Professional Documents
Culture Documents
9021
9021
اسائنمنٹ نمبر01:
ن
طاہرہ :ام
ٹ ش ن
20PLR06078 :رجس ری ن مب ر
7th :سمسٹ ر
ن
تحقیق و تدوین اصول اور روا یت :کورس کا ع وان
9021 :کورس کوڈ
فروری5-2024- :جمع کروانے کی تاریخ
انسان چوں کہ فطرتا اور طبعا حقیقت کو صیح شکل میں دیکھنے کا تمنی ہوتا ہے اس لیے اس تک پہنچنے کا ساراعمل
تحقیق اور جستجو کا ہے۔ ذہن میں غور وفکر کا مادہ تحقیق کا محرک ہے۔ ہر شخص مختلف چیزوں کے بارے میں
سوچتا رہتا ہے لیکن یہ تحقیق نہیں ہے۔ تحقیق کسی بھی امر کو باضابطہ طور پر جاننے کی کوشش کا نام ہے ۔
باضابطہ طور پر جانے کی کوشش کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز کو جاننے کی کوشش کی جارہی ہے ،اس کے تقاضے
پورے کیے جائیں ۔ تاہم کوشش کے باوجوداس کے تمام تقاضے پورے نہیں ہو سکتے اور حق کو وہ سارے ذرائع
میسرنہیں ہوتے جو حقیقت کی تالش میں اس کے معاون ہوں ۔ قاضی عبدالودود کے نزدیک می الزمی نہیں کہ انسان
کی تالش وجستجو کا نتیجہ ہمیشہ درست ہی ہو ،وہ تالش و جستجو کے بعد بھی بسا اوقات حقیقت تک نہیں پہنچ پا تا۔ وہ
:لکھتے ہیں
تحقیق کسی امر کو اس کی اصلی شکل میں دیکھنے کی کوشش ہےکوشش کامیاب بھی ہوتی ہے اور نا کام بھی حقیقت
موجود ہے ،یہ دوسری بات ہے کہ ہمارے پاس اس کے دریافت کرنے کے نامکمل ذرائع ہیں ۔
اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اگر چہکمل ذرائع کی عدم فراہمی کے باعث تالش کار پر پوری حقیقت یا مکمل
حقیقت واضح نہیں ہوتی تاہم اس کی تالش و جستجو کا میٹر تحقیق ہی میں شمار ہوگا ،کیوں کہ اس نے حقیقت کی تالش
کے لیے کوشش تو کی ۔اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر نذ یراحمد لکھتے ہیں« :تحقیق ،حقائق کی تالش و
جستجو کا نام ہے ۔ حقیقت خواہ کسی قسم کی ہو ،اس کے سلسلے میں جو کوشش کی جائے وہ تحقیق کی حد میں شامل
ہو گی ۔حقیقت کی تالش کرنے والے سب کے سب ،مقصد میں کامیاب ہی نہیں ہو جاتے لیکن صرف وہی کوشش تحقیق
کے زمرے میں نہیں آئے گی جو کامیابی سے ہم کنار ہوگی بلکہ حقائق کی تالش میں جو قدم خلوص و دیانت داری سے
اٹھایا جائے گا ،وہ تحقیق کا قدم ہوگا ۔ بسا اوقات محقق جس نتیجے پر پہنچتا ہے وہ دراصل میں حقیقت نہیں ہوتی بلکہ
محد ودذ رائع و وسائل تحقیق کی بنا پر اس نتیجے کو حقیقت کا نام دیناپڑ تا ہے۔
تحقیق حقیقت کی تالش وجستجو کا عمل ہے اور چوں کہ حقیقت اکثر پوشیدہ ہوتی ہے ،اس کو ظاہر کرنے اور اس کا
انکشاف کرنے کے لیے عمدہ وسائل اور بہترین ذرائع کے استعمال سے اس تک پہنچنا ناممکن نہیں ہوتا۔ تاہم ریمل جس
سنجیدگی اور محنت کا تقاضا کرتا ہے وہ ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہوتی اور اکثر حقین راستے کی
دشواریوں اور تکالیف کو دیکھ کر اپنے سفر کو درمیان میں ہی ختم کر دیتے ہیں یوں ان کی اس نارسائی کے باعث وہ
حقیقت کی تالش کے سفر میں منزل مقصود تک نہیں پہنچ پاتے اور حقیقت کو اصل صورت میں دیکھنے کا خواب
شرمندہ تعبیر نہیں ہو پاتا۔
تحقیق کامل ہر شعبۂ حیات کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے ۔ جو شعبہ تحقیق سے اپنارشتہ منقطع کر لیتا ہے ،اس کا
