Professional Documents
Culture Documents
Document
Document
میں کچھ نہیں سن سکا۔ اعظم کیا کہہ رہا تھا ۔ کیا نہیں کہہ رہا تھا ۔ میرا تو دماغ اور وجود چکرائے جا رہا تھا۔ عورت کا امیج اور "
تصور جو برسوں سے میرے ذہن میں تھا۔ چور چور ہوگیا تھا۔ کرچی کرچی ہوگیا تھا۔ ریزہ ریزہ ہوگیا تھا۔
اور یہ چور چور ریزہ ریزہ ،کرچی کرچی مجھے اندر ہی اندر لہولہان کر گیا تھا۔
کیوں کہ ۔ کیوں کہ
وہ خوبصورت بال ۔۔۔۔۔ حسین ناگن
اسی موضوع کو مصنفہ نے بروئے کار الکر مزکورہ افسانہ قلم بند کیا ہے۔
تانیثیت کے حوالہ سے افسانہ "تالش " میں مصنفہ نے مغرب کے متعلق مشرقی منفی نفسیات کو سامنے رکھ پیش کیا ہے۔ اور یہ
بتانے کی کوشش کی ہے کہ ہم کس قدر کم ظرف اور تنگ ذہن لوگ ہیں ۔جو مغربی اقوام کی خواتین کو صرف دوستیوں کے لئے
رکھ کر ان کے ساتھ وقت گزاری تو کرلیتے ہیں ۔لیکن ان کے ساتھ شادی کا رشتہ اس سوچ کو لیکر نہیں بناتے کہ مغربی خواتین
کبھی بستی نہیں ہیں ۔ مغربی خواتین چھوٹی سی چھوٹی بات کو لیکر طالق لینے تک پر اتر آتی ہے۔جبکہ یہ ہماری اپنی ہی کم فہمی
ہے کہ مشرقی خواتین کو مغربی خواتین پر فوقیت دیتے ہیں۔ اور کہتے ہے کہ مشرقی خواتین اپنے خاوند کے نام پر ساری عمر
بیٹھ کر انتظار کرتی ہے اور انتظار کرتے کرتے آخرت کے سفر پر روانہ ہوجاتی ہیں لیکن کبھی ساتھ چھوڑ کر بے وفائی نہیں
کرتی۔ اور مغربی خواتین ساتھ چھوڑنے اور بے وفائی کرنے میں دیر نہیں لگاتی۔ آدمی کو بھیج راہ میں ہی چھوڑ جاتی ہے۔ یہ
ہماری اپنی زہنی کمزوری ہے۔ کیوں کہ اچھے برے لوگ ہر معاشرت کا حصہ ہوتے ہیں ۔ ضروری تو نہیں کہ ہر مغربی عورت
بے وفا ہو اور ہر مشرقی عورت باکردار اور وفا شعار ہو۔ افسانہ میں مغربی مشرقی خواتین کا موازنہ مصنفہ نے نے بڑی خوش
اسلوبی کے ساتھ پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ مشرق میں بھی با وفا عورتیں ہوسکتی ہے اور مشرق میں بے وفا۔ جس کی خاطر ہم
نے اپنی زہنیت بنائی ہوئی ہے کہ مشرقی خواتین گھر گھرستی کے لئے اپنی جوانی تباہ کر لیتی ہیں۔
"اوہ ۔۔۔۔ کتنی سفاک ہے وہ عورت۔ ایسی عورت تو میں نے وہاں بھی نہیں دیکھی تھی۔
درجہ باال اقتباس میں مصنفہ کا اشارہ نیرا کی طرف ہے جو اپنے معذور خاوند کی معذوری کو دیکھ اس سے طالق لے کر دو
بچوں بچوں کو بھی معذور خاوند کے پاس چھوڑ گئی۔ یہاں پر کردار نیرا مشرقی خواتین کی نمائندگی کر رہا ہے۔جو اس بات کا
احساس دال رہا کی مغربیت ،مشرقیت سے کچھ نہیں سب کچھ انسان کی ذات سے وابستہ باتیں ہیں ۔ مغربی تہذیب میں پلی بڑی لڑکی
وفا شعار کا پیکر ہوسکتی ہے اور چار دیواری میں رہ کر ایک مشرقی عورت مغربیت سے دو گام آگے ہوسکتی ہیں۔ یہ سب انسان
کی فطرت میں شامل فطری باتیں ہیں جس کے مطابق ہر مرد و زن معاشرے میں اپنا ایک کردار ادا کرتی ہیں ۔
افسانہ میں مصنفہ نے طالقی یافتہ خواتین کا دکھ بھی پیش کیا ہے۔ جس کو معاشرے کا مرد اپنی مردانگی کو تسکین پہنچانے کی
خاطر مار پیٹ کر تین الفاظ بول کر چلتا کرتا ہے۔ معاشرے میں وہ اپنی کردار کی صفائیاں پیش پیش کر کے تھک جاتی ہے لیکن
کوئی اس کا اعتبار تک نہیں کرتا ۔ تانیثیت کی تحریک کا ایک نعرہ یہ بھی تھا کہ طالق یافتہ خواتین کو پھر سے بساو اس جا بھی
معاشرے پر اتن ہی حق ہے جتنا دوسرے خواتین کا ۔
