Professional Documents
Culture Documents
Aziz Ullah 2900
Aziz Ullah 2900
ام :عزیزہللا
ت
کورس :عارف حدی ث۔
سوال نمبر :2عہد نبوی میں حفاظت و تدوین حدیث کے متعلق روایات پر نوٹ لکھیں،
جواب ِ :اَّنا َنْح ُن َنَّز ْلَنا الِّذْك َر َو ِاَّنا َلٗه َلٰح ِفُظْو َن (الحجر)9 :
َو اَل َيْاُتْو َنَك ِبَمَثٍل ِااَّل ِج ْئٰن َك ِباْلَح ِّق َو َاْح َسَن َتْفِسْيًر ا (الفرقان )33 :
’’ اور نہیں وہ التے ٓاپ کے پاس کوئی مثال گر ہم ٓاپ کے پا س حق اور بہترین تفسیر بھیج دیتے
ہیں۔‘‘
حدیث نبوی ﷺ جو احکام شریعت کا دوسرا بڑا ماخذ ہے دوِر نبوی ﷺ سے ہی مدون
ومرتب ہوتا چال ٓارہا ہے یہ بات یقینی ہے کہ صحابہ کرام رضی ہللا عنہم نے نبی کریم ﷺ کے
ایک ایک قول،فعل اور تقریر کو محفوظ کرنے کی بہت زیادہ محنت وکوشش کی ۔ ہر صحابی میں اس
بات کی خواہش اور تڑپ موجود تھی کہ وہ نبی کریم ﷺ کی صحبت سے زیادہ سے زیادہ فیض
یاب ہو تاکہ احادیث کا علم ہو پھر یہ اصحاب ایک دوسرے سے ٓاپ کے فرامین وہدایات معلوم کیا
کرتے تھے۔ ضروریات زندگی اور ناگزیر مصروفیات کے باوجود رسول ہللا ﷺ کی صحبت
سے استفادہ کرنے کا اور حدیث سے بہرہ ور ہونے کا اہتمام کرتے تھے اس کا اندازہ سیدنا عمر
فاروق رضی ہللا عنہ کے اس بیان سے لگایا جاسکتاہے۔
’’ کہ میں اور میرا ایک پڑوسی انصاری جو کہ بنوامیہ سے تعلق رکھتا تھا ،باری باری رسول ہللا
ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے ایک دن میں ٓاتا دوسرے دن وہ ٓاتا جس دن میں ٓاتا اس دن کی
احادیث اسے پہنچاتا اور جس دن وہ ٓاتا اس دن کی احادیث وہ مجھے پہنچاتا۔
ٓاخر ایسے کیوں نہ ہوتا جبکہ ہللا تعالٰی نے قرٓان وحدیث کی حفاظت کا ذمہ خوداٹھایا ہے چنانچہ ہللا
تعالٰی نے فرمایا :
ِاَّنا َنْح ُن َنَّز ْلَنا الِّذْك َر َو ِاَّنا َلٗه َلٰح ِفُظْو َن (الحجر)9 :
َفِاَذا َقَر ْاٰن ُه َفاَّتِبْع ُقْر ٰا َنٗه (القیامۃ: ِاَّن َعَلْيَنا َج ْم َعٗه َو ُقْر ٰا َنهٗ َفِاَذا َقَر ْاٰن ُه َفاَّتِبْع ُقْر ٰا َنٗه اَل ُتَحِّر ْك ِبٖه ِلَساَنَك ِلَتْعَج َل ِبٖه
16۔ )19
’’ ٓاپ اس قرٓان کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دیں ،تاکہ ٓاپ اسے جلدی(یاد)کرلیں ،یقینًا ہمارے
ذمے ہے اس کا جمع کرنا(ٓاپ کے سینے میں) اور اس کا پڑھنا (ٓاپ کی زبان سے) سوجب ہم اسے
پڑھ لیں تو ٓاپ اس کے پڑھنے کی پیروی کیجیے پھر یقینًا اس کا واضح کرنا ہمارے ذمے ہے۔ ‘‘
بہر حال جس طرح قرٓان کی حفاظت ہللا تعالٰی نے کی ہے اسی طرح حدیث رسول ﷺ کی بھی
حفاظت کی ہے۔ حدیث کی تدوین وترتیب عہد رسالت سے ہی شروع ہوچکی تھی لیکن اب تدوین
حدیث کے بارے میں پہال سوال جوابھر کر ہمارے سامنے ٓاتاہے وہ یہ کہ خود عہِد نبوی ﷺ میں
حفاظت وجمع احادیث کا اہتمام کس حد تک ہوسکا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عرب قوم کا حافظہ
غیر معمولی تھا اور صحابہ کرام رضی ہللا عنہم اس والہانہ محبت وعقیدت کی بنا پر جو وہ رسول ہللا
ﷺ سے رکھتے تھے۔ ٓاب کے ارشادات گرامی کو حفظ کرنے کا انہیں بہت اشتیاق تھا مگر یہ
کہنا سراسر حق کی تکذیب ہے کہ عہد نبوی ﷺ میں احادیث ضبط تحریر میں نہیں الئی گئیں
اور کتابت وتدوین کا کام نبی کریم ﷺ کی وفات کے 90برس بعد شروع ہوا اور اس درمیانی
عرصے میں محض زبانی روایات پر بھروسہ رہا۔ حدیث اور تاریخ کی مستند کتابوں سے پتہ چلتاہے
کہ صحابہ کرام رضی ہللا عنہم نے محض حافظے پر ہی اعتماد نہیں کیا بلکہ وہ احادیث کو ضبط
تحریر میں التے تھے اور احادیث کا بہت بڑا سرمایہ ٓاپ کے دور میں صحابہ کرام رضی ہللا عنہم
کے ہاتھوں سے مرتب ہوچکا تھا وہ احادیث جو ٓاپ ﷺ کے زمانے میں قلمبند ہوئیں ان کو تین
حصوں میں تقسیم کیا جاتاہے۔
2سیدنا عمر بن عبد العزیز نے اپنے عہد خالفت میں رسول ہللا ﷺ کے فرمان صدقات کی تالش
کے لیے اہل مدینہ کے پاس قاصد بھیجا تو وہ مجموعہ احکام صدقات عمرو بن حزم صحابی کے
لڑکوں سے مل گیا۔(دارقطنی ،ص)451:
3صحیفہ عمروبن حزم کی نقول سیدنا ابو بکر اور عمروبن حزم کے خاندان اور متعدد اشخاص کے
پاس موجود تھیں۔
4عبد ہللا بن الحکیم کی روایت ہے کہ رسول ہللا ﷺ کی ایک تحریر ہمارے قبیلے جہینہ کو
پہنچی جس میں مختلف احادیث تھیں کہ مردار جانوروں کی کھال اور پٹھے وغیرہ بغیر دباغت کئے
ہوئے استعمال میں نہ الٔو۔ (ترمذی)1/206
5سیدنا وائل بن حجر رضی ہللا عنہ جب مدینہ میں حاضر ہوکر مسلمان ہوئے کچھ دن ٓاپ کی خدمت
میں حاضر رہے جب وطن جانے لگے تو ٓاپ نے ایک صحیفہ لکھوا کر انہیں دیا جس میں
نماز،روزہ،شراب اور سود وغیرہ کے احکام تھے۔ ( طبرانی صغیر ،ص241:۔)242
6دارمی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ٓاپ نے یمن والوں کو بھی ایک صحیفہ لکھوا کر بھیجا تھا۔
الفاظ یوں ہیں :
َٔاَّن َرُسوَل الَّلِه َص َّلى اللُه َعَلْيِه َو َسَّلَم َكَتَب ِإَلى َٔاْهِل اْلَيَمِن َٔاْن اَل َيَمَّس اْلُقْرٓاَن ِإاَّل َطاِهٌر َ ،و اَل َطاَل َق َقْبَل ِإْم اَل ٍك َ ،و اَل َعَتاَق
َح َّتى َيْبَتاَع (سنن دارمی،ص)393 :
’’ بے شک رسول ہللا ﷺ نے یمن والوں کی طرف لکھا کہ نہ قرٓان کو چھوئے مگر پاک ٓادمی
ہی اور ملکیت سے پہلے طالق نہیں ہے اور نہیں ہے ٓازادی حتی کہ وہ خرید لے۔‘‘
7سیدنا ا بن عمر کا بیان ہے کہ رسول ہللا ﷺ نے اپنی زندگی کے ٓاخری زمانہ میں اپنے
عالموں کے پاس بھیجنے کیلئے کتاب الصدقہ لکھوائی تھی۔ (ترمذی)1/79
8خطوط ووثائق :احادیث کے ان کتابی ذخیروں کے عالوہ سینکڑوں کی تعداد میں وہ خطوط اور
وثیقے ہیں جو کہ رسول ہللا ﷺ نے مختلف اوقات میں بادشاہوں ،قبیلوں،سرداروں اور دوسرے
لوگوں کے نام لکھوائے اور خود ان پر مہر ثبت کی۔
9جب رسول ہللا ﷺ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف الئے تو عرب اوس وخزرج بارہ
قبیلوں میں بٹے ہوئے تھے۔ یہودی دس قبیلوں میں منقسم تھے۔ ہر قبیلے کا الگ راج تھا۔ کوئی
مرکزی شہری نظام نہ تھا تو ٓاپ وہاں کے باشندوں مہاجرین وانصاری ،یہود اور غیرمسلموں سے
مشورہ کرنے کے بعد ایک دستوِر مملکت نافذ فرمایا جس میں حاکم ومحکوم دونوں کے حقوق
وواجبات کی تفصیل تھی۔ یہ ایک اہم دستاویز تھی جسے ابن اسحاق نے اپنی سیرت میں ،ابو عبیدہ
قاسم بن سالم نے کتاب االموال اور بعد کے مصنفین میں سے حافظ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں،
ابن سید الناس نے سیرت میں مکمل نقل کیا ہے اس دستاویز میں 53جملے تھے قانون کی زبان میں
یوں کہیے کہ یہ 53دفعات پر مشتمل دستوِر مملکت تھے۔
nسیدنا عبد ہللا بن عمرو بن العاص رضی ہللا عنہ کاتب حدیث اپنے ایک بیان کی ابتداء یوں فرماتے
ہیں
’’ اسی دوران کہ ہم رسول ہللا ﷺ کے اردگرد(بیٹھے) لکھ رہے تھے۔ ‘‘ ( دارمی ،ص)68:
اس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ رسول ہللا ﷺ کے زمانے میں کتابت حدیث کا انداز یہ ہوتا تھا کہ
ٓاپ درمیان محفل تشریف فرما ہوتے اور صحابہ کی جماعت ٓاپ کے اردگرد حلقہ بنا کر بیٹھ جاتی اور
جو کچھ ٓاپ فرماتے صحابہ لکھتے جاتے تو یہ بالکل امالء کی شکل ہے اور ساتھ ساتھ سیدنا انس
رضی ہللا عنہ کی روایت کو بھی پیش نظر رکھیے۔
’’ کہ رسول ہللا ﷺ کو بات کو دو دو ،تین تین مرتبہ دہراتے تاکہ لوگوں کے سمجھنے میں
سہولت ہو۔‘‘
اس سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضی ہللا عنہم کو صحت وتعیین کے ساتھ احادیث قلمبند کرنے
میں کوئی دقت نہیں ہوتی تھی۔
nسیدنا عبد ہللا بن عمرو مہاجرین میں سے ہیں تذکرہ نگاروں نے انہیں ’’العالم الرّبانی‘‘ کا لقب دیا
ہے ۔ تورات وانجیل کے بھی عالم تھے۔ پھر ان کا زہد وتقوٰی ،عبادت وریاضت عہد رسالت میں ہی
مسلم تھی۔ (تذکرۃ الحفاظ )1/356 ،
nسیدنا عبد ہللا بن عمرو فرماتے ہیں کہ رسول ہللا ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا
کہ ہم ٓاپ سے بہت سی احادیث سنتے ہیں جو ہمیں یاد نہیں رہتیں کیا ہم وہ لکھ نہ لیا کریں؟ تو
ٓاپ ﷺ نے فرمایا :
بلی فاکتبوھا
’’ کیوں نہیں ! ان کو لکھ لیا کرو۔‘‘ (ابو داود )3646 :
nاسی طرح سیدنا عبد ہللا بن عمرو رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ میں جو کچھ رسول ہللا ﷺ
