عنایت اللہ

You might also like

Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 61

‫آزادی سے پاکستانی قبضے تک کی اصل کہانی – ڈاکٹر‬

‫عنایت ہللا بلوچ‬


‫‪March 27, 2019‬‬

‫بلوچستان کی تاریخی حیثیت‪ :‬آزادی سے پاکستانی‬


‫قبضے تک کی اصل کہانی‬

‫ستائیس مار چ کے حوالے سے خصوصی تحریر‬

‫تحریر ‪ :‬ڈاکٹر عنایت ہللا بلوچ‬

‫گیارہ گست‪ 1947‬؁ء میں برطانوی اقتدار کے‬


‫خاتمے کے بعد بلوچستان ایک آزاد اور خودمختار‬
‫ریاست بنا۔ ‪ 15‬اگست ‪ 1947‬؁ء کو خان‬
‫میر احمد یار خان نے ایک عوامی اجتماع میں آزادی کا‬
‫اعالن کیا ۔ انہوں نے نو آبادیاتی طرز تقریر کے‬
‫برعکس سامعین سے بلوچی میں خطاب کیا جبکہ‬
‫انگریزی نظام میں تقاریر انگریزی ‪ ،‬فارسی یا پھر اردو‬
‫میں کی جاتی تھیں۔‬
‫خان نے واضح طور پر کہا‪ ’’:‬میں آج آپ لوگوں سے‬
‫بلوچی میں خطاب کرنے پر فخر محسوس کررہا ہوں ۔‬
‫انشاء اہللا اگر مستقبل میں بھی خطاب کیا تو وہ بھی‬
‫بلوچی میں ہی ہوگا کیونکہ بلوچ قوم کی زبان بلوچی ہی‬
‫ہے۔‘‘‬

‫اپنے سیاسی نظریات اور مستقبل کے منصوبوں کے‬


‫متعلق انہوں نے کہا‪ ’’ :‬اب تک ایک غیر ملکی اقتدار‬
‫کی وجہ سے میں آپ لوگوں کے سامنے اپنے خیاالت و‬
‫نظریات کھلے طور پر پیش نہیں کرسکا ہوں ۔ آج ہمارا‬
‫ملک آزاد ہے ٰلہذا میں صاف اور بال جھجک انداز میں‬
‫بات کرسکتا ہوں۔‘‘‬

‫انہوں نے اعالن کیا کہ ان کی مستقبل کی پالیسی کی‬


‫بنیاد ریاست بلوچستان کی خودمختاری کا تحفّظ اور‬
‫بلوچوں کو ایک پرچم تلے متحد کرنا ہوگا۔ ’’ مکمل‬
‫خود مختاری اور بلوچوں کی یکجہتی کی تکمیل تک ہم‬
‫اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے ۔اس مقصد کے حصول‬
‫کے سوا ہم کسی اور چیز پر مطمئن نہیں ہوں گے۔‘‘‬
‫خان نے واضح طور پر کہا کہ ’’ خارجہ پالیسی کا‬
‫مرکز تمام اقوام اور خصوصا ہمسایہ ریاستوں کے ساتھ‬
‫عدم مداخلت اور دوستانہ تعلقات ہوں گے۔‘‘ اپنی تقریر‬
‫میں انہوں نے نظام بادشاہت کی مخالفت کرتے ہوئے‬
‫مروجہ آئین) کی‬
‫ایک ایسے بلوچی ’’رواج‘‘ (غیر ّ‬
‫طرفداری و حمایت کی جسکا ڈھانچہ جمہوری اصولوں‬
‫پر استوار ہو۔‬

‫’’ لوگوں کی اکثریت میرے لئے اپنی گفتگو اور خطوط‬


‫میں لفظ شاہ استعمال کرتے ہیں ۔ میں واضح کردینا چاہتا‬
‫ہوں کہ ہمارے افتخار اور شان کی وجہ بادشاہت نہیں‬
‫ہے میں بلوچ قوم اور اسالم کا ایک خادم ہونے پر فخر‬
‫محسوس کرتا ہوں ۔‘‘‬

‫بلوچ آئین(رواج) میں موجود جمہوری اصولوں کا ذکر‬


‫کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ ہمارے آباء و‬
‫اجدادخودکو شاہ یا حاکم تصور نہیں کرتے تھے ۔ عظیم‬
‫نصیر خان نوری نے ہمارے خاندان کے لئے یہی‬
‫نصیحت چھوڑی ہے ۔ حقیقی کامیابی اس وقت ملے گی‬
‫جب ہم اپنے آپ کو بلوچ عوام کا خادم تصور کریں‬
‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫گے۔جس دن ہم نے قوم سے اپنے آپ کو برتر و‬
‫تصور کیا یقینا ہماری بربادی اور ّ‬
‫تنزل کا آغاز ہوگا۔‘‘‬

‫خان کے خطاب کے بعد قومی جھنڈا لہرایا گیا ۔ جھنڈے‬


‫سرخ اور سبز رنگ بالترتیب انقالب اور‬ ‫میں موجود ُ‬
‫امن کی عالمت کی نشاندہی کررہے تھے ۔ ایک اور‬
‫سرخ‬
‫روایت کے مطابق سبز رنگ قرآن پاک جبکہ ُ‬
‫رنگ تلوار یاجہاد کی عالمتیں ہیں۔‬

‫آئین‪:‬‬

‫اسی مہینے خان کی جانب سے ایک شاہی فرمان کے‬


‫مروجہ ریاستی آئین کا نفاذ کیا گیا۔ نیا‬
‫ذریعے ایک ّ‬
‫صہ‬
‫مرتب کردہ آئین تین حصوں پر مشتمل تھا ۔ پہال ح ّ‬
‫صہ‬ ‫ریاستی قوانین اور عدالتی امور کے بابت ‪ ،‬دوسرا ح ّ‬
‫ریاست کے انتظامیہ کے متعلق اور تیسرا اور آخری‬
‫صہ قانون سازی کے حوالے سے لکھا گیا تھا۔آئین میں‬ ‫ح ّ‬
‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫واضح طور پر نشاندہی کی گئی تھی کہ خان اقتدار‬
‫کے منصب کے امین اور پارلیمان لوگوں کا نمائندہ ادارہ‬
‫ہوگا۔‬

‫وزراء کی کونسل‪:‬‬

‫یہ ایک وزیر اعظم اور اس کے کابینہ کے ارکان پر‬


‫مشتمل تھا ۔ان کی تعینّاتی خان کے ذریعے ہوتی تھی‬
‫اور خان کی تفویض کردہ اختیارات کے تحت وہ اپنا کام‬
‫معزز خان کو ریاستی امور‬ ‫کرتے تھے ۔ کونسل کا کام ّ‬
‫کے چالنے میں مشورہ اور مدد فراہم کرنا تھا۔ کونسل‬
‫کا سربراہ وزیر اعظم مقرر تھا ۔بصورت دیگر سربرائی‬
‫خان کی ہوتی تھی۔ خان کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ‬
‫کسی بھی فرد کو کونسل کا رکن منتخب کرے جن میں‬
‫غیر ملکی شہری بھی شامل تھے مثال کے طور پر‬
‫وزیر اعظم نوابزادہ محمد اسلم اور وزیر خارجہ ڈی‬
‫وائی فیل دونوں غیر ملکی تھے اور ان کا تعلق بالترتیب‬
‫پاکستان اور برطانیہ سے تھا ۔ خان کے یہ وسیع تر‬
‫اختیارات بلوچ قوم کے لئے فائدہ مند نہیں تھے کیونکہ‬
‫وزیر اعظم محمد اسلم اپنے دور حکومت میں پاکستانی‬
‫مفادات کیلئے کام کرتے رہے اور بلوچ قوم اور خان‬
‫سے دغابازی کے مرتکب ہوئے۔‬

‫مجلس قانون ساز‪:‬‬

‫مرتب شدہ آئین دو قانون ساز اداروں پر مشتمل تھا۔‬

‫(الف) داراالمراء جو ایوان باال کہالتا تھا اور قبائلی‬


‫سرداروں پر مشتمل تھا۔‬

‫(ب) دارالعوام جو کہ ایوان زیریں کہالتا تھا۔‬

‫ایوان باال میں جھاالوان اور ساراوان صوبوں کے‬


‫موروثی سردار موجود تھے جبکہ اس میں شامل‬
‫چھیالیس ارکان میں سے دس کا انتخاب خان کے ذریعے‬
‫ہوتا تھا۔ مزید براں ان دس میں سے آٹھ کا انتخاب ایوان‬
‫زیریں اور وزراء کی کونسل سے جبکہ باقی دو کا‬
‫انتخاب اقلیتوں مثال ہندوؤں سے ہوتا تھا ۔کابینہ کے‬
‫ارکان کو اجازت تھی کہ وہ بحث و مباحثے میں شرکت‬
‫کریں لیکن انہیں ووٹ دینے کا اختیار نہیں تھا۔ اگرچہ‬
‫مجلس قانون ساز کی مدت عمل پانچ سال ہوتی تھی لیکن‬
‫خان کو اختیار حاصل تھا کہ وہ ایوانوں کو مقررہ مدت‬
‫سے قبل ہی تحلیل کردے یا مدت میں مزید ایک سال کی‬
‫حد تک اضافہ کردے۔ ایوان باال کی تحلیل کرنے کی‬
‫صورت میں خان کو اس بات کا ذمہ دار بنایا گیا تھا کہ‬
‫وہ نئے ایوان کی تشکیل کیلئے چھہ ماہ کے اندر اندر‬
‫کسی تاریخ کا اعالن کردے ۔ وزیراعظم ایوان باال کا‬
‫صدر تھا جبکہ اس کی غیر موجودگی میں یہ منصب‬
‫ایک سینیئر وزیر کے حوالے کردیا جاتا تھا ۔ خان کو یہ‬
‫اختیار حاصل تھا کہ وہ اپنی منشاء پر ایوانوں کے‬
‫اجالس کسی بھی وقت طلب کرسکتا تھا گر چہ سال میں‬
‫کم از کم ایک مرتبہ اجالس کا منعقد کرنا الزمی تھا۔‬

‫ایوان زیریں ‪،‬جو کہ ‪ 55‬اراکین پر مشتمل تھا ‪،‬کے‬


‫پچاس ارکان کا انتخاب بذریعہ چناؤ ہوتا تھا جبکہ پانچ‬
‫کا تقرر خان اپنی صوابدید سے کرتا تھا ۔ ایوان زیریں‬
‫کا سربراہ بھی وزیر اعظم ہوتا تھا جبکہ ان کی عدم‬
‫موجودگی میں یہ ذمہ داری کسی سینیئر وزیر کو سونپی‬
‫جاتی تھی۔ اراکین کا انتخاب پانچ سال کے لئے کیا جاتا‬
‫تھا۔‬
‫یہ لکھا گیا آئین کوئی منفرد دستاویز نہیں بلکہ قالت‬
‫ایکٹ ‪ 1946‬؁ء کی ہی ایک سادہ سی نقل‬
‫تھی ۔اس میں خارجہ امور میں خان کے اختیارات کے‬
‫حوالے سے کوئی بات نہیں کہی گئی تھی اور نہ ہی‬
‫سزائے موت کے متعلق اختیاراتی معلومات فراہم کیے‬
‫گئے تھے ۔ اس میں شاہی خاندان کے حقوق و فرائض‬
‫کی بھی نشاندہی نہیں کی گئی تھی اور نہ ہی لسبیلہ اور‬
‫خاران جیسے قبائلی ریاستوں کے قالت کے ساتھ تعلقات‬
‫کا تذکرہ موجود تھا ۔ جبکہ آئین کے متوازی نظام‬
‫’’رواج‘‘ بدستور نافذ العمل رہا۔‬

‫پارلیمان کا چناؤ‪:‬‬

‫آئین کے نافذ العمل ہوتے ہی بلوچستان کی تاریخ میں‬


‫پہلی مرتبہ ریاست قالت میں انتخابات منعقد ہوئے ۔‬
‫قالت نیشنل پارٹی نے ایوان کے کل اکیاون میں سے‬
‫اُنتالیس نشستیں جیت لیں ۔ باقی نشستیں ان آزاد‬
‫امیدواروں نے حاصل کیے جو قالت نیشنل پارٹی کے‬
‫حامی تھے ۔ انتخابات کا انعقاد پذیر ہونا بلوچستان کی اُن‬
‫جمہوری قوتوں کا فتح تھا جو‪ 1920‬سے‬
‫جمہوریت اور ایک خود مختار عظیم تر بلوچستان‬
‫کیلئے کوشاں تھے۔‬

‫بلوچ۔ پاکستان تعلقات‪:‬‬


‫تیرہ دسمبر کو خان نے ریاستی امور پر بحث کرنے‬
‫کے لئے ایوان زیریں کا اجالس طلب کرلیا۔تین دن تک‬
‫چلنی والے اس اجالس میں مندرجہ ذیل امور زیر ِ‬
‫بحث الئے گئے۔‬

‫(الف) بلوچستان کی قومی اور سرکاری زبان ۔‬

‫(ب) شریعت ( اسالمی قانون )۔‬

‫(ج) پاکستان کے ساتھ بلوچستان کے تعلقات‪ ،‬خصوصا‬


‫الحاق کے حوالے سے۔‬

‫(الف) ایوان نے بلوچی زبان کو بلوچستان کی قومی اور‬


‫سرکاری زبان قرار دیا ۔ اس سلسلے میں ایک کمیٹی قائم‬
‫کی گئی جس کے ذمے یہ کام سونپا گیا کہ وہ ایسے‬
‫تجاویز اور اقدامات تجویز کرے کہ جس سے اسکولوں‬
‫میں بلوچی زبان کو بطور ذریعہ تعلیم رائج کیا جاسکے‬
‫۔‬

‫(ب) طویل بحث و مباحثے کے بعد ایوان نے فیصلہ کیا‬


‫کہ چونکہ لوگ اپنے معامالت ’’رواج‘‘ (روایت) کے‬
‫تحت چال رہے ہیں ٰلہذہ بلوچ معاشرے میں شریعت کا‬
‫الگو کرنا ایک مشکل امر ہوگا لیکن ایوان نے فیصلہ کیا‬
‫کہ ایک کمیٹی ترتیب دی جائے جو کہ شریعت کے‬
‫مرحلہ وار نفاذ کے حوالے سے اقدامات تجویز کرے۔‬

