Download as doc, pdf, or txt
Download as doc, pdf, or txt
You are on page 1of 16

‫ئ‬ ‫ٹ‬

‫ن ٹ خ‬ ‫سی‬
‫ل‬
‫ی‬ ‫ڈاک نر سج اد ف علیش ر‬
‫ ی رپور‬،‫ ناہ ع ب دا ل طی ف یو ی ورس ی‬،‫اسسٹٹ ٹ پرو یسر‬
‫ن‬
‫ئ‬ ‫ڈاک نر گل ف واحد ٹدی من ٹ‬
‫ سا ٹ برا چ کراچ ی‬،‫اسسٹ ٹ پرو یسر پرس ن یو ی ورس ی‬

‫ عالمہ اقبال اور سید مودودی کے افکار کی‬:‫خالفت جمہور‬


‫روشنی میں‬

Abstract
The thoughts of Allama Iqbal & Syed Mododi are regarded as the foundation of unique
democratic governments. There is no vast difference between the thoughts/ideologies
of these prominent philosophers of the East. As far as Islamic state is concerned the
characteristics of Syed Mododi’s thought are totally different. He presents a new
ideology/concept of khilafat o Jamohriat which is termed as “Khilaft-e-Jamhor.” Syed
Mododi calls the present democracy as matlakul Annan. Similarly, Allama Iqbal does
not support this type of democratic regime. To Iqbal people are more powerful in the
democracy. According to pattern of these scholars if in democratic system Allah
Almighty is superpower than this system could be considered a form of Prophetic path.
(Jamhoriat Alla Minhajal Nabuha.

25 ‫ عالمہ اقبال اور سید مودودی کے افکار کی‬:‫خالفت جمہور‬


‫روشنی میں‬
‫]تحقیقی مجلہ[‬ ‫بیان الحکمہ‬
‫ف‬
‫کل ی دی ال اظ‬
‫جمہور‪ ،‬منہاج النبوۃ‪ ،‬خالفت‪ ،‬مطلق العنان‪ ،‬مقتدر اعلٰی‬
‫مقدمہ‬
‫عالمہ محم&&&د اقب&&&ال اور س&&&ید م&&&ودودی ملت اس&&&المیہ کی وہ عظیم‬
‫شخصیتیں گ&&زریں ہیں جن کے افک&&ار و نظری&&ات نے ملت اس&&المیہ کے ای&&ک‬
‫بڑے حصے کو الشعور سے شعور کی ط&&رف گ&&امزن کی&&ا ہے۔ ان شخص&&یات‬
‫کے منفرد نظریات میں سے ایک نظ&&ریہ ط&&رز حک&&ومت س&&ے متعل&&ق ہے۔دنی&&ا‬
‫میں رائج مختلف طرزہائے حکومتوں میں سب سے زیادہ مشہور اور معروف‬
‫نظریہ جمہوریت ہے۔ لیکن اس کی عملداری میں جو نقائض اور خامی&&اں ابھ&&ر‬
‫کے سامنے آتی ہیں جن کی بنیاد پ&&ر جمہ&&وری ط&&رز حک&&ومت کے خالف بھی‬
‫گ&&ائے بگ&&ائےمختلف نظری&&ات ابھ&&ر کے س&&امنے آتے ہیں۔ جن شخص&&یات نے‬
‫رائج العم&&ل جمہ&&وری ط&&رز حک&&ومت پ&&ر تنقی&&د اور ج&&زوئی ط&&ور پ&&ر اختالف‬
‫کرتے ہوئے اس کے متبادل نظریات پیش ک&&ئے ہیں‪ ،‬ان میں س&&ے ای&&ک اہم ن&&ام‬
‫س&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&ید م&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&ودودی ک&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&ا ہے۔‬
‫جمہوریت کی اصطالح عربی زبان کے لف&ظ جمہ&ور س&ے مش&تق ہے۔ جمہ&ور‬
‫ع&&ربی میں ع&&وام ک&&و کہ&&ا جات&&ا ہے۔ اس کی مختل&&ف تع&&ریفیں کی گ&&ئی ہیں ۔‬
‫مع&&روف م&&اہر لغت ل&&ویس معل&&وف نے جمہ&&وریت کی ی&&وں تعری&&ف کی ہے۔‬
‫"(الجمہ&&ورَّیۃ) االمۃ او ال&&دولۃ یَع ّین زعیمھ&&ا ل&&وقت مح&&ّد د ال ب&&الَّتوارِث ب&&ل‬
‫بانتخاب جمھور االمۃ ۔ جمہوریت دراصل رعایا یا ریاست جو اپنے سربراہ کو‬
‫مخصوص مدت کے ل&&ئے اپن&&ا س&&ربراہ متعین ک&&رے اور یہ تعین&&اتی وراثت کی‬
‫بنیاد پر نہیں ہو بلکہ ملک کی عوام یہ انتخاب اپنی رائے کے ذریعے ک&&رے۔ (‬
‫‪ )1‬اسی طرح معروف سوشلسٹ مورخ " کرن آرم اسٹرانگ" جمہوریت کی‬
‫تعری&&ف ی&&وں ک&&رتے ہیں۔’’ع&&وام کی حک&&ومت‪ ،‬ع&&وام کے ذریعے‪ ،‬ع&&وام کے‬
‫لئے۔" (‪)2‬‬
‫جمہ&&وریت ک&&ا مفہ&&وم یہی ہے کہ اک&&ثریت کی رائے ک&&ا انتخ&&اب ہ&&واور‬
‫اکثریت کی رائے کے تعین کے بع&&د اس اک&&ثریت ک&&و حک&&ومت ک&&رنے ک&&ا ح&&ق‬
‫حاصل ہ&و۔ جبکہ اکثری&تی رائے کے مق&ابلے میں جمہ&وری مش&ق س&ے اقلی&تی‬
‫رائے کا تعین بھی ہوجات&&ا ہے لیکن اقلیت کے تعین کے ب&&اوجود اس اقلیت کی‬
‫رائے فی الحقیقہ ک&&وئی ق&&در و قیمت نہیں رکھ&&تی ۔ لیکن یہ ای&&ک ب&&دیہی اور‬
‫عام فہم مس&&ئلہ ہے کہ اک&&ثریت میں ہ&&ونے ک&&ا مطلب ہرگ&&ز یہ نہیں ہے کہ ان‬
‫کے مخالف کی رائے باطل اور غلط ہو اور اس کی کوئی قدر و قیمت نہ ہو ۔‬
‫لیکن جمہ&&&وری پروس&&&س میں اقلیت کی رائے ک&&&و رد کردی&&&ا جات&&&ا ہے۔ یہی‬
‫جمہ&&وریت کی س&&ب س&&ے ب&&ڑی کم&&زوری ہے۔ اس ط&&رف راقم نے کس&&ی اور‬

‫‪26‬‬ ‫خالفت جمہور‪ :‬عالمہ اقبال اور سید مودودی کے افکار کی‬
‫روشنی میں‬
‫]تحقیقی مجلہ[‬ ‫بیان الحکمہ‬