سے سنتا تھا اسے لکھ لیا کرتا تھا بعض حضرات نے کتابت سے منع کیا۔ فرماتے ہیں کہ قریش کے
لوگوں نے مجھ سے کہا کہ رسول ہللا ﷺ بشر ہیں۔ بہت سی باتیں غصہ کی حالت میں بھی
فرماتے ہیں اس لیے احادیث نہ لکھا کرو میں نے ٓاپ کے سامنے ذکر کیا تو ٓاپ نے اپنی مبارک
انگلی سے اشارہ کرکے فرمایا
َفَو اَّلِذي َنْفِس ي ِبَيِدِه َم ا َيْخ ُرُج ِم ْنُه ِإاَّل َح ٌّق ( سنن ابی داود ،3646 :حاکم ،1/106مسند احمد )2/207
َفَٔاَّما الَّص اِدَقُةَ ،فَصِح يَفٌة َكَتْبُتَها ِم ْن َرُسوِل الَّلِه َص َّلى اللُه َعَلْيِه َو َسَّلَم (سنن الدارمی)513 :
اس صحیفہ صادقہ سے بڑی محبت کرتے تھے ،زندگی کا عزیز ترین سرمایہ سمجھتے تھے ،
فرماتے تھے :
َم ا ُيَر ِّغُبِني ِفي اْلَحَياِة ِإاَّل الَّص اِدَقُة (سنن الدارمی)
اب رہا یہ سوال کہ حدیث کی یہ کتاب ’’الصادقہ‘‘ کتنی بڑی اور ضخیم تھی اور اس میں کتنی
احادیث درج تھیں اس کا اندازہ اس سے کیجیے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی ہللا عنہ جن کی روایات کی
تعداد 5374ہے ،فرماتے ہیں :
َم ا ِم ْن َٔاْصَح اِب الَّنِبِّي ﷺ َٔاَح ٌد َٔاْك َثَر َحِديًثا َعْنُه ِم ِّنيِ ،إاَّل َم ا َكاَن ِم ْن َعْبِد الَّلِه ْبِن َعْمٍروَ ،فِإَّنُه َكاَن َيْك ُتُب َو َال َٔاْك ُتُب (صحیح
البخاری مع فتح الباری ،رقم الحدیث ،113 :کتاب العلم ،باب کتابۃ العلم)
’’ نبی کریم ﷺ کے صحابہ میں سے کوئی ایک بھی نہیں تھا جو ٓاپ ﷺ سے زیادہ روایات
بیان کرنے واال ہو میری بنسبت سوائے سیدنا عبد ہللا بن عمرو کے کیونکہ بیشک وہ احادیث لکھتے
تھے اور میں نہیں لکھتا تھا۔‘‘
nاس بات کی توثیق سیدنا عبد ہللا بن عمرو رضی ہللا عنہ کے اس بیان سے بھی اور زیادہ ہوجاتی
ہے ۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی ہللا عنہ کے اس بیان سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ صادقہ میں 5374سے بھی
زیادہ روایات تھیں جبکہ بخاری ومسلم کی غیر مکرراحادیث کی تعداد 4ہزار سے بھی زیادہ ہیں جن
میں کافی حصہ ان حدیثوں کا ہے جو دونوں کتابوں میں مشترک ہے۔ مٔوطا امام مالک جسے بعض
حضرات بخاری ومسلم پر فوقیت دیتے تھے ان کی مرویات کی تعداد 1720ہے۔
سیدنا رافع بن خدیج فرماتےہیں کہ ہم لوگوں نے دربار رسالت میں عرض کی کہ ہمیں ٓاپ کی بہت
سی باتیں یاد نہیں رہتیںاور انہیں لکھ لیتے ہیں ٓاپ نے فرمایا ’’:لکھ لیا کرو اس میں کوئی مضائقہ
نہیں۔‘‘ (کنزالعمال )5/223
ایک دن مروان نے خطبہ میں بیان کیا کہ مکہ حرم ہے۔ رافع بن خدیج نے پکار کر کہا اور مدینہ
بھی حرم ہے یہ بیان میرے پاس موجود ہے اگر چاہو تو پڑھ کر سنادوں۔ (مسلم ، 3315:مجمع
الزوائد )4/14
ٓاپ کے ٓازاد کردہ غالم اور خادم ابو رافع نے بھی ٓاپ سے حدیث لکھنے کی اجازت مانگی اور
ٓاپ نے انہیں اجازت دے دی تھی۔ ( طبقات ابن سعد جلد 4حصہ دوم ،صفحہ )11:
رسول ہللا ﷺ نے اجازت ہی نہیں دی بلکہ ترغیب بھی دالتے تھے۔ سیدنا عبد ہللا بن عمر رضی
ہللا عنہما فرماتے ہیں کہ ٓاپ ﷺ نے فرمایا :
’’علم کو مقید کر لو سیدنا عبد ہللا رضی ہللا عنہ نے عرض کیا کہ مقید کرنے سے ٓاپ کی مراد کیا
ہے ؟ فرمایا ’’لکھنا۔‘‘ (مجمع الزائد ،ص)152:
سیدنا انس رضی ہللا عنہ کا بیان ہے کہ ایک شخص نے شکایت کی کہ اسے احادیث یاد نہیں رہتیں
ٓاپ ﷺ نے فرمایا ’’ اپنے ہاتھ سے مدد لو یعنی لکھ لیا کرو۔‘‘ ( مجمع الزوائد ،ص)152:
سیدنا جابر اورسیدنا ابن عباس رضی ہللا عنہم سے بھی یہی منقول ہے کہ ٓاپ نے اپنے ہاتھ سے مدد
لینے کا حکم دیا۔‘‘ (کنزالعمال )5/226 ،
فتح مکہ کے موقع پر ٓاپ نے خطبہ دیا تو ایک یمنی صحابی ابو شاہ رضی ہللا عنہ کھڑے ہوکر
عرض کرنے لگے
اْك ُتُبوا َٔاِلِبي َشاٍه (بخاری112 :۔ مسلم3305 :۔ ابو داود2017 :۔ ترمذی2667 :۔نسائی)4799 :
صحابہ کرام رضی ہللا عنہم نے نہ صرف احادیث کو قلمبند کیا بلکہ اپنے بچوں سے کہا تھا کہ
َيا َبِنَّي َقِّيُدوا َهَذا اْلِع ْلَم (سنن الدارمی ،ص)491 :
اَل َتْك ُتُبوا َعِّني َشْيًئا ِإاَّل اْلُقْرٓاَن (مسلم7510 :۔ ترمذی2665 :۔ شرح السنۃ )1/234
اس حدیث اور کتابت حدیث کی ترغیب واجازت والی احادیث میں بظاہر تعارض معلوم ہوتاہے کہ ایک
میں کتابت سے منع کیا ہے اور دیگر روایات میں لکھنے کی ترغیب ہے۔ ان میں کوئی تعارض نہیں
ہے صورت حال یہ تھی کہ قرٓان مجید ٓاہستہ ٓاہستہ نازل ہورہا تھا تو رسول ہللا ﷺ اس کی
توضیح فرماتے تو صحابہ احادیث اور قرٓان کو ایک جگہ لکھ لیتے تھے اس کی تائید اس بیان سے
بھی ہوتی ہے۔
َعْن َٔاِبي ُبْرَدَة ْبِن َٔاِبي ُموَسى َقاَلَ :كَتْبُت َعْن َٔاِبي ِكَتاًباَ ،فَقاَلَ :لْو اَل َٔاَّن ِفيِه ِكَتاَب الَّلِه َٔاَلْح َر ْقُتُه (مجمع الزائد )1/60
’’ سیدنا ابو بردہ بن ابی موسی رضی ہللا عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ سے ایک کتاب لکھی تو
انہوں نے کہا اگر اس میں کتاب ہللا نہ ہوتی تو میں اسے ضر ور جال دیتا۔‘‘
’’ کتاب ہللا کو مٹادو اور اس کو خالص کرلو یعنی الگ کرلو۔‘‘
صحابہ فرماتے ہیں کہ ہم نے جو کچھ لکھا ہوا تھا سب اکٹھا کرکے جالدیا یعنی خلط ملط کرکے
لکھنے سے منع کیامطلقًا منع نہیں کیا۔ جب قرٓان وحدیث کا فرق واضح ہوگیا تو ٓاپ نے صحابہ کرام
رضی ہللا عنہم کو اجازت دیدی اور صحابہ کرام نے احادیث کو قلمبند کیا۔
حافظ ابن حجر عسقالنی رحمہ ہللا نے فتح الباری میں منع کتابت والی حدیث اور اذن کتاب والی
احادیث وروایات میں تطبیق دیتے ہوئے کئی احتماالت ذکر کیے ہیں مذکورہ باال احتمال وقیع معلوم
ہوتاہے۔
اگر طبع نازک پر گراں نہ گزرے تو مشہور محدث موالنا عبدالرحمن مبارکپوری رحمہ ہللا کے ایک
دو فقروں پر غور کیجیے:
قد ظن بعض الجهلة في هذا الزمان ٔان االحاديث النبوية لم يكن مكتوبة في عهد رسول هللا ول في عهد
الصحابة وإنما كتبت وجمعت في عهد التابعين قلت :ظن بعض الجهلة هذا فاسد مبني علي عدم وقوفه علي
حقيقة الحال۔(مقدمة تحفة االحوذي ،ص 28:دار الحديث قاهرة)
’’اس زمانے کے بعض جاہل لوگوں کا یہ خیال ہے کہ بےشک احادیث نبویہ نہ نبی کریم
ﷺ کے دور میں لکھی گئیں اور نہ صحابہ کے دور میں بلکہ ان کی جمع وکتابت تابعین کے
زمانے میں ہوئی۔ میں کہتا ہوں کہ بعض جھال کا یہ گمان فاسد ہے اور حقیقت حال پر عدم واقفیت پر
مبنی ہے۔‘‘
بہر حال حکم واذن کتابت کی تمام احادیث وروایات کو یکسر نظر اندازکرتے ہوئے اور سیاق وسباق
عبارت کو حذف کرتے ہوئے اور حکم کی علت پر پردہ ڈالتے ہوئے محض ’’اَل َتْك ُتُبوا َع ِّني َشْيًئا ِإاَّل
اْلُقْر ٓاَن ‘‘ کے فقرے پر ہنگامہ برپا کرنا علمی دیانت کے یکسر منافی ہے۔ وہللا اعلم بالصواب۔
سوال نمبر :3امام بخاری اور ان کی کتاب الجامع الصحیح تعارف کرائیں۔
جواب :امام بخاری (محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن المغیرہ الجعفی البخاری) (810ء 870 -ء) ایک
مشہور اسالمی علماء اور حدیث نگار تھے جنہوں نے اپنی معروف کتاب "الجامع الصحیح" کی
تصنیف کی تھی۔ وہ اسالمی تہذیب کی عبادات ،معاشرتی اصول ،اخالقی معائن ،اور دنیاوی مسائل
سے متعلق ہزاروں حدیثوں کا مجموعہ کرنے میں مصروف تھے۔
الجامع الصحیح" کتاب ،جو عام طور پر "صحیح البخاری" کے نام سے جانی جاتی ہے ،ایک بہت"
بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ کتاب امام بخاری کی حدیث کی معیاری مجموعہ ہے اور اسالمی تہذیب
کے مختلف پہلوؤں کو پرچم بنایا ہوا ہے۔
الجامع الصحیح" میں تقریبًا ۷۵۰٠حدیثیں شامل ہیں جن میں پیغمبر اسالم محمد صلی ہللا علیہ وآلہ"
وسلم کی ہدایتیں ،اخالقی تعلیمات ،فقہی مسائل ،نماز ،روزہ ،حج ،زکوۃ ،اور دیگر عبادات کی تشریعی
تفصیالت شامل ہیں۔ اس کتاب کو اسالمی حدیثوں کی ترویج اور تصدیق کے لئے اہمیت دی جاتی ہے
اور بہت سی اسالمی فقہاء اور علماء نے اس کو حوالہ دیا ہے۔
الجامع الصحیح" کے ساتھ-ساتھ ،امام بخاری نے دوسری کتب بھی تصنیف کی ہیں جیسے کہ"
"التاریخ الکبیر" جو تاریخی مواد پر مشتمل ہے اور "األدب المفرد" جو اخالقی معائن پر مبنی ہے۔
اس کتاب کی اہمیت یہ ہے کہ اس میں موجود حدیثوں کی زبان اور توثیق کی پیروی کرتے ہوئے
