ،‬لیکن اصل میں ان کا رخ کعبہ کی طرف نہیں بلکہ بیت المقدس کی طرف ہوا کرتا تھا۔ لیکن‬

‫مدینہ میں آ کر چونکہ بیت المقدس اور کعبہ مخالف سمتوں میں آ گئے‪ ،‬یعنی اب اگربیت المقدس کی طرف منہ کریں تو‬

‫کعبہ پشت پر چال جاتا تھا۔ اس لئے نبوت کے پہلے کم وبیش چودہ پندرہ سالوں تک تو نبی کریم ﷺ کے دل میں یہ‬

‫خواہش نہیں ابھری کہ بیت المقدس کی بجائے کعبہ کو قبلہ ہونا چاہئے‪ ،‬لیکن اس کے بعد نبی کریم ﷺ کے دل میں‬

‫یہ خواہش بیدار ہوئی کہ مسلمانوں قبلہ تو بیت المقدس نہیں بلکہ کعبہ ہونا چاہئے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ کی اس‬

‫خواہش کی تکمیل میں ہللا تعالٰی نے بیت المقدس تبدیل کر کے اسکی جگہ کعبہ کو قبلہ مقرر کر دیا۔‬

‫اس روایتی عقیدہ پر یہ سواالت وارد ہوتے ہیں جو ہم نے شروع میں تحریر کر دئیے۔‬

‫موالنا مودودی تاویل نہایت مضحکہ خیز ہے ‪ ،‬گویا ہللا تعالٰی نے مومنین کو (معاذہللا) ایک قسم کا چکر دیا ہوا تھا کہ‬

‫خواہ کوئی کعبہ کو قبلہ سمجھے یا بیت المقدس کو‪ ،‬ان کا منہ بہر حال بیت المقدس کی سمت میں ہی ہو گااور مدینہ آکر‬

‫چونکہ کعبہ مدینہ کے ایک سمت اور یروشلم‪ ،‬دوسری طرف ہو گیا تو اب "مسلمانوں" کے لئے مسئلہ بن گیا کہ ہم‬

‫یروشلم کی بجائے کعبہ کی طرف منہ کیوں کریں؟۔‬

‫جاوید احمد غامدی‪:‬۔‬

‫یہ عقیدہ ارتقائی منازل طے کرتا ہو ا جاوید احمد غامدی تک پہنچا تو انہوں نے کہا کہ پہلے تو قبلہ بیت المقدس نہیں بلکہ‬

‫‪،‬کعبہ ہی تھا‪ ،‬لیکن مدینہ میں آ کر قبلہ کو تبدیل کر کے بیت المقدس کر دیا گیا‬
‫اور پھر ڈیڑھ دو سال کے بعد نبی کریم ﷺ کے دل میں یہ خواہش بیدار ہوئی کہ قبلہ تو بیت المقدس نہیں بلکہ دوبارہ‬

‫پھر کعبہ ہونا چاہئے۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ کی اس خواہش کی تکمیل میں ہللا تعالٰی نے دوبارہ کعبہ کو ہی قبلہ مقرر‬

‫کر دیا۔‬

‫اپنے اس مؤقف کے ذریعے جاوید احمد غامدی نے پہلے دوسواالت کے جوابات فراہم کرنے کی کوشش کی جن کا جواب‬

‫روایت پرستوں کے پاس نہیں تھا۔‬

‫۔ یہ کہ جب ہللا نے کعبہ کو [اّو ل بیت] کہا ہے تو بیت المقدس قبلہ اول کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب ظاہر ہے ان‪۱‬‬

‫کے مؤقف میں موجود ہے۔ کہ قبلہ اول تو کعبہ ہی ہے لیکن درمیان میں تقریبًا ‪ ۱۷‬مہینوں کے لئے بیت المقدس کو قبلہ‬

‫قرار دیا گیا اور بعد میں پھر دوبارہ کعبہ ہی قبلہ بن گیا۔‬

‫۔ دوسرا سوال یہ تھا کہ قبلہ تبدیل کیوں کیا گیا۔ اس کے جواب میں جاوید احمد غامدی نے آیت َو َم ا َجَع ْلَنا اْلِقْبَلَة اَّلِتي ُك نَت ‪۲‬‬

‫َع َلْيَها ِإاَّل ِلَنْع َلَم َم ن َيَّتِبُع الَّرُسوَل کا ترجمے میں اْلِقْبَلَة کے لفظ سے کعبہ کی بجائے بیت المقدس مراد لے لیا۔ کہ قبلہ تو کعبہ‬

‫ھی تھا لیکن بیت المقدس کو عارضی طور پر یہ چیک کرنے لئے قبلہ بنایا گیا تھا کہ پتا چل جائے کہ رسولﷺ کا‬

‫سچا تابعدار کون ہے۔‬

‫اب انہوں نے ایک آیت کا غلط ترجمہ کر کے کعبہ کی تحویل کی وجہ بتانے کی بجائے بیت المقدس کی تبدیلی کی وجہ‬

‫بتا دی لیکن وہ اس بنیادی سوال کا جواب دینے سے قاصر رہے کہ بیت المقدس کو قبلہ مقرر کرنے کا (مزعومہ)حکم‬

‫اور ان کا دعوٰی وحی خفی یا وحی جلی میں کہاں ہے؟‬

‫‪۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰‬‬

‫‪:‬قاری حنیف ڈار‬

‫بہر حال پھر یہ عقیدہ مزید ارتقائی منازل طے کرتا ہو اقاری حنیف ڈار تک پہنچا تو انہوں نے جاوید احمد غامدی کے‬

‫فلسفے کو مزید ارتقاء دیا وہ اپنی ایک آڈیو میں فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ کو سابقہ قبلہ کی طرف منہ کرنے کا حکم‬

‫نہیں دیا ‪ ،‬نہ وحی جلی کے ذریعے اور نہ وحی خفی کے ذریعے۔ لیکن سابقہ امتوں کا قبلہ ہونے کی ِبناء پر سابقہ‬

‫شریعت پر عمل کرتے ہوئے نبی ﷺ نے بیت المقدس کو ہی اپنا قبلہ بنائےرکھا۔ کیونکہ یہودو نصارٰی کا قبلہ بیت‬

‫المقدس تھا۔‬
‫اس مؤقف سے ڈار صاحب نے اپنے تئیں سوال نمبر ‪ ۳‬کا جواب فراہم کر نے کی کوشش کی کہ بیت المقدس کو قبلہ‬

