Professional Documents
Culture Documents
جوئیہ بلوچ - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا
جوئیہ بلوچ - آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا
جوئیہ قدیم اترپردیش کے راجوں کی اوالد میں سے ہیں جو مدل ایج میں ہیاں آباد ہوئے تھے جوئیہ قبیلہ کو مختلف ادوار
سے ہی مختلف ناموں سے جانا جاتا رہا ہے۔ ایودھیا میں ہجرت کرنے پر انھیں وہاں سے یودھا (جوئیہ کا خطاب مال) بالیا
جاتا تھا۔ لفظ جوئیہ سنسکرت زبان کے لفظ جودھا (یودھا) سے نکال ہے جس کے معنی جنگجو کے ہیں اور ِا ن کے جِد امجد
کا نام بھی یدھشترا تھا جس کے معنی میداِن جنگ کا شیر۔
لفظ جوئیہ سنسکرت زبان کے لفظ جودھا (یودھا) سے نکال ہے جس کے معنی جنگجو کے ہیں اور ِا ن کے جِد امجد کا نام
بھی یدھشترا تھا جس کے معنی میداِن جنگ کا شیر۔
جوئیہ کو قدیم دور میں یودھیہ کے نام سے پکارا جاتا تھا جو ایک قدیم قبائلی سلطنت کے مالک تھے۔ یودھیا حکمران جو
دریائے سندھ اور گنگا ندی کے درمیان کے عالقے میں رہتے تھے ،ان کا ذکر پانینی کی اشٹادھیائی اور گنپتھ میں ملتا ہے۔
مہابھارت ،مہاموری ،برہت-سمہتا ،پورانوں ،چندرویاکرن اور کاشیکا میں ان کے اور بھی حوالہ جات موجود ہیں۔ یہ حوالہ
جات قروِن وسطٰی کے ابتدائیی دور کی تحریروں اور 500قبِل مسیح کے اوائل سے لے کر 1200عیسوی تک کی تاریخ پر
محیط ہیں۔ وہ تقریبًا 200قبِل مسیح سے 400عیسوی تک اپنی طاقت کے عروج پر تھے۔
بعد میں انھوں نے جوئیہ کے نام سے حکومت کی۔جوئیہ قریبًا تیسری صدی عیسوی سے چھٹی صدی عیسوی تک جنگل
دیش (جانگال باڑی) ،ہریانہ ،بھٹیانہ اور ناگوڑ کے عالقے کے خود مختار حاکم اور نڈر جنگجو رہے۔ جنگل دیش سے پہلے یہ
قبیلہ سکندر اعظم کے دور میں یعنی 300قبل مسیح میں مرکزی پنجاب یعنی ملتان کے گرد و نواح کے عالقوں کا حاکم
تھا۔ جنگل دیش میں آج کے کئیی اضالع مثًال جیسلمیر ،بیکانیر ،شری گنگا نگر ،بھٹنیر ،جودھ پور ،جئے پور ،مارواڑ ،ترن
تارن صاحب ،جیکب آباد ،کشمور ،رحیم یار خان ،راجن پور ،بہاولپور ،بہاولنگر ،اوکاڑہ ،وہاڑی ،لودھراں ،پاکپتن شریف
(اجودھن) ،ساہیوال ،مظفر گڑھ ،ملتان ،ڈیرہ غازی خان اور ڈیرہ اسماعیل خان کے عالقے شامل ہیں۔
جوئیہ باقی قدیم قبائل کی طرح جنگجو فطرت کے مالک اور نڈر ہیں۔ جنھوں نے ہر دور میں جنگ و جدل کا سلسلہ جاری
رکھا۔ جوئیہ نے اپنی جنگی خصلت اور جبلت کی بدولت دریائے ستلج کے کنارے سکندر اعظم کا راہ روکا اور دنیا کے فاتح
کے قدم یہیں روک دیے۔ جوئیہ نے سکندر اعظم کے وقت کے جدید ہتھیاروں کا مقابلہ بانس کے بنے تیروں اور لوہے کے
بالوں سے کیا۔ اس کے بعد یہ ملتان سے جنگل باڑی کی طرف کوچ کر گئے۔ راجا سہن پال خان جوئیہ نے چولستان میں قلعہ
