Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 10

‫ن ٹ‬ ‫ق‬

‫ن نیو ی ورس ی‬ ‫پ‬‫و‬ ‫ا‬ ‫ال‬ ‫ب‬ ‫ا‬ ‫المہ‬‫ع‬


‫ئ‬ ‫ب‬
‫اردو می ں ی چ لر آف سا س‬

‫اسائنمنٹ نمبر‪01:‬‬
‫ن‬
‫طاہرہ‬ ‫‪ :‬ام‬
‫ٹ ش ن‬
‫‪20PLR06078‬‬ ‫‪:‬رجس ری ن مب ر‬
‫‪7th‬‬ ‫‪:‬سمسٹ ر‬
‫ن‬
‫تحقیق و تدوین اصول اور روا یت‬ ‫‪:‬کورس کا ع وان‬
‫‪9021‬‬ ‫‪:‬کورس کوڈ‬
‫فروری‪5-2024-‬‬ ‫‪:‬جمع کروانے کی تاریخ‬

‫سوال نمبر۔‪1‬تحقیق کا مزاج تنقید سے کس طرح مختلف ہے؟ واضح کریں‬


‫جواب‬

‫‪ :‬تحقیق کا لغوی و اصطالحی مفہوم‬


‫تحقیق حقیقت کی تالش کے لیے کی جانے والی نتیجہ خیز سرگرمی کا نام ہے تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کا‬
‫لغوی مفہوم ‪ :‬تالش تجسس تفتیش‪ ،‬چھان بین ‪،‬کھوج ‪ ،‬سراغ ‪ ،‬در یافت اور جانچ کومحیط ہے ۔ گو یا لغوی مفہوم میں‬
‫تحقیق کسی مخصوص پہلو‪ ،‬چیز یاشخص کے متعلق محتاط تالش کاعمل یا کسی حقیقت کے انکشاف کی غرض سے‬
‫غور وفکر کے ساتھ چھان بین کا نام ہے ۔اس کا اصطالحی مفہوم بھی اس کے لغوی مفہوم سے پوری طرح مطابقت‬
‫رکھتا ہے۔‬

‫‪:‬تحقیق کے مفہوم ومعنی کے متعلق مالک رام لکھتے ہیں‬


‫تحقیق عربی زبان کا لفظ ہے۔اس کا مادوح ق ق ہے‪ ،‬جس کے معنی کھرے کھوٹے کی چھان بین یاکسی بات کی"‬
‫تصدیق کرنا ۔ دوسرے لفظوں میں تحقیق کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ ہم اپنے علم وادب میں کھرے کو کھوٹے سے ‪ ،‬مغز‬
‫"کو چھلکے سے حق کو باطل سے الگ کر میں ۔انگریزی لفظ ریسر چ کے بھی یہی معنی ہیں ۔‬

‫تحقیق کا مزاج تنقید سے کس طرح مختلف ہے؟‬


‫تحقیق کا مزاج نئی معلومات تالش کرنے اور موجودہ معلومات کو سمجھنے پر مرکوز ہوتا ہے۔ محققین معروضی ہونے‬
‫کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے نتائج پر مبنی فیصلے کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ تنقید کا مزاج موجودہ معلومات پر‬
‫غور و فکر کرنے اور ان کی قدر کا جائزہ لینے پر مرکوز ہوتا ہے۔ نقاد اپنی ذاتی رائے اور رائے کا اظہار کرنے سے‬
‫گریز نہیں کرتے ہیں۔‬

‫انسان چوں کہ فطرتا اور طبعا حقیقت کو صیح شکل میں دیکھنے کا تمنی ہوتا ہے اس لیے اس تک پہنچنے کا ساراعمل‬
‫تحقیق اور جستجو کا ہے۔ ذہن میں غور وفکر کا مادہ تحقیق کا محرک ہے۔ ہر شخص مختلف چیزوں کے بارے میں‬
‫سوچتا رہتا ہے لیکن یہ تحقیق نہیں ہے۔ تحقیق کسی بھی امر کو باضابطہ طور پر جاننے کی کوشش کا نام ہے ۔‬
‫باضابطہ طور پر جانے کی کوشش کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز کو جاننے کی کوشش کی جارہی ہے‪ ،‬اس کے تقاضے‬
‫پورے کیے جائیں ۔ تاہم کوشش کے باوجوداس کے تمام تقاضے پورے نہیں ہو سکتے اور حق کو وہ سارے ذرائع‬
‫میسرنہیں ہوتے جو حقیقت کی تالش میں اس کے معاون ہوں ۔ قاضی عبدالودود کے نزدیک می الزمی نہیں کہ انسان‬
‫کی تالش وجستجو کا نتیجہ ہمیشہ درست ہی ہو‪ ،‬وہ تالش و جستجو کے بعد بھی بسا اوقات حقیقت تک نہیں پہنچ پا تا۔ وہ‬
‫‪:‬لکھتے ہیں‬

‫تحقیق کسی امر کو اس کی اصلی شکل میں دیکھنے کی کوشش ہےکوشش کامیاب بھی ہوتی ہے اور نا کام بھی حقیقت‬
‫موجود ہے‪ ،‬یہ دوسری بات ہے کہ ہمارے پاس اس کے دریافت کرنے کے نامکمل ذرائع ہیں ۔‬

‫اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اگر چہکمل ذرائع کی عدم فراہمی کے باعث تالش کار پر پوری حقیقت یا مکمل‬
‫حقیقت واضح نہیں ہوتی تاہم اس کی تالش و جستجو کا میٹر تحقیق ہی میں شمار ہوگا‪ ،‬کیوں کہ اس نے حقیقت کی تالش‬
‫کے لیے کوشش تو کی ۔اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے ڈاکٹر نذ یراحمد لکھتے ہیں‪« :‬تحقیق ‪ ،‬حقائق کی تالش و‬
‫جستجو کا نام ہے ۔ حقیقت خواہ کسی قسم کی ہو‪ ،‬اس کے سلسلے میں جو کوشش کی جائے وہ تحقیق کی حد میں شامل‬
‫ہو گی ۔حقیقت کی تالش کرنے والے سب کے سب‪ ،‬مقصد میں کامیاب ہی نہیں ہو جاتے لیکن صرف وہی کوشش تحقیق‬
‫کے زمرے میں نہیں آئے گی جو کامیابی سے ہم کنار ہوگی بلکہ حقائق کی تالش میں جو قدم خلوص و دیانت داری سے‬
‫اٹھایا جائے گا ‪ ،‬وہ تحقیق کا قدم ہوگا ۔ بسا اوقات محقق جس نتیجے پر پہنچتا ہے وہ دراصل میں حقیقت نہیں ہوتی بلکہ‬
‫محد ودذ رائع و وسائل تحقیق کی بنا پر اس نتیجے کو حقیقت کا نام دیناپڑ تا ہے۔‬

