Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 213

‫ش عاریایل‬

‫ن‬
‫مبحبیدای‬

‫‪Mir Zaheer Abass Rustmani‬‬


‫‪03072128068‬‬

‫یم ٭٭‬

‫‏‪ ٢‬۔کلب روڈ ؛لاہور‬


‫جملہ حقوق حفوظ‬
‫طبع اول ‪ :‬فروری ‪7٦‬ء‏‬
‫تعداد ‪ :‬ری‬

‫ناشر ‪ :‬سید امتیاز علی تاج ء ستارۂ امتیاز‬


‫ناظم مجلس ترق ادب لاھور‬
‫‪7‬‬

‫مطبع ‪ :‬ریڈنگ پرنٹنگ پریس لاھور‬


‫مہتمم ‪ :‬شیخ نصیرالدین‬
‫فہرست ابواب‬
‫‪2‬ھ‬ ‫پہلا باب ‪ :‬شکاعاریر کناامہ‬
‫هرہ‬
‫ماس‬
‫شک‬‫چعری‬
‫دوسرا باب ‪ :‬شا‬

‫‪"۴۱‬‬ ‫ٹیسرا باب ‪ :‬تخیل کیماھیت‬


‫چتوھا باب ‪ :‬شاعرانە تخیل اور حقیقت‬

‫‪۹‬ے‬ ‫پانچواں ہاب ‪ :‬شاعرانہ تخیل اور جذبات‬


‫‪۹۱‬‬ ‫چھٹا باب ‪ :‬شاعرانہ تخیل ء علماکتسابی اور تفکر‬
‫ساتواں باب ‪ :‬شاعرانه تخیل اور اخلاق‬

‫بر‬ ‫یررتِ‬
‫بلصاو‬
‫ٹھواں ہاب ‪ :‬نی‬
‫‪۳۲۱‬‬ ‫یرک‬
‫ٹم او‬
‫کلہا‬
‫تل ءا‬
‫نواں باب ‪ :‬تخی‬

‫‪۹‬‬ ‫دسواں باب ‪ :‬شاعرانہ تخیل اور زہان‬

‫‪۳‬‬ ‫گیارھواں باب ‪ :‬شاعرائه تخیل اور جاز‬

‫‌"(‬ ‫اشاریه‬
‫تارف‬
‫نے اپنے گرد و پیش‬ ‫ان‬
‫سہے‬
‫نیا‬
‫اں آ‬
‫ساج جب ے دائرۂ تہذیب می‬
‫س ‪.‬کے‬
‫ا۔‬‫شروع کیا ھ‬ ‫ھےتا‬
‫کرس‬
‫درینظ‬
‫کو ایک پرتر اور پرفک‬
‫پیدا هوۓ ہیں ۔ زندگی کیا ہے ؟ اسان‬ ‫لےات‬
‫اک‬‫ورح‬
‫سح ط‬
‫طر‬ ‫ملیں‬
‫د‬
‫ے‬ ‫م‬
‫تماکی‬
‫اس دنیا میں کیوں آیا ے ؟ کیا کائنات کسی قابل فہم نظا‬
‫ایک خواب پریشان سے زیادہ نہیں ؟ ان سوالات کے‬ ‫ییقت‬ ‫یخا ا‬
‫قسک‬
‫جواب‪ :‬ڈھونڈھنے میں مذھب ء فلسفے اور سائنس کی عظم عارتیں قائم‬
‫عمل ء اپنے جذبات اور‬ ‫ۓے‬
‫پن‬‫اسان‬
‫کگیئی ہیں اور اسسلیسلے میں ان‬
‫سے‬ ‫زول‬
‫اج‬‫اپنے فکر کابھی جائزہ لیا ے ۔ یه ایک مستقل کوشش ہے‬
‫جاری ىے اور شاید ابد تک قائم رے گی ۔‬
‫شاعری ء‬ ‫یه بھی ےہ ػه‬ ‫ان بنیادی سوالات میں سے ایک سوال‬
‫موسیقی ء مصوری ء فن تعمیر وغیرہ کازندگی سے کیا تعلق ہے ؟ شعر کیا‬
‫سے ؟ ہم شعر کیوں کہتے ہیں اور اس سے حظ کیوں حاصل کرتۓے‬
‫شاعری انسانی زندی کے لیے ایک فائدہ مند چیز ہیےا‬ ‫ہی‬
‫کںی؟ا‬
‫فقصان دہ ؟ شاید شاعری کی ختلف قسمیں ہیں جن میں ہے بعض سود مند‬
‫اجتناب ھی بہتر ےہ ۔ اسی‬ ‫اور قابل قدر ہیں اور بعض ایسی ہیں جن ے‬
‫ششیں کی‬ ‫تعریف کی متعدد‬ ‫سلسلے میں شعر ی جامع اور تسلىی خش‬
‫گئی ہیں لیکن انھیں صرف ضمنی کامیابی ھی حاصل ہوئی ہے ۔ یہ اس‬
‫لیے کہ جس عمل یا احساس کا تعلق انسایق جذبات سے ہو اس کی منطق‬
‫یاسائنس کےاعتبار سےجامع تعریف مکن نہیں ۔اھل ذوق شاعری کو‬
‫خوب جانتے یں لیکن یهبیان نہیں کر سکتے که وہ کیا ہوےہ۔کھو ۓ‬
‫کھرے میں آسانی سے تھیز کر سکتے ہیں اور یہ کلہہ سکتے ہیں کہ‬
‫را‬
‫(و)‬
‫کون سی تخلیق شعر ہے اور کون سینہیں ء لیکن یہنہیںبتا سکتےکه‬
‫وہ کن منطفقی اصولوں پر یہ رائۓقائم کرتۓ ہیں ۔‬
‫کیا اس ہے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ے که شاعری پر غورو فکر‬
‫کرنا ایک سعی لا حاصل ہے ؟ ظاھر ےکم یہ درست نہیں ۔ خود فلسفه‬
‫جو‬ ‫ا‬
‫سںککر‬
‫ترین سوالات کا کوئی ایسا جواب پیش نہی‬ ‫م‬
‫اگیہکے‬
‫زند‬
‫سب اھل فکر کے لے قابل قبول هو ۔ تاھم اھل فکر ایک مستقل کوشش‬
‫تلاش کریں ۔ یه‬ ‫ممسصروف رھتے ھیں کہ ان سوالوں کجےواب‬
‫شش بذات خود ذہن کو جلا بخشتی ے کیو ں کە حرکت اور کوشش‬
‫رےادف ہیں ۔‬
‫متت ک‬
‫وت مو‬
‫سودکو‬
‫جزو ہیں اور جم‬ ‫زےمی‬
‫اک‬‫لدی‬
‫زن‬
‫کن‬
‫ای‬ ‫کاا‬
‫یندکاےید وا مو ک‬
‫اقیکاسا‬
‫مفکرین‬ ‫تار پجرن‬ ‫فلسفة‬
‫یں‬‫بالواسطه بہت سود مند ثابت ھوق ہ۔‬
‫خاص طور پر قابل ذکر‬ ‫ر‬
‫اسے‬
‫چمیں‬
‫ے اپتے نظطرے پیش کیے ہیںان‬
‫اپتے‬ ‫خلدون ۓ‬ ‫ء اشہنگلر اور ٹائن ہ۔یابن‬ ‫کو‬
‫یء‬‫ودون‬
‫خل‬ ‫اںب‪:‬ن‬
‫ہی‬
‫کشیا جس میں سلطنتوں کے عروج و زوال‬
‫مقدہے میں نظریةۂ عصبیت پی‬
‫نی‬
‫یاعء‬
‫کے وجوہ بیان کیے ۔ ویکو ۓ متدائر نظریة تاریخ پیش کی‬
‫کس طرح انسانی سج میں مطلق العنانی پہلے چند سری حکومت میں‬
‫ریت کا زوال فنراج‬ ‫و۔‬‫ہہے‬‫متی‬ ‫ججا‬‫اور پھر جمہوریت میں تبدیل ہو‬
‫اور اس کےبعد بھر مطلق العنانی واپس‬ ‫کی صورت اختیار کرتا ے‬
‫آاق ے ۔‬
‫ج‬
‫اہنی تہذہب ایک زندہ نظام ۓے جو هر‬ ‫سا ک‬‫النتھ‬
‫اشپنگر کاقو‬
‫ھکر‬
‫اقوہےر پھر بوڑھی و‬ ‫جان دار کی طرح نشو و نما پاکر جوان ھو‬
‫ص جاق سے ۔ ٹائن بیکانظریہ بھی ایک حد تک اشہنگار ہےملتا ےہ ء‬
‫اگرچہ اس کاقول ہےکہ کسی ایکتہذیب کی موت لازمی نہیں ۔ یه‬
‫قانون قدر ت نہیں اور تہذیب کو ایک چاندار نظام نہیں کہا جاسکتا ہے ۔‬
‫ان چاروں نظریوں میں سے کوئی ایسا نہیں جس پر نقادان نے مناسب‬
‫نە کے هوں اور اسے کم از کم ایک حد تک‬ ‫راضات‬ ‫ارعوا‬
‫قجب‬ ‫او‬
‫)‪00‬‬
‫ایک‬ ‫آج بھی‬ ‫لیکن ابن خلدون کا مقدمہ‬ ‫غلط لن ثابت کیا ہو ۔‬
‫قابل قدر چیزہے ۔ نظریة عصبیت کی تفصیل کے علاوہ اکستاب میں‬
‫اتی خوبیاں ہیں کہ اس کا پڑھنا ایک نہایت پرمعنی تجربہ ہے جس سے‬
‫وو‬
‫ال‬ ‫تہذیب کے عر‬
‫زوج‬ ‫لے‬
‫کە‬ ‫ھو‬
‫بتا‬ ‫فںه‬ ‫نہ صرف ہار‬
‫اےضعلم‬
‫ا می‬
‫کے متعلق بہت سی ضمنی چیزڑیں بھ‬
‫ویاضح ہو جاقی ہیں ۔ اور سب سے‬
‫زیادہ یہ کہ ہہاری آکاھی میں اضافہ ہموۓ کی وجہ سے ہارے فکر میں‬
‫ہے ۔ اسی طرح ویکو ء اشہنگلر اور ٹائن بی جک‬ ‫تا‬ ‫وسعت اور عم‬
‫جقاآ‬

‫ہان ء باوجود اس کے کم ان کے س کزی نظرے قابل قبول نسہمجھے‬


‫جائیں ؛ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو ہارے فہم اآوکراھی میں اضافه‬
‫نظریات میں بھی ایک حد تک‬ ‫ککے‬
‫زسی‬ ‫کرت ھعیںل۔‬
‫اوہ ازیں ان‬
‫صداقت ضرور ے ۔‬

‫بھی حال فنون لطیفه کاے ۔ شاعری پر آج تک جو کچھ لکھا گیا‬


‫ہے ء وہ کبھی حرف آخرکی شکل اختیار نہیں کرسکا لیکن اس سے ہہاری‬
‫اور گہرائی‬ ‫ت‬ ‫س‬
‫وق م‬
‫عیں‬ ‫آکاھی میں بہت حد تک اضافه ھوا اور مار‬
‫وے ذ‬
‫مارے لےکلی طور پر قابل قبول نھ‬ ‫یکقیا؛‬ ‫ب۔ا‬
‫ورس‬
‫ططو‬ ‫ضرور پیدا هو‬
‫”ئی‬
‫بھی ہو ء اس ہے انکار نہیں ہو سکتا کہ اس کامطالعه آج بھی سود مند‬
‫ہے ۔ ھر بڑے نتقاد کی تصنیفات کا یہی حال ہے ۔‬
‫سائنس کاتعلق انسانی فکر سے ےہ اس لیے جب نی دریافت ی وجهھ‬
‫ہسےویا‬
‫اد کی‬
‫تننئیظم کیبنا پر ایک نیا نظریه پیش کیا جاتا ہے تو‬
‫کی تصئیفات‬ ‫پراۓ نظرے متروک هو جاۓ ہیں ۔ پراۓ سائنس دانوں‬
‫ہوں تو ہوں ء سائنس کا علم حاصل کرۓ کے‬ ‫چےسپ‬
‫لہ‬‫دبار‬
‫تاریی اعت‬
‫قید کا یه حال نہیں ء وهہاں کسی‬
‫لیے ان کا مطالعه تضیع اوقات ستےن۔‬

‫پیدا نہھیوںتا ۔ کسی بڑے نقاد ی‬ ‫سۓوکاال‬


‫ہو‬ ‫رےوک‬
‫مرےت ک‬
‫نظ‬
‫تصائیف کنی ھی پرانی کیوں نە ھوں ء کم از کم ایک اضا قدر و‬
‫قیحمتاکمیل ہمیشہ ہوتی ہیں ۔‬
‫'شاعری اور تخیلٴ ایک قابل قدر تصنیف ہے ۔ اس موضوع پارردو‬
‫)ع(‬
‫میںپچھلےپچیس تیس سال میں اس سےبہتو اگرکوئی کتاب شائع ہوئی ے‬
‫تومیری نظر ہےنہیں گزری ۔ میں یہ اس لیے نہیں کہہ رہا کہ مصنف‬
‫کل‬
‫ارلسے‬ ‫ۓ اس کتاب میں کوئی ایسا نظریه پیش کیا ے جو هر اع‬
‫بتبا‬
‫نہیں‬ ‫نیا عے ء یاکوئی ایسی انوکھی بات ککہی عےجو پہلے سننے میں‬
‫آئی بلکة اس لیے کہجش متانت ء گہرائی اور سوچبچارنے اس موضوع‬
‫پرختلف آرا کو یکجا کرکے ان کو پرکھا گیا ہے اوو جس سلاست ہے‬
‫ان کے اہم نکات کو عیاں کیا گیاہے ء وہ بیشتر نقادوں کے بس کی‬
‫بات نہیں ‪-‬‬

‫کمےوضوع ؛ میں مصنف نے جس‬ ‫اہے‬ ‫پہلے باب ؛کشااعری‬


‫رنکے‬
‫ڈا ی ۓےوہ قابل داد ے ۔ اس بات‬ ‫کی حقیقت پر‬
‫روشی‬ ‫ےری‬
‫ع‬ ‫اس‬ ‫خو‬
‫شبی‬

‫جامع اور مانع تعریف نہیں‬ ‫وک‬


‫ئیی‬ ‫اکقارار کرۓ هھوۓ که شا‬
‫کعری‬
‫ہو سکتی ء شاعری کے ختلف پہلوؤں پر نہایت دقت نظر سے بث کی ہے‬
‫۔‬
‫توازن ء الفاظ کی صوقی اھمیت اور ساعی لذت ء اور‬ ‫کلام کی موزونیت‬

‫کطےور‬ ‫اسی نوع کی چیزوں کیاھمیت کو خوب واضح کیا سمےث۔ال‬


‫پر الفاظ کیساعی لذت کے متعلق یه اقتباس قابل غور ہے ‪:‬‬
‫””الفاظ ى ساعی لذت کے بغیر شاعریکا وجود ممکن نہیں ء تاھم وہ‬
‫ہین قسم کى شاعری کے لیے بذات خوذ کاق نہیں عو‪۴‬ی۔ فاعریئ‬
‫ان حسی‬ ‫میں‬ ‫مطالب‬ ‫نے‬
‫گ‬ ‫رظ کے‬ ‫اکصالی‬
‫رنامہ یہ ے کہ راج الفا‬
‫تبرید کےعمل کے ذریعے‬ ‫اے و‬
‫لہب‬ ‫مج‬
‫طن ہ‬ ‫تجربوں کارنگ بھر دے‬
‫اخذ ک‬
‫ےیگے ہیں ء یاعنلیفاظ کو اپنی اصلی اور ابتدائی شکل میں جلوەگر‬
‫کرے ۔ زبان کینشو و نتمااکرییخ ایک مسلسل تجریدی عمل کی تاریخ‬
‫یهو‬
‫زئیوں‬ ‫ےہ ۔ ہارے الفاظ دیکھی ء سنی ء سونگھی ء چھوئی اور چک‬
‫چھی‬
‫شںیکئییتٴ کو‬ ‫ات کے ہیں ۔ ہم چی‬
‫'زو‬ ‫رکے‬ ‫وان‬‫صکه‬ ‫کنےام نہی‬
‫تں بل‬
‫یا کا‬ ‫اںش۔‬‫غیر ضروزی اور خل کاسرمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہی‬
‫ایک ایساہنگامہ مارے چاروں طرف برپا ے کہ ھمیں اپنے کاروبار‬
‫ہم اپنے‬ ‫نھ‬
‫اےن‬
‫۔یە‬ ‫زندگی کے انصرام کیخاطر ان کا انتخاب کرنا پڑ‬
‫چتا‬
‫‪(2‬‬
‫سیوس چیزوں کو اپنی شعوری‬ ‫بہت سے حسی ادراکات کو ؛ بہ‬
‫حت س‬
‫زندگی ہے خارج کر دیتے ہیں ۔ جو چیزیں ہارے شعور میں رہ جاق‬
‫ب‬
‫ہ‬ ‫لگا دیتے عیں‬
‫س۔ی‬ ‫ہیں ان میں بھی ھم افکار و خیالات کی شق‬
‫بدتمیزی کو‬ ‫ان‬
‫کے‬‫ولف‬ ‫اپنے ما‬
‫طحو‬ ‫کچھ ھم اس لیے کرے ہیں که‬
‫‪25‬‬ ‫ربط و نظم ء سلیقہ و طریقه ق‬
‫؛اعدہ اور قانون میں تہدیل کر‬

‫مصنف آگے چل کر کہتے ہیں ‪:‬‬


‫”فنون عالیه کاکام یہ ےہ کہ حسیات کے اس ھنکامے ءجذبات ک‬
‫ء ارادوں کی اس‬ ‫الملوک‬ ‫کی اس طوائف‬ ‫سری ء خیالات‬ ‫اشسوریدہ‬

‫خانه جنگی پر غليه پا کرہماری زیرو زبر ذنیا کی نئےسرے سے شیرازہ بندی‬
‫فلسفه؛ سائنس اور عملی علوم مثا‪ 5‬اخلاق اجتاعیات اور سهاسیات‬ ‫کے‬

‫تو ان باغی و سرکش عناصر کو کچل دینے یىیکوششض کرتے ہیں ء‬


‫جس کانتیجہ يہ ہوتا ے کہ وہ انسانی شخصیت کے تاریک گوشوں میں‬
‫خانه برانداز کارروائیاں‬ ‫پوش ہو جاۓ هیں اور وه‬
‫ااںپہنےی‬ ‫جراوکر‬
‫جاری رکھتے ہیں ۔ فنون عاليه کا طریقہ مختالف ے ؛ وہ ان عناصر کو‬
‫برقرار رکھ کر ء؛ان کی ہستی کا اعتراف کرکے ء ان کی اہھمیت کو‬
‫تسلم کرکے ؛ ان کو ایک نئۓے نظام کی صورت میں جکمع‬
‫رتے ہیں _“‬
‫تعلق ےہ‬ ‫جو‬
‫شاعری کا فلسفے ؛ زندگی ؛ تصوف اور مذہب ہے‬
‫افستکعےلق بھی چند اقتباسات درج کرنا ضروری معلوم ہوتۓے ھیں ‪:‬‬
‫کدےرمیان‬ ‫ول‬ ‫”لیکن ایک بڑے شاعر اور دوسرے اھل عل‬
‫فمض‬
‫یه فرق ھوتا ے که جہاں مؤخرالذکر اس دنیا کو کسی خصوص علم‬
‫یاشعبة علم کے نقطه اہ ہے دیکھتے ہیں وہاں مقدم الذکر کا نقطه نگاہ‬

‫ےء‬ ‫هوتا‬ ‫توازن‬ ‫اور اس کا سب سے مایاں وصف‬ ‫ے‬ ‫آفاق ہوتا‬


‫اء‬
‫ور‬ ‫یعنی وہ انسانی تجرے کیکلیت کا ایک متناسب جزو بھی ہوتا سے‬
‫اس کے اپنے اجزا بھی متناسب ہوتۓے ہیں‪ .. .‬وہ معیار ء وہ نصب العین ء‬
‫فاماکئوق قرار دیتا ۓے‬ ‫ومنہتہاے کال جس کی روشنی میں واہپنے نظ‬
‫افسلکسافه زندگی ھوتا ے ۔ یە فاسفه زندگی ظاھری تضادوں اورھنکانی‬
‫(ی)‬
‫غخالفتوں کے باوجود اتنا هی مکمل ء متوازن اور مربوط ہوتا ہے جتنا‬
‫کسی ماھر فلکیات کانظام شمسی ۔‬

‫”اس فلسفۂ زندگی کےبغیر شاعری حض ایک فانوس خیال ہے جو‬


‫ہ۔ےجذبات کو‬ ‫کھپر‬
‫اتا‬ ‫حسی تاثرات کتیصویریں کاغذ کے بر‬
‫دزے‬
‫فٹ‬
‫ون‬ ‫ابنرگیخته کرے کا ایک نسخد ے؛ الفاظ کی مہرہ بازی ہے تف‬
‫تریج‬
‫ےھ یاایک خواب آور دوا ے ۔ یه فاسنۂ زندگی موجود‬ ‫کا ایک مشغ‬
‫ایک زبدۂ علوم ء‬
‫ایک‬ ‫ےە‬ ‫هو تشواعری نہ صرف ایک فن لط‬
‫بیفلک‬
‫اپتے‬ ‫لکہے‬
‫ەہ‬ ‫خلاصۂ فنون ء ایک فرھنگ دانش ء ایک دبستان حک‬
‫بمت‬
‫سب ہے اعلیٰ مقامات میںایک کتاب معرفت بھی ے ۔‬
‫”جب شاعری عرفان کے موڑ پپرہنچتی ہتےو اس کی مڈبھیڑ‬
‫تصوف اور مذہب ہے ہوتی سے ۔ تصوف جادۂ جستجو کا وہ راہ نورد‬
‫ہے جس کی منزل مقصود جال حق کا وصال سے ‪ ....‬شاعری تصوف کے‬
‫ساتھ ساتھ چل کر چند مرحلے طے کرقی ہے لیکن ایک مقام پر ا‬
‫کسو‬
‫یه احساس ھوتا ہے که ‪:‬‬
‫فروغ تبلى بسوزد پرم‬ ‫اگر ی‬
‫سکرموے برتر پرم‬
‫تصوف کی منزل کی طرح‬ ‫یو‬
‫ےنکہ‬ ‫چنانچە وہ ومیں رک جا‬
‫کتی‬
‫ال‬ ‫ہن‬
‫نا‬ ‫ای سول‬
‫آخر میں مذھب اور شاعری کے متعاق ایکاقتباس درج کیا جاتا‬
‫ہے جذورا لمبا ے لیکن جسے پورے کا پورا درج کرنا ضروری معلوم‬
‫‪Mir Zaheer Abass Rustmani‬‬
‫‪03072128068‬‬
‫ھوتا ے ‪:‬‬
‫هوا ایک خضر را‬
‫ہہے جسکاکام یہ ےکهہ‬ ‫”مذھب آس‬
‫اانتسزےا‬
‫۔‬ ‫والوں کو ان کی حقیقی منزل کا پتا دے‬ ‫سفر زندیق ‪2‬ت طے کرت‬
‫کرنار راہ کی دل چسپیوں کو‬
‫انھیں راستے کے خطرات سے آگاہ کرے او‬
‫انھیں بھٹکاۓ نہدے ۔ اس کام کے سر انجام کی خاطر وہ انسان کی آخری‬
‫پکیشرتا ے جو اس کے موجودہ ماح‬
‫اولیکا‬
‫ک‬ ‫ه‬ ‫قاا‬
‫شیک‬ ‫منز‬
‫نل ک‬
‫مثای نقشہ ے اور جس میں اس کے تجرے ء اس کیمادی زندگی کے تجربوں‬
‫(ک)‬
‫لیکن ان ہے بہتر اور ااسنکدیرونی آر‬
‫مزوؤ‬
‫طںاکے‬
‫بق‬ ‫سمےال‬
‫ہوں گے ۔ یہ آخری مثئزل انسان کی وہ جنت گمگشتہ ہےجس کاتصور‬
‫کسی بھولے هوۓ حسین خواب کی طرح رہ رہ کراس کے حافظے ک‬
‫کےسی‬
‫رۓ کیکوشش کرتا ہےاور جس کو اس دنیامیںحاصل‬ ‫بم‬
‫ھیں‬ ‫گو‬
‫اشے‬
‫مک‬
‫نیا ایے ے تاب رکھتی ہے ۔ مذھب اہے ایک جنت موعود کی‬ ‫کر‬
‫تےۓ‬
‫شسک‬
‫ویک‬
‫ںش ‏‬ ‫زند‬
‫مگیک؛ا‬ ‫دہ‬ ‫وےان‬
‫جسان‬
‫وکی‬ ‫شتکلبمی‬
‫دںیل کمر ک‬
‫اور مایوسیوں ء اس کی‬ ‫سک‬
‫بییوں‬ ‫م؛‬
‫یاا‬ ‫اوں‬ ‫اور خو‬
‫کشی‬ ‫غک‬
‫مےوں‬ ‫اس‬
‫مطلب و معنی سےمجلیل کرتا ہے جس کے‬ ‫یک‬
‫سوے‬ ‫لیکیوں اور بد‬
‫ایوں‬
‫بغیر یہ سارا هنکامہ حض ایک وحشت ناک خواب ھوتا ۔ مذھب کا یه‬
‫ایسا کارنامهہ ےۓ جو شاعری کا‬ ‫ایک‬ ‫کارنامه ء کچھ اور هو یا نه ھوء‬

‫که‬ ‫معراج ےے ۔ شاعری کا مقصد غائی اور اس کا بنیادی جواز یس ے‬


‫ک حصہ بنا کر‬ ‫اعیکا‬ ‫وکرےے کو کسی ایسے منظرۂ وسی‬ ‫فوع انس‬
‫تانی‬
‫یکا‬
‫ک‬ ‫پیش کرے جو اس جابر ء متلون المزاج اور ناپائدار کائ‬
‫انات‬
‫وہ ومہثا لی دنیا هو جس یىیتصویر‬ ‫الفاظ میں‬ ‫نعمالبدل ہو ‪٤‬‏ دوسرے‬

‫اس مثالی‬ ‫انسان کى روح ک گہرائیوں میں بسی ہسوئی ہے۔ مذہب‬
‫دنیا کا جو نقشہ پیش کرتا ے و ەکلام الٹٰھیکی صورت میں کسی برگزیدہ‬

‫انسان پر نازل ہوا ے ۔ لیکن عرش معلیٰ کی جس طرح لوح عحفوظ پر‬
‫کلام اللٰبیثبتسے ء اس کی ایک چھوٹی سی عکسی تصویر هر انسان کے‬
‫سینے میں موجود ے ۔ کبھی کبھی عام انسانوں کو بھی یہ توفیق‬
‫نصیب ہو جاتی ۓے کہ وہ اس عکسی تصویر کو دیکھ سکیں اور الفاظ‬
‫کیمدد سے اسے دوسرے لوگوں پر ن‬
‫ےقاب کر سکیں ۔ یہ لوگ وہ‬
‫۔ کی‬ ‫ان‬ ‫اھل بصیرت شعرا ہیں جو شاعری کی دنیا کے تاجدار ہیں‬
‫سےے ہم مثالیشاعری کہہ سکتے ہیں اور جو فن انسای‬ ‫شاعری وجہ ع‬
‫کا سەرۃالمنتول ےے ۔‪/‬؛‬

‫ہو جاتا ے کہ قابل مصنف ۓ نہ صرف‬ ‫ظی‬


‫اهھر‬ ‫اقنتباسات ہے‬
‫دقیق اور اہممسائل سےبحثکیہے بلکه ان کو کس خوبی ے واضح‬
‫(‪)۵‬‬
‫بھی کر دیا سے ۔ نہایت باریک نکات کو جچے تلے الفاظ میں نہایت سلاست‬
‫انھوں‬ ‫ہے ۔ دو باب ایسے ہیں جہاں‬ ‫نمامه‬ ‫سے بیان کرنا اکناکا‬
‫راہ‬
‫ب‬
‫ےہت سمےشہورنقادوں کی آرا نقل کی هیں لیکن ابنی راۓ پوری تفصیل‬
‫سے نہیں دی ۔ نویں باب میں تخیل ء الہام اور تکنیک کے بارے میں‬
‫اس میں میری راۓےۓ میں انھیں اپنا نقطۂ نظر‬ ‫لکھا ے‬ ‫انھوں جۓےو۔‬
‫چاھے تھا ۔‬ ‫ڈذرا زیادہ واضح کا‬
‫یه کتاب اردو تنقید میں ایک قابل قدر اضافہ ے ۔‬
‫(آغا غبدالحمید)‬
‫پہلا باب‬
‫ناامه‬
‫ایر ک‬
‫کعر‬
‫شا‬
‫"اس ممہیدی یاب میں ہم شاعری کے اس تصور کاجو اس کتاب کا‬
‫ایک اہان جاکة پیش کریں کے یه تا که شاعری کی‬ ‫موضوع ے‬
‫ملکون مین غعتلف ناموں‬ ‫خہے‬
‫تء ج‬
‫لوف‬ ‫ختلف هیٹتی یا موضوعی اصن‬
‫تاف‬
‫ہے‬ ‫آس‬
‫یت‬ ‫ھی ؛ فرداً فردا سروکار نہیں رکھتا ء بلکہ ح‬
‫کضل‬ ‫سمےعروف‬
‫جو ان اصناف کامجموعہ ہوۓ کے علاوہ کچھ اور بھی ہے ء یعنی شاعری‬
‫هیٹتی قالبوں‬ ‫کریوح جو ختلف مضامین کے مادے کو الفاظ کے ختلف‬
‫وہ کر‬
‫کریتھ ؛ ات‬ ‫بک ذعال کو ان کے وصال ہیں‪:‬اپنے آ‬
‫جپلکو‬
‫ںا‬ ‫رر‬ ‫کا‬ ‫فسن شاعصری بھی کہہتے سم‬
‫شعریت بھی ‪-‬‬

‫ادبی تنقید کی تار میں شاعری کی جو ے شار تعریفیں ی گئی هیں‬


‫وہ کلام‬ ‫ے‬ ‫ان میں سب ہے زیادہ عام فہم اور عام پسند یہ‬
‫کے‬
‫ول کلےیتے ہیں ۔‬ ‫موزوں ہے ۔ هم آغاز کلام کخیاطر اس‬
‫قیبکو‬
‫یه تعریف جامع و مانع نہسہی اور اس لیے صحیح معنوں میں تعریف کے‬
‫لقب کی سستحق نہ سہی ء؛چلیے ہم اسے توصیف ھی کمہ لیں کے ۔‬
‫ھماس کے حق می‬
‫دںعیوەىل بھی نہکریں گے کە وہ دریا کو کوڑے‬
‫میں بند کرتی ے ؛ تاہم اتناضرور ے کہ جو نقشہ وہ پیش کرق سے‬
‫ک‬ ‫وں‬ ‫و کل‬
‫زام‬ ‫ہے‬
‫مکہ‬ ‫وہ شاعری کی شناخت کے ایے کافی ہے۔بیجہا‬
‫ھر نوع شاعری نہیں ہوق ۔ یہبھیبجا ے کہ شاعری کے ایک معنی‬
‫زہے‬
‫می‬ ‫لا س‬
‫ارے‬ ‫ایسے ہیں جن کےمطابق اس کےلیے کلام موزوں ھون‬
‫ھی نہیں ؟ تاہم اس ہے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جس صنف کلام کو‬
‫ےس کا سب ہے زیادہ سررآبوردہ‬‫عرف عام میں شاعری کہا جاتا آ‬
‫وصف وزن تے ۔ علاوہ بریں وزن آآسکامحعض ایک سطحی وصف نہیں ؛‬
‫‪۲‬‬

‫ر‬‫عہ‬
‫شں ک‬
‫بلک آُس کی ماھیت سے تعلق رکھتا ے ۔ اس کا مطلب یه نہی‬
‫جاۓء‬ ‫لںا‬ ‫یوں کہے جاتے ہیں کە الفاظ کو وزن کی ترا‬
‫تزوومی‬
‫کن‬ ‫ان تقطیع کے حساب ہے گنا جا‬
‫لئےی ء‬ ‫ر اکور‬ ‫پےا ج‬
‫ااۓ‬ ‫اس‬ ‫بحرکے پی‬
‫نماۓ‬
‫ء‬ ‫رییهاضیاتی پابندیاں شاعر کے لیے کسی طرح کسر شان نہی‬
‫وںز۔ن‬
‫تہذیب ہے فکرو عمل‬ ‫ابتداے‬ ‫رات‬
‫کے‬‫صو‬ ‫ء پی|نە وغ‬
‫تیرہ‬ ‫دار‬
‫قء‬‫عمدد‬
‫ےہ‬ ‫تک فاسقے کا تعلق‬ ‫۔اں‬
‫جںہ‬
‫ہی‬ ‫رے‬ ‫اصول‬ ‫بنیادی‬ ‫کے‬ ‫انسانی‬
‫تابعین فیٹا غورس کی مثال ھکیاف ح۔ےآن کے نزدیک عدد محض اشیا کے‬
‫عوارض میں سے نە تھا بلک آن کا جو ھر تھا ۔ مذھب کو لیجیے تو آفریٹتش‬
‫ے آآس کے مطابق خالق از ی‬ ‫ی‬ ‫عالم ی جو روئداد انیل میں بیا‬
‫گنئکی‬
‫دےوں ہے کام لے کر وجود کو بطن عدم‬
‫عک‬ ‫قر مق‬
‫ادار‬ ‫او‬ ‫ن‬
‫زء‬ ‫ے‬
‫وعدد‬
‫سپےیدا کیا ۔ فنون کے دائرے میں معاری کیساری بنیاد ھی ان قاعدوں‬
‫ہے جس‬ ‫اےتا‬
‫جس‬ ‫پر ے ۔ معار اپنے سنگ و خشت کو آسی طرح قر‬
‫سینے‬
‫طرح شاعر اپتے الفاظ کو ۔ فن موسیقی علم ریاضی کی ایک صوق تجسم‬
‫تھے ؟‬ ‫ا‬‫یو‬
‫کں ک‬
‫نہی‬

‫توازن کال کے لوازم میں ہے ہکےیوں که کمال ایک هع‬


‫کهیر‬
‫ربط و ضبط ء ترتیب و تدوین کاتفاضا کرتا ے ۔ وہ صرف یه نہیں چاھتا‬
‫هو ‪٤‬‏‬ ‫تتا‬ ‫ھصور‬ ‫کظم‬‫رک من‬‫کہ کوئی کل جس کےساتھ ہارا تعلق هو ء ای‬
‫وہ یهبھی چاہتا ےہکہ اس کل کے تمام اجزا اپنی اپنی جگە آسی طرح منظم‬
‫ےہ مام اجزا کل‬ ‫مںز۔‬
‫ید بریں وہ یه چاھتا ک‬ ‫صورتوں کے مالک ہو‬
‫اک‬
‫ئلنات کے باق اجڑزا‬ ‫کے ساتھ اسی طرح وابسته ھوں جس طرح خکود‬
‫سے وابسته ے ۔فرانسیسی فلسفی لیبٹز (‪ )261501161‬ۓ فطرت نامیاتی کا جو‬
‫تصور وضع کیا ء ممکن ے کم وہ واقعیت پرمبنی نە هو ء تاھم وہ ایک‬
‫تقصور کے مطابق زندہ‬ ‫بلند نصب العین اور معیار پیش کرتا ہاے ۔‬
‫س‬
‫اور مشینوں کے‬ ‫انوں‬ ‫مادی اشیا کے در‬
‫حمی‬
‫یانو ء‬ ‫ھستیوں اور ج‬
‫ےان‬
‫سے بڑے سے‬ ‫اجزا بڑے‬ ‫مر ک‬
‫اےم‬ ‫یه فرق ےہ کہ اول ال‬
‫تذک‬ ‫درمیان‬
‫ایک‬ ‫ہوتۓ ہچیںنا۔نچہ‬ ‫لےکر چھوئے سے چھوۓ تک ذحییات‬
‫جاندار ھستی یہی نہیںکە خود ایک مکمل مشین ہو ء بلکہ اس کے اجزا‬
‫‪۰۳‬‬

‫ای گت کس ین مد‬ ‫ال کا‬ ‫‪١‬‬ ‫‪02‬‏‬


‫ہیں جن کا اصول عمل خود آن کے اندر مضمر ہوتا ے ۔ اس کے برخلاف‬
‫ے جان چیزوں میں جو تنظم ہوتی ہے وہ سطح ہے تہہ تک نہیں پہنچتی ۔‬
‫مسلے‬
‫ا۔ا‬
‫متیعہے‬
‫ان کے اجزا میں وہ بات نہیں ھوق جو خود آن میں ہو‬
‫حسین‬ ‫ارپنی‬
‫کی پیروی کرتے ہیں او‬ ‫وں‬‫قے‬
‫یت ک‬
‫رفطر‬‫طفه‬
‫میں فتون لطی‬
‫دیتے ہچیںنا۔نپہ اگر نظم‬ ‫عنتاصر‬
‫ر ہکےیب‬ ‫یون‬
‫سک‬ ‫ترین خلو‬
‫حقات‬
‫و نثرکا مابە الامتیاز صرف وزن ھوتا تآوُس صورت میں بھی آن میں‬
‫ھرات اور چمکیلی ٹھیکریوں میں هوتا‬
‫جتوااجو‬
‫کم از کم وہ فرق ھو‬
‫ٹھیکریوں کا تو‬ ‫سے ۔گوھر ریزے بھی کوہر ھہیوتے ہیلںیءک؛ن‬
‫کیا ذ کر ؛ کوزہ و سبو کے ٹکڑے بھی کوزہ و سبو نہیں ہوتے۔‬
‫ےء‬ ‫کاحسی مواد صوت‬ ‫ےے اوارلفاظ‬ ‫زبان الفاظ پر مشتمل‬
‫اس لیےاگرکلام کو کامل بنانا منظور هوتوآُسکے اجزاے ترکیبی‬
‫منظم ہیثت کے قالب میں‬ ‫نک‬
‫یوک‬ ‫ا‬‫بنانا اور ا‬ ‫زن‬ ‫وح‬
‫تسی‬
‫ون ا‬
‫اور‬ ‫م‬‫ک‬
‫ڈھالنا لازمی سے ۔ یه بجاے کہ زبان حواس کمیحرک ہوۓ کے‬
‫سکا مقید مطلب بجموعة علامات ے جسے عقل کام میں لاتق‬ ‫بجا‬
‫اۓیای‬
‫ہاےور اس لیے کلام کے وہ محاسن جو ہمارے لیے جاذب توجہ ہوتۓ ہیں‬
‫ذریعے‬ ‫در اصل آن افکارو اشیا کےمحاسن ہوتۓے ہیں جن کابیان اکسے‬
‫مقصود ھوتا ہے ۔ پھر بھی ان علامتوں کی ایک اہی ھی علیحدہ حیثیت‬
‫آن میں ہے‬ ‫بھی وی ےہ جو حسی ادراک میں آ سکتی ہے ۔ بالخصوص‬
‫بعض میں ایک صوتی خوشگواری ہوتی ہے جو مارے حواسٴ کو بھلی‬
‫ہم ان کے روزن کھلے رکھیں ۔ جب ہم الفاظ‬ ‫ءیکه‬ ‫شہ‬
‫رےط‬ ‫لگ‬
‫بتی‬
‫کے حسی اوص‬
‫طافرکی‬
‫ف توجە دیں تو ہاری قوت ناطقہ کلام کی ان‬
‫خوشگواری اور حسی لطافت و‬ ‫وے ج‬
‫توی‬ ‫دیت‬
‫صی ہ‬ ‫رںجکو‬
‫یح‬ ‫صو‬
‫ترتو‬
‫تفاست رکھتی هیہںار‬
‫۔ا حافظه ان انواع کلام کو بیش بہا نوادر‬
‫کیطرح حفوظ رکھتا ہے ۔ رفته رفتہ مکرر استعمال کی بدولت وہ ایک‬
‫طرح کے چبلی اسالیب اظہار اور دل پزیر کلام کے معیاری ہموۓ بن‬
‫جاتے یں ۔‬
‫‪7‬‬

‫هو ۔ شاعری کا طرۂ امتیاز یہ ے کہ وہ اس نثر میں نئے سرے سے نظم‬


‫کخیوبیاں احوبروبیاں پیدا کر دیتی ے ۔‬
‫کآیُس‬ ‫بک‬
‫چہ و‬
‫پہن‬ ‫شاعر کی فطری ساخت کچھ ایسی ہوتی ہے‬
‫عام لوگ دتیا‪ :‬داریك‬ ‫نگاہ کو برقرار رکھتا ے جسے‬ ‫معصومیت‬
‫جھمیلوں میں پڑک رکھو بیٹھتے ہمیںع۔صاس‬
‫ومیت نگکاےہطفیل عقل اور‬
‫عملی فراست کے ایجاد کیے ہوۓ وہ افساۓ جدھیں ہم الفاظ ککہتے ہیں‬
‫الفاظ بھاری‬ ‫دیتے ہ۔یں‬
‫عام لوگوں کلےیے‬ ‫ایںئدی‬ ‫آسے زند‬
‫کہحق‬
‫ھیقت‬
‫بھر کم اور گمبھیر بت ہوتۓے ھیں جن کو وہ رسمی طور پر پوجتے ہیں ء‬
‫لیکن شاعر آنھیں ہنستی کھیلتی ؛ جیتی جاکتی ء نٹ کھٹ گڑیاں'ٴ سمجھ‬
‫اور انذ کے‬ ‫کر ان کے ساتھ کھیلتا ہے ۔ آن کی بناوٹی شک‬
‫صلوورت‬
‫رسمی لباس کے پردے میں آسے آن حسی ادراکات کے نقش و نکار کدھائی‬
‫دیے ہیں جن سے ان کی اصل میں ساخت ہوئی تھی ۔ وہ الفاظ کے بہروپ‬
‫کاجعلی رنگ روغن آتار کر ان حسی ادرا کات کو جو آانصکلاىی رنگ‬
‫روپ ہوے هیں ؛ نتیرتکییبوں اور ترتیبوں کے ذریعے نےقاب‬
‫کرتا ھے ۔ اس طرح شاعر ایک طرف تو ایک طفل معصوم ہوتا ہے جو‬
‫صرف اپنے حسی تجربوں کی بنا پر دنیا کیترجانی کرتا ہے اور دوسری‬
‫ہوتا ےہ جس کے ھامۓ‬ ‫دت‬ ‫صاح‬
‫کبرکشف‬
‫ا و‬ ‫یہک‬ ‫طر‬
‫اف و‬
‫چمزیں‬
‫اپنے عاریتّی لبآاتسار کر اپنی اصلیت میں جلوہ کرھوتی ہیں ۔‬
‫اپنے ساتھ لے کر دنیا میں آتا ھے ء‬ ‫حقیقت بیئ‬
‫می ک‬
‫لاک‬ ‫ہبرچہ‬
‫لیکن عقل دنیاوی اور عملی فراست کی نشوو نما کے ساتھ ساتھ اس کا یە‬
‫وہ قدسی الاصل بجہ ےہ جو‬ ‫ملکہ رفتہ رفتہ ضائع ہوجاتا ہشےا۔عر‬
‫اپنی‬ ‫ی ننذہریں کر دی‬
‫بتالء‬
‫کە‬ ‫از‬ ‫اک‬
‫رو ع‬
‫سقل‬ ‫اپی خدا داد بص‬
‫کیرت‬
‫ذوفنون معصومیت ؛ اپنی پر کار سادگی کے ذریعے واہلٹا عقل کے حق‬
‫اس کے بگڑڑرے ہوئے کامبناتا ے ۔‬ ‫ر‬ ‫مکیاںرساز ثابت ھوت‬
‫ااوے‬
‫ہونا تو یه چاہیے تھا کے شاعسر کا حسی تجربات ہے مالامال‬
‫ا‪6‬ات‬ ‫کور ظا رر ”تھی رک ساس‬
‫ادراکات سے قریب تر ھوۓ کک بدولت زیادہ عام فہم ھوتا ء لیکن عام‬
‫ے‫‬

‫سوچنے کے اس قدر عادی ہوتۓے ہیں کہ وہ‬ ‫روںیکعےے‬ ‫لوگ عل‬


‫ذامت‬
‫کو ؛ جن کی ممائندق ان‬ ‫ان اصلی چیزوں کو ء ن مدرکات و حسوسات‬

‫علامتوں کاکامہے ؛ پہچان نہیں سکتے ۔ علاوہ بریں ان کو اتی فرصت‬


‫ری‬
‫ورت ہکییا کہ زبسان کی جسو ہنی بسائی مشین‬ ‫کمہاں اور اضسک‬
‫صدیوں کی کارروائیوں کے طفیل آن کے ہاتھ لگی ے اور جو باقاعدق ہے‬
‫خود بخود چل رعی ہے اور آن کے ضروری کام کر رہی ہ‪٢‬ے‪٘٢‬س‏ کے‬
‫کل پرزوں کا معائنه کریں اور آن کی دیدہ زیب تراش خراش ہے لطف‬
‫اٹھائیں ؟ عقل و عمل کے جس کارخاۓ میںیہمشین چرلھی ہے آ٘س‬
‫ادراکات کاجو دریا مسوج زن ہے‬
‫ک وہا‬
‫وس‬ ‫یا قری‬
‫حبسھی‬
‫ی‬
‫مروج الفاظ کے پل ہے پاٹ کر اپنےکام دھندوں کے سلسلےمیں آمد و رفت‬
‫پر موجوں کی جو مسلسل نقش‬ ‫طیح‬ ‫کیا کرتے ہیں ۔ اس دری‬
‫سا ک‬
‫انگیزیاں ہوقی ہیں انھیں اکن س‬
‫وےئی دلچسپی نہیں ہوق ء چجاہئیکه‬
‫انھں اشسنکایوری کاشوق هو ۔ یه نظارہ بازی بھی اور یہ شناوری‬
‫صاہ ہیں ۔ یه دریا صرف سطح زمین پر نہیں‬ ‫بھی دونوں شاعر ھحی ک‬
‫کموش ھوش‬ ‫بہتا بلکہ ہہارے اندر کے پاتال میں بھی جاری ہے ۔ اگر ھ‬
‫سن سکتے ہیں ء اور کبھی‬ ‫مگزکے‬
‫مے‬ ‫بندکر لیں تو اس کے جل‬
‫زئرن‬
‫کے درمیان دور کی‬ ‫غو‬
‫ل‬ ‫کجھی تو وہ مارے ارد گهرندککےامۂ شور‬
‫ھمیں خود بخود ستائی دیتے ہیں ۔ شاعر اس زیر زمیں‬ ‫رکی‬
‫ح‬ ‫موس‬
‫طیقی‬
‫دریا کیسیاحی اور غواصی بھی کرتا ھے ن‬

‫اور غواصیوں کا‬ ‫وں‬ ‫ی؛‬ ‫حیوں‬ ‫یءشن‬


‫ااور‬ ‫شاعر کی ان نظارہ باز‬
‫سیوں‬
‫حاصل کیا ہوتا ھے ؟ موج ہاۓ احساس ککیلکاریوں کے خاکے ءالفاظ‬
‫توراکیب کے خوشن| گھونگے اور سیپیاں ء نئے نئے معمانطیاولب کے‬
‫در یتم ؛ اور کبھی کبھی خوابسوں کی جل پریوں کے من موھۓ گیت‬
‫بھی ۔ ان چیزوں کے ذریعے وہ زبان کاکھویا ھوا فطری ورئہ آے واپس‬
‫لاکر دیتا ے اور ارباب عقل و عمل کے تغافل و تساعل ء ے حسی و‬
‫ے دلںکے ہاتھوں آ٘س کو جو نقصان پہنچتا ہے آس کیتلای کرتا ے ۔‬
‫حسی نمثالوں اور نادر معانی کے علاوہ شاعر ایک اور چیز زبان‬
‫‪۸‬‬

‫چیز الفاظ کی جذباتق‬ ‫ہ‬


‫زیادہ لطیف ہوے۔‬ ‫ھےی‬
‫بس‬‫کبخوشتا ے جو ان‬
‫'کیفیت ے‪٥‬‏ جو اوائلی انسانوں کی زبان کی بنیادی خصوصیت تھی ۔ جس‬
‫بےات خارجی دنیا کے مہیجات کا ایک اضطراری‬ ‫ذک‬‫جگوں‬
‫طرح ان لو‬
‫رد عمل ھوا کرتے تھے اس‬
‫طیرح ان کیزبان جذبات کے اظہار کا ایک‬
‫وں‬
‫نوہ‬
‫اکه‬
‫س رے‬
‫نرتا‬
‫اا ک‬
‫قدرتی وسیله تھی ۔ عقل کا محاسبانه منصب تقاض‬
‫کی احسیوانی خصوصیت ک وک وہ جذبات کے غلام ہوتۓے ہیں قابو میں‬
‫ہے پھلا کام‬ ‫رکھے ۔ اس لیے چیزوں کے تصور قائم کرتۓ وقت وہ سب‬
‫شا۔عر کا‬
‫یکہرتی سے کہ ان کے جذباتی عنصر کو خارج کر دیتّی ھ‬
‫عنصر کو نئے سرے سے داخل‬ ‫سب سے پہلا کام یه ھوتا ے کہ اس‬
‫قاثرات سے اس کو جو لگاؤ ہوتا ھے آس کا‬ ‫کحےسی‬ ‫لف۔اظ‬
‫کارے‬
‫کو اکساتے ہیں ؛ اس کے‬ ‫سرچشمہ ھی یہ سے کہ وہ آس کجےذبات‬
‫اور وہ الفاظ جو انْکو بیان کرتے ہیں ء سب کے سب‬ ‫کاور‬
‫فشیا‬
‫اےا‬
‫لی‬
‫مظار ہوتے ہیں ۔‬ ‫دےہ‬
‫نک‬‫زبات‬
‫کوناکون جذ‬
‫ان‬ ‫ےہ‬
‫شاعر جذبات کو برانگیختہ کرنۓ کا کام یوں انجام دیتا ک‬
‫طور پر حعرک ہوتی ہیں‬ ‫ریی‬
‫دک‬‫قبات‬
‫منتشر چیزوں کو جو تلف جذ‬
‫یان جروابطۂ اتحاد دکھائی‬ ‫رںمکے‬ ‫جمع کر دیتا ھے ۔ آسے آن چی‬
‫دزو‬
‫دیتا ھے ؛ وہ یہی ھوتا ے که وہ سب کی سب یکساں طور پر جذبات ہے‬
‫تعلق رکھتی ہیں۔) جس طرح عملىی فکر کا اصول ہنا کوئی نہ کوئی‬
‫یسے‬
‫ر ا‬
‫ل‬ ‫افادی پہلو ھوتا ے جو ارے لیے باعث دل چسپی ھوتا ےے او‬

‫طرح سائنس کے‬ ‫قدرق طور پر ماری توجه کو جذب کر لیتا ے ء جس‬
‫ان میں باھمی تعلق یا‬
‫اسلوب فکر کا اصول رھن|ا چیزوں کا مکزانمو‬
‫طرح شاعرانه فکر کا‬ ‫ی‬
‫سے ء‬
‫اا ہ‬
‫ہھوت‬ ‫پابندی‬ ‫رک‬
‫ت یىی‬
‫شنون‬
‫ی قا‬
‫م‬ ‫کس‬
‫جذباتی تاثر ہوتا ہے ۔ یه‬ ‫اصول رھن| اکثر کوئی باطنی کیفیت یکاوئی‬
‫میں رنگ دیتا ے اور‬ ‫کیفیت یا تأثر ختلف چیزوں کو ایک ھرینگ‬
‫یاهرنامه‬
‫آن کے ظاھری تضاد و تخالف کو مٹا دیتا ے ۔ شاعرانهہ اظہار کا ک‬
‫بادی النظر میں عقل و فکر کے تنظیمی عمل ہے مشابہ ۓے لیکن ‪:‬‬
‫بہیں تفاوت رہ از کچاست ٹابکچا‬
‫‪۹‬‬

‫اشیا کسو ایک فرھنگ مصطلحات ؛‬ ‫عقل و فکر کیتنظم اعسالم‬


‫صرقع ‏‬ ‫خاکوں کا‬
‫ایک‬ ‫کے بیرنگ‬ ‫دات‬ ‫عل‬
‫مام‬
‫جاتر ؛‬ ‫ایک حموعءۂ‬

‫مفروضات کی بھس بھری پتلیوں کا نماشا بنا دیتی ہے ۔ اس کے برخلاف‬


‫شاعر اپنا دھ ڑکتا ھوا دل نکال کر ہر ذرۂ کائنات کسےینے میں رکھ‬
‫یوں ساری دنیا کو ایک جذباتی رشتے میں مبوط کرتا‬ ‫دی‬
‫اتاوےر‬
‫ےے تا آنں که یہ کیفیت ہو جاتی ہے کە ع‬
‫لہو خورشید کاٹپکے اگرذرے کا دل چیریں‬
‫شاعرانه اسلوب اظہار کی ایک مزید خصوصیت یه ک‬
‫ےه وعہض‬
‫جذبات کی ترجانی نہیں کرتا بلکە نئے جذبات پیدا کرتا ہے ش‬
‫۔عر کوئی‬
‫کاعمل بذات خود ایک جذبات آفریں عمل ہے ۔ اس میں محض قانون‬
‫امتلاف افکار کی کاررفسرمائی نہیں ہوتی بلکہ یہ جذبات کے رکے ہوۓے‬
‫سیلابوں کے بند ٹوٹ جماۓعاکمالہ ہکےئ‬
‫۔ی مرتبہ نتیجہ یه ھوتاے‬
‫کہ جو جذبات شاعر کےلیے در‪:‬اصل حرک عوۓ تھے ء آن ہے ختلف‬
‫هیں ۔ جو جذیات بالآخر قید تحریر‬ ‫قسم کے جذبات قید تحریر می‬
‫جںاآ‬
‫تے‬
‫میں آے ہیں وہ براہ راست شعر کوئی کے عمل کی پیداوار ہوتے هیں ۔‬
‫یه‬ ‫اس ہے‬ ‫اس لحاظ سے ناقص ہ‬
‫کےیونکه‬ ‫”اظہار جذبات“ کی تکریب‬
‫مترشح ھوتا کہ جیسےشاعر کے پساکوئی بنے بناۓ جذبات ہوتۓے ہیں‬
‫پہنا دیتاہے۔ جذبات آفرینی کیجو قوت شعرگوئی‬ ‫اک‬
‫ماہ‬ ‫جن کووہ ال‬
‫جفاظ‬
‫کے عمل سیں ہوتی ہے وہ اپنے آپ کو پڑھنے والے کے ذھن تک بھی‬
‫منتقل کر دیتیہے ؛ یەضروری نہیں کہ جو جذبات شاعر ۓء جہاں‬
‫ہے ءبیان کیے ہیں ء بالکل وھی‬ ‫کک‬
‫ترا‬ ‫تک وہ آن کاذھسنی تجز‬
‫سیە‬
‫جذبات پڑھنے والے کے دل مسیں پیسدا عسوں ۔ اس میں پڑھنے والے‬
‫کذیاتی انفعالیت اتوارثر پزیری کو بھیبہت دخل ہهوتا ہے ء لیکن‬
‫جذبات‬ ‫ائ‬
‫ےل‬ ‫اتنا ے کہ پڑھنے والے کے دل میں شاعر کے‬
‫م جذ‬
‫مبات‬
‫یا آنکےکوئی نہکوئی پہلو ضرور پیدا موں گے ۔ بہرحال پڑھنے والے‬
‫کے جذبات بھی شاعرانه بیان کی جذبات انگیز قوت کا نتیجہ هوۓ ہیں ۔‬
‫شاعری وہ ساز ہے جس کے پردوں میں جذبات کے نغمے خوابیدہ ہوے‬
‫سی‬

‫ہیں ؛ اس کو صرف چھیڑۓ کی ضرورت ہوقی ے ۔‬


‫اگ شاعری کا کارنامہ ہارے عام تجربوں کی حسی اور جذباق کمی‬
‫میں بھی ہم آُس کے‬ ‫هوتا تصو ُ‬
‫وسرت‬ ‫کاپورا کرد تک ھحیدود‬
‫ممنون ھوۓ که وہ عاری ل‬
‫ےطفن رننکرت میں ایک چاشنی ملادیتی ے‬
‫اور‬ ‫دیتے‬ ‫نہ‬ ‫وقعت‬ ‫لین ہم آسے تفر طبعکے ایک وسیلے ہے زیادہ‬
‫طوعاً و آکڑھا یه قیصله کسر لیتے کہ ھمیں اپنی دسمساغی تہذیب اور‬

‫روحانی تکزیے کےلیے آن علوم عقلی کی طرف رجوع کرنا پڑے کاجن کا‬
‫یه تسلمَ کڑنا با کہ افلاطون ے شاعروں‬ ‫واسطة اظہار نثر ےہ ۔‬
‫میں‬

‫کو اپنے مثا ی جمہورے ہے شہر بدر کرنۓ کی جو تجویز ی تھی وہ‬
‫حق بە جانب تھی ۔ افلاطون کے اس فیصلے ہے فلسفیوں کی اکثریت ‏ ۓ‬
‫اختلاف راۓ کیا ہے ء لیکن عملی اور دنیادار لوگ اس ہے عام طور پر‬
‫جن‬ ‫ہیں‬ ‫متفق یں اور شاعروں کو ذاکارہ اور فاترالعقل لوگ سمجھتے‬
‫ھی اچھی ۔ وہ شاعروں کو گویوں ء‬ ‫سلامت‬ ‫دور کی صاحب‬ ‫سے‬
‫شار کرۓ‬ ‫بھانڈوں ء نقالون ء بازیگروں اور مداریوں کے زمرے میں‬
‫والے‬ ‫ان معنوں میں کہ وہ عض دل پلانۓ کا سامان مہیا کرۓ‬
‫جن ے آنھیں اپنی سنجیدہ مصروفیتوں کے لمحوں میں‬ ‫لوگ ھوتے یں‬
‫کوئی سروکار نہ رکھنا چاھیے ۔‬
‫کہ افلاطون کا اپنا عمل آآس کے قول کی‬ ‫لطف کی بات يہ ےہ‬
‫تصدیق نہیں کرتا ا‬
‫‪-‬س کی نگارشات ؛ اور تو اور خود وه ”جمہوریە؟“‬
‫بھی جس میں آس ہشےاعری کو راندۂ بارگاہ قرار دیا ء شاعرانه کلام کی‬
‫میں منظوم کلام‬ ‫معنوں‬ ‫نمایاں مثالیں ہیں ۔ یه جا ے کەه وہ عروضی‬
‫نہیں هیں لیکن جہاں تک شاعرانه زبان اور لب و لہجہ کا تعلق ہے آن‬
‫کهہ افلاطون‬ ‫۔قیاس چاھتا‬ ‫میں شعریت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی‬

‫ایسی بات دکھائی دی ھوگق‬ ‫کوئی‬ ‫ضرور‬ ‫کو شاعرائه طرز بیان میں‬
‫امت اس پر آماد ہ کیا اخ ‪ 02‬خالص فلسفیانه طرز بیان پر ترجیج‬ ‫جس‬

‫د ات ٹر وہ شاعری کو فیالواقعه ض ایک فن تفریج سمجھتا تو ممکن‬


‫‪72‬‬
‫نە تھا کە وہ اپنا سارا سرمایة حکمت آس کے دامن میں ڈال دیتا ۔ ایک‬
‫ایسے شخص کے لیے جو اپنے وقت کا معلم تہذیب تھا اور اس حیثیت‬
‫میں اس پر جو فرائض عائد هوۓے تھے آن ہے پوری طرح آشنا تھا ء یه‬
‫طور پآرُس تے عماے‬ ‫عوری‬
‫ے کہ غشبر‬ ‫ھر‬
‫ا۔‬‫ظتقی‬
‫بات ھہو‬ ‫جیب‬
‫اعیک‬
‫اس بات کا اعتراف کیا کہ شاعری میں بلند خیالات کا وسیلۂ اظہار بننے‬
‫کی اھلیت ہوتی ہے ۔ حقیقت حال بھی می ہے ؛ شاعری جب اپتی معراج‬
‫کو پہنچتی ہے تو حسیات کی آئینه داری اور جذبات کی ترجانی کے علاوہ‬
‫وہ بلند ترین حکم|نە افکار کی تفسبر اور عارفانه حقائق کی تشریج بھی بن‬
‫جاتی ہے ۔‬
‫وہ تضاد جو ھمیں افلاطون کے قول و عمل کے درمیان نظر آتاے‬
‫آآُسکی توجمہ کیا ےے ؟ اس نے ایک طرف تو شاعر یکو مسترد کیا اور‬
‫کا‬ ‫ری‬
‫ع۔‬‫ایا‬
‫شش ک‬
‫طرف خود کَائنات کا ایک شاعرانه تصور پی‬ ‫دوسری‬

‫جادو افلاطون جیسے فلسفی پر کیو ں کر چل گیا ؟ اسی طرح بہت سے ثقه‬
‫اور متین لوگ جن کاتعلق علم یاعملکیدنیامیں ٹھوس حقائق سے ھوتا‬
‫سے ء کھلم کھلا نہیں تو چوری چھپے شاعری کے خیالستان کیسیر ہے‬
‫کیوں لطف اندوز ہوتے ہیں ؟ اس کا جواب یە ہے کە وہ تجریدی عمل‬
‫ہھویق‬ ‫ید‬
‫کرےشہے‬
‫جس کی بدولت سائنس اور عمل کی دنیائیں ہمارے تج‬
‫ہے ۔ ومہشین جسے‬ ‫تا‬
‫راق‬
‫زو ش‬
‫گک‬‫ھیں اتنا شدید ھوتا ے کە ھم‬
‫اھل سائنس فطرت کہتے ہیں انی مصنوعی ہوتی ہے ء وہ ڈراما جسے عم‬
‫آۓ دن کیعملىی زندیق کہتے ھیں اتنا رسمی و نقلی ھوتا ‏ کہ ہآمُس‬
‫ککوئی ایسیچیز ڈنھڈوھتے ہیں جس ہہےاری رتوحسککیین‬
‫ھو‬‫ہبیےزار ر‬
‫هو ۔ ہم کائنات اور انسانی زندگی کی ان جعلی و فرضی تفسیروں کو رد‬
‫کر کے اپنے ذاق مشاھدوں اور اپنے باطنی تجربوں میں آن کی تفسیر‬
‫مرشااھدہ صاد کہتا ے اور ھارا‬
‫تلاش کرتے ہیں ۔ جن چیزوں پر ہا‬
‫ڈاتیتجربہ دلالت کسرتا ےے ؛ جسو چیزیں ہارے لیے خوشی و غم کا‬
‫سرمایةہ وی ہیں ء جن چیزوں سے ماری کامیابیاں اور مایوسیاں ؛ ھاری‬
‫‪۲‬‬

‫آمیدیں اور آرزوئیں وابسته ہوتی ہیں وہ سب چیزیں ھمیں حقیقی معلوم‬
‫ھوتی یں اور باق سب وھم اور دھہوکا ؛ یہاں تک کہ مارے ایسے‬
‫خواب جن کی کوئی تعبیر نہیں نکلی ؛ ہمارے ایسے ارمان جو دل کے دل‬
‫خیالی‬ ‫فریبیاں ‪٤‬‏ ہاری‬ ‫ھی میں رے ؛ ھاری ناکام حبعیں ؛ ھماری خود‬
‫منصوبه بندیاں ء مارے هھوائی قاعے ء یە سب چیزیں بھی ہمیں سائنس‬
‫کے نظریوں ؛ فلسفے کے مجردات اور کاروباری لوگوں کے عملی ٹوٹکوں‬
‫سے زیادہ اھم اور معنی خیز دکھائی دیتی هلیںی۔کن اگر ھم ان چیزون‬
‫کو اس ام کی اجازت دیں کہ وہ فلسفه ‪٤‬‏ سائنس اور عملی معلومات‬
‫کے بناۓےۓے ہوئۓ نظام کو درھم برھم کر کے ہاری دئیا پر قابض هو جائیں‬
‫کہ اس کا نتیجە ابتوری‪:‬ء بدنظمی ؛ آفننگق اور پریشانی کے‬ ‫ے‬ ‫ظواہر‬
‫ت‬
‫سوا کچھ نہیں هو سکتا ۔‬
‫فنون عاليه کاکام یه ےکە حسیات کے اس ھنگامے؛ جذبات کی اس‬
‫شوریدہ سری ء خیالات کی اس طوائف الملوی ء ارادوں کی اس خانہ جنگی‬
‫پاکر ہاری زیر و زبر دنیا کی نسےرے سشےیرازہ بندی‬ ‫پغرلب‬
‫اور‬ ‫آفری ف‬
‫۔لسفه ء سائنس اور عملىی علوم ؛ مثلاٌ اخلاق ؛ اجتاعیات‬
‫سیاسیات تو ان باغی و سرکش عناصر کو کچل دینے یىی کوشش کكرۓے‬
‫وہ انسانی شخصیت کے تاریک‬ ‫٭یں ء جس کا نتیجهھ یه ھوتاے که‬
‫گوشوں میں جاکر روپوش ھوجاۓ هیں اور وهاں ے اہی خانه برانداز‬
‫کارروائیاں جاری رکھتے ہیں ۔ فنون عاليه کا طریقہ مختلف ہے ؛ وہ ان‬
‫عناصر کو برقرار رکھ کر ء آن کی ہستی کا اعتراف کرکے ء ]ن کی‬
‫ایک نئےنظام کی صورت ما جمع‬ ‫اھمیت کو تسلم کر کے ؛ آن‬
‫کو‬
‫کرے ہیں ۔ انسانی تحجرے کی اس تشکیل نو کے معاملے میں شاعری کا‬
‫رتبہ سب فنون ہے بلند ہے ء کیونکہ وہ اپنی رسائی ء اپنی گبرائی اور‬
‫اپنے آلات کیقوت کے اعتبار ہے سب فنون عاليه پترفوق رکھتی ے۔‬
‫کوئی شاعرات کلام انسانی تجرے کے جتنے زیادہ علاقے کو اپنے احاطے‬
‫۔ین قسم کی شاعری‬ ‫تےر‬ ‫ہہ‬ ‫باہ بلند ہو‬
‫بتا‬ ‫ریآتُسک‬‫؛ آتنا ه‬ ‫می‬
‫لںےلے‬
‫‪‎‬م‪۳٣‬‬

‫اور علوم عقلی کےندام فکر کو بھی اپنے دامن میں‬ ‫ءنس‬
‫ائ‬‫سسفه‬
‫تو فل‬
‫انسافنی تجرے کے پہلو ہوتے ھیں ء‬ ‫ر‬
‫آیختو‬
‫وہ بھ‬ ‫نےکہ‬
‫وی ہ‬
‫کیٹیلیت‬
‫سم‬
‫پہلوؤں کے‬ ‫اوقات آن کے اور انسانی تجرے کدےوسرے‬ ‫ثر‬
‫اکہکوہ‬
‫بل‬
‫درمیان تضاد و تخالف کو مٹا دیتی ے ۔ آس کی قہرمانی قوت حسیات ‪:‬‬
‫رےد افکاو ء‬
‫جک‬ ‫جذبات ؛ خیالات ؛ آئۓ دن کی زندگی کمےعاملات ء فل‬
‫مسفے‬
‫کے قواعد ء طبیعیات ‪٤‬‏ فلکیات ء‬ ‫سائنس کے انکشافات ء علم ریاضی‬
‫پھلو کو‬ ‫ی‬‫کۓسکے‬
‫ءت‪:‬؛ غرض انمتانی تجرن‬
‫یعیااتسیا‬
‫ستا‬
‫حیاتیات ء اج‬
‫وںڑق بلک سب کو اپنیمملکت کیتعمیر و ترق کے لیے‬ ‫چہاھنہی‬
‫تن‬
‫کسی نہ کسی کام پر مامور کر دیتی ہے ۔ دنیا کے سب سے بڑے‬
‫شاعروں کی تلمیحات ؛ استعارات ء تشبیمہات ء رموز ء علامات ؛ کناۓء‬
‫علوم و فنون کو مح‬
‫ہیوطتے هیں ۔‬ ‫مضامین اور مطالب اپئے وق‬
‫تتمکاےم‬
‫لیکن ایک بڑے شاعر اور دوسرے اھل علم و فضل کے درمیان‬
‫یه فرق ھوتا ے که جہاں مؤخرالذ کر اس دنیا کو کسی خصوص علم‬
‫ہیں وہاں مقدمالذ کر کا نقطه نکاہ‬ ‫یہکےھتے‬ ‫یشاعبة علم کے نقطه نگ‬
‫داہ‬
‫توازن ھوتا ہے ء یعنی‬ ‫آفاق ھوتا ے اور آَس کا سب سے ممایاں وصف‬
‫کا ایک متناسب جزو بھی ہوتا ہے ء اور ‪٢‬س‏‬ ‫ےک‬
‫ییت‬ ‫وہ انسانی تج‬
‫کرل‬
‫کے اپنے اجزا بھی متناسب ھوتۓ ہیں ۔ یه ضروری نہیں که وہ شعوری‬
‫صیوص فلسفۂ زندی کو پیش کرے ء اور ند‬ ‫خکس‬‫اور علانیه طور پر‬
‫شاعر سےيہتوقعکیجاسکتی عےکہ آس کیتمامتخلیقات میں شروع ‪2‬‬
‫کی مطابقت ھوگ جو ایک فلسقی کی تحریروں‬ ‫لےکر آخر تقک ا‬
‫سسم‬
‫میں ہوتی ےکیونکہ آس کانظام فکرآس کی زندگی اور آس کےفنکے باهمی‬
‫فوعالنفعال کے زیر اثر آاہستە آعسته ترتیب پاتا ھے۔ وہ رشتہ جو آآس کے‬
‫افکار ک‬
‫آوپس‬ ‫کے متنوع‬ ‫قات‬ ‫خیلخت‬
‫یلف‬ ‫ختلف ادوار زندگی اور آ٘‬
‫تس ک‬
‫میں مربوط کرتا ے آس کیقوت متخیله کامسلسل عمل ہوتا ے‬
‫۔‬
‫مفیا‬
‫اتتکے‬
‫حت آس کتاخیل‬ ‫گونا گوں حاملات‬
‫تف؛رق تھیجات اور متغی رکی‬
‫ایک ھی طریقے پر عمل پبرا ہوتا ے ۔ وہ ہر تجرے ہے براہ راست‬
‫و صداقت کے ساتھ یا تو‬ ‫و‬
‫ؤص‬ ‫متاثر ھوتا ے اور اپنے تاث‬
‫خرات‬
‫لک‬
‫ىك‬

‫قلم بید کرتا رھتا ے یا اپنے دماغ میں حفوظ کرتا جاتا ہے ۔ دونوں‬
‫صورتوں میں شاعر تجربە بہ تجربهہ اپنا ایک ذاتی نظام کائنات ترتیب‬
‫هھوتا‬ ‫دیتا رہتا ے جو آ٘س کے نزدیک موجودہ نظام کائنات کا نعمالبدل‬
‫میں‬ ‫کی روشنی‬ ‫۔ وہ معیار ء وہ نصبالعین ء وہ منتہاے کال جس‬ ‫ے‬
‫زندگی ھوتاے ۔‬ ‫سس ک‬
‫فاۂ‬ ‫واہپنے نظام کو فائنق قرار دیت‬
‫فا ہ‬
‫لے آ‬
‫باوجود آتنا‬ ‫اور هنکامی خالفتوں کے‬ ‫تضادوں‬ ‫یه فقلسفة زندگی ظاھری‬

‫ماھر ؛لکیات کا‬ ‫ھی مکمل ء متوازن اور مربوط هھوتا ے جتنا کسی‬
‫‪Mir Zaheer Abass Rustmani 03072128068‬‬
‫نظام شمسی ۔‬
‫اس فلسفة زندگی کے بغیر شاعری حض ایک فانوس خیال ے جو‬
‫یریں کاغذ کے پردے پر دکھاتا ے ؛ جذبات کو‬ ‫صتوکی‬
‫ترا‬
‫حسی تاث‬
‫ریہ بازی ہے ء تفرجخو‬ ‫ہی‬ ‫برانگیختہ کرنۓ کا ایک نسخە بے ء الف‬
‫ماظ‬
‫ے یا ایک خواب آور دوا ہے ۔ یه فلسفةۂ زندگق‬ ‫له‬
‫غیک‬
‫شا ا‬
‫من ک‬
‫تفٹ‬
‫موجود هو تو شاعری نہ صرف ایک فن لطیف ہے بلک ایک زبدۂ علوم ء‬
‫کے بلکهہ‬ ‫حکمت‬ ‫ایک خلاصۂ فتون ء ایک فرھنگ دانش ء ایک دبستان‬
‫اپنے سب ہے اعلیل مقامات میں ایک کتاب معرفت بھی ے ۔‬
‫جب شاعری عرفان کے سوڑ پر پہنچتی ےے تو آ٘س کی مبڈھیڑ‬
‫وف جادۂ جستجو کا وہ راہ نورد ے‬‫صے ۔‬‫تق ہ‬
‫تصوف اور مذھب سے ہو‬
‫جس کی منزل مقصود جال حق کا وصال سے اور جو اس منزل مقصود کے‬
‫ہے رئا اکٹاز راہ ےج‬ ‫سے‬ ‫راہ نوردوں‬ ‫‪٤‬‏ دوسرنے‬ ‫مین مدھمک‬ ‫خیال‬
‫ھتا‬
‫جاہ‬
‫مر‬‫سان‬
‫کانش‬ ‫قکام‬
‫مای‬
‫ئامےکو‬
‫نمق‬
‫مناظر سے دلچسپی لیے بغیر اور هر‬
‫ہسوا آگے بڑھتا چلا جاتا ہے ۔ وہ جتنا آگے بڑھتسا ہے آتنی ھآیس کی‬
‫گتمنشدہگاءئی اخوارموشی میں ترق ہوتی چلیجات ہے ؛ کیونکە وہ‬
‫احپکناے مادی ماحول سے فرار ے ۔ شاعری تصوف کے‬
‫‪ .‬ایک انفرادی رو‬
‫ساتھ ساتھ چل کر چند مرحلے طے کرقی ہے ‪٤‬‏ لیکن ایک مقام پر آ٘س‬
‫کو یه احساس ہوتا ے کہ ‪:‬‬

‫پرم‬ ‫فروغ تجلى بسوزد‬ ‫برتر پرم‬ ‫وۓ‬


‫اگر یسکمسر‬
‫چنانچہ وہ وہیں رک جاتی ہے کیونکہ تصوف کیمنزل کی طرح‬
‫‪۵‬‬

‫نہیں بلکہ اس دنیا کیساکن‬ ‫کک‬


‫ییں‬ ‫آُسکی منزل فنا نہیں اور وہ لام‬
‫مکاں‬
‫سے اور لامکاں کی سیر محض اس لیے کرتیق ہے کہ تعمیر مکا‬
‫لںیکے‬
‫ے‬
‫مسالہ لاۓ۔‬ ‫چےھ‬ ‫وہا‬
‫کں س‬
‫ه‬
‫کےہ‬
‫مذہب آسان سے آترا ہوا ایک خضر راہ ے جس کا کام یہ‬
‫سفر زندگی کے طے کرۓ والوں کو آن کی حقیقی منزل کا پتا دےء‬
‫آنھیں راستے کے خطرات ہے آکاہکرے اور کنار راہ کی دلچسپیؤں کو‬
‫یخری‬
‫آنھیں بھٹکاۓ نە دے ۔ اس کام کے سراجام کی خاطر وہ انسان آ‬
‫منزل کا ایک ایسا نقشه پیش کرتا ےہ جو آُس کے موجودہ ماحول کا‬
‫ایک مشثالی نقشہ ےہ اور جس میں آس کے تجرے اس کی مادی زندگی کے‬
‫بق‬
‫طںاکے‬
‫مزوؤ‬
‫ئل لیکن آن ہےبہتر اور آُسکی اندرونی آر‬
‫مںاسے‬
‫مرہو‬
‫تج‬
‫ہوں گے ۔ یهآخری منزل انسان کی وہ جنت گم گشتہ ے جس کا تصور‬
‫کسی بھولے هوۓ حسین خواب کی طرح رہ رہ کر آُس کے حافظے کے‬
‫کسی گوشے میں سے آبھرۓ کی کوشش کرتا ے اور جس کو اس دنیا‬
‫میں حاصل کرنے کی تمناآے ے تاب رکھتی ہے ۔ مذھب اَسے ایک چنت‬
‫ی‬ ‫؛‬
‫ایس‬
‫موعود کیشکل میں تبدیل کرکے انسان کی موجودہ زند‬
‫کش مکشوں ؛آُس کے غموں اور خوشیوں ؛ آ٘س کی کمیابیوں اور‬
‫نی ہے‬
‫عو‬‫ملب‬
‫اور بدیوں کو ایک ایسے مط‬ ‫وں‬
‫یس کی‬
‫یںک؛ا‬
‫نوسیو‬
‫مای‬
‫محلیل کر تا ے جس کے بغیں یه سارا هنگامه محض ایک وحشت ناک خواب‬
‫۔ہب کا یکهارنامه ء کچھ اور هو یا نہ هو ایک ایسا کارنامة‬
‫ذھ‬‫متا‬
‫ھو‬
‫ے جو شاعری کی معراج ہے ۔ شاعری کا مقصد غائی اور آآس کا بنیادی‬
‫کو کسی ایسے منظرۂ وسیع کا‬ ‫جکرےے‬
‫تانی‬
‫جواز یہے کہ نوع انس‬
‫ایک حصہه بنا کر پیش کرے جو اس جابر ء متلون المزاج اور ناپائدار‬
‫هو‬ ‫کائنات کا ای نعم البدل ہو ؟ دوسرے الفاظ میں وہ وہ مشثال یىی دنیا‬
‫جس کی تصویر انسان کیروح کیگہرائیوں میں بسی ہوئی ہے ۔ مذھب‬
‫سی‬
‫یں‬‫اہی کی صورت مک‬ ‫وام‬
‫ےل‬‫ماشسثالی دنیاکا جو نقشہ پیش کرتا ک‬
‫برگزیدہ انسان پر نازل ھوتا ے ۔ لیکن عرش معلول کیجس لوح محفوظ‬
‫پرکلام الہیثبت سے اس کی ایک چھوٹی سی عکسی تصویر هارنسان کے‬
‫‪٦‬‬

‫سینے میں موجود ے ۔ کبھی کبھی عام انسانوں کو بھی یه توفیق‬


‫نصیب ہو جاتی ہے کە وە اس عکسی تصویر کو دیکھ سکیں اور‬
‫یہ لوگ‬ ‫الفاظ کی مدد ہے آہے دوسرے لوگون ہر درےثعاب کر کید‬
‫ان ک‬ ‫واہھل بصیرت شعرا ھیں جو شاعری کی دنیا کے تاجدار یں ۔‬
‫شاعری وہ ےے جسے ہم مثای شاعری کہہ سکتے ہیں اور جو فن انسانی‬
‫۔‬ ‫ے‬ ‫کاسدرة المنتہیل‬
‫دوسرا باب‬
‫شاعری کا سرچشمهھ‬

‫شاعری کی ماہیت دریافت کرۓ کا ایک ممکن طریقہ یہ ےہ کہ‬


‫که‬ ‫اُسکے منبع کا کھوج لگایا جاۓ ؛ یعنی اس اس کی حقیق ی جاۓ‬
‫وکہون سی قوت ہے جو آ سکو وجود میں لاتی عے ۔ شاعری کے جو ختلف‬
‫نظرے اس اسلوب تحقیق پر مبنی هیں آآن کو دو گروھوں میں تقسم‬
‫ابی کرو وہ ۓے جس کے مطابق شاعری ایک وجدانی‬ ‫متا وڈ‬ ‫‪7‬ا‬
‫و غشیعروری عمل کا ایک لطیفة غیبی ہوتی ہے اور دوسرا وہ جو آسے‬
‫روحانیت اور‬ ‫ے ۔ یه تفریق‬ ‫جہھتا‬
‫ممر‬
‫فکر کسا ث‬
‫عرقل و‬
‫فنی ریاضت او‬
‫اور سائنس ء عشق و عقل ؛‬ ‫صىب‬
‫ذ؛‬‫ممت‬
‫اور حک‬ ‫سیکانکیت ؛ تصوف‬

‫افلاطون کی ”'موسیتی؟ اور ”تیکنی؟“ اور اسلامی فلسفے کے اشراق اور‬


‫سشائی دبستانوں کے تنازعے ی ے شار صورتوں میں سے ایک صورت ہے ۔‬
‫یه عقیدہ کے شعرا تخلیقی قوت کے کسی سرچشمةڈ غیبی سے‬
‫فیض یاب ہوتۓ ہیں نوع انسانی کی تاریج کاہم عمر ے ۔ جب ناونعسانی‬
‫ا کابےتدائی ادوار میں تھی تو اُسکےپااسپتے ارد گرد‬
‫نومو‬‫اپنی نش‬
‫تےھ نباہ کررۓ کاایک ھویسیله تھا ء‬ ‫اس ک‬
‫سآ‬‫کی دنیا سکلےجھنے اور‬
‫یہی آآُس کا سارا سرمایه علم و حکمت ؛ آس کا فلسفہ ء‬ ‫یعنی جادو۔‬
‫آس‌کا مذھب ‪ :‬آ٘سکا قانون اور اس کا ضابطة حیات تھ‬
‫جاا۔دو کا بنیادی‬
‫مفروضہ یه تھاکہ فطرت کی مام اشیاء اور اُس کے تمام مظاہر جیتیجاگتی‬
‫ن جسوانوں کیطرح احساسات وجذبات رکھتی ہیں ۔ یه‬
‫چیزیں ہایں‬
‫چیڑیں اپنی مرضی کی مالک ہوقی تھیں ؛ تاہم آن کو متاثر کرنۓ کے‬
‫چند وسائل تھے جن میں جنتر منتر سب سے زیادہ اھمیت رکھتے تھے ۔ یە‬
‫جئٹر منتر ؛ جو چند مقررہ الفاظ و اصوات ؛ حرکات و سکنات کے محموے‬
‫هاے استعال‬ ‫قہ‬ ‫رے م‬
‫ینظم‬ ‫انسانی کے وہ سب سے‬
‫طپہل‬ ‫ہوتے تھ‬
‫نےطءق‬
‫‪۸۸‬‬

‫دنین کے علاوہ ایک‬


‫تھے جو آےۓ دن کے کام کاج ء میل جول ؛ لی‬
‫پیدا‬ ‫م‬
‫سو‬‫اور مقصد کی خاطسر یعنی فطرت کی قوتوں کے ساتھ راہ‬
‫کرۓ کلےیے اختیار کے گئۓے۔ ان میں جن صوقی و معنوی کیفیات کا‬
‫ھونا لازمی تھا ء وہ یہ تقاضا کرتے تھے کہ آن کے اجاد کرۓ والوں‬
‫قسم کسیاعی اوبرصری ذکاوت هاوگ۔رچہ یه‬ ‫خاص‬ ‫میں ایک‬
‫تھی ء‬ ‫ایک اجتاعی عمل موق‬ ‫ان کی اجاد تا‬ ‫که‬
‫قرین قیاس ے‬
‫تاھم یه بھی قرین قی۔اس ہے که جس طرح هارجتاعی عمل میں کسی‬
‫فرد واحدکے اجتہاد ذاتی اور ملکۂ رہن)|نی کا بڑا حصه ہوتاے ؛ اسی طرح‬
‫یه چٹتر منتر ایک خاص قسم کے لوگوں کی اختراعی فطانت کے‬
‫سرھون منت ھواکرے تھے۔ یہی وہ لوگ تھے جنھیں ھآمچکل شاءرکہتے‬
‫وہ اپنے مقاصد کی تکمیل‬ ‫اس ہے کہ‬ ‫عتراءم‬
‫مف‬ ‫یجہنتر‬ ‫ب‬
‫ج۔‬‫ھیں‬
‫امیاب ثابت ھوۓے تھے یا نہ عوے تھے ؛ عوام میں راع ہو جاے‬
‫مکیں‬
‫ہوں گے تو قدرتی طور پآرن کے موجدوں کے متعلق یه عقیدہ پیدا‬
‫هو جاتا ھوگا کہ وہ اشیاے فطری کے ساتھ کوئی پراسرار تعلق رکھتے‬
‫وں کر ممکن تھا کہ واہیسے راگ اور بول ایجاد کر‬ ‫ییە‬ ‫کنە‬
‫ہیں ء ور‬
‫سک جو ان آھیا' کوامتائر کراۓ کی ضلاحیت زکھتۓے تھں ‪٥‬‏‬
‫ای زبان "میں‬ ‫ات‬
‫ذاتباو‬
‫جساس‬
‫فطزت کمےظاغر و اشیاٴ ی انان اح‬
‫شش کے ساتھ‬ ‫کۓوکی‬‫ترجانی اور ان پر جادو کے عملیات سے قابو پا‬
‫ساتھ انسانوں کے ذھن میں یه خیال پیدا هوتا رھا کهە آن کے پس پردہ‬
‫کوئی اور قوتیں بھی ہیں جو مادی شکل میں ظاھر نہیں ھوتیں ۔ ان‬
‫و بد‬ ‫ے روحوں کانام دیا ء جن میں نیک‬ ‫غیہی قوتوں کو آنھوں‬
‫بھی‬ ‫وحییں‬
‫رداد‬
‫اج‬ ‫آنبکے‬
‫او‬ ‫دونوں طرح کک روحیں اور خصوصاً آ‬
‫شامل تھیں ۔ ان روحسوں کی خوشنودی حاصل کسرۓ اور آن کے‬
‫قہر غوضب سے بچنے کے لیےعبادت کے سیدے سادے طریقے نکالےگئے؛ جن‬
‫مگییںتوں کابڑا حصہ هوتا تھا ‪ -‬یگهیت بھی شاعر ایچاد کرے تھے ۔‬
‫چنانچە شاعروں کو مافوق‌الفطرت قوتوں اور انسانوں کے درمیان رسل و‬
‫رسائل کاکام بھی تغفویض ہوگیا اور یہ خیال کیا جاۓ لگا کہ شاعروں‬
‫‪‌3‬‬

‫کی خاص موکل روحیں هوق ہیں ج]ونھیں عاام غیب کی خہریں دیتی ہیں ۔‬
‫ران کاسا تن کےتیرکا مرا جوگیا۔ اتھوں ان اس سی‬ ‫کا ات‬
‫صلے مریںوحوں کو جنوں اور پریوں کی دل چشسخپصیتیں بخش کر‬
‫آنھیں انسافی زندگی میں حصہ لینے کی توفیق بخشی ۔‬
‫وظاہر کا‬
‫ا شروع شروع میں منفرد اشیا م‬ ‫نوع‬
‫ایک هنکامه کثرت ء ایک طوفان بدتمیزی تھا لیکن آس ۓ رفته رفتہ آن‬
‫میں ایک سلسلهۂ روابط دریافت کرنا شروع کیا۔ اس عمل کے لو بپهہلو‬
‫سک زبانء جو ابتدا میں اصوات فطری کینقل پمرشتمل منفرد اصوات کا‬
‫ررے‬
‫عیه‬
‫ت۔‬‫سرھی‬‫اتی‬
‫میں تبدیل هو‬ ‫؛وں‬
‫ر‬ ‫اھی‬
‫ع ت‬
‫تموعه‬
‫س مج‬
‫اربط‬
‫ایک ے‬
‫چیزوں کی مشابہتوں پر اشارت کرے تھے اور حسی نقشوں کے حجموعے‬
‫هھوے تھے (جنھیں عم آگے چل کر ممثالوں کے نام سے موسوم کریں کی‬
‫ان کاکام مہذب انسان کی زبانوں کے جرد الفاظ کیطسرح چیزوں ک‬
‫کے‬ ‫وات‬
‫قع‬‫ایا‬ ‫کروە بندی یا ان کے اوصاف کو بیانکرنا نتهھا ۔ یه‬
‫و اش‬
‫سلسله علت و معلول سے بھی کوئی تعلق نہ رکھتے تھے ء کیونکه ابھی‬
‫انسان نے حوادث فطرت کے بارے میں کوئی کلیے دریافت نہ کیے تھے ۔‬
‫استعداد بخشی که اس دنیا میں‬ ‫یه‬ ‫کو‬ ‫ان‬
‫سۓ‬‫نوں‬
‫اعار‬
‫ہہر حال ان است‬
‫کسی نظام کے وجود کا جو دھندلا سا احساس اُس کے ذھن میں پیدا ھو‬
‫پھر ایک بار‬ ‫رھا تھا ء اس کا اظہار کر سکے ۔ اس معاملے میں شاعر ۓ‬
‫صرف آۓ دن‬ ‫س‬‫اکے‬ ‫پوں‬
‫نوع انسانی کی رھبری کی ۔ جہاں دوسرے لوگ‬
‫کی ضرورتوں کے لیے استعاروں کی ہونجی وق تھی اور وہ اسی پر اکتفا‬
‫کھے پن کا‬ ‫نوکے‬ ‫کرتۓے تھے ء وہاں شاعر تحیر کی نگاہوں سے چی‬
‫ازوں‬
‫مشاعدہ کرکے آن میں نئی نسئشیابہتیں دیکھتا اور آن کے بیان کرتے کے‬
‫لیےنئے نئے استعارے وضع کرتا تھا سب سے بڑا کام جو آٌس ۓ کیا وه‬
‫استعاررے‬ ‫ان دیکھی اور ان جانی چیڑوں کمےتعلق‬ ‫یە تھا کہ آُ٘س ۓ‬
‫آن‬
‫وضع کے جو عام انسانوں کے ذھنی آفق پر منڈلا رھی تھیں لیکن جن کا‬
‫الفاظ کےتار عنکبوت میں گرفتا رکرنا آن کیقدرت ہے باھر تھا ‪ -‬یە چیزیں‬
‫کیا تھیں ؟ وہ پریشان کن سوالات جو ایک گڈمڈ دلیا ء جس میں آن کی‬
‫یں‬