‫(ج) ستمبر ‪ 1947‬؁ء میں وزیراعظم نوابزادہ‬


‫محمد اسلم اور وزیر خارجہ ڈی وائی‬
‫فیل(‪ )DYFell‬نے کراچی کا دورہ کیا تاکہ‬
‫‪ 1947‬؁ء کے قالت ۔پاکستان معائدہ پر بحث‬
‫کی جائے جس کے تحت بعض عالقے پاکستان کو لیز‬
‫پر دیئے گئے تھے۔لیکن دونوں ریاستوں کے درمیان ان‬
‫اجالس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکل سکا کیونکہ‬
‫پاکستانی حکومت قالت کی پاکستان کے ساتھ غیر‬
‫مشروط الحاق کرانے کی پالیسی پر بضد تھی ۔ ٰلہذا‬
‫اگست‪ 1947‬؁ء کے تحت طے شدہ مذاکراتی‬
‫عمل پر بحث نہ کی جاسکی ۔ ریاست قالت کا وفد واپس‬
‫روانہ ہوا اور اپنی رپورٹ خان کے حوالے‬
‫کردی۔‪ 20‬ستمبر ‪ 1947‬؁ء کو پاکستان‬
‫کے خارجہ سیکریٹری اکرام اہللا نے ریاست قالت کے‬
‫وزیر اعظم محمد اسلم کو ایک خط لکھا جس میں انہوں‬
‫نے مذاکرات کے بجائے ریاست قالت کی پاکستان کے‬
‫ساتھ الحاق پر اصرار کیا ۔ انہوں نے لکھا ’’ بحث کے‬
‫دوران آپ نے (بشمول ڈی وائی فیل ) ایسے نقطوں پر‬
‫بات کی جن کے بارے میں خان معظم کو تشویش ہے کہ‬
‫وہ حل ہوجائیں ۔اگر ہم ان نقطوں پر بحث کرنے لگ‬
‫جائیں تو ہم قالت کے ساتھ بعض اہم امور طے کرنے‬
‫عیسی‬
‫ٰ‬ ‫کے مواقع گنوادیں گے ۔‘‘ اسی دوران قاضی‬
‫نے‪ ،‬جو برٹش بلوچستان میں مسلم لیگ کے صدر تھے‬
‫‪،‬نے خان سے مالقات کی اور انہیں گورنر جنرل‬
‫پاکستان جناح کا پیغام پہنچایا جنہوں نے خان کو دعوت‬
‫دی تھی کہ وہ کراچی آئیں تاکہ پاکستان اور ریاست‬
‫قالت کے مابین مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے‬
‫بحث کی جاسکے ۔ خان نے اپنے اکتوبر ‪1947‬‬
‫؁ء کے دورہ پاکستان سے قبل اپنے وزیراعظم اور‬
‫وزیرخارجہ سے تمام ممکنہ اقدامات کے حوالے سے‬
‫گفت و شنید کی ۔ انہوں نے پانچ ممکنات پر بحث کی۔‬

‫(الف) ایران سے الحاق ۔‬

‫(ب) افغانستان میں شمولیت (الحاق)‬

‫(ج) ہندوستان سے الحاق‬

‫(د) پاکستان سے الحاق‬

‫(ر) حکومت برطانیہ کے ساتھ بطور ذیلی ریاست‬


‫شمولیت ۔‬
‫(الف) ایران میں شمولیت اس حوالے سے ناممکن تھی‬
‫کہ دونوں قوموں کے درمیان تاریخی دشمنی کی رکاوٹ‬
‫حائل تھی ۔ ایران جسے خود اپنے بلوچوں سے آزادی‬
‫کے مطالبے کی وجہ سے مسائل درپیش تھے‪ ،‬بلوچ‬
‫عوام بلوچستان کی ایران میں شمولیت کو کبھی بھی‬
‫قبول نہ کرتا ۔ لیکن وزیر خارجہ فیل اس الحاق کے‬
‫خالف نہیں تھے کیونکہ ان کے خیال میں آگے جاکر‬
‫اس قدم سے بلوچ اتحاد کے لئے راہ ہموار ہوجائے گی۔‬

‫(ب) افغانستان کے ساتھ الحاق کے لئے کچھ اراکین نے‬


‫اثبات کا اظہار کیا جن میں افغانستان کے شاہی خاندان‬
‫سے تعلق رکھنے والی خان کی شریک حیات کے عالوہ‬
‫خان کے بعض خاندان کے افراد اور شہزادہ سلطان‬
‫ابراہیم بھی شامل تھے۔ لیکن وزیرخارجہ فیل نے اس‬
‫کی یہ کہہ کر مخالفت کی کہ افغانستان خود بیرونی مدد‬
‫کے بغیر روس سے اپنا دفاع تک نہیں کرسکتا ابھی تک‬
‫تو افغانستان چاروں طرف سے خشکی میں گھرا ایک‬
‫ایسا ملک ہے جسے کسی ملک کی دلچسپی کا سامنا‬
‫نہیں ہے لیکن اگر اس کی سرحدیں بلوچستان کی‬
‫صورت میں سمندر تک پہنچ جاتی ہیں تو پھر روس‬
‫اسے حاصل کرنے کے لئے افغانستان کی خودمختاری‬
‫کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ ٰلہذا خان نے ‪،‬جو‬
‫ایک کٹّر مسلمان اور کمیونزم کے خالف تھا ‪ ،‬اس خیال‬
‫کو سختی کے ساتھ رد کردیا ۔ مزید براں یہ حل بلوچوں‬
‫کے لئے بھی قابل قبول نہیں تھا جو اپنے وطن کو‬
‫افغانستان کی طرح ایک مساوی آزاد ملک گردانتے‬
‫تھے۔‬

‫(ج) انڈیا کے ساتھ الحاق جغرافیائی اور سیاسی‬


‫دشواریوں کے بنا پرناممکن تھی اور یہ پاکستان کے‬
‫لئے بھی انتہائی اشتعال انگیزی کا باعث بنتا۔ اس کے‬
‫عالوہ خان اور کانگریس کے درمیان تعلقات تواسی‬
‫وقت کشیدہ ہوگئے تھے جب نہرو نے قالت کی بطور‬
‫خودمختار اور آزاد حیثیت ریاست کی مخالفت کی‬
‫تھی۔اگست ‪ 1947‬؁ء میں قالت نے حکومت‬
‫ہندوستان کی توجہ اس پاک قالت معاہدے کی جانب‬
‫دالئی جس کے تحت حکومت پاکستان نے قالت کی‬
‫بطور آزاد ریاست حیثیت کو تسلیم کرلیا تھا۔خان کی‬
‫حکومت نے ہندوستان کی حکومت کو بھی ایک ایسا ہی‬
‫معاہدہ کرنے کی دعوت دی ۔ اس کے بعد خان کے‬
‫نمائندے سر سلطان احمد کی جانب سے دہلی میں ایک‬
‫تجارتی مرکز قائم کرنے کی درخواست کی گئی لیکن‬
‫نمائندے کو بتایا گیا کہ ان درخواستوں پر عمل درآمد‬
‫نہیں کیا جاسکتا۔ ان تمام حقائق کی بناء پر خان نے‬
‫الحاق ہندوستان کے خیال کو مسترد کردیا ۔‬

‫(د) پاکستان کے ساتھ الحاق اس بنا پر دشوار کن تھا کہ‬


‫لوگوں کی اکثریت قالت ا سٹیٹ نیشنل پارٹی کے پلیٹ‬
‫فارم کی صورت میں اسکے خالف تھی اور ایک آزاد‬
‫ریاست قالت کو عظیم تر بلوچستان کا بنیادی مرکز‬
‫سمجھتی تھی ۔ خان نے محمد اسلم کو حکم دیاکہ وہ‬
‫پاکستان کے ساتھ ایک با عزت وباوقار معاہدہ کرائیں۔‬

‫(ر) جہاں تک حکومت برطانیہ میں بطور ایک ذیلی‬


‫ریاست کے شمولیت کا تعلق تھا (جیسا کہ خلیج کے‬
‫عرب ممالک نے کیا تھا) تو وزیر خارجہ‬
‫فیل(‪ )Fell‬کا کہنا تھا کہ ’’ یقیناخان کے ذہن میں‬
‫یہ بات موجود ہے کہ قالت کو آزاد رہنے کے لئے ایک‬
‫طاقتور حمایتی کی ضرورت ہے ‘‘ لیکن وزیر خارجہ‬
‫نے خان کو اطالع دی کہ بلوچستان کے ایک ایسی‬
‫حیثیت حاصل کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے‪ٰ ،‬لہذہ جب‬
‫دسمبر ‪ 1947‬؁ء میں وزیر خارجہ فیل‬
‫انگلستان گئے تو وہاں انہوں نے دولت مشترکہ کے‬
‫تعلقات عا ّمہ کے ایک افسر مائلز‬
‫کالسن(‪ )Miles Clausen‬سے‬
‫مشورہ کیا جنہوں نے یہ کہہ کر بلوچستان کو بطور‬
‫برطانیہ کے تحفّظ شدہ ریاست کے نفی کی اس سے‬
‫پاکستان کی حکومت ناراض ہوگی بلکہ انہوں نے قالت‬
‫اور پاکستان کے مابین معاہدے کی حمایت کی اور کہا‬
‫کہ برطانیہ بلوچستان کو ایک ہندوستانی ریاست کے‬
‫طور پر دیکھتی ہے ۔ درحقیقت تو حکومت برطانیہ‬
‫اپنے اقتدار کے خاتمے سے قبل بھی قالت کی آزاد‬
‫حیثیت کی مخالفت کرتا رہا تھا ۔شاہی نمائندے نے الرڈ‬
‫ماؤنٹ بیٹن( ‪Lord Mount‬‬
‫‪ )Batten‬کو ایسے امکان کے خطرات سے‬
‫آگاہ بھی کیا گیا تھا جسے انہوں نے پاکستانی حکومت‬
‫تک پہنچایا تھا۔‬

‫جناح کی دعوت پر خان ایک ایسا مرتب کردہ معاہدہ‬


‫اپنے ساتھ لے کر پاکستان گئے جسے وہ حکومت‬
‫پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے دوران بطور دستاویز‬
‫استعمال کرنا چاہتے تھے ۔ اس معاہدے کے تحت قالت‬
‫کی پاکستان کیساتھ تعلقات کی حدبندی کی گئی تھی ۔‬
‫مجوزہ معاہدے میں مندرجہ ذیل نکات شامل تھے‪:‬‬

‫(الف) قالت کو بطور ایک آزاد ریاست کے تسلیم کرنا۔‬

‫(ب) بیرونی ملک کی جانب سے حملے کی صورت میں‬


‫اُس کے خالف اتحاد کیلئے حتمی اقدام کرنا۔‬

‫(ج) دونوں ممالک کا ایک دوسرے کے داخلی معامالت‬


‫میں عدم مداخلت اور مسائل کو پُر امن ذرائع سے حل‬
‫کرنے کیلئے پالیسی کا تعین۔‬

‫لیکن سفارتی آداب کی خالف ورزی کرتے ہوئے‬


‫کراچی میں خان کی آمد پر نہ گورنر جنرل اور نہ ہی‬
‫وزیراعظم پاکستان نے ان کا استقبال کیا۔ اس سے قالت‬
‫کے متعلق پاکستان کی پالیسی میں بدالؤ کااشارہ ملتا تھا۔‬
‫جناح نے خان سے برطانیہ کے ماتحت ہندوستانی غیر‬
‫خود مختار حاکموں جیسا سلوک کیا جس سے خان کو‬
‫مایوسی ہوئی۔ جناح نے خان کو تاکید کی کہ وہ قالت کو‬
‫پاکستان کے اندر ضم کردیں اور یہ کہ وہ الحاق سے کم‬
‫کسی بھی حل پر تیار نہیں ہوں گے۔‬

‫پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی کی اہم وجہ برطانوی‬


‫حکومت تھی کیونکہ پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر‬
‫نے حکومت پاکستان کو ان خطرات کے متعلق تنبیہ کیا‬
‫تھا جو اسے قالت کو ایک آزاد ریاست کے طور پر‬
‫تسلیم کرنے کی صورت میں درپیش ہوسکتے تھے۔لیکن‬
‫ان تمام حاالت کے باوجود خان نے جناح کے مطالبے‬
‫کو رد کردیااور کہا ’’ بلوچستان کثیر قبائل پر مشتمل‬
‫خطہ ہے لہذا کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے وہاں کے‬ ‫ّ‬
‫عوام سے مشاورت کرنا ہوگا۔ لہذا میں جب تک انہیں‬
‫اعتماد میں نہیں لیتا قبائلی روایت کے مطابق ان پر‬
‫کوئی فیصلہ مسلّط نہیں کروں گا ‘‘۔‬

‫’’حکومت برطانیہ کی پالیسی اور قالت کیلئے ہتھیار‘‘‬

‫پاکستان سے واپسی پر خان کو یہ پریشانی الحق تھی کہ‬


‫قالت پر بیرونی جارحیت کی صورت میں کیسے اس کا‬
‫دفاع کیا جائے ۔ لہذا انہوں نے قالت کی فوج کے کمانڈر‬
‫انچیف بریگیڈیئر پرویز کو حکم دیا کہ وہ افواج کی‬
‫صف بندی کریں اور گولہ بارود و ہتھیاروں کے ذخائر‬
‫منظم کریں ۔ جنرل پرویز نے دسمبر‪1947‬‬ ‫کو ّ‬
‫؁ء میں اپنے دورہ انگلستان کے دوران دولت مشترکہ‬
‫کے تعلقات عا ّمہ اور وزیر ترسیالت سے مالقات کی‬
‫لیکن ‪ 25‬مارچ‪ 1948‬؁ء کو دولت‬
‫مشترکہ تعلقات کے دفتر کے ایک اہلکار لیفٹیننٹ کرنل‬
‫پنّل(‪ )Pinnel‬کو حکومت برطانیہ کے وزیر‬
‫ترسیالت نے آگاہ کیاکہ حکومت پاکستان کی منظوری‬
‫کے بغیر کوئی ہتھیار نہ بھیجے جائیں ۔ اس کے بعد‬
‫دولت مشترکہ کے تعلقات کے دفتر کے سیاسی شاخ نے‬
‫پاکستان میں برطانوی ہائی کمشنر کو اطالع دی کہ اگر‬
‫پاکستانی حکومت کی رضا مندی ہو تو قالت کے لئے‬
‫مندرجہ ذیل ذخائر حاصل کئے جاسکتے ہیں‪:‬‬

‫(الف) ہتھیار ( بشمول ‪ 1500‬رائفلز‪4 ،‬مارٹر‬


‫وکرز(‪ :)Vicker‬قیمت سات‬ ‫گولے اور ‪ّ 6‬‬
‫ہزار نو سو چھیانوے پاؤنڈ ۔‬

‫سی‬
‫(ب) گولہ بارود ( تقریبا پچاس الکھ راؤنڈز )‪ :‬قیمت ا ّ‬
‫ہزار پاؤنڈ ۔‬
‫(ج) کپڑے اور کمبل ‪:‬قیمت سات ہزار دو سو پاؤنڈ۔‬

‫مندرجہ باال معلومات پاکستان میں فائز ہائی کمشنر کو‬


‫‪ 2‬اپریل‪ 1948‬؁ء کو اس وقت پہنچائی گئیں‬
‫جب قالت کو پہلے ہی الحاق کرنے پر مجبور کیا جاچکا‬
‫تھا۔ حکومت برطانیہ کے اس سوچے سمجھے تاخیر‬
‫سے پاکستان کو بلوچستان میں فوجی کارروائی کے‬
‫دوران فائدہ پہنچا۔‬

