Professional Documents
Culture Documents
Life in Madinah Urdu 1 1
Life in Madinah Urdu 1 1
Life in Madinah Urdu 1 1
کے احوال:
مذکورہ عنوان مندرجہ ذیل تین حصوں پر مشتمل ہے
-1مدینہ منورہ سٹی سٹیٹ کا قیام
-2جنگیں
-3رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے زندگی کے آخری سال
شہر نبی وہ شہر ہے جسے نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے 622ء میں مکہ مکرمہ ِ مدینة النبی یا
سے ہجرت کے بعد اپنا مسکن بنایا۔جس کا پرانا نام یثرب تھا۔ اس شہر میں آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی
آمد پر لوگوں نے آپ کا پرتپاک استقبال کیا۔ مدینہ منورہ میں آمد کے بعد سب سے پہلے آپ صلی ہللا
علیہ وسلم نے جو کام کیا وہ ایک مسجد کی تعمیر تھی جہاں مسلمان روزانہ پانچ نمازوں کے لئے
جمع ہوتے تھے۔ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی تبلیغ اورکوششوں کی بدولت آہستہ آہستہ کچھ ہی
سالوں میں یثرب کی پرانی قبائلی روایات مدینہ کی ایک مذہبی سیاسی جماعت میں تبدیل ہو کر رہ
گئیں۔
مدینہ منورہ سٹی سٹیٹ کا قیام:
یثرب اسالم سے پہلے:
یثرب مکہ مکرمہ سے تقریبا 300میل شمال میں حجاز کا حصہ تھا۔ یہ یہودیوں کا وطن تھا
جنہیں یونان اور روم کے حکمرانوں نے فلسطین سے بے دخل کر دیا تھا۔ یثرب میں تین اہم یہودی
قبائل بنو نضیر،بنو قریظہ اور بنو قینقاع آباد تھے۔ ابتداء میں یہودی آبادی عربوں سے زیادہ تھی لیکن
چوتھی صدی کے دوران اوس اور خزرج کے عرب قبائل جو مشرک تھےکچھ یمنی قبائل کے ساتھ
یثرب میں آباد ہوئے۔ ان عرب قبائل نے اس سرزمین پر غلبہ حاصل کیا لیکن یہودی اپنےمذہبی اتحاد
اور ثقافت کی وجہ سے عربوں پر غالب رہے۔ یہ یہودی قبائل کسی نبی کے آنے کےمنتظر تھے جیسا
کہ ان کے صحیفوں میں مذکور ہے۔ دوسری طرف عرب قبائل میں اتحاد نہیں تھا،قبیلہ اوس اور
خزرج ہمیشہ آپس میں لڑتے رہتے تھے۔
حضرت محمد صلی ہللا علیہ وسلم کو یثرب کی اکثریت نےاس وقت یثرب میں مدعو کیا جب عبدہللا بن
ابی یثرب کے بادشاہ کے طور پر منتخب ہونے واال تھا لیکن جب نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کو
یثرب کے بادشاہ کے طور پر منتخب کیا گیا تو عبد ہللا بن ابی آپ کا تاحیات دشمن بن گیا۔
اخوت،بھائی چارہ:
ہجرت کے فوراً بعد ہی مدینہ کے باشندوں کو چار بڑے گروہوں میں تقسیم کردیا گیا۔مہاجرین
اور انصار نے پیغمبر اکرم (ص) کا ساتھ دیا اور یہودی اور عبد ہللا بن ابی کے حامی نبی اکرم صلی
ہللا علیہ وسلم کے مقابلہ میں کھڑے ہوگئے۔ پیغمبر اسالم نے بھائی چارے کا تصور دے کر مہاجرین
مکہ اور انصار مدینہ کے مابین تعلقات کو مضبوط کیا،جیسا کہ سورہ حجرات کی آیت نمبر 10جسے
آیت االخوة بھی کہا جاتا ہے میں بیان ہے:
ون ِإ ْخ َوةٌ َفَأصْ لِحُوا َبي َْن َأ َخ َو ْي ُك ْم ۚ َوا َّتقُوا هَّللا َ َل َعلَّ ُك ْم ُترْ َحم َ
ُون "49:10 - "ِإ َّن َما ْالمُْؤ ِم ُن َ
مومن تو بھائی ہی ہیں ،لہذا اپنے بھائیوں کے مابین صلح کرو اور ہللا سے ڈرو کہ تم پر رحم کیا