‫تحقیق حقیقت کی تالش وجستجو کا عمل ہے اور چوں کہ حقیقت اکثر پوشیدہ ہوتی ہے ‪،‬اس کو ظاہر کرنے اور اس کا‬
‫انکشاف کرنے کے لیے عمدہ وسائل اور بہترین ذرائع کے استعمال سے اس تک پہنچنا ناممکن نہیں ہوتا۔ تاہم ریمل جس‬
‫سنجیدگی اور محنت کا تقاضا کرتا ہے وہ ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں ہوتی اور اکثر حقین راستے کی‬
‫دشواریوں اور تکالیف کو دیکھ کر اپنے سفر کو درمیان میں ہی ختم کر دیتے ہیں یوں ان کی اس نارسائی کے باعث وہ‬
‫حقیقت کی تالش کے سفر میں منزل مقصود تک نہیں پہنچ پاتے اور حقیقت کو اصل صورت میں دیکھنے کا خواب‬
‫شرمندہ تعبیر نہیں ہو پاتا۔‬
‫تحقیق کامل ہر شعبۂ حیات کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے ۔ جو شعبہ تحقیق سے اپنارشتہ منقطع کر لیتا ہے ‪ ،‬اس کا‬
‫ارتقائی سفرختم ہو جا تا ہے اور اس شعبے کی حیثیت باقی نہیں رہتی ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی روز افزوں ترقی کا‬
‫راز ان شعبوں میں ہونے والی تحقیقات میں پوشیدہ ہے۔ تحقیقات کا تسلسل ان شعبوں کی ثروت میں اضافہ کرتا ہے اور‬
‫ان کو معاشرے کے لیے زیادہ سودمند اور منفعت رساں بنا تا ہے ۔ ہر شعبۂ حیات کا منیج تحقیق الگ ہے اور ہر ایک‬
‫کے وسائل وذ رائع مختلف ہیں تاہم سب کا مطمح نظر حقائق کا انکشاف اور صداقت کی تالش ہے ۔‬
‫ادب کسی بھی سماج اور قوم کا آئینہ ہوتا ہے اور اس کی تعمیر تشکیل میں مختلف عوامل اور عناصر شامل ہوتے ہیں۔‬
‫کسی معاشرے یا کسی قوم کے سماجی میالنات اور تہذیبی رویوں کو جانے اور سمجھنے میں ادب کو کسی طور نظر‬
‫انداز نہیں کیا جا سکتا ‪ ،‬اس لیے کہ سماج کا ذہنی اور فکری سرما یادب کے ذریعے ہی سامنے آتا ہے ۔ تہذیب اپنی تمام‬
‫تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ ادب میں جلوہ گر ہوتی ہے ۔تہذیب اور معاشرتی زندگی کا مطالعہ ادب کے وسیلے سے کیا‬
‫جا تا ہے ۔ ادب کا ارتقاء مختلف ادوار کے ادبی امتیازات‪ ،‬ادب اور ساج کے باہمی رویے تخلیق کے مقاصد‪ ،‬معاشرے‬
‫کی تعمیر وترقی میں ادب کا کردار جیسے مسائل اور معامالت پر تحقیق کواد بی تحقیق کا نام دیا جا تا ہے ۔ ادبی تحقیق‬
‫میں مختلف قسم کی تحریروں سے زبان ‪ ،‬تصورات ‪ ،‬خیاالت ‪ ،‬جذبات‪ ،‬فکر ‪ ،‬ساجی حاالت ‪ ،‬طرزعمل اور مجموعی‬
‫مزاج کی شناخت کی شعوری کوشش کی جاتی ہے ۔ اسے ادبی تحقیق کہتے ہیں ۔اس کوشش سے ہم ماضی کے حاالت‬
‫اور عصری مسائل سے آگاہ ہوتے ہیں اور مستقبل کا الئی عمل تیار کرتے ہیں۔ ادبی تحقیق دوسرے لفظوں میں قومی‬
‫دانش وشعور کو پرکھنے اور سمجھنے کی کوشش ہے ۔ادبی تحقیق کا مقصد اد بی سرمائے کی حفاظت اور فکری ترقی‬
‫کے امکانات کو وسعت عطا کرنا ہے ۔‬

‫سوال نمبر۔‪2‬اردو تحقیق میں اورینٹل کالج کی خدمات کا جامع تعارف کرائیں۔‬
‫جواب۔‬
‫اردو تحقیق میں اورینٹل کالج کی خدمات کا جامع تعارف‬
‫اورینٹل کالج‪ ،‬پنجاب یونیورسٹی‪ ،‬الہور اردو تحقیق کے میدان میں ایک اہم ادارہ ہے۔ اس کا قیام ‪ 1866‬میں ہوا تھا‪ ،‬اور‬
‫یہ اردو زبان اور ادب کی تعلیم اور تحقیق کے لیے ایک اہم مرکز رہا ہے۔‬

‫اورینٹل کالج اردو تحقیق کے لیے مختلف خدمات فراہم کرتا ہے‪ ،‬جن میں شامل ہیں‪:‬‬

‫اردو زبان اور ادب کی تعلیم‪ :‬اورینٹل کالج اردو زبان اور ادب کی تعلیم کے لیے ایک اعلٰی تعلیمی ادارہ ہے۔‬ ‫‪‬‬
‫یہاں اردو زبان اور ادب کے مختلف شعبوں میں بیچلر‪ ،‬ماسٹر اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں دی جاتی ہیں۔‬
‫اردو تحقیق کے لیے وسائل‪ :‬اورینٹل کالج اردو تحقیق کے لیے مختلف وسائل فراہم کرتا ہے۔ اس کے شعبہ‬ ‫‪‬‬
‫اردو کے پاس ایک وسیع الئبریری ہے‪ ،‬جس میں اردو زبان اور ادب کے متعلق کتابیں‪ ،‬جرائد اور دیگر مواد‬
‫موجود ہے۔ اس کے عالوہ‪ ،‬اورینٹل کالج کے پاس ایک رائٹنگ سینٹر ہے‪ ،‬جو طلباء اور محققین کو اپنی تحقیقی‬
‫کاموں کو لکھنے میں مدد کرتا ہے۔‬
‫اردو تحقیق کے لیے پروگرام‪ :‬اورینٹل کالج اردو تحقیق کے لیے مختلف پروگرامز کا انعقاد کرتا ہے۔ ان‬ ‫‪‬‬
‫پروگرامز میں سیمینار‪ ،‬کانفرنسیں‪ ،‬اور ورکشاپ شامل ہیں۔ یہ پروگرام اردو تحقیق میں دلچسپی رکھنے والے‬
‫طلباء اور محققین کے لیے ایک موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ دیگر محققین سے مل سکیں اور اپنے علم اور‬
‫تجربات کو شیئر کر سکیں۔‬