مروٹ بنوایا جہاں ان کی اوالد تین پشتوں تک قابض رہی۔ تاریخ بھٹیاں میں درج ہے کہ راجا سہن پال خان جوئیہ والئ
قلعہ مروٹ ایک بہادر اور نڈر حکمران تھا جس نے بھٹی راجپوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ مذکورہ کتاب میں درج ہے کہ راجا
سہن پال خان کا سکہ بھٹنیر اور کرولی تک چلتا تھا اور یہ راجا انصاف پسند بادشاہ تھا۔ راجا سہن پال خان کی شادی
انوپ گڑھ کے مہاراجا جام چوہر سمیجہ سمہ جڈیجہ کی چہیتی بیٹی سے ہوئی۔ مروٹ کے قلعہ پہ بعد میں پنوار
راجپوتوں نے قبضہ جما لیا۔ کامران اعظم سوہدروی کی کتاب کے مطابق ان کے ایک معروف راجا الک مل خان جوئیہ بھی
تھے جو شاید سکندر اعظم کے لشکر کے خالف لڑے۔ جنگل دیش میں راٹھور راجپوتوں کی آمد سے قبل جوئیہ سب سے
زیادہ طاقتور قبیلہ تھا جن کے 700دیہات باگڑی نگر (بیکانیر) اور 600دیہات جوئیہ چھاؤنی میں تھے۔ جیت پور ،کوہانہ،
مہاجن ،پیپسر ،یدھسر جیسے بڑے بڑے دیہات جوئیہ کے ہی زیِر تسلط تھے۔ بیکانیر میں راٹھور راجپوتوں کی آمد سے قبل
اس عالقے کا سب سے طاقتور راجا" ،ٹھاکر شیر خان جوئیہ" تھے ،جو ایک بڑے خطے کے مالک تھے جن کا دار الحکومت
بھروپال کا عالقہ تھا۔ ٹھاکر شیر خان جوئیہ بہت بہادر و دلیر ،نڈر ،خود مختار ،ضدی جنگجو اور عوام کی نظروں میں
مقبول راجا تھے۔
جنگل دیش میں جوئیہ نے کئیی دوسرے راجپوت قبائل مثًال بھٹی ،چالوکیہ ،پنوار اور راٹھور وغیرہ کے ساتھ جنگ و جدل
کا سلسلہ جاری رکھا۔ جب محمود غزنوی کے لشکر سومنات کا سونا لوٹ کر جا رہے تھے تو ملتان کے قریب انکا کئیی بار
سامنا جوئیہ سے بھی ہوتا۔ جوئیہ دھرتی کے دشمنوں کو بار بار یاد کراتے کے دھرتی کے بیٹے زندہ ہیں اور کئیی حملہ
آوروں اور لٹیرے گروہوں کو جوئیہ نے تگنی کا ناچ نچوایا۔ نویں صدی عیسوی میں اس خاندان کے راجا شیوخان جوئیہ
جو ملدوٹ قلعہ کے مالک تھے نے غزنوی حملہ آوروں سے جنگ کی۔
پاکستان میں جوئیہ پنجاب ،سندھ اور بلوچستان میں مقیم ہیں۔ بھارت میں جوئیہ راجستھان ،ہریانہ ،یوپی اور پنجاب
میں آباد ہیں۔ جوئیہ اب بھی ستلج کے تمام کناروں کو وٹو/بھٹی کی سرحدوں سے لے کر تقریبًا اس حد تک پکڑے ہوئے ہیں
جتنا کہ موجودہ پاکستان کے بہاولپور اور ملتان ڈویژنوں کے ذریعے دریائے سندھ سے ہم آہنگ ہے۔ اگرچہ بھٹیوں نے انھیں
کہروڑ سے نکال دیا تھا اور بعد میں جب ان کی ملکیت ریاست بہاولپور کا حصہ بن گئی تو وہ اپنی نیم آزادی کھو بیٹھے۔
وہ اب بھی بیکانیر میں اپنی قدیم نشست بھٹنیر کے بالکل نیچے پرانے گھگر کے بستر پر ایک پٹی رکھتے ہیں۔ یہ الہور،
فیروز پور کے کچھ حصوں اور دراجات اور مظفر گڑھ کے نچلے دریائے سندھ پر ،تحصیل پپالں (ضلع میانوالی) میں بھی
کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ وہ دریائے جہلم کے کنارے پر چند دیہاتوں پر قابض ہیں اور ضلع سرگودھا کی تحصیل شاہ
پور میں اور تحصیل خوشاب اور ضلع خوشاب کی تحصیل نورپور کے تقریبًا چھ گاؤں خاص طور پر حویلی چراق اور
عینو کے جوئیاں ضلع خوشاب کے سب سے بڑے زمیندار ہیں۔بہت کم مورخین کا کہنا ہے کہ وہ سالٹ رینج یا جود کے
پہاڑوں میں بھی پائے جاتے ہیں اور اپنی شناخت جوڈیا یا یودھیا بلوچ سے کرتے ہیں۔
جوئیہ بلوچوں کی آبادی بلحاظ مذہب اسالم ،ہندومت اور سکھ مت میں تقسیم ہے۔ پاکستان میں پنجاب ،سندھ اور
بلوچستان میں جوئیہ زیادہ تر اسالم مذہب کے پیروکار ہیں۔ جوہیہ کے تین سرداران (لونے خان ،دونا خان اور چونن خان)
جو اترپردیش کے قدیم بلوچوں کی اوالد تھے انھوں نے 12ویں صدی عیسوی میں معروف صوفی بزرگ بابا فرید شکر گنج
کے ہاتھ پہ اسالم قبول کیا جن کا مزار اجودھن موجودہ پاک پتن میں ہے۔ راجستھان اور ہریانہ میں ہندو مت اور اسالم
مذہب کے ماننے والے ہیں۔۔ جوئیہ نے 11ویں صدی میں اسالم قبول کیا تھا۔ ِا ن کے ایک راجا راؤر سنگھ کے بیٹے پھتح
سنگھ (فتح سنگھ) نے اسالم قبول کیا تو انکا اسالمی نام قطب الدین خان جوئیہ رکھا گیا انہی کہ نسبت سے ان کی ایک
گوت "قطب جوئیہ" کہالتی ہے۔ رائے قطب الدین خان جوئیہ کا مزار ٹھٹھہ سندھ میں ہے۔ ولی اللہ الیاس سیری کا تعلق
بھی جوئیہ خاندان سے تھا۔
پاکپتن شریف کا پرانا نام جودھن یا اجودھن تھا جو جوئیہ کے خاندانی نام سے منسوب تھا۔وہاڑی شہر کی بنیاد جوئیہ
کے سردار ،راجا فتح خان جوئیہ نے رکھی۔ اسی طرح رائے فرید خان جوئیہ نے فرید کوٹ کو آباد کیا۔ آلہ آباد ،بیجا گڑھ،
بھٹنیر ،دریائے گھاگھرا اور دریائے راوی و سندھ کے عالقوں میں کھدائی کے دوران ملنے والے اوزاروں ،برتنوں ،سکوں اور
دیگر تاریخی اشیا سے معلوم ہوتا کہ جوئیہ اس عالقے کے بہت طاقتور حکمران تھے جن کا تجارتی ،ملکی ،معاشی اور
معاشرتی نظام خاصہ مضبوط تھا۔ جئے پور راجستھان کے میوزیم میں جوئیہ کے دوِر حکومت کی رکھیں گئیں پختہ
اینٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جوئیہ کافِن تعمیر اور معاشرے کی بناوٹ اور ترقی میں خاصہ کردار رہا اور یہ شواہد جوئیہ
کے شاندار ماضی کا عکاس ہیں۔ ملتان بار ،آج تک جوئیہ بار کے نام سے مشہور ہے۔
قدیم دور کے جوئیہ ،یودھا بلوچ اور راجا کا لقب استعمال کرتے رہے ہیں۔ موجودہ دور میں پاکستان کے جوئیہ راجا ،رانا
اور رائے کے القاب استعمال کرتے ہیں۔ اس کے عالوہ خان ،میاں ،سردار ،نواب ،رئیس اور وڈیرہ وغیرہ کے خطابات بھی
استعمال کرتے ہیں۔ بھارت کے جوئیہ ٹھاکر ،رانا ،بنہ ،خان ،یودھا بلوچ ،سنگھ اور سردار کے القاب استعمال کرتے ہیں۔