‫قالت کی پارلیمنٹ اور الحاق‪:‬‬

‫اپنے پاکستان کے دورے میں خان نے جناح سے وعدہ‬


‫کیا تھا کہ وہ قالت کی پارلیمنٹ سے صالح و مشورہ‬
‫کرنے کے بعد انہیں جواب دیں گے۔ بلوچ آئین کے‬
‫مطابق خان مطلق العنان حاکم نہیں تھا بلکہ پارلیمان کو‬
‫بھی حق حاصل تھا کہ وہ اہم معامالت مثال الحاق وغیرہ‬
‫پر فیصلہ کرے۔ ‪12‬دسمبر ‪ 1947‬؁ء کو‬
‫خان نے دارالعلوم کا ایک اجالس بالیا کہ الحاق کے‬
‫مسئلے پر بات چیت کی جاسکے ۔ وزیر خارجہ فیل نے‬
‫ایوان کو بتایا کہ پاکستان نے معاہدہ کرنے سے انکار‬
‫کردیا ہے اور غیر مشروط الحاق کا مطالبہ کیا ہے ۔ ان‬
‫کے خطاب کے بعد ایوان کے دوسرے ارکان نے بھی‬
‫خطاب کیا جن میں قالت اسٹیٹ نیشنل پارٹی کے ارکان‬
‫کی اکثریت تھی ۔ ایوان کے قائد غوث بخش بزنجو نے‬
‫حکومت پاکستان کے غیر دوستانہ رویّے پر تنقید کی‬
‫اور تنبیہ کیا کہ بلوچ کسی توہین آمیز رویے کو برداشت‬
‫نہیں کریں گے اور اپنی قومی آزادی کے لئے جان تک‬
‫قربان کردیں گے۔ایوان کے دوسرے اراکین نے بھی‬
‫میر بزنجو کے خیاالت کی تائید کی ۔ ایوان نے طویل‬
‫بحث مباحثے کے بعد ‪14‬دسمبر ‪ 1947‬؁ء‬
‫کو مندرجہ ذیل قرارداد متفقّہ طور پر منظور کرلی۔‬

‫’’ پاکستان کیساتھ الحاق کے بجائے دوستی پر مشتمل‬


‫ایک ایسا معاہدہ کیا جائے جو کسی بھی دو آزاد و‬
‫خودمختار ریاستوں کے مابین ہوسکتا ہے‘‘۔‬

‫‪ 4‬جنوری ‪ 1948‬؁ء کو الحاق کے معاملے‬


‫پر غور کرنے کے لئے داراالمراء کا اجالس ہوا۔ ایوان‬
‫باال نے دارالعوام کے فیصلے کو خراج تحسین پیش کیا ۔‬
‫ایوان باال جو کہ سرداروں کی اکثریت( بشمول کیچ‬
‫مکران کے گچکی سردار حالی خان پر مشتمل تھی )‬
‫نے درج ذیل قرار داد کی منظوری دی‪:‬‬

‫’’ یہ ایوان حکومت پاکستان کے ساتھ خان کی جانب‬


‫سے ہر باوقار اور دوستانہ معاہدے کی توثیق کرے گی‬
‫اعلی کو‬
‫ٰ‬ ‫بشرطیکہ (ہمارے) ُملک کی آزادی اور اقتدار‬
‫برقرار رکھا گیا ہو ‪ ،‬لیکن یہ ایوان کسی بھی ایسے‬
‫الحاق کو نہیں مانے گی جس سے بلوچستان کی علیحدہ‬
‫اور جدا گانہ حیثیت پر ضرب پڑتا ہو ‘‘۔‬

‫وزیراعظم محمد اسلم کراچی کے اپنے دورے میں‬


‫پارلیمنٹ کے قراردادوں کی کاپیاں اپنے ساتھ لے آئے‬
‫تھے۔اُنہوں نے جناح سے مالقات کی اور الحاق کے‬
‫معاملے پر بات چیت کی ۔ وہ فروری میں قالت واپسی‬
‫پر ‪2‬فروری‪ 1948‬؁ء کو لکھے گئے جناح‬
‫کے خط کو ساتھ الئے اور اسے خان کے لئے پڑھا۔ اس‬
‫خط میں ایک بار پھر جناح نے پاکستان میں شمولیت‬
‫کرنے کے اپنے مطالبے کو دہرایا۔‬

‫پاکستان کی الحاق کے حوالے سے پالیسی‪:‬‬

‫گیارہ فروری‪ 1948‬؁ء کو جناح سابقہ برٹش‬


‫بلوچستان میں واقع سبّی (ایک قدیم شہر اور بلوچ‬
‫کنفیڈریشن کا پرانا دارالخالفہ) آئے جہاں اگلے دن کے‬
‫شام کو خان اور ان کے درمیان مالقات ہوئی۔‬
‫‪13‬فروری کو قالت کے سرد موسم کے دارالخالفہ‬
‫ڈھاڈر میں ان کے درمیان دوسری مالقات ہوئی جبکہ‬
‫‪ 14‬فروری کو طے شدہ ایک اوراجالس خان کے‬
‫اچانک خرابی صحت کی وجہ سے برخاست کی گئی ۔‬
‫اپنے غیر متوقع خرابی صحت کے متعلق بات کرتے‬
‫ہوئے خان نے حکومت پاکستان کی قالت کے حوالے‬
‫سے اُن کے غیر مصنفانہ اور غیر دوستانہ پالیسی پر‬
‫تنقید کی ۔ ان کا کہنا تھا ‪:‬‬

‫’’ جب میں سبّی میں محمد علی جناح سے دوسری بار‬


‫مال تو انہوں نے مجھے بتایاکہ حکومت پاکستان نے‬
‫کچھ ترامیم اور تبدیلیوں کے بعد الحاق کے متعلق ایک‬
‫اور دستاویز بنائی ہے لہذا میں اس نئے دستاویز کو‬
‫دیکھوں ۔ جب میں نے دستاویز پڑھی تو ایک لمحے‬
‫کے لئے حیران رہ گیا کیونکہ اس میں گورنمنٹ آف‬
‫انڈیا ایکٹ ‪ 1935‬؁ء اور آزادی ایکٹ‬
‫‪ 1947‬؁ء کے حواالجات‬
‫(‪ )references‬موجود تھے ۔ان سے‬
‫قالت کے تاریخی حیثیت پر اثر پڑ تا تھااوراصلی‬
‫معاہدے میں یہ چیزیں شامل نہیں تھیں۔ میرے ارادے‬
‫تمام مراحل میں دیانتداری پر مشتمل تھے۔الحاق سے‬
‫متعلق دستاویز میں یہ تبدیلی نہ صرف میرے لئے شدید‬
‫حیرانی کا باعث بنی بلکہ مجھے شدید طور پر متاثر‬
‫بھی کرگئی پچھلے مہینے کے شدید مصروفیات نے‬
‫میرے ذہن اور جسم پر اپنے اثرات مرتب کئے تھے اب‬
‫اسی آخری دھچکے نے مجھے دماغی طور پر نڈھال‬
‫کردیا ۔ میں بیمار پڑ گیا اور نئے تبدیلیوں کی وجہ سے‬
‫کافی مایوس اور دلبرداشتہ ہوگیا۔ میری طبیعت اتنی بگڑ‬
‫گئی کہ میں آج محمد علی جناح کو خدا حافظ کہنے بھی‬
‫نہ جاسکا اور انہیں صرف ایک الوداعی خط بھیج دیا ‘‘۔‬

‫‪ 14‬فروری کو جناح کے ایک خصوصی سفیر ایس۔‬


‫پی ۔شاہ نے خان سے مالقات کی ۔ مالقات کے دوران‬
‫خان نے الحاق کے متعلق دستاویز میں ترامیم پر احتجاج‬
‫کیاجو کہ پاکستان کے خارجہ سکریٹری اکرام اہللا کی‬
‫طرف سے لکھے گئے ‪ 20‬ستمبر‪1947‬‬
‫؁ء کے خط میں کیے گئے وعدے کے خالف تھے۔‬
‫اس خط میں اکرام اہللا نے قالت کی ممتاز حیثیت سے‬
‫برقرار رہنے اور الحاق کے دستاویز میں مفید اقدامات‬
‫کی بات کی تھی۔خان نے ‪14‬فروری ‪1948‬‬
‫؁ء کو لکھا گیا ایک خط کرنل ایس۔ پی۔ شاہ کے‬
‫ذریعے جناح کو بھیجا اور اس میں اپنی ناراضگی کا‬
‫اظہار کیا۔ ‪ 9‬مارچ ‪ 1948‬؁ء کو خان کو‬
‫بتایا گیا کہ ’’ جناب عالی(جناح)نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ‬
‫اب قالت کے ساتھ مذاکرات اور پاکستان اور قالت کے‬
‫ساتھ مستقبل کے تعلقات کو ذاتی طور پر نہیں چالئیں‬
‫گے‘‘۔کرنل ایس ۔ پی ۔ شاہ کو قالت کے معامالت پر‬
‫اختیار سونپا گیا تھا اور ان کے ساتھ محمد اسلم کو شامل‬
‫رکھا گیا تھا جنہیں خان اور ان کے سرداروں (بشمول‬
‫دو جاگیردار سردار غالم قادر ‪ ،‬جام لسبیلہ اور میر‬
‫حبیب اہللا نوشیروانی ‪ ،‬نواب خاران) کے مابین اندرونی‬
‫اختالفات اور رقابتوں کا علم تھا۔ جام لسبیلہ کے خان‬
‫کے ساتھ مراسم خاندانی شادیوں کے حوالے سے تھے‬
‫اور وہ عظیم میر نصیر خان کے زمانے سے قالت کے‬
‫ایک جاگیردار تھے۔ اپنے غلبے کے دوران جام نے‬
‫بطور ماتحت حاکم کی حیثیت سے انکار کرنے کی‬
‫کوشش کی تھی ۔ جام نے ‪ 6‬جوالئی‪1947‬‬
‫؁ء کو اے جی جی بلوچستان کو ایک خط لکھا جس‬
‫میں انہوں نے مطالبہ کیا کہ لسبیلہ کو ایک آزاد ریاست‬
‫کے طور پر تسلیم کیا جائے ۔ اسی مہینے اے جی جی‬
‫بلوچستان نے انہیں اطالع دی کہ وہ ریاست قالت کے‬
‫ایک ماتحت حکمران ہیں ۔اے جی جی نے مزید کہا کہ‬
‫‪ 1939‬؁ء میں سر میٹکاف( ‪Sir‬‬
‫‪ )Metcalf‬نے جام کو بتایا تھا کہ لسبیلہ کی‬
‫آئینی حیثیت قالت کے زیراثر ایک جاگیردانہ ریاست‬
‫کی ہے اور یہ حیثیت جام نے منظور کرلی تھی ۔ اب‬
‫اگر( جام کی طرف سے ) نافرمانی کی جاتی ہے تو‬
‫خان کو مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ اپنا اختیار قائم‬
‫رکھنے کے لئے تمام ذرائع استعمال کرے۔ بالکل اسی‬
‫طرح کا پیغام نواب خاران کو بھی پہنچایا گیالیکن دونوں‬
‫سردار اپنی حیثیت سے خوش نہیں تھے۔‬

‫انہوں نے فروری ‪ 1948‬؁ء کے آخر میں‬


‫پاکستان سے الحاق کی کوشش کی لیکن جناح نے ان کو‬
‫منع کردیا ۔ اب پاکستان کے ساتھ الحاق سے قالت کے‬
‫انکار نے پاکستان کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ لسبیلہ اور‬
‫خاران کے جاگیر دارسرداروں سے براہ راست سودے‬
‫بازی کرے ٰلہذہ حکومت پاکستان نے لسبیلہ اور خاران‬
‫کے سرداروں کو دعوت نامے جاری کردیے ۔ ان‬
‫جاگیردار سرداروں کے عالوہ سردار بائیان گچکی‪ ،‬جو‬
‫کہ خان کے سالے اور قالت کے ایوان باال کے رکن‬
‫تھے اور جنہوں نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی مخالفت‬
‫کی تھی ‪ ،‬بھی کراچی چلے گئے۔ حاکم قالت نے لکھا ‪:‬‬

‫’’ میں نے نواب بائیان گچکی کو ان کے عالج کی‬


‫خاطر کراچی جانے کی اجازت دی تھی اور ساتھ ہی‬
‫انہیں تاکید کی تھی کہ وہ سرداروں کی کونسل کے‬
‫اجالس میں شرکت کرنے کے لئے‪25‬مارچ یا پھر‬
‫ہر حال میں ‪ 30‬مارچ (‪ )1948‬واپس لوٹ‬
‫جائیں ۔ سردار بائیان کے قالت کے ساتھ کچھ مالی‬
‫مسائل تھے کیونکہ وہ مکران صوبے کے ضلع کیچ‬
‫صہ قالت کے اداروں‬ ‫کے معصوالت میں سے آدھا ح ّ‬
‫کو ادا کرنے سے انکاری تھے۔ سردار بائیان اگست‬
‫‪ 1947‬؁ء سے اپنے لئے شئے عمر کے‬
‫ذریعے پاکستانی اداروں سے رابطہ کرنے کے لئے‬
‫خفیہ طور پر کوشش کررہے تھے ۔ اپنے کراچی آمد‬
‫کے دوران وہ قالت کے جاگیردار سرداروں کے ساتھ‬
‫شامل ہوگئے ۔ وہ ‪17‬مارچ‪ 1948‬؁ء کو‬
‫جناح سے ملے اور انہیں آگاہ کیا کہ اگر پاکستان فوری‬
‫طور پر ان کے الحاق کی دعوت کو قبول نہیں کرلیتا تو‬
‫وہ مجبور ہونگے کہ خان قالت کے جارحانہ اقدامات‬
‫کے خالف اپنے تحفظ کے لئے دوسرے انتظام کریں ۔‬
‫انہوں نے خان پر درج ذیل الزامات لگائے‪:‬‬

‫(الف) خان چاغی اور مکران کے فصلوں پر لگائی‬


‫محصول ہتھیاتے رہے ہیں ۔‬

‫(ب) خاران کے لوگوں کو سردار کے خالف اُکسایا‬


‫جارہا ہے ۔‬

‫(ج) اپنے چھوٹے بھائی کو ان ہدایات کے ساتھ مکران‬


‫بھیجا ہے کہ وہ لوگوں کو سردار بائیان کے خالف‬
‫بھڑکائے۔‬

‫درے پر ٹریفک کو کنٹرول کرنے کی‬


‫(د) بوالن کے ّ‬
‫کوشش۔‬

‫(ر) جناح کے خالف بلوچستان میں غلط اور بغض پر‬


‫مبنی پراپیگنڈہ۔‬
‫جناح کے ساتھ اُنکی مالقات کے بعد پاکستان کی کابینہ‬
‫کا ایک ایمرجنسی سیشن بالیا گیا جس میں بلوچستان‬
‫کے سرداروں کے ان مطالبات کا جائزہ لیا گیا ۔ کابینہ‬
‫نے فیصلہ کیا کہ ان کے پیشکش کو مان لیا جائے تاکہ‬
‫خان پر الحاق کیلئے دباؤ ڈاال جاسکے۔‪ 17‬مارچ کو‬
‫حکومت پاکستان کی طرف سے ایک غیر آئینی قدم‬
‫اُٹھایا گیا اور جناح نے جاگیردار سردار بشمول سردار‬
‫بائیان کی الحاق کے پیشکش کو مان لیا ۔ اس موقع پر‬
‫جناح نے بائیان کے کردار‬