‫بنانے کا حکِم اٰل ہی کہاں ہے؟۔‬

‫لیکن ان کا یہ جواب ان کی اپنی فکر (جو کہ انہوں نے غامدی صاحب سے مستعار لی) سے متصادم ہو گیا ہے۔ کیونکہ‬

‫یہاں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ اور ان کے روحانی استاد جاوید احمد غامدی بمع محترم امتیاز احمد عثمانی اور محب‬

‫الحق صاحب کے مطابق نماز‪ ،‬حج ‪ ،‬زکٰو ۃ‪ ،‬کعبہ کا طواف‪،‬مشرکین مکہ میں پہلے سے چال آ رہا تھا ‪ ،‬مشرکین مکہ اپنے‬

‫آپ کو دیِن ابراہیمی کا پیرو کار کہتے تھے ‪ ،‬یہ "معلوم القوم" عبادات تھیں‪ ،‬اور انہی مشرکین (ابو لہب جن کا مذہبی‬

‫پیشوا تھا) کی طرف دیکھ کر نبی کریم ﷺنے یہ عبادات سیکھیں‪ ،‬۔ (انا ہلل وانا الیہ راجعون)‬

‫اس پر پہال سوال تو یہ کہ جو دیِن ابراہیمی کے دعویدار(مشرکیِن مکہ) طواف تو کعبہ کا کرتے کرتے تھے‪ ،‬نمازیں‬

‫پڑھتے تھے‪ ،‬عبادات کرتے تھے‪ ،،،‬لیکن کیا وہ نماز کے وقت اپنا رخ فلسطین کی طرف پھیر لیتے تھے جن سے‬

‫نبیﷺ نے نماز کا طریقہ سیکھا؟‬

‫یا بالفرض پھر یہ مان لیتے ہیں کہ قبلہ کا تعین تو نبی کریم ﷺ نے یہود اور عیسائیوں کی مدد سے بیت المقدس کر‬

‫لیا‪ ،‬تو ایسی صورت میں پھر عبادات کے لئے آپ ﷺ نے عیسائیوں یا یہودیوں سے عبادات سیکھ کر عبادات کیوں‬

‫نہ اپنائیں؟ ویسے بھی وہاں بنی اسرائیل میں تو پے در پے پیغمبر آتے رہے ‪ ،‬وہاں سے سیکھنا تو زیادہ درست ہو سکتا‬

‫تھا کیونکہ مشرکین میں تو حضرت اسماعیل علیہ السالم کے بعد ہزاروں سال تک کوئی ایک بھی پیغمبر مبعوث نہیں ہوا‬

‫تھا؟ لیکن جب نماز ہی مشرکوں سے سیکھی جن کا قبلہ بیت المقدس نہیں تھا تو نبی ﷺ نے کس بنیاد پر بیت المقدس‬

‫قبلہ بنایا؟ اگر یہود اور عیسائیوں کی دیکھا دیکھی آپ ﷺ نے نماز میں اپنا رخ بیت المقدس کی طرف کر لیا اور‬

‫نماز بھی ان سے سیکھی تو پھر یہ آپ کا بنیادی عقیدہ کہ مشرکیِن مکہ دیِن ابراہیمی کے پیروکار تھے اور نماز و طواف‬

‫کرتے تھے جن کی طرف دیکھ کر نبیﷺ نے نماز سیکھی ‪ ،‬کہاں کھڑا رہ جاتا ہے؟‬

‫لہاذا ڈار صاحب کے بیان سے ان کے اپنے مؤقف میں ھی تضاد واقع ہو چکا ہے۔‬

‫واضح رہے کہ یہ مشرکین یا اہِل کتاب سے نبی کریم کا عبادات کے طریقے سیکھنا ہمارا مؤقف نہیں ہے‪ ،‬اس کی(‬

‫۔) وضاحت تو اپنے مقام پر آئے گی‪ ،‬یہ تو ہم ان ہی کی دلیل ال کر ان پر ان کی غلطی واضح کر رہے ہیں‬

‫‪۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰‬‬
‫المختصر ان سب مدعیان کے پاس ان کے اس دعوٰی کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ہللا تعالٰی نے بیت المقدس کو قبلہ قرار دیا‬

‫تھا۔‬

‫کہا یہ گیا کہ وحی خفی کے ذریعے بیت المقدس کو قبلہ قرار دیا گیا ۔ لیکن وہ وحی خفی پیش کرنے سے قاصر ہیں جس‬

‫میں بیت المقدس کو قبلہ بنانے کا حکم ہے۔‬

‫یعنی نہ تو وہ وحی قرآن میں ہے‪ ،‬نہ وہ صحابہ کرام نے کہیں لکھی‪ ،‬نہ وہ وحی صحابہ کرام نے زبانی یاد کی‪ ،‬نہ وہ‬

‫وحی کسی کے گوش گزار کی۔ نہ وہ وحی نبی کریم ﷺ نے صحابہ کرام کو بتائی!!!۔‬

‫جبکہ حق یہ ہے کہ اگر کوئی ایسی وحی نازل ہوئی ہوتی تو نبی کریم ﷺ کا یہ فرِض منصبی تھا کہ وہ اسے لوگوں‬

‫تک پہنچاتے۔‬

‫کیونکہ نبی کریم ﷺ کو ہللا کا یہ حکم تھا کہ آپ کی طرف جو حکم نازل کیا جاتا ہے وہ جوں کا توں عوام کو‬

‫پہنچانے کے آپ ذمہ دار ہیں‪ ،‬اگر آپﷺ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے رسالت کا فریضہ ہی ادا نہیں کیا۔‬

‫۔)َیا َأُّيَها الَّرُسوُل َبِّلْغ َم ا ُأنِز َل ِإَلْيَك ِم ن َّرِّبَك َو ِإن َّلْم َتْفَع ْل َفَم ا َبَّلْغ َت ِر َس اَلَتُه(‬

‫لہاذا یہ ہو نہیں سکتا کہ ہللا نے نبی کریم ﷺ کو ایک حکم دیا ہو کہ بیت المقدس کو قبلہ بناؤ اور نبی ﷺ نے یہ‬