‫انی جاعت بندی کی طرح کا بکھویئی قاعدہ قائون دکھائی نە دیتا تھا ء‬
‫آن کے دلوں میں رہ رہ کر آٹھا رھی تھی ء ایک ایسا نراج جس میں هر‬
‫چیز اپنی من مان کر رھی تھی ؛ ‪٢‬ن‏ کی روز افزوں نظام جوئی پگراں‬
‫گزر رھا تھا ۔ شاعر ۓ اس راج کو دیوتاؤں اور دیویوں کے راج میں‬
‫تی کر دیا ۔ ک‬
‫یاەرنامہ اس ا‬
‫ۓپنے قصه آفریں تخیل کی مدد ہے عام‬
‫استعاروں کیبنیاد پر دیومالا کاایک عظمالشان محل تعمبرکرکے انجام دیا‬
‫جس میں فطرت کتےمام سظاہر اپنی جلالی و جا ی صفات کے مطابق انسای‬
‫صورتوں اور سیرتوں سے مزین هو کر لیکن ساتھ ھی ساتھ مافوق الفطرت‬
‫قوتوں کے حامل بن کر جلوہ گر هوۓ ۔ جادو کی وہ چھوٹی سی دنیا جس‬
‫میں ھچریز اپنی مرضی کے مطابق انسانوں ے اچھا یا برا سلوک کرتیق‬
‫سلطنت کا ایک عصة بن کی ای ظرح ٹیک و نے‬ ‫تھی ‪٦‬ات‏ اش'غالمگیز‬
‫‪-‬اعر بھی‬‫روحوں ء جنوں اور پریوں کی دنیا اس کے تحت میں آگئی ش‬
‫اس سلطنت کے معار کی حیثیت سے رتبے میں اونچا ەوگیا اور دیوتاؤں‬
‫اور دیویوں کے مقربین خاص میں شار هوۓ لگا ۔‬
‫چنانچہ جب یونانی علم الاصنام ےۓ غبرفانی دیوتاؤں اور دیویوں‬
‫ایجاد کیے تو آن قصوں‬ ‫صےے‬ ‫انوں کے باھمی راہ و رس‬
‫قم ک‬ ‫سنی‬ ‫ااور‬
‫نفا‬
‫کے کرداروں میں علوم و فنون کی مقدس دوشیزائیں بھی تھیں ؛ جن میں‬
‫کی ۔ ھوس اور اُس‬ ‫سے ایک دوشیزہ کو شاعروں کی سرپرستی سہرد‬
‫کدےبستان کے حاسه نویس اپنے کلام کو اسی دوشیزہ کی تلقین وتحریک‬
‫ہے سوب کرۓ تھے ۔ اس دعوے کی صداقت کو اور تو اور افلاطون‬
‫جیسے سخت گیر فلسفی ۓ بھی تسلیم کیا۔‬
‫وم و فنون کی مقدس‬ ‫ایک مشسہسور روایست کے مطابق جب‬
‫دوشیزاؤں ۓ ہیزیڈ )‪(٥018611‬‏ کو جس نکۓاشت کاروں کے لیے ایک‬
‫منظوم ھدایت نامه لکھا ک‬
‫؛وہ هیلیکون (‪٥‬ہ[‪)611‬‏ پر اپنا جلوہ دکھایا‬
‫تو آنھوں اۓس کے ہاتھ میں زیتون کی ایک شاخ تم دی اور آآسکے‬
‫ت‬‫گوںیکے‬‫سینے کے اندر ایک نواے سروش پھونک دی تاکه وہ آنْچیز‬
‫گائۓ جو آوۓا ی تھیں اور ان چیزوں کےگیت بھی جو وقت کے آغاز سے‬
‫‪1‬‬

‫اعمیرںکا منصب پیغمبری‬


‫شاۓ‬
‫چںکآی تھیں ۔ یه تاربخی زم‬
‫پہلے ظہور می‬
‫پرغالباًپہلا باقاعدہ تقرر تھا۔‬
‫مذاھب کے ظہور کے بعد شاعری حقیقی معنوں میں جزو پیشمبری‬
‫اه ضرف محائف آذ ای بغی ضروات ‪٥‬‏ زبور؟ اخیل اور رات‬ ‫پیک‬
‫بلکه دوسری مقدس کتابیں مثاّ زند اوستا ء وید او رکنفوشٹس کے ارشادات‬

‫شاعری کی زبان میں ہیں ۔ یوں تو ان ساری کیساری کتابوں میں شاعری‬
‫استعال کیا ‪:‬گیا ے لیکن الہامی کتابیں خاص طور پر‬ ‫ام‬
‫وان‬ ‫کساس‬
‫َا‬
‫شاعرانه کلام کے جلیل القدر شاھکار ھیں ک‬
‫ءیونکە ومہ ا‬
‫ایوکراے تخیل‬
‫شع‬
‫بیہوں ء استعاروں کنایوں ء علامتوں ء‬ ‫نظام کائنات کا ایک مثای ےتمق‬
‫اور اسی قسم کی اور معنوی قدابیر کی مدد ہے یوں‬ ‫تمثیلوں ؛‪ +‬قصوں‬
‫نما حقیقت‬ ‫پیش کرتی ہیں کہ واہیک حقیقت مما افسانه یا ایک افسانہ‬
‫اتاگےر۔چہ یدهعوع واضح طور پر صرف صحائف آس|نی کے بارے‬
‫بن جا‬
‫آن یىی‬ ‫نی‬ ‫میں کیاگیاہے کہ وہ اصطلاحی معنوں مایلںہامی ہی‬
‫یںعء‬
‫القدس کی وساطت سے انبیا پنرازل ھوئیں ء‬ ‫عبارات من وعن ورحی‬
‫وحیا‬
‫کی‬ ‫مبنسے‬
‫سوب‬ ‫تاھم دوسری کتابیں بھی روحانی وجدان او‬
‫ارلقاے غی‬
‫جاتی هیں ۔ دونوں صورتوں میں مافوق الیشر قوتیں آن کا منیع و مخرج‬
‫ہیں ۔‬ ‫اک‬
‫تیی‬ ‫تص‬
‫جور‬
‫رب کے لاتعداد‬ ‫مرقغو‬‫مذاھب کی مقدس کتابوںن کے علاوہ مش‬
‫جدوان کا‬ ‫وافویا ۓ شاعری کو اپنے کشف و تجلىی اور عر‬
‫وفان‬ ‫او‬
‫صلی‬
‫وسیلهة اظہار بنایا ے ۔ اسی طرح دیا بھر میں بہت سے چوئٹی کے شاعر‬
‫سے باوجود کہ وہ ولی‬ ‫ایسے ھوۓ یں جن کے کلام کے ڈانڈے ؛‪ +‬اک‬

‫یاصوف نەتھے ء تصوف اور علوم سری و باطنی سے جا ملتے ہیں ۔ ان‬
‫میں چند ایسے شاعر بھی تھے جو پیغمبر هھوۓ کے بغیر پیغمبرانہ بصیرت‬
‫کے مالک سمچھے جاے ہیں ۔‬

‫نہیں کہ اکثر‬ ‫تلعجب‬


‫اس قاربخی پس منظر کے ھہوتے ھوۓ عح‬
‫شعرا ۓ ء کبھی شاعرانہ تعلی کےطور پر اور کبھی ایسے طریقے ہے کهھ‬
‫جس سہ تلی کا یقین صمیمی مترشح هھوتا ہے ء اپنے تلامیذالرح|ن اور‬
‫‪۲۳‬‬

‫حرم حرج راز هوۓے کا اعلان کیا ے ۔‬


‫غالب ایک شان تفاخر سکےہتا ے ‪:‬‬
‫اےمیں خیال میں غالب صریر خامه نواے سروش کی‬
‫میبض س‬
‫یھیەں‌غ‬
‫آے‬
‫حافظ صوفیانه انکسار کے ساتھ اعتراف کرتا ہے ‪:‬‬
‫اند آں چآهستاد ازل گفت ہاں میگوم‬ ‫تہ‬
‫شفم‬
‫اص‬ ‫درپس آئنه طو‬
‫دطی‬
‫اقبال ‪٤‬‏ جو ہمیشهہ تہمت شاعری ہے خائف رتا تھا ء قاری کو تلقین‬
‫‪0‬‬
‫مری‌نواےپریشاں کوشاعری نەسمجھ کہ میں ہوں حرمراز درون میخانه‬
‫ولیم بلیک [‪(٥:[8‬‏ ‪81٥‬اذ‪)٢٢‬‏ اپنے خط میں ایک دوس ت کو ابنی‬
‫ایک نظم کے متعلق لکھتا ےے ‪:‬‬
‫ہس‬ ‫”میں آپ اپنے منہ سے آس کی تعریف کروں تو کوئی مضائقه‬
‫کیونکە میں تو حعض آس کاحرر تاھاُ‪-‬س کےمصتف عالم بالا‬
‫کے رھنے والے ہیں ۔)؛‬
‫ولیم بٹلر ییٹس ‪(8٤‬‏ ‪ )8.۷۲. ٥7‬اپنی بہت سی نظموں ک شان نزول‬
‫جیسے کوئی مافوق الفطرت قوتیں سچ مچ پیکر‬ ‫کہە‬
‫یوں بیان کرتا ے‬
‫حسوس میں اس کے سامنے آ کر آآس سے شرعکمہلواتی تھیں ۔‬
‫شاعری قرار دیتاے ۔‬ ‫شیلے (‪[[٥7‬مط‪)8‬‏ خود پیغمبری کو جزو‬
‫چیز ہے اور‬ ‫آس کے نزدیک ”'شاعری یالحقیقت ایک ملکوتیق و جمروتی‬
‫شاعر ایک بالاتر از فہم الہام کے وہ مفسر اور نوع انسانی کے وہ معلم‬
‫قیکوقت‬
‫حراک‬
‫ہوتے ہیں جو غیرعرئی دنیا ی قوتوں کے ایک کشنی اد‬
‫و جال کے احساس سے وابسته کرکے مذادب کی داغ یل ڈالتے هن ‪٤٤‬د‏‬
‫اس سلسلے میں انگریزی کے لفظ ‪ 100159010851‬کے لیے ”الہام؛‪٤‬‏‬
‫ہم‬ ‫اکہ‬
‫س۔‬ ‫کے لفظ کااستعمال قدرے توضیح کا مقتضی معلوم ہو‬
‫جتای ے‬
‫اوپر ذ کرکر چکے ہیں الہام آن مذاھب کی جو صحائف آسانی پمرہنی‬
‫ہیں ایک خصوصی اصطلاح ہے اور اس ہے عبارت ان مذاھب کے بانیوں‬
‫کے وہ ذاتی تجرے ہیں جن کے ذریعے ان صحائف کی عبارات آن پر نازل‬
‫هوئیں ۔ یاهلہامی تجرے محض غیرمعمولی نفسی کیفیات یا روحانی واردات‬
‫‪۴‬ك‬

‫تھے جن میں کلام اللہی‬ ‫مظا سر‬ ‫عی‬‫قے‬ ‫نتەھے ؛ بلکەه عالم شہ‬
‫وود‬
‫ا ک‬

‫سمع و بصر کی قوتوں کے ذریعے انبیا ہر جلوہ گر ھچوناا۔نچہ آن‬


‫کذاکر استعارة نہیں بلکە لغوی طور پر ا‬
‫ءزاً نہیں بلک حقیقة ء‬
‫تضمینی معنوں میںنہیں بلک تعبیری معنوں میں کیا جاتا ے۔ کسی‬
‫غیں نبیکے بارے میںلفظ الاہاسمتکعاال لغوی معتوں میں تبودیھی‬
‫طور پرغلطہے کیونکہ ہے ہر بناے مفروضہ ایسےتجرے پیش ھی نہیں‬
‫آ سکتے ۔ رھا اس کا استعارة؟ استعال ء سو وہ باھنیتہائی سوءع ادب اور‬
‫استعال‬ ‫بدعت پرحمول کیا جا سکتا ہے ء بالخصوص اس لیےکە ا‬
‫طسریق‬

‫سے يہ ضعنینتیجہ نکلتاىےکہ انبیاکےتجرے مادی نقطۂ نگاہسےسچ مچ‬


‫‪:‬میں‬ ‫کے واقعات نہتھے ۔ غالباًیہیوجہ ے کە فارسی آ‬
‫وردو کاےدب‬
‫شتعرخالییقی قوت کیتوصیف یاتوجیہ کےلیے الہام کے لفظ کا استعال‬
‫ء‬ ‫ود‬ ‫بہت کم دکھائی دیتااے ۔ اس کے بجاۓ کشف ء تجلی ء الق‬
‫شاءہء‬
‫یاے ۔ یه الفاظ شاعرانه‬ ‫عرفانء وجدان ااور‬
‫نھی کے ممائل الفاظ ہےکام لگیا‬
‫قوت کے خارق عادت اور مافوق الفطرت خصائصکو توکا حقد آجاگر‬
‫‪0‬ت ہیں لیکن اس کے ایک اہمپہلو کو نظر انداز کر جاتے ہیں ۔‬
‫وہ اس کاعملی اور حری پہلوہے ۔ صوفیا و اولیا کےجن روحانی تچربوں‬
‫انفعا لی او‬
‫سرکونی‬ ‫کی بنیادی خاصیت ایک‬ ‫یه الفاظ ماخوذ ی‬
‫آںن‬ ‫سے‬

‫۔‬ ‫ھیںتی‬ ‫کیفیت ے جو سراسر حال ہوتی ہے اور قالہکےوئی تع‬


‫رلقکنہ‬
‫اس کےبرخلاف انبیاکے الہامی تجرے حال و قال کے جامع ہوتے ہیں ۔‬
‫آن میں حال مقصود بالذات نہیں هوتا بلکە حعض اویک‬
‫سیله قال ھوتا ےء‬
‫جس طرحقال اپنےہے ایکبلند ترمقصد ء یعنیپیغام التلٰھبیلکیغ کے‬
‫ہوتا ہے ۔ شعرا کتخےلیقی‬ ‫سیکا‬
‫لہ‬ ‫ذریعے نوع انسانی کفیلاح دا‬
‫ورین‬
‫تجرے میں بھی حال و قال کے عناصر دوکانہ موجود ہوتےۓ ہیں ء اگرچہ‬
‫یه ایک متنازعه فیة مسئلهہ ے کە آن کاکلام مقصود بالذات ھوتا ۓ یا‬
‫کسی اور مقصد کیتحصیل کاوسیله ۔ اس لیے اگرالہام کے لفظ کو آس‬
‫کے مذہبی ائتلافات سے معرا کر دیا جاۓ تو وہ شاعر کے تخلیقی تجرے کی‬
‫الفاظ سے کیہیں زیادہ‬ ‫ہپ‬
‫نری‬ ‫تج‬
‫مرے‬ ‫اےنہ‬ ‫کیفیت بیان کصرنوۓ ک‬
‫فےیلی‬
‫ایا‬

‫وہ‬
‫۔‬ ‫موزوں ہے ۔ اس ضمن میں ہم ایک معتبر سند کو کافی سمجھتے هیں‬
‫ڈاکٹر عبدالرحان بنوری کی کتاب ”محاسن کلام غالب؟' کایہ پہلا‬
‫جملہ ہے ‪:‬‬
‫اہ‬ ‫ا‬ ‫ا ا‬ ‫"ووقان ری ان ا‬
‫‪002+07‬‬
‫الہامی شاعری کی جو بہترین توصیف ہاری نظر ہگےزری ہے ء وہ‬
‫شیخ فریدالدین عطار ۓ ذیل کی عبارت میں پیش کی ہے ‪:‬‬
‫”چون از قرآن و احادیث گذشتی ہیچ سخن بالاۓ سخن مشائخ‬
‫؛ رحمة اللہعلیہم ؛ کہ سخن ایشاں نتیجةڈ‬ ‫طذریقت بت‬
‫است نہ مرۂ حفظ و قال و ازعیان است نە از بیان‬ ‫ول‬ ‫کا‬
‫حرا‬

‫لڈی ' انت‬ ‫است و از اسرار اشت يہ از تکرار است و از عام‬


‫ته از علم کسبی امت و از جوشیدن امت نے از اکومدن‬
‫اض‬ ‫نە از عالم علمنی ری‬ ‫از عالم ادبنی ری است‬ ‫و‬ ‫است‬
‫کھ 'ایشاں ورثۂ الیاآاند ں‪٤٤‬‏‬
‫یوں تو اس عبارت کا موضوع صوفیانہ کلام ے لیکن اگر آُسکے‬
‫مذھبی سیاق و سباق ہے قطع نظ رکر لیاجاۓ تو وہ الہامی نظریةۂ شاعری‬
‫کا ایک نہایت عمدہ خلاصهہ ے ۔‬
‫اگ ایک طرف ازمنۂ قدیمہ سے یہ عقیدہ چلا آ رہا ہے کہ کوئی‬
‫پر اسرار خارجی قوت شاعر کے اوپر تسلط حاصل کر کے آآس ہے شعر‬
‫طرف اس کے منطتی ضمیے ان طور پر اس‬ ‫تو دوسری‬ ‫کہلواتی ے‬

‫ایسی کیا۔بات‬ ‫مسئلےٗ کے خل ایق بھی کوشش کی کی ہے کە شاعر میں‬


‫غسوتی ے جس کی وجسهە ہے سروش غیبی یا روح القدس یا شاصری‬
‫کی دیسوی کی نگاہ انتخاب آس پر پڑتی ہے ۔ اس مسئلے پر فلسفیانہ‬
‫نے ۔ افلاطون کے نزدبیک‬ ‫نکته آفریٹی کا فخر تقدم افلاطون ک‬
‫حواصل‬
‫شاعری حسن کسو جسم کرئۓ کا ایک وسیلە ہے ۔ حسن ایک عالم بالا‬
‫یعنی ایک عسالم امشال کا مکین ہے اور آ٘سکا شعسور عقل کی حدود‬
‫کے اندر نہیں ھسو سکتا ؛ اس لیےشاعر کےلیے ضروری عے کہ اس کی‬
‫‪۲۰۵‬‬

‫عقل سلب ہو جاۓ ء یعنی آس کے لیے جنون لازمی ہے ۔ جنون دو طرح‬


‫کا هوتا ے؛ جنون بشری اور جدون اہی یا جنون سفل اور جنون علوی۔‬
‫افلاطون جنون علوی کی چار قسمیں قرار دیتا ےء یعنی پیغمبرانہ الہام)؛‬
‫یه‬ ‫کے‬
‫لق‬ ‫تع‬ ‫شا‬
‫معری‬ ‫القاء ء شاعری اور عاشتی ‪٤‬‏ اور پھر وہ‬ ‫صوفیانه‬
‫کہتا ے! ء‬
‫ہوق‬ ‫حوق‬
‫اک‬‫لوں‬
‫”جئون کی تیسری قسم وہ ے جو آن لوگ‬
‫یه‬
‫۔‬ ‫کا سايہ ہو‬ ‫یقد‬
‫زساؤں‬ ‫ون ک‬
‫شی م‬ ‫ےہ جن کے سر پر‬
‫دفٹو‬
‫ر‬ ‫ااوے‬‫ول کر جات‬ ‫ححلمیں‬‫جنون کسی لطیف اور منزہ رو‬
‫آس روح کے اذدر ایک خروش پیدا کسر کے آس ہے غنائیه‬
‫شجاعوں‬ ‫کے‬ ‫اقد‬
‫نوں‬ ‫زم‬
‫میں‬ ‫کلام تخلیق کراتا ہے ء جس‬
‫کے کارنامے آیندہ نسلوں کی ھدایت کے لیے بیان کیے جاۓے‬
‫لن الکن اک کسی اشخص کو ق الواقعمیه چون تا‬
‫عو اور وہ بت خاۓے ہے ذروازے پر آ کر دستک دے ء‬
‫]اآسمید پر کہ وہ هنر کے بل بسوۓ پر داخل ہو سکے کا‬
‫پڑتا ے ۔ اس‬ ‫ٹا‬ ‫یک‬
‫کا م‬
‫ھنه‬ ‫کسو ناک‬
‫دامی‬ ‫تسو ایسے شخص‬
‫میدان میں فرزانه دیواۓ کا مقابله نہیں کر سکتا ۔‬
‫کا کلام پڑھ‬ ‫ایک اور جگە وہ ایک داستان کو ہے جشواعروں‬
‫کر لوگوں کو سناتا تھاء یوں خطاب کرتا ے‪٢‬‏ ء‬
‫و‬
‫ملکه جو تمهیں ودیعت ھا ہے ایک فن یا نر نہیں ء‬ ‫دہ‬

‫وہ ایک الہامی قوت ہے ۔ تمقدوسی طاقتوں کے زیر اثر ہو‬


‫کیطاق‬
‫ھتے‬ ‫‪ ,...‬شاعر ایک لطیف الجبلت ؛ پروا‬
‫رز ک‬
‫اور وہ کوئی چیز خلیق‬ ‫اور مقدس ہستی ہوتا ہے‬ ‫والی‬
‫کم آ٘س پر ایک الہامی قوت‬ ‫تک‬ ‫نہیں کر سکتا جب‬
‫کاقبضه نہ ہو جاۓ اور آس کے حواس یکسر زائل نہ جو‬
‫دماغ مجَطل کر کرت تۓے‬ ‫ون‪-‬ی‬ ‫ا خد‬
‫عا ت‬
‫رج ا‬ ‫ا‬
‫ضہ‬

‫‏‪ ١‬۔ فیڈرس (‪80۵08‬ط‪ )8‬۔ م ۔ این (ورہ‪1‬ۃ) ۔‬


‫لف‬

‫اور پھر آنھیں اپنے پیغمبروں کے طور پر استعال کرتا ے ؛‪۶‬۔‬


‫کو یجەنون خدا داد لاحق ہو جاۓ اس کو حواس‬ ‫ج‬
‫شسخص‬
‫ظاھری کے بدلے حواس باطنی ء؛ عقل کے بدلے وجدان اور شعور ذات‬
‫نقشوں کی‬ ‫کے یرکخه‬ ‫۔اس‬ ‫عطا ہو جاتا ہ‬
‫حےو‬ ‫ات‬ ‫اتھ‬
‫ئشع‬
‫نور‬ ‫کے‬
‫ک سا‬
‫جگہ آسے جیتی جاگتی حقیقتیں نظر آلنگۓتی هیں ۔ عقل کے ورطۂ تذیذب‬
‫سے نکل کر وہ وجدان کے بجر بیکراں کاشناور بن جاتا ہے ۔ شعور ذات‬
‫وه ایک وحدت عظیمہ کے‬ ‫کی کثرت انگیزیوں ہے خالیالذھن ه‬
‫کور‬
‫احساس ہے معمور هو جاتا ے ۔ اگر خدا آسے اپنے ایک پیغمبر کے طور‬
‫ت‪2‬‬ ‫‪00‬ک ‪6‬‬ ‫‪۷‬وت کرے تی کے ای کے رفک‬
‫ساتھعقل کلکیقوتعامله بھیعطا کر دیتاہےتاکه وہ نوع انسانی کی‬
‫نئےسرے سے تشکیل دے سکے۔‬ ‫طک‬
‫اےبق‬ ‫زندگ'ٴ داری ن کو قوانین ال‬
‫مہی‬
‫منظور ہوتو‬ ‫ررعط‬
‫ناا‬ ‫اگرخسدا کو سے ایک صوف کا مسل‬
‫کسلستحی‬
‫آسے پردۂ شہود میں چھپی ہوئی حقیقت وجود کا جلوہ ارزانی هو جاتا ے‬
‫تاک وہ آئے اپتے اندر جذب کر سکے ۔ اگر آس کو شاعر کا کام سہرد‬
‫خلاق کا ایک حصہ بخش دیا جاتا‬ ‫هونا هوتوآیے شاعر از‬
‫تلخکیےل‬
‫آس کے نصیبوں میں عاشقی ہو تو وہ جذ‌به وصال جو‬ ‫تاکز‬
‫قالحقیقت فناے ذات کآیرزو ہے ؛ آ٘سکی ساری ہستی پر مسلط هجواتا‬
‫عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا هو جانا‬ ‫رت ‪:‬‬ ‫ص۔‬
‫وبہر‬ ‫ہے‬
‫اور فنا هوکر ان میں سےھر ایک اپنے آپ ے یه کہتا ے ‪:‬‬
‫دل ھر قطرہ ہے ساز انا البحر ‪ -‬ہم آس کے ہیں ہارا پوچھٹا کیا‬
‫اس جنون الٰہی کا دعوعل بعض شاعروں کی ایک اداے خاص ے۔‬
‫غالب کہتا ھے ‪:‬‬
‫بکرهاھوں جنوں می ںکیاکیاکچھ کچھ ند سمجھے خدا کرے کوئی‬
‫نە پوچھ وسعت میخانڈجنوں‌غالب جہیاەںکاسدڈگردوں‌ے ایکخا کانداز‬
‫دیکھااسد کوخلوتوجلوتمیں‌بارھا دیوائەگر نہیںے تو هشیار بھی نہیں‬
‫صحرا ہاری آنکھ میں ہشت غبار ے‬ ‫ججونشوں‌ی ےکچھ نظرآتا نوے اسد‬
‫اقبال کہتا ےد‬
‫ۓ‪۲‬‬

‫وہحرفرا زکہ ج ھکوسکھاگیاے جنوں خدا منجھفےس‌جمرئیل دےت وکہوں‬


‫کیاصوفو ملاکوخبرمیرےجنوں کی ‪۲‬نکاسردامن بھی !بھی چاک نہیں ے‬
‫فرزانگیست‬ ‫در کال ایں جنوں‬ ‫پنداری سخن دیوانگیست‬ ‫تا نے‬
‫دخلود کام را اعزشق خوںکرد‬ ‫ذوفنوں ‪:‬کرد‬ ‫آخرا زا عقنئ‪٢‬‏‬ ‫کت‬
‫کرد‬ ‫دان ما جتوں‬ ‫حکم نکته‬ ‫پسرسی‬ ‫فلک پیا چەہ‬ ‫ز اقبال‬

‫غالب و اقبال ھی پر کیسا منحصر نے ء شاعری رکے میدان میں‬


‫جنون ککیاوفرمائی فارسی و آردو کے اکر شعرا کا ایک مرغوب‬
‫موضوع سے ۔‬
‫وو کےمعروف شعرا میں (غالباً دو جذوب صوفیوں‬‫رد‬ ‫آرسی‬‫ھت فا‬
‫یعّی سرمد اور باہا طاہسر عریاں کے سوا) ایسے کسوئی شاعر نظر نہیں‬
‫یورپ‬ ‫آے جو ا‬
‫فلیواقعه دیواۓ یا دماغی اساض میں مہتلا تھے ‪٤‬‏ لیکن‬
‫کے ادب میں ایسے شعرا کافی تعداد میں ملتے ہیں ۔ ان میں انگریزی‬
‫کے شعرا کولنز (‪٢ )801[[60‬‏ سارٹ (م‪۵6‬ػو‬
‫ش‪ )8‬ک‬
‫؛وہر (٭ەم‪۳‬ہ‪)0‬‬
‫"×وع‪ )3:3‬ء اور‬ ‫بلیک (‪٥‬ء[ہ[‪)8‬‏ ء ایڈگر ایلن ہو (‪ 662‬صداتھ‬
‫ایزرا پاؤنڈ (‪ )8822 900102‬؛ جرمن شاعر نوولس (ەن[ہ‪)٥٦٦٣‬‏ اور‬
‫فرانسیسی‬
‫شاعر جیرارد نروال ‪([٥٢‬‏ ‪ 4[۶٥٦06) 64 ٥613‬خاص طور پر‬
‫میں سے بعض کو اپنے جنوں کا صرف علم ھی نه‬ ‫ان‬
‫۔‬ ‫قابل ذ کر ہیں‬
‫تھا بلک آس پر فخر بھی تھا۔‬
‫بلیک یىیصوفیاند مجذوبیت کا ایک نمونہ ملاحظہ ہو ‪:‬‬
‫”میں اپنے متعلق یه دعوىٰ کرتا ہھوں کہ میں خارجی کائنات‬
‫ایک‬ ‫لیے وه‬ ‫میرے‬ ‫وٹااات‬
‫می‬‫کو آنکھ آٹھا آکن' ہدویک‬
‫مزاحمت حے ؛ نہ کہ محد عمل ۔ مجھ سے یہ پوچھا جائۓ کا‬
‫تمھیں ایک قرص آتشیں‬ ‫کہ ”جب سورج نکلتا ےٴ تکویا‬
‫ےا‪942‬‬ ‫دکھائی یں دیتا‪ +‬جو ایک اشرق لے مشابہ هوتا‬
‫نہیں نہیں ؛ جھے تو کو کبۂ آسانی کا ایک دسته دکھائی دیتا‬
‫ہے جو بلئد آواز ے یم حمدیه ترانە الاپتا ےکە 'مقدس ۓے‬
‫ذات باری جس کے جلوے کے آگے یه آفتاب ایک ذرہ ے ‪-‬٭‬
‫‪۲۸‬‬

‫میں اپنیجسانی آنکھ ہے کچھ نہیں پوچھتا ءج؛س طرح میں‬


‫ایک کھڑی سے کسی منظر کے متعلق کوئی سوال نہیق‬
‫کرتا ۔ میں اس کی مدد ہنےہیں دیکھتا بلک اس کو ایک‬
‫پردہ سمجھ کر اس کے پاگرزر جاتا ھوں ‪٤٤‬‏‬
‫بلیک اقبال کی اس ھدایت پکراربند تھا که ‪:‬‬
‫ظآانعکرھیسےنەتماشا کرے کوئی ہو دیکھنا تو دیدۂ دل واکرےکوئی‬
‫نوولس کا نظریه ھی یہتھا کہ شاعری جنون کے بغبر ممکن نہیں ۔‬
‫چنانچہ کوہتا ے ‪'” :‬شاعر حض از خود رفتہ نہیں بلکہ صحیح معنوں‬
‫میں حواس باختہ ہوتا ے ۔ اس کے عوض میں شاعری کا معجزہ اس کے‬
‫و‬ ‫ع می‬
‫رںوض‬ ‫بطون ہے از خود صادر ہوتا ہے ۔ وہ لغوی معن‬
‫موں‬
‫۔)“‬ ‫کچھ ھوتاے‬ ‫پیک وقت سب‬ ‫موضوع)؛ خارج و باطن ٭ اناو ماسواء‬

‫جیرارد نروال کے یہاں التباس خارج و داخل کا یه حال تھا کە‬


‫وہ اپنے احساسات و تصورات اور خارجی حقائق میں کوئی تمیز نکهرتا‬
‫تھا اور آس کاعقیدہ تھا که مارے ارد گرد کی چیزوں کا ان چیزوں ہے‬
‫جن کا وجود ہمارے دماغوں میں هھوتا ے؛ ایک نہایت گہرا تعلق هوتا‬
‫ہے ؟ چنانچہ مارے خواب اور ہارے واہمے حقیقت آہے ماسلک ہوۓ‬
‫ہیں ء چاےے ہمیں اس کا علم هو یا نەهو ۔‬
‫چند شاعر ایسے بھی ھوُۓ ھیں جنھیں نە جنون اٰلہی تھا نجەنون‬
‫بشری ء لیکن وہ جنون کو شاعری کے لیے ناگزیر سمجھتے تھے اور اس‬
‫لیے ُس کے علائم کو مصنوعی طور پر پیدا کرنۓ کے قائل تھے ۔ مثاے‬
‫فرانسیسی شاعر ریمبو (‪91:800[6‬ا) اپنے اس نقطه نگاہ کو ذیل کے‬
‫‪2‬ء‬ ‫ی‪2‬‬
‫بننا چاے آس کےلیے جو چیز سب سے ضروری‬ ‫عصر‬ ‫”ج‬
‫شواشخ‬
‫شاعر‬ ‫جاننا ۔‬ ‫وه اپنے آپ کے جاننا اے ؛ء مکمل طور پر‬ ‫ے‬

‫کی چایچ پڑٹال کرتا‬ ‫اپنی روح کو غور سے دیکھتا ے ‪٤‬س‏‬


‫آکو‬‫ہے ؛ آس کو آزمائشوں میں مہتلا کرتا ے اور جب س‬
‫بالآخر پوری طرح پہچان لیتا ے تو پھر اس کی قرببت کرتا‬
‫‪5‬‬

‫ہے ‪ , , ....‬ضرورت اس بات کی ہویق ۓے که روح کو‬


‫کی ما اکامتی‬ ‫ا‬ ‫ا ‪00 0‬‬
‫شدید اور سوچے سمجھے طریقے سے اپنے حواس کو ختل‬
‫کر کے اپنے اندر بصیرت پیدا کرٹا ے ‪ . . . .‬وہ اپنے آپ‬
‫کو سب ہے بڑا مجرم ء بلکہ خود ابلیس (جو سب سبےڑا‬
‫عارف ۓ) بنا ڈالتا ے ‪_)٤‬‏‬
‫روحائنی خود کشی کے اس نسخے ۓ دنیا کو علامتی تحریک کے‬
‫ے‬‫یکے‬ ‫روح ؛ جس کی پرو‬
‫لرش‬ ‫وهق‬ ‫ابخشے‬
‫غ۔ی‬ ‫چندٴبھترین شاہک‬
‫طار‬
‫رعبو اتنے جان جوکھوں کے جتن ضروری سمجھتا ہے ؛ کبھی کبھی‬
‫فظرت ی انلچی بن کر وذ بخود بھی آتی ے ۔ اسے قدیم یونانی ڈیمن‬
‫لوگوں‬ ‫(ھ‪ )]006030‬یعنی دیو کہتے تھے اور اس کاکام خاص الخاص‬
‫پر ء جن میں شعرا بھی شامل تھے قبضہ کر کے آن سۓ کارهاے نمایان‬
‫و‬ ‫ییف‬ ‫القدس اور صوفیا کی‬
‫حتبل‬
‫ری ک‬ ‫ح‬ ‫کرانا تھا ۔ یه مذ‬
‫رھبوکی‬
‫نو‬
‫ون کو حیط تھااور تو‬ ‫فوم‬ ‫حلیف تھی اور احسلکا‬
‫قه اثر سارے عل‬
‫اگوورئٹے (‪ )68606‬بھی ء جموغری ادب کی ٹاری کے چار سب ہے‬
‫علاوہ فثکار کیصحت دماغی کا آیکتا‬ ‫بڑے شغرا میں شمار کے بعارتک‬

‫مثا مینمونہ سمجھا جاتا ھے؛ اس کامعتقد تھا۔ گوئۓتوگوئے؛ صوفق منش‬
‫آک‬
‫گےے سر تسلم خ‬
‫کمرقا تھا ۔ وہ ””جنت‬ ‫بلیک (‪٥‬اه[ظ)‏ بھی اس‬
‫گم گشتہٴ“ کے مصنف ملٹن )‪(06111١‬‏ کے بارے میں یه راۓ ظاعر‬
‫لکھتا ےہتو ایسا‬ ‫عک‬
‫لےق‬ ‫تشتوں‬ ‫دا اور‬
‫م فر‬ ‫‪:‬ملین‬ ‫‪157‬‬

‫معلوم ھوتا ے کە آس کا قلم پا بہ زنجیر ہے ؛ لیکن جب وہ شیطان اور‬


‫حک‬
‫وےال بیان کرتا ہے تو وہ آزاد دکھائی دیتاے ۔ اس ی‬ ‫دو‬
‫ازخغ‬
‫و‬ ‫وجھ یه تھی کە وہ ایک حقیقی شاعر تھا اور ابلیسی کرؤة ‪ ۴‬و‬
‫جس ابلیس کی قاعری کا اعتراف ان نقطه ھہاےۓ خیال میں مضمز مے‬
‫وہ‬
‫وھی ابلیس ہے جو اقبال کے مکالمة جب‬
‫ارییللویس میں جبریل کاےس‬
‫دی‬
‫تویےنہۓک‪:‬یسجاہان رلک و ہو ‪“8‬‬ ‫دہم‬ ‫سو‬
‫”ا ک‬
‫حاک‬
‫جواب یوں دیتا ے ‪:‬‬
‫‪۳٣‬‬

‫”سوز و ساز و دردو داغ و جستجوے و آرزو؛؛‬


‫”سوزوسازو دردو داغ و جستجوے و آرزو؛؛ کو فارسی و‬
‫او مجموعی نام دیتے ہیں ۔ اس‬ ‫آرڈوے جوا اکھی کی ”'داغ‬
‫داغ جگر کے طبیعیاتی اوصاف پشرعرا نوک قلم سے جو جراحت کاریان‬
‫کیا کرتے ہیں آن کی خونیں نقش طرازیوں ہے فارسی آ‬
‫وردو کی شاعری‬
‫نظر ء وہ اپنے علامتّی‬ ‫نہ‬
‫طےع‬ ‫اق‬ ‫ایک لالہ زار دکھائی دیت‬
‫لییسے‬
‫ک۔ن‬
‫معنوں میں شاعر کا وہ جذبه تخلیق ہے جو آسے ھمیشهہ آتش بجاں رکھتا‬
‫لسک‬
‫یےے‬ ‫آِ‬ ‫ر‬ ‫عے ۔ یہجذبه آس کیطبیعت میں جبلفً موجود ہوت‬
‫ااوہے‬
‫اقبال کے‬ ‫ھوتا ےے ۔‬ ‫فطرت کی طرف ے عطا کیا ھوا ایک نگین نیایت‬
‫ز‬ ‫کی تیغ جگر دار؟؟ء ”س‬
‫سوزاو‬ ‫الفاظ میں وہ ''شرار زندگی)؛ ‪٤‬‏ ”عشق‬
‫رومی؛‪٠‬ء‏ ''سر خلیل“ ء ”ید بیضا؟ اور ””دمت کلم؛' ہے اور‪] .‬سی ہے‬
‫معجزه فن کی ممود ہویق کےیونکہ وہ اس عشق کا مترادف ے جو ”دم‬
‫جبریل؟' ء '”'دل مصطفیل؟ٴ ؛ ”'خدا کا رسول؛“ اور ”خدا کا کلام؛‪٤‬؛ے۔‏‬
‫اد شاعر کاداغ جگر الہام اور جنون ال ٰھیکی طرح ایک عطیهۂ‬
‫وھبی ھوتا ہے لیکن وہ ایک ایسا چشمہ ے جس کے جاری رکھنے کے‬
‫لیے مسلسل سینه کاوی کی ضرورت ھہوق ہے ؛ اس لے آُس ے فیض یاب‬
‫ہونا شاعر کےلیے اکثر جوئۓ شیر لاۓ کےبرابر ہوتا ےہ ۔‬
‫ء صصدبح بل‬
‫خایزرے‬ ‫ص‬
‫شدبناگلیرے‬
‫صد آہ شرر ریزے ء یک شعر دلآویزے‬
‫لیکن وہ وسیله جس کی مدد سے شاعر اپنےداغ جگر کو صفحۂ کاغذ‬
‫پر جرلوہ‬
‫کرکتا ےہ محض فکنایریگری نہیں هوتا ۔‬
‫ععتہ اسر اتے عنم‬ ‫اه‬ ‫نیست‬ ‫بازو‬ ‫بزور‬ ‫ایں سعادت‬
‫اس سعاد تکو جوھر قابل ء فطانتء فطری ملکھ ء نبوغ ء ”جیٹیس؟‬
‫(‪80‬ات”‪٥‬ع)‏ اور اس کے مائل ناموں ہے موسوم کیا جاتا ہے اور یہ وھی‬
‫چیز ےہ جو نبیوں کاےلہام میں عمل کی معجزانه قوت؛ صوفیوں کے انجذاب‬
‫میں بقول عطار ””کاروحال؛؟ اور دیوانگان ابلی میں فرزانگی ہوتقی ہے ۔‬
‫اسے حواس کی ایک غیر معمولی ذکاوت ء ادراک کی ایک عجیب و غریب‬
‫شا‬

‫وونٹا ‪۷‬ابداءع ذ اغتراع ی ایک زبردمت قابلیت ء یل کیدور ری ء‬


‫بصیرت کی گیرائی ء جذبات کی ہمہ گیزی ء ہرشئے لوق کے ساتھ‬
‫ء‬ ‫اک‬
‫قیت‬ ‫صمیمی هھمدردی ؛ سظاہر کائنات میں لنئے‬
‫ئے روابط دیک‬
‫طھنے‬
‫انسانی فطرت کاےسرار و غوامض کعالم ء شاعرانہ تجربوں کو زندہ‬
‫حقیقتوں کی صورت میں دوسرے لو‬
‫مگونںتتک‬
‫قل کرنے کاسیتعداد اور‬
‫اسیقبیلکی اور بہتسیچیزیں کہا گیاھے ۔ ان ختلف توصیفوں میں‬
‫جو چیز قد‬
‫ر مشت رک گے ء وہ یہ ے کہ وہ الہامی واردات ہے مستفیض‬

‫ھوۓ کےکسی نہکسی جبلی و فطری وسیلےکیطرف اشارہ کرتیق ہیں‬


‫نبیکاادی مفروضہ یہے کہ جس طرح شاعرائه الہام ایک‬ ‫اور ابن س‬
‫وجدانی وغیر شعوری چیزہے ؛ اسیطرح اس کو ایک شعری تخلیق میں‬
‫جسم کسرۓے کا عمل بھی عقل و ارادہ کیحدود ے باھر ھوتا ے یا‬
‫کم از کم اس عملکاحرک اصلیدائرۂ شعورکے اندرنہیںهوتا‪-‬‬
‫فیلے (<ہ‪[[٥‬ہط‪)8‬‏ اس نکتے کو یوں بیان کرتا ےے ‪:‬‬
‫”'شاعری فکر کے عمل ہے کوئی مشابہت نہیں رکھتی ء یعی وہ‬
‫ایک ایسی قوت نہیں جو ارادے کے زیر فرمان ہو ۔ کوئی‬
‫شخص یکا یک بیٹھے بٹھاۓ یە اعلان نہیں کر سکتا کہ ''اب‬
‫میں شاعری کروں کا“۔ کسی عام انسان کا تو کیا د کی‬
‫بڑے ہے بڑے شاعروں کے لیے بھی لہ اعلان چھوٹا منہ‬
‫ایک‬ ‫سن‬
‫افس‬
‫نی‬ ‫بڑی بات ھہوکا کیونکہ تخلیق کے عم‬
‫النمیں‬
‫ہوتا ے جسے کوئی غیر سرئی‬ ‫رکی‬
‫ح‬ ‫پچھتے ہوۓ انگ‬
‫طارے‬
‫اثر ھوا کے ایک آوارہ جھوتٹکے کی طرح عارضی طور پر‬
‫دھتا دوتا‪ :‬تہ ‪ -‬یه غبل مائی' اثر اشاعرٴ کانےدر ھی نے‬
‫ھوتا ے ؛ جیسے ایک پھول کا رنگ‬ ‫اضطراری طو‬
‫پریپدرا‬
‫آس کی نشو‬
‫و نما کے دوران میں اندرونی قوتوں کے زیر اثر‬
‫بدلتا رھتا ے اور ماری طبیعت کے شعوری حصے نه اس کی‬
‫آمد کیقبل از وقت اطلاع دے سکتے یں اور ند آس کے‬
‫رخصت ہو جائۓکیخبر ۔ اگر کسی طرح یہ اثراپنیاصلی‬
‫انا‬

‫صورت میں اور اپنی اصلی قوت کے ساتھ برقرار رہ سکتا تو‬
‫اس‬ ‫ی۔‬
‫کن‬ ‫ل‬
‫وۓ‬ ‫اس کے نتامج آکتتے عظمالشان ھ‬ ‫جاۓ‬ ‫خدا‬

‫واقعد یہ ے کہ جہاں شعرگوئی کاعمل شروع ھوا وھیں‬


‫وجو‬
‫ا شع‬
‫تیق‬ ‫کہ ق‬
‫لوت‬ ‫تقاضا ؛ یعن‬
‫ری و‬ ‫الہام ٭ اندروئی‬ ‫یئ‬

‫سے ء رو بزوال ہوئی ۔ چناتچە شاندار شساےندار شاعری جو‬


‫اھل دنیا پتہکتچی ہے وہ بھی غالبا شاعر کے اصلىی تصور کا‬
‫ایک دھندلا سا عکس ہے ۔‪٤٤‬‏‬
‫کولرج (‪٥‬ع‪4‬ذ‪)00[٥‬‏ کہتا ے ‪:‬‬
‫اش بات کا شعور نہیں ھوتا که وہ نشو و نا پا رھا‬ ‫اپودے! کو‬
‫ہے ۔ اس‬
‫طیسرح جوھر قابل کاعمل غیر شعوری طور پر ھوتا ے ۔‬
‫جوھر قابل کاکمال اسی میں ہوتا ہے ‪:-‬؛‬
‫(‪[٥٥۲٥]۷) 8010۲‬‏ ایک مصور الستیر کو تصویر‬
‫مارسل پروسٹ ‪7‬‬
‫بناتۓے ہوئۓ پیش کرتا ھے ‪:‬‬
‫”الستیر ی یهکوشش که حقیقت کے روبرو اپنے آپ کو ہر عقلی‬
‫پیشترکه‬ ‫چیز ہے خلول کر لے بڑی قابل تعریف تھی ۔ یہ شخص اس ے‬
‫تصویر کھینچنے بیٹھے؛ اپنے آپ کو عمداً جاھل مطلق بنا لیتا تھا چ۔نانیه‬
‫ھےو بیٹھتا‬ ‫کھ س‬ ‫وہ اپنی دیانت مقصد کے باعث اپنے فن کی اٹکل بھی ھات‬
‫تھا ۔ جو چیز انسان کے علم میں آجاتی سے آس کی بجاۓ خود کوئی ہستی‬
‫نہیں رہتی ۔؟>‬
‫تخلیق کے عمل میں عقل کو عمداً معطل کرئنۓ کی یه ایک انتہائی‬
‫صورت ہے ۔ بہر حال اس مثال میں ایک باریک نفسیاتی اور مابعدالطبیعیاتیق‬
‫تکتہ مضمر ہے ۔ علم و فکر اپ‬
‫منوےضوع کو حدود کر لیتےهیں ء اس کو‬
‫اور اس یىی حو دسی بذات خود‬ ‫ہیں‬ ‫جڑ دیتے‬ ‫ایک چ وکوٹے میں‬
‫یعتی آس کی حقیقت نفس الامسی ؛ وہ سلب کر لیتے ہیں ۔ وہ‬ ‫تھی‬
‫اور ایک‬ ‫ایک ضابطه معلومات یا رابطۂ افکار کاایک حصه بن جاتا ے‬
‫جب‬ ‫۔چہ‬
‫ن‬ ‫اعے‬‫تا‬
‫ن‬ ‫چجا‬
‫ہو‬ ‫وود‬
‫اب‬ ‫حیثیت سے نی‬
‫نست‬ ‫کل کی‬ ‫نار‬ ‫خود‬
‫کام‬ ‫ہے‬ ‫تو ُس وقت و فکر‬ ‫هوتا ے‬ ‫میں مصروف‬ ‫فنکار تغخلیق ک‬
‫عےمل‬
‫‪٣۳‬‬

‫کو استعال کرتا ہےتوصرف اس‬ ‫تقلىی‬


‫وں‬ ‫ہیں لیا ۔ اگر وہ‬
‫قاپن‬
‫وی ع‬
‫وقت جب وہ اپٔی لکھی یابنائی ہوئی چیز پرنظر انی کرتا ہے ۔‬
‫لماغور' کا عویة ‏ ‪:‬کرنے والے نفسیات دانوں کا امام فرائیڈ‬
‫(‪ )00671‬؛ جس کے نزدیک شاعری شاعر کے لیے دبی ہوئی خواہشوں‬
‫کا ترفع ء ناکامیوں اور حرومیوں کا ایک معاوضه اور اعصابی عارضوں کا‬
‫انسداد یا نعجلیاج وی ے؛ شاعری کو خوابوں کی زبان اور نس‬
‫غیر شعوری کی ایک قدرتق‪ .‬پیداوار کہتا ہے ۔ نفس غبر شعوری ]‪۲‬س کے‬
‫اسنثنا‬ ‫خیال میں ایک شعر آفریں عضو ہے ؛ کیو ںکه وه آن حروف‬
‫کے بغیر کام کرتا ہے جو منطق کا جوہر ہیں ء‬ ‫[‏ھ‪)00‬‬ ‫(ص‪”8‬نہ ذ‬
‫ا‪٥٥‬‬
‫یعنی اس کے لیے ”'چوں کە؛“ ”الہذا“ ”لیکن؟؛ کوئی معنی نہیں رکھتے۔‬
‫جس طرح مشاہہت ؛ موافقت اور مجانست کے تصورات خوابوں میں نمثالی‬
‫پیکر بن ک‬
‫یروں حواس کسےامنے آتےہیں کہ ائمل ہجےوڑ چیزوں کے‬
‫ایک جگہ جمع ہونۓ سے ایک عجیب و غریب وحدت پیدا ہو جاتی ے؛‬
‫شیاطرعحر کاتخلیقی عمل آآسکگےزشتہ غیر شعوری قیربات کے‬
‫اس‬
‫متفرق اجزا کو لے کر اضطراری طور پر تجرے کی نئی نی صورتیں پیدا‬
‫"کڑتا ید‬
‫یونگ (ع‪)0٥0‬‏ فۓرائیڈ کے انفرادی لشاعور کے مقابلے میں‬
‫اجتاعی لا شعور کا نظریه پیش کیا ‪٤‬‏ جے وہ چند قدعالاصل بنیادی‬
‫نقوش کاایک ذخیرہ کہتا ھے جو اوائلی انسانوں کے ذھنوں ہر آن کے‬
‫تجربوں کے زیر اثر م‬
‫ترسم ہوئۓ ۔ یه آمہات النقوش ء یبهنیادی تمثالیں‬
‫اُسکے نزدیک نە صرف ایک قسم کی شاعری کا(جسے وہ ار‬
‫شادی‬
‫عووری‬
‫شاعری ے متائز کرتا ے) مواد خام ھیں بلکه اپنی هیٹتیں اپنے اندر‬
‫رت کر وی ہیں۔‬ ‫وو‬‫صلق‬‫ری کیخا‬ ‫عیے‬‫اسل‬ ‫مضمر رکھتی ہیں او‬
‫شرا‬
‫شراعری تجلی کے عالم افروز لمحوں اور داغ جگر‬
‫یہاں پہنچ ک‬
‫کگےوہر شب چراغ سے حروم هکور حض انفرادی اور اجتاعی لا شعور‬
‫کے ناپیدا کنار دہندلکے میں ممٹاۓ والے چراغوں کی لو بن جاتی ے۔‬
‫یه م‬
‫جس‬ ‫ھاە؛‬ ‫قام وجدانی و غیر شعوری نظریة شاعری کا نقطه اخراف‬
‫بر‬

‫طرح اس نظرے کا انتہائی دعوعل یه ے کہ شاعری آسان کی زبان ےء‬


‫اسی طح اس کے حالف عقلی و تکنیکی نظرے کیانتہائی صورت یه اعتراف‬
‫ے کە شاعری حض الفاظ کی کاری گری ہوتی ہے ۔ بعض شعرا اس کو‬
‫اپنی فگیزکاارری کے حق میں تسومہیجنھتے ہیں کہ انھیں کسی‬
‫غیبی قوت کے ہاتھوں میں محض ایک آله سمجھا جاۓء چاے وه‬
‫روحالامین ہو ء چاے شاعری کی دیوی ؛ چاے کوئی موکل جن ۔ یا آن‬
‫ان ے‬ ‫کا ائکسار یگوەارا نہیں کرتا کہ وہ زسین کے باشتدے هآوس‬
‫کر‬
‫ناتا جوڑیں ۔‬
‫بودلئیر (‪ )68181401:48‬اۓلہام کی یه تعریف یىیےکە وہ عض‬
‫کی سحنت کا نام سے ۔ ولیم سورس (‪ 877011‬دد‪)٢۲٢[811‬‏ سرے ہے‬ ‫اےادت‬
‫ےت‬ ‫کی ام‬ ‫ا کے وجوڈ ہی کاقائن مان اور ان‬
‫آڈن )‪(5٥۸4‬‏ الہام کو محض ایک اتفاق اس سمجھتا ے اروکہتاے ‪:‬‬
‫”شعر گوئیکی تحریک اور الہام ک اصلیت میرے نزدیک صرف‬
‫یه عے کہ تعمیر اور کاریگری کی قدرت میں کسی برق‬
‫توانائی کی ایک لہر یکایک آکر شامل ہو جاتی ہے ۔)؛‬
‫لیکن مذھب و تصوف کی اصطلاحات کی جگہ سائنس کی اصطلاحات‬
‫استمال کرۓ ہے یە مسئله حل تنوہیں هو جاتا ۔ الفاظ میں برق لہروں‬
‫ہکےچھ کم خارق عادت معلوم نہیں‬ ‫لہوام‬ ‫کا پیدا جهاونا ک‬
‫اشف‬
‫ھوتا ۔ اسیطرح محض انکار سےیمہسئلہ معدوم نہیں هو جاتا ۔‬
‫سی ڈے لوئیس (‪,6٥81‬آ‏ ‪ )0. 7801‬ذیل کی عبارت میں اس مسئلے‬
‫کے وجود کے ساتھ ساتھ اس کے لاینحل هوۓ کا اعتراف کرتا تھے ‪:‬‬
‫”شاعر ایک پیشه وکراری کر ہوتا ہے ء یعنی فن معاری کا ایک‬
‫ماہر جو ختلف قسموں کے سامان تعمیر پر تجرے کرتا رهتا‬
‫ہے اور فن تعمیر کے متعلق طرح طرح کے هندسی مسائل طے‬
‫عارتیں وہ‬ ‫ج۔‬
‫و‬ ‫کرۓے کی کوشش میں مصروف رھتا ہے‬
‫کھڑی کرتا ے ؛ ایک دن اتفاق سے آن میں ے کسی ایک‬
‫ھڑکی ہیں سے ایک عجیب و غریب روشنی‬ ‫عارت کیاکیک‬
‫‪۰۵‬‬

‫دکھائی دیتی ہے ۔ ہوا کیا حے ؟ کوئی آسانی مسہان وہاں‬


‫آ کر آتراہے ء یعنی شاعری کک روح جاادا او اصاقی مات‬
‫ء شاعر کچھ جا کایه منکات کیا کة‬ ‫کہاں ہے آاۓ ھیں‬

‫عالم بالا سے جہاں تجلیکا سرچشمہ آبلتا ے؛ آے هیں یا مادی‬


‫ہوۓے ہیں یا آُسکے اپنے‬ ‫بسنے وا‬
‫ولےپجن‬
‫ری‬ ‫دن‬
‫ایانکدےر‬
‫ذھن کے کر کم گنتد براعظم کے باشندے ہوتۓے ہیں جہہاں‬
‫نوع انسافی کمےاضی ے ذخیرے مدفون ہیں ء یعنی ایک‬

‫ایسا براعظم جسےشعور کے سمندر کی لہریں نگل کئی ہیں ‪٤‬‏‬


‫کیا یہممکن نہیں کہ شاعری کی روح ء وہ چاے کچھ بھی ھوء‬
‫اعریکسوی عارتیں بناۓ میں مدد دیتی ہوجو آس کیجلوہ کاہ بننے‬‫شا‬
‫کقےابل ھوں ؟‬
‫شاعر جس لفظی کاری گری کا منکسرانہ اعتراف کیا کرتے هیں ء وہ‬
‫زبان کے ایک خاص طریق استعال کانام ےے جآوآس کے ہمام محاسن کو‬
‫اک کرد ڑتاھا اور اس کے تمام امکانات کو قوت ہے فعل میں لے آتا‬
‫ہے ۔ کہا جاتاہے کہ یہ طریق استعمال ھی وہ چیز ے جو شعر کو نثر‬
‫؛کہ ھر وہ خوی جو ثثریا‬ ‫یسوےن‬ ‫تمگو پر تفوق بُکشتا‬ ‫اگورفعا‬
‫صوتی خو‬
‫مش گ‬
‫عوار‬
‫نیوءی‬ ‫گفتگو میں الفاظ کلےیے مممکنثہے‬
‫اءڑ‬
‫پہلو داری اور علامتّی رمزیت ؛ شعر میں آس کو چار چاند لگ جائے‬
‫نی شخصیت ؛‬ ‫ی؛‬
‫ک‬ ‫هیںاور اس کےعلاوہ الفاظمیںایکنی‬
‫اقدرت‬
‫پیدا ہو جاتی ىے ۔ اس طریق استعال پر قدرت رکھنے کی توجیہ یوں کی‬
‫جاتی ے که شاعر کو الفاظ ہے ایک خاص شغف اور ان کی خوبیوں کا‬
‫رصاک ہوتا ‏ ء لیکن یه توجیه خود ایک مزید توجیه‬ ‫ای‬
‫اکدخا‬
‫کی حتاج معلوم ھوق ہے ۔‬
‫حض لفظی ادرا کس قسم کی شاعری کیوٹکر‬
‫پیدا کر سکتا ے جس کے متعلق غالب یه دعوعل کرتا ے ‪:‬‬
‫گنچینڈ معنی کا طلسم آآس کو سمجھیے‬
‫رںے‬ ‫ومی‬ ‫اشع‬
‫آار‬ ‫رے‬ ‫لب‬ ‫اه‬ ‫جو لف‬
‫غظ ک‬
‫غالب کا مطلب بداهہة یه ےۓکه الفاظ اُس کے اشعسار میں آ‬
‫کر‬
‫‪٣‬‬
‫گنچینڈ معنی کے طلسم بن جاۓ ہیں ۔‪‎‬‬
‫پال والیری‪ 1۷۸٥) (7٥[٥٢ ‎‬جو عقلی نظرے کے جتہدین میں‪‎‬‬
‫شار ہوتا ےہ ء شاعرانه زبان سے بحث کرتے ہوئےۓ کہتا ے‪: ‎‬‬
‫”'میرے نزدیک شاعر ایک ایسا شخص هوتا ے جس کے اندر ایک‪‎‬‬
‫غیر معمولی واقعے کے زیر اثر ایک قسم کی قالب ماھیت کی‪‎‬‬
‫بدولت شعر گوئی کی پراسرار قوت پیدا هو جاق ہے ۔ جس‪‎‬‬
‫طرح جانوروں میںکوئی شکاری ؛ کوئی گھونسلا بناۓ والاء‪‎‬‬
‫کوئی پل بناۓ والا اور کوئی سرنگیں کھودۓ والا ھوتا‪‎‬‬
‫ہے ء اسی طرح انسانوں کے ایک گروہ میں شعر کوئی کا ملکه‪‎‬‬
‫بالکل ویسا ھی ہجےیسے بعض‪‎‬‬ ‫ے۔‬
‫ہ‬ ‫اتفاقاً پیدا هو جاتا ی‬
‫بچے صرف چلنا سیکھتے ہیں اور بعض شروع ھی ہے ناچتے‪‎‬‬
‫لگتے هیں‪٠“ ‎‬‬
‫دوسرے الفاظ میں اس کے نزدیک شعر کوئی ایک قسم کی تہذیب‪‎‬‬
‫یافتہ حیوانی جبلت سے ۔ یہ حیاتیاتی یا نفسیاتی تجزیہ الہامی اور وجدانی‪‎‬‬
‫جبلت‪‎‬‬ ‫؛نکہ‬
‫یو‬‫نظریوں سکےچھ کم عآقلزما اور عقیدت طاب نہکیں‬
‫۔‪‎‬‬ ‫وان‬
‫جد‬ ‫ھی دور کا تعلق رکھتی بے ء جتنا ال‬
‫وہام‬ ‫آلتسنےا‬
‫عق‬
‫ایک دیستان خیال‪ ٤ ‎‬جو زبان ہے زبان کی خاطر شغف کو اچھی‪‎‬‬
‫شاعری کے لیے کا نہیں سمجھتا ء شاعری کو جذبات کی زبان کہہتا ے ۔‪‎‬‬
‫سا ےرظناک کیا زاتم ہدنیامم یئآ ےا زڈرچر ‪1‎ (۷08‬طو ‪٠‬ھ ‪)1.‬‬
‫زبان کے استعال کے دو طریقوں میں تمیز کرتا ہے ؛ ایک تمویلی اور‪‎‬‬
‫کا حوالہ دینے کے لیے‪‎‬‬ ‫طریقہ تو افاکارشیوا‬ ‫دوسرا جذتیاحتیوی‬
‫۔لی‬
‫استعال کیا جاتا ےہ اور جذباتی طریقه اس غرض سے اختیار کیاجاتا‪‎‬‬
‫لا کے ان افتار و اغیا سے اچ عغذبات و ااہال دا کر دعت‪‎‬‬
‫۔نس اور نثرکی زبان تحوبلی وق دے اور‪‎‬‬ ‫آن کا اظہار کیا جساۓائ‬
‫۔اعسر اپنے ختلف و متضاد هیجانات و‪‎‬‬
‫شاعسری کی زبسان جذبساقی ش‬
‫اور الفاظ کی‪‎‬‬ ‫وزت ء قافیه ء‬
‫آھنگ‬ ‫میں ہم آھنگق دا ‪:‬کر ہے‬ ‫میلانات‬
‫صکوقنیاویتی خصوصیات کی مدد ے آنھیں ایک منظم اور متوازن‪‎‬‬
‫‪۳‬‬

‫شکل دیتا ے اور اس طرح اپنی اشتہاؤں کی تسکین کرتا ہے ۔ یه نظریه‬


‫فرائیڈ کےمعالجه نفس کے نظرے سے مشابہ ہے ۔ فرق صرف اتناکےهہ‬
‫رچرڈز کے یہاں اظہار جذبات غیر شعوری طور پر نہیں ھوتا بلکه‬
‫آُسکےلیے یە لازم ے که شاعر اپنے جذباتی تجربات میں توازن پیدا‬
‫کرۓ اور آن کی آشفتگی و شوریدہ سری پر ایک منظم ہیئت عائد کرۓ‬
‫ےہ کصہلیاهحیت خود جذبات میں‬ ‫کی صلاحیت رکھتا ہظوا۔ہر‬
‫کوئی اور قوت ہے ۔‬ ‫موجود نہیں ہوتی اور امسنکا‬
‫بع‬
‫که‬
‫مشہور مقولہ ے‬ ‫ورڈز ورتھ (ط(<ہ‪)۲۲١۲٥٥٣٢‬‏ کاایک‬
‫”شاعری قوی جذبات کا ایک اضطراری سیلان ہے ؛ آس کا سرچشمه ماضی‬
‫میں یاد کیا جاۓ ۔‬ ‫وےں‬
‫حن ک‬
‫لیںمسکو‬
‫بات ہوتے ہیں جنھ‬
‫کجےذوہ‬
‫کے‬ ‫مدل‬
‫عر‬‫شاعر ان جذبات پر غور کرتا ے تا آںکه ایک قسم کے‬
‫نئے جذبات‬ ‫ذریعے وہ خود تو غائب ہو جاتے ہیں لیکن آمن ہ‬
‫اےئل‬
‫آھسته آھہسته پیدا ھو کسر نیالواقعه شاعر کے نفس مسیں وارد ہو‬
‫جاۓے ہیں ۔‪٤‬؛‏‬
‫اس عبارت میں ایک تضاد نظر آتا ے ۔ ایک طرف تو اضطراری‬
‫دوسری طرف سکون کے لمحوں میں پراۓ‬ ‫وہے‬
‫ر‬ ‫سیلان کا دعو‬
‫اعلٰ‬
‫جذبات کے مواد ہے نئے جذبات کے پیدا هوۓ کادعوعل غ۔البا ورڈز ورتھ‬
‫کامطلب اضطراری سیلان سے صرف یه تھا که شاعر کے جذبات مصنوعی‬
‫نہیں ہوے بلکہ اصلی ہوتے ہیں ۔ بہر حال آن کےشاعری کاموضوع‬
‫بننےکےلیے آن کےباھر کسی اور قوت کیضرورت واضح ے ۔‬
‫ایک ایسا‬ ‫اہعر‬
‫ہشے ک‬ ‫رهیہ‬
‫اسسلسلے کی ایک اور کنڑیظ ی‬
‫شخص ہو تا ےہ جو تیر و استغراق کے عالم میں کائنات اور زندگی کے‬
‫ابافتکوار‬‫ماہشراکہادہ کیا کرتا ےے اور اس مشاهہدے سے جو جذ‬ ‫مظ‬
‫بە آواز بلند اپنے‬ ‫آن کمےتعلق‬ ‫اس کے دل و دماغ میں پیدا ھوتے ھی‬

‫مہیا‬ ‫آپ نے باتیں کرتا ہے ۔ تحیر و استغراق ہے یقیئاً شاعری کا مواد‬


‫ہسوکتا ے لیکن آس پر شاعرانہ عیئت عائد کرئۓے کے لیے اس کیفیت‬
‫معلوم وق ہے ورنہ شاعر کی‬ ‫وزری‬
‫ضلفرچی‬
‫خت‬ ‫ئےی‬
‫وکی ہ‬ ‫گم‬
‫کشد‬
‫م‪۸۲۳‬‬

‫خود کلامی حض مجذوب کی بڑ ھوگ ۔‬


‫ایسے علم‬ ‫اسی کا متجانس ایک اور نظریه یه رے کہ شاعر ایک‬

‫لوگوں کو عطا نہیں کیاگیااو ‪۶‬اس‬ ‫رے‬‫سو‬ ‫کماالک ھو‬


‫دتاوے ج‬
‫علم میں دوسرے لوگوں کو شریک کرنا چا‬
‫چہتنااہےن۔چہ شاعری‬
‫۔وسہفے کے‬‫علم انسانی کآےفق کووسیع کرۓ کا ایک وسیلہ ہفےل‬
‫وعلومات کے دائرے کے باھر جا کر‬
‫جرد افکار اور سائنس کے انکشافات م‬
‫نظرے کی‬ ‫حقیقت کو ایک مجسم صورت میں سے ثقاب کرتی ہ۔ےاس‬
‫کا خصوصی‬ ‫عر‬
‫اھ‬‫ش ک‬ ‫صداقت محل نظ‬
‫نرہیں لیکن سوال پیدا ھوتا ے‬
‫علم آُس کو کہاں ہے حاصل ہوتا ہے ؟‬
‫اور عقلی نظریوں کا جو ختصر سا تجزیە پیش کیا ے‬ ‫هشمعۓے‬
‫وری‬
‫ئںی ایسا عامل مقروض ے‬ ‫و می‬ ‫اس ہے ظاھر ے کە ان تمام نظر‬
‫کیوں‬
‫یج نہیں کرۓ ۔ اگرالہامی و وجدانی نظریوں پسرریت ء‬ ‫صیروہ‬‫جتس ک‬
‫باطنیت ء معجزہ فروشی اور توھم پرستی کا الزام اور اسی طرح انفرادی‬
‫و اجتاعی لشاعور کے نظریوں پحرض نفسیاتی قیاس آرائی کا الزام عائد‬
‫وعوری نظریوں کا بنیادی مقدمہ بھی‬ ‫هوتا ے تو دوسری طرف عقلىی ش‬
‫کوئی قدر ح۔ہول ہے ۔ کیا کوئی ایسی چیز ہے جو نظریوں کے اول ال ذکر‬
‫گروہ کی عقلىی توجمہ بھی کسر سکے اور مؤخرالذ کر گسروہە کی عقلی‬
‫کی تلاق بھی کر سکے ۔‬ ‫قوناکے‬
‫ئص‬ ‫تو‬
‫نجیہ‬
‫ۓیل کے‬
‫اس چیز کی نشان دشھییکسپیئر ‪(6٣‬‏ زہ‪٥8‬‏ ۃاەط‪ )5‬ذ‬
‫معنی خیز الفاظ میںکیہے ‪:‬‬
‫”دیواۓء عاشق اور شاعر میں تخیل کوٹ کوٹ کر بھراھوتا ۔ے؛؟‬
‫اس مقولے کے مطابق مجنونان ال ہی کی جو چار قسمیں افلاطون نۓ‬
‫انبیاء‬ ‫دترز یىیتھیں ء آن میں سے تین کا سابهہ الاشتراک تخیل ہے ارے‬

‫نت‬ ‫من ساسا می یل انان کی کل ری کر ا‬


‫لگہءام‬
‫ازان‬ ‫چنانپہ تخیل ونہقطه ے جہاں ری و بش‬
‫درییوءانگ و فر‬
‫اور تکٹیک ؛ شعور و لاشعور کا وصال ہوتاے ۔ یه وہ آفقی ے جہاں‬
‫۔ں‬ ‫گیر ہوتے ہی‬
‫یںہا‬ ‫ل‬‫غہے‬ ‫شاعری کے آسان و زمین ایک دوس‬
‫برے‬
‫‪۳۹‬‬

‫شاعسری کتخالیقی کارئامہ جادو بھی ہے اور غمبعرمولی طباعی رکھنے‬


‫خںتکریاعی قدرت بھی ء القاے غیبی بھی ہے اور جُنون‬ ‫والے لو‬
‫اگو‬
‫ذوفٹون بھی ء خائم سلم|نی بھی ے اور داغ جگر بھی ء خوابوں کی صورت‬
‫گری بھی سے اور عالم بیداری کی ایک تشکیلی کارروائی بھی ء دل کا‬
‫سلان جذبات بھی ہاےور دماغ کی سیلان بندی بھی ءمشاعدہ و استغراق‬
‫بھی ے اور ان کا ابلاغ ب۔ھییہاں غالب کا یه‬ ‫وصی‬ ‫خرصعلم‬
‫او‬
‫دعویلٰ که ع‬

‫'ے ہیں غیب ہے یمەضامیں خیال میں‬


‫غالب صریر خامه نواے سروش ے“‬
‫ایک شاعرانہ تعلی یا تجلی فروشی نہیں رہتا ؛ کیو ں کہ ”٭نواۓ سروش؛“‬
‫دریافت کرنا‬ ‫یه‬ ‫او جا ایک ہو جاے ہیں اور‬ ‫اور ””٭صریر خامہک؛‬

‫؛‬ ‫مون‬
‫ول‬ ‫ان میںہے کون عامل ہے‬
‫ماو‬
‫عر ک‬ ‫ک‬
‫ےہ‬ ‫اہ‬
‫توا‬ ‫مش‬
‫جکل‬
‫کون خالق ہے اور کون خلوق ۔‬
‫اور خداء‬ ‫جاتا ے‬ ‫یہاں فطرت اور مافوق الفطرت کا امتیاز سٹ‬
‫فلسقی‬ ‫ہیں ؛ کیو ںکهہ خداست‬ ‫هجواے‬ ‫ایک‬ ‫اور فطرت‬ ‫السان‬

‫”فطرت خدا کا‬ ‫الفاظ میں‬ ‫کے‬ ‫یاکوب بومہ (‪٥‬صط‪٥‬ہ‪8‬‏ ماہ‪٥٥‬ك)‏‬
‫۔ل؟ے'ہ خکداائۓنات کو اپنے جلوے کا پرتو بنایا اور اس کی‬ ‫تخی‬
‫قوت خلا‌ق نہ صرف صور فطرت میں بلکہ روح انسانی میں بھی حلول‬
‫خدا کا نائب‬ ‫سچےنا‬
‫۔نچه انسان تخیل یىیبدولت تخلیق کے معاملے میں‬
‫اور معاون کار ے ۔‬
‫تخیل شعور کی معراجی صورت ے اور شاعر انھی معنوں میں‬
‫''صاحب شعور؟““ ھوتا ے ۔‬
‫شیلنگ (چھذا[ط(‪)8٥‬‏ کہتا ے کہ فطرت بحیثیت بجموعی شعور‬
‫حاصل کرۓ کی کوشش میں مصروف ہے اور تخیل جالیاتی ادراک کا وہ‬
‫آله ے جس کے ذریعے اس نبےالآخر شعور حاصل کیا اور پھر شعور یی‬
‫حاصل کی ۔‬ ‫ایدی‬
‫زک‬‫آلیق‬
‫بدولت تخ‬
‫عاس‬
‫وکا‬
‫ر‬ ‫اشگارعر لغوی معنوں میں صاحب شعور ہوتا ہے‬
‫شتو‬
‫‪۰‬مُ‬

‫اس شعور کلىی ء اس تخیل آفاق کاایک حصه ہوتا ہاےگ۔ر وصہاحب‬
‫شعور نہیں ھوتا تو آُس صورت میں ‪:‬‬
‫ےہ وھی بد مستی'ٴ هر ذرہ کا خود عذر خواہ‬
‫سے زمیں تآاسماں سرشار ۓ‬ ‫سک‬
‫لےوے‬ ‫جج‬
‫کک‬
‫تہے‬ ‫اور شیلے کے هزمبان هو‬
‫سکر‬ ‫رج‬ ‫ورت‬
‫لھم‬ ‫بہ‬
‫کر صو‬
‫ہیں کە شاعری تخیل کی زبان ے ۔‬
‫تیسرا باب‬

‫خیل کی ماھیت‬
‫؛ ایک مستقل نظطرے‬ ‫یه نظریہ که شاعری کی قوت عاملہ تخیل ے‬
‫پہلے انگلستان کی‬ ‫سے‬ ‫کے طور پر مغری تنقید ادب کیتاریخ میں سب‬
‫۔ ھم‬ ‫کچا‬
‫رومانی تحریک کے دو بانیوں میں ہے ایک یعنی کولرج ہے و‬
‫آں ی ”ادبی سوامحخ عمری؟“ میں ے دو اقتباسات ؛ جن سآےگے چل کر‬
‫مفصل بحثکی جاۓ گی ؛ پیش کرتۓے ہیں ‪:‬‬
‫”میرے نزدیک بخیل دوطرح کا ہوتا ہے ء بعنی اوٌّی اثوارنوی ۔‬
‫و‬ ‫نک‬
‫باع‬ ‫اوّی تخیل میری راۓ میں تمام ادراکت انس‬
‫مانی‬
‫خرج اور اہم ترین وسیله ہے ۔ وہ نفس محدود میں نفس‬
‫لاحدود کے ازلی و ابدی عمل تکوین کی جو ”میں هہوں؟“؟‬
‫کی صورت مپیںہلے پہل نمودار ھواء ایک تکرار ہے ۔ ثانوی‬
‫یل اولی! یل ی صداے باز گشت بے ۔ وہ عوری آراداۓ‬
‫ابساکےوصف‬ ‫کے پہلو بہ پہلو موجود ہوت‬
‫لایہےکءن‬
‫جہاں تک آس کی فعای کیکیفیت کاتعلقہے ء آسے اوّلی‬
‫تخیل ھیکی ایک صورت کمنا چاہیے ۔ البتہ اپنی فعال ی کی‬
‫کمیت اور اپنے طریق کار میں وہ اوّلی تخیل ہخےتلف ھوتا‬
‫ے ۔ وہ چیزوں کیتحلیل کرتا ے؛ ‪٢‬ن‏ کو درہم برھم‬
‫نی‬‫‪ 7‬ھت کات کےاکا کساارے‬
‫چیزیں خلق کرے ء اور جہاں یه عمل اس کے لیے نامکن‬
‫ہے کہ چیزوں‬ ‫رشتا‬ ‫هو وهہاں بھی وہ بہرکیف ھ‬
‫شیککو‬
‫وطحودت‬
‫صورت بخشے اور آن میں رب‬ ‫ریین‬
‫تک‬‫بوہآن‬
‫ک‬
‫کی 'پحرعلات‬ ‫اق‬ ‫ایک زندہ قوت تھا‬ ‫پیدا ‪70‬‬
‫ہوتی ‪:‬ہی‬
‫‪.‬ں‪.....‬‬ ‫ند‬ ‫اا‬
‫مور‬ ‫مر‬
‫جدہ‬ ‫لح‬
‫ایشثیا)‬ ‫اشیا (‬
‫امن‬
‫‪۳٣۴۳‬‬

‫”قوت واعمه کے پلے جامد اور متعین اشیا کے سوا کچھ بھی نہیں‬
‫ھوتا ق‬
‫۔وت واھمہ نیالحقیقت حض حافظے کی ایک صورت‬
‫ہو‬ ‫ہے جسے مکان و زمان کی پابندیوں سے آزادی حاصل‬
‫کت ہے ء اور قوت ارادی کا وہ تجربی مظہر جسے ہم انتخاب‬

‫بھی ھوتا عہ‬ ‫مل‬ ‫کے لفظ سے موسوم کرتے ہیں ءآ‬
‫شسامیں‬
‫حافظے کی طرح قوت‬ ‫اور اس کی ترمم بھی کرتا سعےا‬
‫۔م‬
‫واھمه کو بھی اپناسارا مواد قانون التلاف کے ماتحت بنا بنایا‬
‫ملتاے _)>‬

‫”'شاعر کامل ایک ایسا شخص ہهوتا ے جو انسان کی تمام ک‬


‫وال‬
‫روح کو بروۓ کار لاتا ىمے ؛ ایسے طور پراکة آس کی قوتیں‬
‫اپنے اپنے مرتبے اور اپنی اپنی اھمیت کے مطابق ایک دوسری‬
‫کی شریک عمل ہو جاتی ہیں ۔ وہ آُس ساحرانه قوت امتزاج‬
‫کی بدولت جسے ہم اوپرتخیل کانام دے چکے ہیں روح‬
‫کر کے ؛‬ ‫انسانی کی ساری قوتوں کو ایک دوسری ہآےمیز‬
‫رت‬ ‫ات کو ای او‬ ‫دھھ‬ ‫وکے‬
‫نسات‬ ‫ایک دوس‬
‫گری‬
‫وحدت میں تبدیل کر دیتا ے ۔ یە قوت شبرازہ بندی ابتداً‬
‫ارادہ و فہم کے ذریعے بروے کار آتی ہے اور آن کی مسلسل‬
‫اور مشفقانہ نگرانی کے ماتحت سرگرم عمل وہ کر اپنے آپ‬
‫کو ایک جامع ضدین ؛ ایک ناقض نقیضین کی صورت میں‬
‫اعتلاق' کا ساتھ ؛‬ ‫ثقاب کترق ہے‪:‬۔ وہ مشابہت کو‬ ‫‪2‬‬

‫عمعومی کو خصوصی کسےاتھ ء مرئی کسو غیر مرئی کے‬


‫ساتھوء فرد کو اجتاع کے ساتھ ء ندرت و تازگی کے احساس‬
‫کپروانی اورمانوس چیزوں کےساتھ ؛ ایک غیرمعمولی ھیجان‬
‫جذباتی کو امیکعغمیر‬
‫ولی ربط فکری کے ساتوء ہمیشہ‬
‫پیدار رھنے وا ی صیابت راۓ اور سلامت طبع کوگرم جوشی‬
‫اور عمیق یا شدید جذبات کے ساتھ ء اور اسی طرح کی اور‬
‫ملا کر‬ ‫ساتھ‬ ‫مخالف یا مختلف چیزوں کو ایک دوسری کے‬
‫‪"۳۴۳‬‬

‫ایک کر آذوتی ھا‪٤‬‏‬


‫ورڈز ورتھ کجولرج کے دوش بدوش رومانی تحریککا دوسرا بانی‬
‫تھا اپنی طویل نظم ”‪ “65'71 001082‬میں ء جو شاعرانہ شعور ارتقا کا‬
‫ایک مطالعہ ہے ء لکھتا ےے ء‪:‬‬

‫”تخیل قدرت مطلق ؛ واضح تریں بصیرت ء وسعت قلب اور عقل‬
‫کی بالیدہ تریں کیفیت کانام ہے ۔ یه قوت ہاری طویل حنت‬
‫تکرییروہحو تابرریکک منربعہسہیے سے ۔ ہسم نے دریاکاسراغ اس کے‬
‫اور آس کے کنارے‬ ‫لگایا ہے ‪....‬‬
‫کنارے چل کر روز روشن کےھلے میدان تپہکنچے ہیں ۔‬
‫ہم اس کی روانی کے قدم بقدم فطرت کے راستوں پر چلے‬
‫کا سراغ کھو‬ ‫س‬ ‫ہیں ۔ بعد میں ھم ۓےپریشان ہو‬
‫اکر‬
‫دیا‬
‫لیکن ہھم ۓ پھر آُس کا خبر مقدم کیا ء جب وہ اپنی‬
‫پر‬ ‫ح‬
‫طکی‬ ‫پوری شان کے ساتھ نئے سرے سے ]آبھرا اور‬
‫سآُس‬
‫انسان کاےرناہے اور انسانی زندگی کے نقش و نگار منعکس‬
‫ھوۓ‬
‫۔ آَُس کی با وقار رفتار سے ہم ۓے لامتنا ھی زندی کا‬
‫احساس اخذ کیا اور وہ مرتفع خیال بھی حاصل کیا جو‬
‫عارا مدار زندگی ہے ء یعنی لاعدودیت اور خدائیکا تصور ؛“‬
‫ورڈز ورتھ‬
‫اور کوارج کے بعد کی رومانی پود کا شاعر شیلے اپنے‬
‫مضمون ”'شاعری کاجواز؟“ میں تخیل کے متعلق یہ راۓ ظاھر کرتاے‬
‫شامہ ہے ؛ نہ صرف شاعری کے حدود معنوں میں‬ ‫چک‬ ‫رعری‬ ‫کہ وہ‬
‫سشا‬
‫وکەساینع‬
‫بل‬
‫تر معنوں میں جن میں وہ موسیقی ء رقص ؛ آفتنعمبر ‏‬
‫ون انسانی کو محیط ہے ۔ ہم اس‬ ‫مجسمه سازی بلکه سارے عل‬
‫فومنو‬
‫موضوع پر آس یىیدو عبارتیں نقل "کونے من‬
‫”شاعری عمومی معنوں می‬
‫تںخیل کااظہار ےے اور ان معنوں میں‬
‫وہ نوع انسافنی کی ہم عمر سے ‪ . . . .‬ساج کے بچپن میں ھغر‬
‫مصنف لازماً شاعر ھوتا ے کیو ں کھ آس کی زبان قدرق طور‬
‫پر بذات خود شاعری ہوتی ہے ۔ شاعر ہوۓ کے معنی ہیں‬
‫ب_‬

‫حقیقت اور چال کا شعور رکھنا یا یوں کہ ے کە ُ٘س مطابقت‬


‫اور ادراک میں‬ ‫تو وجود‬ ‫کا شعور رکھنا جو ایک طرف‬

‫اور دوسری طرف ادراک اور اظہار میں پائی جاتی ہے۔ ہر‬
‫بجاۓ خود‬ ‫هو‬ ‫جو اپنے منیع و مخرج کے قریب‬ ‫اصلی زبان‬
‫اور مسلسل نظم کا ہیولیل‬ ‫ایک سہتم بالشسان ء طسویل‬
‫>‬
‫۔یق؛ے‬
‫ہوت‬

‫”زبان ء رنگ ء ھیئت اور مذھہبی و اجتاعی عمل؛ یہ سب کے سب‬


‫حدود معنوں‬ ‫یں‬ ‫یم‬ ‫و‬ ‫شاعری کے آلات اور مواد میں‬

‫میں شاعری زبان اور خصوصاً موزوں زبان ک ان ترتیبوں‬


‫کو استعال کرتی حے چنھیں وہ شاهانه قوت (یعنی تخیل) جو‬
‫فطرت انسانی کے حرج باطنی کے اندر خت نشین ے جلوہ گر‬
‫کرق ہے ۔ رنگ ء ہیثت اور حرکت کے مقابلے میں زبان‬
‫مارے اندرونی جذبات اور ہہارے افعال کا ایک راست ٹر‬
‫ذریعة اظہار ے ۔ وہ زیادہ لطیف اور متنوع صورتیں اختیار‬
‫کرۓ کی صلاحیت رکھتی تے اور مقابلة اس قوت ک زیادہ‬
‫وجود میں لاق ہے ۔ زبان‬ ‫مطیع فرمان ہوق ےہ جآوسے‬
‫تخیل کی پیداوار ے اور صرف خیالات کے ساتھ تعلق رکھتی‬
‫ہے ۔ اس کے برخلاف فن کے اور جتنے مواد ء آلات اور‬
‫طریقے ہیں وہ آپس میں بھی تعلقات رکھتے ہیں اور یه‬
‫جائے هیں ۔‬ ‫ھو‬ ‫حائل‬ ‫درمیان‬ ‫تعلقات تخیل اور اظہار کے‬

‫تخیل کی روشنی انی پوری‬ ‫میں‬ ‫زبان ایک آئینه ےہ جس‬


‫برخلاف‬ ‫کے‬ ‫اےس‬ ‫آب و تاب کے ساتھ پرتو افگن وق‬
‫۔ ہ‬
‫دوسرے آلات اظہار ایک بادل هیں جو اس روشی کو جذب‬
‫کر کے مدھم کر دیتے ہیں ۔)؛‬
‫وہ نظریة شاعری جو ہمیں پیش کرنا مقصود ےہ بڑی حد تک‬
‫تخیل کیماھیت اور طریق عمل کمےتعلق آن دعاوی پر مبنی عہ جو‬
‫اجالی طور پر مندرجة بالا عبارتوں میںکیےگئےھیں ۔ لیکن اس ہے پیشتر‬
‫‪۲٣۵‬‬

‫مےوضوع‬
‫کە ہم ان دعاوی ہے تفصیلی بث کریں؛ مفید ھوگا کہ تخبل ک‬
‫آن کا‬ ‫آراء ظاھر ک کی ہس‬ ‫وند‬
‫مںسجت‬
‫پر آردو کے تنقیدی ادب می‬
‫۔ سلسلے میں ہم تینثقادوں یعنی شبلی ء حا ی‬
‫اۓس‬
‫مختصراً جائزہ لیاجا‬
‫اور مولانا عبدالرحان ک نگارشات سے تعرض پر اکتفا کریں کے ۔‬
‫”'شعرالعجم؛؛ میں شبلی لکھتے یں ‪:‬‬
‫عام استدلال سے الگ هوتا عے ۔‬ ‫قه‬
‫رلیکا‬
‫طدلا‬
‫”'قوت تخیل کے است‬
‫تے ٴثایت ہو چکی ہیں ء نئے‬ ‫وہ ان باتوں کو جو اور طرح‬
‫طریقے سے ثابت کرق ھے ۔)؛‬
‫تباویج کاعام طور پر جو سلسلهہ تسلم‬ ‫اور اس‬
‫نبا‬ ‫علوول‬
‫مات‬
‫”ع‬
‫شاعر کی قوت تخیل کا سلسلہ اس سے بالکل‬ ‫کنا ظاج ا ‪27‬‬
‫ے‬ ‫الگ حے ۔ وہ تام اشیا کو اپنے نقطه خیال سدےیکھتا‬
‫اور یه ‪٘2‬ام چیزیں آُس کو ایک اور سلسلے میں م‌بوط نظر‬
‫آتی ہیں ۔ ہرچیز کی غرض ؛ غایت ء اسباب ء حرکات اس کے‬
‫نزدیک ونہہیں جو عام لوگ سمجھتے ہیں ؛“‬
‫موجودات پمروقوف نہیں ۔ وہ خیالی باتوں‬ ‫عی‬
‫قعمل‬
‫ویلاکا‬
‫تخ‬
‫سے ھرقسم کاکاملےسکی ھے ۔؟“‬
‫حا ی کی رائۓ میں ‪:‬‬
‫”وہ (تخیل) ایک ایسی قوت ہے کہ معلومات کا ذخیرہ جو تجرے‬
‫یامشاهھدے کے ذریعے سے ذہن میں پہلے سے مہیا هوتا ےہ ء‬
‫آس کو مکرر ترتیب دے کر ایک نبٔی صورت بخشتی ہاےور‬
‫دل کش پبراے میں جلوہ گر کرق‬ ‫سے‬
‫یکے‬
‫ااظ‬
‫پھر اس کو الف‬
‫ہے جو معمولی پبرایوں سے بالکل یاکسی قدر الگ هوتا ے ۔‬
‫اس تقریر ہظےاھر کےہ تخیل کا عمل اور تصرف جس طرح‬
‫‪٤٤‬‏‬ ‫خیالات میں ھوتا ےہ آسی طرح الفاظ میں بھی ہوتادے‬

‫حالی مزید لکھتے میں ‪:‬‬


‫”یه وطہاقت ے جو شاعر کو وقت اور زماۓ کی قید سے آزاد‬
‫ہوتی حے کوھہ جن‬ ‫قدت‬ ‫اں ی‬
‫ط می‬
‫کرتی ےہ ‪ ,.. ..‬اس‬
‫اور پری ؛ عنقا اور آب حیواں جیسی قرضی اور معدوم چیزوںن‬
‫له‬
‫کہهہ‬
‫متصف کر سکتا ے‬ ‫تےھ‬
‫اک‬‫سصاف‬
‫کو ایسے معقول او‬
‫آن کیتصویر آنکھوں کے سامنے پھر جاتی ےہ ۔ جو نتیجے وہ‬
‫نکالتا ے؛ کووہ منطق کے قاعدوں پر منطبق نہیں هوتۓ لیکن‬
‫جب دل اپنی معمولی حالت ہکےسی قدر باند هو جاتا ے تو‬
‫وہ بالکل ٹھیک معلوم ہوتے ھیں “‪۶‬‬
‫مولانا عبدالرحا تااۓبی کات ‪ 92‬اڈ القر ‪٢٢‬‏ میں ےا ےا غر کے‬
‫مرضوع پر ضمی راۓ زنی بھی اور مدلل بحث بھی کی ہے ۔ وہ خیال اور‬
‫تخیل ء واہمہ اور تخیل ؛ خیال فکری اور تخیل ء تصور اور تخیل میں‬
‫کہیں تھیز کرے ہیں اور کہیں التباس ۔ بہر حال ھم ”'مرأة الشعر؛؛ میں‬
‫سے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں جن سے ہمیں تخیل کے ختلف مفاہم کا‬
‫پتا چلتا ےے ‪:‬‬
‫”اس باب میں علاے علمالنفس کا قدیچ ے اختلاف چلا آتا ۓ کہ‬
‫خیال و فکر وغیرہ مستقل دماغی قوتیں ہیں یا خواص نفس ۔‬
‫اگرچہ کچھ تحقیق نہیں لیکن ان باتوں کا علم چوئکہ شعر ی‬
‫حقیقت سمجھنے میں فی الجملہ مدد گار ےہ اس لیے میں یہاں‬
‫ھوں جو باعمه اختلاف‬ ‫کا خلاصہه لکھتا‬ ‫اء‬
‫ری‬‫علاے فآن ک‬
‫بھی فائدے ہے خالی نہ ہوکا‪:‬‬
‫”'حکماء کی ایک جاعت ی راۓ ہے کہ ہارے حواس ظاھری‬
‫صرف اپنے اپنے مخصوص محسوسات هی کا ادراک کسرکتے‬
‫کھ دیکھتی ہے ء سن نہس سکتی ۔ کان سنتے ھیںء دیکھ‬
‫آںن۔‬
‫ہی‬
‫ہے ء دیکھنے اسونرنے ہے اس کا‬ ‫ھتی‬
‫گناک‬
‫ن۔‬ ‫سں س‬
‫وکتے‬ ‫نہی‬
‫کوئی تعلق نہیں ۔ لیکن ایک لوح دماغی ہے جو حسوسات‬
‫پزیرہوتی ہے ء اس لے ا س کو حس مشترک‬ ‫س‬‫عہکہے‬
‫خمس‬
‫اںس۔ی قوت کے واسطے‬ ‫کہتے ہیں اآوئرینڈ نفس سمجھتے ہی‬
‫عیلم و‬ ‫ہے نفس کو باہر کا علم و ادراک ہوتا ے ۔ یہ‬
‫ادراک اپتے اولین درجے میں شعور کے نام ہے موسوم هوتا‬
‫تعہیر‬ ‫سے اور نفس کے تمام تر انواع کو جذبات کے نام سے‬
‫کجیااتا ے ۔‬
‫”یه شعور نفسانی کبھی لکل نقش بر آب ہسوتا ے ؟ ادھر پیدا‬
‫یىی‬ ‫اتقسلاتلقورار‬ ‫ہسوا آد‬
‫غھسرائب ۔ کبھی تیالجملہ اس‬
‫صوور کہتے ہیں که‬ ‫تک‬ ‫صورت اختیار کرتا ھے۔ اس‬
‫ب‬ ‫حقیقت کا عکس ہوتا ےے اور اکثر صورت رکھت‬
‫اا ہے‬
‫تصور ذھن میں اتنا جاگزیں ہجواۓ کھ نفس‬ ‫اکگورئی‬
‫جب چاےے آس کا اعادہ کر سکے ء غائب کو حاضر کی صورت‬
‫کو حفظ‬ ‫میں دیکھ لے ء لوبحذف المشخصات ء تاوساتسقراء‬
‫اور‬ ‫اور حفاظت کرتےۓ وا ی قوت کو حافظه کہتے ہیں ؛‬