ارتقائی سفرختم ہو جا تا ہے اور اس شعبے کی حیثیت باقی نہیں رہتی ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی روز افزوں ترقی کا
راز ان شعبوں میں ہونے والی تحقیقات میں پوشیدہ ہے۔ تحقیقات کا تسلسل ان شعبوں کی ثروت میں اضافہ کرتا ہے اور
ان کو معاشرے کے لیے زیادہ سودمند اور منفعت رساں بنا تا ہے ۔ ہر شعبۂ حیات کا منیج تحقیق الگ ہے اور ہر ایک
کے وسائل وذ رائع مختلف ہیں تاہم سب کا مطمح نظر حقائق کا انکشاف اور صداقت کی تالش ہے ۔
ادب کسی بھی سماج اور قوم کا آئینہ ہوتا ہے اور اس کی تعمیر تشکیل میں مختلف عوامل اور عناصر شامل ہوتے ہیں۔
کسی معاشرے یا کسی قوم کے سماجی میالنات اور تہذیبی رویوں کو جانے اور سمجھنے میں ادب کو کسی طور نظر
انداز نہیں کیا جا سکتا ،اس لیے کہ سماج کا ذہنی اور فکری سرما یادب کے ذریعے ہی سامنے آتا ہے ۔ تہذیب اپنی تمام
تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ ادب میں جلوہ گر ہوتی ہے ۔تہذیب اور معاشرتی زندگی کا مطالعہ ادب کے وسیلے سے کیا
جا تا ہے ۔ ادب کا ارتقاء مختلف ادوار کے ادبی امتیازات ،ادب اور ساج کے باہمی رویے تخلیق کے مقاصد ،معاشرے
کی تعمیر وترقی میں ادب کا کردار جیسے مسائل اور معامالت پر تحقیق کواد بی تحقیق کا نام دیا جا تا ہے ۔ ادبی تحقیق
میں مختلف قسم کی تحریروں سے زبان ،تصورات ،خیاالت ،جذبات ،فکر ،ساجی حاالت ،طرزعمل اور مجموعی
مزاج کی شناخت کی شعوری کوشش کی جاتی ہے ۔ اسے ادبی تحقیق کہتے ہیں ۔اس کوشش سے ہم ماضی کے حاالت
اور عصری مسائل سے آگاہ ہوتے ہیں اور مستقبل کا الئی عمل تیار کرتے ہیں۔ ادبی تحقیق دوسرے لفظوں میں قومی
دانش وشعور کو پرکھنے اور سمجھنے کی کوشش ہے ۔ادبی تحقیق کا مقصد اد بی سرمائے کی حفاظت اور فکری ترقی
کے امکانات کو وسعت عطا کرنا ہے ۔
سوال نمبر۔2اردو تحقیق میں اورینٹل کالج کی خدمات کا جامع تعارف کرائیں۔
جواب۔
اردو تحقیق میں اورینٹل کالج کی خدمات کا جامع تعارف
اورینٹل کالج ،پنجاب یونیورسٹی ،الہور اردو تحقیق کے میدان میں ایک اہم ادارہ ہے۔ اس کا قیام 1866میں ہوا تھا ،اور
یہ اردو زبان اور ادب کی تعلیم اور تحقیق کے لیے ایک اہم مرکز رہا ہے۔
اورینٹل کالج اردو تحقیق کے لیے مختلف خدمات فراہم کرتا ہے ،جن میں شامل ہیں:
اردو زبان اور ادب کی تعلیم :اورینٹل کالج اردو زبان اور ادب کی تعلیم کے لیے ایک اعلٰی تعلیمی ادارہ ہے۔
یہاں اردو زبان اور ادب کے مختلف شعبوں میں بیچلر ،ماسٹر اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں دی جاتی ہیں۔
اردو تحقیق کے لیے وسائل :اورینٹل کالج اردو تحقیق کے لیے مختلف وسائل فراہم کرتا ہے۔ اس کے شعبہ
اردو کے پاس ایک وسیع الئبریری ہے ،جس میں اردو زبان اور ادب کے متعلق کتابیں ،جرائد اور دیگر مواد
موجود ہے۔ اس کے عالوہ ،اورینٹل کالج کے پاس ایک رائٹنگ سینٹر ہے ،جو طلباء اور محققین کو اپنی تحقیقی
کاموں کو لکھنے میں مدد کرتا ہے۔
اردو تحقیق کے لیے پروگرام :اورینٹل کالج اردو تحقیق کے لیے مختلف پروگرامز کا انعقاد کرتا ہے۔ ان
پروگرامز میں سیمینار ،کانفرنسیں ،اور ورکشاپ شامل ہیں۔ یہ پروگرام اردو تحقیق میں دلچسپی رکھنے والے