مسلمان اپنی دینی اور زندگی کے مسائل کا حل تالش کرتے ہیں۔
:الجامع الصحیح" کی اہمیت کچھ اہم نکات پر مبنی ہے"
حدیث کی تصدیق :اسالمی تہذیب میں ،حدیث نبوی کی تصدیق اہم ہے تاکہ صحیح معلومات پر مبنی
عبادات اور اخالقی اصول پر عمل کیا جاسکے۔ "الجامع الصحیح" میں معتبر حدیثوں کا انتخاب کیا گیا
ہے جو اسالمی تعلیمات کی تصدیق کرتے ہیں۔
فقہی تفصیالت :کتاب میں فقہی مسائل کی تفصیالت بھی شامل ہیں جو نماز ،روزہ ،زکوۃ ،حج ،وغیرہ
سے متعلق ہیں۔ مسلمانوں کے لئے یہ کتاب ان کی دینی روایات اور عملی معلومات کا مرجع بنتی ہے۔
اخالقی معائن :امام بخاری نے اس کتاب میں اخالقی معائن کو بھی شامل کیا ہے جو مسلمانوں کو
اچھے اخالقی قیمتوں کی تعلیم فراہم کرتے ہیں۔
علماء اور فقہاء کے لئے رہنمائی" :الجامع الصحیح" علماء اور فقہاء کے لئے ایک قیمتی ریفرنس ہے
جو ان کو اسالمی تعلیمات اور حدیث کی تشریعی تفصیالت کی روشنی میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
تاریخی اہمیت :کتاب میں شامل حدیثوں کے ذریعے اسالمی تاریخ کے اہم واقعات کی بھی تصدیق
ہوتی ہے۔
الجامع الصحیح" کی تشریعی اہمیت اور انسانی معاشرت میں اس کا کردار نہ صرف انجام بخشی ہے"
بلکہ اس نے مسلمانوں کو ان کی دینی تعلیمات کی صحیح سمجھ اور عمل پر النے میں مدد فراہم کی
ہے۔ اسی طرح ،امام بخاری کی کوشیشوں نے حدیث نبوی کی تصدیق اور منظم اور تصنیفی کام کی
اہمیت کو ظاہر کیا ہے جو اسالمی علماء اور محققین کیلئے مثالی ہے
عالمی شہرت :امام بخاری کی کتاب "الجامع الصحیح" دنیا بھر میں مشہور ہے اور اس کی تعریف
علماء ،محققین ،اور دینی منظر عالم کی جانی مانی ہے۔ ان کی کوشیشوں کی بدولت ،ان کا نام اسالمی
تہذیب کے سربراہ حدیث نگارین میں شامل ہوا ہے۔
تعلیم و تربیت کا ذریعہ" :الجامع الصحیح" کتاب نے مسلمانوں کو ایک منسجم اور معقول طریقہ سے
ان کی تعلیم و تربیت کی راہ میں مدد فراہم کی ہے۔ اس کتاب کے ذریعے افراد کو ان کے دینی و
معاشرتی ذمہ واریوں کی سمجھ اور ان پر عمل کرنے کا صحیح راستہ دکھایا گیا ہے۔
مذہبی اختالفات کے حوالے سے راہنمائی :امام بخاری کی کتاب مسلمانوں کو مذہبی اختالفات کے
بارے میں راہنمائی فراہم کرتی ہے ،کیونکہ اس میں صحیح حدیثوں کا انتخاب کیا گیا ہے جو مختلف
مذاہب کے اقرار کے قریب قرار ہیں۔
الجامع الصحیح" اور امام بخاری کی مجموعہ کتابوں کی تعریف کرتے وقت ،یہ ضروری ہے کہ ان"
کے کاموں کی عظیم اہمیت کا احترام کیا جائے جو اسالمی تعلیمات کو مستند اور معتبر طریقے سے
فراہم کرنے کی کوشیشوں کا نتیجہ ہیں۔ ان کی کتابیں مسلمانوں کے لئے یکم راہنمائی کے مواد کے
طور پر قدر پائی ہیں جو ان کی روحانی ،اخالقی ،اور دنیوی زندگی کو بہتر بنانے میں مدد دیتی ہیں۔
تاریخی پیشہ ورانگزاری :امام بخاری کی کتاب "الجامع الصحیح" نے ان کی تاریخی پیشہ ورانگزاری
کو بھی ثابت کیا ہے۔ ان کی محنت ،تحقیقات ،اور اختصاص کی بدولت وہ ایک کامیاب محقق اور
حدیث نگار بنے جن کے کاموں کی اہمیت اور قدر علماء کے لئے اباد ہوتی ہے۔
منظومیت اور تنظیم :امام بخاری نے اپنی کتاب کو ایک منظوم اور تنظیمی طریقے سے تشکیل دیا
ہے۔ اس کی کتاب میں حدیثوں کی تفصیالت کو ایک چستی سے منظوم کیا گیا ہے جو قارئین کو ان
کی تصدیق کے لئے مدد فراہم کرتی ہے۔
اخالقی تربیت" :الجامع الصحیح" میں مختلف اخالقی مواقف اور معائن بھی شامل ہیں جو انسانوں کو
اچھے اخالق کی طرف مائل کرتے ہیں۔
علماء کے لئے رہنمائی :امام بخاری کی کتب ،خصوصًا "الجامع الصحیح" ،علماء کو معتبر مراجع کی
فراہمی کرتی ہیں جن کو وہ اپنی تعلیم و تربیت کے لئے استفادہ کرسکتے ہیں۔1
امام بخاری کی کتاب "الجامع الصحیح" اور دیگر ان کی کتب کی تعریف کرتے وقت ،ان کی محنت،
تعلیم ،اختصاص ،اور دینی ذمہ واری کی عظیم قدر کا احترام کرنا ضروری ہے۔ ان کی کتب نے
مسلمانوں کی روحانی ،فکری ،اور عملی تربیت کو ترویج دی ہے اور ان کی کوشیشوں کا اثر دنیا
بھر میں محسوس ہوتا ہے۔1
تعلیمی اہمیت" :الجامع الصحیح" اور امام بخاری کی دیگر کتب اسالمی تعلیمات کو عوام کے لئے بھی
سمجھنے اور ان کو ان کی زندگی میں عمل کرنے میں مدد فرم کرتی ہیں۔ ان کتب کو مدرسوں،
مساجدوں ،مدرسہ نظامیں ،اور اسالمی تعلیمی اداروں میں تعلیمی مناہج کا حصہ بنایا جاتا ہے تاکہ
نوجوان نسل کو صحیح علمی اور دینی تعلیم مل سکے۔
مسلمان امت کی تمیز اور معیار" :الجامع الصحیح" کے معتبر حدیثوں کی بنیاد پر ،مسلمان امت کی
تمیز اور معیار کو معین کیا جاتا ہے۔ اس کتاب کی موثر تصدیق اور تشہیر کے باعث ،مسلمانوں کی
روشنی زمینی معیار کے مطابق بلند کرنے میں مدد ملتی ہے۔
تاریخی تثبیت اور ترویج" :الجامع الصحیح" کی ترویج نے اسالمی تاریخ ،حدیث ،اور تعلیمات کو
علماء کی راہ میں تصدیق اور ترویج دی ہے۔ اس کتاب کے تحقیقاتی کام کے باعث ،مسلمانوں کے دل
میں اپنے دینی اور تاریخی وراثت کی قدر و
الجامع الصحیح" اور امام بخاری کی کتابوں کی تشہیر اور ترویج کی بنیاد پر ،اسالمی تعلیمات"،
اخالقی اصول ،عبادات ،اور دنیوی مسائل کو مسلمانوں کے دل و ذہن میں جگہ دینے میں کامیابی
ملتی ہے۔ ان کی کوشیشوں کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلمان جماعت ان کی رہنمائی اور تعلیم کے ساتھ دنیا
بھر میں اپنے اخالقی ،دینی ،اور علمی مقاصد کو حاصل کرنے کی کوشیش کر رہی ہے۔
تحقیقی معیار :امام بخاری کی کتب ،خصوصًا "الجامع الصحیح" ،تحقیقی معیار کی مثالی مثالی ہیں۔
انہوں نے حدیثوں کی تصدیق کرنے کے لئے مختلف روایات اور سندوں کا جائزہ لیا اور صحیح
حدیثوں کو منتخب کرتے وقت کثیر سند کے اصول کا خصوصی خیال رکھا۔ ان کی کتب میں ایسی
مثالی تحقیق کی موجود ہوتی ہے کہ دنیا بھر کے علماء ان کی تشریف لے کر ان کے تحقیقی اصولوں
کو پسند کرتے ہیں۔
علماء کے مابین مشہوری :امام بخاری کی کتابوں کی تعریف اور ان کی تصدیقیں علماء کے مابین
مشہور ہیں اور ان کے نام اسالمی علمائی دائرہ کار میں المع ہیں۔ ان کے تحقیقی اور حدیث نگاری
کے قابلیتوں کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے مقام کو عالمی سطح پر بڑھایا گیا ہے۔
حدیث کی معیاری مجموعہ" :الجامع الصحیح" کا مقصد نوعیت اور معیار کی بنیاد پر حدیث کو
معیاری طریقے سے منتخب کرنا ہے تاکہ لوگ صحیح حدیثوں کی روشنی میں اپنے عملی اور دینی
معامالت کو حل کریں۔
مختلف موضوعات پر معلومات" :الجامع الصحیح" میں مختلف موضوعات پر حدیثوں کی معلومات
شامل ہیں جو انسانوں کو مختلف جانبداریوں کے بارے میں درست معلومات فراہم کرتی ہیں اور
صحیح دالئل کے ذریعے بال غیرتی سبائی موضوعات پر روشنی ڈالتی ہیں۔
قومی اور انسانی یکجہتی کی ترویج :امام بخاری کی کتب نے انسانوں کو قومی اور انسانی یکجہتی
کی ترویج کی سمجھ دی ہے۔ ان کے کتب مختلف قوموں ،زبانوں ،اور تعلیمات کے لوگوں کے
درمیان ایک اشتراک اور ایکترجی فہم کو بڑھاتے ہیں۔
امام بخاری کی کتب کی تشہیر ،تعریف ،اور ترویج کے باعث ،ان کی محنتی کوشیشوں کی اہمیت اور
ان کے کاموں کا معاشرتی ،دینی ،اور تعلیمی میدان میں اثر دنیا بھر میں محسوس کیا جاتا ہے۔ ان کے
کام نے امت کو دینی اور اخالقی تربیت دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور ان کی کتب مسلمانوں کے
لئے ہدایتی منار ہیں جو ان کی روحانی ،دینی ،اور دنیوی زندگی کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرتی
ہیں۔
اخالقی تعالیم کی ترویج :امام بخاری کی کتب میں اخالقی تعالیم کی بھرمار کی گئی ہے جو مسلمانوں
کو اخالقی اصولوں کا پیروی کرنے اور اچھے اخالق کو اپنانے کی راہ دکھاتی ہیں۔ ان کے کام نے
انسانیت کو بہترین اخالقی معیارات کی طرف اشارہ کیا ہے اور ان کی کتب کا مطالعہ اخالقی ترقی
کی راہ میں مدد فراہم کرتا ہے۔
معاشرتی عدالت کی ترویج :امام بخاری کی کتب معاشرتی عدالت ،برابری ،اور انصاف کی ترویج
کرتی ہیں۔ ان کی تصدیق کے ذریعے مختلف تربیتی ،اخالقی ،اور اجتماعی موضوعات پر بھی
روشنی ڈالی جاتی ہے جو ایک عدالت پسند معاشرت کی تخلیق میں مدد فراہم کرتی ہیں۔
