Professional Documents
Culture Documents
اقبال کی شعری کائنات میں عورت کا مقام از روح فضا قادری
اقبال کی شعری کائنات میں عورت کا مقام از روح فضا قادری
in
Journal of Current Science & Humanities
1 (1 ), 2013, 1-4.
Impact Factor-2.05
اقبال کی شعری کائنات میں دھنک کے رنگوں کی طرح موضوعات ہیں۔ مذہبی رنگ اگر چہ غالب ہیں مگر زندگی کا وہ کون سا ؔ
اقبال نے جہاں فکر و
ؔ اقبال نے طبع آزمائی نہ کی ہو۔ان کی نظر ہر شعبئہ زندگی پر رہی ہے۔
ؔ شعبہ نہیں ہے جس پر
فلسفہ،اسالم،مسلمان،تعلیم و تربیت،سیاست،معشیت،ادبیات،فنون لطیفہ کو اپنی تخیل کی کائنات میں پرویا ہے۔تخیل کے اس سرمائے
میں ان کے یہاں عورت کے تصور اور اسالمی معاشرے میں اس کے مقام و مرتبے کے ضمن میں بھی ہاں ان کے یہاں موثر
اشارات ملتے ہیں۔
شعراقبال میں عورت کا تصور اگران کے دیگر نظریات کے مقابلے میں قدرے ادھورا اور بکھرا ہوا دکھائی دیتا ہے تاہم ”
ؔ فکر
اگر عالمہ کے پیش کردہ تمام تر شعری و نثری اشارات ونکات کو مرتب صورت میں یکجا کیا جائے تو ایک مکمل تصویر
بنتی ہے اور اس عقدہئ مشکل کی کشود نظر آتی ہیں۔۔۔ایک ایسی تصویر جس میں عورت سے وابستہ تمام تر رومانی و
جمالیاتی،عقلی و استداللی اور سماجی و تہذیبی پہلو نے بڑی خوب صورتی سے رنگ بھرے ہیں“
؎ ۱اقبال ،وجود زن اور تصویر کائنات ،ڈاکٹر بصیرہ عنبرین،ص۱۲ ،
اقبالنے اپنی شاعری میں عورت کو بحیثیت ایک ایک بہادر پیکر کے طور پر استعمال کیا ہے۔ان کے یہاں عورت صنف نازک ؔ
نہیں بلکہ ایک بہادر تصویر ہر پڑھنے والے کی آنکھوں کے سامنے پھیر جاتی ہیں۔ ان کے یہاں عورت چار دیواری میں خاموش
نہیں بلکہ جنگ کے میدان میں لڑ اور لڑنے والوں کی ہمت اور مدد کر سکتی ہے۔انہوں نے فاطمہ بنت عبدہللا کی بہادری کی
مثال جب وہ پہلی جنگ میں غازیوں کو پانی پال پال کر شہید ہو جاتی ہیں۔انہوں نے فاطمہ کی بہادری کو شعری جامعہ کچھ اس
طرح پہنایا ہے۔ان کو امت کی آبرو کہتا ہے۔
اقبال اس شعریت سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اقبال عورت کو نہایت عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ان اشعار میں وہ ایک عورت کو
ؔ
بہادر کی حیثیت دیکھتا اور پیش کرتا ہے۔
اقبال اپنی شاعری کے آئینے میں ”حسن و عشق“ اور عورت کے عکس کو حاصل زیست قرار دیتے ہوئے خالصتا ً ایک رومانی
شاعر کے لب ولہجے میں اس انداز میں گویا ہوتے ہیں۔
ان کے یہاں شاعری میں عورت کی تعلیم پرحاصل کرنے پر فوکس ملتا ہے۔ وہ بھی ایک عورت کو تعلیم یافتہ دیکھنا چاہتا ہے
کیوں کہ ایک عورت سے ایک فرد نہیں بلکہ پورا کنبہ ہی تعلیم یافتہ بن سکتا ہے۔”عورت اور تعلیم“ کے عنوان سے یہ نظم کے
:کچھ اشعار مالحظہ کیجیے
ان کے یہاں مغرب کی تہذیب و ثقافت کے خالف احتجاج ملتا ہے۔اس لیے وہ علم سے ایک عورت کو تہذیب یافتہ اور اسالمی
حدود میں دیکھنا چاہتا ہے۔
اقبال کی شاعری میں عورت کے رومانی و جمالیاتی تصور کی نمود دیکھی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اقبال آغاز شاعری ہی
ؔ
عورت کے ظاہری حسن و باطنی حسن پر تفکر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔اس سلسلے میں ان کا بانگ درا کے دور اول کا غیر
مطبوعہ متروکہ کالم ثبوت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔جہاں وہ متفرق مقامات پر تو اس حوالے سے غورر و خوض کرتے
ہی ہیں لیکن ایک نظم ”عورت “ میں فطرت کے مختلف مظاہر کے اشتراک سے اس کے وجود کی تخلیق کی طرف
خصوصیت کے ساتھ رومانی اشارات بہم پہنچاتے ہیں
اقبال،وجود زن اور تصویر کائنات ،ڈاکٹر بصیرہ عنبرین ،ص۴۲ ، ۔“ ؎۲
Available online at www.jcsonline.in
Journal of Current Science & Humanities
1 (1 ), 2013, 1-4.