‫کی تعریف کی اور کہا ’’بائیان! لسبیلہ اور خاران کے‬


‫موجودہ سردار برطانیہ کی پیداوار ہیں لیکن آپ کی‬
‫تخلیق پاکستان نے کی ہے‘‘۔‬

‫‪ 18‬مارچ کو پاکستان کی وزارت خارجہ نے ایک‬


‫اخباری بیان جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان‬
‫نے مکران‪ ،‬خاران اور لسبیلہ کی جانب سے الحاق کو‬
‫منظور کرلیا ہے ۔ ان عالقوں کے الحاق کرنے کے بعد‬
‫صے سے محروم ہوگیا ۔ ایران اور‬ ‫قالت اپنے آدھے ح ّ‬
‫افغانستان کے ساتھ اس کے رابطے منقطع ہوگئے اور‬
‫سمندر کے لئے جانے والے راستے بھی اس سے کٹ‬
‫گئے ۔ پاکستان کی حکومت نے اپنی جارحیّت اور غیر‬
‫آئینی اقدام کو مندرجہ ذیل وجوہات کی صورت میں‬
‫جائز قرار دیا‪:‬‬
‫(الف) خان ایک ایجنٹ کے ذریعے ( غالبا برٹش‬
‫افغانستان کے ایک کانگریسی حمایت یافتہ رہنما‬
‫عبدالصمد خان اچکزئی) ہندوستان کو الحاق کی پیشکش‬
‫کررہا ہے اور قالت کے ہوائی اڈوں کو(ہندوستان کے‬
‫لئے ) استعمال کرنے پر بھی راضی ہے ۔‬
‫(ب) خان نے افغانستان کو مکران کے ساحل کے‬
‫سمندری بندرگاہوں کو استعمال کرنے کی پیش کش کی‬
‫ہے ۔‬
‫(ج) قالت کے بعض عالقوں کی پاکستان کیساتھ الحاق‬
‫کی خبر سن کر خان حکومت برطانیہ سے تحفظ فراہم‬
‫کرانے کی کوشش کررہے ہیں ۔‬
‫ریاست قالت نے ان الزامات کی تردید کی لیکن پاکستان‬
‫نے ان احتجاج کو مسترد کرتے ہوئے خان پر پاکستان‬
‫کے مفادات کے خالف سازش کرنے کا الزام عائد کیا ۔‬
‫خان نے اس الزام کی تردید کی اور دھمکی دی کہ وہ‬
‫انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس اور اقوام متحدہ سے رابطہ‬
‫کریں گے ۔ خان نے پاکستانی حکومت اور جناح کو‬
‫اُنہیں اور بلوچ قوم کے ساتھ دھوکہ بازی کرنے پر تنبیہ‬
‫کی ۔ انہوں نے کہا ‪:‬‬
‫’’ اگر قالت کو الحاق کرانے پر مجبور کیا جاتا ہے تو‬
‫یہ الحاق رضاکارانہ نہیں ہوگا۔‘‘‬
‫پاکستان کی حکومت قالت کے تابعدار ریاستوں کی‬
‫جانب سے الحاق کرانے کے بعد قالت کو تقسیم کرانے‬
‫کی پالیسی پر گامزن ہوگئی۔ وزارت خارجہ کے جوائنٹ‬
‫سیکرٹری ایس بی شاہ نے بلوچ سرداروں وڈیرہ‬
‫بنگلزئی ‪ ،‬سردار شاہوانی اور سردار سنجرانی سے‬
‫رابطے کیے تاکہ اُنہیں رشوت دیکر خریدا جاسکے ۔‬
‫اُس نے انہیں پیشکش کی کہ اگر وہ پاکستان کے ساتھ‬
‫الحاق کردیں تو انہیں خودمختار حیثیت دی جائے گی ۔‬
‫اس دوران سردار رئیسانی نے کرنل شاہ کو تعاون کی‬
‫پیشکش کی۔ تاہم جب یہ سازشیں جاری تھیں اسی دوران‬
‫آل انڈیا ریڈیو نے ‪27‬مارچ ‪ 1948‬؁ء کو‬
‫وی پی مینن (‪ )V.P.Menon‬کا یہ بیان‬
‫نشر کردیا کہ خان نے الحاق کے لئے ایک سفارتی‬
‫نمائندہ ہندوستان بھیج دیا ہے ۔ اسی دن خان نے گورنر‬
‫جنرل انڈیا ماؤنٹ بیٹن کو ایک خط لکھا اور شدید‬
‫احتجاج کیا ۔ اُنہوں نے لکھا ‪:‬‬
‫’’میں اس شرارتی خبر کے سننے پر بہت حیران ہوں‬
‫اور پرزور انداز میں اس کی تردید کرتا ہوں۔ قالت کی‬
‫حکومت نے ایسی کوئی درخواست ہندوستان سے نہیں‬
‫کی ہے ۔ میں درخواست کروں گا کہ آپ اس خبر کی‬
‫تردید کردیں یا پھر اگر آپ کے پاس قالت حکومت کی‬
‫طرف سے واقعی کوئی خط وغیرہ ہے تو پھر آپ اسے‬
‫اخبارات میں کیوں شائع نہیں کرتے ؟‘‘‬

‫انڈیا اور قالت‪:‬‬


‫تیس مارچ‪ 1948‬؁ء کو گورنر جنرل انڈیا نے‬
‫خان کو ٹیلی گرام بھیجا جس میں انہوں نے آل انڈیا‬
‫ریڈیو کی رپورٹنگ پر افسوس کا اظہار کیا اور اسے‬
‫ایک غلطی قرار دیا ۔ اسی دن نہرو نے ہندوستانی‬
‫پارلیمنٹ کو بتایا کہ آل انڈیا ریڈیو کی رپورٹ ایک‬
‫غلطی کا نتیجہ ہے جس پر وہ افسوس کا اظہار کرتے‬
‫ہیں ۔ انہوں نے کہا ‪:‬‬
‫’’ اب تک نہ حاکم قالت کے کسی نمائندے اور نہ ہی‬
‫حکومت ہندوستان کی جانب سے ریاست قالت کی انڈیا‬
‫کے ساتھ الحاق پر کوئی بات کی گئی ہے۔ قالت کی‬
‫جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے اس بات کا سوال ہی‬
‫پیدا نہیں ہوتا ۔ میں یہ کہتا چلوں کہ بیرونی اخبارات میں‬
‫ریاست قالت اور حکومت ہندوستان کے مابین جن‬
‫سیاسی مذاکرات کا لکھا گیا ہے وہ بالکل بے بنیاد ہیں ۔‬
‫یہ بیان کہ ہماری حکومت نے قالت کو رقم فراہم کی‬
‫ہے اور قالت میں ہوائی اڈوں کی مانگ کی ہے ‪ ،‬بھی‬
‫مکمل طور پر بے بنیاد ہیں۔‘‘‬
‫اسی دن ماؤنٹ بیٹن نے وی پی مینن سے مالقات کی‬
‫اور ان سے خان قالت کے احتجاج کے متعلق گفتگو کی‬
‫۔ بحث کے بعد ماؤنٹ بیٹن نے اعالن کیا کہ ’’ ریاست‬
‫قالت کے متعلق انتقال اقتدار کے دوران مسٹر جناح نے‬
‫اس کی آزاد حیثیت کو تسلیم کرلیا تھا۔ بعد میں سوچا گیا‬
‫کہ قالت کو ہر حال میں پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا‬
‫چاہئے ۔ لیکن جب قالت نے دباؤ کو مسترد کردیا تو‬
‫اسے توڑنے کے لئے اس کے ماتحت سرداروں کا‬
‫الحاق منظور کرلیا گیا۔ مسٹر مینن کا خیال ہے کہ یہ‬
‫متوازی صورتحال حیدر آباد کے ساتھ بھی ہے۔‘‘‬

‫تحلیل قالت‪:‬‬
‫صوں‬ ‫مینن کے بیان اور پاکستان کے قالت کو کئی ح ّ‬
‫میں تقسیم کرنے کے پالیسی نے خان کو پریشان کیا ہوا‬
‫تھا ۔ ان کے سامنے دو راستے تھے‪:‬‬
‫(الف) محل چھوڑ دیں اور پہاڑوں میں پناہ لے لیں تاکہ‬
‫پاکستان کی جانب سے حملے کی صورت میں دفاعی‬
‫جنگ لڑسکیں اور اقوام متحدہ سے رابطہ و دوستوں کی‬
‫اعلی کا تحفظ کیا‬
‫ٰ‬ ‫تالش کی جائے تاکہ قالت کی اقتدار‬
‫جاسکے۔‬
‫(ب) الحاق کے مطالبے کو تسلیم کرلیا جائے ۔‬
‫وزیر خارجہ فیل نے پہلے تجویز کی اس بنیاد پر‬
‫مخالفت کی کہ اس سے روس کو بلوچ آبادی کو اپنے‬
‫مفاد کے لئے استعمال کرنے کا موقع مل سکتا ہے ۔لیکن‬
‫پہلے تجویز کی قالت سٹیٹ نیشنل پارٹی کے اراکین ‪،‬‬
‫بلوچ لیگ ‪ ،‬پرنس عبدالکریم گروپ ‪ ،‬سلطان ابراہیم اور‬
‫مری کے قبائلی خطے کے ’’ مظلوم پارٹی‘‘ کے رہنما‬
‫شیر محمد مری نے حمایت کی ۔ لیکن خان نے فیل کے‬
‫غلبے کے زیر اثر پہلے تجویز کو رد کردیا۔ اپنے آباء و‬
‫اجداد کے مزاحمت کے عظیم روایت کے برعکس (جو‬
‫ایرانیوں ‪ ،‬افغانیوں اور برطانیوں سے بلوچستان کی‬
‫اعلی کے لئے لڑتے رہے) خان نے پارلیمان کی‬ ‫ٰ‬ ‫اقتدار‬
‫منظوری کے بغیر الحاق کے ’’ عقل مندانہ‘‘ فیصلے کا‬
‫اعالن کردیا ( ‪ 27‬مارچ کو پاکستانی قبضے کے بعد‬
‫خان سے زبردستی الحاق کے کاغذات پر دستخظ کروایا‬
‫گیا)۔ ‪28‬مارچ کو اُنہوں نے حکومت پاکستان‬
‫کو اپنے فیصلے سے آگاہ کردیا اورریاست قالت‬
‫پاکستان کا حصہ بن گیا۔ اُن کے فیصلے کی بلوچ قوم‬
‫پرستوں نے مخالفت کی جیسا کہ‬

‫ایک بلوچ لکھاری لکھتا ہے ‪:‬‬

‫’’ نصیر اول نے بلوچوں کو متحد کیا ۔ نصیر دوئم نے‬


‫اس اتحاد کو برقرار رکھنے کیلئے جدوجہد کی ۔ خدائے‬
‫داد خان نے اپنی پوری زندگی حکومت منظم کرنے کے‬
‫لئے لڑ کر گزار دی ۔ محمود خان دوئم نے ریاست کی‬
‫خاطر کفن ہمیشہ تیار رکھا اور احمد یار موجودہ‬
‫خان نے اپنی تمام زندگی کی ناز اور شان و شوکت کو‬
‫دفن کردیا۔‘‘‬

‫بلوچ قومی مزاحمت ‪:‬‬


‫ریاست بلوچستان کے حکمران میر احمد یار خان کو‬
‫مسودے پر دستخط کرنے کے لئے مجبور کیا‬ ‫الحاق کے ّ‬
‫گیا ۔خان ایک مطلق العنان حکمران نہیں تھے ۔ اُنہیں‬
‫’’رواج‘‘ (بلوچی آئین) کے تحت کام کرنا ہوتا تھااور‬
‫انہیں کوئی اختیار نہیں تھا کہ پارلیمان کی مرضی کے‬
‫مسودے پر دستخط کرتے ۔ خان نے اپنی آپ‬ ‫بغیر وہ ّ‬
‫بیتی میں تسلیم کیا ہے کہ انہوں بلوچستان کے پاکستان‬
‫میں ضم کرنے کے دستاویز پر دستخط کرکے اپنے‬
‫دعوی تھا کہ‬
‫ٰ‬ ‫منصب کی خالف ورزی کی ہے ۔خان کا‬
‫ان کے اس غیر آئینی اقدام کے باوجود بلوچ قوم نے نہ‬
‫ہی اس کے خالف آواز بلند کیا اور نہ اس پر احتجاج کیا‬
‫لیکن حقائق اُن کے اس دعوے کی تردید کرتے نظر‬
‫آتے ہیں ۔ قالت کی بزور قوت انضمام سے پاکستان‬
‫مخالف ریلیوں کا پورے ریاست میں آغاز ہوا۔ بلوچ قوم‬
‫کے جذبات پر قابو کرنے کے لئے فوج کو چوکس‬
‫رہنے کا حکم دیا گیا۔ حکومت پاکستان نے ‪ 15‬اپریل‬
‫‪ 1948‬؁ء کو ریاست قالت کے پورے‬
‫انتظامیہ کو اپنے تحویل میں لینے کا فیصلہ کرلیا ۔ اے‬
‫جی جی بلوچستان نے جناح کے ان احکامات کا اعالن‬
‫کیا کہ قالت کی حیثیت سابقہ برطانوی دور اقتدار والی‬
‫حالت پر واپس چلی جائے گی ۔ قالت کے انتظامیہ کو‬
‫چالنے کے لئے ایک پولیٹیکل ایجنٹ کا تقرر کیا‬
‫گیا۔خان نے با دل نخواستہ اس تبدیلی کو قبول کرلیا اور‬
‫گورنر جنرل پاکستان جناح کے فیصلے پر تبصرہ‬
‫کرتے ہوئے کہا کہ ‪ ’’ :‬میرے قانونی اختیار بطور خان‬
‫اعظم کا ‪ 15‬اپریل‪ 1948‬؁؁ ؁ء کو خاتمہ‬
‫کردیا گیا ‪ ،‬قالت کے معامالت میں میرا دخل ختم کر دیا‬
‫گیا اور مجھے آرڈر کے موصول ہونے کے بیس‬
‫گھنٹوں کے اندر اندر حکومت قالت کے بیشتر وزراء‬
‫کو گرفتار یا جال وطن کردیا گیا ۔ میرے متعارف کرائے‬
‫گئے تمام سماجی‪ ،‬معاشی اور انتظامی اصالحات کو‬
‫یکسر پلٹ دیا گیا۔ بلوچوں کی نمائندہ پارلیمنٹ اور بلوچ‬
‫کنفیڈریشن کو بہ یک جنبش قلم توڑ دیا گیا۔‘‘‬
‫پاکستان کی مرکزی حکومت کی قالت کے لئے پالیسی‬
‫کے عالوہ جناح نے بلوچستان کو بھی خودمختیاری‬
‫دینے سے انکار کردیااس کے بدلے میں اس نے‬
‫سرداروں کے بدنام زمانہ سنڈیمن سسٹم کے مطالبے کو‬
‫تسلیم کردیا ۔ اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے بلوچستان‬
‫کو ایک بوجھ سے تشبیہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ جمہوری‬
‫اداروں کے بجائے بلوچستان کو ان کی رہنمائی کے‬
‫تحت سماجی اور معاشی پروگراموں کی ضرورت ہے۔‬
‫اپریل ‪ 1948‬؁ء میں بلوچستان سے کئی‬
‫سیاسی لیڈر جیسے محمد امین کھوسہ اور عبدالصمد‬
‫اچکزئی کو گرفتار کیا گیا۔ انجمن وطن پارٹی جو‬
‫کانگریس نواز پارٹی تھی اور صمد اچکزئی کی‬
‫سربرائی میں کام کرتی تھی کو غیر قانونی قرار دیا گیا ۔‬