دینی تعلیمات کی جگہ بنانے میں مدد :امام بخاری کی کتب مسلمانوں کو دینی تعلیمات کی سمجھ،
تصدیق ،اور عملی انطباق میں مدد دیتی ہیں۔ ان کی کتب کے ذریعے لوگوں کو دینی معامالت کی
تشریعی تفصیالت ملتی ہیں جو ان کی روحانی زندگی کو بہتر بنانے میں مدد کرتی ہیں۔
تفہیم اور ترویج کا ذریعہ :امام بخاری کی کتب نے معنوں کی تفہیم اور دینی تعلیمات کی ترویج کا
بھرمار کیا ہے۔ ان کے کاموں نے مسلمانوں کو ان کے دینی اصولوں کی تصدیق کرنے میں مدد فراہم
کی ہے اور ان کی روحانی ،فکری ،اور عملی روایات کو سمجھنے میں مدد کرتی ہیں۔
دعوتی کام کی ترویج :امام بخاری کی کتب نے دعوتی کام کی ترویج کی ہے جو دعوت کرنے والوں
کو دینی اصولوں اور تعالیم کی تصدیق کے اہمیت کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔
امام بخاری کی کتب کی تشہیر اور ترویج کے باعث ،ان کی محنتی کوشیشوں کی اہمیت اور ان کے
کاموں کا معاشرتی ،دینی ،تعلیمی ،اور دعوتی میدان میں اثر دنیا بھر میں محسوس کیا جاتا ہے۔ ان
کے کام نے مسلمانوں کو ان کے دینی اصولوں کی سمجھ ،تصدیق ،اور عمل پر النے میں مدد فراہم
کی ہے اور ان کی روحانی ،دینی ،اور دنیوی زندگی کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کی ہے۔
تعلیمی اداروں کی بنیاد :امام بخاری کی کتب کی تشہیر اور ترویج کے نتیجے میں مختلف تعلیمی
ادارے قائم کئے گئے ہیں جو دینی تعلیمات کو منظم اور موثر طریقے سے فراہم کرتے ہیں۔ ان کے
کتب کو تعلیمی مناہج کا حصہ بنایا جاتا ہے تاکہ طلباء کو دینی تعلیمات مل سکیں۔
روحانی رہنماؤں کی تربیت :امام بخاری کی کتب نے روحانی رہنماؤں کی تربیت کے لئے بھی مواد
فراہم کی ہے۔ ان کی کتب کے ذریعے روحانی رہنماؤں کو دینی تعلیمات کی تصدیق کرنے اور ان کو
ان کی جماعت کو بہتر طریقے سے رہنمائی فراہم کرنے کا ذریعہ ملتا ہے۔
علماء کی تربیت :امام بخاری کی کتب علماء کی تربیت کے لئے بھی قدرمندی کی مصدر ہیں۔ ان کی
کتب نے علماء کو صحیح حدیثوں کی اہمیت کو سمجھنے اور ان کو دینی مسائل کو منظم اور موثر
طریقے سے پیش کرنے کی مہارت فراہم کی ہے۔
عام لوگوں کی ترویج :امام بخاری کی کتب نے عام لوگوں کی ترویج کے لئے بھی کام آئی ہیں۔ ان کی
کتب کے ذریعے لوگوں کو دینی تعلیمات کی سمجھ ،تصدیق ،اور عمل پر النے کی راہ دکھائی جاتی
ہے جو ان کی روحانی ،دینی ،اور معاشرتی زندگی کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔
اختالفات کی حل کی راہنمائی :امام بخاری کی کتب اختالفات کی حل کی راہنمائی کرتی ہیں۔ ان کی
کتب میں مختلف موضوعات پر حدیثوں کی تفصیالت شامل ہوتی ہیں جو اختالفات کے مسائل کو حل
کرنے میں مدد فراہم کرتی ہیں اور انسانوں کو صحیح دالئل کے ذریعے سوچنے کی سمجھ دیتی ہیں۔
امام بخاری کی کتب کی تشہیر اور ترویج کے نتائج میں ،مختلف میدانوں میں ترقی ،دنیاوی اصولوں
اور دینی تعلیمات کی سمجھ ،انسانی اخالق ،عدالت ،تعلیم ،تربیت ،دعوت ،روحانی رہنماؤں کی
تربیت ،علماء کی تربیت ،عوام کی تربیت ،اختالفات کے حل ،اور دینی معامالت کو بہتر بنانے میں
مدد ملتی ہے۔ ان کی کتب کا مطالعہ مسلمانوں کو ان کی دنیوی اور دینی زندگی کو بہتر بنانے میں
مدد فراہم کرتا ہے اور ان کے اصولوں کی روشنی میں ان کو اپنے اہداف کی تالش کرنے میں ہدایت
کرتا ہے۔
معاشرتی اصالح کی ترویج :امام بخاری کی کتب معاشرتی اصالح کی ترویج کرتی ہیں جو انسانوں
کو بہتر معاشرتی مواقع پیش کرنے کی راہ دکھاتی ہیں۔ ان کی کتب کے ذریعے اخالقی اصولوں کی
پیروی کرنے کی ترویج کی جاتی ہے جو معاشرتی امور کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔
دینی تفہیم کی ترویج :امام بخاری کی کتب دینی تفہیم کی ترویج کرتی ہیں جو انسانوں کو دینی
معلومات کی درستی کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ ان کی کتب کے ذریعے لوگوں کو اپنے
دینی اعتقادات کو بہتر سے سمجھنے اور دنیاوی مسائل کو دینی روایات کی روشنی میں دیکھنے کی
صالحیت ملتی ہے۔
تعلیمی مقاصد کی ترویج :امام بخاری کی کتب تعلیمی مقاصد کی ترویج کرتی ہیں جو طلباء کو
معیاری تعلیمی منصوبوں کی طرف رہنمائی کرتی ہیں۔ ان کی کتب کے ذریعے طلباء کو علمی تعلیم
کی اہمیت اور معیار کو قدر دینے کی توجہ دی جاتی ہے۔
دینی اصولوں کی سمجھ و تصدیق کی ترویج :امام بخاری کی کتب دینی اصولوں کی سمجھ و تصدیق
کی ترویج کرتی ہیں جو مسلمانوں کو اپنے اعتقادات کی قوت کو بڑھانے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔ ان
کی کتب کے ذریعے لوگوں کو دینی مواقف کی سمجھ ،تصدیق ،اور پیروی کرنے کی توجہ دی جاتی
ہے۔
روحانی ترقی کی ترویج :امام بخاری کی کتب روحانی ترقی کی ترویج کرتی ہیں جو انسانوں کو دینی
راہوں پر ترقی کرنے کی راہ دکھاتی ہیں۔ ان کی کتب کے ذریعے لوگوں کو روحانی تربیت ،تقوٰی ،
اور دینی پیشہ ورانہ ترقی کی سمجھ دی جاتی ہے۔
امام بخاری کی کتب کی تشہیر اور ترویج کے نتائج میں ،معاشرتی اصالح ،دینی تفہیم ،تعلیمی مقاصد،
دینی اصولوں کی سمجھ و تصدیق ،روحانی ترقی ،اور دعوت کی ترویج کی جاتی ہے۔ ان کی کتب
کے مطالعے سے انسانوں کی دنیاوی اور دینی زندگی کو بہتر بنانے کی راہ میں رہنمائی ملتی ہے
اور ان کے اصولوں کی روشنی میں ان کو اپنے مقاصد کی پیروی کرنے کی توجہ حاصل ہوتی ہے۔
سوال نمبر 4 :علم روایت پر لکھی گئی ؎چوتھی صدی کی مشہور کتابوں کا تعارف کرائیں۔
جوابَ :کتاب’ رواۃ الحدیث‘ کا تعارف
جامعہ اسالمیہ مدینہ منورہ میں کلیۃ الحدیث کے نصاب میں ’ رواۃ الحدیث‘ کے نام سے ایک ’مادہ‘
مقرر ہے۔ ہم نے یہ موضوع کلیہ کے مایہ ناز استاد دکتور عواد رویثی حفظہ ہللا سے پڑھا ،اس وقت
انہوں نے اپنا ایک مذکرہ دیا تھا ،لیکن بعد میں یہی ’نوٹس‘ ایک مکمل کتاب کی شکل میں طباعت
پذیر ہوئے۔
زیر نظر تحریر میں اسی کتاب کا تعارف مقصود ہے۔
جیسا کہ کتاب کے نام ’رواۃ الحدیث‘ سے ظاہر ہے کہ اس میں ’راویاِن حدیث‘ سے متعلقہ مباحث کا
:ذکر ہے۔ مضامینِ کتاب درج ذیل ترتیب پر ہیں
سب سے پہلے مقدمہ اور پھر تمہید ہے ،جس میں اصول حدیث کی بجائے ’علم اإلسناد‘ کی اصطالح
استعمال کی گئی ہے ،پھر ’سند‘ کی تعریف ،اہمیت اور ’سند‘ کے استعمال کی ابتدا کے متعلق
معلومات ہیں ،ابن سیرین کے مشہور قول" :لم يكونوا يسألون عن اإلسناد فلما وقعت الفتنة ،قالوا :سموا
لنا رجالكم "...کی شاندار تشریح ہے ،اور اس حوالے سے مستشرقین کے شبہات و اعتراضات کا
شافی رد ہے۔
تمہید کے دوسرے حصے میں ’رواۃ الحدیث‘ کو ’ علم اإلسناد‘ کی ایک قسم اور فرع کے طور پر
ذکر کرکے ،اس کی تعریف ،اس سے متعلق محدثین کے اہتمام اور تصنیفات کی ابتدا کا ذکر ہے۔
رواۃ سے متعلق کتب کا تعارف
اس باب کا مقصد پانچویں صدی ہجری تک راویاِن حدیث سے متعلق کتابوں کا تعارف ہے ،جبکہ یہ
سات فصول پر مشتمل ہے۔
پہلی فصل :تعارف صحابہ
سلسلہ رواۃ کی سب سے افضل کڑی صحابہ کرام ہیں ،پہلی فصل انہیں سے متعلق ہے ،جس کا عنوان
ہے’ :صحابہ سے متعلق کتابیں‘۔
اس فصل کی تمہید میں صحابی کی تعریف ،صحابیت کا ثبوت ،طبقات صحابہ ،عدالت صحابہ وغیرہ
کے حوالے سے اہل سنت کے موقف اور بعض اہل بدعت کی آراء کا بیان ہے ،اسی طرح مکثرین
صحابہ کا ذکر اور حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا عنہ سے متعلق شبہات واعتراضات کی تردید کی گئی
ہے۔
اس فصل کا مرکزی مضمون صحابہ کے تعارف پر لکھی گئی کتب کا عمومی ذکر ،جبکہ دو کتابوں
االستیعاب البن عبد البر اور اإلصابہ البن حجر کا تفصیلی تعارف ہے۔
دوسری فصل :کتِب طبقات
محدثین کے ہاں راویان کی ترتیب میں مختلف مناہج میں سے ایک منہج طبقاتی تقسیم کا بھی ہے ،لہذا
:اس فصل میں اس حوالے سے لکھی گئی کتابوں کا ذکر اور تین کتابوں کا تفصیلی تعارف ہے
الطبقات البن سعد ،الطبقات از خلیفہ خیاط اور المعین فی طبقات المحدثین از حافظ ذہبی
اس سے پہلے تمہیدی مباحث کے طور پر ’ علم الطبقات‘ کی تعریف ،اہمیت اور اس سلسلے میں
مصنفین کے مختلف مناہج کا ذکر ہے۔
تیسری فصل :کتِب جرح وتعدیل
