Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 9

‫افسانہ‬

‫تالش از رضیہ بٹ‬


‫تعارف‬
‫افسانہ تالش رضیہ بٹ کے مذکورہ مجموعہ(آدھی کہانی) میں شامل افسانہ ہے ۔ جس میں انہوں نے ایک مشرقی مرد کا مغرب اور‬
‫مشرق کی عورت کے بارے میں ایک مختصر سا نفسیاتی جائزہ پیش کیا ہے۔ جس نیں افسانہ کے مرکزی کردار "جعفر " کے‬
‫مطابق باہر کی عورت کبھی گھر بنا ہی نہیں سکتی ۔ اس نے مغربی ملک میں رہ کر ایسے بہت سے رشتوں کو جوڑتے اور‬
‫بکھرتے دیکھا۔ بہت سی لڑکیوں نے اسے شادی کی درخواست بھی کی لیکن جعفر تھا کہ مسترد کرتا رہا ۔ کیوں کہ وہ ایک ایسی‬
‫عورت کو اپنی زندگی میں النا چاہتا تھا جو ایک با حیاء اور وفا شعار ہو ۔ مغربی فضا میں اسے یہ مٹھاس محسوس نہیں ہوئی تو‬
‫اس نے اپنے وطن کا رخ کیا ۔ یہاں پر اس کی سوچ کے مطابق ایک مشرقی لڑکی سے اس کا واسطہ ہوا جس سے جعفر بے حد‬
‫متاثر ہوا ۔ اس سے شادی کی درخواست کی جس کا انجام اسے پشیمانی میں اٹھانا پڑا‪ ،‬اور وہ اس لئے کیوں کہ جعفر جس مغربی‬
‫تہذیب کی جدید تہذیب میں ڈوبی مغربی لڑکی سے جس بناءپر پر انکار کر چکا تھا "نیرا " ان سے دو قدم آگے نکل گئی تھی۔‬
‫عورت کی سیرت کا تعلق اس کے سرزمین سے نہیں بلکہ ان کے باطن سے دیکھا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ مغربی اقوام کے‬
‫خواتین سب آزاد خیال اور بے حس ہے ۔ اور مشرقی خواتین سب باکردار اور حساس ہے ۔ جس طرح مغربی اقوام میں کچھ خواتین‬
‫بے حسی کا جامہ پہن کر اپنے کردار پر کیچڑ اچھالتی ہے ٹھیک اسی طرح مشرق میں بھی۔ ایک عورت کے باکردار ہونے کا تعلق‬
‫کسی گروہ ‪ ،‬جماعت یا مملکت سے نہیں ہوتا بلکہ اسکے اندر چھپے انسان سے ہوتا ہے اس کی فطرت سے ہوتا ہے ۔ کہ وہ کتنی‬
‫اور کس قدر باوفا عورت ہیں‬

‫میں کچھ نہیں سن سکا۔ اعظم کیا کہہ رہا تھا ۔ کیا نہیں کہہ رہا تھا ۔ میرا تو دماغ اور وجود چکرائے جا رہا تھا۔ عورت کا امیج اور "‬
‫تصور جو برسوں سے میرے ذہن میں تھا۔ چور چور ہوگیا تھا۔ کرچی کرچی ہوگیا تھا۔ ریزہ ریزہ ہوگیا تھا۔‬
‫اور یہ چور چور ریزہ ریزہ ‪ ،‬کرچی کرچی مجھے اندر ہی اندر لہولہان کر گیا تھا۔‬
‫کیوں کہ ۔ کیوں کہ‬
‫وہ خوبصورت بال ۔۔۔۔۔ حسین ناگن‬

‫‪".‬نسیم کی مطلقہ بیوی ۔۔۔ نیرا تھی‬

‫اسی موضوع کو مصنفہ نے بروئے کار الکر مزکورہ افسانہ قلم بند کیا ہے۔‬

‫_‪:‬مغربی خواتین کے بارے میں ہماری منفی نظریات‬

‫تانیثیت کے حوالہ سے افسانہ "تالش " میں مصنفہ نے مغرب کے متعلق مشرقی منفی نفسیات کو سامنے رکھ پیش کیا ہے۔ اور یہ‬
‫بتانے کی کوشش کی ہے کہ ہم کس قدر کم ظرف اور تنگ ذہن لوگ ہیں ۔جو مغربی اقوام کی خواتین کو صرف دوستیوں کے لئے‬
‫رکھ کر ان کے ساتھ وقت گزاری تو کرلیتے ہیں ۔لیکن ان کے ساتھ شادی کا رشتہ اس سوچ کو لیکر نہیں بناتے کہ مغربی خواتین‬
‫کبھی بستی نہیں ہیں ۔ مغربی خواتین چھوٹی سی چھوٹی بات کو لیکر طالق لینے تک پر اتر آتی ہے۔جبکہ یہ ہماری اپنی ہی کم فہمی‬
‫ہے کہ مشرقی خواتین کو مغربی خواتین پر فوقیت دیتے ہیں۔ اور کہتے ہے کہ مشرقی خواتین اپنے خاوند کے نام پر ساری عمر‬
‫بیٹھ کر انتظار کرتی ہے اور انتظار کرتے کرتے آخرت کے سفر پر روانہ ہوجاتی ہیں لیکن کبھی ساتھ چھوڑ کر بے وفائی نہیں‬
‫کرتی۔ اور مغربی خواتین ساتھ چھوڑنے اور بے وفائی کرنے میں دیر نہیں لگاتی۔ آدمی کو بھیج راہ میں ہی چھوڑ جاتی ہے۔ یہ‬
‫ہماری اپنی زہنی کمزوری ہے۔ کیوں کہ اچھے برے لوگ ہر معاشرت کا حصہ ہوتے ہیں ۔ ضروری تو نہیں کہ ہر مغربی عورت‬
‫بے وفا ہو اور ہر مشرقی عورت باکردار اور وفا شعار ہو۔ افسانہ میں مغربی مشرقی خواتین کا موازنہ مصنفہ نے نے بڑی خوش‬
‫اسلوبی کے ساتھ پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ مشرق میں بھی با وفا عورتیں ہوسکتی ہے اور مشرق میں بے وفا۔ جس کی خاطر ہم‬
‫نے اپنی زہنیت بنائی ہوئی ہے کہ مشرقی خواتین گھر گھرستی کے لئے اپنی جوانی تباہ کر لیتی ہیں۔‬

