Life in Madinah Urdu 1 1

You might also like

Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 5

‫نبوت ملنے کے بعد رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی مدنی زندگی‬

‫کے احوال‪:‬‬
‫مذکورہ عنوان مندرجہ ذیل تین حصوں پر مشتمل ہے‬
‫‪ -1‬مدینہ منورہ سٹی سٹیٹ کا قیام‬
‫‪ -2‬جنگیں‬
‫‪ -3‬رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے زندگی کے آخری سال‬
‫شہر نبی وہ شہر ہے جسے نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے ‪ 622‬ء میں مکہ مکرمہ‬ ‫ِ‬ ‫مدینة النبی یا‬
‫سے ہجرت کے بعد اپنا مسکن بنایا۔جس کا پرانا نام یثرب تھا۔ اس شہر میں آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی‬
‫آمد پر لوگوں نے آپ کا پرتپاک استقبال کیا۔ مدینہ منورہ میں آمد کے بعد سب سے پہلے آپ صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم نے جو کام کیا وہ ایک مسجد کی تعمیر تھی جہاں مسلمان روزانہ پانچ نمازوں کے لئے‬
‫جمع ہوتے تھے۔ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی تبلیغ اورکوششوں کی بدولت آہستہ آہستہ کچھ ہی‬
‫سالوں میں یثرب کی پرانی قبائلی روایات مدینہ کی ایک مذہبی سیاسی جماعت میں تبدیل ہو کر رہ‬
‫گئیں۔‬
‫مدینہ منورہ سٹی سٹیٹ کا قیام‪:‬‬
‫یثرب اسالم سے پہلے‪:‬‬
‫یثرب مکہ مکرمہ سے تقریبا ‪ 300‬میل شمال میں حجاز کا حصہ تھا۔ یہ یہودیوں کا وطن تھا‬
‫جنہیں یونان اور روم کے حکمرانوں نے فلسطین سے بے دخل کر دیا تھا۔ یثرب میں تین اہم یہودی‬
‫قبائل بنو نضیر‪،‬بنو قریظہ اور بنو قینقاع آباد تھے۔ ابتداء میں یہودی آبادی عربوں سے زیادہ تھی لیکن‬
‫چوتھی صدی کے دوران اوس اور خزرج کے عرب قبائل جو مشرک تھےکچھ یمنی قبائل کے ساتھ‬
‫یثرب میں آباد ہوئے۔ ان عرب قبائل نے اس سرزمین پر غلبہ حاصل کیا لیکن یہودی اپنےمذہبی اتحاد‬
‫اور ثقافت کی وجہ سے عربوں پر غالب رہے۔ یہ یہودی قبائل کسی نبی کے آنے کےمنتظر تھے جیسا‬
‫کہ ان کے صحیفوں میں مذکور ہے۔ دوسری طرف عرب قبائل میں اتحاد نہیں تھا‪،‬قبیلہ اوس اور‬
‫خزرج ہمیشہ آپس میں لڑتے رہتے تھے۔‬
‫حضرت محمد صلی ہللا علیہ وسلم کو یثرب کی اکثریت نےاس وقت یثرب میں مدعو کیا جب عبدہللا بن‬
‫ابی یثرب کے بادشاہ کے طور پر منتخب ہونے واال تھا لیکن جب نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کو‬
‫یثرب کے بادشاہ کے طور پر منتخب کیا گیا تو عبد ہللا بن ابی آپ کا تاحیات دشمن بن گیا۔‬
‫اخوت‪،‬بھائی چارہ‪:‬‬
‫ہجرت کے فوراً بعد ہی مدینہ کے باشندوں کو چار بڑے گروہوں میں تقسیم کردیا گیا۔مہاجرین‬