طلباء اور محققین کے لیے ایک موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ دیگر محققین سے مل سکیں اور اپنے علم اور
تجربات کو شیئر کر سکیں۔
اورینٹل کالج کی اردو تحقیق کے لیے خدمات کی ایک مختصر فہرست یہ ہے:
اردو زبان اور ادب کی تعلیم
اردو تحقیق کے لیے وسائل
اردو تحقیق کے لیے پروگرام
ان خدمات کے ذریعے ،اورینٹل کالج اردو زبان اور ادب کی تحقیق کو فروغ دینے اور اسے ایک مضبوط بنیاد فراہم
کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
اورینٹل کالج کی اردو تحقیق کے لیے خدمات کے کچھ مخصوص مثالیں یہ ہیں:
اردو زبان اور ادب کی تعلیم :اورینٹل کالج نے اردو زبان اور ادب کی تعلیم کے لیے متعدد نئی کتابیں اور
کورسز تیار کیے ہیں۔ ان کتابوں اور کورسز نے اردو زبان اور ادب کی تعلیم کو زیادہ آسان اور موثر بنانے
میں مدد کی ہے۔
اردو تحقیق کے لیے وسائل :اورینٹل کالج کی الئبریری میں اردو زبان اور ادب کے متعلق ایک وسیع مجموعہ
موجود ہے۔ اس مجموعے میں نادر و نایاب کتابیں ،جرائد اور دیگر مواد شامل ہیں۔ اورینٹل کالج کا رائٹنگ
سینٹر بھی اردو تحقیق کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے۔ یہ سینٹر طلباء اور محققین کو اپنی تحقیقی کاموں کو لکھنے
میں مدد کرتا ہے۔
اردو تحقیق کے لیے پروگرام :اورینٹل کالج نے اردو تحقیق کے لیے متعدد سیمینار ،کانفرنسیں ،اور ورکشاپ
کا انعقاد کیا ہے۔ ان پروگراموں میں اردو زبان اور ادب کے مختلف موضوعات پر بحث کی جاتی ہے۔ یہ
پروگرام اردو تحقیق میں دلچسپی رکھنے والے طلباء اور محققین کے لیے ایک قیمتی موقع فراہم کرتے ہیں۔
اورینٹل کالج نے اردو تحقیق کے لیے متعدد سیمینار ،کانفرنسیں ،اور ورکشاپ کا انعقاد کیا ہے۔ ان پروگراموں نے اردو
تحقیق میں دلچسپی رکھنے والے طلباء اور محققین کے لیے ایک قیمتی موقع فراہم کیا ہے۔ ان پروگراموں کے ذریعے،
طلباء اور محققین نے اردو زبان اور ادب کے مختلف موضوعات پر بحث کی ،دیگر محققین سے مالقات کی ،اور اپنے
علم اور تجربات کو شیئر کیا۔
طلباء اور محققین کو اردو زبان اور ادب کے مختلف موضوعات کے بارے میں مزید جاننے میں مدد کرنا۔
طلباء اور محققین کو دیگر محققین سے ملنے اور اپنے علم اور تجربات کو شیئر کرنے کا موقع فراہم کرنا۔
اردو تحقیق کے لیے ایک مضبوط علمی ماحول کو فروغ دینا۔
اورینٹل کالج کے اردو تحقیق کے لیے سیمینار ،کانفرنسیں ،اور ورکشاپ اردو تحقیق کو فروغ دینے میں ایک اہم کردار
ادا کر رہے ہیں۔ ان پروگراموں کے ذریعے ،اورینٹل کالج اردو زبان اور ادب کی تحقیق کو ایک عالمی لسانی اور ادبی
روایت کے طور پر فروغ دینے میں مدد کر رہا ہے۔
اورینٹل کالج کے اردو تحقیق کے لیے سیمینار ،کانفرنسیں ،اور ورکشاپ کے کچھ مخصوص مثالیں یہ ہیں:
سوال نمبر3۔ کسی تحقیق کام کا خاکہ بنانا کیوں ضروری ہے؟ وضاحت کریں۔
جواب۔
تحقیقی خاکہ
خا کہ فارسی زبان کا لفظ ہے ۔ اس کے لغوی معنی ڈھانچا ،کچا نقشہ بنانا اور حدود کے خطوط کا نشان ڈالنا ہے ۔ کسی
بھی قسم کی تحریے کے لیے منصوبہ بندی خاکہ کہالتی ہے ۔اردوادب میں میافظ دو مختلف اصناف میں الگ الگ
اصطالحی مفاہیم میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ کشن کی اصطالح میں کسی شخصیت کے نقوش کو ابھارنے والی تحر ی