‫"اوہ ۔۔۔۔ کتنی سفاک ہے وہ عورت۔ ایسی عورت تو میں نے وہاں بھی نہیں دیکھی تھی۔‬
‫درجہ باال اقتباس میں مصنفہ کا اشارہ نیرا کی طرف ہے جو اپنے معذور خاوند کی معذوری کو دیکھ اس سے طالق لے کر دو‬
‫بچوں بچوں کو بھی معذور خاوند کے پاس چھوڑ گئی۔ یہاں پر کردار نیرا مشرقی خواتین کی نمائندگی کر رہا ہے۔جو اس بات کا‬
‫احساس دال رہا کی مغربیت‪ ،‬مشرقیت سے کچھ نہیں سب کچھ انسان کی ذات سے وابستہ باتیں ہیں ۔ مغربی تہذیب میں پلی بڑی لڑکی‬
‫وفا شعار کا پیکر ہوسکتی ہے اور چار دیواری میں رہ کر ایک مشرقی عورت مغربیت سے دو گام آگے ہوسکتی ہیں۔ یہ سب انسان‬
‫کی فطرت میں شامل فطری باتیں ہیں جس کے مطابق ہر مرد و زن معاشرے میں اپنا ایک کردار ادا کرتی ہیں ۔‬

‫_‪:‬طالق یافتہ خواتین کا نکتہ‬

‫افسانہ میں مصنفہ نے طالقی یافتہ خواتین کا دکھ بھی پیش کیا ہے۔ جس کو معاشرے کا مرد اپنی مردانگی کو تسکین پہنچانے کی‬
‫خاطر مار پیٹ کر تین الفاظ بول کر چلتا کرتا ہے۔ معاشرے میں وہ اپنی کردار کی صفائیاں پیش پیش کر کے تھک جاتی ہے لیکن‬
‫کوئی اس کا اعتبار تک نہیں کرتا ۔ تانیثیت کی تحریک کا ایک نعرہ یہ بھی تھا کہ طالق یافتہ خواتین کو پھر سے بساو اس جا بھی‬
‫معاشرے پر اتن ہی حق ہے جتنا دوسرے خواتین کا ۔‬

‫اگر تمہیں اعتراض نہیں ۔"‬

‫کس بات کا اعتراض۔۔۔‬


‫نیرا کو طالق ہوچکی ہے۔ ایک لمحہ کو تو میری آنکھوں میں اندھیرا سا چھا گیا ۔ لیکن دوسرے لمحہ سینہ آپا کا چہرا میری آنکھوں‬
‫"‪.‬میں گھوم گیا۔ جو ہمیشہ ہی اس احساس کو تقویت دیتا تھا کہ ہمارے ملک میں مطلقہ عورت ہمیشہ ہی مظلوم ہوتی ہے‬

‫‪:-‬عورت کی ذات وفا کا پیکر‬

‫افسانہ میں تانیثیت کی پہلوؤں میں ایک پہلو عورت کی ذات وفا کی پیکر کا بھی ہے۔ جس میں انہوں نے عورت کو مرد کے ہاتھوں‬
‫بے عزت ہوتے ہوئے بھی عورت کو مرد کے ساتھ وفادار ٹھرایا ہے۔ اور یہ بتایا ہے کہ عورت کی مٹی میں ہی وفا شامل ہیں ۔ وہ‬
‫کبھی بے وفائی کر ہی نہیں سکتی۔ جس طرح زیر بحث افسانہ میں جب جعفر اعظم کی زبانی نسیم کی معذوری کا اور اس معذوری‬
‫کے سبب اس کی بیوی کے طالق کا سنتا ہے تو اسے چارلس کی بیوی یاد آجاتی ہے۔ نسیم اور اس کی بیوی میں پھر بھی محبت کا‬
‫رشتہ تو تھا ہی لیکن چارلس کی بیوی لز کا ایک دوسرے کے ساتھ نہیں بنتی تھی پھر بھی اس نے اپنے بیمار شوہر کی تیمارداری‬
‫کی ذمہ داری اٹھا کر اس کی دیکھ بھال سنبالی۔ اسی طرح سینہ آپا کا قصہ بھی ہے جس کو اس کے شوہر نے بغیر کسی سبب گھر‬
‫سے نکال دیا اور طالق کی تین بول بول کر اس کو ہمیشہ کے لیے چلتا کیا۔ لیکن پھر بھی وہ اسی کے نام پر تب تک بیٹھی رہی جب‬
‫تک اس نے آخرت کے نا ختمی سفر پر قدم نہیں رکھا تھا۔‬

‫مجھے چارلس کی بیوی یاد آگئ ۔ دونوں میں بلکل نہیں بنتی تھی طالق ہونے ہی کو تھی کہ چارلس کو فالج کا اٹیک ہوگیا۔ لز سب "‬
‫کچھ بھول گئی ۔ اور انسانیت کے ناطے طالق نہ لی۔ وہ اب گھر بار بھی سنبھالے تھی اور مفلوج چارلس کی خبر گیری بھی تن دہی‬
‫سے کر رہی تھی۔ "افسانہ‬
‫خواہشوں کے بھنور از رضیہ بٹ‬
‫تعارف‬
‫افسانہ خواہشوں کے بھنور رضیہ بٹ کے مذکورہ مجموعہ(آدھی کہانی) میں شامل افسانہ ہے ۔ جس میں انہوں نے ایک نچلے طبقہ‬
‫کے لڑکے کی خواہشات کو لے کر پیش کیا ہے کہ وہ کس طرح اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے اپنی خوداری اور انا کا قتل کرتا‬
‫ہے۔ اور تو اور ایک معصوم زندگی کو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے استعمال کرلیتا ہے ۔ اس کی معصومیت کا فائدہ اٹھاتا ہے۔‬
‫اس کی اچھائی اور خلوص و وفا کو اپنے جوتے تلے روند کر یورپ کی روشنیوں میں اس قدر مصروف ہوجاتا ہے کہ اپنے اہل و‬
‫عیال کے ساتھ ساتھ اپنی منکوحہ کو بھی بھول جاتا ہے جس سے اس نے پورپ جانے سے پہلے نکاح کیا ہوتا ہے ۔ یہ ہمارے‬
‫معاشرے کا المیہ ہے یہاں پر ہر دوسرا بندہ اپنے سے بڑے گھر اور آسائشوں کے خواب دیکھ کرنت نئے طریقے اپنا کر کبھی کبھی‬
‫غلط سمت اپنا کر اپنے خواہشات کی تکمیل کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ خواہشاتی تکمیل ایک قسم سے ضد بن جاتی ہے جس کے لئے‬
‫ہمارے معاشرے کے ہر اچھا برا کام کرنےکے لیے تیار ہوتے ہیں ۔ اسی موضوع کو لیکر مصنفہ نے یہ افسانہ قلم بند کیا ہے۔‬

‫_‪:‬عورت شرم و حیا کا پیکر‬

‫تانیثی پہلوؤں میں جو پہال نکتہ سامنے آتا ہے وہ زیر بحث افسانہ میں شامل عورت کے اندر شرم و حیاء کا مادہ ہے۔ جس کو‬
‫مصنفہ نے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ‪ ،‬روانی کے ساتھ کڑی بہ کڑی جوڑ کر پیش کیا ہے ۔ افسانہ کا جو مرکزی کردار ہے اس‬
‫کو خالصتًا مشرقی کردار کا جامہ پہنا کر مشرقیت ہی کے دائرے میں پیش کیا ہے۔ شرم و حیاء عورت کا خاصا ہے ۔ اسی ہی کے‬
‫زریعے سے کوئی عورت عورت ٹھرائی جاتی ہے۔ شرم و حیاء کے بغیر عورت عورت نہیں ہوتی بلکہ عورت کا ایک مجسمہ ہوتی‬
‫ہیں۔‬
‫اسی پہلو کو مصنفہ نے افسانہ میں پیش کیا ہے کہ کس طرح شاہد کی منکوحہ شاہد کے جانے سے پہلے اس سے ملتی ہے ان سے‬
‫بات کرتی اس دوران مصنفہ نے مشرقی عورت کا جو تصور پیش کیا ہے وہ دادو تحسین کے قابل ہیں۔‬