افسانہ میں تانیثیت کی پہلوؤں میں ایک پہلو عورت کی ذات وفا کی پیکر کا بھی ہے۔ جس میں انہوں نے عورت کو مرد کے ہاتھوں
بے عزت ہوتے ہوئے بھی عورت کو مرد کے ساتھ وفادار ٹھرایا ہے۔ اور یہ بتایا ہے کہ عورت کی مٹی میں ہی وفا شامل ہیں ۔ وہ
کبھی بے وفائی کر ہی نہیں سکتی۔ جس طرح زیر بحث افسانہ میں جب جعفر اعظم کی زبانی نسیم کی معذوری کا اور اس معذوری
کے سبب اس کی بیوی کے طالق کا سنتا ہے تو اسے چارلس کی بیوی یاد آجاتی ہے۔ نسیم اور اس کی بیوی میں پھر بھی محبت کا
رشتہ تو تھا ہی لیکن چارلس کی بیوی لز کا ایک دوسرے کے ساتھ نہیں بنتی تھی پھر بھی اس نے اپنے بیمار شوہر کی تیمارداری
کی ذمہ داری اٹھا کر اس کی دیکھ بھال سنبالی۔ اسی طرح سینہ آپا کا قصہ بھی ہے جس کو اس کے شوہر نے بغیر کسی سبب گھر
سے نکال دیا اور طالق کی تین بول بول کر اس کو ہمیشہ کے لیے چلتا کیا۔ لیکن پھر بھی وہ اسی کے نام پر تب تک بیٹھی رہی جب
تک اس نے آخرت کے نا ختمی سفر پر قدم نہیں رکھا تھا۔
مجھے چارلس کی بیوی یاد آگئ ۔ دونوں میں بلکل نہیں بنتی تھی طالق ہونے ہی کو تھی کہ چارلس کو فالج کا اٹیک ہوگیا۔ لز سب "
کچھ بھول گئی ۔ اور انسانیت کے ناطے طالق نہ لی۔ وہ اب گھر بار بھی سنبھالے تھی اور مفلوج چارلس کی خبر گیری بھی تن دہی
سے کر رہی تھی۔ "افسانہ
خواہشوں کے بھنور از رضیہ بٹ
تعارف
افسانہ خواہشوں کے بھنور رضیہ بٹ کے مذکورہ مجموعہ(آدھی کہانی) میں شامل افسانہ ہے ۔ جس میں انہوں نے ایک نچلے طبقہ
کے لڑکے کی خواہشات کو لے کر پیش کیا ہے کہ وہ کس طرح اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے اپنی خوداری اور انا کا قتل کرتا
ہے۔ اور تو اور ایک معصوم زندگی کو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے استعمال کرلیتا ہے ۔ اس کی معصومیت کا فائدہ اٹھاتا ہے۔
اس کی اچھائی اور خلوص و وفا کو اپنے جوتے تلے روند کر یورپ کی روشنیوں میں اس قدر مصروف ہوجاتا ہے کہ اپنے اہل و
عیال کے ساتھ ساتھ اپنی منکوحہ کو بھی بھول جاتا ہے جس سے اس نے پورپ جانے سے پہلے نکاح کیا ہوتا ہے ۔ یہ ہمارے
معاشرے کا المیہ ہے یہاں پر ہر دوسرا بندہ اپنے سے بڑے گھر اور آسائشوں کے خواب دیکھ کرنت نئے طریقے اپنا کر کبھی کبھی
غلط سمت اپنا کر اپنے خواہشات کی تکمیل کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ خواہشاتی تکمیل ایک قسم سے ضد بن جاتی ہے جس کے لئے
ہمارے معاشرے کے ہر اچھا برا کام کرنےکے لیے تیار ہوتے ہیں ۔ اسی موضوع کو لیکر مصنفہ نے یہ افسانہ قلم بند کیا ہے۔
تانیثی پہلوؤں میں جو پہال نکتہ سامنے آتا ہے وہ زیر بحث افسانہ میں شامل عورت کے اندر شرم و حیاء کا مادہ ہے۔ جس کو
مصنفہ نے بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ ،روانی کے ساتھ کڑی بہ کڑی جوڑ کر پیش کیا ہے ۔ افسانہ کا جو مرکزی کردار ہے اس
کو خالصتًا مشرقی کردار کا جامہ پہنا کر مشرقیت ہی کے دائرے میں پیش کیا ہے۔ شرم و حیاء عورت کا خاصا ہے ۔ اسی ہی کے
زریعے سے کوئی عورت عورت ٹھرائی جاتی ہے۔ شرم و حیاء کے بغیر عورت عورت نہیں ہوتی بلکہ عورت کا ایک مجسمہ ہوتی
ہیں۔
اسی پہلو کو مصنفہ نے افسانہ میں پیش کیا ہے کہ کس طرح شاہد کی منکوحہ شاہد کے جانے سے پہلے اس سے ملتی ہے ان سے
بات کرتی اس دوران مصنفہ نے مشرقی عورت کا جو تصور پیش کیا ہے وہ دادو تحسین کے قابل ہیں۔