جائے۔
مہاجرین مکہ بےسہارا تھے کیونکہ وہ اپنا مال اور جائیداد مکہ مکرمہ میں چھوڑ آئے تھے۔انصار
مدینہ نے مہاجرین کے لئے پوری فراخدلی کا مظاہرہ کیا،انہیں اپنے گھر،مال اور کاروبار میں
شرکت کی پیش کش کی۔ وہ ایمان کی بنیاد پر بھائی بنے اور ایک دوسرے کے غم و خوشی میں
شریک ٹہرے۔
میثاق مدینہ:
اسالم سے پہلے جو دو نسلیں مدینہ میں آباد تھیں وہ عرب اور یہودی ہی تھے۔ مدینہ منورہ
میں اسالم کی آمد کے بعد یہود اور مسلمان ہی دو اہم مذہبی جماعتوں کے روپ میں ابھر کر سامنے
آئے۔نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے تجویز کردہ میثاق مدینہ کی روشنی میں ان دو جماعتوں اور
مدینہ کے مختلف طبقوں کے مابین پرامن تعلقات استوار کرنے پر توجہ دی۔
میثاق مدینہ کی مشہور شق نے یہودیوں اور مدینہ کے مسلمانوں کو یہ باور کروایا کہ وہ
ایک"امت"ہیں اور یہ کہ مدینہ اپنے تمام شہریوں بشمول یہودیوں اور مسلمانوں کے لئے ایک مقدس
جگہ اور جائے پناہ ہے۔ مدینہ کی ریاست میں ہللا کی حاکمیت ،نبی صلی ہللا یہ وسلم کی عظمت اور
مومنین کی باالدستی قائم کی گئی۔ یہودی اور مسلمان باہم مل کر بیرونی قوتوں کے خالف کھڑے
ہوئےاور مدینہ کی حفاظت کی۔ مذہبی شقوں جیسے ادائیگی عبادات کی آزادی اور مذہبی رواداری نے
دونوں عقائد کے لوگوں کے مابین باہمی احترام قائم کیا۔
مسلمانوں اور دوسرے قبائل بالخصوص اوس اور خزرج کے مابین تعلقات بھی میثاق مدینہ کی شقوں
کے مطابق عدل و انصاف پر مبنی تھے،اس طرح میثاق مدینہ نے سیاسی اور شہری زندگی کو یکسر
تبدیل کر کے رکھ دیا اور مدینہ کو مکمل امن وامان کی جگہ بنا دیا،رنگ،مسلک اور حیثیت سے قطع
نظر مساوات کی ضمانت دی۔ اس چارٹر کو ابتدائے اسالم کا "میگنا کارٹا" بھی کہا جاتاہے۔
جنگیں:
ہجرت کے صرف ایک سال بعد ہی قریش مکہ نے مدینہ منورہ پرحملوں کے منصوبہ بنانا
شروع کر دیے تھے اور پھر یہی منصوبے باآلخرلڑائیوں میں تبدیل ہوئے۔ ذیل میں بدر ،احد اور خندق
کی لڑائیوں اور باآلخر مدینہ سے یہودیوں کے ملک بدر ہونے کو بیان کیا جاتا ہے۔
• جنگ بدر (ء)624
یہ جنگ قریش مکہ اور مدینہ کے مسلمانوں کے مابین لڑی گئی۔ اس جنگ کی بنیاد شام اور
دیگر عالقوں کے ساتھ قریش کے تجارتی تعلقات پر مسلمانوں کی ہجرت اور اسالم میں بڑھتے ہوئے
تبادلوں کے اثرات تھے۔ قریش مکہ نے مسلمانوں کی ہجرت کو اپنی معیشت کے لئے راحت سمجھا
لیکن چھ ماہ کے اندر ہی انھیں یہ احساس ہو گیا کہ صورتحال اتنی سازگار نہیں ہے۔ انہوں نے
محسوس کیا کہ مسلمان ان کی تجارت کے لئے خطرہ ہیں۔
دوسری طرف عبد ہللا بن ابی نے بھی قریش مکہ کے ساتھ ہاتھ مال تے ہوئے بدلہ کی ٹھان
لی ،کیونکہ یہ نبی اکرم صلیی علیہ وسلم کی باالدستی اور بڑھتی ہوئی طاقت کو برداشت نہیں
کرسکتے تھے۔
بدر کی لڑائی کا اصل سبب سن ء 623میں ابو سفیان کے قافلوں کو روکنا تھا،جب یہ قافلہ
مکہ مکرمہ واپس جارہا تھا اس وقت ایک افواہ پھیلی کہ ابو سفیان کے قافلے پر مسلمانوں نے حملہ
کر دیا ہے ،یہ خبر مکہ مکرمہ میں پھیل گئی اور اس بات کی تصدیق کیے بغیر کہ یہ خبر صحیح ہے
