Professional Documents
Culture Documents
اسلام اور روادارى
اسلام اور روادارى
اسلام اور روادارى
هللا رب العزت کے نزديک دنیا کے سارے انسان ایک کنبہ یا خاندان کی مانند ہے اور ہللا کے نزدیک سب سے
بہتر وہی ہے جو اس کنبہ یعنی دوسرے انسانوں کے ساتھ بہتر ہو۔
رواداری ،عدم تحمل کی ضد ہے یعنی کہ یہ صبر وتحمل اور برداشت کرنے کا دوسرا نام ہے۔ اسالم میں
مذہبی رواداری کی تعلیمات ایک روشن باب ہے۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ کے مطالعہ سے یہ بات کھل کر سامنے
آئے گی کہ انسانیت اور مذہبی رواداری کی بے شمار روایات ہیں جن سے بخوبی اندازہ ہوگا کہ مذہب اسالم ایک ایسا
عالمگیر مذہب ہے جس میں انسانیت کے ساتھ حسن سلوک ،انسانوں کی خدمت اور ان کی بہتری ہی سر فہرست ہے۔
قرآن مجید میں رواداری ،فراخدلی اور انسان دوستی کی جو تعلیمات دی گئیں ان پر رسول خدا حضرت
محمؐد نے عمل کر کے دکھایا،ارشاد بارى ہے(( :اے محمؐد ) خدا کی مہربانی سے تمہاری افتاد مزاج ان لوگوں کے لئے نرم
واقع ہوئی ہے۔ اور اگر تم بدخو اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے۔) [آل عمران]159 :۔
’’آؐپ ؐ کا ارشاد گرامی بھی اسی مضمون کی تائید کرتا ہے ،ساری مخلوق خدا کا کنبہ ہے ،اس کے نزدیک سب
سے پسندیدہ انسان وہ ہے جو اس کے کنبہ کے ساتھ نیکی کرے،اچھا برتاؤ کرے ،حضوؐر کی تعلیم یہ بھی رہی کہ ایک
دوسرے سے تعلقات ختم نہ کئے جائیں ،ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرا جائے ،ایک دوسرے سے کینہ نہ رکھا جائے ،ایک
دوسرے سے حسد نہ کیا جائے ،بس سب کو آپس میں خدا کے بندے بن کر رہنا چاہئے۔
آؐپ نے بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا ،اس پر خدا بھی
رحم نہیں کرتا ،اسالم کے دشمنوں کے مظالم سے تنگ آکر ایک مرتبہ صحابہ -رضى هللا عنہ -نے آؐپ سے ان کے لئے
بددعا کی درخواست کی تو آؐپ نے فرمایا ’’ :میں لعنت اور بددعا کرنے کے لئے نہیں بھیجا گیا ہوں بلکہ رحمت بنا کر
بھیجا گیا ہوں"۔
رسول ؐہللا نے نبوت کے فرض منصبی کو بحسن و خوبی انجام دیتے ہوئے ایسی رواداری اور فراخدالی
دکھائی جو انسانی تاریخ کی بہت روشن اور تابناک مثالیں ہیں۔ قریش ،یہود اور نصارٰی سب ہی نے آؐپ کو ہر طرح
کی ایذائیں پہنچائیں ،مگر آؐپ نے ان سب کو نہایت صبروتحمل اور بردباری سے برداشت کیا ،یہودی ،عیسائی اور
کفارومشرکین کی جانب سے ایذاء رسانیوں کی ایک لمبی فہرست ہے لیکن مشہور نعت کے یہ الفاظ ہمیں اچھی طرح
ہیں۔
اسالم بنيادى طورپر روداری کا درس دیتا ہے اور اس کے ساتھ دوسروں کے مذہب کااحترام کرنا بھی سکھاتا
ہے ،آج دنیا میں لسانی ،مذہبی ،سماجی بحران کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ دنیا میں بسنے والی مختلف اقوام،
قبیلوں نے ایک دوسرے کے مذہب وعقیدے کے خالف نفرت آمیز رویہ اپنا رکھا ہے حاالنکہ فی الوقت دنیا کو امن کی
شدید ضرورت ہے اور آج اضطرابی دور میں مذاہب اور تہذیبوں کے درمیان مکالموں کودنیا کی سب سے بڑی ضرورت
اور خواہش کے طور پر محسوس کیاجا رہا ہے۔
یہاں یہ امراہمیت کا حامل ہے کہ ہر مذہب کی اپنی زبان اور روایات ہوتی ہیں جو عوام کو بنیادی انسانی
قدریں عطا کرتی ہیں جس سے انسانی معاشرہ بہتری کی طرف بڑھتا ہے اور یہ قدریں سوسائٹی کے نگران کا کردار
ادا کرتی ہیں۔
اسالم نظریاتی اختالف کو قبول کرتا ہے،برداشت ،احترام اور محبت کی پالیسی کو تشکیل دیتا ہے ،اچھے
اور پر امن معاشرے کی تشکیل کیلئے تضادات کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے،اختالفات کو سمجھنے کے بعد ہی دوسرے
مذاہب اور عقائد کے احترام کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور اس طرح ہی مختلف مسالک اور مذاہب کے لوگوں کو قریب الیا
جا سکتا ہے۔
برداشت اور احترام کا رویہ اسالم کی تعلیمات کا جزو ال ينفك ہے،اسالم کی کامیابی کی بنیادی وجہ مکالمہ
ہی تھا اور حضرت محمؐد کی پوری زندگی مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کی کوششوں سے عبارت ہے ،ہمارے پیارے نبی
حضرت محمؐد نے عيسايئوں اور یہودیوں سے مکالمہ کیا اور مدینہ کی ایسی ریاست تشکیل دی جس میں تین مرکزی
مذہب کے لوگ آباد تھے اور وہاں امن سالمتی اور باہمی احترام غالب تھا۔
اسالمی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ مکالمہ اور بات چیت کی نہ صرف اسالم کی طرف سے
اجازت ہے بلکہ پیغمبر اسالم کی سنت بهی ،مکالمے سے بڑھ کر معاہدہ بھی اہم ہے ،صلح حدیبیہ اسالمی تاریخ کا
معروف ومشہور معاہدہ ہے ،حضرت محمؐد مدینہ طیبہ تشریف الئے تو یہاں اس وقت بنو نضیر،بنو قریضہ اور بنو
قنیقاع مشہور قبیلے آباد تھے،حضرت محمؐد نے ان سے بات چیت ہی نہیں معاہدہ بھی کیا جو میثاق مدینہ کے نام سے
مشہور ہے .اختالف میں تنوع ہوتا ہے اور تنوع میں تکامل اور تکامل میں قوت۔۔۔یہ اختالف اگر ہمارے دین کے
اصولوں کے خالف نہیں تو اس کو صبر وتحمل کے ساتھ قبول کرنا کمزوری نہیں بلکہ قوت ہے۔