Professional Documents
Culture Documents
شاعری اور تخیل از محمد ہادی حسین
شاعری اور تخیل از محمد ہادی حسین
ن
مبحبیدای
یم ٭٭
بر یررتِ
بلصاو
ٹھواں ہاب :نی
۳۲۱ یرک
ٹم او
کلہا
تل ءا
نواں باب :تخی
"( اشاریه
تارف
نے اپنے گرد و پیش ان
سہے
نیا
اں آ
ساج جب ے دائرۂ تہذیب می
س .کے
ا۔شروع کیا ھ ھےتا
کرس
درینظ
کو ایک پرتر اور پرفک
پیدا هوۓ ہیں ۔ زندگی کیا ہے ؟ اسان لےات
اکورح
سح ط
طر ملیں
د
ے م
تماکی
اس دنیا میں کیوں آیا ے ؟ کیا کائنات کسی قابل فہم نظا
ایک خواب پریشان سے زیادہ نہیں ؟ ان سوالات کے ییقت یخا ا
قسک
جواب :ڈھونڈھنے میں مذھب ء فلسفے اور سائنس کی عظم عارتیں قائم
عمل ء اپنے جذبات اور ۓے
پناسان
کگیئی ہیں اور اسسلیسلے میں ان
سے زول
اجاپنے فکر کابھی جائزہ لیا ے ۔ یه ایک مستقل کوشش ہے
جاری ىے اور شاید ابد تک قائم رے گی ۔
شاعری ء یه بھی ےہ ػه ان بنیادی سوالات میں سے ایک سوال
موسیقی ء مصوری ء فن تعمیر وغیرہ کازندگی سے کیا تعلق ہے ؟ شعر کیا
سے ؟ ہم شعر کیوں کہتے ہیں اور اس سے حظ کیوں حاصل کرتۓے
شاعری انسانی زندی کے لیے ایک فائدہ مند چیز ہیےا ہی
کںی؟ا
فقصان دہ ؟ شاید شاعری کی ختلف قسمیں ہیں جن میں ہے بعض سود مند
اجتناب ھی بہتر ےہ ۔ اسی اور قابل قدر ہیں اور بعض ایسی ہیں جن ے
ششیں کی تعریف کی متعدد سلسلے میں شعر ی جامع اور تسلىی خش
گئی ہیں لیکن انھیں صرف ضمنی کامیابی ھی حاصل ہوئی ہے ۔ یہ اس
لیے کہ جس عمل یا احساس کا تعلق انسایق جذبات سے ہو اس کی منطق
یاسائنس کےاعتبار سےجامع تعریف مکن نہیں ۔اھل ذوق شاعری کو
خوب جانتے یں لیکن یهبیان نہیں کر سکتے که وہ کیا ہوےہ۔کھو ۓ
کھرے میں آسانی سے تھیز کر سکتے ہیں اور یہ کلہہ سکتے ہیں کہ
را
(و)
کون سی تخلیق شعر ہے اور کون سینہیں ء لیکن یہنہیںبتا سکتےکه
وہ کن منطفقی اصولوں پر یہ رائۓقائم کرتۓ ہیں ۔
کیا اس ہے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ے که شاعری پر غورو فکر
کرنا ایک سعی لا حاصل ہے ؟ ظاھر ےکم یہ درست نہیں ۔ خود فلسفه
جو ا
سںککر
ترین سوالات کا کوئی ایسا جواب پیش نہی م
اگیہکے
زند
سب اھل فکر کے لے قابل قبول هو ۔ تاھم اھل فکر ایک مستقل کوشش
تلاش کریں ۔ یه ممسصروف رھتے ھیں کہ ان سوالوں کجےواب
شش بذات خود ذہن کو جلا بخشتی ے کیو ں کە حرکت اور کوشش
رےادف ہیں ۔
متت ک
وت مو
سودکو
جزو ہیں اور جم زےمی
اکلدی
زن
کن
ای کاا
یندکاےید وا مو ک
اقیکاسا
مفکرین تار پجرن فلسفة
یںبالواسطه بہت سود مند ثابت ھوق ہ۔
خاص طور پر قابل ذکر ر
اسے
چمیں
ے اپتے نظطرے پیش کیے ہیںان
اپتے خلدون ۓ ء اشہنگلر اور ٹائن ہ۔یابن کو
یءودون
خل اںب:ن
ہی
کشیا جس میں سلطنتوں کے عروج و زوال
مقدہے میں نظریةۂ عصبیت پی
نی
یاعء
کے وجوہ بیان کیے ۔ ویکو ۓ متدائر نظریة تاریخ پیش کی
کس طرح انسانی سج میں مطلق العنانی پہلے چند سری حکومت میں
ریت کا زوال فنراج و۔ہہےمتی ججااور پھر جمہوریت میں تبدیل ہو
اور اس کےبعد بھر مطلق العنانی واپس کی صورت اختیار کرتا ے
آاق ے ۔
ج
اہنی تہذہب ایک زندہ نظام ۓے جو هر سا کالنتھ
اشپنگر کاقو
ھکر
اقوہےر پھر بوڑھی و جان دار کی طرح نشو و نما پاکر جوان ھو
ص جاق سے ۔ ٹائن بیکانظریہ بھی ایک حد تک اشہنگار ہےملتا ےہ ء
اگرچہ اس کاقول ہےکہ کسی ایکتہذیب کی موت لازمی نہیں ۔ یه
قانون قدر ت نہیں اور تہذیب کو ایک چاندار نظام نہیں کہا جاسکتا ہے ۔
ان چاروں نظریوں میں سے کوئی ایسا نہیں جس پر نقادان نے مناسب
نە کے هوں اور اسے کم از کم ایک حد تک راضات ارعوا
قجب او
)00
ایک آج بھی لیکن ابن خلدون کا مقدمہ غلط لن ثابت کیا ہو ۔
قابل قدر چیزہے ۔ نظریة عصبیت کی تفصیل کے علاوہ اکستاب میں
اتی خوبیاں ہیں کہ اس کا پڑھنا ایک نہایت پرمعنی تجربہ ہے جس سے
وو
ال تہذیب کے عر
زوج لے
کە ھو
بتا فںه نہ صرف ہار
اےضعلم
ا می
کے متعلق بہت سی ضمنی چیزڑیں بھ
ویاضح ہو جاقی ہیں ۔ اور سب سے
زیادہ یہ کہ ہہاری آکاھی میں اضافہ ہموۓ کی وجہ سے ہارے فکر میں
ہے ۔ اسی طرح ویکو ء اشہنگلر اور ٹائن بی جک تا وسعت اور عم
جقاآ
خانه جنگی پر غليه پا کرہماری زیرو زبر ذنیا کی نئےسرے سے شیرازہ بندی
فلسفه؛ سائنس اور عملی علوم مثا 5اخلاق اجتاعیات اور سهاسیات کے
اس مثالی انسان کى روح ک گہرائیوں میں بسی ہسوئی ہے۔ مذہب
دنیا کا جو نقشہ پیش کرتا ے و ەکلام الٹٰھیکی صورت میں کسی برگزیدہ
انسان پر نازل ہوا ے ۔ لیکن عرش معلیٰ کی جس طرح لوح عحفوظ پر
کلام اللٰبیثبتسے ء اس کی ایک چھوٹی سی عکسی تصویر هر انسان کے
سینے میں موجود ے ۔ کبھی کبھی عام انسانوں کو بھی یہ توفیق
نصیب ہو جاتی ۓے کہ وہ اس عکسی تصویر کو دیکھ سکیں اور الفاظ
کیمدد سے اسے دوسرے لوگوں پر ن
ےقاب کر سکیں ۔ یہ لوگ وہ
۔ کی ان اھل بصیرت شعرا ہیں جو شاعری کی دنیا کے تاجدار ہیں
سےے ہم مثالیشاعری کہہ سکتے ہیں اور جو فن انسای شاعری وجہ ع
کا سەرۃالمنتول ےے ۔/؛
رعہ
شں ک
بلک آُس کی ماھیت سے تعلق رکھتا ے ۔ اس کا مطلب یه نہی
جاۓء لںا یوں کہے جاتے ہیں کە الفاظ کو وزن کی ترا
تزوومی
کن ان تقطیع کے حساب ہے گنا جا
لئےی ء ر اکور پےا ج
ااۓ اس بحرکے پی
نماۓ
ء رییهاضیاتی پابندیاں شاعر کے لیے کسی طرح کسر شان نہی
وںز۔ن
تہذیب ہے فکرو عمل ابتداے رات
کےصو ء پی|نە وغ
تیرہ دار
قءعمدد
ےہ تک فاسقے کا تعلق ۔اں
جںہ
ہی رے اصول بنیادی کے انسانی
تابعین فیٹا غورس کی مثال ھکیاف ح۔ےآن کے نزدیک عدد محض اشیا کے
عوارض میں سے نە تھا بلک آن کا جو ھر تھا ۔ مذھب کو لیجیے تو آفریٹتش
ے آآس کے مطابق خالق از ی ی عالم ی جو روئداد انیل میں بیا
گنئکی
دےوں ہے کام لے کر وجود کو بطن عدم
عک قر مق
ادار او ن
زء ے
وعدد
سپےیدا کیا ۔ فنون کے دائرے میں معاری کیساری بنیاد ھی ان قاعدوں
ہے جس اےتا
جس پر ے ۔ معار اپنے سنگ و خشت کو آسی طرح قر
سینے
طرح شاعر اپتے الفاظ کو ۔ فن موسیقی علم ریاضی کی ایک صوق تجسم
تھے ؟ ایو
کں ک
نہی
طرح سائنس کے قدرق طور پر ماری توجه کو جذب کر لیتا ے ء جس
ان میں باھمی تعلق یا
اسلوب فکر کا اصول رھن|ا چیزوں کا مکزانمو
طرح شاعرانه فکر کا ی
سے ء
اا ہ
ہھوت پابندی رک
ت یىی
شنون
ی قا
م کس
جذباتی تاثر ہوتا ہے ۔ یه اصول رھن| اکثر کوئی باطنی کیفیت یکاوئی
میں رنگ دیتا ے اور کیفیت یا تأثر ختلف چیزوں کو ایک ھرینگ
یاهرنامه
آن کے ظاھری تضاد و تخالف کو مٹا دیتا ے ۔ شاعرانهہ اظہار کا ک
بادی النظر میں عقل و فکر کے تنظیمی عمل ہے مشابہ ۓے لیکن :
بہیں تفاوت رہ از کچاست ٹابکچا
۹
روحانی تکزیے کےلیے آن علوم عقلی کی طرف رجوع کرنا پڑے کاجن کا
یه تسلمَ کڑنا با کہ افلاطون ے شاعروں واسطة اظہار نثر ےہ ۔
میں
کو اپنے مثا ی جمہورے ہے شہر بدر کرنۓ کی جو تجویز ی تھی وہ
حق بە جانب تھی ۔ افلاطون کے اس فیصلے ہے فلسفیوں کی اکثریت ۓ
اختلاف راۓ کیا ہے ء لیکن عملی اور دنیادار لوگ اس ہے عام طور پر
جن ہیں متفق یں اور شاعروں کو ذاکارہ اور فاترالعقل لوگ سمجھتے
ھی اچھی ۔ وہ شاعروں کو گویوں ء سلامت دور کی صاحب سے
شار کرۓ بھانڈوں ء نقالون ء بازیگروں اور مداریوں کے زمرے میں
والے ان معنوں میں کہ وہ عض دل پلانۓ کا سامان مہیا کرۓ
جن ے آنھیں اپنی سنجیدہ مصروفیتوں کے لمحوں میں لوگ ھوتے یں
کوئی سروکار نہ رکھنا چاھیے ۔
کہ افلاطون کا اپنا عمل آآس کے قول کی لطف کی بات يہ ےہ
تصدیق نہیں کرتا ا
-س کی نگارشات ؛ اور تو اور خود وه ”جمہوریە؟“
بھی جس میں آس ہشےاعری کو راندۂ بارگاہ قرار دیا ء شاعرانه کلام کی
میں منظوم کلام معنوں نمایاں مثالیں ہیں ۔ یه جا ے کەه وہ عروضی
نہیں هیں لیکن جہاں تک شاعرانه زبان اور لب و لہجہ کا تعلق ہے آن
کهہ افلاطون ۔قیاس چاھتا میں شعریت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی
ایسی بات دکھائی دی ھوگق کوئی ضرور کو شاعرائه طرز بیان میں
امت اس پر آماد ہ کیا اخ 02خالص فلسفیانه طرز بیان پر ترجیج جس
جادو افلاطون جیسے فلسفی پر کیو ں کر چل گیا ؟ اسی طرح بہت سے ثقه
اور متین لوگ جن کاتعلق علم یاعملکیدنیامیں ٹھوس حقائق سے ھوتا
سے ء کھلم کھلا نہیں تو چوری چھپے شاعری کے خیالستان کیسیر ہے
کیوں لطف اندوز ہوتے ہیں ؟ اس کا جواب یە ہے کە وہ تجریدی عمل
ہھویق ید
کرےشہے
جس کی بدولت سائنس اور عمل کی دنیائیں ہمارے تج
ہے ۔ ومہشین جسے تا
راق
زو ش
گکھیں اتنا شدید ھوتا ے کە ھم
اھل سائنس فطرت کہتے ہیں انی مصنوعی ہوتی ہے ء وہ ڈراما جسے عم
آۓ دن کیعملىی زندیق کہتے ھیں اتنا رسمی و نقلی ھوتا کہ ہآمُس
ککوئی ایسیچیز ڈنھڈوھتے ہیں جس ہہےاری رتوحسککیین
ھوہبیےزار ر
هو ۔ ہم کائنات اور انسانی زندگی کی ان جعلی و فرضی تفسیروں کو رد
کر کے اپنے ذاق مشاھدوں اور اپنے باطنی تجربوں میں آن کی تفسیر
مرشااھدہ صاد کہتا ے اور ھارا
تلاش کرتے ہیں ۔ جن چیزوں پر ہا
ڈاتیتجربہ دلالت کسرتا ےے ؛ جسو چیزیں ہارے لیے خوشی و غم کا
سرمایةہ وی ہیں ء جن چیزوں سے ماری کامیابیاں اور مایوسیاں ؛ ھاری
۲
آمیدیں اور آرزوئیں وابسته ہوتی ہیں وہ سب چیزیں ھمیں حقیقی معلوم
ھوتی یں اور باق سب وھم اور دھہوکا ؛ یہاں تک کہ مارے ایسے
خواب جن کی کوئی تعبیر نہیں نکلی ؛ ہمارے ایسے ارمان جو دل کے دل
خیالی فریبیاں ٤ ہاری ھی میں رے ؛ ھاری ناکام حبعیں ؛ ھماری خود
منصوبه بندیاں ء مارے هھوائی قاعے ء یە سب چیزیں بھی ہمیں سائنس
کے نظریوں ؛ فلسفے کے مجردات اور کاروباری لوگوں کے عملی ٹوٹکوں
سے زیادہ اھم اور معنی خیز دکھائی دیتی هلیںی۔کن اگر ھم ان چیزون
کو اس ام کی اجازت دیں کہ وہ فلسفه ٤ سائنس اور عملی معلومات
کے بناۓےۓے ہوئۓ نظام کو درھم برھم کر کے ہاری دئیا پر قابض هو جائیں
کہ اس کا نتیجە ابتوری:ء بدنظمی ؛ آفننگق اور پریشانی کے ے ظواہر
ت
سوا کچھ نہیں هو سکتا ۔
فنون عاليه کاکام یه ےکە حسیات کے اس ھنگامے؛ جذبات کی اس
شوریدہ سری ء خیالات کی اس طوائف الملوی ء ارادوں کی اس خانہ جنگی
پاکر ہاری زیر و زبر دنیا کی نسےرے سشےیرازہ بندی پغرلب
اور آفری ف
۔لسفه ء سائنس اور عملىی علوم ؛ مثلاٌ اخلاق ؛ اجتاعیات
سیاسیات تو ان باغی و سرکش عناصر کو کچل دینے یىی کوشش کكرۓے
وہ انسانی شخصیت کے تاریک ٭یں ء جس کا نتیجهھ یه ھوتاے که
گوشوں میں جاکر روپوش ھوجاۓ هیں اور وهاں ے اہی خانه برانداز
کارروائیاں جاری رکھتے ہیں ۔ فنون عاليه کا طریقہ مختلف ہے ؛ وہ ان
عناصر کو برقرار رکھ کر ء آن کی ہستی کا اعتراف کرکے ء ]ن کی
ایک نئےنظام کی صورت ما جمع اھمیت کو تسلم کر کے ؛ آن
کو
کرے ہیں ۔ انسانی تحجرے کی اس تشکیل نو کے معاملے میں شاعری کا
رتبہ سب فنون ہے بلند ہے ء کیونکہ وہ اپنی رسائی ء اپنی گبرائی اور
اپنے آلات کیقوت کے اعتبار ہے سب فنون عاليه پترفوق رکھتی ے۔
کوئی شاعرات کلام انسانی تجرے کے جتنے زیادہ علاقے کو اپنے احاطے
۔ین قسم کی شاعری تےر ہہ باہ بلند ہو
بتا ریآتُسک؛ آتنا ه می
لںےلے
م۳٣
اور علوم عقلی کےندام فکر کو بھی اپنے دامن میں ءنس
ائسسفه
تو فل
انسافنی تجرے کے پہلو ہوتے ھیں ء ر
آیختو
وہ بھ نےکہ
وی ہ
کیٹیلیت
سم
پہلوؤں کے اوقات آن کے اور انسانی تجرے کدےوسرے ثر
اکہکوہ
بل
درمیان تضاد و تخالف کو مٹا دیتی ے ۔ آس کی قہرمانی قوت حسیات :
رےد افکاو ء
جک جذبات ؛ خیالات ؛ آئۓ دن کی زندگی کمےعاملات ء فل
مسفے
کے قواعد ء طبیعیات ٤ فلکیات ء سائنس کے انکشافات ء علم ریاضی
پھلو کو یکۓسکے
ءت:؛ غرض انمتانی تجرن
یعیااتسیا
ستا
حیاتیات ء اج
وںڑق بلک سب کو اپنیمملکت کیتعمیر و ترق کے لیے چہاھنہی
تن
کسی نہ کسی کام پر مامور کر دیتی ہے ۔ دنیا کے سب سے بڑے
شاعروں کی تلمیحات ؛ استعارات ء تشبیمہات ء رموز ء علامات ؛ کناۓء
علوم و فنون کو مح
ہیوطتے هیں ۔ مضامین اور مطالب اپئے وق
تتمکاےم
لیکن ایک بڑے شاعر اور دوسرے اھل علم و فضل کے درمیان
یه فرق ھوتا ے که جہاں مؤخرالذ کر اس دنیا کو کسی خصوص علم
ہیں وہاں مقدمالذ کر کا نقطه نکاہ یہکےھتے یشاعبة علم کے نقطه نگ
داہ
توازن ھوتا ہے ء یعنی آفاق ھوتا ے اور آَس کا سب سے ممایاں وصف
کا ایک متناسب جزو بھی ہوتا ہے ء اور ٢س ےک
ییت وہ انسانی تج
کرل
کے اپنے اجزا بھی متناسب ھوتۓ ہیں ۔ یه ضروری نہیں که وہ شعوری
صیوص فلسفۂ زندی کو پیش کرے ء اور ند خکساور علانیه طور پر
