اسلام اور روادارى

You might also like

Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 2

‫اسالم اور روادارى‬

‫پير‪ 10 ,‬دسمبر‪| 2018 ,‬‬

‫هللا رب العزت کے نزديک دنیا کے سارے انسان ایک کنبہ یا خاندان کی مانند ہے اور ہللا کے نزدیک سب سے‬
‫بہتر وہی ہے جو اس کنبہ یعنی دوسرے انسانوں کے ساتھ بہتر ہو۔‬

‫رواداری ‪ ،‬عدم تحمل کی ضد ہے یعنی کہ یہ صبر وتحمل اور برداشت کرنے کا دوسرا نام ہے۔ اسالم میں‬
‫مذہبی رواداری کی تعلیمات ایک روشن باب ہے۔ قرآن مجید اور احادیث نبویہ کے مطالعہ سے یہ بات کھل کر سامنے‬
‫آئے گی کہ انسانیت اور مذہبی رواداری کی بے شمار روایات ہیں جن سے بخوبی اندازہ ہوگا کہ مذہب اسالم ایک ایسا‬
‫عالمگیر مذہب ہے جس میں انسانیت کے ساتھ حسن سلوک ‪ ،‬انسانوں کی خدمت اور ان کی بہتری ہی سر فہرست ہے۔‬

‫قرآن مجید میں رواداری‪ ،‬فراخدلی اور انسان دوستی کی جو تعلیمات دی گئیں ان پر رسول خدا حضرت‬
‫محمؐد نے عمل کر کے دکھایا‪،‬ارشاد بارى ہے‪(( :‬اے محمؐد ) خدا کی مہربانی سے تمہاری افتاد مزاج ان لوگوں کے لئے نرم‬
‫واقع ہوئی ہے۔ اور اگر تم بدخو اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے۔) [آل عمران‪]159 :‬۔‬

‫’’آؐپ ؐ کا ارشاد گرامی بھی اسی مضمون کی تائید کرتا ہے ‪ ،‬ساری مخلوق خدا کا کنبہ ہے‪ ،‬اس کے نزدیک سب‬
‫سے پسندیدہ انسان وہ ہے جو اس کے کنبہ کے ساتھ نیکی کرے‪،‬اچھا برتاؤ کرے ‪،‬حضوؐر کی تعلیم یہ بھی رہی کہ ایک‬
‫دوسرے سے تعلقات ختم نہ کئے جائیں‪ ،‬ایک دوسرے سے منہ نہ پھیرا جائے‪ ،‬ایک دوسرے سے کینہ نہ رکھا جائے‪ ،‬ایک‬
‫دوسرے سے حسد نہ کیا جائے‪ ،‬بس سب کو آپس میں خدا کے بندے بن کر رہنا چاہئے۔‬

‫آؐپ نے بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا ‪ ،‬اس پر خدا بھی‬
‫رحم نہیں کرتا‪ ،‬اسالم کے دشمنوں کے مظالم سے تنگ آکر ایک مرتبہ صحابہ ‪ -‬رضى هللا عنہ ‪-‬نے آؐپ سے ان کے لئے‬
‫بددعا کی درخواست کی تو آؐپ نے فرمایا ‪’’ :‬میں لعنت اور بددعا کرنے کے لئے نہیں بھیجا گیا ہوں بلکہ رحمت بنا کر‬
‫بھیجا گیا ہوں"۔‬

‫رسول ؐہللا نے نبوت کے فرض منصبی کو بحسن و خوبی انجام دیتے ہوئے ایسی رواداری اور فراخدالی‬
‫دکھائی جو انسانی تاریخ کی بہت روشن اور تابناک مثالیں ہیں۔ قریش‪ ،‬یہود اور نصارٰی سب ہی نے آؐپ کو ہر طرح‬
‫کی ایذائیں پہنچائیں‪ ،‬مگر آؐپ نے ان سب کو نہایت صبروتحمل اور بردباری سے برداشت کیا‪ ،‬یہودی ‪ ،‬عیسائی اور‬
‫کفارومشرکین کی جانب سے ایذاء رسانیوں کی ایک لمبی فہرست ہے لیکن مشہور نعت کے یہ الفاظ ہمیں اچھی طرح‬
‫ہیں۔‬