یا غلط قریش نے ابو سفیان کے قافلے کو بچانے اور محمد صلی ہللا علیہ وسلم کو متنبہ کرنے کے
لئے ابوجہل کی قیادت میں ایک وسیع لشکر بھیجا۔چنانچہ جب یہ خبر مدینہ پہنچی تو مسلمانوں نے
قریش کے خالف نکلنے کا فیصلہ کیا۔ بدر پہنچنے پر مسلمانوں نے پانی پر قبضہ کرلیا جس سے
دشمن پر فتح حاصل کرنے میں مدد ملی۔ قریشی فوج تعداد میں تین گنا بڑی ،اسلحہ سے مکمل لیس
اور جنگی سواریوں کے اعتبار سے خود کفیل تھی۔ دوسری طرف مسلماںوں کا لشکر 313افراد
پرمشتمل تھا جس میں دو گھوڑے اور 70اونٹ تھے۔ مسلمانوں کی جنگی حکمت عملی مضبوط تھی
کیونکہ وہ پانی پر قابض تھے اور مضبوط زمین پر کھڑے تھے۔ قریش نے عتبہ بن ربیعہ ،شیبہ اور
ولید بن عتبہ کو مسلمانوں کو للکارتے ہوئے بھیج کر کالسیکل انداز میں دوبدو طور پر بدر کی لڑائی
کا آغاز کیا۔مسلمانوں کی طرف سے حضرت حمزہ،حضرت علی اور حضرت عبیدہ بن حارث رضی
ہللا عنہم سامنے آئے۔ اس دوبدو لڑائی کے نتیجے میں آغاز ہی میں قریش کی طرف سے تینوں افراد
مارے گئے اور دونوں فوجوں کے مابین کھلی جنگ چھڑ گئی۔ قریش کو شکست ہوئی اور وہ ہتھیار
پھینک کر بھاگ گئے ان کے 70افراد قتل ہوئے اور اتنے ہی تقریبا ً قیدی بنے۔ دوسری طرف صرف
14مسلمان شہید ہوئے۔ اس کے عالوہ مسلمانوں نے اونٹ ،گھوڑے اورلشکر کے خزانے کا ایک بڑا
ذخیرہ بھی قبضہ میں لے لیا۔
جنگ بدر کے احوال قرآن کریم میں سورہ آل عمران کی آیت نمبر 123تا 125میں بیان ہوئے ہیں۔
ُون 3:123 - ص َر ُك ُم هَّللا ُ ِب َب ْد ٍر َوَأن ُت ْم َأ ِذلَّ ٌة ۖ َفا َّتقُوا هَّللا َ َل َعلَّ ُك ْم َت ْش ُكر َ
َو َل َق ْد َن َ
ِين 3:124 - ف م َِّن ْال َماَل ِئ َك ِة م َ
ُنزل َ ِين َأ َلن َي ْك ِف َي ُك ْم َأن ُي ِم َّد ُك ْم َر ُّب ُكم ِب َثاَل َث ِة آاَل ٍ ِإ ْذ َتقُو ُل ل ِْلمُْؤ ِمن َ
ِين 3:125-ف م َِّن ْال َماَل ِئ َك ِة م َُسوِّ م َ َب َل ٰى ۚ ِإن َتصْ ِبرُوا َو َت َّتقُوا َو َيْأ ُتو ُكم مِّن َف ْو ِر ِه ْم ٰ َه َذا يُمْ د ِْد ُك ْم َر ُّب ُكم ِب َخ َ
مْس ِة آاَل ٍ
اور بیشک ہللا نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سر و سامان تھے تو ہللا سے ڈرتے رہو
تاکہ تم شکر گزار بن جأو۔
[یاد رکھیں]جب آپ مسلمانوں کو کہ رہے تھے کہ کیا تمہیں یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تمہاری مدد
کے لیے تین ہزار فرشتے آسمان سے اترنے والے بھیجے۔؟ ہاں کیوں نہیں (اے مسلمانو!) اگر تم صبر
تقوی کی روش پر رہو گے اور اگر وہ فوری طور پر تم پر حملہ آور ہو جائیں،تو تمہارا ٰ کرو گے اور
ربّ تمہاری مدد کرے گا پانچ ہزار فرشتوں کے ذریعے سے جو نشان زدہ گھوڑوں پر آئیں گے۔
غزوہ احد (625ء)
جنگ احد کی وجوہات کم و بیش وہی تھیں جو جنگ بدر کی تھیں،لیکن قریش مکہ کی بدر میں
شکست اور ان کے تجارتی مفادات کو الحق خطرات نےان وجوہات میں مزید اضافہ کیا۔ ایک سال کے
اندر ہی انہوں نے ابوسفیان کی کمان میں 3000کی فوج کے ساتھ ایک اور جنگ کی تیاری کرلی۔