‫مقالے میں بھی اشارہ کیا تھا۔ "جمہ&&وریت ک&&ا عم&&ومی مفہ&&وم ع&&وامی حک&&ومت‬
‫ہے۔ اس لحاظ سے جمہ&وریت وہ واح&د راس&تہ ہے جس میں ریاس&ت کے اک&ثر‬
‫عوام اپنی زندگی کے مختلف شعبوں میں بہترین اور ص&حیح ام&ور ک&ا انتخ&اب‬
‫کرتے ہیں۔ اس حوالے سے اکثریت کا ایک صحیح انتخاب ممکن ہے لیکن اس‬
‫کے باوجود جمہوریت یا اکثریت کی رائے کو حتمی طور پر صحیح اور غل&&ط‬
‫ک&ا معی&ار نہیں ق&رار دیاجاس&کتا ۔ کی&ونکہ یہ ممکن&ات س&ے خ&الی نہیں ہے کہ‬
‫لوگ&&وں کی منتخب ش&&دہ جم&&اعت عملی ط&&ور پ&&ر انس&&ان کی فالح و بہب&&ود کے‬
‫خالف کام کریں جس کی مثالیں دور حاضر کی جمہ&&وری حکومت&&وں ی&&ا ت&&اریخ‬
‫کی تمام جمہوری حکومتوں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔"(‪)3‬‬
‫بہرحال جن مفکرین نے جمہ&&وریت کے خ&&دوخال ک&&و بی&&ان کی&&ا ہے ان‬
‫کے مطابق تمام طرح کی طرز حکومتوں میں س&&ب س&&ے بہ&&تر ط&&رز حک&&ومت‬
‫جمہوریت ہے جس پر شاید ہی کس&&ی ک&&و اختالف ہ&&و۔البتہ برص&&غیر کی دو اہم‬
‫شخصیات عالمہ اقبال اور مودودی اس نظریہ سے صد فیصد متف&&ق نظ&&ر نہیں‬
‫آتے اور نہ ہی ص&&د فیص&&د رائج العم&&ل جمہ&&وریت کی نفی ک&&رتے ہیں۔ س&&ید‬
‫مودودی کا موقف ہے کہ جمہوری اقدار اور جمہوریت کی اص&&ل روح ی&&ورپ‬
‫ک&&ا ورثہ نہیں بلکہ یہ اس&&الم ک&&ا ورثہ ہے۔اہ&&ل مغ&&رب نے اس&&الم کے نظ&&ریہ‬
‫شورائیت کی بنیاد پر جمہوریت کے نام سے ایک طرز حک&&ومت ک&&و رائج کی&&ا‬
‫ہے۔ جس کا مقصد الٰہی قوانین کے قوت نافذہ ک&&ا حص&&ول نہیں ہے بلکہ مطل&&ق‬
‫العنان حکومت قائم کرنا ہے ت&&اکہ لوگ&&وں ک&&ا بآس&&انی استحص&&ال کی&&ا جاس&&کے۔‬
‫جیسا کہ آپ تنقی&&د ک&&رتے ہ&&وئے کہ&&تے ہیں۔"چ&&ونکہ سوس&&ائٹی اخالق ‪ ،‬ام&&انت‬
‫اوردیانت کی نعمتوں سے مح&&روم ہے اور ان تص&&ورات ک&&و ک&&وئی اہمیت بھی‬
‫نہیں دیتی۔ اس لئے انتخابات جس میں زیادہ تر وہ لوگ کامی&&اب ہ&&وتے ہیں ج&&و‬
‫عوام کو اپنی دولت اپنے علم‪ ،‬اپنی چاالکی اور اپنے جھ&وٹے پروپیگن&ڈے کے‬
‫زور سے بے وقوف بناسکتے ہیں۔ پھر یہ خود عوام کے ووٹ سے ہی ان کے‬
‫آلہ کار بن جاتے ہیں اور عوام کے فائدے کیلئے نہیں بلکہ اپ&&نے شخص&&ی اور‬
‫طبق&&اتی فائ&&دے کیل&&ئے ق&&وانین بن&&اتے ہیں یہی مص&&یبت ام&&ریکہ میں ہے یہی‬
‫انگلستان میں ہے جن کو جمہ&&وریت کی جنت ہ&&ونے ک&&ا دع&&وٰی ہے۔"(‪ )4‬رائج‬
‫العمل جمہوریت میں جو خامیاں اور نقائص ہیں جن کی بنا پر وہ ایک سرمایہ‬
‫دارانہ نظام اور مطلق العنان سیاست کو جنم دیتی ہے۔ اس پر سید م&&ودودی کی‬
‫مکم&&&ل نظ&&&رہے لیکن وہ اس کے قائ&&&ل نہیں ہیں کہ س&&&رمایہ دار نہ دنی&&&ا میں‬
‫جمہوریت کی جو شکل ہے اس بناء پر اس نظام ک&&و یکس&&ر مس&&ترد کی&&ا ج&&ائیں۔‬
‫بلکہ سیدمودودی کی فک&&ر یہ ہے کہ ہمیں مغ&&رب کی بے قی&&د جمہ&&وریت کے‬
‫بجائے ایک اخالقی اور دی&نی ض&ابطے کی پابن&د جمہ&وریت بن&انی ہ&و گی۔ اس‬

‫‪27‬‬ ‫خالفت جمہور‪ :‬عالمہ اقبال اور سید مودودی کے افکار کی‬
‫روشنی میں‬
‫]تحقیقی مجلہ[‬ ‫بیان الحکمہ‬

‫سلسلے میں موالنا مودودی جمہوریت کے نقائض کو جمہوریت کی ناکامی ک&&ا‬


‫پیش خیمہ قرار دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک جمہوریت کی ناک&&امی کے اس&&باب یہ‬
‫ہیں۔"مطلق العنان جمہوریت قائم کرنے کی کوشش آخرک&&ار جس چ&&یز پ&&ر ق&&ائم‬
‫ہوتی رہی ہے وہ جمہور پر چند آدمیوں کی عملی حاکمیت ہے۔ اس&&الم پہلے ہی‬
‫قدم پر اس ک&&ا ص&&حیح عالج کردیت&&اہے۔ وہ جمہ&&وریت ک&&و ای&&ک ایس&&ے بنی&&ادی‬
‫قانون کا پابند بناتا ہے جو کائنات کے اصل حاکم نے مقرر کی&&ا ہے۔ اس ق&&انون‬
‫کی پابندی جمہور اور اس کے سربراہ ک&اروں ک&و الزم&ًا ک&رنی پ&ڑتی ہے اور‬
‫اس بن&&اء پ&&ر مطل&&ق العن&&انی س&&رے س&&ے پی&&دا ہی نہیں ہ&&ونے پ&&اتی ج&&و ب&&اآلخر‬
‫جمہ&وریت کی ناک&امی کااص&ل س&بب بن&تی ہے۔دوم یہ کہ ک&وئی جمہ&وریت اس‬
‫وقت تک نہیں چل سکتی جب تک دل&&وں میں اس ک&&ا ب&&وجھ س&&ہارنے کے الئ&&ق‬
‫شعور اور مناسب اخالق نہ ہو۔ اسالم اس&&ی ل&&ئے ع&&ام مس&&لمانوں کی ف&&ردًا ف&&ردًا‬
‫تعلیم اور اخالقی تربیت پر زور دیتاہے۔ یہ چیز جت&نی کم ہ&وگی جمہ&وریت کی‬
‫کامیابی کے امکانات کم ہ&&وں گے اوریہ جت&&نی زی&&ادہ ہ&&وگی امکان&&ات ات&&نے ہی‬
‫زیادہ ہوں گے۔سوم یہ کہ جمہوریت کی کامی&&ابی کے س&&اتھ چل&نے ک&&ا انحص&&ار‬
‫ایک بیدار مغ&&ز مض&&بوط رائے ع&&امہ ہے اور اس ط&&رح کی رائے ع&&امہ اس&&ی‬
‫وقت پیدا ہوتی ہے جب معاشرہ اچھے افراد پر مش&&تمل ہ&&و ان اف&&راد کی ص&&الح‬
‫بنیادوں پر ایک اجتماعی نظ&&ام میں منس&&لک کیاگی&&ا ہ&&و اور اس اجتم&&اعی نظ&&ام‬
‫میں اتنی طاقت موجود ہو کہ برائی اور ب&&رے ک&&ام اس میں پھی&&ل نہ س&&کیں اور‬
‫نیکی اور نی&&ک ل&&وگ اس میں ابھ&&ر س&&کیں اس&&الم نے اس کیل&&ئے ہم ک&&و تم&&ام‬
‫ضروری ہدایات دے دی ہیں۔اگر مند رجہ باال تینوں اس&&باب ف&&راہم ہوج&&ائیں ت&&و‬
‫جمہ&&وریت پ&&ر عملدرآم&&د کی مش&&ینری خ&&واہ کس&&ی ط&&رح کی بن&&ائی ج&&ائے وہ‬
‫کامیابی کے ساتھ چل سکتی ہے اور اس مشینری میں کسی جگہ ک&وئی قب&احت‬
‫محسوس ہو تو اس کی اصالح کرکے بہترمشینری بھی بنائی جاس&&کتی ہے اس‬
‫کے بعد اصالح و ارتق&اء کیل&ئے ات&نی ک&افی ہے کہ جمہ&وریت ک&و تج&ربے ک&ا‬
‫موقع‪ ،‬تجربات سے بہ ت&&دریج ای&&ک ن&&اقص مش&&ینری بہ&تر اور کام&&ل بن&&تی چلی‬
‫جائے گی۔" (‪)5‬‬
‫سید مودودی جہاں جمہ&وریت پ&ر ش&دید تنقی&د ک&رتے ہیں وہی پ&ر اس&ی‬
‫جمہوریت کو خالفت راشدہ سے منسوب ک&&رتے ہ&&وئے نظ&&ر آتے ہیں۔ البتہ اس‬
‫جمہوریت اور موجودہ رائج جمہوریت میں ای&&ک بنی&&ادی ف&&رق ک&&و بھی واض&&ح‬
‫کرتے ہیں کہ موجودہ رائج جمہوریت میں جمہوری سربراہ مطلق العن&&ان ہوت&&ا‬
‫ہے جبکہ سید کی فکر جمہوریت میں جمہور کا سربراہ خلق خ&&دا کے س&&امنے‬
‫جواب دہ اور خادم ہوتا ہے۔ اس حوالے سے سید اپنی کت&&اب خالفت و مل&&وکیت‬
‫میں امام ابویوسف کی مثال پیش کرتے ہیں کہ"جب ان سے ہ&&ارون الرش&&ید نے‬

‫‪28‬‬ ‫خالفت جمہور‪ :‬عالمہ اقبال اور سید مودودی کے افکار کی‬
‫روشنی میں‬
‫]تحقیقی مجلہ[‬ ‫بیان الحکمہ‬