‫اسالم بنيادى طورپر روداری کا درس دیتا ہے اور اس کے ساتھ دوسروں کے مذہب کااحترام کرنا بھی سکھاتا‬
‫ہے‪ ،‬آج دنیا میں لسانی‪ ،‬مذہبی‪ ،‬سماجی بحران کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ دنیا میں بسنے والی مختلف اقوام‪،‬‬
‫قبیلوں نے ایک دوسرے کے مذہب وعقیدے کے خالف نفرت آمیز رویہ اپنا رکھا ہے حاالنکہ فی الوقت دنیا کو امن کی‬
‫شدید ضرورت ہے اور آج اضطرابی دور میں مذاہب اور تہذیبوں کے درمیان مکالموں کودنیا کی سب سے بڑی ضرورت‬
‫اور خواہش کے طور پر محسوس کیاجا رہا ہے۔‬

‫یہاں یہ امراہمیت کا حامل ہے کہ ہر مذہب کی اپنی زبان اور روایات ہوتی ہیں جو عوام کو بنیادی انسانی‬
‫قدریں عطا کرتی ہیں جس سے انسانی معاشرہ بہتری کی طرف بڑھتا ہے اور یہ قدریں سوسائٹی کے نگران کا کردار‬
‫ادا کرتی ہیں۔‬

‫اسالم نظریاتی اختالف کو قبول کرتا ہے‪،‬برداشت‪ ،‬احترام اور محبت کی پالیسی کو تشکیل دیتا ہے ‪ ،‬اچھے‬
‫اور پر امن معاشرے کی تشکیل کیلئے تضادات کو سمجھنا ضروری ہوتا ہے‪،‬اختالفات کو سمجھنے کے بعد ہی دوسرے‬
‫مذاہب اور عقائد کے احترام کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور اس طرح ہی مختلف مسالک اور مذاہب کے لوگوں کو قریب الیا‬
‫جا سکتا ہے۔‬

‫برداشت اور احترام کا رویہ اسالم کی تعلیمات کا جزو ال ينفك ہے‪،‬اسالم کی کامیابی کی بنیادی وجہ مکالمہ‬
‫ہی تھا اور حضرت محمؐد کی پوری زندگی مذاہب کے درمیان ہم آہنگی کی کوششوں سے عبارت ہے‪ ،‬ہمارے پیارے نبی‬
‫حضرت محمؐد نے عيسايئوں اور یہودیوں سے مکالمہ کیا اور مدینہ کی ایسی ریاست تشکیل دی جس میں تین مرکزی‬
‫مذہب کے لوگ آباد تھے اور وہاں امن سالمتی اور باہمی احترام غالب تھا۔‬

‫اسالمی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ مکالمہ اور بات چیت کی نہ صرف اسالم کی طرف سے‬
‫اجازت ہے بلکہ پیغمبر اسالم کی سنت بهی‪ ،‬مکالمے سے بڑھ کر معاہدہ بھی اہم ہے ‪،‬صلح حدیبیہ اسالمی تاریخ کا‬
‫معروف ومشہور معاہدہ ہے‪ ،‬حضرت محمؐد مدینہ طیبہ تشریف الئے تو یہاں اس وقت بنو نضیر‪،‬بنو قریضہ اور بنو‬
‫قنیقاع مشہور قبیلے آباد تھے‪،‬حضرت محمؐد نے ان سے بات چیت ہی نہیں معاہدہ بھی کیا جو میثاق مدینہ کے نام سے‬
‫مشہور ہے‪ .‬اختالف میں تنوع ہوتا ہے اور تنوع میں تکامل اور تکامل میں قوت۔۔۔یہ اختالف اگر ہمارے دین کے‬
‫اصولوں کے خالف نہیں تو اس کو صبر وتحمل کے ساتھ قبول کرنا کمزوری نہیں بلکہ قوت ہے۔‬

You might also like