‫حکم اپنے اصحاب کو بتایا نہ ہو۔‬

‫یہاں ہمارا صرف ایک سوال ہے کہ بیت المقدس کو قبلہ قرار دینے کا حکم کم از کم ذخیرہ احادیث سے ہی دکھا دیا‬

‫جائے؟‬

‫واضح رہے کہ کئی (وضعی) وحی خفیاں حدیِث قدسی کے نام سے روایات کی صورت میں کتِب روایات میں موجود ہیں‪،‬‬

‫فلہاذا قبلہ کی تبدیلی کے حکم کی (مزعومہ) وحی کیونکر ضائع ہو سکتی تھی؟‬

‫‪۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰‬‬

‫امتیاز عثمانی صاحب نے بھی اس واقعہ پر بیان فرمایا ہے جس پر ہم الگ سے کالم کریں گے۔‬

‫اب ہم ان آیات کی درست تفہیم پیش کرتے ہیں جو تحویِل قبلہ کے جواز میں پیش کی جاتی ہیں ‪،‬جس سے اندازہ ہو گا کہ‬

‫روایات سے مجبور ہو کر ترجموں میں َص رف و نحو کے اصولوں تک کو پِس پشت ڈال دیا گیا ہے۔‬

‫لیکن اس سے پہلے کچھ تمہیدًا عرض کرنا ضروری ہے۔‬


‫۔‬

‫حضرِت ابراہیؑم کو ہللا تعالٰی نے انسانیت کا امام بنایا (َقاَل ِإِّنى َج اِع ُلَك ِللَّناِس ِإَم اًم ا) ۔ حضرِت ابراہیم علیہ السالم ہی کی ملت‬

‫کی پیروی کا ہر کسی کو حکم دیا گیا ( َفٱَّتِبُعو۟ا ِم َّلَة ِإْبَٰر ِهيَم َحِنيًفا)۔‬

‫ملِت ابراہیمی سے بغاوت کرنے والوں کو ہللا نے احمق کہا (َو َم ن َيْر َغُب َعن ِّم َّلِة ِإْبَٰر ِهۧـ َم ِإاَّل َم ن َسِفَه َنْفَس ُه) انہی سفہاء کا‬

‫ذکر سورہ البقرہ آیت ‪ 142‬میں ہے ۔‬

‫حضرت ابراہیمؑ نے کعبہ کی تعمیر کی اور اسی گھر کے لئے ہللا سے دعا کی۔ یہی ان کا قبلہ تھا‪ ،‬اسی قبلہ کو تمام‬

‫انسانیت کے لئے پیشگی مرکز ڈکلئیر کر دیا گیا تھا ۔ چنانچہ قرآن کریم میں اس بیت ہللا کا مقصد ِقَياًم ا ِّللَّناِس ‪َ ،‬م َثاَبًة ِّللَّناِس‪،‬‬

‫ُهًدى ِّلْلَع اَلِم يَن ‪ ،‬اور جائے امن بتایا گیا۔‬

‫!محترم احباب‬

‫بیت المقدس کو یہودی اپنا قومی قبلہ مانتے تھے اور آج تک ان کی دعوت بھی قومی ہے‪ ،‬بین االقوامی نہیں ہے‪ ،‬پوری‬

‫انسانیت کے لئے نہیں ہے‪ ،‬اور آخری نبی سے پہلے ہر نبی کی دعوت ہی قومی ہوتی تھی۔‬

‫ہمارے دین میں بہت ساری خرافات یہودی روایات کے زیِر اثر یہود کی کی دیگر اقوام پر فوقیت ثابت کرنے کے لئے َدر‬

‫آئی ہیں۔‬

‫جن میں سے ایک بیت المقدس کو مسلمانوں کا قبلہ قرار دینا ہے۔‬

‫اور دوسرا یہ کہ جو واقعہ معراج میں بیان کیا جاتا ھے اس میں بھی حضرت موسٰی ؑ ہی نمازوں کے بار میں تخفیف‬

‫کرواتے نظر آ رہے ہیں۔ ایسی اور بھی کئی چیزیں ہیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔‬

‫قارئیِن محترم! مشیِت ایزدی کے مطابق جب وقت آ گیا کہ انسانیت اس قدر بالغ اور باشعور ہو چکی تھی کہ دین کے‬

‫اصولوں کی روشنی میں خود ایک زندہ نظام قائم کر سکے جو پوری انسانیت میں پھیلنے کے قابل ہو تو ہللا نے آخری‬

‫کتاب اور آخری نبی کو بھیج دیا‪،‬جن کا قبلہ پہلے دن سے کعبہ ہی تھا ۔‬

‫اسالم سے قبل مشرکیِن مکہ بھی ملِت ابراہیمی کی پیروی کے ہی مدعی تھے اور کعبہ کو متبرک سمجھتے تھے اور‬

‫نبوت کے بعد مسلمانوں کے لئے یہ خوشی کا پہلو تھا کہ اس کی حیثیت اپنے مرکز کی ہو گئی ۔ مکی دور میں بیت ہللا‬

‫کے گرد مسلمانوں کا طواف و عبادت کرنے کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ جویہ ثابت کرتا ہے کہ قبلہ کعبہ ہی ہے‬
‫ورنہ اگر قبلہ کوئی اور تھا یا بالفرض تھا ہی نہیں تو وہ کعبہ کا طواف کس لئے کرتے تھے؟ ابتدائے اسالم میں حضرت‬

‫عمر فاروؓق اور کئی اصحاِب رسول سے کعبہ سے عقیدت کے بارے کئی مثالیں ملتی ہیں۔‬

‫اگر کعبہ مسلمانوں کا مرکز نہیں تھا جو لوگ کعبہ سے دور یعنی یثرب میں رہتے تھے ‪ ،‬تو ان کے لئے قَياًم ا ِّللَّناِس ‪،‬‬

‫َم َثاَبًة ِّللَّناِس‪َ ،‬و ُهًدى ِّلْلَع اَلِم يَن کا مطلب ہی کیا رہ جاتا ہے کیونکہ وہ تو روایتی مؤقف کے مطابق کعبہ کی طرف پشت کر‬

‫کے نماز پڑھتے تھے!۔‬

‫یہ بھی واضح رہے کہ ہجرت سے قبل ہی مدینہ میں مساجد بن چکی تھیں‪ ،‬جہاں باجماعت نماز ہوتی تھی‪ ،‬اور ان کی‬