‫‪:‬عصمہ اک حیاء دار نگاہ اس پر ڈال کر ہولے سے صرف اتنا ہی کہہ سکی‬

‫"‪-‬میں اس دن کا انتظار کروں گی"‬

‫‪"-‬خط باقاعدگی سے لکھا کرنا ۔ "شاہد نے پیار سے کہا۔ "لکھو گی نا‬

‫عصمہ نے حامی بھر لی۔‬

‫عورت وفا کی دیوی ہوتی ہے۔‬


‫تانیثی پہلوؤں میں ایک پہلو عورت کی ذات میں وفا کا عنصر بھی جس کو مصنفہ نے بڑی استداللی انداز کے ساتھ کہانی میں پیش‬
‫کیا ہے۔افسانہ میں عصمہ‪ ،‬شاہد کے یورپ جانے کے بعد اس کے انتظار میں بیٹھ جاتی ہیں ۔ شاہد جو دو سال کا کہہ گیا ہوتا ہے وہ‬
‫یورپ میں پانچ سال گزار کر بھی واپس لوٹنے کا نام نہیں لیتا ۔ عصمہ دہلیز پر نظریں جمائے شاہد کے انتظار میں دن رات ایک‬
‫کرکے انگلیوں کی پوروں سے دن گنتے گنتے تھک گئی تھی۔ لیکن حوصلہ ابھی بھی مضبوط تھا ۔ ایک با کردار عورت کی طرح‬
‫شاہد کے نام سے جڑ کر اس کا انتظار کررہی تھی اور وہ اس کے انتظار کی کوئی قدر نہیں کرتا ۔‬

‫عصمہ بھی ایک ایسا تنکہ ہے۔شاہد کو گئے پانچواں سال ہے ۔ اس کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہے۔ کیا کر رہا ہے۔ تقدیر کے بے "‬
‫رحم دھاروں نے تنکے کو منجدھار میں پھنسا دیا ہے۔ پانی کے تیز گھمار میں آکر چکر کاٹے جارہاہے۔ کون جانے ۔ یہ گھماؤ سے‬
‫کبھی نکلے گا بھی یا نہیں‬
‫کون جانے‬

‫"کون جانے۔۔۔۔۔‬

‫جہیز ایک لعنت ہے۔‬


‫افسانہ میں تانیثی پہلوؤں میں ایک پہلو جہیز کا بھی ہے۔ جو ہمارے معاشرے میں ایک زہر کی طرح پھیل گیا ہے۔ لڑکیاں اپنے ماں‬
‫باپ کے گھر اس لئے بیٹھی رہتی ہے کیوں کہ ہمارے سماج کی آنکھوں پر مادہ پرستی کا چشمہ لگا ہوا ۔ وہ ہر چیز کو ناپ تول کر‬
‫دیکھتے ہیں ۔ جس طرح افسانہ میں شاہد جو نچلے طبقہ سے تعلق رکھ کر اپنے خواہشات بڑے رکھتا ہے۔ جن کے تکمیل کے لئے‬
‫عصمہ سے نکاح کر لیتا ہے اور یورپ جاکر وہی کا ہی ہو جاتا ہے۔‬
‫یہ سب چیزیں آج کل عام ہوگئی ہے۔ کسی کی بیٹی سے شادی کرنی ہو تو جہیز کی لمبی چھوڑی فہرست بنا کر ہم ان کے ماں باپ‬
‫کے ہتھیلی پر تھاما دیتے ہیں ۔ پھر چاہے وہ استطاعت رکھتے بھی ہو یا نہیں۔۔۔۔ لیکن جہیز کی فہرست میں کمی برداشت کے قابل‬
‫نہیں ہوتی ۔ ہم مادہ پرست سماج بن کر اپنے دین و مذہب سے دور ہوگئے ہیں ۔ ہم صرف سٹیٹس کو ہی ترجیح دیتے ہیں ۔ ہم انسان‬
‫کو انسان کے روپ میں نہیں بلکہ مال و دولت کی روپ میں تولتے ہیں ۔‬

‫ہم رشتہ کی شرط ہی یہ رکھیں تو شاید کوئی نہ کوئی تیار ہو ہی جائے"بلکل باجی۔۔۔ ہم صاف کہہ دیں گے کہ ہمیں جہیز کی قطعًا "‬
‫افسانہ ‪ "[9:07 ,26/08 pm] Xubair Khan:‬ضرورت نہیں۔ صرف لڑکے کو اعلٰی تعلیم کے لیے امریکہ بھجوا دیں۔‬

‫کھلونا از رضیہ بٹ‬


‫تعارف‬
‫افسانہ کھلونا رضیہ بٹ کے مذکورہ مجموعہ(آدھی کہانی) میں شامل افسانہ ہے ۔ جس میں انہوں نے ایک نچلے طبقہ کے بچے کی‬
‫بچے کی خواہش کو پیش کیا ہے۔ سافھ میں اس کے مظلوم ماں کا عکس بھی جو اپنے بچے کے لیے سب کچھ کرنا چاہتی ہے لیکن‬
‫حاالت کے ہاتھوں مجبور ہوکر کوشش کر لیتی ہے لیکن اپنے بچے کو اس کا پسندیدہ کھلونا محض اس لئے نہیں دال سکتی کہ اس‬
‫کی دادی کی خواہش نہیں ہوتی۔ دادی اپنا سب کچھ اپنی بیٹیوں پر لٹاتی رہتی ہیں ۔جب کہی اس معصوم سے بچے کی خواہش کی‬
‫بات آتی ہے تو دادی اس کو فضول خرچی سمجھ کر لڑنے لگتی ہے۔ یہ کہانی متوسط درجے کے ہر گھر کی کہانی ہے ۔ جھاں بیٹی‬
‫کو بیٹی اور بہو کو پرائی سمجھ کر اس کے جذبات و احساسات کا قتل کیا جاتا ہے۔ ساس نندیں اپنی بھابی پر رعب جھاڑ کر اس کو‬
‫گھر بنانے نہیں دیتی۔ مختلف حیلوں بہانوں سے پیسے نکلوا کر ان کی زندگی مشکل سے مزید مشکل کرتے ہیں۔ بے حسی کے‬
‫آخری حدوں میں سے ہے جھاں اپنے ہی بھائی کو استعمال کرکے اس کا ہنستا بستا گھر ہم محض اس لئے تباہ کرتے ہیں کیوں کہ‬
‫بھابی تو پرائی ہوتی ہے۔ ایک قسم کے ہمارے منفی نفسیات کے مطابق اس نے ہم سے ہمارا بھائی چھینا ہوتا ہے۔ چھین سے ‪،‬سکھ‬
‫سے جینا تو ہم نے اب اپنے بھابی کو دینا ہے نہیں ۔‬
‫یہی قصہ افسانہ کا موضوع ہے جو محض ایک بچے کی فرضی خواہش کھلونے پر مرکوز ہے۔ جس کے پس پشت مصنفہ نے‬
‫اوسط طبقہ کے لوگوں میں بے حسی اور حسد کو پیش کیا ہے کہ کس طرح بچوں کے آرمانوں کا قتل کرکے دادیاں اپنی بیٹیوں کو‬
‫خوش کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ بہو کے جذبات و احساسات کو روند کر اس کے تکلیف میں مزید اضافہ کر کے ایک قسم سے‬
‫راحت محسوس کرتی ہیں۔ یہ نہیں سوچتی کہ یہ بھی تو میری ہی ہم ذات عورت ہے ۔ یہ بھی تو میری اوالد جیسی ہے۔ اس کے بھی‬
‫تو جذبات و احساسات ہے۔ اس کے اوالد تو میرے ہی بیٹے کی اوالد ہے۔ ۔۔۔‬