یہاں جرح وتعدیل کا معنی ومفہوم ،مشروعیت ،جارح و معدل کی صالحیت و اہلیت اور علم جرح و
تعدیل کی اہمیت و فضیلت کا بیان ہے۔
بعد میں جرح و تعدیل کی کتابوں کا عمومی ذکر کرکے چار کتابوں کا تفصیلی تعارف پیش کیا گیا
:ہے
التاریخ الکبیر للبخاری ،الجرح والتعدیل البن أبی حاتم ،الثقات البن حبان اور الکامل البن عدی۔
چوتھی فصل :تاریِخ بلدان سے متعلق کتابیں
اس میں تاریخ بلدان سے مراد کیا ہے؟ اس میں تصنیف و تالیف کی سوچ کب کیسے پیدا ہوئی؟ کے
بیان کے بعد اس کے متعلق کتابوں کا ذکر ہے ،اور آخر میں ’تاریخ بغداد للخطیب‘ کا تفصیلی تعارف
پیش کیا گیا ہے۔
پانچویں فصل:پھر پانچویں فصل کنیت ،اور القاب و انساب سے متعلق ہے ،جس میں تمہیدی مباحث
کے عالوہ کنیت سے متعلق "الكنى واألسماء للدوالبي" ،القاب سے متعلق "نزهة األلباب البن حجر"
اور انساب سے متعلق " األنساب للسمعاني" کا تفصیلی تعارف ہے۔
اسی فصل کا دوسرا حصہ ملتے جلتے اسماء و القاب وغیرہ کی پہچان سے متعلق ہے ،جس میں
مؤتلف و مختلف ،متفق و مفترق اور مشتبہ کی وضاحت ،اس سلسلے میں لکھی گئی کتابوں کا
عمومی ذکر ہے ،جبکہ "اإلكمال البن ماكوال" اور "المتفق والمتفرق للخطيب" اور "تبصير المنتبه" كا
تفصیلی تعارف ہے۔
چھٹی فصل میں راویان کی تاریخ وفات کے متعلق کتابوں اور معاجم الشیوخ کا ذکر ہے ،اور علم
الرواۃ کی اس قسم کی اہمیت کا بیان ہے۔
ساتویں فصل :مخصوص کتِب حدیث کے رواۃ کا تعارف
محدثین نے بعض کتابوں کے راویوں اور رجال کے تعارف پر مخصوص کتب بھی تصنیف فرمائی
ہیں ،یہاں ان کتابوں کا تذکر ہے ،جبکہ اس ضمن میں لکھی گئی چار اہم کتابوں یعنی ’تہذیب الکمال
للمزی‘ ،الکاشف للذہبی‘ اور ابن حجر ’ التہذیب‘ اور ’التقریب‘ کا تفصیلی تعارف ہے۔
یوں کتاب کا پہال باب مکمل ہوتا ہے ،ویسے اس باب کی شرط یہ تھی کہ پانچویں صدی تک کی
کتابوں کا ذکر ہوگا ،لیکن اہمیت کے پیش نظر ساتویں فصل اور اس سے پہلے بعض کتابیں چھٹی،
ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری کی بھی ذکر کردی گئی ہیں۔
باب دوم :رواۃ سے متعلق خاص اصطالحات
یہ مکمل باب جن مباحث و مضامین پر مشتمل ہے ،ان سب کو اس فن کا کوئی متخصص ہی سمجھ
سکتا ہے ،ورنہ عام شخص جو اس علم سے بے بہر ہ ہے ،اس کے نزدیک یہ مضامین کسی طلسم و
تعویذ کو پڑھنے کے مترادف ہیں۔ اس باب کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ محدثین نے فن حدیث اور
جرح و تعدیل اور علم الرواۃ میں کس کس انداز سے داِد تحقیق دی ہے۔
اس باب کے مضامین ( )15فصلوں میں منقسم ہیں۔
پہلی فصل :رواية األكابر عن األصاغر یعنی بڑوں کی چھوٹوں سے روایت کی پہچان
عموما یہ ہوتا ہے کہ چھوٹا بڑے سے روایت کرتا ہے ،لیکن بعض دفعہ ایسے بھی ہوتا ہے کہ بڑے
لوگ چھوٹوں سے روایت کرتے ہیں ،اور یہ حاالت و استثناءات محدثین نے اس فن کی کتابوں میں
خوب کھول کر بیان کردیے ہیں ،تاکہ کوئی جاہل اور سطحی نظر واال یہ نہ کہہ دے کہ سند میں
غلطی یا تقدیم و تاخیر ہوگئی ہے۔ منکرین حدیث پتہ نہیں کن وادیوں میں گم رہتے ہیں ،ذرا ان
باریکیوں کو دیکھیں تو انہیں اندازہ ہو کہ وہ انکار حدیث میں مبتال ہو کر اس عظیم الشان فن پر کس
قدر الیعنی اعتراضات کرنے پر اتر آئے ہیں۔
نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کا حدیث جساسہ کو تمیم داری رضی ہللا عنہ سے بیان کرنا ،سائب بن
یزید رضی ہللا عنہ کا " من نام عن حزبه "...والی روایت کو ایک تابعی عبد الرحمن القارّی سے بیان
کرنا ،اسی طرح ابن شہاب زہری وغیرہ کا مالک سے بیان کرنا یہ اس قسم کی مثالیں ہیں۔ اور محدثین
کی اس موضوع سے متعلق درجن کے قریب کتابیں ہیں۔
اس کے بعد دو فصلوں میں روایۃ اآلباء عن االبناء اور روایۃ األبناء عن اآلباء کا ذکر ہے۔
جیساکہ حضرت عباس نے اپنے بیٹے فضل سے روایت بیان کی ،حضرت عمر نے اپنے صاحبزادے
عبد ہللا سے روایت کی۔ رضی ہللا عنہم اجمعین۔
اسی طرح عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ ،بہز بن حکیم عن أبیہ عن جدہ ،طلحۃ بن مصرف بن
عمرو بن کعب عن أبیہ عن جدہ دوسری قسم کی مثالیں ہیں۔
چوتھی فصل :ہم عمر لوگوں کی روایت کی پہچان
اسے علمی اصطالح میں روایۃ األقران اور المدبج جیسے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے ،عموما یہ ہوتا
ہے کہ مختلف ساتھی مل کر اپنے شیخ سے روایت کرتے ہیں ،لیکن بعض دفعہ ایسے بھی ہوتا ہے ہم
عصر اور ساتھی راوی ایک دوسرے بھی روایت کرلیتے ہیں ،محدثین نے ان باریکیوں کی بھی
صراحت کر رکھی ہے ۔ پھر اس میں مزید تفصیل ہے ،اگر دونوں ساتھی ایک دوسرے سے بیان
کریں ،تو اس کا نام اور ہے ،اور اگر دونوں میں سے صرف ایک ہی دوسرے سے بیان کرے ،لیکن
دوسرا پہلے سے بیان نہ کرے تو اس کا نام اور ہے ۔ پہلی صورت کو ’مدبج‘ اور دوسری کو ’ غیر
مدبج‘ کہا جاتا ہے۔
حضرت عائشہ اور ابو ہریرہ رضی ہللا عنہما کا ایک دوسرے سے روایت کرنا ،مالک و اوزاعی کا،
اسی طرح احمد بن حنبل اور علی بن المدینی کا ایک دوسرے سے روایت کرنا اس کی مثال ہے۔
جو لوگ کتب حدیث سے اسانید دیکھتے ہیں ،وہ اس کے فائدے کو سمجھ سکتے ہیں کہ اس کی
معرفت سے سند میں لگنے والی بعض غلطیوں سے انسان محفوظ رہتا ہے ۔
امام مسلم ،دارقطنی ،ابن الجوزی اور ابن حجر وغیرہ کی اس حوالہ سے مستقل تصنیفات ہیں۔
پانچویں فصل ’معرفۃ األخوۃ واألخوات‘ یعنی بہن بھائیوں کی پہچان سے متعلق ہے ،اس کی معرفت
سے بھی انسان کئی ایک غلطیوں سے بچ سکتا ہے ،مثال مشہور راوی ہیں ہمام بن منبہ ،لیکن انہیں
کے ایک بھائی ہیں ،وہب بن منبہ ،دونوں کا علم ہوگا،تو جب دوسرے کی روایت آئے گی ،تو یہ نہیں
کہا جائے گا کہ محدث کو نام لینے میں غلطی لگ گئی ہے ،کہنا ہمام بن منبہ تھا ،کہہ دیا وہب بن منبہ
۔ وغیرہ۔
اس میں بھی درجنوں مستقل تصانیف ہیں۔
اس کے بعد کی فصول میں بھی اس قسم کی باریکیوں کا ذکر اور ان سے متعلق کتب کا تعارف
موجود ہے ،مثال وہ راوی جن سے صرف ایک ہی راوی روایت کرتا ہے ،وہ راوی جنہوں نے
صرف ایک حدیث ہی بیان کی ہے ،وہ نام یا کنیت جو صرف ایک راوی کی ہی ہے ،اسی طرح اسانید
میں بعض دفعہ ’رجل ،شیخ‘ جیسے الفاظ آجاتے ہیں ،اسی طرح بعض دفعہ ’عبد ہللا ،عبد الرحمن‘
جیسے مشہور و کثیر االستعمال نام آجاتے ہیں ،ایسی صورت میں راوی کی پہچان کیسے ہوگی ،اسی
طرح ایک ہی راوی سے روایت کرنے والے دو شخص ہیں ،لیکن دونوں کی عمروں میں پچاس سال
کا فرق ہے ،ان حاالت کی بھی تفصیل ہے۔ احمد ابن حجر میں محدث آپ کو بتائے گا کہ حجر احمد کا
والد نہیں بلکہ یہ اس کی پشت میں کسی اور کا نام ہے ،أبو مسعود البدری کے لقب کی توضیح محدث
کرے گا کہ بدر میں شریک نہ ہونے کے باوجود انہیں بدری کیوں کہا جاتا ہے؟ راوی ثقہ ہے ،لیکن
لوگوں میں وہ عبد ہللا الضعیف کے نام سے کیوں مشہور ہے؟ صحیح العقیدہ شخص کو معاویۃ الضال
کیوں کہا گیا؟ چار چار ناموں کے متعلق محدثین آپ کو بتائیں گے کہ یہ ایک ہی شخصیت کے مختلف
نام تھے۔
ان تمام فصول کو دیکھ کر محدثین کی باریک بینی اور حفاظت سنت میں احتیاط کا اندازہ کیا جاسکتا
ہے ۔
میں اسی لیے عرض کرتا ہوں ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر منہ پھاڑ کر حدیث کو خالف عقل یا جھوٹ یا
گستاخی قرار دینا آسان کام ہے ،لیکن اس کی تحقیق و تفتیش کے اصول و وضابطے سمجھنے کے
لیے پوری کی پوری عمریں درکار ہیں۔
باب سوم :طبقاتِ رواۃ
راویاِن حدیث میں کچھ لوگ ایسے ہیں ،جن سے پانچ دس لوگ روایت کرنے والے ہیں ،جن سے آٹھ
دس احادیث مروی ہیں ،لیکن کچھ ایسے ہیں ،جن کے تالمذہ کی فہرست سینکڑوں پر مشتمل ہے ،ان
کی احادیث کی تعداد ہزاروں میں ہے ،ایسی صورت حال کے لیے ’علم طبقات الرواۃ‘ معرض وجود
میں آیا۔
مشہور اور کبار راویاں حدیث ،ائمہ ومحدثین کو جمع کیا گیا ،ان سے روایت کرنے والے سیکڑوں
ہزاروں لوگوں کی درجہ بندیاں کی گئیں ،بعض کی عمر کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ،بعض
کے تالمذہ کو اس کے علمی اسفار کی روشنی میں ترتیب دیا گیا ،تاکہ معلوم ہو کہ کسی نے کوئی
روایت کسی شیخ سے کس حالت ،ماحول اور عالقے میں سنی ہے ۔ ایک ہی امام اور محدث نے جب