کتاب تاریخ جوئیہ قوم کے مطابق جوئیہ جو قدیم بلوچوں کی اوالد تھے ان کی نسل کے ذیلی قبائل میں مندرجہ ذیل
شامل ہیں :
ابھريرے ،اجيرے ،ادميرے ،ادالنے ،ادوکے ،اسمعيل کے ،اسحاق کے ،الپہ ،امدانی ،ايبک ،یودھا بلوچ کے ،جتوئیہ بلوچ کے،
جودھا بلوچ کے ،خان بلوچ کے ،بلوچ جوہیہ کے ،بالنے ،بدانے ،بلوکے ،بہادرکے ،بيگ کے ،برخے کے ،بالے کے ،بگريرے ،باھورانے،
بھلوکے ،بھکرانی ،بھراج کے ،بھورے کے ،بھڑيرے ،بھيکھارانی ،بلھياری ،بٹٹرے ،برے کے ،بلوچ خيل ،برہان کے ،بلیال کے،
پانجيرہ ،پہلوان کے ،پہاڑے کے ،پھتورا ،پہاڑے خيل ،پہنے خيل ،تگيرے ،ٹھٹھے واليے، ،جتوئی بلوچ کے ،جلمیرے ،جودھيکا،
جلوکے ،جسپليرے ،جلوانے ،جھنڈے کے ،جونے کے ،جدھيانے ،جوگے کے ،جوئيہ زئی ،جوئيہ خيل ،جہميرے ،جھنڈے خيل،
جين کے ،جليرے ،جہاں بيرے ،جتيرہ ،جلويرہ ،جماليکے ،جالل کے ،جندے کے ،جاگن کے ،چنگے کے ،چاؤيکے ،چھلڑے ،چکوکا،
چابہ ،چونڈرے ،حاجی کے ،حسن کے ،حامندکے ،حمديرے ،حسين خيل ،خصر کے ،خانيکے ،خيراکے ،خان خيل ،دلے کے،
دولتانے ،دہکو ،دالورکے ،دليلے کے ،ڈھيڈے ،ڈورے خيل ،ڈھبکڑے ،راضائے خيل ،رانا ،راو ،راجپوت ،راٹھکے ،رانوکے ،رمديرے،
رنديرے ،رونت ،رانے کے ،رتھال کے ،راضی خيل ،راجيکا ،زيرک ،زمانيکا ،سنتيکے ،سوائے کے ،سلديرے ،سليرے ،سلميرے ،سادہ
کے ،ساھوکے ،سليال کے ،سرون کے ،سيلم کے ،سوڈھے کے ،سيسی ،سيرانی ،سيلم خانی ،سيلم رائے ،سجن کے ،سادھورانی،
سخبرانی ،سپرانی ،سباجی ،سابوکے ،سمليرے ،سلجيرے ،سيکر ،سمنداکے ،ساوند ،سوھنے خيل ،سيکھوکے ،سريرے ،سال،
ھوکا ،ساہکا ،ستارکے ،سماعيل کے ،شنيکی ،شادی خيل ،شادوکے ،شيخوکے ،شالبازی ،شاميکے ،شريف خيل ،صادق کے،
صابوکے ،صوبہ کے ،ظريف خيل ،عالم کے ،عاکوکے ،عسکيرے ،غازيخنانے ،غالم محمد خيل ،فريد کے ،فتويرے ،فتوالں کے،
فقير ،فيروزکے ،فصلوخيل ،فتح خيل ،قائم کے ،قاسم کے ،کبے کے ،کالسی ،کمرانی ،کليرے ،کھيواکے ،کورائی بلوچ کے،
کميرے ،کالو ،کريانی ،کامل کے ،کھپريرے ،کوڈيکے ،گاگن کے ،گاڈی واھنے ،گوگا ،گراج کے ،گندڑا ،گاموں کے ،گنجو ،گاھنڑے
خيل ،گگريڑے ،گالبی ،گبوری ،گھليکا ،گاموں کے ،الليکا ،لکھويرے ،لطفيی ،لکھوکے ،لوھيے کے ،لنگاھے کے ،الھر ،لنگرے کے،
ليدھرا ،لعل خيل ،ملکيرے ،ممديرے ،مدوکے ،مگھيرے ،مديرے ،ممليرے ،مموں کے ،مومے کے ،مسے کے ،ماہمے کے ،معراج کے،
مانڈل ،مہروکے ،مادھورانی ،منگھير ،مسوانہ ،مليرے ،مامورکے ،محمد کے ،محرم خيل ،موسی خيل ،ماٹن ،مانک ويرے،
مغالنے ،محکم خيل ،محمد خيل ،موسی کے ،مستقیم کے ،نہال کے ،نسريرے ،نامے کے ،نہالکہ ،نصيرکے ،نورخيل ،ہمديرے،
ولی کے ،واھيہ ،وزيرکے ،وسلديرکے ،وساؤے خيل ،واگہہ ،وڈجوئيہ ،ولياکے ،ہراج کے ،يکتاری ،يونس کے ،يوسف کے ،يارے