‫اورینٹل کالج کی اردو تحقیق کے لیے خدمات کی ایک مختصر فہرست یہ ہے‪:‬‬
‫اردو زبان اور ادب کی تعلیم‬ ‫‪‬‬
‫اردو تحقیق کے لیے وسائل‬ ‫‪‬‬
‫اردو تحقیق کے لیے پروگرام‬ ‫‪‬‬
‫ان خدمات کے ذریعے‪ ،‬اورینٹل کالج اردو زبان اور ادب کی تحقیق کو فروغ دینے اور اسے ایک مضبوط بنیاد فراہم‬
‫کرنے میں کامیاب رہا ہے۔‬

‫اورینٹل کالج کی اردو تحقیق کے لیے خدمات کے کچھ مخصوص مثالیں یہ ہیں‪:‬‬

‫اردو زبان اور ادب کی تعلیم‪ :‬اورینٹل کالج نے اردو زبان اور ادب کی تعلیم کے لیے متعدد نئی کتابیں اور‬ ‫‪‬‬
‫کورسز تیار کیے ہیں۔ ان کتابوں اور کورسز نے اردو زبان اور ادب کی تعلیم کو زیادہ آسان اور موثر بنانے‬
‫میں مدد کی ہے۔‬
‫اردو تحقیق کے لیے وسائل‪ :‬اورینٹل کالج کی الئبریری میں اردو زبان اور ادب کے متعلق ایک وسیع مجموعہ‬ ‫‪‬‬
‫موجود ہے۔ اس مجموعے میں نادر و نایاب کتابیں‪ ،‬جرائد اور دیگر مواد شامل ہیں۔ اورینٹل کالج کا رائٹنگ‬
‫سینٹر بھی اردو تحقیق کے لیے ایک اہم ذریعہ ہے۔ یہ سینٹر طلباء اور محققین کو اپنی تحقیقی کاموں کو لکھنے‬
‫میں مدد کرتا ہے۔‬
‫اردو تحقیق کے لیے پروگرام‪ :‬اورینٹل کالج نے اردو تحقیق کے لیے متعدد سیمینار‪ ،‬کانفرنسیں‪ ،‬اور ورکشاپ‬ ‫‪‬‬
‫کا انعقاد کیا ہے۔ ان پروگراموں میں اردو زبان اور ادب کے مختلف موضوعات پر بحث کی جاتی ہے۔ یہ‬
‫پروگرام اردو تحقیق میں دلچسپی رکھنے والے طلباء اور محققین کے لیے ایک قیمتی موقع فراہم کرتے ہیں۔‬

‫اورینٹل کالج نے اردو تحقیق کے لیے متعدد سیمینار‪ ،‬کانفرنسیں‪ ،‬اور ورکشاپ کا انعقاد کیا ہے۔ ان پروگراموں نے اردو‬
‫تحقیق میں دلچسپی رکھنے والے طلباء اور محققین کے لیے ایک قیمتی موقع فراہم کیا ہے۔ ان پروگراموں کے ذریعے‪،‬‬
‫طلباء اور محققین نے اردو زبان اور ادب کے مختلف موضوعات پر بحث کی‪ ،‬دیگر محققین سے مالقات کی‪ ،‬اور اپنے‬
‫علم اور تجربات کو شیئر کیا۔‬

‫ان پروگراموں کے کچھ مخصوص فوائد یہ ہیں‪:‬‬

‫طلباء اور محققین کو اردو زبان اور ادب کے مختلف موضوعات کے بارے میں مزید جاننے میں مدد کرنا۔‬ ‫‪‬‬
‫طلباء اور محققین کو دیگر محققین سے ملنے اور اپنے علم اور تجربات کو شیئر کرنے کا موقع فراہم کرنا۔‬ ‫‪‬‬
‫اردو تحقیق کے لیے ایک مضبوط علمی ماحول کو فروغ دینا۔‬ ‫‪‬‬

‫اورینٹل کالج کے اردو تحقیق کے لیے سیمینار‪ ،‬کانفرنسیں‪ ،‬اور ورکشاپ اردو تحقیق کو فروغ دینے میں ایک اہم کردار‬
‫ادا کر رہے ہیں۔ ان پروگراموں کے ذریعے‪ ،‬اورینٹل کالج اردو زبان اور ادب کی تحقیق کو ایک عالمی لسانی اور ادبی‬
‫روایت کے طور پر فروغ دینے میں مدد کر رہا ہے۔‬

‫اورینٹل کالج کے اردو تحقیق کے لیے سیمینار‪ ،‬کانفرنسیں‪ ،‬اور ورکشاپ کے کچھ مخصوص مثالیں یہ ہیں‪:‬‬

‫‪ ‬اردو زبان اور ادب کی تاریخ اور تنقید پر سیمینار‬


‫‪ ‬اردو ادب کے مختلف اصناف پر کانفرنس‬
‫‪ ‬اردو زبان اور ادب کی جدید تحقیقی تکنیکوں پر ورکشاپ‬
‫ان پروگراموں میں ملک بھر اور بیرون ملک سے طلباء اور محققین نے شرکت کی ہے۔ ان پروگراموں نے اردو تحقیق‬
‫کو ایک زندہ اور متحرک میدان کے طور پر فروغ دیا ہے۔اورینٹل کالج کی اردو تحقیق کے لیے خدمات اردو زبان اور‬
‫ادب کی تحقیق کو فروغ دینے میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔۔ ان خدمات کے ذریعے‪ ،‬اورینٹل کالج اردو زبان اور‬
‫ادب کی تحقیق کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کر رہا ہے‪ ،‬اور اسے ایک عالمی لسانی اور ادبی روایت کے طور پر فروغ‬
‫دینے میں مدد کر رہا ہے۔‬