مختلف لوگ مختلف باتیں بیان کریں گے ،تو ترجیح کس کی بات کو ہوگی؟ مصنف نے تیسرے باب
میں ان سب باریکیوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے ۔ علل الحدیث کے باب میں بھی اس کی بہت اہمیت
ہے ۔ علی بن مدینی ،احمد بن حنبل ،ابو حاتم الرازی ،ابو زرعۃ الرازی ،امام بخاری ،امام نسائی،
دارقطنی وغیرہ جنہیں ائمہ علل کہا جاتا ہے ،یہ سب باریکیاں ان کی آنکھوں کے سامنے ہوا کرتی
تھیں تو یہ ’ائمہ علل‘ کہالئے۔
صحابہ میں کثرت تالمذہ میں عبد ہللا بن مسعود ،عبد ہللا بن عباس اور زید بن ثابت رضی ہللا عنہم
مشہور ہوئے ،پھر بعد میں مدینہ میں ابن شہاب زہری ہوئے ،مکہ میں عمرو بن دینار ،بصرہ میں
قتادۃ بن دعامہ اور یحیی بن أبی کثیر ،کوفہ میں سبیعی اور اعمش کے گرد طلبہ امڈ امڈ کر آنے
لگے ....پھر بعد میں ان کے شاگردوں میں پھر ان کے شاگردوں میں .....اس طرح آخر تک یہ سلسلہ
جاری رہا۔ اور ہر زمانے کے محدثین نے ان جلیل القدر شخصیات کے شاگردوں اور تالمذہ کو
مختلف اعتبار سے تقسیم کیا ،اور یہی علم الطبقات کہالیا۔
لیکن ہم اس دور سے گزر رہے ہیں ،جہاں ایک طرف تو الحمدہلل محدثین کی جہود کو نمایاں کرنے
والے لوگ ہیں ،لیکن دوسری طرف ایسے ظالم و جاہل بھی ہیں ،جو ان باتوں کو سمجھنے کی بجائے
بالکل ویسے ہی جملے بازی کرتے ہیں ،جو دور نبوت کے مکذبین و منکرین کیا کرتے تھے " ،وإذ
لم يهتدوا به فسيقولون هذا إفك قديم" کہ جب ان کی عقلوں میں یہ عظیم الشان علم اور فن نہیں آئے گا
تو یہ اس کی تکذیب و انکار کرنا شروع کردیں گے۔
کتابوں کے تعارف میں مصنف کا منہج
مصنف کا منہج یہ ہے کہ ہر موضوع سے متعلق کئی ایک کتابوں کا عمومی تذکرہ کرتے ہیں ،اور
بعض کتابوں کا خصوصی تعارف ،جن کتابوں کا صرف ذکر ہے ،ان کی تعداد تو سیکڑوں ہے ،البتہ
جن کتابوں کا تفصیلی تعارف ہے ،ان کی تعداد دو درجن کے قریب ہے۔ کتاب کے تعارف میں جن
چیزوں کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے ،مصنف نے ان نکات کا ابتدا میں ذکر کیا ہے کہ کسی بھی
:کتاب سے کما حقہ استفادہ کے لیے درج ذیل دس امور مد نظر رکھنے چاہییں
کتاب کا عنوان یعنی نام ،جو کہ کتاب کی اصل پہچان ہوتا ہے ۔ )(1
مؤلف کتاب کی پہچان ،جس سے کتاب کی علمی قیمتی کا اندازہ ہوتا ہے ۔ )(2
کتاب کا موضوع کہ یہ کس فن اور اور اس کی کس قسم میں ہے ۔ )(3
کتاب کی قدر و منزلت ،جو کہ علما کی تعریف و توصیف ،کتاب کی طرف ان کی توجہ اور )(4
اعتماد سے معلوم ہوتی ہے ،اسی طرح کتاب کے مصادر اور مؤلف کی قدر ومنزلت بھی کتاب کے
علمی قد کاٹھ میں اضافہ کا باعث بنتی ہے ۔
کتاب کی ترتیب کا معلوم ہونا ضروری ہے۔ تاکہ اس سے استفادہ کرنا آسان ہو۔ )(5
یہاں مصنف نے ترتیب کتاب سے متعلق بہت مفید علمی نکات بیان کیے ہیں ،مثال :کتاب کی ترتیب
میں علما کے کئی ایک طریقے ہیں ،بعض حروف تہجی کے اعتبار سے مرتب کرتے ہیں ،بعض
طبقات پر ،بعض عالقوں اور شہروں کی ترتیب سے ،بعض قبائل وغیرہ کی نستبوں کے اعتبار سے،
بعض تاریخ وفات کے لحاظ۔ بعض طریقوں میں مزید تفصیالت ہیں ،مثال حروف تہجی پر مرتب
کتابوں میں بھی فرق ہے ،کیونکہ متقدمین عموما نام یا کنیت ولقب میں سے صرف پہلے لفظ کا خیال
رکھتے ہیں ،جیسا کہ بخاری و ابن ابی حاتم وغیرہ ،جبکہ متاخرین جیسا کہ مزی ،ذہبی و ابن حجر
وغیرہ ہر ہر لفظ کا آخر تک خیال رکھ کر ترتیب لگاتے ہیں ،اسی طرح مشرقی حروف تہجی کی
ترتیب اور مغربی حروف تہجی کی ترتیب میں بھی فرق ہے ،یہاں حروف تہجی کی ترتیب کی بعض
مفید تفصیالت بھی مذکور ہیں۔
مؤلف کتاب کا منہج معلوم ہونا ضروری ہے ،بعض دفعہ مؤلف خود بیان کردیتے ہیں ،بعض دفعہ )(6
کوئی اور محدث اس کا ذکر کرتا ہے ،ورنہ خود کتاب کے استقراء سے معلوم کرنا پڑتا ہے ۔
کتاب کے مصادر و موارد معلوم ہونا ضروری ہیں ،جیساکہ گزرا کہ اس سے کتاب کی قدر و )(7
منزلت کے تعین اور نصوص کی توثیق میں مدد ملتی ہے ۔
دیگر علما کا کتاب کے ساتھ اہتمام اور توجہ جسے عموما’ عنایۃ العلماء بالکتاب‘ کے عناوین )(8
سے ذکر کیا جاتا ہے ۔ اس عنایت و اہتمام کی بھی مختلف شکلیں ہیں ،مثال کسی کتاب کو مرتب کرنا،
شرح کرنا ،اختصار و تہذیب کرنا ،سماع و اجازہ اور نسخ وغیرہ ،یہ سب اہتمام کی ہی مختلف شکلیں
ہیں۔
کتاب پر اعتراضات و انتقادات معلوم کرنا بھی ضروری ہے ،کیونکہ بعض کتابوں پر دیگر علما )(9
کے ملحوظات و تحفظات ہوتے ہیں۔
کتاب کی طبعات کا تعارف بھی اہم ہے ،تاکہ طالب علم اچھے اور بہترین طبعہ سے استفادہ )(10
کرے۔ لیکن مصنف کے نزدیک اس حوالے سے مختلف طبعات کو جمع کرنے میں وقت اور پیسہ
صرف کرنا ،پھر ان میں کیڑے نکالنا ،یہ کوئی زیادہ مفید کام نہیں۔ کوشش کرکے ایک طبعہ اختیار
کرلینا چاہیے ،اور بقیہ سے بوقت ضرورت استفادہ کرلیا جائے۔
:اب بطور نمونہ مشہور زمانہ کتاب ’تقریب التہذیب‘ کے تعارف سے بعض نکات پیش خدمت ہیں
کتاب کےعنوان اور مصنف کے نام کو دو سطروں میں بیان کردیا گیا ہے ،پھر موضوع کتاب کو ابن
حجر کی زبانی ہی بیان کیا کہ یہ تہذیب التہذیب کا اختصار ہے ،اس کے لیے مصنف نے تعجیل
المنفعۃ وغیرہ سے بھی معلومات نقل کی ہیں۔
علمی قدر ومنزلت :تقریب کی علمی قدر ومنزلت کو 9نکات میں واضح کیا گیا ہے۔ مثال یہ کہ اس
کے مؤلف بہت بلند ترین شخصیت ہیں ،یہ مصنف کی فنی اور علمی زندگی کا نچوڑ اور خالصہ ہے،
مختصرات میں اس سے بہتر کتاب موجود نہیں ،کتاب مختصر ہونے کے ساتھ جامع ہے ،علما کے
ہاں اسے شہرت و تلقی حاصل ہے ،اور اس کثیر تعداد میں خطی نسخے ہیں ،مؤلف گو 827ھ میں
اس کی تالیف سے فارغ ہوچکے تھے ،لیکن 850ھ یعنی وفات سے دو سال قبل تک اس کی تحریر و
تدقیق اور نظرثانی میں مصروف رہے۔
پھر منہج مؤلف اور تالیف کی غرض و غایت کو ابن حجر کے الفاظ میں ہی نقل کرنے کے بعد نکات
کی شکل میں منہج مؤلف کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے ۔
اس کے بعد ابن حجر کے بیان کردہ ’مراتب الجرح والتعدیل‘ اور ’ طبقات الرواۃ‘ پر نفیس تعلیقات و
توضیحات ہیں ،جو بعض باحثین کے نزدیک اسی کتاب کا خاصہ ہیں ،کہیں اور یہ تفصیالت نہیں
ملتیں۔
طبعات کے ذکر میں لکھنو کے طبعہ حجریہ کو قدیم طبعات میں افضل قرار دیا ،اور جدید طبعات میں
محمد عوامہ اور شیخ ابو االشبال مرحوم کے طبعہ کو افضل قرار دیا۔ اس کے عالوہ کئی ایک طبعات
اور علمی بحوث و دراسات کا ذکر کیا ،جو ابن حجر کی تقریب یا منہج یا تعقبات و استدراکات پر
مشتمل ہیں۔ ایک بہت اہم کتاب جس کا یہاں ذکر نہیں ،وہ ہے :تحفة اللبيب بمن تكلم فيهم الحافظ ابن
حجر من الرواة في غير «التقريب» ،شیخ مقبل بن ہادی الوادعی کے کسی شاگرد کی طرف جمع کردہ،
بہت نفیس کتاب ہے ،راویوں کے متعلق ابن حجر کی تمام کتابوں سے ’احکام‘ جمع کردیے گئے ہیں۔
بہر صورت شیخ عواد کا تقریب کا تفصیلی و علمی تعارف الئق مطالعہ ہے ،کبھی تقریب کا تعارف
لکھنے کا موقعہ مال تو اس کے نکات پیش کروں گا۔ ان شاءہللا۔ زیر نظر تحریر تقریب کے نہیں ،بلکہ
’رواۃ الحدیث‘ کے تعارف پر مشتمل ہے۔
کتاب ’رواۃ الحدیث ‘سے حاصل شدہ نتائج
:مصنف نے آخر میں اس طویل کتاب سے حاصل شدہ نتائج کو درج ذیل نکات میں بیان کیا ہے
ہللا تعالی نے اس دین کو محفوظ کیا ،اور اس کے لیے ایسے لوگوں کو توفیق دی ہے ،جنہوں نے )(1
دن رات اس کے لیے محنتیں اور کوششیں کی ہیں ،چاہے وہ قرآن سے متعلق ہوں یا حدیث کے
متعلق۔
اسناد اس امت کی خصوصیات میں سے ایک ہے ،نہ صرف محدثین نے اس سے دین کو محفوظ )(2
کیا ،بلکہ دیگر علوم وفنون اور دیگر ادیان و ملل بھی اس سے تاثر لیے بغیر نہ رہ سکے۔
اسناد سے متعلق علم رواۃ الحدیث جیسا جلیل القدر علم علمائے اہل حدیث کے مفاخر و مآثر میں )(3
شمار ہوتا رہے گا۔
علم الرواۃ ایک طویل و دقیق علم ہے ،اسی لیے اس سے متعلق مصنفات سے مکتبوں کے مکتبے )(4
بھرے ہوئے ہیں۔
علم الرواۃ مختلف مراحل سے گزرا ہے ،مختلف زمانوں میں اس کی خدمت مختلف انداز سے )(5
ہوتی رہی ہے۔
کئی ایک زمانوں میں ’راویاِن حدیث‘ بالخصوص صحابہ کرام اور مکثرین رواۃ کو طعن وتشنیع )(6
کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے ،تاکہ ان سے مروی شدہ روایات و احادیث اور سنتوں کے متعلق شکوک و
شبہات کو ہوا دی جائے ،لیکن طاعنین و ظالمین مر مٹ گئے ،جبکہ راویان حدیث صحابہ و غیر
صحابہ آج بھی قدر و منزلت کی اوج ثریا پر موجود ہیں اور رہیں گے ،جبکہ حاسدین و فتنہ پروروں
کی ناک ہمیشہ خاک آلود ہوتی رہے گی ۔
رکن اّو ل
مصاحف عثمانیہ میں سے کسی ایک کے ساتھ موافقت ہویعنی حضرت عثمان رضی ہللا عنہ نے جو
مصاحف نقل کرکے مختلف عالقوں میں قراء صحابہ رضی ہللا عنہم کی معیت میں بھیجے تھے،
کسی قراء ت کے صحیح ہونے کے لئے یہ معیار ہے کہ وہ ان میں سے کسی ایک کے رسم کے
مطابق ہو اور یہ مطابقت حقیقی طور پر بھی ہو سکتی ہے اوراحتمالی وتقدیری طورپر بھی ہوسکتی
ہے۔
موافقت حقیقی کی مثال سورۃ توبہ میں ابن کثیررحمہ ہللا کی قراء ۃ’’َج ّٰن ٌت َتْج ِر ْی ِم ْن َتْح ِتَہا
أَالْنَہاُر ‘‘’من‘ کے اضافہ کے ساتھ ہے اور یہ اس مصحف میں ہے جو حضرت عثمان رضی ہللا عنہ
نے مکہ کی طرف بھیجا تھا۔
موافقت تقدیری کی مثال سورۃ فاتحہ کی ٓایت’’ٰم ِلِک َیْو ِم الِّدْیِن ‘‘کے لفظ’ملک‘ میں دو قراء تیں ہیں
الف کے ساتھ یعنی’مالک‘ اورالف کے بغیر یعنی’َم ِلِک ‘ لیکن یہ لفظ تمام مصاحف عثمانیہ میں الف
کے بغیر’َم ِلِک ‘ لکھا ہوا ہے اب اس میں’َم ِلِک ‘ کی قراء ت تورسم عثمانی کے ساتھ واضح اورحقیقی
طورپر موافق ہے جبکہ’ٰم ِلِک ‘ کی قراء ۃ تقدیری طورپر موافق ہے۔
رکن ثانی
عربی وجہ کے ساتھ موافقت ہو ،مطلب یہ ہے کہ قراء ۃ ان قواعد عربیہ کے موافق ہو جو فصیح
عربی کالم سے مشتق ہو اور ان ماہر ین علم نحو کی ٓاراء سے مطابقت رکھتی ہو جو اپنے فن میں
درجہ امامت پر فائزہیں۔ مکی بن ابی طالب رحمہ ہللا نے مطلقًا موافقِت عربی کواس سلسلہ میں معیار
قراردیاہے جبکہ عالمہ ابن جزری رحمہ ہللا نے’ولو بوجہ‘کی قید لگائی ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ
اگر کسی لفظ یا جملے میں نحوی قواعد کے اعتبار سے متعدد وجوہ ہوں توقراء ت ان میں سے کسی
ایک وجہ کے موافق ہونی چاہیے خواہ وہ وجہ درجہ فصاحت میں کم ہو یا اعلی یاوہ قواعد نحاۃ کے
نزدیک متفق علیہ ہو یا مختلف فیہ۔مثًال امام حمزہ رحمہ ہللا کی قراء ۃ’’َو اَّتُقوا اَﷲ اَّلِذ ْی َتَس اَئ ُلْو َن ِبِہ
َو أَالْر َح ام‘‘میں’أالرحام‘ جری حالت میں ہے اوریہ کوفیوں کے مذہب کے مطابق ’بہ‘ کی ضمیر
مجرور پر عطف ہے یا بصریوں کے مذہب کے مطابق حرف جار کو دوبارہ لوٹایا گیا ہے ،لیکن
معلوم ہونے کی وجہ سے حذف کر دیا گیا ہے یا’ٔارحام‘ کی تعظیم اورصلہ رحمی کی ترغیب دینے
کے لئے قسم کی بنا پر زیر دی گئی ہے۔ تو یہاں امام حمزہ رحمہ ہللا کی قراء ۃ میں دونوں وجہیں
لغت کے اعتبار سے درست ہیں۔
حقیقت یہی ہے کہ کسی قراء ت کا تواتر(قطعیت) کی موجودگی میں عربی لغت کا کوئی قاعدہ
:اورقانون کسی قراء ت کو رد نہیں کرسکتا۔چنانچہ امام ابوعمرو بصری دانی رحمہ ہللا فرماتے ہیں
َائمہ قراء حروِف قرٓان کے سلسلہ میں اس بات پر اعتماد نہیں کرتے کہ وہ لفظ لغوی لحاظ سے عام’’
مستعمل ہے یاعربی قاعدہ کے زیادہ مطابق ہے بلکہ اس پر اعتماد کرتے ہیں کہ وہ حرف نقل وروایت
کے اعتبار سے صحیح ترین اورثبوت کے اعلی معیار پر ہو ،کیونکہ قراء ۃ میں رسول
ہللاﷺسے َائمہ تک کے سلسلہ تواتر(قطعیت)کی اتباع کی جائے گی اور اس کی طرف لوٹنا اور
اسے قبول کرنا ضروری ہے۔‘‘(جامع البیان فی القراء ات السبع :ض؍/۱۷۷ب،بحوالہقراء ت شاذہ:
)۱۰۶
امام ابن جزری رحمہ ہللا نے اس حقیقت کی صراحت ان الفاظ میں کی ہے کہ
تواتر(قطعیت)ہی درحقیقت قراء ۃ کی بہت بڑی بنیاد اورایک عظیم رکن ہے۔ لغت عربی کے ساتھ’’
موافقت کے سلسلے میں محققین ٓائمہ کے نزدیک یہی مذہب مختار ہے ۔متعدد قراء ات ایسی ہیں جن کا
بعض یا اکثر نحویوں نے انکار کیا ہے ،لیکن ان کے اس انکار کا اعتبار نہیں کیاگیا ،بلکہ ٓائمہ سلف
نے باالتفاق ان قراء ات کوقبول کیا ہے۔‘‘ (النشر۱:؍)۱۰
اس سے یہ حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ وجٔہ عربی کے ساتھ مطابقت کی شرط صحت سندیا تواتر
(قطعیت) کی طرح ایسا رکن نہیں ہے کہ اس کو معیار قرار دیا جائے بلکہ یہ شرط تومزید حزم
واحتیاط کے لئے لگائی گئی ہے تاکہ قراء اِت شاذہ کی قراء ات متواتر ہ کے ساتھ ٓامیزش کا دروازہ
ہمیشہ کے لئے بندہوجائے ۔البتہ اس لحاظ سے اسے ایک ضابطہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ جو قراء ت
تواترقطعیت)سے ثابت ہو وہ الزمًا کسی نہ کسی عربی وجہ کے بھی مطابق ہو گی۔
رکن ثالث
کسی قراء ت کے صحیح ہونے کی تیسری شرط یہ ہے کہ اس کی سند نہ صرف صحیح ،متصل ہو
بلکہ وہ تواتر(یعنی قطعی الثبوت خبر اور خبر واحدمحتف بالقرائن)سے ثابت ہواور ساتھ اس کو َائمہ
فن کے نزدیک قبولیت عامہ بھی حاصل ہویہاں یہ بات ذہن نشین رہے کہ قرٓان خبر واحدمحتف
بالقرائن سے بھی ثابت ہوتا ہے کیونکہ یہ قوت استدالل میں خبر متواتر کے مترادف ہی ہوتی ہے ،اور
علم قطعی ویقینی کا فائدہ دیتی ہے ،اس لحاظ سے قرٓان کے ثبوت اورصحیحین کے ثبوت میں کوئی
فرق نہیں ہے ،کیونکہ دونوں علم قطعی والی خبر سے حاصل ہوتے ہیں۔چنانچہ َائمہ فن ثبوت قراء ت
کے لئے جب بھی تواتر کا لفظ بولتے ہیں تواس سے مراد یہی ہے کہ وہ قطعی الثبوت خبر سے یا
خبر واحد محتف بالقرائن سے منقول ہو،کیونکہ اگر اس تواتر سے تواتر عددی مراد لیا جائے تو پھر
پورے قرٓان کوثابت کرنا اور بعید از امکان ہو جائے گا۔
اسی وجہ سے عالمہ ابن جزری رحمہ ہللا نے بھی منجد المقرئین میں تواتر کی اصل تعداد رواۃ کی
بجائے حصوِل علم کو قرار دیا ہے۔پس علماء قرٓان کومتواتر کہتے ہیں تو ان کی تواتر سے مراد تعداد
:رواۃ نہیں ہوتی بلکہ علم یقینی کا حصول ہوتا ہے۔ امام سرخسی رحمہ ہللا لکھتے ہیں
جان لو!کتاب ہللا سے مراد وہ قرٓان ہے جو کہ ہللا کے رسول1پر نازل کیا گیا ہے مصاحف کے’’
گتوں کے درمیان لکھاگیاہے اورہم تک معروف احرف سبعہ کے ساتھ تواتر سے منقول ہے۔‘‘(ٔاصول
السرخسی)۲۷۹:
:اسی طرح امام غزالی رحمہ ہللا لکھتے ہیں
کتاب ہللا کی تعریف یہ ہے کہ جومصحف کے دوگتوں کے درمیان معروف ٔاحرف سبعہ کے ساتھ ہم’’
تک متواتر منقول ہے۔‘‘ (المستصفی۱:؍)۸۱
ان دونوں جلیل المرتبت فقہاء نے قرٓان کی تعریف میں قراء ات متواترہ کو بھی شامل کیا ہے اور یہ
بات اظہر من الشمس ہے کہ قراء ات متواترہ کا تواتر،تعداد رواۃ کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ ایسی سند
کی بنیاد پر ہے جو یقینی وقطعی طور پر ثابت ہے۔
اسی طرح تواتر کی طرف امام ابن تیمیہ رحمہ ہللا،امام الحرمین رحمہ ہللا،اورامام ابن االثیررحمہ ہللا
وغیر ہ اہل علم نے’’ما ٔافاد القطع‘‘کے ساتھ ِاشارہ کیا ہے۔
ثبوت قراء ات کے سلسلہ مِیں ایک تواتر وہ ہے جو کہ عام طور پر نہیں پایا جاتا اس لیے عام اہل
الحدیث اس سے واقف بھی نہیں۔ اسے اہل قراء ات کی اصطالحات میں تواتر طبقہ کا نام دیا جاتا ہے
اس کی تفصیل یہ ہے کہ قرٓان کریم متعبد بالتالوۃ ہونے کی وجہ سے ہمیشہ خواص میں پڑھا پڑھایا
جاتا رہا ،چنانچہ صحابہ کرام رضی ہللا عنہم کو ہللا کے رسولﷺنے قرٓان پڑھایا توصحابہ
رضی ہللا عنہم میں سے ہر شخص کا تعلق قرٓان سے تعلق رہا ،یہی حال تابعین وتبع تابعین میں رہا
حتی کہ ٓاج تک امت میں سے ہر ٓادمی قرٓان کو پڑھتا ہے جبکہ حدیث کا معاملہ اس سے مختلف ہے
عام لوگوں کا علم حدیث سے صرف اتنا تعلق رہا کہ اہل علم سے مسائل پوچھتے رہے اورحدیث کے
باقی علم کو اہل الحدیث کے سپرد کر کے اپنے دنیاوی امور میں مشغال ہو رہے ۔ اس اعتبار سے اگر
جائزہ لیا جائے توقرٓان کریم صحابہ ،تابعین وتبع تابعین سے لے کر ٓاج تک ہر دور میں پڑھا جارہا
ہے اورمختلف ممالک میں ہمیشہ سے مختلف قراء ات رائج رہی ہیں چنانچہ وہ لوگ جو مدارس میں
قراء اتِ قرٓانیہ کے محافظین ہیں اگر وہ ہر دور میں ہزاروں میں رہے ہیں تو معاشرہ میں انہی قراء
ات کو پڑھنے والے عوم الناس ہر زمانہ میں الکھوں ،کروڑوںرہے ہیں۔ اب مثًال مدارس میں روایت
حفص سینکڑوں لوگ اسانید سے اخذ کر کے ٓاگے نقل کر رہے ہیں جبکہ صرف پاکستانی معاشرہ
میں سولہ کروڑ عوام بھی اسی روایت پر اختالف اتفاقی تعامل سے عمل پیدا ہے یہ مدارس میں