‫اعادے کو تذکر اور اعادے کیقوت کو ذکر و خیال ء جو‬


‫صورتوں کو ؛ جو ذھن میں اکثر کے نزدیک بعد حتف‬
‫پلٹتا رھتا ے ۔‬ ‫محفوظ ھوتی ہ‬
‫آیلء‬
‫ٹتا‬ ‫مشخصات‬

‫دو قسمیں ہیں ‪٤‬‏ کلی‬ ‫رہی‬ ‫صراۓ‬


‫وعے ک‬ ‫''دوسری جاعت‬
‫ت کی‬
‫اںب‬
‫۔‬ ‫هو‬
‫جکازیئای اور جزوی صورت رکھتا ہوگا یا نہی‬
‫کا ایک ایک مدوک اواریک‬ ‫وم ک‬
‫رےات‬ ‫ان تین‬
‫توں‬
‫صقس‬
‫دت ک‬
‫رااک‬ ‫اور ایسے جز‬
‫ائیا‬ ‫ایک عافظ ھونا چا‬
‫کہی‬
‫لےی۔ات‬
‫جو عوارض مادیه ے حرد ھوں ؛ عقل کا کام ہے اور حافظ آن‬
‫کانفیں ہے ؛ اور صورتوں کاادراک حس مشت رک ہے متعلق‬
‫اور احن ک‬
‫فیاظت خیال ےہ ۔ رہ معانی جزئیہ ء آن کا‬ ‫ے‬
‫مدرک نفس سے اور عائظ آن کا ذ کر ۔ ان پانھوں چھئوں‬
‫چو‬ ‫ایک قوت اورے اور غوق چاے‬ ‫ٰہٴ‬ ‫تو‬
‫عتو‬
‫لںاوکے‬
‫ان تمام حفوظات میں ترتیب و تنظیم کافرض اغبام دے سکے ۔‬
‫اس کو متصرفه کہتے هیں اور متفکرہ و متخیله بھی ۔‬
‫”بعض کہتے ہیں کەہ قوت متصرفه کلیات یعنی معقولات میں ترتیب‬
‫و تنظیم کرتی ہے تو متفکرہ کہلاتی ہے اور اجگزرئیات و‬
‫صور میں تصرف کرتی ھےتو متخیله کےنام سے موسوم ھوتیق‬
‫سے ۔ بعض کامقوله ہے کہ خیال ھی جب قوت پاتا ے اور‬
‫‪۲۴۸‬‬

‫تو وھی‬ ‫لگتاے‬ ‫کرنے‬ ‫لا‬


‫وق‬ ‫ذھنیه میں تصر‬
‫خفات‬ ‫صور‬

‫وھم و متخیله کہلاتا ے ۔ یه مقوله اکثر علاء کے نزدیک‬


‫مسامحت پر مبنی ىے ۔ بہر حال مبنی بر مساعحعت ہو يا نہ ھوء‬
‫یقهوتیں پایچھوں یا سات ؛ بجاۓ خود مستقل ھوں ینافس‬
‫کے خواص و عوارض ء اس میں کلام نہیں کە دماغ انسانی‬
‫ہویق ہیں اور شعر ی‬ ‫پمرذکورہ بالا ام کیفیات طاری‬
‫تعمبر و قزئین میں ختلف کام کرتی ہیں ‪۶٤‬‏‬
‫)کا‬ ‫؛ جب اپنا کام کرتی بے ت‬
‫کوچھ‬ ‫”وھم ایک دماغی قوت ے‬

‫کو سانپ اور ساے کو بھوت بتاق‬ ‫رس‬


‫ےی‬ ‫کچھ دکھ‬
‫۔اتی‬
‫کر جاق‬
‫‪۶‬ی‪٢‬ے‬
‫‏‬ ‫دو‬
‫منوں‬
‫س ک‬
‫حوور‬ ‫خاہیو‬
‫ال‬ ‫ا‬
‫ےور نگ‬
‫”تخیل خیال ہے بنا ہے اور ذموعنی میں آتسا ہ‬
‫وےچ؛تا ء خیال‬
‫اول کے لحاظ سے تخیل وعی‬ ‫اوو خیال تراشنا ۔ معنی‬ ‫رٹ‬

‫چیڑ ے جسہے ھم خیال فکری کے نام ہے ذکر کر چکے ہیں‬


‫دقیقی مگر خقیقی معانی اور ٴآن کی تشبیہات بہم‬ ‫جو ا‬
‫آس کا‬ ‫پہنچاتا ے اور عر هر تصور کا ایک ایک جزء‬
‫گراد و پیق‪ ):‬لازم و ملزوم ء عکس و اثر آنکھوں کے سامنے‬
‫کہ ماضی حال میں‬ ‫رکھتا ہے اور یھ معلوم هوۓ لگتا‬

‫حاضر سے اور خلوت جلوت کا‬ ‫ہگےزر رھی سے یغاائب‬


‫دو‬ ‫س‌ءىی‬ ‫حرککمھتی ے‪-‬۔ رھا خیال بتانا یاجااد خی‬
‫اال‬
‫ابداعی ۔ آدمی جو‬ ‫اور اجاد‬ ‫اختراعی‬ ‫؟ اجاد‬ ‫قسمیں ھی‬

‫مادیات میں علیل و ترکیب ہے ‪٠‬‏ لاےکن نچی ا‬


‫ینی‬
‫ڑین‬
‫‪٢۲‬‏سے اختراع کہتے ھی ء‬ ‫اور تبی نی صورتیں بتا لیتا ے‬
‫اور بغیر مادے کے کسی چیڑ ک ب‬
‫اتاتاایدکہلاتا ے جو‬
‫اام ے ۔ لیکن اختراع میں اگکروئی صورت‬ ‫خدا ہکیک‬
‫عرفاً بدیع اور‬ ‫ھی‬ ‫۔اۓ‬
‫بتو‬ ‫ہرل‬
‫ےیج‬ ‫مزید ندرت کیپید‬
‫آا ک‬
‫آٌُس کے بتاۓ کو ابداع کہ دیا کرتۓے ہیں ۔ تخیل کے‬
‫اختراع و‪:‬ابداع کو بھی اسی قبیل ہے سمجھے ء اور یه بھی‬
‫‪۴۹‬‬

‫اختیاری ہیں ء نهە‬ ‫یاد رکھے کە یە اختراع و ابداع دونوں‬

‫نزدیک وہم و‬ ‫اضطراری ۔اسی لیے میرے‬ ‫ح‬ ‫وھ‬


‫طمرکی‬
‫تخیل میں فرق ہے ۔ موھومات بھی علم کے درجے پر پہنچ کر‬
‫خیال کے تحت میں آ جاتے ہیں مگر تخیل نہیں کمہلاتے ے‪٤٤‬‏‬
‫اقتباسات ایک طرف تو کولرج ء ورڈز ورتھ اور شیلے ک‬ ‫ھم ۓ‬
‫جو‬
‫نہازشات سے اور دوسری طرف شبہلىیءحالی اعوبردالرحان ک نکارشات سے‬
‫پیش کے ہیں آن میں ایک بنیادی اختلاف ے جو مغری شاعری اور‬
‫فارسی و آردو کی شاعسری کی ہیثتی روایات کے اختلاف کی عکاسی کسرتا‬
‫ہے ۔ جہاں مغربی شاعری کی آکائیاں مکمل نظمیں ہسوتی ھسیں ء وہاں‬
‫یىی آکاہیاں منفرد اشعار ہوتے ہیں ۔ چنانیە‬ ‫یا شاغری‬ ‫د‬
‫وو‬ ‫فار‬
‫اعیٰ‬
‫زا‬

‫کولرج ء ورڈز ورتھ اور شیلے ےۓ تخیل کی جو توصیفیں کی ہیں آن میں‬


‫معیار قدر ایسی نظموں کی تخلیق ہے جو مکمل اور خود مکتفی وحدتیں‬
‫عوں ۔ اس کے بر خلاف شبلىی ء حایىی اور عبدالرحان کے پیش نظر منفرد‬
‫اشعار بلک منفرد تراکیب ء تشبیہات اور استعارات ہیں ۔ (یه آن مثالوں‬
‫ہوتاے جآونھوں ا‬
‫ےپنے دعاوی کی تائید یا توضیح‬ ‫سے بھی ظاھر‬
‫کسےلسلے میں پیش کی ہیں) ۔ فنی نقطهۂ ‪5‬ط کے اس اختلاف کانتیجه‬
‫یہ نفسیاتی اختلاف ےہ کے جہاں کولرج و‬
‫؛رڈز ورتھ اور شیلے کے‬
‫ترین معنوں میں‬ ‫وسیع‬ ‫عامله ہے ؛ جو‬ ‫یہاں تخیل ایک خود مختار قوت‬
‫شاعری کا اصلی مصدر و منبع ہے ؛ وہاں شبلی ء حای اور عبدالرحان کے‬
‫یہاںوہ ادراک کے مہیا کیے هوۓ مواد میں قرہم و تصرف کرۓ‬
‫وا ی ایک ایسی قوت ہے جو زیادہ سے زیادہ ایسے جزئی اختراعات کی‬
‫ممیں اضافة هو ۔ ھم‬ ‫ۓے‬ ‫معسر‬
‫ایئکے‬ ‫کفیل ہو سکی ےۓے جن‬
‫س سے‬
‫ر شا‬

‫اس اختلاف کو واضح کرنۓ کے لکیےولرج کی ”اد سواۓ عمری“‬


‫سے ایک اور اقتباس پیش کرتے ہیں جس میں وہ ھیثتی نقطة نکاہ ے ایک‬
‫نظم کے لازمی اوصاف بیان کرتا ہے ‪:‬‬
‫”ایک نظم میں وھی عناصر ہوتے ہیں جو نثرکی ایک عبارت میں‬ ‫‪:‬‬
‫ہوتے ہیں اس لیے ان دونوں میں جو فرق ہےوہیقیناً ان‬
‫‪۰‬ہ‬

‫یه ترکیبی فرق‬ ‫ر‬ ‫عناصر کیترکیب پر مشتمل ھوت‬


‫ااوے‬
‫یقیٹاًآن کے ختلف مقاصد کانتیجھ ہے ار‬
‫”مکن ہے کھ مقصد چند صداقتوں کابیان هو یءعنی ایسی صداقتوں‬
‫یا‬ ‫مثااے سائنس کی صداقتیں‬ ‫ء‬ ‫ھیں‬ ‫کا جو مطلق اور بہدی‬

‫کا موضوع ھیں‬ ‫تجرے‬ ‫ایسے اسمور واقعه کا بیان جو‬


‫انسافنی‬
‫اور جوپہلے قلمبند کے جا چکےهیں ء مثلا تاربی واقعات ۔‬
‫مکن ےے کہ اس مقصد کی تکمیل سےلذت حاصل ہو اور وء‬
‫بھیبہترین اور مستقل ترین قسمکیلذت ء تاھم یەلذت بخٹی‬
‫لذت‬ ‫مقصود بالذات نہیں وق ‪ . . . .‬یه بھی مکن ھے‬
‫کہہ‬
‫ہیں‬ ‫ایک ایسی انشا کا مقصود ھو جو کلام و زوق‬
‫ایسی‬ ‫مثلا ناول یا رومان ۔ سوال پیدا هوتا ے که آیا ایک‬
‫انشا ء اگروہ موزوں هو ؛ عام اس سے کە وہمقفول هویاند‬
‫ہو ء نظم کےنام کیمستحق تھےیانہیں ؟ اس سوال کا جواب‬
‫یه عےکہ کوئی ایسی چیز موجب لذت نہیں بن سکتی جو‬
‫ب اور جواز نہ رکھتی‬ ‫خود اپنے اندر اپنی لذت بُش‬
‫سیہکا‬
‫کر دیا جاےۓ تو بجاتنے‬ ‫فه‬ ‫اضنی‬‫ضا‬‫ان ک‬‫ا وز‬
‫نہ‬
‫ھیں‬
‫یں اوسزن کا ہم آھنگ ہونا چاھیے ۔ وہ‬ ‫عن‬
‫آاصر‬
‫اور مستقل توجه‬ ‫نه‬ ‫گکہ‬
‫اجس‬ ‫داھئ‬
‫ایں‬ ‫عقاصر ایسے ھہو‬
‫جنۓ چ‬

‫کاانوفہرادی طور پر تقاضا کرتے ہیں وہ حق بجانب ہوا۔‬


‫می‬
‫سں ک‬
‫کیج‬
‫تای‬ ‫چنا چہ ایک نظم کی تعریف ذی‬
‫اللکفےاظ‬
‫ےج نظم ایک ایسی صنف انڈاسے جسوائنس کی انشاؤن‬
‫ہے اس اص میں ختلف ہوتی سے کہ آ٘س کا مقصد براہ راست‬
‫لذت مسہیا کرنا ہھوتا ے نہ کە صداقت کا بیان ء اور اسی‬
‫قسم کی دوسری انشاؤں سے جن کا مقصد اسی طرح کی لذت‬
‫بخشی ہوتا ے؛ واہعاتسبار سے متائز ھوتیق ے که وبہحیثیت‬
‫ضبرمی اقسلم ی لت مہیا'کر ی'رمووی کرں مے‬
‫ہوق ےہ‬ ‫جو آآس کے اجزاے تر کیبی سے فردا فردا حاصل‬
‫‪۵١‬‬

‫کے فلسفیانه نقاد اس ام پر متفق ہیں‬ ‫م ہ‬


‫ارۓ‬ ‫‪..‬‬
‫ز‪,..‬‬
‫کہ نظم کا لقب نە تو چند ایسے دل کش ابیات یامصرعوں‬
‫کو دیاجاسکتا ے جو انفرادی طور پرپڑھنے والے کیتوجە‬
‫اس حد تک جذب کر لیں کھ آسےعبارت کا بجحیثیت جموعی‬
‫خیال ھی نە رے ؛ اور نە دوسری طرف ایک ایسی عبارت کو‬
‫ترکیبی کی‬ ‫جس کے مفہوم کو پڑھنے والا آس کے اجزاے‬
‫طرف توجه مہذول کے بغیر ایک سرسری نگاہ مسیمںجھ لے ۔‬
‫ضرورت اس بات کی وی ہے کہ پڑھنے والے کی عرک صرف‬
‫ب‬‫اے‬ ‫اور نە‬
‫تیه‬ ‫ہو‬ ‫لہ‬ ‫ایک سطحی سی اطلاع جوئی‬
‫فوراً اُس کے ذھہن میں‬ ‫عبارت کا ماحصل‬ ‫کكسه‬ ‫خواھش‬

‫آ جاۓ ء بلک پپڑھنے کے عمل کیلذت ؛ یعنی منزل کی کشش‬


‫سدپیاں ۔؟؛‬
‫چی‬ ‫نہیں بلکەہ راستے‬
‫لک‬
‫اس کے خالف قطب پر وہ معیار هے جس کی طرف حا ی ذیل کے‬
‫‪:‬‬ ‫الفاظ میں اشارہ کرتا ے‬

‫”اصمعی ۓ عمدہ شعر کی تعریف یہ کی عے کآہس کے معنے‬


‫لفظوں سےپہلے ذہن میں آ جائیں ء یعنی سریع الفہم ہو ‪-‬؛؟‬
‫عام اس ہے کہ یہمعیار صحیح ھے یغالط ء ظاہر عے کہ اس کا‬
‫اشعار پر ہو سکتا ے ۔‬ ‫نص‬
‫فرف‬
‫رد‬ ‫اط‬
‫ملاق‬

‫تخیل کے طریق عمل اور شاعری کےلیے اُسکی ‪١‬ہمیت‏ کمےتعلق‬


‫ط تآکسی قبیل کے تصورات راع‬ ‫ٹبھھایرویں صد‬
‫ویسکے‬ ‫یورپ مایں‬
‫تھے جن کا ذ‬
‫عکبرمدولاانلارحان ے کیا ہے م‬
‫۔قبول قرین نظریہ ‪٤‬‏ جزئی‬
‫اختلافاف کے ساتھ ء یه تھا کہ احساس کے علاوہ نفس کیتین قوتیں ہیں‬
‫ء غیل اور تعقل '۔ تخیل کےمتعلق یەعقیدہ تھاکەوہ حافظے‬ ‫یعٔی حافظه‬
‫اور تعقل کو ایک دوسرے سے مر‌بوط کرتا ہے ۔ بعض قلاسفهہ ء مثلا‬
‫ایک بگڑی ہوئی صورت‬ ‫ھ(ا‪8‬ب‪٥‬زماماہ‪)]1‬‏ مخیل کو حافظے کی حض‬
‫سمجھتے تھے ؛ یعنی آن کاخیال یه تھا کہ ماضی کے کرو اور‬
‫دیتا‬ ‫جک‬
‫ورڑ‬ ‫جو تاثرات حافظے میں باق رہ جاے هیں ء تحیل آن کو لے‬
‫‪۲‬ھ‬

‫‪88‬ص‪ 98‬طم) ؛ جس کا قریب ترین مترادف‬ ‫ہے ۔ یونانی لفظ ”فینٹیسیا؛“‬


‫مارے یہاں لفظ ”وا عمد؛“ ہے ء پہلے پہل کسی ایسی چیز کے لیے استعمال‬
‫کیا جاتا تھا جو ایک بار حسوس ہو چکنے کے بعد غائب ہگوئی ہو‬
‫لیکن ایسا لگتا عوکه جیسے دوبارہ موجود عوکیں ہے ۔ اسی طرح لاطینی‬
‫لفظ ‪[ 7015‬ع‪0٥‬نذ“‏ کے معنی تھےوہ چشم باطن جوگزری ہوئی چیزوں‬
‫کے نقشے دیکھتی تے اور آن کو نئۓے طریقوں ہمےلاتی جلاتی ہے لیکن‬
‫کوئی نی چیز پیدا نہیں کرقی ۔ ان سارے زاویەھاے فکرکا بنیادی مقدمه‬
‫علم حاصل کرنےۓ کحاعض ایک‬ ‫یه تھا که نفس خارجی دنیا کے متعلق‬
‫تاثرات پرتو افگن‬ ‫پر حسی‬ ‫جس‬ ‫انفعال پزیر آلہ ہے ۔ مث‬
‫آلّ‬
‫ئاییکنه‬
‫هھوۓے ہیں یا ایک سادہ ورق جس پر چیزوں کے اوصاف اپنے نقوش ثبت‬
‫‪ 3‬ا میں ۔‬

‫جرمن فلسفی کائٹ (‪ )58۴51‬کے نظریة علم ۓ اس اسلوب فکر میں‬


‫نفس انسانی بنیادی طور پر‬ ‫ایک انقلاب پیدا کر دیا ۔ کانٹ کے نزدیک‬
‫ایک قوت فاعله ے اور چند وجدانی و داخلی تصورا تکو؛ جو شروع ھی‬
‫ہے آُس میں مضمر ہیں ء حسی تاثرات کے مواد پر عائد کرتا تھے ء یعتی‬
‫حکمی تی کیئیت ہ اضاقت اور حیثیت کے تصورات جن کو‬ ‫زمان رو مکاف‬
‫غے کهہ‬ ‫کعایال‬ ‫ئ۔ٹ‬
‫اےے‬‫کتا‬
‫کانٹ ابواب فکر (مقولات) سے موسوم 'کر‬
‫نفس انسانی اشیاہے من حیث الاشیاء کبھی واقف نہیں هو سکتاء لیکن‬
‫چونکە وہ عدم نظام کو قبولنہیں کرگا اس لیے وہ حسی تاثرات کے‬
‫خود‬ ‫بذات‬ ‫پر اپنے تنظیمی تصورات عائدك ]کر دَتا رفاک چیزیں‬ ‫یلان‬
‫تاوں‬
‫دن ک‬
‫حآ‬ ‫کوئی ایسے اوصاف نہیں رکھتیں جن کی بدولت نفس انس‬
‫وانی‬
‫ادراک کر سکے۔ صرف نفس کا عمل‬ ‫کطےور پر ؛ یعانیلمانشحییثاءء‬
‫۔انٹ کے نزدیک یه‬
‫آن کو وحدتوں کی حیثیت سے وجود میں لاتا ے ک‬
‫عمل قوتتخیل کے ذریعے ہوتا ھے ۔ تخیل تین حیئیتیں رکھتا ےے ء یعنی‬
‫سب سے پہلے آ٘سکاکام استحضار‬
‫تین طبقوں یا سطحوں ہکرام کرتا ے ۔‬
‫ےہ ء یعنی جو مواد آسے وصول ہوتا ہآےآس کو پیش کرنا ۔ وہ نفس‬
‫کی وجدانی و ادرای سطح پر آسے حواس کے کثیر الانواع مواد کے‬
‫‪۵۳‬‬

‫حصول میں مدد دیتا ے؛ لیکن ا‬


‫سسطح پآرسکا عمل اسیحد تمکحدود‬
‫کی دوسری حیثیت‬ ‫س‬ ‫ھوتاے کہ حسی تجربوں کی ترتیب کر‬
‫اے٘۔‬
‫اختراعی ہے لیکن اس میں بھی آُس کو مکمل آزادی حاصل نہیں ہوقی ؛‬
‫وہ صرف اتنا کرتا ہے کہ نفس کو حسی معطیات کے مواد ہے تصورات‬
‫وع" کرانے میں مدد دے‪ /‬یعی وہ اعتاس اور فہم کی درمیان ‪.‬ایک‬
‫طرح کا ایلچی ہوتا سے اور اُس کا کام فہم کے مقاصد کی تکمیل ہوتا‬
‫حیثیت میں تخیل ایک خود ختار عاسمل هوتا ہے ۔ وہ اختراع‬ ‫ہتےی۔سری‬
‫بکھریتا ے اور ابداع بھی ء یعنی وہ تحجرے کے عفاصر کو اپنی مرضی‬
‫کمےطابق ترتیب بھی دیتا ے اور آن کی معی خیز کلیتوں میں تنظم بھی‬
‫کرتا ہے ۔ یه تیسری حیثیت وہ ے جس میں خیل ایک عامل خالق ھوتا‬
‫سے اور ج|لیاتی خلیق کا سرچشمہ ۔‬
‫ذیل کا جمله کانٹ کی کتاب ”انتقاد عاکمۂ جالیای“‪٠‬‏ مو نانئہ‪)0‬‬
‫)‪٥0‬‏ کا کلیدی جمله اور آآس کے نظریۂ تخیل‬ ‫‪٥٥٥٥‬ھ‬ ‫‪8‬ال‬
‫کخالاصہ ہے ‪:‬‬
‫”تخیل (جو وقوف کی قوت ابداع ے) آس مواد ے جو فطرت ‪٘٢‬س‏‬
‫کے لیے مہیا کرتی ہے ایک فطرت انیتخلیق کرئۓ والا ایک‬
‫زبردست عامل ے ہ؛٭‬
‫کے نظرے‬ ‫اےن‬
‫کہس‬
‫فنون لطیفہ اور بالخصوص شاعری کے نقطه نگا‬
‫کے یو معنی ہفیںٹ ک‬
‫کہار اور شاعر وہ لوگ ہوتے ہیں جو تخیل کے‬
‫ہیں کھ اپنےتجرے کہ‬ ‫ام سَلِسَلة اعال سے ایسے طور پر فائدہ آٹھاۓ‬

‫ہیں ۔ چنانچە کانٹ جهور قابل اور‬ ‫سمواد پر مثا ی هیئتیں عا‬
‫دئدیکترے‬
‫فطانت کو اس قسم کیمثا ی ہیئتیں تخلیق کرتۓے کی ایک خصوصی قوت‬
‫شمہ وجدان سے یا باطنی‬ ‫رںچکا‬ ‫کا مترادف سمجھتا ے ۔ ان مثا ی هی‬
‫سئتو‬
‫بصیرت ؛ جو یوں تو ھر شخص کو وھبی طور پرعطا وق ہےلیکن‬
‫شاعر کو بدرجهة ام ۔‬

‫یہ ما ی هیئتیں اس قسم کی عجیب الخلقت اور بعید از قیاس چیزڑیں‬


‫نہیں ھوتیں جنھیں قوت واہمه پیداکرتیق ہے ؛ بلک مظاہر اشیا کے‬
‫بت‬

‫پردے میں چھپی ہوئی حقیقتیں ہوتی هیں جاندکا‬


‫راک شاعر حسی‬
‫تاثرات ہے ماورا چاکر کرتا ھے ۔ قدما اس سلسلے میں اغسلطی کے‬
‫شکار تھےکہوہ واہ ے کو تخلیقی قوت سمجھتۓ تھے اور تخیلکوعض ایک‬
‫ایسی قوت جو تجرے کےمواد کو نئے سرے ستےرتیب دے دیتی ے۔‬
‫کولرج ۓے اس غلطی کو آشکار کیا اور یہراۓۓ ظاہر کیکہ واہمہ تخیل‬
‫کے مقابلے میں ایک ادنول قوت ہے ۔ واہمہ آُس سطح پر ککام‬
‫رتا ہے‬
‫جکسوےلرج اوّلیتخیلکہہتاہےاور کانٹ تخیل کی پہلی حیئیت ء یعنی‬
‫اس سطح پر عقل کا‬ ‫حسی تاثرات کو ترتیب دینے کا مرحله ۔ چونکه‬
‫عمل دخل شروع نہیں ھوا ھوتا اس لویےاہمه ء جو طبعاًکھلندڑا ء‬
‫المزاج واقع ہوا ہے ء من مااۓ طریقے پربعید از‬ ‫تفن پسند او‬
‫مرتلون‬

‫چونکھ‬ ‫خک‬
‫لےاف‬ ‫ے۔‬
‫راس‬ ‫قیاس اور دور از کار چیزیں ایجاد کرتا حب‬
‫تخیل کاعمل نفس کیبلند سطحوں پر هوتا ہے ء یعنی کولرج کی اصطلاح‬
‫میں نخیل کی دوسری‬ ‫طنٹلکی‬
‫اح‬ ‫میں انوی تخیل کیسطح پر‬
‫ااور‬
‫صکا‬
‫اور تیسری حیثیتوں میں ؛ اس لے عقل آ٘سکیمشیر اور شریک کار ھوق‬
‫سچےنا‬
‫۔نچہ وہ جو چیزیں خکلرقتا‬
‫ے وہ اگرچہ فطری اشیا کی نقلیں‬
‫ءم فطری‬ ‫اھ‬ ‫پرمبّی نہیں هو‬
‫تتیں‬ ‫عںیت‬ ‫اوں‬
‫ق می‬ ‫نھہیوںتیں اور ان‬
‫ومعن‬
‫ایاصکلیاح یافتہ صورتیں ہوتی ہیں ء یعنی آن کیمثالی هینتوں کو‬
‫اش‬
‫ایں ک‬
‫عەے‬ ‫رونا کرتی ھدیںو۔سرے الفاظ میں ہم یوں کہە سکت‬
‫وےم‬
‫کا میدان عملوہہے جسے افلاطون ۓےنقلکینقل یاصریجدروغ کوئی‬
‫کہا ااور‬
‫دافیکیٰ اور خرب اخلاق کارروائی گردان کر اپتےمثالی‬
‫جسہوریە کےنظام ہے خارج کر دی‬
‫ااوءر اس کے برخلاف تخیل کامیدان‬
‫خود افلاطون الہامی قو‬
‫جتنءون اللٰہی اور فنون کی‬ ‫جس‬
‫ےے‬ ‫عمل وہ‬
‫دیویوں کے سائے ہے منسوب کرتا ے اور آ٘س کشااگرد رشید ارسطو‬
‫فطرت کی صداقتوں پر اصلاح ء یعنی افلاطون کیمثالی دنیا کے حقائقی کی‬
‫عکاسی کہہتا ہے ۔‬
‫ہیں‬ ‫اس فرق کو ہم ایک اطورریقے ہے بوھیاضح کسرکتے‬
‫شلیگل ([‪٥‬چ‪٥‬لطت‪)8‬‏ دو طرح کی ہیئتوں میں تھمیز کرتے ہوۓے کہتا تھے ‪٠‬‏‬
‫‪۵‬ٹ‬

‫مواد پر ایک‬ ‫''جب ہیئعت کسی خارجی عامل کے زیر اثر کسی‬
‫اتفاق وصف کی حیثیت سے اور آُس یىیماعیت ے قطع نظر عائد‬
‫کر دی جاتی ے تو آسے میکانیکی ہیثت ککہتے ہنیاںمی‬
‫۔اتیق‬
‫(یا عضویاق‪)١‬‏ ہیئت اس کبےرخلاف جوھری اوارندرونی‬
‫ھوتی ہے اور بیج کی نشو و نما کے ساتھ ساتھ اپنا نقشهہ ظاهر‬
‫ا ما‬ ‫رج‬

‫وھم کی اختراعات میکانیک کلیتیں ھوق ہیں ء یعنی سطحی عوارض‬


‫کہ اٹمەکل پچو مجموعے ؛ بلکہ کئی مرتبہ حض امنل ج‬
‫ےوڑ اجزا کو‬
‫من ماۓ طور پر یکجا کرنۓ کے نتیجے ۔ اس کے برخلاف تخیل کی تخلیقات‬
‫نامیاتی ہیٹتیں ہوقی ہیں ء یعنی ایسی مکمل اور خود مکتفی وحدتیں جن‬
‫کے اجزا ایک دوسرے سآ‬
‫ےسی طرح سر‌بوط ہوۓ ہیں جس طرح کسی‬
‫جیٹۓ بھاگنۓے عضوے کے تمام اعضا و ةوعل ایک ک‬
‫سزی اصول کے تابع‬
‫ھوےۓ ھی ۔‬

‫یہاں ھمکو پھر ایک بار مولانا عبدالرحان ک ”أمةرالشعر؛ ے ایک‬


‫اقتباس دینا ضروری معلوم ہوتا ے ۔ وہ ”تصویر تخیل؟' کے عنوان کے‬
‫ماتحت لکھتے ہیں ‪:‬‬

‫”کبھی خیال عالم حقیقت کی سیر سے سبر ہو کر ذہن کی موجودہ‬


‫صورتوں میں اپی طرف ہےنی ترکیب و ترتیب شروع کر‬
‫دیتا ے ۔ کسی کاسر لیتا ے اور کسی کا پاؤں اور ایک‬
‫نئی لوق بنا کر کھڑی کر دیتاے اور ایسی ایسی صورتیں‬
‫نۓ‬ ‫اء‬
‫ننہ‬
‫وں‬ ‫سامنے لاتا ےہجو نە آلکھوں ۓ دیکھی ہو‬
‫کں‬
‫سنی ۔ اسیطلسم کاری کے درجے پسرپہنچکر شعرتخیبلی‬
‫خیال بندانه اور‬ ‫کہلاتا ے اور یہی وہ شاعری ہے جسے‬
‫تخیلانہ کہتے ہیں ‪-‬؛؛‬

‫یىی خیال بندی کی بنائی ھسوئی ھہستیاں حض عجیب الخاقت‬ ‫اقسسم‬

‫‪.‬٭آصوع‪0‬ہ‪0‬‬ ‫‪0‬‬
‫‪٦‎‬ھ‬

‫ہوئی ہستیوں‬ ‫ی‬


‫آےئمیں‬
‫سوکتی ہیں جو نہ صرفف انسانی تجر‬
‫ہستیاں ہ‬
‫ہے بالکل ختلف ہوں کی بلکہ اگر آن میں کوئی علامتی معائی نہ ھوں تو‬
‫اپنےوجود ککاوئی جواز بھی نہ رکھتی هوں گ ء لیکن مولانا عبدالرحان‬
‫ساےننصااق ھوکی اگسر ھم آن کی ایک مزید عبارت نتل نےه کریں‬
‫میں وہ تخییلی بخلوقات کے پر معئی هہوئنۓ کی ضرورت کو واضح‬ ‫جس‬
‫کرۓ ہیں ‪:‬‬
‫‪.‬‬
‫کو‬ ‫”شاعر بھی مصور سے جو معانی کی تصویر کھینچتا ا‬
‫ےِ۔ُس‬
‫بتھصیویر کامواد خیال ھی دیتا ہے ء جو خود' حقائق‬
‫ہتاا۔ں متخیله هکور‬ ‫کی حدود ےتہباوز نہیں کر سک‬
‫طرح عجیب‬ ‫رری‬
‫وہاو‬
‫صیتا ے‬ ‫لیل و ترکیب ہے ک‬
‫مام ل‬
‫عجیب صورتیں بنا کر بھان می کا سا تماشه شروع کر دیتا‬
‫سے اور ایسے ایسے آلٹ پ٭بر اور جوڑ توڑ کرتا ہے کہ‬
‫دور نکل‬ ‫سےوں‬
‫وس‬ ‫عالم حقیقت میں قید رہ کر بھی حق‬
‫کائق‬
‫اور مصوری کا وہ طلسات دکھاتا ہے کمہانى و‬ ‫جاتا ے‬
‫بہزاد کو بھی دور بٹھاتا ہے ء اور مصور کی طرح انی‬
‫صناعی کو صورت گری اور بت تراشی ھی پر تمام نہیں کر‬
‫دیتا بلکە صورتوں میں جان ڈالنے یعنی معانی پیدا کرۓ کی‬
‫بھی کوشش کرتا ہ۔ے؛‬
‫قیاس چاھتا ے که اس عہارت کا موضوع علمالاصتام ء اساطبرالاولین‬
‫عادت‬ ‫الفطرت اور خارق‬ ‫کے قصوں کی مافوق‬ ‫پنری‬ ‫اور‬
‫و ج‬
‫ہستیاں ذھن انسانی کی قدم‬ ‫یہ‬
‫۔‬ ‫ہستیاں ہیں‬ ‫ہمتیوں کی سکیوئی‬
‫استعارہ آفرینی اور تمثال انگیزی کی مثالیں ہیں ؛ لیکن صرف اس بنا پرکهە‬
‫ریت مکیںیا جاتا ھے‪٢‬نھ‏یں ٹامیاتق‬
‫وک‬‫صیوں‬
‫ہست‬ ‫تی‬
‫گتی‬
‫ا جی‬ ‫آن کاتص‬
‫جور‬
‫۔ہ زیادہ سے زیادہ نامیاتی ہیئتوں‬
‫کی مثالیں نہیں کہا جساکتا و‬ ‫ہیثت‬
‫اور‬ ‫ہیں ؛ آ٘نھی معنوں میں جن معنوں میں استعارے‬ ‫ننی‬
‫کد ب‬
‫سموا‬
‫کا‬
‫ان‬
‫جے‬‫هوں یا‬ ‫وہ زندہ ہستیوں ہے متعلق‬ ‫کھ‬
‫اس ہے‬ ‫م‬
‫ا؛‬‫عالیں‬
‫تمث‬
‫لںی۔کن وہ بجاۓ خود نامیایق‬
‫چیزوں سے ۔ شاعری کا مواد بی ہی‬
‫ے‪۵‬‬

‫موےہکی نەکہ تخیل کی خلوقات هیْں ۔‬ ‫ہسے‬‫ااظ‬ ‫ھیثتیں نہیں ہیں ؛ اس‬
‫ولح‬
‫آن میں جو معانی پیدا کیے جا سکتے ہیں وہ زیادہ سے زیادہ علامتی معانی‬
‫ایئےیں تو وہ‬ ‫ہوسکتے ہیں ء اور اگریہعلامتی معانی بھی پیدا نجہک‬
‫و دور جدید کی سرریلسٹ‬ ‫جںسگی‬ ‫صرف آسی قسم کی چیزیں ہو‬
‫(‪۲۲٥٥81‬ن‪)8‬‏ مصوری اور شاعری میں پیش کی جاتی ہیں ء یا فرائیڈ‬
‫کے لاشعور کی آوٹ پٹانگ شکلیں ہوں گی ۔‬
‫مافوق الفطرت ہستیوں کو اعلیلٰ پاۓ کی تضییلی شاعری کا (یعنی‬
‫ایسی شاعری کا جو نامیاتی ھیئت کی تعریف پر پوری آترتی ے) مواد بناۓ‬
‫کہہیترین مثالیں ء علم الاصتام اور اساطیر الاولینِ کے بادر؛ شیکسپیٹر کے‬
‫سیکبتھ ([‪٥٥‬ا‪)811.٥‬‏ اور گونٹے ک فاؤسٹ(‪)680:87‬‬ ‫ڈراموں ء بالخصوص‬
‫کدےوسرے حصے میں ملتی ہیں ۔ وہاں جو کچھ پیش کیا گیا ہے وہ‬
‫محض کسی کا سر اروکسی کا پاؤں لےکر بنائی ہوئی خلوقات کا ”'بھان متّی‬
‫کا سا ماشهہ؛' نہیں بلکە نفسیاتی ء مابعدالطبیعیاتیق ‪٤‬‏ اخلاق اور فی علامات‬
‫ایک سلسلہۂ واقعات ہے جو زندکی کے واقعات کی طرح‬ ‫یز‬
‫بنیرے‬ ‫و‬
‫لمعا‬

‫ایک ضابطه قوانین اور ایک رابطۂ علت و معلول رکھتا ے اور جسے‬
‫کرتا‬ ‫ل‬‫وسے‬
‫باہ‬ ‫قاری کاذھن خارق عادت جانتے هوۓ بھی فنی نقط‬
‫قہ نگ‬
‫ہے م‬
‫۔قابلة” قدر ےکم درجے پر اس کی ایک اور مثال وہ رومانی شاعری ۓ‬
‫ی ‏‬
‫مرف‬
‫سہص‬
‫لن‬ ‫جس میں بروں منصة شہود پآرتی ہیں ۔ یه پر‬
‫طیاں‬
‫پراسرار ؛گریزپا ء سایہ ‪:‬ما ء چلبلی ء چھل بل دکھاۓ وا ی ہستیاں ہوتی‬
‫ھیں بلکه طرفه تر بات یه ےکہ وہ ھم کو سچ مچ کی خلوقات معلوم‬
‫ہ‬
‫نیاںکقسایبل تفہم طریقے ہےچل گیاہوے۔‬
‫ہوتی ہیں ؛ جن کا پتا م‬
‫شاعری یا انسانی تخیل کی پیداوار معلوم نہیں ھوتیں۔ اس کے برعکس‬
‫انسانیتخیل آن کاادراکٹ کر کے اپنی معراج کو جا پہنچتا ھے اور‬
‫شاعری آنْسے کس بکال کرتی ے ۔ حسی ادراک کیدنیا ایک دھوکا ء‬
‫ان‬ ‫دنیا جس میں‬ ‫ایک وھم اور سراسر مایا بن جاتی ہاےور وہ اندرونی‬

‫فرضی ہستیوں کانور ظہور ے اصلىی دنیا کا روپ دھار لیّی ہے ۔ رومانی‬
‫ماعری کی ہرپان ‪:‬صرف‪:‬إنسان نما پعلیان نہیں بلکد نَاقوی الیمر ھیتیان‬
‫‪۵۸‬‬

‫حقیقت کا علم‬ ‫رکهتی ہی‬


‫اںی؟سی‬ ‫لکا‬
‫م‬ ‫ماورائی حقی‬
‫عقت‬ ‫یوک‬ ‫ہی‬
‫اں ج‬
‫جسو عام انسانی تجرے کے داشرے سے باھر ے اور جس کا سراغ صرف‬
‫انسان کے باطن میں ملا ہے ۔ وہ انسان کےلیےعالم غیب کی زاعیز‬
‫کی دنیا نہیں ء‬ ‫ہیں ۔ رومانی پریوں کیدنیا تخیل کی دنیا ہوےاءہمے‬
‫کی بعض‬ ‫نظام رکھتی ے۔اآردو‬ ‫کیوں کہ وہ اپنا ھی ایک مکمل‬
‫خصوص پریوں وککردار‬ ‫اںل؛‬ ‫مثنویوں میں بمھایفوق الفطرت هس‬
‫بتیو‬
‫قصه بنایاگیامےء لیکن آن کے مافوق الفطرت ہوۓ کا کوئی جواز‬
‫دکھائی نہیں دیتا ء بلکه پڑھنے والے کو یہحسوس ہوتا ہکےہ اگر ]آن‬
‫کی سیدے سادے طریقے سے انسانی شخصیتیں اور سبرتیں بش دی جاتیں‬
‫تو قصے کی ڈرامائی تائیر میں اضافہ هو جاتا ء کیونکه پڑھنے والا آن‬
‫۔ی‬
‫‌هالفطرت‬ ‫مبروط همواجافتا‬
‫وق‬ ‫تک‬
‫ےےمیں‬ ‫شدی‬ ‫کسےاتھ انسانی ھم‬
‫ردر‬
‫بلکە حض واعے کی تخلیقات ہیں ؛ کیوں کە وہ‬ ‫کنیہی‬ ‫یں‬ ‫مستیان‬

‫نہ خود نامایاتی وحدتیں ہنیںام‬


‫؛نیہاتی ہیئتوں کے عناصر ترکیبی ۔‬
‫بنیادی‬ ‫صرف یہی نہیں کہ وقہصے کے سلسلۂ واقعات (‪ )8017‬ککیسی‬
‫ضرورت کو پورا نہیںکرتیں بلکە وہ آس کی جموعی معدویت میں بکھویئی‬
‫ایافه نہیں کرتیں کیونکہ وہ کوئی علامتی حیثیت نہیں رکھتیں ۔‬
‫ظاہرہےکہاگر چہ مولانا عبدالرحان ۓ خیال بندی اور تخیل‬
‫میں تمیز کرئتۓ کی کوشش کی ہے ء لیکن وہ تخیل کی توصی فکرتے کرتے‬
‫خیال بندی پر رک گئۓے۔ خیال بندی واہمے اور نخیل کے درمیان ایک‬
‫عبوری محلم حے ۔ آس کے نتائ خود مکی وحدتیں نہیں ہو‬
‫اتےلبءته‬
‫الفاظ میں وہ مکمل‬ ‫ایسی وحدتوں کے عناصر بن سکتے ‪:‬ہیں ۔ دوسرے‬

‫یہ؛تیرں ء استعارے | ور تشبیہیں‬ ‫نظمیں نہیں هوۓ بلک ایسی تنث‬


‫کالیں‬
‫زی خیال بن سکیں یا آن میں استعمال‬ ‫صوںککے‬‫ھوے ہیں‪ .‬جو نظم‬
‫کے جا سکیں ۔ قیاس چاہتا عےکہ اس التباس کاباعث وہی حجےس کا‬
‫ھم آوپر ذکر کر آئۓ ہیں ء یعنی یہکہ فارسی و اردو کی شاعری میں‬
‫معیاری اکائی منفرد شعر ہے ۔ ایک منفرد شعر کا نامیاتی ہیثت و‬
‫تکیا ء‬
‫کسی قسم کی هیئت رکھنا معلوم ۔ یه بات کہ هاری روایتی شاعری ک‬
‫‪۹‬‬

‫بنیادی صنف غزل ہے ء اس اس کی غاز ے کہ ہاری شاعری نے تخیل سے‬


‫پوراپورافائدہنہیںآٹھایا کیونکہ تخیلکااصلى جوہرہیئت آفرینی ہے۔‬
‫غزل منفرد اشعار کا ایک ایسا محموعه ہوتی سے جس کے اجزاے ترکیبی‬
‫مسیں وزن؛ بسر قافیه اور ردیف کے سطحی اوصاف کے سوا کوئی‬
‫هوتا ۔ وہ زیادہ ہے زیادہ ایک میکالی کلیت هو سکتی‬ ‫رشتةۂ وحدت نہیں‬

‫ہے ۔ یوں تو جہاں تک خیال بندی کاتعلق ہے ء ہہاری شاعری میں اس‬
‫یَ اعلیٰ مثالیں کثیر تعداد میںملتی ہیں ء لیکن پچی کاری ایک چیز‬

‫ے اور فن تعمیر ایک اور چیز ء متفرق جذبات کا اظہار ایک چیز ے‬
‫ءشر نکتہ آفرینی‬
‫اور مکمل جذبانی تجربوں کابيان ایک اور چمیزنت‬
‫سے تارے توڑ لانا‬ ‫بصیرت ایک اور چی‬
‫آزس؛ان‬ ‫ایک چی‬
‫ازوہے‬
‫ر‬
‫ایک چیزہے اور جامع نظام هاے شمسی کیتخلیق ایک اور چیز ۔‬
‫میں ہیئت کے فقدان کے متعلق جو‬ ‫عدو‬
‫ری‬ ‫من‬
‫اےآر‬ ‫ہھر حال ہش‬
‫کلیە پیش کیاہے اس کےمستثنیات بھی ہیں ؛ جن میںسےچند ایک کو‬
‫ہم آگےچل کر موضوع بحث بنائیںگے ۔‬
‫چوتھا باب‬
‫شاعرانہ تخیبل اور حقیقت‬
‫تیسرے باب کے آخری حصے میں ہم ۓ جو بحث کی کے آنسے‬
‫ان ہکےہ تخیل کا سروکار کلی طور پر‬ ‫می پیدا هاوۓمککا‬ ‫یفه غ‬
‫ہلط‬
‫ر فطری اور خارق عادت اشیا وواقعات ہے ے؛‬ ‫نہیں تو زیا‬
‫غدہیتر‬
‫جس سے يد ضمنی نتیجہ نکالا جا سکتا عے کہ چونکہ ہہارے نظرے کے‬
‫کی قوت فاعله سے ء اس لے شاعری کا اصلی سروکار‬ ‫ری‬‫عیل‬ ‫مطا‬
‫شبق‬
‫ا تخ‬

‫بھی ایسی ھی چیزوں سے ہے ۔ اس باب میں ھم اس غلط فہمی کا ازاله‬


‫کرۓے کیکوشش کریں کتےی‬
‫۔سرے باب کااماعطل یہ ہے کہ تخیل وہ‬
‫ھیٹئتیں عائد‬ ‫حسی و ادرای مواد پر ایسی‬ ‫تجرے کے‬ ‫جو‬ ‫لے‬ ‫قوت‬
‫ری نے جن کی بدولت نفس انسانی اس دئیا کے هتگامہ مظائر میں‬
‫تنظم و ترتیب پیدا کرتا ہےیا‪.‬بہالفاظ دیگر موجودات عالم کاعلم حاصل‬
‫کرتاے ۔ اس دعوے کے منطقی ضمیے کےطور پر ہم ۓ یه دعویٰ کیا‬
‫پر‬ ‫اےد‬ ‫تھاکہ شاعر کے تخیل کی یہ خصوصیت ہوتی کےہ وہ تج‬
‫مرےوک‬
‫ا۔‬
‫س‬ ‫ایسی هیئتیں عائد کرتا ے جو مثا ی اور نامیاتی ہیئتیں ہوق ہیں‬
‫کریں گ۔مےولانا‬ ‫وضویح‬ ‫باب میں ھم ان دعاوی کمیزید تص‬
‫تریج‬
‫عبدالرح|ن کی جو آخری عبارت ہم نتۓیسرے باب میں نقل کی ےہ آس‬
‫یہ ھے ‪:‬‬ ‫میک‬
‫لہ‬ ‫می‬
‫جں ا‬
‫دور نکل‬ ‫وس‬
‫سےوں‬ ‫حقا‬
‫کئق‬ ‫”'(شاعر) حقیقت میں قید ربہ ک‬
‫ھری‬
‫جاتاےے ۔)؛‬
‫کا خالف قضید ےےء‬ ‫س‬ ‫ہیں‬
‫ا وہ‬ ‫چوھ ثابت کرنا چاہتے‬ ‫ھم‬
‫کج‬
‫یعبی یەکھ شاعر حقیقت کی قید سے باہر نکل کر حقیقت کا انکشاف کرتا‬
‫ہے ۔ دوسرے الفاظ میں جس ماورائیت کی طرف مولانا عبدالرحان ۓ اشارہ‬
‫کیا عےہم آس ہے متفق ہی‬
‫لںیءکن ہہارے نزدیک اس کی ماہیت وہ‬
‫یےک ہے ۔‬ ‫دن ک‬ ‫نہی‬
‫نں ج‬
‫زوآ‬
‫‪۰٦‬‬

‫ء‬ ‫صء‬
‫وف‬ ‫مذ‬
‫تھب‬ ‫حقیقت کی ماہیت اور حقیقت کے علم کے متعلق‬
‫فلسفه اور سائنس کے ختلف عقیدوں ء نظریوں اور قیاسوں میں ایک چیڑ‬
‫قدر مشترک ہے ؟ وہ یهبنیادی مقدمہ ے که عالم موجودات نفس انسانی‬
‫اور خارجی دنیاکے باعمی تعلقکاتام ہچےاءھے نفس ااسا‬
‫کنیسکو‬
‫ی‬
‫عضو مثا دل ؛ دماغ یا اعصاب سے یا کسی قوت مثلا عقل ء کر ء‬
‫فہم ‏ تخیل یاروح ے یا کسی خاصیت یا کیفیت مثل احساس ء ادراک ء‬

‫جذبہ یا تاثر پزیری ہے منسوب کیا جاۓ اور چاے عالم موجودات‬
‫کموادی مظاھر ء عوارض ء صفات ء اجسام اور قویٰ یا روحانی حقائق ء‬
‫خیال کیا جاۓ ۔ بە الفاظ دیگر‬ ‫جمکا‬
‫وعه‬ ‫جواعرء اسء ء طبائع اور مع‬
‫مانی‬
‫ائظان کےلیے عتیقت' غالم۔صنہواد کاناماھ ءٴیعنیٰ‪ :‬اس ادائرة اشعورٴتا‬
‫نام جس میں آس کی ذات اور ماسوا ایک ‪:‬دوسررے ہے س بوط و متصل‬
‫اة‬ ‫ہوے ہیں ۔ اسم شعور کے ختلف مدارج اور مختلف کیفیات ہی‬
‫مںثء‬
‫اور‬ ‫؛ قیاس ؛ فہم ء علم ءعرفان‬ ‫ظن ء گان ء وہم ء احساس ء ادراک‬
‫ت‬
‫وجربهە‬ ‫ہدہ‬ ‫شذا‬
‫اتی‬ ‫اپ‬
‫منے‬ ‫یتین ۔ مذعب انسان کے اُس علم میں جآ‬
‫وے‬

‫اور غفورکرو‪:‬اور دوسرے لوگوں کی شہادت کے ذریعے حخاصل هوا‬


‫ہے ایک اور قسم کے علم کا عفصر شاسمل کرتا ے جو انسان کے قواے‬
‫علم اندوزی ہے ماورا ے اور جس یی سند ایک خاس الخاص انسان یعنی‬
‫اایک‬
‫لنہیک‬
‫اامی تجربہ هوتا ے ۔ دوسرے الفاظ میںوہ انسان کعےلم‬
‫قبول کے لیے‬ ‫فوجودات میں علم غیب کا اضافه کرتا ے اور آ٘‬
‫کسے‬
‫یمان بالغیب کیانفعالی کیفیت کا تقاضا کرتا سحےق۔یقت کا جو نقشہ‬
‫مذھب پیش کرتا ہے وہ انسان ی فطزت ‪٢‬س‏ کی زندگٴ ارضی اور آُس‬
‫کے آشنا ماحول کاایک تکمیل یافتہ سرقع ہے ؛ ایک ایسا مرقع جو اس‬
‫آو‬
‫ّہس‬ ‫کی سمجھ میں آ سکتا ۓے اور جسے وہ اس لیے قبول کرتا ہے کہ‬
‫تفسیرَ اس کےبلند تریں تصورات‬ ‫رک‬
‫یین‬ ‫تخول‬ ‫ھ‬
‫ے فا‬ ‫کی زندگ اور آس‬
‫بک‬
‫کیتجسم ؛ آس کیعمیق تریں آرزوؤں کی تکمیل اور اُسکے حسین تریں‬
‫جو‬ ‫سے‬ ‫نقمهہ‬ ‫ایسا‬ ‫وہ ایک‬ ‫خوابوں یق تعبیر ےہ ۔ دوسرے الفاظ می‬

‫ک‬ ‫یل‬ ‫انسان کو یسوں معلوم ھوتا ے کہ جیسے وہ خود ام‬


‫سخکے‬
‫‪٦٦‬‬

‫تفع تریں کیفیتوں کی پیداوار هو ۔‬


‫تصوف کی نگاھوں میں حقیقت ایک ایسی ناقابل تعریف و تخصیص‬
‫ےے نصیب‬ ‫کو فقط کشتی و وجدانی وسائل‬ ‫چیز عے جس کا علم انسان‬

‫کا‬ ‫ہو سکتا ہے ۔ اس حقیقت کاجوعرفان صوفیا حاصل کرتے ہی‬


‫آںُس‬
‫منشا یھی ہوتا ے کہ وہ آُسکو اپنے اندر جذب کرلیں اور اپنے آپ‬
‫کو اس میںگ مکر دیں ۔ وہ نه عام انسافی تجرے سے اخذ دوتاے اور نه‬
‫صد براہ راست انسانی علم میں اضافة کرنا ہوتا ہے ۔ اس لیے‬
‫مسقکا‬
‫آُ‬
‫اس کابیان عام انسانی تجرے کی زبان میں نہیں بلکە جرد روحانی علادات‬
‫کے ذریعے کیا جاتا ہے ۔ مثلا عبدالکریج ابن ابراہیم الجیلی کے نزدیک‬
‫نے اپنے‬ ‫مطلق‬ ‫ت‬
‫اے ۔‬
‫ذد س‬
‫شہو‬ ‫یه عالم ایک واحد وجود یىی کثرت‬
‫پہن کر غیر کی حیثیت‬ ‫سامنے جلوہ نھا ھوۓ کی خاطر عصف‬
‫لاتبکااس‬
‫کا اظہار ے‬ ‫ال‬ ‫ہے اور دنی‬
‫خا آ‬
‫یُس‬ ‫راادف‬
‫تک‬‫مال‬
‫خی‬ ‫و۔د‬ ‫ویار‬
‫جکی‬ ‫اخت‬
‫جو خدا کے ذھن میں آپ اپنےمتعلق تھا ۔ انسان اپنے جوھر کی بدولت‬
‫عےے وجود مطلق اور عالم فطرت‬ ‫یس ک‬
‫رے ج‬
‫ذل ہ‬
‫‪:‬ضمیر کونین کاوہ خیا‬
‫ین ابن عربی کی نکاھوں‬ ‫دحی‬
‫اںل۔م‬
‫ایک دوسرے ےمتعلق ہوۓ ہی‬
‫احضارہ کر جک‬ ‫ہیں اور ذات غبر کی صورت ظاھری‬ ‫میں صفات ءین ذات‬
‫انسانی ادراک پر اپنے آپ کو جلوہ گر کرتی ہے ۔ خیال کاثٹات کاھیولیل‬
‫ہیں ۔ یہ صورقیں سیمیائی‬ ‫ولرکتکیں‬
‫صولو‬
‫ے اور سظاہسر عالم آآس ہی‬
‫صورتیں نہیں ء بلکہ ذات مطلق کیخسود بینیاں انورمخاوئدیاں ہیں ۔‬
‫چنانتچہ ارباب لی کی چشم بصیرت آآنئکیےنے میں ذات باری کا جلوە‬
‫دیکھ سکتی ہے ء یعّی حقیقت کا مشادہ کر سکتی ے ۔‬
‫جو‬ ‫فلاسفہ ء جن کا کام ایسے نظام هاے فکر وضع کنا ھوتاے‬
‫انسانی تجرے کی عقلىی تفسبر کے ذریعے انسان کو اس کائنات کی ماعیت‬

‫اسرار‬ ‫ته‬
‫بتسکے‬
‫رخصی‬
‫سر ش‬
‫اور غرض و غایت اور آآسکی اہی زندگی او‬
‫ااکثٹر ایسے اوّلی اصول ء بدچہی‬ ‫ی‬
‫ھوہ‬
‫ب؛‬‫میں مدد دیں‬ ‫کے سمجھۓ‬
‫مقدمے استعال میں لاتۓے‬ ‫مفروضے اور ناقابل تصدیق‬ ‫ءدی‬
‫یا‬‫نیں‬
‫باقت‬
‫صد‬
‫ہیں جن کیتوجیہ صرف یوں کیجساکتی ہے کہ وہ عقل سے جدا کسی‬
‫‪3۳‬‬
‫قوت کے عطیے یں ء یەالفاظ دیگر ایسے حقائق ہیں جن کا علم کسبی‬
‫چیزوں‬ ‫میں‬ ‫کے ذہن‬ ‫۔ا‌طون کی امثال ء‬
‫خجو‬
‫دا‬ ‫نہیں بلکہ وہبی ساےفل‬
‫کے خیال ء بعنی آن کی اصلىی صورتیں ہیں ء هر روح پآرُس کے اس دنیا‬
‫مکشوف تھ‬
‫لیںی؛‬
‫کن اس دنیا میں صرف الہام اور‬ ‫لےے‬ ‫می‬
‫پں آ‬
‫ہۓ س‬
‫اسلامی کے‬ ‫ہی‬
‫فںل۔‬
‫سف‬ ‫می‬
‫سںکآ‬
‫تی‬ ‫لکے‬
‫م‬ ‫جنون کے ذریعے انس‬
‫عان‬
‫اشراق دیاستفانلانےطون کعاےلم امث‬
‫االیپر‬
‫ک برتر عالم اشباح کا‬
‫اضافه کیاجس میں اس عا‬
‫تلممکایم صورتیں بذات خود قائم ھوق یں ء‬
‫ولویا کے‬‫جن کا پرتو وحی ؛ الہام اور کشف کے وسیلے سے انابیا‬
‫افلاطون کی امثال کو رد کر کے صورت‬ ‫مشاهدے میں آتا ہے ۔ ارسطو ۓ‬

‫اور مادے میں تمیز کی اور یه راے ظاھر یی که صورت مادے میں‬
‫اس دنیا کی‬ ‫کآ‬
‫ر‬ ‫مضمر وق سے ؛ یعی صورتیں اس کے فلسفے میں‬
‫مکین بنگئیں ۔ لیکن آ٘سۓےایک صورت مطلق کا اعتراف کیاجومادے‬
‫ے ۔اس صورت کآو٘س نۓ خدا کہا اور خدا کو‬ ‫جرود‬ ‫کمے ب‬
‫وغی‬
‫واحد افلاطونی مثال تسلم کیا ۔ افلاطونیت جدیدہ کا بانی پلوٹینس‬
‫(‪80‬مه‪ )[0‬کثرت و وحدت کی یکتائی کامعتقد ہے اور اس کے نزدیک‬
‫فطرت کی تکوینی طاقت اور انسان کیتخلیقی قوت ایک ھی حقیقت کے دو‬
‫صورت ہزیر‬ ‫پہلو میں ۔ فنکاران معنوں میں خالق ہوتا ہے کوہه‬
‫ازلی کے ذھن‬ ‫لق‬ ‫مادے پر وہ هیئتیں عائد کرتا سے جو روز او‬
‫خلاسے‬
‫میں تھیں ۔ قرون متوسطہ کے صوف حکم سینٹ تامس ایکوئیٹناس‬
‫اشیاے خارجی روح‬ ‫(ةفھمنناوھ ‪88‬ح ‪٥0‬م )‪.٤8‬‏ کایه عقیدہ ک‬
‫ےہ‬
‫انسافی میں اپنے حسی قاثرات کے ذریعے تمثالیں پیدا کرقیق ہی‬
‫لںیءکن‬
‫جدیدہ‬ ‫ان کیصورتیں عقل کے وسیلے سے عل‬
‫ممیں آتی هایںفل۔اطونیت‬
‫کہتے ہیں ۔‬ ‫رآ‬
‫ونحکی‬
‫یں‬ ‫کے دوسرے حکا اشیا کی صورتوں کو‬
‫کھ‬ ‫کے فلسفے کا خلاصد آس کا يہ جملہ ہے‬ ‫دیکارت (‪)8607968601‬‬
‫هو“ ۔ سوچنے ی طاقت ایک‬ ‫”میں سوچتا ہوں ء اس لی‬
‫مے م‬
‫ویجںود‬
‫یه ےے‬ ‫اور اس کو چند ایدی صداقتیں ء جن کی نشانی‬ ‫اہی ے‬ ‫عطية‬
‫میں خدا‬ ‫رح اور واضح ہویق میں ء فدیعت کی گئی هی‬
‫اںن۔‬
‫ھی‬ ‫کە وہ‬
‫ابر‬

‫مادے اور حرکت کو‬ ‫‪)0‬‬ ‫‪(7‬ە‬


‫‪٥1‬‏‬ ‫۔ھا‬
‫ابز‬ ‫کی ہستی کا تصور بھ‬
‫میاےر‬
‫حقائق غانی سمجھتا ہے اور نفس کے وجود کا منکر ہے ۔ اس کے نزدیک‬
‫انسانی علم حعض حسیات کا نام ے جو اعضاے حسی پر مادے کے دباؤ‬
‫(‪ )820058‬کے نزدیک کائنات کا اصلی‬ ‫سے پیدا ہویق ہسیں‬
‫پی۔نوزا‬
‫الطبائع ہے ء بعنی خدا جصوورتوں کے ایک لامتناھی‬ ‫منبع ای‬
‫طکبع‬
‫سلسلے کے ذریعے اپنے جوھر کو آشکار کرتا رھہتاے ؛ اور ہر واتعه‬
‫خدا کے ذھن میں اور خارجی دنیا میں بیەک وقت رونما ہوتا لےئی‬
‫۔ینز‬
‫(صائك‪0‬ا‪1‬ھا) کے لے کائنات شعور کی لاتعداد وحدتوں کا ء جو روحیں‬
‫یا انفاس هیں ء ایک جموعهہ سے اور مادی دنیا کتیمام اشیا اورآس کے‬
‫تمام مظاہر ء یہاں تک کە فضاے مکانی بھی ء حض ان شعوری وحدتوں‬
‫وہ نفس یا روح ے جس کاشعور سب‬ ‫ہی‬
‫خںد۔ا‬ ‫تے‬ ‫کر و‬
‫ھحود‬ ‫کے‬
‫راند‬
‫سے زیادہ شدید اور وسبع سے ۔ لاک (‪٥‬ع[‪],٥‬ا)؛‏ جس ۓ فہم انسائی کو‬
‫اپنا خصوصی موضوع تحقیق بنایا ء اس نتیجے پر پہنچا کہ انسانی فہم‬
‫حسیات پرمبنی ىے ۔ وہ ان کو آلٹ پاٹ کر نئے حموعے تیار کر سکتا‬
‫چیزوں کی اوٗلی‬ ‫ا۔ت‬ ‫سر سک‬
‫یتا‬ ‫ہے لیکن آن میں کوئی اضافہ نہی‬
‫حں ک‬
‫صفات یعنی وسعت ؛ شکل ؛ ٹھوس پنء تعداد احور‬
‫رکت کے پرتو ہیں ۔‬
‫جہاں تک چیزوں کی ؛نوی صفات بعنی رنگ ء ہو آ‬
‫ءواز اور ذائقے کا‬
‫؛بل‬
‫رکی‬ ‫تعلق ہے ؛ آن کا ادراک حسی تاثرات کے ذریعے نہیں ھوت‬
‫فاک‬
‫عمل کے ذریعے داخلی طور ہر ہوتا ہے ؛ کیونکە وہ خارجی دنیا میں‬
‫فی الواقعه موجود نہیں ہوتیں ۔ چنانچہ چیزوں کے جوهر ؛ روح اور خدا‬
‫کاوئی علعیاتی ثبوت پیش نہیں کیا جا سکتا ۔ ھیوم (‪0 60‬اا) کا عقیدء‬
‫انسانی شعور ایسے حسی ادراکات کا ایک محموعہ ہے جو قرب‬ ‫یه ک‬
‫ۓہ‬
‫زمانی ؛ مشابہت اور علّی تعلق کی بدولت ایک دوسرے سے مربوط ہو‬
‫جاتے ہیں ۔ چنانچہ نف اور فطرت ء یعنی خارجی اور داخلی حقیقت ؛اُس‬
‫کے نزدیک حض حسی تاثرات کاایک سلسله جاری ہیں ک‬
‫۔انٹ (‪)8851‬‬
‫ہیلںا؛ک اور هیوم‬ ‫چےککر‬
‫ے‬ ‫کاماورائی نظریة جذس ک‬
‫کار ہم پہل‬
‫یی مادیت ء تجربیت اور ائتلای نفسیات کا جواب اور قدماے فلاسفہ کے‬
‫‪۰۵‬‬

‫عقائد‬ ‫لق‬ ‫مورا‬


‫تتعکے‬ ‫علوم متعارفهہ ء براہین اوّليه او‬
‫قربما‬
‫ل تجربہ تص‬
‫کا ایک نی صورت میں احیاء تھا ۔ اگرچہ کانٹ ۓ یه اعلان کیا تھا‬
‫نفس الامےہی یا اشیا من حیث الاشیا کا علم انْمَانَ کو حاصل‬ ‫حقیقت‬ ‫کی‬

‫نہیں ہسکوتا ء لیکن اس کےتابعین ۓےاس شجر متوعہ کے حصول پر‬


‫سوز کر دیں ۔ فشطے (‪66‬ط[‪ )181‬کایہ عقیدہ ہکےە‬ ‫اپنی سساعی ک‬
‫حقیقت نفس الاس۔ی نفس انسانی کی تخلیق ہے اور انسانی تجرے کا مصدر‬
‫اصلی ''اناے مطلق؟“ ہے جو اپنے آپ کو نفس عالمه اور شۓ معلوم میں‬
‫تقسم کر لیتا ے ۔ شیلنگ (ع‪٥[[51‬ط‪)8٥‬ء‏ جو بنیادی طور پر ایک چالیاق‬
‫فلسفی تھا ک؛ائنات فطرت کے جال کو آآس کے وجود کا کا و وا جواز‬
‫اور ثبوت سمجھتا ےے ۔ چنامچہ آُس کاوہ نظریه جس کا ذکر ہم دوسرے‬
‫ے‬ ‫ج|لیاتی ادراک کاوآہلہ‬ ‫خہ‬
‫یل‬ ‫باب میں کر چکے ہیں ؛ یعنی یتہ ک‬
‫حاصل کیا اور پھر شعور کی بدولت‬ ‫جس کے ذریعے فطرت نشےعور‬
‫عقیدے کا ایک پہلو ہے ۔ یکل‬ ‫تخلیق کی آزادی حاصل کایء‬
‫سی‬
‫وہ ایک مسلسل‬ ‫([‪6٥‬ج‪)8٥‬‏ کے ذہن میں کائنات کا یه تصور تھا کہ‬
‫ستکلانہ جدال ےہ جس میں اضداد کی متواتر تطبیق ہوتیق رہتی ےء‬
‫ایک دوسرے میں مدغم ہو کر زندگ کا‬ ‫دو‬
‫م‬ ‫به الفاظ دیگر وج‬
‫عود‬
‫لمحه بە لمحه پھیلتا ھوا نظام وضع کر رے ہیں ۔ برگساں (‪0۵‬ع‪)802‬‬
‫کے نزدیک کائنات میں ایک تخلیقی ارتقاء کااصول کار فرما ہے ء یعنی‬
‫فطرت ایک فنکار کی طرح مسلسل رباضت ہے ایک شاہکار کی تکمیل‬
‫‪7‬ی با اس" ارھا‪ :‬یئ نس ‪:‬مادۓ پر غالب آۓ کےلے ایی‬
‫میں مرحلهہ یہ صرحلہ کاسیابی حاصل کر زھا‬ ‫کوشان ھے اور اس کؤشش‬

‫چیزوں کو ایک‬ ‫۔غے ۔ اس کاآلهُکار عقل نہیں بلکہ وجدان سعےق‬


‫۔ل‬
‫دوسری سے چسدا کرتی ہے اور وجسدان آنھیں ایک دوسری کے ساتھ‬
‫ملاتااے ۔‬

‫ماف مین فاجتے ا‪0‬ختدا نظرت افر انان ی اعت‬


‫مسائل زیادہ تر مذھب اور سائنس پر چھوڑ دے ہیں ء اور اپنی توجه‬
‫علمیات کی ایک مخصوص شاخ پر کسوز کر دی ہے جس کا نتیجدہ وہ‬
‫‪55‬‬
‫جسے منطمّی اثباتیت ککہتے ہیں ۔ سائنس نۓ فلسفے ی‬ ‫اسلوب فکر ہے‬

‫مربیائه نگرانی سے آزادی حاصل کر کے ایک طرف تو تجربی تصدیقوں‬


‫اور دوسری طرف ریاضماتی کلیوں اور منطقی قاعدوں کی مدد ہے عالم کبیر‬
‫دو‬
‫سنو‬
‫رںبکے‬
‫ستة‬ ‫یت‬ ‫خنی ان‬
‫صسائی‬ ‫یعنی کائنات فطرت اور عالم صغب‬
‫شر یع‬
‫حیاتیات کے میدان میں‬ ‫اسسرار کے نئے نئے حل پیش کے ھمیںثل‬
‫۔ا‬
‫کے جواھر ؛ یعنی برقیے‬ ‫ایصر‬ ‫می‬
‫عںنماد‬ ‫یتدکے‬
‫ان‬ ‫مسئله ارتقا ء طبی‬
‫معیا‬
‫ی نادیدہ لہریں اور نظریة اضافیت ؛ فلکیات کے‬ ‫اور قلیے ‪٤‬‏ ایثر او‬
‫ارس‬
‫میدان میں لتاعداد نظام ھاے شمسی اور ایک لامتناھی و لاعدود کائناتء‬
‫طبقات الارض کے میدان میں کڑوڑوں برس پرانا کرۂ ارض ء نفسیات کے‬
‫میدان میں انفرادی اور اجتاعی لاشعور ‪٤‬‏ نسلىی حافظہ اور دیئتی نفسیات ء‬
‫انسانیات کے میدان میں زبان ء جادو ء مذھب ‪٤‬‏ سائنس ء فنون لطیفه اور‬
‫تظام ھاے معاشرت کے آغاز اور ارتقا کی توجیہیں ۔‬
‫آج سے تین چار صدیاں پہلے سائنس ے مدامتبت ء تصوف اور‬

‫فلسفه عالیه کے روحانی تصور کائنات کو مورد شک بنایا اور پھر آخرکار‬
‫تجربی ء مسادی اور طبیعی فلسفے کی حہایت کے بل ب۔وتے پر اس ہے انکاو‬
‫کے بجاۓ آس ۓ کائنات کا ایک نما نقشه پیش کیا جس سک‬ ‫کے دا اس‬
‫مطابق کائنات ایک مکمل مشین تھی ۔ اس مشین کا بناۓ والا چاے‬
‫کوئی بھی تھا ء اہم بات یه تھی کہ اس کے کل پرزے ایک دوسرے‬
‫کے ساتھ پوری پوری مطابقت رکھتے تھے اور باقاعدق سے چل رےہ‬
‫تھے ۔ اسی طرح انسان بھی ان کے نزدیک ایک مشین تھااجی کو ایا‬
‫تآوُس کی جس)نی ساخت یا ایک میکانیی قوت؛ جس کا نام عقل تھاء خارجی‬
‫دنیاکیمشین کےپہلو بەپہلو چلارھی تھی ۔ یہ تصور ایک انینئر کا‬
‫تصور تھا اور اس میں کسی نقص یا رکاوٹ کیمطلق کنجائش نتەھی ۔‬
‫اسی طرح اس میں اقدار جہول اور موھومات و مفروضات ؛ یعنی ایسی‬
‫۔‬ ‫چیزوں کے لیے جو عقل کے دائرے سے باہر ہرں ءکوئی جگ‬
‫تہھنەی‬
‫اگر یه چیزیں حل طلب مسائل پیش کرقی تھیں تو ان مسائل کا سہل‬
‫ترین حل آن کے وجود کا انکار تھا م۔اورائی اور عینی فلسفه اور شاعری‬
‫‪‎‬ے‪٦‬‬

‫کے‬ ‫نظر تصور‬ ‫کی رومانی تحریک دونوں حقیقت کے اس عدود او‬
‫ترنگ‬
‫کہ سائنس نۓ ایے ایسے‬ ‫جرغطلاف انچکے بسغاوت تھے ۔ آج جت‬
‫حمرت انکو انکشافات اور اختراعات کیے یں جو عقل عامه کو جادو _کے‬
‫کرشموں ء علمالاصنام کے قصوں ؛ مذھب کے الہاموں اور تصوف کے‬
‫ہکم مافوق‌الفطرت اور خارق عادت معلوم نہیں ہوتۓ ؛ آ٘س‬ ‫وجدانوں ے‬
‫میں یه سنکسرانہ احساس پیدا ہو گیا ے که اسان کا تجربہ اور عقل کی‬
‫تحلیلی کارروائی جو اس کآےلات کار ہیں ء اسرار حقیقت ی پردہەکشائی کے‬
‫۔ ج‬
‫دید طبیعیات کے دو بئیسادی قوانین ء یعنی قانون عدم‬ ‫۔ییں‬ ‫لی‬
‫نےمکاف‬
‫تعیین اور نظریة اضافیت ء اس احساس کے صری اظہار هیں ۔ قانون عدم‬
‫تعیین کاماحصل ی۔ە ہے که خارجی دنیا میں کوئی ایسا سلسلۂ علت و‬
‫معلول نہیں جو مکمل طور پر عقل کی مدد سے دریافت کیا جا سکے ۔‬
‫اور کی‬ ‫معجزوں‬ ‫چنانچە ماھرین طبیعیات اب مذھب اور تصوف کے‬
‫کے قائل ہیں اور آنھیں خارق عساد‬
‫متجھنے کیبجاۓ نظام‬ ‫مشاھدوں‬
‫پر بنسہیں ء وہ ایک رب‬ ‫تسالم کرتے ہی‬
‫اںس۔ی‬ ‫ے‬ ‫فطر‬
‫حتصکے‬
‫مسہبالاسباب کے وجود کو بھی اپنے عقلی نظام کا ایک جزو لازمی قرار‬
‫دینے پر مجہور ہیں ۔ نظریة اضافیت کی اھمیت علم حقیقت کے نقطۂ نکاہ‬
‫سے یہ عے کہ خارجی حقائق ؛ یعنی مکان و زسسان ء اضا ہیں ء مطلق‬
‫؛یونکەہ سمشاھهدے کے عمل میں مکان و زمان اور ناظر کا زاویه نظر‬
‫نہیں ک‬
‫دونوں ایک دوسرے کے زیر اثر متواتر بدلتے رھتے یں ۔‬
‫حقیقت کی ما یت اور اکسے علم کے متعلق ۔اختلاف' آراء کا ٴیَه‬
‫×× و فی اس سےسوا کیاتید سنا > ع‬
‫شد پریشاں خواب من از کثرت تعبیر ھا‬
‫ہے حقیقت‬ ‫سدد‬
‫وہ اپنے تثخیل کی‬ ‫شاعر کا خصوصی امتیاز کو اھ کو‬
‫کے اس خواب پریشاں پر معنی خیز ہیثتیں عائد کر کے اسےآاپنی‬
‫تعبیر بنا دیتا ے ۔ دوسرے لوگ اس کے معانی اس کے باہر‬
‫مضمر دکھائی دیتے ہیں ۔‬ ‫وہ آس‬
‫اینکے‬
‫در‬ ‫ڈھونڈھتے ہیں ۔ اک‬
‫سو‬
‫وہ‬
‫؛‬ ‫پہناےۓے ہیں‬ ‫؛ فلسفه اسورائنس اس کموعجاونی‬ ‫وف‬
‫ص؛‬‫تھب‬
‫مذ‬
‫‪٦۸‬‬

‫ان لی عکلاوۃ ایک اور وابطڈ! عتاق ہے اافاتی راز سلی کن کا‬
‫کا وہ‬ ‫قت‬
‫ی۔‬‫حاقہے‬
‫بش دیٹ‬ ‫اس ہے منتشر سواد کو ایک وحدت‬
‫تجرے‬ ‫هھوتا ے۔ہاس‬ ‫اس کا تخمیلی تجربةہ‬ ‫سے‬ ‫دیکھتا‬ ‫عر‬
‫ا جو‬‫شاب‬
‫خو‬
‫هوتا سے جو فلسفیوں ء سائنس دانوں اور عام‬ ‫کا مواد خام تو وھی‬
‫ا‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫کوک‬
‫ھی تا رف‬ ‫لوکون کا ضر ویک‬
‫آس کی طرح انسان ہوے ہیں ۔ ان کے ارد گرد کیچیزیں ء زندگی کے‬
‫جذبات جو‬ ‫لو وی کی کواٹ وہہ لت ارو‬ ‫واقعات ء اپنے اور قوف‬
‫دل انسانی میں ختلف عحرکات کے زیر اثر پیدا ھوتے ھی ءوہ احساسات ‪٤‬‏‬
‫حےصے‬ ‫امیدیں آ‬
‫؛رزوئیں ‪٤‬‏ خوشیاں ؛ اکامیاں ؛ مایوسیاں جو ھارنسان ک‬
‫میں آتی ہیں ء یه چیڑزیں ان سب کے تجربوں کے عثاصر ہویق ہیں۔‬
‫عےے ان تجربات کے وہ عثاصر جو اس کے‬
‫یل ک‬
‫ر عم‬‫ذیدی‬
‫فلسفی ایک تجر‬
‫ے‬ ‫علیحدہ کر کے ان کا عقلىی تحلیل و تجزیه کرتا‬ ‫لیے مفید مطلب ہیں‬
‫کرتاے تاکەہ‬ ‫اور پھر انھیں ایک نظام فکر کی صورت میں مب‬
‫معٌی تفر پیش اکٹ رسکی" فائسن دان‬ ‫زندق اور کائنات گاینکاتا‬

‫اےد کی اپئے مخصوص‬ ‫اسی طرح کاےنتخابی عمل کے باعدپنے تج‬


‫مرےوک‬
‫شعبة علم کےقواعد کی روشنی میں تصدیق کرتا ے تاکە طبیعی چیڑوں‬
‫کے افعال کےمتعلق کلیے وضع کر سکے ۔ عام لوگ اپنے تجربوں کی‬
‫تجریدء تبزی ء تحلیل اور تنظم کے عادی نہیں هوۓ ۔ وہ اگرکبھی کبھار‬
‫آن کسو اپنی تسوجہ اور غسور و فکر کاموضوع بناۓ بھی ہیں تو‬
‫صرف تھوڑی دیر کے لیے هنگامی تقاضوں کے زیر اثر یا اپنی آۓ دن ک‬
‫زندی کی عملىی ضرورتوں کیخاطر ۔ بہر حال امنقکاصد ینہہیں هوتا‬
‫کہ وہ اپنےتجرے کے مواد کو کسی صورت میں دوسرے لوگوں کے‬
‫رےے میں‬ ‫اک‬
‫ببوں‬‫سامنے پیش کریں ۔ شاعر کا اسلوب عمل اپنے تجر‬
‫ان سب ہے ختلف ہوتا ے ۔ جو جو تجرے اس کو پیش آتے ہیں‪٤‬‏‬
‫کیفیتوں میں اور چاے ایک‬ ‫فےعل‬
‫نس‬‫مثیت‬
‫ایک عام انسان کىحی‬ ‫چاے‬
‫کے نتیجے‬ ‫فرکور‬
‫تخلیقیفنکار ک حیثیت سےمشاہدہ و مطالعہ اور غو‬
‫کے طسور پر ؛ وہ ان سب کہو تجرہہ بہ تجربە اپنے ایک نظام خیال کے‬
‫‪1۹‬‬

‫ترکیبی عناصر بناتاچلاجاتاہے۔ اگرچہ یہممکن ہے کہ شاعر کسی‬


‫خاص دبستان فلسفلہ کا قائل یساائنس کے کسی خاص نظرے کامعتقد‬
‫نہیں‬ ‫دان کا تصور کائنات‬ ‫هو ء آ٘سکا نظام خیال ایک فلسٹی یساائنس‬
‫کا‬ ‫شرے‬
‫اسی‬
‫؛ک‬‫موع‬
‫ھوتا ۔ اسی طرح چونکہ شاعر کسی مذھب کا پیر‬
‫ایک رکنٌّ کسی سلک کا ایک شہری ؛ کسی جماعت کا ایک فرد‬
‫کے چئد اعتقادات ء چند‬ ‫ھوتا ھے ء السیے ان ختلف حیثیتوں پآ‬
‫رس‬
‫میلانات ؛ چند اخلاق اقدار ء بلکه چند تعصبات‬ ‫زاوی٭ ھاے فکر ء چند‬
‫بھی ہوتے ہیں ۔ یہ سب آس کے تیرے کے عناصر ہوتے ہیں ۔ لیکن آ٘س‬
‫کے تخیل کاکیمیائی عمل ان عناصر کی قلب ماھیت کر کے اور انھیں ایک‬
‫کب قیار کرتا ہے ء جسے آس کی‬ ‫سے آمیز کر کے ایک نیا‬ ‫دوسرے‬
‫شخصیت کہا چا سکتا ےے ۔ جتنا کسی شاعر کاتجربە وسیع اعور‬
‫میق هو‬
‫یےل کفیرماں روائی ہوی سے اور‬
‫خس ک‬ ‫آقنی ہی آآسکی شخصیت ہر‬
‫تآُ‬
‫آتنی ھی آس کی تخلیقیں آُسکی شخصیت کے جزئی پہلوؤں کینہیں بلکه‬
‫ح‬
‫یکی‬
‫حخیل‬
‫صکےت‬ ‫آُس کے جموعی نظام خعیاکل ک‬
‫ایسی کرتی ہیں‪.‬۔ آ٘س‬
‫عکاسی لہ صرف آس کی تخلیقوں کیفی قدر و قیمت کا معیار بلکہ آن کے‬
‫یرقت هوۓے کامعیار بھی ے ۔ اگر وہ اس معیار پر پوری آتریں‬ ‫حنیق پ‬
‫مب‬
‫تو وہ حقیقت کی ایسی تفسیریں ہوتی ہیں جو فلسفیوں ‪٤‬‏ سائنس دانوں‬
‫اور عام لوگوں کیتفسیرؤں ہے زیادہ کاشف حقیقت ہو ہیں ‪٠‬‏ وہ اس‬
‫لیےکە تخیل ‪٤‬‏ جو شاعر کاآلهُکار ھے ء انسان کے تمام قواے نفسانی ہے‬
‫زیادہ ذکاوت ء تائر پزیری ؛ حقیقت بیی کی صلاحیت اور تنظیمی استعداد‬
‫رکھتا ہے اور نتیجة' خارجی دئیا کے تاثرات اور نفس انسافی کے اعال کے‬
‫آُس سلسله فعل و انفعال کو جس ہے انسانْ کو حقیقت کا علم ھوتا ۓے‬
‫دوسرے قواے نفسانی کے معاملے میں زیادہ قابلیت کے ساتھ نبٹا سکتا‬
‫کی بدولت‬ ‫ہے ۔ علاوہ بریں تخیل میں ایک وسعت مشرب ہوقی ہے جس‬
‫الہام ء‬ ‫شک ؛ یقین ء وجدانء‬ ‫تصورء‬ ‫وہ احساس ء جذبه ء وھمء‬
‫وں‬
‫طنیکے‬ ‫کشف ؛ غرض نافنسسانی کےتمام اعال اور کیفیات او‬
‫عرآ‬
‫کو قبول کرلیتاہے اور آنھیں اپنےمواد کےطور پر استعال کرتاے ۔‬
‫‪52‬‬
‫السیے حقیقت کاجو نقشہ اس پر ن‬
‫ےقاب ہوتا ہے وہ حقیقت کے آن‬
‫وسائل ساےنسائی تجرے میں آتے‬ ‫تمام پہلوؤں کو حیط ھوتا ےے جو ختاف‬
‫ہیں ا‬
‫۔س کے لکیے‬
‫وئی چیز غیرفطری نہیں کوئی چیز خارق عادت نہیں ء‬
‫کوئی چیز مبنی پر دروغ نہیں ؛ کوئی چیز مبالغہ نہیں ؛ بشرطیکہ وہ‬
‫ھو ؛ کیونکە آُس‬ ‫ماثلت ‪0‬‬ ‫کے ”کسی اس واقعه ے‬ ‫انسانی تجرے‬

‫کہ نزدیک انسانی تحجربە وسیع رین معنوں سیں حقیقت کاآئینہ ے ۔‬
‫انسانی تجرے کی صداقت آس کا بغیادی عقیدہ ےے ۔ چنانیە اوائلی ادوار کے‬
‫ہے لےکر فلسقے کے‬ ‫شےموں‬
‫ر ک‬ ‫انسانسوں کے تسومات اور جس‬
‫کادو‬
‫جردات تک ؛ بچے کے پہلےدمشدلے دہشدلے احسامات ہے لے کر ایک‬
‫حسی‬ ‫اتک‬ ‫زندی‬ ‫ثقه و متین اور ذی عقل دنیا دار کے واضح تصور‬
‫ملضبط کلیوں تک جن‬ ‫""‬ ‫ٹاشرات کے یت‪۲‬‬

‫میں حسی مواد کی ذرہ برابر آلائش نہیں ہوتقی ء حیوانی جبلت ہے لے کر‬
‫منزہ رین روحانی کوائف تک ہر چیز اس کے لیے اپنی ہستی کا جواز‬
‫ےت‬ ‫‪0‬‬
‫یہ ے کہ اس کا میدان عمل انسانی‬ ‫تخیل کی ایک خاص صفت‬
‫تجرے کے اصلی سرچشموں کے قریب ہے ؛ کیو ں کہ اس کا وظیفۂ منصبی‬
‫حاسدیراکات کے هنگامهۂ کثرت کو معنی خیز ہیئتوں میں تبدیل کرنا‬
‫عےمل سکےام لیتی ہے ء‬ ‫ہعےق‬
‫۔ل حواس کے مواد کی تنظیم میںتجرید ک‬
‫یعی ُس کو غیر حسی علامتوں میں تبدیل کرقی ہے ۔ اس کے برخلاف‬
‫تخیل حسی مواد کو تبدیل کیے بغیر آُس میں ربط ض‬
‫وبط پیدا کرتا ے ۔‬
‫چنانچہ وہ عقل کے مقابلے میں حقیقت نفس‌الامی یعنی اشیأً من حیثالاشیاء‬
‫کو زیادہ صحت و وضاحت ہے دیکھتا ہے ؛ اور آن کا لقشه زیادہ صداقت‬
‫مدد ہے وہ حسی تأآثرات کے مواد‬ ‫جن‬ ‫شہتے‬
‫رو‬‫ے ۔‬ ‫پیش کرتا‬ ‫سے‬
‫کو منظم کرتا ھ‬
‫آےسے آنھی کے اندر مضمر ماتے ہیں ۔ اس کے برخلاف‬
‫کے خلاؤں‬ ‫فلسفغی اور سائنس دان اپنے منطقی نظاموں اور تجربی تمقیقات‬

‫کو پر کرۓے کے لیے جن ماقبل تجربہ قوانین اور او اصولوں کا سہارا‬


‫لیتے ہیں ؛ وہ ان کو اپنے عقلی مسواد کےباہر سے لاۓ پڑے ہیں ۔‬
‫اے‬

‫بہر حال دونوں صورتوں میں خی رابطوں کا ادراک ایک وجدانی عطلیه‬
‫ھوتاے ء بالکل آسی طرح جس طرح صوفیا اپنی کشنی قوت کی بدولت‬
‫وجداق‬ ‫۔‬
‫یه‬‫کا مشاہدہ کرتےۓ ہیں‬ ‫دت‬
‫وےحمیں‬
‫کثرت مظاہر کے پرد‬
‫عمل تخیل کی ایک امتیازی خصوصیت سے اوآر٘س کی سستقل کیفیت قبرل‬
‫ستےعلق رکھتا ے ۔ بہت سے جلیل القدر فلسفیوں اور سائنس دانوں ۓ‬
‫بھی اس وجدانی عطیے کا اعتراف کیا حے ۔‬
‫‪6۶‬ہ‪)5[۵٥‬‏‬ ‫نظریة اضافیت کا موجد البرٹ آئن سٹائن (حنئم‪8011 +‬‬
‫میں‬ ‫مے‬
‫قفدکے‬
‫مدی‬
‫تص‬ ‫<‪ )(]78‬ىک ایک‬ ‫میکس پلینک (ع[‪٥‬‏ ط‪17‬‬
‫لکھتا ے ‪:‬‬
‫طریقهہ موجود نہیں ۔ صرف‬ ‫ئای‬
‫وک‬‫کشاف‬
‫”ان بنیادی قوانین کے انک‬
‫ایک طسریقہ سے ء یعنی وجدان ؛ جس کسو اس احساس سے‬
‫سظاہر کے پس پردہ کوئی نظام ہے ۔‪:‬؛‬ ‫کہہ‬
‫تقویت پہنچتی ے‬
‫خود میکس پلینک کا قول ہے ‪:‬‬
‫”سائنس دان کے لضیےروری ہکےه وہ ایک جیتا جاگتا تخیل رکھتا‬
‫راج سے پیدا نہیں ہوۓے‬
‫خقی‬
‫ستتمنط‬ ‫هکویونکہ نئے خی‬
‫االا‬
‫بلک فنکار کےہہ تخلیقی تخیل ہے ۔؟‪٤‬‏‬
‫شاعرانه تخیل کےکاشف حقیقت هوۓ کے بارے میں سی ۔ ڈے لوئیس‬
‫‪:‬‬ ‫(ہز‪٥٣‬ا‏ ‪ )0. [700‬کہتاے‬
‫”'شاعری کیصداقت کاسرچشمہ اس وحدت کا ادراک ہے جو تمام‬
‫مظاھر کے پس پردہ موجود نے ء اور شاعری کاکام یہ ے‬
‫که اپنی تثال انگیزی اور استعارہ آفرینی ک قوت کے ذریعے‬
‫اور پراۓ‬ ‫رشتے دریافت کرے‬ ‫مظاہر کے درمیان ننےئے‬
‫رشتوں کیتجدی دکرے ‪,٤٤ ...‬‏‬
‫آگے چل کر وہ سزید کہتا ے کہ ‪:‬‬
‫”کوئی نظم صرف اس صورت میں مکمل شار ی جا سکتی ۓے کہ‬
‫وہ تمثالوں کا ایک ایسا نقشه تیار کرے جآ‬
‫و٘س رشتۂ اتحاد‬
‫سممےائل هو جو اس دنیا کےمظاھر کو ایک دوسرے ے‬
‫وت‬