‫_‪:‬ہمارے معاشرے میں بہوکی تذلیل میں معصوم بچوں کی ارمانوں کا قتل‬

‫ہمارے معاشرےمیں عورت نے ہی عورت کو پریشان کیا ہوا ہے ۔ کسی نے ساس بن کر بہو کو ‪ ،‬تو کسی نے بہو بن کر ساس کو ‪،‬‬
‫کسی نے سوکھن بن کی اپنی سوکھن کو ‪،‬تو کسی نے نند بن کر بھابی کو۔۔۔۔پریشان کرکے زہنی اضطراب میں مبتال کر رکھا ہے۔‬
‫عورت کی عورت سے یہ دشمنی ابتداء سے ہوتی چلی آرہی ہے۔ اور یہ ایک قسم سے ہمارے معاشرے کا المیہ بھی ہے ۔ یہاں پر‬
‫بیٹے کی شادی کروا کر ساس سمجھنے لگتی ہے کہ میری بہو نے آکر مجھ سے میرا بھائی چھین لیا ہے۔ بہو کہتی ہے ساس بہت‬
‫ظالم ہے۔ نندیں بھی یہی شکایتیں لگا کر بیٹھ جاتی ہے ہائے بھائی تو بدل گئے ہیں یہ تو اب ہمارے وہ بھائی رہے ہی نہیں۔‬
‫یہ تمام منفی اذہان ہمارے گھروں کا سکون چھین کر ہمیں ایک قسم سے محاذ پر ال کھڑا کر دیتی ہے۔ جس کا نشانہ بچے ہی ہوتے‬
‫ہیں اور ان کے نفسیات۔۔۔‬
‫جس طرح مزکورہ افسانہ میں "نومی " اپنی ماں اور دادی کی لڑائی کا نشانہ بن جاتا ہے۔ ماں میں ممتا کا جذبہ ہوکر اپنے بچے کی‬
‫خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے اور دادی اس کو فضول خرچی سمجھ کر اپنی بیٹی کے بچوں کے نئے جوڑوں کی فکر‬
‫میں لگ جاتی ہیں۔‬
‫دو تین سو روپے کا۔۔ دادی اماں کی آنکھیں پھیل گئیں۔ پھر نومی سے بولی "نواب کا پتر ہے نہ تو دو تین سو روپے میں تو‬
‫ضرورتوں کا منہ بند ہوسکتا ہے۔ وہ تیری پھپھو کے دونوں بیٹے پاس ہوئے ہیں۔ میں نے انہیں ایک پیسہ نہیں دیا ریل گاڑی خریدنا‬
‫"ضروری ہے کیا۔‬

‫‪:-‬ممتا کی تزلیل‬
‫افسانہ میں تانیثی پہلوؤں میں ایک بے بس ماں کی ممتا کی تزلیل بھی دکھائی ہے۔ کہ کس طرح اس کی ساس اس کے جذبات و‬
‫احساسات پر کی قدر نہیں کرتی ۔ کس طرح وہ اس کی تزلیل کرتی ہے ۔ اس کو بات بات پر روکتی ٹوکتی ہے ۔ حتٰی کے اپنے ہی‬
‫بیٹے کی اوالد کو اس کا پسندیدہ کھلونا اس لئے نہیں دال کے دیتی کیوں کہ یہ اس کے نظر میں ایک فضول سی خواہش اور شاید‬
‫فضول کی شاہ خرچی ہوتی ہے۔ وہ اپنی بیٹیوں اور اس کے اوالد پر بیٹے کے اوالد کو اہمیت نہیں دیتی ن ہر جگہ اپنی بیٹیوں ہی کو‬
‫اہمیت دیتی ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے یہاں ہر گھر میں ساس اور نندیں ظالم بن کر بیٹھی ہوئی ہے ۔ اپنی بہوؤں کو دوسری‬
‫عورت سمجھ کر ان کے اوالد کے ساتھ بھی زیادتی کر جاتی ہیں۔ اور وہ یہ اس لئے نہیں کرتی کہ بہو ظالم ہوتی ہے بلکہ وہ یہ اس‬
‫لیے کرتی ہے کیونکہ وہ اپنی بہوؤں کو نفسیاتی طور پر قبول نہیں کیا جاتا۔ افسانہ میں ماں کی ممتا کی تزلیل اس انداز سے پیش ہوا‬
‫ہے کہ جب وہ نومی کی ماں اس کو ریل گاڑی دالنے کے لئے وعدہ کرتی ہے۔ اور وہ اس وعدے میں ناکام ہوجاتی ہے تو اپنے‬
‫بچے کو اپنے آپ سے دور ہوتا ہا محسوس کرتی ہے۔ دوسری بار جب وعدہ کرتی ہے پھر بھی جب اسے مایوسی کا سامنا ہوجاتا‬
‫ہے تو وہ ایک قسم سے اضطراب کا شکار ہوجاتی ہے اور اپنے شوہر سے کہتی ہے کہ کچھ بھی ہو جائے میرے بچے کا کھلونا‬
‫اس مہینے تو اجانا چاہیے وہ کوشش کرتا ہے۔ لیکن جب ساس کو پتہ چل جاتا ہے تو وہ چاالکی اور مکاریوں سے اپنے بیٹے کو‬
‫روک لیتی ہے جس پر سائرہ(نومی کی ماں) کی ہمت جواب دے دیتی ہے اور وہ اپنی ساس سے اپنے بیٹے کے حق کے لیے لڑنے‬
‫لگتی ہے۔ یہاں پر ایک قسم سےمصنفہ نے ماں کی تزلیل دکھائی ہے۔ کہ کس طرح ایک ماں کی اس بچے کے سامنے اس کی ممتا‬
‫کی تزلیل کی جاتی ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے۔ یہاں ہر ماں اپنی بہو کو شاہ خرچ سمجھتی ہے ۔ اور سوچتی ہے کہ جو‬
‫فضول خرچی ہے وہ میری بہو ہی کرتی ہیں۔‬
‫اماں کیا کہہ رہی ہیں ۔ اماں خدا کے لیے ۔ " جمیل گھبرا گیا ۔ سائرہ بھی کمرے سے باہر نکل آئی ۔ اماں نے جو ڈرامہ لگایا تھا۔ اس‬
‫" پر اسے سخت غصہ آیا۔ وہ بھی نہ رہ سکی ۔دل کا غبار پھٹ پڑا۔‬