‫سوال نمبر‪3‬۔ کسی تحقیق کام کا خاکہ بنانا کیوں ضروری ہے؟ وضاحت کریں۔‬
‫جواب۔‬
‫تحقیقی خاکہ‬
‫خا کہ فارسی زبان کا لفظ ہے ۔ اس کے لغوی معنی ڈھانچا‪ ،‬کچا نقشہ بنانا اور حدود کے خطوط کا نشان ڈالنا ہے ۔ کسی‬
‫بھی قسم کی تحریے کے لیے منصوبہ بندی خاکہ کہالتی ہے ۔اردوادب میں میافظ دو مختلف اصناف میں الگ الگ‬
‫اصطالحی مفاہیم میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ کشن کی اصطالح میں کسی شخصیت کے نقوش کو ابھارنے والی تحر ی‬
‫کونا کہ کہتے ہیں جیسے منٹو نے نور جہاں کا خاکہ نور جہاں سرور جاں‘‘ کے عنوان سے لکھا۔ مولوی عبدالحق ‪،‬‬
‫شاہد احمد دہلوی ‪ ،‬چراغ حسن حسرت اور طفیل نے یادگار شخصی خاکے لکھے ۔‬

‫کسی تحقیق کام کا خاکہ بنانا کیوں ضروری ہے؟‬


‫تحقیق کا کام ایک پیچیدہ اور وقت طلب عمل ہو سکتا ہے۔ کسی تحقیق کے کام کا خاکہ بنانا اس عمل کو منظم اور موثر‬
‫بنانے کا ایک اہم طریقہ ہے۔ خاکہ بنانے سے تحقیق کار کو اپنے خیاالت کو واضح طور پر بیان کرنے‪ ،‬کام کے مختلف‬
‫مراحل کو منظم کرنے اور تحقیق کے کام کے اختتام پر ایک جامع دستاویز تیار کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔‬

‫تحقیق کے کام کا خاکہ بنانے کے کئی فوائد ہیں‪ ،‬جن میں شامل ہیں‪:‬‬

‫منظم فکر‪ :‬خاکہ بنانے سے تحقیق کار کو اپنے خیاالت کو واضح طور پر بیان کرنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ‬ ‫‪‬‬
‫تحقیق کار کو اپنے کام کے مختلف مراحل کو منظم کرنے اور ان کے درمیان منطقی تعلقات قائم کرنے میں بھی‬
‫مدد کرتا ہے۔‬
‫وقت کی بچت‪ :‬خاکہ بنانے سے تحقیق کار کو اپنے وقت کو موثر طریقے سے استعمال کرنے میں مدد ملتی ہے۔‬ ‫‪‬‬
‫یہ تحقیق کار کو اپنے کام کے مختلف مراحل کو ایک ترتیب میں انجام دینے میں مدد کرتا ہے‪ ،‬جس سے تحقیق‬
‫کے کام کو مکمل کرنے میں وقت کی بچت ہوتی ہے۔‬
‫کام کی جامعیت‪ :‬خاکہ بنانے سے تحقیق کار کو تحقیق کے کام کے مختلف پہلوؤں کو شامل کرنے میں مدد ملتی‬ ‫‪‬‬
‫ہے۔ یہ تحقیق کار کو تحقیق کے کام کے اختتام پر ایک جامع دستاویز تیار کرنے میں مدد کرتا ہے۔‬

‫تحقیق کے کام کا خاکہ بنانے کے لیے کئی مختلف طریقے استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ کچھ تحقیق کار ایک سادہ نقطہ‬
‫فہرست کا استعمال کرتے ہیں‪ ،‬جبکہ دیگر ایک زیادہ تفصیلی خاکہ بناتے ہیں۔ خاکہ بنانے کا بہترین طریقہ تحقیق کے‬
‫کام کی نوعیت اور تحقیق کار کی ذاتی ترجیحات پر منحصر ہوتا ہے۔‬

‫تحقیق کے کام کا خاکہ بنانا ایک اہم عمل ہے جو تحقیق کار کو اپنے کام کو منظم اور موثر بنانے میں مدد کر سکتا ہے۔‬
‫خاکہ بنانے سے تحقیق کار کو اپنے خیاالت کو واضح طور پر بیان کرنے‪ ،‬وقت کی بچت کرنے اور تحقیق کے کام کے‬
‫اختتام پر ایک جامع دستاویز تیار کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔‬

‫تحقیقی کام کے لیے منصوبہ بندی بہت ضروری ہے ۔اس کی بدولت کام کے خال و خط ابھرتے ہیں اور ان میں ترتیب‬
‫قائم ہوتی ہے ۔ کن کن موضوعات پر دار تحقیق دینا ہے؟ انھیں کس ترتیب سے پیش کرنا ہے؟ نتیجہ خیزی کے لیے‬
‫تسلسل کو کیسے قائم کرنا ہے؟ انھی امور کے پیش نظر خاکہ تیار کیا جا تا ہے ۔ اس سے ہر مرحلے کی ضرورت کا‬
‫اندازہ ہوتا ہے ۔ معلوم ہو جا تا ہے کہ کس موضوع کی تحقیق کے لیے کون کون سی کتب درکار ہوں گی ؟ کون سے‬
‫موضوعات مشکل ہیں؟ مشکالت کی نوعیت کیا ہے؟ انھیں کیسے حل کیا جا سکتا ہے؟ کام کی جملہ مشکالت بہ یک‬
‫نظر سامنے آجاتی ہیں ۔ ان سب امور کے واضح ہو جانے سے ایک طرح کا سلجھاؤ پیدا ہوتا ہے۔ طالب علم ڈالی دباؤ‬
‫اور تناؤ کی کیفیت سے نکل آتا ہے ۔ منزل واضح اور راہنما خطوط متعین ہو جاتے ہیں ۔ اس کے لیے کام کرنا آسان ہو‬
‫جا تا ہے۔ تحقیق کے لیے نا کہ ساڑی پہال مرحلہ ہے۔ گویا خاکہ تحقیق کی بنیادی ضرورت ہے ۔ اس کے بغیر تحقیق‬
‫شروع نہیں ہوسکتی ۔‬
‫فکر کی راہنمائی کے لیے جب تک واضح اشارات ( تا کہ موجود نہ ہوں ‪ ،‬کچھ بھی نہیں لکھا جا سکتا تحقیق میں اس‬
‫کی اہمیت دیگر تحریروں کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ کر ہے۔ تحقیق میں ہر موضوع سے متعلق موجودتر میری مواد‬
‫سے کچھ نہ کچھ نتیجہ اخذ کیا جا تا ہے ۔ پتیہ حقیقت یا حقیقت کے قریب تر بات ہوتی ہے ۔ آگے آنے والے موضوعات‬
‫کے نتائج بھی سابقہ معلومات کی بنا پر اخذ کیے جاتے ہیں۔ یوں مقالہ نگار سابقہ حقائق سے نت نئے نتائج کی طرف‬
‫بڑھتا چال جا تا ہے ۔ اگر مباحث کی ترتیب کو قائم نہ رکھا جائے تو نتیجہ خیزی کامل رک جا تا ہے اور تحقیقی مقالے‬
‫کی تفہیم میں بھی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے تحقیق کے بارے میں یہ تاثر پایا جا تا ہے کہ یہ خشک موضوع ہے ۔ اس تاثر‬
‫کی بنیادی وجہ حقائق کا بے ترتیب انبار ہے ۔ قاری کوئی نتیجہ نہیں نکال پاتا۔ وہ جھنجھال کر موضوع کو خشک سمجھ‬
‫کر چھوڑ دیتا ہے ۔حقائق معلومات افزا ہوتے ہیں ۔ ان میں دہی کا سامان موجود ہوتا ہے ۔ان سے ذوق جستجو کو جال‬
‫ملتی ہے ۔ لیکن یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب معلومات کو عمدگی سے ترتیب دیا گیا ہو۔‬

