Professional Documents
Culture Documents
Assign 2 اسلامی نظریۂ امن
Assign 2 اسلامی نظریۂ امن
Assign 2 اسلامی نظریۂ امن
1
ف ن خ ف ن ت
ل ہ
ج ب ہللا عالٰی ے ا ل ای مان اور صا حی ن كو زمی ن می ں ال ت ع طا کرے كا وعدہ رمای ا ،اس
ے: اد كے سات ھ امن كا ب ھی وعدہ ف رما ا ،ہللا ت عالی كا ارش
ہ ی
َو َع َد الَّلُه اَّلِذ يَن آَم ُن وا ِمنُك ْم َو َع ِم ُلوا الَّصاِلَح اِت َلَيْس َتْخ ِلَف َّنُه م ِفي اَأْلْرِض َكَم ا اْس َتْخ َلَف
اَّلِذ يَن ِم ن َق ْب ِلِه ْم َو َلُيَم ِّكَنَّن َلُه ْم ِد يَن ُهُم اَّلِذ ي اْر َتَضى َلُه ْم َو َلُيَبِّد َلَّنُه م ِّم ن َبْع ِد َخ ْو ِفِه ْم
3
َأْم ًن ا َيْع ُبُد وَنِني اَل ُيْش ِرُكوَن ِبي َش ْي ًئ ا َوَم ن َك َف َر َبْعَد َذِلَك َفُأْو َلِئَك ُه ُم اْلَف اِسُق وَن
جو لوگ تم میں سے ایمان الئے اور نیک کام کرتے رہے ان سے ہللا ک ا وع دہ ہے کہ
ان کو ملک کا حاکم بنادے گا جیسا ان سے پہلے لوگوں ک و ح اکم بنای ا تھ ا اور ان کے دین
کو جسے اس نے ان کے لئے پسند کیا ہے مستحکم وپائیدار کرے گا اور خوف کے بع د ان
کو امن بخشے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں
گے۔ اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے لوگ بدکردار ہیں ۔
اس آیت پر غور كرنے سے معلوم ہوتا ہے كہ ہللا تعالی كا وعدۂ امن وعدۂ استخالف
كے ساتھ جڑا ہوا ہے اور زمیں كا خلیفہ بننے كا اہل اپنے آپ كو ثابت كرنا ،مس لمانوں كی
ذمہ داری ہے۔ اسی سے ہمیں یہ بات یاد ركھنی چ اہیے كہ اقت دار كے طلبگ ار ج و ہم ارے
اندر موجود ہیں ان كی كامیابی كا معیار ہللا تعالی نے ایم ان اور تق وی س كھایا ہے ،اس كے
بغیر یہ لوگ نہ اقتدار حاصل كر سكتے ہیں اور نہ ہی امن۔
عم ئ ت ن ن ت
ے وے احکام پر ل ک ی ا، ہ س م ج
نون ے ہللا عال کے دی ے کہ ن لما ات یرق خ اس ب ات پر خگواہ ہ
ف ت ٰی ہ ئ ن ت
ے وعدہ کو پورات رمای ا ۔سی رة ے وے اپ ای مان اور وی كی روش ا ت ی ار كی،نہللا عالٰی ے ان كے سا ھ كی
ت ق س ص
ے۔ کی ی
ج ہ ا و ہ لومع م ك حد ی ك ن الن ب شی لی ئہللا علی ہ و ئلم كا م طالعہ كرے سے ہ می ں ی ہ ب ات عی ن الی ی
شن ی: و ی ہ پ ی ی ن گو ی پوری ہ
ت ت ن ف ن
ب ی كری م صلی ہللا علی ہ وسلم ے رمای ا:ہللا عالٰی مہاری ای سی مدد کرے گا کہ ای ک ہ ودج ی ئن
ت تن ف
عورت مدی ن ہ سے حی رہ ت ک ی ا اس سے ب ھی طوی ل ن ہا س ر کرے گی اور اس کو چ وروں ی ا ڈاکوؤں کا کو ی خ ن
نف ن ن ہ
طرہ ہی ں وگا۔
ن نت ت ت
ے س نِ ا نسا ی اور عزت ن ن ی ہ سب اسالم ہق ی کی علی مات کا ی ج ہ ھا كہ اسالم ے نسب سے پہل
ض ش ق
ا سا ی اورامالک کی درو ی مت و حرمت کو انہ ل ای مان كے ذہ ن ی ن کرائی ا۔ سارے ا سا وں کوح رت
عال
ت
اری ا آدم ی نی ا ک ماں اپ کی اوالد ت ا ااور ا ہ ں ا ك دوسرے كے ھا ی ق رارد ا۔ ارش
ٰی ب ِد ی ب ی ی ب ی ب ع ی
سورة النور55 : 3
2
ے:
ہ
َیا َأُّیَہ ا الَّناُس اَّتُق وْا َرَّبُک ُم اَّلِذ ْی َخ َلَقُکم ِّم ن َّنْف ٍس َو اِح َد ٍۃ َوَخ َلَق ِم ْنَہ ا َزْوَجَہ ا َوَبَّث ِم ْن ُہ َم ا
ِرَج اًال َک ِثْی رًا َو ِنَس اًء ۔
ن ت
4
ج ن
ے اس رب سے ڈرو جس ے م کو ای ک ج ان سے پ ی دا ک ی ا اور اسی سے اس کا وڑا ’’اے لوگو!اپ
ن
ے۔‘‘ د ال ھ پ ں م ا ند عورت و مرد سے ہت ب سے وں ب ن ای ااور ان دو
ی یق ف ی ی س ن خ
رسول ہللا صلی ہللا علی ہ و لم ے طب ۂ جح ۃ الوداع کے مو ع پر رمای ا:
فان دماء کم وأموالکم وأعراضکم علیکم حرام کحرمۃ یومکم ھذا فی بلدکم ھذا ،فی
شھرکم ھذا،فاعادھا مرارًا۔(5متفق عليه)
ق ت ت
ت خ ت ت ش
’’ب ی ک مہارے ون ،مہارے اموال اور مہاری عز ی ں مہارے آپس می ںناسی طرح اب ل
ن ش ت ت ت
ے مہارا ی ہ دن مہارے اس ہر می ں اس مہی ن ہ کے ا در ،پ ھر آپ ے اسے ب ار ب ار اح رام ہ ی ں،ج ی س
دہ رای ا۔‘‘
سئ
ے جس طرح آج سے ساڑھے چ ودہ ے تسے دوچ ار ہ دور می ں ب ھی دن ی ا اسی طرح امن و امان کے م ل
ئ ت
ے کا سماج امن اور سالم ی کے مس ل
ے سے دوچ ار ھا۔ سو سال پہل
قرآن مجید میں ارشاد ہے :
َمْن َق َتَل َنْف ًس ا ِبَغ ْی ِر َنْف ٍس َٔاْو َف َس اٍد ِفْی أَاْلْرِض َفَکَٔاَّنَم ا َق َتَل الَّناَس َج ِم ْی ًعا َوَمْن َٔاْح َیاَھ ا
6
َفَکَٔاَّنَم ا َٔاْح َیا الَّناَس َج ِم ْی ًعا۔
جس نے کس ی انس ان ک و خ ون کے ب دلے ی ا زمین میں فس اد پھیالنے کے س وا
(ناحق)قتل کیا ،اس نے گویا پوری انسانیت ک و قت ل کی ا اور جس نے کس ی ای ک انس ان کی
جان بچائی ،اس نے گویا پوری انسانیت کی جان بچائی۔
اس وقت ضرورت اس امر كی ہے كہ مسلمانوں میں یہ احساس پیدا كیا ج ائے كہ ان
كی سب سے اہم ذمہ داری یہ ہے كہ وہ اپنے اندر وہ اوص اف پی دا ك ریں ج وہللا تع الی نے
استخالف كی شرط كے طور پر بیان كیے ہیں یعنی ایمان اور تق وی۔ جب ہم دین ودنی ا كے
تمام معامالت میں ہللا كے احكام پر چلنے والے بن ج ائیں گے ت و نہ ص رف ہم ارے خ وف
دور ہو جائیں گے بلكہ امن كی ایسی فضا قائم ہوجائے گی جو ایك لمبے عرصے میں مس لم
3
معاشرے كا شعار رہا ہے۔
حكمرانوں كی ذمہ داری ہے كہ وہ نظام حكومت میں عدل وانص اف ك و ق ائم ك ریں۔
انہیں حض رت اب و بك ر رض ی ہللا عنہ كے خلیفہ بن نے كے بع د كے پہلے خط بے س ے
رہنمائی لینی چأہیے جس میں انہوں نے بیان كیا تھاكہ :
’’امابعد! اے لوگو! مجھے تمہارا حاکم مقرر کیا گی ا ہے ح االنکہ میں
تم سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر تم مجھے حق پ ر پ اؤ گے ت و م یرے س اتھ تع اون
کرن ا اور اگ ر مجھے باط ل پ اؤ ت و م یری اص الح کرن ا۔ جب ت ک میں ہللا
عزوجل کی اطاعت کرتا رہوں گا تو م یری اط اعت ک رتے رہن ا اور جس دن
میں ہللا کے حکم کی نافرمانی کروں گا تم پر م یری اط اعت واجب نہیں رہے
گی۔ یاد رکھو! میرے نزدیک تم میں قوی شخص ضعیف ہے جب تک کہ میں
اس سے حق وصول نہ ک ر ل وں اور ض عیف ش خص اس وقت ت ک ق وی ہے
جب تک میں اسے اس کا حق نہ دال دوں۔ میں ہللا سے سب کے ل یے مغف رت
کی دعا کرتا ہوں۔‘‘
یہ ہے وہ معیار جس پر قائم ہونے سے امن قائم كرنے اور امن میں ہ ونے كی م نزل
ن ق
كو حاصل كیا جا سكتا ہے۔ اس و ت دن ی ا ب ھر می ں ب عض كالی ب ھی ڑوں كی وج ہ سے مسلما وں كا اپ ا ا ی ج
م ن
ن ن ق ب ن ن ن خ
عا ب ت اا دیش عض ے۔ ار در ت ادہ ز ی ہ ہت ب ں م ے وار س و اس ہ ے ا و ہ راب
ت تغ ن ہ ك
ئ
م
یت ح ی ت ك
ن
ك ہ
ی ت گ ایسا ق
ہن
ےہی ں یان كو ای سی خ ری ب ی كارروا ی اں كرے كی ر ی ب د
ت ھارےئ ہ ی ں تاوروم كے ج ذب ا ی ع صر كو اب فن ن ما ر
ث ش ض م ن
رے پر ا ر ے سكہ معا ق ے دور رس م ی تن ا ج پر ن ج ہ و ی ہ ی ں۔ رورت اس امر كی ہ ج نو مسلما وں كے لی
ن ن ف
ے می ں اپ ی ذمہ داری كو جم ھی ں اور وم كی ے والے ب ڑے اہ ل علم ودا ش اور علما اس معامل ر وذ و
ھ ٹ ئ
ك
اصالح كا بیڑا ا ھا ی ں۔
4