کونا کہ کہتے ہیں جیسے منٹو نے نور جہاں کا خاکہ نور جہاں سرور جاں‘‘ کے عنوان سے لکھا۔ مولوی عبدالحق ،
شاہد احمد دہلوی ،چراغ حسن حسرت اور طفیل نے یادگار شخصی خاکے لکھے ۔
تحقیق کے کام کا خاکہ بنانے کے کئی فوائد ہیں ،جن میں شامل ہیں:
منظم فکر :خاکہ بنانے سے تحقیق کار کو اپنے خیاالت کو واضح طور پر بیان کرنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ
تحقیق کار کو اپنے کام کے مختلف مراحل کو منظم کرنے اور ان کے درمیان منطقی تعلقات قائم کرنے میں بھی
مدد کرتا ہے۔
وقت کی بچت :خاکہ بنانے سے تحقیق کار کو اپنے وقت کو موثر طریقے سے استعمال کرنے میں مدد ملتی ہے۔
یہ تحقیق کار کو اپنے کام کے مختلف مراحل کو ایک ترتیب میں انجام دینے میں مدد کرتا ہے ،جس سے تحقیق
کے کام کو مکمل کرنے میں وقت کی بچت ہوتی ہے۔
کام کی جامعیت :خاکہ بنانے سے تحقیق کار کو تحقیق کے کام کے مختلف پہلوؤں کو شامل کرنے میں مدد ملتی
ہے۔ یہ تحقیق کار کو تحقیق کے کام کے اختتام پر ایک جامع دستاویز تیار کرنے میں مدد کرتا ہے۔
تحقیق کے کام کا خاکہ بنانے کے لیے کئی مختلف طریقے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ کچھ تحقیق کار ایک سادہ نقطہ
فہرست کا استعمال کرتے ہیں ،جبکہ دیگر ایک زیادہ تفصیلی خاکہ بناتے ہیں۔ خاکہ بنانے کا بہترین طریقہ تحقیق کے
کام کی نوعیت اور تحقیق کار کی ذاتی ترجیحات پر منحصر ہوتا ہے۔
تحقیق کے کام کا خاکہ بنانا ایک اہم عمل ہے جو تحقیق کار کو اپنے کام کو منظم اور موثر بنانے میں مدد کر سکتا ہے۔
خاکہ بنانے سے تحقیق کار کو اپنے خیاالت کو واضح طور پر بیان کرنے ،وقت کی بچت کرنے اور تحقیق کے کام کے
اختتام پر ایک جامع دستاویز تیار کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
تحقیقی کام کے لیے منصوبہ بندی بہت ضروری ہے ۔اس کی بدولت کام کے خال و خط ابھرتے ہیں اور ان میں ترتیب
قائم ہوتی ہے ۔ کن کن موضوعات پر دار تحقیق دینا ہے؟ انھیں کس ترتیب سے پیش کرنا ہے؟ نتیجہ خیزی کے لیے
تسلسل کو کیسے قائم کرنا ہے؟ انھی امور کے پیش نظر خاکہ تیار کیا جا تا ہے ۔ اس سے ہر مرحلے کی ضرورت کا
اندازہ ہوتا ہے ۔ معلوم ہو جا تا ہے کہ کس موضوع کی تحقیق کے لیے کون کون سی کتب درکار ہوں گی ؟ کون سے
موضوعات مشکل ہیں؟ مشکالت کی نوعیت کیا ہے؟ انھیں کیسے حل کیا جا سکتا ہے؟ کام کی جملہ مشکالت بہ یک
نظر سامنے آجاتی ہیں ۔ ان سب امور کے واضح ہو جانے سے ایک طرح کا سلجھاؤ پیدا ہوتا ہے۔ طالب علم ڈالی دباؤ
اور تناؤ کی کیفیت سے نکل آتا ہے ۔ منزل واضح اور راہنما خطوط متعین ہو جاتے ہیں ۔ اس کے لیے کام کرنا آسان ہو
جا تا ہے۔ تحقیق کے لیے نا کہ ساڑی پہال مرحلہ ہے۔ گویا خاکہ تحقیق کی بنیادی ضرورت ہے ۔ اس کے بغیر تحقیق
شروع نہیں ہوسکتی ۔
فکر کی راہنمائی کے لیے جب تک واضح اشارات ( تا کہ موجود نہ ہوں ،کچھ بھی نہیں لکھا جا سکتا تحقیق میں اس
کی اہمیت دیگر تحریروں کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ کر ہے۔ تحقیق میں ہر موضوع سے متعلق موجودتر میری مواد
سے کچھ نہ کچھ نتیجہ اخذ کیا جا تا ہے ۔ پتیہ حقیقت یا حقیقت کے قریب تر بات ہوتی ہے ۔ آگے آنے والے موضوعات