:عصمہ اک حیاء دار نگاہ اس پر ڈال کر ہولے سے صرف اتنا ہی کہہ سکی
عصمہ بھی ایک ایسا تنکہ ہے۔شاہد کو گئے پانچواں سال ہے ۔ اس کا کچھ پتہ نہیں کہ وہ کہاں ہے۔ کیا کر رہا ہے۔ تقدیر کے بے "
رحم دھاروں نے تنکے کو منجدھار میں پھنسا دیا ہے۔ پانی کے تیز گھمار میں آکر چکر کاٹے جارہاہے۔ کون جانے ۔ یہ گھماؤ سے
کبھی نکلے گا بھی یا نہیں
کون جانے
"کون جانے۔۔۔۔۔
ہم رشتہ کی شرط ہی یہ رکھیں تو شاید کوئی نہ کوئی تیار ہو ہی جائے"بلکل باجی۔۔۔ ہم صاف کہہ دیں گے کہ ہمیں جہیز کی قطعًا "
افسانہ "[9:07 ,26/08 pm] Xubair Khan:ضرورت نہیں۔ صرف لڑکے کو اعلٰی تعلیم کے لیے امریکہ بھجوا دیں۔
_:ہمارے معاشرے میں بہوکی تذلیل میں معصوم بچوں کی ارمانوں کا قتل
ہمارے معاشرےمیں عورت نے ہی عورت کو پریشان کیا ہوا ہے ۔ کسی نے ساس بن کر بہو کو ،تو کسی نے بہو بن کر ساس کو ،
کسی نے سوکھن بن کی اپنی سوکھن کو ،تو کسی نے نند بن کر بھابی کو۔۔۔۔پریشان کرکے زہنی اضطراب میں مبتال کر رکھا ہے۔
عورت کی عورت سے یہ دشمنی ابتداء سے ہوتی چلی آرہی ہے۔ اور یہ ایک قسم سے ہمارے معاشرے کا المیہ بھی ہے ۔ یہاں پر
بیٹے کی شادی کروا کر ساس سمجھنے لگتی ہے کہ میری بہو نے آکر مجھ سے میرا بھائی چھین لیا ہے۔ بہو کہتی ہے ساس بہت
ظالم ہے۔ نندیں بھی یہی شکایتیں لگا کر بیٹھ جاتی ہے ہائے بھائی تو بدل گئے ہیں یہ تو اب ہمارے وہ بھائی رہے ہی نہیں۔
یہ تمام منفی اذہان ہمارے گھروں کا سکون چھین کر ہمیں ایک قسم سے محاذ پر ال کھڑا کر دیتی ہے۔ جس کا نشانہ بچے ہی ہوتے
ہیں اور ان کے نفسیات۔۔۔
جس طرح مزکورہ افسانہ میں "نومی " اپنی ماں اور دادی کی لڑائی کا نشانہ بن جاتا ہے۔ ماں میں ممتا کا جذبہ ہوکر اپنے بچے کی
خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے اور دادی اس کو فضول خرچی سمجھ کر اپنی بیٹی کے بچوں کے نئے جوڑوں کی فکر
میں لگ جاتی ہیں۔
دو تین سو روپے کا۔۔ دادی اماں کی آنکھیں پھیل گئیں۔ پھر نومی سے بولی "نواب کا پتر ہے نہ تو دو تین سو روپے میں تو
ضرورتوں کا منہ بند ہوسکتا ہے۔ وہ تیری پھپھو کے دونوں بیٹے پاس ہوئے ہیں۔ میں نے انہیں ایک پیسہ نہیں دیا ریل گاڑی خریدنا
"ضروری ہے کیا۔
:-ممتا کی تزلیل
افسانہ میں تانیثی پہلوؤں میں ایک بے بس ماں کی ممتا کی تزلیل بھی دکھائی ہے۔ کہ کس طرح اس کی ساس اس کے جذبات و
احساسات پر کی قدر نہیں کرتی ۔ کس طرح وہ اس کی تزلیل کرتی ہے ۔ اس کو بات بات پر روکتی ٹوکتی ہے ۔ حتٰی کے اپنے ہی
بیٹے کی اوالد کو اس کا پسندیدہ کھلونا اس لئے نہیں دال کے دیتی کیوں کہ یہ اس کے نظر میں ایک فضول سی خواہش اور شاید
فضول کی شاہ خرچی ہوتی ہے۔ وہ اپنی بیٹیوں اور اس کے اوالد پر بیٹے کے اوالد کو اہمیت نہیں دیتی ن ہر جگہ اپنی بیٹیوں ہی کو
اہمیت دیتی ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے یہاں ہر گھر میں ساس اور نندیں ظالم بن کر بیٹھی ہوئی ہے ۔ اپنی بہوؤں کو دوسری
عورت سمجھ کر ان کے اوالد کے ساتھ بھی زیادتی کر جاتی ہیں۔ اور وہ یہ اس لئے نہیں کرتی کہ بہو ظالم ہوتی ہے بلکہ وہ یہ اس
لیے کرتی ہے کیونکہ وہ اپنی بہوؤں کو نفسیاتی طور پر قبول نہیں کیا جاتا۔ افسانہ میں ماں کی ممتا کی تزلیل اس انداز سے پیش ہوا
ہے کہ جب وہ نومی کی ماں اس کو ریل گاڑی دالنے کے لئے وعدہ کرتی ہے۔ اور وہ اس وعدے میں ناکام ہوجاتی ہے تو اپنے