‫صر‌بوط کیے ہ۔وۓ؛ ہ‬


‫‪٤‬ے‏‬
‫س ۔ڈے لوئیس کی دوسری عبارت ہارے نظرے کے نقطۂ نگاہ نے‬
‫تخیل کے‬ ‫ا۔نی‬ ‫جد‬
‫سے‬ ‫آُسکیپہلی عبارت سے بھی زیادہ اھمیت رک‬
‫وھتی‬
‫منتشر لمج‬
‫ے جن کے ناج چند استعارے یا چند غیں متعلق منفرد اشعار‬
‫ھوں ؛ چاے وہ استعارے یا اشعار کتنے ھی بلند پایە کیوں نہ ھوں ء‬
‫نہیں ہوتےء کیونکہ تخیل کا عمٰل‬ ‫کےلیکےا‬ ‫عمکریی‬ ‫اعل‬
‫شول‬
‫اقس‬
‫حض مخف‬
‫ی روابط کاانکشاف نہیں بلکہ آن روابط کی مدد ہے خود مکتفی‬
‫اور مکمل وحدتیں ؛ جنھیں ھم تیسرے باب میں نامیاتیق وجدتیں کہه‬
‫آ‬
‫ۓ ہیں ء پیدا کرنا بھی ہے ۔ اعلول پاۓ کی شاعری میں تخیل حض بیلی‬
‫جاۓ وہ روز روئٹرک‬ ‫کو‬
‫ےندون کیطرح کام نہیں کرتاء اکسے‬
‫طرح انسانی تجرے کے منظر وسیع کو منور کرتا ے۔ بلک یه کہنا‬
‫ہوئی چاندنی کی طرح آىے ایک حسین‬ ‫ھک‬
‫ٹہکی‬ ‫زیادہ موزوں ہو‬
‫چگا‬
‫نثٹرکی‬ ‫خواب کا سقع بنا دیتا ے ء "کیونکە روز روشن کی سی وضاحت‬
‫خصوصیت ہے ۔ (اگر چیزوں کے نقش و نار صاف دکھائی دے جائیں تو‬
‫تاب کش‬
‫ا یىی دعوت کسی ‪۹‬؟‪/‬اگر خاطآفق نے منظر کے ساٹ‬
‫پیدا ھوتا‬ ‫هکیہاں‬ ‫اک دی رتو ماورائیت او‬
‫حردلوادیت کساوال‬
‫سے ؟) ۔ جب شاعر اپنےتخیل کی مدد ہے اپنےتجرے کے مواد کو مکمل‬
‫موتحعدلتقوںیه میں تبدیل کرے تو اس وقت لصمحیح معتوں میں اس کے‬
‫دعوىل کر سکتے ہیں کھ وہ حقیقت کی عکسىی کر رھا ہے ء‬
‫میں‬ ‫پردے‬ ‫کے‬ ‫کرت‬ ‫کیو نکه وہ دنیا جس کی عکاسی آآس کا کام ہے‬
‫چھہی ہوئی ایک وحدت ہے ۔ تخیل کسی بڑے شاعر کے کلام میں اتی‬
‫ژبردست طاقت کےساتھ کار فرما ہوتا ہے کہ وہ بلند ہے بلند تسرطحوں‬
‫پتراجُس‬
‫رکبےوں کو عر‌بوط کرتا چلا جاتا ہے اور نے محجبور کرتا ے‬
‫وه عالم تجرے کے سارے‬ ‫تک‬
‫کە‬ ‫کە وہ یں وقت تک دم نە‬
‫جلے‬
‫ب‬
‫مقام پر پہنچ کر‬ ‫رقتے کو ایک مثالی وحدت کا لقشه نە بنا ل۔ےاس‬
‫شاعری آنھی معنوں میں حقیقت کی خالق بن جاتی ہے جن معنوں میں خدا‬
‫کا تخیل نظامکائنات کامنبع و مبدأے ؛کیونکہ انسان کے لیے انسانی تجربہ‬
‫‪۳۴‬‬

‫اوگارحد حقیقت ہیں تسو سب ہے بڑی حقیقت ضرور ہے اور انسان کے‬
‫مثا ی حقیقت کی تخلیق ہے ۔‬ ‫لک‬
‫ییق‬ ‫خجرے‬ ‫مثا‬
‫تلی ت‬
‫‪٥٥81/٢۲‬‏ ‪ )6.‬کاقول ہے ‪:‬‬ ‫نائٹ (ا‬
‫جن[‬ ‫جویل۔سن‬
‫حقیقتیں‬ ‫اس اس میں مضمر ے کہ روحانی‬ ‫”'شاعری کا سرچشمہ‬

‫هیں ۔ آن کو جب تک پیکر ارضی نە‬ ‫کک‬


‫یین‬ ‫ملاے اعل‬
‫میل‬
‫لے‬ ‫آیں ءاس‬ ‫میں نہ‬
‫سیںکت‬ ‫بخشا جاۓ وه عالم شہود‬
‫کا وصال ؛ مادی‬ ‫سو‬
‫ان‬ ‫ہیں زم‬
‫آین‬ ‫شاعراند تخلیق کمےعنی‬
‫ووحانی کا یک ذات هو جانا “‪٤‬‏‬
‫ر‬
‫‪(١۶٥۷۷‬‏ ‪". 11.‬‬
‫ن‪)7‬زکدےیک شاعرانہ تخیل میں‬ ‫ژہ‬ ‫ایف ۔ ای‬
‫وچا‪-‬‬
‫ایک بصیرت دوکانہ ہوتی ہے جموادی و روحانی حقائق کو بہ یک وقت‬
‫دیکھ سکتی ہے اور جس کی بدولت شاعری ماوراے بحواس چیزوں کو‬
‫میں بیان کر سکتی ہے ۔ شاعری حواس کی چیزوں میں‬ ‫بک‬
‫این‬ ‫حو‬
‫زاس‬
‫مضمر بھی ہوتی سے اور آن سے ماورا بھی ۔‬
‫وبلم‬
‫لیک تخیل کسو ایک روحانی حسیت کہتا ہے ۔ اس قسم کی‬
‫ت جسانی‬ ‫قیک‬‫وبہ‬‫ریی شخصیت کو محیط ہوتی ہے۔ وہ‬ ‫اک‬ ‫حسیت انس‬
‫سان‬
‫بھی ہوتی ہے ء؛جہذباتی بھی ء عقلی بھی اور روحانی بھی اور اس کی یه‬
‫رکی‬ ‫ون کو‬
‫س ای‬ ‫ختلف حیثیتیں ایسے طریقے ہے خلط ملط ھوقی ہیں‬
‫دکە آ‬
‫کنےہدیاں کیا نجا‪ .‬سچکنناا۔نیہ تخیل |انسان کےلیے عرفاتہ حثیقت‬
‫اور اظہار حقیقت دونوں کاہہترین وسیله ے ۔‬
‫ماری بحث کا موضوع اب تک ماورائی حقیقتیں تھیں ء لیکن عام‬
‫مستحق‬ ‫لوگوں کے ذھن میں حقیقت کا ایک اور پھلو بھی ہوتا ے‬
‫جہو‬
‫کو شاعر‬ ‫عنات‬ ‫واقعیت نگاری یتااریخی صد‬
‫واقاتق۔ج‬ ‫بح‬
‫یث ن‬
‫عےنءی‬
‫موں کے ہسوکتے ہیں ء یعنی وہ جو‬ ‫امپنواضوع بناتا ہے وقہ ت‬
‫سین‬
‫کسو پیش آۓ ھوں ؛ وہ جو دوسرے لوگوں کو پیش آۓ ھوں‬ ‫خود آُ‬
‫اور وہ جو اخسیۓ۔ا ی طور پر ایجاد کیے ھوں ء چساۓ آن میں‬
‫چساھے کوئی اور ۔ ان تینوں قسموں کے‬ ‫ھو؛‬ ‫گزداز افسانه وه خود‬
‫‪3‬اتعات کے شاعر کو من حایلثشاعر جو دلچسپی ھوق ےےوہ اس پر‬
‫‪٣٣‎‬ے‬

‫کوز ہوی سے کہ وہ انسانی زندگ کےلیے کیا اھمیت رکھتے ہیں ء‬


‫بالخصوص جذباتی نقطه نکاہ ے ۔ بەالفاظ دیگر وہ تمام واقعات کو اپنے‬
‫تجربه زندگی کےسیاق و سباق میں دیکھتا ہے ۔ یوں تویە بات هر شخص‬
‫ئای خصوص زاویۂ فکر ک؛وئی‬ ‫کشخ‬
‫وص ک‬ ‫پصرادق آتی ے کیونکہ ہر‬
‫مخصوص فلسفه زندگی ء کوئی مخصوص جذباتی مزاج ہوتا ہے ء لیکن عام‬
‫ر‬ ‫ایز‬
‫طکی‬ ‫لوگ واقعات کو بیان کرتے وقت صداقت کی خاطر یا‬
‫خاس چ‬
‫زو ں کو خارج کرۓ‬
‫ان‬ ‫جسے وہ صداقت سمجھتے ہی‬
‫اںرءادی طور پچری‬
‫د ک‬
‫رےق‬ ‫یں واق‬
‫قعات‬ ‫ککیسوشش کسرے ہی‬
‫شںا۔عر کچےلی‬
‫یےزیه‬
‫حصے ہوقی ہیں اور اس کے نزدیک صداقت يہ تقاضا کرتی ہے کہ‬
‫واقعات کو بیان کرتے وقت ان چیزوں ک‬
‫بوھی شامل کر لیا جاۓ‬
‫واقعات عض‬ ‫د کے‬
‫یک‬ ‫۔ اس‬ ‫دی جا‬
‫نۓز‬ ‫ھکو ز‬
‫میادہ‬
‫یت‬ ‫بلکه‬
‫اآن‬
‫س پر اثر انداز‬ ‫خارجی دنیامیں صادر نہیں هبھولےکه کسی انس‬
‫نانفکے‬
‫ہ آن‬
‫ے‬ ‫هو کر آس کی داخلىی دنیا کے واقعات بن جاتے ہی‬
‫اںُ۔س کو‬
‫مؤخرالذکر حیثیت میں دل چسپی ہوق سے اور آ٘س کے پاس آن کا اس‬
‫حیثی‬
‫ت میں تصور قائم کرئے کا ایک ھی وسیله ہوتا ے ؛ وہ يہ کە وہ‬
‫ایک ارا‬
‫ندیہعم‬
‫یلں‬ ‫سمجھے ۔ یه عض‬ ‫اےت‬ ‫ااپت‬
‫رے نف‬
‫دس ک‬ ‫آن‬
‫وکو‬
‫میں تمام انسالنوں کےساتھ ھی کیا ء کائنات‬ ‫خک‬
‫یےل‬ ‫ھوتا بلکه شا‬
‫تعر‬
‫فطرت کی تمام چیزوں کے ساتھ جذباتی ھمدردی کا ایک عنصر ھوتاے ۔‬
‫یھهمدردی هر ذی روح کو جبلی طور پر ودیعت ہوتی ہے ء لیکن‬
‫زندی کی ضرورتیں اس کو رفتھ رفتھکمزور‬ ‫عملىی عقل اکوارروباری‬
‫کو زندہ رکھتا‬ ‫اس همدردی‬ ‫اںعر‬ ‫اور بالآخر معطل کر د‬
‫۔یشہی‬
‫ہے بلکہ اس کو کام میںلا کر قوی سے قوی تر بناتا چلا جاتا ہے ۔‬
‫کسی شاعر کا رتبہ آتنا ھی بلند ہوتا ے جتنا اس کداائرۂ عمدردی‬
‫ر تخیل ہی کی بدولت‬ ‫ہ ھمدردی تخیل کا عطیہ ہوت‬
‫ایوہے‬ ‫ی۔‬ ‫وسیع ہو‬
‫کےہ‬‫فروغ بھی پاتی ے ؛ کیونکھ تخیل شاعر کو یہ صلاحیت بخشتا ہ‬
‫کو دیکھ سکے ۔ اس ھمدردی کو‬ ‫زہ ہ‬
‫وےں‬ ‫وہ دوسروں کے‬
‫چنقط‬
‫یه نگا‬
‫بروۓکار لاۓ میں ایک قسم کی روحانی مسرت اور چالیایق لذت ہوقیق‬
‫‪۵‬ء‬

‫اس کے برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہے ۔‬ ‫ہجےو‬


‫طریق بیساانئنس اور تاریج کے طریق‬ ‫راانه‬
‫ااتع ک‬ ‫اگرچە وا‬
‫شقع‬
‫بیان ہے کم لغوی صداقت رکھتا ےہ لیکن جہہاں تک واقعات کے سیاق‬
‫مضمر اور انساؤ نقطه نگاہ ہے آن کی اہمیت کا‬ ‫یٴ‬
‫ئکے‬
‫اآن‬
‫عق ؛‬
‫مسبا‬
‫و‬
‫تعلق سے ء وہ ان سب چیزوں کیعکاسی زیادہ صداقت کے ساتھ کرتا ےہ ء‬
‫اس لیے ھم یدکہہ سکتے ھیں کہ وہ زیادہ مبنی بر حقیقت ہوتا ہے ۔ اگر‬
‫واقعات کا من و عن بیان انسان کے بس کی بات ے تو وہ صرف شاعرانه‬
‫کیوں کہ آن کا صحیح اور مکمل علم صرف‬ ‫طریق بیان نے محکن ‪:‬‬
‫شاعرانه تخیل کی مدد سے حاصل ہو سکتا ہے ۔‬
‫پر ورڈز ورتھ کمےقدہے میں سے‬ ‫ھم اس بابکے تتمے کطےور‬
‫چنلعبارات نتل کرے هیں ‪:‬‬
‫”یں بنایا گیاغا کہ ارسطو نۓشاعریٰ کو سب سے زیادہفلمنیائه‬
‫۔عری کا‬
‫شا‬‫بالکل حق بجانب ے‬ ‫ه‬
‫ی؛‬‫انشا قرار دیا ہے‬
‫اور مقامی حقیقت نہیں بلک‬ ‫مقصود حقیقت ہاےن؟فرادی‬
‫شہادت‬ ‫عمومی اور همدگیر ؟ ایسی حقیقت نہیں جخوارجی‬
‫ایسی حقیقت جو جذبات کی رو میں بہّی‬ ‫ک‬
‫بصرلہو‬
‫پر منح‬
‫ہوئی ایک جیتی جاکتی صورت میں دل کے اندر ورود کرق‬
‫ہے ء ایسی حقیقت جاوپآپ‬
‫نی شمہادت ہوتی ہے ؛ جو آ٘س‬
‫عدالت کو جس کے سامتے وہ مدعی ھوتی ہے ء اختیار و اعتبار‬
‫پخشتی ہے اور آس کے بدلے میں آُسہے اختیار و اعتبار حاصل‬
‫انسان اور فطسرت کی عکاسی ے ۔‬ ‫کسرقی ہے ۔ شاعسری‬
‫سوا عمری لکھنے والے اور مؤرخ کے لیدےقجتویں سدراہ‬
‫حم‬
‫ایں‬
‫زم‬ ‫وق ہیں اور جو آن کی تصائیف کی افا‬
‫مدیت‬
‫ات ہے بہت زیادہ سنگین ہوتی ھیں‬ ‫لآن‬
‫شیںکءوہ‬ ‫می ہ‬
‫ہوت‬
‫جو ایک ایسے شاعر کو پیش آتیہیں جسے اپنے فنکے وقار‬
‫کاصحیح علم ہو ۔ شاعر کے اوپر صرف ایک پابندی عائد‬
‫ھوق ہے ؛ یعنی یە التزام که ایک ایسے انسان کے براہ راست‬
‫‪٦‎‬ے‬

‫تلڈذذ کا سامان میا کرے جو ایسا علم رکھتا هو جس‬


‫کاین سے توقع کجیااستی ا اقیاکئرن دات؛ ایک‬
‫طبیب ء ایک چہاز ران ؛ ایک ماھر فلکیات یا ایک حکم‬
‫یت سے نہیں بلکہ ایک انسان کی حیثیت سے ۔‬‫یتثکی‬ ‫طبی‬
‫حعیا‬
‫اس واحد پابندی کے سوا شاعر اور اشیا کتی‌ثالوں کے‬
‫درمیان کوئی چیز حائل نہیں ہوتی ۔ اس کے برخلاف سیرت‬
‫اور مظاہر و اشیا کے درمیان ہھزاروں دیواریں‬ ‫ؤو‬
‫رخ‬ ‫نگ‬
‫مار‬
‫ہیں ۔‬ ‫حائل ھوں‬
‫ہم اب یه دیکھیں ”‪,‬ا شاعر کاکام تا ے ؟؛ وہ انسان اور‬ ‫نے‬

‫کے رشتوں‬ ‫النف‬


‫وعال‬ ‫اس کے‪:‬از‬
‫گدرهھ کی چیزوں کو فع‬
‫میںگٹھم گتھا ہوتے اور انبساط و کرب کیہے خلا و حسالب‬
‫کیفیتیں پیدا کرتے ہوۓ دیکھتا ہے ۔ وہ انسان کو اپنی‬
‫سلسلہة‬ ‫اندر اس‬ ‫کے‬ ‫فطرت اور انی روزانه زنندیيی ای حدود‬

‫واقعات اور اس جموؤعةۂ جذبات کا مشاہدہ کرتۓے اور اس‬


‫ہے چند در چند تیقن ؛ قیاس اور نتیچے اعدو کے‬ ‫مشاھدے‬

‫ےۓ که انسان کیوں کر‬ ‫کی‬


‫ھهتا‬ ‫د۔‬
‫یوہ‬ ‫ھوۓ دیکھتا ہے‬
‫طلسم پیچ و تاب کاإ ملاحظه‬ ‫اس‬ ‫کے‬ ‫خیالات و 'احسامنات‬

‫کر جا بجا ایسی چیزیں نظر آتی ہیں‬ ‫ینے‬


‫وں‬ ‫کرتا ے او‬
‫کر آ‬
‫جآوس کسےینے کے اندر ھمدردیاں پیدا کرتی ہیں اور آن‬
‫تےضا‬ ‫قک‬ ‫ھمدردیوں کے پہلو بەپہلو کیو ں کر آس کی فط‬
‫مرت‬
‫اک سان واوا ری وت‬ ‫اطی‬ ‫اہول فر‬
‫احتستق‬
‫اور یه‬ ‫یہ علم جو هر انسان اپنے بطون میں لیے پھرتا ےے‬
‫عمل‬ ‫سک‬
‫تےور‬ ‫ہمدردیاں جن سے ہم انی روزانہ زن‬
‫ددگی‬
‫کے علاوہ کسی اور ریاضت کے بغیر قدرق طور پکرسب‬
‫لذت کرے ہیں ء یه ہیں وہ چیزیں جن پر شاعر زیادہ تر‬
‫‪78]+‬ك‪۶"۶‬ك‪ٰٰ۷‬ئٰٰٰٰٰ ‪“۶۶‬‬
‫درمیان ایک بنیادی مطابقت دکھائی دبتی سے اور آکسے‬
‫خاے‬

‫نزدیک نفس انسانی فطرت کے جمیل ترین اور دل فریب‬


‫ترین خواص کا قدرق طور پآرئینہ ہچےن۔انچہ شاعر اس‬
‫اثر جو آس کے تمام مشاهہدوں میں‬ ‫یےر‬ ‫احساس لذّ‬
‫زت ک‬
‫خارجی یعنی مادی کائنات‬ ‫ءت‬
‫طر‬ ‫آس کا رفیق کار ہو‬
‫فتاے‬
‫می‬ ‫کے ساتھ راہ و رسم قاغ رکھتا ے ء اور اس کارروائی‬
‫آس کے جو عواطف و امیال ہوتے ہیں وہ ان عواطف و امیال‬
‫ہوتے ہیں ء جسوائنس دان فطرت کآےن جزئی‬ ‫کے ہجمنس‬
‫حصوں کے ساتھ جو آُسکے مطالعے کے موضوع ہوتۓے ہیں‬
‫اختلاط قائم کر کے اپتے اندر پیدا کرتا‪ :‬ہے ۔ شاعر اور‬
‫ں‬
‫منیآن‬
‫لیک‬ ‫سائنس ددان‬
‫ؤنوں کا علم منبع لذت هوتا ہے‬
‫شاعر کا علم ماری زندی کا ایک جزو لاینٹک‬ ‫یفهرق ےک‬
‫اور ہمارے جبلی ورتے کا ایک لازمی حصه بجناتا ہاےور‬
‫سائنس دان کا علم ایک ذاتی ااورنفرادی اکتساب ہے جو‬
‫سته آہستہ پہنچتا ے اور عمیں اپنے ہم جنسوں‬ ‫ھآمہتک‬
‫کے ساتھ کسی فطری اور بلا واسطه ھمدردی کے رشتے میں‬
‫س‌بوط نہیں کرتا ۔ سائنس دان حقیقت کی یوں جستجو کرتا‬
‫میں‬ ‫اش‬ ‫ےے جیسے کوئی کسی اجنبی اور گم نام نخی‬
‫ترلکی‬
‫نکلے ۔ وہ اُس کے ساتھ تنہائی میں اختلاط کرتا ہشےا۔عر‬
‫ساری نوع انسانی آ٘س یىی‬ ‫ں‬ ‫ااییکسا گیت گاتا ھو‬
‫مایجس‬
‫ہآمواز ہوق ہے حقیقت کو انجمن کی زینت بناتا ہے اور‬
‫کے‬ ‫س‬
‫آھُکر‬
‫سمج‬ ‫آسے ری شبانه روز ی مغوٹمسگوسار‬
‫حضور میں اظہار مسرت کرتا ہ۔ے؛؛‬
‫”'شاعری علم کی روح رواں ہے ۔ وہ سائنس کے چہرے پر جذبات‬
‫کریونق ے ۔ شاعر کےمتعلق شد و مد سے یه کہا جاسکتا‬
‫ہے) جیسا شیکسپیئں ۓ انسان کے بارے می ںکہا ے؛ کہ ؤہ‬
‫آگے اور پیچھے دونوں طرف دیکھتا ہے ۔ وہ انسانی فطرت کا‬
‫سنگین حصار اور آ٘سکامعاون و حافظ ے ۔ وہ جہاں جاتا‬
‫ہ‪۸‬‬

‫خوت کا پیغام ديتاے ز‬


‫۔مین اور آب و ھواء‬ ‫ہوے ح‬
‫ابت‬
‫اننوین کے اختلافات کے‬ ‫زبان اور رسم و رواج اوقر آ‬
‫وئی‬
‫باوجود ء بھولے بسرے ہم|نوں اور زور زوبردستی سے توڑے‬
‫ء شاعر بی نوع انسان ک وسیع‬ ‫وںجکے‬
‫ود‬ ‫ھو‬
‫بۓ ر‬
‫اشتو‬
‫پھیلی‬ ‫زمان پر‬ ‫سلطنت کو؛ جو ساری سطح زمیں اپور‬
‫ہناۓ‬
‫ہوئی ہے ء جذے اور علم کے سرشتۂ اتحاد میں مر‌بوط کیے‬
‫اےعر کے افکار کے موضوع هجرگہ موجود‬ ‫شہ‬‫۔وۓ‬‫هھ‬
‫اور آ٘س کے‬ ‫ہھوے ہیں ۔ یہ سچ ےہ کہ انسان کی آنکھیں‬
‫تںاءھم جہاں‬ ‫دوسرے حواس آس کے چہیتے رھن| ہی‬
‫کہیں شاعر کو احساس کی ایسی فضا ملے جمسیں وہ‬
‫ے ۔ شاعری‬ ‫ہنجچاتا‬ ‫آزادانه پرواز سککرتا هو ء وہ وه‬
‫پیں‬
‫ہے جتنا‬ ‫وۂید‬ ‫علم کیابتدا و انتہا ے ۔ وہ اتی ھجی ز‬
‫اند‬
‫انسان کا دل ‪٤٤‬‏‬
‫پانچواں باب‬
‫شاعرانه تخیل اور جذبات‬
‫جطسرح ہچمونے‬
‫تھے باب کا خاتمه ورڈز ورتھکی ایک عبارت پر‬
‫خلاصہ تھی ء اسی طرح ہم‬ ‫رک‬
‫یان‬ ‫ہخیا‬
‫تلات‬ ‫وہ ہم‬
‫بارے‬ ‫نکه‬ ‫ککیا‬
‫یتوھا‬
‫وہ‬ ‫کںہ‬ ‫ورتے‬
‫نہی‬ ‫کرت ہ‬
‫یے ک‬ ‫اس با‬
‫آبغکااز ورڈز ورتھ کی ایک اور عبا‬
‫ان مسائل کو جن سے ہم اس بابمیںبحث کرنا چاہتے ہیں ایک جامع‬

‫”ایک شاعر کیا ہوتا ے ؟ آس کا روۓ سخن کس سے ہوتا ہے ؟‬


‫اور اُسسے کس قسم کی زبان کی توقع رکھنی چاہیے_ے؟‬
‫خطاب‬ ‫ہے‬ ‫انسانوں‬ ‫دوسرے‬ ‫وہ ایک انسان ھوتا عے جو‬
‫کرتا ھے ۔ یہبجاہےکم وہ ایک ایسا انسان ھوت‬
‫چاسےے‬
‫عام انسانوں ہے زیادہ حسیت ؛ گرم جوشی اور ترمی طبع‬
‫اپنے‬ ‫انسان جسے‬ ‫سکا‬ ‫ودیعت ھ۔وئی ھهوق‬
‫ا ے‬
‫ی‪ :‬ای‬
‫جذبوں اور ارادوں ہے دوسرے لوگوں کے مقابلے میں زیادہ‬
‫و دوسرے لوگوں کمےقابلے میں‬ ‫جء‬‫دلچسپی ہوتی ہے‬
‫ر مضمر ہوق ے‬ ‫نندکے‬ ‫آس روح زندگی ہے جو هرا‬
‫انسا‬
‫زیادہ لذت اندوز هوتا اےور جو اکسائنات کے واقعات میں‬
‫آسی قسم کے جذبوں اور ارادوں کےمظاھر کامشاهدہک رکر‬
‫کے زیادہ لطف آٹھاتا ے اور جہاں وآہنھیں موجود ثە‬
‫پاۓ وهاں وہ عادٴّ محجبور هوتا ےہ که آنھیں اپنی طرف سے‬
‫ایجاد کرے ۔ ان صفات پر مستزاد یہ رجحان ہوتاے که‬
‫تس‬
‫اے یو‬
‫ئںر‬ ‫غائب چیز‬
‫موں‬ ‫رںخکے‬
‫لاف‬ ‫وہ دوسرے لو‬
‫بگو‬
‫ھوتا ہے جیسے وہ سچ مچ حاضر ھوں ؛ اور نیز یه قابلی تکە‬
‫واہپنے اندر ایسے جذبات پیدا کر لے جو آن جذبات ہے جو‬
‫ھ‪۸‬‬

‫اصل وافعات کے دا مود می 'ضلف مر میں کت‬


‫اس کے بہاوجسود (بالخصوص جہاں تک عام ھمدردی کے آن‬
‫پہلوؤں کا تعلق ے جو لذت بخش اور انیساط انگیز هھوۓ ھیں)‬
‫ھٌسونۓ حِذّبات سے زیادہ مشابہ‬ ‫اصلی واقعات کے پیدا ا‬
‫ہوتے ہیں ء بە نسبت آن جذبات کے جو دوسرے لوگوں کے‬
‫دلوں میں خود بخود پیدا ہوتے ہیں ۔ اس رجحان اور اس‬
‫قابلیت کی بدولت اور مسلسل مشق و ریاضت کے طفیل‪ .‬شاعر‬
‫میں اہنے خیالات و جنذبات کے 'بسان کرنۓ کی استعداد‬
‫دوسرے لوگوں سے زیادہ مقدار میں_ ہوتی ہے ء بالخصوص‬
‫جہاں تک ایسےخیالات و جذبات کا تعلق ہے جو آ٘س کے ذاتی‬
‫اخت‬
‫عکے‬
‫ث‬ ‫کطےور پر یا آس کی طہع‬
‫بی سا‬ ‫تےیکے‬
‫جے‬ ‫ار‬
‫ناد‬
‫کسی خارجی سہیج کے‪:‬بغر آُس کے اندر پیدا هوتے ہیں ۔‬
‫”میرا مطلب یه نہیں کہ میں نھےمیشهہ کسی واضح مقصد کو‬
‫ھیں ء‪٤‬‏ لیکن‬ ‫پیش نفار ا(کو کو شعر ہے‬ ‫بسااعدہ طور پر‬
‫مجھے یقین ے کے شور و فکدر کی مستقل عادت نےۓ میررے‬
‫کو‬ ‫اس طرح تنظم کی دیع‬ ‫احساسات و جذبات کک‬
‫یچھ‬

‫میں ۓ جہاں جہاں آن چیزوں کو بیان کیا ے جو‬


‫پید|اکرتیق ہیں ءوهاں پڑھنے‬ ‫احساسات و جذبات کو شدت ے‬
‫والے کو یه محسوس ہوکا کہ کوئی مخصوص مقصد مورے‬
‫پیش نظر تھا ۔ اگریة راۓ غلط ہےتو میں شاعر کےلقب کا‬
‫تمام اچھی شاعری قوی جذبا تکا ایک‬ ‫نہیں ء‪٤‬‏ نک‬ ‫مستحق‬

‫اضطراری سیلان ھوتی ہے ؛ لیکن چاے یه درست بھی ھوء‬


‫ے‬‫اوہ‬ ‫ایسی نظمیں ج وکچھ بھی قدر و قیمت رکھتی ہیں‬
‫چء‬
‫ہوں ؛ کبھی کسی ایسے شخص نۓ‬ ‫عع ہ‬
‫لےق‬ ‫کس‬
‫می م‬
‫توضو‬
‫نہیں لکیهیں جس میں ایک غیر معمولی طبعی حسیت نه‬
‫فکر سے کام ‪.‬تنا‬ ‫غورو‬ ‫تھی اور جس نےوتیرن گے‬
‫تھا ‪.‬کیونکه عارے نفس میں جن احساسات کی مسلسل آمدك‬
‫ہ‪۸‬‬

‫ھوتیق ے ان میں ہہمارے خیالات ؛ جو ماضی کے احساسات کے‬


‫و تنظم کرۓے رھتے ہیں ؟‬ ‫ہی‬
‫تںر؛مم‬ ‫ھہوے‬ ‫مائندرے‬
‫جس طرح ان منمائندہ خیالات کے باھمی علائق ہر غور و تامل‬
‫کر کے ہم یہ دریافت کرتے ہیں که انسانوں کے لیے کون‬
‫ھی ؛ اسی طرح اس عمل‬ ‫رکھی‬ ‫اھمیت‬ ‫اتوت سی چیڑیں‬
‫اھم‬ ‫هارے احساسات‬ ‫اور تواتر کی بدولت‬ ‫ال‬ ‫وپ‬

‫موضوعوں ہے متعلق ہو جاتۓے ہیں ء تاآں کە اگر ہم میں‬


‫ایسی ذھنی عادتیں‬ ‫حسیت کی منتاسب مقدار هو تو ەم میں‬
‫ہم آن عادتوں کے احکام کی‬ ‫راسخ ہو جاق ہیں کہ‬
‫اندھا دھند تعمیل ہے ایسی ایسی چیڑیں اور ایسے ایسےجذبات‬
‫کو اور آن کے باھمی روابط کو بیان کرے لگتے ھیں کهہ‬
‫آنْ ہے پڑھنے والے کے فہم میں روشنی کا پیدا هونا اور آُس‬
‫کے جذبات کی تقویت لازمی ہے ۔‬
‫”میں اوپر کہه آیا ھہھوں کے شاعری قوی جذبات کا ایک‬
‫اضطراری سیلان ہے ۔ آ٘سکا سرچشمه مصاضی کے وہ جذبات‬
‫ہھوے ہہیں جنویں سکسون کے لمحوں میں یاد کیا جاۓ۔‬
‫سام ‪٣‬ان‏ جات بڑعور کرتا تھک اان کاا‬
‫رد غمل کے ذریعے وہ خود تو غائب ہو جاے ہیں لیکن‬
‫آن سے مائل نئے جذبات آہستہ آھہستہ پیدا هو کر فیالواقعه‬
‫ھوجاتے ہیں ۔ یہہے و ہکیفیت نفس‬ ‫د‬‫ریں‬ ‫شاعر کے‬
‫ونف‬
‫اس م‬

‫جس میں شکعورئی کاعمل شروع‪ :‬ھوتا ا اور انی طرح‬


‫کی کیفیت نفس میں اس کی تکمیل بھی ہوتی ے “‪_٤‬‏‬
‫جڈے اور خیال کا باھمی تصلق تنقید شصری کا ایک بہت‬
‫متنازعہة فیه مسئله سے ؛ یہاں تک که ان ى تفریق الہام اور تٹکنٹیک ء‬
‫آمد و آورد ء فطری و غیرفطری اور خلوص و تصنع کی تفریق کی مترادف‬
‫کی دو ال فگروھوں میں تقسم کا موجب و‬ ‫تک‬
‫اےنوں‬ ‫او‬
‫درہشاع‬
‫سری‬
‫وہ ئن اتعاق کا واردات مین‬ ‫مویہ‬ ‫بس‬
‫‪۸۲‬‬

‫خیال پترقدم زمانی رکھتا ے اور نسبة انسانی جبلت ہزےیادہ قریب‬
‫ہوتا ھے ء اس لیے وہ شاعری کے سرچشے کی حیثیت سے خیال پر تفوق‬
‫رکھتا ے ۔ خیال جذڈے کے بعدکی ایک نفسانی پیداوار ے اور عقل ہے‬
‫نسبة قریب تر ہوتا ہے ء اس لیے جو شاعری اس پرمہنی هو وہ شعوری‬
‫کے سرپرست يیە‬ ‫خی‬
‫۔ال‬ ‫ہوتی ہے‬ ‫و غیں فطری‬ ‫صا‬
‫نور‬
‫وعی‬ ‫و ار‬
‫مادی‬
‫جواب دیتے ھیں کە جذبات کا زبان کی سدد ہے اظہار خیال کے پیدا‬
‫؛کہ زبان کباامعنی استعال ایک‬ ‫وںن‬ ‫ہوتے سپےہلے ممکن ھکی ن‬
‫یہی‬
‫شعوری اور عقلی عمل سے اور وہ جذبات کو اس وقت تک بیان نہیں کر‬
‫سکتی جب تک وہ خیالات کی صورت اختیار نە کر لیں ۔ جذبات کا فوری‬
‫ذریعے‬ ‫اور براہ راست اظہار آن بی نزدیک افعال اور حرکات و سکنات ‪2‬‬

‫مکن سو تو ہسو ء زبان کے ذریعے ممکن نہیں ۔ اگر جذبات زبان کے‬
‫ذریعے فوری اور براہ راست اظہار تلاش کریں تو جو زبان وہ استعال‬
‫کریں گے وہ یا تو مہمل اصوات یا زیادہ سے زیادہ غیں م‌بوط الفاظ پر‬
‫ضی میں انھی کے مائل‬ ‫مشتمل وک یا ایسے الفاظ پمرشتمل و‬
‫مگاجو‬
‫جذبات یا یسوں کہیے کے آن کے متجانس خیالات کے اظہار کے لیے‬
‫استعال هو چکے یں اور حافظے میںمحفوظ رہ کرنم شعوری طور پر یا‬
‫بریں‬ ‫ید‬ ‫هھوگے ہی‬
‫مںز۔‬ ‫ائتلاف کے عمل کی بدولت‪ :‬آت خدبات‬
‫و نے‬
‫ا‬

‫مسیں‬ ‫سسادے جذبات کمےعاملے‬ ‫ی حض‬


‫دے‬ ‫یهعمل آنْ کے نزد‬
‫سیک‬
‫اور پیچیدہ جذیات کا لسانی اظہار شعور ء ارادہ اور‬ ‫مکن ہے ۔ س کب‬

‫مصنوعیت کا الزام ؛ سو‬ ‫کے بغیر قطعاًناممکن ہرےہ۔ا‬ ‫د‬ ‫عق‬


‫ملدکی‬
‫کے اظہار کامطابق قطرت هونا‬ ‫ہات‬ ‫خیال کحےامی یکہہتے ہی‬
‫جںذکب‬
‫ے کہ وه کہاں تک واقعی یامشابه واقعیت ھیں ۔‬ ‫متنپر‬
‫حصر‬ ‫اس با‬
‫ات جذبات سچے ہوں گے تو خیال ان کی سچائی کو برقرار رکھنے میں‬
‫خل ہوۓ کےبجاۓ ممحدہوکا ؛ اکر وہ جھوئے یعنی جعلی ہوں گے تو‬
‫نی یہ ہوں گے کہ بیان کردہ تجربہ عض خیال ہخییال ے‬
‫امسعکے‬
‫اور جذبات کے عنصر سے بالکل معرا ہے ۔‬
‫جنگی‬ ‫شاعرانہ تخیل کاکامیہےے کە جذہات و خیالات کی اس خانہ‬
‫‪۳‬ھ‬

‫کسو ایک تعمیری صلع میں تبدیل کرے۔ ہم ےۓ دوسرے باب میں‬
‫جذباتی نظریةۂ شاعری کاتذکرہ کرتے ہوئۓے ورڈز ورتھ کے نظطرے کے‬
‫ایک اندرونی تضاد کی طرف اشارہ کیا تھا ء یعنی یہ کە وہ ایک طرف‬
‫ضتطکرااری سیلان کہتا ہاےور دوسری طرف‬ ‫تشواعری کو جذ‬
‫ابا‬
‫اك سکون کے لمحوں میں پراۓ جذبات کی حافظے کی مدد ہے تبدید اور‬
‫ان کے ممائل نوزائیدہ جذبات کااظہار کہہتا ہے ت‬
‫۔خیل کی جذبہ و خیال‬
‫میں ہم آھنگی پیدا کرۓ کی طاقت کو تسلم کرے کے بعد یه تضاد رع‬
‫هو جاتا ے ۔ ورڈز ورتھکامطلب آس کے اپنے اکوورلرج کے نظر یهتخیل‬
‫کے سیاق و سباق میں صریحاً یه ہے کە جذبات براہ راست اور ابنی اصلىی‬
‫صورت مسیں نہیں بلکہ تخیل کی سصدد ہے تجدید یافته هو کر شاعری کا‬
‫موضوّع پنتے ہیں ۔‬

‫ۓرڈز ورتھ کے ”'سکون کے‬


‫۔س ۔ ایلیٹ (‪۰٥) 8. 80110‬‏ و‬
‫ٹایی‬
‫پر یہ اعتراض کیا ےکە اس‬ ‫ے‬
‫ل“یکے‬
‫کات“‬
‫جذب‬ ‫وےۓ‬
‫ھد ک‬
‫لمحوں میں یا‬
‫میں جن چیزوں کا ذ رککیا گیا ے؛ یعنی جذباتء ان کے یا‬
‫کدرۓ کاعمل‬
‫اور سکون؛ تینوں میں کہوےئی بھی علیحدہ علیحدہ موجود نہیں‌هوتی آ‬
‫۔ُس‬
‫کےنزدیک اصل میںیہهوتا ے کہیہتینوں چیڑزیں جمع ہو جاتی هیں‬
‫اور ایک نی چیز جس میں ایے کثعرالتعداد تجربوں کے عناصر شامل‬
‫پیدا ھوجاتی ہے ۔‬ ‫تںے‬
‫ھنہی‬
‫ججرے‬
‫مگ ت‬ ‫عام عمل‬
‫سی لو‬ ‫جےن ہھیںیں‬
‫ہو‬
‫یه عمل شعوری اور ارادی طور پر نہیں ھوتا ۔ اس میں جن تجربوں کے‬
‫عناصر آ ‪٢‬‏ کر شامل ہو جاتے هیںآن کوعلیحدہ علیحدہ یادنہیں کیا‬
‫فییت ھوقی ہےتو وہ ان معتوں میں‬ ‫جاتا اور اگر ان میں سک‬
‫کونی ک‬
‫کە شاعمر انفعالی طور پر اس نۓے جموعی تجرے ہے متاثر ہوتا ے ۔‬
‫اگرچه ایلیٹ اس عمل کو تخیل ہے منسوب نہیں کرتا لیکن يہ ال‬
‫یحةیقت‬
‫وہی ےہ جو مارے نظرے کے مطابق تخیل کاعمل ہے ۔‬
‫اس موضوع پر جان مڈلٹن سی ‪(٣٣٣0]3‬‏ (‪ ٤6141455‬صطہ‪)3‬‬
‫ذیل کیرظااۓہر کرتا ے ‪:‬‬
‫''تخیل وہ قوت ہے جو خیال اور جذے کو ہم آھنگ کرق ےہ‬
‫‪۸۲۳‬‬

‫پر‬ ‫مت‬
‫خےدکی‬
‫اور آن کی ھآمھنگی کو زندی کآے٘س حص‬
‫علیحدہ‬ ‫اور جذبهہ علیحدہ‬ ‫نائور کت دیتی ے جس سے خیال‬
‫۔اعر کا تخیل س کے سارے وجود روحانی‬
‫پیدا هوۓ ھوں ش‬
‫ھ‬
‫کے‬ ‫و جسانی پر غالب آ جاتا ہتےخ۔یل کا عمل یوں‬
‫جیسے فطرت آن تمام قوتوں کو جو آآس کی خادم ہیں اور‬
‫م دھندے کرتی ہیں ایک‬ ‫اکے‬
‫کآُس‬
‫جو اپنے اپنے طور پر‬
‫کے کام میں غخل‬ ‫دوسرے‬ ‫ساتھ جوت دیتا ے تاکه وہ ایک‬
‫ا‬ ‫‪ 32‬ھوں‬

‫مربوط کرنۓ کاعمل شاعزی يک عز‬ ‫تےھ‬


‫اک‬‫سلات‬
‫جذیات کو خیا‬
‫صنف میں ہوتا ےے؛ چا وہ غنائی ہو ؛ چاے ڈراسائی ‪٤‬‏ چاعے باکاتی اور‬
‫ہوتیق ےہ‬ ‫مضمر‬ ‫چا تخیملی ۔ ہر صنف شاعری کی“شعریت“ اسی میں‬
‫اہسے‬ ‫ام‬
‫‪.‬قیعہے‬
‫؛ش۔کرت‬
‫کہ وہ کسی چیز کے‪.‬تخیبلی ادراک کو ‪:‬پی‬
‫کە وہ چیز شاعر کے شخصی جذبات ہیں یا دوسرے لوگوں کے چذبات‬
‫۔ غنائی‬ ‫ولات‬
‫عاتام‬
‫مقع‬
‫وا‬ ‫ئی‬
‫وکے‬ ‫یا فطرت کے مناظر یا انسانی زند‬
‫کگی‬
‫شاعری میں اگرچە سطحی طور پر ایسا معلوم ھوتا ے کے شاعر اپنے‬
‫بیان کر رھا ہے ء لیکن در اصل واہپنے جذبات بیان نہیں‬ ‫ذاتیق جذبات‬
‫رےڈ۔ز کاشاعری کو‬
‫چ۔ا‬
‫رئی‬
‫کرتا بلک آنْکے تخیل کو پکیرشتا ے ۔آ‬
‫کہنا ایک مغالطے اور خلط مہحث پمربنی ہے ۔ شاعری‬ ‫این‬
‫بک‬‫زبات‬
‫جذ‬
‫خیل کی وساطت سے اور وہ‬
‫تعلق رکھیٰ ے تو متحض‬ ‫ےی‬
‫ئ‬ ‫وہ‬
‫کبات‬
‫‪ 1‬جذ‬

‫عمیشہ تخیل کیزبان ہوتی ہے ۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ شاعر محض‬


‫فرضی اور مصنوعی جذبات کسو بیان کسرتا ہے ء بلک یہ که وہ ایسے‬
‫ز‬‫اںگ۔‬
‫جذبات کبویان کرتا ے جو اس کےتخیل کو حقیقی معلوم ھو‬
‫آتُسخکیال خام اور غلط کار نہیں تو اس کے واقعی جذبات کا تو ذکر‬
‫اس گے اختراع کردہ جذبات بھی واقعی جذبات سے زیادہ قرین‬ ‫ھی کیا‬
‫حقیقت ہوں کہ ۔‬
‫ہم دےوسرے باب میں جذباتیق نظریۂ شاعری کے ضمن میں‬
‫آئی ۔ اے ۔ رچرڈز کی اس ٴراۓ کاتذکرہ بھیکیاتھا کھ شاعر اپتے باطنی‬
‫‪۸۵‬‬

‫اندر کی‬ ‫ے‬‫پرئکے‬


‫اا ک‬
‫داعیات اور جبلی مقتضیات میں ایک ھم آھنگی پید‬
‫اکسیفیت نفس میں شاعری‬ ‫ر‬
‫اساوہے‬
‫پات‬ ‫ات‬
‫سسے‬
‫یکش‬ ‫ن‬
‫ش م‬ ‫جذہاتی ک‬
‫کرتا ے ۔ یه دعوعل حض شاعری کی معدودے چند مثالوں پر منطبق‬
‫ھوتا ے اور ایک کلیے کے طورپر قابل تسلم نہیں ۔ يہبجا ے کہ‬
‫شعر کوئی کےعمل میں کش مکش سےنجات پاۓکاایکعنصر ہوتا ہے ؛‬
‫لیکن یه عنصر صرف اس صورت میں موجود ھوتا ے کھ شاعر اپنےتخیل‬
‫کی مدد سے ایک ایسی صورت حالات کا نقشہ ذھہن میں قائم کو تا کے‬
‫جس میں کش مکش ھآمھنگی میں تبدیل ہو گئی ہشوا۔عر کے‬
‫فکڑ ‪2‬مر کے عمل سے کش مکش بذات خود ختم نہیں ہوجاتی ؛ اس کے‬
‫س۔ا ادراک عام‬ ‫پر عکس شاعر کو اس کا بڑا واضح ادراک هوت‬
‫اایے‬
‫کش کو انسانی تجرے کے‬ ‫مش‬‫لوگوں کو بھی ہوتاے لیکن شاعر اس ک‬
‫ایک وسیع تر نظام کے ایک حصے کے طور پر دیکھتا ے اور بھی وہ چیڑ‬
‫کے جو آشے اس ؛کے‪:‬ابیان کرنۓ کی توقیق جٹی ے ۔ اکڑ کش مکی‬
‫فکر شعر کے عمل میں خودبخود ختم ہو جاۓ اور اگر شاعر کا مقصد‬
‫(چاے شعوری اور چاے غیر شعوری طور پر) حاضپنا معالجه نفس هو‬
‫تواُسکےلیےبالفعل شعر کہنے ی کوئی ضرورت باقنہیں رھتی ۔ شاعر‬
‫چذباتی کش مکش کو اپنےتخیبلی نظام کا ایک حصہ بنا کر ُس کے ]ن‬
‫نتایج کو جو اس کے نفس میں ایک قابل اظہار مضمون کی حیثیت‪ :‬ہے‬
‫ہیں الفاظ میں مجسم کرتا ے ۔ جہاں تک کش مکش کا بذات‬ ‫رجہاے‬

‫کے عمل ہے پہلے موجود تھی آسی‬ ‫ئری‬ ‫خود تعلق حے وہ جی‬
‫کسےوشع‬
‫طرح شعرگوئی کےعمل کے بعدبھی شاعر کے ذھنی پس منظر میںموجود‬
‫ری سے ۔ البتھ اتنا ہوتا ے کہ آس میں ایک تسلى بخش معنی پیدا‬
‫ہو جاے ہیں ۔ حقیقت تو یہ ے که جذباتی کش مکش تنوع اور شدت‬
‫دونوں کے اعتبار سےجتنی زیادہ وگ آتنا ھی شاعر کا رقبه بلند ہوکاء‬
‫خوکا‬ ‫آکیو لک ەاشاعر ‪):‬کو جتنا اپنے اندر ابتری اور پریشانی کا احساس‬
‫تنظم ء ترتیب اور‬ ‫آتنا عی وہ آُس کے تدارک کےلیے اپئے کلام میں‬
‫دے کا ۔ اعلبی ہاۓ کی شاعری زندگی‪ :‬کے‬ ‫یت‬
‫مو‬‫ہک‬
‫اوبی‬
‫خوش اسل‬
‫‪۸٦‬‬

‫تضادوں یا ہنکاموں ہے انکار یاگریز نہیںکرتی بلکە اس کے برعکس‬


‫وء ان کا پورا پورا نقشه پیش کرتی ہے ۔اس نقشے کا پس منظر ایک‬
‫میں انسان کی جد و جہد بہت کم‬ ‫جس‬ ‫ہے‬ ‫ہوتی‬ ‫ایسی تخھیلی کائنات‬

‫اھمیت رکھتّی ہے ۔ یہتخیبلی کائنات وہ خواب کال ہے جو هر بڑا شاعر‬


‫کک‬
‫ھواتا ے ۔ اس خواب کی کوئی تعبیر نہیں اور‬ ‫دن‬
‫دیا‬ ‫وے‬
‫ر‬ ‫دیک‬
‫اھتا‬
‫اسی میں اس کی قوت ؛ آس کی قدر و قیمت اور آاسھکی‬
‫میت ے ۔‬
‫جہاں فلسفی اس مرتی دنیا پر؛ ج‬
‫اسدکا‬
‫راک عم حواس کی مدد ہے‬
‫ھیں ؛ ایک جرد فکری نظام عائد کر دیتا ے جس میں وه‬ ‫کرتے‬

‫اور تخالفوں کو مٹا دیتا ے ء وهاں شاعر ؛ جس‬ ‫تمام تضادوں‬ ‫بزعم خود‬

‫ھوتا ےکه خیر و شر ؛ خوشی و غم ایک واحد‬ ‫فس ک‬


‫اان‬ ‫عا‬
‫رس ا‬ ‫کو‬
‫حقیقت کے دو رخ ؛ ایک واحد تجرے کے دپوہلو ھوے ہیں ء ازسندگی‬
‫کیکشا کشوں ؛ تضادوں اور خمصوں کو قبول کر لیتا ھے ۔ حسن کی‬
‫ژوال پزیری ء جذبات کی تغیر پسندی ؛ انسانی سیرت کی خامیاں اور‬
‫زندگی کی ناٴمامیاں ء جن کے طوفان بدتمیزی ہے گریز کر کے فلسفی جردات‬
‫کی ایک مصنوعی دنیا میںپناہ لیتاہے ء یہی چیزیں شاعر کی مشق سخن‬
‫کلےیے دلچسپ موضوع مہیا کرتی ہی‬
‫اںگ۔ر زندگی میں بخالف عناصر‬
‫کے ھنکامے اور دل انسانی میں متضاد جذبات کے معرکے نہ ہو‬
‫شتےاتعور‬
‫تو‬ ‫نیٹ‬
‫‪7‬س‪)۸۹‬‬ ‫ء یہ رنکا رنگی نہ ہو‬
‫(تیم۔ ک‬ ‫لںمیه‬
‫ونی‬ ‫کبے ف‬
‫ونقمی‬
‫یه تقاضا کرتسا ہے کے شاعر کو خود اس کش مکش اور تضاد میں‬
‫حسیت؟““ ہونی چاہیے جو‬ ‫شامل هونا چاہے اور ا”س م'یںسای‬
‫لکبی‬
‫انسان میں آُس وقت ہوق ےے جآبس میں یہ صلاحیت ہو کہ آ٘س کے۔‬
‫ء مخمصے اور شکوک ہوں لیکن وہ جھنجھلا کر اصلیت‬ ‫ایندقرین‬
‫ےیاں‬
‫اور معقولیت کی تلاش نہ کرنۓ لگے ۔ مؤخرالذ کر فاسفیوں اور سائنس‬
‫دانوں کا طریقهة عمل ہے ۔ شاعر کو اس ہے احقراز کرنا چاھیے ۔ یه‬
‫”سلبی حسیت‪۶‬؟ تخیل کیوہ عالىی حوصلػ اور واسلیعمشربی ہے جو جذبات‬
‫کی شورشوں کو انسانی فطرت کے مسظاہر سمجھ کر آنھیں جو‬
‫تںوکاں‬
‫قبول کر لیتی ہے اور یە گوارا نہیں کرتیکه عقل کو دل کمعےاملے‬
‫ےۓ‪۸‬‬

‫میں دخل در معقولات کی اجازت دے ۔ اس کی تنظیعمی سرہرستی میں‬


‫ھ‬‫تو‬
‫ات ک‬
‫سلافا‬
‫ھنگیاں بن کر اپنے سارے حسی ائت‬
‫یه شورشیں ھآم‬
‫جب کوئی‬ ‫لیے ہووے شاعر کےتحجرے میںداخل ہو جاق ہیں تکاہ‬
‫داعیة باطنی یا خارجی مہیج تقاضا کرے وہ ان پر فی ھیئتیں عائد کر کے‬

‫اور اپنے تجرے کی مہر صداقت ثہت کر کے انھںی عالمگیں انسانی تجرے‬
‫کے گنجینے میں شامل کر دے ۔‬
‫یه عمل ورڈز ورتھ کےالفاظ میں قوی جذبات کا اضطراری سیلان‬
‫ان معنوں میں کە شاعر کے ذھنی حفوظات میں سے جو‬ ‫بھی ھوتا اےۓ ء‬

‫ہوے‬ ‫جذبات و خیالات سب سے زیادہ شدت کے ساتھ اظہار کے متقاضی‬


‫آنھی کو بیان کرتا ے ۔ اسی طرح یہعمل سکون کے لمحوں‬ ‫ہیں‬
‫وہء‬
‫خبا‬
‫یتاو‬
‫لات کے اظہار کی صورت میں بھی ہوتا ۓے ؛‬ ‫منیں‬
‫ئے جذ‬
‫جذبات کاہنکامہ فروہو جاۓ کےبعدشعر کہتا ھے اوو‬ ‫اک‬
‫عەر‬ ‫کی‬
‫شوں‬
‫کو وہ بیان کرتا ے وہ حض تازہ ترین واقعے یا‬ ‫یتاو‬
‫لات‬ ‫جن جذ‬
‫خبا‬
‫تائر ی پسداوار نہیں عموے بلک وہ جذبات و خیالات ہوتے ہیں جو‬
‫تازہ ترین واقعے یا قأثر اور اس کے تجربۂ ماضی کے باہمی فعل و انفعال سے‬
‫پیدا ہھوے ہیں ۔ بھرصورت جذبات کااظہارتخیل کی وساطت سے ھوتا ے ۔‬
‫تخیلکیوساطت کےبغیر آن کااظہارایک ایساعملہےجس کے نتیجے‬
‫کو شاعری نہیں کہاجاسکتا ۔ وہ یاتوجذبات کاایک عریان مظارہ‬
‫یہاں بھی تخیل اور خیال بندی‬ ‫یتک؛ن‬ ‫خط‬
‫لاب‬ ‫یدہ‬
‫اہدےہ‬ ‫ھوکا یز‬
‫ازیا‬
‫میں تھیز کرنے کی ضرورت سے ۔ تخیل اپنے آپ کو پس پردہ رکھ کر‬
‫جذبات کیمکمل اور صحیح تصویریں پیش کرتا ے ۔ خیال بندی اظہار‬
‫اپنے آپ کو پیش کرتی ہے ۔ ہاری شاعری کی‬ ‫جذبات کے ہہاتےۓے سے صرف‬
‫اس معاملے میں بھی بنیادی طور پنراقص ے ۔‬ ‫زل‬ ‫مقبول قری‬
‫غنسصنف‬
‫آس کافقدان هیئت اظہار جذبات کو خیال بندی کیسطح ہے بلند ھوۓ‬
‫کی اجسازت نہیں دیتا ۔ مارے چند سمشہور ”'نشتر“ جذبات کے متعلق‬
‫نکته آفرینی کے معجزے سہی لیکن اس کایے ػقیتغلیط نہیں کرتۓ ۔ وہ‬
‫غزلیں بھی جن میں مکمل جذباتی تجرے بیان کے‬ ‫لند‬
‫سل‬ ‫معذ‬
‫مودے‬
‫س چ‬
‫‪۸۸‬‬

‫نہیں ؛ کیو ںکە وہ غزل کے ہیٹتی لباس‬ ‫سل‬


‫ثےثکی‬
‫ثیات‬ ‫کور ہیں اس‬
‫مک‬
‫میں نظمیں ہیں ۔ بلکە سوال پیدا ھوتا ے کە اگر وہ غزل کی شکل میں‬
‫ئە ھوتیں تکویا آن کا پایە اور بھی بلند نہ هوتا ؟ غزل میں ایک‬
‫طرف تو ردیف و قافیه کی سخت بندش ھوی ے جو شاعر ک پرواز کو‬
‫دوسری طرف آس کا تار و پود اتنا ڈەیلا ڈھالا‬ ‫ر‬ ‫غاوڈ کو دیت‬
‫ایوہے‬

‫هوتا ۓے کہ قاری یا سامع پریهمحجبوری عائد نہیں ہوتی کہ وہ اس پر‬


‫من حیث الکل توجہ سیذول کرے ۔ چنانچہآسے جو منفرد اشعار پسند‬
‫التقات‬ ‫ول‬ ‫ب‬ ‫آے ہیں وه آنھی پر سر دھننے لگتا ے اور باق اشع‬
‫قار‬
‫اک‬
‫ےہ شاعر کجاذباتی تجربہ مکمل‬ ‫نہیں سمجھتا ۔ اس کا نتیجه یہ ھوتا ک‬

‫طور پرآُسکے ذھن تک منتقل نہیں ھوتا ۔ یہبجا ے کہ اچھے اشعار‬


‫ایک نظم میں بھی سامع و قاری کو نظم کے بای حصوں ہے زیادہ متأثر‬
‫سیاق و سباق لہ‬ ‫و‬ ‫کہ وہ‬
‫کآن‬ ‫"کرنے' تھیں‪ :‬لیکن اس ج‬
‫ندہتک‬
‫یں‬
‫کپر‬
‫س‬ ‫علیحدہ کر کے آن پر اپنی ساری توجه مسکوز کر دے ؛ اس‬
‫عکے‬
‫کو‬ ‫ظوم‬ ‫وہ نظم کے کلى تائر میں اضافہ کرتے ہیں ۔ اگر ایسا نہ ه‬
‫نوت‬
‫ناکامیاب سمجھنا پڑےگا ۔ دوز حاضر کی ایک نقادہ سوزن لینگر(‪0808 6‬‬
‫اس موضوع پر کولرج کی هم خیال هو کر ذیل کے الفاظ میں‬ ‫‪۶‬ا)‬
‫کرق ڑآ‬ ‫اپ ںامز‬

‫'کوئی نظم ایک ڈراہے یا تصویر کطیرح محیثیت مموعی اپنے‬


‫فی معانی کی حامل ہوتی ہے ۔ جیسے ممکن ہے کہ کسی ڈرامے‬
‫یر‬ ‫صاک‬
‫وسی‬ ‫میں خاص طور پر معنی خیز عبارتیں ھو‬
‫تں ی‬
‫میں خاص طور پر جاذب توجہ حصے هوں ؛ اسی طرح ممکن‬
‫ھوں‬ ‫اکڑے‬
‫ہے کہ کسی نظم میں ایسے ابیات یا مصرعے یٹ‬
‫جمنحکاےسن منمایاں ہی‬
‫لںی؛‬
‫کن اگر ساری نظم جو آن کا‬
‫سیاق و سباق سے ء ان محاسن کا جواز پیش نهکرے یا آن کی‬
‫متحمل نہ ہو تو آن محاسن کے باوجود نظم کو نکاامیابپ‬
‫قرار دینا پڑے کا ۔ جسے ”'فنی صداقت“ کہتے ہیں و‬
‫کہسی‬
‫نظم کےمنفرد حصوں کی خصوصیت نہیں ہوتی ء بلکہ نظم‬
‫‪۹‬ہ‬

‫میں من حیث الکل موجود ہوتی ہے ۔؛؛‬


‫ہارے تنقیدی ادب میں غزل کو اکثر انگریزی شاعری کی ‪61771‬‬
‫یغعننیائی انظم کی ہم صسنمفجھا جاتا ہے ۔ ان میں بہت سی چیزیں‬
‫بر سی ‪۷‬مین ‪ ۷‬ح‪ 2‬یہ که دونوں میں شخصی جذبات کا اظہار ایک‬
‫غبر شخصی انداز میں کیا جاتا ے ء جس ہے آن میں ایک عمومیت پیدا‬
‫جذبات‬ ‫جائی وہ ھر شخص ‪-2‬‬ ‫ھو جاتیق ہے )؛ یعی جو جذبات بیان وی‬

‫بن جاتے ہیں ۔ لیکن فقدان هیثت کے باعث غزل ‪ 61771‬کے درجے کو‬
‫پہنچنے سے قاصر رھہّی ہے ۔ ‪ 61751‬کی لازمی خوبیوں کو سی۔ ڈے لوئیس‬
‫ذیل کے الفاظ میں بیان کرتا ہے ‪:‬‬
‫”اغاق ا‪7‬لقتاضا'عیر شاعنر "یق طبَيعت میں کارفرما ہوتا ہے ۔ سچ‬
‫پوچھے تو یہی وہ تقاضا ے جو آے نثر کے مبجساۓ نظم‬
‫شاذو‬ ‫لیکن خالصةٴ غنائی شاعر‬ ‫لکھنے پر جہور کرٹا تھے‬
‫نادر پیدا هوے ہیں ۔‬
‫خالص غنائی نظم اول تم‬
‫وام دوسرے‬
‫اصناف سخن کے مقابلے مسیں خسود مکتفی ہوق ہے ؛ دوسرے‬
‫تام فنون لطیفه میں یہ موسیقی ے قریب ترین مشابہت‬
‫ی‬ ‫رکھتی سے ؛ ایک تو اس لیےکہ اس کی ابتدا ھ‬
‫کیاۓ‬
‫اس لیے که امن اس نے باوصق کے‬ ‫ہوئی ء؛ دوسرے‬ ‫خاطر‬
‫غنائیه کلام میں شاعر اپنے ذاتی جذبات کا اظہار کو تا کا ا‬
‫معنوں‬ ‫آس کالب و لہجہ سراسر شخصی ھوتاے ۔ صحیح‬
‫میں غنائی شاعری کے نام کی مستحق صرف ایک ایسی نظم‬
‫ہوتی ہے جس میں شاعر خود روپوش هو گیا ہو اور جس‬
‫کے الفاظ خود بخود گائیں گ‬
‫ءویا سازندہ ساز کو چھیڑ کر‬
‫س کے‬ ‫علیحدہ هوگیا ہو اور ساز اپنے آپ برچہا ہاو۔‬
‫الفاظ کے تار و پود میں ایک حریری هھمواری اور شفاق‬
‫ہونی چاہیے اور اس کی جذباتی کیفیت میں مکمل وحدت اور‬
‫نفس ء جذباق‬ ‫تسلسل ؛ منطق آرائی ء بذله سنجی ء مشاھدۂ‬
‫پیچیدگی اور روہ چیز جو عبارت کی قدرتی روانی میں خل هو‬
‫‪۹۰‬‬

‫غنائی شاعری کے مزاج کو ناسازگار ہوتی ے ۔ یوں کہہیے‬


‫که غنائی شاعری ایک ایسی صنف سخن ہے جس میں موضوع‬
‫کی غیر شخص یکیفیت اور شاءر کی غیر شعوری کیفیت دونوں‬
‫اپنے نقطة عروج پپرہنچ جاتیق ہیں ۔؛‪٤‬‏‬
‫آردو میں غزل کے علاوہ دوسری اصناف سخن مثلا مرثیہ ء مثنوی ء‬
‫لە بنایا گیا ے اور ان‬ ‫مسدس ؛ قصیدہ اقورطعے کو اظہار جذ‬
‫وباستیکا‬
‫اصناف میں جذبات سرائی کےقابل قدر نموۓ ملتے ہیں ؛ لیکن ن‬ ‫سب‬
‫میں بھیتخیل ؛ آن معنوں میں جن میں ہم اس لفظ کو استعال کر رے‬
‫نظر آتسا ہے ۔ ہاری‬ ‫ردرما‬
‫فنا‬
‫رو‬‫ااذ‬
‫کش‬‫ہیں ء کسی بلغد سطح پر‬
‫جذباتی شاعری کی دو بڑی قسمیں ہپیںہ۔‬
‫لی قسم وہ ےہ جسے ہم تھاکاتیق‬
‫یا‬ ‫جذبات جو واقعی ہوں‬ ‫سںے‬ ‫ہیں او‬
‫ار ج‬
‫یس می‬ ‫تہے‬
‫کک‬‫سری‬
‫شاع‬
‫براہ راست بیان کر دے جاتے ہیں ؛ عام‬ ‫واقعی تصور کے گئے ھوں‬
‫عہر کے ذاتی جذبات ھوں یا دوسرے لوگوں کے ۔ اس‬ ‫اە و‬
‫شک‬‫اس ہے‬
‫عری میں کہیں بالکل فطری زبان یعنی روزمە کا استعمال کیا‬ ‫قشسمای‬
‫اور کہیں صنائع و بدا اور تشبیهە و استعارہ سے مالا مال زبان‬ ‫جاتا اے‬
‫ہےکام لیاجاتا مے ۔ لیکن ان چیزوں کے وجود یا عدم سے نفس مضمون‬
‫سیری قسم وہ ۓ‬ ‫وک‬ ‫دعری‬
‫میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ ماری جذباتی شا‬
‫ججسذمیبںات کو سرتاسرخیالات و افکارمیں تبدیل کر دیا جاتا‬
‫سے اور ان کے متعلق طرح طرح کی مضمون آفرینیاں کی جاتی ھیں ۔ ان‬
‫دونوں قسموں میں ایسی مثالیں بہت کم ملتّی ہیں جن میں شاعر کا دل‬
‫اور فلسفی کا دماغ ء ہنکامی شخصی واردات اور نوع انتساق کے ابدی‬
‫مُسائن' کے 'تاثرات ہ ریزہکارانه صناعت اور فکنار کاجامع تشکیلی تخیل‬
‫اقبال کی شاعری‬ ‫انک ساتھ کامکرتے ہوۓ دکھائی دیتے هو‬
‫صںر۔ف‬
‫علیحدہ اپنا ھی ایک انداز رکھتی‬ ‫میں ء جآوردو شاعری کی روایات ے‬
‫اور تخیل‪:‬‬ ‫عہ ء یہ امتزاج ایک بلند سطح پر بروۓ کار دکھائی دیتا ے‬

‫ای پوری آب و تاب اور اپنے پورے سوز و ساز کےساتھ جلوہ گر نظر‬
‫۔‬ ‫کے‬
‫چھٹا باب‬
‫شاعرانه آخیل ء علم اکتسابی اور نفکر‬
‫سولانا عبدالرحان ”أمۃرالشعر؛؛ میں ”علم اور شعر؟؟ کے عنوان کے‬
‫ماتحت لکھتے ہیں ‪:‬‬

‫”یه ظاہر ۓےکہ خیال کاگنجینۂ معلومات جو کچھ تے ء حافظے کی‬


‫شاعر کمعےلومات‬ ‫ر‬ ‫اگر بڑ‬
‫ایوہے‬ ‫ےہ‬
‫۔‬ ‫کتاب میں هوتا و‬
‫ال بھی معانی و تشبیہات کثیر اپنے لے‬ ‫خںیتو‬‫وسیع ہی‬
‫موجود پاتا ے ء ورنہ آس کیجولان کاہ تنگ ہو جاتی ےہ‬
‫داخل ہوۓ کی‬ ‫اور جلد تر ُس کو تخیل کی قامم ر‬
‫یوں‬
‫ضرورت پیش آتی هے ؛ تاکہ تنک مالگی کے ننگ کو‬
‫ڈھانک سکے ۔ لیکن چوں کہ تخیل کی عارت خود خیال یىی‬
‫بنیادوں پآٹرھتّی ے؛ ایسے شاعروں کیتنگ نظری اھل نظر‬
‫کی شاعری‬ ‫می‬ ‫سے چھپ نہیں سکتی ۔ اسیلیے آپ عا‬
‫علماو‬
‫میں ھمیشہ یہ فرق پائیں کے کہ ایک کے خیالات وسع‬
‫ر دوسرے کے تن‬
‫اگی۔ک ء ایک بات کو سو بار‬ ‫اںوکے‬‫ہو‬
‫دھراۓےۓ کا مگر نئے انداز بیان آ‬
‫ےُ٘س 'کوانۓ ابعی کی‬
‫اس پر‬ ‫صورت میں دکھاۓ کی کوشش کرے کداوسرا‬
‫بھی قادر نہ ہوگا “‪٤‬‏‬

‫ه‬ ‫جہاں تک اس عبارت سیں مولانا عبدالرحان کا مطلب یہ‬


‫کہے‬
‫اعلبٹی پاۓ کی شاعری کے لیے علم کتابی کی ایک معتد بە مقدار ضروری‬
‫ہکمنیں ان کے اس ضمی دعوے‬ ‫ہوتیہے ؛ ہم آن ہےمتفق ہیں لی‬
‫ہےبنیادی طور پر اختلاف ہے که علم کتابیتخیل پرتفوق رکھتا ہے ۔‬
‫یہ دعوعل تخیل کے آسی محدود بلکہ غلط تصور پر سبنی ےہ جس کی‬
‫تصریح ہم تیسرے باب میں کر چکے ہیں ۔ ہمارے نظررے کے مطابق‬
‫‪۹۳۲‬‬

‫تخیل ایک طرف شاعری کا اور دوسری طرف تمام علم حقیقت کا سرچشمہ‬
‫سے ء اس لے شاغر کی ساری دنیا اقلیمتخیل کیحدود کےاندر ہوتی ہے ۔‬
‫عری کی دنیا سے نکل کر‬ ‫جب وہ ان حدود کے باھر قدم رکھےۓے تشوا‬
‫وہ‬
‫کسی اور دنیا میں جا پہنچتا ے) مثلا فلسفه ء سائنس تاریخ ‪ +‬سیامھات ء‬
‫اخلاقیات یا مذھب یىی دنیا ۔ ان دئیاؤں کے قوائین شاعری کے قوانین ہے‬
‫ختلف ہچینںا۔نچہ وہ آن میں پہنچ شکارعرنہیں رھتا لیکن وہ ان دنیاؤں‬
‫سیکںتا۔ اول تو ایک مہذب جاعت کے‬ ‫سطےکولیر پر قطع تعلق بکھیرنہ‬
‫ایک فرد کیحیثیت سے؟سے قدری طور پر انْ ہکےچھ نکەچھ سروکار هوتا‬
‫ہے ؛ ددوسنرےیایہ‬
‫ئیں انسان مکجےموعی تجرے اور مجموغی علم کے‬
‫اھم حصے ہیں اور اس لیے وہ جہاں تک ان سے ے خبر ہو؛ وہیں تک‬
‫محدود‬ ‫آس کاتوجہریہ اور وعہلم جآوس کے فن کلےوازم میں اےبہ‬
‫ہوگا۔ اگروہ کسی بلندسطح پر تخلیقی کام کرنا چاہتاا ے تواس کے‬
‫لیے صرف وہ علم وھہبی جو آسے ایک چشم بیٹا اور ایک دل حساس کے‬
‫ذریعے صحیفۂ فطرت اور کتاب زندگی ہے حاصل ہوتا ہے کاف نہیں ۔ ان‬
‫؛ وه یک‬
‫هہ‬ ‫عمل ے‬ ‫طریق‬ ‫حالات میں اس کے لیے صرف ایک صحیح‬
‫وہ ان متجانس دن‬
‫میاؤ‬
‫عںلسوےمات و افکار اور عجائب و نوادر فراھم‬
‫کر کے اپنی اقلیمتخیل کو آن سےمالا مال کرے ۔ا٘س کی اقلم تخیل ک‬
‫اصلی چیزیں احساسات ء ادراکات اور جذبات ہیں ؟ اس لیےوہ بداھنریی‬
‫اؤںن‬
‫سے جو چیزیں لاۓ ؛ ضروری ے کہ آن کو ان اصلی چیزوں کے سانچے‬
‫کے‬ ‫سیں رنگ دے ء‪.‬ورنه چیزوں‬ ‫می"ں ڈھال دے اور ان‬
‫ر کے‬
‫نگ‬
‫کے درمیان ایک ایسی منافرت و مغائرت ھوگی جو‬ ‫ان دو گروھوں‬
‫ہوک ۔ معلومات کی تحصیل و ترمم کا‬ ‫بضر‬
‫ت‬ ‫اس کے فن کے‬
‫ثلی‬
‫اےم‬
‫کے مقابلے میں آسان ے‬ ‫نون‬ ‫یەعمل شاعری کےلیے باق تمام عل‬
‫فوم‬
‫تخیل‬ ‫تخی‬
‫الوہے‬
‫ر‬ ‫کون کاو قوت نفستائیق جو ان عمّلبی کنل‬
‫ےَ‬ ‫شاعری کی قوت فاعله ؛ اس کی خاتمسلمانی اور آسکا چراغ الهدین‬

‫اگر شتاعخرکیال وسیع ؛ شرق یافته اور ضروری معآلوم‬


‫راتا ہ‬
‫مےتہ هو‬
‫توآُسکی جولان کاہکے تنگ ہجوانۓ کاکوئی امکان پیدا نہیں ہوتا ۔‬
‫‪۹۳‬‬
‫آسے جکوچھ چاہیے وہ سب آسے تخیل کیقلمرو میں مل جاۓ گا اور‬
‫آسے اس کے باہر جاۓ کی ضرورت پیش نہ آۓ گیءبلکە اگر واہس کے‬
‫باہھر جائۓ گا تو سے بھٹک جائنۓ کے خطرے کا سامتا کرنا پڑے گا ۔‬
‫کے ننگ‬ ‫ئگگی‬ ‫مولانا عبدالرحان کے ہر کے مطابق شاعرکو اپ‬
‫منیاتن‬
‫‪ 1‬ڈھانکنے کے لیے تخیل کی قلمرو میں داخل ہونۓ کی ضرورت پیش آتی‬
‫شاعزا کو شروع ہے لے کر‬ ‫یه ےج‬
‫که‬ ‫۔ اس کے برعکس واقعده‬
‫۔ وہاں وبہادشاہ ے ‪٢‬‏ آآس‬ ‫ارھ‬
‫ھنایے‬ ‫ٌ تک تخیل کی قلمرو کے ان‬
‫چدر‬
‫کہ باھر وہ ایک دریوزہ گر ہے ؛وہاں واہیک خلا‌ق فتکارے ء س‬
‫کبےاھر وہ حض ایک نقال ے ۔‬
‫یل کے ایک ادنول قوت ہونۓ کے متعلق ہمارے یہان جو روایتی‬
‫کے عنوان‬ ‫ہے آسے مولانا عبدالرحان ایک اور عبارت میں و‬ ‫عقیدہ‬

‫کمےامحت بڑے پر زور طریقے سےبیان کرتے ہیں م‬


‫۔لاحظہ ہو‬
‫بک نکرکےنامکےنثرت ا۔ جائے ‪:‬این کہحا کڑا‬ ‫"لگن‬
‫ہے مگر شاعمر کو آس ہے آلفت ہے ‪٤‬‏ السیے کة اس کی‬
‫فکر روح پرور و جاں فزا ے ۔وهە کون سا شاءر ہج‬
‫ےو‬
‫فکر سخن پر نہیں سا اور لعل آ گلنے کی خاطر جگر خون‬
‫نہیں کرقا ۔ آتش کہتا ہے ‪:‬‬
‫کیا کرۓ ہیں عم خون جگر خرچ‬ ‫رہا کسرق ھ فکر شعر گسوئی‬
‫میں فکسر ضمیر و طبیعت ء اندیشهہ و خردء‬ ‫ن‬‫بںاکی‬ ‫شاع‬
‫زسرو‬

‫سب کسو حاوی ہے ۔ اور دیسوان سخن میں‬ ‫خی‬


‫ول‬ ‫خی‬
‫تال‬
‫اختراع و ایداع ‪ 5‬حکمت و اخلاق سب‬ ‫اتی ا او رنگینی‬

‫میر‬
‫ان‬ ‫اسی کیکار سازی ہے ؛ گویا ملک سخن متمام افسیک‬
‫را ز‬
‫سے ۔ چناں چھ ھسارے ہاں کے شاعروں کاآج تاکسی پر‬
‫ابمان ےے ۔ یه وقت کی خوبیاں ہیں کہ تخیل ۓ امیجینیشن کے‬
‫نگوش‬
‫اۂمی‬ ‫زور سے ملک سخن پقربضه ج|لیا اور فگکر‬
‫مکو‬
‫میں بٹھا دیا ے ۔ تامہعمقولات کاایک گوشہ اجسگر‬
‫گوشۂ‪:‬شعزا کےنامکاابھی تک اق ے ؛ اور جب تک یة ]ُس‬
‫‪۹۳‬‬

‫نے ‪:‬پاس ہے وہ حقائق و معارف کا مالک ہے ۔ علم و فضل‬


‫اں ج‬
‫نوہ‬ ‫حجلس‬
‫کوںیمی‬ ‫کی صحبتوں ء ثق‬
‫ماعت‬
‫تاونست کے‬
‫اشعار حصسن قبول ہہاے ہیں ء اور اس لیے کہ جواھر‬
‫حقیقت و صداقت ہیں ؛ حافظے کاگنجینہ اور زبان کا وظیفه‬
‫جس‬ ‫بنتے ہیں ء وہ سب فکر ھی کا مال ہوتے ہی‬
‫پںھ؛ر‬
‫کے پاس حکمت و صداقت ے سب کچھ ے >‪٤‬‏‬
‫کی طمروفلانا کااشارہ و‬
‫ےہ یقیناً قابل عزت‬ ‫ار‬
‫عکے‬ ‫سق‬
‫شسم‬ ‫جا‬
‫ھرے یں اور یه حق رکھتے ہیں کہ علم و فضل کی صحبتوں‬
‫پائیں ؟ لیکن آنھیں‬ ‫قبول‬ ‫اور ثقاھت و متانت کے جلسوں میں حسن‬
‫بہترین قسم کی شاعری نہیں کہا جاسکتا؛ بلکہ سچ تو یہ ہے کھ‬
‫انھیں حض ببرناۓ ادب شاعری کالقب دیا جاسکتا ے ۔ صحیح معنوں‬
‫میں شاعری ایک مجلسی فن نہیں بلکہ ایکلطیف و حساس انسانی روح‬
‫لےمہ ہوتی ہے ۔ يہ بجا ہے کہ چونکہ مکالمے میں‬
‫کآاپہ‬
‫مئے‬
‫کا اپ‬
‫؛ ایک بولنے والا اور دوسرا سننے والاء‬ ‫دو اشخاص کی ضرورت ہوتی ے‬

‫عر کا روے سخن ضرور کسی نہ کسی شخص کی طرف‬


‫ایے‬
‫اشس ل‬
‫وہ خدا هو ء چاےے ساری نوع انسافی ؛ چاھے کوئی‬ ‫ھوتاے ‪ +‬چا‬
‫خاص جاعت ؛ چاھے کوئی فربدشر ۔ لیکن اگر آُس کا کلام کسی‬
‫یاجہ هو اور حعض ''فکر شعر‬
‫تک‬ ‫حقیقی داعیة باطنی یخاارجی مہ‬
‫نیج‬
‫گوئی؟““ کی مصنوعی پیداوار نہہوتوشعرگوئی کے عمل میں شعوری‬
‫طور پر آآسکا کوئی خحاطب نہیں ہوتا۔ البته يہ کہا جا سکتا ے‬
‫نا مخاطب ہوتا ے ۔ آ٘سکی شخصیت دو شخصیتوں میں‬ ‫کہ واہپآپ‬
‫تقسیم ہجواتی ہے ؛ ایک وہ جو کسی اندرونی جذے یا خارجی عرک‬
‫؛‬ ‫ووشش‬
‫کج‬‫ےتاثر هوکر اظہار پر جبور ہو ے اور دوسری وہ‬
‫م‬
‫کاوش ‪٤‬‏ تبصرہ ء تجزیہ ء تنقید ء اصلاح وغیرہ کے ذریعے پہلی شخصیت‬
‫شخصیت‬ ‫اوظہار میں مدد دیتّی ہے ۔ ''افکر شعر گوی؛؛ اس دوسری‬
‫ک‬

‫کاکام ے اور یهکام اعلوٰ قسم کی شاعری میں ایسے طریقے سے کیا جاتا‬
‫بلکه شریک غالب ہوتی‬ ‫ی‬
‫اںترہ‬
‫جنہی‬ ‫بے کہ پہشلی‬
‫خصیت دب کر‬
‫‪۹۵‬‬

‫ہے ۔ پہلی شخصیت وہ ے جو شاعر کے تجربه ماضی ‪٢٢‬س‏ کے گنجینڈ‬


‫ے ۔ دوسری‬ ‫ميوین‬
‫افظ‬
‫احساسات اور اس کے ذخبرۂ جذبات کی غا‬
‫افکار اور‬ ‫شخصیت وہ ہے جو آس کے اکتسابی علم؛ اس کے عقلىی‬
‫اور‬ ‫اضطراری‬ ‫ہے ۔ چوسلی شخصیت‬ ‫ان‬
‫بی‬‫ہید‬
‫گتنق‬
‫نوت‬
‫اس کی قس‬
‫عوری طور ‪:‬کرام کرتی ہے اور اپ‬
‫زنےیساےدہ زبردست قوتوں کے‬ ‫غشیر‬
‫قبضة اختیار مسیں ہسوتی ہے ۔ وہ کسی خارجی مخاطب ‪٤‬‏ کسی عملی‬
‫فی‬ ‫مصلحت ؛ کسی اخلاق قسدر ؛ کسی اجتاعی معیار بلکه کسی‬

‫کبیغےیر ایک عالم از خود رفتگی میں فطرت کی قوتوں‬ ‫اال‬


‫یک‬‫خنون‬
‫قا‬
‫چیزوں کی دیکھ بھال دوسری شخصیت‬ ‫کطیرح کام کرتی ہ۔ےان‬
‫کے درمیان‬ ‫کاکام ہے ۔ جلیل القدر شعرا کے یہاں ان دو شخصیتوں‬
‫ایک اچھے بادشاہ اور ایک اچھے وزیر کاسا کامل تعاون ھوتا ۓے ء جس‬
‫قادر ھوتا‬ ‫اور وزیر آآس کا مشیر ء بادشاہ‬ ‫میں بادشاہ خود مختار ھوتا ے‬
‫اور وزیر تدہی کار اگز بادشاہ جابر ؛ خود سر اور مغلوب الجذبات‬
‫ے‬
‫وور وزیر کے مشورے کی پروانہه کرے تو نتیجہ بندظمی اور‬ ‫ا‬
‫انتشار هوتا ہے ؛ یعنی ایسی شاعری جس میں جوش ھی جوش لیکن ھوش‬
‫کعانصر ہہت کم ھوتا ے ۔ اگر بادشاہ کمزور او رکم عقل اور وزیر‬
‫پرفناور اپناآلوسیدھا کرۓ میں مشاق ہو تو نتیجد آسی قسم ک‬
‫فکری اور معقول شاعری هوتا ے جس کی تعریف مولانا عبدالرحان‬
‫ان‬
‫یکے‬‫موں‬
‫رصیت‬ ‫ھسیں ۔ وه قوت جو شاعر یی ان دو‬
‫د شخ‬ ‫اشن وت‬

‫آہہمنگی پیدا کرتی ہے ھی ہے جس کو ہم نے تخیل کا ندامیا‬


‫ء جذبه اور‬ ‫غخت‬
‫او‬ ‫ے ۔ وہ ابتدائی الہام اور بعد کی ضف‬
‫پنیرسا‬
‫دخت‬
‫ے‬ ‫پیدا کرق‬ ‫بقت‬
‫او‬‫طقت‬
‫ماف‬
‫سو‬ ‫یےان‬
‫م ک‬
‫رقل‬ ‫فکر ؛ احساس او‬
‫در ع‬
‫فستی ھیئتیں ء یعنی‬ ‫مےل‬
‫کہ‬‫ماطت‬ ‫اور امسوافقت م‬
‫وطابقت کی وس‬
‫عختللفوں‬ ‫نظموں میں یمہعم‬
‫ہلم‬ ‫ل‬
‫یے‪-‬‬ ‫مکمل نظمیں؛پید‬
‫طاکور ہ‬
‫میں ختلف سطحوں پر ہوتا ہے ء لیکن جہاں تک وہ حیثیت مجموعی‬
‫اب ہوتی ھیں‌۔ یعهمل صرف غنائی‬ ‫ییں‬
‫منظم‬ ‫کامیاب ہو وہ‬
‫کیںاتک‬
‫اور فرمائشی شاعری‬ ‫بلکه (ناصحانه ء تبلیغی‬ ‫ھی میں نہیں‬ ‫شاعری‬
‫‪۹٦‬‬

‫میں ہوتا ہے ۔ شاعری کے ہر تلیقی‬ ‫عری‬ ‫سقےطع نظر) ہشر ص‬


‫انف‬
‫شاہکار پر مخیل کی سہر ثبت ہوتی ےے اور جلی حروف میں یه لکھا‬
‫و متانت‬ ‫اور ث‬
‫”قامت‬ ‫ھوتا ۓےکہ وہ '”'علم و فضل کصیحبتودں؟؟‬
‫کا اجس و‪ 0‬می ‪ 070‬مین قیول‪ ۰ :‬پانو نی عفر یں نکوا نا‬
‫انسدرونی تقاضے کا 'تیجه تھا اور اس لیے‬ ‫ی‬ ‫بلکه شاع‬
‫کسرسکے‬
‫بھی‬ ‫وجود میں آیا کہ آس کا وجود میں آنا نگازیر تھ‬
‫یاو۔ں‬
‫مکمل نظمیں اس قسم کی صحبتوں اور جلسوں اور بالخصوص مشاعروں‬
‫ذہن‬ ‫کے‬ ‫میں پنیش‬
‫ہیں کی جا سکتیں ۔ ظاھر ہے کہ مولانا عبدالرحان‬
‫نت‬ ‫جن ی طر رات‬ ‫ہیں رل‪ 2‬اشکااله امفا ر‪ ۶۰‬مین‬
‫کیو ںکےه آن کے محاسن سطحی ھوے‬ ‫سامع سنتے ھی ‪7‬ی سک کنا ھا‬

‫فکری مضمون سے متعلق ھوۓ‬ ‫عکس‬


‫ریوف‬ ‫ہیں اور آن کے معا‬
‫منی‬
‫ک وجہ ہفےوراً ذھن میں آ جاۓ ہیں ۔ اس قسم کے اشعار بداعلً‬
‫جلسوں اور مشاعروں میں ”'حسن قبول““ پاۓ کی خاطر کہے جاۓے ہیں‬
‫اور جس ”فکر شکعورئی؟' کاوہ نتیجہ هوۓ ہی‬
‫اںس کے پیش نظر یہی‬
‫مقصد ھوتا ےے ۔ ہماری شاعری کا تاریخی طور پر ایک بجلسی فن هونا اگر‬
‫ہے‪ .‬که آس کی بنیادی ص‪:‬اف غزل متےو‬ ‫‪.‬اس اک‬
‫سفکا‬
‫یل‬ ‫ایک طرف‬
‫دوسری طرف اس ام کا بکھفییل کےہ شاعری کا معیار حسن یه مقرر‬
‫وہ بھزی لس میں داد پااغ‬ ‫کیا گیاہکےہ‬
‫شاعری کو علم و حکمت سے کوئی لاگ نہیں بلک دلی لکاؤ‬
‫ہے ک‬
‫۔ولرج کہتا هے کہ ”کوئی ایسا شخص جو ایک گہرا فاسقی‬
‫ایک قدم‬ ‫نە تھا کبھی شاعر نہیں ھوا “۔ بروؤننگ (چصتد‪)08٥٥‬‏‬
‫شاعریء‬ ‫میں‬ ‫حے کہ ”پہلے فلسفهہ اور بعد‬ ‫‪ 70‬پڑھ کر اعلان تا‬

‫جو اس کیبلند ترین پیداوار ےے “‪٠‬‏ اس کا ععلی ثبوت یه ہکےهہ‬


‫(‪00‬د‪)010‬‬ ‫ہوس‬ ‫مث‬ ‫شاعری کی تاری کے کئی جلیل القدر شاہکار؛‬
‫دانتے (‪6‬ص‪ )]900‬کی طریيه‬ ‫کی الیڈ (‪ )08111‬اور اوڈیسی (‪)70688740‬‬
‫قدسیه (ج‪٥‬‏ ہ‪0٥‬‏ ‪٥‬مصذ‪٣‬نط)‏ ؛ ٹن ("‪:11[]٥‬ئ()‏ ک جنت کم گشته‬
‫اور‬ ‫‪ )08٥٥‬؛ گوئٹے (ەط‪٥٥‬ہ‪)6‬‏ کی فاؤسٹ (‪)6800'7‬‬ ‫‪(0‬‬
‫‪0‬‏‪5‬‬
‫ے‪۹‬‬