مکہ والوں کی فوج وادی عقیق سے ہوتی ہوئی مدینہ پہنچ گئی۔ انہوں نے شام کی راہ پر احد پہاڑی
کے قریب ڈیرے ڈالے۔ اگلی صبح نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم اپنے 1000کے لشکر کے ساتھ احد
کی مغربی ڈھلوان کے لئے روانہ ہوئے لیکن راستے میں عبدہللا بن ابی اپنے 300پیروکاروں کے
ساتھ نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ گیا۔
نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنی فوج کو جگہیں سنبھالنے کی ہدایت کی اور یہ یقینی بنایا
کہ احد اور عینین پہاڑی کے درمیان گزرنے والے اس راستے میں دشمن کو داخل ہونے سے روکا
جا سکے۔ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے عینین پہاڑی پر منصب سنبھالنے کے لئے 50تیراندازوں کو
مقرر کیا اور ان سے کہا کہ جب تک ان سے کہا نہ جائے وہ اپنی جگہ نہ چھوڑیں۔ مسلمانوں نے
جنگ کا پہال نصف حصہ جیت لیا لیکن جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ان تیراندازوں نے یہ سوچ
کر اپنی جگہ چھوڑ دی کہ وہ جیت گئے ہیں،اس کے نتیجے میں مسلمان فوج اپنی نیت کی شکل کھو
بیٹھی۔ یہ مسلمانوں کی طرف سے مہلک غلطی تھی۔ نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے تیر اندازی
کرنے والوں کو سختی سے کہا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو وہ اپنی مقرر جگہیں نہ چھوڑیں۔ خالد بن
ولید رضی ہللا عنہ نے اس صورتحال کو دیکھا اور عقب سے ہی مسلمانوں پر حملہ کردیا یہ دیکھ کر
مسلمان بھاگنے لگے ،ابن قمیہ نے نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم پر پتھر پھینکنا شروع کردیئے جس
دندان مبارک شہید ہو گئے اور آپ بیہوش ہوگئے۔ اس نازک وقت پر ِ سے آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے
کسی نے چیخ کر کہا کہ نبی صلی ہللا علیہ وسلم کو قتل کردیا گیا،ااس سے وہ مسلمان جو ابھی تک
لڑ رہے تھے مایوس ہو گئے اور ان میں سے بہت سے فرار ہوگئے۔ نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم
اپنے چند وفادار ساتھیوں کے ساتھ رہ گئے تھے۔ جونہی حضرت محمد صلی ہللا علیہ وسلم کو ہوش آیا
تو احد پہاڑ کے غار پر چڑھ گئے جہاں ان کی فوج منتظر تھی۔ احد کی جنگ میں 70مسلمان شہید
ہوئے اور 23دشمن مارے گئے۔ یہ شکست حقیقی معنوں میں شکست نہیں تھی بلکہ نبی اکرم صلی
ہللا علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو ہللا پر اعتقاد کی مضبوطی اور ان کے استقامت کے لئے اس
کے ذریعے آزمایا گیا۔
قرآن کریم میں سورہ آل عمران کی مندرجہ ذیل آیات میں غزوہ احد کا تذکرہ کیا گیا ہے:
ال ۗ َوهَّللا ُ َسمِي ٌع َعلِي ٌم 3:121 - ت مِنْ َأهْ ل َِك ُت َبوِّ ُئ ْالمُْؤ ِمن َ
ِين َم َقاعِ دَ ل ِْل ِق َت ِ َوِإ ْذ َغدَ ْو َ
ون 3:122 - ان مِن ُك ْم َأن َت ْف َشاَل َوهَّللا ُ َولِ ُّي ُه َما ۗ َو َع َلى هَّللا ِ َف ْل َي َت َو َّك ِل ْالمُْؤ ِم ُن َ ِإ ْذ َهمَّت َّطاِئ َف َت ِ