پڑھائی جانے والی روایت حفص کا انتہائی قرینہ کہ اس بنیاد پر خبر واحد کو وہی تقویت مل جاتی
ہے جو تلقی بالقبول کے ذریعے سے قراء ات کو ملی ہے ٓاج اگر امت میں ساری قراء تیں متداول
نہیں ہیں تو بھی اسی قسم کا تواتر بڑا فائدہ دہے کیونکہ قراء عشرتک تو اہل فن کے ہاں بھی تواتر
اسنادی موجود ہے معاملہ اس کے بعد کا ہے اور قراء عشر کے دور میں تمام سبعہ احرف عوام
وخواص میں متداول تھے چنانچہ ٓائمہ عشر تا رسول ہللاﷺتواتر طبقہ موجود ہے۔
غرض یہ کہ قراء ات کی صحت کے لئے اس کی سند کا اتصال اور نقل ہونا تمام َائمہ ،قراء اورفقہاء
کے نزدیک ایک مسلمہ رکن اور بنیادی عنصر ہے البتہ اس بات میں اختالف ہے کہ قراء ات کے
لئے صرف صحت سند ہی کافی ہے یا تواتر ضروری ہے ۔ اس کے متعلق ابن جزری رحمہ ہللا
:لکھتے ہیں
بعض متاخرین نے اس میں تواتر کی شرط لگائی ہے سند کی صحت کو کافی نہیں سمجھا ان کا’’
خیال یہ ہے کہ قرٓان تواتر ہی سے ثابت ہوتا ہے۔‘‘(النشر ۱:؍)۱۳
لیکن ابن جزری رحمہ ہللا نے متاخرین کی اس رائے کو ناپسند کیا ہے لکھتے ہیں’’:اس میں جو
خرابی ہے وہ ظاہر ہے ،کیونکہ جب کوئی قراء ت تواتر سے ثابت ہو جائے توپھر باقی دو َارکان
یعنی موافقت رسم مصحف اورعربی قاعدہ کی موافقت کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔اس لیے کہ
جواختالفی وجوہ نبی کریمﷺسے بطریق تواتر ثابت ہیں ان کا قبول کرناواجب اور ان کی قرٓانیت
کا پختہ یقین کرنا الزمی ہے خواہ وہ رسم کے موافق ہو یامخالف اورجب تمام وجوہ میں تواتر کی
شرط لگا دیں گے تو بہت سی وہ اختالفی وجوہ ختم ہو جائیں گی جوقراء سبعہ سے ثابت ہیں۔‘‘(حول
القراء ات الشاذۃ)۳:
واضح رہے کہ امام ابن جزری رحمہ ہللا نے حقیقت تواتر یا تصور تواتر کا انکار نہیں کیا بلکہ انہوں
نے ان لوگوں کا رد کیا ہے جو قراء ا ت کے ثبوت کے لئے تواتِر عددی یاتواتر اسنادی کی شرط
لگاتے ہیں۔پہلے وہ خود بھی اس موقف کے قائل تھے مگر بعد میں جب اس کی خرابی ظاہر ہوئی
توانہوں نے َائمہ سلف کے موقف کو اپنا لیا ۔اس لحاظ سے انہوں نے ان تمام قراء ات کے تواتر
کومحفوظ کر دیا ہے جو خبر واحدمحتف بالقرائن سے ثابت ہیں اورعلم قطعی ویقینی کا فائدہ دیتی ہیں۔
یہاں یہ بات بھی ذہن نشین ر ہے کہ ثبوت قراء ات کا ایک چوتھا ذریعہ بھی ہے جو تواتر کی ایک
مخصوص قسم ہے اور وہ یہ کہ قرٓان مجید کا ایک ایک کلمہ ،ایک ایک ٓایت او رایک ایک سورت کو
بھی تواتر حاصل ہے۔ لیکن یہ تواتر سند وعدد واال تواتر نہیں بلکہ وہ تواتر ہے جسے محدثین ’تواتر‘
کے مطلق نام کے مصداق کے طور پر پہنچانتے وبیان کرتے ہیں۔ تواتر اسنادی کے بارے میں تو
پیچھے واضح ہو چکا ہے کہ محدثین اس کے انکاری ہیں ،انہوں نے زیادہ سے زیادہ اس کی اگر
کوئی مثال پیش کی بھی ہے تو وہ صرف ایک حدیث ’’ من کذب علی متعمدًا فلیتبؤا مقعدہ من النار ‘‘
ہے ۔ بلکہ صحیح بات یہہے کہ یہ حدیث بھی تواتر اسنادی کی تعریف پر پورا نہیں اترتی ،کیونکہ
دیگر روایات کی طرح اس روایت کے بھی ہر طبقہ میں کثرت عدد موجود نہیں ۔ بلکہ متعدد اخبار
ٓاحاد میں اس حدیث کے مذکورہ الفاظ مشترک طور پر وارد ہوئے ہیں۔ چنانچہ تمام روایات کا حاصل
یہ ہے کہ یہ روایت ان مشترکہ الفاظ کے اتفاق کے ساتھ درجہ یقین کو پہنچتی ہے۔ اس وضاحت کی
رو سے یہ روایت بھی تواتر اسنادی کے بجائے تواتر اشتراکی ہی ہے ۔بعض لوگوں نے مکمل روایت
میں الفاظ کے اشتراک کی بنا پر حاصل ہونے والے تواتر کو تواتر لفظی اور روایات میں قدر اشتراک
کی بناپر حاصل ہونے والے تواتر کو تواتر معنوی کا نام دیا ہے۔ بعض لوگوں نے مذکورہ تصور کی
بنا پر اخبار ٓاحاد کی رو سے ثابت ہونے والی پانچ دیگر روایات کو بھی تواتر لفظی قرار دیا ہے جن
میں ایک روایت ’’ٔانزل القرٓان علی سبعۃ ٔاحرف‘‘ (صحیح بخاری )۴۹۹۱:بھی ہے۔ ان روایات کی
تفصیل کے لئے الوجیز فی اصول الفقہ ازڈاکٹر عبد الکریم زیدان کے اردو ترجمہ جامع االصول از
ڈاکٹر احمد حسن ،میں بحث سنت کا مطالعہ فرمائیں۔ اسی طرح متعدد طرق میں مشترکہ طور پر’’
إنما أالعمال بالنیات‘‘ (صحیح البخاری )۱:کے الفاظ موجود ہیں اگرچہ یہ روایت اپنی اصل کے
اعتبار سے خبر غریب ہے۔
اسی اشتراِک الفاظ کے بنا پر بعض حضرات نے اس روایت کو بھی ’’ من کذب علی متعمدًا‘‘ کی
طرح متواتر لفظی بنایا ہے اور بعض لوگ اس روایت کو متواتر معنوی شمار کرتے ہیں،کیونکہ اس
روایت میں وارد’’ نیت‘‘ کا مضمون مختلف روایات میں ٓایا ہے جن میں الفاظ کے اختالف سے قطع
نظر نیت کی فرضیت مشترک ہے۔ بعض محدثین تواتر اشتراکی کو تواتر معنوی بھی کہتے ہیں۔ لیکن
صحیح یہی ہے کہ قدر مشترک کا معاملہ کسی مضمون میں بھی ہو سکتا ہے اور متعدد روایات میں
ثابت الفاظ میں بھی۔ اس تناظر میں اگر ہم قراء ات عشرہ متواترہ صغرٰی وکبرٰی کا جائزہ لیں تو یہ
تمام ٓایاِت قرٓانیہ تواتر االشتراک فی الفاظ امر االشتراک فی آالیات کے اعتبار سے متواتر ہیں۔ مثال
سے یہ بات یوں سمجھیں کہ قرٓان کے کسی لفظ کو اہل قراء ات کے ہاں چھ سے زائد اندازوں سے
نہیں پڑھاگیا۔ جبکہ قراء ات قرٓانیہ متواترہ اس طرق کے ساتھ مروی ہیں۔ گویا قرٓان کریم ٓاج امت کے
پاس سبعہ احرف سمیت اسی اسانید کے ساتھ موجود ہے۔ چنانچہ قرٓان مجید کی مجموعہ قراء ات اس
طرق سے ثابت ہیں تو ۹۵فیصد متفق علیہ اسی روایات میں مشترک الفاظ کے اتفاق کے ساتھ متواتر
لفظی بنے۔ علی ہذا القیاس ،جو کلمہ چھ اندازوں سے پڑھا گیا ہے تو وہ تقریبًا تیرہ تیرہ اخبار ٓاحاد
میں موجود مشترک الفاظ کی بنا پر متواتر لفظی میں شامل ہوا۔
یاد رہے کہ چھ اندازوں سے جن کلمات کو پڑھاگیا ہے وہ ایک دو ہیں۔جنہیں پانچ طرح سے پڑھاگیا
ہے وہ اس سے کچھ زیادہ ہیں۔ چار طرح سے پڑھے جانے والے کلمات مزید کچھ زیادہ ہیں۔ اکثر
کلمات میں دو یا تین طرح ہی سے پڑھنے کا اختالف مروی ہے۔ الغرض اسی اعتبار سے دیکھیں تو
مروجہ قراء ات قرٓانیہ عشرہ متواترہ میں موجود تمام ٓایات ،کلمات اور سٔور متواترًا ثابت ہیں اور
محدثین کے ہاں تواتر سے بالعموم تواتر اإلشتراک ہی مراد ہوتا ہے۔ چنانچہ محدثین کے معیار تواتر
پر قرٓان بہر حال ثابت ہے۔ المختصر قر ٓان کریم کے ثبوت میں پانچ طرح کے تواتر او رقطعیت کے
ذرائع موجود ہیں۔
:تواتر طبقہ
اس قسم کا تواتر ٓائمہ عشرہ سے قبل تو تمام قراء ات کے حا صل رہا ،البتہ عصر حاضر میں یہ تواتر
صرف متداول چار قراء ات اور روایات کو حاصل ہے۔ نیز تواترکی یہ قسم صرف قرٓان مجید کے
ساتھ خاص ہے۔
تواتر اسنادی
قرٓان مجید کے ثبوت میں اسنادی تواتر موجود ہے البتہ ائمہ عشرہ تک ہے۔ اگرچہ اس سے ٓاگے تواتر
اسنادی وتواتر عددی موجود نہیں۔ کیونکہ ائمہ عشرہ سے قبل اختالط و روایات کا دور دورہ تھا۔
پیغامات
اس اعتبار سے قرٓان قطعی الثبوت طریقہ سے ثابت ہے جسے بعض لوگ تواتر سے تعبیر کرتے ہیں۔
قراء ات عشرہ متواترہ کو جمیع فنون کے ماہرین نے ہر دور میں باالتفاق قبولیت سے نوازاہے ۔پور
ی دنیا ،جمیع مدارس اور جمیع اہل علم جو قرٓان یا قراء ات قرٓانیہ کونقل کرنے والے ہیں وہ تمام اس
بات پرمتفق ہیں کہ مروجہ قراء ات عشرہ قرٓان ہیں۔
الخبر الواحد المحتف بالقرائن المفید للعلم القطعی
چوتھی بات جوہم بیان کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر ایک قراء ت صحت سند سے ثابت ہو اور اس
میں رسم عثمانی کی موافقت اور لغات عرب کے مطابق شروط بھی پائی جائیں تو ایسی روایت خبر
واحدۃ مقرون بالقرائن کے قبیل سے ہو کر علم قطعی کا فائدہ دے گی۔
رکن ادارہ محدث
تواتر اإلشتراک
تواتر اسنادی کا تصور چونکہ ٓائمہ محدثین کے ہاں صرف خیالی تصور ہے جس کی مثال محدثین کے
بقول عمًال موجود نہیں او رتصور تواتر بقول حافظ ابن صالح رحمہ ہللا بعض متاخر اصولیوں کی
طرف سے پیش کردہ ہے جسے صرف خطیب بغدادی رحمہ ہللا نے اصولیوں سے متاثر ہو کر فن
حدیث میں پیش کر دیا۔ (التقیید االیضاح،ص)۲۲۵،۲۲۶
چنانچہ علم مصطلح الحدیث میں تواتر کے جس تصور سے محدثین مانوس ہیں وہ تواتر االشتراک ہی
ہے۔ تواتر کے اس تصور کی رو سے جمیع قراء ات قرٓانیہ حتمی طور پر متواترہ ثابت ہیں۔