Professional Documents
Culture Documents
جب انگریزوں نے اورنگ زیب عالمگیر کو للکارا
جب انگریزوں نے اورنگ زیب عالمگیر کو للکارا
7ستمبر 2018
ویسے تو ایسٹ انڈیا کمپنی 1603میں ہندوستان آمد کے بعد مسلسل فتوحات حاصل کرتی چلی گئی
اور اس دوران دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک کمپنی نے ایک ملک پر قبضہ کر لیا۔
لیکن اسی سفر کے دوران ایک موڑ پر انھیں ایسی شرمناک شکست ہوئی تھی جس نے کمپنی کا
وجود ہی خطرے میں ڈال دیا تھا۔
بعد میں کمپنی نے اپنے ماتھے سے یہ داغ دھونے کی سرتوڑ کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ بہت کم
لوگ جانتے ہیں کہ سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان پر فتح حاصل کرنے سے پہلے ایسٹ انڈیا کمپنی
نے اورنگ زیب عالمگیر سے بھی جنگ لڑنے کی کوشش کی تھی لیکن اس میں بری شکست
کھانے کے بعد انگریز سفیروں کو ہاتھ باندھ کر اور دربار کے فرش پر لیٹ کر مغل شہنشاہ سے
معافی مانگنے پھر مجبور ہونا پڑا تھا۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ انگریزوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے قیام کے بعد ہندوستان کے مختلف
عالقوں میں اپنی تجارتی کوٹھیاں قائم کر کے تجارت شروع کر دی تھی۔ ان عالقوں میں ہندوستان
کے مغربی ساحل پر واقع سورت اور بمبئی ،اور مشرق میں مدراس اور موجودہ کلکتہ شہر سے
20میل دور دریائے گنگا پر واقع بندرگاہیں ہگلی اور قاسم بازار اہم تھے۔
انگریز ہندوستان سے ریشم ،گڑ کا شیرہ ،کپڑا اور معدنیات لے جاتے تھے۔ خاص طور پر ڈھاکے
کی ململ اور بہار کے قلمی شورے (جو باردو بنانے میں استعمال ہوتا ہے) کی انگلستان میں بڑی
مانگ تھی۔
انگریزوں کے ساماِن تجارت پر ٹیکس عائد نہیں کیا جاتا تھا بلکہ ان کے کل سامان کی قیمت کا
ساڑھے تین فیصد وصول کر لیا جاتا تھا۔
،تصویر کا ذریعہSAMUEL SCOTT
،تصویر کا کیپشن
بمبئی کے ساحل پر جہازوں کی آمد و رفت۔ 1731کا منظر
مغلوں کی تجارتی پالیسی پر تنازع
اسی زمانے میں صرف انگریز نہیں ،بلکہ پرتگیزی اور ولندیزی تاجروں کے عالوہ کئی آزاد تاجر
بھی اسی عالقے میں سرگرم تھے۔ انھوں نے مغل حکام سے مل کر اپنے لیے وہی تجارتی حقوق
حاصل کر لیے جو انگریزوں کے پاس تھے۔
جب یہ خبر لندن میں کمپنی کے صدر دفتر پہنچی تو ایسٹ انڈیا کمپنی کے سربراہ جوزایا چائلڈ کے
غیظ و غضب کی انتہا نہ رہی۔ انھیں یہ گوارا نہیں تھا کہ ان کے منافعے میں کوئی اور بھی حصہ
دار بنے۔
اس موقعے پر جوزایا چائڈ نے جو فیصلہ کیا وہ عجیب ہی نہیں ،غریب ہی نہیں بلکہ پاگل پن کی
حدوں کو چھوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ انھوں نے ہندوستان میں مقیم کمپنی کے حکام سے کہا کہ وہ
بحیرۂ عرب اور خلیِج بنگال میں مغل بحری جہازوں کا راستہ کاٹ دیں ،اور جو جہاز ان کے ہتھے
چڑھے ،اسے لوٹ لیں۔
یہی نہیں بلکہ 1686میں چائلڈ نے انگلستان سے سپاہیوں کی دو پلٹنیں بھی ہندوستان بھجوا دیں اور
انھیں ہدایات دیں کہ ہندوستان میں مقیم انگریز فوجیوں کے ساتھ مل کر چٹاگانگ پر قبضہ کر لیں۔
جنِگ چائلڈ
مواد پر جائیں
پوڈکاسٹ
ڈرامہ کوئین
’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا
قسطیں
مواد پر جائیں
ان کے نام کی مناسبت سے اس جنگ کو ’جنِگ چائلڈ‘ بھی کہا جاتا ہے۔
اب اسے چائلڈ کا بچگانہ پن کہیں یا پھر اس کی دیدہ دلیری ،کہ وہ مبلغ 308سپاہیوں کی مدد سے
دنیا کی سب سے طاقتور اور مالدار سلطنت کے خالف جنگ چھیڑنے کی ہمت کر رہا ہے۔
اس زمانے میں ہندوستان پر اورنگ زیب عالمگیر کی حکومت تھی اور دنیا کی کل جی ڈی پی کا
ایک چوتھائی حصہ یہیں پیدا ہوتا تھا۔ معاشی طور پر اسے تقریبًا وہی مقام حاصل تھا جو آج امریکہ