‫روسی کیمثنوی ؛ نہصرف اپنے زماۓ کے تمام علوم و فنون کو اہنے‬


‫فاسفة‬ ‫خاص‬ ‫بعض کسی‬ ‫دامن میں سمیٹے هوۓ ہیں بلکە آن میں سے‬
‫ترجانی‬ ‫بھی‬ ‫اور کسی خاص مذھبی و اخلاق نظام فکرتنی‬ ‫الات‬

‫کرتی ہیں ۔ دالتے کی طربيه قدسیه قرون وسطیل کی هیبت انگیز علمیت‬
‫کا ایک بجر ذخاز اور ٹوسسٹ (‪ )]6810۵000(1‬فلسفے کی ایک مکمل تفسیر‬
‫طرح رومی کیمثنوی کے متعلق مشہور ے کہ ‪:‬‬ ‫ساےس‬
‫۔ی‬
‫ھست قرآں در زبان پہلوی‬ ‫مثتوی'ٴ مسولویٴ معنوی‬
‫ہاری زبان میں اقبال کا کلام ایک خاص نظام فکر کا ترجان ھے‪ :‬جو‬
‫فلسفة اسلام اور فلسفۂ مغرب کے چند خصوص دبستانوں کے امتزاج پر‬
‫مشتمل سے ۔ لیکن ان تمام شاھکاروں میں علم و حکمت کے عطیات کو‬
‫حض مواد خام کے طور پر استعال کیا گیاہے اور شاعر نے اس مواد‬
‫کو اپنے تخیل کی بھئی میں پگھلاکر اس ہے ایک نبی دہات بنائی ہے۔‬
‫اس کے برخلاف بعضص شاعروں کے کلام مفیلںسفیانه نکتہ طرازی‬
‫مقصود بالذات بن کر شاعری کی حدود سے تجاوز کر جاتی ہے ۔اس کی‬
‫ئب کے ہاں کمتر اور بیدل کے‬
‫ا؛‬ ‫مثالیں فیضی ء ظہوری ء نظی‬
‫صری‬
‫یہاں اکثر اور غالب کے آن اشعار میں جو اس ۓ بیدل کے انداز میں‬
‫کہے ہیں ملتی ہیں ۔ اس قسم کے کلام کابنیادی نقص یہ ہے کآہِس‬
‫میں تفکر کی افراط اور تخیل ککیمی ہے ۔ ایکت حقیقی شاعر کے افکار‬
‫حض آس کی کاب حافظه کے اوراق کینقل یا سی دماغ کاوی یا‬
‫جودت طبع کے انتا نہیں ہوۓ۔ وہ آس کے اعصاب کے تاروں کی‬
‫کے زمزعے ‪۶‬اس کے ذل کی‬ ‫ہے جتلرنکت‬ ‫خوں‬ ‫نف‬ ‫چھٹکاریں ا‬
‫دھڑکنوں کی آوازیں اور سی روح کی خاموشیوں کیگونیں ہوتۓے ہیں ۔‬
‫یہ ان سنی آواریں اور یه آوازوں ہے زیادہ سنائی دینے والی خاموشیاں‬
‫صرف تخیل کے سنگیت میں جمع ہسوکتی ہیں اور یہ سنگیت صرف‬
‫اں وہ آپ اپتے حضور میں‬‫جنہسے‬‫شاعر کی باطنی خلوت گاہمیں مک‬
‫آس کی دوسری شخصیت ہے‬ ‫شخصیت‬ ‫موجود ہوتا ہے اور اس کی ایک‬
‫یکہہتی ے ‪:‬‬
‫‪۹۸‬‬

‫جب کوئی دوسرا نہیں ھوتا‬ ‫تم مرے پاس ہوتے هو گویا‬
‫جن شاعروں میں اس باطنی تنہائی ؛ اس روحانی خود کلامی یىی‬
‫اتم‬ ‫رےجۂ‬ ‫دہ‬ ‫کمی ہوتی سے آن کاکلام شاعری کے ظاھری ساز و سا‬
‫بمان‬
‫صرصع ہوے کے باوجود بہقرین شاعری کے درجے کو نہیں پہنچتا ۔‬
‫شاعروں کےلیے دل‬ ‫جہاں تک فکر بازی کاتعلق ہاےء‬
‫کوثہر‬
‫ہو بے ۔ لارنس ڈرل ‪([[٥۶۶0‬‏‪٣٥٥٥٥ :02‬ھ‪)1‬‏ فنکاروں‬ ‫بہلاؤ کامشغلہ‬
‫کاحیثیت جموعی ذکر کرتے ہوئۓ اس نکتے کو ذیل کے پر لطنفالفاظ‬
‫میں بیان کرتا ے ‪:‬‬
‫اور مذھبی خیالات یىی ساری‬ ‫”'فن کار کے لیے فلسفیانہ ء صوفیانه‬
‫دنیا معض ایک حرم سرا ہوتی ےے ؛ جس میں وکہبھی‬
‫احیسکینه اور کبھی کسی دوسری حسینہ کو انتخاب‬
‫کرتا ے ۔ سچ تو یہ ۓےکہ فنکار افکارکی اقلیممیںپہنچ‬
‫مت‬ ‫۔ افکار کی صداقت‬ ‫کی ایت رند اوباش بن جاتا ے‬

‫کوئی سروکار نہیں هوتا ء اس کو دل چسپی وق ہے تو‬


‫صرف ان کے حسن سے اور اس باتہے کہ وہ آُس کے مذاق‬
‫کو کان کٹبا ازر می‬
‫حعض ''سرود خانڈ همسایہ ء‬ ‫لے‬
‫نا‬ ‫یکار‬ ‫کیوں نہ ہو؟ مست‬
‫کعار‬
‫ھ اف‬
‫حسن رگہزرے)؛ سے لطف اندوز هوۓ کا معاملہ ھی تو ہے ۔ لیکن جسو‬
‫افکار شاعر کے خون میں حل ہو چکےہوں ان کے بارے میں آآسکا رویه‬
‫کچھ اور ہسوتا ے ۔ وہ اس کے جگر گوشے اور افکار کیصورت میں‬
‫ُس کے جذبات ہوتے ہیں ؟ اس وجہ ہےوہاس کےلیے زندگی و موت‬
‫کے مسائل کیسی اھمیت رکھتے ہیں ۔ شاعر کا ذاتی نظام فکر ڈھونڈھنا‬
‫هو تو وہ ان افکارمیں حسم ملتا ے ۔ ہم ۓ تیسرے باب میں واھے‬
‫ضاسفه‬‫اور تخیل میں جو نیزکیتھی آس کے مطابق وہ افکار جو ف‬
‫عر کے‬ ‫طرازی کمےظاہرے ہوں واھمے کی پیداوار اور وشہاجو‬
‫خون جگر کی تراوشیں ہوں تخیل کی پیداوار هوۓ ہیں پ‬
‫۔ہلی صورت‬
‫میں وہ حض افکار اور دوسری صورت میں افکارنما جذبات هو" ہیں ۔‬
‫‪۹۹‬‬

‫میں آن کی حکمت و صداقت حض ایک ممائش هھوق ے‪:‬؛‬ ‫پہلی صورت‬


‫صوقیے۔‬ ‫ضںمر‬ ‫اش‬
‫ملاص‬
‫س می‬ ‫ےتی‬ ‫دوسری صورت میں وجہ آ‬
‫ذنیکا‬
‫جب شاعر حض افکار کو بیان کرے تو آ٘سکے اندر ایک چھپی ہوئی‬
‫منافقت ہسوتی ہے ؟؛ یا تو وہ متانت و سنجیدگی کے بہروپ مسیں افکار کے‬
‫ساتھ عض ایک کھیل کھیلتا ہے یا آُسکی دوکانهە شخصیتوں کے درمیان‬
‫خالفت ہسوتی ہے اور سے اپنے ف۔ن اور اپنے ذاتی تجرے پر اعتاد نہیں‬
‫وہ اپنے جذبات کے پھدا کے ہوےٗ افکار کو بیان‬ ‫ھوتا ۔ لیکن جب‬
‫کرے تو اس وقت سے اپنے فن کے وقار کا پورا پورا احساس ہوتا ےہ‬
‫شخصیت بنکر ؛ یعنی‬ ‫بو‬
‫ت‬ ‫اور اس کی دوکانہ شخصیتیں ای‬
‫ثک سا‬
‫الم‬
‫اس کر‪,‬ساری دلی و دماغی قوتوں کوبرووۓ کارلاکر؛ اُس کے تجر ےکو‬
‫۔ی صورت میں وہ ایک جعلی فلسفی اور‬‫من و عن پیش کدرتی ہپیںہل‬
‫صی‬
‫لی‬ ‫کہ آاس ک‬ ‫و‬
‫؛ں‬ ‫یے‬ ‫دوسری صورت میں ایک حقیقی فلسفی هوت‬
‫کا ے‬
‫کتاب حکمت آس کا ذاتی تجربہ ہے ۔‬
‫ہم ۓے عمداً فلسفی شعرا کے زمرے میں دئیا کے سب سے‬
‫بڑے شاعر شیکسپیئر کاذکر نہیں کیا ۔ اس کےمتعلق آج تک یہ حث‬
‫جاری ے کہ آیا آُسکےیہاں کوئی فلسفہ ھےیانہیں اور اگر ےہ تو‬
‫پر یوں‬ ‫اس موضوع‬ ‫‪(٥٥‬‏ا‏ ‪)8۰1.‬‬ ‫ل۔‬
‫یٹ‬ ‫؟ئی‪:‬‬
‫ایایس‬ ‫کیا‬
‫او رت غ‪2‬‬
‫”وہ لوگ جشویکسپیئر کو ایک جلیل القدرفلسفی ۔مجھتے یں‬
‫اس کی قوت فکر کے بارے میں بہت کچھ کہتے ہیں ۔‬
‫لیکن وه ی ثابت کرنۓ ہے قاصر رہتے ہیں کہ آ٘سکی فکر‬
‫زندگی کا کوئی‬ ‫اں‬ ‫کا کوئی خاص مقصد تھا یا آُ‬
‫یسہکے‬
‫مربوط فلسقه تھا یا اس نۓ زندگی برسکرنۓ ے‬
‫ککسی خاص‬
‫ار کی اتی ‪1 7‬م ما اہ ا سابعپاٹ‬
‫ہوے ہیں ۔ شیکسپیئر کو بھی یہ کش مکش (جو شاعر کے‬
‫لیے زندگ کی مترادف ے) درپیش تھی کە وکہیو ں کر اہ‬
‫ذاتی اور نجی آلام کو ایک معنی خیز اور عجیب و غریب ؛‬
‫ا‬ ‫کرے ‪0‬ای‬ ‫دںیل‬
‫تزبمی‬
‫عالمگیر اور غیر شخصی چی‬
‫آس کاکام یه تھا کہ اپنے زماۓ کیتمام و کال جذباتی شدت‬
‫کااظہار کرے ؛ عام اس سے کہ اس کے زماے کے جذبات‬
‫مارتہعےلق تھے ‪٤٤‬‏‬
‫کن افک‬
‫جشویلکوسگپیئر کو ایک فلسئی کہتے ہیں وہ بھی حق بجانب‬
‫ھیں ؛ کیو ں کہ اس کا کلام شروع ہے لے کو آخر تک ایک ایسی‬
‫وسیع و عمیق بصیرت سے مملو سے جو انسانی فطرت کے غوامض و‬
‫کی‬ ‫نںسءان‬
‫اتو‬
‫در پیچ رش‬ ‫چ‬
‫یکے‬
‫پقات‬
‫اسرار؛ انسانوں کے باھمی تعل‬
‫انسانی کے ابدی مسائل ‏‬ ‫فت؛اد‬
‫آلق‬
‫سیرت اور آ٘سکی تقدیر کے باھمی تع‬
‫انسانی تجرے کے تختلف پہلوؤں اور انسانی تاریج کے اسباق پر پوری‬
‫پہیئر ی‬ ‫سرچ‬
‫یہکاگ‬
‫طرح حاوی ہے ۔ لیکن لطف کی بات یہ ہشے ک‬
‫شخصیت کے متعلق آج تک کوئی قطعی فیصلہ نہیں هوسکا تاھم اس پر‬
‫حققین کی اکثریت کا اتفاق راۓ ےہ کم وہ کتابی علم ہے بہت کم‬
‫مسصع تھا۔ ہارے نظرے کے مطابق امسععے کا حل یہ ےہ که‬
‫شیکسپیٹر میں جذباتی تجربوں کو اپشنیخصیت میں جذب کرۓ اور‬
‫پھر تخیل کی مدد سے آن کو انسان کے مجموعی تجرے سے مربوط کمرۓ‬
‫اسی میں اس کا سارا فلسفہ مضمر تھا ۔‬ ‫کی صلاحیت بدرجۂ امم تھی‬
‫اور اقبال ‪ -‬دونوں‬ ‫ل‪:‬ب‬
‫ایں‬
‫غوۓ ه‬
‫مارے یہاں دو فلسفنی شعرا ہو‬
‫رکھتے تھے اور اقبال تموغربی‬ ‫لت‬
‫ییں‬
‫ضه م‬
‫فاول‬
‫متد‬ ‫وم‬
‫عقتلکے‬
‫اپنے و‬
‫فلسفه؛ ادب ؛ جالیات ؛ تاریچء سائنس اور علوم متجانسه کابھی عالم متبحر‬

‫نوں کی زبان قدرق طور‬


‫ویے‬
‫نوں کی طبیعت فلسفیانه تھی؛ ادس ل‬
‫تدھاو‪-‬‬
‫فپلرسفیانہ ہہ ؛ لیکن آن کے تخییلی اور جذباتی مزاج میں بہت بڑا فرق‬
‫كت غالفی کاھیں ‪1‬ء ان دی کسےو کے امن کی میں کا ات‬
‫اختراعی و ابداعی قوت رکھتا تھا ۔ فلسفیانه تکتہ سنجی کے کو جتوھ‬
‫مست کعےلق‬
‫آُس کےلام میں اور بالخصوص آس کیکلیات فارسی میں (ج‬
‫آُس ۓ دئیا کو یه دعوت دی تھی ‪:‬‬
‫‪۰‬‬
‫فارسی ہیں تا بیهنی نقشہاۓ رنگ رنگ‬
‫بگزر از مجموعۂ آردو کە ے رنگ من است‬
‫پاۓ جاۓ هیںان کیمثالیں فارسی شاعری ااونرگلستان کی ما بعدالطبیعیاق‬
‫کے بعضن‬ ‫س‬
‫ا۔‬‫شاءزی کہاباہر دنیاکے ادب میںبہت کم دای میں‬
‫اشعار توفلسفیانہ کته آفرینی کا عرق ناب ہمیں‬
‫ثا۔اء‪:‬‬
‫شوق اس دشت میں دوڑاۓ ہےمجھ کو که جہاں‬
‫نہیں‬ ‫نیدۂ تصویر‬ ‫جادہ غير ازنگے‬

‫قمری کف خاکسٹر و بلبل تفس رنگ‬


‫انے' ال انشان جمکوراعتة کیا ھ؟‬

‫ہیں شوق ۓ بند نقاب حسن‬ ‫ے‬


‫د کر‬
‫وا‬
‫غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رھا‬

‫دھر جنز جللوۂ یکستائیٴ معشوق نہیں‬


‫کہکمہاں ہوتے اگرحسننەھوتاخود ہیں‬
‫یک ذوۂ زسیں نہیں کہاےر باغکا‬
‫یاں جادہ بھی فتیله ۓ لالےکے داغ کا‬

‫ھوتا‬ ‫ا‬ ‫نهتھا کچھ تو خدا تھا کچھ نەه ھوت‬


‫خادتو‬
‫ڈبویا جھکو ہوۓ نۓ ء نەھوتا میں توکیا ہوتا ؟‬
‫لیکن یه مضمون آفرینی مقصود بالذات معلوم ہوتی ہے ااویرسا حسوس‬
‫ہوتا س‬
‫کےہ شاعر کو اس کے۔سوا اروکسی تقاضے نشعےرگوئی پمجربور‬
‫نہیں کیا کہ اس کےلیے چند نادر مضامین کو الفاظ و تراکیب میں‬
‫جسم کرنا ضروری تھا ء کیو ں کہ وہ الفاظ کاجال بچھاۓ ''صید معانی؟“‬
‫کتیاک مبییںٹھا تھا۔ یه اعلیٰ ہاۓ کیطبع آزمائی سہی لیکن پھر بھی‬
‫‪۲‬‬

‫او‬
‫کرچھ ئە تھا کەه‬ ‫سک‬
‫وےا‬ ‫اس‬ ‫صد‬ ‫طبع آزمائی ہی ہے ۔ شا‬
‫معرقکا‬
‫”نقش هاۓ رنگ رنگ؛ پیدا کرے آ‬
‫۔ردو شاعری کی جلسی اور فرمائشی‬
‫روایات کی بدولت آس کا سب ہے بڑا نقص یہی ہے کہ آس میں شعر گوئی‬
‫آپ اپنا مقصود معلوم ہوق ہے اور ایسا حسوس نہیں ھوتا کہکوئی‬
‫بلند تریا عمیق تر تقاضاء جس کامنبع شاعرک روح کیگہرائیوں میںتھا ء‬
‫آُس کا حرکٹ ہوا ے ۔ یعنی آس میں قواے فطرت کیسی ناگزیری اور‬
‫اضطراریت نہیں پائی جاتی ء؛بلک شاعر کیجودت طبع اور اُسکی فی قدرت‬
‫کہ مظاھرے یکے بعد دیگرے دکھائی دیتے ہیں۔‬
‫االقفبااظل کایگجردچہت اغوارلبدل کے مقابلےٴ میں نہ صرف مضمون آفرینی‬ ‫بلک‬
‫الت انگیزی کے لحاظ ہے کم پایه رکھتا ے‬
‫(اور اس کے باوجود کھ وہ آس ہے زیادہ علم و فضل ہے مرصع تھا) ؛‬
‫تاہم آس کےتخیل میں ایک نظام ے جو غالبٰ کے ہاں نہیں پایا جاتا‬
‫اور یه ایک فلسفی کا نظام نہیں بلکه ایک فاسفی مزاج شاعر کا نظام ے ؛‬

‫کیوں کہآسکی تعمیر جرد افکار یا فلسفیانہ نکتوں ہے نہیں ہوئی بلک جڈے‬
‫کے آوے میں پکے ہوئۓ خیالات کی اینٹوں ہے ۔ اقبال کی شاعری اسلام ء‬
‫پیغمیر اسلام اور ملت اسلامیه کی محبت میں ایک نعت ؛ ایک قصیدہ ء‬

‫مسلسل غزل ء ایک طویل نظم‬ ‫ایک مرئثیە ء ایک شہر آش‬
‫اوبی؛ک‬
‫ےہ ۔ یەمحبتکسی فرضی حبوب ہے فرمائشی محبت نە تھی بلکه ایک بلند‬
‫نصبالعین ہے ؛ ایک انسان کامل ہے ججوال بشری کا ایک جامع‬
‫جاعت ہے حقیقی و صمیمی عبت تھی۔‬ ‫گیتی‬
‫تی‬ ‫جا‬
‫ایک ج‬ ‫حجسمہ تھا اور‬
‫ذات‬
‫ھءی‬ ‫ایک زبردست تخیل کے بغیر یہ چیزیں حض عقلی‬
‫م جرد‬
‫جذے کے پغبر‬ ‫عقائد یا سیاسی مقاصد بن کر رہ جاتیں اور ایک قوی‬
‫شاعر آنھیں اپنے تخیل محیںقزیندقہتیں بنابکر‬
‫سا نہ سکتا۔ اقبال کو‬
‫ان ہے جو محبت تھی آس میں وھی سوز و سازء وھی تڑپ ؛ وھی آرزو‬
‫درد دل ء وھی دیوانگ تھی جو عام انسانوں کے عشق حازی یا‬ ‫وھی‬
‫صوفیوں کے عشق حقیقی میں ہوتی ہے ‪ -‬اس تخیل اور اس جذڈے نےاقبال‬
‫کو یہ توفیق بخشیک وہ فارسی و آردو کے ناقص روایتی ورۓ کی بنیادوں‬
‫‪0۳‬‬

‫پربصیرت کی شاعری کا قصر عالی شان تعمی رکرے ۔ اقبال آردو کا واحد‬
‫صاحب بصیرت شاعر سے اور فارسی میں اس کے صرف دو شربک ہیں‬
‫یعنی رومی اور حافظ ۔ اقبال ی شاعری جلسی شاعری نەتھی بلک ایک‬
‫انسان ؛ کسےیے کی تنہائیوں کیپیداوار تھی ۔‬ ‫انسان ء امیکعغمیر‬
‫ولی‬
‫ء جو حض شاعرانه‬ ‫عار‬ ‫اچ‬
‫شند‬ ‫تو ذیل کے‬ ‫چاہیے‬ ‫اک اس کا ثبوت‬
‫خود فروشی یا مضمون آفریئی پر مبنی نہیں ء کاق هیں ‪:‬‬
‫اے ساق تدارم بحرنے دیگر‬ ‫اہئ‬
‫ےه‬ ‫در‬
‫خیں‬
‫کہ سن شاید نخستیں آدمم از عالمے دیگر‬

‫امت‬ ‫اتا‬ ‫درد‬ ‫دن‬ ‫شا‬ ‫متاع‬


‫است‬ ‫نارساے‬ ‫فغان‬ ‫من‬ ‫نصیب‬
‫لالاے خوشتر‬ ‫سرقد من‬ ‫گا دازجات‬
‫کہ ہم خاموش و ہم خوئیں نواے است‬

‫ء ےۓنوازرے‬ ‫غر یسے ؛ درد مندے‬

‫ز سوز نغمۂ خود در گدازے‬


‫تو می دانی چە می جوید چھ خواعد‬
‫عالم ے نیاز ہے‬ ‫دلے از عردو‬

‫غریم درمیان عحفل خویش توخودکویا کە کوچ مشکل خویش‬


‫غم خود را نگوج با دل خویش‬ ‫ازاں قرسم کھ پنہاخ شود فاش‬

‫‪۶‬اعرائه غلوص کا اس اۓ زیاکہ اور کیا ثبوٰت عسوکا ھا کھ‬


‫ک‬
‫جس مہم عاشقی کےلیے اس نے اپنےآپ کو وقف کر رکها تھا آ٘س کے‬
‫مقابلے میں وه اپنی شاعری کو ہیچ مبیرز سمجھتا تھا بلکہ س ے‬
‫منکر تھا ‪:‬‬
‫بسم‬ ‫افسانه‬ ‫مثال شاعراں‬ ‫پنداری کہ من ہے بادہ مستّم‬
‫‪‎‬ى‪“۰٣‬‬

‫دل زارے ء غم یارے ندارم‬ ‫ندارم‬ ‫دل بری کارے‬ ‫بپکوے‬


‫سخن بست‬ ‫وھمت‬‫ع مرن تہ‬ ‫نه بیٹی خیر ازاں رد فرو دست _ کہ‬
‫شبر‬
‫اس کے آخری دور کے اشعارمیں بار بار یه حسرت آمیڑ استفسار سٹائی دیتا‬
‫پک‬
‫ہنحاے والا کوئی‬ ‫ےکھ آیاآُسکےبع‬
‫آدآس کی مہم کو پایه تکمیل ت‬
‫آےۓ کایا نہیں ‪:‬‬
‫؟‬ ‫ید‬ ‫از حجاز آی‬
‫نداکھ‬ ‫نسیے‬ ‫رفته باز آید کہ ناید ؟‬ ‫سرود‬
‫دگر داناے راآزید کہ ناید ؟‬ ‫سرآمد روزگر ایسں فقیرے_‬
‫اکر اقبال کا کلام آس کے مرنے کے بعد محض ”'علم و فضل ک‬
‫صحبتوں“ٴ اور ”ثقاھت و متانت کے جلسوں“ میں ''حسن قبول؟“ باتا ے‬
‫تو وہ حضور حق میں ضرور اپنی یه فریاد دھراتا هوکا‪:‬‬
‫زشاخ مخل من خرما نغهوردند‬ ‫یرآاںزے کہ گفتم سےنبرددند ‏‬
‫سرا يیاراں غزل خواۓ شمردند‬ ‫مانے میر آہم داد اتزوخواھم‬
‫بڑے شاعروں کی شاعری شعرکوئی سے ماورا کوئی چیز ہوتیق ے‬
‫اور اس لیے وہ شاعری کی روح ھہوق ہے ۔‬
‫ساتواں باب‬

‫شاعرانہ تخیل اور اخلاق‬

‫الآارا مسثله‬ ‫کے باھمی تعلق کماعرکة‬ ‫شاعری اور اخلاقیات‬


‫افلاطون و ارسطو کے زساۓ سے لے کر آج تک زیربحث ہاےف۔لاطون‬
‫ے شاعری کو اجتاعی مفاد یعنی اخلاق کے معیار ہے جا کر یه حکم‬
‫لگایا کہ آآسکی اقدار کو زندگی کی اقدار کے تابع ھونا چاھے ۔ وہ‬
‫شاعری کی دو اقسام میں آمیزکرتا ھے ۔ پہلی قسم وہ ہے جو حض اشیاے‬
‫میں بیان‬ ‫صی ا‬
‫وصلی‬
‫رت‬ ‫فطری کینقل ہوتی سےیا انسای جذبات کو اپن‬
‫کرتی ہے ۔'چو‬
‫ں کە اشیاے فظری خود عالم امثال کی صورتوں کی نقلیں‬
‫ھوتی ہیں اس لیےان کی نقل حقیقت ہے تین درجے دوراور ایک ادنول‬
‫قسم ککیاریگری بلکہ دروغ کوئی ہوتی ہے ۔ اسی طرح واقعی جذبات کا‬
‫خواہشات‬ ‫من و عن بیان مضر اخلاق ھوتا ے ؛ کیونکهہ اس ہسےفلی‬
‫اس قسم کی شاعری کرۓ والوں کو‬ ‫برانگیختہ ہوتی ہچینںا۔نچہ‬
‫کی دوسری‬ ‫ے۔‬
‫ری‬ ‫ااع‬ ‫افلاطون اپنے مثا ی جمہوریە سخےارج کر‬
‫شدیت‬
‫قسم وہ ے جس میں شاعر جنون الٰہیکیبدولٹ حقائق کاانکشاف کرتا‬
‫ہے ۔ اس قسم کی شاعری کو افلاطون فلسفےکا درجه دیتا ے اور قابلعزت‬
‫وہ حض انفرادی واقعات و اشیا سنےہیں بلکه‬ ‫؛نکه‬ ‫سےو‬ ‫سم‬
‫کجھت‬
‫یا ہ‬

‫کلی صداقتوں ہسےروکار رکھتی ے ء بعنی آن بنیادی اصولوں سے جو‬


‫معی اور رط و ضطابیدا کرڑ‪2‬‬ ‫اس دنیا کی وہمرف اق غالت مظاھر میں‬

‫ہفیلںس۔فیانه شاعری میں شاعر کی تخلیقی قوت اپنے مواد کو انتخاب‬


‫کرق سے ؛ آے منظم طریقے ہے تتریب دیتّی ہے اور پھر آے تشبیہوں ء‬
‫استعاروں ء تمثالوں ء علامتوں اور اساطبر کی زبان میں پیش کرتی ھ ‪٤‬‏‬
‫جیسا کہ خود افلاطون ۓ انی تصئیفات میں کیا ۔ یہ عمل وھی ے‬
‫جسے ہامپنے نظرے میںتخیل کے عمل کے طور پر پیش کر رے ہیں ۔‬
‫لہ‬

‫لایفکنلاطون تخیل اور واہمے کے درمیان تمیز نہیں کرتا ۔ چنائچہ وہ‬
‫ٹیمیسسں میں جگر کو تخیل کامقام قرار دیتا ہے اور کہتا ے کہ چوتکہ‬
‫رھتا ے ء‬ ‫ا‬ ‫بوسو‬
‫ھںرہے‬ ‫ہک‬
‫واانی حصهہ دن رات واہموں اور وس‬ ‫رشوح‬
‫اس لے خالق ازی ۓ یە انتظام کیا ہے کم باعن‬
‫ضسانوں کو ایک‬
‫ون قوت ب٘شی ہے تاکہ وہ حقیقت کاعرفان حاصل کر کے ئفس امارہ‬
‫کی اصلاح و تہذیب کر سکیں ۔ یہ کشنی قوت امیکاوراے عقل قوت‬
‫ہیں ۔ بہر حال آآس نتےخیل کے‬ ‫ھوتی ۓے جس سے شعرا بہرہ ور ہوتے‬
‫کرے‬ ‫دوسطحوں پر عمل کا اعتراف کیا ۔ جب وہ سفلی سطح پعرمل‬
‫تواس کی پیداوار ادنیٰ اور مخرب اخلاق شاعری ہوتی ے ۔ جب وہ بلند‬
‫سطح پر عمل کرے تو آُسکی تخلیقات ازی صداقتوں کو جسم کری ہیں‬
‫اور اس لیے اخلای نقطه نگاہ ہےمفید اور قابل قدر ہوتی ہ٭ہیں ۔‬
‫افلاطون کا نظریةُ شاعری آ٘سکے فلسفۂ علمیات و اخلاقیات کاایک‬
‫حصہ سے اور اس کی ختلف نکارشات مجیں‬
‫زئی طور پر پیش کیا گیا ے ۔‬
‫ۓ‬ ‫ایرںس‬
‫۔طو‬ ‫ا کے اندروف تضادات شالباً اسی ام‬
‫نستکیاجہ م‬
‫سے‬ ‫یک‬
‫ثییت‬ ‫فن شاعری کا انسانی ذھن کے ایک آزاد اور خود تار ع‬
‫حمل‬
‫جائزہ لیا اور آنے فق حد ذاته مفید قرار دیا ۔ وہ افلاطون کے تصور نقل‬
‫کو تسلم کرتا ے لیکن اس میں ایک دور رس ترمیم کرۓ کبےعد ۔‬
‫چ‬
‫ءیزیں‬ ‫وے؛‬
‫ل‬ ‫انسزکے‬
‫دیک تینقسم کی چیزوں کی نقل مک‬
‫ان ہ‬
‫جیسی کە وہ تھیں یاہیں۔ دوم ؛ چیزیں جیسی کھ وہ نقل کرۓ والے‬

‫سںو۔م ء‬ ‫اےبق ہی‬ ‫طک‬ ‫کعہند۔ میں یادوسرے لوگوں کے کہ‬


‫منے‬
‫تہییےس۔ری قسم کی چیزیں وھی ہیں‬ ‫نھکهیں هونا چا‬ ‫چیزیں جی‬
‫آسا‬
‫اتسیسری قسم ی‬ ‫ر‬‫عب‬ ‫جنھیں افلاطون ””مثالوں؟ کا ام دیت‬
‫شا ے‬
‫ا۔ ج‬
‫سیپھ‬
‫ملی د‬
‫ووں‬ ‫چیزوں کو بیان کرتا ہے تو وہ ناقص چیزوں کو‬
‫قیعن‬
‫کی چیزوں کو کال بنا دیتا ے ۔ فن کاکام یہ ے کہ فطرت کے نفائص‬
‫رت ایک مقصد کےمطابق مصروف عمل ے لیکن‬ ‫فےط۔‬ ‫کو دور کر‬
‫اُسکیتکمیل میںہمیشہ کامیاب نہیں ہوتی ؛ کیوں کهجب یا مادے کے‬
‫مزاحم اس کےراستے میںحائلہوجاتےہیں ۔ فنان مزاحم کو ھٹاکر‬
‫‪۰‬‬

‫ایک‬ ‫اک‬
‫ییقات‬ ‫فطرت کو کال بخشتا ۓے ۔ جب وہ ایسا کرتا ہے تتوخ‬
‫آس‬
‫اخلاق کےحق میں مقید ہوتیق‬ ‫٭وتی ہیں ج‬
‫توہذیب‬ ‫چا‬
‫شمهہ‬ ‫ایسی لسذت‬
‫رک‬
‫میں ارسطو شاعری اور تار کامقابله کرتےۓ ہۓوکہتا‬ ‫ہسے۔‬
‫لاسسیلے‬
‫افراد کے افعال اور جذبات کو ایسے طور ہر بیان کرتا ے‬ ‫کشےاکھ‬
‫عر‬
‫کہ وہ عمومی او‬
‫آرفاق بن جاے هیں ؟ اس لیےشاعر یکو تاریخ پر تفوق‬
‫حاصل سے ۔ شاعر امکان و وجوب کے قوانین کو دلیل راہ بنا کر جزئی‬
‫واقعات کو ایک ایسی کلیت اور عمومیت بخش دیتا ہے کہ وہ فاسفیانه‬
‫صداقتیں بن جاے ہیں ۔ چنانچہ ارسطو کے نزدیک شاعری تاریج نویسی سے‬
‫لے‬ ‫کے‬ ‫شاعری‬ ‫زیادہ فلسفیائه عمل ہے ۔ جہاں افلاطون کے نظام میں‬

‫فلسفے کا درجہ حاصل کرنے کاحض اایمککان ہے ء وہاں ارسطو آِس‬


‫سمجھتا صے ؛ کیوںکہ وہ مثا ی تجرے کیعکاسی کرق‬ ‫کو فلس‬
‫جفےاکی‬
‫ن‬
‫کهہ‬ ‫اے‬ ‫ھی اھم‬
‫تیت‬ ‫ےے ۔ اس ضمن میں ارسطو کایه نکته پرل‬
‫رے درج‬
‫کے ک‬
‫قرین قیاس ناممکنات کو خلاف قیاس ممکنات پر ترجیح دینی چاہیے ۔اس‬
‫معیار ۓ شاعری کو زندی کی غلامی سے رھا کر کآے٘س کماقمد‬
‫ابل‬
‫پنا دیا اور آے اپنا ایک علیحدہ ضابطهۂ اقدار بش دیا ۔‬
‫افلاطون اور ارسطو ے فلسنے میں مابەالاشتراک ید ے که‬
‫دوڈوں کلیات کے وجسود کو تسلم کرتے ہیں آ‬
‫۔ن میں مابەالامتیاز یه‬
‫ے کہ افلاطون کے نزدیک ”٭امۂال؟““ ایک خارجی عالم حقیقی میں وجود‬
‫رکھتی ہیں اور اس کے برخلاف ارسطو کے نزدیک امثال یا ہیئتیں تجریۂ‬
‫توں اور وجوب‬ ‫وک‬
‫اےد کے اندر ہے پیدا ہوتی ہیں ؛ ککیو‬
‫لںیکە‬ ‫انس‬
‫سافنی‬
‫اعتبار ے‬ ‫اومکان کقوےانین کاادراک نفس انسانی ہی کاکامہاے۔‬
‫س‬
‫ارسطو کے اں تخیل ایک زیادہ ەؤثر قوت ہے ء کیو ں که وہ فطرت کی‬
‫صورتوں ہے بہٹر هیئتیں بناتا ہے اور آس کا اخلاق کے ساتھ یوں تعلق‬
‫ہکےہ ان ہیئتوں سے ایک مد اخلا‌ق جالیاتی لذت پیدا ہوتی ہے ۔ چنانچہ‬
‫لذت رسانی شاعری کی اقدار میں سے ایک اہم قدر قرار پاتی ہے ۔ اسی طرح‬
‫ارسطو کے مشہور نظریه اصلاح جذبات (‪ )8880680‬میں یه لکتہ مضمر‬
‫ہکےہ ٹریجڈی (المیه) ے پیدا کیے هھوے جذبات دھشت و درد مندی‬
‫‪۸۱۸,‬‬

‫ہوتا ساےور چںوکە‬ ‫رنفس‬


‫بیہ‬ ‫ہے دیکھنے والوں کو ان جذب‬
‫تات‬
‫جکا‬
‫ان جذبات کتےجرے کی لوگوں کو ضرورت ہوقی ہے ؛ خصوصاً جب وہ‬
‫حساس طبیعتیں رکھتے ہوں ء اس لیے آن کی وققتّیتشنی ہو جاق ساےور‬
‫ایک پسر اطف سکسون حاصل هسوتا ےہجو آن کے‬ ‫و‬ ‫اس س‬
‫کے آنْ‬
‫تزکیه اخلاق کے حق میں مفید ہوتا ہے ۔‬
‫کے بعد شاعری اور اخلاق کے باھمی تعلق کے‬ ‫رونسو‬
‫طو‬ ‫اف‬
‫الاط‬
‫مسئلے بۓیسیوں صورتیں بدلیں ء بالخصوص آ٘س کے مابعدالطبیعیاتی ء‬
‫لق طرح طرح کے نظری حجادلے اور‬ ‫تںعکے‬ ‫علمیای اور اخلاقیاتی پہ‬
‫ملوؤ‬
‫عملی تجرے هھوۓ ۔اگر ایک طرف شاعری‪ .‬ختلف ملکوں اور مختلف‬
‫اور دوسرے‬ ‫ییا‬
‫اتسءیات‬ ‫؛ اصلاقیات ؛ عم‬
‫سران‬ ‫زہانوں میں سذھب‬
‫طرف آس ۓ بارھا‬ ‫شعبة ھهاے زندگی کی حلقه بگوش بی تدووسری‬
‫وہ‬ ‫خارجی معیاروں کے برخلاف علم بغاوت بھی بلند کیا ء یہاں ت‬
‫ککه‬
‫”'خالص شاعری 'ٴ اور‬ ‫اوباشی ؛ ارد پرستی ؛ ”اع براتۓ ق‪2‬‬ ‫رندی و‬

‫ہارے‬ ‫کں‬
‫ہ‬ ‫ہمی گززی لیکن چو‬ ‫”'نثا لی شاعری؟“ کے ادوار میں ے‬
‫نظرے کو ان تاربخی مراحل ہے براہ راست کوئی تعلق نہیں اس لیے ھم‬
‫کرے ساےجتاب کریں گے ۔ اس باب میں هارا سروکار‬ ‫ابنس‬
‫حےث‬
‫بنیادی طور پر اس مسئلے سے ہے کہ شاعرانه تخیل کو اخلاق ہے کیا‬
‫رومانی شاعروں کو بڑی شدت سے درپیش تھهاء‬ ‫ث۔ ی‬
‫لهه‬ ‫تع‬
‫ملقسہے‬
‫کیوں که آنھوں ۓ عقلیت پرست قلسفے اور طبیعیات کے میکائیکی‬
‫نت‬ ‫ا‬ ‫نظام زندگی کبےرخلاف جسسہم کا بیڑا اُٹھایارو‬
‫یثهابت کرنا ضروری تھا کە شاعری ایک تخیبلی پیداوار کحیثیت ہے‬
‫اخلاق‬ ‫وہ‬
‫م‬ ‫ایہ‬ ‫تہذیب انسافی کی ترق کے لی‬
‫مےفید اضور‬
‫روری ہے ء یعن‬
‫اقدار کی حامل ہویق سے ۔کولرج نے تخیل کے ععلیاتی پھلوؤں ہے‬
‫خصوصی دل چسپی لی اور جیسا کە ھگمزشتہ صفحات میں جا با بیان‬
‫کر چک ہیں ؛ یە ثابت کرنۓ کی کوشش کی کہ شی‬
‫اھمیت‬ ‫کوااحد ذریعہ ہے اور اس لیے نوع انسانی کتیرق‪ :‬کلےیے بڑی‬
‫ورڈز ورتھ ےۓٗ ء جیسا کہ آآس کی آن عہارتوں نے ظاہرے‬ ‫رکھتا ہے‬
‫‪8۳۹‬‬

‫ہیں ء اس بات پر‬ ‫کرے‬


‫باب میں ثقچل ک‬ ‫وریں‬
‫چاو‬
‫اوتنھے‬
‫جو ہپم چ‬
‫تاخکیہل انسانی جذبات کو اشیاے فطری اور ن کے نخفی روابط‬
‫زور دی‬
‫اور نتیجً ایسے علم‬ ‫لہ‬
‫سییکا‬
‫ورذد‬
‫کے ساتھ وابستہ کر کے لذت و ہمد‬
‫نہسیںکآ‬
‫تا ۔‬ ‫سےر‬
‫یس‬ ‫اور طر‬
‫میقے‬ ‫کیتحصیل کا ذریعه بنتا ے جو کسی‬
‫ورڈز ورتھ ۓ اپنے شاعرانہ ارتقا کے تین مرحلے بیان کیے ہیں ؛ پہلا دور‬
‫سی خوش باش حیوانی‬ ‫وه تھا جب وہ ایک چاقی و چوبند مچومرے کی‬
‫چنے پر اُس کے اندر فارت کی‬ ‫ہنکو‬ ‫ا تھا ۔ سن بل‬
‫پوغ‬ ‫زندگی بس‬
‫ررھکر‬
‫حبت کاایک زبردست جذبہ پیدا هگیوا ء یعنی کوە و دریا ء میدان و‬
‫سغزار کے ساتھ ایک والہانہ دل بستگی ۔ یه دل بستگی یوں تو ان مناظر‬
‫کو‬ ‫انظر‬
‫نا‬ ‫تھی لیکن آُسکے تخیل کی رو‬
‫مشنی‬ ‫ت‬
‫ساہ‬
‫اھ بر‬ ‫کے‬
‫رسات‬
‫منور کے هوۓ تھی ۔ هر فطری پیکر میں ؛ یہاں تک کم پتھروں میں‬
‫بھی ؛ آسے ایک اخلاق زندگق جاری و ساری دکھائی دیتی تھی ء اور هر‬
‫وہ چیز جو آسے نظر آتیتھی ایک نخفی معنی رکھتی تھی ۔ آس کے اندر‬
‫وعجاولدمگیر کےساتھ اختلاط و ارتباط کا احساس حسی ادراک کے‬
‫وجدانی لمحوں کی بدولت پیدا ھوتا تیا۔ رفته رفته يہ احساس سیدے‬
‫سادے دیہاتی لوگوں کو بھی محیط ہو گیا جن کی زندگیاں فطرت کے ساتھ‬
‫وابستهۂ داماں ہوتی تھیں اور آآس ہے ایک قسم کی معصوم روحانیت‬
‫حاصل کرق تھیں ۔ فطرت کسےاتھ محبت کے احساس میں انسانی عنصر کا‬
‫پیدا ھونا ورڈز ورتھ کی شاعرانه نشو و نما کے تیسرے دور کاآغاز تھا ۔‬
‫کولرج اور ورڈز ورتھ کے مقابلے میں شیلے کے لیے تخیل اور اخلاق‬
‫ءیوں کە وشہاعری‬
‫تھا ک‬ ‫کباھمی رشته اور بھی زیادہ اھمیت رکھتا‬
‫کذەیل کی‬ ‫جایءسا‬
‫کو جمام علوم و فنون تہذیب کیبئیاد سمجھتا تھ‬
‫عبارت ہے ظاہر ے ‪:‬‬
‫ار ‪ ,. .‬شاعرء یعنیوہ لوگ جوحقیقتکے بیگانڈفتاتظتامخکیال‬
‫رکھتے ہیں ء صرف ایسےلوگ نہیں ٭وتے جو زبان ؛ موسیقی ء‬
‫مه سازی اور مصوری کفےنکار‬ ‫جیرس ؛‬
‫رقص ؛فن تعم‬
‫ہوے ہیں ؛ شاعر قوائین کے بناۓ والے ء معاشرق اداروں‬
‫‪۰‬‬

‫اور انسان کاےیسے‬ ‫حیات کمےوجد‬ ‫ون‬ ‫کبےائی مبا‬


‫فنین؛‬
‫معلم بھی ہوتے ہیں جو غیر مرئی دنیا کی قوتوں کے ایک‬
‫ماب ور‬ ‫اتا‬ ‫کٹ ادزاک کو نت و جال‬
‫کر کے مذھب کی داغ بیل ڈالتے ہیں ۔ یہی وجە ے کہ هر‬
‫جینس کی طرح دو چہرے رکھتا ے ‪:‬‬ ‫قدم اور ابعدائی مذەب‬

‫ایک اصلى اور دوسرا جعلىی ۔ جس جس زمائۓ یاقوم میں شاعر‬


‫وہ شروع شروع کی‬ ‫کے مطابق‬ ‫پیدا ہوئۓ اس کے حالات‬
‫قرنوں میں قانون ساز یا نکبیہلاۓ ۔ شاعر لازمی طور پر‬
‫ان دونوں حیثیتوں کاجامع ھوتا ہے کیوں کہ وہ نصہرف‬
‫ے اور آن کی‬ ‫یںکسے‬
‫ھتا‬ ‫موجودہ چیزوں کو عمیق ئک‬
‫داھو‬
‫ہہترین ترتیب و تنظم کقےواعد دریافت کرتا ھے بلکه آسے‬
‫بھی نآظرتی ےہ‬ ‫صلوکییر‬ ‫عصر حاضر کآےئینے میں مس‬
‫تتقب‬
‫اور آُس کے خیالات آۓ والے دور کے پھل پھولوں کے بیج‬

‫”'شاعر کاسروکار ازلی ء ابدی اور لاحدود حقائق سے ہے ۔جہاں‬


‫کا تعلق ے؛) زمانء مان اور عدد کا کوئی‬ ‫تک اس اک ہیل‬
‫وشود لی ہیں کہ‬

‫افراد کا آلڈ کار تخیل ہوتا ہے ۔‬ ‫اےم‬


‫مک‬‫سعت‬
‫اس عظیم الشان جا‬
‫اصطلاحی معنوں میں شاعر کا تعلق ہے ؛ وہ موزوں‬ ‫عدود‬ ‫تک‬ ‫جہاں‬

‫زبان کی مدد ہے ایسے تیبلی رابطے مرتب کرتا ےے جو فطرت کے‬


‫رابطوں کے متوازی ھہوتے هیں اور اس لے لذت رسانی کا وسیلە بنتے هیں ۔‬
‫روح‬ ‫”شاعری هھمیشہ لذت کو اپنے جلو میں رکھتی ہ۔ےھروہ‬
‫وہ نزول کرتی ھ اس حکمت و بصیرت کا جو اس کی‬ ‫جپسر‬
‫تہ ہوی ےہ خبر مقدم کرۓ کے لیے اپٹا‬ ‫ختھ‬
‫یسا‬
‫آتمکے‬
‫لذ‬
‫آغوش وا کر دیتی سے ۔ک؛‬
‫شاعرانه تخیل ت زکیه اخلاق کا ایک زبردست وسیلہ ہے ‪:‬‬
‫لگایا جاتا ےہ‬ ‫”شاعری کے اوپر لقیض اخلاق ہوۓ کا جاولزام‬
‫ول‬
‫ا‬

‫وہ ُس طریقے کے بارے میں جس ہے شاعری انسان کی اخلاق‬


‫ایک غلط قہمی پر مبنی ہے ۔ علم اخلاق‬ ‫اصلاح کرتی ے‬
‫آسی قسم کے عناصر سے کام لے کر جن کی شاعری تخلیقی کریق‬
‫اخلاق ضابطے وضع کرتا ے اور اجتاعی اور خانه دارانه‬ ‫ہے‬
‫زندگی کیتنظم کے اصول مر‪3‬ب کرتا ے ۔ اگر انسان ایک‬
‫کو برا بھلا‬ ‫اکھت ہیں ؛ ایک دوسرے‬ ‫دوسرے ہے‬
‫نفرت‬
‫ایک دوسرے کو دھوکا دیتے یں اور ایک‬ ‫هیں ء‬ ‫کہتے‬

‫بناے ہیں تو‬


‫واس‬
‫جکی‬
‫ه‬ ‫دوسرے کو اپنا تا‬
‫حبعکووم‬
‫کی ھدایت کے لیے اعلوٰ درجے کے قاعدے‬ ‫یه نہیں که آن‬

‫ایک بہتر اور بلند تر طریقے سے کام‬ ‫عری‬ ‫موجود نہ‬


‫شیںا۔‬
‫جک‬
‫مے ن‬
‫وۓے‬
‫عه‬ ‫لی سے ۔ وہ نفس انسانی کو عزارھا قس‬
‫مموں‬
‫ہاے افکار کی جولان ابہنا کر اس کو بیداری اور وسعت‬
‫بخشتی ہے ۔ وہ اس دنیا کے حسن و جال کے چہرے پر سے‬
‫ندرت‬ ‫چیزوں کو ایک‬ ‫ا‬ ‫آد‬
‫شن ی‬
‫نىی‬ ‫آۓ‬ ‫ر‬ ‫نقاب ھٹات‬
‫ایقوے‬

‫وہ ایک‬ ‫ءیں‬ ‫کی تخلیقی کردہ هس‬


‫جتی‬
‫تاںٹھ‬ ‫س‬ ‫بخشت‬
‫۔یآہے‬
‫کسوت نورانی پہنا کر پیش کریق حلےوءگوں کے دلوں‬
‫میں بلند اصولوں اور جمیل سیرتوں کی یادگاریں بن کر‬
‫زندہرہتی ہایںخل‬
‫۔اق کااصلىی سرچشمہ محبتہے ء یعنی‬
‫ای ہستی کی حدود سے باھر نکل کر اپنے آپ کو حسن کے‬
‫فرد بشر‬ ‫کل ی‬
‫سای‬ ‫تےھء چاے وەفکر یا عم‬ ‫اک‬ ‫مظ‬
‫ساہر‬
‫۔وٰ‬ ‫جان بتا لی‬
‫اٹاعل‬ ‫ک‬‫ی؛‬‫کی صورت میں جلوہ کر ھوں‬
‫درجے کینیک آسی شخص کے لیے ممکن ہے جو ایک قوی اور‬
‫ہمہ گیرتخیل کامالک ہو اور جس میں یه صلاحیت ہو کہ‬
‫روی طرح ‪:‬سمجھ سکے ء‬ ‫وک‬ ‫ات و حس‬
‫پیات‬ ‫دو‬
‫جسرو‬
‫ذںبکے‬
‫درد کو اپنا دکھ درد بنا‬ ‫ھ‬‫کے‬ ‫بلکه ساری نوع انسا‬
‫دنی‬
‫علت‬ ‫اور شاعری‬ ‫سکے ۔ خیر اخلاق کا ہہترین آلہتخیل سے‬

‫پراثر انداز ھوکر معلول کیمد و معاون وق ے‪.....‬‬


‫شف‬

‫شاعری آس قوت کو جو انسان کی طبع اخلاق کاعضو رئیس‬


‫ء آسی طرح فروغ دیتی ہے جس طرح کسر ت کسی جسانی‬
‫عضو کر قوی بناتی ے ‪٤٤‬‏‬
‫آگےہچل کر وہ یه بیان کرتا ہے کہ شاعر کے تیبلی تجرے‬
‫کیوں کر لوگوں کے دلوں میں حسن کا احساس اور لطیف جذبات پیدا‬
‫اکرتے غیت >‬
‫”'شاعری بہترین اور شادماں ترین طبیعتوں کے بہترین اور شادماں‬
‫ترین لمحوں کی سرنوشت ہوتی ہے ۔ ہسمب کے تہرے میں‬
‫ک‬ ‫کوئی جذبه یا خیال ؛ جس‬ ‫ھیں جب‬ ‫لمحات آاۓ‬ ‫ایعے‬

‫سموضوع کوئی مقام یا کوئی شخص یا خود ماری کوئی نفسی‬


‫کیفیت ہوتی ے ء دستک دے بغیر ماری طبیعت میں در آتا ۓے‬
‫اور پوچھےبغیر رخصت هوجاتا ے ۔ لیکن اپنےیختصر قیام کے‬
‫اثرات ایک ناقاہل اظہار بالیدگی اور سرخوشی کی صورت میں‬
‫چھوڑ جاتا ہے ؛ جس کی وجہه ہے آس کی یاد ھمیں مدتوں‬
‫تک لدطفیتی ہے ۔ یہ لمحے یوں آۓے ہیں جیسے ایک‬
‫قدسی فطرت ناگاہ ماری فطرت میں نفوذ گکئرٔی ہو ۔ لیکن‬
‫اس نفوذ کے نقوش ایسے ہوتۓے ہیں جیسے وه نقوش جنھیں‬
‫در کی سطح پر مرتسم کر جاتیق ہے اور‬ ‫نتے‬‫مچا‬ ‫هوا چل‬
‫ستے‬
‫جو کچھ دیر کےبعد غائب هکور لسباحل کی ریت پر‬
‫جھریوں سے نشان چھوڑ جاۓ ہیں‌۔ یه اور اس‪ .‬قبیل کے‬
‫لمحات زیادہ تر ایسے لوگوں کے تجرے میں آے ہیں جن کک‬
‫قوت احساس انتمہائی درجے کی ذکاوت اور جن کی قوت تخیبل‬
‫انتہائی درجے کی وسعت رکھتی ہے ۔ وہ کیفیت نفس جو‬
‫ان لمحوں کی خاصیت ہوتیق سے هسرفلىی خواہش ہے‬
‫بپریسکرار ہوتی ہے ۔ نیک ء محہت ؛ حب وطن اور دوستی کى‬
‫گرم جوشیاں اسی قبیل کےجذبات ہے پیدا ہوتی ھیں اور جب‬
‫تک ان کا تسلط رے آس وقت تک انسان کی خودی کی وھی‬
‫نی‬

‫سو‬
‫یط‬ ‫حیثیت ہوتی عے جو حقیقت میں ےہ ء یعنی اس وس‬
‫بیع‬
‫کائغات کا ایک ذرۂ ھیچ مقدار ۔ شاعر لظیف تریں روحوں‬
‫دک‬
‫ویلت نه صرف قدرق طور ہر ان جذبات‬ ‫کمےالک ھو‬
‫بنۓ‬
‫رنگ‬ ‫کی‬ ‫ھا‬ ‫ساوارٹی‬ ‫ایک‬ ‫ھہوتے میں بلکهە وف‬ ‫ک‬
‫مےورد‬

‫اپنےتخیل ہمےستعار لےکر ان جذبا ت کو ان رنگوں میں سمو‬


‫ہوئی جنبش‬ ‫چا‬
‫ٹیک‬
‫تی‬ ‫سا لف‬
‫آظ ء‬ ‫سرسری‬ ‫دیتے هی‬
‫اںی۔ک‬
‫وےں‬ ‫لک‬ ‫می تار کو چھیڑ کر آنْ لوگ‬
‫دوں‬ ‫ام ک‬
‫سسی‬ ‫مو‬
‫طقل‬
‫میں جنھیں اس قسم کے تجرے نصیب ہوۓ ھوں ماضی ے‬
‫سوۓ هوۓ ؛ دے ھٹوۓھٹءھرے هوۓ نقوشکونئی زندی‬
‫اور جمیل‬ ‫ین‬ ‫تنی‬
‫را ی‬ ‫با‬
‫ہس د‬ ‫بسخشکتی ہے ۔ شاعری یوں‬
‫ترین چیڑو ںکو بقالے دوام بخشتی ے ۔ وه آن گریزاں خیالی‬
‫چںلتی پھزیق‬‫ایؤں می‬ ‫ھک‬ ‫شکلوں کو جزوندگ کی چان‬
‫چدنی‬
‫دکھائی دیتی ہیں آنکھ ہے اوجھل ہوۓ سے روک لیتی ے‬
‫اور آنھیں زبان وھیئت کا جامه پہنا کر نوع انتاق کے جع‬
‫مبیھںیجتی سے تاکە وآہسی قسم کی خوشیوں کی پیغام بر‬
‫لیے‬ ‫اء‬
‫س‬ ‫ہیں‬ ‫پوشیدہ‬ ‫میں‬ ‫ھوں جو روح انسافنیق کے اعاق‬

‫نہی‬ ‫پوشیدہ ہی‬


‫اںظکہهار کا کوئی دروازہ آن کمویسر‬
‫جس سے گزر کر وہ عالم اشیا میں آ سکیں ۔ عالم بالا ے‬
‫انسانوں پنرازل ہوتے ہیں ء‬ ‫وه مکاشفے جو کاعے کا‬
‫لےوے‬ ‫ر آجن ک‬ ‫شاعری اکنوگویا شیشے میں آتار لیت‬
‫ایوہے‬
‫'یشہاےعری ہر چیز کو‬ ‫کو ہمیشہ کے لیے حفوظ رک‬
‫۔ھت‬
‫حسین بٹا ديیتی ےے ۔وه حسین ہے جسین چیز کو چاز‬
‫پاٹ کے‬ ‫چاند لکاتی ہے اور کریہہ سے کریہہ چی‬
‫کزاکیوا‬
‫ساتھء‬ ‫کے‬ ‫عمل سے حسن بخشتی سے ۔ وہ ہہجت کا دہشت‬
‫غم کا خوشی کے ساتھء ابدیت کا تغیر پزیری کے ساتھ پیوند‬
‫‪.‬ی ے‬
‫۔‬ ‫لاتی ہے اور نقیض اشیا میں موافقت پیدا‬
‫‪.‬کرت‬
‫آء‬
‫ن‬ ‫ہونۓے ھیں‬ ‫شاعر ایک بالا تر از فہم الہام ے مفسر‬
‫یں کال‬

‫از سایوں کآئےینے ہوتے ہیں جو مستقبل حال پر‬


‫دررو‬
‫دو‬
‫کا اظہار‬ ‫ایسی چیزوں‬ ‫ہوے ہیں جو‬ ‫اہظ‬
‫فء و‬
‫لے‬‫اتا‬
‫ڈال‬
‫کرتے ہیں جنھیں وہ خود نہیں سمجھتے ء وہ جنگ نقارے‬
‫مڈےعہرےا ہوتے‬‫ہوۓے ہیں جو خود جنگ جوئی کے جذ‬
‫ہوے ھیں جو خود هلے بغبر دنیا کو ھلا‬ ‫رہک‬
‫عء و‬
‫ہیں‬
‫دیتے ہیں ۔ شاعر دنیا کےوہقانون ساز ہیں جن کا اعتراف‬
‫ہن 'کیا گیا ‪٤-‬ء‏‬

‫اسسے زیادہ‬ ‫شاجی‬


‫ویت‬
‫پر ک‬
‫ربکےار میں شاع‬
‫دانی‬
‫انس‬ ‫فومنون‬
‫عل‬
‫شنووکت کسےاتھ آج تکنہیںکیگئی ۔ لیکنشیلے کے ہم عصز‬
‫شا‬
‫دئیا‬ ‫عر‬
‫کہ‬‫شرا‬
‫“پ‬‫”وے‬
‫رومانی شاعر کیٹس (‪ )8651‬ۓ آس کے اس دع‬
‫تےراض‬
‫عہ‬‫کقےاونہون ساز ہیں جنکا اعتراف نہیں کیالیا؟“ بڑی شادت‬
‫!‪٢‬ء‏‬ ‫گی‬
‫ناتدکی‬
‫زساس‬
‫‪ ” :‬ھاۓ خالص اح‬ ‫ترھیہی‬
‫کیا ۔ اس کے دل کیپکا‬
‫سٹیفن سپنڈر (‪ 703‬م‪ 08‬ت‪٥‬طامئ؛‪)8‬‏ کے الفاظ میں ‪ :‬٭کیٹس کے نزدیک‬
‫دئیا بناۓ‬ ‫شیلے کییه خواھہش کە شاعر لوگوں کو ایک مبنی بعردل‬
‫پآمرادہ کرے اور اس کے بٹاۓ میںآنھیں مدد دے شاعری کے نی‬
‫پائیں باغ کو سرکاری منصوبہ بندون‪ :‬کے حوالے کر دینے کی مترادف‬
‫ں پڑھنے والوں‬ ‫مںیجن‬‫تھی ۔ کیٹسکی اپنینظمیں ایسے خیالی باغ تھی‬
‫آیئکیہں اوؤ‪:‬بہشتی نئمرکھا کھا کر زندی‬ ‫وت دی جاتی تھ‬ ‫کدوعیه‬
‫سائنس اور فلسفے‬ ‫بسر کر دیں “۔ پھرحال ؛ اگرچہ شیلے شاعری کو‬
‫بنا کر ایک انقلاب برپا کر دینے کخاواهاں تھااور‬ ‫کا سگرروە‬
‫کیٹس کے لیے شاعری ایک باغ عدن تھی آن میں ایک چیز قدر‬
‫سلرکچاشمه‬
‫تھی ۔ وہ یہ کہ وہ دونوں تخیل کو اخلاق جا‬ ‫مشترک‬
‫سمجھتے تھے ۔ کیٹس اپنے ایک خط میں لکھتا ہے ‪:‬‬
‫انساق دل کے‬ ‫”'جھے اگز‪:‬کسی چیزاکا یتین ےے تو اس کا کہ‬
‫جذبات امیک‬
‫قدس چیز ہیں اور انسانی تخیل برحق ہے ۔‬
‫عر وہ چیز جو تخیل کو حسین معلوم ہلوا؛زمی ہکےه وہ‬
‫سچی ہو ء عام اس ہے کہ وہ پہلے سے موجود ہو یا نہ هو۔‬
‫ۂ)|ه"َ"(‬

‫صرف جذبۂه محبت هنیہیں بلکہ ہارے سارے جذبات جب‬


‫ایک مرتفع صورت اختیار کر لیں تو وہ حسن کے خالق‬
‫ہوتۓ ہیں ۔؟‪٤‬‏‬
‫وہ لذت اور‬ ‫رومانی شاعری کی ایک بڑی خصوصیت یه ہے‬
‫کہ‬
‫خود صداقت‬ ‫ات‬ ‫ہاےور حس‬
‫بنذکو‬ ‫راق‬
‫کج‬‫صداقت دونوں کو یک‬
‫سمجھ کر سے نقاب کرقی ہے ۔ وہ تخیل کو عقل کی مدد کے لے نہیں‬
‫جی‬
‫اکی‬
‫رقل‬
‫عے ع‬
‫مآ‬‫پر ترجیح دیتی‪:‬عے اور‬ ‫قول‬
‫عک‬‫بلاتی بلکه اس‬
‫کامترادف سمجھتی ہرےو۔مانیوں کا بنیادی عقیدہ‬ ‫ان‬
‫دنی‬
‫جیع‬
‫ورت‬
‫صو‬
‫طب‬
‫وط‬ ‫جو ربض‬ ‫فلسفے کو نظام کائنات میں‬ ‫پرست‬ ‫یت‬
‫له‬ ‫عق‬
‫ے ک‬ ‫یه‬
‫مود سیمیا ہے اور انسان سبرسته‬ ‫یضک‬ ‫دکھائی دیتا ے وه‬
‫ا حع‬
‫یب پیچیدگیوں اور پریشاں کن تضادوں ہے گھرا‬ ‫غہبر و‬‫اسرار ء عج‬
‫ہوا ے جن کیعقدہ کشائی عقل ہے نہیں ہو سکتی ۔ ان مسائل کے‬
‫روبرو رومانی شاعر دو خالف زاویه هاے فکر اور طریقہ ھاے عمل‬
‫اختیار کرتے ہیں ۔ یعنی یا تو وہ اپنے ماحول کو اپنے تخییلی نقشے کے‬
‫مطابق بدخلتے‬
‫واکےہاں ھوۓ هیںیااگریہ تبدیلی آنھیں اپنی قوت‬
‫سے باھر دکھائی دے تو وہ اپنے آپ کو اس حد تک بدلنے یىی کوشش‬
‫کرتۓے ہیں که آن کےاندر اپنےماحول سے کوئی مشابہہت نہیں رعتی ۔‬
‫هی ۔ پہلا قطب وەداے‬ ‫درے‬
‫یںنکے‬
‫ابّو‬
‫م قط‬ ‫شیلے اور کیٹس ان دو حا‬
‫تلف‬
‫کہ ہم پہلے‬ ‫سا‬
‫جںی۔‬
‫ہی‬ ‫تہے‬
‫ک کہ‬
‫سغری‬
‫نظریيةۂ شاع‬ ‫جاسنےقھلمابی‬
‫مطلق ء آُس کے نجرد نعتٹھ زندی‬ ‫عقل‬ ‫ءانیت‬
‫وم‬‫ذکر کر چکے ھریں‬

‫اور اسکیبیرنک شبیہ انسانی کےبرخلاف ایک صداے احتجاج تھی ۔‬


‫چنانچہ اس دنیا کے سیکانری تصور کے بدلے میں ایک پرجوش دین‬
‫فبزل کسےفۂ‬
‫ییاںتی حساسی ؛ ھا‬
‫ذم‬‫جلے‬
‫فطرت ؛ عاقلانہ نیکوکاری کے بد‬
‫انانیت کے بدلے میں انسان نواز نیک دلی ہ واقعیت پرستی کے بدلے میں‬
‫ء‬ ‫سطی‬
‫و؟‬‫اان‬
‫رجائیت ء نظام موجود پقرناعت کے بدلے میں ترق پر ایم‬
‫؛ حسین اور‬ ‫یب‬
‫غیبرو‬
‫صادق اور وإقعی چیڑوں کے بدلے میں عج‬
‫مثا ی چیزیں ء یه سب چیزیں رومانیت کے انقلابی دبستان کے منشور کا‬
‫لت‬

‫تھیں ۔‬ ‫حصه‬

‫نتام بعد‬ ‫اس کا خالف قطب کیٹس کی حسیت پرستی تھی جس ‪7‬‬
‫اور ”'ہاتھی دانت کے سمینار“‬ ‫‪٥‬‏)‏‬ ‫‪٥‬ه‪٥‬‬ ‫میں ”'جالیت“'“ (ح‬
‫ادہذ‬
‫ئہ ذ‬
‫وکیرحت ںیم رادومت وہ ۔ٴ سا ناتسبداک ہدیقع‬ ‫‏(‪ ']۲'0۳٥‬ں‬
‫‪)1٢0۲7‬یک‬
‫یہتھاکہ شاعر کےلیے جو چیز ضروری ہے وہ یہہےکم وہ وجود کی‬
‫گہرائیوں میں ڈوب جاۓ ء اپنے باھر بھی اور اپنے اندر بھی ء؛اور ان‬
‫دونوں دنیاؤں کی درمیانی خلیج کو اہنےتخیل کے پل ہے پاٹ دے ۔‬
‫دنیا والوں کے لے شاعرانھ‬ ‫شاعر آپ اہی دنیا کا سسکز بن جات‬
‫ااوےر‬
‫تچرہوں کے ایک گنجینے کا کلید بردار ہوتا حے ۔ ید ترے حقیقت کا‬
‫نقاد زندگی ؛ ایک‬ ‫ء ایک‬ ‫ات‬ ‫ای‬
‫حکیمد‬ ‫ع۔‬
‫ر‬ ‫ایں‬ ‫نعم البدل هو‬
‫شے ه‬
‫ھوتا ے جو اپنےسارے‬ ‫دای‬
‫وکگر‬ ‫مسمیحاے زمان نہیں ھوتا بل‬
‫جکہاوہ‬
‫تجرے کو ؛ جو اس کےذاتی سانحات ؛ کیفیات و مشاعدات ؛ ماضی کے‬
‫ادب کے مطالعے ؛ ماضی کے فاسفیانہ افکار کےعلم اور فطرت کے اچھوتے‬
‫حسن و جال کےعرفان پر مشتمل ہوتا ہے ء تخیل کے کیمیا کے ذریعے‬
‫ا۔ا‬
‫عس ک‬
‫ریی‬ ‫طلادے سیال بنا کر اشعار کےسانچے میں ڈھال دیت‬
‫شا مے‬
‫؛‬ ‫شروع سے لے کر آخر تک دنیا کے اوپر تخیل کی فتح ہوتی ہے ۔ مذھب‬
‫جے‬
‫س‬ ‫ءحبت ؛ ہر چیز ایک ایسے شاعرانہ تجرے میں بدل جاتی‬
‫سیاست م‬
‫میں شاعری ارکان عقیدہ پر بصیرت سیاسی صداقتوں پر اور جذبه‬
‫۔‬ ‫ار غال‬
‫تب آ‬
‫اے‬ ‫اخلاق اقدا‬
‫جر پ‬
‫دونوں دبستانوں میں جو چیز قدر مشترک ے وہ شاعر کے ذاق‬
‫تحجرے کا آپ اپنا معیار بنجانا ےہ۔ شاعرکاکام یہ ے کہ اپنے ذاتی‬
‫گی اور جاعت اور فطرت انسانی کے مسائل کے‬
‫دیں‬‫نم‬
‫زشنی‬
‫تجرے کی رو‬
‫گر کرے جنھیں دوسرے لاوپگنے محدود تجر۔‪ ,‬؛‬ ‫جںاکو‬ ‫ایسے پھ‬
‫الوؤ‬
‫حسوس‬ ‫باعث‬ ‫انی تنگ نظری ؛ اپنے تعصبات او‬
‫ارپنے فقدان جذبهہ کے‬
‫سیںککترے ۔ اپنے تجرے کو دیانت و صداقت کےساتھ پیش کرنا‬ ‫نہ‬
‫نہصرف شاعرکافنیفرض ہے بلکہ اس کااخلاق فرض بھی ہے ۔ اب اگر‬
‫وت‬ ‫انقلای مہم کاعلم بردار ہو تو وہ ایک قدم‬ ‫ایک‬ ‫شاعر‬
‫خ‪(۲‬‬

‫اپنےتجرے کی روشنی میں دنیا کوبدلنے کی کوشش کرتا ہے اور اپنے‬


‫تجرے کو ایسے طریقے سےپیش کرتا ے کہ یہنتیجہ حاصل ہسوکے ۔‬
‫ار“ کا ساکن ہو تو وہ‬ ‫ینکے‬ ‫ابسرکخےلاف اگروہ ”'ھاتھی دا‬
‫منت‬
‫اپنے تجربوں کو اجتاعی نتای سے ے نماز ہو کر پیش کر دیتا ے‬
‫اور اسی کو اہنی شاعری کاجواز سمجھتا ے ۔‬
‫جطسرح روشماانیغری کسی قوم کے ایسے ادوار کی پیداوار‬
‫مذھبی ء اخلاق ء سیاسی اور ادی اقدار میں‬ ‫آ٘س ی‬ ‫جب‬ ‫ہویق ے‬

‫ست اور قدامت پرستی آ کئی ہو ء اس کے برخلاف رد عمل‬ ‫بگیو؛‬ ‫فر‬


‫یسود‬
‫کطےور پر انیانی روح کی رگوں میں کوئی نیا رس آبھر رھا هو اور‬
‫اسی طرح‬ ‫انسافی تخیل پر کسی نئی بصیرت کا انکشاف هو رھا ھوء‬
‫کلاسیک شاعری ایسے ادوار میں ظہور پزیر ہوتی ھے جب کسی قوم‬
‫طور پر ہر شعبة زندگی و علم و فن میں ایک بلند درجه‬ ‫شعوری‬ ‫ے‬
‫حاصل کرلیاہو اور آآسکایهعقیدہ ہوکہ آس کا نظریةۂ زندی ھر‬
‫دوسرے نظریۂ زندگی کے مقابلے میں زیادہ مطابق فطرت ء عالمگیر اور‬
‫انی‬ ‫کہ‬ ‫ےۓے‬ ‫ھوتا‬ ‫یه‬ ‫صحیح سے ۔ ایسے ادوار میں شاعر کاکام صرف‬

‫کااظہار کرے ۔‬ ‫روردی‬ ‫رسک‬


‫کےشع‬ ‫جاعت کے احساس کا‬
‫کل او‬
‫ارآ‬
‫آس کیتخلیقات ذاتیتجربوں کااظہارنہیں ہوتیں ء کیوں کہ قوم کے ہر‬
‫نمائندہ دل و دماغ میں ایک مشترک شعور ہوتا ے ۔ تخیل عقل کى‬
‫وک‬
‫اےنین کی خلاف ورزی‬ ‫ذوق سلقیم‬ ‫بء‬
‫ات‬ ‫ذرتا‬ ‫حدود ہتےجاوز نہی‬
‫جںک‬
‫اخلاق اقدار ک‬
‫حیامی‬ ‫جہاعت کمیسلممە‬ ‫ری‬ ‫اسرے‬
‫عاور‬ ‫نہی‬
‫شں ک‬

‫ہوتیسے ؛ کیوں که شاعر بلاچون و چرا جاعت کے نظام کو ایک‬


‫عادلانه اور مستحسن نظام تسلم کرٹیجا سے ۔ چنانچه کلامسیکی شاعری میں‬

‫اےن وہ گہرا رشته نہیں ھوتا جو رومانی شاعری‬ ‫مخلا‬


‫یق ک‬ ‫تخی‬
‫دل ا‬
‫رور ا‬
‫کی خصوصیت ہے ۔ شاعر اس کی ضرورت حسوس نہیں کرتاکھ اپنےتخییلی‬
‫تجربوں کے ذریعے نئے زاویه ھاے فکر اور نبٔی اقدار پیدا کرے یا ]آن‬
‫کےپیدا کرۓ میں چاعت کامددکار ہو۔‬
‫آیا اپنے تخیبلی تجربوں کا‬ ‫فی مسثله ہکےہ‬ ‫یمهتای‬
‫نکازعه‬
‫”‪(۱۲۲۸‬‬

‫دیانت داری ہےبیان کرنا شاعر کاعض ایک فی فرض ہے یا ایک اخلاق‬
‫اس قسم کے‬ ‫فرض بھی ے ۔ اسی کے ساتھ یه مسثلہ وابستہ ہکےہ‬
‫اخلاق فرض کا احساس شاعر کو شعر کہتے وقت ھوتا ے یانہیں ۔‬
‫ان دونوں مسئلوں کا حل چاے کچھ بھی ہو ء اس ہے انکار نہیں کیا‬
‫شاعر کو جو ذکاوت حس اور لطافت جذبهە فطری طور پر‬ ‫جا سکتا کة‬

‫ودیعت موق ہے اور آن کے ذریعے آیے ایک طرف جو ادرااک نفس اور‬
‫دوسری طرف اشیا کے روابط کاجو علم حاصل ھوتا ے ؛ آن‬
‫ملکو‬
‫حوظ‬
‫رکوتے ہوۓ آس کا فی خلوص بذات خود جاعت کے نقطہ آکاہ سے ایک‬
‫اخلاق قدر ے۔ وہ اس اخلاق قدرکی عزت کرے یا لہ کرے ء اسی‬
‫طرح جاعت اس قدرکی عزت کرے یانهکرے ء یعهلیحدہ سوال هیں ۔‬
‫جہاں تک فی نقطه نکاہکاتعلقہے ء خلوص شاعری کےبنیادی لوازم‬
‫میں ہے ہے‬
‫کیوں کہ وہ تخیل کی جبل ساعث کا ایک جزو لاینفک تے ۔‬
‫تخیل عقل کی عملىی مصلحتوں سے ے نیاز ہو کر اور آس کیمنطتی‬
‫ادراک‬ ‫پیچیدگیوں ہے اپنےآپ کو رھا کر کے حقائق کا براہ راست‬
‫رانا ات پاچتاد راست گوئی اس کےلیے ایک جوھری وصف اور ایک‬
‫فرض منصبی کا حکم رکھتی ہے ۔‬
‫‪ )0.01..‬ایپکتاب 'تشکک اور شاعری؛‬ ‫ڈی ۔ جی ۔ جیمز (‬
‫‪۵88‬آ‬
‫میں ء جس میں آس نکےولرج کے‬ ‫مہ ت‬
‫نا‪)8‬‬ ‫(‪7‬ججا‪3 602‬صہ حص‬
‫جمڈ‬
‫نظریة تخیل کا تنقیدی جائزہ لیاء یه راۓ ظاہر کرتا ےہ کشہاعر ہے‬
‫خلوص کا تقاضا صرف ان معنوں میں کیا جا سکتا ے کہ وہ ادراک نفس‬
‫کےمعاملے میں تخیل ہے صحیح کام لے؛ ان معنوں میں نہیںکہ وہ خلوص‬
‫کو ایک اخلاق صفت سمجھ کر آہے ملحوظ خاطر رکھے ۔ اس کیتصریج‬
‫وہ ذیل کیعبارت میں کرتا ہے ‪:‬‬
‫چند سالوں میں اس اس ک‬ ‫تہ‬ ‫زل کے‬
‫شعلم‬ ‫”نفس‬
‫ۓیای‬
‫گتحلی‬
‫معتد بە شہادت ہہم پہنچائی ے کہ ادراک نفس کا نقص کس‬
‫حد تک انسانوں کے لیے خرابیوں کا باعث بنتا ے اور‬
‫آُس ۓے یە واضح کر دیاہے کعمدم خلوص کوئی اخلاق‬
‫‪99‬‬

‫هوتا‬ ‫عیب نہیں بلکە حعض ادراک ننس ی کمی کا نتیجہ‬


‫ھے ۔ چنانچہ اس ہے جو عارضے پیدا ہوتے ھیں آن کاعلاج‬
‫اس طریقے سےکیاجاتا ہے کہ سر‌یض کے تبریہۂ ماضی کا‬
‫کوئی ایسا پھلو ء کوئی ایسا واقعه ؛ جو س نۓ غبر شعوری‬
‫طور پر اپنے ذھن ہے عو کر دیا ہو آ٘س کے شعور میں‬
‫دں ا‬
‫رس ک‬
‫اےک‬ ‫آجاگر) کیا جاتا ے ء یعنی دوسرے الفا‬
‫اظ می‬
‫نفس کیکمی کو پورا کیا جاتا ے ۔ شاعر کانفس ایک ایسا‬
‫نفس ھوتا عے جس میں یہ عمل مسلسل جاری رهتا ھے ۔ اس‬
‫کیتخییلی زندگی شروع ہے لےکر اخیر تک تزکیہ نفی کا‬
‫برعان‬ ‫موسیو‬ ‫عمصل ھوق ے ؛ جیسا کے‬ ‫‪1‬کت‬
‫‪ )3,].‬ا‬
‫ۓنی کتساب ”عبادت اور شاعری؛؛‬ ‫(‪9‬ہ ‪0678‬‬
‫‏(‪ )۲976٤ ٥3 206۳7‬ںیم حضاو ایک ے ۔ دیدج ۂجلاعم‬
‫نضسیاتی ۓ ارسطو کے نظریه اصلاح (‪ )81878.80‬کی صداقت‬
‫کا‬ ‫کی صحت‬ ‫ہہم پہنچایا ے ۔ نافنسسانی‬ ‫ہبوت‬ ‫کا وافر‬

‫دار و مدار ھی اس پر ے کہ وہتخیل کے ذریعے مسلسل اپتا‬


‫اڈوا ک‪/‬حاصل ‪-‬کرٹا زا تعختب ای بات یھا نے ‪/‬کا یه‬
‫میدت کے‬ ‫نکتہ جو صوفیه پر عمیشه سے روشن رھا ےہ ات‬
‫بعد علم انسانی کے سسلمہ نظریات کے زمر‌ے میں شامل‬
‫ھوا ھے ۔ خلوص شاعر کے لیے بدبھی لوازم میں ہے ےہےء‬
‫لیک اخلاق نقطہ نکاہ سے نہیں بلک تخییلی نقطہ نکاہ نے ۔‬
‫تخیل اور اخلاق کاحقیقی رشتہ یہ ے کہ تخیل اخلاق ارادے‬
‫پیش کرتا ےہ‬ ‫کے سامنے نفس کی دنیا کا ایک صحیح نقشه‬
‫اندازیوں ہے ء آن کے‬ ‫خلل‬ ‫تخریبی‬ ‫ک‬ ‫جذبات‬ ‫اور آے‬
‫ہے محفوظ رکھتا ہے ۔ يہ ہیں وہ‬ ‫نانک ک‬
‫انموں‬ ‫پر‬
‫ہیش‬
‫عطبے جو تخیل اخلاق زندىی کو بخشتااے ‪٤‬‏‬
‫ڈی ۔ جی ۔ جیمز چند اور فوائد کابھی تذکرہ کرتا ے جو اخلاق‬
‫زندگی کو تخیل سے حاصل ہوتے هیں ‪:‬‬
‫ہا‬

‫سے‬ ‫ول‬
‫ی‬ ‫خک‬
‫تگی‬
‫بھی بڑا ایک اور عطیہ ے جو اخلاق زند‬ ‫”ان ے‬
‫دستیاب ہوتا ہے ؟ وہ یہ ہے کہ تخیل اخلاق زندگی کو آن‬
‫خطروں سے ببچاتا ے جو آ٘سکی فطرت میں مضمر ہیں ۔ یه‬
‫خلاق جد و جہد ‏ کے‬ ‫ال‬‫خطرے دو قسم کے ہوتے ہیں ؛ او‬
‫سینے میں چھپا ھوا ایک خوف ناکامی ء دوسرا آس کا ایک‬

‫رسمی ضابظه عمل ؛ ایک روابتّی جموعة قوانین بن کر رہ جاۓ‬


‫یوں کی جا سکتی ‪70‬‬ ‫۔ پہلے عطرےے یىی توضیح‬ ‫امکان‬ ‫کا‬
‫تنی ھی‬
‫آے‬‫اخلاق اجتہاد اپنے جادۂ طاب پر جتنا آگے بڑھتا ھ‬
‫آُس کی نممنزقلصود دور ہوتی جاتی ے ؛ وہ جس قدر ترق‬
‫کرت ھااعی قد اس ا نمی الع ا جو سڈ ا رت‬
‫اے ۔ ای ۔ ٹیلر (‪ 701‬چو" ‪. [۰‬ھ) اس موضوع پر بڑی پتے‬
‫کی بات کہتا ىے ‪'” :‬اخلاق انسان کی فی آرزو یہ وی ےۓے‬
‫ئرے۔ یه ایک‬ ‫کہ ‪,‬وی انفرادی‪ .‬کال کا درجھ خحاصل ‏ ت‬
‫اجتساع ضصبدیخ ‪:‬غ؛ کبیتوں ‪:‬اسان ی' انٹرادی‬
‫ایک دوسرے کے‬
‫نقیض ہی‬
‫اںخ۔‬
‫لاق‬ ‫اور کال‬ ‫عدودیت‬
‫سعی صرف یہی نہیں چاھہتی کھ کال حاصل کرے بلکھ یه‬
‫بھی چاہتی ہے کے آہے ایک فرد بشر کی زندگی کے تنگ‬
‫دائرے کے اندر حاصل کررے ۔ ظرف مظروف کے لیے بالکل‬
‫لاق جد و جہد‬
‫یه ھوتا ہاےخکہ‬ ‫جاه‬
‫یک‬‫تاس‬
‫ن۔‬‫ناکاق ےہ‬
‫ہے بطون میں ایک مایوسی ء ایک اندیشۂ اکامی ؛ ایک‬
‫‪۸‬نا کت ھی‬ ‫ۓاری فو تا ےج‬
‫[جساس خ‬
‫۔وسرا خطرہ جو‬ ‫ام مسیں پسائۓے جاتے ہیں د‬ ‫سوںلکے‬
‫کعصر‬
‫شا‬
‫اخلاقی کو در پیش ہوتا ہے اس سے بھی زیادہ سنگین ہے ء‬
‫بےندے قوانین کی پابندی سمجھ لینے‬
‫یعنی نیی کو حض لگ‬
‫ہے ایک روحانی غرور ء ایک بخل ء ایک‬ ‫کا احستمال ؛ جس‬

‫اٹ‬ ‫خس سرےیا خی عاقسے اق اع رک‬


‫وسعت نظر ء‬ ‫اس میں‬ ‫اور‬ ‫لۓے'‬ ‫دلاتا‬ ‫احساس‬ ‫کا‬ ‫خطروں‬
‫زی‬

‫خود شناسی ؛ تنقید نفس ء ے تعلقی اور ے لوٹی پیدا کر کے‬


‫اس کو یه صلاحیت بخشتا ے که وہ اپنے باھر کی دنیا پر‬
‫بھی نظر ڈالے اور اس اس کو تسلیم کرے که زندگی کے‬
‫اخلاق‬ ‫زکے کی بدولت‬
‫اور اسلوب بھی موجود هیں ۔ اس ت‬
‫زندگی میں سوز و ساز ء باطنی ھم آھنگی ء طإنیت ؛ انکسار ء‬
‫حام اور اسی قسم کی اور جالی صفات پیدا هو جاتیق ہیں ۔)؛‬
‫اخلاق زندگی کو ان خطروں ہے حفوظ رکھنے کے علاوہ تخیل‬
‫اسے بالیدگی ء بلند نظری اور بلند ھمَّی بخشتا ے ۔ وہ انسان کو اپنے‬
‫احساس سے نجات‬ ‫یبز‬
‫گکر‬
‫اےنکے‬
‫اور مجہور هو‬ ‫و؛د‬
‫دنی‬
‫ح‪:‬فا‬‫مدث‬
‫حا‬
‫کی‬ ‫اںحءول‬
‫مربو‬
‫دلاتا ےہ اور عام سمجھ بوجھ ء عملىی فراست ؛ آشنا تج‬
‫‪.‬اور تعفر‬ ‫ٹھوس حقیقتوں ؛ عقل کے وضع کیے ہوئے آمرانه کلیوں‬

‫کطےوق وسلاسل کے علىالرغم انسان کے سامنے اسکانات کی ایک نبٔی دنیا‬


‫انسانیت‬ ‫وسیع کھول دیتا ے ۔ وہ انسان فطری کو ء آُس ی‬ ‫کمانظر‬

‫ہے محروم کے بغیر ء یه توفیق عطا کرتا ے کہ وہ مان و زمان اور‬


‫اپنی وراثت کیحدود ہے باھر نکل کر اس بیکراں کائنات کا جائزہ لے ۔‬
‫؛ُہرحال آسے یه‬
‫باھر نکلے یا نہنکلے ء ب‬ ‫ہے‬ ‫ان حدود‬ ‫یالواقعه‬ ‫انسان‬
‫حسوس ہوتا ے کہ وہ ان سے باہرنکلگیا ےہ؛ یه احساس ھی سب‬
‫کچھ ۓے ۔‬
‫یہاں یهواضح کر دینامفیدمعلوم ہوتا ے کامخلاق ہے هاری‬
‫کیا مراد ے ۔ ہہارے ادب اور معاشرے میں اس لفظ کے تین معروف‬
‫و مناھی ء دوسرا جاعت کی مخلمة‬ ‫عام مفاہم ہیں ‪٤‬‏پہلا مذھبی اوام‬
‫اس کو ان تیٹوں‬ ‫۔عم‬ ‫سبتگق‬
‫ئدا‬
‫اآ‬‫تصورات نیکی و بدی ؛ تیشسرا‬
‫ہے ختلف اور وسیع قر معنوں میں استعمال کر رھے ہیں ء یعنی جباعت‬
‫صرف کسی‬ ‫جو‬ ‫میں؛‬ ‫بلکە نوع انسا‪ :‬کے اعلول مفادات کے معنوں‬
‫ضابطۂ عمل کے مطابق صحیح کردار تک ھی مدود نہیں بلکە مادی‬
‫؛‬ ‫جسناول‬
‫؛ح‬ ‫واوزن‬
‫تاسب‬
‫وٴ روحانی ترق ‪٤‬‏ راحت و مسرت ء تن‬
‫اور اسی طرح‬ ‫ھنق‬
‫آم‬‫عدل و انصاف ؛ جاعت اور افراد کے درمیان ھ‬
‫بش‬

‫ذیب کی‬
‫ت اہپنی‬
‫کی دوسری اقدار پر بھی مشتمل ہیں جنھیں انسان ۓ‬
‫نشوونا ے دوران میں مذھبی عتائد ؛ آئین و قوانین اور رسم ورواج ہے‬
‫دور بدور تغیرات کے باوجود ھمیشہ عزیز رکھا ھے ۔ ان وسیع معنوں میں‬
‫ہمارے شعرا ۓ ء باستثناے اقبال ؛ اخلاق کے ساتھ کوئی سروکار نہیں‬
‫رے‬
‫موراھی‬
‫لیںاق کا تص‬
‫خم‬‫انوں‬
‫رکھا بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ان مع‬
‫یہاں مفقود ہے ۔ نوع انسانی کی تقدیر ء آس کی اخلاق جد و جہد اور‬
‫آُس کی حالت ہے ہارے ادب کی ۔ت‪,‬علقی بالخصوص اس لے ایک‬
‫تعجب انگیز اس ے کہ جس مذھب پر هم اپنی معاشرت اور ثقافت کے‬
‫سبنی ہوۓ کادعوعل کرتۓے ہیں ء یعنی اسلام ؛آس نۓ انسان کی اجتاعی‬
‫تر نصبالعین‬ ‫ےد‬
‫لن‬‫باعب‬
‫انفرادی صلاح وفاح کا لے سارے مذ‬ ‫و‬

‫قائم کیا هے ۔ بہرحال اقبال کاتخیل ان وسیع معنوں میں بنیادی طور پر‬
‫اخلاِق ہے ۔ ہم چھٹے باب ‪٠‬‏ یں کہ آےۓ ہیں کہ آس کی شاعری کا سب‬
‫سے بڑا حرک محبت اسلام ہے ۔ اسلام آس کے تصور میں وه مذہھب ےہ‬
‫جو انضان کےلیے سعیٴ اخلاق کےتمام مراحل طے کرکےمنزل مقصود‬
‫کلویپناے کاجادۂ سستقیم ےے ۔ آآسنۓ اسلام کے حقیقی معیار کےمطابق‬
‫جس انسسان کامسل کا مرقع کھینچا ہے ؛ ونیہٹشا )‪(6[٥٤6111‬‏ ے‬
‫زن‪ )8‬کی طرح ایک ماوراے اخلاق ھی‬ ‫مافوق‌الیشر انسان (ہص"‪ٌ8‬مہ‬
‫نہیں بلکہ انسان اخلاق کی ایک مشثالی شبیہ ہے ؛ جو خدا کے تخیل کا وہ‬
‫شاہکار مطلوب ےے جس کے وجود میں لاۓ کے لیے آآسکی ساری تخلیقی‬
‫قوتیں ازل سے مصروف کار ہیں ۔ تخیل اور اخلاق کا اتنا گہرا جذباتق‬
‫ری میں اور کہیں دکھائی نہیں دیتا۔‬ ‫ایاعکی‬ ‫تعلق اس بلند سطح پر‬
‫شدن‬
‫اس میدان میں دنیاکاسب ہے بشڑااہکار دانتے (‪ )68901‬ک ”'طربیة‬
‫قدسیه““ (‪٥7‬مص"ہ) )‪6[٥[023‬‏ فے ء جو انسان کی اخلاق جد و جہد‬
‫ک‪:‬اییک مکمل داستان ہے ایک ایسیٰ داستان جو روح انا ک‬
‫ارضی و ساوی تاری کو حیط سے ۔ آآسمیں بھی انسان اخلاق کا اتنا‬
‫بلند تصور نہیں جتنا اقبال کےیہاں پایا جاتا ے ۔ لیکن اقبال کیشاعری‬
‫انه‬
‫تء‬‫ایشہے‬
‫ععر‬
‫عیری ہے ؛ جذبای شا‬
‫اییل‬
‫شتخ‬
‫اخلاق شاعری نہیں ؛ وہ‬
‫‪(“۳‬‬