شاعر سےيہتوقعکیجاسکتی عےکہ آس کیتمامتخلیقات میں شروع 2
کی مطابقت ھوگ جو ایک فلسقی کی تحریروں لےکر آخر تقک ا
سسم
میں ہوتی ےکیونکہ آس کانظام فکرآس کی زندگی اور آس کےفنکے باهمی
فوعالنفعال کے زیر اثر آاہستە آعسته ترتیب پاتا ھے۔ وہ رشتہ جو آآس کے
افکار ک
آوپس کے متنوع قات خیلخت
یلف ختلف ادوار زندگی اور آ٘
تس ک
میں مربوط کرتا ے آس کیقوت متخیله کامسلسل عمل ہوتا ے
۔
مفیا
اتتکے
حت آس کتاخیل گونا گوں حاملات
تف؛رق تھیجات اور متغی رکی
ایک ھی طریقے پر عمل پبرا ہوتا ے ۔ وہ ہر تجرے ہے براہ راست
و صداقت کے ساتھ یا تو و
ؤص متاثر ھوتا ے اور اپنے تاث
خرات
لک
ىك
قلم بید کرتا رھتا ے یا اپنے دماغ میں حفوظ کرتا جاتا ہے ۔ دونوں
صورتوں میں شاعر تجربە بہ تجربهہ اپنا ایک ذاتی نظام کائنات ترتیب
هھوتا دیتا رہتا ے جو آ٘س کے نزدیک موجودہ نظام کائنات کا نعمالبدل
میں کی روشنی ۔ وہ معیار ء وہ نصبالعین ء وہ منتہاے کال جس ے
زندگی ھوتاے ۔ سس ک
فاۂ واہپنے نظام کو فائنق قرار دیت
فا ہ
لے آ
باوجود آتنا اور هنکامی خالفتوں کے تضادوں یه فقلسفة زندگی ظاھری
ماھر ؛لکیات کا ھی مکمل ء متوازن اور مربوط هھوتا ے جتنا کسی
Mir Zaheer Abass Rustmani 03072128068
نظام شمسی ۔
اس فلسفة زندگی کے بغیر شاعری حض ایک فانوس خیال ے جو
یریں کاغذ کے پردے پر دکھاتا ے ؛ جذبات کو صتوکی
ترا
حسی تاث
ریہ بازی ہے ء تفرجخو ہی برانگیختہ کرنۓ کا ایک نسخە بے ء الف
ماظ
ے یا ایک خواب آور دوا ہے ۔ یه فلسفةۂ زندگق له
غیک
شا ا
من ک
تفٹ
موجود هو تو شاعری نہ صرف ایک فن لطیف ہے بلک ایک زبدۂ علوم ء
کے بلکهہ حکمت ایک خلاصۂ فتون ء ایک فرھنگ دانش ء ایک دبستان
اپنے سب ہے اعلیل مقامات میں ایک کتاب معرفت بھی ے ۔
جب شاعری عرفان کے سوڑ پر پہنچتی ےے تو آ٘س کی مبڈھیڑ
وف جادۂ جستجو کا وہ راہ نورد ےصے ۔تق ہ
تصوف اور مذھب سے ہو
جس کی منزل مقصود جال حق کا وصال سے اور جو اس منزل مقصود کے
ہے رئا اکٹاز راہ ےج سے راہ نوردوں ٤ دوسرنے مین مدھمک خیال
ھتا
جاہ
مرسان
کانش قکام
مای
ئامےکو
نمق
مناظر سے دلچسپی لیے بغیر اور هر
ہسوا آگے بڑھتا چلا جاتا ہے ۔ وہ جتنا آگے بڑھتسا ہے آتنی ھآیس کی
گتمنشدہگاءئی اخوارموشی میں ترق ہوتی چلیجات ہے ؛ کیونکە وہ
احپکناے مادی ماحول سے فرار ے ۔ شاعری تصوف کے
.ایک انفرادی رو
ساتھ ساتھ چل کر چند مرحلے طے کرقی ہے ٤ لیکن ایک مقام پر آ٘س
کو یه احساس ہوتا ے کہ :
کی خاص موکل روحیں هوق ہیں ج]ونھیں عاام غیب کی خہریں دیتی ہیں ۔
ران کاسا تن کےتیرکا مرا جوگیا۔ اتھوں ان اس سی کا ات
صلے مریںوحوں کو جنوں اور پریوں کی دل چشسخپصیتیں بخش کر
آنھیں انسافی زندگی میں حصہ لینے کی توفیق بخشی ۔
وظاہر کا
ا شروع شروع میں منفرد اشیا م نوع
ایک هنکامه کثرت ء ایک طوفان بدتمیزی تھا لیکن آس ۓ رفته رفتہ آن
میں ایک سلسلهۂ روابط دریافت کرنا شروع کیا۔ اس عمل کے لو بپهہلو
سک زبانء جو ابتدا میں اصوات فطری کینقل پمرشتمل منفرد اصوات کا
ررے
عیه
ت۔سرھیاتی
میں تبدیل هو ؛وں
ر اھی
ع ت
تموعه
س مج
اربط
ایک ے
چیزوں کی مشابہتوں پر اشارت کرے تھے اور حسی نقشوں کے حجموعے
هھوے تھے (جنھیں عم آگے چل کر ممثالوں کے نام سے موسوم کریں کی
ان کاکام مہذب انسان کی زبانوں کے جرد الفاظ کیطسرح چیزوں ک
کے وات
قعایا کروە بندی یا ان کے اوصاف کو بیانکرنا نتهھا ۔ یه
و اش
سلسله علت و معلول سے بھی کوئی تعلق نہ رکھتے تھے ء کیونکه ابھی
انسان نے حوادث فطرت کے بارے میں کوئی کلیے دریافت نہ کیے تھے ۔
استعداد بخشی که اس دنیا میں یه کو ان
سۓنوں
اعار
ہہر حال ان است
کسی نظام کے وجود کا جو دھندلا سا احساس اُس کے ذھن میں پیدا ھو
پھر ایک بار رھا تھا ء اس کا اظہار کر سکے ۔ اس معاملے میں شاعر ۓ
صرف آۓ دن ساکے پوں
نوع انسانی کی رھبری کی ۔ جہاں دوسرے لوگ
کی ضرورتوں کے لیے استعاروں کی ہونجی وق تھی اور وہ اسی پر اکتفا
کھے پن کا نوکے کرتۓے تھے ء وہاں شاعر تحیر کی نگاہوں سے چی
ازوں
مشاعدہ کرکے آن میں نئی نسئشیابہتیں دیکھتا اور آن کے بیان کرتے کے
لیےنئے نئے استعارے وضع کرتا تھا سب سے بڑا کام جو آٌس ۓ کیا وه
استعاررے ان دیکھی اور ان جانی چیڑوں کمےتعلق یە تھا کہ آُ٘س ۓ
آن
وضع کے جو عام انسانوں کے ذھنی آفق پر منڈلا رھی تھیں لیکن جن کا
الفاظ کےتار عنکبوت میں گرفتا رکرنا آن کیقدرت ہے باھر تھا -یە چیزیں
کیا تھیں ؟ وہ پریشان کن سوالات جو ایک گڈمڈ دلیا ء جس میں آن کی
یں
انی جاعت بندی کی طرح کا بکھویئی قاعدہ قائون دکھائی نە دیتا تھا ء
آن کے دلوں میں رہ رہ کر آٹھا رھی تھی ء ایک ایسا نراج جس میں هر
چیز اپنی من مان کر رھی تھی ؛ ٢ن کی روز افزوں نظام جوئی پگراں
گزر رھا تھا ۔ شاعر ۓ اس راج کو دیوتاؤں اور دیویوں کے راج میں
تی کر دیا ۔ ک
یاەرنامہ اس ا
ۓپنے قصه آفریں تخیل کی مدد ہے عام
استعاروں کیبنیاد پر دیومالا کاایک عظمالشان محل تعمبرکرکے انجام دیا
جس میں فطرت کتےمام سظاہر اپنی جلالی و جا ی صفات کے مطابق انسای
صورتوں اور سیرتوں سے مزین هو کر لیکن ساتھ ھی ساتھ مافوق الفطرت
قوتوں کے حامل بن کر جلوہ گر هوۓ ۔ جادو کی وہ چھوٹی سی دنیا جس
میں ھچریز اپنی مرضی کے مطابق انسانوں ے اچھا یا برا سلوک کرتیق
سلطنت کا ایک عصة بن کی ای ظرح ٹیک و نے تھی ٦ات اش'غالمگیز
-اعر بھیروحوں ء جنوں اور پریوں کی دنیا اس کے تحت میں آگئی ش
اس سلطنت کے معار کی حیثیت سے رتبے میں اونچا ەوگیا اور دیوتاؤں
اور دیویوں کے مقربین خاص میں شار هوۓ لگا ۔
چنانچہ جب یونانی علم الاصنام ےۓ غبرفانی دیوتاؤں اور دیویوں
ایجاد کیے تو آن قصوں صےے انوں کے باھمی راہ و رس
قم ک سنی ااور
نفا
کے کرداروں میں علوم و فنون کی مقدس دوشیزائیں بھی تھیں ؛ جن میں
کی ۔ ھوس اور اُس سے ایک دوشیزہ کو شاعروں کی سرپرستی سہرد
کدےبستان کے حاسه نویس اپنے کلام کو اسی دوشیزہ کی تلقین وتحریک
ہے سوب کرۓ تھے ۔ اس دعوے کی صداقت کو اور تو اور افلاطون
جیسے سخت گیر فلسفی ۓ بھی تسلیم کیا۔
وم و فنون کی مقدس ایک مشسہسور روایست کے مطابق جب
دوشیزاؤں ۓ ہیزیڈ )(٥018611 کو جس نکۓاشت کاروں کے لیے ایک
منظوم ھدایت نامه لکھا ک
؛وہ هیلیکون (٥ہ[)611 پر اپنا جلوہ دکھایا
تو آنھوں اۓس کے ہاتھ میں زیتون کی ایک شاخ تم دی اور آآسکے
تگوںیکےسینے کے اندر ایک نواے سروش پھونک دی تاکه وہ آنْچیز
گائۓ جو آوۓا ی تھیں اور ان چیزوں کےگیت بھی جو وقت کے آغاز سے
1
شاعری کی زبان میں ہیں ۔ یوں تو ان ساری کیساری کتابوں میں شاعری
استعال کیا :گیا ے لیکن الہامی کتابیں خاص طور پر ام
وان کساس
َا
شاعرانه کلام کے جلیل القدر شاھکار ھیں ک
ءیونکە ومہ ا
ایوکراے تخیل
شع
بیہوں ء استعاروں کنایوں ء علامتوں ء نظام کائنات کا ایک مثای ےتمق
اور اسی قسم کی اور معنوی قدابیر کی مدد ہے یوں تمثیلوں ؛ +قصوں
نما حقیقت پیش کرتی ہیں کہ واہیک حقیقت مما افسانه یا ایک افسانہ
اتاگےر۔چہ یدهعوع واضح طور پر صرف صحائف آس|نی کے بارے
بن جا
آن یىی نی میں کیاگیاہے کہ وہ اصطلاحی معنوں مایلںہامی ہی
یںعء
القدس کی وساطت سے انبیا پنرازل ھوئیں ء عبارات من وعن ورحی
وحیا
کی مبنسے
سوب تاھم دوسری کتابیں بھی روحانی وجدان او
ارلقاے غی
جاتی هیں ۔ دونوں صورتوں میں مافوق الیشر قوتیں آن کا منیع و مخرج
ہیں ۔ اک
تیی تص
جور
رب کے لاتعداد مرقغومذاھب کی مقدس کتابوںن کے علاوہ مش
جدوان کا وافویا ۓ شاعری کو اپنے کشف و تجلىی اور عر
وفان او
صلی
وسیلهة اظہار بنایا ے ۔ اسی طرح دیا بھر میں بہت سے چوئٹی کے شاعر
سے باوجود کہ وہ ولی ایسے ھوۓ یں جن کے کلام کے ڈانڈے ؛ +اک
یاصوف نەتھے ء تصوف اور علوم سری و باطنی سے جا ملتے ہیں ۔ ان
میں چند ایسے شاعر بھی تھے جو پیغمبر هھوۓ کے بغیر پیغمبرانہ بصیرت
کے مالک سمچھے جاے ہیں ۔
تھے جن میں کلام اللہی مظا سر عیقے نتەھے ؛ بلکەه عالم شہ
وود
ا ک
وہ
۔ موزوں ہے ۔ اس ضمن میں ہم ایک معتبر سند کو کافی سمجھتے هیں
ڈاکٹر عبدالرحان بنوری کی کتاب ”محاسن کلام غالب؟' کایہ پہلا
جملہ ہے :
اہ ا ا ا "ووقان ری ان ا
002+07
الہامی شاعری کی جو بہترین توصیف ہاری نظر ہگےزری ہے ء وہ
شیخ فریدالدین عطار ۓ ذیل کی عبارت میں پیش کی ہے :
”چون از قرآن و احادیث گذشتی ہیچ سخن بالاۓ سخن مشائخ
؛ رحمة اللہعلیہم ؛ کہ سخن ایشاں نتیجةڈ طذریقت بت
است نہ مرۂ حفظ و قال و ازعیان است نە از بیان ول کا
حرا
مثا مینمونہ سمجھا جاتا ھے؛ اس کامعتقد تھا۔ گوئۓتوگوئے؛ صوفق منش
آک
گےے سر تسلم خ
کمرقا تھا ۔ وہ ””جنت بلیک (٥اه[ظ) بھی اس
گم گشتہٴ“ کے مصنف ملٹن )(06111١ کے بارے میں یه راۓ ظاعر
لکھتا ےہتو ایسا عک
لےق تشتوں دا اور
م فر :ملین 157
صورت میں اور اپنی اصلی قوت کے ساتھ برقرار رہ سکتا تو
اس ی۔
کن ل
وۓ اس کے نتامج آکتتے عظمالشان ھ جاۓ خدا
؛ مون
ول ان میںہے کون عامل ہے
ماو
عر ک ک
ےہ اہ
توا مش
جکل
کون خالق ہے اور کون خلوق ۔
اور خداء جاتا ے یہاں فطرت اور مافوق الفطرت کا امتیاز سٹ
فلسقی ہیں ؛ کیو ںکهہ خداست هجواے ایک اور فطرت السان
”فطرت خدا کا الفاظ میں کے یاکوب بومہ (٥صط٥ہ8 ماہ٥٥ك)
۔ل؟ے'ہ خکداائۓنات کو اپنے جلوے کا پرتو بنایا اور اس کی تخی
قوت خلاق نہ صرف صور فطرت میں بلکہ روح انسانی میں بھی حلول
خدا کا نائب سچےنا
۔نچه انسان تخیل یىیبدولت تخلیق کے معاملے میں
اور معاون کار ے ۔
تخیل شعور کی معراجی صورت ے اور شاعر انھی معنوں میں
''صاحب شعور؟““ ھوتا ے ۔
شیلنگ (چھذا[ط()8٥ کہتا ے کہ فطرت بحیثیت بجموعی شعور
حاصل کرۓ کی کوشش میں مصروف ہے اور تخیل جالیاتی ادراک کا وہ
آله ے جس کے ذریعے اس نبےالآخر شعور حاصل کیا اور پھر شعور یی
حاصل کی ۔ ایدی
زکآلیق
بدولت تخ
عاس
وکا
ر اشگارعر لغوی معنوں میں صاحب شعور ہوتا ہے
شتو
۰مُ
اس شعور کلىی ء اس تخیل آفاق کاایک حصه ہوتا ہاےگ۔ر وصہاحب
شعور نہیں ھوتا تو آُس صورت میں :
ےہ وھی بد مستی'ٴ هر ذرہ کا خود عذر خواہ
سے زمیں تآاسماں سرشار ۓ سک
لےوے جج
کک
تہے اور شیلے کے هزمبان هو
سکر رج ورت
لھم بہ
کر صو
ہیں کە شاعری تخیل کی زبان ے ۔
تیسرا باب
خیل کی ماھیت
؛ ایک مستقل نظطرے یه نظریہ که شاعری کی قوت عاملہ تخیل ے
پہلے انگلستان کی سے کے طور پر مغری تنقید ادب کیتاریخ میں سب
۔ ھم کچا
رومانی تحریک کے دو بانیوں میں ہے ایک یعنی کولرج ہے و
آں ی ”ادبی سوامحخ عمری؟“ میں ے دو اقتباسات ؛ جن سآےگے چل کر
مفصل بحثکی جاۓ گی ؛ پیش کرتۓے ہیں :
”میرے نزدیک بخیل دوطرح کا ہوتا ہے ء بعنی اوٌّی اثوارنوی ۔
و نک
باع اوّی تخیل میری راۓ میں تمام ادراکت انس
مانی
خرج اور اہم ترین وسیله ہے ۔ وہ نفس محدود میں نفس
لاحدود کے ازلی و ابدی عمل تکوین کی جو ”میں هہوں؟“؟
کی صورت مپیںہلے پہل نمودار ھواء ایک تکرار ہے ۔ ثانوی
یل اولی! یل ی صداے باز گشت بے ۔ وہ عوری آراداۓ
ابساکےوصف کے پہلو بہ پہلو موجود ہوت
لایہےکءن
جہاں تک آس کی فعای کیکیفیت کاتعلقہے ء آسے اوّلی
تخیل ھیکی ایک صورت کمنا چاہیے ۔ البتہ اپنی فعال ی کی
کمیت اور اپنے طریق کار میں وہ اوّلی تخیل ہخےتلف ھوتا
ے ۔ وہ چیزوں کیتحلیل کرتا ے؛ ٢ن کو درہم برھم
نی 7ھت کات کےاکا کساارے
چیزیں خلق کرے ء اور جہاں یه عمل اس کے لیے نامکن
ہے کہ چیزوں رشتا هو وهہاں بھی وہ بہرکیف ھ
شیککو
وطحودت
صورت بخشے اور آن میں رب ریین
تکبوہآن
ک
کی 'پحرعلات اق ایک زندہ قوت تھا پیدا 70
ہوتی :ہی
.ں..... ند اا
مور مر
جدہ لح
ایشثیا) اشیا (
امن
۳٣۴۳
”قوت واعمه کے پلے جامد اور متعین اشیا کے سوا کچھ بھی نہیں
ھوتا ق
۔وت واھمہ نیالحقیقت حض حافظے کی ایک صورت
ہو ہے جسے مکان و زمان کی پابندیوں سے آزادی حاصل
کت ہے ء اور قوت ارادی کا وہ تجربی مظہر جسے ہم انتخاب
بھی ھوتا عہ مل کے لفظ سے موسوم کرتے ہیں ءآ
شسامیں
حافظے کی طرح قوت اور اس کی ترمم بھی کرتا سعےا
۔م
واھمه کو بھی اپناسارا مواد قانون التلاف کے ماتحت بنا بنایا
ملتاے _)>
”تخیل قدرت مطلق ؛ واضح تریں بصیرت ء وسعت قلب اور عقل
کی بالیدہ تریں کیفیت کانام ہے ۔ یه قوت ہاری طویل حنت
تکرییروہحو تابرریکک منربعہسہیے سے ۔ ہسم نے دریاکاسراغ اس کے
اور آس کے کنارے لگایا ہے ....