کو ہے۔
اورنگ زیب کے عہد میں سلطنت کی سرحدیں کابل سے ڈھاکہ تک اور کشمیر سے پانڈی چری تک
40الکھ مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلی ہوئی تھیں۔ یہی نہیں ،اورنگ زیب کی فوجیں دکن کے
سلطانوں ،افغانوں اور مرہٹوں سے لڑ لڑ کے اس قدر تجربہ کار ہو چکی تھیں وہ اس وقت دنیا کی
کسی بھی فوج سے ٹکرا سکتی تھیں۔
دہلی کی فوج تو ایک طرف رہی ،صرف بنگال کے صوبہ دار شائستہ خان کے فوجیوں کی تعداد
40ہزار سے زیادہ تھی۔ ایک اندازے کے مطابق مغل فوج کی کل تعداد نو الکھ سے بھی زیادہ تھی
اور اس میں ہندوستانی ،عرب ،افغان ،ایرانی ،حتٰی کہ یورپی تک شامل تھے۔
جب لندن سے مغلوں کے خالف طبِل جنگ بجا تو بمبئی میں تعینات کمپنی کے سپاہیوں نے مغلوں
کے چند جہاز لوٹ لیے۔
اس کے جواب میں سیاہ فام مغل امیر البحر سیدی یاقوت نے ایک طاقتور بحری بیڑے کی مدد سے
بمبئی کا محاصرہ کر لیا۔
آنکھوں دیکھا احوال
اس موقعے پر الیگزینڈر ہیملٹن نامی ایک انگریز بمبئی میں موجود تھے جنھوں نے بعد میں ایک
کتاب لکھ کر اس واقعے کا واحد آنکھوں دیکھا حال قلم بند کیا۔
وہ لکھتے ہیں' :سیدی 20ہزار سپاہی لے کر پہنچ گیا اور آتے ہی آدھی رات کو ایک بڑی توپ سے
گولے داغ کر سالمی دی۔ انگریزوں نے بھاگ کر قلعے میں پناہ لی۔ افراتفری کے عالم میں گوری
اور کالی عورتیں ،آدھے کپڑے نیم برہنہ پہنے ہوئے ،صرف بچے اٹھائے ہوئے بھاگی چلی جا رہی
تھیں۔'
،تصویر کا ذریعہROYAL MUSEUMS GREENWICH
،تصویر کا کیپشن
بمبئی میں انگریزوں کا قلعہ 1672 ،کی تصویر
ہیملٹن کے مطابق سیدی یاقوت نے قلعے سے باہر کمپنی کے عالقے لوٹ کر وہاں مغلیہ جھنڈا گاڑ
دیا ،اور جو سپاہی جو سپاہی مقابلے کے لیے گئے انھیں کاٹ ڈاال ،اور باقیوں کو گلے میں زنجیریں
پہنا کر بمبئی کی گلیوں سے گزارا گیا۔'
بمبئی کا عالقہ خاصے عرصے سے پرتگیزیوں کے قبضے میں تھا۔ جب انگلستان کے بادشاہ نے
پرتگالی شہزادی سے شادی کی تو یہ بندرگاہ اس کے جہیز میں انگریزوں کو مل گئی اور انھوں نے
وہاں ایک مضبوط قلعہ تعمیر کر کے تجارت شروع کر دی۔
14ماہ طویل محاصرہ
رفتہ رفتہ نہ صرف سمندر پار سے انگریز تاجر ،سپاہی ،پادری ،معمار اور دوسرے ہنرمند یہاں آ
کر آباد ہونے لگے ،بلکہ ہہت سے ہندوستانیوں نے بھی یہاں رہائش اختیار کر لی اور شہر کی آبادی
تیزی سے پھیلنے لگی۔
اب یہی آبادی بھاگ کر قلعے میں پناہ گزین تھی اور قلعہ سیدی یاقوت کے نرغے میں تھا۔ جلد ہی
اشیائے خورد و نوش ایک ایک کر کے ختم ہونے لگیں۔ دوسری طرف بیماریوں نے ہلہ بول دیا اور
قلعے میں محصور انگریز بمبئی کے مسموم موسم کا شکار ہو کر یکے بعد دیگرے مرنے لگے۔
ایک اور سانحہ یہ گزرا کہ کمپنی کے مالزم آنکھ بچا کر بھاگ نکلتے تھے اور سیدھے جا کر
سیدی یاقوت سے جا ملتے تھے۔ یہی نہیں ،بلکہ ہیملٹن کی گواہی کے مطابق ان میں سے کئی مذہب
تبدیل کر کے مسلمان بھی ہو گئے۔
سیدی اگر چاہتے تو حملہ کر کے قلعے پر قبضہ کر سکتے تھے ،لیکن انھیں امید تھی کہ جلد ہی
قلعہ پکے ہوئے آم کی طرح خود ہی ان کی جھولی میں آ گرے گا ،اس لیے انھوں نے دور سے گولہ
باری ہی پر اکتفا کی۔
یہ صورِت حال ملک کے مشرقی حصے میں بھی پیش آئی جہاں بنگال کے صوبے دار شائستہ خان
کے دستوں نے ہگلی کے مقام پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے قلعے کو گھیرے میں لے لیا اور آمد و رفت
کے تمام راستے مسدود کر دیے۔
بنگال کا محاصرہ تو جلد ہی ختم ہو گیا اور دونوں فریقوں نے صلح کر لی ،لیکن بمبئی میں یہ سلسلہ
15ماہ تک دراز ہو گیا۔ آخر انگریزوں کی ہمت جواب دے گئی اور انھوں نے اپنے دو سفیر اورنگ
زیب کے دربار میں بھجوا دیے تاکہ وہ شکست کی شرائط طے کر سکیں۔
مغل دربار میں حاضری