‫سلطنت کیل&ئے کت&اب آئین م&رتب ک&رنے کیل&ئے کہ&ا ت&و انہ&وں نے اپ&نی کت&اب‬
‫الخراج میں خلیفہ کا یہ تصور پیش کیا کہ وہ صرف خ&&دا کے س&&امنے ہی نہیں‬
‫بلکہ خلق کے سامنے بھی جواب دہ ہے انہ&وں نے اح&&ادیث اور اق&&وال ص&&حابہ‬
‫نقل کئے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مس&&لمانوں ک&&و اپ&&نے فرم&&انروا اور احک&&ام‬
‫کے سامنے آزادانہ تنقی&&د ک&&ا ح&&ق حاص&&ل ہے اوراس آزادی تنقی&&د میں ق&&وم اور‬
‫حکومت کی ہے۔"(‪)6‬‬
‫سید مودودی اور عالمہ اقبال کے جمہوریت کے حوالے سے نظریات‬
‫کو پرکھنے س&ے قب&ل اس نقطہ ک&و س&مجھنا الزمی ہے کہ وہ بنی&ادی نقطہ کی&ا‬
‫ہے جس کی وجہ سے یہ دونوں شخصیات رائج العم&&ل جمہ&&وریت ک&&و مغ&&ربی‬
‫جمہ&&وریت ک&&ا ن&&ام دے ک&&ر اس کی مخ&&الفت ک&&رتی ہ&&وئی نظ&&ر آتی ہیں۔ ہم&&اری‬
‫تحقی&&ق کے مط&&ابق ای&&ک ہی بنی&&ادی وجہ اختالف ہے کہ موج&&ودہ رائج العم&&ل‬
‫جمہوریت میں جمہور مقتدر اعلٰی کا مصداق قرار پاتا ہے ۔ اس بات ک&&ا ان&&دازہ‬
‫جمہوریت کی اس تعریف سے لگایا جاسکتا ہے۔‬
‫‪A state in which the supreme power rests in the body of‬‬
‫‪citizens entitled to vote and is exercised by representatives chosen‬‬
‫)‪directly or indirectly by them. (7‬‬
‫سید مودودی جمہوریت کی بنیاد پر حکمران&&وں کی مطل&&ق العن&&انی کے‬
‫خالف تھے اور اسی طرح وہ خالفت راشدہ کے پیٹرن پر خالفت کے قیام کے‬
‫بھی قائ&&ل نہیں تھے۔ وہ ان دون&&وں نظری&&ات کے م&&ابین ای&&ک اور نظ&&ریہ پیش‬
‫کرتے ہیں ۔ جس ک&&و وہ ’’خالفت جمہ&&ور‘‘ س&&ے معن&&ون ک&&رتے ہیں ۔ ظ&&اہری‬
‫طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ س&&ید م&&ودودی مغ&&ربی جمہ&وریت ی&&ا آج کی دنی&&ا‬
‫میں رائج جمہوریت کے نظریہ حاکمیت کو جزوئی طور پر مسترد ک&&رتے ہیں‬
‫اور اس کے مقابلے میں "خالفت جمہور یا جمہوری خالفت ی&&ا الٰہی حک&&ومت"‬
‫ک&&ا نظ&&ریہ پیش ک&&رتے ہیں۔ اس نظ&&ریہ کی وض&&احت وہ ان الف&&اظ میں ک&&رتے‬
‫ہیں۔"ہم جمہوری حاکمیت کے بجائے جمہوری خالفت کے قائ&&ل ہیں۔ شخص&&ی‬
‫بادشاہی ام&&یروں کے اقت&&دار اور طبق&&وں کی اج&&ارہ داری کے ہم بھی ات&&نے ہی‬
‫مخالف ہیں جنتا موج&&ودہ زم&&انے ک&&ا ک&&وئی ب&&ڑے س&&ے ب&&ڑا جمہ&&وریت پرس&&ت‬
‫ہوس&&کتاہے۔ اجتم&&اعی زن&&دگی میں تم&&ام لوگ&&وں کے یکس&&اں حق&&وق‪ ،‬مس&&اویانہ‬
‫حیثیت اور کھلے مواقع پر ہمیں بھی اتنا ہی اصرار ہے جتنا مغربی جمہ&وریت‬
‫کے کسی بڑے سے بڑے حامی کو ہوسکتاہے ہم بھی اس بات کے قائل ہیں کہ‬
‫حکومت کاانتظام اور حکمرانوں کا انتخ&&اب تم&&ام باش&&ندوں کی آزادانہ مرض&&ی‬
‫اور رائے سے ہونا چاہیے ہم بھی اس نظام زندگی کے سخت مخ&&الف ہیں جس‬
‫میں لوگوں کیلئے اظہار رائے کی آزادی‪ ،‬اجتماع کی آزادی اور سعی و عم&&ل‬

‫‪29‬‬ ‫خالفت جمہور‪ :‬عالمہ اقبال اور سید مودودی کے افکار کی‬
‫روشنی میں‬
‫]تحقیقی مجلہ[‬ ‫بیان الحکمہ‬

‫کی آزادی نہ ہ&&و یہ ام&&ور ج&&و جمہ&&وریت ک&&ا اص&&ل ج&&وہر ہیں ان میں ہم&&اری‬
‫جمہوریت اور مغربی جمہوریت کے درمی&&ان ک&&وئی اختالف نہیں ہے‪ ،‬ان میں‬
‫س&&ے ک&&وئی چ&&یز بھی ایس&&ی نہیں ج&&و اہ&&ل مغ&&رب نے ہمیں س&&کھائی ہ&&و ہم اس‬
‫جمہوریت کو اس وقت سے جانتے ہیں اور دنیا کو اس کا بہ&&ترین عملی نم&&ونہ‬
‫دکھاچکے ہیں کہ جبکہ مغرب پرس&&توں کی پی&&دائش میں ابھی س&&ینکڑوں ب&&رس‬
‫کی دیر تھی دراصل ہمیں اس زبردست جمہوریت س&&ے جس چ&&یز میں اختالف‬
‫ہے وہ یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ خ&&دا ک&&و حکم م&&ان ک&&ر انس&&انی زن&&دگی ک&&ا‬
‫نظام حکومت خالفت و نیابت کے نظریہ پر بنایاجائے۔ خالفت بالشبہ جمہوری‬
‫ہ&&ونی چ&&اہیے۔ جمہ&&ور کی رائے س&&ے ہی حک&&ومت کے ام&&یر ک&&ا انتخ&&اب ہون&&ا‬
‫چاہیے۔ جمہوری رائے سے اہل شورٰی منتخب ہونے چ&&اہیے اور جمہ&&ور کے‬
‫مشورے سے حکومت کے سارے انتظام&&ات چل&&نے چ&&اہیے۔ ع&&وام ک&&و تنقی&&د و‬
‫احتساب کا کھال حق ہون&&ا چ&&اہیے لیکن یہ کچھ اس احس&&اس و ش&&عور کے س&&اتھ‬
‫ہون&&ا چ&&اہیے کہ مل&&ک خ&&دا ک&&ا ہے ہم مال&&ک نہیں بلکہ ن&&ائب ہیں اور وہ اخالقی‬
‫اصول‪ ،‬قانونی احکام اور حدود اٹل ہیں جو خدا نے ہماری زندگی کیلئے مق&&رر‬
‫کردیئے ہیں۔" (‪)8‬‬
‫سیدمودودی ایسی کسی بھی جمہ&&وریت کی س&&ختی س&&ے تردی&&د ک&&رتے‬
‫ہیں کہ جس میں اقتدار اعلٰی کے مالک عوام ہوں۔"کوئی شخص‪ ،‬خاندان‪ ،‬طبقہ‬
‫یا گروہ بلکہ اسٹیٹ کی ساری آبادی مل ک&&ر بھی ح&&اکمیت کی مال&&ک نہیں ہے۔‬
‫حاکم اعلٰی ‪Sovereign‬صرف خدا ہے۔ اور باقی سب محض رعیت کی حیثیت‬
‫رکھتے ہیں۔ایک شخص بیک نظر ان خصوصیات کو دیکھ کر سمجھ سکتاہے‬
‫کہ یہ مغربی طرز کی الدینی جمہوریت (‪ )Secular Democracy‬نہیں ہے اس‬
‫لئے فلسفیانہ نقطہ نظر سے جمہوریت تو نام ہی اس طرز حکومت کا ہے جس‬
‫میں ملک کے عام باشندوں کو حاکمیت اعلٰی حاصل ہوجس قانون کو وہ چ&&اہیں‬
‫نافذ ہو اور جسے وہ نہ چاہیں وہ کتاب آئین میں س&&ے محوکردیاج&&ائے۔ یہ ب&&ات‬
‫اسالم میں نہیں ہے یہاں ایک باالتر بنیادی قانون‪ ،‬خ&&ود ہللا تع&&الٰی اپ&&نے رس&&ول‬
‫کے ذریعے س&&ے دیت&&ا ہے جس کی اط&&اعت ریاس&&ت اور ق&&وم ک&&و ک&&رنی پ&&ڑتی‬
‫غ‬
‫ہے۔"(‪)9‬‬
‫سیدمودودی کا اسالمی تصور جمہوریت(‪)Theo Democracy‬م رب‬
‫کے تصور جمہ&&وریت س&&ے زی&&ادہ مختل&&ف نہیں ہے۔ اس&&المی جمہ&&وریت س&&ے‬
‫مراد ہللا کی ح&&اکمیت اور ع&&وام کی خالفت ہے۔ جس کیل&&ئے بنی&&ادی ق&&وانین ہللا‬
‫کے عطاء کردہ ہیں لوگ صرف ان قوانین ک&&و ہللا کی نی&&ابت ک&&رتے ہ&&وئے اس‬
‫کے نمائندے کے طورپر نافذ کرنے کے پابن&&د ہ&&وتے ہیں جس میں کس&&ی تغ&&یر‬
‫وتبدیلی کے وہ مجاز نہیں ہ&وتے مگ&ر نت ن&ئے پیش آنے والے مع&امالت میں‬

