Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 1

‫صادق ہدایت‬

‫مختصر تعارف‬
‫صادق ہدایت (‪ 17‬فروری ‪1903‬ء ‪ 4 -‬اپریل ‪1951‬ء) ایرانی مصنف‪ ،‬مترجم اور دانشور ہیں جنہوں نے ایرانی ادب‬
‫میں جدید تکنیک متعارف کرائی۔ انہیں بالشبہ بیسویں صدی کے عظیم مصنفین میں شمار کیا جاتا ہے۔‬
‫ذاتی زندگی‬
‫صادق ہدایت ‪ 17‬فروری ‪1903‬ء کو تہران کے ایک متمّو ل گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد‪ ،‬مرزا محمد علی‬
‫ہدایت‪ ،‬ایک مشیر اور سفارت کار تھے۔ ہدایت نے ابتدائی تعلیم ایران میں حاصل کی‪ ،‬اور پھر ‪1922‬ء میں پیرس چلے‬
‫گئے‪ ،‬جہاں انہوں نے فرانسیسی زبان اور ادب کی تعلیم حاصل کی۔‬
‫ہدایت نے ‪ 1930‬ء میں ایران واپس آ کر مترجم کے طور پر کام شروع کیا۔ انہوں نے فرانسیسی زبان سے بہت سی‬
‫کتابوں کا فارسی میں ترجمہ کیا‪ ،‬جن میں سے کچھ مشہور کتابیں ہیں‪:‬‬
‫"اے میرے دل کا میر"‪ ،‬فرانس کے مشہور مصنف‪ ،‬شارل بوڈلر کی نظموں کا مجموعہ‬ ‫‪‬‬
‫"ڈی سٹین"‪ ،‬فرانس کے مشہور مصنف‪ ،‬ژان ژاک روسو کا فلسفیانہ ناول‬ ‫‪‬‬
‫"مدام بوواری"‪ ،‬فرانس کے مشہور مصنف‪ ،‬گوستاو فلوبر کا ناول‬ ‫‪‬‬
‫ہدایت نے ‪ 1930‬ء کی دہائی میں اپنی افسانہ نگاری کا آغاز کیا۔ ان کے پہلے افسانوں کے مجموعے‪" ،‬زندہ بگور" (‬
‫‪1930‬ء)‪ ،‬میں ایران کی سماجی اور سیاسی صورتحال کی عکاسی کی گئی ہے۔‬
‫افسانہ نگاری‬
‫صادق ہدایت کو ایرانی افسانہ نگاری کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ ان کے افسانوں میں ایران کی سماجی اور سیاسی‬
‫صورتحال کی عکاسی کی گئی ہے‪ ،‬اور ان میں عام آدمی کی زندگیوں کے مسائل اور مشکالت کو پیش کیا گیا ہے۔‬
‫ہدایت کے افسانوں کی کچھ مشہور مثالیں ہیں‪:‬‬
‫"بوف کور" (‪ 1937‬ء)‪ :‬ایک نابینا شخص کی کہانی ہے جو ایک اللچی اور ظالم گھرانے میں رہتا ہے۔‬ ‫‪‬‬
‫"سایۂ روشن" (‪ 1933‬ء)‪ :‬ایک نوجوان عورت کی کہانی ہے جو اپنے شوہر کے ساتھ اپنے گاؤں سے شہر میں آتی‬ ‫‪‬‬
‫ہے‪ ،‬اور پھر شہر کی زندگی کے ساتھ ڈھلنے کے لیے جدوجہد کرتی ہے۔‬
‫"غوغ وغ ساباب" (‪ 1933‬ء)‪ :‬ایک نوجوان لڑکے کی کہانی ہے جو اپنے والدین کی توقعات پر پورا نہیں اتر پاتا‪ ،‬اور‬ ‫‪‬‬
‫پھر اپنی زندگی کا مقصد تالش کرنے کے لیے تالش میں نکل پڑتا ہے۔‬
‫ناول نگاری‬
‫صادق ہدایت نے ایک ہی ناول‪" ،‬بوف کور" (‪1937‬ء)‪ ،‬لکھا۔ یہ ناول ایک نابینا شخص کی کہانی ہے جو ایک اللچی‬
‫اور ظالم گھرانے میں رہتا ہے۔ یہ ناول ایرانی ادب کا ایک کالسک ناول سمجھا جاتا ہے۔‬
‫خودکشی‬
‫صادق ہدایت نے ‪ 4‬اپریل ‪1951‬ء کو پیرس میں خودکشی کر لی۔ ان کی خودکشی کی وجہ کبھی بھی واضح طور پر‬
‫نہیں بتائی گئی‪ ،‬لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ اپنی قنوطیت اور مایوسی کی وجہ سے خودکشی کر گئے۔‬
‫اہمیت‬
‫صادق ہدایت ایک اہم ایرانی مصنف ہیں جنہوں نے ایرانی ادب میں جدید تکنیک متعارف کرائی۔ ان کے افسانے اور‬
‫ناول ایران کی سماجی اور سیاسی صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں‪ ،‬اور ان میں عام آدمی کی زندگیوں کے مسائل اور‬
‫مشکالت کو پیش کیا گیا ہے۔‬

You might also like