خيل ،يسين کے ،ياراکے۔
جوییہ
کے دوِر حکومت کی رکھیں گئیں پختہ اینٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جوئیہ کافِن تعمیر اور معاشرے کی بناوٹ اور ترقی
میں خاصہ کردار رہا اور یہ شواہد جوئیہ راجپوتوں کے شاندار ماضی کا عکاس ہیں۔
اکبر کے دور میں فتح پور (موجودہ وہاڑی) شہر اور ریاست کے بانی۔
میاں ممتاز خان دولتانہ (وہاڑی سے) وزیر اعلٰی پنجاب ،پاکستان۔
نواب محمد بخش لکھویرا :
زمیندار آف قصور۔
ایڈووکیٹ بہاولپور۔
مغل دور میں جوئیہ کے کئیی معروف سرداران گذرے ہیں جن کا ذکر آئین اکبری میں بھی ہے جن میں:
رائے جالل الدین خان اور رائے کمال الدین خان شامل ہیں جو پنجاب کے بہت نامور زمیندار تھے۔
رائے فتح محمد خان جلوانہ اس قبیلہ کے جلوانہ شاخ سے ایک باوقار ،بہادر اور مشہور شخصیت تھے۔
اورنگزیب عالمگیر کے دور میں جوئیہ کے سردار ،نواب سلیم خان لکھویرا نے حویلی سلیم گڑھ (موجودہ فرید کوٹ) کی
بنیاد رکھی۔
پاکستان میں عبد الستار اللیکا اور میاں ممتاز اس قبیلہ کے نامور سیاسی شخصیات تھیں جو کسی تعریف کے محتاج
نہیں۔
پروفیسر غالم رسول اور میاں آفتاب اقبال جوئیہ بھی اس قبیلہ سے معروف ادبی اور تحقیقی شخصیات میں سر فہرست
ہیں۔
سیاست میں ملک ظفر جوئیہ کا مقام بھی منفرد اور خاص رہا۔
شاہ آفرین جوئیہ شاہ فرخ سیار کے شاہی درباری شاعر (1719-1713ء)۔
ممتاز فوٹوگرافر۔
ایم پی اے۔
ایم پی اے۔
بلند شہر یوپی سے خاکسار تحریک کے غازی اور دھرتی کے حریت پسند رہنما۔
جوئیہ قبیلہ کے لوگ دریائے ستدرو (ستلج) کے کنارے ان عالقوں میں آباد تھے جو بعد میں آج کے صوبہ پنجاب (پاکستان)
میں ریاست بہاولپور کا حصہ بنے۔ہندوستان کی ریاست ہریانہ میں روہتک کے سونی پت قلعے میں ستلج اور یمنا ندیوں کے
درمیان کے عالقوں میں بھی یودھی قبیلے کے سکے ملے ہیں۔ ان سکوں پر سنسکرت میں "یودھے گنسیا جے" کے نام سے
نشان لگایا گیا ہے۔ یودھی قبیلہ بھی مہابھارت کے دور میں موجود تھا۔ یودھی یا جوئی اپنی بہادری کے لیے مشہور تھے۔
وہ گپتوں ،موریوں اور کشانوں سے لڑے۔ انھوں نے مارواڑ ،جودھ پور اور جیسلمیر جیسے قدیم عالقوں پر قبضہ کیا۔
راجستھان رنگ محل ان کا دار الحکومت تھا (بھارت میں گنگا نگر کے قریب تباہ شدہ شہر) رنگ محل کی ثقافت وادی
گھگر میں پھیلی ہوئی ہے اور اس کے پینٹ شدہ سامان ہڑپہ دور سے بالکل مختلف ہیں۔ چولستان کا قدیم ترین قلعہ مروٹ
(سروٹ) کو جوئیہ خاندان کے حکمران ،راجا سہن پال خان یودھیا نے تعمیر کروایا تھا۔
"یودھی یا یودھیا قدیم ہندوستان کا ایک بہت مشہور بلوچوں کا قبیلہ تھا۔ وہ قدیم دور سے ہی دریائے سندھ اور دریائے
گنگا کے درمیان کے عالقے میں رہتے تھے۔ ان کا ذکر پانینی کی اشٹادھیائی اور گنپتھ میں ملتا ہے۔یایاتی کا چوتھا بیٹا انو