‫‪30‬‬ ‫خالفت جمہور‪ :‬عالمہ اقبال اور سید مودودی کے افکار کی‬
‫روشنی میں‬
‫]تحقیقی مجلہ[‬ ‫بیان الحکمہ‬

‫ضروری قانون س&ازی کیل&ئے بھی الٰہی ق&&وانین کے م&اتحت ہی ک&ام کرس&کتے‬
‫ہیں۔ سید مودودی اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں ۔"اسالم میں ڈیموکریسی پر‬
‫یہ حدود و قیود کیوں عائد کئے گ&ئے ہیں اور ان ح&دود و قی&ود کی ن&وعیت کی&ا‬
‫ہے اعتراض کرنے واال اعتراض کرسکتاہے کہ اس طرح تو خ&&دا نے انس&&انی‬
‫عقل و روح کی آزادی سلب ک&رلی‪ ،‬ح&االنکہ ابھی تم یہ ث&ابت ک&ررہے تھے کہ‬
‫خدا کی الٰہ یت‪ ،‬انسان کو عقل و فکر اور جسم و جان کی آزادی عطا کرتی ہے۔‬
‫اس کا جواب یہ ہے کہ قانون سازی کا اختیار ہللا نے اپنے ہاتھ میں‪ ،‬انس&&ان کی‬
‫فطری آزادی سلب کرنے کیلئے نہیں بلکہ اس کو محفوظ کرنے کیلئے لی&&ا ہے‬
‫اس کا مقصد انسان ک&&و بے راہ ہ&&ونے اور اپ&&نے پ&&اؤں پ&&ر آپ کلہ&&اڑی م&&ارنے‬
‫سے بچانا ہے۔مغربی جمہ&&وریت جس کے متعل&&ق یہ دع&&وٰی کیاجات&&اہے کہ اس‬
‫میں عمومی حاکمیت (‪ )Popular Sovereignty‬ہ&&وتی ہے‪ ،‬اس ک&&ا ذرا تج&&ربہ‬
‫کرکے دیکھئے جن لوگوں سے مل کر کوئی اسٹیٹ بنت&&ا ہے وہ س&&ب کے س&&ب‬
‫نہ ت&&و خ&&ود ق&&انون بن&&اتے ہیں اور نہ خ&&ود اس ک&&و ناف&&ذ ک&&رتے ہیں انہیں اپ&&نی‬
‫حاکمیت‪ ،‬چند مخصوص لوگوں کے حوالے کرنی پڑتی ہے تاکہ ان کی ط&رف‬
‫سے وہ قانون بنائیں اور اسے نافذ کریں اسی غرض سے انتخاب کا ایک نظ&&ام‬
‫مقرر کیاجاتاہے چونکہ سوسائٹی اخالقی اور امانت و دی&&انت کی نعمت&&وں س&&ے‬
‫مح&&روم ہے اور ان تص&&ورات ک&&و ک&&وئی اہمیت بھی نہیں دی&&تی اس ل&&ئے اس‬
‫انتخابات میں زیادہ تر وہ لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو عوام کو اپ&&نی دولت اپ&&نے‬
‫علم اپ&&نی چ&&االکی اور اپ&&نے جھ&&وٹے پروپیگن&&ڈے کے زور س&&ے بے وق&&وف‬
‫بناسکتے ہیں۔ پھر یہ خود عوام کے ووٹ ہی سے ان کے آلہ کار بن جاتے ہیں‬
‫ع&&وام کے فائ&&دے کیل&&ئے نہیں بلکہ اپ&&نے شخص&&ی اور طبق&&اتی فائ&&دے کیل&&ئے‬
‫قوانین بناتے ہیں اور اسی طاقت سے جو عوام نے ان کو دی ہے ان قوانین کو‬
‫عوام پر ناف&&ذ ک&رتے ہیں یہی مص&&یبت ام&ریکہ میں ہے‪ ،‬یہی انگلس&تان میں ہے‬
‫اور یہی ان سب ممالک میں ہے جن ک&&و جمہ&&وریت کی جنت ہ&&ونے ک&&ا دع&&وٰی‬
‫ہے۔"(‪)10‬‬
‫سید مودودی کے نظریے کا تنقیدی جائزہ‬
‫سید مودودی کا نظریہ" جمہوری خالفت یا الٰہی حک&&ومت" موج&&ودہ‬
‫رائج جمہ&&وریت س&&ے کچھ زی&&ادہ مختل&&ف نہیں ہے ۔ جیس&&ا کہ بی&&ان ہ&&وا ہے کہ‬
‫جمہوریت میں سپریم پاور (حاکمیت اعلٰی ) ک&&ا مص&&داق جمہ&&ور (ع&&وام الن&&اس)‬
‫ہے۔یعنی رائج الوقت جمہوریت کا سب س&&ے بنی&&ادی اص&&ول ‪Sovereignty of‬‬
‫‪ the people‬ہے۔ یقینًایہ ایک ایسا بنیادی نقطہ ہے ۔ جس پر قرآن و سنت کے‬
‫تناظر پر غور کیا جائے تو یہ نظریہ اسالمی نقط نظر سے کسی حد تک قاب&&ل‬
‫قبول نظر نہیں آتا ۔ اسی بنیا د پر سید اس نظریے کے جزوئی طور پر مخالف‬

‫‪31‬‬ ‫خالفت جمہور‪ :‬عالمہ اقبال اور سید مودودی کے افکار کی‬
‫روشنی میں‬
‫]تحقیقی مجلہ[‬ ‫بیان الحکمہ‬

‫ہیں۔ اگر دقت سے خالفت جمہ&&ور اور رائج ال&&وقت جمہ&&وریت ک&&ا مقایس&&ہ کی&&ا‬
‫جائے تو ان دونوں نظریات میں کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔ کیونکہ دونوں‬
‫صورتوں میں جمہورک&&و ہی ح&&ق حاص&&ل ہے کہ وہ انتخ&&اب س&&ے جمہ&&ور کے‬
‫سربراہ کا انتخاب کریں۔سربراہ حکومت ک&و ح&اکم‪ ،‬خلیفہ ‪ ،‬ام&ام ی&ا ک&وئی اور‬
‫نام دینے سے کوئی خاص ف&رق نہیں پ&ڑے گ&ا کی&ونکہ جدی&د جمہ&وریت ہ&و ی&ا‬
‫خالفت جمہور ہو دونوں ص&&ورتوں میں اص&&ل ط&&اقت ک&&ا سرچش&&مہ جمہ&&ور بن‬
‫جاتی ہے کی&ونکہ انتخ&اب ک&ا ح&ق جمہ&ور ہی ک&و حاص&ل ہے۔جمہ&ور جس ک&ا‬
‫انتخاب کرے اس کی اہلیت کو پھر کوئی اور چلینج کرنے کاا ہل نہیں ہے۔ یوں‬
‫ہم کہہ سکتے ہیں کہ س&&ید م&&ودودی کے نظ&&ریہ خالفت جمہ&&ور اور ع&&ام رائج‬
‫جمہوریت کے مصادیق میں ک&&وئی خ&&اص ف&&رق نہیں ہے‪،‬ص&&رف اص&&طالحات‬
‫کی ہ&&ئیت مختل&&ف ہے۔ اگ&&ر خالفت جمہ&&ور ک&&و م&&دنظر رکھ ک&&ر کس&&ی بھی‬
‫حکومت کا اجراء کیا جائے تو اس میں اور رائج ال&&وقت جمہ&&وریت میں ک&&وئی‬
‫عملی ف&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&رق نظ&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&ر نہیں آئے گ&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&ا۔‬
‫عالمہ محمد اقبال نے بھی س&&ید م&&ودودی کی ط&&رح رائج العم&&ل جمہ&&وریت پ&&ر‬
‫شدید تنقید کی ہے۔ اس کی خامیوں کو شد و مد کے ساتھ اجاگر کی&&ا ہے۔ عالمہ‬
‫نے جس انداز میں جمہوریت پر تنقید کی ہے اس کی وجہ سے اکثر محققین یہ‬
‫سمجھتے کہ شاید عالمہ جمہ&&وریت کے س&&خت مخ&&الف تھے۔ درح&&االنکہ ایس&&ا‬
‫نہیں ہے ۔ عالمہ اس تنقیدی روش کے باوجود بھی جمہ&&وریت ک&&ا س&&رے س&&ے‬
‫نفی نہیں کرتے تھے۔ جس طرح سید مودودی نے جمہوریت کو اس&&المی اق&&دار‬
‫میں پرکھنے کی کوشش کی ہے اسی طرح عالمہ اقبال نے بھی اسالمی اق&&دار‬
‫سے خالی جمہوریت پر تنقید کی ہے۔ چونکہ اقبال اسالم کو ایک ع&&المگیر اور‬
‫آفاقی مذہب سمجھتے تھے ۔اس لئے ان کا نظ&&ریہ تھ&&ا کہ جمہ&وریت ک&&و م&&ذہب‬
‫اسالم سے الگ نہ کردیا جائے۔ ایسی جمہ&&وریت ج&&و الدینت پ&&ر مش&&تمل ہ&&و وہ‬
‫کبھی بھی رعایا کو ان کے حق&&وق نہیں دالس&&کتی ہے۔ اگ&&ر عالمہ س&&رے س&&ے‬
‫جمہوریت کے منکر ہوتے تو یقینًاوہ جمہوریت کے متبادل کوئی نظریہ دی&&تے‬
‫۔ انہوں نے اس کا کوئی متبادل نظریہ پیش نہیں کی&ا ہے۔ آپ نے اس&المی نظ&ام‬
‫حیات اور اس کی آف&&اقیت اور ع&&المگیریت ک&&و بی&&ان کی&&ا ہے۔ عالمہ نے پ&&وری‬
‫تاریخ کو حق و باطل کی رزم گ&&اہ کی ش&&کل میں دیکھ&&ا ہے کہ دنی&&ا میں اص&ًال‬
‫دوہی فکری نظام ہیں ایک یہ کہ انسان کا ای&&ک خ&&الق ہے اور انس&&انی معاش&&رہ‬
‫میں اس کا قانون چلنا چاہیے۔ وہی افکار و نظریات روبہ عمل ہوں جو اس نے‬
‫اپنے انبیاء کے ذریعے بنی نوع انسان کو عطا کئے ہیں۔ دوسرا نظام یہ ہے کہ‬
‫انسان اپنے لئے خود کچھ اصول اور ضابطے طے کرے اور جب اس کا جی‬
‫چاہے ان میں ردوبدل کرسکے۔موجودہ رائج العمل جمہوریت اسی ک&&ا مص&&داق‬