کنارے چل کر روز روشن کےھلے میدان تپہکنچے ہیں ۔
ہم اس کی روانی کے قدم بقدم فطرت کے راستوں پر چلے
کا سراغ کھو س ہیں ۔ بعد میں ھم ۓےپریشان ہو
اکر
دیا
لیکن ہھم ۓ پھر آُس کا خبر مقدم کیا ء جب وہ اپنی
پر ح
طکی پوری شان کے ساتھ نئے سرے سے ]آبھرا اور
سآُس
انسان کاےرناہے اور انسانی زندگی کے نقش و نگار منعکس
ھوۓ
۔ آَُس کی با وقار رفتار سے ہم ۓے لامتنا ھی زندی کا
احساس اخذ کیا اور وہ مرتفع خیال بھی حاصل کیا جو
عارا مدار زندگی ہے ء یعنی لاعدودیت اور خدائیکا تصور ؛“
ورڈز ورتھ
اور کوارج کے بعد کی رومانی پود کا شاعر شیلے اپنے
مضمون ”'شاعری کاجواز؟“ میں تخیل کے متعلق یہ راۓ ظاھر کرتاے
شامہ ہے ؛ نہ صرف شاعری کے حدود معنوں میں چک رعری کہ وہ
سشا
وکەساینع
بل
تر معنوں میں جن میں وہ موسیقی ء رقص ؛ آفتنعمبر
ون انسانی کو محیط ہے ۔ ہم اس مجسمه سازی بلکه سارے عل
فومنو
موضوع پر آس یىیدو عبارتیں نقل "کونے من
”شاعری عمومی معنوں می
تںخیل کااظہار ےے اور ان معنوں میں
وہ نوع انسافنی کی ہم عمر سے . . . .ساج کے بچپن میں ھغر
مصنف لازماً شاعر ھوتا ے کیو ں کھ آس کی زبان قدرق طور
پر بذات خود شاعری ہوتی ہے ۔ شاعر ہوۓ کے معنی ہیں
ب_
اور دوسری طرف ادراک اور اظہار میں پائی جاتی ہے۔ ہر
بجاۓ خود هو جو اپنے منیع و مخرج کے قریب اصلی زبان
اور مسلسل نظم کا ہیولیل ایک سہتم بالشسان ء طسویل
>
۔یق؛ے
ہوت
مےوضوع
کە ہم ان دعاوی ہے تفصیلی بث کریں؛ مفید ھوگا کہ تخبل ک
آن کا آراء ظاھر ک کی ہس وند
مںسجت
پر آردو کے تنقیدی ادب می
۔ سلسلے میں ہم تینثقادوں یعنی شبلی ء حا ی
اۓس
مختصراً جائزہ لیاجا
اور مولانا عبدالرحان ک نگارشات سے تعرض پر اکتفا کریں کے ۔
”'شعرالعجم؛؛ میں شبلی لکھتے یں :
عام استدلال سے الگ هوتا عے ۔ قه
رلیکا
طدلا
”'قوت تخیل کے است
تے ٴثایت ہو چکی ہیں ء نئے وہ ان باتوں کو جو اور طرح
طریقے سے ثابت کرق ھے ۔)؛
تباویج کاعام طور پر جو سلسلهہ تسلم اور اس
نبا علوول
مات
”ع
شاعر کی قوت تخیل کا سلسلہ اس سے بالکل کنا ظاج ا 27
ے الگ حے ۔ وہ تام اشیا کو اپنے نقطه خیال سدےیکھتا
اور یه ٘2ام چیزیں آُس کو ایک اور سلسلے میں مبوط نظر
آتی ہیں ۔ ہرچیز کی غرض ؛ غایت ء اسباب ء حرکات اس کے
نزدیک ونہہیں جو عام لوگ سمجھتے ہیں ؛“
موجودات پمروقوف نہیں ۔ وہ خیالی باتوں عی
قعمل
ویلاکا
تخ
سے ھرقسم کاکاملےسکی ھے ۔؟“
حا ی کی رائۓ میں :
”وہ (تخیل) ایک ایسی قوت ہے کہ معلومات کا ذخیرہ جو تجرے
یامشاهھدے کے ذریعے سے ذہن میں پہلے سے مہیا هوتا ےہ ء
آس کو مکرر ترتیب دے کر ایک نبٔی صورت بخشتی ہاےور
دل کش پبراے میں جلوہ گر کرق سے
یکے
ااظ
پھر اس کو الف
ہے جو معمولی پبرایوں سے بالکل یاکسی قدر الگ هوتا ے ۔
اس تقریر ہظےاھر کےہ تخیل کا عمل اور تصرف جس طرح
٤٤ خیالات میں ھوتا ےہ آسی طرح الفاظ میں بھی ہوتادے
ہیں ۔ چنانچە کانٹ جهور قابل اور سمواد پر مثا ی هیئتیں عا
دئدیکترے
فطانت کو اس قسم کیمثا ی ہیئتیں تخلیق کرتۓے کی ایک خصوصی قوت
شمہ وجدان سے یا باطنی رںچکا کا مترادف سمجھتا ے ۔ ان مثا ی هی
سئتو
بصیرت ؛ جو یوں تو ھر شخص کو وھبی طور پرعطا وق ہےلیکن
شاعر کو بدرجهة ام ۔
چونکھ خک
لےاف ے۔
راس قیاس اور دور از کار چیزیں ایجاد کرتا حب
تخیل کاعمل نفس کیبلند سطحوں پر هوتا ہے ء یعنی کولرج کی اصطلاح
میں نخیل کی دوسری طنٹلکی
اح میں انوی تخیل کیسطح پر
ااور
صکا
اور تیسری حیثیتوں میں ؛ اس لے عقل آ٘سکیمشیر اور شریک کار ھوق
سچےنا
۔نچہ وہ جو چیزیں خکلرقتا
ے وہ اگرچہ فطری اشیا کی نقلیں
ءم فطری اھ پرمبّی نہیں هو
تتیں عںیت اوں
ق می نھہیوںتیں اور ان
ومعن
ایاصکلیاح یافتہ صورتیں ہوتی ہیں ء یعنی آن کیمثالی هینتوں کو
اش
ایں ک
عەے رونا کرتی ھدیںو۔سرے الفاظ میں ہم یوں کہە سکت
وےم
کا میدان عملوہہے جسے افلاطون ۓےنقلکینقل یاصریجدروغ کوئی
کہا ااور
دافیکیٰ اور خرب اخلاق کارروائی گردان کر اپتےمثالی
جسہوریە کےنظام ہے خارج کر دی
ااوءر اس کے برخلاف تخیل کامیدان
خود افلاطون الہامی قو
جتنءون اللٰہی اور فنون کی جس
ےے عمل وہ
دیویوں کے سائے ہے منسوب کرتا ے اور آ٘س کشااگرد رشید ارسطو
فطرت کی صداقتوں پر اصلاح ء یعنی افلاطون کیمثالی دنیا کے حقائقی کی
عکاسی کہہتا ہے ۔
ہیں اس فرق کو ہم ایک اطورریقے ہے بوھیاضح کسرکتے
شلیگل ([٥چ٥لطت)8 دو طرح کی ہیئتوں میں تھمیز کرتے ہوۓے کہتا تھے ٠
۵ٹ
مواد پر ایک ''جب ہیئعت کسی خارجی عامل کے زیر اثر کسی
اتفاق وصف کی حیثیت سے اور آُس یىیماعیت ے قطع نظر عائد
کر دی جاتی ے تو آسے میکانیکی ہیثت ککہتے ہنیاںمی
۔اتیق
(یا عضویاق)١ ہیئت اس کبےرخلاف جوھری اوارندرونی
ھوتی ہے اور بیج کی نشو و نما کے ساتھ ساتھ اپنا نقشهہ ظاهر
ا ما رج
.٭آصوع0ہ0 0
٦ھ
موےہکی نەکہ تخیل کی خلوقات هیْں ۔ ہسےااظ ھیثتیں نہیں ہیں ؛ اس
ولح
آن میں جو معانی پیدا کیے جا سکتے ہیں وہ زیادہ سے زیادہ علامتی معانی
ایئےیں تو وہ ہوسکتے ہیں ء اور اگریہعلامتی معانی بھی پیدا نجہک
و دور جدید کی سرریلسٹ جںسگی صرف آسی قسم کی چیزیں ہو
(۲۲٥٥81ن)8 مصوری اور شاعری میں پیش کی جاتی ہیں ء یا فرائیڈ
کے لاشعور کی آوٹ پٹانگ شکلیں ہوں گی ۔
مافوق الفطرت ہستیوں کو اعلیلٰ پاۓ کی تضییلی شاعری کا (یعنی
ایسی شاعری کا جو نامیاتی ھیئت کی تعریف پر پوری آترتی ے) مواد بناۓ
کہہیترین مثالیں ء علم الاصتام اور اساطیر الاولینِ کے بادر؛ شیکسپیٹر کے
سیکبتھ ([٥٥ا)811.٥ اور گونٹے ک فاؤسٹ()680:87 ڈراموں ء بالخصوص
کدےوسرے حصے میں ملتی ہیں ۔ وہاں جو کچھ پیش کیا گیا ہے وہ
محض کسی کا سر اروکسی کا پاؤں لےکر بنائی ہوئی خلوقات کا ”'بھان متّی
کا سا ماشهہ؛' نہیں بلکە نفسیاتی ء مابعدالطبیعیاتیق ٤ اخلاق اور فی علامات
ایک سلسلہۂ واقعات ہے جو زندکی کے واقعات کی طرح یز
بنیرے و
لمعا
ایک ضابطه قوانین اور ایک رابطۂ علت و معلول رکھتا ے اور جسے
کرتا لوسے
باہ قاری کاذھن خارق عادت جانتے هوۓ بھی فنی نقط
قہ نگ
ہے م
۔قابلة” قدر ےکم درجے پر اس کی ایک اور مثال وہ رومانی شاعری ۓ
ی
مرف
سہص
لن جس میں بروں منصة شہود پآرتی ہیں ۔ یه پر
طیاں
پراسرار ؛گریزپا ء سایہ :ما ء چلبلی ء چھل بل دکھاۓ وا ی ہستیاں ہوتی
ھیں بلکه طرفه تر بات یه ےکہ وہ ھم کو سچ مچ کی خلوقات معلوم
ہ
نیاںکقسایبل تفہم طریقے ہےچل گیاہوے۔
ہوتی ہیں ؛ جن کا پتا م
شاعری یا انسانی تخیل کی پیداوار معلوم نہیں ھوتیں۔ اس کے برعکس
انسانیتخیل آن کاادراکٹ کر کے اپنی معراج کو جا پہنچتا ھے اور
شاعری آنْسے کس بکال کرتی ے ۔ حسی ادراک کیدنیا ایک دھوکا ء
ان دنیا جس میں ایک وھم اور سراسر مایا بن جاتی ہاےور وہ اندرونی
فرضی ہستیوں کانور ظہور ے اصلىی دنیا کا روپ دھار لیّی ہے ۔ رومانی
ماعری کی ہرپان :صرف:إنسان نما پعلیان نہیں بلکد نَاقوی الیمر ھیتیان
۵۸
ہے ۔ یوں تو جہاں تک خیال بندی کاتعلق ہے ء ہہاری شاعری میں اس
یَ اعلیٰ مثالیں کثیر تعداد میںملتی ہیں ء لیکن پچی کاری ایک چیز
ے اور فن تعمیر ایک اور چیز ء متفرق جذبات کا اظہار ایک چیز ے
ءشر نکتہ آفرینی
اور مکمل جذبانی تجربوں کابيان ایک اور چمیزنت
سے تارے توڑ لانا بصیرت ایک اور چی
آزس؛ان ایک چی
ازوہے
ر
ایک چیزہے اور جامع نظام هاے شمسی کیتخلیق ایک اور چیز ۔
میں ہیئت کے فقدان کے متعلق جو عدو
ری من
اےآر ہھر حال ہش
کلیە پیش کیاہے اس کےمستثنیات بھی ہیں ؛ جن میںسےچند ایک کو
ہم آگےچل کر موضوع بحث بنائیںگے ۔
چوتھا باب
شاعرانہ تخیبل اور حقیقت
تیسرے باب کے آخری حصے میں ہم ۓ جو بحث کی کے آنسے
ان ہکےہ تخیل کا سروکار کلی طور پر می پیدا هاوۓمککا یفه غ
ہلط
ر فطری اور خارق عادت اشیا وواقعات ہے ے؛ نہیں تو زیا
غدہیتر
جس سے يد ضمنی نتیجہ نکالا جا سکتا عے کہ چونکہ ہہارے نظرے کے
کی قوت فاعله سے ء اس لے شاعری کا اصلی سروکار ریعیل مطا
شبق
ا تخ
ء صء
وف مذ
تھب حقیقت کی ماہیت اور حقیقت کے علم کے متعلق
فلسفه اور سائنس کے ختلف عقیدوں ء نظریوں اور قیاسوں میں ایک چیڑ
قدر مشترک ہے ؟ وہ یهبنیادی مقدمہ ے که عالم موجودات نفس انسانی
اور خارجی دنیاکے باعمی تعلقکاتام ہچےاءھے نفس ااسا
کنیسکو
ی
عضو مثا دل ؛ دماغ یا اعصاب سے یا کسی قوت مثلا عقل ء کر ء
فہم تخیل یاروح ے یا کسی خاصیت یا کیفیت مثل احساس ء ادراک ء
جذبہ یا تاثر پزیری ہے منسوب کیا جاۓ اور چاے عالم موجودات
کموادی مظاھر ء عوارض ء صفات ء اجسام اور قویٰ یا روحانی حقائق ء
خیال کیا جاۓ ۔ بە الفاظ دیگر جمکا
وعه جواعرء اسء ء طبائع اور مع
مانی
ائظان کےلیے عتیقت' غالم۔صنہواد کاناماھ ءٴیعنیٰ :اس ادائرة اشعورٴتا
نام جس میں آس کی ذات اور ماسوا ایک :دوسررے ہے س بوط و متصل
اة ہوے ہیں ۔ اسم شعور کے ختلف مدارج اور مختلف کیفیات ہی
مںثء
اور ؛ قیاس ؛ فہم ء علم ءعرفان ظن ء گان ء وہم ء احساس ء ادراک
ت
وجربهە ہدہ شذا
اتی اپ
منے یتین ۔ مذعب انسان کے اُس علم میں جآ
وے
اسرار ته
بتسکے
رخصی
سر ش
اور غرض و غایت اور آآسکی اہی زندگی او
ااکثٹر ایسے اوّلی اصول ء بدچہی ی
ھوہ
ب؛میں مدد دیں کے سمجھۓ
مقدمے استعال میں لاتۓے مفروضے اور ناقابل تصدیق ءدی
یانیں
باقت
صد
ہیں جن کیتوجیہ صرف یوں کیجساکتی ہے کہ وہ عقل سے جدا کسی
3۳
قوت کے عطیے یں ء یەالفاظ دیگر ایسے حقائق ہیں جن کا علم کسبی
چیزوں میں کے ذہن ۔اطون کی امثال ء
خجو
دا نہیں بلکہ وہبی ساےفل
کے خیال ء بعنی آن کی اصلىی صورتیں ہیں ء هر روح پآرُس کے اس دنیا
مکشوف تھ
لیںی؛
کن اس دنیا میں صرف الہام اور لےے می
پں آ
ہۓ س
اسلامی کے ہی
فںل۔
سف می
سںکآ
تی لکے
م جنون کے ذریعے انس
عان
اشراق دیاستفانلانےطون کعاےلم امث
االیپر
ک برتر عالم اشباح کا
اضافه کیاجس میں اس عا
تلممکایم صورتیں بذات خود قائم ھوق یں ء
ولویا کےجن کا پرتو وحی ؛ الہام اور کشف کے وسیلے سے انابیا
افلاطون کی امثال کو رد کر کے صورت مشاهدے میں آتا ہے ۔ ارسطو ۓ
اور مادے میں تمیز کی اور یه راے ظاھر یی که صورت مادے میں
اس دنیا کی کآ
ر مضمر وق سے ؛ یعی صورتیں اس کے فلسفے میں
مکین بنگئیں ۔ لیکن آ٘سۓےایک صورت مطلق کا اعتراف کیاجومادے
ے ۔اس صورت کآو٘س نۓ خدا کہا اور خدا کو جرود کمے ب
وغی
واحد افلاطونی مثال تسلم کیا ۔ افلاطونیت جدیدہ کا بانی پلوٹینس
(80مه )[0کثرت و وحدت کی یکتائی کامعتقد ہے اور اس کے نزدیک
فطرت کی تکوینی طاقت اور انسان کیتخلیقی قوت ایک ھی حقیقت کے دو
صورت ہزیر پہلو میں ۔ فنکاران معنوں میں خالق ہوتا ہے کوہه
ازلی کے ذھن لق مادے پر وہ هیئتیں عائد کرتا سے جو روز او
خلاسے
میں تھیں ۔ قرون متوسطہ کے صوف حکم سینٹ تامس ایکوئیٹناس
اشیاے خارجی روح (ةفھمنناوھ 88ح ٥0م ).٤8 کایه عقیدہ ک
ےہ
انسافی میں اپنے حسی قاثرات کے ذریعے تمثالیں پیدا کرقیق ہی
لںیءکن
جدیدہ ان کیصورتیں عقل کے وسیلے سے عل
ممیں آتی هایںفل۔اطونیت
کہتے ہیں ۔ رآ
ونحکی
یں کے دوسرے حکا اشیا کی صورتوں کو
کھ کے فلسفے کا خلاصد آس کا يہ جملہ ہے دیکارت ()8607968601
هو“ ۔ سوچنے ی طاقت ایک ”میں سوچتا ہوں ء اس لی
مے م
ویجںود
یه ےے اور اس کو چند ایدی صداقتیں ء جن کی نشانی اہی ے عطية
میں خدا رح اور واضح ہویق میں ء فدیعت کی گئی هی
اںن۔
ھی کە وہ
ابر
فلسفه عالیه کے روحانی تصور کائنات کو مورد شک بنایا اور پھر آخرکار
تجربی ء مسادی اور طبیعی فلسفے کی حہایت کے بل ب۔وتے پر اس ہے انکاو
کے بجاۓ آس ۓ کائنات کا ایک نما نقشه پیش کیا جس سک کے دا اس
مطابق کائنات ایک مکمل مشین تھی ۔ اس مشین کا بناۓ والا چاے
کوئی بھی تھا ء اہم بات یه تھی کہ اس کے کل پرزے ایک دوسرے
کے ساتھ پوری پوری مطابقت رکھتے تھے اور باقاعدق سے چل رےہ
تھے ۔ اسی طرح انسان بھی ان کے نزدیک ایک مشین تھااجی کو ایا
تآوُس کی جس)نی ساخت یا ایک میکانیی قوت؛ جس کا نام عقل تھاء خارجی
دنیاکیمشین کےپہلو بەپہلو چلارھی تھی ۔ یہ تصور ایک انینئر کا
تصور تھا اور اس میں کسی نقص یا رکاوٹ کیمطلق کنجائش نتەھی ۔
اسی طرح اس میں اقدار جہول اور موھومات و مفروضات ؛ یعنی ایسی
۔ چیزوں کے لیے جو عقل کے دائرے سے باہر ہرں ءکوئی جگ
تہھنەی
اگر یه چیزیں حل طلب مسائل پیش کرقی تھیں تو ان مسائل کا سہل
ترین حل آن کے وجود کا انکار تھا م۔اورائی اور عینی فلسفه اور شاعری
ے٦
کے نظر تصور کی رومانی تحریک دونوں حقیقت کے اس عدود او
ترنگ
کہ سائنس نۓ ایے ایسے جرغطلاف انچکے بسغاوت تھے ۔ آج جت
حمرت انکو انکشافات اور اختراعات کیے یں جو عقل عامه کو جادو _کے
کرشموں ء علمالاصنام کے قصوں ؛ مذھب کے الہاموں اور تصوف کے
ہکم مافوقالفطرت اور خارق عادت معلوم نہیں ہوتۓ ؛ آ٘س وجدانوں ے
میں یه سنکسرانہ احساس پیدا ہو گیا ے که اسان کا تجربہ اور عقل کی
تحلیلی کارروائی جو اس کآےلات کار ہیں ء اسرار حقیقت ی پردہەکشائی کے
۔ ج
دید طبیعیات کے دو بئیسادی قوانین ء یعنی قانون عدم ۔ییں لی
نےمکاف
تعیین اور نظریة اضافیت ء اس احساس کے صری اظہار هیں ۔ قانون عدم
تعیین کاماحصل ی۔ە ہے که خارجی دنیا میں کوئی ایسا سلسلۂ علت و
معلول نہیں جو مکمل طور پر عقل کی مدد سے دریافت کیا جا سکے ۔
اور کی معجزوں چنانچە ماھرین طبیعیات اب مذھب اور تصوف کے
کے قائل ہیں اور آنھیں خارق عساد
متجھنے کیبجاۓ نظام مشاھدوں
پر بنسہیں ء وہ ایک رب تسالم کرتے ہی
اںس۔ی ے فطر
حتصکے
مسہبالاسباب کے وجود کو بھی اپنے عقلی نظام کا ایک جزو لازمی قرار
دینے پر مجہور ہیں ۔ نظریة اضافیت کی اھمیت علم حقیقت کے نقطۂ نکاہ
سے یہ عے کہ خارجی حقائق ؛ یعنی مکان و زسسان ء اضا ہیں ء مطلق
؛یونکەہ سمشاھهدے کے عمل میں مکان و زمان اور ناظر کا زاویه نظر
نہیں ک
دونوں ایک دوسرے کے زیر اثر متواتر بدلتے رھتے یں ۔
حقیقت کی ما یت اور اکسے علم کے متعلق ۔اختلاف' آراء کا ٴیَه
×× و فی اس سےسوا کیاتید سنا > ع
شد پریشاں خواب من از کثرت تعبیر ھا
ہے حقیقت سدد
وہ اپنے تثخیل کی شاعر کا خصوصی امتیاز کو اھ کو
کے اس خواب پریشاں پر معنی خیز ہیثتیں عائد کر کے اسےآاپنی
تعبیر بنا دیتا ے ۔ دوسرے لوگ اس کے معانی اس کے باہر
مضمر دکھائی دیتے ہیں ۔ وہ آس
اینکے
در ڈھونڈھتے ہیں ۔ اک
سو
وہ
؛ پہناےۓے ہیں ؛ فلسفه اسورائنس اس کموعجاونی وف
ص؛تھب
مذ
٦۸
ان لی عکلاوۃ ایک اور وابطڈ! عتاق ہے اافاتی راز سلی کن کا
کا وہ قت
ی۔حاقہے
بش دیٹ اس ہے منتشر سواد کو ایک وحدت
تجرے هھوتا ے۔ہاس اس کا تخمیلی تجربةہ سے دیکھتا عر
ا جوشاب
خو
هوتا سے جو فلسفیوں ء سائنس دانوں اور عام کا مواد خام تو وھی
ا ا کی کوک
ھی تا رف لوکون کا ضر ویک
آس کی طرح انسان ہوے ہیں ۔ ان کے ارد گرد کیچیزیں ء زندگی کے
جذبات جو لو وی کی کواٹ وہہ لت ارو واقعات ء اپنے اور قوف
دل انسانی میں ختلف عحرکات کے زیر اثر پیدا ھوتے ھی ءوہ احساسات ٤
حےصے امیدیں آ
؛رزوئیں ٤ خوشیاں ؛ اکامیاں ؛ مایوسیاں جو ھارنسان ک
میں آتی ہیں ء یه چیڑزیں ان سب کے تجربوں کے عثاصر ہویق ہیں۔
عےے ان تجربات کے وہ عثاصر جو اس کے
یل ک
ر عمذیدی
فلسفی ایک تجر
ے علیحدہ کر کے ان کا عقلىی تحلیل و تجزیه کرتا لیے مفید مطلب ہیں
کرتاے تاکەہ اور پھر انھیں ایک نظام فکر کی صورت میں مب
معٌی تفر پیش اکٹ رسکی" فائسن دان زندق اور کائنات گاینکاتا
کہ نزدیک انسانی تحجربە وسیع رین معنوں سیں حقیقت کاآئینہ ے ۔
انسانی تجرے کی صداقت آس کا بغیادی عقیدہ ےے ۔ چنانیە اوائلی ادوار کے
ہے لےکر فلسقے کے شےموں
ر ک انسانسوں کے تسومات اور جس
کادو
جردات تک ؛ بچے کے پہلےدمشدلے دہشدلے احسامات ہے لے کر ایک
حسی اتک زندی ثقه و متین اور ذی عقل دنیا دار کے واضح تصور
ملضبط کلیوں تک جن "" ٹاشرات کے یت۲
میں حسی مواد کی ذرہ برابر آلائش نہیں ہوتقی ء حیوانی جبلت ہے لے کر
منزہ رین روحانی کوائف تک ہر چیز اس کے لیے اپنی ہستی کا جواز
ےت 0
یہ ے کہ اس کا میدان عمل انسانی تخیل کی ایک خاص صفت
تجرے کے اصلی سرچشموں کے قریب ہے ؛ کیو ں کہ اس کا وظیفۂ منصبی
حاسدیراکات کے هنگامهۂ کثرت کو معنی خیز ہیئتوں میں تبدیل کرنا
عےمل سکےام لیتی ہے ء ہعےق
۔ل حواس کے مواد کی تنظیم میںتجرید ک
یعی ُس کو غیر حسی علامتوں میں تبدیل کرقی ہے ۔ اس کے برخلاف
تخیل حسی مواد کو تبدیل کیے بغیر آُس میں ربط ض
وبط پیدا کرتا ے ۔
چنانچہ وہ عقل کے مقابلے میں حقیقت نفسالامی یعنی اشیأً من حیثالاشیاء
کو زیادہ صحت و وضاحت ہے دیکھتا ہے ؛ اور آن کا لقشه زیادہ صداقت
مدد ہے وہ حسی تأآثرات کے مواد جن شہتے
روے ۔ پیش کرتا سے
کو منظم کرتا ھ
آےسے آنھی کے اندر مضمر ماتے ہیں ۔ اس کے برخلاف
کے خلاؤں فلسفغی اور سائنس دان اپنے منطقی نظاموں اور تجربی تمقیقات
بہر حال دونوں صورتوں میں خی رابطوں کا ادراک ایک وجدانی عطلیه
ھوتاے ء بالکل آسی طرح جس طرح صوفیا اپنی کشنی قوت کی بدولت
وجداق ۔
یهکا مشاہدہ کرتےۓ ہیں دت
وےحمیں
کثرت مظاہر کے پرد
عمل تخیل کی ایک امتیازی خصوصیت سے اوآر٘س کی سستقل کیفیت قبرل
ستےعلق رکھتا ے ۔ بہت سے جلیل القدر فلسفیوں اور سائنس دانوں ۓ
بھی اس وجدانی عطیے کا اعتراف کیا حے ۔
6۶ہ)5[۵٥ نظریة اضافیت کا موجد البرٹ آئن سٹائن (حنئم8011 +
میں مے
قفدکے
مدی
تص < )(]78ىک ایک میکس پلینک (ع[٥ ط17
لکھتا ے :
طریقهہ موجود نہیں ۔ صرف ئای
وککشاف
”ان بنیادی قوانین کے انک
ایک طسریقہ سے ء یعنی وجدان ؛ جس کسو اس احساس سے
سظاہر کے پس پردہ کوئی نظام ہے ۔:؛ کہہ
تقویت پہنچتی ے
خود میکس پلینک کا قول ہے :
”سائنس دان کے لضیےروری ہکےه وہ ایک جیتا جاگتا تخیل رکھتا
راج سے پیدا نہیں ہوۓے
خقی
ستتمنط هکویونکہ نئے خی
االا
بلک فنکار کےہہ تخلیقی تخیل ہے ۔؟٤
شاعرانه تخیل کےکاشف حقیقت هوۓ کے بارے میں سی ۔ ڈے لوئیس
: (ہز٥٣ا )0. [700کہتاے
”'شاعری کیصداقت کاسرچشمہ اس وحدت کا ادراک ہے جو تمام
مظاھر کے پس پردہ موجود نے ء اور شاعری کاکام یہ ے
که اپنی تثال انگیزی اور استعارہ آفرینی ک قوت کے ذریعے
اور پراۓ رشتے دریافت کرے مظاہر کے درمیان ننےئے
رشتوں کیتجدی دکرے ,٤٤ ...