‫شاعری ہے ؛ یعنی صحیح معنوں میں شاعری ہے ۔ یہبجا ہےکہ آ٘س کا‬
‫ملک یا‬ ‫وص‬
‫خاقصکسی‬
‫اخل‬ ‫اکنن‬
‫ءلی‬
‫س‬ ‫موضوع انسان‪:‬اخلاق انہے‬
‫معیاروں‬ ‫دےود‬
‫ثیلّت سے اور آحن ک‬
‫یک‬‫رحکن‬ ‫ک‬‫اتیکے‬
‫زماۓ یا جاء‬
‫ارتقا کی ایک‬ ‫کے مطابق نہیں ء بلک اپنی مثالی صورت میں اور انسانی‬
‫س‬‫ُے‬ ‫آان‬
‫دررواز منزل مقصود کی حیثیت ہے ۔ یه بات کہ وہ مسل‬‫دو‬
‫کشیخصی تکو حدود نہیںکر دیتی بلکه آسے ایک عالمکیں شخصیت بخش‬
‫ساری نوع انسانی کا مذھب بے اور‬ ‫لاام‬
‫سک‬‫ابال‬
‫اق‬ ‫کہ‬ ‫ءں‬
‫یےو‬
‫کی ے‬
‫دی‬
‫آُس کی آمت اسلاميه انسانیت کا زبدہ و خلاصهہ ے ۔‬
‫نوع انسانی کی آفتاد کے ساتھ اقبال کو جگوہرا سروکار ہآے٘س کا‬
‫کچھ اندازہ آُس کے ذیل کے اشعار ہے لگایا جا سکتا ےہ ‪:‬‬

‫اگر کچ رو ہیں انم ؛ آساں تیرا ہےینا میرا ؟‬


‫جھے فکر جہاں کیوں هو ؛ جہاں تیرا ہےیمایرا ؟‬
‫خالیون۔‬ ‫اکاں‬
‫ھہاے شسوق ےہ کے لم‬ ‫اہو ہنکاسه‬
‫! لا مکاں تیرا ے یا میںاگا‪":‬‬ ‫یس یق ہے یا رب‬ ‫خطا‬
‫ازل انکار کی چرأت ہوئی کیوں کر ٴ؟‬ ‫آسے صبح‬
‫‪:‬یا میرا؟‬ ‫تیرا ہے‬ ‫جھے معلوم کیاء وه راز داں‬
‫ددیرا‬ ‫بھی ‪ :‬قرآن بھی‬ ‫مد‪ ۶‬بھی ترا جبجریل‬
‫مگر یه حرف شیریں ترجاں تیرا ہے یا میرا ؟‬
‫کی قابانی سے سے تیرا جہاں روشن‬ ‫اسی کوکب‬
‫مبرا؟‬ ‫یا‬ ‫ے‬ ‫تیرا‬ ‫زیاں‬ ‫زوال ۔آدم خاکی‬
‫آٹھُواں باب‬
‫تخیل اور بصیرت‬
‫کے عمل ک‬ ‫اس‬
‫واہمہ اور تخیل ایک ھی قوت کے دو درجے یا‬
‫بںاجلوکل ختلف‬
‫دو صورتقیں نہیں ء بلکہ دو بالکل ختلف قوتیں ی‬
‫بلک اکثر ایک دوسرے کی نقیض ھوقی هی ۔‬ ‫طریقوں سے عمل کریق هی‬

‫لیکنتخیل اور بصیرت کے درمیان بہتگہرا تعلقہے ۔ بصیرت تخیل نے‬


‫علیحدہ کوئی چیز نہیں ؛ وہ آس کی حریف یا حایف نہیں بلکہ ‪٢‬س‏ ک‬
‫نے جسم میں ایک‬ ‫طرح باقاد کرت‬ ‫جس‬ ‫ے۔‬ ‫بالیدہ صورت‬ ‫ایک‬

‫و ذھانت‬ ‫طبیعی صحت ء مسلسل دماغی ریاضت ہے دماغ میں ذکاوت‬


‫اور مستقل اخلاق سعی سے ضمبر میں ایک وجدانی خںیکوشی پیدا‬
‫اور صحیح استعمال سے‬ ‫سےسلسل‬
‫ہے ء اسی طرح شاعرائه تخیل ک‬ ‫جواق‬
‫ہ‬
‫سعت ؛ ایک ایسا عمق پید‬
‫آس میں ایک ایسا عروج ء ایک ایوسی‬
‫هھوجاتا ے جس کا محجموعی نتیجہ وہ ھوتا ے جسے ہم بصیرت کا نام‬
‫یه ضروری ےے کہ شاعر کو بصیرت حاصل کررۓ کی‬ ‫اتےلهبیںت؟ه‬
‫دی‬
‫صلاحیت جبلاٌ ودیعت ہوئی ہو ء یعٰی اس کی قوت تخیل میں شروع ھی‬
‫هو که وہ تہذیب و تربیت ء ریاضت ‪٤‬‏ علم اکتسابی‬ ‫عیداد‬
‫تک‬ ‫ا۔‬
‫اس‬ ‫ے‬

‫کے فیض اور زندی کے تجربوں کے تاثرات کی بدولت ترق کر کے‬


‫اپنی اصلی حالت ہےبلند هوسکے۔ خالصۃ خدا داد بصیرت ء یعنی ایسی‬
‫بصیرت جو اول روز سے ہوری قوت و شدت کے ساتھ بروۓ کار ہو‬
‫نہیں‬ ‫صرف أہیوں کا حصهہ ہے ۔ ایسی بصیرت صوفیوں کو بھی نصیب‬
‫ادن‬
‫فبع‬
‫رکے‬
‫عکاف‬
‫بھی سمشاہدہ ؛ مجاھدہ ؛ مراقبه اور اعت‬ ‫ہھوقی ۔ آنھیں‬

‫حاصل‬ ‫بصیرت‬ ‫صرف‬ ‫نصیب ہوتا ے ۔ رے شاعر ؛ آن کو فطرت سے‬


‫کرتے کا آله تخیل کی صورت میں عطا ہوتا ہے ۔ اس کا بالفعل حاصل‬
‫کرنا چند در چند اسباب پر منحصر ہے ؛ جن میں بعض شاعروں کے‬
‫‪("۲۰۵‬‬

‫قبضة اختیار میں ہوتے ہیں او‬


‫نرہبعیضں ہموتؤےخ۔رالذ کر اسباب‬
‫ایک‬ ‫بصیرت‬ ‫کیبناپرہمآسے جازاًعطیة الٴ ی کہہ سکتے ہی‬
‫لںی؛کن‬
‫ایسی نادرالوجود چیز ے کہوہدنیاکیتاریچمیںگنتی کےچند شاعروں‬
‫کو نصیب ھسوئی ے ۔ یه اور بسات ے کھ بسر خسود غلطی یىی‬
‫پر تقریباً عشراعر ااسدکا‬
‫عا کرتا ے۔‬ ‫وےر‬ ‫بنا پر شیااعرانہ تعل‬
‫طی ک‬
‫صدگوکریت میں ظاھر‬ ‫بصیرت اپنےآپ کو ایک جامع تصور زن‬
‫کرتی سے ۔ یوں توهرشخص کے ذھن مر ء یہاں تک کہ ایک وحشی‬
‫یا ایک جاہل کے ذہن میں بھی ء کوئی ندکوئی تصور زندی هوتاے ؛‬
‫بسر کرفا ناممکن ھوتا ۔ لیکن لوگوں کی‬ ‫دےلی‬
‫گےی‬ ‫اس کےبغی‬
‫زرا‬
‫نن ک‬
‫اکثریت کا تصور زندگی ختلف مستعار تصورات کاایک مجموعه ھوتا ے ء‬
‫جس سیں عام لوگ عقل عملىی ء فلسفی عقل نظری اور سائنس دان‬
‫عقل تبربی کے ذریعے ربطپیدا کرتے ہیں۔ شاعر بھی ان کیطرح اپنے‬
‫اکتسابی علم اور اپنے ذاتی تجرے امورشاهہدے کعےناصر کو اپنے‬
‫تحی‬
‫ملدکی‬
‫د سے آسیز کرکےاپنا ایک تصور زندگ تریکارتا ھلےی۔کن‬
‫بڑی حد تک‬ ‫صر‬ ‫تص‬
‫عورا‬
‫نتاکے‬ ‫عار‬ ‫سم‬
‫تیں‬ ‫زن‬
‫مدگی‬ ‫ر‬‫وکے‬ ‫اکث‬
‫تر شع‬
‫صرا‬

‫تصور زندگی‬ ‫منک‬


‫واعی‬ ‫اپنی اصلی صورت میںبراھقتے ہیں ؛ اس لی‬
‫جےآ‬
‫ایک خود مکتفی اور ےسود تار تصور نہیں ھوتا۔ اعل بصیرت‬
‫یہ ھے کہ وہ اپنےتخیبلی وجدان کو ہر چیز کا‬ ‫شعرا کی خصوصیت‬
‫معیار بناے هی اور جو چیز اس معیار پر پوری نە اترے وہ آہے قبول‬
‫انکارکر دیتے هیں ۔ آن کتہخیل میں ایک اوسی جذباتی شدت ء‬ ‫‪2‬افت‬
‫ا‬

‫ایک ایسی فکری وسعت ؛ ایک ایسا روحانی عمق اور ایسا چوش اعتقاد‬
‫هوتا ے کہ آن کاتصور زندگی ایک مذہب کیحیثیت اختیارکر لیتاے ۔‬
‫وہ دیائنت دارانه طور پر یہ حسوس کر ے ہین کہ فلسفة؛ سائنس سیاسیات‬
‫سے جو‬ ‫اخلاقیات اور عقل عملی آن عظم اور ھیبت انگیز مسائل ک‬
‫حےل‬
‫ےک‬ ‫ض‬ ‫ہوسکتے اور یە‬
‫فان‬
‫رکا‬ ‫دنیا کو درپیش ہیں عہ‬
‫ندہہبیرآں‬
‫ادننیامکساےئل کےجوحل آن کیبصیرت ناےن بر منکشف کے هیں آنھیں‬
‫سامنے پیش کریں ۔ ان کیبصیرت ان کیساری ھستّی پر مسلط‬
‫‪۵‬ه)‪۶‬‬

‫ہوتی کے اور آُس ہے منکر ھونا آن کے نزدیک غداری اور بد دیانتی کا‬
‫مترادف ھوتا ے ء بلک وہ اہے ایک عطیه وہبی کے بارے میں کفران‬
‫نعمت اور امانت میں خیانت سمجھتے ہیں ۔ جب آن کی بصیرت کا مہرم‬
‫کوررتا ے کھ وہس کے عطا کیے ھاونئےکشافات کو‬ ‫تقاضا آنھیں حب‬
‫الفاظ کا جامہ پہنائیں تو ان کے الفاظ میں خود یخود وہ قوت ؛ وہ‬
‫ھمدگیری ء وہ ھیبت جو غیبی پیغاموں میں ہوتی ہے ؛ پیدا ہوجاتی ہے ۔‬
‫کھ‬
‫ن۔‬ ‫بھی وج ے کہ اھل بصبرت شعرا کا کلام اتنا مؤثر ہو‬
‫چتاوہے‬
‫جس بصیرت کا وہ نتیجہ ہوتا ہے وہ خود ایک طفغیانی تجربہ ہوتقی ہے ء‬
‫اس لیے آن کی قوت اظہار اپنے نقطهۂ عروج کو پہنچ جاتی ہے ۔ علاوہ بریں‬
‫چوتکہ بصیرت کمےجرے بلاۓ ہے نہیں آتے اس لیے وہ جب کبھی آتے‬
‫هیں شاعر آنھیں غنیەت جان کآرنویں قلم بند کرنے کے لیے اہنی ساری‬
‫قوتوں کو جمع کر لیا ہے ۔ اس کے لیے بھی ایک طرح کی انوی‬
‫بصیرت ؛ یعنی بصیرت کے انکشانات کو پہچاننے اور آن کو حتی‌الوسع‬
‫ضائع نە ھوۓ دینے کی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے ۔‬
‫جاتیق‬ ‫سے‬
‫را‬ ‫او‬ ‫اھل بصبرت شعرا کی نگاہ اپتے وقی ما‬
‫محول‬ ‫چںوکه‬
‫اکٹر کی ایک خصوصیت یه ہوتی ےکه ان کا‬ ‫سے‬ ‫میں‬ ‫ےہ اس لیے آن‬

‫تثیل زیادہ تر مستقبل کی دنیا کی سیاحی کرتا سے ۔ اس دنیاے مستقبل کا‬


‫جمورقع وہ پیش کرتے ہیں آس کاپس منظر نوع انسانی کے کوائف و‬
‫حوادث ہوتۓے ہیں ؛ کیوںکه آن کاسروکار اساسی طور ہر نوع انسانی‬
‫کآفیتاد سے ھوتا ے ۔ چنانچه آن کا انداز بیان اکثر پیغعبرانہ ەوتاے‬
‫اور وه تاری انسانی کے واقعات کے معانیٴ مکتوم آکیوندہ امکانات کی‬
‫صورت میں پیش کرتے ہیں ۔ لیکن ماضی و مستقبل کے درمیان حال کا‬
‫جو عبوری دور هوتا ے وہ آُس کے سطحی مظاہر ہے زیادہ سروکار نہیں‬
‫رکھتے بلکە ایسے انسانی افعال اور واقعات سےجنکی اھمیت محض ھنگامی‬
‫اورمقامی ہوتی ہے انھیں کوئی دل چسپی نہیں وق ۔ اگر وہ آن کو‬
‫بیان کرۓ بھی هیں تو یوں جیسے کەہو ہکسی دورکی دنیا کے‪ 2‬سنے سناۓےۓ‬
‫زندگی کے‬ ‫صر‬ ‫مت‬
‫عواوہ‬ ‫یہ سک‬
‫ےہ اول‬ ‫واقعات ھوں۔ اس کا سہب‬
‫ے‪"۲‬‬

‫تنازعوں اور مخمصوں میں آاجھنے ہے عمداً گریز کرتے ہیں ء دوسرے‬
‫معاصر واقعات کووائف ؟نھیں فیالواقعه وقت کے دریاے رواں کی سطح‬
‫پر بہتے ہوئۓ حقیں تنکے دکھائی دیتے ہیں جو ایک ایسے تخیل کے لیے‬
‫جس کا تعلق ابدی حقائق ہے ہے در خور اعتثانہیں ۔ لیکن سطحی واقعات‬
‫وک‬
‫جےود آن کی نگاہ آن کے اندرونی اسباب کی تە تک‬ ‫القی‬ ‫ساےس ہے‬
‫بتع‬
‫خرفی حرکات کے‬‫آتر جاتی هے۔ وہ اپنے وقتوں کی صمیمی آرزوؤں او‬
‫نبض شناس ہوۓ ہیں اور مستقبل کے سیاق و سباق میں آن کی معثتوبت‬
‫کی ترجانی کرنۓ کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ یہ صلاحیت صرف اھل‬
‫بصیرت شعرا ھیکی خصوصیت نہیں بلکہ اھل بصیرت فن کار بھی اس‬
‫کے مالک ہوتےۓے ہیں ۔ اگوکیٹس (‪۵‬ك‪)651٥‬‏ ۓ ٭دہذہہ م‪[7‬ا؛ میں نظریۂ‬
‫‪. 3.‬ط) ۓ‬ ‫‪٣‬‬ ‫‪٥1‬ت‬‫ارتقا کی پیش بینی کی تو ڈی ایچ لارنس ‪(٥0‬‏‬
‫جرمنی میں رومانی بربریت کے احباء کی پیش گکوئی ک ۔ ‪681×٤77‬‏‬
‫مصور بیسویں صدی کاےوائل کیشدت پسندی و ابتری کے هراول تھے۔‬
‫لبےیسویں صدی کے وسط کی جنونانه قنوطیت کا قبل از‬ ‫‪8‬‬
‫‪٥٤٥66‬‏ حافظ اور دانتے کا‬ ‫وقت ثقشهہ کھینچا گ۔رٹروڈ پیل ([[‪) 6‬‬
‫مقابلہ کرتے ہوئۓ لکھتی ہے ‪:‬‬
‫!احافظاکےلیےاپتےوقتا ی‪.‬قاریج کوئی اہعیت ‪:‬نہ“ رکھتی تھی ۔‬
‫ُس کے زمائنےۓ می‬
‫کںئی قاج داروں کے تاج لٹے اکور‬
‫ئی‬
‫ہو گیا ء لیکن یه چیزیں اس کے‬ ‫کے شخ‬
‫تتخکت‬
‫اہ‬ ‫خاندانوں‬
‫لیے کوئی سعنی نرەکھتی تھیں ہس‪ ....‬دانتے ‪”05٣6581‬‏‬
‫کے اندر مقید ے ۔ اس کا تصور کائدات بنیادی‬ ‫د کوید‬ ‫فلس‬
‫حغے‬
‫طور پارپنے زساے کاتصور کائنات ہے ۔ جو چیزیں آے‬
‫حقیقی اور اھم معلوم ھوتی‌تھیں ھمیں صرف دلچسپ افساۓ‬
‫ذیاعی اش ر قازی ایک درڑی ون‬ ‫‪0‬‬
‫انی‬
‫کا منظر زیادہ وسیع ہے ؛ یە اور‬ ‫دکھائی دیتی ہی‬
‫حںا۔فظ‬
‫ں‬ ‫یی ہ‬
‫وے‬ ‫بات ے کہ آَُس کا پیش منظر ہارے لیے‬
‫۔اجنب‬
‫معلوم ہوتا ے کہ جیسے آس کینگآاہفاق کیرں انسانی تجرے‬
‫‪(۸‬‬

‫علاقوں تک رسائی رکھتی تھی جو ابھی تاریچ کے عاہ‬ ‫ان‬

‫ےت‬ ‫کک‬
‫جی ولسن نائٹ (اط ند ‪٥81۷۲‬‏ ‪ )6.‬ک راۓ میں اعلول پاۓ‬
‫کی شاعری بنیادی اور لازمی طور پر پیغمبرانہ ہوتی ہے ۔ وکہہتا ھے ‪:‬‬
‫قریب کا مس رکھتی ہے اس لیے‬ ‫تس‬
‫نےا‬ ‫”'شاعری چوں کهە حق‬
‫ایقت‬
‫نتھہے‬
‫یں عام لوگ مستقل‬ ‫وہ ماحول کے آن سطحی تغ‬
‫جیرا‬
‫ییں‬
‫ک‬ ‫حقیقتیں سمجھتے ہیں نےیاز ہوق ہے ۔ شاع‬
‫اری م‬
‫اس اشاریتکا روے سخن اکثر‬ ‫ر‬ ‫معی خیز اشاریت ہوت‬
‫ایوہے‬
‫مستقبل کیطرف ہوتا ہے ۔ اس لیے شاعری کا صحیح سیاق و‬
‫سباق موجودہ واقعات نہیں ھوتے بلکه ایسے واقعات جو پردۂ‬
‫دوسرے‬ ‫لے ہیں ۔‬ ‫غیب سے نکل کر منصه شہود پور آ‬
‫اۓ‬
‫ھوقی ے ۔‬ ‫الفاظ میں اعلول شاعری بنیادی طور پر پیغممرانه‬
‫‪ ,,.,..‬شاعری وجدانی بصیرت ہے پیدا ہویق ہ۔ےشاعر‬
‫؛ ان معنوں میں‬ ‫ایک صاحب بصیرت یا ایک پیغمبر ھوتا ے‬

‫کمہکواہن وزمان کے اس مکسب ہے جسے ہم دنیایا‬


‫یارط بن‬
‫کیہتیے‬
‫ھ‬ ‫ستکاترا ےک ۔ہتیےهہبنیصںئیرءےت حضلئےاینکققثسےماپکنیمیکچانش‬
‫دیمدوب‬
‫نہیں‬
‫فضاے بسیط میں دور کیچیزوں کو؛ جو‬ ‫ایعن‬
‫دیی‬ ‫ھو‬
‫مق ء‬
‫یىی‬ ‫کدیک‬
‫نھے‬ ‫میں چھپی ہوقی ہی‬
‫سں ء‬ ‫رکے‬
‫دے‬ ‫ابھی فاص‬
‫پلے‬
‫وہ ح‬
‫بضصارت‬ ‫میں‬ ‫الفاظ‬ ‫رے‬ ‫و ہوت‬
‫سی ۔‬ ‫طاقت ھی‬
‫دنہیں‬
‫بک‬
‫این‬ ‫هوقی ء اگرچہ آاسظکہاار عض بص‬
‫زارت‬ ‫ھنہ‬
‫ییں‬
‫ہی میں کیا جاسکتا ہے ۔ تخیل کو ہر چیز کاحال اس کے‬
‫مستقیل کا کہوارہ دکھئی دیٹا ہ‪.‬ے‪ ...‬تخیل ہمیشهہ‬
‫وہ‬ ‫پیغمبرانہ ہوتا ے ۔ وہ اس لیے پیغمبرانہ ھوتا ک‬
‫ےہ‬
‫تی چیزوں کاخالق سے ۔““‬
‫بصیرت کیشاعری کی اصلی عظمت اس میں ہے کہ وہ ایسی چپزوں‬
‫نت‬ ‫ارہ‬ ‫ریا‬ ‫تراما کری کرس ری‬
‫‪9‬ك‬

‫ب میںکہ آۓ ہیں کە شاعری عرفان حقیقت کے راستے پر تصوف‬


‫ےو‬‫اتی ہے ۔ یه مقام وہ ج‬‫رک‬‫کے قدم بە قدم چل کر ایک مقام پر ج‬
‫انسان کی قوت اظہہار کا انتہائی نقطہ ہے اور جس سآےگے‪ .‬بڑھنا آ٘س کے‬
‫لیے ناممکن ہے ۔ اھل بصیرت شعرا جان جوکھوں کساامٹا کز کے اس‬
‫مقام پتہکنچتے ہیں اور وہاں پہنچ کر تھم جاتے ہیں چ۔نانچہ موفیوں‬
‫تبدیل هو جاتا ے ‪ ۰+‬لیگن یه ھزعت کا‬ ‫اقالن؟ میں‬ ‫ری‬ ‫‪50‬‬
‫اعتراف نہیں ھوتا بلکہ ایک فی حکمت عملی اور مصاحت اندیڈی وق‬
‫ابھی اقلیم حقیقت کے‬ ‫ے ۔ اس کے بطون میں یه احساس هوتا ے‬
‫که‬
‫کچھ علاقوں کافتح کرنا بای ہے ۔ بڑے شاعروں کا کلام ان علاقوں‬
‫مہم کا کوئی انجام‬ ‫س‬‫ا۔‬‫مہم ھوتا ہے‬ ‫سل‬ ‫سکی ا‬
‫لیک‬ ‫کفےتح کر‬
‫منے‬
‫فای ایک‬ ‫سک‬‫ە حقیقت کی اقلم لامتناھی و لاحدود سے اور اآ‬ ‫نہی‬
‫ںں ک‬
‫کیو‬
‫آخری حد ہی بلکہ ض نگاہ اظر یىی محدودیت کا نتیچہ نے‬
‫ابنی کتاب ‪۷(6٥02‬‏ مط‪“7‬‬ ‫روبن سکیلٹن ‪(۱١6٤‬‏ ‪1‬ہ اڈ دذداہ)‬
‫یوں کرتا ہے کھ وہ انسان‬ ‫میں شاعرانه بصرت یق توجیه‬ ‫‪5606137‬‬
‫کی اڑی اشیثیں اوجود یع اس کی جنت کم کش ة ی طزف' اس کے خبل ک‬
‫مراجعت ہے ۔ جنت عدن میں انسان اپنی تمام قوتوں کو بدرجۂ اتم‬
‫کی سعادت حاصل‬ ‫تھا اور ُس کو خدا ہے ھمکلامی‬ ‫ک ک‬
‫ترا‬ ‫است‬
‫سعال‬

‫تھی ؛ یعنی آ٘س کو ماوراے حواس اور روحانی ذرائم رسل و رسائل‬
‫انا اور‬ ‫ں‬‫یس‬ ‫دستیاب تھے ۔ آسن کی دنیا ایک غیر منقسم وحدت تھ‬
‫می ج‬
‫غیر انا ء معروض اور موضوع ؛ کل اور جزو ؛ عمومی اور خصوصی میں‬
‫کوئی فرقنہتھا ۔ شاعرانہ تخلیق اس کیفیت وجود کو نئۓے سرے ہے‬
‫حاصل کرنے کی کوشش ہے اور یہ کوشش بصیرت کی شاعری میں اپتے‬
‫پر ہوتیق ہے ۔فظرت شعور یىی اقلیم کے حواس خمسهہ کے‬ ‫انتہائی عروج‬
‫علاقوں میں بٹ جا‬
‫نۓےت ک‬
‫یاجہ ہے ء جس کا مزید نتیجہ يہ ھوا کہ نفس‬
‫ے حواس کے مواد کو مجتمع کرنۓ کے عمل کے ذریعے اشیاے مادی کی‬
‫وہ جگہ تھی جہاں انسان کی شخصیت شعوری‬ ‫عدن‬ ‫تخلیق کی ۔‬
‫جتت‬
‫میں‬ ‫کے بجاۓے ایک مکمل کل تھی؛ جس‬ ‫ھوے‬ ‫حض ایک انا‬
‫سر‬

‫حسیت ؛ جبلت ؛ عقل اور جذبہ سب ایک دوسرے سے ہم آھنگ تاھےور‬


‫انسان کائنات فطرت کو اپنے سے جدا نہ سمجھتا تچھانا۔نیە روین سکیلٹن‬
‫کی راۓ میں اھل بصیرت شعرا کایکثریت کاتخمیلی منظرہ جن‬
‫ات ک‬
‫یاک‬
‫مرقع ھوتا ے ء خواہ وہ صراحً ایے اس رنگ میں پکیرشیں‌یا نەکریں ۔‬
‫موضوع می‬ ‫رلکے (مطاتط) ک شاعری کا بنیادی‬ ‫عر‬ ‫جرمنی زب‬
‫شاناکے‬

‫غیر منقسم شعور ے جو فرشتوں کو نصیب ہے لیکن جس سے انسان‬


‫محروم ہچوکاے ۔ اقبال کے عالم بصبرت کا آخری آفق بھی خودی و‬
‫ایک دن‬ ‫جو‬ ‫وصال ے‬ ‫کائنات کا وه‬ ‫ذا‬
‫شتعوور‬ ‫عیوءر‬ ‫ے‬
‫شخود‬
‫انسان کامل کی شخصیت میں ظہور ہزیر ھوکا ۔ شاعرانہ بصیرت افلاطون‬

‫ے جو ھر روح کو‬ ‫اهن‬ ‫فاو‬ ‫کاےلفاظ میں عالم امثال کى حقی‬


‫عقتوں‬
‫ر ک‬
‫اس دنیامیں آےۓےسے پہلے حاصل تھا ء یاکوب بوما اور جملی کے الفاظ‬
‫کے‬ ‫میں وہ کائنات کا وہ نقشہٴ ہے جو خدا کے تخیل میں تھا اور بلیک‬
‫اور غیر شخصی پہلوؤں کا وہ کاسل اتصال‬ ‫الفاظ میں وہ تخیل کے شخصی‬

‫و الحاق ےے جس میں نفس ھمەتن ایک زندہ روح بن جاتا ے اور چیزوں‬
‫کے باطن کو خدا کی نکاھوں ے دیکھ سکتاے ۔‬
‫نواں باب‬
‫تخیل ء الہام اور تکنیک‬
‫حصے میں نظریات شاعری کے دو‬ ‫خےری‬
‫ھم دوسرے باآب ک‬
‫خالف گروہوں کااج|لا تذکرہ کرۓ کے بعد ان میں مطابقت قائم کرۓ‬
‫کسےلسلے میں یہ کمہہ آۓ ہیں کہ ”'نخیل وہ نقطہ ے جہاں ربی و‬
‫بشری ء دیوانگی و فرزانگی ؛ الہام اور تکنیک ؛ شعور و لائعور کاوصال‬
‫سرے باب میں تخیل کی ماھیت اوارس کے طریق عمل‬ ‫و۔‬ ‫ھوتا ے‬
‫د؟'‬
‫سے بحث کرتے ہوۓ ہم یہ واضح ک‬
‫آرےۓ ہیں کہ‬
‫انٹ کے نظرے کے‬
‫اور پھ‬
‫ترصاونرات‬ ‫نعے‬
‫ر وض‬ ‫مطابق تخیل حسی معطیات ہے تصو‬
‫کرات‬
‫سمےعنی خیز کلیتیں پیدا کرنۓ کے عمل میں عقل کو اپنا شریک کار‬
‫اسی طرح ہم یە بھی کہہ آےۓے ہیں کہ کولرج جس‬ ‫اتاوےر‬
‫ء‬ ‫بنا‬
‫قوت کو انوی تخیل کہہتا ہے آس کی کارروائیاں اس کے نزدیک عقل کی‬
‫مدد سے ہوتی ہیں ۔ اس کے بعد کے ختلف ابواب میں بھی ہم نۓجا بجا‬
‫تخیل اور عقل کے باھمی تعاون کاتذکرہ کیا ہے ۔ اس باب میں ھم اس‬
‫ام کی قصر یجکریں گےکہ شاعرانه تخلیق کےعمل میں تخیل کیوں کر ء‬
‫طرف‬ ‫اور دوسری‬ ‫ایب طرف تو الہامی وجدانات کا وسیله بن کر‬
‫تکٹیک کے عقلی و عملی مسائل کو حل کر کے ان کی دوئی کو یکتائی‬
‫یل کر دیتا ے‪:‬۔‬ ‫می‬
‫مویں‬
‫اگرھم الہام اور تکنیک کے قدی تنازعےکا تاریخی جائزہ لیں ت‬
‫رجحانات ‏ دکھائی دیتے هیں ۔ پہلا تویهکهکبھی الہام‬ ‫ن‬
‫تاریمیں‬
‫خعلف ادو‬
‫کو او رکبھی تکنی ککو زیادہ اھمیت دیگئی ۔ دوسرا یەکه ان دونوں کے‬
‫باھمی تعاون کاتصور وقتاً فوقتاً ختلف صورتوں میں موجود رھا ے۔ تیسرا‬
‫ی٭که بحیثیت عمومی ان کےدرمیان بعد دور بہ دزوکم ھوتا چلاگیا ے ۔‬
‫‪0227‬‬

‫ھوس کے زماۓ تک یھ عقیدہ عام تھا که شعرا کلی طور پر خارجی‬


‫قوتوں ؛ مثلا جنوں ؛ روحوں اور دیویوں کقےبضے میں ہوتے ہیں‬
‫ھو۔س اور آس‬ ‫لنوساےتی ہیں‬ ‫کک‬
‫ہےم‬ ‫ویتهیں جو جی چاے آن‬ ‫اقور‬
‫کے دبستان کے حاسہ نویسوں ے اس کارروائی کو خصوصی طور پر‬
‫کیا ۔ یه دیویاں‬ ‫منسوب‬ ‫‪60‬ٴ]' ہے‬ ‫‪868‬‬ ‫‪1‬ں ی‬
‫‪0‬عنی‬ ‫فنون کی دی‬
‫‪1‬ویو‬
‫شاعروں کے اندرشعر گوئی کی قوت پھوٹک دیی_ تھیں ء لیکن شاعروں‬
‫کو اس حد تک اپنے اوپر اختیار ھوتا تھا کہ جب آن کا جی چاھتا‬
‫وہ ان دیویون کے مندروں میں جا کر آن سے الہام طلب کر سکتے‬
‫تاھفےل۔اطون ے اگرچہ اس اکسو تسلم کیا کہ شعرا فنون کی‬
‫دیویوں ہے کسب فیض کرتے ہیں ء تاھم اس کے ساتھ ھی اس ےۓ یہ‬
‫نظریه بھی پیش کیا ک٭ شاعروں کو فطرت کی طرف ہے ایک روحانی‬
‫قوت ء جس کا نام آآُس نے ”'موسیقی؟“ رکھا ؛ ودیعت ہوتی ہے ۔ دوسری‬
‫وہ '”یگی؛؛ اک‬ ‫جے‬ ‫طرف اس نۓ ایک اور قوت کا بھی اعتراف کیا‬

‫نام سے پکارتا تھا ۔ یه قوت ”'موسیقی؛““ سے ادنیل قوت تھی جو دوسرے‬


‫فنون کی مشق کرۓ والوں کو بھیعطا ہوی تھی ۔ سب ہے معنی خیز‬
‫بات تویہ ے که افلاطون شۓاعر کو ایک صائع یعنی بٹاۓ والا کہا‬
‫جس کے ضمنی معنی یتہھے کہ شاعر کاعمل شعر کوئی کسی حد تک‬
‫میں شاعری کو ایک‬ ‫ططوی ۓ‬
‫قا‬ ‫ب۔‬
‫وارس‬ ‫هوتا ے‬ ‫خیتی‬
‫وازی‬ ‫شع‬
‫اور‬
‫طرف تجوثوں کی پیمداوار کہا اور دوسری طرف ایک فطری ملک ےکو‬
‫آس کا کفیل ٹھہرایا ۔ یه فطری ملکہ آسی قسم ک چیز تھا جسے بعد ے‬
‫زمانوں میں جوھر قابل ء فطانت اور اسی کمےائل نام دے کئۓے ۔‬
‫رومنوں کےیہاں تخیل کا جو تصور تهاء بعنی ایک ایسی قوت جو‬
‫غیب کی خبریں بھی دیتی تھی اور آن سے شعر بھی‬ ‫م‬‫اںلکو‬ ‫شا‬
‫ععرو‬
‫مضمر تھا کہ شاعر بحض خارجی‬ ‫کہلواتی تھی ء آ٘سمی‬
‫اںعیتهراف‬
‫قوتوں کے ہاتھ میں ایک آلہ نہیں ھو‬
‫عتالا۔وہ بریں یه الہام اور‬
‫ٹکٹیک کی یک جائی کا بھی تصور تھا ۔ چنانچه رفته رفتہ فدوٴن کی دیویاں‬
‫اور آن کا تذکرہ حعض‬ ‫گکئر ر‬
‫یہں‬ ‫عض علم التاصن‬
‫لاممکییحات بن‬
‫‪۳۳‬‬
‫استعارةۃ هوۓ لگا‪٥ -‬ذ‪٥‬‏ ذث‪5٥‬ط]‏ یعنی الہامکا جو متوازی تصور مذھب‬
‫چھ‬
‫۔لی‬ ‫بئی‬ ‫سے ممتغار لیاگیا تھا اس کی نشُو و‬
‫ما بھی اسی کے نائل ہو‬
‫هوتا‬ ‫مبرا‬ ‫معانی سے‬ ‫چصند‬
‫دیول میں ورہفته رفته اپنے مافوق الفطرت‬
‫چلاگیاہے اور بیسویں صدی میں تو وہ عض وجدان کامترادف بن کر‬
‫سا جاتا ے تو حض تلمیحی‬ ‫زہ گیاتھے ۔ چنانہ اگرآج کلاس کاقکدو‬
‫اور علامتی معانی میں ۔ بلیک اور پیٹس ی قسم کے شاعروں کے القاے‬
‫غیبی کے بارے میں دعاوی مسثثثیات میں سے ہیں ۔ بلیک کے دعاوی‬
‫کو توغالباًآآسکی دیوانگی یا ُس کے تصوف پر حمول کیا جساکتا‬
‫سے ؛ جہاں تک پیٹس کا تعلق ہے ؛ آس کے دعاوی اُس کے اس نظرے‬
‫کے منطقی ضمیے ہیں کە شاعری ایک قسم کی ساحری ہے جس کامنبع‬
‫ایک جموعی حافظه قدیمہ ہے ۔ ملاحظہ طلب بات یہ ے کہ بیٹس کی‬
‫شاعری کے دو دور تھے ؛ جن میں سے دوسرے دور می‬
‫اںس نۓ اپنے اس‬
‫نظرے پر عمل کرنا ترک کر دیا اور اس طرح جدید انگریزی شاعری‬
‫کے بانیوں میں جگہ پائی ۔‬
‫الہام کےپہلو بہپہلو تکنیک کسو بھی نشیب و فسراز کے ختلف‬
‫ادوار میں ے گزرنا پڑا ے ش۔روع شروع میں جب تنقیدی شعور‬
‫پیدا نہ ھوا تھا ء تکنیک کے جائزے کے لیے کوئی معیار موچود نتہھے‬
‫او‬
‫آرے الہام کیحض ایک ضمنی پیداوار تصور کیا جاتا تھا ۔ تنقیدی‬
‫معیاروں کے وضع ہوۓ کے بعد ہے تکنیک کی اھمیت میں جو قغبرات‬
‫هھوۓ ہیں آن کو ہم مجماا یوں بیان کر سکتےہیں ‪-:‬کلاسیکی تحریکوں‬
‫کے عروج کے زماۓ میں الہام اور تکنیک کے درمیان ایک مکمل توازن‬
‫ضروری سمجھا جاتا تھا ء لیکن تکٹیک کو نسبةٗ زیادہ اھمیت دی جاق‬
‫تھی ک۔لاسیکی تحریکوں اکنےخحطاط کے زماے میں تکنیک پر ضرورت ہے‬
‫زیادہ زور دیا جاتا تھا ا۔سی طرح رومانی تحریکوں کے عروج کے زماۓے‬
‫میں الہام اور تکنیک میں موافقت مستحسن سمچھی جاتی تھی لیکان اللہام‬
‫کو ترچیحج دی جاتی تھی ۔ رومانی تحریکوں کے انحطاط کے زمائے میں‬
‫تکنیک یىیطرف سے تغافل برتا جاتا تھا ۔‬
‫‪۳۳۴‬‬

‫بیسویں صدی کے نصف اول میں الہام اور تکٹیک کی رقابت و‬


‫درمیان اب ایسی واضح‬ ‫لیکن ان کے‬ ‫رقافت تہ دی رنگ بدلے هیں‬
‫حد فاصل جیسی اگلے زمانوں میں تھی‪ :‬دکھائی نہیں دیتی ء بلکہ ان کا‬
‫و معنی ؛ ممثال و‬ ‫مسثله کی اور مسائل ء مثاٌ مضمون و ھیثت ء صوت‬
‫خیال ؛ احساس و فکر ء شعری اور ثثری معانی ؛ شعوری اور غیر شعوری‬
‫عمل تخلیق کے تنازعوں میں ]الجھ گیا ھے ۔ چنانچہ پچولے چند سالوں‬
‫میں جسو نی نبٔی تمریکیں ظہور "یں آئی ہیں آن میں سے اکثر کے‬
‫متعلق وثوق ہے یہ نہیں کہا جا سکتا که وہ الہام سے یا تکٹیک ہے‬
‫زیادہ تعلق رکھتی ہیں ۔ مثلا ایک دبستان ایسا ہے جس کے نژدیک‬
‫شاعرانه مطلب نثری مطاب سے کوئی تعلق نہیں رکوتا ء بلکه اگڑ کی‬
‫نئر یں بیان کیا جا سکے تو وہ نظم صحیح معنوں‬ ‫طالب‬
‫سم ک‬
‫نظ‬
‫کی مستحق ھی نہیں ہوتی ۔ آرچی بالڈمیکلیش‬ ‫میں شاعری کہہلاۓ‬
‫(طەنہ]‪١ (55‬آداذطہ‪)۲۵‬‏ اس دبستان کے نقطهۂ نظر ىی تصریج کرتے‬
‫وئی معنی نہ ہواۓ چا ہئیں ۔ آسے‬
‫نظم کے‬ ‫اەیک‬
‫ےک‬‫هھوۓ اعلان کرتا ”‬
‫هونا چاھے ۔‪٤‬؛‏ یه دبستان شاعری کو منطاقی ء عقلی اور‬ ‫صرف موجود‬
‫استدلا ی عَاصر نے معرا کر کے آسے شعزیت کا عرق ناب ‪:‬بٹااۓ کا مَعتقد‬
‫بعض منمایندوں کی شاعری میں فطرت ء منطق ء الفاظ‬ ‫انچة اکسے‬
‫ہچےن۔‬
‫کے لغوی معافنی ؛ صرف و نحو ء غرض هر عقلی چیز اپنا متداول لباس‬
‫ت‬‫اا‬
‫ضس ظار ‪۴‬‬ ‫واس‬
‫ما ان‬
‫ذھن میں آئی تھی ۔ ھاپکنز ص(زعامہ‪)]8‬ء اہولی نیئر (ہمنەمناەم‪7‬جھ) ؛‬
‫ە‪ )5‬ء ٹی ایس ایلیٹ (‪6‬ہ‪11‬ظ ‪ )8.7.‬ء‬ ‫ھارٹ کرین (‪٥‬ددە‪0٥‬‏ ‪6‬‬
‫صتعصتہ‪)3. 102 6‬‬ ‫چگز‬
‫دمن‬
‫ڈلن ٹاس (م‪ 0257۵‬صہ‪)1[0‬ء ای ا(ی ک‬
‫اور سنجان پرس (‪ 8867‬صطاہل ‪6.‬ج‪ )8‬اس زمرۂ شعرا کے سرکردہ‬
‫رکن ہیں ۔ ایک اور دبستان شاعرانہ کیفیت کو بجائۓ خود کاف و واق‬
‫سمجھکر آسی کے داخلی مشاھدے اور مطالعے پر اپنیتمامکوششیں‬
‫صرف کر دیتا ے ۔ اس دبستان کے بڑے تمایندے ریمبو (‪910180‬ا‪50‬ت‪)8‬‬
‫اور میلارہے(‪ )60781[811‬ہیں ۔ ایک تیسرا دبستان وہ ے جسےسرریلزم‬
‫‪۳۰۵‬‬

‫(مدہذآہ×عتتھ‪ )8‬کہتے ہیں ۔ یه ایک قسم کی نفسیاتی اضطراریت ہے ء‬


‫ساتل اس ان جو کچھ کہلوانا ےوہ نے قلم' برداعتة‬ ‫ا‬
‫ظریه ساز‬
‫من و عن لکھتا چلا جاتا ے ۔ ادسبستان کے سب ہے بنڑے‬
‫آندرے برتاں ہ‬
‫(‪۰04۵ 668‬ھ‪ )۵‬کے نزدیک شاعر کاکام صرف یہ ے‬
‫میں‬ ‫اپنے الفاظ‬ ‫اپنے خیالات کو یه موقع بہم پہچاۓ که وہ‬ ‫کە وه‬

‫کریں ۔‬ ‫عور‬
‫اپ ک‬
‫ظے آ‬
‫اپن‬
‫تھا ڈراو‬ ‫‪ 8‬اظارعادستائتوت تی اگ کو کی فی مک‬
‫۔اس‬ ‫عقل کے طریق فکر ‪٤‬‏ طریق استدلال اور طریق تکام سے ا راف ے‬
‫می‬ ‫نین‬ ‫انحراف کا درجەہ کسی دبستان یاکسی شاعر میں کم ب‪۷‬‬
‫‏‪ ٠0۵05‬لکن صب کا مکیڑی ید ية ٌے‪ :‬که شاعرزی ‪:‬ایک غالصلٴ‬
‫وجدانی ؛ غیر شعوری اور شخصی چیز ہے ء یعنی الہام اور تکنیک‬
‫دونوں ہیں وہ عقل کے عمل دخل کے منکر ہیں ۔ خالص شاعری کے‬
‫دبستان کے نزدیک شاعرانہ تجرے چاے کسی صورت میں صادر ھوں ء‬
‫عررانه عنصر‬
‫آن کے اظہار کوااحد طریقد یه ے کە آن کو ھشراغی‬
‫سےنزہ کر کے پیش کیا جائۓ۔ چنانچہ آن کے لیے شعر گوٴ ایک‬
‫کیا‬ ‫یےش‬
‫ایسا عمل حے جشسامعیںرانہ تجرے کاعرق کشید کپر ک‬
‫ایک قسم کا‬ ‫جاتا ےے ء اس لیے ھم کہہ سکنے یں که آن کا تکٹیک‬
‫تجریدی عمل ہے ۔ یه عمل بداھۃ عقل کے وسیلے ے کیا جاتاے ء‬
‫لیکن اس کامقصد یہہوتا ےے کە عقل کے عناصر کو خارج کر دیا‬
‫اپنے آپ سے فرار کرتی ہے ۔ وہ شعرا جو شاعرانه‬ ‫جاۓ ء گویا عقل‬
‫عیری ایک مستعار لباس میں‬‫ان ک‬
‫شآ‬‫نوا موضوع بناۓ ھی‬ ‫اورپ ک‬
‫شع‬
‫املتشاریعضا کے‬ ‫لک عل‬
‫ایک طرح کی نفسیاتیق تحلیل ہوتی ےبھء‬
‫مو نشی انداق ی ان یو وں کے جات معن‬ ‫وق‬ ‫‪۳‬ر‬
‫ملط‬ ‫خلط‬ ‫یسے شعرا کی شاعری میں الہام اور تکٹیک ایسے طر یقے سے‬
‫ہو جاۓ ہیں کہ آن کا علیحدہ کرنا مشکل هو جاتا ے ء تاعم شاعری‬
‫کظیاھری صورت کو قائم رکھنے کی خاطر آنھیں تکنٹیک کی طرف‬
‫دیتنی پڑق سے ۔ سرریلسٹون کااسلوب اظہار اتنا‬ ‫خصوصی توجه‬
‫اعد‬
‫غیر شعوری اور اضطراری ھوتا ہے کہ اس میںکسی قسم کی تکنیکی‬
‫کوشش کا‬
‫سوال ھی پیدا نہیں هوتا ء لیکن ایک نقطۂ نکاہسے ہم ید‬
‫ہوی‬ ‫ھی تکٹیک‬ ‫تض‬
‫کٹیک‬ ‫کہ سکتے ہیں کە سر ریلسٹ شاعری ح‬
‫ہے کیوں کہ اس میں کوئی الہام یا وجدان نہیں ھوتا ۔ البته یه‬
‫تکنیک (کم از کم بظاہر) شعوری اور عقلی نہیں هوتا ۔‬
‫اس ہےپہلے کے ابواب میں ہم جو بحث کر چکے ہیں اس ہے ھم‬
‫وجدان چاےے بادی النظر میں‬ ‫اس نتیجے پر پہنچے تھے کهہ شاعرانه‬
‫؛ کسی غیر شعوری غامل ء‬ ‫غیب‬ ‫کسی الہاسی کشف ؛ کسی نداے‬
‫کی شی تار کی تجتیا ایج سی افری راک کن‬
‫صرف ایک‬ ‫و؛‬
‫ہ‬ ‫خارجی واقعے یا کسی داعیےة باطنی کی صورت میں هو‬
‫اور موضوع‬ ‫کا حرک‬ ‫ئی‬ ‫تخیبلی تجرے میں تبدیل ہونۓے کے بع‬
‫کد ش‬
‫وعر‬
‫ام‬
‫عیں‬
‫ری‬ ‫مع‬
‫شنوں‬ ‫یح‬ ‫بن سکتا ہے ‪٤‬‏ یعنی ایسی شاعری می‬
‫صںحجو‬
‫عو‬
‫د یه بجا ے که ان سب چیزوں ین وہ قوت جسے کولرج اولی‬
‫تخیل کہہتا ےہ شروع ہکیاہرےفرما ہوتی ہے ؛ کیوں کہ وہ انسان‬
‫کے شعوری تجر۔ ‪ ,‬کی بنیادہے ؛ لیکن اولیتخیل آن کو صحیح معنوں‬
‫مشیاںعری کامواد بناۓ پر قادر نہیں ہوتا ؟ جس کی وجه یہ ہے کہ‬
‫وہ نفس انسانی کو حض ادراکات اور تصورات کے وضع کرۓ میں مدد‬
‫ادراکات اور تصورات کو معنی خیز کلیتوں میں تیدیل‬ ‫ان‬ ‫دی‬
‫۔تا' ے‬
‫کرتے کا کام انوی تفیل انجام دیتاہے ء اور اس کام میں وہ عقل کک‬
‫تحلیلی کارروائیوں‪ .‬ہے مددلیتاہے ؛ کیوں کہ معنی خیزکلیتیں بٹاۓ سے‬
‫وہ‬ ‫وادراک مواد کو درھم برھم کرنا پڑتا تےاکہ‬ ‫سےی‬ ‫پہل‬
‫حے آس‬
‫وجدائوں پر جب‬ ‫ر۔‬
‫انه‬ ‫اک‬
‫عرے‬ ‫یہ‬
‫رےازہ بن‬
‫شدی‬ ‫اُس ي۔ نئے سشرے‬
‫ثانوی تخیل کایہعمل ہو چکے تو صرف آس وقت وہ تخیبلی تجرے بنتے‬
‫ہیں اور صرف آ٘س وقت وہ شاعزی کے لیےمناسب مواد ھوے ہیں ۔ جدید‬
‫آن کی‬ ‫تذکزہ کیا ے‬ ‫مغربی شاعری کے جن دبستانوں کا ہم نۓے او پر‬

‫تجربوں‬ ‫نه‬ ‫رطح‬


‫اپر‬ ‫اخیل‬
‫عکیس‬ ‫شاعری میں یه نقص ےک یا تو وہ اول‬
‫شی تغ‬
‫کمووضوع سخن بناتۓے ہیںیاانوی تخیل کے عمل کے ختم ہو چکنے‬
‫یی‬

‫کےبہت بعد ء جب تجربہ شاعر کے شعور ہے خارج ہکور آ٘س کے‬


‫لاشعور میں دفن ہو چکا ہو یاعقل کیتحلیلی کارروائی کاتختۂ مشق بن‬
‫تاربمدیںیل ہوگیاہاو۔لی تخیل کی سطح‬ ‫کر اسیکلجسردلۂ افک‬
‫شاعری تکٹیک براۓ تکٹیک تک یا واردات نفسانی کے عریاں‬ ‫بای‬

‫مظاهرے تک عدود رہ جاتی ہے ۔ انوی تخیل کے معطیات کو لاشعور‬


‫کے اندے کنویں میں پھیٹنک کر آن کو ایک مدت کے بعد وہاں ہے‬
‫نکالئے کانتیجہ یہ ہوتا ے کہ وہ عقلی عناصر جن کیمدد ہے تخیل ‪1‬‬
‫آن سے معنی خیزکایتیں پیدا کتیھیں غائم چمکوتے ہیں اور تجہرے‬
‫انی اصلىی ہیولائی حیثیت کو عود کسر چکتے یچںنا۔نچہ آن کو‬
‫دوبارہ تخیبلی تجریوں میں تبدیل کرنۓ کی ضرووت ہرتقی ہے ء لیکن جدید‬
‫آن کو موضوع سخن بناۓ ہیں ۔ اس کی متبادل‬ ‫ےر‬ ‫شعرا ای‬
‫بساغکی‬
‫صورت میں تخیبلی تجربوں کحےسی اور جذباتی عناصر ضائع ہو چکتے‬
‫ہیں اور صرف عقلىیعناصر باق رہ جاۓے ہیں ؛ جن سصےرف جرد افکار‬
‫وضع کیے جا سکتے ہیں ۔ چنانچہ جب شعرا ان جرد افکار کو بیان کرۓ‬
‫لگتے ہیں تو وہ آن کی عقلی اصلیت کی پردہ ہوشی کی خاطر ہمام عقلی‬
‫دیتے ہیں ۔ رے وہ شعرا جن کى‬ ‫خارج ٭و‬ ‫دا‬ ‫عغتاف گتو ان نے‬

‫ثائوی‬ ‫یک‬
‫ہےاں‬ ‫شاعرانہ کارروائی مشاہدہ ومطالعۂ نفس تک حدود سے ء ان‬
‫تخیل کی اس تشکیلی قوت کی کمی ہوتی ہے جو حسی و ادرای تاثرات‬
‫ئق پیدا کرتی ہے جو ضرف شاعر کےداخلىی کوائف‬ ‫ایسے‬ ‫کے مو‬
‫حادقسےا‬
‫ھنیہیں ہوتے بلکہ خارجی دنیامیںبھی موجود ہوۓ میں ۔‬
‫تخیل ہے یه دوری فی نقطد نگاہہے رومانی تحریک اور آ٘س کے‬
‫ر معاشرق و‬ ‫وہے‬ ‫لاف رعدمل کی ایک علا‬
‫امت‬ ‫ریخکے‬ ‫نظریةۂ شا‬
‫بعر‬
‫ثقافتی نقطۂ نگاہ ہے اس اس کا نتیجہ ے کہ آج کلکاشاعر اپنے آپ کو‬
‫علیحدہ ہستی سمجھتا ے اور اپنے تجربوں کو ایسے‬ ‫ک‬ ‫جاع‬
‫اتیسے‬
‫طاریقے ہے بیان کضرۓروکرت حسوس نہیں کرتا کهعام لوگ آن‬
‫اظہار اور ابلاغ‬ ‫میں شریک ہو سکیں ۔ چنانچە وہ اس قوت کو جو‬
‫دونوں پقرادر ے اور دونوں کو ایک دوسرے سے سبروط کرقی ہے ء‬
‫‪۳۸‬‬

‫کے‬ ‫اجدعیدری‬
‫یعنی تقیل کو ؛ بہت کم استعال میں لاتا ہشے۔‬
‫کا‬
‫اس کا اشکالء اس‬ ‫عجیب و غریب ہیثتی تجرے ؛ آس کی تعقید؛‬
‫ابہام ؛ اس کے خالص نی اشارات ؛ اس کی نفسیاتی پیچیدگیاں ء اس کی‬
‫ء‬
‫ایس‬
‫بلند ذ هنٔی سطح؛ اس کیعال|نه تلمیحات ء اس کے تہہ در تہہ معان‬
‫'‬
‫شاعرانه‬ ‫کاالہام اور تکنیک کےمسائل کےساتھ گہرا تعلق ء؛اکسا‬
‫تجرے کی اھمیت پر اصرار ؛ یه چیزیں ایک طرف تو اس اص کی مظہر‬
‫ھیں کہ رومانیوں کے زماۓ سے اب تک فن شاعری اور تنقید شاعری‬
‫نشو و نما اور انسانی تہذیب کی ترق کے دوش بدوش‬ ‫غی‬
‫اکی‬‫مان‬
‫دانس‬
‫ۓ‬
‫عمق ؛ وسعت اور تنوع سسیں تسرق کی ے ؛ لیکن دوسری طرف اس‬
‫اس ی غاز بھی ے کہ شاعر کے پاس اپنےفی مسائل کے حل‪ :‬کرۓ‬
‫ککیوئی طلسمی کنجی تھی جو اس کے ہاتھ ہےجاتی رھی ہے یا جسے‬
‫وہ کاممیںنہیںلارھا۔ یه طلسم یکنجی تخیل ہے ۔ اقلم عقل کے منصوبه‬
‫نمسوق ہے فرار کر کے جدید شاعری ٹی ۔ ایس ۔ ایلیٹ کے‬ ‫بندانه نظ‬
‫آُسبیابان میںجاپہنچی ہے جہاں تخلیق کے سوتے خشک ہو گئے ھیں ۔‬
‫فطرت ک‬ ‫ءں‬
‫ےا‬‫جرہ‬
‫ان دونوں کے درمیان تخیل کاجو قدری سبزہ زا‬
‫نامیاق قوتیں جلوہ گر دکھائی دبتی ہیں وہ اس کو نہیں جچاء‬
‫کیوں کہ آ٘س مآیںُ٘س کے پیش روؤں نۓ ڈیرے ڈال رکھے تھے اور‬
‫اس کےعلاوہ آُستک عام لوگوں کو بھی رسائی حاصل ہے ۔‬
‫تخیبلی وجدانات صرف شاعروں تمکدود نہیں بلکہ عام انسانوں‬
‫ھی عالم‬ ‫خوابوں می‬
‫کں ا‬
‫بور‬ ‫کے تجرے میں بھی آتے هی‬
‫کںب؛ھی‬
‫بیداری میں ء کبھی استغراق و تامل کے نعیجے کے طور پر اور کبھی‬
‫کے بغیر ۔ مثاا وہ بشارتیں جو خوابوں میں ملتی‬ ‫شش‬
‫وسی‬
‫کک ک‬
‫یکای‬
‫ہیں ء بھولی ھبسوائیتسوں کابیٹھے بٹھاۓ یاد آ جانا ء گفتگو میں‬
‫لطف انگیز بذلہ سنجیوں کاسوجھنا ؛ کسی مشکل مسئلےکا حل سوچ سوچ‬
‫کر عاجز آ جاۓ کےبعد اس کیگتھی کایکایک خود بخود ساجھ جاناء‬
‫جیہے کسی نکےہیں سے آ کر اس کا حل کان میں پھونک دیا ہو ۔‬
‫ساھرین سائنس ‪٤‬‏ فلسفیوں ‪٤‬‏ ریاضی دانوں ؛ سیاسی رھناؤں ؛ ارباب‬
‫‪۳‬‬

‫کدےوسرے شعبوں میں کام کرۓ والے‬ ‫عممول‬


‫اور عل‬ ‫نمسوق‬
‫نظ‬
‫متوقع طور پر‬ ‫یور‬
‫لوگوں کیبیسیوں مشہور مثالیں ہیں جن میں اغن ک‬
‫ایسی ایسی باتیں سوجھ گئیں جوپہلے ان کےسان گان میں بھی نتھەیں‬
‫اور جو ن‪ 22‬لیےاھم انکشافات ء؛ عصر آفریں ایجادوں اور انقلاب انکنڈ‬

‫فیصلوں کی بنیادیں ثابت ھوئٗیں ۔ ان چیسزوں کو نفس انسانی کی‬


‫ان‬ ‫طرف‬ ‫ری‬
‫سکن‬ ‫رروائیوں سے منسوب نہیں کیا جا سک‬
‫دتاو‬
‫۔لی‬ ‫عکقالی‬
‫کو" خارق عادت ‪:‬اباب یا حمن اتفاق پعرعول کرنا بأھنیِسات کے‬
‫قواے نفسانی کیفعالیت ہے انکار ے ۔ ان کی توجمهہ ہمارے نزدیک یه‬
‫جںہ۔اں تک‬ ‫ے کہ وہ تحیل کی بالیدہ کیفیتوں کی پیداوار ھوی ہی‬
‫نہیں۔ وہ‬ ‫خود تخیل کاتعلق ہے ء وہ بھی شاعروں کے لیے خصوص‬
‫ہر نئے انکشاف ء ہر نی ایجاد ء ھر نئے‬ ‫ہیں‬ ‫زندی کے تمام شعبوں‬
‫کام ھی‬ ‫کیوں کەه اک‬
‫سا‬ ‫رابطے ء ہرنئے نظام کامنبع ھوتا ے؛‬
‫ایک طرف تو‬ ‫یال‬ ‫چیزوں کے امکانات کو ے نثقاب کرنا ہے ۔ شا‬
‫تعرخک‬
‫الفاظ کے نئے‬ ‫روابط اشیا کے نئے نئے امکانات اور دوسری طرف روابط‬
‫ہمہ تن چشم و گوش وہتا ے ۔ چنانیہ‬ ‫ھر وقت‬ ‫نئے امکانات کے لیے‬

‫ان دونوں قسموں کے امکانات میں ہے جب کبھی کسی نۓے امکان کا‬
‫وجدانی انکشاف آآسپرہوتا ے اس کاعمل تخلیق شروع هو جاتا ے ۔‬
‫وہ‬ ‫اس کے تخییلی وجدانات کیامتیازی خصوصیت ہی يہ ہوقیق ہے‬
‫کہ‬
‫ەمل ہوتا ے ؛ کیوں کہ وہ ایک تخلیتی داعيه‬
‫بع‬ ‫ئل‬
‫اے‬ ‫شروع ھم‬
‫یس‬
‫ہوتا ے ۔ کئی مرتبہ توعمل اظہارفوراً بالفعل شروع ہو جاتا ے‬
‫رھتاے ۔‬ ‫تکوی‬
‫لت‬ ‫اور کی مرتبہ ہفتوں ء مہینوں بلکە بر‬
‫مسوں‬
‫لیکن جہاں عمل اظہار شروع ھوا وهیں شاعرانه وجدان کاری گر کک‬
‫تخلیقی کوشش میں تبدیل ھوا ااوپرنی ماورائیت کھو کر تکنیک کا‬
‫ایک عقلی و عملىیمسثلہ بناء یعنی افلاطون کے الفاظ میں ”'موسیقی؟“‬
‫ےکا کر اہی آمدد یالییلےایاا۔‬
‫سی ۔ ایج ۔ بورا (ہ ‪ )0. 7]. 03‬اپنے مقاللدہ ''الہام شواعری؛؛‬
‫‏(‪ ٥3 206٥77‬‏‪٥۳۵‬ہ )اصمْذ ںیم هنارعاش ماہلا یک تیفیک وک ںوی‬
‫بیان کرتا ہے ‪:‬‬
‫”'شاعر کے اوپر کوئی ایسی چیز مسلط ہو جاتی ے جو اس ک‬
‫ساری ہستی کو جذب کر لیتیہے اور باق تمام دلچسپیوں‬
‫کو اس کی شخصیت ہے خارج کر دیتی ہے ۔ یه چیز کیا‬
‫ہوتی ےہ ؟ اس کا من و عن بیان کرنا مشکل ہے لیکن ہم‬
‫اس کے چند عناصر کی نشان دھی کر سکتے ہیں ے ون ےئ‬

‫عنصر تو کوئی ایسی چیز ہوق ےے جسے ھم ایک خیال‬


‫کہہ سکتے هیں ء اگرچھ بہت سی باتوں میں وه اتتی مبمم‬
‫اور غیر واضح ہوق ےے کہ اہے یہ نام صحیح طور پر نہیں‬
‫ذیاجاسکتا ۔ اس میں بڑی طاقت موق بے اوز ایک اپنی‬
‫ھی مخصوص فضا ہوی ہے ء اگرچہ شروع شروع میں وہ‬
‫اتی غیر متعین ہوتی ے کہ اس کا عقلىی تجزیہ نہیں کیا‬
‫جا سکتا ۔ وه شاعر کے اوپر ایک بصیرت کی عظمت اور‬
‫تحکم کےساتھ قبضه ج| لیتّیہے ۔ وه اس سے پوری طرح‬
‫واقف نہیں ھسوتا لیکن پھر بھی وہ امےحسوس کسر سکتا‬
‫کی‬ ‫ہے ء بلک اے ایسا معلوم ھہوتا ہے کہ جیسے وہ آُس‬
‫آنکھوں کے سامنے ہو ۔ اس کیفیت کے ساتھ ساتھ الفاظ‬
‫نقشے بناے ہیں ء‬ ‫قجیوانہ‬
‫ییں‬
‫سہ‬‫مںوآتے‬
‫شاعر کے ذہن می‬
‫ہے معنوں سے آٹنا نہیں ھوتاے یہ کیفیٹ‬ ‫ان‬ ‫لیکن شاعر‬

‫ایک شدید‬ ‫سکون نہیں ہسوتی بلکه حرکی ھوق ے۔وه‬


‫ہوتی ہے اور اس کے اندر ہے بڑے شدید‬ ‫شمہ‬
‫رچکا‬
‫سلیت‬
‫فع‬
‫پھوٹنے لگتے ہیں ۔ ان کے ساتھ ساتھ‬ ‫خریقو‬
‫ایلات‬ ‫او‬
‫الفاظ شاعر کے ذھن میں آے ہیں جو نە صرف ان کو واضح‬

‫کرۓے ہیں اور اس کینظم کے عمومیٰ نقشے کے ساتھ ان‬


‫کو مر‌بوط کرے هیں بلکە خود بھی بڑی شدت اور قوت‬
‫قوت‬ ‫ایسی ژزبردست‬ ‫کا مال ھوتۓے ھنیں ‪ -‬الہام ایک‬

‫بروۓ کار آتا ےہ کہ کوئی چیز اس کے‬ ‫تےھ‬


‫اک‬‫سادی‬
‫ار‬
‫‪۴۴۱‬‬

‫مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتی ۔؛؛‬


‫لونگسٹن لوز ‪(٥٥‬‏ آ‪٤ ١٥‬ط‪08[٣٥(٥‬ع‪8‬ا)‏ کہتا اے ‪:‬‬
‫سںے‬
‫جےیہی‬
‫”تخیپلی تخلیق ک قوت کے اعال اسی قسم کے ہہو‬
‫نوع انسانی کے عام تجرے میں آتے ہیں فرق صرف اتنا هوتا‬
‫ےک تخلیتی تجرے بہت بلند سطح پر ہوتے یں اور ان میں‬
‫غیر شعوری عوامل کو ایک غیر معمولی توانائی حاصل ہو‬
‫جاتی ےے ۔ جوهر قابل میں ہمیشه ایک ایسا عتنصر هوتا ۓ‬
‫جسے گوئٹے ‪ 610088‬کےنامسےمنسوب کرتا تھا ء لیکن‬
‫بلند ترین جوھر قاابملتکییازی شان یہ ے کہ اس کی وہ‬
‫اگھانی ٭ ے ائدازہ اور ے پناہ قوت جو طبیعت کے اعاق‬
‫سسیں ہے جوش کھا کسر ابل پڑق ے ایک قوت ارادی‬
‫ارادی اٴ جگه‬ ‫قوت‬
‫ی مطیع فرمان ہویق سے ؛ اور یه‬
‫میں‬ ‫ےہ جکوثرت‬ ‫صیرت کا آلۓے کار وق‬
‫بسی‬
‫ایک ای‬
‫وحدت ء؛انتشار میں جمعیت اور ھیولیٰ میں صورت کو دیکھ‬
‫سکتی سے ۔؛‪۶‬‬

‫‪ )10:87‬اۓپنے مقالات و خطبات میں الہام‬ ‫ہال والیری (‪[1 +:‬‬


‫اور تکٹیک کے باھمی تعلق پر بڑی سبر حاصل بحث کی سے ۔ ہم ان‬
‫میں سے چند اقتباسات کے ترجمے ذیل میں پیش کرتے ہیں ‪:‬‬
‫”وہ نظمیں جو کال فنکے ایسے نھموۓ ہوق ہیں کہه ان کو‬
‫پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ان کا عالم وجود میں‬
‫عادت‬ ‫خارق‬ ‫لطیفه غیبی ؛ ایک‬ ‫آنا ایک معجزہ ؛ ایک‬
‫واقعه ء ایک مافوق البشر کارنامه تھاء ایسی نظمیں محنت و‬

‫عرق ریزی کے شاہکار ؛ ذھانت و بیدار مغزی کے جسے ء‬


‫قوت ارادی کی پیداوار اور تنقید نافسعکلےول تموۓ بھی‬
‫ہوتی ھیں۔۔؟“‬
‫ھے۔‬ ‫ختلف‬ ‫”'شاعر کا تصور ہارے زماۓ میں پراۓ زمانوں سے‬
‫ایک 'ژولیدہ مو دیوانه نہیں جو رات بھر کے بجحران میں‬ ‫وہ‬
‫‪"۴۲‬‬

‫ایک پوری نظم لکھ ڈالتا ے ۔ اس کے برخلاف وه ایک‬


‫خٹک دماغ سائنس دان ء بلک ایک عالم جبر و مقابله ے ء‬
‫پیش‬ ‫انی خدمات‬ ‫جس نے ایک خواب دیکھنے والے کو‬
‫کررکھی ہیں ۔؛>‬
‫روانی اور اتتی‬ ‫تینءی‬ ‫اعلیل کلام میںاکثر اوقات اتنی ھم‬
‫اوار‬
‫ہے تکلفی ہوتی ہے کہ پڑھنے والے یہ سمجھتے ھیں کہ گویا‬
‫خارجی قوت‬ ‫وہ تمام و کال آمد کا نتیجه ہے ؛ یعنی کسی‬
‫ش‬
‫ےاعر کو اپنا آلهُکار بن کر آُسسے کہلوایا ھے ۔ اسی کا‬
‫نام عرف عام میں وجدان ء الہام ء القاء ء آمد وغیرہ ے ۔)؛‬
‫اور‬ ‫راری‬ ‫ِسڑیٰ ے قاعدہ ء سے اع‬
‫اتبا‬
‫ضرطء‬ ‫اعشر ‪ 132۸‬کشا‬ ‫رن‪۰‬‬

‫موق ۓ‬ ‫یہ‬
‫دےا‬ ‫ات‬
‫پفاق‬ ‫طج‬
‫رسح‬ ‫زود شکن ہوقی ہے ۔ وہ‬
‫اس کیفیت' کا‬ ‫اسی طرح فوراً غائب بھی ہو جاتی ہصےر‬
‫۔ف‬
‫پیدا هونا شاعری کےلیے کاف نہیں ۔ جس طرح کوئی شخص‬
‫اگر خواب میں ایک خزانه دیکھے تو یہ بجاۓ خود اس اس‬
‫کھلئے پر اپنے بستر ی پائٹتی‬ ‫ھ‬ ‫نەکوہ‬ ‫کغیبانت نہی‬
‫آں ک‬
‫شاعر کاکام يہ نہیں کہ وہ‬ ‫اگ‬
‫یا۔‬
‫ک‬ ‫خزاۓ کو پڑا پاۓ‬
‫ککاام یہ ےہ کہ‬ ‫س‬ ‫شاعرانہ کیفیت کا تجربہ کر‬
‫آے٘۔‬
‫ایک شاعرانه کیفیت پفاک ہے‬ ‫ن ک‬
‫دےر‬ ‫دوس‬
‫اروں‬

‫اور‬ ‫سالا مال ہو‬ ‫””شاعری چاے کتنی ھی حسیات و جذبات سے‬
‫ھی وارفتگق ھوء پھر بھی یه ثابت‬ ‫ع چا‬
‫نےی‬ ‫اس‬
‫کمیں‬
‫کرنا آسان ے کہ اس کاتعلق عقل کیقوتوں ہے ھوتا ے ء‬
‫کیوں کہ اگروہ اصولی طور پرایک جذبھ ھوتا ے تو وہ‬
‫میں‬ ‫آاپلکف‬
‫واظ‬ ‫انی ھی قسم کا جذبہ ھہوتا ۓے جاوپنے‬
‫ظاہر کرتۓ کے لیے بیتاب ھہوتا ے ۔ صوف اور عاشق ممکن‬
‫ہے کهھسکوت پرقانع رہیں ؛ لیکن شاعر کی فکر سخن یا‬
‫آمد سخن خارجی دنیامیں کسی نی چیزکے اضافےکی مقتضی‬
‫ہوتی سے ۔ اس نبی چیز کے پیدا کرنۓ کلےیے جو قوتیں‬
‫‪"۴۳‬‬

‫استعمال کیجاتی ہیں وہ عقل ہے تعلق رکھتی ہیں _؛>‬


‫ئےیس (‪٥( 0.‬ذ‪6,1٥‬‏ ‪ )0. 7031‬شاعرانهکیفیت اور عمل‬ ‫۔ڈ‬‫سلیو‬
‫شعرگوئی کے ختلف مرحلے ذیلکے الفاظ میں بیانکرتا ےےء‬
‫شاعرانہ تخایلنفحعضالی نہایںشھهوعتاا۔ر خود بخود وجود میں‬
‫نہیںآ جاتۓے ۔ اکثر لوگوں کے ذہن میںشاعرانہ تخیل کا ید‬
‫تصور ے کم گویا روح القدس ھیولائی انتشار کے ایک وسیع‬
‫و بسیطمنظر کاایک کیفیت ے تعلقی کےساتھ مشاعدہ کر‬
‫رھا ھے ۔ انتشار اس وقت تک نظام میں تبدیل نہیں ھوتا‬
‫نئە‬ ‫اس پر سکوز‬ ‫جب تک شاعر اپنی توجە اتی شدت ے‬
‫کو‬ ‫توں‬ ‫حو م‬
‫یضمر‬ ‫لی ب‬
‫اغفی‬ ‫کسرے کے اس کی‬
‫صسار‬
‫میںهرنی نظم‬ ‫۔ ٹی ۔ ایس ایلیٹ ک راۓ‬ ‫بروئۓ کارلےآۓ‬

‫ناقصں‬ ‫یکا‬
‫ک‬ ‫اور اس‬
‫انظم‬ ‫ؤی‬
‫شش‬ ‫ایک نیا اقدام ؛ ای‬
‫کک نب‬
‫بدل ہو ہےجس کےلکھنے کے قابل آج تک کوئی شاعر‬
‫پیدانہیں ہوا ۔ چنانچہ شاعر ایک تاثر ےے ؛ جسے تجرے کے‬
‫بجر ے پایاں کاایک قطرہ کمہنا چاہیے ء آغازکار کرتا ے ۔‬
‫اس کے بعد ایک مرحله آتا ے جس میں ایک از خود رفتگی‬
‫ہوتا ے ؛ اس عالم میں نمثالیں بڑی تریزفتاری‬ ‫کعااسا‬
‫لم‬
‫کےساتھ یکے بعد دیگرے ذھن میں آتیہیں ۔ ضرورت اس بات‬
‫کی ھوق ہے کہ ارادہ اور عقل کو معطل کر دیا جاۓ تاکه‬
‫لاشعور کگیہرائیوں سے مدفون و مکنون تجرے نکال لاۓ‬
‫مرحلے میں شاعر کی توجھ زیادہ شدید‬ ‫یس‬
‫۔رے‬ ‫جا‬
‫تئیں‬
‫مال برائش (‪٥‬ط‪)10٥[٥0٥٥٥‬‏ کے الفاظ‬ ‫ی۔‬
‫ہ‬ ‫ہو جاتی سے‬
‫م”یں‬
‫'عقل کی عبادت““ کا مرحلہ ے ۔ اس میں انتقاد نفس‬
‫کاعمل شروع ہو جاتا ہے ء یعنی نظم کا جو نقشہ شاعر‬
‫س کے مطابق تمثالوں کا‬ ‫اے‬ ‫کے ذھن میں اجاکر ہو رہا‬
‫ود و قبول ‪ ....‬تخیل تفعکلریہےحدہ کوئی قوت نہیں ء‬
‫بلکہ یه کہنا چاہھیے که وہ ایک اضطراری یا غیر شعوری‬
‫‪۴۰۳۴‬‬

‫عمل تفکر ہے ۔ ہارا شعور روشنی کاایک چھوٹا سا جزیرہ‬


‫ہے جس کے ارد گرد ایک بجر ظلات ہوتا ہ‬
‫نےظ‬
‫۔م کا نفس‬
‫صورت‬ ‫؛ کسی تمثال ی‬ ‫جو تخیل کا عطيه ہوتا ے‬ ‫مضمون‬

‫میں نمودار ہوتا ےے ۔ اس عطیے کا قبول اور اس کا امتحان‬


‫دونوں عمل ایک ساتھ ہوتے ہیں ‪ ,...‬شاعر کو اکثر‬
‫بالیقین یه معلوم نہیں هوتا کە وہ کیا کہنا چاہتا ے ء جب‬
‫تک کہ وہ اہے سچ مچ نہ کہہ چکے ۔ وہتہذیب و ت زکیە‬

‫کجےدالیکیاتی عمل کے ذریعے اپتے مطلب تک رسائی‬


‫‪٤٤‬‏‬ ‫پاتاا‬
‫ۓ‬

‫‪٥٥٥6‬ا‏ ‪ )7:‬شعر گوئی کے عمل‬ ‫رابرٹ پین وارن ‪(<٥٣‬‏ ‪<٥ ۶٢٢۲‬‬
‫کو ایک عمل انکشاف کہتا ہے ۔ ملاحظہ ہو ء‬
‫”کسی نظمکیتخلیق آتنیھی ایکعمل انکشاف ہوتی ہے جتنی‬
‫که ایک عمل تخلیق ۔ ہو سکتا ے کە وہ کسی غیال سے‬
‫فروع فرایسای مکی مل ہو کے ‪۲‬ی‬
‫کوسایقعے سے جو شاعر کے لیے ایک خیال انگیز کیفیت‬
‫رکھتا ے ؛ یعنی اس کیتمام و کال شخصیت یا ُس کےتمام‬
‫و‬
‫تکا‬
‫جلرے کی روشنی‪ :‬‏ میں اس کے لیے علامتی ‏ امکانات‬
‫رکھتا ے ۔ یهبھی هوسکتا ے کہ اصل میں جو چیز فکر‬
‫ذریعے‬ ‫کے‬ ‫شعر کا باعث بی تھی ؛ وہ ایک سلسله ائتلافات‬

‫کسی اور چیز کی طرف اس کیتوجە کو مبذول کرے جو‬


‫س بجناۓء کیونکە وہ پہلے سوجھی‬ ‫او‬ ‫ساصل‬ ‫نظم‬
‫ا کی‬
‫کوئی‬ ‫ہوئی چیز سےزیادہ علامتی امکانات رکھتی سشےع‬
‫۔ر‬
‫بر 'صورت بہت‬ ‫کعامل چاۓے کیسے بشھیروع ہووہ‬
‫ء‬
‫پیچیدہ هوتا ے ۔ کوشش و کاوش کا درجہ ختلف ھوتاے ء‬
‫ہیں زیادہ ککہیں کم ء لیکن یہ کوئی غیر عقلیعمل نہیں‬
‫چںیجزویں بن‪ :‬بلاۓ شاعر کے‬ ‫خل۔یق کے لجے می‬ ‫ہو‬
‫تتا‬
‫اگندہررکایئیوں ہے نکلکر آ جاتی ہیں ء ہو سکتا ے کہ‬
‫دس‬

‫وہ ماضی کیکسی فکری کاوش کےنتایغ ہوں ۔؟“‬


‫ایک ابنا عمل ہے جک‬
‫سے ذریعے شاعر اپنے‬ ‫لکا‬
‫'‬ ‫مح‬
‫عر ک‬
‫موی‬
‫اکثر‬ ‫تجرے کے معانی اپنے اوپر سےنقاب کرتا ھے ۔ اس عم‬
‫نلتکیاجہ‬
‫معانی ؛ مزید وسعت ء‬ ‫ز می‬
‫یںد‬ ‫یه ھوتا ےے که شاعر کے اصلی وج‬
‫مدان‬

‫کی قدرت‬ ‫ئری‬ ‫مزید عمق ء مزید پہلو پیدا ہوجاتے ہیں ۔ لی‬
‫ککنوشع‬
‫یعنی تکنیکی چابک دستّی چا کتنی ھی اعلول پاۓکیکیوں نہہو ء وہ‬
‫الہام کےفقدان کیتلای نہیں کر سکتی ۔ وہ عض الہام کے عطیات کو‬
‫بطریق احسن پیش کرۓ میںمدد دے سکتی ہے ۔ کولرج کہتا ہے که‬
‫”وہ شخص جس کی روح میں موسیقی نہیں ؛ کبھی صحیح مع‬
‫۔نوں‬
‫شامیعںر‬
‫نہ‬
‫سیں‬
‫کہتوا ۔؛؛ موسیقی ہے آآسکمیراد وھی تھی جو افلاطون کی‬
‫بوں کی صلاحیت ۔ وہ آگے چل کر کہتا ہے ‪:‬‬‫ربلی‬ ‫تھی ء یع‬
‫تنیجتخی‬
‫”موسیقیانه لذت کی حس اور اکسے پیدا کمرتۓے کی صلاحیت‬
‫دونوں تخیل کےعطبے ہیں ۔ یه صلاحیت اور اس کے ساتھکثرت‬
‫کو ایک وحدت تاثر میں تبدیل کرۓ اور ایک سلسله‬
‫س‬
‫کزی خیال یجاذے کے ذریعے مر‌بوط‬ ‫یکو‬
‫ک‬ ‫خیال‬
‫اات‬
‫کرنۓ کیقوت ء یه دوتوں مرشقی'اؤفت ‪.‬ےس ۔ہبترٴناتئوی‬
‫جاسکتی ہیں ء لیکن سیکھی نہیں جاسکتیں ‪)٤‬‏‬
‫گوئٹے )‪(6:[٥٤٥06‬‏ اگرچہ جوھر قابل کغےضبر شعوری عمل کا‬
‫معتقد تھا اور اس کے خیال میں وہ شاعر سے جو جی چاےہکرا سکتا ہے ء‬
‫تاھم وہ الہام و تکنیک کے توازن و تواف یکو ضروری خیال کرتا تھا ۔‬
‫وکہمہتا ے ‪:‬‬
‫”'شاعری میں دو قسم کے اناڑی ہوتے ہ‌ئ ؛ اول وه جو میکائیکی‬
‫مےجاور‬
‫ھ یه‬
‫تا‬ ‫سا‬
‫وھل کر‬
‫ستا‬ ‫میں تغ‬
‫تافل‬ ‫رے‬ ‫پہ‬
‫بلواکے‬
‫اور جذبات سرائی کی مائش‬ ‫سکےے اکر اس نے روحانیت‬
‫وہ جو حض میکائیکی‬ ‫۔ا‬ ‫وکی‬
‫سار‬ ‫کر دی تبوڑا کار مما‬
‫دیاں‬
‫وسائل ہے ؛ جن میں وہ ایک کاری گرکیسی چابک دسّی‬
‫حاصل کر سکتا ے ؛ شاعری کی روح کو شیشے میں اتارۓ‬
‫‪۴۴۲‬‬

‫ککیوشش کرتا ے ۔“‬


‫لیسلز ایر کروی (‪٥‬ذتاص×ہ٭‏ ہ‪0۸٥٥‬‏ ة‪8٥٥1٥8‬ھ])‏ ۓ اپنی کتاب‬
‫‪6‬م‪ )]۴‬میں اس موضوع پر‬ ‫”نظریۂ شاعری““ (ج‪]۲٣‬ٴ‪02٥‬‏ ‪۶‬ہ ع‪5‬‬
‫چند معنی خیز باتیں کہی هیں جنھیں ہم ذیل میں پیش کرتے ہیں ‪:‬‬
‫سورککتراے کہ ہم اس کے‬ ‫”وہ شاعر جو ہمیں اس پر مجب‬
‫طتوکےر پر عحسوس کریں بجی‬ ‫ک زندہ قو‬ ‫اامیکو‬‫الہ‬
‫طور پر ایسا شاعر ھوتا ے جس میں اتی قدرت فن وق‬
‫ہے کە اپنے الہام کو پیش کر سکے ء اور اس کا اللہام جتنا‬
‫قوی ہو اتتی ھی قدرت فن کی اے ضرورت ھہویق م‬
‫۔ےیه‬
‫اور‬ ‫اضت‬
‫رقیو‬
‫لازمی ے که اس کا تکنیک مدتوں کی مش‬
‫انیبن گیا‬ ‫رےت‬
‫طلی‬
‫فکے‬
‫کگارریانە شعور کی بدولت اس‬
‫ریت‬
‫ار ف‬
‫ہ شاع‬
‫س که‬
‫هو ‪ ....‬جوەر قابل کے معنی یه نہیں‬
‫ہے بغیر گزارا کر سکتا ہے بلکہ اس کے معنی یہ ہیں‬
‫ایسے ایسے کام کر دکھاتا‬ ‫مہارت کی بدولت‬ ‫ی‬
‫ف وہ‬
‫که‬
‫حے جن کے متعلق ہم یه سمجھتے تھے که ان کاکرنا اممکن‬
‫ک‬ ‫نا‬
‫مضمون ؛‬ ‫س‬
‫فکا‬
‫نظم‬
‫تون‬ ‫اںو؛ل‬
‫”الہام کے دو پہلو ہوتے ہی‬
‫دوسرا وہ معانی جن سے وہ مضمون شاعر کے نفس میں وارد‬
‫طرح دہات بھئٹی میں‬ ‫س‬
‫ج؛‬‫هو کر مالا مال هو جاتا ےہ‬
‫انتہائی درجة حرارت کوپہنچ کر مجسم حرارت بجناتی ہے ۔‬
‫دوسرے الفاظ میں نظم ک روح رواں‪ ...‬۔““‬
‫”'شاعری کی زبان حض خیالات کا لباس نہیں ہوتی ۔ وه خود ایک‬
‫تخلیق ہوتی ے اور پڑھنے والے کنےفس کو تخییلی تجلی کا‬
‫ایک زندہ لمحه بنا دیتی ے ۔؛؛‬

‫”اشعر گوئی کاعسل وہ مرحللهہ ے جس میں مواد ء وہ چاے‬


‫کچھ بھی هو ء بجاۓ خود الہامی وجدان بن جاتا ے ‪....‬‬
‫وہ اپنے‬ ‫شاعر کےلسانی فن کامقصد صرف یہ هوت‬
‫کا ے‬
‫ہ‬
‫م‪۳۴۲‬‬

‫ومسکو‬
‫روں تک منتقل کرے ۔ زبان کا معامله‬ ‫ال‬
‫دہا‬
‫ھو‬
‫ۓ ھی مخیل کا وہ انفرادی لمحہ جس ۓ شاعر کو اپنے‬

‫سای ای میتی کی ترغیے دتیھی مارے بد با‬


‫آجاتا ھے۔ لسانی تفکر کو اس عمل سے کوئی تعلق نہیں‬
‫ھوتا ۔ شاعری ایک تر۔‪ ,‬ء ایک تخیہلی تجرے ہےشروع ہوتی‬
‫ہاےور لسانی اظہار کےمرحلے سےگزر کر از سر نو ایک‬
‫تخیبلی تمجربہ بجناتی بے ۔؟؛‬
‫شعرکوئی کاعملبجاۓ خود ایکتخیل افروز ء جذبہ انگیز اور‬
‫الہام اور تکٹیک دونوں میں تخیل پوری‬ ‫تجربہ آفریں عمل ہ۔ےاگر‬
‫طرح کار فرما هو تو الہام خود اپنے لمینےاسب تکنیک انتخاب کر لیتا‬
‫سے اور تکٹیک الہام میں خل ہونۓے کے بجاۓ اس کو برقرار رکھتاے ۔‬
‫الہام میں عملىیپرفنی اور تکٹیک میں ماورائیت پیدا ہوجاتی ے ۔‬
‫بلند تریں شاعری ؛ بالخصوص بصیرت کی شاعری میں پڑھنےوال ےکو ایسا‬
‫حسوس ھوتا ے کہاگرچہ شاعر نےکوئیبہتبڑی باتکہی تھےلیکن‬
‫شاعر کا‬ ‫نی‬ ‫کوئی اس ہےبھی بڑی بات اس کے تخیل میں تھ‬
‫ییعء‬
‫معجزۂ اظہار کسی اپنےسے بھی بڑے معجزے پر اشارت کرتاے ۔‬
‫الہام اور تکٹیک ایک ہی وجدانی تجرے کے دو پہلو ہوتۓے ھیں ۔‬
‫اربن (ه٭ا×تا) اہی کتاب ”'زبان اور حقیتت؛؟ ‪٥‬‏ ج‪0‬ا عصھ]م)‬
‫(‪7‬اذلك‪٥٥‬؛ ‪8٥‬‏ میں اس موضوع پر بحٹ کرتے ہوۓ کہ زبان‬
‫دتاکے‬
‫نی علم اور اس کے اظہار دونوں کا وسیله‬ ‫کیوں کور حق‬
‫جیق‬
‫بنتی ے ذیل کے الفاظ میں اظہار راۓ کرتا ہے ‪:‬‬
‫''وجدان اور اظہار کے ایک دوسرے ہے لاینفک طور پر مربوط‬
‫هوۓ کاجعوام اصول ہے ء وہ جالیاتی وجدان پر بالخصوص‬
‫ضہیئ‬
‫مت او‬
‫ورن‬ ‫منطبق ہوتا ہے ۔ اس کےمعنی یہ ھیں‬
‫م کہ‬
‫یماضمون اور اسلوب ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کے‬
‫جا سکتے ۔ یهنہیں کہفنکار کو پہلے کسی چیز کا وجدان‬
‫ھوتا ے اور پھر وہ آآس کے لے مناسب اسلوب اظہار‬
‫‪۴,‬‬

‫ڈھونڈتا ے ء بلکە وہ اپنے اسلوب اظہار کے ذریعے چیزوں‬


‫کا وجدان حاصل کرتا ہے ‪ ......‬وہ روابظ جو زیادہ کلی‬
‫اور مثای ہوتے ہیں ان کا براہ راست اظہار نہیں کیا جا‬
‫ن اسی وج سے ان کا اظہار وجدانی اسالیب سکےیا‬‫عتای۔‬‫سک‬
‫جاتا ے ‪٢‬ک“‏‬
‫دسواں باب‬
‫شاعرانه تخیل اور زبان‬

‫سے چنتدیجسمرلےے؛بجاوبماسیںبجوشیلےک عیبارتیں نقلکیگئیمیں ہم آمنیں‬


‫ابکےلیےکلیدی جملوں کی حیثیت رکھتے ہیں ء‬
‫‪:‬‬ ‫دوبارہ نقل کرتے ہیں ‪:‬‬
‫لازما شاعر ہھوتا ے ؛ کیوں که‬ ‫”ساج کےبچپن میں ہر مصنف‬

‫آس کی زبان قدرق طور پر بذات خود شاعری ہوتی ے ۔)؟‬


‫”ہر اصلىی زبان جو اپنے منبع و خرج کےقریب ہو بہ جاۓ خود‬
‫ایک مہم بالشان ؛ طویل اور مسلسل نظہمیکوالیٰ‬
‫ہو‬
‫۔ق؟ۓے‬
‫“‬
‫۔)؛‬ ‫”'زبہان غیل کیپیداوار ۓ‬

‫ے جس میں تخیل کی روشنی اپنی ہوری آب و تاب‬ ‫ئا‬


‫ییک‬
‫نه‬ ‫”ز‬
‫آبان‬
‫کسےاتھ پرتو افگن ہوت‬
‫۔قی؛ہے‬
‫؟‬
‫جس مضمون ہے منقولۂ بالاعبارتیں نقلکیگئی ہیں سی میں اس‬
‫موضوع پر ایک اور عبارت حسب ذیل ہے ‪:‬‬
‫”دنیا کے زمانه شباب میںہرطرح کیگفتگو شعر میں ھوا کرق‬
‫تھھی ۔ ابتدائی ادوار کے لوگوں کی زبان استعاروں ہے مالامال‬
‫جچن کا‬ ‫۔ وہ چیزوں کے آن باعمی تعلقات پر‬ ‫سوتی ے‬