‫‪32‬‬ ‫خالفت جمہور‪ :‬عالمہ اقبال اور سید مودودی کے افکار کی‬
‫روشنی میں‬
‫]تحقیقی مجلہ[‬ ‫بیان الحکمہ‬

‫ہے یہی وجہ ہے کہ عالمہ بھی رائج العم&&ل جمہ&&وریت ک&&و مغ&&ربی جمہ&&وریت‬
‫سے ہی تعبیر کرتے ہیں۔‬
‫چہرہ روشن‪،‬‬ ‫تونے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام‬
‫ان&&&&&&&&&&&&&دورن چنگ&&&&&&&&&&&&&یز س&&&&&&&&&&&&&ے تاری&&&&&&&&&&&&&ک ت&&&&&&&&&&&&&ر (‪)11‬‬
‫عالمہ اقبال مغربی جمہوریت کی مخالفت کرتے ہیں تو اس کی ای&&ک اہم ت&&رین‬
‫وجہ یہی ہے کہ مغربی جمہ&وریت میں جمہ&ور (ع&وام الن&اس) مخت&ار ک&ل اور‬
‫مقتدر اعلٰی ہوتے ہیں۔ اسالمی نقطہ نظر سے ہللا کی زمین میں ہللا کا نظام ہونا‬
‫چاہے اس کا مقتدر اعلٰی جمہور نہیں بلکہ ذات خدا وندی خ&&ود ہے۔ کہ&&نے ک&&و‬
‫تو جمہوریت میں عوام کی اکثریت مقت&&در اعلٰی ہے لیکن فی الحقیقت ع&&وام کی‬
‫اکثریت بھی اس کی حقیقی مص&&داق نہیں ہے بلکہ ای&&ک مخص&&وص گ&&روہ ج&&و‬
‫عوامی رائے سے اقتدار میں آت&&ا ہے وہی گ&&روہ اپ&&نے ک&&و مقت&&در اعلٰی تص&&ور‬
‫کرتا ہے۔ یہ تصور جمہوریت قومی اور عوامی نمائن&&دوں کیل&&ئے خ&&دا‪ ،‬رس&&ول‬
‫اور آسمانی کتابوں یا اخالقی قدروں کی تابعداری کو ضروری نہیں ق&&رار نہیں‬
‫دیتا یعنی گوی&&ا ع&&وام خ&&دا ہ&&وتے ہیں اور نمائن&&دے ان کے رس&&ول کے ط&&ورپر‬
‫ایس&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&تادہ ہ&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&وتے ہیں۔‬
‫’’اقبال کے مطابق مغربی جمہوریت میں کہنے کو تو عوام کی حکومت ع&&وام‬
‫کیل&&ئے ہ&&وتی ہے لیکن فی الحقیقت ایس&&ا نہیں ہے بلکہ اس نظ&&ام میں سیاس&&ی‬
‫طاقت ایک مخصوص گروہ کے پاس ہوتی ہے۔ بظ&&اہر اقت&&دار اعلٰی ای&&ک آدمی‬
‫کے بجائے بہت سے آدمیوں کے ہاتھ میں ہوت&ا ہے لیکن حقیقت میں حکم&رانی‬
‫افراد کی ایک خاص جماعت کرتی ہے۔ اس حکمراں جماعت کے اش&&اروں پ&&ر‬
‫ملک اسی طرح جاچتا ہے جس طرح کس&&ی آم&&ر کے اش&&ارے پ&&ر۔ اف&&راد کی یہ‬
‫حکمراں جماعت رائے کی صالبت یا صداقت کی اتنی اہمیت نہیں دی&&تی جت&&نی‬
‫کہ آراء کی تع&&داد ک&&و اف&&راد کی اہلیت و ق&&ابلیت کالح&&اظ نہیں رکھ&&ا جات&&ا بلکہ‬
‫صرف یہ دیکھا جاتا کہ افراد کی اکثریت کس کی جانب ہے۔ اقب&ال کے لفظ&وں‬
‫میں۔ جمہوریت ایک طرز حکومت ہے کہ جس میں بن&&دوں ک&&و گن&&ا ک&&رتے ہیں‬
‫ت&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&وال نہیں ک&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&رتے۔ (‪)12‬‬
‫عالمہ اقب&&ال نہ ص&&رف مغ&&ربی جمہ&&وریت پ&&ر تنقی&&د ک&&رتے ہیں بلکہ دیگ&&ر‬
‫نظامہائے سیاست و حکومت پر بھی تنقید کرتے ہیں۔ کیونکہ اقبال کا خیال ہے‬
‫کہ دنیا میں جتنے بھی سیاسی نظ&&ام ہیں وہ س&&ب الدی&&نیت س&&ے خ&&الی نہیں ہیں۔‬
‫دین و مذہب سے مبرا کوئی بھی نظام انسانیت کو مساویانہ حق&&وق دالنے س&&ے‬
‫قاصر ہے۔ اقبال نے اپنی ش&&اعری کے ذریعے ان تم&&ام نظامہ&&ائے سیاس&&ت پ&&ر‬
‫تنقید کی ہے۔ دنیا میں یقین&ًامختلف نظامہ&ائے سیاس&ت ہیں‪ ،‬جن میں اش&تراکیت‪،‬‬
‫اشتمالیت‪ ،‬ملوکیت‪ ،‬بادشاہت‪ ،‬قیصریت وغیرہ ہیں۔ عالمہ اقبال نے ان سب ک&&و‬

‫‪33‬‬ ‫خالفت جمہور‪ :‬عالمہ اقبال اور سید مودودی کے افکار کی‬
‫روشنی میں‬
‫]تحقیقی مجلہ[‬ ‫بیان الحکمہ‬

‫حرف تنقید بنایا ہے۔ بنیادی طور پر اقب&&ال دنی&&ا کے جت&&نے بھی نظ&&ام زن&&دی ی&&ا‬
‫نظام سیاست ہیں ان کا مطلقًا مخالف نہیں ہے بلکہ وہ نظ&&ام زن&&دگی ج&&و اخالقی‬
‫اقدار سے خالی ہو‪ ،‬جس میں حکمراں اپنے کو مقتدر اعلٰی تصور کریں ‪ ،‬جس‬
‫میں مخصوص گروہ سیاہ و سفید کا مالک ہو‪ ،‬جس میں اس گ&&روہ ک&&ا محاس&&بہ‬
‫ممکن نہ ہو‪ ،‬جس میں یہ گروہ اپنے کو خادم کے بجائے حاکم س&&مجھتے ہ&&وں۔‬
‫الغرض اقبال ایسے تمام نظام سیاست کو جس کی بنیاد الدینیت پر مبنی ہ&&و اس‬
‫کو حرف تنقید بناتے ہیں۔اس سلسلے میں اپنی کت&&اب بان&&گ درا میں "س&&لطنت"‬
‫کے عنوان سے ایک پوری نظم تحریر کی ہے جس میں مغربی جمہوریت کی‬
‫خامیوں کی نشاندہی کی ہے۔ اقب&&ال نے دنی&&ا کے تقریب&ًا تم&&ام مقب&&ول و مش&&ہور‬
‫نظامہائے سیاست کی خامیوں کو اپنی ش&اعری میں اج&اگر کی&ا ہے ان س&ب ک&ا‬
‫احاطہ کرنا موضوع س&&ے مرب&&وط نہیں ہے ۔اقب&&ال ک&&ا وہ کالم جس میں آپ نے‬
‫اشتراکیت‪ ،‬اشتمالیت اور ملوکیت وغیرہ پر بہت دلچپ انداز میں تنقی&&د کی ہے۔‬
‫ان میں سے چند اشعار بطور تائید پیش کرتے ہیں۔‬
‫بگذر از الجانِب ااّل خرام‬ ‫کردِہ کار خدا ونداں تمام‬