‫افسانہ ‪[26/08, 9:09 pm] Xubair Khan:‬‬

‫عینی از رضیہ بٹ‬

‫تعارف‬

‫افسانہ عینی رضیہ بٹ کے مذکورہ مجموعہ(آدھی کہانی) میں شامل افسانہ ہے ۔ جس میں انہوں نے جہیز کو ایک لعنت قرار کر‬
‫عینی کی بسی بسائی زندگی کی روداد اور بیٹی کو بوجھ سمجھ کر ہمارے معاشرے میں متوسط طبقہ کے منفی سوچ کو ایک‬
‫خوبصورت قصہ میں پرو کر پیش کیا ہے۔ افسانہ میں دو بہنوں کا کردار ہے ۔ عینی اور بنیی کا کردار۔‬
‫عینی کی شادی ہوتی ہے تو ان کے سسرال والے لڑکی سمجھ کر ان پر ان کے استطاعت سے زیادہ بوجھ ڈال دیتے ہیں ۔ جس کے‬
‫لیے عینی کا والد قرضہ لے لیتا ہیں۔ پھر بھی ان لوگوں کی ہوس اور اللچ نہیں مٹتی اور عین بارات کے دن گاڑی کے بجائے‬
‫سکوٹر کا مطالبہ کر لیتے ہیں کہ اگر سکوٹر کا ابھی بندوبست نہیں کر سکتے تو اس کی نقدی دے دیں۔‬
‫جس پر عینی کا والد طیش میں آکر رشتہ توڑ دیتا ہے۔ اس سے پہلے بھی عینی کا رشتہ اسی ناسور کی خاطر ختم ہوتا ہے۔ عینی کو‬
‫شدید صدمہ پہنچتا ہے۔ اس کی خالہ جذبات میں بنیی کو چھوڑ کر عینی کے ساتھ کامل کے نکاح کا کہتی ہےاور بنیی کو چھوڑ دیتی‬
‫ہے جس کے ساتھ کامل کا رشتہ پہلے سے طے ہوتا ہے۔‬
‫یہاں پر تانیثی حوالہ سے دو نکتے سامنے آتے ہیں ۔‬
‫جہیز کے نقصانات جبکہ دوسرا نکتہ جذبات میں آکر ہمارے بڑوں کے فیصلے جو ایک طرف نہیں بلکہ دونوں طرف چاہے مرد ہو‬
‫یا عورت دونوں کی زندگی خراب کردیتی ہیں۔ اس وقت تو معاشرے کے بے حسی کے خوف سے‪ ،‬الزامات سے خود کو بچانے کے‬
‫لیے ہم اقدامات اٹھا لیتے ہیں ۔ اور یہی اقدامات ہمارے لئے ہمارے بڑوں کی طرف سے وہ زنجیریں بن جاتی ہے جن سے چھٹکارا‬
‫تا حیات منکن نہیں ہوتا۔ ہر وقت آگ میں جھلستے رہتے ہیں ۔ لیکن بے بس خاموش سماج کے طعنوں کے خوف سے ظلم برداشت‬
‫کرتے رہتے ہیں اپنے آپ پر جبر کرتے رہتے ہیں۔‬
‫‪:-‬جہیز کے نقصانات‬

‫جہیز جو کہ ایک ناسور کی طرح ہماری رگوں میں دوڑ کر ہماری زندگیوں کو تباہ و برباد کر رہی ہیں۔ اسی تانیثی پہلو کو افسانہ‬
‫میں رضیہ بٹ نے بروئے کار الکر ہندو سماج میں پھلنے والے اس غلط رسم کو جو مسلم لوگوں نے بھی اپنایا ہوا ہے کو موضوع‬
‫بنا کر پیش کیا ہیں۔ یہ خالصتًا ہندوستانی رسم و رواج ہے۔ جبکہ مسلم مذہب اسالم میں لڑکی کے والدین پر اس کے استطاعت سے‬
‫زیادہ بوجھ ڈالنے سے منع کیا گیا ہے۔‬
‫پہلے پہل جب لڑکیوں کی شادیاں آسان تھی ۔ زمانہ مادیت پرستی کے ناسور سے دور تھا ۔ تب جرائم اور گناہ بھی کم تھے ۔ جیسے‬
‫جیسے مادیت پرستانہ سوچ ہمارے ذہنوں پر غالب آتی گئی ویسے ویسے ہم پستی میں گر کر بہت سے جرائم و گناہوں سے دوچار‬
‫ہوئیں۔ جہیز النا لڑکے والے کی ہوس جب کہ لڑکی والوں کی مجبوری بن چکا ہے۔ ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جلد از‬
‫جلد اپنے فرائض سے سبکدوش ہوکر اپنے جیتے جی اپنے اوالد کو ان کے گھروں میں ہنستا بستا دیکھے۔ لیکن بدقسمتی اب شادی و‬
‫بیاہ کی رسم ختم ہوکر گناہ زیادہ ہوگیا ہیں۔ لڑکے والے لڑکی والوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر اس کے استطاعت سے زیادہ‬
‫بوجھ ڈالتے ہیں ۔ جس طرح زیر بحث افسانہ میں مصنفہ نے یہ بات عینی کے شادی کی رسومات کے زریعے سے بتائی ہے۔ کہ‬
‫کس طرح لڑکے والے ہوس اور اللچ کو لیکر لڑکی والوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر ان سے طرح طرح کے مطالبات کرتے ہیں‬
‫اور لڑکی واکے بغیر کسی چوں و چرا اسے پروا کرتے رہتے ہیں جس طرح افسانہ میں عینی کا والد قرضہ لے کر پورا کرتا ہیں ۔‬
‫یہ ہمارے معاشرے میں پروان چڑھنے واال ایک رسم ہے ۔ لڑکی والی کو مجبور اور ناتواں سمجھ کر ان پر بوجھ ڈال کر مطالبات‬
‫کرتے رہتے ہیں ۔ اور والدین اسے ہر حال میں پورا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔‬

‫ملک صاحب نے بیڈروم کا دروازہ بند کیا ۔ پھر بریف کیس سرہانے والی سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا ۔ پھر بیڈ کے قریب کھڑی حسنہ “‬
‫سے بولے ۔"روپے کا بندوبست ہوگیا ہے۔ لے آیا ہوں۔‬
‫کس سے لیا ؟ حسنہ بیگم کے متفکر چہرے پر وقتی سکون آگیا ۔ لے لیا ہے کسی سے ۔‬

‫"ایک دوست نے ہاتھ پکڑ ہی لیا۔ بارات کے کھانے اور فرنیچر ہی کا پیسہ دینا ہے نا‬

‫_‪:‬بیٹی بوجھ ہوتی ہے‬

‫تانیثی پہلوؤں میں زیر بحث افسانہ میں ایک نکتہ بیٹی بوجھ کا بھی ہے ۔ جو ہمارے معاشرے کی منفی سوچ کی نمائندگی کرتا ہے ۔‬
‫کہ ہم کس قدر عورت کو ناکارہ سمجھ کر اپنی سر سے اٹھا کر دوسرے کے کندھوں پر پھینکنا چاہتے ہیں۔ ہم بیٹی کو وہ مقام وہ‬
‫مرتبہ نہیں دیتے جو بیٹے کو دیتے ہیں ۔ بیٹی کو مذہب اسالم نے جو حقوق دئیے ہیں ہم نے ان کو ان سے محروم کر دیا ہیں ۔ بیٹے‬
‫کے مقابلے میں ہمارا سلوک بیٹی کے ساتھ ابتدا سے بہت برا ہوتا ہیں۔ لوگ ان کی پیدائش پر خوشی و مسرت کرنے کے بجائے‬
‫افسوس کرتے ہیں ۔زیر بحث افسانہ میں یہ نکتہ عینی کی شادی میں درپیش آنے والے مسائل پر نمودار ہوتا ہے۔ جب عینی کا والد‬
‫عینی کو بوجھ سمجھ کر اپنے سر سے اتارنے کے لئے سامان اکھٹے کرتا رہتا ہیں۔ لیکن وہ یہ بھول جاتا ہے کہ مادیت پرستی کے‬
‫اس دور میں اگر کوئی کسی کا بوجھ اپنے کندھوں پر لیتا بھی ہے تو ان کے لئے بھی ان کو معاوضہ چاہیے ہوتا ہیں ۔ مفت میں‬
‫کوئی بھی کسی کا بوجھ نہیں لیتا ۔ جس طرح عینی کے سسرال والے عینی کو اپنے گھر لے جانے کے لیے مختلف چیزوں کے‬
‫مطالبات کرتے ہیں ۔ اور عینی کا والد اپنے بعجھ کو کم کرنے کے لیے آنکھ بند کیے ہوئے ان مطالبات کو پورا کرتا رہتا ہیں ۔ یہی‬
‫سے ہمیں مصنفہ نے صاف الفاظ میں واضح کیا ہے کہ بیٹی بوجھ ہوتی ہیں۔ جسے اتارنے کے لئے ہی ہمارے والدین کچھ دے دال‬
‫کے لڑکی کے سسرال والوں کے کندھوں پر اپنا بوجھ ڈالتا ہیں ۔‬
‫جہاں اتنا کچھ دے رہے تھے سکوٹر بھی لے دیتے۔ بیٹی کا بار سر سے اتر جاتا۔ بیٹی کا بار سر سے اترا نہیں تھا کہ قرضے کا بار‬
‫سر چڑھ گیا۔‬

‫درجہ باال اقتباس میں مصنفہ نے ہمارے منفی سوچ کو ابھار کر اس پر طنز کے نشتر چالئے ہیں۔ اور بتایا ہے کہ یہ ہمارے‬
‫معاشرے کا المیہ ہے جہاں بیٹے کو وارث اور بیٹی کو بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ جسے اپنے سر سے اتارنے کے لئے لڑکی کے‬
‫سسرال والوں کے نت نئے فرمائشیں پوری کرکے یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہاں واقعی بیٹی بوجھ ہوتی ہیں ‪ .‬جسے اتارنے کے لئے‬
‫والدین ان کے سسرال والوں کو قیمت ادا کراپنے سر سے اتار لیتے ہیں ۔‬

‫افسانہ ذات کا کرب از رضیہ بٹ ‪[26/08, 9:09 pm] Xubair Khan:‬‬

‫تعارف‬
‫افسانہ ذات کا کرب رضیہ بٹ کی مزکورہ افسانوی مجموعہ (آدھی کہانی) میں شامل افسانہ ہے جس میں انہوں نے عورت کے اندر‬
‫ممتا کے جذبے کو پیش کیا ہے۔ خدائے خالق نے جس طرح عورت کے اندر بچے جننے کا مادہ رکھا ہے۔ اس کی تکمیل عورت‬
‫کے لیے بہت ضروری ہوتی ہے۔ افسانہ میں مرکزی کردار سلمٰی کا ہوتا ہے جو اپنی جوانی اپنے بھائیوں کی پرورش اور دیکھ‬
‫بھال پر قربان کر لیتی ہے لیکن اس کے اندر جو تشنگی جو ممتا کا جذبہ ہوتا ہے وہ اس کے گھٹتی عمر کے ساتھ بھی نہیں ختم ہوتا‬
‫بلکہ عمر کے ساتھ ساتھ وہ ایک نیا رخ اختیار کر لیتی ہیں ۔ جس کی تکمیل کے لیے وہ شادی کرتی ہے ناصر جو پہلے سے شادی‬
‫شدہ ہوتا ہے اس کے بچوں کو پالتی ہے پھوستی ہے لیکن اس کی بھی اس کے اندر جو تشنگی ہوتی ہے وہ ختم نہیں ہوتی ۔وہ ایک‬
‫قسم سے ڈپریشن میں چلی جاتی ہے جب ناصر اسے انکار کرکے اپنے بچوں کی پرورش پر لگاتا ہے ۔ اسے ایک قسم سے اپنا آپ‬
‫نامکمل ادھورا محسوس ہوتا ہے۔ وہ لڑتی ہے جھگڑتی ہے اپنے شوہر کے ساتھ اور آخر کار اسی تکمیل میں ہی خالق خداوندی سے‬
‫جا ملتی ہیں ۔‬
‫ممتا کا جزبہ‬
‫یہ ایک اٹل حقیقت ہے ۔ عورت کو خدا تعالٰی نے یہ شرف بخشا ہے کہ وہ نسل کو پیدا کرے گی۔ یہ نظام فطرت ہے ایسا نہ کرنے‬
‫سے عورت خود کو ایک قسم سے ادھورا محسوس کرتی ہے ۔ وہ اپنے وجود کی تکمیل چاہتی ہیں ۔ جس کے لیے وہ شادی کے‬
‫بندھن میں بنتی ہیں اپنے وجود کی تکمیل کو ممکن بناتی ہے ۔ جس طرح افسانہ میں سلمٰی کا کردار ہے جس کے اردگرد بچے تو‬
‫ہوتےہیں لیکن ان کی اندر جو ممتا کا جذبہ ہوتا ہے وہ اضطراب میں ہوتا ہے ۔ چاہتا ہے کہ وہ بھی اپنے ہی وجود سے ہی بچے کو‬
‫جنے ۔‬
‫یہ ایک فطری بات ہیں جو ہر عورت کے اندر موجود ہوتی ہیں۔‬
‫جس کے لیے ہر عورت سے گزر جاتی حتٰی کہ جان بھی دے دیتی ہے لیکن اپنی مضطرب ممتا کو تسکین دئیے بغیر نہیں رہتی۔۔۔‬
‫مامتا "حقیقی محبت کا نام ہے جو ایک ناقابل بیان احساس سے آشنا کراتی ہے ‪ ،‬ایسا احساس جو راحت و آرام اور لذت آفرینی سے‬
‫مملو اور بھرپور ہوتاہے ‪ ،‬یہ ایک طرح کی محبت ہے لیکن ان عام محبتوں سے بالکل منفرد جو اس خود غرض دنیا میں اپنے‬
‫مطلوبات کی برآوری کے لئے کی جاتی ہے ‪ ،‬اس محبت میں سچائی کا سورج اپنی تمام تر آب و تاب کے ساتھ چمکتا اور روشن‬
‫رہتاہے ‪ ،‬یہ سچی محبت ایک مستقل حقیقت ہے ۔‬
‫دنیا کی عام محبتوں اور اس انوکھی محبت میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ دنیاوی محبت میں خودغرضی کا لیبل چسپاں کرکے‬
‫اسے حسین بنانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن چونکہ اس محبت کا تعلق روح کی گہرائیوں سے ہے اس لئے اس میں خود غرضی‬
‫جیسے لچر اور پوچ احساسات کا قطعی دخل نہیں ہوتا‪ ،‬بالکل بے غرض اور بے لوث ہوتی ہے یہ محبت ‪..‬۔‬
‫ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے‪'':‬ہر عورت کی فطرت میں مامتا کا کچھ نہ کچھ ضرور اثر ہوتاہے اور یہ مامتا اس وقت بڑی شدت‬
‫"سے جاگ اٹھتی ہے جب وہ کسی ایسے کو تکلیف میں مبتال دیکھتی ہے جس کااس سے کچھ تعلق ہو‬