‫ای ے‬
‫کۓه‬ ‫ادراک پہلے کبھی نەهوا تھا اپنا ٹھپا لکا‬
‫تدیت‬
‫وہ مستقل طور پرذھن میںقائم ہو جائیں ۔ ہوے ہوۓ وه‬
‫الفاظ جو ان تعلقات کینشان دھی کرتے ہیں سا‬
‫ثلماو‬
‫بت‬
‫خیسالات کی تصویروں کےبجاۓ خیسالات کے ٹکڑوں یبا‬
‫خیالات کی اقسامکیعلامتیں بن جاتے ھیں ۔ اگر ایسے میں‬
‫کوئی نئے شاعر نە آئیں اور آ کر تعلقات کے ان ٹوئۓے ہوۓ‬
‫‪۰‬ھ‬

‫رششوں کو نئۓے سرے سے نہ ججوڑیسں تو زبان انسانی‬


‫رسل و رسائل کےبلند مقاصد کےلیے ناکارہ ہو جاتی ھے ۔)؛‬
‫بیندیتوکروچے )‪(٥٥0٥٥0‬‏ ‪ )0069068‬ایک جگە اپنے ایک پیشررو‬
‫ک ایک راۓ نقل‬ ‫‪٥‬ذ‪٥‬‏ اط‪)0:‬‬ ‫فلسنی جاسا تستا ویکو ‪(٥1۷‬‏‬
‫ہم ذیل میں پیش کرتے ہیں ‪:‬‬ ‫مہ‬ ‫کرتا ھتےج‬
‫رسجکا‬
‫”'شاعری حض تلذذ کے ایک موجه گزراں کی پیداوار نہیں ھوتی ء‬
‫بلکة ایک فطری جبوری کانتیجہ ے ۔ وە ایک ایسا مثشغلهة‬
‫ی؛‬
‫وں کە آُس‬ ‫کتے‬ ‫نہیں ج‬
‫بسغکے‬
‫یر بھی ھگزمارا کر سک‬
‫کے پ مجر فکر کا عمل ہی نا مکن ہے ۔ وہ نفس انسافی کا‬

‫ایک ابتدائی عمل ہے ۔ اس ہے پیشتر کهھ انسان کلیے وضع‬


‫کر سکتا ؛ آس کے لیےضروری تھاکہ وہ اپتےتخیل سےکام لے۔‬
‫بسل‬ ‫قو‬
‫اہ ا‬ ‫ٹوئیے ماررےۓ کے بعد‬ ‫میک‬‫اا ل‬ ‫مدتوں تک‬
‫ٹ خی‬
‫ہوا ہےکہ اپنی قوت فکر ہے کام لے سکے ن اس سے پہلےکهھ‬
‫وہ باھر کی دنیا کاواضح ادراک حاصل کر سکتا ء اس دئیا‬
‫دھندلے نقوش اس کے حواس پر مرتسم ھوۓ۔‬ ‫دے‬
‫ھندلے‬ ‫ک‬
‫کلام ناطق سے پہلے اس نگےانا سیکھا ء نثر میگںفتگو‬
‫کرۓ سے پہلے اس نے نظم سسیں باتیں کسرنا سیکھا ء‬
‫استعال کرتنے ہے پہلے آ٘س نے استعاروں ےٗ‬ ‫اصطلاحات‬
‫کام لیا آ۔ج بھی استعارہ آمیز زبان اس کی فطری زبان ۓ ۔؛؟‬
‫انی کتاب ''انجانی چیزوں کی‬ ‫)‬ ‫ھربرٹ ریڈ (‪٥٥٥ :‬‏‬
‫‪٥1‬ا‪8‬‏‬
‫ہیں‬ ‫(الھ٭مصطەمنا هیمنطط' ‪٤‬ہ‏ حت×ەہ'لا مط“)‬ ‫ھیعت“‬
‫جامبا تستا ویکو ىیایک مزید راۓ نقل کرتا ہے ‪:‬‬
‫”مام قوموں کی تار میں شاعری سب سے پہلا وسیله اظہار تھی‬
‫اور ان کی اطق زندگی کا سب سے پہلا مظہر تھی ۔ وہ ان کى‬
‫سب سے اھم ء سب ہے بنیادی اور سب ہے درشت ضروریات‬
‫کا آلهُ اظہار تھی ء یعنی آن کےقوانین ؛ آن کی حکمت ء آن کے‬
‫پیدائش ‏ شادی ؛ موت اور جنگ و امن‬ ‫مذدھبی رسوم ‪60‬‬
‫ات‬

‫کی تقریبیں اور اس کائنات کے بارے میں ان کی قیاس آرائیاں‬


‫عے ھوقی تھیں ۔““‬ ‫ریکے‬‫ذعری‬‫سب شا‬
‫ھربرٹ ریڈ یهعبارت نقل کرۓ کے بعد اس پر یوں حاشيهہ آرائی‬
‫کرتا ے ‪:‬‬
‫”'چنانچه شاعری متمدن قوموں کی طباعی کی ایجاد نہیں ء نہ وہ‬
‫اایسفےکار کاجو عقلی طور ہر پہلے ھی سے وضع ہچوکے‬
‫ہے‬ ‫ہیں ایک مؤئر وسیله اظہار ہے ء بلکہ انسان کا سب‬
‫پہلا عمل فہم و بیان ہے ۔ اس عمل میں فہم اور بیان کے‬
‫عناصر ایک دوسرے ہے جدا نہیں کیے جساکتے ۔ یہ نہیں‬
‫کە فہم پہلے هو اور بیان بعد میں ء بلک بیان خود فہم‬
‫الفاظ میں فہم خود‬ ‫کی ایک صورت ھوتا ے یا دوسرے‬
‫“‬
‫۔ا ے‬‫بیان کے ذریعے ھوت‬
‫ھولڈرلن (ٌ[‪ )41011‬کہتا ے کہ ابتدا میں کلام کے ذریعے‬
‫وجود ہ یعنی وجود ذات کا اثبات کیا گیا ۔ ھیڈیگر (‪٥۶‬جعە‪)417٥‬‏‬
‫ھولڈرلن کے اس مقولے پر یوں رقم طراز ہے ‪:‬‬
‫”'شاعر دیوتاؤں کےنام رکھتا سے اور چیزوں کو ناموں کے‬
‫ذریعے وجود بخشتا ے ۔ یه عمل قسمیہ ایسا نہیں کہ جو‬
‫وےم ہر ان کےلیے نامتجویز کیے جائیں ۔‬ ‫لے س‬
‫عپہل‬ ‫میں‬
‫چیز‬
‫لزیکےے ضروری الفاظ‬ ‫عکس جب شاعر کسی چی‬ ‫ابسرکے‬
‫استعمال کرتا ہے تو اس سے اس چیز کی حقیقت مصدقہ ہو‬
‫جاتی ےے ‪٤‬‏ یعنی اس کا وجسود ثابت هو جاتا ے ۔ شاعری‬
‫پہلے سے‬ ‫ایک‬ ‫الفاظ کے ذریعے وجود کا ائثبات ے ۔ شاعری‬

‫تیار شدہزبان کااستعال نہیں ء اس کےبرعکس زبان کاوجود‬


‫پہلی بار اسی کے ذریعے ممکن ھوا۔ شاعری ہر قوم کی اوائلی‬
‫زبان ےے ۔؟؛‬

‫ىی میں ہوئی لیکن حجری دور‬


‫فیلکی‬ ‫شاعری کی ابتدا نوع ان‬
‫طسان‬
‫نقاشی کے‬ ‫سر‬
‫ووںہکے‬
‫اانس‬
‫کے تشکیلی فنون مث سنگ تسراشی یا چٹ‬
‫‪۳‬‬

‫باقیات کی طرح اوائل ادوار کی شاغری کے کوئی آثار آج تک دست یاب‬


‫ان ادوار میں فن تحریر ابھی‬ ‫نہیں ھوۓ ؛ جس کا بدیہی سہب یه ک‬
‫ےه‬
‫ایجاد نە ھوا تھا ۔ ہہرکیف نوع انسانی کی جو قدچ تریں تحریریں باق‬
‫کی ؛‬ ‫شاعزانهة‬ ‫بیان‬ ‫ھیں ؛ امنسیں ہے اکۓر ؤ بیش تر کااسلوب‬
‫بالخصوص مسہذب قوسوں کا جتنا ابتدائی ادب آج تک محفوظ ہے ؛ وہ‬
‫سدارے کا سارا شاعری یىی صورت میں ہے ۔ یونانی ؛ اسکنڈی نیوین ء‬
‫اینگلوسیکسن ‪٤‬‏ روسانس ء ہندوستانی ء چیٹی ء جاپانی ء مصری ؛ عری ‪٤‬‏‬
‫ایہرانی قومسوں کے ادب اکسلیے کی مثالیں هیں ۔ ھیزیڈ (‪٥‬ہذ‪)8611‬‏ ک‬
‫دینیات اور زراعت پر تصئنیف ؛ سولن )‪(٥108‬‏ کسےیساسی اور آئینی‬
‫ٹلا ان کا وید‬ ‫مقولے ء آریىاؤں کی مذھبی اور نِلسيَتاةة کتابیی‬
‫مصری فلکیسات و کسوئیات ء ی۔٭ اور اسی قبیل کی بہت سی مقابلا"ٴ کم‬
‫معروف تصنیفات سب کی سب شاعرانه زبان میں ھیں ۔‬
‫ےر نظرے پیش ک ےگئے ہیں ء ان‬
‫زبان کی ابتدا کے متعلق جو ش‬
‫روھوں میں تقسم کیا سجکاتا ہے ؛ ایک ماھرین‬
‫کو تین بڑے بگڑے‬
‫ے‬ ‫ادبی ثقادوں‬ ‫انسانیات ے ؛ دوسرا ماھرین لسانیات نے اور تیسرا‬
‫انسانیات کا سروکار زیادہ تر قبل از زبان دور‬ ‫پیش کیا ہے ۔ ماھرین‬
‫انسانی زبان صرف چند ایسی غیر منظم‬ ‫سے حے ؛ یعنی اس دور ہے جب‬
‫لاپرلت کرقی تھیں اور‬
‫دزوں‬
‫تھی جو منفرد چی‬ ‫اصوات پر مشتمل‬
‫کلام ناطق کے درجے کو نہ پہنچی تھی ۔ میکس ملر ‪(8٥11013‬‏ د‪)(853‬‬
‫ے انسانیاتی نظریوں کی چار قسمیں مقرر کی ہیں ء یعنی ”'ڈنگ ڈونگ؟“‬
‫(چھه‪٥‬ة‏ چمدة) ء ”باؤ واؤٴ“ (٭ ہہ ۔ ٭‪٥‬ما)‏ ء '”'پوہ ہو“ ۔ طەەم)‬
‫(طه‪٥‬‏ ‪٥‬م‏ ؛ اور ”'یو ھیو هو“ (وط ۔ ‪٣٥‬وعط‏ ۔ مع) ۔ ”'ڈنگ ڈونگ“‬
‫مفروضے پر مبنی ہے کہ‬ ‫س‬
‫اء‬‫والا نظریه جس کا بانی افلاطون تھا‬
‫اور ان چیزوں کے درمیان جن کی و مائدی کر نے ہیں ء کوئی‬ ‫الفاظ‬

‫قدری تعلق ہوتا ہے ۔ ”'باؤ واؤ'' والا نظریہ ایہام صوت کو زبان کی‬
‫کهە الفاظ ایسی اصوات پر‬ ‫خیال کرتا ہے اور یھ دعویل کرتا ے‬ ‫بنیاد‬

‫مشتمل ہوے ہیں جو چیزوں کی نقل کرتی ہیں ۔ ”پوہ پوہ؛؛ والے‬
‫‪"۳‬‬

‫نظرے کامفروضہ یه ہےکه زبان کی ابتدا ایسی غبر ارادی اور اضطراری‬
‫آوازوں سے 'ہوئی جو اوائلی انسان جذبات کے زیر اثر پیدا کرے تھے ۔‬
‫”یو ھہیو هو“ والے نظرے کے مطابق زبان ایسی آوازوں ےے بنی جو‬
‫اوائلی انسان اس وقت پیدا کرتے تھے جب ومہل جل کر کام کرے‬
‫اور بھی نضرے ہیں ؛ مثلا ایک نظریہ یہ ے کەہ‬ ‫اکے‬
‫وہ‬ ‫تھ‬
‫صے ۔‬
‫لان‬
‫شروع شروع میں انسان صرف حرکات و اشارات ا لیتا تھا جن میں‬
‫وہ هاتھوں کو بھی اور من کو بھی استعال کرتا تھا ۔ ہوتے ہوے‬
‫منہ کی حرکات یعنی آوازیں ہاتھوں کے اشارات ہے علیحدہ ھوگئیں اور‬
‫بجاۓ خود چیزوں کی نشان دھی کرۓ لگیں ۔ اس ضمن میں ایک نظریه‬
‫‪ )۰۵ ۰8 081001‬ۓ اہینکتاب ”زبان کی تاریخ‬ ‫۔نےہ (‬‫اے ۔ اڈیاسئم‬
‫اور ابتدا؟ (‪ 9591‬۔٭عچعسچصھع‪٢‬‏ آہ صنوز×ہ ق‪.٥٤8135 ٥‬‏ مط‪7‬ت‪)-‬‬
‫طلفا‬
‫اظلکا‬
‫عه‬ ‫میں پیش کیا ہے ۔ اس نۓقدیم تزری‬
‫بنانوں کےقدیم تر‬
‫مین ا‬
‫کیا اور اس نتیجے پر پہنچا پکہہلے پہل انسانوں کےجگوروہ بنےوہ‬
‫مل جل کر کھانۓ کی چیزیں مثا جڑی بوٹیاں اور پھل ڈھونڈھنے اور‬
‫خطرات ہے تحفظ کی خاطر بنے۔ وہ یه کہتا ۓکه جب کچھ لوگ مل کر‬
‫ککارمیں تو وہ‪:‬قدرق طور پر چند در چند آوازیں پیدا کرتۓے ہی‬
‫بںھ۔ی‬
‫آوازیں اوائلی انسانسوں کے لیرےفته رفته افعال یىینشان دھی‬
‫کرۓ لگیں ۔‬
‫ماھرین لسانیات زبان کا مطالعه زیادہ تر علمالاشتقاق کے نقظہ نکاہ‬
‫بکےسرتے ہیں اور ان کا سروکار کلام ناطق ہے ہوتا ہے ء یعنی زبان‬
‫کی نشو و نما کے امسرحلے سے جب معانی و مطالب کے اظہار کے لیے‬
‫ی‬‫ۓ‬‫ھ‬‫م‬‫ب‬‫ہ‬‫ا‬
‫ا‬ ‫ک‬‫س‬ ‫ج‬ ‫ے‬‫؛‬ ‫ن‬
‫ر‬ ‫ا‬ ‫م‬
‫س‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫م‬‫ا‬ ‫ث‬ ‫م‬ ‫۔‬
‫ے‬ ‫ھ‬ ‫ت‬
‫ے‬ ‫ک‬ ‫چ‬
‫و‬ ‫ه‬‫ع‬ ‫غ‬ ‫و‬
‫ا ہے ء زبان کےارتقا کامطالعه فلسفہ و منطق کے زاویۂ نکاہ‬
‫ظ‬
‫ی‬
‫ا‬
‫ک‬
‫ف‬‫ہ‬
‫ل‬ ‫ا‬
‫ر‬ ‫ک‬
‫د‬
‫ذ‬
‫ر‬
‫ت‬
‫ج‬
‫سکےیا حے ۔ چنانچہ جہاں ماہرین انسانیات نےزبانکےظہور کے آگے‬
‫کے ادوار پتروجه مبذول یىیعے وہاں ماھرین لسانیات ۓ اس کے ارتقا‬
‫کے اس دور سے بحث کی ہے جب وہ اپنے ابتدائی تفٌکیلی' مراحل گ‬
‫ےزر‬
‫چک تھی ۔ اس کے برخلاف اد نقادوں کی دلچسپی زیادہ تر زبان کے‬
‫بت‬

‫یےک‬
‫الی‬
‫کسوز رھی ہے جب وہ اظہار مطالب کے‬
‫ارتقا کے اس مرحلے پر م‬
‫جموعۂ علامات کی شکل اختیا رکرچیق تھی لیکن ابھی منطق ‪ 0‬علم اشتتاق‬

‫اور صرف و نحو کے عمل دخل میں نہ آئی تھی ۔ ہارا سروکار بھی اس‬
‫باب میں اسی مرحلے ہے تے ۔ چارلز مورس (‪ )861790 []81780‬علامتوں‬
‫کو افہام و تفہم کاواحد وسیله کہە کر ان کے تین مرحلے مقرر کرتا‬
‫ہے یعنی قبل از زبان یا اور بعد از زبان ۔ اس آقسم رک مطائبیق ماھرین‬
‫قبل؟از زبان محرلے سے اور لسانیات ؛ علم اشتقاق‬ ‫کار‬
‫رتوکا‬
‫سانیا‬
‫انس‬
‫اور منطق کے ماھرین کا سروکار بعد از زبان مرحلے سے ہے ۔ اس کے‬
‫برخلاف ہارا سروکار دوسرے مرحلے بعنی زبان کے تشکیلی مرحلے ہے‬
‫ھے ۔ ان معنوں میں زبان کی ابتدا غالبا اس صورت میں ہوئی کہ انسانی‬
‫آلات تکلمم سے پیدا ہوۓ وای چند مخصوص آوازیں چند خصوص چیزوں‬
‫چیڑوں کے نام غالباً شروع‬ ‫یا حالات و واقعات ہے متعلق هگوئیں‬
‫شروع میں اٹکل پچو رکھے گئے ہوں گے ء لیکن مرور زمانہ کے ساتھ‬
‫ساتھ چند الفاظ یا ی‬
‫کوہںیے کہ انسانی اصوات کے جموعوں کےار‬
‫گدرد‬
‫چند ائتلافات پیدا هوگئے ۔ قیاس چاھتا ے کہ الفاظ جو حالات و اشیا‬
‫کنیشان دھے بلکە یسە کہنا چاھیے کے ان کی نقل کسرے تھے ء‬
‫خاص خاص جذبات کے ساتھ وابستہ هو گئے ھوں گے ۔ ابتدا میں زبان‬
‫منفرد اسماے نکرہ کا ایک پریشان جموعه تھی ۔ ان اساے نکرہ میں‬
‫غالبا ایہسام صوت کی صفت یا کوئی جڈباتی کیفیت ہوتی ہوگی جس کا‬
‫استعمال مخصوص مقاصد کے لےیکیا جاتا هوکا ۔ علاوہ بریں یه الفاظ بڑی‬
‫حد تک استعارہ آمیز ھہوے تھے ء بلکه غالبا خالىص استعارے ھهوۓے‬
‫بعد الفاظ کے علیحدہ علیحدہ خوشے بنتے رے اور‬ ‫تھے ۔ اس صرحلے کے‬
‫اس کے بعد انسان کی عقلی نشو و نمانۓ اسے نطق کی قوت بخشی جس کی‬
‫مدد سے اس نے صرف و تخو کے قواعد کیتابع زبان اجاد ی ۔‬
‫“‪2(7٢٠‬‏‬ ‫‪٥۷‬ہ‬ ‫روین سکیلٹن (دہۂ[‪٥‬عاة‏ صنام‪ )3‬اہی کناب‬
‫میں زبان کی ابتدا کی روئداد ذیسل کے الفاظ میں بیان‬ ‫”‪866082‬‬
‫کرتاے ‪:‬‬
‫‪۵‬‬

‫تھی جو‬ ‫میں ایسے الفاظ پر مشتمل‬ ‫اےئل‬


‫وک‬‫اقاء‬
‫”زبان اپنے ارت‬
‫منفرد معانی رکھتے تھے ۔ جیسے جیسے انسان ہر نی چیزوں‬
‫کاانکشاف ھوتا رھا ء جو پہلی چیزوں سے جدا وی تھیں ء‬
‫اور ان کطیرف اشارہ کرتے کے لیتےحنوییلی علامتوں کی‬
‫ضرورت پیدا ہوقی رهھی ء نئے نئے الفاظ ایجاد ہوتۓ رے ۔ ۔‬
‫تحار ای یی وحان‬ ‫افائل اافات کی‬ ‫‪7‬غ‪۲‬ہانہ‬
‫انسان کو کثرت نظر آقی ہے ۔ کسی لفظ کی قدر و‬ ‫مہذب‬
‫انسان کے لیے يە نه ھوتا تھا که وہ‬ ‫لی‬
‫ئار‬
‫امعی‬
‫وکا‬
‫امت‬
‫قی‬
‫مکا‬
‫ال‬ ‫عاس‬
‫تکہ‬‫اہسیہ‬
‫کہاں تک جامعیت رکھتا عے بلک‬
‫کہاں تک سہل ہے ۔ اگرکوئی ایسالفظ دستیاب ھوچجاتا جو‬
‫تھا تو وہ اس لے‬ ‫تا‬
‫ساکجا‬
‫استعال کی‬ ‫ختلف چیزوں کلےیے‬
‫متداول نه هو جاتا تھا کە وہ چند چیزوں یا حسی تاثرات کی‬
‫کسی مشت رک صفت کوبیانکرتاتھابلک اسالۓکە وايہسَا‬
‫تا‬
‫ساکجا‬
‫آله هوتا تھا جو بہت سے کاموں کے لیے استعال کی‬
‫دو متجانس ادراکات یتاصورات کو استعارے‬ ‫جب‬ ‫عر‬
‫شاا۔‬
‫تھ‬
‫کے ذریعے ایک دوسرے میں مدغ مکرتا ے یا کسی لفظ کو‬
‫اس کی وضعی دلالت کی بنا پر نہیں بلک اس کی خیال انگیز‬
‫کو تار ندال کرتانف تو اس دیدرو ایک اوائن‬
‫طرح‪:‬زبان کو اپنۓ مصزف میں لاقا‬ ‫آنسان یا ایک بجے ک‬
‫ہے ۔ شاعری تہذیب کی تاریچ میں نثر ہے پہلے اس لیے وجود‬
‫سے‬ ‫میں آ گئی کہ اس کی ساخت ہکیلیتوں کے مشادے‬
‫ہہوئی ىے ء یعنی ایسی کلیتوں کے مشامہمدے سے جو ختلف‬
‫لےاف‬
‫خک‬‫راس‬
‫ب۔‬‫وق ہیں‬ ‫و کے‬
‫عے‬ ‫ملدب‬
‫جمطا‬
‫می و‬
‫معان‬
‫نثری تحریر میں منطقی بیان اور ابلاغ کی ضرورتوں کے ماتحت‬
‫سورے‬
‫وے ج‬
‫دا ہ‬
‫الفاظ کو متعین معانی میں استعمال کرنا پڑت‬
‫الفاظ ےے معاق نے تین کے جا میں ذ زاس طرخ جب شاعر‬
‫شیلے کی زبان میں) ایسے روابط کو جو پہلے کسی کے‬
‫نت‬

‫استعاروں اور تمثالون کے ذریعے بیان‬ ‫ذڈھن میں نتە آ‬


‫ھۓےء‬
‫کسرتا ہے تو وہ زبان ہے وهی کام لیتا ہے جو اوائلی انسان‬
‫نۓ‬ ‫لیا کرے تھے ۔ صدیوں کی عقلىی اور حلیلی کارروائیوں‬
‫ثں سا‬
‫المبوت‬ ‫ان چیزوں کو لے کر جو شروع شروع می‬
‫چیزیں تھیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ے ۔‪ .‬شاعر ان ٹکڑوں‬
‫کو نئے سرے ہے جوڑ کر چیزوں کو دوبارہ بٹاتا ے ۔؛“‬
‫اوون بارفیلڈ (‪6٣0) 31685۶88‬‏ ۓاپنی کتاب ”شاعرانه زبان؛“‬
‫میں یه نظریه پیش کیا مے کہ ائسانی‬ ‫)“‪٥1٤٥۱۲۰‬‏‬ ‫ند‬
‫اہ‪101‬‬ ‫(‬
‫زبان کےالفاظ میں ابتداً استعاروں کی بذولت هی ععانی پیدا هوۓ۔‬
‫دیک جس طرح تخیل عرفان حقیقت کاواحد ذریعہ ہے اسی طرح‬ ‫انسژکے‬
‫ری زبان ہے ء الفاظ میں معانی پیدا کرۓ یعنی‬ ‫استعارہ ‪٤‬‏ جو تخی‬
‫فلطکی‬
‫ان کو حقائق کا نشان دہ بناۓ کا واحد وسیله ے ۔ وہ کہتا ے ‪:‬‬
‫”یه شاعرانه اور استعارہ انگیز خصوصیت شروع ھی سے معی‬
‫محسوس‬ ‫میں مضمر تھی ء یعنی انسان کے اولین الفاظ اشڈیاے‬

‫کے نام تھے حہ‪. .‬ا رفته رفته زبان اور فکر کی نشوو تما‬
‫سکاےتھ ساتھ مفردمعانی مقابل جوڑوں میں بٹگۓ ؛ مثاا‬
‫جرد اور غسیر مجرد؛ خصوصی اور عمومی ء داخلی اور‬
‫خارجی ۔ ھمیں قدج زمانوں کی زبانوں میں جو شاعرانه‬
‫خصوصیت حسوس ہوقی ہے اس کامنبع یه ے کھ ان زبانوں‬
‫غکدوٹون ی غیت ےا ان کرے عی‬
‫اکلےفاظ اشویا‬
‫اور مارے آج کل کے داخلىی شعور کو یه توقیق بخشتے یں‬
‫کكکە ہم اونحدتوں کا تجربہ کریں ۔ شیلے اپنے مضمون‬
‫”شاعری کا جواز؛““ میں بیکن (‪ )06,82‬کی ''ترقٴ علم“؛‬
‫(”'چھنھحدص‪]٦‬‏ ‪۶‬ہ د‪٥‬دہ<‪٥‬٭ص‪)1۸۶٣8‬‏ میں سے ذیل کی‬
‫کە‬ ‫عبارت نقل کرتا ے ‪'' :‬یەہ بعض مشابہتیں نہجیںیء‬
‫سا‬
‫کرنے والے لوگ سمجھتے ہیں ؛‬ ‫ایہہےدہ‬ ‫مگ ن‬
‫شظر‬ ‫تن‬
‫یا‬ ‫ضو م‬
‫اتعد‬
‫مدین‬ ‫بلکہ یہ فطرت کے نقوش قدم ہی‬
‫مں ج‬
‫ۓ‪۵‬‬

‫امور پر ثبت ہیں “‪ . . . ,‬ہمیں شاعروں کے استعاروں مر‬


‫جو چیز نظر آتیہے وہ یہی قطرت کے نةوش قدم ہایںوا۔ئلی‬
‫بںاکین ان نقوش قدم ی براہ راست عکاسی کرق‬ ‫زانو‬
‫انس‬
‫ہاےن۔ھیں چیڑیں وحدتیں دکھائی دیتی تھیں اور اس لے‬
‫انھیں روابط کا کوٴ شعور نە هوتا تھا پا جاککی ھا کا‬
‫وضع‬ ‫ارے‬
‫عوہ‬
‫تے‬‫سہ ک‬
‫اے‬‫شیاںعروں کاکام یہ‬
‫زماۓ ہ‬
‫کسر کے ان وحدتوں کی نئۓےسسرے ہے تخلیق کریں ۔ یه‬
‫وحدتیں ادراک کے عمل ہے تو خارج ہو چکی ہیں ء لیکن‬
‫ریهە کر‬ ‫ھم اب بھی خیال و تصسور کی سصدد ہے اتنجکا‬
‫سکتے ہیں ۔ چنانچہ جب شیلے چیزون کے ان باھمی تعلقات‬
‫مراکیا‬ ‫کاتدکر کر ناف کن کاادرک مہ کو‬
‫تو اس کا مطلب ان بھولے هوۓ تعلقات ے سے ۔ ان تعلقات‬
‫ء‬
‫اھوا‬ ‫کو نصی‬
‫تب ن‬
‫ھە ه‬ ‫سوں‬
‫نائلی‬
‫ا او‬
‫سراک‬
‫نی اد‬ ‫کا‬
‫اذھن‬
‫لیکن وہ انھیں جیتی جاگتی شکلوں مسیں دیکھتے تھے ۔ تخیل‬
‫اکنسو آج بھی جیتی جاگتی شکلوں مسیں دیکھ سکتا ے ۔‬
‫جیتی جاگتی وحدت کااصول زبان کےغمیر میں مضمراہے ۔‬
‫یہ اصول آج کل شعرا کے کلام میں کارفرما نظر آتا ے۔‬
‫وہ ان روابط کسو دیکھ سکتے ھسیں جتھیں دوسرے لوگ‬
‫فراموش کر چکے هیں اور وہ ان روابط کو استعاروں کے‬
‫ذریعے بیان کرتے ھیں ‪٤٤‬‏‬
‫ہتوں ارواربطوں کو مجسم کرتے ہیں‬ ‫اہجن‬
‫شارے‬
‫متع‬
‫شاعرانه اس‬
‫آن کےمتعلق امرسن (ہ‪٥‬ت‪)201‬‏ لکھتا ہے ‪:‬‬
‫ئی اقفاق یامن مافنی چیڑ‬ ‫وسیں‬‫سم‬ ‫کلتوں‬
‫”ان مشابہتوں اور ممائ‬
‫نہیں ء بلکە وہ مستقل حقیقتیں ھیں جو تمام کائنات فطرت‬
‫ہیں ۔وہ صرف شاعروں کا خواب و‬ ‫ی‬
‫رو‬‫ااری‬
‫سں ج‬
‫سہی‬
‫نسان فطری طور پر مائلت بین‬
‫نالہھییں ہیں بلاکه‬‫خی‬
‫بط کامشاهدہ کرتا‬
‫واکے‬
‫رزوں‬
‫پیدا ھوا ساےور ھمیشہ چی‬
‫‪۵۱۸‬‬

‫فطرت کا سصکز ہے اور ھر چیز ہے‬ ‫قات‬ ‫غے‬


‫ل'۔‬
‫ووہ‬ ‫رھ‬
‫متا‬
‫شعداع نکل کر اس تک پہنچتی ہے ۔ نہہم‬ ‫راب‬
‫اطےیکی‬
‫ک‬
‫اسان‪:‬کو ان اغیاکا فی ‪ 1‬ات ان انا کو انان کے‬
‫بضیر سمجھ سکتے ھسیں ۔ء لم فطرت کے جتنے امور ہیں وہ‬
‫نی‬ ‫ایک صنف واحد کی طرح بانجھ ہیں اور اون آپا‪:‬ٴ کوئی‬
‫چیز پیدا نہیں کر سکتے ۔ ان اسور کاتاریچانسانی کسےاتھ‬
‫عقد کر دیجے تو چاروں طرف زندگ کانور ظہور هو جاتا‬
‫ے ‪ .....‬اشیاے مرئی اور خیالات انسانی کے درمیان‬
‫جو یه بنیادی رشتہ ہے اسی کے باعث وحشی انسان ء جن‬
‫کے پاس اتنی پونجی ہوتی ےہ جتنی ان کے لیے ضروری ھ ء‬
‫صنائع و بدائع کی زبسان سیں باتسیں کسرتے ہیں ۔ اگر ہم‬
‫تار میں پیچھے کی طرف سفر کریں تو زبان بە تدریج زیادہ‬
‫تصویسر نما ہسوتی چلی جساتیق سے تا آں کہ نوع انسائی کی‬
‫ہے ۔تمام روحانی امور کو‬ ‫طفولیت میں وہ تمام تشراعری‬
‫فطری علامتوں کے ذریعے بیان کیا جاتا ے ۔‪٤٤‬‏‬
‫الفاظ کے استعمال مکعےاملے مسیں اگسر ہسم اپتے ذاتتیجرے نے‬
‫شہادت طلب کسریں تسو ھم دیکھتے ھیں کە جب کبھی همیں نئے‬
‫حات‬ ‫اکی‬ ‫طم عق‬
‫للىی‬ ‫مطالب و معانی کو بیانکرنا ھوتا ے تو ہم‬
‫ایں ع‬
‫صلو‬
‫اور رسمی استعال کو ترک کر کےاپتتخےیل سےکام لینا پڑتا ہے ۔‬
‫جی روسٹریور ھمیلٹن (‪[6٥‬ه‏ ‪۲٥۲801[ 81‬‏ ‪ )6.‬اس نکتے کو ذیل‬
‫ےا الناع می ارات کرکا ع‬
‫ایسے موضوع پجرو‬ ‫”اش اوقات ایسا ھوتا ے کە ھ‬
‫کمسی‬
‫مارے نزدیک بڑی اھمیت رکھتا ہے ء اظہار خیال کرنا‬
‫ہمیں ایسا حسوس ہوتا ہے کہ اپنے‬ ‫یہی‬
‫کںء‬
‫ن‬ ‫چاھ‬
‫لتے‬
‫خیال کو من و عن بیان کرنا مارے لیے ناممکن ہے ۔ سوال‬
‫صرف یہ نہیں ھوتا کہ کون سے الافساظتعمال کیے جائیں ء‬
‫کیوں کھالفاظ تو صرف اس وقت سوجھ سکتے ہیں جب‬
‫‪0۹‬‬

‫ھمیں پوری طرح معلوم هو کہ ھم کیا کہنا چاہتے ہیں ۔‬


‫رہ الفاظ بھی‬ ‫عموماً جب کسی خیال کے ذہنمیں‬
‫سوجھ جائیں تو وہ خیال اتنا اہم نہیں ھوتا بلکہ کئی مرتبه‬
‫اور‬ ‫رسمی‬ ‫الفاظ کا ایک‬ ‫عض‬ ‫هھوتاء‬ ‫تو خیال ھی نہیں‬

‫سیکانیی استعال ہوتا ہے ۔ مشکل اس وقت پیش آ‪"٦‬‏ ہے جب‬


‫یوں‬ ‫م؛‬
‫یں‬ ‫کوئی نیا خیال ہارے ذہن میں وارد ہو‬
‫عمارے اندر ایک ابتری کی سی کیقیت‬ ‫حسوس ہوتا ے‬
‫کہه‬
‫حے ۔ ہا ے خیالات ء ہارے حواس ‪٤‬‏ ہاری خواعشات ء‬
‫مارے تعصبات ؛ سب ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہو رۓے‬
‫ہوتے ہیں ۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ ان میں سے کسی‬
‫ناطقه‬ ‫قوت‬ ‫ہاری‬ ‫موضوع بنائیں ۔‬ ‫ایک کو اپنا ک‬
‫سڑی‬
‫ایک محاصرہ کرۓ وا ی فوج کی طرح خیال کے ارد گرد چکر‬
‫حملهہ‬ ‫وه‬ ‫سے‬ ‫جہاں‬ ‫ۓ‬ ‫ایسا نقطهہ ڈھونڈھتی‬ ‫لگا کر کوئی‬

‫ہوتا ہے کہ جیے‬ ‫شروح کر سکے ۔ کبھی کبھی ایسا‬


‫سلامحے بھر کے لیے ہہارے ذہن کے‬ ‫وا ا‬
‫نیک‬
‫دا‬ ‫بج‬
‫کی ک‬
‫کے فور‬ ‫اس‬ ‫ےی‬
‫ءکن‬ ‫تاریک منظر کو روشن کر دیتا ہل‬
‫بعد ہاری عنان توجہ ڈھیلی پجڑاتی ے اور عم اپنے دماغ‬
‫یه‬ ‫دیتے ہی‬
‫نںتی‬
‫۔جہ‬ ‫کو ٹامک ٹوئے مارے کی اجازت دے‬
‫ھوتا ے کے جس خیال کو ھم ظاھر کرنا چاھتے تھے‬
‫ہارے شعور کے حاشیوں میں‬ ‫وہ ایک دھند سی بکنر‬
‫ےار متحرک نقوش‬
‫دھند میں سے ش‬ ‫پھیل جاتا ہاے ۔‬
‫س‬
‫ہوتۓے رہتے ہیں ۔ نقوش کی اس آنکھ مچولی‬ ‫غر آب‬
‫اھرک‬
‫ئرب‬ ‫آبھ‬
‫میں بظاعر کوئی ربطو ضبط نہیں هوتاء لیکن یھ ایک‬
‫غلط فہمی ہے ۔ یہ بجا ے کہ ان میں وہ ربط و ضبط نہیں‬
‫ان‬ ‫ھوتا جس کے ھم منطتی استدلال میں عادی ہی‬
‫تںاءھم‬
‫کی بھی ایک منطق ہوتی ۓ ۔ یه منطق ایک پر اسرار‬
‫ماق حر اف نے ماری شخصیت‬ ‫کر فرت کییر‬
‫‪“‌"۰‬‬

‫ککےھینکچسیکرتاریک کوۓ میں بیٹھی ھوئی ان دیکھی ڈوریاں‬


‫اپنے کسی من ماتۓ نقشے کے مطابق پتلیوں کا‬
‫یہاچ رچاتی ہے ۔ یہوھی قوت سے جس کے ہاتھ میں ہمارے‬
‫قیاس چاھتا ے‬ ‫خوابوں کیباگ ڈور بھی ہھوتی ے‬
‫اور‬
‫کے انسائوں کلےیے‬ ‫یب‬ ‫ذقبل‬ ‫کە یہی وہ قوت ہو‬
‫تگیہجو‬
‫مبیہ؛رے؛ شورہ پشت اور عربدہ جو دنیا کے ساتھ‬ ‫ایک اجن‬
‫را‬
‫ان‬ ‫ہ و رسم پیدا کرنے میں خضر راہ بی ھوگی ۔ یه قوت‬
‫کو جبلیطور پر ودیعت نہہوئی ہغوق‬
‫التو‬
‫باً انپکہےلے‬
‫تبر‪ ,-‬ثابت ہوتۓ ۔ وہ خارجی دنیا کے‬ ‫خن ک‬
‫رےی‬ ‫تجر‬
‫آے ا‬
‫جسانی طوز پترباہ ھوۓ سے بچ بھی‬ ‫کے‬
‫ھوں‬ ‫مخالف عن‬
‫ھاصر‬
‫ات‬

‫جاے تو ان کے شعور کا دیااپپنہیلی لو کے ساتھ ہی بجھ‬


‫جیاهتاا ۔یکیرهپر اسرار قوت وھی ھےجسے ہم تخیل کہتے ھیں ۔‬
‫ب‬
‫ط آفریں ملک ے جو فطرت ےٗ انسان کو آسی‬
‫مظاھر کی‬ ‫اس تےۓے هنکامۂ‬ ‫طرح‬ ‫طرح ودیغت کیا ےھ جس‬
‫مےیکا‬
‫مه‬ ‫کثرت میں وحدت سمو دی ۔ دونوں ایک دو‬
‫ضسر‬
‫اور تتمه هیں ‪ ......‬وحشی انسانوں کےسامنے ایک ایسی‬
‫بی‬‫نجو‬‫جھی‬ ‫دنی‬
‫اا ت‬
‫شکاوں اور صورتوں سے بھرپور تھی ء‬
‫جن کے باھمی تعلقات کا کوئی نقشہ ان کے ذھن میں نه‬
‫تھ‬
‫لای۔‬
‫کن چونکہ منفرد چیزیں ان کے لیے انتہائی اھمیت‬
‫میں‬ ‫ان کے ذھن‬ ‫دک‬
‫رااک‬ ‫رکھتی تھیں اس لے ان چی‬
‫ازوں‬

‫سکزڑی‬ ‫جات‬
‫کا ے‬
‫ه‬ ‫بڑا واضح اور مفصل هوتا تھ‬
‫کاہ۔ا‬
‫ہر طوطے‬ ‫بعکرلاایزیحلد میں بعض وحشی قومیں ہیں جینہکاےں‬
‫۔ے کا تصور عام ان کے یہاں‬ ‫ط‬ ‫وے‬ ‫ہ نام ہو‬
‫طتا‬
‫کے نام موجود‬ ‫وےں‬ ‫طت ک‬ ‫مفقود ہے لیکن بھا‬
‫طنت ب‬
‫وھان‬
‫ہی‬
‫خںص۔ا‬
‫وسصیت کا باعث غالباً یه ے که خارجی دنیا کے‬
‫سواد کی بھرمار اوائلی ادوار کے لوگوں کو پریشان کر دیتی‬
‫ہے ۔ آن میں یەصلاحیت نہیں ہوتی کہ اس کیشیرازہ بندی‬
‫الس‬

‫کر سکیں ا۔ن کے پلے صرف منفرد الفاظ کی ریزکاری ہوق‬


‫ہے اور بہت سی ۔ چنانچہ وہ اس کو دل کھول کر خرچ‬
‫جسم تمثالوں کی یە افراط شاعری کا پیش خیمهە‬ ‫کرت مت‬
‫ے ۔ جہاں کہیں نفس انسانی اپنے ادراکات کے ہنکامے میں‬
‫وھیں شاعری کے‬ ‫کا شعور یا قی‬
‫ساسککر‬
‫ے؛‬ ‫رب‬
‫ضطبوط‬
‫میدان عمل کی سرحد شروع ہو جاتی ہکےی؛وں کە شاعری‬
‫ان‬ ‫وا ات ا ا مال قو یھ‬
‫عے جو‬ ‫انس‬
‫عانقکی‬
‫ل‬ ‫کے خالف قطب پمرہذب‬ ‫ہغی‬
‫ذرب‬ ‫”'ن‬
‫مفس‬
‫ک‬ ‫درجے کے غجردات‬ ‫زندکی کے همنکامہ مظاھر یىیر‬
‫ےبطی اک انضہائی‬
‫صورت میں ضابطه بندکر دیتتی ے ۔ برٹرینڈرسل ([[‪۲٥3 6880:7‬ہ‪)2‬‏‬
‫لکھتا گے‬

‫”علم ریساضی اپنےکال کو تب پہنچتا ے جب استدلال بدرجۂ اتم‬


‫منطقی هو ۔ ادب عموسی صداقتوں کو خصوصی صداقتوں‬
‫کی صورت میں قلم بند کرتا سے ؛ لیکن علم ریاضی انتہائی‬
‫دروجۓ ی تعمیموں کو کسی قسم کی فضول ٹیپ ٹاپ کے‬
‫بغیر پیش کرتا ہے ۔ اس مقصد میں علم ریاض یکو اتنی بڑی‬
‫لوگ اس‬ ‫چند‬ ‫کامیابی حاصل ہوئی ہے کہ جو معدودے‬
‫کامیابی ہے مستفید هو سکتے ہیں ان کو ایک ایسی بالیدگی“ٴ‬
‫روح نصیب ہوقی سے جو ان کے عام ہجمنسوں کو میسر‬
‫مرییںا۔ضیات کی دنیسا میں عقل مظاھر کے بادلوں ہے‬
‫بالاترپرواز کرکے ایک ایسی لطیف فضا میں جا پہنچتی‬
‫مادی عناصر کا‬ ‫ں‬
‫جس‬ ‫ےہاں اسے ایک ایسا جرد نظا‬
‫ممی‬ ‫ح‬
‫ہ بھ‬
‫ییں ھوتا ملتا ے ۔‪>٤‬‏‬ ‫شا‬
‫نئبہ‬
‫علم ریاضی ء فلسفہ اور سائنس کے جردات ایسے بجموعہ ہاے‬
‫علامات ہوتے ہیں جن میں سے زبان کے وہ عناصر جو تخیل کے عطیے‬
‫ھوے ہیں عقلی عمل کے ذریعے خارج کے جا چکتے یں ء یعنی‬
‫کہل‬
‫ہہ آۓ ہیں وہ بعد ازبزان علامات ہوتے‬ ‫جیساکەہ عم تھوڑی دی‬
‫ےر پ‬
‫‪2۳٥1۲‬‬

‫شاعری جن علامات کو استعال کریق ےے وه‬ ‫خک‬


‫لےاف‬ ‫هی‬
‫بں ۔‬
‫راس‬
‫جو‬ ‫ہوتی ہیں ؛ یعنی ایسی علامات‬ ‫کی علامات‬ ‫بنیادی طو‬
‫زربپر‬
‫ان‬
‫هیں ۔ بیان ء ابلاغ ء اظہار اور‬ ‫کے اندر مضمر‬ ‫خیت‬ ‫زبا‬
‫سن کی‬
‫افطر‬
‫علامات‬ ‫استدلال کے تمام دوسرے وسائل کی طرح زبان بھی ایک مجموعۂ‬
‫کے نْ‬ ‫سنف‬
‫اسنی‬ ‫ہے ء لیکن اس کی علامات ایسی علامات ہوتی ہی‬
‫اںنجو‬
‫وہ اشیاے خارجی‬ ‫عے‬ ‫راست تعلق رکھتی ہی‬
‫ذںرجنیکے‬ ‫تجر‬
‫ببوں‬
‫راہےہ‬
‫کاعلم حاصل کرتا ھے ء اور یہتعلق تخیل کی وساطت سپےیدا ہوتا ے‬
‫اور تخیل ھی کی وساطت سے قائم رکھا جا سکتا ھے ۔ یوں الفاظ بجاۓ خود‬
‫آن اشیا سےجنکی وہ نمایندگی کرتے ہیں کموئ‬
‫شیابہت نہیں رکھتے ۔‬
‫اگر انھیں انسان کے آلات تلم کی پیدا کی ہوئی اصوات سمجھا جاۓ تو‬
‫ایسی‬ ‫یه اصوات آن اشیا سے جن کی وہ نشان دھی کری' مان کوی‬
‫مشابہت نہیں رکھتیں جس کابراہ راست ادراک کیا جاسکے ۔ اسی طرح‬
‫اگر ان کو غحریری نشانات سمجھا جناۓ‬
‫شتاو ی‬
‫نهات نە ان اصوات ہے‬
‫ہیں اور نہ آن‬ ‫ہوۓ‬ ‫ائح‬
‫م‬ ‫مو‬
‫قہقا‬ ‫کوئی مشابہت رکھتے هیں جن کے‬
‫اصوات اشارہ کرتیق ہیں ء یعنی جہاں تقریری‬ ‫طک‬
‫ریف‬ ‫اشیا سے جن‬
‫صلکے‬
‫ىی سرچشموں سے ایک درجه دور ہوتقی اے‬ ‫زبان انسانی تج‬
‫ارے‬
‫درجے دور ہوتی سچےن۔انچه عام لوگوں‬ ‫و‬ ‫وهاں تحریری زبان ان‬
‫دسے‬
‫کیعملی زندگی کیتقریر و تحریر میں ء جس کا مقصد چند فوری اور حدود‬
‫ایک ایسا جموعة علامات بن‬ ‫ضروریات کا پورا کرنا ھوتا ہزےبءان‬
‫جاتیق ے جو ان اشیا سے جن کی نشان دھی کرنا اس کا اصلی کام تھا‬
‫؛ فلسقے اور‬ ‫اس ورجہ‬
‫یساےضی‬ ‫و۔‬
‫ر‬ ‫براہ راست کوئی تعلق نہیں رک‬
‫اھتا‬
‫سائنس کی علامات ک طرح ایک قسم کا رسمی وسیلہ افہام و تفہم‬
‫بن کر رہ جاتا ۓےجو صرف ابنی سہولت کیبنا پارستعال کیا جاتا ےے ۔‬
‫وہ الفاظ و اشیا کے درمیان اس ٹوۓ ہوۓ‬ ‫یہ ک‬
‫ےہ‬ ‫شکاعاریرنکا‬
‫امہ‬
‫ڑوقی ہے ء یعنی وہ نفس انسانی کے آن تجربوں کی تجدید کرق‬ ‫وک‬ ‫رش‬
‫جتے‬
‫ہے جن کی بدولت اشیا اور الفاظ میں ابتداً تعلق پیدا هوا تھا۔ اور‬
‫چوں کہ يہتجرے ایک طرف تو علم اشیا کے حصول کے تجرے اور‬
‫‪("9۷۳۰‬‬

‫تھے ء اس لیے شاعری ان‬ ‫بک‬


‫رےے‬ ‫دوسری طرف اشیاکےنام رک‬
‫تھنے‬
‫حقائق کوے نقابکرتی سے جو اشیا اور اشیا کے باھمی روابط کی صورت‬
‫ننسفسانی پر اولا جلوہ گر ھوۓ تھے ۔ اس کے معننیہییہں کہ‬ ‫مایں‬
‫شاعری حض اوائلی انسانوں کتےجرے کی تجدید کریق ہے ‪٤‬‏ اگر وءہ صرف‬
‫ایسا کرتی تو و‬
‫اہیک تقو پارینە ء ایک ‪.‬موعۂ متروکات ؛ ایک مطالعۂ‬
‫انطیقات یا زیوادہ سے زییادہ ایک شعبۂ انسانیت بن کدر رہ جاتی ۔ اس‬
‫وائتہ بے کذااوائل‪ :‬ادوار سے لے')کز آج اتک ‪:‬انمانیٰ تیر میں 'جو‬
‫اضافے ھونے اہین ‪٤‬‏ شاعری کا سروکازا ان‪ :‬سب سے نے ا‬
‫۔لبتة وہ مہذب‬
‫جں ک‬
‫رےے کی عکاسی اسی طرح کرتی ہے جس طرح وہ اوائلی‬ ‫افس‬
‫تانو‬
‫انسسانوں کے تجرے کی عسکاسی۔ کرتی ھے ء یعسنی آس کے آن اولی اور‬
‫بنیادی عناصر کو پیش کرتی ہے جن کے ذریعے انسان پر وقتاً فوقتا نئے‬
‫حقائق کا انکشاف ھوتا رہا ص ۔ انسسانی ترے کاماحول چاے کچھ‬
‫بھی هو ؛ چاے وہ اواشلی لوگوں کی سیدھی سادی زندگی ہو جس میں‬
‫انسان فطرت ہے براە راست دو چار تھا اور چاےۓے بیسویں صدی کی‬
‫ی‬ ‫ائ‬
‫ونس‬ ‫فل‬
‫سسفه‬ ‫پیچیدہ زندگی ہو جس میں فطرت انسان کے لی‬
‫مےض‬
‫اس‬ ‫علامتوں کی ایک لغفتہے ء شاعری کاکامیہی ہے کہ اپنی رصدکاہ‬
‫مقام پر بناۓ جہاں نفس انسانی اور زندگی دونوں ابتدائی حالت میں ایک‬
‫دوسرے سے دو چار ہوتے ہیں اور اس کی علامتیں تمام کتیمام اس شخصی‬
‫(لیکن عالمگیر) فلکیسات یىیاصطضلاحات ہیں جس کے نظام شمسی کا‬
‫کزی سیارہ نفس انسانی ہے اور جس کا ضابطۂ قوانین تخیل کا وضع کیا‬
‫متعلق بحیثیت‬ ‫عوا ے ۔ ٹی ۔ ایس ۔ ایلیٹ (‪ )"۰ 8. 01 1‬فن کاروں کے‬
‫کے سعقابلے میں ایک اوائلی‬ ‫عمومی کہتا ہے ‪'” :‬فن کمارعاپانےصرین‬
‫اس جملے‬ ‫لیکن وہ ان سے زیادہ مہذب بھی ھوتا ے؟“؟ہ‬ ‫ے‬ ‫انسان ھوتا‬

‫برابر کی صداقت و اھمیت رکھتے ہیں ۔ دوسرے‬ ‫فا دونوں دعاوی‬


‫دعوے کی تصری آرچی بالڈ سیکلش ((طہذہ ہ‪813٥‬‏ ‪1١‬داطہشھ)‏ کے‬
‫الفاظ ذیل سے ہوق ے ‪:‬‬
‫نسلی علم کا ایک‬ ‫”انسائىی زندگق ‪٤‬‏ انسانی تقدیر اور اس دنیا کے‬
‫سم‬

‫اور جذباتیق ادراک‬ ‫بڑے شا‬


‫وعرجوںد کاےنی‬ ‫معت‬
‫حدصبہ‬
‫ہ‬
‫کا مرەسون سدت تے ۔ سائنس دان آن چیزوں کی چھان بین‬
‫کرتا ے جو انسانی آنکھ کو خورد بین اور دور بی‬
‫من ک‬
‫دید‬
‫کے بغیر دکھائی نہیں دیتیں ۔ اس کے برخلاف شاعر کاسروکاز‬
‫ان چیزوں سے ھوتا ے جو اتنی بدیہی ء اتنی واضح اور اتنی‬

‫نھے‬
‫ااو‬
‫ئری‬ ‫قریب بہوتی ہیں کہ بینائی خود حائل ہآوجا‬
‫شتی‬
‫کاےدراکات‬ ‫شک‬
‫اہعر‬ ‫ایک پردہ بن جاتی ے ۔ یھی وج سے‬
‫ھہوے ہیں کہ ان کو کسی تثبوت ؛ کسی‬ ‫لےوم‬ ‫ات‬
‫منےعسچ‬
‫نہیں ہوق ۔ع‬ ‫دل‬
‫ضیلرکویرت‬
‫تدل‬
‫ایلب‬ ‫فآمد‬ ‫آفت‬
‫آاب‬
‫صرف اتنی بات ہوتی ھے کہ پہلے کسی کو ان کا شعور نہ‬
‫ایک ترا یت ‪۶‬ئ ایک سمثال ء ایک صوق‬ ‫ھوا تھ‬
‫شاا۔عر‬
‫سے‬ ‫خوبی سے ایک ض کز لگاہ مقرر کر‪ .‬دیتا ہے جا‬
‫وس‬
‫پہلے سائنس دانوں کیقیل و قال اور عام لوگوں کی عملىی‬
‫سوجھ بوجھ مقرر نہکر سی تھی ۔؟‪٤‬‏‬
‫کے الفاظ میں شاعری ککاام‬ ‫اوون بارفیلڈ (‪)00 0168۲.82‬‬
‫شعور کی توسیع ہے ۔ صحیح معنوں میں تہذیب بھی شعور انسافنی ک‬
‫نش‬
‫نوموا‬ ‫مسلسل توسیع کانامہے ء اس لیے شاعری تہذیب کی صحیح‬
‫یکے‬
‫ک‬ ‫کاایک زبردست آلهہے ۔ اور کچھ نہیں تو کم از کم وہ‬
‫ااس‬
‫فک‬
‫ییل‬ ‫قیمتّی ذخیرے یعنی زبان کی محائظ اور اس میں نت نئے اضا‬
‫کفوں‬
‫او۔ون بارفیلڈ اس نکتے کو یوں بیکان‬
‫رتا ہے ‪:‬‬ ‫ے‬
‫ممکن‬ ‫ود‬ ‫”اگرچه عقل کے اصول کےبغیر نہحقیقت ‪:‬ہ عل‬
‫ومجکا‬
‫تھاء تاھم عقل کا اصول علم میں ذرہ برابر اضافه نہیں کرسکتا۔‬
‫کرسکتا ہے ؛ وہ غیر متعین‬ ‫اک‬
‫ضوح‬ ‫وہ غیر واضح چی‬
‫وزوں‬
‫چیزوں کومتعین کر سکتا ہے لیکن وہ شعور کیتوسیع نہیں کر‬
‫زبان ایسا کر سکتی ہے ۔ صرف شاعری‬ ‫عصر‬
‫رفانه‬ ‫ا۔‬ ‫سک‬
‫شتا‬
‫میں انڈیل کر اس‬ ‫رےف‬ ‫اپنےتخلیقی وجدانؤں کو زبا‬
‫ظن ک‬
‫دس‬

‫کو معنی ہےلبریز کرسکتی ہے اور اس ے٭ض الجبرا ک‬


‫ےجان۔علامات بن کر وہجانۓ سےبچا سکتی ے _؛‪٤‬‏‬
‫اسی مضمون کو ولم بلیک ۓ آج ہے ڈیڑھ سو سال پہلے ان الفاظ‬
‫میں بیان کیا تھا ‪:‬‬
‫صنت موجود لہ ہوق تو فلسفه اور‬ ‫بریا‬
‫اند‬ ‫منه‬ ‫”ا‬
‫پگر‬
‫یشاغعرا‬
‫صرف پرانی چیزوں کى‬ ‫مرا‬ ‫ورس اسم سا‬
‫رٹ لگاۓ رهتے ۔؛؛‬
‫کو بیان‬ ‫انسان کے بنیادی خی‬
‫جالا‬
‫ذتبوات‬ ‫چوں کهہ شاعری‬
‫کرقی سے اور اس مقصد کےلیے ایسے الفاظ استعمال کرتقی ے یاالفاظ کو‬
‫ایسے طریقوں ہے استعمال کرتی ھےجو انسانی تجرے کے اصلىی متبع سے‬
‫نء‬
‫طق‬ ‫فلس‬
‫مفه‬ ‫نە صرف‬ ‫زا‬
‫بس ک‬
‫این‬ ‫قریب ترین ہوۓے ہیں ؛ اس لیے‬
‫ہوق‬ ‫ختلف‬ ‫اور سائنس کیزبان ہے بلکھ نثری ادب کی زبان ہبےھی‬
‫سے ھ‬
‫۔ربرٹ ریڈ (‪٥‬ء‏ ث‪٥‬‏ ‪ )018611‬اس موضوع پر ذیل کی راۓ ظاہر‬
‫‪:‬‬ ‫کرتاے‬

‫”سوال پیدا ھوتاے کە شاعرانہ کلام میں جو درجڈ شعور‬


‫پر متحصر‬ ‫ساخت‬ ‫لفظی‬ ‫کس حدتک‬ ‫؛ وہ‬ ‫ھوتاے‬

‫یانظم میں حسم کی‬ ‫سر‬ ‫ا سو‬ ‫جا اوسما‬ ‫وت‬

‫سء‬
‫ی الوفرظی وسیلے ہے دوسرے لوکوں کے‬ ‫جات‬
‫کی ہے‬
‫تکقل کی جا سکتی ہے ؟ مثا نٹر کے ذریعے ؟‬ ‫نت‬‫ذمہن‬
‫مای فرق کیا حض شدت کا فرق سیےا‬ ‫ار ن‬
‫ھثرک‬ ‫شع‬
‫بر او‬
‫وسعت کا فرق بھی سے ؟ یعنی کیا شعر نثر سے بالکل ختلف‬
‫اسلوب کلام عے ؟ اس سے تاونکار نہیں کیا جساکتا کہ‬
‫اور‬ ‫اضطراری طریق اظہار ے‬ ‫ایک‬ ‫شاعری بڑی‬
‫ت حد‬
‫ک‬
‫اور‬ ‫بالیدہ کیفیت کا نتیج ہویق ۔‬
‫ےشعر‬ ‫ک‬ ‫شعو‬
‫اریکی‬
‫ایک طرح کا‬ ‫نثرمیں ایک ماالباہمتیاز وزن ہلےیءکن‬
‫وزن نثر میں بھی ہوتا ے ۔ فرق یہ ہکےہ نظم کا وزن‬
‫باقاعدہ اور مٹواتر ہوا ے ؛ نثرکا زیر ونبحوی ھوتادے‬
‫‪"٦‬‬
‫ونمحو‬ ‫صرف‬ ‫۔ قواعد‬ ‫ے‬ ‫اور قواعد صرف و نحوکا تام ھوتا‬

‫کے تابم ہہوتۓے ہیں ۔‬ ‫ح‬


‫وت‬ ‫ابط‬ ‫اہی جگە ایک‬
‫و معی‬
‫ضار ر‬
‫اور کسی‬ ‫اس کے برخلاف شعر کازیر و یمحسی ہوتا ے‬
‫اندرونی ضرورت کا تابع ھوتا ہے ؛ یعنی ایک خصوصکیفیت‬
‫شعوری کےلیمےوزوں نظام اصوات تل‬
‫کار‬
‫شۓ کی ضرورت ؛‬
‫یہاں منطقی ربط یاوضاحت کا کوئی سوال پیدا نہیں ہھوتا۔‬
‫ریت حال ک‬ ‫وکس‬‫صکام‬ ‫نثرایک فکری اسلوب ہے ؛ اس کا‬
‫تصریج ھوتا ے ۔ وہ یا تو ایسے افکار کو بیان کرتیق ے‬
‫ہوں یا غیر متعین اور‬ ‫ح‬‫ضور‬ ‫جو پہلے ھی سے م‬
‫وتعی‬
‫ان ا‬
‫شتّی‬
‫اہعے۔‬
‫ری کا‬ ‫غیر واضح انف‬
‫تکارع ک‬
‫یوین اور وضاحت بخش‬
‫مقصد تصترعج‬
‫وضیایح نہیں ھوتا‪ .......‬وزن کے علاوہ‬
‫شعر کی دو اور خصوصیات ہیں ؛ ان میں ے ایک اس میں‬
‫اور نثربلکە تمام تشکیلی فنون میں مشترک ہے ء یعنی حسی‬
‫تمثال ل‬
‫۔یکن شاعری میں اتورشآکنیلی فنون میں جو بگڑ‬
‫نہیں گئےتنثال کا ایک خاص کام ہوتا ہے ۔ وہ مقصود بالذات‬
‫آرائی نہیں‬ ‫ایک حاشیہ‬ ‫ہوتیق ےے اور منعاقی کلام پع‬
‫رض‬
‫قبول ‪7‬ک کاتھے‬ ‫ھوتی ۔ شاعرانه تمثال کو ذڈھن براہ راست‬
‫یعی اس کاتجزیە کے بغیر ۔ وہ بصیرت کا ایک لمحه ؛ شعور‬
‫کی ایک وجدانی توسیع ء ایک کشفی عمل ہوتی ہے ۔ اس کے‬
‫ذھن میں‬ ‫لیے فہم ضروری نہیں هوتا اور وہ فہم کبےغیر‬
‫ورود کرتی ہے ۔ شعر کی دوسری خصوصیت یہ ہے کوہہ‬
‫جو تمام و کال‬ ‫مکتفی وحدت ھوتا اے‬ ‫ء خود‬ ‫ایک مکمل‬

‫ذھن میں وارد ھوتی ے ۔ یعنی اس کے اجزا گھل مکلر‬


‫اور ایک نی ان کت ھیئت اختیا رکرےے شعور میں آے ہیں ۔‬
‫کا وہ س‬
‫کب جو انسانی‬ ‫کتنوات‬ ‫چنانچہ اصوات اور حر‬
‫سکا‬
‫زبان کی ابتدائی صورت تھا اور جس سے تفریق اور ترکیب‬
‫زبان کی موجودهہ صورت بیدا ہوئیء‬ ‫رلیکے‬
‫عے‬ ‫کے‬
‫ذعم‬
‫‪‎‬ع‪۱١‬‬

‫؛‬
‫۔ید؛ ے‬
‫شاعری آس ابتدائی صورت کی تجد‬
‫ہال والیری (ى‪10:٥8) ٢٥[٥٣‬‏ کا اس موضوع پر ایک بڑا دلچسپ‬
‫نظریہ ے ۔ اس کے نزدیک نثر اور شعر میں وھی فرق ےہجو چلنے اور‬
‫ناچنے میں ہے ‪:‬‬

‫چیز‬ ‫سپی‬ ‫ک۔آ‬‫یاک خاص مقصد ہوتا ہے‬ ‫اے ک‬


‫طٹررکیح چلئ‬
‫''ن‬
‫تک پہنچنے کےلیے ؛ کسی چیز کو پاۓ کےلیے چلتے ہیں ۔‬
‫تو چلنے کا‬ ‫یےں‬
‫لاس‬
‫ایا‬
‫پیں‬
‫جب آپ اس چیز تک پہنچ جائ‬
‫کمل ہو جاتا سے ۔ ناچنے کی کیفیت جدا ہنےا۔چنے‬ ‫کمام‬
‫محیںرجکوات ہوتی ہیں وہ آپ اپنا منشا ہوتی ہیں ۔ ان کا‬
‫مقصود کسی منزل کو جا لیٹا؛ کسی چیز تک پہنچنا نہیں‬
‫ہوتا۔ جب کوئی چلنے والا شخص انی منزل مقصود پر‬
‫پہنچ جاۓ ء یعنی جب وہ اس کتاب یا چیز یاکرسی یا انسان‬
‫تک جا پہنچے جو اس کے چلئے کا حرک ہوا تھا ء تو اس کا‬
‫چلنےکاعملمعطل هوجاتاہے۔ معلول علتکیجگھلےلیتا‬
‫تویرجه باق رہ جاتا ہے ۔‬
‫ہجواتا ہنے ا‬ ‫ئب‬
‫ابب‬
‫غ۔ س‬
‫ہے‬
‫جب‬ ‫کا ھزےب۔ان‬ ‫عیال‬
‫تفاد‬
‫اىسو ا‬
‫کے عمل‬ ‫ان‬
‫بال‬
‫زی ح‬
‫یہ‬
‫اپنے معنی و مطلب کا ابلاغ کر چکے تنو و‬
‫یہست و نابود‬
‫ہجاوتی ہے اور اس کی جگہ اکسے معانی باق رہ جااۓے‬
‫ہیں ء یعی نمثالیں ء عمل یارد عمل ۔ چنانچە جو زبان ابلاغ‬
‫کاہسلیتےعال کی جائۓ اکسمکاال يہ ہے کھ وہ بہ آسانی‬
‫تبدیل هو کر کسی اور چیز کی صورت اختیار کر لے ۔ اس‬
‫فوت نہیں‬ ‫د‬ ‫کے برخلاف شاعرانہ کلام اظہار مطل‬
‫ببعکے‬
‫هجواتا بلک بار بار زندہ ھوتا ے ۔ شاعری کی ایک بڑی‬
‫پہچان یہ ے کہ اس کے الفاظ پڑھنے والے کے ذھن میں‬
‫اپنے آپ کو رہ رہ کر دھراے ھیں ‪ .....‬شاعرانہ کلام‬
‫میں صورت اور سعنی ؛ ہیئت اور مضمون ء صوت اور‬
‫ایک توازن‬ ‫اےن‬
‫یک‬‫میفیت‬
‫ر ک‬
‫درانه‬
‫مفہوم ؛ اشعار اور شاع‬
‫ہ‪1‬‬

‫نمگی ہوتی ہے ء جو نثر میں نہیں پائی‬‫ہوتا ے ء اآیکہہ‬


‫جاتی ۔ علاوہ بریں ان چیزوں کی اہمیت ء قدر و قیمت اور‬
‫بھی نثر کے‬ ‫قوت میں بھی یکسانی ہوتی ہے ۔ یہ خصوصیت‬
‫کہ نثر کا تقاضا يہ ھوتا ے‬ ‫؛وں‬
‫کی‬‫قواعد کے مناق سے‬
‫که عنئی کو الفاظ پر تفوق هو ۔)؛‬
‫ڈیوڈ ڈیچز (ەعطہ ن‪01٦401) 01‬‏ لکیتا ے ‪:‬‬
‫”جہاں کہیں شاعرانه اظہار هو اس کے پس پردہ ضرور شاعرانه‬
‫ادراک ہوکا جس کے لیے شاعرانه اسلوب اظہار بہترین اور‬
‫موزوں ترین اسلوب ہے اور نظم و نثر کا باھمی فرق زبان‬
‫نہیں ۔‬ ‫ق‬
‫فترکا‬
‫کی چند خصوصیات کے ‪.‬بارے میں حض کمی‬
‫ان میں جو فرق ےے وہ بنیادی طور پر طربق ادراک کا‬
‫ادراک ایک خاص قسم کی زبان کا تقاضا‬ ‫ق‬‫یه‬
‫ر۔ی‬
‫ط ہے‬
‫فرق‬
‫سے کھ‬ ‫کا‪:‬ایکائثبوثت ايه‬ ‫شاغرانه بصیرت‬ ‫کر قاھےے ےم‬
‫وہ شاعرانه اسلوب اظہار کو قدرق طور پر اختیار کریق‬
‫ہشےا۔عر زبان کے تمام تعبیری امکانات کو (یعتی اس کے‬
‫تضمینی امکانات کو‬ ‫تسمکے‬
‫ام‬ ‫تمام معین عقلی مفاہم کو) ہ ا‬
‫(جن سے سراد ان کے مقابلة"ً کم معین مطالب ھیں) اور اس‬
‫کتےمام جذیاتی و حسی امکانات کو کام میں لاتا ہے ۔ لیکن‬
‫یه چبزیں جاۓ خود شاعری کو کیفیای طور پر نثر سے‬
‫۔ںان سے بڑھ کر ایک‬
‫متمائز کرنۓ کے لیے کاف نہیں ہی‬
‫ے ؟ وہ یه کە شاعمر زبان کے ان پہلوؤں‬ ‫اور مابەالامتیاز‬
‫واہلفاظ کے دوسرے‬ ‫"کو ایسے طر یقےسے کام میں لاتا کہ‬
‫حاشیوں‬ ‫ن‬
‫ا۔‬‫ہیں‬ ‫پر حاشیوں کا کام دیتے‬ ‫الب‬
‫طو‬‫مانی‬
‫مع‬
‫پیدا‬ ‫سے ایک طرف تو الفاظ میں مزید انفرادیت اور مخصیص‬
‫معانی و مطالب میں‬ ‫ہو جاتی ےے اور دوسری طرف ان‬
‫کے‬
‫ىے ء یعنی ان میں به یک وقت ءمومیت‬ ‫آی‬
‫ات‬‫جعت‬
‫زیادہ وس‬
‫بھی اور خصوصیت بھی دونوں زیادہ مقدار میں پیدا ھوجاتق‬
‫ہیں ۔ یه اجعماع ضدین ھی شاعری کی امتیازی عجوبهہ کاری‬
‫نہیں‬

‫؛ ان کے‬ ‫عاتا و‬
‫یات‬ ‫ہے ۔ اچھی شاعری میں الفاظ کے من‬
‫راسب‬
‫تہہ در تہ معانی ؛ ان کے متعدد پہلو ؛ سب اہنے وت‬

‫کو پہنچ جاتے ہیں ‪ ......‬زبان کے اتنے زیادہ پہلو بیبیک‬


‫وعال‬ ‫النف‬‫کںه ان کا باھمی فع‬ ‫ہی‬ ‫ۓ‬ ‫جوۓاکار‬
‫اآ‬ ‫وقت بر‬
‫(قشدید ء ائید ء تاکید ء ترمیم ء تحریف ء تخصیص ء تنظم ء‬
‫تقرتویبس؛یع وغیرہ وغیرہ) جموعی مطلب کو تہبہ در تہہ‬
‫ۓ‬
‫۔ےاس‬ ‫ھوتا‬ ‫طریقوں ہے مد و معاوں‬ ‫اور پیچ در پەچ‬

‫فعل و انفعال کی مقدار جتنی زیادہ هو اتنا ھی شاعرانه کلام‬


‫اور خالص شعریت سے نزدیک هو جاتاے ۔‬ ‫وےر‬ ‫نث‬
‫درہ‬
‫که ایک رقص کو ببان کرنا مقصود ے ۔‬ ‫جضیے‬ ‫مث‬
‫کایفر‬
‫اس کا سادہ قریں شاعرانہ طریقه یہ ہے کہ الفاظ کی اصّوات ء‬
‫ادنرکا‬
‫وبست ء ان کیرفتار ء یعنی خود ان کی کیفیت رقصں‬
‫ایسی هو که رقص کا تاثر پیدا هو جاۓ ۔ لیکن اعليل قسم‬
‫شکایعءعری حض اسسطحی احضار پر اکتفا نہیں کرقی۔وةه‬
‫الفاظ کی باھہمی رعایتوں اور مناسبتوں ہے قسم قسم ی معنی‬
‫اںرءتیں اور دلالتیں کرتی ہے۔‬ ‫یه ان‬
‫اگیشزیا‬ ‫نںاء‬ ‫خی‬
‫کزیا‬
‫یعنی وه رقص کی روح کو اسٹیچج پر لے آتی ےء بلکہ اس‬
‫روح کاےرد گرد کے منظر کو ء اس کے ماحول کو ء یعنی‬
‫اس دنیا کو جس میں وہ رقص ہو رھا ہے ء نئےسرے سے پیدا‬
‫گدرزٹی فی ۔ شاعری صرف تحاکاتا نہیں ؛ نةاوه'غض ”بَا‬
‫ہے ۔ وہ نئےمعانی ء نبٔیحقیقتوں کیتخلیق ے _‪)-‬؟‬
‫‪٥‬صصدءہ‪)8‬‏ ک راۓ عے که ‪:‬‬ ‫ص‬ ‫سوزن لینگر ‪(٣٥‬‬
‫د‏جع‬
‫الفاظ کا‬ ‫اس کا مضمون‬ ‫”ارذ بعاظزیٗ کاتَوَاد زبان ھتےء‬
‫ام‬
‫لغخوی مطلب نہیں هوتا بلکه الفاظکیچند در چند کیفیات ء‬
‫انیقی آواز ‏ ان کیرفتار ء ان کا سلسلۂ التلافات ء ان‬ ‫نا‬

‫کرابطۂ افتکامرثءالوں کی خیال افروزی ؛ فرضی باتوں میں‬


‫‪۰‬ے‬

‫حقیقت کی جھلکیاں ء آشنا حقیقتوں میں افساسوں کی سی‬


‫تعجب انگیزیاں ء کسی کلیدی لفظ یا ترکیب کے ذریعے ایک‬
‫پوری عبارت کے معنوں کی طلس مکشائی اور ان سب سے بڑھ‬
‫کر الفاظ یق مت‬
‫شاعرانه زبان کی ایک نمایاں خصوصیت جو آس کے تخیبلی زبان ہوۓ‬
‫کانتیجە بھی سے اور نشانی بھی ء یہ ےکہ وہ منطقی اور لغوی نقطۂ نگاہ‬
‫سے جامع ضدین ء مبہم اور ذومعئیین معلوم ہوتی ہے ۔ کلینتھ بروکم٭‬
‫(دعاہەہ×‪ 8‬طغصہہ[‪ )0‬ۓ اہ‬
‫ینکتاب ٭'‪7<-‬ا طعجہ×<‪٣‬۔[[‪6٠٤ ٣٢١‬‏‬
‫میں اس موضوع پر بڑی مبسوط حث کی ے۔ ‪:‬أآِس کا‬
‫بنیادی نظریه يہ ے کہ شاعری کی زبسان ”'دروغ نمسا رامتی؛“‬
‫(‪700888‬م) کی زبان ہوتی نے ء یعنی وہ جو کچھ کہتی ہے وہ بەظاھر‬
‫میں‬ ‫بادیالنظر‬ ‫ے ۔‬ ‫سچ ھوتا‬ ‫جھوٹ معلوم ھوتا ے لیکن دراصل‬

‫شاعری کی زبان سوفسطائىی حجت بازی ء بذله سنجی ؛ طنز اور اسی قسم‬
‫ان‬ ‫ھسوقی ہلےی۔کن‬ ‫بےہ‬
‫اہ‬‫شسوں‬ ‫یاڈھتی مشقوں اور طبع آزم‬
‫مائی‬
‫جہاں ان کا‬ ‫طریقه ھاے تکلم اور شاعری میں یه باریک فسرق ے‬
‫که‬
‫سروکار زیادہ تر الفاظ سے براۓ الفاظ ھوتا ے ء شاعری کا مقصود الفاظ‬
‫لضنے‬ ‫یح‬‫ھسے‬ ‫ہےماورا ہوتا ھے ء یعنی جہاں یه طریقہ ہاے تکلم الف‬
‫کاظ‬
‫کی خاطر کھیلتے ہیں ء شاعری کے لیے الفاظ کاایسے طریقے سے استعال‬
‫وهیا وہ آن ے کھیل رھی ے ؛ ایک قسم‬
‫ےک‬‫ھوتا گ‬ ‫وم‬ ‫جمس ہ‬
‫عےلیە‬
‫کیستکلانہ مجبوری ہوتا ہے ؛ کیوں کہ اس کے بغیر اس کے لیے اظہار‬
‫(‪601[0‬ا ‪(80‬‬ ‫مطاب کا اور کوی سيا ہی نہیں ۔ ٹی ۔ ایس ۔ ایلیٹ‬
‫کنےزدیک شعرگوئی بذەات خود رسمی زبان میں ایک طرح کی‬
‫رخنه اندازی ہے ۔ شاعر الفاظ کے مروج اور لغوی ععانی کا تاروہود‬
‫سبےکھ۔یر کرمعانیکےنئےنئےجموعے ؛ لئےنئےخوشے ء نئبےننۓاعقتدا‬
‫اس‬
‫کاکام ھی ید ے کہ الفاظ کے جوڑ توڑ ہے نت نئے معانی پیدا‬
‫کسرتا رے ۔ یە بات صرف سنفرد قراکیب یااشعار ھیپرنہیںبلکه‬
‫مکمل نظموں پربھیصادق آتیہے۔اگر ہکمسی نظم کو ایکعقلی‬
‫‪۱‬ء‪1‬‬

‫دعوعل یابیان سمجھ کر پرکھیں تھومیں ایسا معلوم ہوگا کہ اس‬


‫میں تضاد ھے ؛ تناقض ہے ؛ اہہام سے اور اسی قسم کی اور باتیں ہیں جو‬
‫نثری عبارت میں معیوب سمجھی جاتی ہیں۔ لیکناکر شاعرکو اپتےتخیبلی‬
‫تجرے کی وحدت کا آشکار کرنا مقصود ہو تو اس کےلیے متناقض ؛ متضاد‬
‫اور مبہم باتوں ککاہنا ناگزیر ھے ۔ اس کاکامحقیقت کیسطحی تصویر‬
‫پیش کرنا نہیں جس میں ایک قسم کیمصنوعی وحدت ہوق ہے جو‬
‫ہوتیق ہے ؟ اس کا‬ ‫دںاکی‬
‫وار‬ ‫مارے فہم اور ارادے کی محدود ضر‬
‫پور‬
‫یتو‬
‫پردہ‬ ‫وحدت کا طلسم توڑ کر اس‬
‫پکے‬
‫س‬ ‫کام یہہے کہ اس مصنوعی‬

‫جو حقیقی وحدت ہے اس کو ے انقات "'کرےۓ۔ ایساا کڑنۓ یىیعاطر انے‬

‫اپنی زبان میں وہ تناقض اور تضاد بر قرار رکھنے پڑے ہیں جو سطحی‬
‫یکسانی اور حقیقی وحدت کے درمیان حائل ہوۓ ہیں ۔ لیکن وہ اس کی‬
‫ورد بخود حل ہو‬ ‫نظم کیہیی اور معنوی وحدت میمںدغم ہخو ک‬
‫جاۓ ھیں ۔‬
‫ارہن (‪0٥‬ا‪)]77‬ۓ‏ ایہنکتاب ”زبان اور حقیتت؛ ‪0881 08‬جعصد])‬
‫‪)۸.۲1.‬‬ ‫‪87‬‬
‫‪01‬‬ ‫(‪76‬ذ[‪:٥٥‬‏ میں منطتی اثباتیت اور آئی ۔ اے ۔ رچرڈز (‪۴‬‬
‫ط‪84‬‬
‫کنےظارسیۂ زبات پبرڑی مد و مدسےحمله کیا ہےجزوبان کو‬
‫تحریل (سائٹنک) اور جذیاتی‪(:‬شاعرائہ) میں تقسی‪ :‬کرتا سے ۔ اس کے‬
‫نزدیک زبانکاایک اور عمل بھی ہے ء یعنی ”'احضاری“ عمل جو‬
‫ضیروری تھے جتنے” ویلی اور‬ ‫وجدانی یا علامتی ہوتا ہے ۔ یه عمل اتنا ھ‬
‫جذباتی اعمال ہیں اور اس کے بغیر زبان میں معانی پیدا نہیں هو سکنے اور‬
‫یه عمل استعاروں کی مدد ے پیدا ھوتا ے لیکن ایسے استعاروں کی مدد‬
‫سےنہیں جو حض تمثیلی یاتزئینی ھوں ء یعنی عض تصرج مطلب یا زینت‬
‫استعال کے گئے ہو‬
‫بںلک‬
‫ءہ اایسسےتعاروں کی مدد ہے‬ ‫اک‬
‫طیر‬ ‫کل‬
‫خام‬
‫ثا۔ٌٍ جب شاعر کو کوئی‬ ‫جو براہ راست اظہار مطلب کا وسیلهہ ھموں‬
‫ایسا منطتی قضيه بیان کرنا هو جو لغوی زبان میں بیان کیا جا سکتا ے‬
‫تکعارے کے ذریعے یا اایسکتعارے کی مدد ے‬
‫اہے بیان‬ ‫اور و‬
‫اہسای‬
‫کرے تو اُس وقت استعارہ حعض ایک سطحی یا ضمنی حیثیت رکھتا ے ۔‬
‫‪۲‬‬

‫ابسرکخےلاف جب اسے کوئی ایسا مضمون بیان کرئا هو جاوف٭وی‬


‫الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا اور وہ اس کا اظہار ایک استعارے کے‬
‫ذریعے کرے تو آ٘س وقت استعارہ ایک علامت کی حیثیت اختیار کر لیتا‬
‫بئیادی‬ ‫ایسی علامات کا استعال شاع‬
‫ارییکی‬
‫ک‬ ‫یک‬ ‫زرہن‬
‫دکے‬ ‫سے‬
‫ن۔ا‬
‫ضرورت ہے اور ان کی تشریج دوسرے الفاظ میں ناممکن سے ۔ و ہکہتا ےہ ‪:‬‬

‫”شاعری وھی کہتی ہے جو اسے کہنا مطلوب ہوتا ہے لیکن جو‬


‫کچھ اہے کہنا مطلوب ہوتا ے وہ انے پورے طور پرنہیں‬
‫کی ۔ اکراوہسب کچھکہ ڈالےیاکی یاکرش‬
‫کرے تو وہ شاعری ' یں رھتی ۔ شاعری ا گزیر طورپراپنے‬
‫آپ سےگزر کرمابعد الطبیعیات بنجاق ہے ء لیکن یہ عبور‬
‫نہیں ہوتا ۔‬ ‫تمیکا‬
‫جہ‬ ‫ورادی اق‬
‫ندا‬ ‫ا‬ ‫عے ک‬
‫وسی‬
‫ری‬ ‫شاع‬
‫شر ک‬
‫اسی میں ہے کم وہ اپنے علامتی انداز‬ ‫مل‬
‫صیے‬
‫لحت‬ ‫اس کے‬
‫کو قائم رکھے ۔ یه ایک غلط بات ہے کہ جو چیڑ بذریعۂ‬
‫علامت بیانکیجا سکتی ہے ء وہ لغوی الفاظ کے ذریعے بہتر‬
‫بیان کیجا سکتی ہے ؛ کیوں کہ لغوی بیان کیقسم کیکوئی‬
‫چیز ھی موجود نہیں ۔ لغوی بمان بھی حض ایک اور قسم کا‬
‫۔ے)؛‬
‫سلسلۂ علامات ہوئتا ے‬
‫نبنزکدےیک کسی نظمکا ترجمہ یا تشریج اممکن ےہ ۔‬
‫چنانچہ ار‬
‫وہ صرف اس کے ذریعے کہا جا سکتا ہے ء لیکن‬ ‫چو کچھ وہ کہتی ے‬

‫رین اس باتپر مصر ہے کہ هر نظم کوئی نہ کوئی بات ضرور کہتی‬


‫ہے ؛ یعنیشاعرانہ علامت وسیلۂ علمهوقہے ؛ اگرچھ وہ علم جسکاوہ‬
‫ابلاغ کرتی ے انی ھ‬
‫قیسم کاعلم ہوا ےہ جس کامنبع شاعر کاذاقق‬
‫تجرہہ ھوتا ے ۔ قیاس چاھہتا ے که فارسی شاعری کے استعارہ پسند دبستان‬
‫کا یه ضربالمثل مقولەکه ”'شعر خوب معنی“ٴ ندارد““ احسقییقت کی طرف‬
‫شقاعر“‬
‫لف‬‫اعنی‬
‫‌لم‬
‫ن”'ا‬ ‫اشضارہ کرتا تلھایءکن اس ہلےازمی طو‬
‫برطپر‬
‫منتج نہیں ہسوتا ؛ کیوں کے شاعسر کا مقصد اپنےنشاعسرالہ تجرے کا‬
‫ء‬ ‫الہته وہ اس کا اظہار اسی کے الفاظ میں کسرتاے‬ ‫اظہار ھوتا ے ۔‬
‫‪١۳‬‬

‫جو اس وجہ ہے ایک علامتّی حیثیت رکھتے ہیں ۔ ضرورت اس بات ک‬


‫کے معانی کسی لغوی تشریج کہ بغیر‬ ‫ایمات‬
‫لک‬‫ععر‬
‫ہوی ے کہ شا‬
‫پڑھنے والے کے ذھن میں وارد هو جائیں ۔ یہ شاعر کی قدرت اظہار اور‬
‫پر متحصر بے ء اور اس‬ ‫پڑھنے والے کی استعداد شعر فہمی کی مساوات‬
‫دونوں کی قوت تخیل کو بڑا ءەمل دخل‬ ‫میں‬ ‫مساوات کےقائم کے‬
‫ھوتا ے ۔‬
‫گیارھواں باب‬
‫شاعر انەتخیل اور مجاز‬
‫ھم گۓزےشته ابواب میں جا بجا م'مثال‪+‬ٴ اور ”'علامت؛“ کے الفاظ‬
‫استعمال کیے هسیں ء لیکن اآسمید پسرکہ قارثین کسو امنفکاےہیم کا‬
‫حسب ضرورت قرائن اور سیاق و سباق سے پتا چل جااۓ کا ان کی کہہیں‬
‫تعریف یا توصیف نہیں کی ۔ اس باب میں ہم ان کے معانی کی توضیح اور‬
‫ان ہے خصوصی طور پر بحث کریں گے ؛ کیو ںکه جیساکه دسویں باب‬
‫سظےاہر ہو گیا ہوکا ء الفاظ کاے ل‬
‫سغتویعال کےپہلو بپہہلو ان کا‬
‫(یعنی تمثال ء تشبيه ء استعارہ ؛ علامت وغمرہ کا استعال)‬ ‫استعال‬ ‫مجازی‬

‫شاعری کی ایک امتیازی خصوصیت ہے ء بلکہ اس کے لیے مؤخرالذ کر‬


‫استعمال مقدمالذ کر استعال سے زیادہ اھمیت رکھتا ہے ۔ تشبیه و استعارہ‬
‫ہیں ۔ تمثال و علامت ان کیمتجانس‬ ‫اصطلاحات‬ ‫مارے یہاں کی معروف‬
‫مغری تنقید ادب میں متداول هیں لیکن ابھی مارے‬ ‫اصطلاحات ھیں جو‬

‫یہاں معروف نہیں ھوئیں ت‬


‫۔مہیداً مفید ھوکا ائر ھم ایک بنیادی فرق کو‬
‫جو مارے یہاں مجازی زبان کے مقاصد کے بارے میں قدیم اور جدید‬
‫خیال کے درمیان پایا جاتا هے ؛ واضح کرنۓ کی خاطر مولانا‬ ‫نقطه ھاے‬
‫عبدالرحان کی ””مرأة الشعر“' اور سید عابد علی عابد کی ”'اصول انتقاد‬
‫ادبیات““ ے چند اقتباسات پیش کسریں ۔ مولانا عبدالرحن ء جو قدیم‬
‫نقطه نگاہ کے نمائندے ہیں ء لکھتے ہیں ‪:‬‬

‫”جاز زیور سخن ے‬


‫‪....‬‬ ‫”شعر شاھد سخن سے اور مجاز اس کا پر تکلف لبا‬
‫زسیوور‬
‫جاز کاحسن عام طور پر مسلم ہے ؛ کلام نظم ہو یناثر ۔‬
‫”بہت دنوں میں آۓ ء میاں عید کاچاند ھوگۓ !‪ “۶‬دولوں‬
‫فقروں کےمعانی بالکل ایک ھی ہیں ء لیکن حسن کلام اور‬
‫ا‬

‫زور بیان میںزسین آسان کافرق حے ۔ جاز ۓ دوسرے فقرے‬


‫ک وکہیں ہ ےکہیں پہنچا دیا ےہ ۔ غور سے دیکھیےتو زبان و‬
‫بریه کا۔‬ ‫بیان کو خود جویاے مجاز پائیے گا؛ خا‬
‫تصشک‬
‫جہاں سیدھا سادھا صاف صاف بیان روکھا پھیکا معلوم ھوتا‬
‫سے ء مجاز نمک پیدا کرتا ہے ۔ اور جہاں حقیقت کی زبان‬
‫دل نشیںنہیں ہسوتی ؛ بات سمجھنی سشکل ہو جاتی ہے ۔‬
‫دیتا‬ ‫ول‬ ‫عقدۂ مش‬
‫ککلھکو‬ ‫جاز ترج|ن کاکام کر‬
‫اتاوے‬
‫ر‬
‫لیتا ے اور ایک دور از فہم‬ ‫م‬ ‫سے ء یعنی متکلم ا‬
‫کزاہے‬
‫حقیقت کو کسی قںیب کی چیز یا ملتی جلتی صفت سے‬
‫سمجھاۓ کی کوشش کرتا ھے ۔ خاطب سنتا ھے اور سمجھ‬
‫جاتا ے اور چوں کە مجاز ایک مشابہ یا آس پاس کی چیز‬
‫کی تصویر سامنے لا رکھتا ے ؛ خاطب اس کے تصور ہے‬
‫کے علاوہ ایک لطف مزید پاتا ے ۔ یہی لطف‬ ‫فہم حقیقت‬
‫اور اس کاذوق هر زبان میں جاز کو بڑھاتا اور شعر و انشا‬
‫ے _؛؛‬ ‫جساہے‬
‫تا‬ ‫وا‬‫کس‬
‫یںع؛نی‬
‫عبارت بالا کےمطابق جازی زبان کے تین مقاصد ہوۓ ھی‬
‫تزئین کلام ؛ تصریج مطلب اور لطف سخن ۔ اگرچہ سولانا نے جاز کو‬
‫دور از فہم حقائق کے سمجھنے سمجھاۓ کا ایک وسیلہ کہا ھے ؛ لیکن‬
‫امنک‬
‫طالب بداہۃ يہ ےہکه واہس معاملے مسیں مد و معاون‬
‫ہوتا ہے ء نە یہ کە وہ بعض حقائق کے بیان کرۓ کا واحد ممکن ذریعه‬
‫کی اس عبارت میں جو ہم ۓ‬ ‫‪0‬ینا)‏‬
‫اار‬
‫طکہ‬ ‫(تادےدء جی‬
‫‪٥‬سا‬ ‫ھو‬
‫دسویں باب میںنقلکیہے ء کہا گیا ے ۔ اس کےبرخلاف سید عابدعلی‬
‫ے‬
‫لاریکے‬‫عابد اسہےمتفق معلوم ہوتے یں کہ بعض مطالب کے اظہ‬
‫۔ وہ ابنی مثنقولهۂ‬ ‫تںا‬
‫ہہونہی‬
‫ااسنتکےعال کےسوا کوئی چار‬
‫جازی زب‬
‫اور بدیعم کو‬ ‫؛ن‬
‫معبانییا‬ ‫ۓم‬
‫لو‬‫عھوں‬
‫ذیل عبارات میں ء جن میں ان‬
‫ایک دوسرے ہے متائز کیا ہے ء اس نکتے سے بحث کر‪ ” .‬ہیں ۔ ان کی‬
‫بحث صرف شاعری ہے تعلق نہیں رکھتی بلکہ ادب ہے بحیثیت جموعی ء‬
‫‪١‬‬