‫تازہ ال اثبات گیری زندِہ‬ ‫در گذر از ال جوئندہ ٗ‬


‫اے کہ می خواہی نظام عالمی جستِہ ُاو را اساِس محکمی‬
‫یعنی آں پیغمبر بے جبرئیل‬ ‫صاحب سرمایہ از نسل خلیل‬
‫ُا‬
‫قلِب و مومن‪،‬‬ ‫زانکہ حق در باطل او مضمر است‬
‫دماغش کافر است‬
‫غریباں گم کردہ اندر افالک را در شکم جو نیدجان پاک را‬
‫رنگ و بو از تن نگیردجان پاک ُجز بہ تن کارے ندارد‬
‫اشتراک‬
‫بر مساواِت شکم دارد اساس‬ ‫دیِن آں پیغمبر حِق ناشناس‬
‫تا اخوت را مقام اندر دل است بیِخ او در دل ‪ ،‬نہ در آب و‬
‫ِگل است۔ (‪)13‬‬
‫اقب&&ال کے خی&&ال میں آج جمہ&&وریت میں بادش&&اہت ‪ ،‬مل&&وکیت‪ ،‬مطل&&ق‬
‫العنانیت آئی ہے تو اس کی اصل وجہ مذہب کو سیاست سے الگ کرنا ہے۔ آپ‬
‫کی موجودہ رائج الوقت جمہوریت یعنی مغربی جمہوریت پر تنقید کی ای&&ک ہی‬
‫وجہ نظ&&رآتی ہے کہ وہ جمہ&&وریت ہے جس میں ع&&وامی نمائن&&دے جمہ&&ورکے‬
‫سامنے جواب دہ ہیں۔ اس جمہوریت میں خالق کائنات کا کوئی عم&&ل دخ&&ل نہیں‬
‫ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ مغربی جمہوریت میں دین اور م&&ذہب‬

‫‪34‬‬ ‫خالفت جمہور‪ :‬عالمہ اقبال اور سید مودودی کے افکار کی‬
‫روشنی میں‬
‫]تحقیقی مجلہ[‬ ‫بیان الحکمہ‬

‫کا عمل دخل نہیں ہے۔ دین و دنیا کی یہ تقسیم بندی موجودہ مذہب عیسائیت ک&&ا‬
‫ایک خاص امتیاز ہے۔ اسی امتیاز کی بنیاد پر اہل مغرب سیاست ک&&و دین س&&ے‬
‫الگ رکھتے ہیں۔ یہ فکر اب صرف یورپ ی&&ا عیس&&ائیت ت&&ک مح&&دود نہیں رہی‬
‫بلکہ اکثر مذاہب کے ماننے والے اور تمام سیکولر فکر والوں ک&&ا متفقہ نظ&&ریہ‬
‫بن چکا ہے۔ عالمہ اقبال دین اسالم کو ایک آفاقی اور عالمگیر مذہب س&&مجھتے‬
‫ہے اس لئے دین کو دنیا سے الگ کرنے کے قائل نہیں ہیں اسی پس منظر میں‬
‫عالمہ موجودہ رائج الوقت جمہوریت کو مغربی جمہوریت سمجھتے ہیں‪ ،‬ن&&یز‬
‫دین و دنیا کی اس تقسیم کو بھی تسلیم نہیں کرتا ہے۔جدید سیاسی تصورات کے‬
‫مطابق تمام نظامہائے سیاست میں دینی اقدار کی مطلقًا نفی کی گئی ہے۔آج کی‬
‫دنیا میں ہر مملکت میں کوئی نہ ک&&وئی( لیکن ای&&ک دوس&&رے س&&ے مختل&&ف)‬
‫طرز حکومت ہے۔ اکثر ممالک میں جمہوری ط&&رز حک&&ومت رائج ہے۔ پہلے‬
‫بیان ہوچکا ہے کہ جمہوریت ک&&ا ع&&ام مفہ&&وم یہ ہے کہ حک&&ومت ع&&وام کی ہ&&و‪،‬‬
‫عوام ہی حکومت کریں اور عوام کی بہ&&تری ہی ان ک&&ا مقص&&ود ہ&&و۔ جس ط&&رح‬
‫ابراہیم لنکن نے جمہوریت کی تعریف کی ہے۔‬
‫‪"Democracy is a government "of the people, by the people,‬‬
‫)‪and for the people." (14‬‬
‫لیکن حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت ایک مبہم تصور ہے جس کی تش&&ریح‬
‫ہ&&&ر مملکت نے اپ&&&نے مف&&&ادات کے تحت کی ہے۔ اس ل&&&ئےعملی می&&&دان میں‬
‫جمہوریت کی کوئی واضح شکل موجود نہیں جس کی پابندی کرنا جمہور اور‬
‫حکمرانوں پر الزم ہو۔ جب جمہور یت کی مختل&&ف الن&&وع تش&&ریحات ابھ&&ر کے‬
‫س&&امنے آتی ہیں ت&&و اس کی خامی&&اں بھی زی&&ادہ بھی زی&&ادہ س&&ے زی&&ادہ واض&&ح‬
‫ہوجاتی ہیں۔ یقینًاجمہوریت ای&&ک ایس&&ا ط&&رز حک&&ومت ہے ج&&ودیگر طرزہ&&ائے‬
‫حک&&ومت کے مق&&ابلے میں بہ&&تر ہے لیکن اس کی خامی&&اں اس کی خوبی&&وں پ&&ر‬
‫غالب ہیں۔ جمہوریت شراب کی مانند ہے جس میں فوائد کم اور نقصانات زیادہ‬
‫ہیں۔ اسی بنیاد پر اقب&&ال مغ&&ربی جمہ&&وریت کی نفی ک&&رتے ہیں۔کی&&ونکہ مغ&&ربی‬
‫جمہوریت میں جب خواص ( حکمران) ص&&رف اپ&&نے ذاتی اغ&&راض و مقاص&&د‬
‫کو سامنے رکھتے ہیں اور ع&&وام کے حق&&وق ک&&و پس پش&&ت ڈال لی&&تے ہیں۔ یہی‬
‫مقاصد دراصل ملوکیت کے ہیں۔ اقبال پوچھتے ہیں کہ اگرجمہ&&وریت میں وہی‬
‫کارنامے سرانجام دینے ہیں جو ملوکیت دے رہی ہے تو جمہوریت کا کیا فائ&&دہ‬
‫ہے۔ ی&&ورپ میں ق&&ائم جمہ&&وریت درحقیقت مل&&وکیت کی ای&&ک ش&&کل ہے۔ ف&&رق‬
‫ص&&رف اتن&&ا ہے کہ پہلے ظلم و س&&تم ک&&ا ب&&ازار بادش&&اہوں اور آم&&روں نے ق&&ائم‬
‫کررکھا تھ&&ا اب اس کی سرپرس&&تی جمہ&&وری حکوم&&تیں ک&&رتی ہیں۔اس ح&&والے‬
‫سے عالمہ اقبال نے ارمغان حجاز میں ایک نظم ’’ابلیس کی مجلس شورٰی ‘‘‬

‫‪35‬‬ ‫خالفت جمہور‪ :‬عالمہ اقبال اور سید مودودی کے افکار کی‬
‫روشنی میں‬
‫]تحقیقی مجلہ[‬ ‫بیان الحکمہ‬