‫تحقیق کے دوران اگر ایسی معلومات حاصل ہوں جو تحقیق او ر قاری دونوں کےلیے سود مند ہوں مگر متن میں ان کا‬
‫ذکر‪،‬متن کی روانی کو متاثر کرے تو ایسی معلومات کا ذکر ضمیمہ میں کیا جاتا ہے۔لیکن یہ ہر تحقیق کا ضروری جزو‬
‫نہیں ہے۔اسے بوقت ضرورت ہی استعمال کیا جاتا ہے۔‬

‫پروفیسر عبدالستار رودولوی لکھتےہیں‪:‬‬


‫ضمیمہ کے تحت عام طور پر اس مواد کا ذکر کیا جاتا ہے جو پیش کردہ مقالے سے متعلق اور اس کے لیے مفید تو‬
‫ہوتاہے ‪،‬لیکن اگر مقالے کے متن میں اس کو شامل کر دیا جاتا تو مقالے کے انداز پیشکش کےلیے نامناسب ثابت ہوتا۔‬
‫فرض کیجے کہ کوئی مقالہ ہم عصر شاعر یا مصنف کے بارے میں پیش کیا جا رہا ہے۔محقق نےاس مصنف یا شاعر‬
‫سے انٹرویو کر کے اپنے سواالت کے جوابات حاصل کر لیے تھے ان سواالت اور جوابات کو ضمیمے میں دیا جا‬
‫سکتا ہے۔ اسی طرح کا زائد اور موضوع سے متعلقہ مواد بھی ضمیمے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔اختصارات‪،‬نقشہ‬
‫جات اورضروری تقابلی جدولیں بھی ضمیمے میں دی جا سکتی ہیں۔‬

‫سوال نمبر۔‪:4‬کیا انٹرنیٹ لوازمے کے حصول کا مستند ذریعہ ہے؟ بحث کریں‬
‫جواب۔‬
‫آج کے زمانے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی برق رفتار ترقی نے تحقیق کے نئے ذرائع اورلواز مے کے لئے مخازن‬
‫متعارف کرائے ہیں ۔کم یاب اور نادر مطبوعہ کتابوں کے عکس اب انٹرنیٹ پر بھی موجود ہیں ۔ ریختہ القلم ‪ ،‬دیدہ ور‬
‫اور ان جیسی بیسیوں دیگر ویب گا میں موجود ہیں ‪ ،‬جن میں قدیم اور نادر مطبوعہ کتابوں کے عمد و فکس محفوظ کیے‬
‫گئے ہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔اس نوع کی ویب سائٹس سے متعلقہ اواز مے کی تالش آج‬
‫کے تحقیق کاروں کے لیے ضروری ہے۔‬

‫ہم جس دور میں سانس لے رہے ہیں اسے ڈیجیٹل ورلڈ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چوتھے صنعتی انقالب کے بعد دنیا کو‬
‫گلوبل ویلیج کا درجہ مل گیا لیکن میٹاورس اور ڈیجیٹل دور نے یہ فاصلے مزید کم کردیے ہیں۔ اب ہم دنیا کو گلوبل ویلج‬
‫کے بجائے گلوبل ہوم کا نام دے سکتے ہیں۔ ڈیجیٹل دنیا اب میٹاورس کا روپ دھارنے جارہی ہے۔ اس لیے انٹرنیٹ اور‬
‫ڈیجیٹل دنیا ایک حقیقت ہے اس سے چشم پوشی کرنا یا کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلینا ممکن نہیں ہے۔ یوں سمجھیے‬
‫کہ طبیعی دنیا (فزیکل ورلڈ) اور مجازی دنیا (ورچوئل ورلڈ) زندگی کے دو پہلو کی طرح ہیں۔ اس لیے ورچوئل دنیا یا‬
‫ڈیجیٹل دنیا سے ڈرنے یا دور ہونے کے بجائے اس کا مقابلہ کرنے اور بہتر استعمال کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا۔‬
‫ہم انٹرنیٹ کے محفوظ استعمال کرنے کے طریقے‪ ،‬سائبر سکیورٹی کی بنیادی باتیں‪ ،‬والدین کے لیے اور بچوں کے‬
‫لیے راہنما اصول اور انٹرنیٹ پر فراڈ اور جرائم کو تین اقساط میں بیان کریں گے۔ زیر نظر تحریر میں انٹرنیٹ سے‬
‫متعلق چند بنیادی باتیں بیان کررہے ہیں‪:‬‬

‫انٹرنیٹ کے مقاصد‬
‫سب سے پہلے تو یہ جانتے ہیں کہ انٹرنیٹ کے مقاصد کیا ہیں‪ ،‬ہم انٹرنیٹ کا استعمال کیوں کرتے ہیں۔ یاد رکھیے‬
‫انٹرنیٹ ایک ٹول کی طرح ہے۔ آپ اپنے ذوق کے مطابق بہترین‪ ،‬خوب صورت اور نفیس انتخاب کرسکتے ہیں اور اس‬
‫کے برعکس بھی۔ لیکن انٹرنیٹ کا مفید استعمال زیادہ اور وسیع ہے ‪:‬‬

‫‪1‬۔ معلومات کی تالش کے لیے‪ :‬جیسے تازہ خبریں‪ ،‬معلوماِت عامہ (جنرل نالج)‪ ،‬تاریخ (ہسٹری) ‪ ،‬تعلیم و تدریس وغیرہ‬

‫‪2‬۔ جدید اور مفید چیزیں سیکھنے کے لیے‪ :‬کسی بھی شعبے یا علم کے بارے میں تازہ تحقیق‪ ،‬جدید تصورات‪ ،‬جدید‬
‫ٹیکنالوجی اور سائنس کے میدان میں ہونے والی ترقی کے بارے میں جاننا وغیرہ‬