کے نتائج بھی سابقہ معلومات کی بنا پر اخذ کیے جاتے ہیں۔ یوں مقالہ نگار سابقہ حقائق سے نت نئے نتائج کی طرف
بڑھتا چال جا تا ہے ۔ اگر مباحث کی ترتیب کو قائم نہ رکھا جائے تو نتیجہ خیزی کامل رک جا تا ہے اور تحقیقی مقالے
کی تفہیم میں بھی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے تحقیق کے بارے میں یہ تاثر پایا جا تا ہے کہ یہ خشک موضوع ہے ۔ اس تاثر
کی بنیادی وجہ حقائق کا بے ترتیب انبار ہے ۔ قاری کوئی نتیجہ نہیں نکال پاتا۔ وہ جھنجھال کر موضوع کو خشک سمجھ
کر چھوڑ دیتا ہے ۔حقائق معلومات افزا ہوتے ہیں ۔ ان میں دہی کا سامان موجود ہوتا ہے ۔ان سے ذوق جستجو کو جال
ملتی ہے ۔ لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب معلومات کو عمدگی سے ترتیب دیا گیا ہو۔
تحقیق کے دوران اگر ایسی معلومات حاصل ہوں جو تحقیق او ر قاری دونوں کےلیے سود مند ہوں مگر متن میں ان کا
ذکر،متن کی روانی کو متاثر کرے تو ایسی معلومات کا ذکر ضمیمہ میں کیا جاتا ہے۔لیکن یہ ہر تحقیق کا ضروری جزو
نہیں ہے۔اسے بوقت ضرورت ہی استعمال کیا جاتا ہے۔
سوال نمبر۔:4کیا انٹرنیٹ لوازمے کے حصول کا مستند ذریعہ ہے؟ بحث کریں
جواب۔
آج کے زمانے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقی نے تحقیق کے نئے ذرائع اورلواز مے کے لئے مخازن
متعارف کرائے ہیں ۔کم یاب اور نادر مطبوعہ کتابوں کے عکس اب انٹرنیٹ پر بھی موجود ہیں ۔ ریختہ القلم ،دیدہ ور
اور ان جیسی بیسیوں دیگر ویب گا میں موجود ہیں ،جن میں قدیم اور نادر مطبوعہ کتابوں کے عمد و فکس محفوظ کیے
گئے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔اس نوع کی ویب سائٹس سے متعلقہ اواز مے کی تالش آج
کے تحقیق کاروں کے لیے ضروری ہے۔
ہم جس دور میں سانس لے رہے ہیں اسے ڈیجیٹل ورلڈ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چوتھے صنعتی انقالب کے بعد دنیا کو
گلوبل ویلیج کا درجہ مل گیا لیکن میٹاورس اور ڈیجیٹل دور نے یہ فاصلے مزید کم کردیے ہیں۔ اب ہم دنیا کو گلوبل ویلج
کے بجائے گلوبل ہوم کا نام دے سکتے ہیں۔ ڈیجیٹل دنیا اب میٹاورس کا روپ دھارنے جارہی ہے۔ اس لیے انٹرنیٹ اور
ڈیجیٹل دنیا ایک حقیقت ہے اس سے چشم پوشی کرنا یا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینا ممکن نہیں ہے۔ یوں سمجھیے
کہ طبیعی دنیا (فزیکل ورلڈ) اور مجازی دنیا (ورچوئل ورلڈ) زندگی کے دو پہلو کی طرح ہیں۔ اس لیے ورچوئل دنیا یا
ڈیجیٹل دنیا سے ڈرنے یا دور ہونے کے بجائے اس کا مقابلہ کرنے اور بہتر استعمال کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا۔
ہم انٹرنیٹ کے محفوظ استعمال کرنے کے طریقے ،سائبر سکیورٹی کی بنیادی باتیں ،والدین کے لیے اور بچوں کے
لیے راہنما اصول اور انٹرنیٹ پر فراڈ اور جرائم کو تین اقساط میں بیان کریں گے۔ زیر نظر تحریر میں انٹرنیٹ سے
متعلق چند بنیادی باتیں بیان کررہے ہیں:
انٹرنیٹ کے مقاصد
سب سے پہلے تو یہ جانتے ہیں کہ انٹرنیٹ کے مقاصد کیا ہیں ،ہم انٹرنیٹ کا استعمال کیوں کرتے ہیں۔ یاد رکھیے
انٹرنیٹ ایک ٹول کی طرح ہے۔ آپ اپنے ذوق کے مطابق بہترین ،خوب صورت اور نفیس انتخاب کرسکتے ہیں اور اس
کے برعکس بھی۔ لیکن انٹرنیٹ کا مفید استعمال زیادہ اور وسیع ہے :