‫سمت خانہ کعبہ کی طرف تھی نہ کہ اس کی مخالف سمت یعنی فلسطین کی طرف۔‬

‫‪۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰‬‬

‫نبیِ کریمﷺ کو حکم دیا گیا کہ مقاِم ابراہیم کو ہی مصلٰی بناؤ۔ مزید یہ کہ نبی کریمﷺ کے َدور میں بیت المقدث‬

‫کی صورِت حال کیا تھی‪ ،‬اور مسجِد اقصٰی سے کیا مطلب ہے‪ ،‬اس پر ہم واقعہ معراج والے مراسلے میں تفصیًال عرض‬

‫کریں گے‪ ،‬المختصر اس َدور میں جیروسلم میں بیت المقدس کا کوئی وجود ہی نہیں تھا ‪ ،‬یہودیوں کا ہیکِل سلیمانی ‪70‬‬

‫عیسوی میں تباہ و برباد ہو گیا تھا ‪ ،‬اسے عیسائیوں نے کوڑے کرکٹ کا ڈھیر بنا رکھا تھا اور اس کے ساتھ الگ جگہ پر‬

‫اپنا ایک مرکزی کلیسا بنایا ہوا تھا۔ لیکن یہاں وہ تفصیل قدرے غیر متعلق ہے۔‬

‫کیا یہ کوئی معمولی بات ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ جب فاتح کی حیثیت سے فلسطین میں داخل ہوتے ہیں تو عیسائیوں‬

‫کے ساتھ ان کے کلیسا میں بیٹھے ہوئے جب نماز کا وقت ہوتا ھے تو وہ اصرار کے باوجود کلیسا میں نماز ادا نہیں‬

‫کرتے کہ آنے والے دور میں مسلمان مبادا اس کلیسا کو متبرک سمجھنا شروع کر دیں یا اس کی حفاظت کرنے کی بجائے‬

‫اس کو جواز بنا کر اس کے اوپر اپنی مسجد تعمیر ڈالیں!۔‬

‫‪۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰‬‬

‫!قارئیِن کرام‬
‫نبی کریم ﷺ تیرہ سال مکہ میں رہے اور مکہ میں کعبہ کو ہی اپنا قبلہ بنائے رکھا۔ اسی طرف رخ کر کے عبادت‬

‫کرتے تھے۔ اسی کا طواف کرتے تھے‪ ،‬لیکن اس کعبہ کی تولیت ابولہب اینڈ کمپنی کے پاس تھی جنہوں نے اس مرکِز‬

‫توحید کو شرک کا مرکز بنا رکھا تھا۔ یہ مشرکین مرکِز توحید کی تولیت کے حقدار ہر گز نہیں تھے(َو َم ا َك اُنوا َأْو ِلَياَءُه)۔‬

‫اور ہللا تعالٰی نے یہ بھی فرمایا کہ کعبہ کی تولیت کے حقدار متقین ہی ہو سکتے ہیں (ِإْن َأْو ِلَياُؤ ُه ِإاَّل اْلُم َّتُقوَن (‪)8.34‬۔ اس‬

‫لئے نبی کریم ﷺ کی ہمیشہ سےیہ خواہش اور کوشش تھی کہ بیت ہللا کو شرک سے پاک کر کے مرکِز توحید بنانے‬

‫کے لئے ایمان والوں کی تولیت میں لیا جائے۔‬

‫)واضح رہے محض خواہش یا آرزو کچھ معنی نہیں رکھتی جب تک کہ اس کے ساتھ کوشش اور جد و جہد نہ ہو(‬

‫نبی کریم ﷺ جب مشرکیِن مکہ کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کر گئے ‪ ،‬تو مکہ سے‬

‫دور جا کر مدینہ میں یہ آرزوئیں مزید شدت اختیار کر گئیں کہ یا باری تعالٰی کعبہ مومنین کی تولیت میں آ جائے تاکہ ہم‬

‫اس کے مقاصد کو بجا الئیں۔ حقیقِت منتَظر کی یہ آرزو لباِس مجاز میں آپ خوابوں میں دیکھا کرتے تھے‪ ،‬جس کا اجمالی‬

‫تذکرہ قرآِن کریم کی سورہ فتح آیت ‪ ۲۷‬اور سورہ بنی اسرائیل آیت ‪۶۰‬میں موجود ہے۔‬

‫َلَقْد َص َدَق هَّللا َر ُسوَله الُّر ْؤ َيا ِباْلَح ِّق َلَتْدُخ ُلَّن اْلَم ْس ِج َد اْلَحَر اَم ِإن َش اء هَّللا آِمِنيَن ُمَح ِّلِقيَن ُرُؤوَس ُك ْم َوُم َقِّص ِر يَن َال َتَخ اُفوَن َفَعِلَم َم ا َلْم‬

‫َتْع َلُم وا َفَجَعَل ِم ن ُدوِن َذ ِلَك َفْتًحا َقِريًبا ﴿‪( ﴾27‬سورہ الفتح)‬

‫َو ِإْذ ُقْلَنا َلَك ِإَّن َر َّبَك َأَح اَط ِبالَّناِس َو َم ا َجَع ْلَنا الُّر ؤَيا اَّلِتي َأَر ْيَناَك ِإَّال ِفْتَنة ِّللَّناِس َو الَّش َجَر ة اْلَم ْلُعوَنة ِفي الُقْر آِن َو ُنَخ ِّو ُفهْم َفَم ا َيِز يُدهْم‬

‫ِإَّال ُطْغ َياًنا َك ِبيًرا ﴿‪( ﴾60‬سورہ بنی اسرائیل)‬

‫۔‬

‫قارئیِن کرام! مکہ مکرمہ میں مومنین کی تعداد بہت کم رہی ‪ ،‬ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے‪ ،‬حتٰی کہ انہیں اپنا‬

‫گھر بار چھوڑ کر ہجرت پر مجبور ہونا پڑا۔ مدینہ میں اسالمی ریاست کے تمکن کے لئے زمین زرخیز تھی۔ وہاں جاتے‬

‫ہی آپﷺ کا فقیدالمثال استقبال ہوا۔ لوگ گروہ در گروہ مشرف بہ اسالم ہوئے۔‬

‫قبلہ کا مسئلہ مدینہ میں آ کر پیدا ھوا جہاں کچھ یہودی اپنی خوئے بد سے مجبور اپنے مذموم مقاصد کی غرض سے‬

