Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 3

‫"ٹائٹل "بڑی غلطی کر بیٹھا ہوں۔‬

‫سمجھ میں نہیں آ رہا کہ اس کا ازالہ کیسے کروں۔‬


‫ہماری روایت کا حصہ ہے والدین اگر کوئی بات اپنی ال علمی کے سبب کر رہے ہوں‬
‫تو انہیں اسی وقت ٹوکنا مناسب نہیں سمجھا جاتا‪ ,‬انہیں بعد میں اکیلے میں ادب تہذیب‬
‫کے دائرے میں رہتے ہوئے پوری بات بتا دی جاتی ہے۔‬

‫والدین بس یکتا ہوتے ہیں۔قدرت نے یہ ایک ایسا جوہر بنا رکھا ہے کہ جو دو میں ایک‬
‫اور ایک میں دو ہیں۔ ایک ایسی مشک ُخ تن جس کی عمر کے ہر پہر میں ایک الگ‬
‫خوشبو ہوتی ہے۔ ایسی ہستیوں کی بات پر ‪ ،‬ان کے عمل پر‪ ،‬ان کے فیصلوں پر اگر‬
‫اختالف بھی ہو‪ ،‬تو احتجاج خاموش ہوتا ہے۔ آوازوں کو والدین کی آواز سے بلند کرنے‬
‫واال شاتم سمجھا جاتا ہے۔ خدا ان لوگوں کے گھر سالمت رکھے جن میں والدین اپنی‬
‫اوالد پر سائبان ہیں۔‬

‫لیکن بھال کرے خدا اس نظام کا‪ ،‬جس نے اس قوم کو گزشتہ پچھتر سالوں میں ہر‬
‫دسویں سال ایک نیا پدر فراہم کیا ہے۔ یہ بات اب صرف سیاست تک محدود نہیں‪ ،‬تاریخ‬
‫میں ہر یسو‪ ،‬پنجو‪ ،‬ہار‪ ،‬کبوتر‪ ،‬ڈولی اسی استھان پر براجمان ہے۔ بس اس میں کچھ‬
‫بنیادی خصائص ہونے الزمی ہوں۔ نمبر ایک‪ ٫‬وہ مسلمان ہونا چاہئیے۔ نمبر دو ‪٫‬فاتح ہونا‬
‫چاہئیے چاہے الیکشن جیتے یا عالقے۔ نمبر تین ‪ ٫‬باہر سے آیا ہو۔ یہ کوالٹی تاریخ میں‬
‫جس کو بھی نصیب ہوئی اس کے نام نہاد کارناموں پر انگلی رکھنے کی گنجائش نہیں۔‬

‫میں آج تک یہ سمجھ رہا تھا کہ بس چند لوگ ہی ہونگے جنہوں نے اپنے سیاسی‪،‬‬
‫تاریخی‪ ،‬سماجی‪،‬ریاستی‪ ،‬افسری لیڈروں کو قوم کے اجداد کا درجہ دے دیا ہے۔ یعنی‬
‫انکے کام پر بات کرنے واال کتنا ہی مدبر کیوں نہ ہو‪،‬ایسے لوگوں کا معتوب ٹھہرے گا۔‬
‫میرا خیال تھا کسی ناقص کو امت کا نجات دہندہ سمجھنے والے بس اّک ا دّک ا ہی ہونگے۔۔‬
‫کیونکہ کامل تو ایک ہی ہے۔ لیکن میں قطعی غلطی پر تھا۔ بہت ہی بڑی غلطی پر تھا۔‬
‫لوگوں کی سوچ تو اس کے برعکس ہے۔‬
‫کسی کو کہیئے کہ فالں عظیم انقالبی شاعر کے افکار تو ہر دو سال بعد بدلتے رہے‬
‫ہیں‪ ،‬وہ آپ کا گریبان پکڑ لے گا۔ کہئیے رنجیت سنگھ نے سامراج کو بیس سال ستلج‬
‫پار نہیں کرنے دیا‪ ،‬وہ آپ کو کاٹ کھائے گا‪ ،‬پوچھئیے کہ اپنے ہزار سالوں میں مسلم‬
‫باشاہوں نے باغ‪ ،‬مزار اور حرم بنانے کے عالوہ کیا کیا ہے؟ تو وہ آپ کو اپنی نشاۃ‬
‫ثانیہ کا دشمن سمجھ لے گا۔‬