تھا ،انو کا آٹھواں بیٹا مہاراجا مہامنا تھاُ ،ا شنار مہامنا کا بیٹا تھا اور پنجاب کے بیشتر عالقوں کا حکمران تھا۔عناوی بادشاہ
،Usinaraپنجاب میں اپنی آمد کے بعد ،غالبًا ملتان میں اپنے آپ کو قائم کیا۔ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ عثنارا کی
موت کے بعد اس کی اناوی سلطنت اس کے پانچ بیٹوں میں تقسیم ہو گئی۔ ان کے جدید نمائندے جویا کے پنجابی قبیلے،
اب بھی صوبے کے اس حصے میں رہتے ہیں۔ وہ مقدونیہ کے حملہ آور سکندر اعظم کے زمانے کے یونانی مصنفین سے واقف
تھے۔ اوشینار کا بیٹا نرگ تھا اور نرگ کا بیٹا بلوچ یودھی تھا۔ یودھیا قبیلہ اسی سے نکال ہے۔
ان کی بہادری کی بنا پہ ویاکرن کی سنسکرت میں لکھی گئی کتاب اشادھیائی میں انھیں بہت خوددار ،خود مختار اور
بڑے جنگجو مانا گیا۔
الیگزینڈر کنگہم نے اپنی کتاب سروے آف انڈیا میں جوئیہ بلوچوں کی بہادری کی تعریف کی۔ جنرل کنگہم مزید کہتے ہیں
کہ 450قبل مسیح میں جودیا بلوچوں کی سلطنت ہندوستان کے سب سے طاقتور سلطنت تھی۔اطالوی محقق ڈاکٹر
تسطوری نے اپنی کتاب اینشیئنٹ انڈیا میں جوئیہ بلوچوں کو برصغیر کے طاقتور جنگجو مانا ہے اور بیکانیر کے دورہ کے
دوران انھوں نے سروے رپورٹ میں جوئیہ بلوچوں کا ذکر اچھے انداز میں کیا۔ بدھ پرکاش نے اپنی تحقیق سے کہا کہ
سکندر اعظم کے سامنے ثابت قدم رہنے والے جوئیہ بلوچ بہت نڈر جنگجو رہے ہیں۔
جنرل جیمز ٹاڈ نے اپنی کتاب تاریخ راجستھان میں جوئیہ بلوچوں کو راجستھان کا قدیم حکمران قبیلہ مانا ہے۔
پنڈت گوری شنکر بھی ان کی بہادری سے خوب متاثر تھے۔ پنڈت گوری شنکر اپنی کتاب راجاؤں کا اتہاس میں لکھتے ہیں :
"ہندوستان میں آریہ خون سب سے زیادہ یودھا بلوچوں میں ہی نظر آتا ہے۔ جوئیہ جنگجو فطرت کے مالک لڑاکے لوگ ہیں
جنھوں نے ہندوستان پہ آنے والے ہر حملہ آور کا مقابلہ کیا۔جب کوئی بیرونی حملہ آور نہ آتا تو ان یودھا بلوچوں کے 36
شاہی خاندان (راجکل) آپس میں ہی پنجا آزمائی کرتے رہتے۔"
"پنجاب کے یودھا بلوچ(جوہیہ) عمدہ اور جری لوگ ہیں اور شاید باقی ذاتوں کے نسبت پنجاب میں زیادہ اثرو و رسوخ
والے زمیندار اور جاگیردار ہیں۔ خون پہ فخر کرنا اور اپنے برابر حیثیت کے کسی کو نہ ٹھہرانا اور ماننا تو ان کا بنیادی
عنصر ہے۔ پنجاب کے بلوچ جوئیے اب کھیتی باڑی سے کتراتے نہیں۔ "
"جوئیہ بلوچ ستلج کے سب سے بڑے جنگجو اور زمیندار رہے ہیں جو اپنی روایات کو برقرار رکھے ہوئے ہیں اور خاصے
جھگڑالو بھی ہیں۔" کتاب داستان دولتانہ میں مصنف وکیل انجم نے اس قبیلہ کے بارے میں خاصی معلومات فراہم کی۔
کتاب ساندل بار میں احمد غزالی نے جوئیہ بلوچ قبیلہ کے بارے میں اچھے الفاظ لکھے۔ گزیٹر سرسہ ،گزیٹر بہاولپور اور
