Pak Study

You might also like

Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 9

Pakistan Study Assignment #2

Name: Ali Raza

Roll No: FA21-BCT-003

Department: Civil Engineering Technology

Submitted To: Miss Nissa

Date: 28/02/2023
‫پاکستان کی تاریخی عمارتوں کے نام اور تاریخی اہمیت‬
‫لکھیں ۔‬

‫شاہی قلعہ الہور۔ یہ قلعہ شہر کے شمال مغربی کونے پر واقع ہے۔ گو‬
‫کہ اس قلعہ کی تاریخ زمانہء قدیم سے جا ملتی ہے لیکن اس کی ازسِر تعمیر‬
‫مغل بادشاہ اکبر اعظم (‪1605‬ء‪1556-‬ء) نے کروائی جبکہ اکبر کے بعد‬
‫آنے والی نسلیں بھی تزئین و آرائش کرتی رہیں۔ لہٰذ ا یہ قلعہ مغلیہ فِن تعمیر و‬
‫روایت کا ایک نہایت ہی شاندار نمونہ نظر آتاہے۔‬
‫بادشاہی مسجدالہور۔ بادشاہی مسجد ‪ 1673‬میں اورنگزیب عالمگیر‬
‫نے الہور میں بنوائی۔ یہ عظیم الشان مسجد مغلوں کے دور کی ایک شاندار‬
‫مثال ہے اور الہور شہر کی شناخت بن چکی ہے۔ یہ فیصل مسجد اسالم آباد‬
‫کے بعد پورے پاکستان کی دوسری بڑی مسجد ہے‪ ،‬جس میں بیک وقت ‪60‬‬
‫ہزار لوگ نماز ادا کرسکتے ہیں‪.‬‬

‫یہ مسجد حضرت سلیم چشتؒی کے عہد میں ‪1575-1571‬ء میں پایہ تکمیل تک پہنچی۔‬
‫اس حوالے سے دوسری اہم ترین مسجد‘ دہلی کی جامع مسجد ’’جہاں نما‘‘ ہے‬
‫جو اورنگزیب کے والد شاہجہان نے ‪1656-1650‬ء میں تعمیر کی تھی۔ پہلی نظر‬
‫میں یہ گمان ہوتا ہے کہ یہ دونوں مساجد ایک ہی جیسی ہیں۔ اورنگزیب کے کئی کام‬
‫باپ اور بھائیوں کے مقابلے میں تھے۔ یہی معاملہ تعمیرات کے ساتھ بھی رہا۔ شاہی‬
‫مسجد الہور اور موتی مسجد آگرہ اس کی اہم ترین مثالیں ہیں۔‬

‫مینارپاکستان۔مینار پاکستان الہور‪ ،‬پاکستان کی ایک قومی یادگار عمارت‬


‫ہے‪ ،‬جسے الہور میں عین اسی جگہ تعمیر کیا گیا جہاں ‪23‬‬
‫مارچ ‪1940‬ء کو قائد اعظم محمد علی جناح کی صدارت میں منعقدہ آل انڈیا‬
‫مسلم لیگ کے اجالس میں تاریخی قرارداد پاکستان منظور ہوئی تھی۔‬
‫اسے یادگار پاکستان بھی کہا جاتا ہے۔ اس میدان کو اس وقت منٹو پارک‬
‫کہتے تھے‪ ،‬جو سلطنت برطانیہ کا حصہ تھی۔ آج کل اس پارک کو اقبال‬
‫پارک کے نام سے منسوب کیا جاتا ہے۔‬
‫مسجدوزیرخان۔ وزیر خان ‪1632‬ء سے ‪1639‬ء تک حاکم الہور کے عہدے‬
‫پر فائز رہے۔ مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے عہد میں وزیر خان نے ‪1045‬ھ‪1635 /‬ء‬
‫میں ِاس مسجد کی بنیاد رکھی اور بازار دہلی دروازہ کو آباد کیا اور مزار سید محمد‬
‫اسحاق گاذرونی المشہور بہ میراں بادشاہ کا پختہ حجرہ جو زیارت گاِہ عام تھا‪ ،‬کو‬
‫داخل مسجد کر لیا۔‬
‫دہلی گیٹ(دروازہ)۔ دروازہ کو شہنشاہ شاہ جہاں نے ‪1638‬ء میں ملبہ کے‬
‫ایک حصہ کے طور پر تعمیر کیا تھا ‪ -‬قلعے کی اونچی دیواریں جو دہلی کے ساتویں‬
‫شہر شاہجہاں آباد کو گھیرے میں لے چکی ہیں۔ شہنشاہ نے اس دروازہ کو نماز کے‬
‫لیے جامع مسجد جانے کے لیے استعمال کیا۔‬
‫فیصل مسجد اسالم آباد۔ تاریخ شاہ فیصل مسجد کی تعمیر کی تحریک‬
‫سعودی فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز نے ‪ 1966‬کے اپنے دورہ اسالم آباد میں‬
‫دی۔ ‪ 1969‬میں ایک بین االقوامی مقابلہ منعقد کرایا گیا جس میں ‪ 17‬ممالک کے ‪43‬‬
‫ماہر فن تعمیر نے اپنے نمونے پیش کیے۔ چار روزہ مباحثہ کے بعد ترکی کے ویدت‬
‫دالوکے کا پیش کردہ نمونہ منتخب کیا گیا۔‬
‫مزاراقبال۔ مقبرہ عالمہ اقبال‪ ،‬سادہ مگر پروقار عمارت ہے۔ یہ‬
‫مقبرہ‪ ،‬الہور کے حضوری باغ میں بادشاہی مسجد اور قلعہ الہور کے درمیان واقع ہے‬
‫جہاں یہ دونوں عظیم تعمیرات آمنے سامنے واقع ہیں۔ اس عمارت پر ہمہ وقت پاکستان‬
‫رینجرز کے اہلکاروں کا پہرہ رہتا ہے۔ عمارت کی طرز تعمیر افغان اور مورش طرز‬
‫تعمیر پر بنیاد رکھتی ہے اور اسے مکمل طور پر الل پتھر سے تعمیر کیا گیا ہے۔‬
‫یہاں ہر روز ہزاروں لوگ شاعر اور فلسفی عالمہ محمد اقبال کو خراج تحسین پیش‬
‫کرنے ان کے مزار پر حاضری دیتے ہیں۔‬

‫مان ا کہ ت ی ری د ی د کے ق اب ل ن ہ ی ں ہ وں می ں‬

‫ت و می را ش وق د ی کھ مرا ان ت ظ ار د ی کھ‬

‫ت رے عش ق کی نا ت ہ ا چ اہ ت ا ہ وں‬

‫مری سادگی د ی کھ کی ا چ اہ ت ا ہ وں۔ اقب ال‬


‫خوجک سرنگ۔‪ ،‬پانچ کلومیٹر لمبی اس سرنگ کی تعمیر ‪ 14‬اپریل ‪1888‬ء کو‬
‫شروع تعمیر کے دوران لگ بھگ ‪800‬مزدورجاں بحق ہوئے ‪،‬اکثر وہیں آس پاس‬
‫دفن ہو گئے ‪،‬سرنگ میں ‪1.97‬کروڑ سے زائد اینٹیں استعمال ہوئیں‬

You might also like