آگے چل کر وہ سزید کہتا ے کہ :
”کوئی نظم صرف اس صورت میں مکمل شار ی جا سکتی ۓے کہ
وہ تمثالوں کا ایک ایسا نقشه تیار کرے جآ
و٘س رشتۂ اتحاد
سممےائل هو جو اس دنیا کےمظاھر کو ایک دوسرے ے
وت
اوگارحد حقیقت ہیں تسو سب ہے بڑی حقیقت ضرور ہے اور انسان کے
مثا ی حقیقت کی تخلیق ہے ۔ لک
ییق خجرے مثا
تلی ت
٥٥81/٢۲ )6.کاقول ہے : نائٹ (ا
جن[ جویل۔سن
حقیقتیں اس اس میں مضمر ے کہ روحانی ”'شاعری کا سرچشمہ
خیال پترقدم زمانی رکھتا ے اور نسبة انسانی جبلت ہزےیادہ قریب
ہوتا ھے ء اس لیے وہ شاعری کے سرچشے کی حیثیت سے خیال پر تفوق
رکھتا ے ۔ خیال جذڈے کے بعدکی ایک نفسانی پیداوار ے اور عقل ہے
نسبة قریب تر ہوتا ہے ء اس لیے جو شاعری اس پرمہنی هو وہ شعوری
کے سرپرست يیە خی
۔ال ہوتی ہے و غیں فطری صا
نور
وعی و ار
مادی
جواب دیتے ھیں کە جذبات کا زبان کی سدد ہے اظہار خیال کے پیدا
؛کہ زبان کباامعنی استعال ایک وںن ہوتے سپےہلے ممکن ھکی ن
یہی
شعوری اور عقلی عمل سے اور وہ جذبات کو اس وقت تک بیان نہیں کر
سکتی جب تک وہ خیالات کی صورت اختیار نە کر لیں ۔ جذبات کا فوری
ذریعے اور براہ راست اظہار آن بی نزدیک افعال اور حرکات و سکنات 2
مکن سو تو ہسو ء زبان کے ذریعے ممکن نہیں ۔ اگر جذبات زبان کے
ذریعے فوری اور براہ راست اظہار تلاش کریں تو جو زبان وہ استعال
کریں گے وہ یا تو مہمل اصوات یا زیادہ سے زیادہ غیں مبوط الفاظ پر
ضی میں انھی کے مائل مشتمل وک یا ایسے الفاظ پمرشتمل و
مگاجو
جذبات یا یسوں کہیے کے آن کے متجانس خیالات کے اظہار کے لیے
استعال هو چکے یں اور حافظے میںمحفوظ رہ کرنم شعوری طور پر یا
بریں ید هھوگے ہی
مںز۔ ائتلاف کے عمل کی بدولت :آت خدبات
و نے
ا
کسو ایک تعمیری صلع میں تبدیل کرے۔ ہم ےۓ دوسرے باب میں
جذباتی نظریةۂ شاعری کاتذکرہ کرتے ہوئۓے ورڈز ورتھ کے نظطرے کے
ایک اندرونی تضاد کی طرف اشارہ کیا تھا ء یعنی یہ کە وہ ایک طرف
ضتطکرااری سیلان کہتا ہاےور دوسری طرف تشواعری کو جذ
ابا
اك سکون کے لمحوں میں پراۓ جذبات کی حافظے کی مدد ہے تبدید اور
ان کے ممائل نوزائیدہ جذبات کااظہار کہہتا ہے ت
۔خیل کی جذبہ و خیال
میں ہم آھنگی پیدا کرۓ کی طاقت کو تسلم کرے کے بعد یه تضاد رع
هو جاتا ے ۔ ورڈز ورتھکامطلب آس کے اپنے اکوورلرج کے نظر یهتخیل
کے سیاق و سباق میں صریحاً یه ہے کە جذبات براہ راست اور ابنی اصلىی
صورت مسیں نہیں بلکہ تخیل کی سصدد ہے تجدید یافته هو کر شاعری کا
موضوّع پنتے ہیں ۔
پر مت
خےدکی
اور آن کی ھآمھنگی کو زندی کآے٘س حص
علیحدہ اور جذبهہ علیحدہ نائور کت دیتی ے جس سے خیال
۔اعر کا تخیل س کے سارے وجود روحانی
پیدا هوۓ ھوں ش
ھ
کے و جسانی پر غالب آ جاتا ہتےخ۔یل کا عمل یوں
جیسے فطرت آن تمام قوتوں کو جو آآس کی خادم ہیں اور
م دھندے کرتی ہیں ایک اکے
کآُس
جو اپنے اپنے طور پر
کے کام میں غخل دوسرے ساتھ جوت دیتا ے تاکه وہ ایک
ا 32ھوں
کے عمل ہے پہلے موجود تھی آسی ئری خود تعلق حے وہ جی
کسےوشع
طرح شعرگوئی کےعمل کے بعدبھی شاعر کے ذھنی پس منظر میںموجود
ری سے ۔ البتھ اتنا ہوتا ے کہ آس میں ایک تسلى بخش معنی پیدا
ہو جاے ہیں ۔ حقیقت تو یہ ے که جذباتی کش مکش تنوع اور شدت
دونوں کے اعتبار سےجتنی زیادہ وگ آتنا ھی شاعر کا رقبه بلند ہوکاء
خوکا آکیو لک ەاشاعر ):کو جتنا اپنے اندر ابتری اور پریشانی کا احساس
تنظم ء ترتیب اور آتنا عی وہ آُس کے تدارک کےلیے اپئے کلام میں
دے کا ۔ اعلبی ہاۓ کی شاعری زندگی :کے یت
موہک
اوبی
خوش اسل
۸٦
اور تخالفوں کو مٹا دیتا ے ء وهاں شاعر ؛ جس تمام تضادوں بزعم خود
اور اپنے تجرے کی مہر صداقت ثہت کر کے انھںی عالمگیں انسانی تجرے
کے گنجینے میں شامل کر دے ۔
یه عمل ورڈز ورتھ کےالفاظ میں قوی جذبات کا اضطراری سیلان
ان معنوں میں کە شاعر کے ذھنی حفوظات میں سے جو بھی ھوتا اےۓ ء
بن جاتے ہیں ۔ لیکن فقدان هیثت کے باعث غزل 61771کے درجے کو
پہنچنے سے قاصر رھہّی ہے ۔ 61751کی لازمی خوبیوں کو سی۔ ڈے لوئیس
ذیل کے الفاظ میں بیان کرتا ہے :
”اغاق ا7لقتاضا'عیر شاعنر "یق طبَيعت میں کارفرما ہوتا ہے ۔ سچ
پوچھے تو یہی وہ تقاضا ے جو آے نثر کے مبجساۓ نظم
شاذو لیکن خالصةٴ غنائی شاعر لکھنے پر جہور کرٹا تھے
نادر پیدا هوے ہیں ۔
خالص غنائی نظم اول تم
وام دوسرے
اصناف سخن کے مقابلے مسیں خسود مکتفی ہوق ہے ؛ دوسرے
تام فنون لطیفه میں یہ موسیقی ے قریب ترین مشابہت
ی رکھتی سے ؛ ایک تو اس لیےکہ اس کی ابتدا ھ
کیاۓ
اس لیے که امن اس نے باوصق کے ہوئی ء؛ دوسرے خاطر
غنائیه کلام میں شاعر اپنے ذاتی جذبات کا اظہار کو تا کا ا
معنوں آس کالب و لہجہ سراسر شخصی ھوتاے ۔ صحیح
میں غنائی شاعری کے نام کی مستحق صرف ایک ایسی نظم
ہوتی ہے جس میں شاعر خود روپوش هو گیا ہو اور جس
کے الفاظ خود بخود گائیں گ
ءویا سازندہ ساز کو چھیڑ کر
س کے علیحدہ هوگیا ہو اور ساز اپنے آپ برچہا ہاو۔
الفاظ کے تار و پود میں ایک حریری هھمواری اور شفاق
ہونی چاہیے اور اس کی جذباتی کیفیت میں مکمل وحدت اور
نفس ء جذباق تسلسل ؛ منطق آرائی ء بذله سنجی ء مشاھدۂ
پیچیدگی اور روہ چیز جو عبارت کی قدرتی روانی میں خل هو
۹۰
ای پوری آب و تاب اور اپنے پورے سوز و ساز کےساتھ جلوہ گر نظر
۔ کے
چھٹا باب
شاعرانه آخیل ء علم اکتسابی اور نفکر
سولانا عبدالرحان ”أمۃرالشعر؛؛ میں ”علم اور شعر؟؟ کے عنوان کے
ماتحت لکھتے ہیں :
تخیل ایک طرف شاعری کا اور دوسری طرف تمام علم حقیقت کا سرچشمہ
سے ء اس لے شاغر کی ساری دنیا اقلیمتخیل کیحدود کےاندر ہوتی ہے ۔
عری کی دنیا سے نکل کر جب وہ ان حدود کے باھر قدم رکھےۓے تشوا
وہ
کسی اور دنیا میں جا پہنچتا ے) مثلا فلسفه ء سائنس تاریخ +سیامھات ء
اخلاقیات یا مذھب یىی دنیا ۔ ان دئیاؤں کے قوائین شاعری کے قوانین ہے
ختلف ہچینںا۔نچہ وہ آن میں پہنچ شکارعرنہیں رھتا لیکن وہ ان دنیاؤں
سیکںتا۔ اول تو ایک مہذب جاعت کے سطےکولیر پر قطع تعلق بکھیرنہ
ایک فرد کیحیثیت سے؟سے قدری طور پر انْ ہکےچھ نکەچھ سروکار هوتا
ہے ؛ ددوسنرےیایہ
ئیں انسان مکجےموعی تجرے اور مجموغی علم کے
اھم حصے ہیں اور اس لیے وہ جہاں تک ان سے ے خبر ہو؛ وہیں تک
محدود آس کاتوجہریہ اور وعہلم جآوس کے فن کلےوازم میں اےبہ
ہوگا۔ اگروہ کسی بلندسطح پر تخلیقی کام کرنا چاہتاا ے تواس کے
لیے صرف وہ علم وھہبی جو آسے ایک چشم بیٹا اور ایک دل حساس کے
ذریعے صحیفۂ فطرت اور کتاب زندگی ہے حاصل ہوتا ہے کاف نہیں ۔ ان
؛ وه یک
هہ عمل ے طریق حالات میں اس کے لیے صرف ایک صحیح
وہ ان متجانس دن
میاؤ
عںلسوےمات و افکار اور عجائب و نوادر فراھم
کر کے اپنی اقلیمتخیل کو آن سےمالا مال کرے ۔ا٘س کی اقلم تخیل ک
اصلی چیزیں احساسات ء ادراکات اور جذبات ہیں ؟ اس لیےوہ بداھنریی
اؤںن
سے جو چیزیں لاۓ ؛ ضروری ے کہ آن کو ان اصلی چیزوں کے سانچے
کے سیں رنگ دے ء.ورنه چیزوں می"ں ڈھال دے اور ان
ر کے
نگ
کے درمیان ایک ایسی منافرت و مغائرت ھوگی جو ان دو گروھوں
ہوک ۔ معلومات کی تحصیل و ترمم کا بضر
ت اس کے فن کے
ثلی
اےم
کے مقابلے میں آسان ے نون یەعمل شاعری کےلیے باق تمام عل
فوم
تخیل تخی
الوہے
ر کون کاو قوت نفستائیق جو ان عمّلبی کنل
ےَ شاعری کی قوت فاعله ؛ اس کی خاتمسلمانی اور آسکا چراغ الهدین
میر
ان اسی کیکار سازی ہے ؛ گویا ملک سخن متمام افسیک
را ز
سے ۔ چناں چھ ھسارے ہاں کے شاعروں کاآج تاکسی پر
ابمان ےے ۔ یه وقت کی خوبیاں ہیں کہ تخیل ۓ امیجینیشن کے
نگوش
اۂمی زور سے ملک سخن پقربضه ج|لیا اور فگکر
مکو
میں بٹھا دیا ے ۔ تامہعمقولات کاایک گوشہ اجسگر
گوشۂ:شعزا کےنامکاابھی تک اق ے ؛ اور جب تک یة ]ُس
۹۳
کاکام ے اور یهکام اعلوٰ قسم کی شاعری میں ایسے طریقے سے کیا جاتا
بلکه شریک غالب ہوتی ی
اںترہ
جنہی بے کہ پہشلی
خصیت دب کر
۹۵
کرتی ہیں ۔ دالتے کی طربيه قدسیه قرون وسطیل کی هیبت انگیز علمیت
کا ایک بجر ذخاز اور ٹوسسٹ ( )]6810۵000(1فلسفے کی ایک مکمل تفسیر
طرح رومی کیمثنوی کے متعلق مشہور ے کہ : ساےس
۔ی
ھست قرآں در زبان پہلوی مثتوی'ٴ مسولویٴ معنوی
ہاری زبان میں اقبال کا کلام ایک خاص نظام فکر کا ترجان ھے :جو
فلسفة اسلام اور فلسفۂ مغرب کے چند خصوص دبستانوں کے امتزاج پر
مشتمل سے ۔ لیکن ان تمام شاھکاروں میں علم و حکمت کے عطیات کو
حض مواد خام کے طور پر استعال کیا گیاہے اور شاعر نے اس مواد
کو اپنے تخیل کی بھئی میں پگھلاکر اس ہے ایک نبی دہات بنائی ہے۔
اس کے برخلاف بعضص شاعروں کے کلام مفیلںسفیانه نکتہ طرازی
مقصود بالذات بن کر شاعری کی حدود سے تجاوز کر جاتی ہے ۔اس کی
ئب کے ہاں کمتر اور بیدل کے
ا؛ مثالیں فیضی ء ظہوری ء نظی
صری
یہاں اکثر اور غالب کے آن اشعار میں جو اس ۓ بیدل کے انداز میں
کہے ہیں ملتی ہیں ۔ اس قسم کے کلام کابنیادی نقص یہ ہے کآہِس
میں تفکر کی افراط اور تخیل ککیمی ہے ۔ ایکت حقیقی شاعر کے افکار
حض آس کی کاب حافظه کے اوراق کینقل یا سی دماغ کاوی یا
جودت طبع کے انتا نہیں ہوۓ۔ وہ آس کے اعصاب کے تاروں کی
کے زمزعے ۶اس کے ذل کی ہے جتلرنکت خوں نف چھٹکاریں ا
دھڑکنوں کی آوازیں اور سی روح کی خاموشیوں کیگونیں ہوتۓے ہیں ۔
یہ ان سنی آواریں اور یه آوازوں ہے زیادہ سنائی دینے والی خاموشیاں
صرف تخیل کے سنگیت میں جمع ہسوکتی ہیں اور یہ سنگیت صرف
اں وہ آپ اپتے حضور میںجنہسےشاعر کی باطنی خلوت گاہمیں مک
آس کی دوسری شخصیت ہے شخصیت موجود ہوتا ہے اور اس کی ایک
یکہہتی ے :
۹۸
جب کوئی دوسرا نہیں ھوتا تم مرے پاس ہوتے هو گویا
جن شاعروں میں اس باطنی تنہائی ؛ اس روحانی خود کلامی یىی
اتم رےجۂ دہ کمی ہوتی سے آن کاکلام شاعری کے ظاھری ساز و سا
بمان
صرصع ہوے کے باوجود بہقرین شاعری کے درجے کو نہیں پہنچتا ۔
شاعروں کےلیے دل جہاں تک فکر بازی کاتعلق ہاےء
کوثہر
ہو بے ۔ لارنس ڈرل ([[٥۶۶0٣٥٥٥٥ :02ھ)1 فنکاروں بہلاؤ کامشغلہ
کاحیثیت جموعی ذکر کرتے ہوئۓ اس نکتے کو ذیل کے پر لطنفالفاظ
میں بیان کرتا ے :
اور مذھبی خیالات یىی ساری ”'فن کار کے لیے فلسفیانہ ء صوفیانه
دنیا معض ایک حرم سرا ہوتی ےے ؛ جس میں وکہبھی
احیسکینه اور کبھی کسی دوسری حسینہ کو انتخاب
کرتا ے ۔ سچ تو یہ ۓےکہ فنکار افکارکی اقلیممیںپہنچ
مت ۔ افکار کی صداقت کی ایت رند اوباش بن جاتا ے
او
کرچھ ئە تھا کەه سک
وےا اس صد طبع آزمائی ہی ہے ۔ شا
معرقکا
”نقش هاۓ رنگ رنگ؛ پیدا کرے آ
۔ردو شاعری کی جلسی اور فرمائشی
روایات کی بدولت آس کا سب ہے بڑا نقص یہی ہے کہ آس میں شعر گوئی
آپ اپنا مقصود معلوم ہوق ہے اور ایسا حسوس نہیں ھوتا کہکوئی
بلند تریا عمیق تر تقاضاء جس کامنبع شاعرک روح کیگہرائیوں میںتھا ء
آُس کا حرکٹ ہوا ے ۔ یعنی آس میں قواے فطرت کیسی ناگزیری اور
اضطراریت نہیں پائی جاتی ء؛بلک شاعر کیجودت طبع اور اُسکی فی قدرت
کہ مظاھرے یکے بعد دیگرے دکھائی دیتے ہیں۔
االقفبااظل کایگجردچہت اغوارلبدل کے مقابلےٴ میں نہ صرف مضمون آفرینی بلک
الت انگیزی کے لحاظ ہے کم پایه رکھتا ے
(اور اس کے باوجود کھ وہ آس ہے زیادہ علم و فضل ہے مرصع تھا) ؛
تاہم آس کےتخیل میں ایک نظام ے جو غالبٰ کے ہاں نہیں پایا جاتا
اور یه ایک فلسفی کا نظام نہیں بلکه ایک فاسفی مزاج شاعر کا نظام ے ؛
کیوں کہآسکی تعمیر جرد افکار یا فلسفیانہ نکتوں ہے نہیں ہوئی بلک جڈے
کے آوے میں پکے ہوئۓ خیالات کی اینٹوں ہے ۔ اقبال کی شاعری اسلام ء
پیغمیر اسلام اور ملت اسلامیه کی محبت میں ایک نعت ؛ ایک قصیدہ ء
مسلسل غزل ء ایک طویل نظم ایک مرئثیە ء ایک شہر آش
اوبی؛ک
ےہ ۔ یەمحبتکسی فرضی حبوب ہے فرمائشی محبت نە تھی بلکه ایک بلند
نصبالعین ہے ؛ ایک انسان کامل ہے ججوال بشری کا ایک جامع
جاعت ہے حقیقی و صمیمی عبت تھی۔ گیتی
تی جا
ایک ج حجسمہ تھا اور
ذات
ھءی ایک زبردست تخیل کے بغیر یہ چیزیں حض عقلی
م جرد