بچے کو اپنے آپ سے دور ہوتا ہا محسوس کرتی ہے۔ دوسری بار جب وعدہ کرتی ہے پھر بھی جب اسے مایوسی کا سامنا ہوجاتا
ہے تو وہ ایک قسم سے اضطراب کا شکار ہوجاتی ہے اور اپنے شوہر سے کہتی ہے کہ کچھ بھی ہو جائے میرے بچے کا کھلونا
اس مہینے تو اجانا چاہیے وہ کوشش کرتا ہے۔ لیکن جب ساس کو پتہ چل جاتا ہے تو وہ چاالکی اور مکاریوں سے اپنے بیٹے کو
روک لیتی ہے جس پر سائرہ(نومی کی ماں) کی ہمت جواب دے دیتی ہے اور وہ اپنی ساس سے اپنے بیٹے کے حق کے لیے لڑنے
لگتی ہے۔ یہاں پر ایک قسم سےمصنفہ نے ماں کی تزلیل دکھائی ہے۔ کہ کس طرح ایک ماں کی اس بچے کے سامنے اس کی ممتا
کی تزلیل کی جاتی ہے۔ یہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے۔ یہاں ہر ماں اپنی بہو کو شاہ خرچ سمجھتی ہے ۔ اور سوچتی ہے کہ جو
فضول خرچی ہے وہ میری بہو ہی کرتی ہیں۔
اماں کیا کہہ رہی ہیں ۔ اماں خدا کے لیے ۔ " جمیل گھبرا گیا ۔ سائرہ بھی کمرے سے باہر نکل آئی ۔ اماں نے جو ڈرامہ لگایا تھا۔ اس
" پر اسے سخت غصہ آیا۔ وہ بھی نہ رہ سکی ۔دل کا غبار پھٹ پڑا۔
تعارف
افسانہ عینی رضیہ بٹ کے مذکورہ مجموعہ(آدھی کہانی) میں شامل افسانہ ہے ۔ جس میں انہوں نے جہیز کو ایک لعنت قرار کر
عینی کی بسی بسائی زندگی کی روداد اور بیٹی کو بوجھ سمجھ کر ہمارے معاشرے میں متوسط طبقہ کے منفی سوچ کو ایک
خوبصورت قصہ میں پرو کر پیش کیا ہے۔ افسانہ میں دو بہنوں کا کردار ہے ۔ عینی اور بنیی کا کردار۔
عینی کی شادی ہوتی ہے تو ان کے سسرال والے لڑکی سمجھ کر ان پر ان کے استطاعت سے زیادہ بوجھ ڈال دیتے ہیں ۔ جس کے
لیے عینی کا والد قرضہ لے لیتا ہیں۔ پھر بھی ان لوگوں کی ہوس اور اللچ نہیں مٹتی اور عین بارات کے دن گاڑی کے بجائے
سکوٹر کا مطالبہ کر لیتے ہیں کہ اگر سکوٹر کا ابھی بندوبست نہیں کر سکتے تو اس کی نقدی دے دیں۔
جس پر عینی کا والد طیش میں آکر رشتہ توڑ دیتا ہے۔ اس سے پہلے بھی عینی کا رشتہ اسی ناسور کی خاطر ختم ہوتا ہے۔ عینی کو
شدید صدمہ پہنچتا ہے۔ اس کی خالہ جذبات میں بنیی کو چھوڑ کر عینی کے ساتھ کامل کے نکاح کا کہتی ہےاور بنیی کو چھوڑ دیتی
ہے جس کے ساتھ کامل کا رشتہ پہلے سے طے ہوتا ہے۔
یہاں پر تانیثی حوالہ سے دو نکتے سامنے آتے ہیں ۔
جہیز کے نقصانات جبکہ دوسرا نکتہ جذبات میں آکر ہمارے بڑوں کے فیصلے جو ایک طرف نہیں بلکہ دونوں طرف چاہے مرد ہو
یا عورت دونوں کی زندگی خراب کردیتی ہیں۔ اس وقت تو معاشرے کے بے حسی کے خوف سے ،الزامات سے خود کو بچانے کے
لیے ہم اقدامات اٹھا لیتے ہیں ۔ اور یہی اقدامات ہمارے لئے ہمارے بڑوں کی طرف سے وہ زنجیریں بن جاتی ہے جن سے چھٹکارا
تا حیات منکن نہیں ہوتا۔ ہر وقت آگ میں جھلستے رہتے ہیں ۔ لیکن بے بس خاموش سماج کے طعنوں کے خوف سے ظلم برداشت
کرتے رہتے ہیں اپنے آپ پر جبر کرتے رہتے ہیں۔
:-جہیز کے نقصانات
جہیز جو کہ ایک ناسور کی طرح ہماری رگوں میں دوڑ کر ہماری زندگیوں کو تباہ و برباد کر رہی ہیں۔ اسی تانیثی پہلو کو افسانہ
میں رضیہ بٹ نے بروئے کار الکر ہندو سماج میں پھلنے والے اس غلط رسم کو جو مسلم لوگوں نے بھی اپنایا ہوا ہے کو موضوع
بنا کر پیش کیا ہیں۔ یہ خالصتًا ہندوستانی رسم و رواج ہے۔ جبکہ مسلم مذہب اسالم میں لڑکی کے والدین پر اس کے استطاعت سے
زیادہ بوجھ ڈالنے سے منع کیا گیا ہے۔