‫منافقت کے روپ میں آ کر مصلحتًا مسلمان ہوئے ۔ ان منافقین کے لئے اپنے ھی قبلہ پر رہتے ہوئے اسالم کا روپ دھار‬

‫لینا زیادہ موزوں تھا۔‬


‫کلمہ اسالم پڑھ کر ان کے لئے سب سے بڑی تکلیف اپنا قبلہ تبدیل کر کے کعبہ کو بنانا تھی۔ وہ چاہتے تھے ہم بظاہر ان‬

‫کے ساتھ ملے رہیں لیکن ہمارا قبلہ تبدیل نہ ہو ‪ ،‬یہ تبدیلی ان کے لئے ایک مصیبت تھی جسے قرآِن کریم نے یوں بیان‬

‫کیا ہے (َوِإن َكاَنْت َلَك ِبيَر ًة ِإاَّل َع َلى ٱَّلِذ يَن َهَدى ٱلَّلـُه)۔‬

‫وہ یہودی منافقین اپنی زبانوں سے کہا کرتے تھے کہ مسلمانوں کو کیا مسئلہ ہے کہ جس قبلے پر ہم پہلے سے چلے آ‬

‫رہے تھے تو اس کو بدل کر ہمیں کہا جا رہا کہ اب تمہارا قبلہ کوئی اور نہیں بلکہ کعبہ ہے ؟ ہم مسلمان ہو چکے ہیں‬

‫لیکن قبلہ بدلنے کی کیا ضرورت ہے؟ (واضح رہے کہ یہودی اپنے نشانات و شعار کی تقدیس و حفاظت کے لئے ہمیشہ‬

‫سے آج تک اپنی انتہائی کوشش کرتے ہیں‪ ،‬وہ کسی ملک میں رہتے ہوں اپنے گھروں کے ڈیزائنوں میں بھی اپنی قومی‬

‫نشانوں کو فخر سے کندہ کرتے ہیں) چنانچہ قرآِن کریم نے انہی منافقین کی کیفیت کو سورہ البقرہ آیت ‪ 142‬میں بیان کیا‬

‫ہے‪ ،‬جسے مسلمان روایات کے زیِر اثر اپنے قبلہ کی تبدیلی پر محمول کرتے ہیں۔ اس آیت پر غور فرمائیے اس میں‬

‫کہیں پر بھی مسلمانوں کے قبلہ کی تبدیلی کا ذکر نہیں ہے۔‬

‫َسَيُقوُل الُّس َفهاء ِم َن الَّناِس َم ا َو َّالهْم َعن ِقْبَلِتهُم اَّلِتي َك اُنوْا َع َلْيها ﴿‪ ﴾142‬اور اس کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے۔‬

‫عنقریب بے وقوف لوگ کہیں گے کہ ان (مسلمانوں) کو کس چیز نے روگردان کر دیا اس قبلہ (بیت المقدس) سے‪ ،‬جس‬

‫پر وہ پہلے تھے۔ (مترجم محمد حسین نجفی)۔‬

‫قارئین! غور فرمائیے اس آیت میں کہیں پر بھی "مسلمان" کا لفظ نہیں ہے۔ لیکن مترجمیں نے روایات کے زیِر اثر اس‬

‫لفظ کو بریکٹوں میں لکھ دیا۔ جو کہ صرف و نحو کے اعتبار سے بھی درست نہیں ہے۔‬

‫کیونکہ اگر ہم خالی الذھن ہو کر غور کریں تو بات واضح ہے ‪ ،‬کہا یہ جا رہا ھے کہ لوگوں میں سے اب نادان لوگ‬

‫(ٱلُّس َفَهآُء ) کہیں گے کہ ان (ٱلُّس َفَهآُء ) کو ان (ٱلُّس َفَهآُء ) کے قبلہ سے کس نے روکا جن پر وہ (ٱلُّس َفَهآُء ) (ملِت ابراہیمی سے‬

‫بغاوت کرتے ہوئے ( َو َم ن َيْر َغُب َعن ِّم َّلِة ِإْبَٰر ِهۧـ َم ِإاَّل َم ن َسِفَه َنْفَس ُه)) پہلے سے چلے آ رہے تھے۔‬

‫یہاں َو َّلٰى ُهْم ۔۔۔۔ ِقْبَلِتِهُم ۔۔۔ َك اُنوا ۔۔۔ تینوں ضمائر آیت میں موجود لفظ ٱلُّس َفَهآُء کی طرف راجع ہیں۔۔۔ لیکن روایات کے زیِر اثر‬

‫یہ تینوں ضمائر ایک ایسے لفظ (یعنی "مسلمان") کی طرف لوٹا دئیے گئے جو لفظ آیت میں ہے ہی نہیں۔‬

‫یعنی در حقیقت قبلہ تبدیلی کا اعتراض منافقین کرتے پھر رہے تھے (جو اعتراض مسلمانوں نے کبھی کیا ہی نہیں تھا) کہ‬

‫ہمیں قبلہ کی تبدیلی کا کیوں کہا جا رہا ہے؟۔ یہی تو وہ چیز تھی جو ان مصلحتی مسلمانوں کے لئے مصیبت (قرآن کے‬

‫الفاظ میں َلَك ِبيَر ًة) بن چکی تھی ‪ ،‬یہی تو کھرے کھوٹے کو نکھارنے والی تھی۔ (ِإاَّل ِلَنْع َلَم َم ن َيَّتِبُع الَّرُسوَل )‬
‫۔‬

‫اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ ہللا نے پھر ان کے لئے منافقین کا لفظ کیوں استعمال نہیں کیا ؟ لہاذا یہ منافقین نہیں بلکہ‬

‫مومنین ہی تھے۔ اس لئے ہم اسی سورہ کی صرف ایک آیت پیش کئے دیتے ہیں جو منافقین سے ہی متعلق ہے لیکن ان‬

‫کے لئے بھی لفظ منافق استعمال نہیں کیا گیا۔‬

‫]َوِم َن الَّناِس َم ن َيُقوُل آَم َّنا ِباِهَّلل َو ِباْلَيْو ِم اآْل ِخ ِر َو َم ا ُهم ِبُم ْؤ ِمِنيَن ]‪2.8‬‬