جذے کے پغبر عقائد یا سیاسی مقاصد بن کر رہ جاتیں اور ایک قوی
شاعر آنھیں اپنے تخیل محیںقزیندقہتیں بنابکر
سا نہ سکتا۔ اقبال کو
ان ہے جو محبت تھی آس میں وھی سوز و سازء وھی تڑپ ؛ وھی آرزو
درد دل ء وھی دیوانگ تھی جو عام انسانوں کے عشق حازی یا وھی
صوفیوں کے عشق حقیقی میں ہوتی ہے -اس تخیل اور اس جذڈے نےاقبال
کو یہ توفیق بخشیک وہ فارسی و آردو کے ناقص روایتی ورۓ کی بنیادوں
0۳
پربصیرت کی شاعری کا قصر عالی شان تعمی رکرے ۔ اقبال آردو کا واحد
صاحب بصیرت شاعر سے اور فارسی میں اس کے صرف دو شربک ہیں
یعنی رومی اور حافظ ۔ اقبال ی شاعری جلسی شاعری نەتھی بلک ایک
انسان ؛ کسےیے کی تنہائیوں کیپیداوار تھی ۔ انسان ء امیکعغمیر
ولی
ء جو حض شاعرانه عار اچ
شند تو ذیل کے چاہیے اک اس کا ثبوت
خود فروشی یا مضمون آفریئی پر مبنی نہیں ء کاق هیں :
اے ساق تدارم بحرنے دیگر اہئ
ےه در
خیں
کہ سن شاید نخستیں آدمم از عالمے دیگر
لایفکنلاطون تخیل اور واہمے کے درمیان تمیز نہیں کرتا ۔ چنائچہ وہ
ٹیمیسسں میں جگر کو تخیل کامقام قرار دیتا ہے اور کہتا ے کہ چوتکہ
رھتا ے ء ا بوسو
ھںرہے ہک
واانی حصهہ دن رات واہموں اور وس رشوح
اس لے خالق ازی ۓ یە انتظام کیا ہے کم باعن
ضسانوں کو ایک
ون قوت ب٘شی ہے تاکہ وہ حقیقت کاعرفان حاصل کر کے ئفس امارہ
کی اصلاح و تہذیب کر سکیں ۔ یہ کشنی قوت امیکاوراے عقل قوت
ہیں ۔ بہر حال آآس نتےخیل کے ھوتی ۓے جس سے شعرا بہرہ ور ہوتے
کرے دوسطحوں پر عمل کا اعتراف کیا ۔ جب وہ سفلی سطح پعرمل
تواس کی پیداوار ادنیٰ اور مخرب اخلاق شاعری ہوتی ے ۔ جب وہ بلند
سطح پر عمل کرے تو آُسکی تخلیقات ازی صداقتوں کو جسم کری ہیں
اور اس لیے اخلای نقطه نگاہ ہےمفید اور قابل قدر ہوتی ہ٭ہیں ۔
افلاطون کا نظریةُ شاعری آ٘سکے فلسفۂ علمیات و اخلاقیات کاایک
حصہ سے اور اس کی ختلف نکارشات مجیں
زئی طور پر پیش کیا گیا ے ۔
ۓ ایرںس
۔طو ا کے اندروف تضادات شالباً اسی ام
نستکیاجہ م
سے یک
ثییت فن شاعری کا انسانی ذھن کے ایک آزاد اور خود تار ع
حمل
جائزہ لیا اور آنے فق حد ذاته مفید قرار دیا ۔ وہ افلاطون کے تصور نقل
کو تسلم کرتا ے لیکن اس میں ایک دور رس ترمیم کرۓ کبےعد ۔
چ
ءیزیں وے؛
ل انسزکے
دیک تینقسم کی چیزوں کی نقل مک
ان ہ
جیسی کە وہ تھیں یاہیں۔ دوم ؛ چیزیں جیسی کھ وہ نقل کرۓ والے
ایک اک
ییقات فطرت کو کال بخشتا ۓے ۔ جب وہ ایسا کرتا ہے تتوخ
آس
اخلاق کےحق میں مقید ہوتیق ٭وتی ہیں ج
توہذیب چا
شمهہ ایسی لسذت
رک
میں ارسطو شاعری اور تار کامقابله کرتےۓ ہۓوکہتا ہسے۔
لاسسیلے
افراد کے افعال اور جذبات کو ایسے طور ہر بیان کرتا ے کشےاکھ
عر
کہ وہ عمومی او
آرفاق بن جاے هیں ؟ اس لیےشاعر یکو تاریخ پر تفوق
حاصل سے ۔ شاعر امکان و وجوب کے قوانین کو دلیل راہ بنا کر جزئی
واقعات کو ایک ایسی کلیت اور عمومیت بخش دیتا ہے کہ وہ فاسفیانه
صداقتیں بن جاے ہیں ۔ چنانچہ ارسطو کے نزدیک شاعری تاریج نویسی سے
لے کے شاعری زیادہ فلسفیائه عمل ہے ۔ جہاں افلاطون کے نظام میں
ہارے کں
ہ ہمی گززی لیکن چو ”'نثا لی شاعری؟“ کے ادوار میں ے
نظرے کو ان تاربخی مراحل ہے براہ راست کوئی تعلق نہیں اس لیے ھم
کرے ساےجتاب کریں گے ۔ اس باب میں هارا سروکار ابنس
حےث
بنیادی طور پر اس مسئلے سے ہے کہ شاعرانه تخیل کو اخلاق ہے کیا
رومانی شاعروں کو بڑی شدت سے درپیش تھهاء ث۔ ی
لهه تع
ملقسہے
کیوں که آنھوں ۓ عقلیت پرست قلسفے اور طبیعیات کے میکائیکی
نت ا نظام زندگی کبےرخلاف جسسہم کا بیڑا اُٹھایارو
یثهابت کرنا ضروری تھا کە شاعری ایک تخیبلی پیداوار کحیثیت ہے
اخلاق وہ
م ایہ تہذیب انسافی کی ترق کے لی
مےفید اضور
روری ہے ء یعن
اقدار کی حامل ہویق سے ۔کولرج نے تخیل کے ععلیاتی پھلوؤں ہے
خصوصی دل چسپی لی اور جیسا کە ھگمزشتہ صفحات میں جا با بیان
کر چک ہیں ؛ یە ثابت کرنۓ کی کوشش کی کہ شی
اھمیت کوااحد ذریعہ ہے اور اس لیے نوع انسانی کتیرق :کلےیے بڑی
ورڈز ورتھ ےۓٗ ء جیسا کہ آآس کی آن عہارتوں نے ظاہرے رکھتا ہے
8۳۹
سو
یط حیثیت ہوتی عے جو حقیقت میں ےہ ء یعنی اس وس
بیع
کائغات کا ایک ذرۂ ھیچ مقدار ۔ شاعر لظیف تریں روحوں
دک
ویلت نه صرف قدرق طور ہر ان جذبات کمےالک ھو
بنۓ
رنگ کی ھا ساوارٹی ایک ھہوتے میں بلکهە وف ک
مےورد
تھیں ۔ حصه
نتام بعد اس کا خالف قطب کیٹس کی حسیت پرستی تھی جس 7
اور ”'ہاتھی دانت کے سمینار“ ٥) ٥ه٥ میں ”'جالیت“'“ (ح
ادہذ
ئہ ذ
وکیرحت ںیم رادومت وہ ۔ٴ سا ناتسبداک ہدیقع ( ']۲'0۳٥ں
)1٢0۲7یک
یہتھاکہ شاعر کےلیے جو چیز ضروری ہے وہ یہہےکم وہ وجود کی
گہرائیوں میں ڈوب جاۓ ء اپنے باھر بھی اور اپنے اندر بھی ء؛اور ان
دونوں دنیاؤں کی درمیانی خلیج کو اہنےتخیل کے پل ہے پاٹ دے ۔
دنیا والوں کے لے شاعرانھ شاعر آپ اہی دنیا کا سسکز بن جات
ااوےر
تچرہوں کے ایک گنجینے کا کلید بردار ہوتا حے ۔ ید ترے حقیقت کا
نقاد زندگی ؛ ایک ء ایک ات ای
حکیمد ع۔
ر ایں نعم البدل هو
شے ه
ھوتا ے جو اپنےسارے دای
وکگر مسمیحاے زمان نہیں ھوتا بل
جکہاوہ
تجرے کو ؛ جو اس کےذاتی سانحات ؛ کیفیات و مشاعدات ؛ ماضی کے
ادب کے مطالعے ؛ ماضی کے فاسفیانہ افکار کےعلم اور فطرت کے اچھوتے
حسن و جال کےعرفان پر مشتمل ہوتا ہے ء تخیل کے کیمیا کے ذریعے
ا۔ا
عس ک
ریی طلادے سیال بنا کر اشعار کےسانچے میں ڈھال دیت
شا مے
؛ شروع سے لے کر آخر تک دنیا کے اوپر تخیل کی فتح ہوتی ہے ۔ مذھب
جے
س ءحبت ؛ ہر چیز ایک ایسے شاعرانہ تجرے میں بدل جاتی
سیاست م
میں شاعری ارکان عقیدہ پر بصیرت سیاسی صداقتوں پر اور جذبه
۔ ار غال
تب آ
اے اخلاق اقدا
جر پ
دونوں دبستانوں میں جو چیز قدر مشترک ے وہ شاعر کے ذاق
تحجرے کا آپ اپنا معیار بنجانا ےہ۔ شاعرکاکام یہ ے کہ اپنے ذاتی
گی اور جاعت اور فطرت انسانی کے مسائل کے
دیںنم
زشنی
تجرے کی رو
گر کرے جنھیں دوسرے لاوپگنے محدود تجر۔ ,؛ جںاکو ایسے پھ
الوؤ
حسوس باعث انی تنگ نظری ؛ اپنے تعصبات او
ارپنے فقدان جذبهہ کے
سیںککترے ۔ اپنے تجرے کو دیانت و صداقت کےساتھ پیش کرنا نہ
نہصرف شاعرکافنیفرض ہے بلکہ اس کااخلاق فرض بھی ہے ۔ اب اگر
وت انقلای مہم کاعلم بردار ہو تو وہ ایک قدم ایک شاعر
خ(۲
دیانت داری ہےبیان کرنا شاعر کاعض ایک فی فرض ہے یا ایک اخلاق
اس قسم کے فرض بھی ے ۔ اسی کے ساتھ یه مسثلہ وابستہ ہکےہ
اخلاق فرض کا احساس شاعر کو شعر کہتے وقت ھوتا ے یانہیں ۔
ان دونوں مسئلوں کا حل چاے کچھ بھی ہو ء اس ہے انکار نہیں کیا
شاعر کو جو ذکاوت حس اور لطافت جذبهە فطری طور پر جا سکتا کة
ودیعت موق ہے اور آن کے ذریعے آیے ایک طرف جو ادرااک نفس اور
دوسری طرف اشیا کے روابط کاجو علم حاصل ھوتا ے ؛ آن
ملکو
حوظ
رکوتے ہوۓ آس کا فی خلوص بذات خود جاعت کے نقطہ آکاہ سے ایک
اخلاق قدر ے۔ وہ اس اخلاق قدرکی عزت کرے یا لہ کرے ء اسی
طرح جاعت اس قدرکی عزت کرے یانهکرے ء یعهلیحدہ سوال هیں ۔
جہاں تک فی نقطه نکاہکاتعلقہے ء خلوص شاعری کےبنیادی لوازم
میں ہے ہے
کیوں کہ وہ تخیل کی جبل ساعث کا ایک جزو لاینفک تے ۔
تخیل عقل کی عملىی مصلحتوں سے ے نیاز ہو کر اور آس کیمنطتی
ادراک پیچیدگیوں ہے اپنےآپ کو رھا کر کے حقائق کا براہ راست
رانا ات پاچتاد راست گوئی اس کےلیے ایک جوھری وصف اور ایک
فرض منصبی کا حکم رکھتی ہے ۔
)0.01..ایپکتاب 'تشکک اور شاعری؛ ڈی ۔ جی ۔ جیمز (
۵88آ
میں ء جس میں آس نکےولرج کے مہ ت
نا)8 (7ججا3 602صہ حص
جمڈ
نظریة تخیل کا تنقیدی جائزہ لیاء یه راۓ ظاہر کرتا ےہ کشہاعر ہے
خلوص کا تقاضا صرف ان معنوں میں کیا جا سکتا ے کہ وہ ادراک نفس
کےمعاملے میں تخیل ہے صحیح کام لے؛ ان معنوں میں نہیںکہ وہ خلوص
کو ایک اخلاق صفت سمجھ کر آہے ملحوظ خاطر رکھے ۔ اس کیتصریج
وہ ذیل کیعبارت میں کرتا ہے :
چند سالوں میں اس اس ک تہ زل کے
شعلم ”نفس
ۓیای
گتحلی
معتد بە شہادت ہہم پہنچائی ے کہ ادراک نفس کا نقص کس
حد تک انسانوں کے لیے خرابیوں کا باعث بنتا ے اور
آُس ۓے یە واضح کر دیاہے کعمدم خلوص کوئی اخلاق
99
سے ول
ی خک
تگی
بھی بڑا ایک اور عطیہ ے جو اخلاق زند ”ان ے
دستیاب ہوتا ہے ؟ وہ یہ ہے کہ تخیل اخلاق زندگی کو آن
خطروں سے ببچاتا ے جو آ٘سکی فطرت میں مضمر ہیں ۔ یه
خلاق جد و جہد کے الخطرے دو قسم کے ہوتے ہیں ؛ او
سینے میں چھپا ھوا ایک خوف ناکامی ء دوسرا آس کا ایک
ذیب کی
ت اہپنی
کی دوسری اقدار پر بھی مشتمل ہیں جنھیں انسان ۓ
نشوونا ے دوران میں مذھبی عتائد ؛ آئین و قوانین اور رسم ورواج ہے
دور بدور تغیرات کے باوجود ھمیشہ عزیز رکھا ھے ۔ ان وسیع معنوں میں
ہمارے شعرا ۓ ء باستثناے اقبال ؛ اخلاق کے ساتھ کوئی سروکار نہیں
رے
موراھی
لیںاق کا تص
خمانوں
رکھا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان مع
یہاں مفقود ہے ۔ نوع انسانی کی تقدیر ء آس کی اخلاق جد و جہد اور
آُس کی حالت ہے ہارے ادب کی ۔ت,علقی بالخصوص اس لے ایک
تعجب انگیز اس ے کہ جس مذھب پر هم اپنی معاشرت اور ثقافت کے
سبنی ہوۓ کادعوعل کرتۓے ہیں ء یعنی اسلام ؛آس نۓ انسان کی اجتاعی
تر نصبالعین ےد
لنباعب
انفرادی صلاح وفاح کا لے سارے مذ و
قائم کیا هے ۔ بہرحال اقبال کاتخیل ان وسیع معنوں میں بنیادی طور پر
اخلاِق ہے ۔ ہم چھٹے باب ٠ یں کہ آےۓ ہیں کہ آس کی شاعری کا سب
سے بڑا حرک محبت اسلام ہے ۔ اسلام آس کے تصور میں وه مذہھب ےہ
جو انضان کےلیے سعیٴ اخلاق کےتمام مراحل طے کرکےمنزل مقصود
کلویپناے کاجادۂ سستقیم ےے ۔ آآسنۓ اسلام کے حقیقی معیار کےمطابق
جس انسسان کامسل کا مرقع کھینچا ہے ؛ ونیہٹشا )(6[٥٤6111 ے
زن )8کی طرح ایک ماوراے اخلاق ھی مافوقالیشر انسان (ہص"ٌ8مہ
نہیں بلکہ انسان اخلاق کی ایک مشثالی شبیہ ہے ؛ جو خدا کے تخیل کا وہ
شاہکار مطلوب ےے جس کے وجود میں لاۓ کے لیے آآسکی ساری تخلیقی
قوتیں ازل سے مصروف کار ہیں ۔ تخیل اور اخلاق کا اتنا گہرا جذباتق
ری میں اور کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ ایاعکی تعلق اس بلند سطح پر
شدن
اس میدان میں دنیاکاسب ہے بشڑااہکار دانتے ( )68901ک ”'طربیة
قدسیه““ (٥7مص"ہ) )6[٥[023 فے ء جو انسان کی اخلاق جد و جہد
ک:اییک مکمل داستان ہے ایک ایسیٰ داستان جو روح انا ک
ارضی و ساوی تاری کو حیط سے ۔ آآسمیں بھی انسان اخلاق کا اتنا
بلند تصور نہیں جتنا اقبال کےیہاں پایا جاتا ے ۔ لیکن اقبال کیشاعری
انه
تءایشہے
ععر
عیری ہے ؛ جذبای شا
اییل
شتخ
اخلاق شاعری نہیں ؛ وہ
(“۳
شاعری ہے ؛ یعنی صحیح معنوں میں شاعری ہے ۔ یہبجا ہےکہ آ٘س کا
ملک یا وص
خاقصکسی
اخل اکنن
ءلی
س موضوع انسان:اخلاق انہے
معیاروں دےود
ثیلّت سے اور آحن ک
یکرحکن کاتیکے
زماۓ یا جاء
ارتقا کی ایک کے مطابق نہیں ء بلک اپنی مثالی صورت میں اور انسانی
سُے آان
دررواز منزل مقصود کی حیثیت ہے ۔ یه بات کہ وہ مسلدو
کشیخصی تکو حدود نہیںکر دیتی بلکه آسے ایک عالمکیں شخصیت بخش
ساری نوع انسانی کا مذھب بے اور لاام
سکابال
اق کہ ءں
یےو
کی ے
دی
آُس کی آمت اسلاميه انسانیت کا زبدہ و خلاصهہ ے ۔
نوع انسانی کی آفتاد کے ساتھ اقبال کو جگوہرا سروکار ہآے٘س کا
کچھ اندازہ آُس کے ذیل کے اشعار ہے لگایا جا سکتا ےہ :
ایک ایسی فکری وسعت ؛ ایک ایسا روحانی عمق اور ایسا چوش اعتقاد
هوتا ے کہ آن کاتصور زندگی ایک مذہب کیحیثیت اختیارکر لیتاے ۔
وہ دیائنت دارانه طور پر یہ حسوس کر ے ہین کہ فلسفة؛ سائنس سیاسیات
سے جو اخلاقیات اور عقل عملی آن عظم اور ھیبت انگیز مسائل ک
حےل
ےک ض ہوسکتے اور یە
فان
رکا دنیا کو درپیش ہیں عہ
ندہہبیرآں
ادننیامکساےئل کےجوحل آن کیبصیرت ناےن بر منکشف کے هیں آنھیں
سامنے پیش کریں ۔ ان کیبصیرت ان کیساری ھستّی پر مسلط
۵ه)۶
ہوتی کے اور آُس ہے منکر ھونا آن کے نزدیک غداری اور بد دیانتی کا
مترادف ھوتا ے ء بلک وہ اہے ایک عطیه وہبی کے بارے میں کفران