پہلے پہل جب لڑکیوں کی شادیاں آسان تھی ۔ زمانہ مادیت پرستی کے ناسور سے دور تھا ۔ تب جرائم اور گناہ بھی کم تھے ۔ جیسے
جیسے مادیت پرستانہ سوچ ہمارے ذہنوں پر غالب آتی گئی ویسے ویسے ہم پستی میں گر کر بہت سے جرائم و گناہوں سے دوچار
ہوئیں۔ جہیز النا لڑکے والے کی ہوس جب کہ لڑکی والوں کی مجبوری بن چکا ہے۔ ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ جلد از
جلد اپنے فرائض سے سبکدوش ہوکر اپنے جیتے جی اپنے اوالد کو ان کے گھروں میں ہنستا بستا دیکھے۔ لیکن بدقسمتی اب شادی و
بیاہ کی رسم ختم ہوکر گناہ زیادہ ہوگیا ہیں۔ لڑکے والے لڑکی والوں کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھا کر اس کے استطاعت سے زیادہ
بوجھ ڈالتے ہیں ۔ جس طرح زیر بحث افسانہ میں مصنفہ نے یہ بات عینی کے شادی کی رسومات کے زریعے سے بتائی ہے۔ کہ
کس طرح لڑکے والے ہوس اور اللچ کو لیکر لڑکی والوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر ان سے طرح طرح کے مطالبات کرتے ہیں
اور لڑکی واکے بغیر کسی چوں و چرا اسے پروا کرتے رہتے ہیں جس طرح افسانہ میں عینی کا والد قرضہ لے کر پورا کرتا ہیں ۔
یہ ہمارے معاشرے میں پروان چڑھنے واال ایک رسم ہے ۔ لڑکی والی کو مجبور اور ناتواں سمجھ کر ان پر بوجھ ڈال کر مطالبات
کرتے رہتے ہیں ۔ اور والدین اسے ہر حال میں پورا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
ملک صاحب نے بیڈروم کا دروازہ بند کیا ۔ پھر بریف کیس سرہانے والی سائیڈ ٹیبل پر رکھ دیا ۔ پھر بیڈ کے قریب کھڑی حسنہ “
سے بولے ۔"روپے کا بندوبست ہوگیا ہے۔ لے آیا ہوں۔
کس سے لیا ؟ حسنہ بیگم کے متفکر چہرے پر وقتی سکون آگیا ۔ لے لیا ہے کسی سے ۔
"ایک دوست نے ہاتھ پکڑ ہی لیا۔ بارات کے کھانے اور فرنیچر ہی کا پیسہ دینا ہے نا
تانیثی پہلوؤں میں زیر بحث افسانہ میں ایک نکتہ بیٹی بوجھ کا بھی ہے ۔ جو ہمارے معاشرے کی منفی سوچ کی نمائندگی کرتا ہے ۔
کہ ہم کس قدر عورت کو ناکارہ سمجھ کر اپنی سر سے اٹھا کر دوسرے کے کندھوں پر پھینکنا چاہتے ہیں۔ ہم بیٹی کو وہ مقام وہ
مرتبہ نہیں دیتے جو بیٹے کو دیتے ہیں ۔ بیٹی کو مذہب اسالم نے جو حقوق دئیے ہیں ہم نے ان کو ان سے محروم کر دیا ہیں ۔ بیٹے
کے مقابلے میں ہمارا سلوک بیٹی کے ساتھ ابتدا سے بہت برا ہوتا ہیں۔ لوگ ان کی پیدائش پر خوشی و مسرت کرنے کے بجائے
افسوس کرتے ہیں ۔زیر بحث افسانہ میں یہ نکتہ عینی کی شادی میں درپیش آنے والے مسائل پر نمودار ہوتا ہے۔ جب عینی کا والد
عینی کو بوجھ سمجھ کر اپنے سر سے اتارنے کے لئے سامان اکھٹے کرتا رہتا ہیں۔ لیکن وہ یہ بھول جاتا ہے کہ مادیت پرستی کے
اس دور میں اگر کوئی کسی کا بوجھ اپنے کندھوں پر لیتا بھی ہے تو ان کے لئے بھی ان کو معاوضہ چاہیے ہوتا ہیں ۔ مفت میں
کوئی بھی کسی کا بوجھ نہیں لیتا ۔ جس طرح عینی کے سسرال والے عینی کو اپنے گھر لے جانے کے لیے مختلف چیزوں کے
مطالبات کرتے ہیں ۔ اور عینی کا والد اپنے بعجھ کو کم کرنے کے لیے آنکھ بند کیے ہوئے ان مطالبات کو پورا کرتا رہتا ہیں ۔ یہی
سے ہمیں مصنفہ نے صاف الفاظ میں واضح کیا ہے کہ بیٹی بوجھ ہوتی ہیں۔ جسے اتارنے کے لئے ہی ہمارے والدین کچھ دے دال
کے لڑکی کے سسرال والوں کے کندھوں پر اپنا بوجھ ڈالتا ہیں ۔
جہاں اتنا کچھ دے رہے تھے سکوٹر بھی لے دیتے۔ بیٹی کا بار سر سے اتر جاتا۔ بیٹی کا بار سر سے اترا نہیں تھا کہ قرضے کا بار