‫اور انصار نے پیغمبر اکرم (ص) کا ساتھ دیا اور یہودی اور عبد ہللا بن ابی کے حامی نبی اکرم صلی‬
‫ہللا علیہ وسلم کے مقابلہ میں کھڑے ہوگئے۔ پیغمبر اسالم نے بھائی چارے کا تصور دے کر مہاجرین‬
‫مکہ اور انصار مدینہ کے مابین تعلقات کو مضبوط کیا‪،‬جیسا کہ سورہ حجرات کی آیت نمبر‪ 10‬جسے‬
‫آیت االخوة بھی کہا جاتا ہے میں بیان ہے‪:‬‬
‫ون ِإ ْخ َوةٌ َفَأصْ لِحُوا َبي َْن َأ َخ َو ْي ُك ْم ۚ َوا َّتقُوا هَّللا َ َل َعلَّ ُك ْم ُترْ َحم َ‬
‫ُون "‪49:10 -‬‬ ‫"ِإ َّن َما ْالمُْؤ ِم ُن َ‬
‫مومن تو بھائی ہی ہیں ‪،‬لہذا اپنے بھائیوں کے مابین صلح کرو اور ہللا سے ڈرو کہ تم پر رحم کیا‬
‫جائے۔‬
‫مہاجرین مکہ بےسہارا تھے کیونکہ وہ اپنا مال اور جائیداد مکہ مکرمہ میں چھوڑ آئے تھے۔انصار‬
‫مدینہ نے مہاجرین کے لئے پوری فراخدلی کا مظاہرہ کیا‪،‬انہیں اپنے گھر‪،‬مال اور کاروبار میں‬
‫شرکت کی پیش کش کی۔ وہ ایمان کی بنیاد پر بھائی بنے اور ایک دوسرے کے غم و خوشی میں‬
‫شریک ٹہرے۔‬
‫میثاق مدینہ‪:‬‬
‫اسالم سے پہلے جو دو نسلیں مدینہ میں آباد تھیں وہ عرب اور یہودی ہی تھے۔ مدینہ منورہ‬
‫میں اسالم کی آمد کے بعد یہود اور مسلمان ہی دو اہم مذہبی جماعتوں کے روپ میں ابھر کر سامنے‬
‫آئے۔نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے تجویز کردہ میثاق مدینہ کی روشنی میں ان دو جماعتوں اور‬
‫مدینہ کے مختلف طبقوں کے مابین پرامن تعلقات استوار کرنے پر توجہ دی۔‬
‫میثاق مدینہ کی مشہور شق نے یہودیوں اور مدینہ کے مسلمانوں کو یہ باور کروایا کہ وہ‬
‫ایک"امت"ہیں اور یہ کہ مدینہ اپنے تمام شہریوں بشمول یہودیوں اور مسلمانوں کے لئے ایک مقدس‬
‫جگہ اور جائے پناہ ہے۔ مدینہ کی ریاست میں ہللا کی حاکمیت‪ ،‬نبی صلی ہللا یہ وسلم کی عظمت اور‬
‫مومنین کی باالدستی قائم کی گئی۔ یہودی اور مسلمان باہم مل کر بیرونی قوتوں کے خالف کھڑے‬
‫ہوئےاور مدینہ کی حفاظت کی۔ مذہبی شقوں جیسے ادائیگی عبادات کی آزادی اور مذہبی رواداری نے‬
‫دونوں عقائد کے لوگوں کے مابین باہمی احترام قائم کیا۔‬
‫مسلمانوں اور دوسرے قبائل بالخصوص اوس اور خزرج کے مابین تعلقات بھی میثاق مدینہ کی شقوں‬
‫کے مطابق عدل و انصاف پر مبنی تھے‪،‬اس طرح میثاق مدینہ نے سیاسی اور شہری زندگی کو یکسر‬
‫تبدیل کر کے رکھ دیا اور مدینہ کو مکمل امن وامان کی جگہ بنا دیا‪،‬رنگ‪،‬مسلک اور حیثیت سے قطع‬
‫نظر مساوات کی ضمانت دی۔ اس چارٹر کو ابتدائے اسالم کا "میگنا کارٹا" بھی کہا جاتاہے۔‬
‫جنگیں‪:‬‬
‫ہجرت کے صرف ایک سال بعد ہی قریش مکہ نے مدینہ منورہ پرحملوں کے منصوبہ بنانا‬