نعمت اور امانت میں خیانت سمجھتے ہیں ۔ جب آن کی بصیرت کا مہرم
کوررتا ے کھ وہس کے عطا کیے ھاونئےکشافات کو تقاضا آنھیں حب
الفاظ کا جامہ پہنائیں تو ان کے الفاظ میں خود یخود وہ قوت ؛ وہ
ھمدگیری ء وہ ھیبت جو غیبی پیغاموں میں ہوتی ہے ؛ پیدا ہوجاتی ہے ۔
کھ
ن۔ بھی وج ے کہ اھل بصبرت شعرا کا کلام اتنا مؤثر ہو
چتاوہے
جس بصیرت کا وہ نتیجہ ہوتا ہے وہ خود ایک طفغیانی تجربہ ہوتقی ہے ء
اس لیے آن کی قوت اظہار اپنے نقطهۂ عروج کو پہنچ جاتی ہے ۔ علاوہ بریں
چوتکہ بصیرت کمےجرے بلاۓ ہے نہیں آتے اس لیے وہ جب کبھی آتے
هیں شاعر آنھیں غنیەت جان کآرنویں قلم بند کرنے کے لیے اہنی ساری
قوتوں کو جمع کر لیا ہے ۔ اس کے لیے بھی ایک طرح کی انوی
بصیرت ؛ یعنی بصیرت کے انکشانات کو پہچاننے اور آن کو حتیالوسع
ضائع نە ھوۓ دینے کی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے ۔
جاتیق سے
را او اھل بصبرت شعرا کی نگاہ اپتے وقی ما
محول چںوکه
اکٹر کی ایک خصوصیت یه ہوتی ےکه ان کا سے میں ےہ اس لیے آن
تنازعوں اور مخمصوں میں آاجھنے ہے عمداً گریز کرتے ہیں ء دوسرے
معاصر واقعات کووائف ؟نھیں فیالواقعه وقت کے دریاے رواں کی سطح
پر بہتے ہوئۓ حقیں تنکے دکھائی دیتے ہیں جو ایک ایسے تخیل کے لیے
جس کا تعلق ابدی حقائق ہے ہے در خور اعتثانہیں ۔ لیکن سطحی واقعات
وک
جےود آن کی نگاہ آن کے اندرونی اسباب کی تە تک القی ساےس ہے
بتع
خرفی حرکات کےآتر جاتی هے۔ وہ اپنے وقتوں کی صمیمی آرزوؤں او
نبض شناس ہوۓ ہیں اور مستقبل کے سیاق و سباق میں آن کی معثتوبت
کی ترجانی کرنۓ کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ یہ صلاحیت صرف اھل
بصیرت شعرا ھیکی خصوصیت نہیں بلکہ اھل بصیرت فن کار بھی اس
کے مالک ہوتےۓے ہیں ۔ اگوکیٹس (۵ك)651٥ ۓ ٭دہذہہ م[7ا؛ میں نظریۂ
. 3.ط) ۓ ٣ ٥1تارتقا کی پیش بینی کی تو ڈی ایچ لارنس (٥0
جرمنی میں رومانی بربریت کے احباء کی پیش گکوئی ک ۔ 681×٤77
مصور بیسویں صدی کاےوائل کیشدت پسندی و ابتری کے هراول تھے۔
لبےیسویں صدی کے وسط کی جنونانه قنوطیت کا قبل از 8
٥٤٥66 حافظ اور دانتے کا وقت ثقشهہ کھینچا گ۔رٹروڈ پیل ([[) 6
مقابلہ کرتے ہوئۓ لکھتی ہے :
!احافظاکےلیےاپتےوقتا ی.قاریج کوئی اہعیت :نہ“ رکھتی تھی ۔
ُس کے زمائنےۓ می
کںئی قاج داروں کے تاج لٹے اکور
ئی
ہو گیا ء لیکن یه چیزیں اس کے کے شخ
تتخکت
اہ خاندانوں
لیے کوئی سعنی نرەکھتی تھیں ہس ....دانتے ”05٣6581
کے اندر مقید ے ۔ اس کا تصور کائدات بنیادی د کوید فلس
حغے
طور پارپنے زساے کاتصور کائنات ہے ۔ جو چیزیں آے
حقیقی اور اھم معلوم ھوتیتھیں ھمیں صرف دلچسپ افساۓ
ذیاعی اش ر قازی ایک درڑی ون 0
انی
کا منظر زیادہ وسیع ہے ؛ یە اور دکھائی دیتی ہی
حںا۔فظ
ں یی ہ
وے بات ے کہ آَُس کا پیش منظر ہارے لیے
۔اجنب
معلوم ہوتا ے کہ جیسے آس کینگآاہفاق کیرں انسانی تجرے
(۸
ےت کک
جی ولسن نائٹ (اط ند ٥81۷۲ )6.ک راۓ میں اعلول پاۓ
کی شاعری بنیادی اور لازمی طور پر پیغمبرانہ ہوتی ہے ۔ وکہہتا ھے :
قریب کا مس رکھتی ہے اس لیے تس
نےا ”'شاعری چوں کهە حق
ایقت
نتھہے
یں عام لوگ مستقل وہ ماحول کے آن سطحی تغ
جیرا
ییں
ک حقیقتیں سمجھتے ہیں نےیاز ہوق ہے ۔ شاع
اری م
اس اشاریتکا روے سخن اکثر ر معی خیز اشاریت ہوت
ایوہے
مستقبل کیطرف ہوتا ہے ۔ اس لیے شاعری کا صحیح سیاق و
سباق موجودہ واقعات نہیں ھوتے بلکه ایسے واقعات جو پردۂ
دوسرے لے ہیں ۔ غیب سے نکل کر منصه شہود پور آ
اۓ
ھوقی ے ۔ الفاظ میں اعلول شاعری بنیادی طور پر پیغممرانه
,,.,..شاعری وجدانی بصیرت ہے پیدا ہویق ہ۔ےشاعر
؛ ان معنوں میں ایک صاحب بصیرت یا ایک پیغمبر ھوتا ے
تھی ؛ یعنی آ٘س کو ماوراے حواس اور روحانی ذرائم رسل و رسائل
انا اور ںیس دستیاب تھے ۔ آسن کی دنیا ایک غیر منقسم وحدت تھ
می ج
غیر انا ء معروض اور موضوع ؛ کل اور جزو ؛ عمومی اور خصوصی میں
کوئی فرقنہتھا ۔ شاعرانہ تخلیق اس کیفیت وجود کو نئۓے سرے ہے
حاصل کرنے کی کوشش ہے اور یہ کوشش بصیرت کی شاعری میں اپتے
پر ہوتیق ہے ۔فظرت شعور یىی اقلیم کے حواس خمسهہ کے انتہائی عروج
علاقوں میں بٹ جا
نۓےت ک
یاجہ ہے ء جس کا مزید نتیجہ يہ ھوا کہ نفس
ے حواس کے مواد کو مجتمع کرنۓ کے عمل کے ذریعے اشیاے مادی کی
وہ جگہ تھی جہاں انسان کی شخصیت شعوری عدن تخلیق کی ۔
جتت
میں کے بجاۓے ایک مکمل کل تھی؛ جس ھوے حض ایک انا
سر
و الحاق ےے جس میں نفس ھمەتن ایک زندہ روح بن جاتا ے اور چیزوں
کے باطن کو خدا کی نکاھوں ے دیکھ سکتاے ۔
نواں باب
تخیل ء الہام اور تکنیک
حصے میں نظریات شاعری کے دو خےری
ھم دوسرے باآب ک
خالف گروہوں کااج|لا تذکرہ کرۓ کے بعد ان میں مطابقت قائم کرۓ
کسےلسلے میں یہ کمہہ آۓ ہیں کہ ”'نخیل وہ نقطہ ے جہاں ربی و
بشری ء دیوانگی و فرزانگی ؛ الہام اور تکنیک ؛ شعور و لائعور کاوصال
سرے باب میں تخیل کی ماھیت اوارس کے طریق عمل و۔ ھوتا ے
د؟'
سے بحث کرتے ہوۓ ہم یہ واضح ک
آرےۓ ہیں کہ
انٹ کے نظرے کے
اور پھ
ترصاونرات نعے
ر وض مطابق تخیل حسی معطیات ہے تصو
کرات
سمےعنی خیز کلیتیں پیدا کرنۓ کے عمل میں عقل کو اپنا شریک کار
اسی طرح ہم یە بھی کہہ آےۓے ہیں کہ کولرج جس اتاوےر
ء بنا
قوت کو انوی تخیل کہہتا ہے آس کی کارروائیاں اس کے نزدیک عقل کی
مدد سے ہوتی ہیں ۔ اس کے بعد کے ختلف ابواب میں بھی ہم نۓجا بجا
تخیل اور عقل کے باھمی تعاون کاتذکرہ کیا ہے ۔ اس باب میں ھم اس
ام کی قصر یجکریں گےکہ شاعرانه تخلیق کےعمل میں تخیل کیوں کر ء
طرف اور دوسری ایب طرف تو الہامی وجدانات کا وسیله بن کر
تکٹیک کے عقلی و عملی مسائل کو حل کر کے ان کی دوئی کو یکتائی
یل کر دیتا ے:۔ می
مویں
اگرھم الہام اور تکنیک کے قدی تنازعےکا تاریخی جائزہ لیں ت
رجحانات دکھائی دیتے هیں ۔ پہلا تویهکهکبھی الہام ن
تاریمیں
خعلف ادو
کو او رکبھی تکنی ککو زیادہ اھمیت دیگئی ۔ دوسرا یەکه ان دونوں کے
باھمی تعاون کاتصور وقتاً فوقتاً ختلف صورتوں میں موجود رھا ے۔ تیسرا
ی٭که بحیثیت عمومی ان کےدرمیان بعد دور بہ دزوکم ھوتا چلاگیا ے ۔
0227
کریں ۔ عور
اپ ک
ظے آ
اپن
تھا ڈراو 8اظارعادستائتوت تی اگ کو کی فی مک
۔اس عقل کے طریق فکر ٤ طریق استدلال اور طریق تکام سے ا راف ے
می نین انحراف کا درجەہ کسی دبستان یاکسی شاعر میں کم ب۷
٠0۵05لکن صب کا مکیڑی ید ية ٌے :که شاعرزی :ایک غالصلٴ
وجدانی ؛ غیر شعوری اور شخصی چیز ہے ء یعنی الہام اور تکنیک
دونوں ہیں وہ عقل کے عمل دخل کے منکر ہیں ۔ خالص شاعری کے
دبستان کے نزدیک شاعرانہ تجرے چاے کسی صورت میں صادر ھوں ء
عررانه عنصر
آن کے اظہار کوااحد طریقد یه ے کە آن کو ھشراغی
سےنزہ کر کے پیش کیا جائۓ۔ چنانچہ آن کے لیے شعر گوٴ ایک
کیا یےش
ایسا عمل حے جشسامعیںرانہ تجرے کاعرق کشید کپر ک
ایک قسم کا جاتا ےے ء اس لیے ھم کہہ سکنے یں که آن کا تکٹیک
تجریدی عمل ہے ۔ یه عمل بداھۃ عقل کے وسیلے ے کیا جاتاے ء
لیکن اس کامقصد یہہوتا ےے کە عقل کے عناصر کو خارج کر دیا
اپنے آپ سے فرار کرتی ہے ۔ وہ شعرا جو شاعرانه جاۓ ء گویا عقل
عیری ایک مستعار لباس میںان ک
شآنوا موضوع بناۓ ھی اورپ ک
شع
املتشاریعضا کے لک عل
ایک طرح کی نفسیاتیق تحلیل ہوتی ےبھء
مو نشی انداق ی ان یو وں کے جات معن وق ۳ر
ملط خلط یسے شعرا کی شاعری میں الہام اور تکٹیک ایسے طر یقے سے
ہو جاۓ ہیں کہ آن کا علیحدہ کرنا مشکل هو جاتا ے ء تاعم شاعری
کظیاھری صورت کو قائم رکھنے کی خاطر آنھیں تکنٹیک کی طرف
دیتنی پڑق سے ۔ سرریلسٹون کااسلوب اظہار اتنا خصوصی توجه
اعد
غیر شعوری اور اضطراری ھوتا ہے کہ اس میںکسی قسم کی تکنیکی
کوشش کا
سوال ھی پیدا نہیں هوتا ء لیکن ایک نقطۂ نکاہسے ہم ید
ہوی ھی تکٹیک تض
کٹیک کہ سکتے ہیں کە سر ریلسٹ شاعری ح
ہے کیوں کہ اس میں کوئی الہام یا وجدان نہیں ھوتا ۔ البته یه
تکنیک (کم از کم بظاہر) شعوری اور عقلی نہیں هوتا ۔
اس ہےپہلے کے ابواب میں ہم جو بحث کر چکے ہیں اس ہے ھم
وجدان چاےے بادی النظر میں اس نتیجے پر پہنچے تھے کهہ شاعرانه
؛ کسی غیر شعوری غامل ء غیب کسی الہاسی کشف ؛ کسی نداے
کی شی تار کی تجتیا ایج سی افری راک کن
صرف ایک و؛
ہ خارجی واقعے یا کسی داعیےة باطنی کی صورت میں هو
اور موضوع کا حرک ئی تخیبلی تجرے میں تبدیل ہونۓے کے بع
کد ش
وعر
ام
عیں
ری مع
شنوں یح بن سکتا ہے ٤ یعنی ایسی شاعری می
صںحجو
عو
د یه بجا ے که ان سب چیزوں ین وہ قوت جسے کولرج اولی
تخیل کہہتا ےہ شروع ہکیاہرےفرما ہوتی ہے ؛ کیوں کہ وہ انسان
کے شعوری تجر۔ ,کی بنیادہے ؛ لیکن اولیتخیل آن کو صحیح معنوں
مشیاںعری کامواد بناۓ پر قادر نہیں ہوتا ؟ جس کی وجه یہ ہے کہ
وہ نفس انسانی کو حض ادراکات اور تصورات کے وضع کرۓ میں مدد
ادراکات اور تصورات کو معنی خیز کلیتوں میں تیدیل ان دی
۔تا' ے
کرتے کا کام انوی تفیل انجام دیتاہے ء اور اس کام میں وہ عقل کک
تحلیلی کارروائیوں .ہے مددلیتاہے ؛ کیوں کہ معنی خیزکلیتیں بٹاۓ سے
وہ وادراک مواد کو درھم برھم کرنا پڑتا تےاکہ سےی پہل
حے آس
وجدائوں پر جب ر۔
انه اک
عرے یہ
رےازہ بن
شدی اُس ي۔ نئے سشرے
ثانوی تخیل کایہعمل ہو چکے تو صرف آس وقت وہ تخیبلی تجرے بنتے
ہیں اور صرف آ٘س وقت وہ شاعزی کے لیےمناسب مواد ھوے ہیں ۔ جدید
آن کی تذکزہ کیا ے مغربی شاعری کے جن دبستانوں کا ہم نۓے او پر
ثائوی یک
ہےاں شاعرانہ کارروائی مشاہدہ ومطالعۂ نفس تک حدود سے ء ان
تخیل کی اس تشکیلی قوت کی کمی ہوتی ہے جو حسی و ادرای تاثرات
ئق پیدا کرتی ہے جو ضرف شاعر کےداخلىی کوائف ایسے کے مو
حادقسےا
ھنیہیں ہوتے بلکہ خارجی دنیامیںبھی موجود ہوۓ میں ۔
تخیل ہے یه دوری فی نقطد نگاہہے رومانی تحریک اور آ٘س کے
ر معاشرق و وہے لاف رعدمل کی ایک علا
امت ریخکے نظریةۂ شا
بعر
ثقافتی نقطۂ نگاہ ہے اس اس کا نتیجہ ے کہ آج کلکاشاعر اپنے آپ کو
علیحدہ ہستی سمجھتا ے اور اپنے تجربوں کو ایسے ک جاع
اتیسے
طاریقے ہے بیان کضرۓروکرت حسوس نہیں کرتا کهعام لوگ آن
اظہار اور ابلاغ میں شریک ہو سکیں ۔ چنانچە وہ اس قوت کو جو
دونوں پقرادر ے اور دونوں کو ایک دوسرے سے سبروط کرقی ہے ء
۳۸
کے اجدعیدری
یعنی تقیل کو ؛ بہت کم استعال میں لاتا ہشے۔
کا
اس کا اشکالء اس عجیب و غریب ہیثتی تجرے ؛ آس کی تعقید؛
ابہام ؛ اس کے خالص نی اشارات ؛ اس کی نفسیاتی پیچیدگیاں ء اس کی
ء
ایس
بلند ذ هنٔی سطح؛ اس کیعال|نه تلمیحات ء اس کے تہہ در تہہ معان
'
شاعرانه کاالہام اور تکنیک کےمسائل کےساتھ گہرا تعلق ء؛اکسا
تجرے کی اھمیت پر اصرار ؛ یه چیزیں ایک طرف تو اس اص کی مظہر
ھیں کہ رومانیوں کے زماۓ سے اب تک فن شاعری اور تنقید شاعری
نشو و نما اور انسانی تہذیب کی ترق کے دوش بدوش غی
اکیمان
دانس
ۓ
عمق ؛ وسعت اور تنوع سسیں تسرق کی ے ؛ لیکن دوسری طرف اس
اس ی غاز بھی ے کہ شاعر کے پاس اپنےفی مسائل کے حل :کرۓ
ککیوئی طلسمی کنجی تھی جو اس کے ہاتھ ہےجاتی رھی ہے یا جسے
وہ کاممیںنہیںلارھا۔ یه طلسم یکنجی تخیل ہے ۔ اقلم عقل کے منصوبه
نمسوق ہے فرار کر کے جدید شاعری ٹی ۔ ایس ۔ ایلیٹ کے بندانه نظ
آُسبیابان میںجاپہنچی ہے جہاں تخلیق کے سوتے خشک ہو گئے ھیں ۔
فطرت ک ءں
ےاجرہ
ان دونوں کے درمیان تخیل کاجو قدری سبزہ زا
نامیاق قوتیں جلوہ گر دکھائی دبتی ہیں وہ اس کو نہیں جچاء
کیوں کہ آ٘س مآیںُ٘س کے پیش روؤں نۓ ڈیرے ڈال رکھے تھے اور
اس کےعلاوہ آُستک عام لوگوں کو بھی رسائی حاصل ہے ۔
تخیبلی وجدانات صرف شاعروں تمکدود نہیں بلکہ عام انسانوں
ھی عالم خوابوں می
کں ا
بور کے تجرے میں بھی آتے هی
کںب؛ھی
بیداری میں ء کبھی استغراق و تامل کے نعیجے کے طور پر اور کبھی
کے بغیر ۔ مثاا وہ بشارتیں جو خوابوں میں ملتی شش
وسی
کک ک
یکای
ہیں ء بھولی ھبسوائیتسوں کابیٹھے بٹھاۓ یاد آ جانا ء گفتگو میں
لطف انگیز بذلہ سنجیوں کاسوجھنا ؛ کسی مشکل مسئلےکا حل سوچ سوچ