سر چڑھ گیا۔
درجہ باال اقتباس میں مصنفہ نے ہمارے منفی سوچ کو ابھار کر اس پر طنز کے نشتر چالئے ہیں۔ اور بتایا ہے کہ یہ ہمارے
معاشرے کا المیہ ہے جہاں بیٹے کو وارث اور بیٹی کو بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ جسے اپنے سر سے اتارنے کے لئے لڑکی کے
سسرال والوں کے نت نئے فرمائشیں پوری کرکے یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہاں واقعی بیٹی بوجھ ہوتی ہیں .جسے اتارنے کے لئے
والدین ان کے سسرال والوں کو قیمت ادا کراپنے سر سے اتار لیتے ہیں ۔
تعارف
افسانہ ذات کا کرب رضیہ بٹ کی مزکورہ افسانوی مجموعہ (آدھی کہانی) میں شامل افسانہ ہے جس میں انہوں نے عورت کے اندر
ممتا کے جذبے کو پیش کیا ہے۔ خدائے خالق نے جس طرح عورت کے اندر بچے جننے کا مادہ رکھا ہے۔ اس کی تکمیل عورت
کے لیے بہت ضروری ہوتی ہے۔ افسانہ میں مرکزی کردار سلمٰی کا ہوتا ہے جو اپنی جوانی اپنے بھائیوں کی پرورش اور دیکھ
بھال پر قربان کر لیتی ہے لیکن اس کے اندر جو تشنگی جو ممتا کا جذبہ ہوتا ہے وہ اس کے گھٹتی عمر کے ساتھ بھی نہیں ختم ہوتا
بلکہ عمر کے ساتھ ساتھ وہ ایک نیا رخ اختیار کر لیتی ہیں ۔ جس کی تکمیل کے لیے وہ شادی کرتی ہے ناصر جو پہلے سے شادی
شدہ ہوتا ہے اس کے بچوں کو پالتی ہے پھوستی ہے لیکن اس کی بھی اس کے اندر جو تشنگی ہوتی ہے وہ ختم نہیں ہوتی ۔وہ ایک
قسم سے ڈپریشن میں چلی جاتی ہے جب ناصر اسے انکار کرکے اپنے بچوں کی پرورش پر لگاتا ہے ۔ اسے ایک قسم سے اپنا آپ
نامکمل ادھورا محسوس ہوتا ہے۔ وہ لڑتی ہے جھگڑتی ہے اپنے شوہر کے ساتھ اور آخر کار اسی تکمیل میں ہی خالق خداوندی سے
جا ملتی ہیں ۔
ممتا کا جزبہ
یہ ایک اٹل حقیقت ہے ۔ عورت کو خدا تعالٰی نے یہ شرف بخشا ہے کہ وہ نسل کو پیدا کرے گی۔ یہ نظام فطرت ہے ایسا نہ کرنے
سے عورت خود کو ایک قسم سے ادھورا محسوس کرتی ہے ۔ وہ اپنے وجود کی تکمیل چاہتی ہیں ۔ جس کے لیے وہ شادی کے
بندھن میں بنتی ہیں اپنے وجود کی تکمیل کو ممکن بناتی ہے ۔ جس طرح افسانہ میں سلمٰی کا کردار ہے جس کے اردگرد بچے تو
ہوتےہیں لیکن ان کی اندر جو ممتا کا جذبہ ہوتا ہے وہ اضطراب میں ہوتا ہے ۔ چاہتا ہے کہ وہ بھی اپنے ہی وجود سے ہی بچے کو
جنے ۔
یہ ایک فطری بات ہیں جو ہر عورت کے اندر موجود ہوتی ہیں۔
جس کے لیے ہر عورت سے گزر جاتی حتٰی کہ جان بھی دے دیتی ہے لیکن اپنی مضطرب ممتا کو تسکین دئیے بغیر نہیں رہتی۔۔۔
مامتا "حقیقی محبت کا نام ہے جو ایک ناقابل بیان احساس سے آشنا کراتی ہے ،ایسا احساس جو راحت و آرام اور لذت آفرینی سے
مملو اور بھرپور ہوتاہے ،یہ ایک طرح کی محبت ہے لیکن ان عام محبتوں سے بالکل منفرد جو اس خود غرض دنیا میں اپنے
مطلوبات کی برآوری کے لئے کی جاتی ہے ،اس محبت میں سچائی کا سورج اپنی تمام تر آب و تاب کے ساتھ چمکتا اور روشن
رہتاہے ،یہ سچی محبت ایک مستقل حقیقت ہے ۔
دنیا کی عام محبتوں اور اس انوکھی محبت میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ دنیاوی محبت میں خودغرضی کا لیبل چسپاں کرکے
اسے حسین بنانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن چونکہ اس محبت کا تعلق روح کی گہرائیوں سے ہے اس لئے اس میں خود غرضی
جیسے لچر اور پوچ احساسات کا قطعی دخل نہیں ہوتا ،بالکل بے غرض اور بے لوث ہوتی ہے یہ محبت ..۔
ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے'':ہر عورت کی فطرت میں مامتا کا کچھ نہ کچھ ضرور اثر ہوتاہے اور یہ مامتا اس وقت بڑی شدت
"سے جاگ اٹھتی ہے جب وہ کسی ایسے کو تکلیف میں مبتال دیکھتی ہے جس کااس سے کچھ تعلق ہو
سلمٰی کیسی اٹھا لیتی ہواسے۔۔۔ یہ بچہ ہے معصوم ہے بے ضرر۔۔۔ مہکتا ہوا پھول۔ بہت شوق ہے بچوں کا ۔۔ کیا کروں شوق سے
بھی بڑھ کر کوئی جذبہ ہے"۔۔۔۔
سماج کا دکھ
افسانہ میں ایک اور تانیثی پہلو میں سماج کا دکھ بھی مصنفہ نے دکھایا ہے ۔ کہ کس طرح سماج میں رہ کر عورت اپنے مقام سے
محروم ہوتی جاتی ہے۔ قربانی کا بکرا سمجھا جاتا جس کا جی چاہا چھری عورت کے گردن پہ پھیری اور بات ختم ۔ عورت کی تو
کوئی قدر ہی نہیں نہ ان کے احساسات نہ اس کے جذبات کے۔
ماں باپ کے گھر ہوتی ہے تو ماں باپ اس کو اپنے مطلب کے لیے استعمال کرتے ہے ناقص چیز سمجھ کر جس طرح افسانہ میں
سلمٰی کی ماں پیسوں کی مشین سمجھ کر اس کی شادی وقت پر نہیں کرواتی۔ شوہر کے گھر جب جاتی ہے تو شوہر اس کو اپنے اور
بچوں کی دیکھ بھال کے لئے رکھ لیتا ہے اس کے جذبات کو مجروح کرتا رہتا ہے۔ یہ اپنے جذبات کا احساس بار بار کرتی ہے
ناصر جو اس کا شوہر ہوتا ہے وہ اس کو بار بار جواب دے کر اسے منع کرتا ہے کہ ہمارے بس پانچ اوالدیں ہیں ہمیں مزید نہیں
چاہیے۔ سلمٰی کا کوکھ تو مضطرب ہوتا ہے وہ تو چاہتی ہے کہ وہ خود اس عمل سے گزرے ۔ خود ہی بچے کو جنے جو اس کے
کوکھ سے پیدا ہوا ہو۔۔۔ لیکن ظالم شوہر ظالم بن کر بار بار اس کے جذبات کی استحصال کرتا ہے ۔ سلمٰی سے اس کے اس خواہش
پر لڑتا ہے جھگڑتا ہے لیکن باز نہیں آتی ۔ حتٰی کہ نفسیاتی مریض بن جاتی ہیں۔
یہ عورت کی ذات میں شامل ہے وہ جب چھوٹی ہوتی ہے تو وہ گڑیا اور گھریلو چیزوں ہی کی طرف مائل ہوتی وہ اس لئے نہیں کہ
اسے وہ ال دی جاتی بلکہ وہ اس لئے کیوں کہ اس کی فطرت میں اس کی چاہ ہوتی ہے ۔ وہ چاہتی ہے کہ اس کی بھی اپنی ایک اوالد
ہو ،خیال رکھنے واال شوہر ہو۔ اپنا سیک چھوٹا سا مکان ہو اور اس مکان کی وہ ملکہ ہو۔ یہ عورت کی فطرت میں خدا کی طرف
سے شامل ایک قسم کا غدود ہوتا ہے۔ جو بلوغت کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو اس کے دل و دماغ پر حاوی کرتا ہے۔ افسانہ میں بھی
مصنفہ نے ایک بے چین کوکھ کی کہانی بیان کی ہے کہ کس طرح عورت کو خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے کوکھ سے ہی اپنی ہی
اوالد کو جنے نا کہ دوسروں کا پالے۔ عورت کے اپنے بھی جذبات ہوتے ہیں احساسات ہوتے ہیں بار بار دھبانے سے وہ عورت کو
نفسیاتی امراض میں مبتال کردیتی ہے ۔ جس طرح افسانہ میں سلمٰی کا کردار ہوجاتا ہے۔
یہ سلسلہ بھی ڈیڑھ سال تک چلتا رہا لیکن ناصر نے ضد چھوڑی نہ سلمٰی نے ۔۔۔ وہ تو اپنی ممتا کے تقاضوں کے سامنے بالکل ہی
بے دم ہوگئ ۔۔۔ اچھی خاصی جنونی ہوگئی ۔ ڈپریشن سے دورے پڑنے لگے۔ اور جب جذبوں کی تکمیل کا جنون اس حد تک بڑھس
کہ جان پر بن آئی۔ تو ڈاکٹروں نے ناصر کو مشورہ دیا ۔
" ان کی ممتا کو تسکین دینے کے لیے بیٹا چاہیے ورنہ جنون تشویشناک صورت اختیار کر جائے گا۔
تعارف
افسانہ خواب رضیہ بٹ کی مزکورہ افسانوی مجموعہ (آدھی کہانی) میں شامل افسانہ ہے جس میں انہوں نے ایک خواب کے