‫خود مختیاری دینے سے انکار ‪ ،‬سنڈیمن نظام کی واپسی‬


‫اور بلوچستان کے پاکستان میں غیر آئینی اور غیر‬
‫جمہوری انضمام نے بے چینی اور ہلچل کو جنم دیا ۔لہذا‬
‫‪ 16‬مئی ‪ 1948‬؁ء کو خان کے چھوٹے‬
‫بھائی پرنس عبدالکریم نے قومی آزادی کی تحریک کی‬
‫قیادت کرنے کا فیصلہ کرلیا ۔ انہوں نے قوم پرست‬
‫سیاسی جماعتوں کے سرکردہ اراکین (جن میں قالت‬
‫اسٹیٹ نیشنل پارٹی ‪ ،‬بلوچ لیگ اور بلوچ نیشنل ورکرز‬
‫پارٹی شامل تھے ) کو دعوت دی کہ وہ ایک عظیم تر‬
‫بلوچستان کی آزادی کے کوششوں میں ان کا ساتھ دیں ۔‬
‫اپنے سیاسی عزائم کے ساتھ ساتھ پرنس شاہی خاندان‬
‫کے رکن اور صوبہ مکران کے سابق گورنر تھے ۔‬
‫قالت کے بزور طاقت الحاق اور سردار بائیان کے‬
‫بطور والی مکران تقرر ہونے سے وہ برہم ہوگئے ۔‬
‫اُنہوں نے افغانستان ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہاں‬
‫سے مدد لی جاسکے اور تحریک آزادی کو ّ‬
‫منظم کیا‬
‫جاسکے۔ پرنس کریم نے ‪28‬جون‪1948‬‬
‫؁ء کو خان کو ایک خط لکھا اور اُنہیں اپنی جالوطنی‬
‫کے وجوہات سے آگاہ کیا اپنے طویل مضمون میں‬
‫انہوں نے جالوطنی کے وجوہات کے حوالے سے‬
‫خاران اور مکران کے‬
‫غیر آئینی شمولیت ‪ ،‬مکران صوبے کے غیر منصفانہ‬
‫الحاق اور قالت کے بزور طاقت‬

‫پاکستان میں انضمام کا ذکر کیا ۔ انہوں نے لکھا‪:‬‬

‫’’ اس تمام بے چینی اور گڑبڑ کی اصل وجہ پاکستانی‬


‫لوگوں کی انتہا پسندی اور غیر قانونی اقدام ہیں ۔ ہمارے‬
‫دونوں ایوان باال اور ایوان زیریں نے الحاق کے خالف‬
‫متفقہ طور پر فیصلہ دیا تھا اور زندگی کے آخری‬
‫لمحے تک اپنی مکمل آزادی کو برقرار رکھنے کے‬
‫لئے تیار تھے ۔آپ (خان) نے بھی کئی موقعوں پر اپنی‬
‫خطوط اور زبانی کالموں میں بھی ایسے ہی جذبات کا‬
‫اظہار کیا ہے ۔ کیا ان سب کی وجہ میں ہوں؟ اگر‬
‫پاکستانی لوگ ریاست قالت کی آزادی کو سلب کر رہے‬
‫ہیں تو وہ یہ ایک باقاعدہ طے شدہ پروگرام کے تحت کر‬
‫رہے ہیں ‪،‬میرے جالوطنی کی وجہ سے نہیں۔ میں تو‬
‫جب سے یہاں آیاہوں مکمل خاموش رہا ہوں لیکن وہ‬
‫(پاکستانی)ہمارے آزادی اورقومیت کو تباہ کرنے کی‬
‫کوششیں کررہے ہیں ۔ بلوچ ریاست جیسے کہ مستونگ‬
‫کے لئے پولیٹیکل ایجنٹ کی تقرری ‪،‬ساراوان میں ناظم‬
‫کا چناؤ اور مرکز میں ایک معاون وزیر اعظم کا النا ‪،‬‬
‫ریاست کے غداروں پر مراعات کے دروازے کھول دینا‬
‫اور ریاست کے وفاداروں پر ظلم و ستم کرنا ‪ ،‬یہ سب‬
‫چیزیں کیا معنی رکھتے ہیں ؟ کیا لوگ ان چیزوں کے‬
‫بارے میں اندھے ہوگئے ہیں ۔آپ اور آپ کی ہدایات کے‬
‫ماتحت بلوچ قوم نے برطانوی آقاؤں کی منشاء کے‬
‫خالف پاکستان کے بقاء کے لیئے اخالقی اور مادی امداد‬
‫فراہم کی لیکن نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے ۔ آپ کو‬
‫ابھی تک فریب ہے کہ پاکستان کے خالق (جناح) آپ‬
‫کے رفیق ہیں اور وہ بلوچ قوم کو خوش اور ترقی‬
‫کرکے دنیا میں آگے بڑھتے دیکھنا چاہتے ہیں ۔ لیکن‬
‫ساری دنیا نے دیکھ لیا کہ الحاق کرانے کے باوجود (‬
‫جو کہ سراسر بلوچ قوم کی منشاء کے خالف تھا) آپ‬
‫کو کس قدر غیر اخالقی ‪ ،‬غیر معاشرتی اور غیر مذہبی‬
‫سلوک سے نوازا گیا ۔ مکران کے صوبے کو بغیر کسی‬
‫وجہ کے قالت سے کاٹ دیا گیاہے یہ ایک ایسا اقدام ہے‬
‫جس کی ہمت اُن الدین برطانوی لوگوں کو بھی نہیں‬
‫ہوئی جنکے خالف ہم نے ( خدمات قبول کرنے کے‬
‫ساتھ ساتھ )کئی مسلّح جنگیں لڑیں جو کہ خان محراب‬
‫خان کے زمانے سے لیکر پہلی جنگ عظیم کے خاتمے‬
‫تک جاری رہیں تھیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی‬
‫لوگ نہ صرف یہ کہ برطانیوں سے زیادہ جارحیّت پسند‬
‫ہیں بلکہ انہیں اپنے دوستوں کو دغا دینے کی بھی عادت‬
‫ہے۔ اس حقیقت سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ‬
‫وہ (پاکستانی) کس کردار کے لوگ ہیں ۔‬

‫’’بلوچستان سے نکلنے کے وقت حکومت برطانیہ نے‬


‫اعلی کے منصب کو م ّد نظر رکھتے‬‫ٰ‬ ‫آپ کے اقتدار‬
‫خطے آپ کے حوالے کر‬ ‫ہوئے لسبیلہ اور خاران کے ّ‬
‫دیئے تھے آپ نے جناح کی اس حد تک خدمت کی کہ‬
‫نامساعد حاالت کے دوران آپ سے متاثر ہوکر انہوں‬
‫نے آپ کو اپنا فرزند قرار دیا ۔ اب انصاف کا تقاضہ تو‬
‫یہ تھا کہ اپنے پدری حیثیت کا خیال رکھتے ہوئے وہ‬
‫ایک قدم آگے آتے اور نوشکی ‪ ،‬کوئٹہ ‪ ،‬بوالن اور‬
‫نصیر آباد کے عالقوں کو ( جن کی لیز کی مدّت قانونی‬
‫طور پر ختم ہوچکی تھی) آپ کے حوالے کرتے لیکن‬
‫اس کے برعکس قربانیوں کا صلہ انہوں نے آپ کو‬
‫استبداد کی صورت میں دیا۔ اگرچہ لسبیلہ اور خاران کا‬
‫الحاق بھی غیر قانونی تھا لیکن مکران کے الحاق کا‬
‫تسلیم کیا جانا پورے بلوچ قوم اور آپ کے لئے ایک‬
‫کھلی توہین کے برابر تھا۔ لیکن ان سب کے باوجود آپ‬
‫نے اپنی جھوٹی امیدیں نہیں چھوڑی اور اپنی فرزند کی‬
‫حیثیت میں رہتے ہوئے اپنے پدری نسبت کے سامنے‬
‫ہتھیار ڈال دیئے اور قوم سے التجا کی کہ وہ خوشی‬
‫سے الحاق کو قبول کریں اور انصاف کی توقع کریں ۔‬
‫ایک لمبے عرصے تک بلوچ قوم نے چپ سادھ رکھی‬
‫کہ وہ جلد ہی ریڈیو سے یہ اعالن سنیں گے کہ خان‬
‫قالت کے تمام اختیارات کو بحال کردیا گیا ہے‪ ،‬مکران‬
‫کو قالت ہی کا حصہ رہنے دیا گیا ہے ‪ ،‬لسبیلہ اور‬
‫خاران پر قالت کے اقتدار کو مان لیا گیا ہے اور یہ کہ‬
‫لیز پر دیئے گئے عالقوں پر قالت کا اختیار مان لیا گیا‬
‫ہے۔لیکن جب اعالن سامنے آیا تو اس پرانی استبداد پر‬
‫مبنی مطالبہ تھا کہ مکران کو خالی کیا جائے اور اسکی‬
‫انتظامیہ کو کیچ کے غدّار سردار بائیان کے حوالے‬
‫کیاجائے۔‬

‫’’ یہ ایک حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی موجودہ زبوں‬


‫حالی کی وجہ ان میں عدم اتحاد کا پا یا جانا ہے لیکن کیا‬
‫اس کا احساس پاکستان کے لوگوں کو بھی ہے کہ جن‬
‫کے رواج اور اعمال غیر بھائی چارے ‪ ،‬غیر مساوات‪،‬‬
‫ہیں؟لہذا ان تمام حقائق کو‬
‫ٰ‬ ‫ناانصافی اور استبداد پر مبنی‬
‫مدّنظر رکھتے میں درخواست کرتا ہوں کہ اب جھوٹی‬
‫امیدیں باندھنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ اس کا‬
‫مطلب ایک ایسے شخص کو پرکھنا ہے جسے کہ پہلے‬
‫ہی پرکھا جاچکا ہے اور وہ اس میں ناکام ثابت ہُوا ہے۔‬
‫ہم کسی بھی نظریئے سے پاکستان کے موجودہ حکومت‬
‫پر نظر ڈالیں توجو چیز ہمیں نظر آتی ہے وہ ہے صرف‬
‫اور صرف پنجابی فاشزم ۔ لوگوں کا اس میں کوئی عمل‬
‫دخل نہیں ہے بلکہ یہ آدمی اور اسلحہ ہیں جن کی‬
‫حکمرانی ہے یہاں کوئی اخالقی نظام اور انصاف نہیں‬
‫ہے ۔ خودغرضی اور استبداد کا دور دورہ ہے۔ اس میں‬
‫کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ یہ ایک غیر اخالقی فوجی‬
‫حکومت ہے جو کہ برطانوی جمہوریت سے کئی‬
‫درجے بدتر ہے ۔ اس حکومت میں کسی دوسرے قوم‬
‫کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے چاہے وہ بلوچ ہوں یا‬
‫سندھی‪ ،‬بنگالی ہوں یا پٹھان ‪ ،‬تا وقتیکہ وہ اپنے آپ کو‬
‫یکساں طور پر طاقتور نہ بنائیں ۔ان حقائق کی روشنی‬
‫میں ایسا سوچنے کا کوئی جواز نہیں ہے کہ پاکستان دُنیا‬
‫کی پانچواں سب سے بڑی ریاست ہے اور دنیامیں‬
‫مسلمانوں کی سب سے بڑی اور اپنے وسیع ذخائر کی‬
‫وجہ سے اس بات کا امکان ہے کہ یہ مسلمانوں کے‬
‫اتحاد اور بھائی چارے کا مرکز بن جائے ۔کیونکہ یہ‬
‫ملک اسالمی اصولوں کی بنیا دپر قائم ہوا ہی نہیں ہے‬
‫اسالمی اصولوں کی بات تو ایک طرف انہیں‬
‫(پاکستانیوں کو)تو اس کے نام کا بھی خیال نہیں ہے ۔‬
‫شراب کی دکانیں اور طوائفوں کے کھوٹے بدستور چل‬
‫رہے ہیں اور پنجابی فاشزم کی ہرجگہ حکمرانی ہے ۔‬
‫ان وجوہات کی بنا پریہ مملکت اپنے وجود کو برقرار‬
‫رکھنے اور ترقی کرنے کے لیے استعماری طاقتوں‬
‫کے لئے ایک مضبو ط مرکز بننے پر مجبور ہے یہ ان‬
‫کے اشاروں پر ناچتی ہے اور دوسرے قوموں کے‬
‫فطری آرزوؤں کو دباتی رہی ہے ۔ یہ (پاکستان)‬
‫استبدادیت کا راستہ ہے اور انسانی تجربے اور خود‬
‫قرآن پاک کا یہ فیصلہ ہے کہ استبداد کبھی بھی قائم دائم‬
‫نہیں رہ سکتا چاہے وہ کتنی ہی مادی وسائل سے ہی‬
‫لیس ہو۔یہی یقین میرا واحد سہارا بن کے مجھے یہاں‬
‫کھینچ کر الئی ہے ۔ میں نہایت انکساری سے آپ سے‬
‫درخواست کرتا ہوں کہ بال ضرورت میرے لئے بالوا‬
‫بھیج کر میرے مشکالت میں اضافہ نہ کیجئے گا۔آپ‬
‫کے ہاتھ میں اب کچھ نہیں ہے کہ جس سے مجبور ہوکر‬
‫میں اپنی جال وطنی ختم کردوں ۔ مکران کے بزور قوت‬
‫الحاق کو ختم کرایئے اُس صوبے کو واپس قالت میں‬
‫شامل کرایئے تاکہ مجھے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں امید‬
‫کی جھلک دیکھنے کو ملے ۔ اگر آپ خود ایسا نہیں‬
‫کرتے تو کیا مکران کے الحاق کی صورت میں دیئے‬
‫گئے زخم کو مندمل کرنے کے حوالے سے قالت کے‬
‫تمام اختیارات کو بحال کرکے اسالمی بھائی چارے کا‬
‫کوئی بھی ثبوت دیا ہے ؟ یہ دکھالیا ہے کہ پنجابی‬
‫فاشزم کس حد تک ُجھک سکتی ہے ؟ یقیناایسا نہ ہوا ہے‬
‫اور نہ ہوگا ۔ اگر کچھ واقعی ہوا ہے تو یہ کہ فوجی‬
‫(پاکستانی فوج) طاقت میں اضافہ کیا گیا ہے ‪،‬‬
‫محاصرے کو سخت کیا گیاہے‪ ،‬پُر امن راہگیروں کو‬
‫گرفتار اور گولیوں سے چھلنی کیا جارہا ہے اور پورے‬
‫ریاست میں میرے نام پر پابندی لگائی گئی ہے۔مجھے‬
‫معاف کیجیئے‪ ،‬میں ایسے دردناک اور استبداد کے‬
‫ماحول میں رہنے کے قابل نہیں ہوں ۔ میں آپ سے‬
‫اقرار کرتا ہوں کہ میں اُسی وقت ضرور واپس لوٹوں گا‬
‫جب میرے جال وطنی کے وجوہات ختم کردیئے گئے‬
‫ہوں یا پھر میں خود طاقت حاصل کرکے اُنہیں دور‬
‫کردوں ‘‘۔‬