‫سلمٰی کیسی اٹھا لیتی ہواسے۔۔۔ یہ بچہ ہے معصوم ہے بے ضرر۔۔۔ مہکتا ہوا پھول۔ بہت شوق ہے بچوں کا ۔۔ کیا کروں شوق سے‬
‫بھی بڑھ کر کوئی جذبہ ہے"۔۔۔۔‬

‫سماج کا دکھ‬
‫افسانہ میں ایک اور تانیثی پہلو میں سماج کا دکھ بھی مصنفہ نے دکھایا ہے ۔ کہ کس طرح سماج میں رہ کر عورت اپنے مقام سے‬
‫محروم ہوتی جاتی ہے۔ قربانی کا بکرا سمجھا جاتا جس کا جی چاہا چھری عورت کے گردن پہ پھیری اور بات ختم ۔ عورت کی تو‬
‫کوئی قدر ہی نہیں نہ ان کے احساسات نہ اس کے جذبات کے۔‬
‫ماں باپ کے گھر ہوتی ہے تو ماں باپ اس کو اپنے مطلب کے لیے استعمال کرتے ہے ناقص چیز سمجھ کر جس طرح افسانہ میں‬
‫سلمٰی کی ماں پیسوں کی مشین سمجھ کر اس کی شادی وقت پر نہیں کرواتی۔ شوہر کے گھر جب جاتی ہے تو شوہر اس کو اپنے اور‬
‫بچوں کی دیکھ بھال کے لئے رکھ لیتا ہے اس کے جذبات کو مجروح کرتا رہتا ہے۔ یہ اپنے جذبات کا احساس بار بار کرتی ہے‬
‫ناصر جو اس کا شوہر ہوتا ہے وہ اس کو بار بار جواب دے کر اسے منع کرتا ہے کہ ہمارے بس پانچ اوالدیں ہیں ہمیں مزید نہیں‬
‫چاہیے۔ سلمٰی کا کوکھ تو مضطرب ہوتا ہے وہ تو چاہتی ہے کہ وہ خود اس عمل سے گزرے ۔ خود ہی بچے کو جنے جو اس کے‬
‫کوکھ سے پیدا ہوا ہو۔۔۔ لیکن ظالم شوہر ظالم بن کر بار بار اس کے جذبات کی استحصال کرتا ہے ۔ سلمٰی سے اس کے اس خواہش‬
‫پر لڑتا ہے جھگڑتا ہے لیکن باز نہیں آتی ۔ حتٰی کہ نفسیاتی مریض بن جاتی ہیں۔‬
‫یہ عورت کی ذات میں شامل ہے وہ جب چھوٹی ہوتی ہے تو وہ گڑیا اور گھریلو چیزوں ہی کی طرف مائل ہوتی وہ اس لئے نہیں کہ‬
‫اسے وہ ال دی جاتی بلکہ وہ اس لئے کیوں کہ اس کی فطرت میں اس کی چاہ ہوتی ہے ۔ وہ چاہتی ہے کہ اس کی بھی اپنی ایک اوالد‬
‫ہو‪ ،‬خیال رکھنے واال شوہر ہو۔ اپنا سیک چھوٹا سا مکان ہو اور اس مکان کی وہ ملکہ ہو۔ یہ عورت کی فطرت میں خدا کی طرف‬
‫سے شامل ایک قسم کا غدود ہوتا ہے۔ جو بلوغت کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو اس کے دل و دماغ پر حاوی کرتا ہے۔ افسانہ میں بھی‬
‫مصنفہ نے ایک بے چین کوکھ کی کہانی بیان کی ہے کہ کس طرح عورت کو خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے کوکھ سے ہی اپنی ہی‬
‫اوالد کو جنے نا کہ دوسروں کا پالے۔ عورت کے اپنے بھی جذبات ہوتے ہیں احساسات ہوتے ہیں بار بار دھبانے سے وہ عورت کو‬
‫نفسیاتی امراض میں مبتال کردیتی ہے ۔ جس طرح افسانہ میں سلمٰی کا کردار ہوجاتا ہے۔‬
‫یہ سلسلہ بھی ڈیڑھ سال تک چلتا رہا لیکن ناصر نے ضد چھوڑی نہ سلمٰی نے ۔۔۔ وہ تو اپنی ممتا کے تقاضوں کے سامنے بالکل ہی‬
‫بے دم ہوگئ ۔۔۔ اچھی خاصی جنونی ہوگئی ۔ ڈپریشن سے دورے پڑنے لگے۔ اور جب جذبوں کی تکمیل کا جنون اس حد تک بڑھس‬
‫کہ جان پر بن آئی۔ تو ڈاکٹروں نے ناصر کو مشورہ دیا ۔‬