‫شروع کر دیے تھے اور پھر یہی منصوبے باآلخرلڑائیوں میں تبدیل ہوئے۔ ذیل میں بدر‪ ،‬احد اور خندق‬
‫کی لڑائیوں اور باآلخر مدینہ سے یہودیوں کے ملک بدر ہونے کو بیان کیا جاتا ہے۔‬
‫• جنگ بدر (ء‪)624‬‬
‫یہ جنگ قریش مکہ اور مدینہ کے مسلمانوں کے مابین لڑی گئی۔ اس جنگ کی بنیاد شام اور‬
‫دیگر عالقوں کے ساتھ قریش کے تجارتی تعلقات پر مسلمانوں کی ہجرت اور اسالم میں بڑھتے ہوئے‬
‫تبادلوں کے اثرات تھے۔ قریش مکہ نے مسلمانوں کی ہجرت کو اپنی معیشت کے لئے راحت سمجھا‬
‫لیکن چھ ماہ کے اندر ہی انھیں یہ احساس ہو گیا کہ صورتحال اتنی سازگار نہیں ہے۔ انہوں نے‬
‫محسوس کیا کہ مسلمان ان کی تجارت کے لئے خطرہ ہیں۔‬
‫دوسری طرف عبد ہللا بن ابی نے بھی قریش مکہ کے ساتھ ہاتھ مال تے ہوئے بدلہ کی ٹھان‬
‫لی‪ ،‬کیونکہ یہ نبی اکرم صلیی علیہ وسلم کی باالدستی اور بڑھتی ہوئی طاقت کو برداشت نہیں‬
‫کرسکتے تھے۔‬
‫بدر کی لڑائی کا اصل سبب سن ء‪ 623‬میں ابو سفیان کے قافلوں کو روکنا تھا‪،‬جب یہ قافلہ‬
‫مکہ مکرمہ واپس جارہا تھا اس وقت ایک افواہ پھیلی کہ ابو سفیان کے قافلے پر مسلمانوں نے حملہ‬
‫کر دیا ہے‪ ،‬یہ خبر مکہ مکرمہ میں پھیل گئی اور اس بات کی تصدیق کیے بغیر کہ یہ خبر صحیح ہے‬
‫یا غلط قریش نے ابو سفیان کے قافلے کو بچانے اور محمد صلی ہللا علیہ وسلم کو متنبہ کرنے کے‬
‫لئے ابوجہل کی قیادت میں ایک وسیع لشکر بھیجا۔چنانچہ جب یہ خبر مدینہ پہنچی تو مسلمانوں نے‬
‫قریش کے خالف نکلنے کا فیصلہ کیا۔ بدر پہنچنے پر مسلمانوں نے پانی پر قبضہ کرلیا جس سے‬
‫دشمن پر فتح حاصل کرنے میں مدد ملی۔ قریشی فوج تعداد میں تین گنا بڑی‪ ،‬اسلحہ سے مکمل لیس‬
‫اور جنگی سواریوں کے اعتبار سے خود کفیل تھی۔ دوسری طرف مسلماںوں کا لشکر ‪ 313‬افراد‬
‫پرمشتمل تھا جس میں دو گھوڑے اور ‪ 70‬اونٹ تھے۔ مسلمانوں کی جنگی حکمت عملی مضبوط تھی‬
‫کیونکہ وہ پانی پر قابض تھے اور مضبوط زمین پر کھڑے تھے۔ قریش نے عتبہ بن ربیعہ ‪ ،‬شیبہ اور‬
‫ولید بن عتبہ کو مسلمانوں کو للکارتے ہوئے بھیج کر کالسیکل انداز میں دوبدو طور پر بدر کی لڑائی‬
‫کا آغاز کیا۔مسلمانوں کی طرف سے حضرت حمزہ‪،‬حضرت علی اور حضرت عبیدہ بن حارث رضی‬
‫ہللا عنہم سامنے آئے۔ اس دوبدو لڑائی کے نتیجے میں آغاز ہی میں قریش کی طرف سے تینوں افراد‬
‫مارے گئے اور دونوں فوجوں کے مابین کھلی جنگ چھڑ گئی۔ قریش کو شکست ہوئی اور وہ ہتھیار‬
‫پھینک کر بھاگ گئے ان کے‪ 70‬افراد قتل ہوئے اور اتنے ہی تقریبا ً قیدی بنے۔ دوسری طرف صرف‬
‫‪ 14‬مسلمان شہید ہوئے۔ اس کے عالوہ مسلمانوں نے اونٹ ‪ ،‬گھوڑے اورلشکر کے خزانے کا ایک بڑا‬
‫ذخیرہ بھی قبضہ میں لے لیا۔‬