‫پرنس کریم کی روانگی سے قبل خان کی شریک حیات‬


‫نے انہیں مالی مدد کے طور پر سونا اور چاندی دیا تھا ۔‬
‫اس سے ان کے اقدام (جالوطنی) کے لئے خان کی‬
‫منظوری کی نشاندہی ہوتی ہے کیونکہ خان کو پرنس‬
‫کریم کے جدوجہد کی صورت میں ان کے شاہی امتیازی‬
‫اختیارات کے بحالی کی امید نظر آتی تھی۔ لیکن وزیر‬
‫خارجہ فیل نے خان اور شہزادے کے مابین کسی بھی‬
‫رابطے کا انکار جنہیں کہ ریاست کے چند اہلکاروں اور‬
‫فوجی جوانوں کی مدد حاصل تھی ۔ چند نمایاں سیاسی‬
‫رہنما جنہوں نے پرنس کریم کے ساتھ جدوجہد میں‬
‫حصہ لیا ‪ ،‬درج ذیل ہیں‪ :‬محمد حسین عنقا ( بلوچ لیگ‬
‫پارٹی کے سیکرٹری اور ہفتہ وار ’’ بوالن‘‘ مستونگ‬
‫کے ایڈیٹر ) ‪ ،‬ملک سعید دہوار ( قالت اسٹیٹ نیشنل‬
‫پارٹی کے سیکرٹری) ‪ ،‬قادر بخش نظامانی( بلوچ لیگ‬
‫کے رکن اور کمیونسٹ پارٹی سندھ ۔ بلوچستان کے شاخ‬
‫کے ایک ممتاز رکن ) اور مولوی محمد افضل ( ممبر‬
‫جمعیت علمائے بلوچستان) ۔ بلوچ مجاہدین ( جیسا کہ وہ‬
‫خود کو کہلواتے تھے ) افغانستان میں داخل ہوگئے اور‬
‫صوبہ قندہار کے عالقے سر لٹھ میں قیام پذیر ہوئے ۔‬
‫اپنے قیام کے دوران بلوچ آزادی کے جنگجوؤں نے‬
‫اپنے مقصد کے حصول کے لیئے مندرجہ ذیل اقدامات‬
‫پر کام کیا۔‬
‫(الف) مشرقی اور مغربی بلوچستان کے بلوچ سرداروں‬
‫کو جدوجہد میں شامل ہونے کیلئے پیغامات بھیجنا۔‬
‫(ب) بلوچستان میں ایک پراپیگنڈہ مہم چالنا جس کے‬
‫ذریعے بغاوت ‪ ،‬ہلچل اور گڑبڑ پھیالئی جاسکے۔ ساتھ‬
‫ہی نیشنل لبریشن فورس کے لئے لوگوں کو بھرتی کرنا۔‬
‫(ج) بین االقوامی اور خصوصا افغانستان اور سوویت‬
‫یونین سے امداد حاصل کرنے کی کوشش ۔‬
‫اوپر درج کیے گئے مقاصد کے سلسلے میں رودینی‬
‫قبیلے کے میر غالم فاروق ‪ ،‬چاغی کے سنجرانی قبیلے‬
‫کے میر وزیر خان ‪،‬سردار محراب خان‪ ،‬میر جمعہ اور‬
‫کئی دوسرے سرداروں کو پیغامات ارسال کیے گئے‬
‫جبکہ پراپیگنڈہ کو دو محاذوں پر چالیا گیا ‪:‬‬
‫(الف) قومی ثقافتی محاذ ۔‬
‫(ب) مذ ہبی محاذ۔‬
‫(الف) قومی ثقافتی محاذ کے سلسلے میں پارٹی نے‬
‫بلوچستان کے تمام عالقوں میں پمفلٹ تقسیم کیے تاکہ‬
‫لوگوں کو پاکستان کے استبدادی حکومت کے خالف‬
‫بغاوت کے لئے آمادہ کیا جائے ۔ پمفلٹ میں لکھا گیا ۔‬

‫’’ محمد علی جناح اور ان کے ساتھی ‪ ،‬جن کے ہاتھوں‬


‫میں انگریزوں نے حکومت نے دی ہے ‪ ،‬ہمیں غالم‬
‫بنانے کی خواہش رکھتے ہیں اور ہمارے مادر وطن‬
‫(بلوچستان) پر قبضہ جمانا چاہتے ہیں ۔ وہ مادر وطن‬
‫جس کے ایک ایک انچ کے لئے ہمارے آباء و اجداد نے‬
‫اپنے خون کی قربانی دی اور اسے غیر ملکیوں سے‬
‫آزاد کرایا ۔ ہم اپنے پیشروں کی روایت کے خالف غافل‬
‫اوالد بننے کے لئے تیار نہیں ۔ ہم نے اپنے مادر وطن‬
‫کے ایک ایک انچ کی آزادی کے لئے لڑنے کا پختہ‬
‫ارادہ کیا ہے ۔ محمد علی جناح اور اس کے بے شرم‬
‫ساتھی ہمارے بلوچ ثقافت کا دیوالیہ نکالنا چاہتے ہیں‬
‫تاکہ مستقبل میں ہم اپنے آپ کو بلوچ نہ کہلواسکیں‪ ،‬اپنی‬
‫مادری زبان میں بات نہ کرسکیں ۔اپنے پرانے مہذّب‬
‫رسومات کو نظر انداز کرکے ان کے بے حیا طور‬
‫طریقے اپنائیں۔ لیکن ہم نے مص ّمم ارادہ کرلیا ہے کہ ہم‬
‫اپنے ثقافت کا تحفّظ کریں گے ۔ جب تک جان ہے اپنی‬
‫مادری زبان نہیں چھوڑیں گے اور آخر تک اپنے وقار‬
‫کا دفاع کریں گے۔‘‘‬
‫(ب) مذہبی محاذ پر ایک ممتاز مذہبی لیڈر مولوی محمد‬
‫فتوی جاری کیا جس میں سرکاری‬ ‫ٰ‬ ‫افضل نے ایک‬
‫مالزموں اور فوجی اہلکاروں کو مخاطب کیا گیا تھا ۔‬
‫فتوے میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ پاکستان کے مسلمان اور‬
‫خصوصا فوجی پاکستان کے غیر اسالمی حکومت کے‬
‫خالف جہاد میں شامل ہوجائیں ۔ فتوے میں اعالن کیا گیا‬
‫تھا کہ پاکستان کا حکمران جناح مذہب کے لحاظ سے‬
‫ایک خوجہ ہے جبکہ اُس کے وزراء میں لیاقت علی‬
‫عبدالرب نشتر ایک ُملحد جبکہ‬
‫ّ‬ ‫خان رافضی (کافر)‬
‫ظفراہللا ایک الدین قادیانی ہے۔وہ اسالم کے کبھی بھی‬
‫خیرخواہ نہیں ہوسکتے ۔فتوے میں پاکستانی فوج سے‬
‫درخواست کی گئی کہ وہ ایک س ّچے اسالمی جذبے کے‬
‫ساتھ ایک غیر اسالمی حکومت کے خالف جہاد کے‬
‫لئے بلوچ لبریشن فورس میں شامل ہوجائیں ۔ فتوے میں‬
‫مسلمان سپاہیوں کو تنبیہ کی گئی تھی کہ اس اسالمی‬
‫جہاد میں جو ہمارے خالف لڑے گا وہ عام اصطالح میں‬
‫خنزیر کہالئے گا اور خدا اور اس کے پاک رسول ﷺ‬
‫کے سنگین نافرمانوں میں سے ہوگا۔‬

‫ثقافتی اور مذہبی تحریکوں کے ساتھ ساتھ آغا عبدالکریم‬


‫نے قالت کے سابق سپاہیوں اور اہلکاروں پر مشتمل‬
‫ایک لبریشن فورس کو منظم کیا اور اسے بلوچ مجاہدین‬
‫کانام دیا۔شہزادہ کریم کو سپریم کمانڈر کے طور پر‬
‫منتخب کیا۔ اس سلسلے میں بھرتیوں کے لئے پرنس کی‬
‫جانب سے ایک اپیل بھی جاری کیاگیا کہ جو شخص سو‬
‫آدمیوں کو فوج میں بھرتی کراتا ہے اسے بطور میجر‬
‫اور پچاس آدمی بھرتی کرانے والے شخص کو بطور‬
‫کیپٹن تعینات کیاجائے گا۔بلوچ لبریشن آرمی کی ایک‬
‫خفیہ ایجنسی ’’ جان نثار‘‘ کے نام سے قائم کی گئی‬
‫جس کی ذمہ داریوں میں معلومات اکھٹا کرنا‪ ،‬ترسیالت‬
‫کے نظام کو تباہ کرنااورغدّاروں کے سرگرمیوں پر‬
‫نظر رکھنا تھا۔ جان نثار ایجنسی کے ماتحتوں میں ’’‬
‫جان باز‘‘ شامل تھے۔ایجنسی کی قیادت پرنس کریم کے‬
‫پاس تھی اور اس کے ہیڈ کوارٹر کو ’’ باب آلی‘‘ (خفیہ‬
‫جنگ کا دفتر) کے نام سے جانا جاتا تھا۔ جان نثار کے‬
‫اراکین کی تعداد تیس تھی جبکہ جان بازوں کی صحیح‬
‫تعداد کا تعین نہیں کیا جاسکا ہے ۔ باب آلی کے جان‬
‫نثاروں اور جان بازوں کے لئے پہلے حکم میں ان کے‬
‫مقصد کے لئے مندرجہ ذیل جملے شامل تھے ۔‬
‫’’ باب آلی جان نثاروں کے ان مسلسل رپوٹوں اور‬
‫تجاویز سے اتفاق کرتی ہے کہ بلوچ قوم اور قالت کے‬
‫غدّاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے ۔ ٰلہذہ باب آلی‬
‫جان بازوں کو قطعی حکم جاری کرتی ہے کہ یکم جون‬
‫‪ 1948‬؁ء سے اس حکم پر نہایت احتیاط عمل‬
‫درآمدکرایا جائے چاہے اس میں ان کی جان (جان بازوں‬
‫کی ) ہی کیوں نہ چلی جائے۔ جب ایک جان نثار کسی‬
‫غدّار کے نام کو جان باز کے سامنے التا ہے تب یہ جان‬
‫باز کا فرض بن جاتا ہے کہ وہ غدار کے زندگی کا‬
‫خاتمہ کرے اور اس کی رپورٹ متعلقہ جان نثار کے‬
‫ذریعے آگے بھیجے ‘‘۔‬

‫تاہم افغانستان کے انکار اور اسٹالینی روس کے تعاون‬


‫پر خاموشی کی وجہ سے پرنس آزادی کی جنگ شروع‬
‫نہ کرسکے۔سرلٹھ میں اپنی قیام کے دوران پرنس کریم‬
‫نے ملک سعید اور قادر بخش نظامانی کو بطور سفیر‬
‫افغان حکومت اور کابل میں دوسرے سفارت خانوں کے‬
‫اخالقی اور مادی تعاون حاصل کرنے کے لیئے بھیجا۔‬
‫نظامانی نے رپورٹ پیش کی کہ افغان حکومت نے کسی‬
‫بھی طرح کے تعاون سے انکار کیا ہے اوار کہا ہے کہ‬
‫وہ (بلوچ) یا تو بطور پناہ گزین قندھار میں رہیں یا پھر‬
‫واپس لوٹ جائیں ۔افغان ارباب اقتدار نے باغیوں کو‬
‫افغان سرزمین سے کاروائی کرنے کی اجازت نہیں دی‬
‫۔نظامی نے ایرانی سفارت خانے کو بھی بلوچوں کے‬
‫مطالبات سے آگا ہ کیا۔ایرانی ایلچیوں نے اپنی تشویش کا‬
‫اظہار کیا اور باغیوں کو ایران میں پناہ گاہ فراہم کرانے‬
‫کے خواہش کا اظہار کیا لیکن تعاون کی پیشکش انہوں‬
‫نے بھی نہیں کی ۔پرنس کے نمائندے کی آخری امید‬
‫روسی سفارتخانے کی صورت میں تھی۔سوویت‬
‫اہلکاروں نے غور سے نظامانی کے گفتگو کو سنا ۔‬
‫اگرچہ انہوں نے کسی طرح کی یقین دہانی تو نہیں‬
‫دالئی تاہم وعدہ کیا کہ وہ ماسکو کو آگاہ کریں گے۔یہاں‬
‫پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیوں افغان حکومت ‪ ،‬جو کہ‬
‫پاکستان کے خالف تھی‪ ،‬بلوچ قومی تحریک کی مدد‬
‫کرنے میں ناکام رہی اور کیوں اسٹالینی روس نے‬
‫مارکسزم اور لیننزم کے اصولوں کی روشنی میں‬
‫بلوچوں کے حق خودارادیت کی حمایت نہیں کی‪ ،‬جبکہ‬
‫اُنیس سو بیس کے عشرے میں لینن نے افغانستان میں‬
‫سوویت نمائندگان کو بلوچ انقالبیوں کے ساتھ تعلقات قائم‬
‫کرنے اور ان کی مدد کرنے کی تلقین کی تھی ‪ ،‬اور‬
‫کیوں ایرانیوں نے بلوچ مسئلے میں دلچسپی کا مظاہرہ‬
‫کیا جو کہ ایرانی پالیسی کے خالف تھی۔ واضع رہے کہ‬
‫ایران پالیسی بلوچ ‪ ،‬کرد اور آذری قومی تحریکوں کو‬
‫زیر قابو کرنے پرمشتمل تھی۔ یہ سواالت ایک تاریخی‬
‫تجزیے کا طلبگار ہیں ۔‬

‫افغانوں نے احمد شاہ کے زمانے سے بلوچستان کو ایک‬


‫تابعدار ریاست کے طور پر تصور کیا تھا تاوقتیکہ‬
‫‪ 1758‬؁ء میں بلوچوں اور افغانوں کے مابین‬
‫جنگ ہوئی اور دونوں ریاستوں کے درمیان عدم مداخلت‬
‫کے معاہدے پر دستخط ہوا۔‪ 19‬ویں صدی میں افغان‬
‫حکمرانوں شجاع الدین اور امیر عبدالرحمٰ ن نے‬
‫بلوچستان پر قبضہ کرنے کی کوشش کی ۔ امیر‬
‫عبدالرحمٰ ن نے اپنی توسیع پسندانہ پالیسی کا اظہار اپنی‬
‫جان نشینوں کے لیے وصیت نامے میں کیا ۔‬
‫’’ اگر افغانستان کو پانی تک رسائی مل جائے اس میں‬
‫کوئی شک نہیں کہ اس سے ملک امیر و کبیر ہوجائے‬
‫گا ۔ اگر میری زندگی کے دوران اس مقصد میں کامیابی‬
‫نہیں ملی تو میرے بیٹوں اور جان نشینوں کو اس‬
‫سلسلے میں بلوچستان کے خطے پر اپنی آنکھیں جما‬
‫لینی چاہیئے ۔‘‘‬

‫‪ 1947‬؁ء میں افغانستان کی حکومت نے‬


‫مطالبہ کیا کہ پشتونستان کا قیام عمل میں الیا جائے جس‬
‫کی سرحدیں چترال اور گلگت سے لیکر بحیرہ عرب‬
‫کے بلوچ ساحل تک پھیلی ہوئی ہوں۔افغان حکومت اپنے‬
‫بیانات اور تحریروں میں بلوچستان کو جنوبی پشتونستان‬
‫کے نام سے منسوب کرتی تھی۔ افغان توسیع پسندانہ‬
‫پالیسی کے مضمرات اس چاروں طرف سے خشکی‬
‫میں گھری ہوئی ملک کے معاشی مفادات میں چھپی‬
‫ہوئی تھیں ۔لیکن سا تھ ہی افغان حکومت کے لیے یہ‬
‫بھی نا ممکن تھاکہ وہ اپنے قومی مفادات کو نظر انداز‬
‫کرکے ایک آزاد عظیم تر بلوچستان کی تحریک کو مدد‬
‫خطوں‬‫فراہم کرتا جو کہ افغانستان میں موجود بلوچ ّ‬
‫کابھی دعوے دار تھا۔ اسٹالنی ٹولی مشرق میں لینن کے‬
‫پالیسیوں پر عمل پیرا نہیں تھی اور ہندوستان میں تو‬
‫اسٹالن کے پیروکار مذہب کے نام پر قائم ہونے کے‬
‫دعویدار پاکستان کے حق میں تھے۔ مزیدبراں ماسکوکی‬
‫اسٹالن حکومت افغانوں اور برطانیوں ‪ ،‬جو ایک آزاد و‬
‫خود مختار بلوچستان کے مخالف تھے‪ ،‬کوناراض کرنے‬
‫پر تیار نہیں تھے۔‬