‫" ان کی ممتا کو تسکین دینے کے لیے بیٹا چاہیے ورنہ جنون تشویشناک صورت اختیار کر جائے گا۔‬

‫افسانہ خواب از رضیہ بٹ ‪[26/08, 9:09 pm] Xubair Khan:‬‬

‫تعارف‬
‫افسانہ خواب رضیہ بٹ کی مزکورہ افسانوی مجموعہ (آدھی کہانی) میں شامل افسانہ ہے جس میں انہوں نے ایک خواب کے‬
‫زریعے سے افساںہ کے کردار عمر کو اس کے مستقبل سے واقف کیا تھا۔کہ کس طرح عمر خواب دیکھتا ہے اور کس طرح وہ‬
‫حقیقت کا رخ اختیار کرتی ہے۔ افسانہ میں جیسے جیسے واقعات عمر کے آنکھوں کے سامنے آتے رہتے ہیں وہ ششدر میں مبتال‬
‫ہوتا رہتا ہے۔اس ڈراؤنے خواب سے پیچھا چھوڑانے کی انتھک سعی کرتا ہے لیکن ناکامران رہتا ہے۔ اس کا خواب اس کا تعاقب‬
‫کرکے اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں ۔کبھی پیچھا نہیں چھوڑتی۔‬
‫ہم میں سے بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لیے طرح طرح کے حربے اپناتے ہیں ۔ لکیریں پڑھواتے‬
‫ہیں۔ پامسٹری کی کتابوں میں دیکھتے ہے یہ سوچ کئے کہ میں اپنے کل کو سنوارنے کی کوشش کرونگی‪/‬کروں گا۔ لیکن یہ بھول‬
‫جاتے ہے کہ یہ نظام سب خدا کے ہاتھ میں ہے وہ جب کہے گا وہ کام خود بخود ہو جائے گا۔ کسی کی مجال ہی نہیں ہوگی جو اس‬
‫کے برابر آکر اس کام کو رکھوا دیں۔ یہ خواب یہ تعبیریں ہمیں ذہنی پریشانی کے سوا کچھ نہیں دے سکتی اگر انسان کو اپنا‬
‫کل ‪/‬مستقبل معلوم ہوتا تو وہ کبھی بھی آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرتا ۔وہی کا وہی رہتا ۔‬
‫ہم مستقبل جاننے کے لیے اکثر بے چین ہوتے ہیں ۔ نجومیوں کو ہاتھ دکھاتے پھرتے ہیں ۔ پامسٹری کی کتابوں پر مغز ماری کرتے‬
‫ہیں ۔روحانیت سے فیض حاصل کرکے آنے والے دور کی جھلک دیکھنے کے متمنی ہوتے ہیں۔خواب دیکھتے ہیں تو اسے مستقبل‬
‫کے حوالے سے تعبیروں کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔‬
‫لیکن یہ ساری باتیں’سارے عمل‬
‫یہ ساری کاوشیں ہم بہتر مستقبل اور اچھے دور کو پانے کے لیے کرتے ہیں۔‬
‫یہ کبھی نہیں سوچتے کہ اچھا برا جنم جنم کا ساتھی ہے۔ دکھ سکھ کی سانجھ ہے۔ روشنی اور اندھیرے الزم و ملزوم ہیں۔‬

‫**عورت میں ناشکری کا مادہ*‬

‫تانیثی حوالہ سے اگر افسانہ کا جائزہ لیا جائے تو افسانہ میں جو پہلو مصنفہ نے پیش کیا ہے وہ عورت کے اندر ناشکری کا مادہ‬
‫ہے۔۔‬
‫جسکا مقدار عورتوں میں کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔ اگرخدا تعالٰی ان کو ضرورت کے موافق سامان عطا بھی کرے تو یہ اس کو‬
‫غنیمت نہیں سمجھتیں ‪ ،‬نہ اس پر خدا کا شکر کرتی ہیں‪ ،‬بلکہ ناشکری کرتی رہتی ہیں کہ ہائے! ہمارے پاس کیاہے‪ ،‬کچھ بھی تو‬
‫نہیں۔ افسانہ میں عورتوں کے نفسیات کی اس منفی پہلو کو حسنہ کے زریعے پیش کیا ہے ۔ جو اپنے شوہر کو اپنے دیور اور‬
‫دیورانی کے بارے میں بتاتی ہیں ۔ کہ کس طرح وہ باہر ملک میں آرام و آسائشوں کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ شوہر اس کو اپنی‬
‫حاالت پر صابر و شاکر‬
‫رہنے کا بولتا ہے جس پر وہ اس کے ساتھ بحث میں لگ جاتی ہیں۔‬
‫حسنہ ایک دن ہنستے ہوئے ناصر سے کہنے لگی "ناصر جتنے پیسے عمر صرف امی ابو کع بھیج رہا ہے ۔ اتنی تو ہماری پوری‬
‫"تنخواہ بھی نہیں۔‬

‫ہاں وہاں اسے بہت زیادہ تنخواہ جو ملتی ہے۔ ناصر بوال ۔ تم نہیں جاسکتے باہر۔ ناصر ہنس پڑا ۔۔۔"حسد کرنے لگی ہو ان سے"۔‬
‫حسنہ ناراض ہوگئی ۔ خوب سے خوب تر کی تالش کو حسد تم ہی کہو گے۔ ناصر ہنس پڑا ۔ "قسمت پر شاکر رہنا چاہیے"۔‬
‫درجہ باال اقتباس میں شامل عورت کے اندر ناشکری کا جذبہ فطری ہے۔ کوئی اس کا اظہار کچھ زیادہ کرتی ہے کوئی کم ۔ لیکن یہ‬
‫جذبہ ہوتا ضرور ہے۔‬
‫حدیث میں بھی عورت کی اس صفت کا زکر آیا ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ ناشکری کامادہ عورتوں میں ہمیشہ سے ہے۔ حضور‬
‫‪:‬ﷺ فرماتے ہیں‬

‫‪َ،‬لْو َأْح َس ْن َت ِإٰل ی ِإْح َد اُہَّن الَّدْہ َر ُثَّم َر َأْت ِم ْن َک َش ْی ًئ ا‬


‫َق اَلْت ‪َ :‬م ا َر َأْی ُت ِم ْن َک َخ ْیًر ا َق ُّط ۔‬
‫اگرتم کسی عورت کے ساتھ عمر بھر بھی اچھا برتأو کرو‪ ،‬پھر کبھی ایک دفعہ کوئی خالف مزاج بات دیکھ لے تو وہ یوں کہے گی‬
‫کہ میں نے تجھ سے کبھی بھالئی نہیں دیکھی۔‬
‫حدیث رسول سے ہی واضح ہے کہ یہ جذبہ عورت کی خمیر میں شامل کیا ہیں۔ لیکن کوئی اس کے اظہار میں زیادہ توانائی صرف‬
‫کرتی کوئی کم لیکن ہوتی ضرور ہے۔ کیوں کہ یہ عورت کی فطرت ہی میں ہے۔‬

You might also like