‫تحری&ر کی ہے۔ اس نظم میں دنی&ا کے تقریب&ًا تم&ام نظامہ&ائے حک&ومت بش&مول‬
‫جمہوریت ک&&ا مقایس&&ہ اس&&المی نظ&&ام حی&&ات س&&ے کی&&ا ہے۔ اس نظم ک&&و اس کے‬
‫سیاق و سباق سے سمجھا ج&&ائے ت&&و ہم&&ارا مقص&&ود کالم واض&&ح ہوجات&&ا ہے کہ‬
‫اقبال دنیا کے کسی بھی نظام کا نہ تو مطلقًا مخالف ہے اور نہ حمایتی۔ بلکہ ہر‬
‫وہ نظام جو الدینیت پر مشتمل ہو چاہے جمہوریت یا خالفت یا ک&&وئی اور نظ&&ام‬
‫سیاست و حکومت عالمہ اقبال اس نظام کا مخالف ہے۔شاید کس&&ی کے ذہن میں‬
‫یہ بات آجائے کہ اگر اقبال ہر طرح کے نظامہائے سیاست کو حرف تنقید بنات&&ا‬
‫ہے تو پھر وہ کونسا نظام ب&&اقی رہت&&ا ہے جس کی اقب&&ال تائی&&د اور انس&&انیت کے‬
‫لئے نجات دہندہ تص&&ور ک&&رتے ہیں۔ ہم کہہ چکے ہیں کہ اقب&&ال واش&&گاف الف&&اظ‬
‫میں "اسالمی نظام حیات" کو ایک ج&امع اور مکم&ل نظ&ام س&مجھتے ہیں ‪،‬جس‬
‫میں مکمل نظام سیاست مضمر ہے۔ یع&&نی اقب&&ال جس ج&&امع زن&&دگی کے ح&&امی‬
‫ہیں وہ اسالم ہے جو خود ایک ہمہ گیر اشتراکی اور جمہوری نظام ہے۔اس کی‬
‫جمہ&&وریت مغ&&ربی جمہ&&وریت س&&ے اور اس کی اش&&تراکیت چین اور روس کی‬
‫اشتراکیت سے زیادہ ہمہ گیر اور انسانیت کی ہمہ جہ&&تی اور ارتق&&اء میں زی&&ادہ‬
‫مددگار ہے۔‬
‫سوال یہ پیدا ہوت&&اہے کہ اقب&&ال جس جمہ&&وریت کے خواہش&&مند ہیں‪ ،‬اس‬
‫سے ان کی کیا مراد ہے۔ کیا وہ نظام ج&&و اس وقت بیش&&تر اس&&المی ملک&&وں میں‬
‫قائم ہے یا وہ نظام جو چودہ سوسال پہلے نبی پ&&اؐک نے م&&دینہ من&&ورہ میں ق&&ائم‬
‫کیا تھا۔‬
‫اقبال کے نزدیک روح اسالم میں بہترین جمہ&&وریت موج&&ود ہے ‪،‬س&&ب‬
‫سے پہلے اسالم نے ہی مشاورت کے ذریعے حکومت کے انتخاب کا ڈول ڈاال‬
‫ہے۔ اس&&الم نے یہی یہ نم&&ونہ دنی&&ا کے س&&امنے پیش کی&&ا کہ امیرالموم&&نین ک&&و‬
‫رعیت کا معمولی فرد‪ ،‬عدالت میں جواب دہی کیلئے حاضر کراسکتا ہے۔ س&&ب‬
‫سے پہلے قائم کی جانے والی رفاعی مملکت بھی اسالم ہی کا کارنامہ ہے۔اس‬
‫بناء پر اقبال کو نہ تو مغربی جمہوریت پسند ہے نہ اش&&تراکی جمہ&&وریت وہ ان‬
‫سب کو ناقص سمجھتے ہیں۔ اقبال کے نزدیک جمہوریت ص&&رف ای&&ک ہی ہے‬
‫وہ ہے اسالم۔ اسالم ایک ایسا جامع نظام ہے جس میں کوئی کمزوری نہیں ج&&و‬
‫مساوات حقوق کا علمبردار ہے اور دنیا کے تمام ادیان اور نظ&&اموں س&&ے ب&&ڑھ‬
‫کر جمہوری ہے۔‬
‫اقبال نے کوئی معین اور مشخص طرز حکومت کا خاکہ بیان نہیں کی&&ا‬
‫ہے جس کو سامنے رکھ&&تے ہ&&وئے جمہ&&وری ط&&رز حک&&ومت کی مخ&&الفت اور‬
‫نقائض کو بیان کیا جائے۔ البتہ ان کے نظریات سے یہ اخذ کی&&ا جاس&&کتا ہے کہ‬
‫اقبال بھی مودودی کی طرح (تھیوکریسی) خالفت جمہور کی طرزپر حک&ومت‬

‫‪36‬‬ ‫خالفت جمہور‪ :‬عالمہ اقبال اور سید مودودی کے افکار کی‬
‫روشنی میں‬
‫]تحقیقی مجلہ[‬ ‫بیان الحکمہ‬

‫کے نظریے کے قائل تھے۔ خالفت جمہور نہ کلی ط&&ور پ&&ر خالفت راش&&دہ کی‬
‫طرح خالفت ہے اور نہ ہی کلی ط&&ور پ&&ر دنی&&ا میں رائج جمہ&وریت کی ط&&رح‬
‫ہے بلکہ ان دونوں کے درمیانہ طرز حکومت ہے۔ ہم اس کو مثل خالفت کا نام‬
‫دے س&&کتے ہیں ۔ق&&رآن مجی&&د میں آی&&ات اس&&تخالف(الن&&ور‪ ،)۵۵‬آی&&ات تمکین فی‬
‫االرض‪(،‬الحج‪ ،)۴۱‬آیات حکم عدل و امانت‪(،‬النساء ‪ )۵۸‬اس بات کی وضاحت‬
‫کرتی ہے کہ دراصل خالفت خدا کی ایک نعمت ہے۔ج&&و موم&&نین ک&&و زمین پ&&ر‬
‫اقتدار‪ ،‬قوت اور حکومت کی صورت میں عطاء کی جاتی ہے جو تعلیم وتبلی&&غ‬
‫غلبہ دین اور قیام امن عالم کی ضمانت بن کر انسانیت کی فالح وسکون کیل&ئے‬
‫بہترین نظاِم زندگی فراہم کرتے ہیں۔‬
‫س&&ید م&&ودودی جس جمہ&&وری خالفت کی ب&&ات ک&&رتے ہیں اس س&&ے وہ‬
‫‪( Theo Democracy‬اٰل ہی یا مذہبی جمہوریت) مراد لی&&تے ہیں۔اس س&&وال کے‬
‫جواب میں سید مودودی لکھتے ہیں۔"میں اس طرز حکومت کو اٰل ہی جمہوریت‬
‫‪Theo Democratic State‬کے نام سے موسوم کروں گا۔ کیونکہ اس میں خ&&دا‬
‫کی ح&&اکمیت اور اس کے اقت&&دار اعلٰی کے تحت مس&&لمانوں ک&&و ای&&ک مح&&دود‬
‫حکومت عطاکی گ&&ئی ہے۔ اس میں ع&&املہ مس&&لمانوں کی رائے س&&ے ب&&نے گی۔‬
‫مس&&لمان ہی اس ک&&و مع&&زول ک&&رنے کے مخت&&ار ہ&&وں گے۔ س&&ارے انتظ&&امی‬
‫معامالت اور تمام وہ مسائل جن کے متعل&&ق خ&&دا کی ش&&ریعت میں ص&&ریح حکم‬
‫موجود نہیں ہے۔ مسلمانوں کے اجم&اع ہی س&ے طے ہ&وں گے اور اٰل ہی ق&&انون‬
‫جہ&&اں تعب&&یر طلب ہوگ&&ا وہ&&اں ک&&وئی مخص&&وص طبقہ ی&&ا نس&&ل نہیں بلکہ ع&&ام‬
‫مسلمانوں میں سے ہر وہ شخص اس کی تعبیر کا مستحق ہوگا جس نے اجتہ&&اد‬
‫کی ق&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&ابلیت بہم پہنچ&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&ائی ہ&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&&و۔" (‪)15‬‬
‫بہرحال سید مودودی ایسی اس&&المی جمہ&&وری حک&&ومت کے قائ&&ل ہیں جس میں‬
‫َو ْذ َل َر‬
‫ٌل‬ ‫ہللا عطاء اَلکردہ ہو‬
‫ْر‬
‫۔کیونکہ یہی قرآنی حکم ہے۔‬ ‫اختیار منجانب‬
‫" ِإ َقا ُّبَك ِلْلَم ِئَك ِة ِإِّني َجاِع ِفي اَأْل ِض َخِليَفًة۔ (‪ )16‬اور جب کہ‬
‫تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا میں زمین میں ای&ک خلیفہ بن&انے واال ہ&و" (‬
‫‪ )17‬اس آیت کے ذیل میں آپ لکھتے ہیں۔"خلیفہ اس شخص کو کہتے ہیں جو‬
‫کوئی بھی ملک میں اس کے تفویض کردہ اختی&&ارات اس کے ن&&ائب کی حی&&ثیت‬
‫سے استعمال کرے۔ وہ مالک نہیں ہوت&&ا بلکہ مال&&ک ک&&ا ن&&ائب ہوت&&ا ہے اس کے‬
‫اختیارات ذاتی نہیں ہوتے بلکہ مالک کے عطا کردہ ہوتے ہیں وہ اپ&&نے منش&&اء‬
‫کے مطابق کام کرنے کا حق نہیں رکھتا بلکہ اس کا کام مال&&ک کے منش&&اء ک&&و‬
‫پورا کرنا ہوتا ہے۔ اگر وہ خود اپ&&نے آپ ک&&و مال&&ک س&&مجھ بیٹھے اور تف&ویض‬
‫کردہ اختیارات کو من مانے طریقے سے استعمال کرنے لگے ی&&ا اص&&ل مال&&ک‬
‫کے سوا کسی اور کو مال&ک تس&لیم ک&رکے اس کے منش&اء کی پ&یروی اور اس‬

‫‪37‬‬ ‫خالفت جمہور‪ :‬عالمہ اقبال اور سید مودودی کے افکار کی‬
‫روشنی میں‬
‫]تحقیقی مجلہ[‬ ‫بیان الحکمہ‬