‫لیکن اس کااطلاق شاعری پر بالخصوص هوتا ہے ‪:‬‬


‫یشهکایت رغتّی ہے کھ‬ ‫مک‬
‫یوشہ‬ ‫”ادیب کو اور انشا پر‬
‫ہداز‬
‫نوادر افکار بیان کرتے وقت کوئی نە کوئی پہلو ضرور تشنة‬
‫اظہار رہ جاتا ے اور ابلاغ و اظہار کےکتنے ھی دل پسند‬
‫وم‬ ‫فکا‬
‫ہوہ‬ ‫پرد‬
‫ماز‬ ‫نشءا‬ ‫طریقےکیوں نہ استعمال کیے جا‬
‫ائیں‬
‫اور لطیف ہوتا ہے ء اپنی تمام باریک دلالتوں کے‬ ‫جدوقیق‬
‫ساتھ کبھی الفاظ کے شیشے میں نہیں اترتا ‪٤‬‏‬
‫اوقات الفاظ کی دلالت وضعی سے اس کا کام نہیں چلتا تو وہ‬ ‫بعض‬

‫انھی الفاظ کو معافنیٴ غضیر وضعی یامعانیٴ غضیر حقیقی یا‬


‫معانیٴ جازی میں استعل کرتا ہے ۔ اس کامطلب یه ھوا کهھ‬
‫انشا پرداز الفاظ کیودلہالت مراد لیتا ے جس کےلیے الفاظ‬
‫وغع نەکے گۓ تھے ‪““-‬‬
‫”معانی ہے بحث کرتے هوۓ دیکھا گیا تھا کہ یہ علم موزوں‬
‫سکھاتسا سے ء لیکن دلالت‬ ‫کگےسر‬ ‫تاظخکے‬
‫اب‬ ‫تر‬
‫ایں ا‬
‫نلف‬
‫وضعی کے دائرے میں مقید رہتا ے ۔ بیان اس سے ایک‬
‫جہاں معانی انی درماندگی او‬
‫برسےی‬ ‫آے بڑھتا ے‬
‫قدم گ‬
‫کااظہار کرتا ے اور کہتا ےکهە جس دقیق و نفیس‬
‫کیفیت کا پیعان کیرننا مقصود ے اس کے لیے موزوں الفاظ‬
‫نہ مل سک ‪6‬ات فی کارری فدہ کی ھا رو نظ‬
‫کو مجازی دلالتیں اور کیفیتیں عطا کرتا ے اور اکنیفیتوں‬
‫ان‬ ‫کی مدد ہے‬ ‫ورہ‬ ‫ستش‬
‫تبی‬
‫عها‬ ‫بع‬
‫انی‬ ‫زںیکے‬
‫عے‬ ‫اور دلا‬
‫ذلتو‬
‫یاتفی‬
‫وات کسو بیان کرنا چاہتا ے جن سے معافی‬ ‫وا‬
‫کرد‬
‫دلالت وضعی میں مفید رھنے کے باعث قاصر تھا ۔““‬
‫”اب صرف علم بدیع رہ گیا ے ۔ اس کی تعررف يہ کی کئی ھے‬
‫که یہ وہ علم ےہ جس ہے تحسین و تزئین کلام کے طریقے‬
‫معلوم ہوتے ہیں ۔ا؛‬
‫معانی ء بیان اور بدیع تینوں میں مہارت‬ ‫اعلیٰ پشاۓاکغیری‬
‫ے‪۱‬‬

‫جو‬ ‫ہے‬ ‫یک‬


‫داان‬ ‫چاہتی ے ء لیکن اس کی خاص جولان گاہ علم بی‬
‫مان‬

‫تخیل کیقلم رو کاایک حصہ سے ۔ معانی پر قدرت کےلیے لسانی علاوم میں‬
‫دست گاہ اور بالخصوص علم اشتقاق اور صرف و نحو پر عبور لازمی‬
‫ہے ے جسو خطیبانہ کلام کے‬ ‫فص‬
‫باح‬
‫لتاوغت‬ ‫ق‬ ‫عیع‬
‫دکا‬ ‫بے‬
‫ت۔بد‬
‫خضوصی محاسن ہیں ؛ لیکن شعر کوئی ی تکنیک کے لیے بھی اہغیت‬
‫رکھتی ہی‬
‫عںل۔م بیان شاعرانہ اظہار کے بنیادی مسائل ہے تعلق‬
‫رکھتا ے ؛ کیوںکە اس کاموضوع خاص تمیبلی وجدان اتوخریہلی اظہار‬
‫تو‬ ‫جوزاکر‬
‫ۓ‬ ‫سے ۔ اگ‬
‫مرععل‬
‫امنی کا اثنرفووذ حاعدتدال نے تجا‬
‫شاعری حض ثر موزوں و مقفول بن کر وہ جاتی ہے ۔ اسی طرح اگرعلم‬
‫ہجواتی ہے ۔‬ ‫ا می‬
‫سںل‬ ‫خطا‬
‫شبت‬ ‫ائۓ‬
‫عتو‬
‫ری‬ ‫بدیع کا پله بھاری ہش‬
‫و جا‬
‫صرف بمان کی دنیا کے قوانین شاعری یی فطری ساخ تکو راس آتے ہیں ء‬
‫وںہ گر ہوے ہیں ۔ ممثال ء‬ ‫کیوں کہ وہاں حقائق از کےلب‬
‫جاسلمی‬
‫سهتع؛ارہ اور علامت گویا شاعرکےلیے اس کیمادری زبانء اس‬ ‫تش‬
‫ابی‬
‫کرےوزسرہ اور اس کے خصوص اوروں کا حکم رکھتے ہیں ۔‬
‫ے کہ آیا مجازی زبان کی یہ ختلف‬ ‫یه ایک متندازعہ فمیسثله‬
‫تراکیب سب اپنی اپنی جگہ مستقل حیثیت رکھتی ہیںیاان میں سے‬
‫کوئی ایک اولی ے اور با‬
‫ثقاسنبوی ؟‪ --‬قدیم زمانوں میں عموٰباً‬
‫ترکیب سمجھا جاتا تھااور مارے یہاں آج تک یہی‬ ‫وک‬
‫لوی‬ ‫تشب‬
‫ایہ‬
‫۔نچہ اردو کے بعض اھہل الراۓ اس‬
‫تتغا‬
‫شرےبکیوه‬ ‫خیال رای ھچےنا‬
‫کی ایک قسم سمجھتے ہیں ۔ مغربی تنقید میںفیزمائنا بعضن لوگ مثال‬
‫کو اور بعض لوگ علامت کو اولی سمجھتے ھی اور بغض لوگوں کییه‬
‫زالۓ ہے که سب کی سب علیحدہ انواع ھیں ‪-‬‬

‫ہمپہلے تنثالسےبحثکریں گے ۔ ہم اس اصطلاح کو انگریزی کے‬


‫ل”فاظسیج“ (‪٥‬ج‪00٥‬ہ‪)1‬‏ کے ترجے کاے طسور‬
‫تپعرال کز رھے ہیں ۔‬
‫”امیج'“' کےلغوی معنی ہیں کسی چیز کینقل ء چربھ ء خاکە ء بت ء‬
‫تصویر ینامجسمہ ۔ نفسیات میں اس سے مراد ے کسی گزرے هھوۓ‬
‫حسی یاادرای تجرےکییادیااس کایاقماندہ تاثر یا ذھنی نقشہ ۔‬
‫‪۸‬‬

‫نفسیات میں اس کاترجمہ کبھی ''شبیه؛“ کے لفظ ہے اکوربھی ”خیال؛؛‬


‫جاتا حے اور ‪٣٥89001‬‏ کےلبیحےیثیت بجموعی تخیله‬ ‫لھا سگےیا‬
‫ە(‏تمٹع() کک کئی قسمیں‬ ‫کا لفظ استعال کیا جاتا ے ۔ ”امیجری“ ‪7٣‬‬
‫‪٥‬‏چت(‏ آ‪٤5٤5٥‬ھ)‏ حری خیله )‪70٥٤05‬‏ ء‬ ‫ہیں ۔ مثٹاڈ ذھنی غیله ‪(٣‬‬
‫ء حری سعی غیله٭ (‪7‬٭ہ چو( ‪۳‬ذ‪٢‬ا‏نة ىہ <مغم) اور‬ ‫‪8‬‏ز‬ ‫(ج‬
‫ی< ہ‪٥‬‬
‫[‪٥‬ا‪٥٣‬ء)‏ ۔ اگرچە اس میں عموماً بصری عفصر‬ ‫ذ‏‬ ‫لفظی خیله (‪٣‬٭‬
‫ص‏ چ‪٥‬‬
‫دوسرے حواس باھپینے اپت‬
‫مےبخیل‬
‫اوںلکے‬
‫ک‬ ‫غالب ہوتا ہاےہ‬
‫ءم‬
‫ھوے ہیں اور بعض نمخیلوں میں ایک سے زیادہ حواس بروۓ کار آاے‬
‫فکہےوم کو ادا کرۓ کے‬ ‫هیں ۔ غالبا ”تصور؛“؛ یا ”'خیال ام‬
‫میج‬
‫لیے بہترین لفظ ہیں ؛ لیکن چونکہ یه دونوں الفاظ مارے یہاں مخصوص‬
‫معنوں میں متداول ہیں السیے ہم ۓ ان میں ہے کسی کو انتخاب‬
‫اس لیے‬ ‫ممکن الفاظ پر‬ ‫دوسرے‬ ‫نہیں کیا ۔ ہم نے ''ننثالٴ““ کو سب‬

‫ترجیج دی ےہ کہ اول تو اس میں شبیە اور تصویر کےمعنی پاۓ‬


‫جاے ہیں اور دوسرے یه لافظ‬
‫بھی تک ہارے یہاں کی ادبی تنقید میں‬
‫کسی خاص مفہوم کےلیے وقفنہیں ھوا ۔ سی ۔ ڈے لوئیس ‪)0. 780‬‬
‫(‪ ]66‬انی کتاب ''شاعرانه تمثال““ (‪٥/‬ج‪٥‬‏ ‪50‬آ ز‬
‫٭‪02٥٥‬‏ مط‪ ):[۲‬میں‬
‫تمثال کی توصیف ذیل کے الفاظ میں کرتا ہے ‪:‬‬
‫”'سادہ ترین الفاظ میں تمثال کی توصیف یوں کی جا سکتی ہے کہ‬
‫ھسوئی ایک تصویر موق‬ ‫ی‬ ‫وہ الفاظ کےنقش و نک‬
‫بارنسے‬
‫ہے ۔ کسی اسم صفت سے ؛ کسی تشبیہ سے ؛ کسی استعارے‬

‫سے ایک تنثال پیدا ہو سکتی ہے ء بلکہ یہبھیممکن ے‬


‫کے وکہسی ایسی قرکیب ہ جملے یا عبارت کیصورت‬
‫میں پیش کی جاۓ جو سطحی طور پر تو عض ایک بیانیه‬
‫جموعۂ الفاظ هو لیکن مارے ذھن کو کسی خارجی حقیقت‬
‫چہ ہر‬ ‫ااۓ‬
‫نے ۔‬ ‫کی عکاسی پر مستزاد کسی چیز تچک ل‬
‫نے ج‬
‫کی خصوصیت‬ ‫عتک‬
‫ارے‬ ‫شاعرانه تمثال کسی نہ‬
‫ا کس‬
‫سیتحد‬
‫رکھتی ے ۔ ہوں کہیے کے وہ ایک ایسا آئینہ ہویق ے‬
‫‪۹‬خ‬

‫جس میں زندگ اہنا چہرہ تونہیں دیکھتی لیکن اپنے چہرے‬
‫حقیقت کامشاہدہ کری ہے ۔ تمثال یىیسب‬ ‫کمےتعلق‬
‫ہزےیادہ عمومی قسم ایک مرئی تصصویر ہوقیق ہے ؛ لیکن‬
‫کے‬ ‫تواجسرکبےوں‬
‫حس‬ ‫کبھی کبھی تمثالوں میں دوسرے‬
‫وه‬ ‫عناصر بھی شامل ھوتے ہیں ۔ ھر تثال میں ء چاے‬
‫کی ھی جذباتی یاعقلی ہو ء حسیت کا کچھ نہ کچھ شائبه‬
‫چون کنا چاھیے که ایک شاعرانه ممثال ایک‬ ‫ھوتا ‪١‬ے‏ ۔‬

‫لفظی تصویر وی ہے جس میں جذبات و امیال کا رنگ‬


‫پھرا موتاتھ ‪2٤٤‬‏‬

‫ایزرا پاؤنڈ ‪(9001:02‬‏ ‪ )87201‬ۓ سکب تنثال کی تعریف یوں‬


‫کی ے ‪:‬‬
‫اور جذباقی تجربوں‬ ‫لںی‬
‫عانقمی‬
‫”ایک ایتسمیثال جو ایک لمحه زب‬
‫خیالات کا‬ ‫کا ایک مس کب پیش کرے ؛ وہ باھم آمیختہ‬
‫اكیککَرذابٴ‪ ':‬ایک غقد‪::‬ھنوتا رھ اور اس‪:‬ٹین قوائائیق‬
‫‪۶‬‬
‫هوق ۓ‬
‫دبستان ([ہمطہ‪81٥٠٥ 8‬عي‪0٥‬ہ‪)1‬‏ جس کا دور دورہ‬ ‫االی‬
‫میث ک‬
‫تعر‬
‫شا‬
‫چند سالوں تک رھاء اعسقیدے پر کاربند تھا کہ خصوصی چیزوں‬
‫عمومیتوں ہے اجتناب کرنا‬ ‫م‬
‫ہور‬
‫میے ا‬
‫کو من و عن بیان کرنا چاہ‬
‫چاہنے ۔ اس نے جس مقصدکااعلان کیا وہ سےتھاکه اشیاکو‬
‫سا کہ اس بحث سے جو ھم دوسرے اور‬ ‫محینثالاشیا پیش کیا ججاۓی ۔‬
‫تیسرے باب میں کر آاےۓے ہیں ظاہر ہے ء یہ علمیاتی نقطه نگاہ ہے ایک‬
‫میں تمشا ی‬ ‫لاکن الحصول مقصد تھا ۔ چنانچہ اُس مقصد کی تحصیل‬
‫نجموعہ بنگئٔی جس میں کوئی‬ ‫ک‬
‫یکا‬
‫الوں‬
‫شاعری غیر مربوط حسی تمثا‬
‫تھا ۔ یعنی ہہمارے نظرے کے مطابق وہ‬ ‫تہا‬
‫ون‬‫ھبہ‬
‫خیال یا جذ‬ ‫سکزی‬
‫تخیملی شاعری کےبجاۓ محض واہمے کی نقش طرازی بنکر رہ گئی ۔ اس کے‬
‫ثسایلیں تخیل کے مرقعوں کے‬ ‫اےم متینں ح‬ ‫لک‬‫کروں‬‫برخلاف ہڑے شاع‬
‫و اجاکر کرتی ہیں ۔ مث ٹی۔ایں۔ ایلیٹ کیراۓ میں دانتے‬ ‫رشو‬
‫کنگا‬ ‫نق‬
‫‪۸۰‬‬

‫(‪680‬ط‪ )98001‬کاتخیل ایک بصری تخیل ے ۔ وہ بصری ان معنوں میں ے‬


‫دە‬
‫انتے ایک ایسے زماۓ میں زندہ تھا جب انسانوں کو عالم غیب‬ ‫ک‬
‫‪.‬ے‪ .....‬وہ دالتے کی رہزی‬
‫ھوا کرے تھ‬ ‫کے بصری مشاهدے‬
‫حکایات ہیں جن کی بدولت کوئی ایسا قاری جو اطالوی زبان پر عبور‬
‫زبان بدلتی‬ ‫‪..‬‬
‫‪.‬ہے‬
‫‪.‬اتا‬
‫‪ .‬اٹھ‬
‫نرہیکںھتا ء اس کے کلام سے لطف‬
‫رھتی ے لیکن ہاری آنکھیں جوں کی توں رہ جاق ھیں ۔؛“ کولرج‬
‫بیان کرتا ےے ‪٠‬‏‬ ‫ایک اور خصوصیت‬ ‫(‪٥‬عذ‪)100٥‬‏ دانتے کى‪2‬‬
‫”دانتے کی ممثالیں فطرت سے حاصکلیے هوۓے ایک عالمگیر جذے ہے‬
‫رویک‬‫حک‬ ‫تبوں‬‫ملحق ہوتی ہیں اور اس لیٌ انسانوں کے عمومی جذ‬
‫میں لاتی ہیں “ک۔ولرج کی اپنیتمثالیں کلی کیفیتوں کی علامتیں ہوق‬
‫ہیں اور ان میں ایک لامتناھی خیال افروزی ہوتی ہے ۔ وہ کہتا ہے ء‬
‫”'شاعری کے سب سے شاندار کارناہے وہ ہیں جن میں تخیل کو بروۓ‬
‫واضح تصویر پیش کی جاۓ بلکه‬ ‫ی‬
‫وںئکە‬
‫کنہی‬
‫کار لایاجاتا ھے ؛ اس لیے‬
‫اس لیے کہ نفس کی کسی زبردست تحریک کا اظہار کیا جائۓ ۔ اس کا‬
‫ایک خالی خولی ممثال کیجگە کسی ماوراے تخیل‬ ‫ےہ‬
‫نتیجهہ یه ھوتا ک‬
‫نفس کے عمیق ترین‬ ‫حقیقت کا رفیع احساس پیدا هو جاتا سے ‪.,....‬‬
‫ایک چھلے چھلائۓ ء کٹے کلٹسائۓ عملی قاعصسدے کی صورت‬ ‫وجدان‬

‫میں ظاہر نہین کیے جا سکتے ۔ حقیقت کاعرفان اکثر نم لی کی آڑق‬


‫سی جھلکیوں کے ذریعے ہوتا ے جو تجرے کےمنظر وسیع پرمدھم‬
‫سی روشنی ڈال کر ارد گرد کے جھٹیٹے کی طرف معنی خیز اشارے کرق‬
‫ہیں ۔ تنشالوں کو چھوٹی چھوٹی تصویریں نہ ہونا چاهیے بلکہ ایک‬
‫بہت بڑی تصویر کے ایسے حصے هونا چاھیے جتوصویر کیکلیت ک‬
‫یں “‪ ۶‬اس معاملے میں سب ہے بڑا استاد فن‬ ‫ئلے‬
‫جناکو‬ ‫طرف ذھ‬
‫شیکسپیئر ‪(٥‬‏ ‪١‬ت‪٥‬‏ اقط‪ )8‬تھا ۔ اس کی تمثالوں میں سارے خواس کی‬
‫ہیں ۔‬ ‫لقش گری دکھائی دیبی ےے ء بلکە وہ عموماً ص کب تمثالیں ہوتی‬

‫اس کا خصوصی کال يہ ہے کہ وہ ایسی تثالیں تخلیق کرتا ے جو‬


‫ایک طرف تکولیتیں هسوق ہیں اور دوسری طرف منفرد و ےسم اشیا‬
‫ھ‪("۸‬‬

‫بھی ہوتی ہیں ؛ یعنی اجتاع ضدین ہوتی ہیں ۔ ان میں وہ حسیت بھی‬
‫‪.‬یٹ‬
‫‪۵‬س‪ )85‬دل دادہ تھا اور وہ سابعدالطبیعیاق‬ ‫)ج‬
‫‪6‬س ک‬
‫‪9‬ا ک‬ ‫ہو‬
‫(ق‪1‬ہے‬
‫ماورائیت بھی ہویق ہے جسے اکر لوگ اکسے ایک فلسفی ہوئۓ کا‬
‫ثبوت سمجھتے ہیں ۔‬
‫لوئیس (‪٥‬ہ‪٤‬آ‏ ‪ 787‬۔‪)6‬‬ ‫ے‬ ‫مثالوں کے سلسلے میں سی‬
‫ڈ۔‬
‫سترھویں صدی کے مابعدالطہیعیاتی شعرا کے متعلق ایک رائۓ ظاهر کرتا‬
‫ہے جو ہاری شاعری پر ایک حد تک منطبق ہوتقی دے ‪:‬‬
‫جاتا تھا وہ‬ ‫وس‬
‫نےدھا‬ ‫جس خم‬
‫گبر‬ ‫”مابعدالطبیعیاتی شع‬
‫کرالکاام‬
‫امیا‬
‫ائی‬ ‫د‬
‫ڈعسراوی‬ ‫قوت واہمہ کی منطق هو‬
‫بتایتھ‬
‫اان۔ی‬
‫ہوتا‬ ‫ی جگھ اس میں ایک ایسا استدلال‬ ‫ہین‬ ‫دل‬
‫بائ‬
‫رلاو‬
‫تھا جو واھے اور منطق کے مکالموں ء جادلوں اور مناظروں‬
‫میں ان کو‬ ‫ب‬
‫ودائع ک‬
‫زےمررے‬ ‫۔ع‬ ‫نتھ‬
‫اائ‬ ‫پمربٹی ہو‬
‫صتا‬
‫جچویز سب ہزےیادہ رغوب تھی وہ مضمون آفرینی‬
‫تھی ؛ جو حض کسی عقلىی موضوع پر لفظی شعبدہ بازی‬
‫صوتی تھی ۔ ان مضمون آفرینیوں میں جذبات انگیزی کا‬
‫پر‬ ‫تمثالوں‬ ‫شعرا‬ ‫عتصر بہت کم ھوتا تمھاابع۔دالطبیعیاتی‬
‫تفکر کا اتنا زیادہ بوجھ لاد دیتے تھے کہ وہ اس کی متحمل‬
‫نہ ہو سکتی تھیں ؛ جس کا نتیجه یه ھوتا تھا کہ خود‬
‫تفکر کی روانی میں رکاؤ پیدا هو جاتا تھا ر۔ومانی شاعروں‬
‫فکر کی‬ ‫عںر ۓ‬
‫انہ‬ ‫یه تھا ک‬
‫شہ ا‬
‫انھو‬ ‫رع‬
‫نظم‬
‫امہ‬ ‫ککا ا‬
‫ایک‬
‫شےاف‬ ‫کہ‬‫نرے‬‫ۓس‬ ‫ساھیت کاانکشاف یایوں کہیے کسە نا‬
‫کیا۔ روسان تمثال حقیقت کی جستجو کا ایسک وسیلہ ہوق‬
‫ے؛ جس کیمدد ہے شاعر خود اپنے ترے کے معنی‬
‫سمجھنے کیکسوشش کسرتسا ہے ۔ روسانی شاعصسروں کے یہاں‬
‫تمثال جوئی کی قوت ایک آزاد قوت ہے جو کسی قید و بند‬
‫کپےیر تج‌رے کے دشست کی سیساحمی کدرتی ہے ۔ اکسے‬
‫وہ کسی منفرد‬ ‫ہںاکے‬
‫ں‬ ‫برخلاف ‪.‬مابعدالطبیعیاتی شا‬
‫یعرو‬
‫‪"۸۳‬‬

‫مطلب ؛ کسی مقدم شاعرانہ متصد‬ ‫خیال ؛ کسی خصوص‬


‫کے ساتھ پابستدہ ہوتی ے ؛ جس کانتیجه یه ھوتا ے کھ‬
‫اس کا ادائرۂ ععل وڈ ھو متااع بے ارہ جات اکٹ‬
‫ممثالیں سعاحی اور عمومی‬ ‫کی‬ ‫شاعروں‬ ‫‪ +2‬کلاسیی‬ ‫دور‬

‫ہوتی تھیں ء وہاں رومانیوں کی ثالوں میں ایک شدید ذاق‬


‫ادراک ھوتا تھا ۔؛‬
‫روبن سکیلٹن (دہ‪[6‬م ا‪ 8‬صزحاہ ) تثالوں کے تین مدارج مترر‬
‫کرتا ے جو حسب ذیل ہیں ‪:‬‬
‫خارجی شۓ واقعی کا پرتو ہوق‬ ‫ی‬
‫سجو‬
‫کل ء‬
‫اولی تمثا‬ ‫()‬
‫ےن‬
‫(‪ ),‬انوی تمثال ؛ جو کسی اولی تمثال کا پرتو ھوتی ے ۔‬
‫(م) الٹی تنثال ء جو کسی انوی تمثال کا ہرتو ہوتی ے ۔‬
‫ہوتی ہے‬ ‫یه تدربجی ترق ایک طرف تو تشبیہ سے علامت کی طرف‬
‫اولی‬ ‫الفاظ میں‬ ‫سرے‬ ‫اور دوسری طرف واہے ہے بصیرت کی طر‬
‫دفو۔‬
‫تمثالیں زیادہ تر تشبیہیں ؛ انوی تنمثالیں زیادہ تر استعارے اور ‪ٛ‬الئی‬
‫'مثالیں زیادہ تر علامتیں ہوتی ہیں ۔ تشہیہیں واھے کی ء استعارے تخیل‬
‫کی اور علامتیں بصیرت کی پیداوار ہوتی ہیں ۔ چنا یه اس تدریجی ارتا‬
‫میں حسی واقعیت کی مقدار کم اور تخییلی ماورائیت کی مقدار زیادہ ھویق‬
‫چل جاق ہے ۔‬
‫اس اس کے متعلق کە نفس انسانی میںممثال انگیزی کامنبع کیا‬
‫ہے بہت سے نظرے پیش کیے گۓے ہیں ۔ ایک نظریہ وہ ہے جو ہیی‬
‫نفسیات (جمامطہ ‪ 752‬ا‪))863٥۸۸‬‏ ے ہی۔ش کیا ہے ۔ ڈاکٹر ولف‬
‫چئاہ‪۲٢‬‏ ‪ )01.‬ایپکنتاب ”ھیئتی نفسیات؛“‬
‫گونگکوھلر (٭‪1٥‬طم‪1٤‬‏ ی‬
‫(‪7‬چں[ەط ‪٥72‬‏ ‪[6‬ہ‪)86٥‬‏ میں کہتا ے کہ انسان جبلڈ چیزوں کا‬
‫ادراک منظم کلیتوں کی صورت میں کرتا ہے ء بلک اوائلی سے اوائلی‬
‫نفس میں ء یہاں تک کە ایک پرندے یا ایک حیوان کے نفس میں بھی ء‬
‫وضع (‪8663‬ج) کاادراک موجود دوتا ہے ۔ انسان کو حقیقت کاجو‬
‫‪۳‬ھ"‬

‫ہم‬ ‫وقوف ہوتا ے اس میں وضع سازی کا ایک عنصر ہوتا ے ۔ جب‬
‫بعد ء دوران ء؛ حجم ء صورت وغیرہ کا ادراک کرتے ہیں تو اس یىی‬
‫وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہم چیزوں کا منظم کلیتوں کے طور پر مشاھدہ‬
‫کرۓ ہیں ۔ مثاِ ہاری ساعت یا بصارت میں چیزیں خود بخود گروہ بند‬
‫دە اس پر سبنی ہوتا ے کہ ہم‬ ‫ارا س‬
‫ہارا‬ ‫مں ۔‬
‫شما‬ ‫ہو جاتی ہی‬
‫مم کیتوں کو ینہ ماعول کےعلیحد کر کے ان کاادراک کے‬
‫ہیں ۔‪.‬ھم ساری دنیاے ادراک کا مشا دہ کرنۓ کیقابلیت نہیں رکھتے ‏‬
‫کیوں کہ ہہارے حواس کیرسائی محدود ہوتی ہے ء اس لیے ہم اس کو‬
‫حصوں میں تقسم کر دیتے ہیں اور یہ حصے کلیتیں ہوقی ہیں ۔ یه‬
‫کلیتیں وضعیں عوق ہیں ء بعنی حستی قاثرات کے رابطے ہوتے ہیں ۔‬
‫کے ایک ھہنکامے سے دو چار ھو‬
‫اتاوے‬
‫ر‬ ‫افسان حسی تامثرا‬
‫عتطو‬
‫یات‬
‫وہ ان کی‬ ‫کہ‬ ‫اس سےنپپٹنے کے لیے آُس کو اس کی ضرورت ہوتی ےہ‬
‫اہنیکئوتوں‬ ‫رک‬
‫یےعے‬ ‫اور تر‬
‫ذتیب‬ ‫وضع بندی کرے ء یاینتخاب‬
‫متیبںدیل کرے ۔‬
‫سوزن لینگر (‪٥٣‬چ‏ ت‪0 ].9‬ط‪86‬ئت‪ )8‬اس ضمن میں لکھتی نے ‪:‬‬
‫‪/‬ھازا اذانیدٰ ہ‬
‫نےیل خی ریہ بھی ایک تشکل اعنل‬
‫ھوتا ہے ۔ ودہنیا جو سچ مچ ہارے حواس کے سامنے آتی‬
‫ے؛ چیزوں کیدنیا نہیں ہوتی جو ھمیں یە دعوت دیتی ھیں‬
‫دریافت کریں اور جب‬ ‫بمتعل‬
‫اقتختل‬
‫یفں‬ ‫کهہ ہم ان کے‬
‫ہم منطقی زبان تیار کر چکیں تو ان باتوں کو ضابطہ بند‬
‫کریں ۔ خالص احساسات کیدنیا اتی پیچیدہ ء اتنی کریزپاء‬
‫اتنیبھرپور ہوق ے کم اگر ہم میں صرف حرکات ے‬
‫متائر ھوۓ کی صلاحیت ھوق تو ہمارے تبرے کی دنیا‬
‫ایک‬ ‫‪٥‬م‪8‬ز(‏ ‪8‬ل ‪٦‬ذ‪[1‬‏ ‪ )۷۲‬کے الفاظ میں حض‬
‫‪6‬جی‬
‫و‪0‬لم‬
‫کاہبلاتی اور بھنبھناق ھوئی گڑژبڑامٹ وق ۔ اس طرفان‬
‫ضا کو چند نمایاں شکلیں‬‫صسی‬‫عح‬‫اارے‬‫بئدیزی میں هم‬
‫انتخاب کمرفی پڑتی هیں ء جب کہیں جا کر وہ ہم کو‬
‫‪۳۰‬مھم‪"۸‬‬

‫”چیزوں؟' کی خہر دیتے ہیں آ‬


‫۔نکھوں اور کانوں کک ایک‬
‫اپنی‪ :‬ھی مثظق وق ےر ‪ . ..‬۔ جسے ہم ”چیڑ؟ کہتے‬
‫ہیں وہ ایک معطیه نہیں ەوقی بلکه ایک ھیئت جس کی تشکیل‬
‫ئ۔ ی‬
‫ثہت‬ ‫ایک ذی اور فہم عضو کی بدولت ہوت‬
‫ھییہے‬
‫بیک وقت ایک منفرد تجری چیڑ بھی ہوتی ہے اور اس کے‬
‫بھی ہوتی ہے اور یه علامت اس چیڑ‬ ‫تصور کی ایک علامت‬
‫کی نمائندی نہیں کرتی بلکە چیزوں کی اس نوع کی نائندگ‬
‫۔؛٭‬ ‫کرقیقی‪ٛ‬ے‬

‫سوزن لینگر مزید لکھتی ہے ‪:‬‬


‫اور ئتقَمُوں می‬ ‫ادراکات کگےروھوف‬ ‫”دیارے عحسوس کو حسی‬
‫تفر کے کے میلان ء یعنی عض حسی تاثرات کے بجاۓ‬ ‫تقسم‬
‫انفعال میں‬ ‫ھیئتوں کا ارات کرے کامیلان ‪٤‬‏ مارے آلات‬

‫مضعر ہے ؛ بالکل اسی طرح جس طرح وہ آن اعلول اعصای‬


‫میں مضمر ےے جن کی مدد سے ھم ریاضی اور‬ ‫ک‬
‫صزوں‬
‫حل کرتے ہیں ۔ هیئتوں کا وه غیر شعوری‬ ‫منطق کمےسائل‬
‫ادراک تجرید کے عمل کی وہ بیخ و بن ے جو اوائلی لوگوں‬
‫کیمد و معاون تھی اور یهتجرید تعقل کیکلید ے ۔ اس کے‬
‫يہ معنی ہیں کہ تعقل کا سر چشمہ مارے خااص حیوانی‬
‫تج‬
‫گربہوںر ک‬
‫ایئیوں میں ہے پھوٹا ء یعنی اس کا ماخذ وہ‬
‫قوت ادراک ےے جو ھاری آنکھوں ؛ کانوں اور انگلیوں‬
‫کو فطرت سے ودیعت ہوئی ہے ۔ ماری ذھنی زندی ہاری‬
‫ہے ۔ نتفسں انساق چاے کتی ھی‬ ‫میں مضمر‬ ‫طبیعی سصاخت‬

‫فطرت‬ ‫اسے‬ ‫باعدیوں پر جا پہنچے ہ وہ حض ان اعضا سے جو‬


‫یں ء ان سے کام‬ ‫سے ملے ھیں اور ان اعضا میں جو صلاحیتیں‬
‫لے سکتا ےد ااکنرکہیں مثتوں کو لد دنک بک کر‬
‫نفس کو تنمثالیں ہہمنپہەنچا سکتیں ۔ اکگر‬
‫ان منظم اصوات‬
‫نہ سن سکتے تو ثفس الفاظ کاادراک کبھی نہ کر سکتا۔‬
‫‪۵۸‬ھ"‬

‫ٹاثزات اکر اقم معائق کے وسائل ئەه هونے ٹوو ایک‬ ‫سی‬
‫ساری کی ساری ایک‬ ‫ریروائی‬
‫ایسے نفس کے لیے جکسا ک‬
‫علامتی عمل ہے بالکل بیکار ہوتے ۔ هیئتیں خود بخود معنی‬
‫نفلیات کا بن مت‬ ‫ائت‬
‫ثگر‬ ‫کا جامہ پہن لی ھگن ا‬
‫سبا‬
‫درست نہیں کھ ھیئتیں اذرااچ یىی جبات میں مضمر ہیں ؛ تو‬

‫میری سمجھ میں نہیں آتاکه ادراک اور تصور کے درمیان ء‬


‫؛ ۔‪ ,‬ربط بحرکات‬ ‫مےیان‬
‫رک‬ ‫اور نفسی اع‬
‫دضا‬ ‫اعضا‬ ‫حسی‬
‫اور منطقی قض‬
‫دیورںمکیےان جو خلا ے وہ کیوں کر پاٹا‬
‫کتھار‬
‫وسا‬
‫رکے‬
‫سنی‬
‫جا سکتا ے ۔ جو نفس بنیادی طور پر معا‬
‫رکھتا ے ء اس کے پاس ایسے اعضا ہونے چاھہئیں جن کا‬
‫سروکار بنیادی طور پهریئتوں ہے هو ۔)‪٤‬‏‬
‫ڈبلیو بی پیٹس ‪(9٥‬‏ ‪ )71. 3. ٥7‬کا ”حافظۂ عظیمہ؛ کا نظریه جس‬
‫مل‬
‫شوےتپر‬ ‫کی طرف ہم نویں باب میں اشارہ کر چکے ہیں ء اس‬
‫مدع‬
‫ۓے که نوع انسانی کا ایک مجموعی نسلی حافظہ ے جس میں ازلی و ابدی‬

‫تمثالیں حفوظ رہتی ہیں ۔ یه تمثالیں وقتاً فوقتاً سطح پر آبھر آتی ہیں اور‬
‫ہمیں یہ توفیق بشّی ہیں کہ ہم حقیقت کےقدیِالاصل چشے سے اپنی‬
‫روح ک پیاس بجھا سکیں ۔‬

‫یونگ (چصتال) کا اجتاعی لاشعور کانظریەء جس کا ذکر‬


‫ہمپہلے کر چکے ہیں ء بیٹس کے نکتے کو زیادہ مربوط اور مدلل‬
‫طریقے سے پیش کرتا سے ۔ اس کاعقیدہ یہہے که ایک ایسا اجتماعی‬
‫لشاعور موجود ے جس میں ماقبل شعور کی نثالیں اور انسان کے‬
‫موروتی تجرے کی وضعیں اور ہیئتیں ہمیشہ کےلیے حفوظ ہیں ۔ تاریھی‬
‫رااغ قصص الرجال اور اساطیرالاولین میں ملتا ہے۔‬
‫طور پر اسنک‬
‫اشاق‬ ‫ظطیباق 'طورا پر "ان کواجود'اشان یى‪:‬یدباغی ساعت میں ھ‬
‫جفربوں ہے متاثر هو ہو کر طبیعیاتی نقوش‬
‫دماغ نساڑ بعد نسل ختتل‬
‫کی ایک لوح محفوظ بن گیاہے ۔ چنانچہیہ بنیادی ذھنی نقشے ہہارے‬
‫نسلی ورۓ کاایک حصہ ہیں ۔ یونگ کے الفاظ میں '”'چولکہ یه اآؤوائی‬
‫‪٦‎‬م‬

‫ادوار کے باقیات میں سے ہیں ء السیے یہ انسانی نفس افورطرت کے‬


‫درمیان ایک رشتۂ ارتباط ہیں ۔ ھم کو ان کاشعور نہیں ہوتا اور وہ‬
‫عمويا ایک حالت جمود میں رھتے هیں ؛ تا آں کە کوئی برق رو آ کر‬

‫نە دے ۔ جب وعہمل مجیںائ‬


‫آیں تووہ ایک مقدر طریقے‬ ‫اچن ک‬
‫ھوو‬
‫ے عمل کرقی ہیں ء یعنی ایک ایسے طریقے ہے جو ان کی طبیعی اور‬
‫یہ قتدیممثالس‬ ‫رکھا ے ۔؛ جب‬ ‫میکائیی ساخت نپےہلے ھمیقسے‬
‫ررکر‬
‫ہیں تو وہ مارے‬ ‫تاحلتشعور ہے نکل کانرفرادی شعور مجیاںتآیق‬
‫ج۔‬
‫و‬ ‫پیش روؤں کے سشےار تجربوں کعیکاسی اور نمابندگی کرتی ہیں‬
‫شاعر اجتاعی لاشعور ے اشارے سمجھ سکتے ہیں ان کو جذبات کے اوسے‬
‫زیر زمین بہنے والے چشے میسر آتے ہیں جن تک ان لوگوں کی رسائی‬
‫نہیں ہوتی جو آن ازلی و قدیم موضوعات ہے جو نفس انسانی کے بطون‬
‫نا آشنا ھوں ۔ فرائیڈ (‪001‬ء‪ )77‬کے نظریوں میں بھی‬ ‫میں پوشیدہ ہرے‬
‫روح انسانی کعیالم گبر‬ ‫ملتا ج‬
‫ےو‬ ‫رںاکا‬
‫غ‬ ‫قدیچ قصوں اور علا‬
‫سمتو‬
‫ساخت کا ثبوت ہہم پہنچاے ہیں ۔ فرائیڈ اجتاعی لاشعور کے مقابلے میں‬
‫انفرادی لاشعور پزرور دیتا ے ء لیکن وہ بھی یونگ کا ہم نوا بن کر‬
‫چند بار بار ابھرۓ والے سوضوعوں کو ؛ جو جذباتی معنویت ہے‬
‫هیں ؛ ایک بدیھی صداقت کہتا ے ۔ یونگ اور فرائیڈ‬ ‫ہإوے‬ ‫مالاا مال‬
‫کے استعال میس‬ ‫اکہ‬
‫لوں‬ ‫مہ‬
‫ثیں‬ ‫دونوں کے نظرے اس پر دلالت کر‬
‫تتے‬
‫مقالے صرف سطحی آرائشیں نہیں ھوتیں بلکە‬ ‫۔‬ ‫ے‬ ‫ھوق‬ ‫منطق‬ ‫ایک‬

‫کا وسیله ہوق ہیں جو سے‬ ‫ظوںہکے‬


‫ار‬ ‫وہ شاعر کے لیے آن صد‬
‫ااقت‬
‫میں مضمر دکھائی دتی هیں ۔ قد الاصل تمثالوں کا‬ ‫وت‬ ‫کے‬ ‫کات‬
‫تصور غالبا اس سیدھی سادھی حقیقت کا ایک مکاف طریقه اظہار ۓے که‬
‫بہترین شاعری چند بنیادی سوضوعوں ہے متعلق ہوتی ہے ء مثلا زندگ ؛‬
‫موت ؛ محبت ؛ موسموں کے تغیرات ؛ فطرت کی قوتوں کے ساتھ انسان کی‬
‫کش مکش اور اس کی اپنے ھم جنسوں کے ساتھ نباہ کرۓ کی کوشش ‪٤‬‏‬
‫اور اجڑنا ۔ جی ۔ ایم۔‬
‫(بعیجگە‪2٥‬‏ ‪ )1[.6.‬نے بڑی‬ ‫سںنکا‬
‫ا‬ ‫بس‬
‫بتیو‬
‫وضاحت ے بیان کیا ے کہ شاعری کے بڑے بڑے ەوضوع کیوں کر‬
‫ۓ‪۸‬‬

‫اور‬ ‫ہیں‬ ‫رھتے‬ ‫وار جاری‬ ‫زماۓ تک سلسله‬ ‫ایک زماۓ سے دوسرے‬

‫فطرت کیوں کر اس تسلسل کا اہتام کرقی ہے ۔ وہ اس کیتوجیە یوں‬


‫کرتا ے کہ کائنات اور روح انسانی کی بنیادی ساخت ایک ھی صورت‬
‫پر قائم رھہتی بت ء اگرچہ اجتاعی اور سیاسی هیئتوں کے سطحی تغیرات‬
‫اور اختلافات عمیْں اس کی اجازت نون دیتے کە ہم ان ی مستتل اوز‬
‫غبر متغیر حقیقت کا ادراک کریں ۔‬
‫کیتھلین رین (‪٥‬ەذھ‪7:‬‏ ‪٥‬طناط‪8٤‬ک‪)1‬‏ کا قول ے کہ ”'شاعری کا‬
‫سروکار علامات اور انسان کے قدیِ الاصل ذھنی نقشوں کے آ٘س باہمی‬
‫فعل و انفعال سے عےجو زبان کے صورت پزیر ہوتے ہے پہلے ظہور‬
‫میں آیا “۔ لیکن ء جیسا کھ ہم دسویں باب میں کہھ آۓ ہیں ء یھ‬
‫تصویر ے ۔ شاعری کا سروکار‬ ‫شاعری کی کارروائی کی ایک یک‬
‫وخ‬
‫جزتنماانه ماقبل تچاریزکوں سے ے‪٠‬‏ اگر ازسیہاےدہ نہیںتو اتنا‬
‫ھی آے دن کی دنیا‪ :‬کجےیتے جاگتے انسانوں سے سے جو زمان تاریبخی‬
‫میں اپنی زندگی بسر کرتے ہیں ۔ یہبجا ہےکہ زمانہ ما قبل تاریخ نوع‬
‫لیکن یه داستان اسی باب پر‬ ‫انسانی کی داستان کا ایک طویل باب ے‬
‫بلکه یه باب تو حعض ایک تمہید تھا۔ آے دن ک‬ ‫جمنہی‬
‫اںتهو‬
‫ی‬ ‫خت‬
‫دئیا کی آئینه داری ء ہم عصر انسائوں کے جذبات کی ترجانی اور ایک‬
‫تنومند اور چاق و چوبند معقولیت ی مشق آسی طرح شاعری کے فرائض‬
‫میں شامل ہیں جس طرح اس دشت کی سیاحی جہاں غالب کے الفاظ میں‬
‫از نگ دیدۂ تصویر نہیں“ٴ یعنی وہ دشت ہر اسرار جو روح‬ ‫”'جادہ غیر‬
‫انسانی ى دور و دراز پہنائیوں میں سائیں سائیں کر ھا ہے ۔ رومی‬
‫‪,‬کتھتا سعا‪:‬ع‬
‫نە شم نہ شب پرستّم کە حدیث خواب گویم‬
‫چو غلام آنفتام ھممه ز او خات شوج‬
‫رومی کے اس شعر میں ”'”آفتابٰ)؛ ایک ماورائی آفتاب تھا ء لیکن عم‬
‫دن کا آشنا آفتاب بھی صراد لے سکتے ھیں ۔ ضرورت‬ ‫ا‬ ‫ھ‪2‬‬ ‫اس‬
‫صرف‬

‫اس بات کی ہے کہ ہم اہے تخیل کی نکاھوں سے دیکھیں ۔‬


‫‪۸‬م‬

‫تمثالوں کی طرح علامتوں میں دلچسپی عہد جدید کی خصوصیات‬


‫میں ہے ہے ۔ کسی حد تک اس دلچسپی کا سرچشمہ وہ اجتاعی علوم‬
‫مثااِ انسانیات ہیں جنھوں نے اوائلی ادوار کے لوگوں ی زندی میں‬
‫نفسیات ء‬ ‫اور کسی حد تک‬ ‫علامتوں کی اھمیت کو ٴمایاںن کیا ےٴ‬

‫لوگوں کی زندگ میں علامتوں کے عمل دتخلوکضییح‬ ‫جمسہنے‬


‫ذب‬
‫کی سے ۔ ان علوم کی شاخوں کے طور پر لسانیات اور جالیات نے متعدد‬
‫خصوصی ”قیقات بھی کی ہیں ۔ اٹھارھویں صدی کے عقل پرست فلاسفه‬
‫اور آنیسویں صدی کے ثاریخی مادیت کے علمبردار فلاسفہ یه راۓ رکھتے‬
‫لے سے‬ ‫رںحکے‬ ‫تھے کہ نوع انسانی اپنی ذھنی نشو و نما میں علا‬
‫ممتو‬
‫گزر چکیہے ۔ لیکن آج کلکے مفکرین نہصرف علامتی اسالیب فکر کو‬
‫احیا اور توسیع کا تقاضا بھی‬ ‫بلکہ اکنے‬ ‫ہیں‬ ‫‪2‬‬ ‫واجب تسام‬
‫ھی یکهرتا ہکےهہ‬ ‫فتنعکی‬
‫ریف‬ ‫(‪۴۵۶1‬د‪8‬ہ‪)0‬‬ ‫ا۔‬
‫سیرے‬ ‫ہکیں‬ ‫کت‬
‫وہ علامتی زبان ے ۔ ایک نیا علم جس کا ماخذ قدیم یونانی طب اور‬
‫فلسفہ ہے ؛ علامتوں کے مطالعے کے لی‬
‫مےخصوص ھوگیا سے اور اس کا نام‬
‫ے ۔ قدع رواقیین اس کو علەیات کا ایک بنیادی شعبه‬ ‫‏‪1٥۸‬ذا‬
‫ت‪8‬‬
‫اور اخلاقیات کامتجانس تھا ۔ اسی طرح‬ ‫طبیعیات‬ ‫قرار دیتے تھے جو‬
‫ایک اور علم جس کا نام ‪86٥108008‬‏ ہے ء علامتوں کے معافئی کی تحتیق‬
‫کے لیے مخغصوص هو گیا ےہ ۔ ان دونوں علوم کا ایک مخصوص حموعۂ‬
‫تھ‬‫مصطلحات ہے اور فلسنۂ حاضرہ کے چند متاز تریں نام اسناکے‬
‫واہستہ ہیں ء مثلا چارلز پیئرس (‪۲[٥3 665162‬ط‪)0٥‬‏ ء میڈ (‪)00613‬‬
‫ڈیوئی )‪(7٥٣60‬‏ ؛ رسل (ل[م‪998:8‬ا) ادر کارنپ (م(‪۱‬صہ‪)٥٥‬‏ ۔ علاوہ‬
‫بریں علامیت آنیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے اوائل میں‬
‫عمل تھی ۔‬ ‫عقیدہ اور اصول‬ ‫ایک بہت اھم 'دبسٹان شاعری‪ :‬کا بنیادی‬
‫تھا ؛ لیکن اس کے اثرات عالمگیر‬ ‫کز‬
‫انس‬ ‫ادس‬
‫بستان کامتبع و سفسر‬
‫کی مرہون منت ہے ۔‬ ‫تھے اور دور جدید کی شاعری بڑی حد تاکس‬
‫منطق ء‬ ‫”'علامت“‬ ‫‪ 86۵061٥٥‬اور علمیات کے صلاوہ‬ ‫‪86610068‬‏‬
‫اور ان غختلف علوم میں‬ ‫ریاضی اور دینیات کی اصطلاح بھی ے‬
‫شا۔عری‬
‫‪۸۹‬‬

‫جن معنوں میں متداول ہے ؛ ان میں قدر مشٹرک‬ ‫صتطکی‬


‫لاح‬ ‫عل‬
‫ااس‬
‫یہ ےۓ کہ وه ایک ایسی چیز ے جو کسی اور چیز کی ؛ جس سے وہ‬
‫کوئی سرئی مشابہت نہیں رمکھاتیئ ءن؛دگی کری ہے ۔ یہ خصوصیت‬
‫اس کو تنثال ہے متاز کرق ہے کیوں کہ تمثال میں مشابہٹ کا ایک‬
‫عنصر ھوتا ے لیکن جس طرح تمثال تشبیە یا استعارہ کیصورت اختیاز‬
‫کر لیتی ہے ء اسی طرح وہ کبھی کبھی علامت بھی بنجاتی ہے ۔ یه‬
‫اے عمداً ایک وضعی دلالت بخش کر اسے‬ ‫عر‬ ‫اس صورت می‬
‫شںاکە‬
‫ایک خود مکتنی لفظ یا ترکیب بنا دے ء مثل‪ 5‬مارے یہاں اقبال کے‬
‫عیںال کیا جاتا‬ ‫تم‬‫سروں‬ ‫لہ“ اگرچە تشبیہوں اور اس‬
‫اتعا‬ ‫لم‬
‫ایں‬ ‫کل‬
‫”ام‬
‫خصوصی علامت ےہ جس ہے‬ ‫بنیادی طور پر وہ اقب‬
‫االیکی‬
‫ک‬ ‫ہلےیءکن‬
‫رکھنے والادٍل ے ء؛ایک ایسا دل جہے‬ ‫اس کی مراد ایک سو‬
‫سزاوز‬
‫ش۔‬
‫عبع‬
‫رضاء‬ ‫ھوا ے‬ ‫داغ عطا‬ ‫ایک مستقل‬ ‫طرف‪ :‬عے‬ ‫اطرتثای'‬
‫پاللخصوص اھہل بصعرت شعرا ک‬
‫؛ے‪ .‬کلام میں علامات کی جاوھمیت‬
‫ذیل‬ ‫قوکلہ‬ ‫‪۲.‬‬
‫م‪3.۷‬‬
‫ن‪)3‬‬ ‫‪٥‬ٹس(‏‬ ‫‪4‬‬
‫۔پی‬ ‫ڈبل‬
‫‪7‬یو ۔‬
‫‪٥‬بی‬ ‫زہ‬ ‫داس‬
‫اکا‬ ‫ہو‬
‫اتینےے‬
‫عبارت ہے لگایا جاسکتا ھے ‪:‬‬
‫ہو ء علامی‬ ‫امام ایسا فن جو بحض حاکات یا وصف پر مشتمل نہ‬
‫ھوتا ےہ اور اس میں علامتیں ان سیمیائی طلسموں کی طرح‬
‫استعال کی جا ہیں جو قرون متوسطہ کے جادوگر سکب‬
‫رنگوں اور شکلوں سےتیار کیا کرے تھے اور جن پر غور‬
‫طزرکیح حرز جاں‬ ‫و قامل کرنۓ کی اور جن کو مقدس رمو‬
‫تلقین کیا کرتے‬ ‫کو‬ ‫بنا کر رکھنے کیواہپنے سیضوں‬
‫رنگوں اور شکلوں کے ذریعے‬ ‫سے دا‬ ‫وہ‬ ‫کیو نکە‬ ‫تھے ‪7‬‬

‫گر کرقی ہیں ۔؛؟‬ ‫جوھر قد‬


‫جسیلک‬
‫ووہ‬
‫علامتوں میں معانی کا ایک ایسا وزن اور عمق ہوتا ےے جو منمرد‬

‫تمثالوں اور استعاروں میں نہیں پایا جاتا ک۔ولرج کہتا ے ‪:‬‬
‫مادہ‬ ‫جب‬ ‫ےہ‬ ‫”صوقيه کے نزدیک حسن کا ظہور اس وقت ھوتا‬

‫ایسی علامت کی صورت‬ ‫ایک‬ ‫آ و‬ ‫می‬ ‫تطلاظ‬ ‫کے‬ ‫روح‬


‫‪۰‬‬
‫روح اپنے آپ کو حےجاب‬ ‫عےے‬
‫یس ک‬
‫رج‬‫ذاے‬
‫اختیار کر لیت‬
‫ے۔؛؛‬ ‫کری‬

‫بصیرت کاواحد آلە ے کیوںکه‬ ‫الئی‬


‫رخی‬
‫وں ت‬
‫مۓامی‬
‫کولوج کی را‬
‫وھ اور صرف وہ ان علامتوں کی ترجانی سککرتا ہے جو تخیل ری ابی‬
‫عم صورقی کے ظہوو کے لیے خلق کرتا سے ۔ شاعر کافرضض یھ ےہ کہ‬
‫اوست)“‬ ‫”'ٴھمه‬ ‫میں‬ ‫پردے‬ ‫کے‬ ‫شہود‬ ‫یعی کثرت‬ ‫”ہمہ ازوست“؛‬
‫یعنی وحدت وجود کی تلاش کرے ۔‬
‫اشاریں‬
‫مرتبہ ‪ :‬گوھر نوشاھی‬
‫ا َ‫‬ ‫دے‬
‫سب‬
‫‪2‬‬
‫‪۰‬‬
‫ہر ۔‬ ‫اوون بار فیلڈ ہی‬
‫اے ۔ ای ۔ ٹیلر ‪٣+‬‏ ۔‬
‫ہورت‬ ‫دك‬ ‫م‪2‬‬ ‫ڈے‪-‬اای‬
‫آۓ‬
‫آرچی بالڈ میکلیش مم ء ہم ۔‬
‫ای ۔ ای ۔ کمنگز ‪۴۳‬۔‬
‫آگسٹن ‪ ۳×۸‬۔‬
‫ایڈگرایلن ہو ے!*۔ہ‬
‫آندرے برتان ‪ ۵۳۱‬۔‬
‫۔‬ ‫ے‬
‫و؛‬‫ایزرا پاؤنڈ ےم‬
‫۔یاے ۔ رچرڈ پپے مر‬ ‫آئ‬
‫‪۱‎‬ء‪١‬۔‪-‬۔‬
‫ایستر ہم ۔‬
‫ایف ۔ ایچ ۔ وارڈ ہے ۔‬
‫۔‬ ‫امر سن ے‪۵‬‬ ‫ابلیس و ۔‬
‫ٹپ‬ ‫اپوی ٹیر م‪ ۳۱‬۔‬
‫اربن ‪١‬ےر ‪۲٢‬‏‪٢‬ء‪١‬‏ ‪۵‬ےر۔‬
‫براؤننگ وو۔‬ ‫)اہ‬ ‫بت‬ ‫دا‬ ‫) ‪۵‬ے‬ ‫؛ ‪۳۹‬‬ ‫ارسطو من‬
‫‪-0‬‬ ‫برٹرنڈرسل ‪۱‬‬ ‫ہے‬ ‫ا کاو‬ ‫ا‬
‫برگساں ‪-‬‬ ‫اصمعی رن۔‬
‫وج‪۳١٣٢‬‏‬ ‫بلیک ےم ہر‪٤‬‏‬ ‫ی‪٢‬‏‬ ‫ررعےےر‬ ‫افلاطوت پر‬
‫‪۳٣٣۳‬۔‪-‬‏‬ ‫میں رقف‬ ‫ا ای‬ ‫ا ای‬ ‫ا‬ ‫ا‬
‫بوڈلٹر مس ۔‬
‫پا اس‬
‫بیٹس ‪ ۳۳۱‬۔‬ ‫‪۲۲۹٤‬م‏‬ ‫اقبال ہہ ءپہہءے‬
‫کگ۔‬ ‫بیدل‬
‫موہ مم‬ ‫‪00/۸‬‬‫‪07‬‬
‫بیندیتو کروچے ‪۰۵‬‬ ‫ت‬
‫اا‬

‫‪("٤‬‬
‫د‬ ‫بب‬
‫‪۰‬‬

‫ے‪٢٢‬‏‬ ‫دانتے وہوء ے‪٤‬‏ ‪٢٣‬ء‏‬ ‫پال والری ‪٣۳٢‬‏ ‪۱‬ر ءےگور۔‬
‫ٹووٹ‬
‫پپاا‬
‫‪۸‬۔‬ ‫۔‬ ‫پ‬ ‫یس‬

‫دیکارٹ ‪ ۳‬۔‬ ‫ٹ‬


‫د‬
‫ٹی۔ ایس ۔ ایلیٹ ہ‪ ۸‬ء ‪۹‬و‪)۹‬؛ م‪۳۱‬‬
‫‪۵۸‬ء ‪- ۹۸۱‬‬ ‫س‬
‫ٹی۔‬
‫بیوی۔ب‬
‫ڈبل‬ ‫کی اا لق ا ا ویزع الاو اکیں‬
‫ا‬
‫‪6‬‬ ‫ا‬

‫ڈی ۔ ایچ ۔ لارنس ےم ۔‬ ‫نت‬


‫ڈی ۔جچییم۔زڑ ‪۱٤ ۸(۱‬‏‪- ۹١‬‬
‫‪۳‬ر۔‬ ‫جان مڈلٹن مرے‬
‫۔‬ ‫ڈیوڈ ڈیچز ہر‬
‫ڈیوئی ‪ ۸۸۱‬۔‬ ‫جاسبا ساویکو ‪ ۵‬۔‬
‫جی ۔ ام ۔ بیگ ‪|۸١‬‏ پٍ‬
‫رو‬
‫رابرٹ بین وارن مہ‬ ‫جیرارد نروال ہ۔‬
‫روس‬ ‫رچرڈز‬ ‫‪ ۸۵۱‬۔‬ ‫ئن‬
‫لٹر‬
‫مروس‬
‫ھ۔‬‫جی‬
‫رلکے ےر ۔‬ ‫جملی ‪۳۱.‬۔‬
‫ء‪۸۱‬‬ ‫زامی ے‪٤ ۹‬‏ ‪۳١١١٤‬‬
‫ر۔‬ ‫نائٹ سے ‪۶‬ہ‬ ‫ج۔یولسن‬
‫رمبو ہر ؛ ‪9۹‬ء م‪۳۱‬۔‬

‫ور‬
‫تے‬
‫سپیٹوزا مہ ۔‬ ‫چارلز پیٹرسن ‪ ۸۸۱‬۔‬
‫سٹیفن ‪١۱۱‬‏ ۔‬ ‫چاولز مورس ‪ ۵۱‬۔‬
‫سبارٹ ےج‬
‫سنجان پرس م‪ ۳۱‬۔‬
‫ت‬
‫)‪۳۸۱ ۹٦۱‬‬ ‫لینگر ‪۸۸٤‬‏‬ ‫سوزن‬ ‫ےہر‬ ‫حائفظ ہے سار‬
‫‪-‬۔ے۔‬ ‫‪۴۳۶‬‬ ‫رم۔‬ ‫حایف ‪۵‬م ‪۹ ۱:‬ء‬
‫‪3‬‬

‫عبدالرحن (مولانا) جم؛ ہم ؛ وم‬ ‫سولن ‏‪ ۵٢‬۔‬


‫ا‬
‫لکاہا ‪٢‬ا‏ کا او ا اقکا اراف قاقی‬ ‫‪ ۹۳۱‬۔‬ ‫ومرا‬
‫۔ای‬
‫س۔یب‬
‫‪-۵۹‬‬ ‫م‪ ۳‬؛ ہے ؛ ‪۹۸‬‬ ‫لڈ‬
‫ویئیس‬ ‫س۔ی۔‬
‫عبدالکرم ‪۲‬ہ ۔‬ ‫‪۸۸۱ ۲۶١۸‬۔‬ ‫‪۳‬‏‬
‫عطار (شیخ فریدالدین) ‪٣٣٢٢‬۔‏‬ ‫‪7:‬‬
‫وی‬
‫‪٥‬‬ ‫شہلی جم ۔‬
‫غالب ‏‪ ٣‬یعہوب ے‪٥٢٣‬‏‪۷۴8۵‬م‪۹۹ )۳‬م‬ ‫شلیگل من ۔‬

‫‪0‬ہ‬ ‫مو‬ ‫‪6:972‬‬ ‫۔‬


‫ہم ؛‬
‫جگ و‬
‫شیلن‬
‫ف‬ ‫ہ‪۹‬‬ ‫ہے‬ ‫شیکسپٹر ک‪6‬‬
‫ا‬ ‫ہ‪)١‬‏ ‪۰۸۰۸۱‬۔‬
‫۔‬
‫‪۵۲‬؛‬
‫‪۸‬‏ ه‬
‫‪۱‬ے‪٤٣‬‬
‫فرائڈ ‪۳۳٤‬‏‬
‫فطشے جح ۔‬
‫وم‬ ‫ہم جم‬ ‫شیلے ‪٢٣‬‏ ‪١ ٤‬م‏‬
‫ں‪0‬‬ ‫ہا‬ ‫ہیں و‬ ‫ا ای وی‬ ‫پا‬
‫فیضی ‪۹‬ء‬
‫‏‪ ٦‬۔‪-‬۔‪-‬‬
‫اک‬
‫کارنپ ‪۸‬ہ‪۱‬۔‬ ‫صن‬
‫کاسبرئے ‪7 ۸۸۱‬‬ ‫صاحب ےو ۔‬
‫‪۵ ) ۶۴۵‬ہ؛ ‪۱۳۱‬۔‪-‬‬ ‫کانٹ ‪٢‬ھ‏ ؛ ‪۳۵‬‬ ‫ط‬
‫کلینتھ بر وکس ہے‪١‬۔‏‬
‫۔‬ ‫طامس ایلویناس ) سینٹ ‪۳‬‬
‫ات‬ ‫کوپر‬

‫سم‬ ‫ام‬ ‫‏‪ ٤۳٣‬یم‬ ‫کولرج‬ ‫ظ‬


‫وو‬ ‫‪۴۳۸۱۰۶۲۸‬م‪:.‬‬ ‫‪۹۱۳۵۶۲‬‬
‫‪۸‬ے‬ ‫ظہوری ےو ۔‬
‫کولٹز ےم ۔‬ ‫‪2‬‬
‫کیتھان رین ے‪ ۸۱‬۔‪-‬‬
‫‪1‬‬ ‫مس‪۱‬‬
‫کی‬ ‫دے۔‬ ‫عابد علی عابد ہےر‬
‫پا‬ ‫مر‬ ‫ہر‬
‫‪۶۱‬ہ‬ ‫عبدالرحان بجنوری (ڈاکٹر) مم ۔‬
‫سلہا‬

‫ے‬
‫نوولس ے‪٢۰ ٢‬‏ ‪۸‬۔‬ ‫کے‬
‫نیٹشا ہر ۔‬
‫کراین‬ ‫گوئٹے و‪٢۹‬‏ و کر اککپ‬
‫‌‌‬ ‫‪ ۵‬۔‬
‫دے‬ ‫‪٤‬‏‬
‫و؛مسم‬
‫ورڈز ورتھے٭‪+‬‬ ‫ااؤئر وڈ بیل ےم و۔‬
‫ہ‬‫ے‪۸‬‬
‫ی‬ ‫‪۳۸.‬ض‬
‫و‪۹‬ے ‪)٢‬‏‬

‫ولف گوٹنک کوھار ‪۲۸۱‬‬


‫ولم بلیک ‪٤‬ع‏ سے ‪۸٦1‬‏ ۔‬ ‫لارنس ڈرل ہو ۔‬
‫ولم ٹیلر بینوٹن ٭م ۔‬ ‫ات‬
‫۔‬ ‫ولم جیمز ‪۳۸‬ر‬ ‫لونگسٹن لوز |م| ۔‬
‫وملمورس مم ۔‬ ‫لیلز ایر کرچی پیم ۔‬
‫لینبر ج مہ ۔‬
‫‪۵‬‬
‫‪8‬‬

‫رےے‬
‫ر ٌوے‬
‫‪ ۵‬رو‬
‫ھابز‬
‫ماپکنز م‪ ۳۱‬۔‬ ‫مارسل پروسٹ ہم ۔‬
‫۔‬ ‫مال براش ہم‬
‫رین م‪ ۱‬۔‬
‫کرٹ‬
‫ھا‬
‫محی الدین ہہ‬
‫ھربرٹ ریڈ ‪۵.‬ر؛ ‪ ۱۵۱‬؛ ‪۵٦-‬‏‬
‫وو‬ ‫ھولڈلن‬ ‫وم ‪ /‬ہو ۔‬ ‫من‬

‫ک‪۷‬‬ ‫چا‬ ‫ےیںد‬


‫ہو م‬
‫موسیو بریمان ‪ ۹۱۱‬۔‬
‫ھیڈیگر ‏‪ ۵٢‬۔‬
‫ھیزیٹ ‪٢.‬ء‏ ‪ ۲۵۱‬۔‬
‫ہیگل جں ۔‬
‫‪١۵٢٣ ٢‬۔‏‬ ‫‪22‬‏‬
‫میوام ‪6‬کے‬
‫۔‬ ‫میلارہے م‪۳‬‬
‫ققت‬
‫‪۰‬‬
‫ں‬
‫یاکوب بومه و‪١۰٣۱ ٤۳‬‏ ۔‬
‫یونگ ‪۳٣‬ء‏ ‪- ۹۸۱۵۸۱۱‬‬ ‫نظبری ےو ۔‬
‫مقامات‬

‫کوہ ھلیکون ‪.‬۔‬ ‫برازیل ہرم ٭‬

‫ھندوستان ہ‪٣‬‏ ۔‬ ‫۔‬ ‫جرمی ے‪۱‬‬

‫‪‎‬سئارف ‪۱۸۸ ٤ ۲‬‬

‫دنہ‬
‫اصطلاحات‬
‫۔‬ ‫ازمنڈ قدع ں‬
‫‪-‬۔‬ ‫اسلوب فکر ‪۹‬‬
‫آتش بجان ‪.‬مم‬
‫اشاریت ہ‪ ۲۱‬۔‬
‫اشیاے مادی وہ ۔‬ ‫آاھی ‪۵‬بر ۔‬
‫‪۲۹۱‬۔‬ ‫‪۷۳۶٣‬‏‬ ‫آلات ت‬
‫اشیاے سرفئی ‪ ۸۵1‬۔‬
‫ہمر۔‬ ‫آلات کار ےہ‪٤‬‏ رر‬
‫اضطراری پم( ۔‬
‫ا شالایل‬ ‫او ما‬ ‫آله ہے‬
‫‪۸‬ء ےہ۔‬ ‫اضطراری سیلان ےم‬
‫‪-‬۔‪-‬‬ ‫َء‬ ‫‪۹‬‬
‫اقدار ‪.‬رہ‬
‫آمرانه کلیے وت‬
‫اکتسابی علم ‪۵‬ں‬

‫التاے غیب ‪١‬م‏ ۔‬ ‫‪1‬‬


‫الہامی کشف ‪ ۳‬۔‬ ‫م‪۹‬‬ ‫ہم‬ ‫ابداع و اختراع ‪۳.‬‬
‫ا‬ ‫و‬
‫اسہات النقوش سس ۔‬ ‫ابدی صدائں سپ ۔‬
‫انسان کامل ‪٢‬۔‏‬ ‫۔‬ ‫ابلاغ ‪۹‬‬

‫انفرادی ا‪:‬کسمات کا ا‬ ‫اجتباد ذاق ہ‪ ۱‬۔‬


‫مم ۔‬ ‫التلاف ہر‬ ‫ےر ۔ہ‬ ‫اجتاع ضدین‬
‫وت‬
‫انتلای تفسیات م‬ ‫اجما ی مم ۔‬
‫اختلاف افکار و ۔‬
‫بس‬
‫‪8‬‬
‫۔‬ ‫اخلاق اجتہاد ‪.‬٭‬
‫رہ‬ ‫ےہ‬ ‫ٹس ور‬ ‫ادرا اک ےپ ری‬
‫بریناے مفروضه ‪٢۲‬‏ ۔‬ ‫‪۸٦۷۵۸۵۶‬‬ ‫‪0‬‏‬
‫‪2‬‬ ‫ہ‪۱‬‬ ‫ذکاوت‬ ‫بصری‬
‫‪۰۳۱‬۔‬ ‫‪6۱‬‬
‫‪1‬۔‬ ‫بہشی نتمر‬ ‫۔‬ ‫ادراک نفس ہ‪۱‬‬

‫تھی‬
‫ے‪۹‬‬

‫تخییلی مخلوقات ہم ۔‬ ‫‪0‬‬


‫تخیبلی نظام ‪- ۵۸‬‬ ‫ٍ‬
‫تخببلی وجدان ‪۵٢۱‬‏ ہر‬ ‫پراسرار قوت ‪.‬ہر ۔‬
‫تخلیقی ارتقا نہ َ‬ ‫پردۂ شہود جم ۔‬

‫تخلیقی عمل مم ۔‬ ‫‪:‬‬


‫تخلیقی کارنامه ‪۹‬م ۔‬ ‫‪2‬‬
‫قشکیلی قوت ‪ ۹۵۱‬۔‬ ‫وہہ‬ ‫تاثر پزیری و‬
‫تلامیذ الرحان وہ ۔‬
‫تار عنکبوت ‪ ۹‬۔‬
‫تاعکبایری امواکانات ‪۸۹٠‬‏ ۔‬ ‫۔‬ ‫ریہ‬
‫‪-‬‬ ‫طاقت ‏‬ ‫‪1‬‬ ‫‪2‬‬ ‫‪7‬‬
‫ىَ‬ ‫تکویئی‬ ‫تجربی مظہر ہم ۔‬
‫تممشالىمیپ پےیکر ‪+‬مء مہ ی‬ ‫یت‬ ‫‪2‬جا لی سے‬
‫ج‬ ‫تیر و ۔‬
‫اس‬ ‫تحبر استغراق‬
‫‪٣‬ے‏‬ ‫جادۂ مستتم‬ ‫تخیل آفاق ٭م۔‬
‫جامعیت ‪ ۵۵۱‬۔‬ ‫تخیل خلاق ہم ۔‬
‫چر‪۱‬‬ ‫جبلت ‪۸۳۱۱ ۲۸۶‬‬ ‫تخیل ری ہٍ ۔‬
‫جہلی ہے ‪1‬رہ‬ ‫الورائی ور ۔‬ ‫تمخی‬
‫جبلىی مقتضیات یہ ۔‬ ‫‪٤‬‏ ‪۳۱‬‬ ‫تغخییلی تچربه ‪۸‬و‪٤‬‏ ‪٣‬رر‬
‫وم ۔‬ ‫متیوال‬
‫ابا‬
‫جذ‬ ‫‪۵‬ء"‪+۲۶۶‬ء‪۲۱‬ء‪١‬۔‏‬
‫جذباتی احکامات ہ‪ ۹‬۔‬ ‫یی رابطه رر ۔‬
‫لیے‬ ‫‪۲‬ھ‪۱‬‏‬
‫‪۰‬ه و‬
‫‪۸‬رب‬
‫‪ ۸‬تج‬
‫‪٤‬اتی‬
‫جذب‬ ‫تخییلی سالمیت مم۔‬
‫جذباتی عتاصر ے‪ ۳‬۔‬ ‫تخییلی شاعری ےم ۔‬
‫وم ۔‬ ‫جزئی اخعراعات‬ ‫‪٢٢٢‬‬ ‫تخیبلی قوت ‪۳۹٤ )۳۲‬‏ )‪۵۰١‬‬
‫جال بشری ‪.۲‬۔‬ ‫‏‪ ٤٦‬۔‪-‬‬
‫جالیات ہر ۔‬ ‫تخیبلی کائنات ‪٦‬م‏ ۔‬
‫جالیاتی ادراک و‪٣‬‏ ‪۵‬ہ ۔‬ ‫تخھبلی ماورائیت ‪ ۲۸۱‬۔‬
‫‪(۹۸‬‬

‫‪۱۷۲‬‬ ‫‪٢١۳۰ ٤۱۹‬‬ ‫‪١۸۱‬‬ ‫‪‎‬تیسح‬ ‫جالیاتی لذت ے‪٠۰‬‏ ۔‬


‫‪۴‬گم''‪0+‬ء‪-+-,‬ھس‪‎-‬‬ ‫جالیاق وجدان ےم ۔‬
‫حقائق غائی مہ ۔‬ ‫‪۱‬۔‬ ‫فلت‬‫ای‬
‫جص‬
‫ورف ہو ۔‬ ‫عا‬‫مائق‬
‫حق‬ ‫نت گرگات ‪۵1۰9۲12:‬‬
‫حوادث فطرت و‪١‬‏ ۔‬ ‫جنون ال ھی ہ‪١٢‬‏ ‪٢ ۵۵‬‏ ‪ ۵۰٠‬۔‬
‫حواس باطنی وم ۔‬ ‫ےہ۔‬
‫ےاں ک‬
‫جول‬
‫حیث الاشیا ‪ ۵+‬۔‬ ‫‪۱۳٣‬‬ ‫‪‎ .٢٤۵۹‬م‪٢١۹‬‬ ‫؛ م‪‎ ٣‬؛‬ ‫‪‎‬جوھر‬
‫حیوانی جبلت ‪ ۳+‬؛ ‪.‬ے ۔‬ ‫وئ۔‬ ‫‪۵۳۱‬‬

‫ت‬ ‫جوھری وصف ‪ ۸۱۱‬۔‬


‫ہے‬ ‫ٴء‬ ‫‪۲‬ہ‬ ‫؛‬ ‫‪.‬ہ‬ ‫خارق عادت‬
‫‪2‬‬
‫‪٤‬ك‪ًَ0+‬‏‬ ‫‪5‬‬
‫باطن ‪۲‬ھ‪-۵‬‬ ‫چشم‬
‫خاص ادراک وس ۔‬
‫عالق اون جن‬ ‫‪9‬‬
‫‪۵٤+‬‏ ۔‬ ‫خضر راہ‬ ‫حافظۂ قدمه ‪ ۳۳‬۔‬
‫د‬ ‫مسشترک ہم ۔‬ ‫ح‬
‫‪٤‬ے؛ ‪٠‬‏‬ ‫حسی ادراک ‪٤٣‬ح‪٦‬‏‬
‫دبستان حکمت ہم ۔‬
‫ہے ‪٤‬‏ ‪۹۰۱۲.۶۷۸۱‬‬

‫۔‬ ‫حاسمیکانات ہ‪۱‬‬


‫‪0‬‬ ‫ڈاق اما‬ ‫‪٢٦٦‬‏‬ ‫‪۵‬‬
‫م؛‬‫حتسایثرات م‪۲۵ ۶ ۱‬‬
‫‪۳۸٢۵‬ء‏‬ ‫‪۹۳‬‬ ‫ہے‪6‬‬
‫رت‬
‫حسی تمثال ‪>۹‬‬
‫رن ا‬ ‫یسح ‪‎‬ہبرجت ‪٤۹‎ ٤ ۵‬ے ‪۱۸۳۶۵١ ٤‬‬
‫رابطة معانی ہو۔‬ ‫طافت م ۔‬
‫حلسی‬
‫راندۂ بارہ ٭ر ۔‬ ‫حسی معطیات ‪ ۳۵‬۔‬
‫رومانیت ‪۵‬ر‪ ۱‬۔‬ ‫حسی واقعیت ‪ ۲۸۱‬۔‬
‫‪("۹‬‬

‫طط‬ ‫رومانی حسیات ہے۔‬

‫طاغوق روح وم ۔‬ ‫‪)]-02 5‬‬


‫مر‬ ‫در‬ ‫ریاضیاق پابندیاں ہ ۔‬

‫طبیفیاق اوساف '۔ ۔‬ ‫‪-‬۔‬ ‫‪7‬‬


‫طغیانی تجربه ہم ۔‬ ‫س‬
‫‪2‬‬ ‫سدرة المنتہول ہم ۔‬
‫سررشتۂ اتحاد ہے ۔‬
‫ای را‬ ‫سروش غیبی مم ۔‬
‫غالی اتال ین‬ ‫ڑا‬
‫عالم شہود ںہ ۔‬ ‫سطحی وصف ‏ ۔‬
‫ہہ ۔‬ ‫عالم موجودات‬ ‫ہہ ۔‬ ‫سییت‬
‫حبٍ‬
‫سل‬
‫عددی تناسب م ۔‬ ‫سلسلۂ ائتلافات ‪۹‬ر ‪-‬‬
‫عطیة وھبی م ۔‬ ‫ساعی لذت نج ۔‬
‫عقلی قوت مم ۔‬ ‫‪:‬‬
‫علامتی تحریک وم ۔‬ ‫‪0‬‬
‫علامتی رمزیت ‪۵‬م ۔‬ ‫شاعرانه تخلیق ‪ ۳۱‬۔‬
‫علائق مم ۔‬ ‫شاعرانه تخیل ‪٢٢‬ہہ‏‪۲۱‬‏ ۔‬
‫ے۔‬ ‫ہم ے‪۵‬‬ ‫لول‬
‫متعو‬
‫عل‬ ‫شاعرانه تعلی وم۔‬
‫علم الاصنام ہن ۔‬ ‫‪ 0 0‬را‬
‫عمل تفکرم ؛ مہ ۔‬ ‫شاعرانه ھیئثت ےم ‪-‬‬
‫عمل شعرگوئی ر ۔‬ ‫شجر منوعهہ جح ۔‬
‫عمومی صداقتیں ہم ۔‬ ‫ر‪ ۲‬مّی‪۹۱‬۔‬ ‫شعریت رے‬
‫عو اطف و‪ 7‬امیا‪2‬‬ ‫ص‬

‫َ‬ ‫صریر خامه وم ۔‬


‫غنائیه کلام ‪٣۵‬ء‏ ‪۵۹ )۹۸۱۰۰۹‬‬ ‫صوقی تجسم ‪ ۲‬۔‬
‫غیہی قوت مم ۔‬ ‫صوفیانه مجذوبیت ےم ۔‬
‫)‪۲٣‬‏ ‪ ٦‬اہ‬ ‫کشفی ادراک‬ ‫ف‬
‫۔‬ ‫ہر‬ ‫رے‬ ‫کشنی قوت‬
‫فرھنگ دانش ہم ۔‬
‫کشفی وجدان ہہ ۔‬
‫و‬ ‫قطرت 'تابیاق ۔‬
‫ہے ۔‬ ‫وعال‬
‫نف‬‫فاعل‬
‫کلیت ے‪٠‬‏ ۔‬
‫قعلیت ٭‪+‬وے‬
‫کت‬ ‫فلاح دارین سم ۔‬
‫پس‪۳‬۔‬ ‫گنجینہ معتی‬ ‫فلسفة عاليه وہ ۔‬
‫‪ ۰.‬۔‬ ‫فشناعری‬
‫ل‬ ‫فنون عاليه ‪٠‬‏ ۔‬
‫ےت‬ ‫لاعددیت‬ ‫ہہ‬ ‫دساف‬
‫لسائ اطبای بی‬ ‫‪9‬‬ ‫فی ھیئتین ر‪۴‬‬

‫لطیفة غیبی ے‪۱ ۶ ۱‬ك‪۱‬۔‬ ‫ی‪٥‬‏‬


‫لو انت اممسساج ‪25‬‬
‫غاتوت'انخلاف ‪:‬ہما‬
‫لوح دماغی ہم ۔‬
‫قدسی الاصل م ۔‬
‫‪78‬‬
‫قدوسی طاقتیں جم ۔‬
‫‪۸‬ے۔‬ ‫مابه الاشتراک‬
‫قلب ماھیت ہس ء وہ ۔‬
‫قوت ادراک ‪-۳۶‬‬
‫‪۸‬‬
‫‪٤ ۰‬‏‬
‫‪٤٠‬ےن‬
‫سابعد الطبیعیاتقی ‪٣‬م‏‬
‫۔‬ ‫قوت تخیل جم ‪٤‬‏ سے‬
‫‪٢‬ے‪١‬‏ ‪۱۸۱ ۲‬۔‪-‬۔‬
‫۔‬ ‫وم‬ ‫قوت عامله‬
‫‪٤‬‏ ْ۔ہ۔‬ ‫مہ‬ ‫مادەرءرم؛ ہہ‬
‫ت‬
‫ا ود‬
‫ں ا‬
‫قرات‬
‫ہ‪۸۲‬‬ ‫‪1‬ر‪00:5 ۳‬‬ ‫‪۹1٠‬‏‬ ‫ےک‬
‫کہ‬ ‫‪۸۸‬‬ ‫کت‬
‫‪٢‬ء‏‬ ‫الفطرت ہرر ‪٤.‬ء‪٤‬‏‬ ‫مافوق‬
‫ےھ‬ ‫‪ ۶‬ےہ‬ ‫‏‪۳٣‬‬
‫کتابی تخیل رو ۔‬
‫ماورا ہ|۔‬ ‫کثیر الانواع ا‬

‫ماورائی آفتاب ےہ ۔‬ ‫ہ۔‬ ‫تفجوی‬


‫کش‬
‫‪۲۰۱‬‬

‫۔‬ ‫موضوعی اصناف ‏‬ ‫ماوراے اخلاق ‪٢۲٢‬م‏ مہ‬


‫مہتم بالشان مم ۔‬ ‫‪۰١٠‬‬ ‫ماورایت ‪,‬ہو‪٤ ۹‬‏‪٤‬ےہ‬
‫سیکانیی قوت ہہ ‪-‬‬ ‫عۓٌرے‬
‫رگر‬
‫کویط ظ‬
‫ن‬ ‫ہ۔‬ ‫سے‪٢‬‏‬ ‫ماوراے تخیل رہ‬
‫یں‬ ‫ناو مد‬ ‫۔‬ ‫‪9‬م‬ ‫ماوراے حواس‬
‫‪۲‬‬ ‫‪8‬‬ ‫‪٤‬ے(‏ ؛ ‪۸۵٣٤‬‏ ‪۱۳۱‬‬ ‫ماہیت ‏‪٤٢‬‬
‫نامیانی ھیئثت ہن ‪٤‬ء‏ے۔‬
‫‪7‬ھ‬
‫ےر ۔‬ ‫ناطنقسانی‬
‫ا‬ ‫تی اما‬ ‫اوت زور ‪5‬‬
‫ای ہیٹتیں من ۔‬
‫‪٤‬‏ ےےء۔‬ ‫نفس الاصسی خ‪٦‬‬ ‫موی‬
‫سے‬ ‫موری‬
‫ب منار‬ ‫یک ا ا کی ا ار لے‬
‫ےن‬ ‫جحسم م ‪٢۳:۶‬‏ ہ‪ ۳‬م؟‪۹‬؛ ‪۰۳۱‬‬
‫نفسیاتی اضطراریت ‪ ۵۳۱‬۔‬
‫‪“۸۵‬‬
‫نقش برآب ےم ۔‬
‫حسم تمثالیں روم ۔‬
‫نقیض م‪۲‬ر۔‬
‫ختلف ھیئی ‪ ,‬۔‬
‫فی‬ ‫مسثله ارتقا پہ ۔‬

‫واقعیت ‪٢‬ء‏ م‪ ۵‬؛ کے ۔‬ ‫‪0‬ی وم‬ ‫مم‬


‫واعمة بمت‬ ‫کا ای‬
‫ان‬ ‫معنویت ‪۲‬ہ ۔‬
‫‪۳۳٢‬‬ ‫‪۳٥٢‬‬ ‫وجدانں حم ‪٤‬‏ ‪۵(٤‬‬ ‫رکاش‬
‫ر۔‬ ‫مکاقنلے ضر‬
‫اک ا یں او اہیں‬ ‫یں داو‬ ‫‪2‬‬ ‫‪2‬‬
‫۔‬ ‫مکتفی وحدتیں ‪۹‬م‬
‫‪۸‬۔‬ ‫‪2‬‬
‫‪4‬‬ ‫جیے الد یھ کی ہیی ا‬
‫‪۵‬م‪۲‬۔‬ ‫وج‪:‬دانی تخیل ہے ؛ ‪٢‬و‏‬ ‫ء‬ ‫مخسصنۃ ش وھروک ے‪٤۵‬‏ ےم ‪۸۲1‬‬
‫رہہ‬ ‫وحدت‬ ‫۔‬ ‫منظم صورت ‏‬

‫وحدت عظميه ہں ۔‬ ‫وذ ‪۵‬تت‬


‫ک‬ ‫جا‬
‫۔‬ ‫‪۲‬ر‬
‫وسیلڈ افہام و تفہم ہ‬ ‫موج ھاے احساس ے ۔‬
‫وسیلهُ قال ‪ ۲‬۔‬ ‫موسیتی ‪۳٣‬ء‏ م‪۵ ۳۱۲‬مك‪۱‬۔‪-‬‬
‫ھیئتی قالب ‪20‬ہ‬ ‫‏‪٥‬‬

‫هیٹتی لباس ہہ ۔‬
‫۔‬ ‫‪۸۱‬‬
‫‪۲٤‬‬ ‫ھیٹتی نفسیات ‪٦‬‏‬ ‫ھیثت ‪۹۵ ) ۵۵‬ء‪) ۸‬‬
‫ے ‪۹۸‬‬
‫م‬
‫ھیولول ‪۹‬م ۔‬ ‫‪۶۲۸۱‬۔‬ ‫‪۰۹۱۲‬‬

‫ا‬
‫لاو‬
‫‪٤‬ےن‪٢‬‏‬ ‫رہ من‬ ‫ھیف‪7‬تیں ‪۳۳‬ء‬
‫کے‬ ‫ب‪٢٤٢‬‏ ء‪۶٣۱١١٢ )١١‬‏ ‪۵۸۱‬۔‬
‫ہیی تجرے ‪۸٣۱‬‏ ۔‬
‫یاکوب بومهە و‪٢۹۳‬‏ ‪ ۳۱.‬۔‬
‫یونگ م‪٤۳٣‬‏ ‪٢۹۸۱ ۵۸‬‏ ۔‬ ‫رابوات آومات‬
‫کتب‬
‫زبان کتیار اور ابتدا ‪ ۵+‬۔‬ ‫الہام و شاعری وم ۔‬
‫زبور‪١‬م‏ ۔‬ ‫وک‬ ‫او‬
‫زند اوستا نم ۔‬ ‫انتقادی حکامۂ جالیاتی ین ۔‬
‫مال رم‬ ‫شراا‬ ‫انجانی چیزوں کی هیئت ‪۰۵‬ر ۔‬
‫اکر ان زبات مور‬ ‫‪000+0‬‬ ‫‪۶‬‬
‫شعرالعجم دم ؛ ہم ۔‬ ‫اوڈیسی ک‪2‬‬

‫۔‬ ‫عبادت اور شاعری ور‬


‫بوطیقا ‪ ۳+‬۔‬
‫و۔ہ‬
‫فاؤسٹ ےجوء‬
‫‪55‬‬ ‫۔‬ ‫ہ(‬ ‫ری‬‫غور‬
‫ا ا‬ ‫اتچف‬
‫شکیک‬
‫رم ۔‬‫قرآن‬ ‫‪2‬‬
‫ان‬ ‫قورات رم ۔‬
‫کنمفقووثس ہ‪2 ۲‬‬ ‫جن کر مت نے‬
‫‪ ۵۵‬۔‬ ‫مراة الشعر وم‪٤‬‏‬
‫دییووان غال ب' ‪٢۳۷‬‏ ‪2‬‬
‫۔‬ ‫میکیتھ ےن‬

‫ھیثتی نفسیات ‪۲‬ہ ۔‬ ‫زبان اوو حقیقت ےہ‪٥١٠‬‏ ‪۱‬ے‪١‬‏ ‪-‬‬


‫ام اغلاط‬ ‫صحت‬
‫ہے‬ ‫غلط‬ ‫سطر‬ ‫صفحهہ‬
‫سمجھنے‬ ‫سلجھنے‬ ‫بت‬ ‫ص‪۳‬‬

‫شعور کے ارثتا‬ ‫شعور ارتقا‬ ‫ڈ‪3‬‬ ‫"ہم‬


‫منا ‪۸5‬تنید؟ہ]‬ ‫‪(5 5۸ ٦‬عہ‪01‬‬ ‫‪۵‬‬ ‫‏‪۵١‬‬
‫موجود ھهوں“‬ ‫موجود هو“‬ ‫ه‪۵‬‬ ‫‏‪٦‬‬
‫عالم تجربە‬ ‫عالمم تجرے‬ ‫‪۳۲‬‬ ‫‪٢‬ے‏‬
‫‪968۸‬‬ ‫‪10۸8‬‬ ‫‪6‬‬ ‫‪٦‬‬ ‫‪۸۸‬‏‬
‫غیر شخصی‬ ‫شخصی‬ ‫‪۹‬‬ ‫‪۹۸‬‬
‫‪٤6۶٥‬ء‪(۲‬‏‬ ‫ط‪٥‬‏ ہ‪(11‬‬ ‫‪+۰‬‬ ‫‪"۳۲۲‬‬
‫سک کے‬ ‫سکب سے‬ ‫‪.-2‬‬ ‫”‪۸‬‬
‫هبعش تایناسنا‬ ‫هبعش تیناسنا‬ ‫‪٦‬‬ ‫‏‪٠‬‬
‫‪611‬‬ ‫ا ‪0‬ڑ‬ ‫‪۲۲‬‬ ‫‪۳‬‬
‫یه اعمسلتعاروں‬ ‫یه عمل استعاروں کی‬ ‫‪۲۲‬‬ ‫‪2‬‬
‫ہت‬ ‫یں مم‬ ‫مدد ے پیدا ھوتا اے‬
‫ھوتا ے‬
‫مقید‬ ‫مفید‬ ‫‪۳‬‬ ‫‏‪١٦‬‬
‫ع ص‪٠‬‏ و اہ ‪٢۲‬‏‬ ‫چھہئلاہ‪۲٢‬‏‬ ‫‪۳۲‬‬ ‫‪۳'۶‬‬
‫‪٥٥‬‏ طا‪1‬ک‪7‬‬ ‫‪٥‬ڈصا‏ ط‪۸57‬‬ ‫‪2‬‬ ‫ع‪۸۱‬‬

You might also like