‫‪3‬۔ باہمی رابطے کے لیے‪ :‬انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ سوشل میڈیا (فیس بک‪ ،‬ٹویٹر‪ ،‬انسٹاگرام) استعمال ہوتا ہے۔ باہمی‬
‫رابطے کے لیے تیز ترین اور موئثر ترین میڈیم ہے۔‬

‫‪4‬۔ مثبت اور اخالقی تفریح کے لیے‪ :‬معلوماتی‪ ،‬تاریخی اور فنوِن لطیفہ سے متعلق ویڈیوز‪ ،‬مضامین‪ ،‬تصاویر وغیرہ‬

‫‪5‬۔ علم اور روزگار کے لیے‪ :‬آپ دنیا بھر کی بڑی یونیورسٹیوں اور اداروں سے گھر بیٹھے تعلیم حاصل کرسکتے ہیں۔‬
‫فری النسنگ‪ ،‬ڈیجیٹل مارکیٹنگ‪ ،‬آن الئن بزنس اور ایمرجنگ ٹیکنالوجیز کے ذریعے روزگار حاصل کرسکتے ہیں۔‬

‫انٹرنیٹ کے محفوظ استعمال کے لیے کیا کرنا چاہیے‪:‬‬


‫یاد رکھیے تحفظ اور سکیورٹی کے لیے سب سے بنیادی اصول اس شعبے‪ ،‬فیلڈ اور میدان سے متعلق مکمل جانکاری‬
‫اور علم حاصل کرنا ہے۔ اگر آپ انٹرنیٹ کا خود بھی محفوظ استعمال کرنا چاہتے ہیں اور بچوں کو بھی اس کے‬
‫خطرات سے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو انٹرنیٹ کی دنیا کی بنیادی معلومات ضرور حاصل کرنی چاہیے۔ یہاں‬
‫ہم چند اہم پہلو بیان کررہے ہیں‪:‬‬

‫‪1‬۔ انٹرنیٹ ایک اوپن سورس ذریعہ ہے‬


‫انٹرنیٹ ایک اوپن سورس ذریعہ (میڈیا) ہے یعنی اس پر دنیا جہاں سے کوئی بھی انسان یا سسٹم معلومات کو مسلسل‬
‫شامل کررہا ہے۔ یاد رکھیے انٹرنیٹ پر موجود ہر چیز یا معلومات درست‪ ،‬مستند یا قابل اعتبار نہیں ہے۔ یہاں پر بھی‬
‫حقیقی دنیا کی طرح فراڈ‪ ،‬جرائم ‪ ،‬جھوٹ ‪ ،‬غلط بیانی کے امکانات موجود ہیں۔ اس لیے انٹرنیٹ پر اندھا اعتماد اور بے‬
‫احتیاطی نقصان کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔ اس لیے انٹرنیٹ پر کون سے ذرائع (ویب سائٹ‪ ،‬سوشل میڈیا وغیرہ) مستند‬
‫اور قابل اعتبار ہیں‪ ،‬اس کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔‬

‫انٹرنیٹ کے اوپن سورس ہونے کی وضاحت کرنے کے لیے‪ ،‬یہ سمجھنا ضروری ہے کہ "اوپن سورس" کیا ہے۔ اوپن‬
‫سورس ایک ایسی ڈویلپمنٹ طرز ہے جس میں سافٹ ویئر کی کوڈ اور ڈیٹا کسی بھی شخص کے لیے کھال ہوتا ہے۔‬
‫کوئی بھی اس کوڈ کو دیکھ سکتا ہے‪ ،‬اسے استعمال کر سکتا ہے‪ ،‬اسے تبدیل کر سکتا ہے یا اس میں ترمیم کر سکتا‬
‫ہے۔‬
‫انٹرنیٹ کی بنیاد ٹرانزٹ پروٹوکول ٹیول کیٹ (‪ )TCP/IP‬پر ہے۔ ‪ TCP/IP‬ایک اوپن سورس پروٹوکول ہے جسے‬
‫‪ 1970‬کی دہائی میں امریکی حکومت نے تیار کیا تھا۔ ‪ TCP/IP‬انٹرنیٹ کی بنیادی زبان ہے جو کمپیوٹرز کو ایک‬
‫دوسرے سے بات چیت کرنے کی اجازت دیتی ہے۔‬

‫انٹرنیٹ کی بہت سی اہم خصوصیات اوپن سورس ہیں۔ مثال کے طور پر‪ ،‬ہائیپر ٹیکسٹ ٹرانسفر پروٹوکول (‪)HTTP‬‬
‫ایک اوپن سورس پروٹوکول ہے جو ویب سائٹس کو ایک دوسرے سے بات چیت کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اسٹینڈرڈ‬
‫کوڈنگ زبانیں جیسے ‪ HTML، CSS‬اور ‪ JavaScript‬بھی اوپن سورس ہیں۔‬

‫تاہم‪ ،‬انٹرنیٹ کے تمام حصے اوپن سورس نہیں ہیں۔ کچھ ویب سائٹس اور ایپلی کیشنز غیر اوپن سورس سافٹ ویئر کا‬
‫استعمال کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر‪ ،‬فیس بک اور گوگل اپنے اپنے غیر اوپن سورس سافٹ ویئر کا استعمال کرتے‬
‫ہیں۔‬

‫انٹرنیٹ سے لوازمات خریدنے کے کئی فوائد ہیں‪ ،‬جن میں شامل ہیں‪:‬‬
‫زیادہ انتخاب‪ :‬انٹرنیٹ پر‪ ،‬آپ دنیا بھر سے لوازمات کی ایک وسیع رینج تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ‬ ‫‪‬‬
‫آپ کو اپنی ضروریات کے مطابق صحیح لوازمات تالش کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔‬
‫مناسب قیمتیں‪ :‬انٹرنیٹ پر‪ ،‬آپ اکثر روایتی خردہ فروشی دکانوں سے زیادہ مناسب قیمتوں پر لوازمات تالش کر‬ ‫‪‬‬
‫سکتے ہیں۔‬
‫آسان رسائی‪ :‬انٹرنیٹ سے لوازمات خریدنا آسان اور آرام دہ ہے۔ آپ اپنے گھر یا دفتر سے کسی بھی وقت اور‬ ‫‪‬‬
‫کسی بھی جگہ سے لوازمات خرید سکتے ہیں۔‬

‫انٹرنیٹ سے لوازمات خریدتے وقت کچھ حفاظتی اقدامات کرنے چاہئیں۔ ان اقدامات میں شامل ہیں‪:‬‬
‫قابل اعتماد ویب سائٹ سے خریدیں۔ ویب سائٹ کی ساکھ اور شہرت کی جانچ کریں۔‬ ‫‪‬‬
‫خریدنے سے پہلے لوازمات کی تفصیالت کو اچھی طرح سے پڑھیں۔‬ ‫‪‬‬
‫خریدنے سے پہلے لوازمات کی قیمتوں کا موازنہ کریں۔‬ ‫‪‬‬
‫ضمانت کی شرائط کو سمجھیں۔‬ ‫‪‬‬