ُون 3:123 - ص َر ُك ُم هَّللا ُ ِب َب ْد ٍر َوَأن ُت ْم َأ ِذلَّ ٌة ۖ َفا َّتقُوا هَّللا َ َل َعلَّ ُك ْم َت ْش ُكر َ
َو َل َق ْد َن َ
اور [یاد کیجیئے] جب آپ [اے محمد] صبح کے وقت اپنے دولت خانہ سے نکل کر مسلمانوں کو
لڑائی کے مورچوں پرمقرر کررہے تھے اور ہللا سننے واال جاننے واال ہے۔
جب آپ میں سے دو جماعتیں ہمت ہارنے والی تھیں۔ لیکن ہللا ان کا حلیف تھا اور ہللا پر بھروسہ کرنا
چاہئے۔
اور بیشک ہللا نے بدر میں پہلے ہی تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سر و سامان تھے تو ہللا سے
ڈرتے رہو تاکہ تم شکر گزار بن جأو۔
(آل عمران)123-121 :
غزوہ خندق/احزاب (ء)627
جنگ احد کے دو سال بعد ہی قریش مدینہ پر ایک اور حملے کی تیاری کرنے لگے۔ بدوین
قبائل چار ہزار کے قریشی لشکر سمیت ابو سفیان کے قافلے میں شامل ہوگئے ۔اتحادیوں سمیت پوری
فوج کی تعداد 10،000سے زیادہ تھی۔ جس دن اس لشکر نے مکہ مکرمہ سے کوچ کیا آپ صلی ہللا
علیہ وسلم کو ان کے بارے میں اطالع دے دی گئی۔ مسلمانوں کا لشکر 3000افراد پر مشتمل تھا۔
نبی نے اپنے صحابہ سے مشورہ کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ وہ مدینہ کے اندر سے ہی اتنی بڑی فوج
کے ساتھ لڑیں گے۔ حضرت سلمان فارسی رضی کی عنہ نے مشورہ دیا کہ مدینہ کے کھلے اطراف
میں ایک کھائی کھودی جائے،حضرت سلمان رضی ہللا عنہ فارسی تھے لہذا وہ جنگوں کے لئے خندق
کھودنے کے فارسی طریق کار سے واقف تھے۔ اس تجویز کو فوری طور پر قبول کر لیا گیا اور اس
پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا۔ اس خندق کو کھودنے میں آٹھ دن اور رات لگے اور انہوں نے یہ کام
بمشکل ختم ہی کیا تھا کہ دشمن سامنے دکھائی دینے لگا اس خندق کی وجہ سے دشمنوں کی فوج
کو مدینہ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ کچھ دن تک دونوں لشکر خندق کے پار ایک دوسرے کو
دیکھتے رہے۔
محاصرے کو شروع ہوئے تقریبا ً ایک مہینہ گزر گیا اور دشمن کی خوراک کی فراہمی ختم
ہوگئی کیونکہ انہوں نے اس جنگ کی حکمت عملی کا اندازہ نہیں کیا تھا۔موسم شدید تھا ،تیز ہواؤں اور
بارش کے ساتھ بہت سردی تھی۔ ایک طوفانی رات کے وسط میں ابو سفیان نے اپنی فوج اور اتحادیوں
کو واپس مارچ کرنے کو کہا۔
قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیات میں اسی جنگ خندق کا تذکرہ کیا گیا ہے:
ِين آ َم ُنوا ْاذ ُكرُوا نِعْ َم َة هَّللا ِ َع َل ْي ُك ْم ِإ ْذ َجا َء ْت ُك ْم ُج ُنو ٌد َفَأرْ َس ْل َنا َع َلي ِْه ْم ِريحً ا َو ُج ُنو ًدا لَّ ْم َت َر ْو َها ۚ َو َك َ
ان هَّللا ُ َيا َأ ُّي َها الَّذ َ
ون بَصِ يرً ا 33:9 - ِب َما َتعْ َملُ َ
اے ایمان والو! ہللا کے احسان کو یاد کرو جو تم پر ہوا جب تم پر کئی لشکر چڑھ آئے پھر ہم نے ان
پر ایک آندھی بھیجی اور وہ لشکر بھیجے جنہیں تم نے نہیں دیکھا ،اور جو کچھ تم کر رہے تھے ہللا
دیکھ رہا تھا۔
جونہی وہ روانہ ہوئے طوفان تھم گیا۔ مدینہ کے مسلمانوں نے اگلے دن صبح اٹھ کر ایک نئے دن کی
پرامن شروعات کی جبکہ کھائی کے پار ایک بھی دشمن نہیں تھا۔