Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 2

‫صوفی محمد ضيا ُء الحق شاگر ِد رشيد کو ذہنی آزمائش سے دوچار کرتے رہتے تهے‬

‫جس ميں سرخروئی پر وه کهل اٹهتے۔ ايک اور واقعہ ڈاکٹر خورشيد رضوی نے کچه‬
‫‪:‬يوں بتايا‬

‫ايک روز ميں صوفی صاحب کے ساته اُن کی کوٹهی کے سامنے والے سبزه زار ميں‬
‫زير غور تهی۔ ميں نے اُن سے عرض کيا کہ لفظ‬
‫ب نحوی ِ‬ ‫ٹہل رہا تها۔ ايک طويل ترکي ِ‬
‫”الّذی“ جو يہاں آيا ہے اس کے بعد آنے واﻻ اِتنا ٹکڑا مجموعی طور پر اِس سے مربوط‬
‫اسم موصول“ کہتے ہيں مگر جو کچه‬‫ہوتا ہے۔ ”الّذی“ کو تو گريمر کی اصطﻼح ميں ” ِ‬
‫آ کر اِس کے ساته مربوط ہو گا اِس کا اصطﻼحی نام مجهے معلوم نہيں۔ کہنے لگے‪،‬‬
‫“”سوچو۔‬

‫ميں نے عرض کيا سوچنے کا تو اس سے کچه تعلق معلوم نہيں ہوتا۔ يہ تو اصطﻼح کا‬
‫معاملہ ہے۔ ميں سوچ سوچ کر اصطﻼح تو دريافت نہيں کر سکتا۔‬

‫فرمايا‪” :‬پهر بهی قياس کرو۔ آخر ’موصول‘ کے مقابل کيا آسکتا ہے؟ “ ميں نے ايک‬
‫گونہ زچ ہو کر کہا‪” ،‬سر‪ ،‬اب قياس کيسے کروں۔ يوں تو ميں کہہ دوں کہ ’موصول‘‬
‫“کے مقابل ’صلہ‘ ہو سکتا ہے۔‬

‫مسرت کی نگاه مجه پر ڈالی اور کہا‪” :‬ديکها۔ يہی تو اصطﻼح ہے۔‬
‫ّ‬ ‫“انهوں نے داد اور‬

‫اِن واقعات سے اندازه ہوسکتا ہے کہ استاد اپنے شاگرد کی خفتہ صﻼحيتوں کو کس‬
‫گوہر ناياب کيسے‬
‫ِ‬ ‫طريقے سے بيدار کرتا ہے۔ اس کا جوہر کيسے صيقل کرتا ہے۔ اسے‬
‫بناتا ہے۔ يہ سب علم سے اخﻼص کے بغير ممکن نہيں۔ خورشيد رضوی کالج سے چهٹی‬
‫کے بعد گهر جاتے‪ ،‬دو گهنٹے آرام کے بعد پانچ چه کلوميٹر کی مسافت پيدل طے‬
‫کرکے صوفی صاحب کے ہاں آتے۔ رات کو اجاڑ بيابان راستے سے واپسی ہوتی۔‬

‫ڈاکٹر خورشيد رضوی بی اے ميں تهے کہ استاد کا تبادلہ ﻻہور ہو گيا ليکن ان کی‬
‫پڑهائی کا انهيں اس قدر خيال تها کہ ساہيوال چهوڑنے سے پہلے باور کروا ديا کہ‬
‫طريقہ کار وضع ہوا کہ خورشيد‬
‫ٔ‬ ‫ترجمے کی مشق جاری رہے گی۔ اس کے ليے يہ‬
‫رضوی روزانہ خط کے ذريعے ترجمہ ارسال کرتے جسے ديکهنے کے بعد اسے واپس‬
‫بهجوايا جاتا۔ خورشيد رضوی کے اورينٹل کالج ميں‪ ،‬ايم اے عربی کے ليے داخلہ لينے‬
‫تک‪ ،‬استاد شاگرد ميں خط کتابت جاری رہی۔‬
‫ب فيض کے ليے گورنمنٹ کالج بهی جاتے‬ ‫اورينٹل کالج کے زمانے ميں استاد سے کس ِ‬
‫رہے۔ کبهی ان کے کمرے ميں تو کبهی اوول گراؤنڈ ميں اکتساب کرتے۔ انهی دنوں ميں‬
‫سے ايک دن‪ ،‬جی سی کی راہداريوں سے گزرتے ذہن ميں اس خيال نے جنم ليا کہ کاش‬
‫ايسا ہو کہ کبهی يہاں پڑهانے پر مامور ہوں۔ قسمت کی خوبی ديکهيے۔ صوفی محمد‬
‫شعبہ عربی کے صدر تهے‪ ،‬خورشيد رضوی بهی اسی‬ ‫ٔ‬ ‫ضيا ُء الحق گورنمنٹ کالج ميں‬
‫نقش قدم پر چلنا اسی کو کہتے ہيں۔‬
‫شعبہ عربی کے سربراه بنے۔ ِ‬
‫ٔ‬ ‫کالج ميں‬

‫انارکلی ميں نگينہ بيکری اديبوں دانشوروں کا اہم مرکز رہی ہے۔ اورينٹل کالج کے‬
‫ز مانے ميں صوفی صاحب کے ساته خورشيد رضوی کبهی کبهار وہاں چلے جاتے۔‬
‫خورشيد رضوی کو وہاں کے کوکونٹ بسکٹ پسند تهے۔ صوفی صاحب انهيں چائے‬
‫کے ساته يہ بسکٹ تو کهﻼتے تهے ليکن علمی گتهياں سلجهانے سے ان کی جان يہاں‬
‫بهی نہيں چهوٹتی تهی۔ ايک دن نگينہ بيکری ميں پرچے پر لکهے عربی کے دو گنجل‬
‫دار شعر خورشيد رضوی کو ديے تاکہ انهيں ذہنی ”خلفشار“ سے دوچار کيا جاسکے۔‬
‫اپنی ذہانت سے وه اس امتحاں سے آساں گزر گئے تو صوفی صاحب بہت سرشار ہوئے۔‬

‫‪:‬ايک دفعہ ايک کتاب پر يہ شعر لکه کر ديا‬

‫الی عملی‬
‫اعمل بعلمی و ﻻ تنظر ٰ‬
‫ينفعک قولی و ﻻ يضررک تقصيری‬

‫تو ميرے علم پر عمل کر اور ميرے عمل کو نہ ديکه‪ ،‬ميری بات تجهے فائده دے گی‬
‫اور ميری کوتاہی سے تجهے نقصان نہ ہوگا۔‬

You might also like