‫سوال نمبر۔‪5‬محقق کو کن خصوصیات اور صفات کا حامل ہونا چاہیے؟ واضح کریں۔‬
‫جواب۔‬
‫محقق کی خصوصیات اشاریہ‪:‬‬
‫اشاریہ کا انگریزی متبادل انڈیکس ہے ۔ اس کے لغوی معنی راستہ دکھانے واال ہمت نمائی کرنے واال یا اشارہ کرنے‬
‫واال کے ہیں مگر اصطالحی مفہوم میں اشاریہ سے مراد کسی ضخیم کتاب کے متن میں موجود مختلف طرح کے اسماء‬
‫کتب یا لوازمے کی نشان کرنے والے الفاظ کی ابجدی فہرست ہے‪ ،‬جوصفہ نمبر کی نشان دہی بھی کرتی ہے۔ تحقیقی‬
‫اور تدویی کتابوں میں بالعموم اشاریہ کا التزام کیا جا تا ہے تا کہ قاری سہولت اور آسانی سے پوری کتاب کے مطالعے‬
‫کے بغیر اپنے مطلب کے موضوعات تک رسائی حاصل کر سکے ۔ گویا اشار یہ کتاب میں موجود اور ناموجود کی خبر‬
‫دیتا ہے جوتحقیق کے طلبہ اور عام قارئین کے لیے منفعت رساں ہے ۔ کشاف اصطالحات کتب خانہ میں اشاریہ کی‬
‫تعریف یوں کی گئی ہے۔ ا کسی کتاب یا کتب میں مذکور مضامین ‪،‬اشخاص ‪ ،‬مقامات یا ناموں وغیرہ کی مفصل الف بائی‬
‫یا ابدی فہرست مع حوالہ صفحات ‪ ،‬جہاں انھیں استعمال کیا گیا ہو۔‘‘‬
‫کشاف اصطالحات کتب خانه محمودحسن وزمر ومحمود؛ اسالم آباد؛ مقتدرہ قومی زبان؛ ‪۱۹۸۵‬ء بس‪۱۴:‬۔ ] اشاریہ میں‬
‫کئی قسم کے زمرے بنائے جاسکتے ہیں تاہم بہت زیادہ زمرے فوری تالش کے عمل کو مشکل بنا دیتے ہیں اس لیے‬
‫صرف ضروری زمرے وضع کیے جانے چاہئیں ۔اردو تحقیق وتد وین یاعلمی کتابوں میں بالعموم اعالم واسا اوراماکن‬
‫لینی مقامات کے نام شامل کیے جاتے ہیں تاہم بعض اصحاب علم اپنی کتاب کے اشاریے میں نام‪ ،‬مقام ‪ ،‬کتاب‪،‬‬
‫موضوعات ‪ ،‬ادارے‪ ،‬اصطالحات یا اس نوع کے دیگر زمرے بناتے ہیں ۔ تاکہ ہر طرح کی معلومات اشاریے میں‬
‫موجود ہوں اور قاری اپنی ضرورت کے مطابق اس سے استفادہ کر سکے۔‬

‫عام طور پر اشاریہ بنانے کے دو طریقے مروج ہیں ۔ پہال طریق یہ ہے کہ نام ‪ ،‬مقام ‪ ،‬کتب ورسائل کو یک جا الف بائی‬
‫ترتیب سے پیش کیا جا تا ہے اور ان کے صفحات نمبر درج کیے جاتے ہیں ۔ دوسرا طریق ان سب عناصر کوالگ الگ‬
‫زمروں میں تقسیم کرنا اور ہر مرے میں شامل اجز اکوالف بائی ترتیب سے مرتب کرنا ہے ۔‬

‫اشار یہ متحقیق و تدوین کی اساسی ضرورت ہے اور اس سے تحقیق کے طلبہ کو بہت مددلتی ہے کیوں کہ وہ تھوڑے‬
‫وقت میں کسی خیم کتاب سے اپنی مطلب کی چیز میں تالش کر سکتا ہے‪ ،‬ورنہ پوری کتاب کا مطالعہ میں تو شاید کئی‬
‫دن لگ جائیں تحقیق کاروں کی مدد کے لیے تحقیقی وند و بی کتابوں میں اشاریہ سازی کا چلن عام ہوا۔‬

‫اشاریہ سازی میں ناموں کا اندراج أردوتحقین ومدونین کے ہاں انتشار کا شکار ہے ۔ بعض اشاریوں میں غیر معروف نام‬
‫پہلے درج کیے جاتے ہیں اور تالش کرنے واال معروف نام میں انھیں موجود نہ پا کر فائدہ حاصل کرنے سے محروم‬
‫رہ جا تا ہے۔ انگریزی انڈیکسنگ میں خاندانی نام پہلے لکھا جا تا ہے اور پھر اصل نام ۔ اردو میں اس طرز کو اختیار‬
‫کرنے سے کئی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں ۔اس لیے کوئی شخص جس نام سے شناخت رکھتا ہے‪،‬اشار می سازی میں اسی‬
‫کو اہمیت دی جائے ۔‬

‫ڈاکٹر گیان چند کا یہ کہنا درست نہیں کہ‪:‬‬

‫’’ اشاریے میں ادیبوں اور دوسری اہم شخصیتوں کو لینا چاہیے ۔‘‘‬

‫ناموں کے اشاریے میں خاص و عام کی قید درست نہیں اور غیر اہم افراد و اشخاص کا ذکر اگر کتاب میں شامل ہے تو‬
‫اس کو اشاریہ میں شامل نہ کرنا درست نہیں ۔ممکن ہے کہ کسی غیر معروف یا غیر اہم شخص کی بابت ہی تحقیق کا‬
‫طالب علم اس کتاب تک پہنچا ہو‪،‬اگر اس کے اشاریے میں اسے اپنا مطلو بہ نام دکھائی نہ دے تو اس کی محنت اکارت‬
‫جائے گی ۔ قدیم فاری اور عربی کتابوں کے اشاریے کشف کے نام سے بھی موسوم رہے ہیں‪ ،‬جیسے کشف القرآن ‪ ،‬اس‬
‫فہرست میں مختلف قرآنی الفاظ و تراکیب کوالف بائی ترتیب سے مرتب کیا ہے اور وہ الفاظ و تراکیب قرآن حکیم میں‬
‫جہاں جہاں آئی ہیں ‪ ،‬ان کی نشان دہی کر دی گئی ہے ‪،‬اس سے قاری کا اپنی مطلوبہ آیت تک پہنچنا سہل ہو گیا ہے ۔‬
‫اشاریہ مصنف‪ ،‬مؤلف یا محقق کو خود تیار کرنا چاہیے کیوں کہ ناشر یاغیر متعلقہ افراد جبلت اور رواروی میں ایاشار‬
‫بی مرتب کرتے ہیں ‪ ،‬جو فائد و رساں نہیں ہوتا۔‬