‫)اس سے اگلی آیات بھی منافقین کے متعلق ہی ہیں۔‬

‫۔‬

‫بہر حال یہود منافقین کے جواب میں کہا گیا کہ ُقل ِهَّلِّل اْلَم ْش ِر ُق َو اْلَم ْغ ِر ُب ۔۔ (اے پیغمبرﷺ) کہہ دیجئے ہللا مشرق اور‬

‫مغرب تو ہللا ہی کے لئے ہے۔ اور اگلے الفاظ پر غور فرمائیے‪ ،‬جو سارا مسئلہ ہی حل کر دیتے ہیں۔ کہا کہ َيْهِد ى َم ن‬

‫َيَش آُء ِإَلٰى ِص َٰر ٍط ُّم ْسَتِقيٍم (وہ جسے چاہتا ہے سیدھے راستہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے)۔‬

‫یعنی واضح انداز میں بتا دیا گیا کہ مسلمان جس کو قبلہ مانتے چلے آ رہے ہیں وہی ایک صراِط مستقیم ہے۔‬

‫یاد رکھئے صراِط مستقیم ایک ہوتی ہے اور ٹیڑھی راہیں کئی ہوتی ہیں۔ صراِط مستقیم کعبہ کو قبلہ تسلیم کرنا ہی ہے‪،‬‬

‫کسی بھی اور کو قبلہ ماننا (خواہ وہ سترہ مہینوں کے لئے ہو یا سترہ سیکنڈ کے لئے) گمراہی کا راستہ ہے۔یہ قرآن سے‬

‫بطوِر نص ثابت ہو گیا۔‬

‫اس سے اگلی آیت مالحظہ فرمائیے جو اس بات کو مزید واضح کر دیتی ہے‪ ،‬۔‬

‫یہودیوں کی یہی خواہش تھی کہ مسلمان کسی نہ کسی طرح ہمارے قبلہ کی اتباع شروع کر دیں۔ چنانچہ ہللا تعالٰی نے‬

‫نبیﷺ سےفرمایا کہ‪::‬۔‬

‫َو َم ا َجَع ْلَنا اْلِقْبَلَة اَّلِتي ُك نَت َع َلْيَها ِإاَّل ِلَنْع َلَم َم ن َيَّتِبُع الَّرُسوَل ِمَّم ن َينَقِلُب َع َلٰى َع ِقَبْيِهۚ ۔‬

‫آپ جس قبلہ پر ہو یہ اس لئے مقرر کیا تاکہ واضح ہو جائے رسولﷺ کی اتباع کون کرتا ہے اور ایڑیوں کے بل‬

‫کون پلٹ جاتا ہے؟۔‬

‫کسوٹی بنائی ہللا تعالی نے۔ ایک محسوس کسوٹی‪ ،،‬جس سے پتا چل جائے گا کہ کون رسول کا اتباع کرتا ہے اور کون‬

‫رو گردانی کرتا ہے۔‬


‫اور ساتھ ہی کہا کہ َو ِإن َكاَنْت َلَك ِبيَر ًة ِإاَّل َع َلى ٱَّلِذ يَن َهَدى ٱلَّلـُه ‪ ،،‬یعنی اس قبلہ کی پیروی جو لوگ ہدایت پر ہیں ان کے سوا‬

‫دوسرے لوگوں پر بہت گراں ہے۔‬

‫غور فرمائیے‪ ،‬کیا ہللا کے حکم پر کسی بھی طرف خاص کر بیت ہللا کی طرف رخ کرنا سچے مسلمانوں کے لئے کوئی‬

‫گرانی‪ ،‬کوئی مشکل یا کوئی آزمائش ہو سکتی ہے؟‬

‫مسلمان تو پہلے دن سے کعبہ کا احترام کرتے تھے‪ ،‬اسے باعِث افتخار سمجھتے تھے‪ ،‬ہمیشہ مکہ پلٹنے کی آرزوئیں‬

‫کرتے تھے‪ ، ،‬صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے گھر بار چھوڑ کر مدینہ ہجرت کر گئے‪ ،‬تیرہ سال تک ہر طرح کی‬

‫آزمائش اور مصیبت کے وقت نبی کریمﷺ کے ساتھ جاں نثار بن کر کھڑے رہے‪ ،‬ایسے مومنین کے لئے کعبہ کا‬

‫قبلہ مقرر ہونا باعث مسرت ہو گا یا باعِث آزمائش؟‬

‫یہ در اصل ان یہود کے لئے آزمائش تھی جو مصلحتًا مسلمان ہوئے تھے۔‬

‫‪۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰‬‬

‫اب اسی باب کی ایک اور آیت بھی دیکھ لیجئے‬

‫َو َلِئْن َأَتْيَت اَّلِذ يَن ُأوُتوا اْلِكَتاَب ِبُك ِّل آَيٍة َّم ا َتِبُعوا ِقْبَلَتَك ۚ َو َم ا َأنَت ِبَتاِبٍع ِقْبَلَتُهْم ۚ َو َم ا َبْعُضُهم ِبَتاِبٍع ِقْبَلَة َبْع ٍضۚ َو َلِئِن اَّتَبْعَت َأْهَو اَء ُهم‬

‫ِّم ن َبْع ِد َم ا َج اَء َك ِم َن اْلِع ْلِم ۙ ِإَّنَك ِإًذ ا َّلِم َن الَّظاِلِم يَن ۔‪2.145‬‬

‫تم ان اہل کتاب کے پاس خواہ کوئی نشانی لے آؤ‪ ،‬ممکن نہیں کہ یہ تمہارے قبلے کی پیروی کرنے لگیں‪ ،‬اور نہ تمہارے‬

‫لیے یہ ممکن ہے کہ تم ان کے قبلے کی پیروی کرو‪ ،‬اور ان میں سے کوئی گروہ بھی دوسرے کے قبلے کی پیروی کے‬

‫لیے تیار نہیں ہے‪ ،‬اور اگر تم نے اس علم کے بعد جو تمہارے پاس آ چکا ہے‪ ،‬ان کی خواہشات کی پیروی کی‪ ،‬تو یقینًا‬

‫تمہارا شمار ظالموں میں ہوگا ۔ (مترجم موالنا مودودی)‬

‫غور کیجئے کہ وہی مضمون چل رہا ہے جہاں منافق اہِل کتاب (الُّس َفهاء) یہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی نہ کسی طریقے‬