‫جنگ بدر کے احوال قرآن کریم میں سورہ آل عمران کی آیت نمبر ‪ 123‬تا ‪ 125‬میں بیان ہوئے ہیں۔‬
‫ُون ‪3:123 -‬‬ ‫ص َر ُك ُم هَّللا ُ ِب َب ْد ٍر َوَأن ُت ْم َأ ِذلَّ ٌة ۖ َفا َّتقُوا هَّللا َ َل َعلَّ ُك ْم َت ْش ُكر َ‬
‫َو َل َق ْد َن َ‬
‫ِين ‪3:124 -‬‬ ‫ف م َِّن ْال َماَل ِئ َك ِة م َ‬
‫ُنزل َ‬ ‫ِين َأ َلن َي ْك ِف َي ُك ْم َأن ُي ِم َّد ُك ْم َر ُّب ُكم ِب َثاَل َث ِة آاَل ٍ‬ ‫ِإ ْذ َتقُو ُل ل ِْلمُْؤ ِمن َ‬
‫ِين ‪3:125-‬‬‫ف م َِّن ْال َماَل ِئ َك ِة م َُسوِّ م َ‬ ‫َب َل ٰى ۚ ِإن َتصْ ِبرُوا َو َت َّتقُوا َو َيْأ ُتو ُكم مِّن َف ْو ِر ِه ْم ٰ َه َذا يُمْ د ِْد ُك ْم َر ُّب ُكم ِب َخ َ‬
‫مْس ِة آاَل ٍ‬
‫اور بیشک ہللا نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سر و سامان تھے تو ہللا سے ڈرتے رہو‬
‫تاکہ تم شکر گزار بن جأو۔‬
‫[یاد رکھیں]جب آپ مسلمانوں کو کہ رہے تھے کہ کیا تمہیں یہ کافی نہیں کہ تمہارا رب تمہاری مدد‬
‫کے لیے تین ہزار فرشتے آسمان سے اترنے والے بھیجے۔؟ ہاں کیوں نہیں (اے مسلمانو!) اگر تم صبر‬
‫تقوی کی روش پر رہو گے اور اگر وہ فوری طور پر تم پر حملہ آور ہو جائیں‪،‬تو تمہارا‬ ‫ٰ‬ ‫کرو گے اور‬
‫ربّ تمہاری مدد کرے گا پانچ ہزار فرشتوں کے ذریعے سے جو نشان زدہ گھوڑوں پر آئیں گے۔‬
‫غزوہ احد (‪625‬ء)‬
‫جنگ احد کی وجوہات کم و بیش وہی تھیں جو جنگ بدر کی تھیں‪،‬لیکن قریش مکہ کی بدر میں‬
‫شکست اور ان کے تجارتی مفادات کو الحق خطرات نےان وجوہات میں مزید اضافہ کیا۔ ایک سال کے‬
‫اندر ہی انہوں نے ابوسفیان کی کمان میں ‪ 3000‬کی فوج کے ساتھ ایک اور جنگ کی تیاری کرلی۔‬
‫مکہ والوں کی فوج وادی عقیق سے ہوتی ہوئی مدینہ پہنچ گئی۔ انہوں نے شام کی راہ پر احد پہاڑی‬
‫کے قریب ڈیرے ڈالے۔ اگلی صبح نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم اپنے ‪ 1000‬کے لشکر کے ساتھ احد‬
‫کی مغربی ڈھلوان کے لئے روانہ ہوئے لیکن راستے میں عبدہللا بن ابی اپنے ‪ 300‬پیروکاروں کے‬
‫ساتھ نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کا ساتھ چھوڑ گیا۔‬
‫نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنی فوج کو جگہیں سنبھالنے کی ہدایت کی اور یہ یقینی بنایا‬
‫کہ احد اور عینین پہاڑی کے درمیان گزرنے والے اس راستے میں دشمن کو داخل ہونے سے روکا‬
‫جا سکے۔ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے عینین پہاڑی پر منصب سنبھالنے کے لئے ‪ 50‬تیراندازوں کو‬
‫مقرر کیا اور ان سے کہا کہ جب تک ان سے کہا نہ جائے وہ اپنی جگہ نہ چھوڑیں۔ مسلمانوں نے‬