‫کے احکام کی تعمیل کرنے لگے تو یہ سب غداری اور بغاوت کے افعال ہ&&وں‬
‫گے۔" (‪)18‬‬
‫بہرحال بیسویں ص&&دی کے مفک&&رین ک&&و دو چیلنج&&ز درپیش تھے ای&&ک‬
‫مغربی تہذیب کے الحادی نظری&&ات اور دوس&&را س&&یکولر جمہ&&وریت کی یلغ&&ار‪،‬‬
‫مغربی استعمار نے نظریہ قومیت کا محکوم قوموں کو مزی&د انتش&ار ک&ا ش&کار‬
‫کرنے کے لئے استعمال کی&&ا‪ ،‬عثم&&انی خالفت ک&&ا خ&&اتمہ‪ ،‬آریہ س&&ماج‪ ،‬عیس&&ائی‬
‫مشنری نے مسلمانوں میں بدترین قسم کی فرقہ بن&&دی اور فقہی وکالمی مس&&ائل‬
‫پر دائرہ اسالم سے اخراج کے ل&&ئے من&&اظروں کی حوص&&لہ اف&&زائی کی اور ان‬
‫شخصیات کو تحفظ فراہم کیا۔ وسط ایشیاء پر روس کا قبضہ‪ ،‬مشرق وسطٰی پر‬
‫استعماری قوتوں کی باالدستی ‪ ،‬افریقہ میں عیسائیت ک&&ا ف&&روغ‪ ،‬ہندوس&&تان میں‬
‫مسلمانوں کو سیکولر بناکرہن&دی ق&&ومیت میں ض&&م ک&رنے کی تحری&ک وہ تم&ام‬
‫عوام&&ل تھے جن کی وجہ س&&ے اس&&الم ک&&ا نش&&اط ث&&انیہ الزم ہوگی&&ا تھ&&ا۔ ع&&المی‬
‫درپیش افکار اور نظریات ک&&ا مق&&ابلہ ک&&رنے کےل&&ئے اس&&الم کے ع&&المگیر اور‬
‫آفاقی اصولوں کواجاگر کرکے اس کے عملی پہلؤوں کو از سر نوع تازہ کرن&&ا‬
‫الزمی تھا۔‬
‫حاصل کالم‬
‫سید مودودی اور عالمہ اقب&&ال نے موج&&ودہ رائج العم&&ل جمہ&&وریت پ&&ر‬
‫شدید تنقید کی ہے ۔جس سے اکثر محققین اور مفکرین نے یہ س&مجھ لی&ا ہے کہ‬
‫ش&&اہد یہ دون&&وں شخص&&یات جمہ&&وریت کی مخ&&الف اور متض&&اد نظری&&ات کے‬
‫حامل ہیں۔ تحقیق ہذا سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دونوں شخصیات جمہوریت‬
‫کی کلی طور پر مخالف نہیں ہیں ۔ بلکہ جمہوریت کو اسالم کے آفاقی اصول و‬
‫ضوابط کے ماتحت قیام میں النا الزمی سمجھتے ہیں۔ اگر جمہوریت کو اسالم‬
‫کے آفاقی اصولوں کے ماتحت نہ رکھا گیا ت&و پھ&ر یہی جمہ&وریت اش&تراکیت‪،‬‬
‫ملوکیت‪ ،‬بادشاہت س&&ے بھی ب&&دتر ہوج&&اتی ہے ن&&یز ہ&&ر ط&&رح کی اخالقی اق&&دار‬
‫سے مبرا ہوجاتی ہے ۔ عالمہ اقبال نے اردو ش&&اعری کے ذریعے ق&&ومیت کے‬
‫دھاروں کو اسالمیت کے رنگ سے آشنا کیا ۔ اس&&المیت کے جس دروازے ک&&و‬
‫عالمہ اقبال نے کھوال‪ ،‬سید مودودی نے اس میں داخل ہوکر ملت کے اس&&المی‬
‫تہذیب وثقافت کا ایک ایوان تعمیر ک&&رنے کی کوش&&ش کی اور یہ تص&&ور ای&&وان‬
‫ہر ط&رح کے تعص&&بات س&ے ب&االتر اور ع&المگیر اور آف&&اقی ہے۔جس ک&و س&ید‬
‫مودودی کے زبانی "خالفت جمہور" کا نام دیا گیا ہے۔‬
‫حوالہ جات‬

‫(‪ )1‬لوئس معلوف‪،‬المنجد‪ ،‬ص ‪ ،۹۹‬للمطبعۃ الکاثولیکّیۃ ‪ ،‬بیروت‪۱۹۵۲ ،‬‬

‫‪38‬‬ ‫خالفت جمہور‪ :‬عالمہ اقبال اور سید مودودی کے افکار کی‬
‫روشنی میں‬
‫]تحقیقی مجلہ[‬ ‫بیان الحکمہ‬

‫(‪ )2‬کرن آرمس&&ٹرانگ‪ ،‬مس‪66‬لمانوں ک‪66‬ا سیاس‪66‬ی ع‪66‬روج و زوال‪ ،‬م&&ترجم محم&&د احس&&ن بٹ‬
‫(الہور‪ :‬نگارشات ‪ ،‬پبلشرز‪ ،‬مزنگ روڈ‪ )2005:‬ص ‪،۱۷۶‬‬
‫(‪ )3‬رئیس&&ی‪،‬ڈاک&&ٹر س&&جاد علی‪ ،‬س‪66‬ہ م‪66‬اہی علمی و تحقیقی مجّل ہ ن‪66‬وِر مع‪66‬رفت‪ ،‬اس&&المی‬
‫ریاست کاتصور اور ضرورت (اسالم آب&&اد‪ :‬ن&&ور الہ&&دٰی مرک&&ز تحقیق&&ات‪ ،‬ج&&والئی ت&&ا‬
‫ستمبر ‪)2015‬‬
‫(‪ )4‬سیدابواالعلٰی مودودی‪ ،‬اسالمی ریاست (الہور‪ :‬اسالمک پبلیکیشنز ‪۱۹۹۰ ،‬ء)ص‬
‫‪131‬‬
‫(‪ )5‬مودودی‪ ،‬اسالمی ریاست ‪،‬ص‪۵۴۲‬۔‪۵۴۱‬‬
‫(‪ )6‬سیدابواالعلٰی مودودی‪ ،‬خالفت و ملوکیت (الہور‪ :‬اسالمک پبلیکیشنز ‪۱۹۷۰ ،‬ء)‬
‫ص‪۲۸۹‬‬
‫(‪http://www.dictionary.com/browse/republic )7‬‬
‫(‪ )8‬سیدابواالعلٰی مودودی‪ ،‬اسالمی نظام اور مغربی الدینی جمہوریت (الہور‪:‬اسالمک‬
‫پبلیکیشنز ‪۱۹۷۰ ،‬ء) ص‪۳۴‬‬
‫(‪ )9‬مودودی‪ ،‬اسالمی ریاست ‪،‬ص‪۱۲۸‬۔‪۱۲۹‬‬
‫(‪ )10‬مودودی‪ ،‬اسالمی ریاست ‪،‬ص‪۱۳۰‬۔ ‪۱۳۱‬‬
‫(‪ )11‬عالمہ محمد اقبال‪ ،‬ارمغان حجاز‪( ،‬الہور‪ :‬اقبال اکیڈمی‪۱۹۳۶،‬ء) ابلیس کی مجلس‬
‫شورٰی‬
‫(‪ )12‬فتحپوری‪ ،‬اقبال س‪66‬ب کیل‪66‬ئے‪( ،‬کراچی‪:‬ش&&عبہ تص&&نیف و ت&&الیف و ت&&رجمہ ک&&راچی‬
‫یونیورسٹی‪ ،‬طبع ثانی ‪۱۹۹۹‬ء) ص ‪۱۲۹‬‬
‫(‪ )13‬فتحپوری‪ ،‬اقبال سب کیلئے‪ ،‬ص‪۱۳۴‬‬
‫(‪https://www.quora.com/What-was-Abraham-Lincolns-definition-of-democracy )14‬‬
‫(‪ )15‬سید ابواالعلٰی مودودی‪ ،‬رسائل و مسائل‪( ،‬الہور‪ :‬اسالمک پبلی کیشنز‪۱۹۸۰ ،‬ء)‬
‫جلد اول‪ ،۱‬ص ‪۳۶۲‬‬
‫(‪ )16‬القرآن‪2/30 :‬‬
‫(‪ )17‬سیدابواالعلٰی مودودی‪ ،‬تفہیم القرآن (الہور‪ :‬اسالمک پبلیکیشنز ) جلد ‪ ،1‬سورۃ‬
‫البقرۃ کی آیت نمبر‪۳۰‬‬
‫(‪ )18‬سیدابواالعلٰی مودودی‪ ،‬تفہیم القرآن‪( ،‬الہور‪ :‬ادارہ ترجمان القرآن ‪۱۹۷۰،‬ء) جل&&د‬
‫اول ‪،‬ص‪۶۲‬‬

‫‪39‬‬ ‫خالفت جمہور‪ :‬عالمہ اقبال اور سید مودودی کے افکار کی‬
‫روشنی میں‬

You might also like