‫جہاں تک ایرانی پالیسی کا تعلق ہے تو یہ خیال کیا جاتا‬


‫ہے کہ ایرانی چاہتے تھے کہ بلوچ رہنماؤں کو دھوکے‬
‫سے ایران بال کر انہیں پاکستانی اداروں کے حوالے کیا‬
‫جائے ۔ ( ہمیں یاد رکھنا چائیے کہ شاہ ایران ہی تھے‬
‫جنہوں نے سب سے پہلے پاکستان کو ایک آزاد و‬
‫خودمختار ملک کے طور پر تسلیم کیا تھا)۔‬

‫اس دوران ‪ 24 ،‬مئی ‪ 1948‬؁ء کو ایک‬


‫شاہی فرمان کے ذریعے پرنس کریم اور اس کی پارٹی‬
‫کو ایک باغی گروپ قرار دے دیا گیااور کہا گیا کہ‬
‫پرنس اور اس کی جماعت کے ساتھ کوئی کسی قسم کا‬
‫تعلق نہیں رکھے گااور نہ ہی انہیں کوئی راشن فراہم‬
‫کرے گااور اگر باغی گروپ کے کسی رکن نے کسی‬
‫نافرمانی کا ارتکاب کیا تو اسے سزا دی جائے گی‬
‫۔پاکستان کی حکومت نے فوج پنجپائی چمن چشمہ اور‬
‫افغان سرحدوں کے قریب راستری کے فوجی اڈّوں پر‬
‫بھیجی تاکہ باغیوں کی راشن سپالئی الئن کو کنٹرول کیا‬
‫جائے جو کہ انہیں آزادی کے حامی لوگوں کے ذریعے‬
‫ملتی تھی ‪ ،‬اور ان کے سرگرمیوں یا حملے کی کوشش‬
‫پر قابو پایا جائے ۔‬
‫پاکستانی اداروں نے اس کی فوج اور لبریشن فورسز‬
‫کے درمیان دو جھڑپوں کی تصدیق کی۔ بلوچستان میں‬
‫موجود تناؤ اور ہلچل سے بچنے کے لئے خان نے اپنے‬
‫ماموؤں حاجی ابراہیم خان اور حاجی تاج محمد کو‬
‫سرلٹھ بھیجا تاکہ وہ پرنس کریم کو واپس قالت باللیں‬
‫لیکن پرنس کریم نے اپنے ‪ 18‬مئی ‪1948‬‬
‫؁ء کو خان کو لکھے گئے خط میں واپسی کو‬
‫مشروط کردیا۔ انہوں درج ذیل شرائط پیش کئے‪:‬‬

‫(‪ )1‬بلوچ‪ ،‬افغانوں کی طرح ایک علیحدہ قوم ہے ۔ ان‬


‫کی اپنی زبان اور ثقافت ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے‬
‫جس کی تصدیق جغرافیہ اور تاریخ سے ہوتی ہے ۔‬
‫انہیں ایک آزاد قوم کی طرح زندہ رہنے کا حق دیا جانا‬
‫چائیے۔‬
‫(‪ )2‬قالت بلوچوں کا قدیم مرکز رہا ہے اب اگر وہ‬
‫خطے جنہیں قالت سے کاٹ کر پاکستان کی حکمرانی‬
‫میں ڈاال گیا واپس قالت میں شامل ہونے چاہیے تو‬
‫پاکستان کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چائیے۔‬
‫(‪ )3‬پاکستان کے ساتھ معاہدہ کرتے وقت قالت کو اپنی‬
‫خودمختار حیثیت کو برقرار رکھنا چائیے۔‬

‫لیکن پرنس اور آزادی کی تحریک داخلی اور بیرونی‬


‫امداد حاصل کرنے میں ناکام رہے جبکہ بلوچ قوم‬
‫پرست بھی دو حصوں میں بٹ گئے تھے ۔ محمد حسین‬
‫عنقا اور ملک سعید گوریال جنگ کی صورت میں مسلح‬
‫جدوجہد کی حق میں تھے جبکہ میر غوث بخش بزنجو‬
‫اور دوسرے نمایاں رہنما تیاریوں کی کمی اور داخلی و‬
‫بیرونی امداد کی عدم دستیابی کی وجہ سے پاکستان کے‬
‫ساتھ کسی فوجی مقابلے کے معاملے پر خاموش دکھائی‬
‫دیتے تھے۔ مندرجہ باال وجوہات کی بنا پر پرنس کریم‬
‫کو مجبورا واپس قالت آنا پڑا تاکہ اپنے مطالبات پر‬
‫پرامن مذاکرات کئے جائیں ۔ جب ‪ 8‬جوالئی‬
‫‪ 1948‬؁ء کو قالت میں پرنس کی آمد کی‬
‫خبر پہنچی تو انہیں خان کا پیغام سنانے کے لئے ڈی‬
‫وائی فیل قالت اسٹیٹ فورس کے ساتھ ہربوئی پہنچے ۔‬
‫ان کی مالقات کے دوران ڈی وائی فیل نے ان کے کچھ‬
‫مطالبات مان لیے اور یقین دالیا کہ اگر وہ اپنے لشکر‬
‫کو غیر مسلح کردیں تو انہیں معافی دی جائے گی‬
‫۔پرنس نے اس پر عمل درآمد کرادیا ایک اور خیال کے‬
‫اعلی اہلکاروں نے ہربوئی کے مقام‬ ‫ٰ‬ ‫مطابق پاکستان کے‬
‫پر پرنس کی پارٹی کے ساتھ مسلمانوں کی مقدس ترین‬
‫کتاب قرآن پاک پر قسم کھاکرایک ’’ محفوظ طرز‬
‫عمل‘‘ کا معاہدہ کیا لیکن معاہدے کی خالف ورزی اس‬
‫وقت کی گئی جب پاکستانی فوج نے آغا کریم اور ان کی‬
‫پارٹی کے ‪ 142‬اراکین پر حملہ کردیا ۔‬
‫پاکستان کے سرکاری نقطہ نظر کے مطابق عبدالکریم‬
‫افغان امداد کے ساتھ بلوچستان میں داخل ہوئے اور‬
‫زرکزئی قبیلے کے ایک بااثر قبائلی لیڈر میر گوہر خان‬
‫زہری کے تعاون سے جھاالوان کے عالقے میں‬
‫پاکستان کے خالف ایک بغاوت کو منظم کیا ۔ مزید براں‬
‫یہ کیا گیا کہ ساتویں بیڑے کے انچارج میجر جنرل اکبر‬
‫خان کو احکامات جاری کئے گئے کہ وہ سرکشوں پر‬
‫حملہ کرکے اُنہیں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کریں۔ پرنس‬
‫کریم اور ان کے ‪ 142‬پیروکاروں کو گرفتار کرلیا‬
‫گیا اور انہیں مچھ اور کوئٹہ کے جیلوں میں قید کرلیا‬
‫گیا۔ اس سلسلے میں ایک تفصیلی اور دلچسپ بیان جنرل‬
‫اکبر خان کی طرف سے ‪ 14‬اگست‪1960‬‬
‫؁ء کو ان کی طرف سے روزنامہ ڈان میں شائع کردہ‬
‫آرٹیکل ’’ ایک سپاہی کی تازہ یادیں ‘‘ ۔ جنرل اکبر اس‬
‫بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ریاست قالت پر حملے کا‬
‫ایک باقاعدہ منصوبہ تیار کیا گیا تھا وہ پاکستانی فوج‬
‫اور بلوچ لبریشن فورس کے مابین تصادموں کا بھی ذکر‬
‫کرتے ہیں ۔ اکبر کے مطابق جناح نے احکامات جاری‬
‫کیے تھے کہ اس خبر کو پریس میں نہ پھیلنے دیا جائے‬
‫۔ میجر جنرل نے اپنے آرٹیکل میں لکھا ‪:‬‬
‫’’ مسٹر جناح نے مجھے گفتگو کے لیے بالیا تو میں‬
‫نے اُن کے سامنے اپنا منصوبہ ( حملے کا) پیش کردیا ۔‬
‫میں نے اُنہیں بتایا کہ ہمیں قالت پر اس طرح سے حملہ‬
‫نہیں کرنا چائیے کہ جس سے دنیا کو پاکستان کے‬
‫خالف پراپیگنڈہ کرنے کا موقع مل جائے ۔ اُن کے‬
‫منصوبے کے تحت مسٹر جناح نے بلوچستان کے‬
‫ریاستوں کو شدید ہلچل اور گڑبڑ والے عالقے قرار دیا‬
‫۔مجھے آٹھویں فوجی دستے کا کمانڈر مقرر کیا گیا ۔ یہ‬
‫واقعہ رمضان کے مہینے میں پیش آیا ۔میں نے ساتویں‬
‫بلوچ بٹالین کو حکم دیاکہ وہ ریاست پر پیش قدمی کریں‬
‫۔ میرے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے کرنل گلزار‬
‫احمد نے کچھ اُونٹ اکھٹے کیے ۔ جن پر ہم نے جنگی‬
‫سامان الدا اور طے کیا کہ ہم ریاست میں اس طرح‬
‫شبہ نہ کرسکے ۔ اس‬ ‫داخل ہونگے کہ کوئی بھی ہم پر ُ‬
‫طرح سے ہمارے سپاہی ریاست میں تاجروں کا بھیس‬
‫بدل کر داخل ہوئے ۔ اسی دوران ہمارے مرکزی قالت‬
‫روڈ سے گزرنے کے بعد ریاستی فورسز ُجھلو کے‬
‫وادی میں داخل ہو گئے تھے۔ خان قالت نے جان بوجھ‬
‫کر اپنے محل کو چھوڑ دیا تھا تاکہ پرنس عبدالکریم اُس‬
‫پر قبضہ کرکے ریاست کی آزادی کا اعالن کردیں ‘‘۔‬
‫اکبر خان مزید لکھتا ہے ‪:‬‬
‫’’ خان کو بے وقوف بنانے کے لئے میں نے ان کی‬
‫جانب سے پاکستان آرمی کے اعزاز میں دیے گئے‬
‫عشائیے میں شرکت کی دعوت دی۔ ریاستی اداروں نے‬
‫روایتی رقص اور موسیقی کا انتظام کیا تھا ۔ جشن کے‬
‫دوران میں نے میجر بُخاری کے اصرار پر تقریب کو‬
‫چھوڑ دیا۔ میں سیدھا شاہی مہمان خانے تک بذریعہ‬
‫گاڑی پہنچا اور پھر وہاں کے پچھلے دروازے سے باہر‬
‫نکل گیا ۔ میں نے وہ جگہ ایک فوجی جیپ کیساتھ‬
‫چھوڑی ۔ قالت کے ریاستی فوج کو اس شام (ہمارے)‬
‫حملے کی اطالع مل گئی تھی اور اس کی فوجیں‬
‫پہاڑوں پر پوزیشنیں سنبھالے ہوئے موجود تھے ۔ اُنہوں‬
‫نے رمضان کا روزہ رکھا ہوا تھا ۔ اچانک پاکستانی فوج‬
‫نے قالت کے ریاستی فورسز پر دھاوا بول دیا چار‬
‫گھنٹے تک لڑائی جاری رہی ۔ اس دوران کرنل گلزار‬
‫کے بٹالین نے بھی اپنی پیش قدمی کو شروع کردیا ‪،‬‬
‫جب مسٹر ڈگلس فیل کو میرے منصوبے کا علم ہُوا تو‬
‫انہوں نے مجھے ہٹانے کے احکامات جاری کردیئے ۔‬
‫جب رات کو میں اپنے فوجیوں سے مال تو پتا چال کہ‬
‫پاکستانی بریگیڈیئر کو کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں‬
‫ہوئی تھی کیونکہ وہ ہر اٹھائے گئے قدم کے سلسلے‬
‫میں اپنے انگریز آفیسر سے مشورہ کرتے تھے ‪ ،‬وہ‬
‫(انگریز) اپنے منصب سے انصاف نہیں کررہے تھے ۔‬
‫میں نے اسے معطل کردیا اور اس کی جگہ پر محمد‬
‫زمان خان کو مقرر کردیا ‘‘۔‬

‫اس طرح سے آزادی کیلئے پرنس آغا عبدالکریم اور ان‬


‫کے لبریشن فورس کی کوششیں اپنے اختتام کو پہنچیں ۔‬

‫ُمقدمہ‪:‬‬
‫پرنس کریم اور ان کے پارٹی ارکان کی گرفتاری کے‬
‫بعد اے جی جی نے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کوئٹہ‬
‫خان صاحب عبداہللا خان کی سربراہی میں ایک تفتیشی‬
‫ٹیم کے لیے احکامات جاری کردیئے جس نے ‪12‬‬
‫ستمبر ‪ 1948‬؁ء کو اپنی رپورٹ پیش کردی ۔‬
‫یہ رپورٹ پرنس کی سرگرمیوں اور لبریشن فورس کے‬
‫ذریعے تقسیم کیے گئے خطوط اور دستاویزات کے‬
‫متعلق تھی۔ تفشیش کے بعد ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کوئٹہ آر‬
‫۔کے۔ساکر نے ایک خصوصی جرگہ (معتبرین کا‬
‫سرکاری کونسل) تشکیل دیا جس میں مندرجہ ذیل‬
‫اراکین شامل تھے‪:‬‬

‫عیسی خیل‬
‫ٰ‬ ‫‪ 1:-‬خان بہادر صاحبزادہ محمد ایّوب خان‬
‫جو پشین کے ایک پشتون تھے۔‬

‫‪ 2:-‬کے بی باز محمد خان جوگیزئی ‪ ،‬جو لوراالئی‬


‫کے پشتون تھے۔‬

‫‪ 3:-‬عبدالغفار خان اچکزئی ‪ ،‬جو پشین کے پشتون‬


‫تھے۔‬

‫‪ 4:-‬ایس بی وڈیرہ نور محمد خان ‪ ،‬جو قالت کے ایک‬


‫بلوچ سردار تھے۔‬

‫‪ 5:-‬قالت کے سیّد اورنگ شاہ ۔‬


‫‪ 6:-‬شیخ باز گل خان ‪ ،‬جو پشتون(ژوب) تھے۔‬

‫‪ 7:-‬وہاب خان پانیزئی جو سبّی کے پشتون تھے۔ اور‬

‫‪ 8:-‬سردار دودا خان مری ۔ جو سبّی کے ایک بلوچ‬


‫تھے۔‬

‫جرگے کو احکامات جاری کیے گئے کہ وہ اُن حاالت و‬


‫واقعات کا جائزہ لیں جو بغاوت کی وجہ بنے اور اپنی‬
‫سفارشات ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو پیش کریں ۔‪10‬‬
‫نومبر‪ 1948‬؁ء کو جرگے نے ملزمان کے‬
‫سنے اور ‪ 17‬نومبر‪ 1948‬؁ء کو‬ ‫بیانات ُ‬
‫اپنی سفارشات ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے حوالے کردیئے‬
‫جن میں پاکستان حکومت کے صوابدید پر لوراالئی سے‬
‫پرنس کی رہائی کے عالوہ کچھ ُجرمانے شامل تھے‬
‫لیکن ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے جرگے کی رائے سے‬
‫اختالف کرتے ہوئے اپنے ‪ 27‬نومبر کے آرڈر میں‬
‫پرنس کو ‪ 10‬سال قید بامشقّت کی سزا سنائی اور اُن‬
‫پر ‪ 5000‬روپے ُجرمانہ عائد کیا جبکہ اُن کے‬
‫پارٹی کے دوسرے ارکان کو مختلف سزائیں اور‬
‫جرمانے دی گئیں ۔‬
‫اس طرح سے پاکستانی حکومت نے ( بلوچوں کے)‬
‫پہلے قومی جدوجہد(برائے آزادی) کو ُکچل دیا۔‬