‫جنگ کا پہال نصف حصہ جیت لیا لیکن جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ان تیراندازوں نے یہ سوچ‬
‫کر اپنی جگہ چھوڑ دی کہ وہ جیت گئے ہیں‪،‬اس کے نتیجے میں مسلمان فوج اپنی نیت کی شکل کھو‬
‫بیٹھی۔ یہ مسلمانوں کی طرف سے مہلک غلطی تھی۔ نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے تیر اندازی‬
‫کرنے والوں کو سختی سے کہا تھا کہ چاہے کچھ بھی ہو وہ اپنی مقرر جگہیں نہ چھوڑیں۔ خالد بن‬
‫ولید رضی ہللا عنہ نے اس صورتحال کو دیکھا اور عقب سے ہی مسلمانوں پر حملہ کردیا یہ دیکھ کر‬
‫مسلمان بھاگنے لگے‪ ،‬ابن قمیہ نے نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم پر پتھر پھینکنا شروع کردیئے جس‬
‫دندان مبارک شہید ہو گئے اور آپ بیہوش ہوگئے۔ اس نازک وقت پر‬ ‫ِ‬ ‫سے آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے‬
‫کسی نے چیخ کر کہا کہ نبی صلی ہللا علیہ وسلم کو قتل کردیا گیا‪،‬ااس سے وہ مسلمان جو ابھی تک‬
‫لڑ رہے تھے مایوس ہو گئے اور ان میں سے بہت سے فرار ہوگئے۔ نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫اپنے چند وفادار ساتھیوں کے ساتھ رہ گئے تھے۔ جونہی حضرت محمد صلی ہللا علیہ وسلم کو ہوش آیا‬
‫تو احد پہاڑ کے غار پر چڑھ گئے جہاں ان کی فوج منتظر تھی۔ احد کی جنگ میں ‪ 70‬مسلمان شہید‬
‫ہوئے اور ‪ 23‬دشمن مارے گئے۔ یہ شکست حقیقی معنوں میں شکست نہیں تھی بلکہ نبی اکرم صلی‬
‫ہللا علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو ہللا پر اعتقاد کی مضبوطی اور ان کے استقامت کے لئے اس‬
‫کے ذریعے آزمایا گیا۔‬
‫قرآن کریم میں سورہ آل عمران کی مندرجہ ذیل آیات میں غزوہ احد کا تذکرہ کیا گیا ہے‪:‬‬
‫ال ۗ َوهَّللا ُ َسمِي ٌع َعلِي ٌم ‪3:121 -‬‬ ‫ت مِنْ َأهْ ل َِك ُت َبوِّ ُئ ْالمُْؤ ِمن َ‬
‫ِين َم َقاعِ دَ ل ِْل ِق َت ِ‬ ‫َوِإ ْذ َغدَ ْو َ‬
‫ون ‪3:122 -‬‬ ‫ان مِن ُك ْم َأن َت ْف َشاَل َوهَّللا ُ َولِ ُّي ُه َما ۗ َو َع َلى هَّللا ِ َف ْل َي َت َو َّك ِل ْالمُْؤ ِم ُن َ‬ ‫ِإ ْذ َهمَّت َّطاِئ َف َت ِ‬
‫ُون ‪3:123 -‬‬ ‫ص َر ُك ُم هَّللا ُ ِب َب ْد ٍر َوَأن ُت ْم َأ ِذلَّ ٌة ۖ َفا َّتقُوا هَّللا َ َل َعلَّ ُك ْم َت ْش ُكر َ‬
‫َو َل َق ْد َن َ‬
‫اور [یاد کیجیئے] جب آپ [اے محمد] صبح کے وقت اپنے دولت خانہ سے نکل کر مسلمانوں کو‬
‫لڑائی کے مورچوں پرمقرر کررہے تھے اور ہللا سننے واال جاننے واال ہے۔‬
‫جب آپ میں سے دو جماعتیں ہمت ہارنے والی تھیں۔ لیکن ہللا ان کا حلیف تھا اور ہللا پر بھروسہ کرنا‬
‫چاہئے۔‬
‫اور بیشک ہللا نے بدر میں پہلے ہی تمہاری مدد کی جب تم بالکل بے سر و سامان تھے تو ہللا سے‬