کر عاجز آ جاۓ کےبعد اس کیگتھی کایکایک خود بخود ساجھ جاناء
جیہے کسی نکےہیں سے آ کر اس کا حل کان میں پھونک دیا ہو ۔
ساھرین سائنس ٤ فلسفیوں ٤ ریاضی دانوں ؛ سیاسی رھناؤں ؛ ارباب
۳
ان دونوں قسموں کے امکانات میں ہے جب کبھی کسی نۓے امکان کا
وجدانی انکشاف آآسپرہوتا ے اس کاعمل تخلیق شروع هو جاتا ے ۔
وہ اس کے تخییلی وجدانات کیامتیازی خصوصیت ہی يہ ہوقیق ہے
کہ
ەمل ہوتا ے ؛ کیوں کہ وہ ایک تخلیتی داعيه
بع ئل
اے شروع ھم
یس
ہوتا ے ۔ کئی مرتبہ توعمل اظہارفوراً بالفعل شروع ہو جاتا ے
رھتاے ۔ تکوی
لت اور کی مرتبہ ہفتوں ء مہینوں بلکە بر
مسوں
لیکن جہاں عمل اظہار شروع ھوا وهیں شاعرانه وجدان کاری گر کک
تخلیقی کوشش میں تبدیل ھوا ااوپرنی ماورائیت کھو کر تکنیک کا
ایک عقلی و عملىیمسثلہ بناء یعنی افلاطون کے الفاظ میں ”'موسیقی؟“
ےکا کر اہی آمدد یالییلےایاا۔
سی ۔ ایج ۔ بورا (ہ )0. 7]. 03اپنے مقاللدہ ''الہام شواعری؛؛
( ٥3 206٥77٥۳۵ہ )اصمْذ ںیم هنارعاش ماہلا یک تیفیک وک ںوی
بیان کرتا ہے :
”'شاعر کے اوپر کوئی ایسی چیز مسلط ہو جاتی ے جو اس ک
ساری ہستی کو جذب کر لیتیہے اور باق تمام دلچسپیوں
کو اس کی شخصیت ہے خارج کر دیتی ہے ۔ یه چیز کیا
ہوتی ےہ ؟ اس کا من و عن بیان کرنا مشکل ہے لیکن ہم
اس کے چند عناصر کی نشان دھی کر سکتے ہیں ے ون ےئ
موق ۓ یہ
دےا ات
پفاق طج
رسح زود شکن ہوقی ہے ۔ وہ
اس کیفیت' کا اسی طرح فوراً غائب بھی ہو جاتی ہصےر
۔ف
پیدا هونا شاعری کےلیے کاف نہیں ۔ جس طرح کوئی شخص
اگر خواب میں ایک خزانه دیکھے تو یہ بجاۓ خود اس اس
کھلئے پر اپنے بستر ی پائٹتی ھ نەکوہ کغیبانت نہی
آں ک
شاعر کاکام يہ نہیں کہ وہ اگ
یا۔
ک خزاۓ کو پڑا پاۓ
ککاام یہ ےہ کہ س شاعرانہ کیفیت کا تجربہ کر
آے٘۔
ایک شاعرانه کیفیت پفاک ہے ن ک
دےر دوس
اروں
اور سالا مال ہو ””شاعری چاے کتنی ھی حسیات و جذبات سے
ھی وارفتگق ھوء پھر بھی یه ثابت ع چا
نےی اس
کمیں
کرنا آسان ے کہ اس کاتعلق عقل کیقوتوں ہے ھوتا ے ء
کیوں کہ اگروہ اصولی طور پرایک جذبھ ھوتا ے تو وہ
میں آاپلکف
واظ انی ھی قسم کا جذبہ ھہوتا ۓے جاوپنے
ظاہر کرتۓ کے لیے بیتاب ھہوتا ے ۔ صوف اور عاشق ممکن
ہے کهھسکوت پرقانع رہیں ؛ لیکن شاعر کی فکر سخن یا
آمد سخن خارجی دنیامیں کسی نی چیزکے اضافےکی مقتضی
ہوتی سے ۔ اس نبی چیز کے پیدا کرنۓ کلےیے جو قوتیں
"۴۳
ناقصں یکا
ک اور اس
انظم ؤی
شش ایک نیا اقدام ؛ ای
کک نب
بدل ہو ہےجس کےلکھنے کے قابل آج تک کوئی شاعر
پیدانہیں ہوا ۔ چنانچہ شاعر ایک تاثر ےے ؛ جسے تجرے کے
بجر ے پایاں کاایک قطرہ کمہنا چاہیے ء آغازکار کرتا ے ۔
اس کے بعد ایک مرحله آتا ے جس میں ایک از خود رفتگی
ہوتا ے ؛ اس عالم میں نمثالیں بڑی تریزفتاری کعااسا
لم
کےساتھ یکے بعد دیگرے ذھن میں آتیہیں ۔ ضرورت اس بات
کی ھوق ہے کہ ارادہ اور عقل کو معطل کر دیا جاۓ تاکه
لاشعور کگیہرائیوں سے مدفون و مکنون تجرے نکال لاۓ
مرحلے میں شاعر کی توجھ زیادہ شدید یس
۔رے جا
تئیں
مال برائش (٥ط)10٥[٥0٥٥٥ کے الفاظ ی۔
ہ ہو جاتی سے
م”یں
'عقل کی عبادت““ کا مرحلہ ے ۔ اس میں انتقاد نفس
کاعمل شروع ہو جاتا ہے ء یعنی نظم کا جو نقشہ شاعر
س کے مطابق تمثالوں کا اے کے ذھن میں اجاکر ہو رہا
ود و قبول ....تخیل تفعکلریہےحدہ کوئی قوت نہیں ء
بلکہ یه کہنا چاہھیے که وہ ایک اضطراری یا غیر شعوری
۴۰۳۴
٥٥٥6ا )7:شعر گوئی کے عمل رابرٹ پین وارن (<٥٣ <٥ ۶٢٢۲
کو ایک عمل انکشاف کہتا ہے ۔ ملاحظہ ہو ء
”کسی نظمکیتخلیق آتنیھی ایکعمل انکشاف ہوتی ہے جتنی
که ایک عمل تخلیق ۔ ہو سکتا ے کە وہ کسی غیال سے
فروع فرایسای مکی مل ہو کے ۲ی
کوسایقعے سے جو شاعر کے لیے ایک خیال انگیز کیفیت
رکھتا ے ؛ یعنی اس کیتمام و کال شخصیت یا ُس کےتمام
و
تکا
جلرے کی روشنی : میں اس کے لیے علامتی امکانات
رکھتا ے ۔ یهبھی هوسکتا ے کہ اصل میں جو چیز فکر
ذریعے کے شعر کا باعث بی تھی ؛ وہ ایک سلسله ائتلافات
کی قدرت ئری مزید عمق ء مزید پہلو پیدا ہوجاتے ہیں ۔ لی
ککنوشع
یعنی تکنیکی چابک دستّی چا کتنی ھی اعلول پاۓکیکیوں نہہو ء وہ
الہام کےفقدان کیتلای نہیں کر سکتی ۔ وہ عض الہام کے عطیات کو
بطریق احسن پیش کرۓ میںمدد دے سکتی ہے ۔ کولرج کہتا ہے که
”وہ شخص جس کی روح میں موسیقی نہیں ؛ کبھی صحیح مع
۔نوں
شامیعںر
نہ
سیں
کہتوا ۔؛؛ موسیقی ہے آآسکمیراد وھی تھی جو افلاطون کی
بوں کی صلاحیت ۔ وہ آگے چل کر کہتا ہے :ربلی تھی ء یع
تنیجتخی
”موسیقیانه لذت کی حس اور اکسے پیدا کمرتۓے کی صلاحیت
دونوں تخیل کےعطبے ہیں ۔ یه صلاحیت اور اس کے ساتھکثرت
کو ایک وحدت تاثر میں تبدیل کرۓ اور ایک سلسله
س
کزی خیال یجاذے کے ذریعے مربوط یکو
ک خیال
اات
کرنۓ کیقوت ء یه دوتوں مرشقی'اؤفت .ےس ۔ہبترٴناتئوی
جاسکتی ہیں ء لیکن سیکھی نہیں جاسکتیں )٤
گوئٹے )(6:[٥٤٥06 اگرچہ جوھر قابل کغےضبر شعوری عمل کا
معتقد تھا اور اس کے خیال میں وہ شاعر سے جو جی چاےہکرا سکتا ہے ء
تاھم وہ الہام و تکنیک کے توازن و تواف یکو ضروری خیال کرتا تھا ۔
وکہمہتا ے :
”'شاعری میں دو قسم کے اناڑی ہوتے ہئ ؛ اول وه جو میکائیکی
مےجاور
ھ یه
تا سا
وھل کر
ستا میں تغ
تافل رے پہ
بلواکے
اور جذبات سرائی کی مائش سکےے اکر اس نے روحانیت
وہ جو حض میکائیکی ۔ا وکی
سار کر دی تبوڑا کار مما
دیاں
وسائل ہے ؛ جن میں وہ ایک کاری گرکیسی چابک دسّی
حاصل کر سکتا ے ؛ شاعری کی روح کو شیشے میں اتارۓ
۴۴۲
ومسکو
روں تک منتقل کرے ۔ زبان کا معامله ال
دہا
ھو
ۓ ھی مخیل کا وہ انفرادی لمحہ جس ۓ شاعر کو اپنے
ای ے
کۓه ادراک پہلے کبھی نەهوا تھا اپنا ٹھپا لکا
تدیت
وہ مستقل طور پرذھن میںقائم ہو جائیں ۔ ہوے ہوۓ وه
الفاظ جو ان تعلقات کینشان دھی کرتے ہیں سا
ثلماو
بت
خیسالات کی تصویروں کےبجاۓ خیسالات کے ٹکڑوں یبا
خیالات کی اقسامکیعلامتیں بن جاتے ھیں ۔ اگر ایسے میں
کوئی نئے شاعر نە آئیں اور آ کر تعلقات کے ان ٹوئۓے ہوۓ
۰ھ
قدری تعلق ہوتا ہے ۔ ”'باؤ واؤ'' والا نظریہ ایہام صوت کو زبان کی
کهە الفاظ ایسی اصوات پر خیال کرتا ہے اور یھ دعویل کرتا ے بنیاد
مشتمل ہوے ہیں جو چیزوں کی نقل کرتی ہیں ۔ ”پوہ پوہ؛؛ والے
"۳
نظرے کامفروضہ یه ہےکه زبان کی ابتدا ایسی غبر ارادی اور اضطراری
آوازوں سے 'ہوئی جو اوائلی انسان جذبات کے زیر اثر پیدا کرے تھے ۔
”یو ھہیو هو“ والے نظرے کے مطابق زبان ایسی آوازوں ےے بنی جو
اوائلی انسان اس وقت پیدا کرتے تھے جب ومہل جل کر کام کرے
اور بھی نضرے ہیں ؛ مثلا ایک نظریہ یہ ے کەہ اکے
وہ تھ
صے ۔
لان
شروع شروع میں انسان صرف حرکات و اشارات ا لیتا تھا جن میں
وہ هاتھوں کو بھی اور من کو بھی استعال کرتا تھا ۔ ہوتے ہوے
منہ کی حرکات یعنی آوازیں ہاتھوں کے اشارات ہے علیحدہ ھوگئیں اور
بجاۓ خود چیزوں کی نشان دھی کرۓ لگیں ۔ اس ضمن میں ایک نظریه
)۰۵ ۰8 081001ۓ اہینکتاب ”زبان کی تاریخ ۔نےہ (اے ۔ اڈیاسئم
اور ابتدا؟ ( 9591۔٭عچعسچصھع٢ آہ صنوز×ہ ق.٥٤8135 ٥ مط7ت)-
طلفا
اظلکا
عه میں پیش کیا ہے ۔ اس نۓقدیم تزری
بنانوں کےقدیم تر
مین ا
کیا اور اس نتیجے پر پہنچا پکہہلے پہل انسانوں کےجگوروہ بنےوہ
مل جل کر کھانۓ کی چیزیں مثا جڑی بوٹیاں اور پھل ڈھونڈھنے اور
خطرات ہے تحفظ کی خاطر بنے۔ وہ یه کہتا ۓکه جب کچھ لوگ مل کر
ککارمیں تو وہ:قدرق طور پر چند در چند آوازیں پیدا کرتۓے ہی
بںھ۔ی
آوازیں اوائلی انسانسوں کے لیرےفته رفته افعال یىینشان دھی
کرۓ لگیں ۔
ماھرین لسانیات زبان کا مطالعه زیادہ تر علمالاشتقاق کے نقظہ نکاہ
بکےسرتے ہیں اور ان کا سروکار کلام ناطق ہے ہوتا ہے ء یعنی زبان
کی نشو و نما کے امسرحلے سے جب معانی و مطالب کے اظہار کے لیے
یۓھمبہا
ا کس ج ے؛ ن
ر ا م
س ک ی ما ث م ۔
ے ھ ت
ے ک چ
و هع غ و
ا ہے ء زبان کےارتقا کامطالعه فلسفہ و منطق کے زاویۂ نکاہ
ظ
ی
ا
ک
فہ
ل ا
ر ک
د
ذ
ر
ت
ج
سکےیا حے ۔ چنانچہ جہاں ماہرین انسانیات نےزبانکےظہور کے آگے
کے ادوار پتروجه مبذول یىیعے وہاں ماھرین لسانیات ۓ اس کے ارتقا
کے اس دور سے بحث کی ہے جب وہ اپنے ابتدائی تفٌکیلی' مراحل گ
ےزر
چک تھی ۔ اس کے برخلاف اد نقادوں کی دلچسپی زیادہ تر زبان کے
بت
یےک
الی
کسوز رھی ہے جب وہ اظہار مطالب کے
ارتقا کے اس مرحلے پر م
جموعۂ علامات کی شکل اختیا رکرچیق تھی لیکن ابھی منطق 0علم اشتتاق
اور صرف و نحو کے عمل دخل میں نہ آئی تھی ۔ ہارا سروکار بھی اس
باب میں اسی مرحلے ہے تے ۔ چارلز مورس ( )861790 []81780علامتوں
کو افہام و تفہم کاواحد وسیله کہە کر ان کے تین مرحلے مقرر کرتا
ہے یعنی قبل از زبان یا اور بعد از زبان ۔ اس آقسم رک مطائبیق ماھرین
قبل؟از زبان محرلے سے اور لسانیات ؛ علم اشتقاق کار
رتوکا
سانیا
انس
اور منطق کے ماھرین کا سروکار بعد از زبان مرحلے سے ہے ۔ اس کے
برخلاف ہارا سروکار دوسرے مرحلے بعنی زبان کے تشکیلی مرحلے ہے
ھے ۔ ان معنوں میں زبان کی ابتدا غالبا اس صورت میں ہوئی کہ انسانی
آلات تکلمم سے پیدا ہوۓ وای چند مخصوص آوازیں چند خصوص چیزوں
چیڑوں کے نام غالباً شروع یا حالات و واقعات ہے متعلق هگوئیں
شروع میں اٹکل پچو رکھے گئے ہوں گے ء لیکن مرور زمانہ کے ساتھ
ساتھ چند الفاظ یا ی
کوہںیے کہ انسانی اصوات کے جموعوں کےار
گدرد
چند ائتلافات پیدا هوگئے ۔ قیاس چاھتا ے کہ الفاظ جو حالات و اشیا
کنیشان دھے بلکە یسە کہنا چاھیے کے ان کی نقل کسرے تھے ء
خاص خاص جذبات کے ساتھ وابستہ هو گئے ھوں گے ۔ ابتدا میں زبان
منفرد اسماے نکرہ کا ایک پریشان جموعه تھی ۔ ان اساے نکرہ میں
غالبا ایہسام صوت کی صفت یا کوئی جڈباتی کیفیت ہوتی ہوگی جس کا
استعمال مخصوص مقاصد کے لےیکیا جاتا هوکا ۔ علاوہ بریں یه الفاظ بڑی
حد تک استعارہ آمیز ھہوے تھے ء بلکه غالبا خالىص استعارے ھهوۓے
بعد الفاظ کے علیحدہ علیحدہ خوشے بنتے رے اور تھے ۔ اس صرحلے کے
اس کے بعد انسان کی عقلی نشو و نمانۓ اسے نطق کی قوت بخشی جس کی
مدد سے اس نے صرف و تخو کے قواعد کیتابع زبان اجاد ی ۔
“2(7٢٠ ٥۷ہ روین سکیلٹن (دہۂ[٥عاة صنام )3اہی کناب
میں زبان کی ابتدا کی روئداد ذیسل کے الفاظ میں بیان ”866082
کرتاے :
۵
کے نام تھے حہ. .ا رفته رفته زبان اور فکر کی نشوو تما
سکاےتھ ساتھ مفردمعانی مقابل جوڑوں میں بٹگۓ ؛ مثاا
جرد اور غسیر مجرد؛ خصوصی اور عمومی ء داخلی اور
خارجی ۔ ھمیں قدج زمانوں کی زبانوں میں جو شاعرانه
خصوصیت حسوس ہوقی ہے اس کامنبع یه ے کھ ان زبانوں
غکدوٹون ی غیت ےا ان کرے عی
اکلےفاظ اشویا
اور مارے آج کل کے داخلىی شعور کو یه توقیق بخشتے یں
کكکە ہم اونحدتوں کا تجربہ کریں ۔ شیلے اپنے مضمون
”شاعری کا جواز؛““ میں بیکن ( )06,82کی ''ترقٴ علم“؛
(”'چھنھحدص]٦ ۶ہ د٥دہ<٥٭ص)1۸۶٣8 میں سے ذیل کی
کە عبارت نقل کرتا ے '' :یەہ بعض مشابہتیں نہجیںیء
سا
کرنے والے لوگ سمجھتے ہیں ؛ ایہہےدہ مگ ن
شظر تن
یا ضو م
اتعد
مدین بلکہ یہ فطرت کے نقوش قدم ہی
مں ج
ۓ۵
سکزڑی جات
کا ے
ه بڑا واضح اور مفصل هوتا تھ
کاہ۔ا
ہر طوطے بعکرلاایزیحلد میں بعض وحشی قومیں ہیں جینہکاےں
۔ے کا تصور عام ان کے یہاں ط وے ہ نام ہو
طتا
کے نام موجود وےں طت ک مفقود ہے لیکن بھا
طنت ب
وھان
ہی
خںص۔ا
وسصیت کا باعث غالباً یه ے که خارجی دنیا کے
سواد کی بھرمار اوائلی ادوار کے لوگوں کو پریشان کر دیتی
ہے ۔ آن میں یەصلاحیت نہیں ہوتی کہ اس کیشیرازہ بندی
الس
نھے
ااو
ئری قریب بہوتی ہیں کہ بینائی خود حائل ہآوجا
شتی
کاےدراکات شک
اہعر ایک پردہ بن جاتی ے ۔ یھی وج سے
ھہوے ہیں کہ ان کو کسی تثبوت ؛ کسی لےوم ات
منےعسچ
نہیں ہوق ۔ع دل
ضیلرکویرت
تدل
ایلب فآمد آفت
آاب
صرف اتنی بات ہوتی ھے کہ پہلے کسی کو ان کا شعور نہ
ایک ترا یت ۶ئ ایک سمثال ء ایک صوق ھوا تھ
شاا۔عر
سے خوبی سے ایک ض کز لگاہ مقرر کر .دیتا ہے جا
وس