1۔ معلومات کی تالش کے لیے :جیسے تازہ خبریں ،معلوماِت عامہ (جنرل نالج) ،تاریخ (ہسٹری) ،تعلیم و تدریس وغیرہ
2۔ جدید اور مفید چیزیں سیکھنے کے لیے :کسی بھی شعبے یا علم کے بارے میں تازہ تحقیق ،جدید تصورات ،جدید
ٹیکنالوجی اور سائنس کے میدان میں ہونے والی ترقی کے بارے میں جاننا وغیرہ
3۔ باہمی رابطے کے لیے :انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ سوشل میڈیا (فیس بک ،ٹویٹر ،انسٹاگرام) استعمال ہوتا ہے۔ باہمی
رابطے کے لیے تیز ترین اور موئثر ترین میڈیم ہے۔
4۔ مثبت اور اخالقی تفریح کے لیے :معلوماتی ،تاریخی اور فنوِن لطیفہ سے متعلق ویڈیوز ،مضامین ،تصاویر وغیرہ
5۔ علم اور روزگار کے لیے :آپ دنیا بھر کی بڑی یونیورسٹیوں اور اداروں سے گھر بیٹھے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔
فری النسنگ ،ڈیجیٹل مارکیٹنگ ،آن الئن بزنس اور ایمرجنگ ٹیکنالوجیز کے ذریعے روزگار حاصل کرسکتے ہیں۔
انٹرنیٹ کے اوپن سورس ہونے کی وضاحت کرنے کے لیے ،یہ سمجھنا ضروری ہے کہ "اوپن سورس" کیا ہے۔ اوپن
سورس ایک ایسی ڈویلپمنٹ طرز ہے جس میں سافٹ ویئر کی کوڈ اور ڈیٹا کسی بھی شخص کے لیے کھال ہوتا ہے۔
کوئی بھی اس کوڈ کو دیکھ سکتا ہے ،اسے استعمال کر سکتا ہے ،اسے تبدیل کر سکتا ہے یا اس میں ترمیم کر سکتا
ہے۔
انٹرنیٹ کی بنیاد ٹرانزٹ پروٹوکول ٹیول کیٹ ( )TCP/IPپر ہے۔ TCP/IPایک اوپن سورس پروٹوکول ہے جسے
1970کی دہائی میں امریکی حکومت نے تیار کیا تھا۔ TCP/IPانٹرنیٹ کی بنیادی زبان ہے جو کمپیوٹرز کو ایک
دوسرے سے بات چیت کرنے کی اجازت دیتی ہے۔
انٹرنیٹ کی بہت سی اہم خصوصیات اوپن سورس ہیں۔ مثال کے طور پر ،ہائیپر ٹیکسٹ ٹرانسفر پروٹوکول ()HTTP
ایک اوپن سورس پروٹوکول ہے جو ویب سائٹس کو ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اسٹینڈرڈ
کوڈنگ زبانیں جیسے HTML، CSSاور JavaScriptبھی اوپن سورس ہیں۔
تاہم ،انٹرنیٹ کے تمام حصے اوپن سورس نہیں ہیں۔ کچھ ویب سائٹس اور ایپلی کیشنز غیر اوپن سورس سافٹ ویئر کا
استعمال کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر ،فیس بک اور گوگل اپنے اپنے غیر اوپن سورس سافٹ ویئر کا استعمال کرتے
ہیں۔
انٹرنیٹ سے لوازمات خریدنے کے کئی فوائد ہیں ،جن میں شامل ہیں:
زیادہ انتخاب :انٹرنیٹ پر ،آپ دنیا بھر سے لوازمات کی ایک وسیع رینج تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ
آپ کو اپنی ضروریات کے مطابق صحیح لوازمات تالش کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔
مناسب قیمتیں :انٹرنیٹ پر ،آپ اکثر روایتی خردہ فروشی دکانوں سے زیادہ مناسب قیمتوں پر لوازمات تالش کر
سکتے ہیں۔
آسان رسائی :انٹرنیٹ سے لوازمات خریدنا آسان اور آرام دہ ہے۔ آپ اپنے گھر یا دفتر سے کسی بھی وقت اور
کسی بھی جگہ سے لوازمات خرید سکتے ہیں۔
انٹرنیٹ سے لوازمات خریدتے وقت کچھ حفاظتی اقدامات کرنے چاہئیں۔ ان اقدامات میں شامل ہیں:
قابل اعتماد ویب سائٹ سے خریدیں۔ ویب سائٹ کی ساکھ اور شہرت کی جانچ کریں۔
خریدنے سے پہلے لوازمات کی تفصیالت کو اچھی طرح سے پڑھیں۔
خریدنے سے پہلے لوازمات کی قیمتوں کا موازنہ کریں۔