‫کسی کو بتالئیے کہ نادر شاہ افشار نے ایک رات میں بیس ہزار افراد کا قتل کیا‪ ،‬احمد‬
‫شاہ بابا نے مرہٹوں کو ہرا کر انگریزوں کے لئے میدان صاف کیا‪ ،‬کیسے مغلوں سے‬
‫ان کی آٹھ سالہ بچیوں کو اٹھا لے جا کر ساٹھ سالہ بوڑھوں سے بیاہا گیا‪ ،‬مغل‪ ,‬لودھی‪،‬‬
‫خلجی‪ ،‬سوری کے ادوار میں کیا کیا ہوا؟ کیسے یہ دھرتی ‪ ،‬اس کے لوگ ‪ ،‬اس کے‬
‫بیٹے ہر فاتح کو کبھی مال سے‪ ،‬کبھی اناج سے‪ ،‬کبھی خود کشیوں سےخراج ادا کرتے‬
‫رہے۔ میر تقی میر کی بیاض سے دہلی کی فتح کے کچھ صفحات پڑھ کے سنائیے۔ وہ‬
‫آپ کے درپے ہو جائیں گے۔‬

‫اگرچہ ظلم ‪ ،‬جبر‪ ،‬استبداد کی یہ داستانیں غیر ملکی فاتحین تک محدود نہیں۔ رنجیت‬
‫کی مغلوں سے نفرت کے زہر نے مغل عمارتوں‪ ،‬مغل امراء‪ ،‬افغان و ہزارہ کے‬
‫کلیجوں کو ٹکڑوں میں کاٹ دیا۔ ساسانیوں نے اس عالقے میں قتال عام کیا‪ ،‬سفید ہنز‬
‫نجانے کیا بال تھے کہ ایک عمارت ایک یونیورسٹی ایک کتاب سالمت نہیں چھوڑی‪،‬‬
‫گپتا ایک ایک جنگ میں الکھ الکھ لوگ قتل کر گئے۔ مگر ان پہ آپ کھل کے تنقید کر‬
‫سکتے ہیں کیونکہ ایک‪ ،‬ہم ان لوگوں کو جانتے نہیں‪ ،‬دو ‪ ،‬وہ لوگ مسلمان نہیں۔‬

‫یہ راز کسی کو نہیں معلوم کہ اس خطے کے بندہ ء مومن اپنی حقیقی والدین کی‬
‫پرفارمینس سے اتنے غیر مطمئن کیوں ہیں کہ ہر راہ چلتے کو قوم کا باپ بنانے پر‬
‫آمادہ ہو جاتے ہیں۔‬

‫ایک طرف دیکھتا ہوں تو جن قوموں نے اپنے اندر نظم قائم کیا ‪ ،‬نظام مضبوط کیا‪،‬‬
‫عدالت قائم کی‪ ،‬انسانیت کا احترام کیا‪ ،‬ذاتی انتخاب کی قدر کی‪ ،‬وہ تمام‬
‫قومیں سرخرو ہیں۔انہوں نے غربت و افالس کو پیچھے چھوڑاہے۔ تو پھر شخصیات کی‬
‫بھگتی کیوں؟ نظام کی مضبوطی کا گیت کیوں نہیں؟‬
‫راز یہ ہے کہ پدر کہالئے جانے کا اختیار صرف اسی کو ہے جس کا پیدائش و پرورش‬
‫میں حصہ ہو۔ جس کا خون آپ کے خون میں شامل ہو۔ باقی سب لوگ‪ ،‬سب نظریات‪،‬‬
‫سب خطابات ذہنی اختراع ہیں۔ نہ خاندانی رشتے ہیں نہ اعتباری۔ ذہنی اختراع پر سوال‬
‫کرنا ضروری ہے۔ اور اگر سوال کرنے کو جراءت سمجھتے ہیں تو آپ کو تصور ِ "یِلد‬
‫و ُم وَلد"ایک بار پھر تازہ کرنا پڑے گا‬

You might also like