پہلے سائنس دانوں کیقیل و قال اور عام لوگوں کی عملىی
سوجھ بوجھ مقرر نہکر سی تھی ۔؟٤
کے الفاظ میں شاعری ککاام اوون بارفیلڈ ()00 0168۲.82
شعور کی توسیع ہے ۔ صحیح معنوں میں تہذیب بھی شعور انسافنی ک
نش
نوموا مسلسل توسیع کانامہے ء اس لیے شاعری تہذیب کی صحیح
یکے
ک کاایک زبردست آلهہے ۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم وہ
ااس
فک
ییل قیمتّی ذخیرے یعنی زبان کی محائظ اور اس میں نت نئے اضا
کفوں
او۔ون بارفیلڈ اس نکتے کو یوں بیکان
رتا ہے : ے
ممکن ود ”اگرچه عقل کے اصول کےبغیر نہحقیقت :ہ عل
ومجکا
تھاء تاھم عقل کا اصول علم میں ذرہ برابر اضافه نہیں کرسکتا۔
کرسکتا ہے ؛ وہ غیر متعین اک
ضوح وہ غیر واضح چی
وزوں
چیزوں کومتعین کر سکتا ہے لیکن وہ شعور کیتوسیع نہیں کر
زبان ایسا کر سکتی ہے ۔ صرف شاعری عصر
رفانه ا۔ سک
شتا
میں انڈیل کر اس رےف اپنےتخلیقی وجدانؤں کو زبا
ظن ک
دس
سء
ی الوفرظی وسیلے ہے دوسرے لوکوں کے جات
کی ہے
تکقل کی جا سکتی ہے ؟ مثا نٹر کے ذریعے ؟ نتذمہن
مای فرق کیا حض شدت کا فرق سیےا ار ن
ھثرک شع
بر او
وسعت کا فرق بھی سے ؟ یعنی کیا شعر نثر سے بالکل ختلف
اسلوب کلام عے ؟ اس سے تاونکار نہیں کیا جساکتا کہ
اور اضطراری طریق اظہار ے ایک شاعری بڑی
ت حد
ک
اور بالیدہ کیفیت کا نتیج ہویق ۔
ےشعر ک شعو
اریکی
ایک طرح کا نثرمیں ایک ماالباہمتیاز وزن ہلےیءکن
وزن نثر میں بھی ہوتا ے ۔ فرق یہ ہکےہ نظم کا وزن
باقاعدہ اور مٹواتر ہوا ے ؛ نثرکا زیر ونبحوی ھوتادے
"٦
ونمحو صرف ۔ قواعد ے اور قواعد صرف و نحوکا تام ھوتا
؛
۔ید؛ ے
شاعری آس ابتدائی صورت کی تجد
ہال والیری (ى10:٥8) ٢٥[٥٣ کا اس موضوع پر ایک بڑا دلچسپ
نظریہ ے ۔ اس کے نزدیک نثر اور شعر میں وھی فرق ےہجو چلنے اور
ناچنے میں ہے :
؛ ان کے عاتا و
یات ہے ۔ اچھی شاعری میں الفاظ کے من
راسب
تہہ در تہ معانی ؛ ان کے متعدد پہلو ؛ سب اہنے وت
شاعری کی زبان سوفسطائىی حجت بازی ء بذله سنجی ؛ طنز اور اسی قسم
ان ھسوقی ہلےی۔کن بےہ
اہشسوں یاڈھتی مشقوں اور طبع آزم
مائی
جہاں ان کا طریقه ھاے تکلم اور شاعری میں یه باریک فسرق ے
که
سروکار زیادہ تر الفاظ سے براۓ الفاظ ھوتا ے ء شاعری کا مقصود الفاظ
لضنے یحھسے ہےماورا ہوتا ھے ء یعنی جہاں یه طریقہ ہاے تکلم الف
کاظ
کی خاطر کھیلتے ہیں ء شاعری کے لیے الفاظ کاایسے طریقے سے استعال
وهیا وہ آن ے کھیل رھی ے ؛ ایک قسم
ےکھوتا گ وم جمس ہ
عےلیە
کیستکلانہ مجبوری ہوتا ہے ؛ کیوں کہ اس کے بغیر اس کے لیے اظہار
(601[0ا (80 مطاب کا اور کوی سيا ہی نہیں ۔ ٹی ۔ ایس ۔ ایلیٹ
کنےزدیک شعرگوئی بذەات خود رسمی زبان میں ایک طرح کی
رخنه اندازی ہے ۔ شاعر الفاظ کے مروج اور لغوی ععانی کا تاروہود
سبےکھ۔یر کرمعانیکےنئےنئےجموعے ؛ لئےنئےخوشے ء نئبےننۓاعقتدا
اس
کاکام ھی ید ے کہ الفاظ کے جوڑ توڑ ہے نت نئے معانی پیدا
کسرتا رے ۔ یە بات صرف سنفرد قراکیب یااشعار ھیپرنہیںبلکه
مکمل نظموں پربھیصادق آتیہے۔اگر ہکمسی نظم کو ایکعقلی
۱ء1
اپنی زبان میں وہ تناقض اور تضاد بر قرار رکھنے پڑے ہیں جو سطحی
یکسانی اور حقیقی وحدت کے درمیان حائل ہوۓ ہیں ۔ لیکن وہ اس کی
ورد بخود حل ہو نظم کیہیی اور معنوی وحدت میمںدغم ہخو ک
جاۓ ھیں ۔
ارہن (0٥ا)]77ۓ ایہنکتاب ”زبان اور حقیتت؛ 0881 08جعصد])
)۸.۲1. 87
01 (76ذ[:٥٥ میں منطتی اثباتیت اور آئی ۔ اے ۔ رچرڈز (۴
ط84
کنےظارسیۂ زبات پبرڑی مد و مدسےحمله کیا ہےجزوبان کو
تحریل (سائٹنک) اور جذیاتی(:شاعرائہ) میں تقسی :کرتا سے ۔ اس کے
نزدیک زبانکاایک اور عمل بھی ہے ء یعنی ”'احضاری“ عمل جو
ضیروری تھے جتنے” ویلی اور وجدانی یا علامتی ہوتا ہے ۔ یه عمل اتنا ھ
جذباتی اعمال ہیں اور اس کے بغیر زبان میں معانی پیدا نہیں هو سکنے اور
یه عمل استعاروں کی مدد ے پیدا ھوتا ے لیکن ایسے استعاروں کی مدد
سےنہیں جو حض تمثیلی یاتزئینی ھوں ء یعنی عض تصرج مطلب یا زینت
استعال کے گئے ہو
بںلک
ءہ اایسسےتعاروں کی مدد ہے اک
طیر کل
خام
ثا۔ٌٍ جب شاعر کو کوئی جو براہ راست اظہار مطلب کا وسیلهہ ھموں
ایسا منطتی قضيه بیان کرنا هو جو لغوی زبان میں بیان کیا جا سکتا ے
تکعارے کے ذریعے یا اایسکتعارے کی مدد ے
اہے بیان اور و
اہسای
کرے تو اُس وقت استعارہ حعض ایک سطحی یا ضمنی حیثیت رکھتا ے ۔
۲
تخیل کیقلم رو کاایک حصہ سے ۔ معانی پر قدرت کےلیے لسانی علاوم میں
دست گاہ اور بالخصوص علم اشتقاق اور صرف و نحو پر عبور لازمی
ہے ے جسو خطیبانہ کلام کے فص
باح
لتاوغت ق عیع
دکا بے
ت۔بد
خضوصی محاسن ہیں ؛ لیکن شعر کوئی ی تکنیک کے لیے بھی اہغیت
رکھتی ہی
عںل۔م بیان شاعرانہ اظہار کے بنیادی مسائل ہے تعلق
رکھتا ے ؛ کیوںکە اس کاموضوع خاص تمیبلی وجدان اتوخریہلی اظہار
تو جوزاکر
ۓ سے ۔ اگ
مرععل
امنی کا اثنرفووذ حاعدتدال نے تجا
شاعری حض ثر موزوں و مقفول بن کر وہ جاتی ہے ۔ اسی طرح اگرعلم
ہجواتی ہے ۔ ا می
سںل خطا
شبت ائۓ
عتو
ری بدیع کا پله بھاری ہش
و جا
صرف بمان کی دنیا کے قوانین شاعری یی فطری ساخ تکو راس آتے ہیں ء
وںہ گر ہوے ہیں ۔ ممثال ء کیوں کہ وہاں حقائق از کےلب
جاسلمی
سهتع؛ارہ اور علامت گویا شاعرکےلیے اس کیمادری زبانء اس تش
ابی
کرےوزسرہ اور اس کے خصوص اوروں کا حکم رکھتے ہیں ۔
ے کہ آیا مجازی زبان کی یہ ختلف یه ایک متندازعہ فمیسثله
تراکیب سب اپنی اپنی جگہ مستقل حیثیت رکھتی ہیںیاان میں سے
کوئی ایک اولی ے اور با
ثقاسنبوی ؟ --قدیم زمانوں میں عموٰباً
ترکیب سمجھا جاتا تھااور مارے یہاں آج تک یہی وک
لوی تشب
ایہ
۔نچہ اردو کے بعض اھہل الراۓ اس
تتغا
شرےبکیوه خیال رای ھچےنا
کی ایک قسم سمجھتے ہیں ۔ مغربی تنقید میںفیزمائنا بعضن لوگ مثال
کو اور بعض لوگ علامت کو اولی سمجھتے ھی اور بغض لوگوں کییه
زالۓ ہے که سب کی سب علیحدہ انواع ھیں -
جس میں زندگ اہنا چہرہ تونہیں دیکھتی لیکن اپنے چہرے
حقیقت کامشاہدہ کری ہے ۔ تمثال یىیسب کمےتعلق
ہزےیادہ عمومی قسم ایک مرئی تصصویر ہوقیق ہے ؛ لیکن
کے تواجسرکبےوں
حس کبھی کبھی تمثالوں میں دوسرے
وه عناصر بھی شامل ھوتے ہیں ۔ ھر تثال میں ء چاے
کی ھی جذباتی یاعقلی ہو ء حسیت کا کچھ نہ کچھ شائبه
چون کنا چاھیے که ایک شاعرانه ممثال ایک ھوتا ١ے ۔
بھی ہوتی ہیں ؛ یعنی اجتاع ضدین ہوتی ہیں ۔ ان میں وہ حسیت بھی
.یٹ
۵س )85دل دادہ تھا اور وہ سابعدالطبیعیاق )ج
6س ک
9ا ک ہو
(ق1ہے
ماورائیت بھی ہویق ہے جسے اکر لوگ اکسے ایک فلسفی ہوئۓ کا
ثبوت سمجھتے ہیں ۔
لوئیس (٥ہ٤آ 787۔)6 ے مثالوں کے سلسلے میں سی
ڈ۔
سترھویں صدی کے مابعدالطہیعیاتی شعرا کے متعلق ایک رائۓ ظاهر کرتا
ہے جو ہاری شاعری پر ایک حد تک منطبق ہوتقی دے :
جاتا تھا وہ وس
نےدھا جس خم
گبر ”مابعدالطبیعیاتی شع
کرالکاام
امیا
ائی د
ڈعسراوی قوت واہمہ کی منطق هو
بتایتھ
اان۔ی
ہوتا ی جگھ اس میں ایک ایسا استدلال ہین دل
بائ
رلاو
تھا جو واھے اور منطق کے مکالموں ء جادلوں اور مناظروں
میں ان کو ب
ودائع ک
زےمررے ۔ع نتھ
اائ پمربٹی ہو
صتا
جچویز سب ہزےیادہ رغوب تھی وہ مضمون آفرینی
تھی ؛ جو حض کسی عقلىی موضوع پر لفظی شعبدہ بازی
صوتی تھی ۔ ان مضمون آفرینیوں میں جذبات انگیزی کا
پر تمثالوں شعرا عتصر بہت کم ھوتا تمھاابع۔دالطبیعیاتی
تفکر کا اتنا زیادہ بوجھ لاد دیتے تھے کہ وہ اس کی متحمل
نہ ہو سکتی تھیں ؛ جس کا نتیجه یه ھوتا تھا کہ خود
تفکر کی روانی میں رکاؤ پیدا هو جاتا تھا ر۔ومانی شاعروں
فکر کی عںر ۓ
انہ یه تھا ک
شہ ا
انھو رع
نظم
امہ ککا ا
ایک
شےاف کہنرےۓس ساھیت کاانکشاف یایوں کہیے کسە نا
کیا۔ روسان تمثال حقیقت کی جستجو کا ایسک وسیلہ ہوق
ے؛ جس کیمدد ہے شاعر خود اپنے ترے کے معنی
سمجھنے کیکسوشش کسرتسا ہے ۔ روسانی شاعصسروں کے یہاں
تمثال جوئی کی قوت ایک آزاد قوت ہے جو کسی قید و بند
کپےیر تجرے کے دشست کی سیساحمی کدرتی ہے ۔ اکسے
وہ کسی منفرد ہںاکے
ں برخلاف .مابعدالطبیعیاتی شا
یعرو
"۸۳
ہم وقوف ہوتا ے اس میں وضع سازی کا ایک عنصر ہوتا ے ۔ جب
بعد ء دوران ء؛ حجم ء صورت وغیرہ کا ادراک کرتے ہیں تو اس یىی
وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہم چیزوں کا منظم کلیتوں کے طور پر مشاھدہ
کرۓ ہیں ۔ مثاِ ہاری ساعت یا بصارت میں چیزیں خود بخود گروہ بند
دە اس پر سبنی ہوتا ے کہ ہم ارا س
ہارا مں ۔
شما ہو جاتی ہی
مم کیتوں کو ینہ ماعول کےعلیحد کر کے ان کاادراک کے
ہیں ۔.ھم ساری دنیاے ادراک کا مشا دہ کرنۓ کیقابلیت نہیں رکھتے
کیوں کہ ہہارے حواس کیرسائی محدود ہوتی ہے ء اس لیے ہم اس کو
حصوں میں تقسم کر دیتے ہیں اور یہ حصے کلیتیں ہوقی ہیں ۔ یه
کلیتیں وضعیں عوق ہیں ء بعنی حستی قاثرات کے رابطے ہوتے ہیں ۔
کے ایک ھہنکامے سے دو چار ھو
اتاوے
ر افسان حسی تامثرا
عتطو
یات
وہ ان کی کہ اس سےنپپٹنے کے لیے آُس کو اس کی ضرورت ہوتی ےہ
اہنیکئوتوں رک
یےعے اور تر
ذتیب وضع بندی کرے ء یاینتخاب
متیبںدیل کرے ۔
سوزن لینگر (٥٣چ ت0 ].9ط86ئت )8اس ضمن میں لکھتی نے :
/ھازا اذانیدٰ ہ
نےیل خی ریہ بھی ایک تشکل اعنل
ھوتا ہے ۔ ودہنیا جو سچ مچ ہارے حواس کے سامنے آتی
ے؛ چیزوں کیدنیا نہیں ہوتی جو ھمیں یە دعوت دیتی ھیں
دریافت کریں اور جب بمتعل
اقتختل
یفں کهہ ہم ان کے
ہم منطقی زبان تیار کر چکیں تو ان باتوں کو ضابطہ بند
کریں ۔ خالص احساسات کیدنیا اتی پیچیدہ ء اتنی کریزپاء
اتنیبھرپور ہوق ے کم اگر ہم میں صرف حرکات ے
متائر ھوۓ کی صلاحیت ھوق تو ہمارے تبرے کی دنیا
ایک ٥م8ز( 8ل ٦ذ[1 )۷۲کے الفاظ میں حض
6جی
و0لم
کاہبلاتی اور بھنبھناق ھوئی گڑژبڑامٹ وق ۔ اس طرفان
ضا کو چند نمایاں شکلیںصسیعحاارےبئدیزی میں هم
انتخاب کمرفی پڑتی هیں ء جب کہیں جا کر وہ ہم کو
۳۰مھم"۸
ٹاثزات اکر اقم معائق کے وسائل ئەه هونے ٹوو ایک سی
ساری کی ساری ایک ریروائی
ایسے نفس کے لیے جکسا ک
علامتی عمل ہے بالکل بیکار ہوتے ۔ هیئتیں خود بخود معنی
نفلیات کا بن مت ائت
ثگر کا جامہ پہن لی ھگن ا
سبا
درست نہیں کھ ھیئتیں اذرااچ یىی جبات میں مضمر ہیں ؛ تو
تمثالیں حفوظ رہتی ہیں ۔ یه تمثالیں وقتاً فوقتاً سطح پر آبھر آتی ہیں اور
ہمیں یہ توفیق بشّی ہیں کہ ہم حقیقت کےقدیِالاصل چشے سے اپنی
روح ک پیاس بجھا سکیں ۔
اور ہیں رھتے وار جاری زماۓ تک سلسله ایک زماۓ سے دوسرے
تمثالوں اور استعاروں میں نہیں پایا جاتا ک۔ولرج کہتا ے :
مادہ جب ےہ ”صوقيه کے نزدیک حسن کا ظہور اس وقت ھوتا
("٤
د بب
۰
ے٢٢ دانتے وہوء ے٤ ٢٣ء پال والری ٣۳٢ ۱ر ءےگور۔
ٹووٹ
پپاا
۸۔ ۔ پ یس
ور
تے
سپیٹوزا مہ ۔ چارلز پیٹرسن ۸۸۱۔
سٹیفن ١۱۱ ۔ چاولز مورس ۵۱۔
سبارٹ ےج
سنجان پرس م ۳۱۔
ت
)۳۸۱ ۹٦۱ لینگر ۸۸٤ سوزن ےہر حائفظ ہے سار
-۔ے۔ ۴۳۶ رم۔ حایف ۵م ۹ ۱:ء
3
ے
نوولس ے٢۰ ٢ ۸۔ کے
نیٹشا ہر ۔
کراین گوئٹے و٢۹ و کر اککپ
۵۔
دے ٤
و؛مسم
ورڈز ورتھے٭+ ااؤئر وڈ بیل ےم و۔
ہے۸
ی ۳۸.ض
و۹ے )٢
رےے
ر ٌوے
۵رو
ھابز
ماپکنز م ۳۱۔ مارسل پروسٹ ہم ۔
۔ مال براش ہم
رین م ۱۔
کرٹ
ھا
محی الدین ہہ
ھربرٹ ریڈ ۵.ر؛ ۱۵۱؛ ۵٦-
وو ھولڈلن وم /ہو ۔ من
دنہ
اصطلاحات
۔ ازمنڈ قدع ں
-۔ اسلوب فکر ۹
آتش بجان .مم
اشاریت ہ ۲۱۔
اشیاے مادی وہ ۔ آاھی ۵بر ۔
۲۹۱۔ ۷۳۶٣ آلات ت
اشیاے سرفئی ۸۵1۔
ہمر۔ آلات کار ےہ٤ رر
اضطراری پم( ۔
ا شالایل او ما آله ہے
۸ء ےہ۔ اضطراری سیلان ےم
-۔- َء ۹
اقدار .رہ
آمرانه کلیے وت
اکتسابی علم ۵ں
تھی
ے۹
هیٹتی لباس ہہ ۔
۔ ۸۱
۲٤ ھیٹتی نفسیات ٦ ھیثت ۹۵ ) ۵۵ء) ۸
ے ۹۸
م
ھیولول ۹م ۔ ۶۲۸۱۔ ۰۹۱۲
ا
لاو
٤ےن٢ رہ من ھیف7تیں ۳۳ء
کے ب٢٤٢ ء۶٣۱١١٢ )١١ ۵۸۱۔
ہیی تجرے ۸٣۱ ۔
یاکوب بومهە و٢۹۳ ۳۱.۔
یونگ م٤۳٣ ٢۹۸۱ ۵۸ ۔ رابوات آومات
کتب
زبان کتیار اور ابتدا ۵+۔ الہام و شاعری وم ۔
زبور١م ۔ وک او
زند اوستا نم ۔ انتقادی حکامۂ جالیاتی ین ۔
مال رم شراا انجانی چیزوں کی هیئت ۰۵ر ۔
اکر ان زبات مور 000+0 ۶
شعرالعجم دم ؛ ہم ۔ اوڈیسی ک2