‫تجزیاتی کلمات ‪:‬‬


‫اس تحقیق میں بلوچ نیشنلزم کے مختلف پہلوؤں ریاست‬
‫قالت کے زوال کے مختلف وجوہات اور قوم پرستوں‬
‫کے ‪ 1947‬؁ء‪-1948‬‬
‫؁ء میں کیے گئے ایک آزاد وطن کے دفاع کے‬
‫حصول میں ناکامی پر بحث کی گئی ہے۔‬

‫ہم نے مشاہدہ کیا ہے کہ ثقافت اور تاریخ سے بلوچ کاز‬


‫قوت حاصل ہوتی ہے اور نسلی واقفیت اسے‬ ‫کو کافی ّ‬
‫مددفراہم کرتی ہے جبکہ جغرافیہ مثبت اور منفی اثرات‬
‫کی حامل ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سنگالخ‬
‫چٹانوں اور صحرائی خطوں نے تاریخی طور پر اُن‬
‫کے (بلوچوں کے) آزادی کی حفاظت کی تھی ۔ حملہ‬
‫خطے پر قبضہ کرنے میں ناکام رہے لیکن‬ ‫آور بلوچ ّ‬
‫دوسری طرف سخت موسمی حاالت اور پانی کی عدم‬
‫دستیابی بلوچوں کو بطور ایک جاگیردار قوم کے‬
‫اُبھرنے نہ دیا۔اگرچہ قالت کے خانوں ‪ ،‬بلیدیوں اور‬
‫دودائیوں نے ایک جاگیردار قوم بنانے کی کوششیں کیں‬
‫لیکن اس عمل میں اندرونی جھگڑوں اور بیرونی حملوں‬
‫( جیسے کہ ڈیرہ جات پر د ُّرانی کے حملے ) ‪،‬‬
‫برطانیوں کی مداخلت اور پھر بلوچستان پر برطانیہ کے‬
‫بالواسطہ حکمرانی نے مشکالت پیدا کیے ۔ شدید موسم‬
‫اور پانی کی کمی نے بلوچوں کو مجبور کیے رکھا کہ‬
‫یا وہ خانہ بدوشی یا نیم خانہ بدوشی کی زندگی گزاریں‬
‫یا پھر برصغیر ہند‪ ،‬وسطی ایشیاء ‪ ،‬مشرقی افریقہ اور‬
‫وسطی ہجرت کرجائیں ۔‬
‫ٰ‬ ‫عرب مشرق‬

‫بلوچستان پر برطانوی قبضے کا عمل ‪1840‬‬


‫؁ء کے عشرے سے شروع ہوا اور ‪1893‬‬
‫؁ء میں جاکر مکمل ہوا ۔ برطانیہ کیابلوچستان میں‬
‫دلچسپی فوجی اور جغرافیائی و سیاسی وجوہات کی بنا‬
‫مد مقابل توسیع پسندانہ قوتوں روس‪،‬‬‫پر تھی تاکہ وہ ّ‬
‫فرانس اور جرمنی سے اپنے کالونی (ہندوستان ) کی‬
‫حفاظت کرسکے اور وہ بلوچستان کو افغانستان اور‬
‫ایرانی خلیج کے خطوں میں اپنے مفادات کے تحفّظ کے‬
‫لئے استعمال کرسکے ۔ برطانیہ نے بلوچستان کو متعدد‬
‫صے کو‬ ‫صوں میں تقسیم کیا جن میں سے ہر ایک ح ّ‬ ‫ح ّ‬
‫مختلف آئینی اور سیاسی حیثیت دی گئی ۔ ہندوستان کے‬
‫برعکس اُنہوں نے بلوچستان کے معاشی وسائل کا‬
‫نوآبادیاتی طریقے سے استحصال نہیں کیا ۔ مثال اس کے‬
‫باوجود کہ بلوچستان کے پاس ایک وسیع و عریض‬
‫ساحل سمندر موجود تھی ۔ اُنہوں نے کبھی بھی‬
‫بلوچستان کے بندرگاہوں کو برآمداتی سہولیات فراہم‬
‫نہیں کیے۔ اس کے بجائے اُنہوں نے ایک نیا سماجی و‬
‫سیاسی نظام ’’ سنڈیمن یا سرداری نظام‘‘ کے نام سے‬
‫قائم کیا ۔ ‪ 1854‬؁ء میں برطانوی دباؤ سے‬
‫مجبور ہوکر خان قالت نے بلوچستان کی حکومت‬
‫برطانیہ کے ذیلی ریاست کے حیثیت کو تسلیم کر‬
‫لیا۔‪ 1876‬؁ء حکومت برطانیہ نے خان کو بے‬
‫بس کردیا اور ان پر دباؤ ڈاال کہ وہ اپنے دوسرے‬
‫سرداروں کے ساتھ اختالفات اور اندرونی چپقلشوں میں‬
‫برطانیہ کو ثالث مان لیں اس نئی پالیسی کی وجہ سے‬
‫قبائلی صوبوں میں خان کو اپنے جاگیردارانہ اختیارات‬
‫سے دستبردار ہونا پڑا ساتھ ہی لیز پر دیئے گئے خطوں‬
‫(‪ )Leased land‬میں بھی اُن کی گرفت‬
‫ختم ہو کر رہ گئی ‪ 1876‬؁ء کے اس معاہدے‬
‫نے بلوچ معاشرے میں نئے سیاسی قوتوں کو جنم دیا۔‬
‫خان کا زوال اور سرداروں کی طاقت میں اضافہ ہوا‬
‫۔سنڈیمن نظام کے تحت قبائلی عالقوں کو مکمل‬
‫خودمختاری دی گئی ۔سردار کی حیثیت کو ایک‬
‫جاگیردار امیر کی صورت میں تحلیل کیا گیا اور‬
‫قبائلیوں کو رعایا قرار دیا گیا۔سرداروں نے برطانیہ کے‬
‫اختیار کو تسلیم کرلیا ۔ اس نئے نظام کی وجہ سے‬
‫بلوچوں کے اس جمہوری روایت کا خاتمہ ہوگیا جس‬
‫کے ذریعے بلوچ ایک منتخب ’’ مجلس‘‘ یا ’’جرگہ‘‘‬
‫کے ذریعے اپنے جھگڑے حل کرلیتے تھے۔ اس کے‬
‫مقابلے میں موروثی سرداروں پر مشتمل ایک نیا جرگہ‬
‫سسٹم ’’سرداری یا شاہی جرگہ ‘‘ کہ نام سے قائم کیا گیا‬
‫جسے بلوچ عوام کے جان و مال پر وسیع ترین‬
‫اختیارات دیئے گئے ۔ نئے نظام کے تحت امن و امان‬
‫کی ذ ّمہ داری قبائلی سرداروں کے ذ ّمے سونپی گئی‬
‫۔اس نظام نے برطانیوں کو قوم پرستانہ ُرجحانات کو‬
‫کچلنے میں مدد فراہم کیا۔ حقیقت میں سنڈیمن نظام کے‬
‫تحت سرداروں کی ان کے اپنے قبیلے کے اندر کے‬
‫اختیارات میں اضافہ کیا گیا تھا۔اُنہیں ایسے رقومات‬
‫اورمالی و قانونی اختیارات تفویض کئے گئے جو‬
‫‪ 1876‬؁ء سے پہلے کبھی بھی اُن کے پاس‬
‫نہیں تھے۔بس یہاں سے بلوچ عوام اور سرداروں کے‬
‫درمیان بلوچ معاشرے میں ایک واضح طبقاتی اختالف‬
‫کاآغازہوا ۔نئے نظام کے تحت بلوچ معاشرے میں‬
‫قبائلیوں اور سرداروں کے درمیان تضاد شروع ہوا۔اس‬
‫صورتحال میں سرداروں سے مقابلہ مشکل ہوگیا‪،‬‬
‫کیونکہ انہیں برطانیہ کی امداد و پشت پناہی حاصل تھی‬
‫۔ بلوچ عوام نے ایک سامراج مخالف جدوجہد کا آغاز‬
‫کیا لیکن ان کوششوں کو سرداروں نے برطانوی تعاون‬
‫سے شکست دیدی۔ سرداروں اور ان کے سرپرست کے‬
‫خالف لڑنے کا واحد طریقہ بلوچ عوام کو ایک ایسی‬
‫سیاسی جھنڈے تلے منظم کرنا تھا جس کی بنیاد ایک‬
‫ترقی پسندانہ سوچ رکھنے والی قوم پرست تحریک ہو۔‬
‫اس حقیقت کا ادراک قوم پرستوں کو ‪1929‬‬
‫؁ء میں ہوا جب انہوں نے اپنے سیاسی پروگرام کا‬
‫آغاز کیا ۔ وہ جانتے تھے اُنہیں سردار اور برطانیہ‬
‫دونوں کے خالف لڑنا ہوگا جو ایک آسان کام ہرگز نہیں‬
‫تھا۔اپنی اس جدوجہد میں انہوں نے خان سے مدد حاصل‬
‫کرنے کی کوشش کی (جس کے اختیارات برطانیہ نے‬
‫سرداروں کے تعاون سے پہلے ہی ختم کردیئے تھے )‬
‫یوسف عزیز مگسی نے تعلیمی اصالحات کے لئے‬
‫برطانیہ سے بھی امداد حاصل کرنے کی کوشش کی‬
‫لیکن یہ کوششیں برطانیہ اور سرداروں کی مخالفت سے‬
‫ناکام ہوئیں اور ‪ 1939‬؁ء میں اس خوف سے‬
‫کہ کئی سردار برطانیہ سے اتحاد نہ بنالیں ‪ ،‬خان نے‬
‫قوم پرستوں سے اپنے تعاون کو واپس لے لیا۔‬

‫قومی تحریک کے ناکامی کی سب سے بڑی وجہ قومی‬


‫تعمیر کے لئے ایک ترقی پسند سماجی بنیاد کی ناپیدی‬
‫تھی۔سردار جدید اداروں اور اصالحات کی مخالفت‬
‫کرتے تھے ۔ ‪ 1929‬؁ء سے‬
‫لیکر‪ 1948‬؁ء تک کوئی صنعتیں ‪ ،‬کالج یا‬
‫یونیورسٹی قائم نہیں کی گئی تھی اور مملکت محض‬
‫قبائلی امراء مظلوم خانہ بدوشوں اور کسانوں پر ہی‬
‫مشتمل تھی ۔قوم پرست رہنما جو اکثر نچلے درمیانے‬
‫طبقے کا پس منظر رکھتے تھے‪ ،‬سرداروں کے‬
‫مضبوط گرفت اور برطانیہ کے مخالفت کی وجہ سے‬
‫بلوچ عوام کو قبائلی عالقوں میں حرکت میں النے کی‬
‫پوزیشن میں نہیں تھے اور سرداروں کو کمزور کرنے‬
‫کے لئے انہوں نے بلوچستان سے باہر مدد حاصل‬
‫کرنے کے لئے دیکھنا شروع کردیا ۔ اس سلسلے میں‬
‫انہوں نے آل انڈیا کانگریس سے اتحاد بھی کرلیا جبکہ‬
‫مسلم لیگ نے خان اور سرداروں کے ساتھ اپنے‬
‫اشتراک کی وجہ سے اتحاد سے انکار کردیا‬
‫۔‪ 1947‬؁ء میں برطانیہ کے اقتدارکے خاتمے‬
‫کی وجہ سے قوم پرستوں کو بلوچستان کی سیاست میں‬
‫ایک نئے صورتحال کا سامنا ہوا ۔ سرداروں کو ایک‬
‫اور آقاکی تالش تھی جس کے لئے انہوں نے مسلم لیگ‬
‫سے اتحاد کرلیا ۔ اسکے بدلے میں جناح نے ان کے‬
‫مفادات کا خیال رکھنے کا وعدہ کرلیا۔ یہ قبائلی امراء‬
‫خان قالت کے ساتھ اتحاد کرنے سے قاصر رہے جو‬
‫قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کو تحفظ فراہم کرنے کے‬
‫بجائے جدید اداروں کو متعارف کرانا چاہتے تھے۔‬
‫‪ 1948‬؁ء میں خان قالت سرداروں کے‬
‫خالف بلوچ قوم پرستوں کی حمایت حاصل کرنے اور‬
‫بلوچستان کی آزادی کے لئے ایک طاقتور معاون تالش‬
‫کرنے میں ناکام ہوئے ۔ اگر ان کا رابطہ سوویت یونین‬
‫سے ہوجاتا تو ممکن تھا بحیرہ عرب میں سمندری‬
‫سہولیات فراہم کرنے کے بدلے وہ ایک ڈیل کے ذریعے‬
‫روسی امداد حاصل کرلیتے ۔‪ 1948‬؁ء کے‬
‫پرنس آغا عبدالکریم کی قیادت میں پہلی بلوچ بغاوت‬
‫کے رہنما برطانوی سامراج ‪،‬پاکستان اور سرداروں کے‬
‫مابین اتحاد کے چیلنج کا مقابلہ نہیں کرسکے۔ بلوچ قوم‬
‫پرستوں کی ‪ 1920‬؁ء تا ‪ 1948‬؁ء‬
‫کے دورانیے پر مشتمل بلوچ نیشنلزم کی ناکامی کی‬
‫وجہ سے سرداری نظام مضبوط ہوا اور جدید سماجی‬
‫بنیادیں استوار نہیں کی جاسکیں اور آخر میں جاکر خان‬
‫کے آزادی کے لئے ایک مضبوط حامی حاصل کرنے‬
‫میں ناکامی کا بھی سبب بنا جو کہ انہیں سرمایہ دارانہ‬
‫نظام کے اُس مرحلے سے بچ نکلنے میں مدد فراہم کر‬
‫تا اور قبائلی معاشرے کو ایک جدید قومی ریاست‬
‫میں ڈھال دیتا۔‬

‫تاہم بلوچ نیشنلزم کے اثرات بلوچستان پر پڑے اور اس‬


‫سے آگاہی اور سیاسی شعور میں اضافہ ہوا۔ اس کے‬
‫اثرات آج کے بلوچ سیاست میں نظر آتے ہیں ۔‬
‫دی بلوچستان پوسٹ‪ :‬اس مضمون میں پیش کیئے گئے‬
‫خیاالت اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں‪ ،‬ضروری نہیں‬
‫ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ‬
‫خیاالت ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔‬

You might also like