‫حاشیہ‪:‬‬
‫حاشیہ عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے لغوی معنی کنارہ ‪،‬طرف یا گوشہ کے ہیں ۔ عربی کی معروف لغت لسان‬
‫العرب میں اس کا معنی کل شي اجانبہ و طرفہ‘‘ یعنی ہر چیز کی طرفیں اور کنارے درج ہے۔ صفحے پرمتن کے عالوہ‬
‫خالی جگہ حاشیہ کہالتی ہے۔ پرانے زمانے میں متن کی وضاحت تشریح بھی تقسیم یا تبدیلی کے لیے مختصر عبارتیں‬
‫یا اشارے صفحے کی خالی جگہوں پر لکھنے کا رواج تھا۔ یہ عبارتیں یا اشارے قاری کو متن کی تفہیم میں مدد کرتے‬
‫تھے اس لیے عربی فارسی کی درسی کتابوں سے محشی ایڈیشن مرتب کیے گئے اور بعض اوقات یہ عبارتیں متن سے‬
‫زیادہ سود مند قرار پائیں اور متن کے بغیر بھی ان کی اشاعتیں معروف ہوئیں۔ عربی فاری کی میشی اشاعتیں قلمی اور‬
‫مطبوعہ صورتوں میں کتب خانوں میں موجود ہیں ۔ بعد میں انھی اشارات اور عبارات کو حاشیہ کا نام دیا گیا۔‬
‫ڈاکٹرمحمدطفیل حاشیہ کی تعریف یوں کرتے ہیں‪" :‬حاشیمتن کا متضاد ہے اس سے وہ عبارت مراد ہے جو کسی کتاب‬
‫کے صفحے کے کنارے پرلکھی جاتی ہے اور اس میں متن پر اضافوں کا ذکر کیا جاتا ہے ۔ اس سے مراد کو یا وہ‬
‫شرح ہے جو کسی متن پرلکھی جاتی۔ڈاکٹر محمد صدیق خان شبلی نے حاشیہ کی وضاحت یوں کی ہے‪:‬‬

‫عربی زبان میں حاشیہ ( جمع حواشی ) کنارے کو کہتے ہیں ۔اس لیے یہاں آنے والی تحریر کو حاشیہ کہا گیا۔حواشی‬
‫میں عام طور پر اصل کتاب کی توضیحات دی جاتی تھیں مشکل درسی کتابوں کی شرحیں کی جاتی تھیں ‪ ،‬پیشرمیں بھی‬
‫کتاب کے حاشیے میں درج کر دی جاتی تھیں ۔‘‘‬

‫حاشیے ابتدا میں صفحے کے چوطرفہ خالی جگہوں پر لکھنے کا رواج تھا بعد میں ان توضیحی یاقصہیبی عبارتوں کا‬
‫مقام بھی تبدیل کر دیا گیا کہیں صفحے کے زیر میں حصے میں متن کے بعد ایک لکیر لگا کران توضیحی عبارتوں کو‬
‫درج کیا جانے لگا ‪ ،‬انگریزی میں فٹ نوٹس بعربی میں باہش اور قاری میں پاورقی عبارتیں حواشی کے اس طریق کے‬
‫لیے مستعمل ہیں ۔ اس طریق میں بسا اوقات کسی طویل حاشیے کی عبارت اگلے صفحات میں چلی جاتی ہے‪ ،‬جس سے‬
‫متن اور حواشی میں ایک ایک نوع کی ڈوری پیدا ہو جاتی ہے ۔ اس خرابی کو دور کر نے کے لیے باب یا کتاب کے‬
‫آخر میں سب حواشی کو نمبر وار پیش کرنے کا طریق سامنے آیا۔ بعض طبائع متن سے حواشی کی اس ڈوری کو پسند‬
‫نہیں کرتیں مگر پاورق میں حواشی کے مسائل زیادہ ہیں‪ ،‬اس لیے حواشی کو باب کے اختتام پر درج کرنا زیادہ بہتر‬
‫ہے۔‬

‫بنیادی اور ثانوی ماخذ‪:‬‬


‫ماخذ عر بی زبان کا لفظ ہے ‪،‬اس کے لغوی معنی بنیاد‪،‬مرکز ‪،‬اصل منبع اور سر چشمہ کے ہیں ۔اس کی جمع مآخذ اور‬
‫ماخذات دونوں صورتوں میں مستعمل ہے۔ استاد اور مصادر بھی تاخذ کے لیے مستعمل ہیں ۔ انگریزی میں ماخذ کا‬
‫مترادف رائج ہے۔ اصطالحی مفہوم میں ماخذ سے مراد حقائق کے وہ بنیادی سرچشمے ہیں جن سے کوئی محقق استفادہ‬
‫کر کے اپنی بات کو محکم اور مضبوط کرتا ہے ۔ ماخذ سے استفادہ کیے بغیر حقائق کا استناداور اعتبار قائم نہیں ہو‬
‫سکتا ۔ یہی وجہے کہ حقیقی کاموں میں تآخذ و مصادر کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ان کی اہمیت اور افادیت سے کسی طرح‬
‫انکار نہیں کیا جاسکتا تحقیق کا کام بقول ڈاکٹر جمیل جالی‪ :‬سچ کو جھوٹ سے بیج کو غلط سے الگ کر کے اصل‬
‫حقیقت کو دریافت کرتا ہے ۔ اس کا فائدہ یہ ہے کہ تحقیق کے ذریعے کسی نتیجے پر پہنچنے کے بعد جورائے قائم کی‬
‫جائے گی یا جو الئحہ عمل مقرر کیا جائے گا وہ بھی بیح و درست ہوگا ۔ اس لیے زندہ معاشروں میں تحقیق کو اہمیت‬
‫حاصل ہے ۔ جھوٹ اور سچ کی پر کھ اور صیح و غلط میں امتیاز مآخذ ومصادر کے بغیر ممکن نہیں ۔ ذاتی اندازہ اور‬
‫قیاس کتنا ہی واضح اور مضبوط ہو ماخذ کے سامنے پر کام کے برابر اہمیت نہیں رکھتا ۔‬

You might also like