‫ڈرتے رہو تاکہ تم شکر گزار بن جأو۔‬
‫(آل عمران‪)123-121 :‬‬
‫غزوہ خندق‪/‬احزاب (ء‪)627‬‬
‫جنگ احد کے دو سال بعد ہی قریش مدینہ پر ایک اور حملے کی تیاری کرنے لگے۔ بدوین‬
‫قبائل چار ہزار کے قریشی لشکر سمیت ابو سفیان کے قافلے میں شامل ہوگئے ۔اتحادیوں سمیت پوری‬
‫فوج کی تعداد ‪ 10،000‬سے زیادہ تھی۔ جس دن اس لشکر نے مکہ مکرمہ سے کوچ کیا آپ صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم کو ان کے بارے میں اطالع دے دی گئی۔ مسلمانوں کا لشکر ‪ 3000‬افراد پر مشتمل تھا۔‬
‫نبی نے اپنے صحابہ سے مشورہ کیا اور یہ فیصلہ کیا کہ وہ مدینہ کے اندر سے ہی اتنی بڑی فوج‬
‫کے ساتھ لڑیں گے۔ حضرت سلمان فارسی رضی کی عنہ نے مشورہ دیا کہ مدینہ کے کھلے اطراف‬
‫میں ایک کھائی کھودی جائے‪،‬حضرت سلمان رضی ہللا عنہ فارسی تھے لہذا وہ جنگوں کے لئے خندق‬
‫کھودنے کے فارسی طریق کار سے واقف تھے۔ اس تجویز کو فوری طور پر قبول کر لیا گیا اور اس‬
‫پر عمل درآمد شروع کر دیا گیا۔ اس خندق کو کھودنے میں آٹھ دن اور رات لگے اور انہوں نے یہ کام‬
‫بمشکل ختم ہی کیا تھا کہ دشمن سامنے دکھائی دینے لگا اس خندق کی وجہ سے دشمنوں کی فوج‬
‫کو مدینہ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا۔ کچھ دن تک دونوں لشکر خندق کے پار ایک دوسرے کو‬
‫دیکھتے رہے۔‬
‫محاصرے کو شروع ہوئے تقریبا ً ایک مہینہ گزر گیا اور دشمن کی خوراک کی فراہمی ختم‬
‫ہوگئی کیونکہ انہوں نے اس جنگ کی حکمت عملی کا اندازہ نہیں کیا تھا۔موسم شدید تھا‪ ،‬تیز ہواؤں اور‬
‫بارش کے ساتھ بہت سردی تھی۔ ایک طوفانی رات کے وسط میں ابو سفیان نے اپنی فوج اور اتحادیوں‬
‫کو واپس مارچ کرنے کو کہا۔‬
‫قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیات میں اسی جنگ خندق کا تذکرہ کیا گیا ہے‪:‬‬
‫ِين آ َم ُنوا ْاذ ُكرُوا نِعْ َم َة هَّللا ِ َع َل ْي ُك ْم ِإ ْذ َجا َء ْت ُك ْم ُج ُنو ٌد َفَأرْ َس ْل َنا َع َلي ِْه ْم ِريحً ا َو ُج ُنو ًدا لَّ ْم َت َر ْو َها ۚ َو َك َ‬
‫ان هَّللا ُ‬ ‫َيا َأ ُّي َها الَّذ َ‬
‫ون بَصِ يرً ا ‪33:9 -‬‬ ‫ِب َما َتعْ َملُ َ‬
‫اے ایمان والو! ہللا کے احسان کو یاد کرو جو تم پر ہوا جب تم پر کئی لشکر چڑھ آئے پھر ہم نے ان‬
‫پر ایک آندھی بھیجی اور وہ لشکر بھیجے جنہیں تم نے نہیں دیکھا‪ ،‬اور جو کچھ تم کر رہے تھے ہللا‬
‫دیکھ رہا تھا۔‬
‫جونہی وہ روانہ ہوئے طوفان تھم گیا۔ مدینہ کے مسلمانوں نے اگلے دن صبح اٹھ کر ایک نئے دن کی‬
‫پرامن شروعات کی جبکہ کھائی کے پار ایک بھی دشمن نہیں تھا۔‬

You might also like