زریعے سے افساںہ کے کردار عمر کو اس کے مستقبل سے واقف کیا تھا۔کہ کس طرح عمر خواب دیکھتا ہے اور کس طرح وہ
حقیقت کا رخ اختیار کرتی ہے۔ افسانہ میں جیسے جیسے واقعات عمر کے آنکھوں کے سامنے آتے رہتے ہیں وہ ششدر میں مبتال
ہوتا رہتا ہے۔اس ڈراؤنے خواب سے پیچھا چھوڑانے کی انتھک سعی کرتا ہے لیکن ناکامران رہتا ہے۔ اس کا خواب اس کا تعاقب
کرکے اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں ۔کبھی پیچھا نہیں چھوڑتی۔
ہم میں سے بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے مستقبل کو سنوارنے کے لیے طرح طرح کے حربے اپناتے ہیں ۔ لکیریں پڑھواتے
ہیں۔ پامسٹری کی کتابوں میں دیکھتے ہے یہ سوچ کئے کہ میں اپنے کل کو سنوارنے کی کوشش کرونگی/کروں گا۔ لیکن یہ بھول
جاتے ہے کہ یہ نظام سب خدا کے ہاتھ میں ہے وہ جب کہے گا وہ کام خود بخود ہو جائے گا۔ کسی کی مجال ہی نہیں ہوگی جو اس
کے برابر آکر اس کام کو رکھوا دیں۔ یہ خواب یہ تعبیریں ہمیں ذہنی پریشانی کے سوا کچھ نہیں دے سکتی اگر انسان کو اپنا
کل /مستقبل معلوم ہوتا تو وہ کبھی بھی آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرتا ۔وہی کا وہی رہتا ۔
ہم مستقبل جاننے کے لیے اکثر بے چین ہوتے ہیں ۔ نجومیوں کو ہاتھ دکھاتے پھرتے ہیں ۔ پامسٹری کی کتابوں پر مغز ماری کرتے
ہیں ۔روحانیت سے فیض حاصل کرکے آنے والے دور کی جھلک دیکھنے کے متمنی ہوتے ہیں۔خواب دیکھتے ہیں تو اسے مستقبل
کے حوالے سے تعبیروں کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
لیکن یہ ساری باتیں’سارے عمل
یہ ساری کاوشیں ہم بہتر مستقبل اور اچھے دور کو پانے کے لیے کرتے ہیں۔
یہ کبھی نہیں سوچتے کہ اچھا برا جنم جنم کا ساتھی ہے۔ دکھ سکھ کی سانجھ ہے۔ روشنی اور اندھیرے الزم و ملزوم ہیں۔
تانیثی حوالہ سے اگر افسانہ کا جائزہ لیا جائے تو افسانہ میں جو پہلو مصنفہ نے پیش کیا ہے وہ عورت کے اندر ناشکری کا مادہ
ہے۔۔
جسکا مقدار عورتوں میں کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے۔ اگرخدا تعالٰی ان کو ضرورت کے موافق سامان عطا بھی کرے تو یہ اس کو
غنیمت نہیں سمجھتیں ،نہ اس پر خدا کا شکر کرتی ہیں ،بلکہ ناشکری کرتی رہتی ہیں کہ ہائے! ہمارے پاس کیاہے ،کچھ بھی تو
نہیں۔ افسانہ میں عورتوں کے نفسیات کی اس منفی پہلو کو حسنہ کے زریعے پیش کیا ہے ۔ جو اپنے شوہر کو اپنے دیور اور
دیورانی کے بارے میں بتاتی ہیں ۔ کہ کس طرح وہ باہر ملک میں آرام و آسائشوں کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ شوہر اس کو اپنی
حاالت پر صابر و شاکر
رہنے کا بولتا ہے جس پر وہ اس کے ساتھ بحث میں لگ جاتی ہیں۔
حسنہ ایک دن ہنستے ہوئے ناصر سے کہنے لگی "ناصر جتنے پیسے عمر صرف امی ابو کع بھیج رہا ہے ۔ اتنی تو ہماری پوری
"تنخواہ بھی نہیں۔
ہاں وہاں اسے بہت زیادہ تنخواہ جو ملتی ہے۔ ناصر بوال ۔ تم نہیں جاسکتے باہر۔ ناصر ہنس پڑا ۔۔۔"حسد کرنے لگی ہو ان سے"۔
حسنہ ناراض ہوگئی ۔ خوب سے خوب تر کی تالش کو حسد تم ہی کہو گے۔ ناصر ہنس پڑا ۔ "قسمت پر شاکر رہنا چاہیے"۔
درجہ باال اقتباس میں شامل عورت کے اندر ناشکری کا جذبہ فطری ہے۔ کوئی اس کا اظہار کچھ زیادہ کرتی ہے کوئی کم ۔ لیکن یہ
جذبہ ہوتا ضرور ہے۔
حدیث میں بھی عورت کی اس صفت کا زکر آیا ہے جس سے معلوم ہوتاہے کہ ناشکری کامادہ عورتوں میں ہمیشہ سے ہے۔ حضور
:ﷺ فرماتے ہیں