ضمانت کی شرائط کو سمجھیں۔
سوال نمبر۔5محقق کو کن خصوصیات اور صفات کا حامل ہونا چاہیے؟ واضح کریں۔
جواب۔
محقق کی خصوصیات اشاریہ:
اشاریہ کا انگریزی متبادل انڈیکس ہے ۔ اس کے لغوی معنی راستہ دکھانے واال ہمت نمائی کرنے واال یا اشارہ کرنے
واال کے ہیں مگر اصطالحی مفہوم میں اشاریہ سے مراد کسی ضخیم کتاب کے متن میں موجود مختلف طرح کے اسماء
کتب یا لوازمے کی نشان کرنے والے الفاظ کی ابجدی فہرست ہے ،جوصفہ نمبر کی نشان دہی بھی کرتی ہے۔ تحقیقی
اور تدویی کتابوں میں بالعموم اشاریہ کا التزام کیا جا تا ہے تا کہ قاری سہولت اور آسانی سے پوری کتاب کے مطالعے
کے بغیر اپنے مطلب کے موضوعات تک رسائی حاصل کر سکے ۔ گویا اشار یہ کتاب میں موجود اور ناموجود کی خبر
دیتا ہے جوتحقیق کے طلبہ اور عام قارئین کے لیے منفعت رساں ہے ۔ کشاف اصطالحات کتب خانہ میں اشاریہ کی
تعریف یوں کی گئی ہے۔ ا کسی کتاب یا کتب میں مذکور مضامین ،اشخاص ،مقامات یا ناموں وغیرہ کی مفصل الف بائی
یا ابدی فہرست مع حوالہ صفحات ،جہاں انھیں استعمال کیا گیا ہو۔‘‘
کشاف اصطالحات کتب خانه محمودحسن وزمر ومحمود؛ اسالم آباد؛ مقتدرہ قومی زبان؛ ۱۹۸۵ء بس۱۴:۔ ] اشاریہ میں
کئی قسم کے زمرے بنائے جاسکتے ہیں تاہم بہت زیادہ زمرے فوری تالش کے عمل کو مشکل بنا دیتے ہیں اس لیے
صرف ضروری زمرے وضع کیے جانے چاہئیں ۔اردو تحقیق وتد وین یاعلمی کتابوں میں بالعموم اعالم واسا اوراماکن
لینی مقامات کے نام شامل کیے جاتے ہیں تاہم بعض اصحاب علم اپنی کتاب کے اشاریے میں نام ،مقام ،کتاب،
موضوعات ،ادارے ،اصطالحات یا اس نوع کے دیگر زمرے بناتے ہیں ۔ تاکہ ہر طرح کی معلومات اشاریے میں
موجود ہوں اور قاری اپنی ضرورت کے مطابق اس سے استفادہ کر سکے۔
عام طور پر اشاریہ بنانے کے دو طریقے مروج ہیں ۔ پہال طریق یہ ہے کہ نام ،مقام ،کتب ورسائل کو یک جا الف بائی
ترتیب سے پیش کیا جا تا ہے اور ان کے صفحات نمبر درج کیے جاتے ہیں ۔ دوسرا طریق ان سب عناصر کوالگ الگ
زمروں میں تقسیم کرنا اور ہر مرے میں شامل اجز اکوالف بائی ترتیب سے مرتب کرنا ہے ۔
اشار یہ متحقیق و تدوین کی اساسی ضرورت ہے اور اس سے تحقیق کے طلبہ کو بہت مددلتی ہے کیوں کہ وہ تھوڑے
وقت میں کسی خیم کتاب سے اپنی مطلب کی چیز میں تالش کر سکتا ہے ،ورنہ پوری کتاب کا مطالعہ میں تو شاید کئی
دن لگ جائیں تحقیق کاروں کی مدد کے لیے تحقیقی وند و بی کتابوں میں اشاریہ سازی کا چلن عام ہوا۔
اشاریہ سازی میں ناموں کا اندراج أردوتحقین ومدونین کے ہاں انتشار کا شکار ہے ۔ بعض اشاریوں میں غیر معروف نام
پہلے درج کیے جاتے ہیں اور تالش کرنے واال معروف نام میں انھیں موجود نہ پا کر فائدہ حاصل کرنے سے محروم
رہ جا تا ہے۔ انگریزی انڈیکسنگ میں خاندانی نام پہلے لکھا جا تا ہے اور پھر اصل نام ۔ اردو میں اس طرز کو اختیار
کرنے سے کئی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں ۔اس لیے کوئی شخص جس نام سے شناخت رکھتا ہے،اشار می سازی میں اسی
کو اہمیت دی جائے ۔
’’ اشاریے میں ادیبوں اور دوسری اہم شخصیتوں کو لینا چاہیے ۔‘‘
ناموں کے اشاریے میں خاص و عام کی قید درست نہیں اور غیر اہم افراد و اشخاص کا ذکر اگر کتاب میں شامل ہے تو