Impact Factor-2.05
رموز بے خودی کے مطالعے سے ایسا لگتا ہے کہ عالمہ اقبال ؔایک بد وضع،ان پڑھ،جاہل اور گنوار عورت کو جدید تعلیم یافتہ
:عورت پر فوقیت دیتا ہے جو تمام تر صالحتیں ہونے کے باوجود بچوں کے پرورش سے گریزاں ہیں۔لکھتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حاالں کہ اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ ساری باتیں بعد میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل بھی ہوئی۔پھر عورتوں نے عصری تعلیم
حاصل کر کے زمہ داریاں نبھانے کے ساتھ ساتھ بچوں کی تربیت اور پرورش بھی اچھے سے کی اور کر رہے ہیں۔
فکر اقبالیات میں جہاں عورت کے فرائض کی بات ہوئی وہی ان کے کالم میں حقوق نسواں کی فکر بھی بکھری ہوئی ہیں۔ان کی
نثری و شعری تخیلقات میں بڑے نادر خیاالت کا اظہار ملتا ہے۔جس سے نسوانی حقوق کی طرف اشارات ملتے ہیں۔
اقبال عورت کو اسالمی طریقہ سے دیکھنا چاہتا ہے اس لیے عورت کے پردے کے بارے میں اسالم کی رہنمائی سے سہارا لیتا ؔ
اقبال زندگی کے ہر میدان میں کارہائے انجام دینے والے مشاہیر اس کی گود میں پروان چڑھتے ہیں اور دنیا کا کوئی
ؔ ہے۔بقول
انسان نہیں جو اس کا ممنون احساس نہ ہو۔
اقبال کی شعریات میں آزادی نسواں کے مغربی تصور کو رد کیا گیا ہے۔ان کے خیال میں اس سے عورتیں آزاد نہیں بلکہ غالم بن
ؔ
جائیں گے۔ اس کے لیے وہ مغربی معاشرے کو مثال کے طور سامنے رکھتا ہیں کہ کس طرح مغربی معاشرے بکھرے ہوئے ہیں۔
:کیوں کہ اس سے مرد و زن کا رشتہ کٹ کر رہتا ہے
کالم اقبال میں مثالی نسائی کرداروں کی پیش کش میں خود والدہ اقبال کا کردار خواتین کے عمدہ نمونہ پیش کرتا ہے۔ بہ ظاہر
”:والدہ مرحومہ کی یاد میں“ ایک مرثیہ ہے
اقبال نے اپنی تخیل کی دنیا میں عورت اور اس کے حقوق اور فرائض کو اسالمی نقطہء نظر سے دیکھا اور پرکھا ہے۔
ؔ عالمہ
انہوں نے اپنی شاعری کی دنیا میں نسائی حیثیت کو خوب صورت انداز میں پیش کیا ہے۔انہوں نے مغربی فلسفہ آزادی نسواں سے
کنارہ کشی اختیار کر کے عورت کو اسالمی حقوق اور فرائض کی بات کہی ہے۔ عورت کی تعلیم و تربیت اور عورت کو جہالت
کے اندھیروں سے نکالنا ان کی شاعری میں جگہ جگہ پر اشارات ملتے ہیں۔عورت کے وجود کی تعریف ان کی شاعری میں
:نمایاں ہے۔اسی لیے وہ کہتے ہیں