تاریخ ضلع وہاڑی میں جوئیہ بلوچوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ کتاب ویدک اور آریائی ہند کا زمانہ میں اس قبیلہ کے بارے میں
جنگی اور حاکمیت کی بہت زیادہ تاریخ درج ہے۔جوئیہ قوم پاکستان کی مشہورقوم ہے اور دیگر برصغیر کے ممالک میں
بھی پائی جاتی ہے۔ اس قوم کے افراد زمیندار ،محنتی ،جفاکش اور خود داری کے حوالے سے معروف ہیں۔ یہ پنجاب اور
سندھ میں اکثریت سے ہیں۔جوئیہ راجپوت :جوئیہ خاندان قبیلہ کے معروف سردار لونے خان اور اس کے دو بھائی بر اور
وسیل اپنے ہزاروں اہل قبیلہ کے ساتھ 635ھ کے قریب بابا فرید کے دست حق پر مشرف بہ اسالم ہوئے۔ بابا فرید نے لونے
خان کو دعا دی ،تو 12فرزند ہوئے اس کا بڑا بیٹا لکھو خاں سردار بنا ،بیکانیر میں رنگ محل کا قلعہ بنوایا بیکانیر میں
قصبہ لکھویرا بھی اسی کے نام سے منسوب ہے۔ اس کی اوالد کو لکھویرا کہا جاتا ہے جو ضلع بہاولنگر اور پاکپتن میں آباد
ہیں۔ بعض جوئیے اپنے قبیلے کو عربی النسل کہتے ہیں مگر اصل میں جوئیہ قوم ہند کی ایک قدیم قوم ہے۔ ٹاڈ کے مطابق
جوئیہ قوم سری کرشن جی کی اوالد ہے یہ قوم پہلے بھٹنیر ،ناگور اور ہریانہ کے عالقہ میں حکمران تھی اب بھی بھی یہ
قوم راجپوتانہ میں اور اس کے ملحقہ عالقے میں کافی تعداد میں آباد ہے۔ قیام پاکستان کے بعد یہ قبیلہ بیکانیر سے ہجرت
کر کے زیادہ تر ریاست بہاولپور اور ضلع ساہیوال ،عارف واال ،پاکپتن میں آباد ہو گیا۔ ساتویں صدی ہجری میں جوئیوں کی
بھٹی راجپوتوں سے بے شمار لڑائیاں ہوئیں ،دسویں صدی ہجری میں راجپوتانہ کے جاٹ اور گدارے جوئیوں کے خالف
متحد ہو گئے ان لڑائیوں سے تنگ آکر دریائے گھاگرہ کے خشک ہونے کی بنا پر جوئیہ سردار نے دسویں صدی ہجری میں اپنے
آبائی شہر رنگ محل کو خیر باد کہا اور دریائے ستلج کے گردونوںاح ایک نیا شہر سلیم گڑھ آباد کیا زبانی روایات کے مطابق
سلیم گڑھ کا ابتدائیی نام شہر فرید تھا۔ بعد میں نواب صادق محمد خان اول نے لکھویروں کے محاصل ادا نہ کرنے کی
وجہ سے نواب فرید خان دوم اور ان کے بھائی معروف خان اور علی خان کے ساتھ جنگ کی۔ جس کی بنا پر جنوب میں
بیکانیر کی سرحد تک اور شمال میں پاکپتن کی جاگیر تک نواب صادق محمد خان کا قبضہ ہو گیا اور لکھویرا کی ریاست
بہاولپور کی ریاست میں مدغم ہو گی۔ تاہم بعد ازیں شاہان عباسی نے لکھویروں کی ذاتی جاگیریں بحال کر دیں اور انھیں
درباری اعزازات بھی دیے۔ جنرل بخت خان جنگ (آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کا سپہ ساالر) بھی جوئیہ تھا یہ
کوروپانڈوؤں کی نسل سے خیال کیے جاتے ہیں۔ راجپوتوں کے 36شاہی خاندانوں میں شامل ہیں۔ ایک روایت کے مطابق