‫سے ہمیں اپنے قبلہ پر رہ لیناے دیا جائے تو ہم بظاہرمسلمان بن کر رہیں گے ۔‬

‫قرآِن کریم نے کہا کہ یہ لوگ (الُّس َفهاء) تمہارے قبلہ کی پیروی نہیں کریں گے۔‬

‫یہ بات نص ہے ‪ ،‬کفایت کرتی ہے اس بات کو‪ ،‬کہ مسلمانوں کا قبلہ ہے ہی کعبہ‪ ،‬جسے ابراہیمؑ نے مرکِز قیام انسانیت‬

‫بنایا تھا۔‬
‫لیکن اس کے ساتھ دو ٹوک الفاظ میں یہ بھی کہہ دیا کہ تم ان کے قبلے کی ہر گز پیروی نہیں کرو گے۔( َو َم ا َأنَت ِبَتاِبٍع‬

‫ِقْبَلَتُهْم ) اور اگر آپ نے ایسا کیا تو آپ کا شمار ظالمین میں سے ہو گا۔‬

‫اس شرعی نص کے بعد کہاں گنجائش رہ جاتی ہے کہ ‪ ۱۷‬مہینے ان کے بیت المقدس کی پیروی کی جائے؟‬

‫کہا کہ ‪ ۱۷‬مہینے تو کیا ‪ ۱۷‬لمحے بھی ان کے قبلہ کی پیروی کی تو آپ کا شمار ظالموں میں ہو جائے گا۔‬

‫۔‬

‫ہم سمجھتے ہیں کہ بیت المقدس کو قبلہ ماننے کی بحث یہاں ختم ہو جاتی ہے لیکن اس باب میں جو آیات پیش کی جاتی‬

‫ہیں ہم ان کو بھی پیش کرتے ہیں۔‬

‫َقْد َنَر ٰى َتَقُّلَب َو ْج ِهَك ِفي الَّس َم اِء ۖ َفَلُنَو ِّلَيَّنَك ِقْبَلًة َتْر َض اَهاۚ َفَو ِّل َو ْج َهَك َش ْطَر اْلَم ْس ِج ِد اْلَحَر اِم ۚ َو َح ْيُث َم ا ُك نُتْم َفَو ُّلوا ُوُجوَهُك ْم َش ْطَر ُه‬

‫اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے کہ‬

‫ہم بار بار آپ کے ُر ِخ انور کا آسمان کی طرف پلٹنا دیکھ رہے ہیں‪ ،‬سو ہم ضرور بالضرور آپ کو اسی قبلہ )اے حبیب(‬

‫کی طرف پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں‪ ،‬پس آپ اپنا رخ ابھی مسجِد حرام کی طرف پھیر لیجئے‪ ،‬اور (اے‬

‫مسلمانو!) تم جہاں کہیں بھی ہو پس اپنے چہرے اسی کی طرف پھیر لو‪( ،‬مترجم ڈاکٹر طاہر القادری)‬

‫غور فرمائیے کہ یہاں ِفي الَّس َم اء ۔۔۔۔ کا ترجمہ کیا گیا آسمان "کی طرف" حاالنکہ اس کے لئے عربی "الٰی " کا لفظ‬

‫استعمال ہوتا ہے۔‬

‫اس کا سیدھا ترجمہ ہے کہ تیرے چہرے کا مقلوب ہونا ہم آسمانوں میں دیکھ رہے ہیں۔‬

‫جیسا کہ ہم نے پہلے ہی عرض کیا کہ کعبہ کی تولیت مشرکیِن مکہ کے پاس تھی جنہوں نے اس مرکِز توحید کو شرک کا‬

‫مرکز بنا رکھا تھا۔ یہ مشرکین مرکِز توحید کی تولیت کے حقدار ہر گز نہیں ہو سکتے تھے(َو َم ا َك اُنوا َأْو ِلَياَءُه)۔ اس لئے‬

‫نبی کریم ﷺ کی ہمیشہ سےیہ خواہش اور کوشش تھی کہ اس مرکز کو شرک سے پاک کر کے مرکِز توحید بنانے‬

‫کے لئے ایمان والوں کی تولیت میں لیا جائے۔ اور ہللا تعالٰی کا وعدہ تھا کہ‬

‫َو َعَد هَّللا اَّلِذ يَن آَم ُنوا ِم نُك ْم َو َع ِم ُلوا الَّصاِلَح اِت َلَيْسَتْخ ِلَفَّنهم ِفي اَأْلْر ِض ( مومنین کے ایمان اور اعماِل صالح کے نتیجے میں‬

‫ملک کی خالفت ملے گی) اور یہ کہ بیت ہللا کی تولیت کے حقدار متقین ہی ہو سکتے ہیں نہ کہ مشرکین (ِإْن َأْو ِلَياُؤ ُه ِإاَّل‬

‫اْلُم َّتُقوَن (‪))8.34‬۔‬


‫یہ نبی کریم ﷺ اسی آرزو کا ذکر ہو رہا ہے ‪ ،‬کہا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ تیرا چہرہ کس قدر مضطرب ہے (اور‬

‫تیرے دل میں یہ آرزوئیں مؤجزن ہیں کہ واپس مکہ میں جا کر کعبہ کو اپنی تولیت میں لے سکیں جس کی بدولت انسانیت‬

‫ظلمات سے نکل کر نور کی طرف صراِط مستقیم پر آ جائے) تو ہم اس قبلے کو ضرور تیری تولیت اور حکمرانی میں‬

‫دے دیں گے۔ اس لئے ضروری ہے کہ تم اپنی تمام تر توجہات کا ُر خ اسی طرف رکھو‪ ،‬اس کے لئے جدو جہد جاری‬

‫رکھو‪ ،‬اور تم جہاں کہیں بھی ہو اپنی توجہات کا رخ مسجد حرام کی طرف ہی رکھو۔‬

‫اس لئے تمہیں ہم نے قومی نہیں بلکہ بین االقوامی امت (ُأَّم ًة َو َس ًطا) )کیونکہ کعبہ کی حیثیت قومی نہیں بین االقوامی ہے(‬

‫بنایا ہے تاکہ تم انسانیت کے اعمال کی نگرانی کرو (ِّلَتُك وُنوا ُش َهَداَء َع َلى الَّناِس) ۔‬

‫مرکِز توحید‪ ،‬مرکِز قیاِم انسانیت‪ ،‬بین االقوامی امت کے ہاتھوں کعبہ کو ہی بننا ہے۔‬