اس کو اشاریہ میں شامل نہ کرنا درست نہیں ۔ممکن ہے کہ کسی غیر معروف یا غیر اہم شخص کی بابت ہی تحقیق کا
طالب علم اس کتاب تک پہنچا ہو،اگر اس کے اشاریے میں اسے اپنا مطلو بہ نام دکھائی نہ دے تو اس کی محنت اکارت
جائے گی ۔ قدیم فاری اور عربی کتابوں کے اشاریے کشف کے نام سے بھی موسوم رہے ہیں ،جیسے کشف القرآن ،اس
فہرست میں مختلف قرآنی الفاظ و تراکیب کوالف بائی ترتیب سے مرتب کیا ہے اور وہ الفاظ و تراکیب قرآن حکیم میں
جہاں جہاں آئی ہیں ،ان کی نشان دہی کر دی گئی ہے ،اس سے قاری کا اپنی مطلوبہ آیت تک پہنچنا سہل ہو گیا ہے ۔
اشاریہ مصنف ،مؤلف یا محقق کو خود تیار کرنا چاہیے کیوں کہ ناشر یاغیر متعلقہ افراد جبلت اور رواروی میں ایاشار
بی مرتب کرتے ہیں ،جو فائد و رساں نہیں ہوتا۔
حاشیہ:
حاشیہ عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے لغوی معنی کنارہ ،طرف یا گوشہ کے ہیں ۔ عربی کی معروف لغت لسان
العرب میں اس کا معنی کل شي اجانبہ و طرفہ‘‘ یعنی ہر چیز کی طرفیں اور کنارے درج ہے۔ صفحے پرمتن کے عالوہ
خالی جگہ حاشیہ کہالتی ہے۔ پرانے زمانے میں متن کی وضاحت تشریح بھی تقسیم یا تبدیلی کے لیے مختصر عبارتیں
یا اشارے صفحے کی خالی جگہوں پر لکھنے کا رواج تھا۔ یہ عبارتیں یا اشارے قاری کو متن کی تفہیم میں مدد کرتے
تھے اس لیے عربی فارسی کی درسی کتابوں سے محشی ایڈیشن مرتب کیے گئے اور بعض اوقات یہ عبارتیں متن سے
زیادہ سود مند قرار پائیں اور متن کے بغیر بھی ان کی اشاعتیں معروف ہوئیں۔ عربی فاری کی میشی اشاعتیں قلمی اور
مطبوعہ صورتوں میں کتب خانوں میں موجود ہیں ۔ بعد میں انھی اشارات اور عبارات کو حاشیہ کا نام دیا گیا۔
ڈاکٹرمحمدطفیل حاشیہ کی تعریف یوں کرتے ہیں" :حاشیمتن کا متضاد ہے اس سے وہ عبارت مراد ہے جو کسی کتاب
کے صفحے کے کنارے پرلکھی جاتی ہے اور اس میں متن پر اضافوں کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ اس سے مراد کو یا وہ
شرح ہے جو کسی متن پرلکھی جاتی۔ڈاکٹر محمد صدیق خان شبلی نے حاشیہ کی وضاحت یوں کی ہے:
عربی زبان میں حاشیہ ( جمع حواشی ) کنارے کو کہتے ہیں ۔اس لیے یہاں آنے والی تحریر کو حاشیہ کہا گیا۔حواشی
میں عام طور پر اصل کتاب کی توضیحات دی جاتی تھیں مشکل درسی کتابوں کی شرحیں کی جاتی تھیں ،پیشرمیں بھی
کتاب کے حاشیے میں درج کر دی جاتی تھیں ۔‘‘
حاشیے ابتدا میں صفحے کے چوطرفہ خالی جگہوں پر لکھنے کا رواج تھا بعد میں ان توضیحی یاقصہیبی عبارتوں کا
مقام بھی تبدیل کر دیا گیا کہیں صفحے کے زیر میں حصے میں متن کے بعد ایک لکیر لگا کران توضیحی عبارتوں کو
درج کیا جانے لگا ،انگریزی میں فٹ نوٹس بعربی میں باہش اور قاری میں پاورقی عبارتیں حواشی کے اس طریق کے
لیے مستعمل ہیں ۔ اس طریق میں بسا اوقات کسی طویل حاشیے کی عبارت اگلے صفحات میں چلی جاتی ہے ،جس سے
متن اور حواشی میں ایک ایک نوع کی ڈوری پیدا ہو جاتی ہے ۔ اس خرابی کو دور کر نے کے لیے باب یا کتاب کے
آخر میں سب حواشی کو نمبر وار پیش کرنے کا طریق سامنے آیا۔ بعض طبائع متن سے حواشی کی اس ڈوری کو پسند
نہیں کرتیں مگر پاورق میں حواشی کے مسائل زیادہ ہیں ،اس لیے حواشی کو باب کے اختتام پر درج کرنا زیادہ بہتر
ہے۔