راجا پورس جس نے سکندر اعظم کا مقابلہ کیا ،جوئیہ راجپوت تھا۔ ملتان بار اور جنگل کے بادشاہ مشہور تھے۔ چونکہ
سرسبز گھاس والے میدان کو جوہ کہا جاتا ہے۔ اسی جوہ کے مالک ہونے کی وجہ سے یہ جوھیہ اور جوئیہ مشہور ہوئے جو
بابا فرید کے دست حق پر مشرف بہ اسالم ہوئے۔لونا کے والد کا نام گراج تھا۔ اور دادا کا نام جیسنگ تھا۔ جیسنگ کے دو
بیٹے تھے۔ ایک بیٹا ہراج اور دوسرا گراج۔ ہراج کے بیٹے کا نام چونڈرا یا چونڑا تھا۔ ہراج نے گراج کو ایک قطعہ زمین کی
خاطر قلعہ کھربارہ میں قتل کیا۔ بعد ازاں اسی دشمنی کی وجہ سے چونڈرا نے لونا کو قتل کیا۔ اسی طرح جوئیہ فیملی
کی ایک گوت ہراج اور چونڈرا بھی ہے۔
قبول اسالم،
اس سوال کا عام طور پر جواب يہ ديا جاتا ہے کہ اس قوم کو بابا فريد الدين گنج کے ہاتھوں اسالم قبول کرنے کا شرف
حاصل ہوا۔ پوری جوئيہ قوم کے حوالے سے يہ بات نامکمل بھی ہے اور تحقيق طلب بھی۔ دراصل جوئيہ قوم کا شمار
ہندوستان کی ان قوموں ميں ہوتا ہے جس کے کچھ ( اکثر ) افراد مسلمانوں کے فاتحين کے سلسلہ آمد سے قبل مسلمان
ہوئے۔ دوسری اہم بات يہ ہے کہ اس قوم کو کسی ايک بزرگ نے مسلمان نہیں کيا مختلف ادوار ميں مختلف بزرگوں کے
ہاتھوں يہ مشرف بااسالم ہوئی۔
اللہ رام رکھا مل ملہو ترا راجپوتوں کے خصائل کے بارے میں لکھتا ہے۔
'راجپوت بڑ ے بہادر' جنگجو' غيرت مند اور وعدے کے پکے تھے انہيں اپنی عزت کا بڑا پاس تھا اور بے عزتی پر
موت کو ترجيح ديتے تھے آزادی اور خودداری کے دلدادہ تھے۔ عورتیں دير اور پاکدامن ہوتی ھيں جب دشمن سے بچاؤ کی
صورت نہ ديکھيں تو ''رسم جوھر''ادا کرتيں يعنی زندہ جل کر مر جاتيں .مردوں کی بہادری کا يہ عالم تھا کہ نہتے اور
سوئے ياگرے ہوئے يا گرے ہوئے دشمن پر حملہ نہ کرتے تھے ''۔
ايک روايت يہ بھی ہے ( واللہ اعلم بالصواب ) کہ نبی اکرم صلی اللہ عليہ وسلم ہر نماز میں مشرق کی جانب رخ مبارک
فرما کر دعا فرمايا کرتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے وجہ پوچھی تو آپ نے فرمايا ''مشرق ميں ايک ايسی قوم آباد
ھے جس ميں اسالم کی تمام خوبياں موجود ھيں يعنی وہ وعدے کے پکے ' پاکدامن 'بہادر اور ھٹ کے پکے ھيں .صرف کلمہ
پڑھنے کی پڑھنے کی کسر ھے ''۔ يہ راجپوت قوم ہی کے بارے ميں فرمايا گيا۔
سرزمین عرب میں طلوع اسالم کے وقت ہندوستان کے وسيع عالقوں خصوصًا پنجاب میں جوئيہ قوم کا وجود ملتا ہے۔
سباجی_سابوکے_سمليرے_سلجيرے_
محمد کے _محرم خيل _موسی خيل _ماٹن_مانک ويرے _مغالنے _محکم خيل _محمد خيل _موسی کے _مستقیم کے_نہال
کے _نسريرے _نامے کے _نہالکہ _نصيرکے _نورخيل _ہمديرے _ولی کے _واھيہ راجپوت _وزيرکے _وسلديرکے _وساؤے خيل
_واگہہ_وڈجوئيہ_ولياکے_ہراج کے_يکتاری_