‫آج بھی ہو جو براہیؑم کا ایماں پیدا؎‬

‫آگ کر سکتی ہے انداِز گلستاں پیدا‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫‪:‬ایک ضمنی نکتہ‬

‫کہا جاتا ہے کہ حضرت موسٰی علیہ السالم کو ہللا نے حکم دیا تھا کہ گھروں کو ہی قبلہ بنا لو‪ ،‬تو ایسا کیوں کہا گیا اگر‬

‫قبلہ صرف کعبہ ہی تھا؟‬

‫َو َأْو َح ْيَنا ِإَلٰى ُم وَس ٰى َو َأِخ يِه َأن َتَبَّوآ ِلَقْو ِم ُك َم ا ِبِم ْص َر ُبُيوًتا َو اْج َع ُلوا ُبُيوَتُك ْم ِقْبَلًة َو َأِقيُم وا الَّص اَل َة َو َبِّش ِر اْلُم ْؤ ِمِنيَن ۔‬

‫اور ہم نے موسٰؑی اور اس کے بھائی کووحی کی کہ مصر میں چند مکان اپنی قوم کے لیے مہیا کرو اور اپنے ان مکانوں‬

‫کو قبلہ ٹھیرا لو اور اقامِت صلٰو ۃ کرو اور اہل ایمان کو بشارت دے دو (‪)۸۷:۱۰‬‬

‫!محترم احباب‬

‫حضرت موسٰی علیہ السالم کے دور میں انسانیت کا شعور ہنوز نہایت ناپختہ تھا‪ ،‬وہ کسی ایسے اجتماعی نظام کو قبول‬

‫کرنے کے قابل ہی نہ تھا جس میں مفاِد عامہ ‪ ،‬عدل اور دیگر مستحکم و مستقل بنیادوں پر متمکن ہو کر عالمی قیادت و‬

‫سیادت کر سکیں۔‬
‫اس پر ہمارے ایک سابقہ مضمون کا درج ذیل اقتباس مالحظہ فرمائیے اور اس قوم کے ذہنی شعور کا اندازہ کیجئے جس‬

‫کی وجہ سے انہیں کسی عالمی نظام کی قیادت سونپنا تو کجا کی بات‪ ،‬وہ تو اپنے اچھے برے سے بھی واقف نہ تھے۔‬

‫اس وجہ سے ان سے کہا گیا کہ ابھی تم گھروں کو دینی مراکز بناؤ اور قوم کی تربیت کا بندو بست کرو۔‬

‫‪:‬اقتباس مالحظہ فرمائیے‬

‫۔۔۔‪ ،‬لیکن خوئے غالمی میں گرفتار یہ اسالف پرست قوم اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل ہی کب تھی!۔اس لئے حضرت‬

‫موٰس یؑ ایک منظم معاشرہ کیسے قائم کرتے ؟ اس کے لئے تو قوت اور صبرو استقامت درکار ہوتا ہے جو اس قوم میں‬

‫ناپید تھا۔ اس غالم قوم کو فرعون کے مظالم سے نکال لیا گیا لیکن پھر بھی معمولی معمولی بات پہ شکایت کرتے ہیں کہ‬

‫اے موٰس ؑی یہ تو نے کیا کر دیا ہم پہلے بھی مصیبتوں میں تھے تو اب بھی ویسی ہی مصیبتوں میں ڈال دیا ہے (‪)۷:۱۲۹‬۔‬

‫راستے میں کسی قوم کو بتوں کو پوجتے دیکھا تو کہا ہمیں بھی بس ایسا ہی ایک بت بنا دیں (‪ ، )۷:۱۳۸‬سامری نے‬

‫بچھڑا بنایا تو اس کی پوجا شروع کر دی ‪ ،‬گائے ذبح کرنے کا حکم ہوا توگئو سالہ پرستی کے جذبات آڑے آئے‪ ،‬اور یوں‬

‫بہت کچھ کیا اسالف پرستی میں۔‬

‫جو وادی سینا میں آئے تو مقصد ہی یہ تھا کہ فلسطین کی ارض مقدس میں اپنی آزاد منظم ریاست بنائی جائے‪ ،‬لیکن‬

‫مندرجہ باال خصلتوں کی حامل قوم اس کی اہل ہی کب تھی‪ ،‬غور کیجئے کہ موٰس ؑی ہللا کی طرف سے ان کو بشارت دیتے‬

‫ہیں کہ َیا َقْو ِم اْدُخ ُلوا اَأْلْر َض اْلُم َقَّد َس َة اَّلِتي َكَتَب ُهَّللا َلُك ْم (‪ )۵:۲۱‬اے میری قوم! اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ جو اﷲ‬

‫نے تمہارے لئے لکھ دی ہے۔ تو قوم کی طرف سے جواب مال ‪ ،‬اے موسٰؑی ہمیں وہاں کے طاقتور لوگوں سے ڈر لگتا‬

‫ہے‪ ، ،‬جنگ کرنے کا زیادہ ہی شوق ہے تو جاؤ تم اور تمہارا رب دونوں مل کر جنگ کر کے وہ ملک فتح کر لوپھر ہم‬

‫اس میں داخل ہو جائیں گے۔ (َفاْذ َهْب َأنَت َو َر ُّبَك َفَقاِتاَل ِإَّنا َهاُهَنا َقاِع ُد وَن ) ۔ یہ سب دیکھ کر ُاس اولوالعزم پیغمبرؑ کے دل پر‬

‫کیا گزرتی ہو گی جس نے اس قوم کی خاطر کیا کچھ نہیں کیا تھا!۔ اس قوم نے اس قدر ستایا کہ باآلخر موٰس ؑی نے ہللا کو‬

‫‪:‬اپنے دل کا حال یوں سنایا‬

‫َقاَل َر ِّب ِإِّني اَل َأْمِلُك ِإاَّل َنْفِس ي َو َأِخ يۖ َفاْفُر ْق َبْيَنَنا َو َبْيَن اْلَقْو ِم اْلَفاِس ِقيَن‬

‫اے میرے رب! اپنی ذات اور اپنے بھائی (ہارونؑ ) کے سوا میرا کسی پر بس نہیں چلتا‪ ،‬پس تو ہمیں اس فاسق قوم سے‬

‫الگ کر دے‪)۲۵ :۵( ،‬۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫۔۔۔ شاہ بابا ۔۔۔‬

You might also like